اردو بلاگران ۔۔ ہوشیار باشد
Category Archives: Uncategorized
اردو بلاگران ۔۔ ہوشیار باشد
فوج میں انگریزوں نے سپاہی کے بعد ”لانس نائیک“ نامی عہدہ اسلئیے قائم کیا تھا کہ جو فوجی ”سپاہی “ باقی ساتھیوں کو تنگ رکھیں۔ اور سرکشی پہ باآسانی آمادہ رہیں ۔ انھیں مفت میں ایک ”پھیتڑی“ (Insignia) لگا کر ”لانس نائیک “ بنا دیا جاتا ۔ جبکہ اصل عہدہ جسے دو”پھیتڑیاں“ لگائی جاتیں اسے نائیک کہا جاتا ۔ کہ نائیک کی ماتحتی میں ”لانس نائیک “ سمیت کچھ چند ایک سپاہی ہوتے اور نائیک کے بعد حوالدار اور حوالدار میجر وغیرہ جیسے عہدیدار آتے ۔یوں ”اوکھا “اور سرکشی پہ باآسانی آمادہ رہنے والا جوان ۔جب اسے ایک” پھیتڑی “لگ جاتی۔ اور ”لانس نائیک “کا نمائشی عہدہ مل جاتا۔ تو وہ مشقت باقی سب سپاہیوں کے برابر کرتا۔ اسے کوئی اضافی سہولت بھی نہ ملتی ۔ مگر وہ اپنی سرکشی اور شرارت بھول کر وہ ہر وقت عام سپاہیوں سے بھی زیادہ دلچسپی سے اپنے فرائض محض اسلئیے تندہی سے بجا لاتا کہ مباداہ اسکی کسی حرکت سے اسکی ”“ پھیتڑی “ نہ اتر جائے اور وہ پھر سے ایک عام سپاہی نہ بن جائے ۔
دسمبر دے دکھ ۔
دسمبر دے دُکھ ۔
پہاڑیاں میرے سیدھے ہاتھ پہ تھیں۔ بحر روم میرے الٹے ہاتھ پہ اپنے پُر سکون اور روایتی انداز میں بہہ رہا تھا ۔ دبیز دھند بلندی سے وادیوں پہ اتر رہی تھی ۔ پہاڑوں کے بلند سرے ا ور چوٹیاں دھند میں چھپتی جارہی تھیں۔ ظہر کا وقت گزر چکا تھا ۔عصر کا مختصر سا وقت شروع ہو رہا تھا ۔ موسم میں خنکی اچانک بڑھ گئی تھی۔ میں نے گاڑی کے ہیٹر کو معمولی سا مزید بڑھا دیا تھا ۔ یہاں سڑک سمندر کے متوازی بہتی ہے ۔ اور میری دیکھی بھالی ہے ۔ سڑک کے اس حصے پہ غالبا میں سینکڑوں مرتبہ ڈرائیو کر چکا ہوں ۔لیکن ہر مرتبہ اس سڑک پہ سفر کرتے ہوئے تازگی اور فرحت کا ایک نیا إحساس ہوتا ہے ۔ سڑک کے کنارے چھوٹی موٹی آبادیاں اور آبادی سے پرے اس طرف چیڑھ (پائن ) کے درختوں سے ہری بھری پہاڑیوں کے درمیان مختلف چھوٹے بڑے شاداب کھیتوں سے سر سبز پھیلتی سکڑتی وادیاں ۔ اس طرف سڑک کے ساتھ متوازی چلتی ریلوے لائن اور بے بیکراں تاحد نظر پھیلا ہوا بظاہر ساکت بحیرہ روم اسقدر تغیر لئیے ہوئے ہے کہ ا س کے کناروں نے درجنوں مختلف تہذیبوں کو جنم دے ڈالا ۔ بلا مبالغہ دنیا کی گذشتہ اور موجودہ تہذیبوں میں بحرہ روم کا ایک بڑا ہاتھ ہے ۔میرا ذہن بہت مختلف سے احساسات اور سوچوں کی آمجگاہ بنا ہوا ہے ، سوچوں کا سرا کسی طور ٹوٹنے میں نہیں آتا ۔میں میکانکی انداز میں گاڑی چلا رہا تھا ۔ کبھی کبھار کسی آبادی سے پہلے یا بعد ۔کسی ”گیو وے “ یا ” اباؤٹ ٹرن“ پہ کسی دوسری گاڑی کو رستہ دیتے ہوئے سوچوں کا یہ سلسلہ کچھ دیر کے لئیے منقطع ہوتا اور پھر سے سوچیں ذہن کے پردے پہ وہیں سے عکاس ہونا شروع ہوجاتیں جہاں سے یہ سلسلہ منقطع ہوا تھا۔
