RSS

خدا ، مناظرہ اور گھمنڈ۔

09 جون

خدا ، مناظرہ   اور  گھمنڈ۔

جیسے کہ آجکل انٹرنیٹ پہ ایک صاحب کچھ موضوعات پہ بڑے دھڑلے اور سرعت سے اپنے تئیں عالم فاضل سمجھتے ہوئے اسلام، قرآن کریم ، نبوت، احادیث  یعنی جن امور پہ روئے زمین کے مسلمان اتفاق کرتے ہیں اور دنیا بھر کے مسلمان ان امور پہ طنز یا  لایعنی بحث  کو اپنے عقائد،  پہ اپنے دین پہ  حملہ تصور کرتے ہیں۔ اس پہ ہاتھ صاف کئیے جارہے ہیں۔اورہر اگلی پوسٹ پہ قلابازی کھاتے ہوئے ایک نیا شوشہ  چھور کر سمجھتے ہیں کہ اپنے تئیں اپنی فہم فراست کے سامنے سب کو کوتاہ قامت قرار دے ڈالا ہے۔ سبحان اللہ ۔جبکہ کہ ایسی عقل پہ سبھی خندہ زن ہیں۔

 ایک بات نوٹ کی گئی ہے۔ کہ پاکستان کے نام نہاد روشن خیالوں کو اور اپنے آپ کو "کچھ” سمجھنے والوں کو درحقیقت یہ وہم سا ہوجاتا ہے کہ جی بس!اب ہم ہیں ناں۔ کوئی نکتہ ملے سہی معقولیت کی بات کرنے والوں کی ایسی تیسی کردیں گے۔

دوسرا مسئلہ ان کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ اسی زعم میں یہ کسی کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہوتے۔ اور یہ دونوں طبقے یعنی نام نہاد روش روشن خیال اور "میں کے مارے ہوئے نام نہاد عالم فاضل” دونوں میں ایک شئے مشترک ہے کہ دونوں حد سے زیادہ خود پسند ، جعلی تفاخرکا شکاراور اپنے آپ کو توپ قسم کی چیز سمجھتے ہیں۔ اورایک دوسرے کو مکھن لگاتے ہیں۔ پالش کرتے ہیں اورایسے مضحکہ خیز دلائل دیتے ہیں کہ بقول شخصے "ہاسہ” نکل آتا ہے۔ دوسروں کو اپنے زعم میں وہاں چوٹ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں اسے تکلیف زیادہ سے زیادہ ہو۔ مثلا ۔ اسلام۔ نظریہ پاکستان۔ پاکستان۔ اسلام پسندی۔ معقولیت پسندی۔  وغیرہ

ایسی حرکات پہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑا معرکہ مارا ہے۔ دراصل یہ ایک طرح کے  احساس کمتری کی ایک شکل ہے۔ جس کا آغاز شروع میں دوسروں پہ اپنی نام نہاد علمیت کا رعب ڈالنے سے، اور  دھاک بٹھانے کی لایعنی کوشش سے شروع ہوتا ہے اوررفتہ رفتہ یہ مرض بڑھتا چلا جاتا ہے۔اوربالا آخر مریض اسی گمان میں دین و دنیا حتٰی کے اپنے رفقاء تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ لیکن نہیں جانتے عین اسوقت جب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کا۔ پاکستانیوں کا۔ پاکستان کا۔اسلام کا۔ استہزاء اڑا نے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان بے چاروں کو پتہ نہیں ہوتا کہ عین اسوقت ان کی ان حرکات کی وجہ سے انکا اپنا مذاق اڑایا جارہا ہوتاہے۔ اور خدا جانتا ہے کہ کتنی بار انکا استہزاء اڑایا جائے گا۔