آج چوبیس دسمبر ہے ۔ ہر چوبیس اور پچیس دسمبر کی طرح مجھے یہ دن بہت اداس سا محسوس ہوتا ہے ۔اس سڑک پہ عام طور پہ محسوس ہونے والی روایتی تازگی اور فرحت کے إحساس کی بجائے ایک اداسی کی سی لکیر محسوس ہوتی ہے۔ جو مجھے یہاں سے وہاں تک ہر شئے سے لپٹی محسوس ہوتی ہے۔ دسمبر کے دن بھی انتہائی مختصر ہوتے ہیں۔ ادہر دوپہر ڈھلی ادہر شام سر پہ آجاتی ہے ۔ نصرانی مذہب کے پیروکار چوبیس دسمبر کی شام کو کرسمس ڈنر Christmas eve dinner اور پچیس کو کرسمس مناتے ہیں۔ عیسیٰ علیۃ والسلام سے منسُوب آخری ڈنر کی کی روایت سے شروع ہونے والے اس کرسمس ڈنر کے لئیے ۔اس رات سارا خاندان مل بیٹھتا ہے ۔ دور دراز سے سفر کر کے لوگ اپنے چاہنے والوں یعنی اپنے عزیزو أقارب سے کے ساتھ یہ مخصوص ڈنر کرتے ہیں ۔میرے ایک جاننے والی کی بہن جرمنی میں مقیم ہیں ۔ وہ تقریبا ہر سال وہاں سے یہاں اپنے بہن بھائیوں اور خاندان کے ساتھ کرسمس ڈنر پہ شامل ہوتی ہے۔اسی طرح ایک اور جاننے والے کے کچھ رشتے دار کنیڈا میں مقیم ہیں۔ وہ وہاں سے کچھ دنوں کے لئیے واپس آتے ہیں ۔ کرسمس ڈنر عام طور پہ یہ ایک روایتی اور نہائت نجی تقریب ہوتی ہے ۔ جس میں داماد یا بہو ۔ یا ہونے والے داماد یا ہونے والی بہو یعنی منگیتر کے علاوہ شاید ہی کوئی غیر رشتہ دار شامل ہوتا ہو۔ نصرانی مذہب اور خاصکر نصرانی مذہب کے دیگر اکثر فرقوں کی طرح کھیتولک فرقہ بھی کرسمس ڈنر کے لئیے خوب تیاری کرتا ہے۔ جس میں ٹرکی سے لیکر سالم سؤر اورسالم بکرے تک بھون کر کھائے جاتے ہیں۔ مچھلی اور سی فوڈ کی کھانے کی میز پہ بھرمار ہوتی ہے۔درجنوں اقسام کے کیک اور مٹھائیاں میز پہ سجائی جاتی ہیں۔ لیٹروں کے حساب سے شمپئین ، وائن اور مختلف شرابوں کے جام لنڈھائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ محض بہت زیادہ کھانا کھانے کی وجہ سے موت کے منہ میں پہنچ جاتے ہیں۔کرسمس ڈنر کی تیاری کے لئیے خصوصی طور پہ خریداری کی جاتی ہے ۔چاہنے والوں کے لئیے خصوصی تحائف خریدے جاتے ہیں ۔
عام طور پہ ان مخصوص دنوں میں شہر کے آس پاس تک ہی محدود رہتا ہوں ۔ مگر اس دفعہ ایک نواحی شہر کے ایک پرانے کسٹمر نے کچھ مال کریڈٹ پہ خرید رکھا رکھا تھا ۔جو کاروباری معاملے کی وجہ سے اس شرط پہ دے دیا تھا ۔کہ وہ ایک آدھے ہفتے کے دوران دسمبر کا مہینہ ختم ہونے سے پہلے۔ تمام رقم ادا کر دے گا ۔ مجھے اس سلسلے میں رقم کی قسط لینے نواحی شہر کو آج جانا ہوا تھا ۔ اڑھائی دو گھنٹے میں، میں فارغ ہو چکا تھا ۔واپسی پہ سڑک کے کنارے ایک انٹر نیشنل چین کے کئی ایکڑوں پہ پھیلے مشہور ڈپارٹمنٹل اسٹور پہ رک کر ۔گاڑی میں فیول ڈلوایا اور اسپین کی مختلف ذائقوں اور اقسام کی روایتی مٹھائی ”تُرون“ خریدے ۔ چونکہ دفتر ۔ کاروبار سے دو دن سب کچھ بند ہونے کی وجہ سے چھٹی ہے ۔ لہذاہ اس دوران اسٹور سے گھر کے لئیے ضروری خریداری بھی کر لی ۔
دسمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی سرکاری یا غیرسرکاری سب اداروں میں تمام ملازموں کو ایک اضافی تنخواہ ملتی ہے ۔ جسے ”کرسمس پے “ کا نام دیا جاتا ہے ۔مگر ہر جیب میں اس دفعہ اضافی تنخواہ نہیں ۔ سرکاری ملازموں کو اس دفعہ حکومت نے اضافی تنخواہ کی کٹوتی کا اعلان کر رکھا ہے ۔ مالی بحران زوروں پہ ہے ۔ مگر سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور سہولتیں اسقدر ہیں ۔کہ انہیں ایک اضافی تنخواہ کے نہ ملنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ۔جب کہ ملک میں مالی بحران کے ہاتھوں پریشان لاکھوں بیروزگاروں کی جیب خالی ہے۔ حکومت مقدور بھر کوشش کرتی ہے کہ بیروزگاری الاؤنس سے بیروزگاروں کی کچھ مدد کر سکے ۔ مگر اتنے لمبے مالی بحران کی وجہ سے اب حکومت بھی بے بس اور لاچار نظر آتی ہے ۔ جب کہ نجی اداروں میں کام کرنے والوں کی اضافی تنخواہ نہیں روکی گئیں ۔ جیب میں اضافی تنخواہ ہو اور کرسمس جیسے تہوار کا معقول بہانہ ہو۔ تو مختلف سپر مارکیٹس ۔ دوکانوں اور ڈیپارٹمنٹل اسٹورز کی رونق دوبالا ہوجاتی ہے ا۔ور دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔فراغت جو مجھے کبھی کبھار نصیب ہوتی ہے ۔ اس فراغت کی وجہ سے میں کافئ دیر ڈپارٹمنٹل اسٹور کے اندر گھومتا رہا ۔ آج رات کے لئیے کھانے کی ہر شئے پوری کرنے کے لئیے خریداری کی لمبی فہرستیں سنبھالے۔ خوشی سے دمکتے چہرے ۔ سالم خاندان اور جوڑوں کی شکل میں میں رنگ برنگ کے ملبوسات سجائے ۔تحائف ۔ مختلف شرابوں ۔ مٹھائیوں ۔ پھلوں ۔ خشک میوں ۔ گوشت ۔ مچھلی ۔ سی فوڈز ۔ اور انکی تیاری میں استعمال ہونے والے لوازمات سے سے لدی پھندی ٹرالیوں کے بیچ بیچ خریداری سے قبل۔ میں خالی ہاتھ گھومتا رہا ۔ بس یونہی دل کی بے نام سے بے کلی کے درماں کے لئیے ۔ کچھ دیر بعد بار میں جا بیٹھا ۔ ایک کالی اور تلخ کافی کے سِپ لینے کے دوران بھی کرسمس خریداروں کا یہ مشاہدہ میں نے جاری رکھا ۔ ان چمکتے اور شاداب چہروں کے بیچ میں بہت سے لوگ اداس بھی نظر آئے ۔ ان میں ایک تو وہ لوگ تھے جو لمبی بیروزگاری کے ہاتھوں۔ اپنے محدود سے بجٹ کے ہاتھوں پریشان ۔ اشیاء اٹھاتے اور قیمت وغیرہ دیکھ بھال کر دوبارہ رکھ دیتے اور اس سے نسبتا کم قیمت کی شئے دوبارہ سے اٹھا کر اسکی قیمت اور اپنی جیب کا حساب لگانا شروع کر دیتے ۔ بے شک اب اس ملک میں ایسے لوگ لاکھوں کے حساب سے ہیں۔ میں انسانی ہمدردی کے تحت مقدور بھر کوشش کرتا ہوں کہ کسی کی مدد کر سکوں ۔ مگر میری معمولی سی مدد اتنے بڑے سمندر میں ایک قطرے سے بھی کم درجہ رکھتی ہے۔ کسی شئے کی ضد کرنے پہ ایک روتی ہوئی بچی کا باپ۔ اسے اپنی مالی حیثیت کی پہنچ نہ ہونے کا حسابی فارمولا سمجھانے کی بے سُود کوشش کر رہا تھا ۔ بچی تھی کہ ضد اور دُکھ سے روئے جارہی تھی ۔ یہ قرین انصاف نہیں کہ اکثریت تو بے جا اصراف کرے۔ اور کچھ لوگ اپنے معصوم بچوں کو معمولی اشیاء بھی نہ خرید کر دے سکیں ۔ مجھے اپنے ملک کی عید یں یاد آگئیں۔ وہاں مناطر اس سے بھی بڑھ کر تلخ ہوتے ہیں ۔ ان لوگوں کی بے سرو سامانی اور اپنے دیس کے مجبور لوگوں کے حالات نے کافی کی تلخی سے کہیں زیادہ تلخی میرے حلق میں گھول دی ۔
دوسری قسم کے وہ لوگ تھے ۔ جو اکیلے خریداری کر رہے تھے ۔ شاید انکا کوئی چاہنے والا اس کرسمس ڈنڑ پہ ان سے ملنے کے لئیے آنے والا نہیں تھا ۔ کیونکہ ایسا انکی انتہائی مختصر سی خریداری کی فہرست اور اسمیں مطلوبہ اشیاء کی تعداد جو عام طور پہ ایک عدد اکائی میں تھیں ۔ اور اس پہ انکا تنہاء ہونا۔ اس بات کا غماز تھا کہ وہ شاید اکیلے ہی کرسمس ڈنر کریں گے ۔ یا زیادہ سے ذیادہ ایک آدھ رشتے دار یا ساتھی ہوگا ۔ ایک تیس سالہ خاتون ایک باسکٹ میں اکا دکا اشیاء رکھ رہی تھیں ۔ دو سو گرام کا ایک تُرون (کرسمس کی رنگا رنگ مٹھائیوں میں سے ایک مٹھائی) پنیر کا ایک ٹکڑا ۔ زیتون کے کچھ اچاری دانے ۔ اور اسطرح کی کچھ اشیاء ۔ بغور جائزہ لینے سے اسطرح کے مختلف عمروں کے لوگ نظر آئے ۔ اداسی کی ایک لہر رگ و پے میرے سراپے میں دوڑ گئی ۔ ایک لمبا گھونٹ بھر کے کالی کافی کا کپ خالی کیا ۔ میں سنٹر سے باہر پارکنگ زون میں نکل آیا۔ جہاں سے سکہ ڈال کر خریداری کرنے کے لئیے ٹرالی نکالی ۔ دوبارہ سے اسٹور میں داخل ہوگیا ۔ خریداری کے دوران مختلف سوچوں نے دل و دماغ کو گھیرے رکھا۔
بحر روم پہ نگاہ دوڑائی تو سمندر اپنی عام عادت کے مطابق نہائت دھیما اور خراماں نظر آیا ۔ دہندلے سے بادلوں سے چھن کر آنے والی اکا دُکا سورج کی کرنوں سے ادہر اُدہر سے چمکتا ہوا۔یہاں سے وہاں تک بچھا ہوا ۔ یوں جیسے قدرت کے دست قلم نے نیلگوں رنگوں کو بکھیر دیا ہو ۔ مگر نہ جانے کیوں آج مجھے سمندر عام دنوں کی نسبت بہت خاموش اور اداس محسوس ہوا ۔ یا پھر شاید میرے اندر خاموشی اور اداسی کی تنی ہوئی چادر کی وجہ سے مجھے یوں محسوس ہورہا تھا ۔ بہر حال آج کا دن بہت خاموش سا تھا ۔