جس طرح کسی کھیل کے کچھ اصولوں پہ کھیل شروع کرنے سے پہلے اتفاق کرنا ضروری ہے اسی طرح مباحثے اورمناظرے کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ فریقین واضح طور پہ آگاہ کریں کہ وہ بنیادی اصولوں کو مانتے ہوئے اپنے دلائل میں آگے بڑھیں گے۔ یعنی جس موضوع پہ مباحثہ کرنا مقصود ہے اس  پہ ہردونوں فریقوں کو اپنا نقطعہ نظرواضح  کرنا لازمی ہوتا ہے کہ کہ کونسا فریق موضوع کے حق میں یا مخالفت میں اپنے دلائل دے گا۔ اور فریق مخالف انہیں رد کرتے ہوئے اپنے موقف کی حمایت میں دلائل دے گا۔ مثلا اگر ایک فریق خدا پہ یقین رکھتا  ہے تو وہ خدا کے وجود پہ دلائل دے گا اور اگر دوسرا فریق اگرخدا پہ یقین نہیں رکھتا  تو وہ خدا کےعدم وجود پہ اپنے دلائل دے گا یوں خدا کے وجود یا عدم وجود سے متعلق موضوع آگے بڑھے گا۔ لی جئیے اس موضوع پہ مناظرے و مباحثے کے بنیادی اصولوں میں سے ایک لازمی اصول طے ہوگیا ہے۔

اب یہ نہیں ہو سکتا  کہ  ان اصولوں کو جسے تسلیم کرتے ہوئے ایک فریق تو ہر اصول کا پابند ہو کر نہائت سلجھے طریقے سے دلائل دیتے ہوئے ہر ممکنہ سنجیدگی سے خدا کے وجود پہ دلائل دیتے ہوئے اس موضوع پہ آگے بڑھے جبکہ فریق مخالف انکے دلائل کے جواب میں غیر سنجیدگی سے انکا ٹھٹھ اڑا دے۔ اور جب کہ وہ خود جس نے خدا کے وجود پہ بحث کی دعوت دی ہو وہ خدا کے منکر ہونے سے انکار کرتے ہوئے  حضرت عیسٰی ابن مریم علیہ والسلام پہ بحث شروع کردے۔ وہاں سے  سے اگلی جست میں کمپیوٹر تیکنالوجی پہ اترانے لگے۔ اورمصرہو کہ اس کے موقف کو درست تسلیم کرلیا جائے۔

یہ یونہی ہے کہ کوئی ہاکی کھیلنے کی خواہش رکھنے والا جب وہ یہ محسوس کرے کہ کھیل پہ اسکی گرفت کمزور ہورہی ہے اوروہ ہار جائے گا تو ہاکی  کی اسٹک کو ایک طرف پھینک کر گیند کو پاؤں سے  کھیلنا شروع کردے ۔ اعتراض کریں تو وہ فٹ بال کے اصولوں پہ بحث شروع کردے۔ اوراگلی قلابازی میں اسی اصول کے تحت ہاکی کے میدان میں ہاکی کی اسٹک سے کرکٹ کھیلنے پہ اصرار  کرے۔ جب اتنی تیزی سے یکطرفہ طورپہ ضوابط تبدیل کئیے جائیں گے تواسے کھیل نہیں بے ہودگی تصور کیا جائے گا۔

اس لئیے اس طرح کے کسی معقول اورسنجیدہ مناظرے کے لئیے ۔ جب آپ ایک بحث چھیڑتے ہیں تو آپ پہ لازم ہے کہ پہلے آپ اپنا کردارواضح کریں۔ اگرموضوع ادیان یا مذاہب سے متعلق ہے تو آیا آپ مسلمان۔ عیسائی۔ کافر۔ دہریہ۔ میں سے کس سے تعلق رکھتے ہیں؟۔ آپکا واضح موقف کیا ہے؟۔ تانکہ آپکی بات سمجھنے میں آسانی ہواورآپ کو کوئی دلیل دی جاسکے۔ مثال کے طورپہ اگردہریہ ہیں تو دہریت کی بنیادوں پہ خدا کے وجود کے سے انکار کر رہے ہیں تو ایسا ہونے سے فریق اؤل یعنی خدا پہ یقین رکھنے والے آپکی سرے سے خدا کو تسلیم ہی نہ کرنے کو جانتے ہوئے اس نظر سے آپ کو خدا کے وجود پہ دلیل دیں گے۔ اوراگرآپ ہر دفعہ قلابازی کھاتے ہوئے۔ کبھی خدا کے وجود پہ دلیل دیں گے اور کبھی خدا کے عدم وجود پہ ۔ کبھی مادے اورعقل کو خدا بیان کریں گے ۔ اور کبھی  کسی کمپیوٹر یا سرچ انجن کا کلمہ پڑھنے لگیں ۔ تو آپ کا مقصد سنجیدہ بحث نہیں بلکہ اپنی دانست میں خدا پہ یقین رکھنے والوں کا  استہزاء اڑانا ہے۔ اپنی نام نہاد علمیت کی دوسروں پہ دھاک بٹھانے کی بچگانہ خواہش ہے۔ اپنے نفس کی تسکین مقصود ہے۔ واہ واہ کے ڈونگروں سے غرض ہے۔ ایک جو انتہائی افسوس ناک بات ہے۔اسے آپکے فہم و فراست پہ نہیں بلکہ آپکی کم علمی اورغیر سنجیدگی پہ محمول کیا جائے گا۔اور خدا الگ سے ناراض ہوگا۔