بہت سے لوگ اس بات پہ متفق ہیں کہ ۔بس یہ دسمبر کا مہینہ ایسے ہی ہوتا ہے۔ ایویں سا۔ سردی کے موسم میں لپٹا ہوا ۔ سال کا آخری مہینہ۔ یا پھر شاید اس کی وجہ اس ماہ کوسال کے آخر میں آنے کے وجہ سے اداس جانا جاتا ہے ۔ جب نیا سال شروع ہوتا ہے ۔ تو نہ جانے کتنے لوگ ۔ کتنے بھولے بھالے اور معصوم لوگ ۔انگنت منصوبے اور اہداف مقرر کرتے ہیں۔ جن کی بنیاد عام طور پہ امید اور نیک تمنائیں ہوتی ہیں ۔ جو سال گزرتے گزرتے ساتھ چھوڑ جاتی ہیں۔ سال کے گیارہ ماہ ایک دوسرے کی انگلی تھامے ہماری نظروں سے یوں اوجھل ہوجاتے ہیں ۔کہ ہمیں إحساس ہی نہیں ہوتا کہ ایک پورا سال ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوجانے والا ہے ۔ معصوم معصوم خواہشوں اور امیدوں کے سارے محل زمین بوس ہونے والے ہیں ۔ دسمبر کا مہینہ ہمیں یہ إحساس دلاتا ہے کہ اس سال کو ”گیا سال“ ہونے میں ایک آدھ ہفتہ باقی ہے یہ ایک آدھ ہفتہ جو دسمبر کہلاتا ہے ۔ ہمیں سال کی محرومیوں ۔ تلخیوں ۔ اور ناکامیوں کا اچانک إحساس دلا جاتا ہے ۔ ناکامیاں جو کئی ایک کا نصیب ہوتی ہیں ۔ سال کے شروع میں سوچے منصوبوں اور مقرر کئیے گئے اہداف کو پورا کرنے کے لئیے ۔اکثر ساد ہ دل اور بھولے بھالے معصوم لوگوں کے پاس صرف نیک ارادے ۔ معصوم خواہشات ۔ امید اور حوصلے کے علاوہ کوئی خاص وسائل اور سرمایہ نہیں ہوتا ۔ دسمبر آتے ہی یہ إحساس شدید ہوجاتا ہے کہ ایک اور سال ۔ ایک پورا سال زندگی کی ناکامیوں ۔ محرومیوں اور تلخیوں میں اضافہ کر گیا ہے ۔
زمانہ لڑکپن کی بات ہے۔ میں بہتر سہولت اور پرسکون ماحول کی خاطر ہاسٹل کو چھوڑ کر ایک مکان میں اُٹھ آیا ۔ سیالکوٹ کے مجھ سے کافی سنئیر ایک لڑکے کو پتہ چلا ۔تو بہ سماجت میرے ساتھ رہنے پہ مصر ہوا۔ اسے میں نے ساتھ رکھ لیا ۔ اسکا نام اکرم تھا ۔ وہ کام کا ساتھی ثابت ہوا ۔ یہ وہ دور تھا کہ ابھی پاکستانی اتنی بڑی تعداد میں نقل مکان کر کے یوروپ کے اس حصے میں نہیں پہنچے تھے ۔ بس اکا دکا لوگ ۔ تعلیم یا کاروبار کی وجہ سے ادہر ادہر بکھرے ہوئے تھے ۔ اکرم ہر ویک اینڈ پہ ڈاؤن ٹاؤن میں گُم ہوجاتا ۔اس کی غیر نصابی سرگرمیوں کی شُد بُد مجھے ہاسٹل سے پرانے جاننے والے یوروپی لڑکے لڑکیوں سے ملتی رہتی ۔اسے لاکھ سمجھایا ۔ مگر وہ اکرم ہی کیا جو سمجھ جاتا ۔