اسلئیے یہ طریقہ درست نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ والسلام کے موضوع پہ بات ہو رہی ہو تو اگلی جست میں خدا کے وجود پہ قلابازی کھا گئے۔  خدا کے وجود کو ثابت کرنے کی بات شروع ہوئی تو کسی سرچ انجن کا کلمہ پڑھنا شروع ہوگئے۔ اب پھر قلابازی کھائی اور اسے ایک جوک  قرار دیتے ہوئے۔ قرآن کریم پہ چڑھائی کر دی۔ نہ کسی اصول کو بنیاد بنایا نہ کسی زمین پہ اتفاق کرتے ہوئے بحث کو اگے بڑہایا۔

یہ محض کم علمی اور حد سے بڑھے ہوئے اور کم عقلی کی حدوں کو چھوتا عالم فاضل ہونے کا گھمنڈ ہے۔ جس کا علم سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ  جو صاحب علم ہوتے ہیں وہ نہائت منکسر المزاج ہوجاتے ہیں۔ وہ بہترجانتے ہیں کہ ایمان کا معاملہ عقل سے نہیں  دل سے ہوتا ہے اوراسے محض عقلی استدلال سے نہ سوچا اور سمجھا جاسکتا ہے اور نہ بیان کیا جاسکتا ہے۔ اتنی  بنیادی سی بات جاننے کے لئیے فلسفے میں ماہرہونا ضروری نہیں۔ اتنے چھوٹے سے نکتے کو ایک چار جماعت پاس گلی محلے کا ایک عام ساانسان بھی جانتا ہے۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , ,

21 responses to “خدا ، مناظرہ اور گھمنڈ۔

  1. محمد سلیم

    جون 10, 2011 at 11:12

    جاوید بھائی، شکر ہے آپکو کوئی چیز بلاگنگ میں واپس لے تو آئی۔ ورنہ تو اپنے مضامین سے زیادہ آپکے پر مغز تبصروں سے ہی استفادہ کیا جا رہا تھا۔ اللہ آپکو خوش رکھے۔
    جیاں تک آپکی تحقیق کا تعلق ہے اس بارے میں میں بھی کچھ کہنا چاہوں گا- میں زیادہ تو نہیں جانتا مگر اتنا پتہ ہے کچھ مخصوص مذاہب پہلے لوگوں سے دوستی بناتے اور انہیں اپنی دوستی کا قائل کرتے ہیں، پھر دنیا کی بے اعتباری کو بنیاد بنا کر آپکو قائل کرتے ہیں کہ دیکھو ہم مسالمانوں سے تو کافر ہی اچھے۔ (نعوذ باللہ، نقل کفر-نقل نہ باشد)
    اس بندے کی قلابازیاں واقئی عجیب ہیں جنکی نشاندہی آپ نے کی ہے۔ قران کا تمسخر اڑانے کے بعد یہ ایک عرب گلوکارہ کا گانا لکھ کر بھی اپنے حوارویں کو اپنے علم سے استفادہ دے چکا ہے۔
    انکل ٹام کے بلاگ پر میں اپنے اس خیال کا اظہار کیا تھا اس آدمی کو یہ سب کچھ لکھنے کا معاوضہ نا ملتا ہو۔ کیونکہ بندہ رہے یا نا رہے اسکی تحریرین نو نومسلموں یا ایسے لوگوں کو جو انٹرنیٹ سے استفادہ حاصل کرتے ہیں کو ورغلانے کیلئے موجود رہیں گی۔ انگریزی کا لفظ (Resistance) تو بہت بڑے معنی رکھتا ہے مگر اس شخص کیلئے اتنی رکاوٹ نہیں ہے، سب لوگ ایک آدھ بار اس کے خلاف لکھیں گے اور پھر اس کی روزانہ کی عادت سمجھ کر بھول جائیں گے تو اس کے سامنے ایک کھلا میدان ہوگا جس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔
    حقیقٹ یہ ہے کہ جس طرح کمپیوٹر کی وجہ سے اردو میں آگاہی اور ترویج بڑھ رہی ہے اسے دیکھ کر کئی ایسی غیر مسلم اور اسلام دشمن تنظیمیں ہونگی جو خواہش کریں گی کہ اردو میں بھی زہر ڈال کر آنے والی نسل کے اذہان و قلوب کو پراگندہ کیا جائے اور اس کیلئے یقیناً انکی لمبی مدت کی منصوبہ بندی اور مختص رقم بھی ہوگی۔
    میری اس بات کی دلیل موصوف کا اپنے ایک تبصرے میں یہ اعتراف ہے کہ (. ویسے بھی یہ لوگ کب تک میرا پیچھا کر سکیں گے!؟ ) اور یہی بات اسکی اپنے مقصد میں پختگی اور میرے مفروضے کو سچا ثابت کرتی ہے۔ اسکا یہ تبصرہ یہاں پر دیکھا جا سکتا ہے (http://makki.urducoder.com/?p=2535)
    اللہ آپکو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور آپکو حق و سچ کہنے کی ہمت دیئے رکھے۔ آمین یا رب

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جون 10, 2011 at 16:26

      محترم! سلیم بھائی!!

      بلاگ پہ خوش آمدید اور میری طرف سے شکریہ قبول فرمائیں۔

      میری ذاتی رائے میں مکی صاحب کا مشنریز سے تعلق ہونا یا کسی مشنری ادارے سے منسلک ہونے کا خدشہ بے بنیاد ہے۔ اسکی دو وجوہات ہیں۔ اول مشنری لوگوں کا یہ طریقہ کار نہیں۔ دوئم۔ ان میں اگر کوئی اسلام کے بارے جھوٹ بھی بیان کرے گا تو وہ اسے انتہائی سنجیدگی سے بیان کرے گا خواۃ اسکی آنکھ کا شہتیر ساری دنیا کو بلکہ ان کو بھی نظر آراہا ہو جنہیں وہ ورغلانے یا سمجھانے کی کوشش کر رہا ہو۔

      دنیا کے سبھی سنجیدہ علمی اداروں میں سبھی سنجدہ لوگ ناقص علمی سے اجتناب برتتے ہیں اور اور عالم ہمیشہ انکسار کے ساتھ صرف اپنے موضوع پہ نہایت سنجیدگی سے رائے دیتے ہیں اور اپنے رائے کو کسی طور پہ ٹھونستے نہیں۔ رائے ٹھونسنا اور اس پہ ار جانا یہ صرف "ناقص علم” لوگوں کو وطیرہ ہے۔۔ جیسے پاکستان میں نیم خواندہ مولوی، نیم مکینک،نیم ٹیکنیشن اور عطائی ڈاکٹر یا حکیم ہوتے ہیں۔ کہ موضوع کے بارے عام آدمی سے زیادہ جانتے ہیں۔ مگر موضوع پہ انکی گرفت نہیں ہوتی اور اگر ہوتی ہے تو واجبی سی ہوتی ہے۔ ممکن ہے مکی صاحب کے ساتھ کوئی ذاتی واقعہ ایسا پیش ایا ہو جس میں وہ مذھب اور اسلام یا خدا سے اپنی دانست میں خار کھائے بیٹھے ہوں اور خار کھائے بیٹھے رہیں کہ جب تک ھدایت تمام ان تک پہنچ نہ جائے جس میں وہ اپنی ابوالعجمیوں سے رجوع کریں اور واضح الفاظ میں ایامن کی برکتوں سے مستفید ہونے کا اعلان کردیں یا خدا نخواستہ اسی طرح اپنی علمی بدگمانی اور گھمنڈ میں بھٹکے رہیں۔ یہ آنے والے وقت میں ہی پتہ چلے گا۔ آپکی ایک بات دل کو لگتی ہے۔ خدا کرے وہ اپنی اس روش پہ بضد ہو کر مزید سرکش ہو جائیں تو ایسی میں وہ کوئی بھی محیر العقل بات ۔ اعلان یا لاطیفہ بیان کردیں۔ واللہ علم الصواب۔ بہر حال ہم ان کی کامل مسلمانی اور ایمان کی دعا کرتے ہین،