اشارے کنائے سے اس نے مجھے اپنی ڈھب پہ لانے کی کوشش کی۔ مگر اسے آنکھیں دکھانے پہ اس نے فوری معذرت کر لی ۔ کم عمری کے باوجود میرا قد کاٹھ نمایاں تھا ۔ خدا نے حسن اور مردانہ وجاہت بھی خوب دے رکھی ہے ۔مگر ماما مرحومہ کے وہ الفاظ کہ ”بیٹا تمہارے پاپا اور دادا مرحوم بہت نیک لوگ ہیں ۔ بیٹا ایسا کوئی کام نہیں کرنا جس سے خاندان کی عزت پہ حرف آئے ۔ہمیشہ یہ یاد رکھنا کہ ہم مسلمان ہیں۔ اور اسلام کے اپنے طور طریقے ہیں “ کبھی دل میں فاسد خیال آیا نہیں تھا۔ مخلوط ماحول میں اپنی ہم عمر لڑکیوں کی طرف سے ہر قسم کی دعوتوں پہ اپنی والدہ مرحومہ کے الفاظ نے الحمد اللہ بدی کی بجائے ہمیشہ نیکی کے رستے پہ گامزن رکھا ۔ میں نے اکرم کو بھی وارننگ دے رکھی تھی ۔کہ جس دن مجھے وہ کسی میم کے ساتھ نظر آیا ۔اسکی مکان سے چھٹی ہوجائے گی۔ تھا وہ مجھ سے سنئیر مگر وہ میری بہت عزت کرتا تھا ۔ چھوٹی عمر اور پردیس ۔ تنہائی کا ایک ہمہ گیر إحساس رہتا ۔ ہر عید بقر عید ۔ ہر بیماری ۔ ہر پریشانی پہ اکیلے۔ کوئی رہنمائی کرنے والا ۔ تیمارداری کرنے والا ۔ نہ ہوتا۔ سخت سردی جاڑے میں سردی یا بخار سے گھر میں کوئی ایسا نہ ہوتا کہ پیاس کی صورت ایک گلاس پانی یا دوائی حلق میں انڈیل دے ۔ گھر اور گھر والے ہزاروں میل دور ۔ ایسے میں، میں اور اکرم مل جل کر جیسے تیسے ایک دوسرے کے درد کے ساتھی ہوتے ۔ اور ویک اینڈ پہ اکرم کے گُم ہو جانے کی وجہ سے تنہائی کا إحساس اسقدر شدید نہ ہوتا کیونکہ ۔ میں چھوٹی سی عمر میں ہی چائے اور کھانا بنانے میں ماہر ہو گیا تھا ۔ ویک اینڈ پہ گھر پہ کھانا بنانے کی مزے کی تراکیب لڑائی جاتیں ۔ گھر کی صفائی ستھرائی ہوتی۔ہفتے کے دروان قضا ہونے والی قضاء نمازیں پڑھی جاتیں ۔ اسلامک سنٹر جانا ہوتا ۔ٹی وی ۔ ویڈیو دیکھتے ۔ پڑھائی میں اور سوتے وقت گزرتا ۔
سمسٹر کے آخر پہ دیگر ساتھیوں سے پتہ چلتا کہ کس طرح وہ سب اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ اور کرسمس ڈنر پہ کون کس کا بھائی یا بہن یا ماموں کہاں سے آرہا ہے۔کرسمس کے آتے ہی اکرم اپنی کسی میم دوست کے ساتھ گُم ہوجاتا اور میں قلعہ بند ہو کر گھر میں مقیم ہوجاتا ۔ ۔ سپر مارکیٹس ۔ اسٹورز ۔ دوکانیں باہر مکمل بند ہوتیں۔ دودن مکمل چھٹی ہوتی ۔ گھر سے باہر سردی کا راج ہوتا ۔جاڑا ہر طرف بازو پھیلائے ملتا ۔ نہ کسی سے واقفیت ۔ نہ شناسائی۔ جائے تو جائے کہاں؟۔ میں گھر پہ اکیلا ہوتا ۔ ٹی وی پہ صبح صادق تک کی جانے والی نصرانی عبادات کی سروس کے سوا کچھ نہ ہوتا ۔ گھر اور پاکستان بہت دور اور کوئی پُرسان حال نہیں تھا ۔ اس تنہائی نے بہت اعتماد بخشا کہ چھوٹی سی عمر سے بڑے بڑے فیصلے خود کرنے پڑے ۔ گھر سے دوری ۔ اور اس دور کی محرومی نے دل میں تنہاء لوگوں کے دکھ کا در ایسے وا کر دیا کہ جب بھی کسی کو ان خاص تہواروں پہ اکیلا پاتا ہوں۔ تو دل بہت اداس ہوتا ہے۔ اور وہ زمانہ یاد آجاتا ہے۔