       
  2. ڈاکٹر جواد احمد خان

    جون 10, 2011 at 13:14

    دوسروں کی طرح میرا بھی یقین یہی ہے کہ مکّی صاحب عیسائیت سے متاثر ہیں مگر مجھے ایک اور شبہ ہونے لگا ہے کہ کہیں مکّی صاحب سرگرم مشنری تو نہیں ….اگر آپ انکی چھلانگیں دیکھیں تو آپ کو عجیب محسوس نہیں ہوگا. آج کل انکا سارا فوکس دین سے برگشتہ کر دینے اور دین کے بارے میں شکوک و شبہات کو بڑھاوا دینے والے مضامین لکھنے کی طرف ہے اور اس عالم میں بھی وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اپنی عقیدت کا اظہار کرنا نہیں بھولتے اور اسلام کے خلاف انکے الزامات وہی ہیں جو عیسائی مشنریز کے ہوتے ہیں. اسکا مطلب یہ ہے کہ حضرت مکّی ایک نئی حکمت عملی کے پر کام کر رہے ہیں وہ پہلے مرحلے میں لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کرنا اور دوسرے مرحلے میں انھیں عیسائیت کی طرف راغب کرنے کی حکمت عملی پر کام کرتے محسوس ہو رہے ہیں …

     
  3. Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

    جون 10, 2011 at 16:38

    محترم! ڈاکٹر جواد احمد صاحب!!

    حضرت عیسٰی علیۃ والسلام پہ انکی پوست سے کچھ ایسا ہی تاثر ابھرتا ہے اور مندرجہ بالا تبصرے میں محترم سلیم صاحب نے بھی اپنے اسی خدشے کا اظہار کیا ہے۔ مگر میری ذاتی رائے میں ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ کہ مکی صاحب نے جہاں جہاں نبی کریم صلٰی اللہ علیہ وعلم کا ذکر مبارک آیا ہے وہاں وہاں ان پہ درود بیجھا ہے یعنی صلی اللہ علیہ وسلم لکھا ہے۔ جبکہ غیر مسلم تو ایک طرف کم علم مسلمان بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زکر مبارک پہ دورد شریف بیجھنے سے یا تو لاعلم ہوتے ہیں ۔ یا لاپرواہی سے دورد و سلام نہیں بیجھتے۔ اور جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبے واقف ہے وہ خوا زبانی انکا ذکر مبارک آئے یا لکھتے ہوئے اور ان صلی اللہ علیہ وسلم پہ ہر دفعہ درود بیجھے تو اسکا مطلب ہے کہ اس کے دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئیے عشق و احترام موجزن ہے اور میری ذاتی رائے میں ایسا فرد مشنری نہیں ہوسکتا اور اگر بدقسمتی سے مشنری ہو تو اسے اتنے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئیے جس سے مسلمان اسکا پلو پکڑ کر اسے نادم کریں۔۔ اور اسکے مشن کا التا اثر ہو اور مسلمان اپنے عقیدے پہ پکے ہوجائیں۔۔ بہرحال یہ میری ذاتی رائے ہے۔ واللہ علم الصواب۔

     
  4. یاسر خوامخواہ جاپانی

    جون 11, 2011 at 03:20

    اسلام علیکم
    محترم آپ نے بلاگ بنا لیا اور آج معلوم پڑا۔
    خوشی ہوئی کہ آپ نے آخر کار بلاگ بنا ہی لیا۔

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جون 11, 2011 at 05:25

      محترم !یاسر بھائی!!

      بلاگ پہ تشریف آوری کا شکریہ اور خوش آمدید۔

      یاسر بھائی! شاید آپ یقین نہ مانیں میں اس دور سے بلاگنگ کر رہا ہوں ۔ جب انٹر نیٹ پہ تحریر کی بجائے یوں لگتا تھا جیسے الفاظ بلاک در بلاک ڈھم ڈھم ڈاؤن لوڈ ہوا کرتے تھے یعنی دنیا میں جہان کہیں انٹر نیت تھا تو اسکی رفتار اس قدر کم ہوا کرتی تھی کے ٹیکسٹ بھی بہت آہستہ آہستہ نیچے آتی۔ اور امیجیز کی تو بات ہی نہ کریں۔ میں بلا شبہ کہہ سکتا ہوں کہ میں پچھلی صدی کے اردو بلاگرز میں سے ہوں 🙂 بلاگ سے بھی کچھ قدیم ویب سائٹس ہیں۔ اس بلاگ کو بھی غالبا دو ہزار سات میں بنایا تھا۔ اس بلاگ کے علاوہ بھی کچھ اور بلاگز ہیں جن پہ میں کئی ایک زبانوں میں لکھتا رہا ہوں یا لکھتا ہوں۔

      آپ کہیں گے کہ پھر بتایا کیوں نہیں کبھی ؟ اسکی وجہ سچی بات ہے کہ اب ہر قسم کی بلاگنگ اور خاص کر اردو بلاگنگ سے میری جان جاتی ہے۔۔ کیونکہ اردو کا کوئی اسکوپ نہیں بنتا ۔ بہت کم لکھنے والے اور شاید اس بھی کم اسے پڑھنے والے ہیں۔۔ مسئلہ یہ ہوا کہ چند ایک واقعات اوپر نیچے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے ایک پاکستانی ہونے کے ناتے دل اپنے ملک کے حالات اور قوم کے بارے کڑھا ہوا تھا۔ بوجھ تھا سینے پہ اور ابھی تک ہے۔ بس س بوجھ کا کچھ وزن کم کرنے کے لئیے میں نے اردو میں بلاگ پہ لکھنا شروع کر دیا۔ بس۔۔

      اس دل کا کیا کروں جو اداسی کی انتہاو ں کو چھو رہا ہے؟ لوگ بے ھص ہوگئے۔ شکاری کتوں کی طرح ایک دوسرے پہ جھپٹ رہے ہیں اور ۔۔۔۔۔۔۔ کرابی کے بیس بوت واقعے کے بعد یقین مانیں سونا اور کھانا کھان مشکل ہوگیا ہے۔

       
  5. محمد سعید پالن پوری

    جون 11, 2011 at 06:42

    یہ تو آپ چھپے انڈر ٹیکر نکلے۔ آپکی یہ ادا بھی اچھی لگی ورنہ لوگ بلاگ پہلے بناتے ہیں اور پہچان بعد میں۔ اسی لئے قارئین بھی انکو کم ملتے ہیں۔ اسکے برعکس اگر کوئی جانا پہنچانا بندہ اپنا بلاگ بنائے اور وہ سیارہ وغیرہ پہ رجسٹر بھی نہ ہو تو بھی اسکو متذکرہ بالا لوگوں سے زیادہ قارئین ملجاتے ہیں۔

     
    • ڈاکٹر جواد احمد خان

      جون 11, 2011 at 13:34

      بجا ارشاد …اگر جاوید گوندل بلاگستان کے انڈر ٹیکر ہیں تو آپ کسی ہلک ہوگن سے کم نہیں. یقین نا آئے تو بلاگ بنا کر دیکھ لیجئے.

       
      • محمد سعید پالن پوری

        جون 12, 2011 at 08:53

        ہاہاہا ڈاکٹر صاحب موگیمبو خوش ہوا۔ کیوں مقتل میں لیجاتے ہو

         
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جون 12, 2011 at 18:44

      محترم ! محمد سعید پالن پوری صاحب!!

      بلاگ پہ خوش آمدید اور شکریہ۔

      محترم ۔ یہ بھی آپ کی دی عزت اور دعاؤں کا نتیجہ ہے۔

       
  6. عمران اقبال

    جون 12, 2011 at 09:21

    کیا بات ہے جناب۔۔۔ سعید بھائی نے فرمایا کہ لوگ بلاگ پہلے بناتے ہیں اور پہچان بعد میں۔۔۔ لیکن جاوید گوندل صاحب واحد ہستی ہیں، جن کی پہچان بلاگستان میں ان کے بلاگ بننے سے پہلے ہی ہو چکی ہے۔۔۔

    جاوید بھائی۔۔۔ پہلے تو مبارکباد وصولیے نئے بلاگ کی۔۔۔

    مکی صاحب ایک نیم پاگل بندے ہیں۔۔۔ جو کنفیوزن کے نام پر زہر پر زہر اگل رہے ہیں۔۔۔ ہم انہیں روک نہیں سکتے اور سمجھا نہیں سکتے۔۔۔ کیونکہ وہ سمجھنا چاہتے ہی نہیں۔۔۔ (خود کو عقلِ کل جو سمجھ رکھا ہے)۔۔۔ یہ حضرت دانشور کے روپ میں کبھی اللہ کی زات پر شک کرتے ہیں اور کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور انبیا کرام کی توہین کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔ "ایمان” کے نا ہونے کے باعث سائنش اور فلسفہ کی روشنی میں دنیا اور لاجک دیکھنے کے چکر میں ان کی آنکھیں چندھیا گئی ہیں اور اب انہیں سچ نظر نہیں آتا۔۔۔ اور نا سمجھ آتا ہے۔۔۔

    مکی کے پھیلائے ہوئے پراپگینڈے کو قابو کرنے کا واحد حل یہی ہے جو ہمارے کچھ احباب کرتے نظر آ رہے ہیں۔۔۔ جیسے ڈاکٹر جواد، انکل ٹام اور بنیاد پرست بھائی۔۔۔ کم از کم میرے جیسے جاہل قاری کو ایکشن کا ری ایکشن تو مل جاتا ہے ان حضرات کی تحاریر کی صورت میں۔۔۔ اور فائدہ میرا ہی ہوتا ہے۔۔۔ کہ ایک کمی کمین گند گھولتا ہے۔۔۔ اور کچھ نیک نیت حضرات اس گند کو صاف کرتے ہیں کہ معاشرے میں یہ گند نا پھیل سکے۔۔۔۔

    اب بے غیرت بریگیڈ کو برا لگے، تو لگے۔۔۔ میں تو اپنے ان احباب کے لیے یہی کہوں گا کہ اللہ انہیں جزائے خیر دے۔۔۔ آمین۔۔۔

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جون 12, 2011 at 18:22

      محترم! بھائی!! عمران صاحب!!!۔

      بلاگ پہ خوش آمدید اور شکریکہ قبول ہو۔
      بس آپکی دعاؤں محبتوں چاہتوں نوازشوں اور عنائتوں کا اثر ہے اور پاکستان میں پے درپے ہونے والے واقعات کی دل گرفتگی ہے کہ میں نے بھی یہ بلاگ فعال کردیا

       
  7. Crazy Prince

    جون 13, 2011 at 00:58

    salam
    great analysis
    actually you tried t dumb my speculations as conspiracy theories. but that doesn’t make any sense. The reason I called him a missionary was his arguments against holy Quran. ALL of his arguments are just translation of some english articles. This man translates the material and posts it on his blog WITHOUT mentioning the name of the author.
    In addition to this his way of replying to comments was typical of missionaries. I have personal experiences with them both on net and in real life. If he really wants answers for his so called confusions then why not he goes to some good scholar? why he is posting it in front of ignorant people like …………………… so and so. I hope you get my point. Goof luck

     
  8. Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

    جون 13, 2011 at 03:47

    میں آپکی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ مکی نے جو اعتراضات کئیں ہیں وہ انہوں نے مشنریوں اور اسلام پہ اعتراضات کرنے والے پیشہ وروں کی مشقت کو ترجمہ کر کرتے ہوئے کسی کا نام لکھے بناء اسے اپنے نام سے پیش کیا ہے۔ اور آپ کے یہ نکتہ بیان کرنے سے پہلے یہ بات میرۓ ذہن میں تھی۔ اور اسی لئیے انکے "گھمنڈ” کا زکر کیا ہے کیونکہ یہ گھمنڈ بعض اوقات دین سے دور اور آخر کار باہر کردیتا ہے۔ بۃر حال آپکے نکتے سے مجھے اتفاق ہے۔

    دعا کا بہت شکریہ

     
  9. Darvesh Khurasani

    جون 20, 2011 at 18:55

    میں آپکی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ مکی نے جو اعتراضات کئیں ہیں وہ انہوں نے مشنریوں اور اسلام پہ اعتراضات کرنے والے پیشہ وروں کی مشقت کو ترجمہ کر کرتے ہوئے کسی کا نام لکھے بناء اسے اپنے نام سے پیش کیا ہے۔ اور آپ کے یہ نکتہ بیان کرنے سے پہلے یہ بات میرۓ ذہن میں تھی۔ اور اسی لئیے انکے “گھمنڈ” کا زکر کیا ہے کیونکہ یہ گھمنڈ بعض اوقات دین سے دور اور آخر کار باہر کردیتا ہے۔ بۃر حال آپکے نکتے سے مجھے اتفاق ہے۔

    جاوید ساحب میں آپ سے متفق ہوں۔ اچھا کیا آپ نے اس موجوع پر کالم لکھا ۔شکریہ

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جون 21, 2011 at 01:37

      محترم! درویش خراسانی بھائی صاحب!!۔

      آپکی بات درست ہے اور میری ذاتی رائے بھی یہ ہی ہے کہ ہر انسان کی زندگی میں کچھ موضوعات ایسے ہوتے ہیں کہ جن بات کرتے ہوئے انسان کی زرا سے لغرش اسے پاتال کی گہرائیوں سے نیچے پھیک دیتی ہے۔ اور دین ایسے موضوعات میں سر فہرست ہے۔ لہذا انسان کو ۔ ہر مسلمان کو دین کو بہتر سمجھنے کے باوجود احتیاط سے کام لینا چاہئیے۔

      اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔

       
  10. fikrepakistan

    جون 22, 2011 at 13:17

    آپکو اپنے بلاگ پر دیکھہ کر بہت خوشی ہوئی، امید ہے آپ سے بہت کچھہ سیکھنے کو ملے گا انشاءاللہ۔

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جون 22, 2011 at 15:02

      محترم! فکر پاکستان صاحب!!

      بلاگ پہ تشریف آوری پہ خوش آمدید اور شکریہ ۔

      سیکھنے سکھانے کا عمل دو طرفہ ہوتا ہے۔ ہر انسان زندگی بھر ایک دوسرے سے سیکھتا ہے۔ میں تو ابھی خود سیکھنے والوں میں شامل ہوں۔ 🙂

       
  11. عطاء رفیع

    اگست 13, 2011 at 00:14

    آپ بڑوں کے بلاگز پڑھ کر سکون محسوس ہوتا ہے ایک حقیقت بتاؤں کہ میں آپ کے ذاتی بلاگ کی تحریروں سے اتنا لطف نہیں اٹھا پاتا جتنا آپ دیگر بلاگز میں اپنی پرمغز رائے دیتے ہیں۔

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      اگست 13, 2011 at 07:31

      محترم! عطاء رفیع!! صاحب!!!

      بلاگ پہ خوش آمدید اور شکریہ۔

      محترم۔ یہ آپکی محبت اور خلوص ہے جو آپ کو اس ناچیز کے تبصرے "پُر مغز” محسوس ہوتے ہیں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔

       

تبصرہ کریں