سال گزر جاتے ہیں اور اپنے پیچھے کئی ایک سوال اور تشنہ لمحات چھوڑ جاتے ہیں ۔ جن کے دکھ اور زخم شاید ہی روح سے مندمل ہو پاتے ہوں۔ ہم زندگی میں بہت سی کامیابیاں تو پا لیتے ہیں لیکن بدلے میں روح پہ اتنے چرکے لگ جاتے ہیں جو کبھی کبھار پھیل کر ساری روح کو درد سے ڈھانپ دیتے ہیں ۔ گرمیوں کی تعطیلات میں پنڈ (گاؤں) میں خوب گرمی پڑتی۔ بڑی سی حویلی میں گھنے اور چھتار درختوں کے نیچے درجہ حرارات کئی درجے کم محسوس ہوتا ۔ ہم بہت سے کزنز ۔بہن ۔بھائی۔ دادی اماں کے گرد گھیرا بنائے بیٹھے ہوتے کہ ایسے میں بابا حیدرا نائی (ہم بچوں پہ بڑوں کی طرف سے فرض تھا کہ ہم بابا حیدرا کی بجائے احتراماَ بابا غلام حیدر کہہ کر پکاریں )بیرونی صحن کی ڈیوڑھی کے باہر والے دیودار کے موٹے موٹے ٹکڑوں کے بنے بڑے سے پھاٹک کے باہر لٹکتی زنجیر کو کھٹکھٹاتا اور اندر آنے کی اجازت طلب کرتا ۔ دادی اماں گھر کے سب افراد کو بابا حیدرا نائی کی آمد سے خبردار کرتے ہوئے کچھ توقف سے اُسے بیرونی صحن میں آنے کی اجازت مرحمت فرماتیں ۔ بابا حیدر نائی کی پہلی پکار پہ ہی دادی اماں کے پوتے اور نواسے تتر بتر ہوجاتے اور دادی اماں انہیں پکارتی رہ جاتیں ۔ دل تو میرا بھی بہت کرتا کہ بابے غلام حیدر کی آمد پہ اِدہر اُدہر ہوجاؤں۔ مگر دادی اماں کے پکارے جانے پہ۔ میں اپنی دادی اماں کے پیار اور احترام میں بیٹھے رہ جانے کے سوا کچھ نہ کر پاتا۔ دادی اماں آواز لگاتیں ۔ حیدرا لنگھ آ(حیدرا اندر آجاؤ) اور دودھ کی طرح چٹی بھوؤں والا بابا غلام حیدر نائی بیرونی صحن اور اندرونی دروازے سے گزر کر اندرونی صحن میں آجاتا اور دادی اماں حکم صاد فرماتیں کہ ”حیدرا ! مُڑے دی ٹنڈ کر دے“۔( حیدر بچے کی چندیا صاف کر دو)۔اور بابا غلام حیدر نائی مرحوم ” رچھینی“ ( اوزاروں والا بستہ) میں سے وٹی اور استرا نکال کر استرے کو وٹی پہ مذید تیز کرنا شروع کر دیتا ۔ میں بہت احتجاج کرتا مگر میری کوئی شنوائی نہ ہوتی ۔ اور بڑی محبت سے پالے بال۔ بابا غلام حیدر نائی کے استرے کی نذر ہوجاتے۔ بابا !حیدرا !!نائی اپنی کاروائی ڈال کر چلا جاتا ۔اور میں اپنی سفید سفید نئی نویلی چندیا پہ تاسف سے ہاتھ ملتے رہ جاتا۔ دادای اماں اسی پہ بس نہ کرتیں ۔ اپنی زمین پہ اگائے۔ ” تارا میرا، کے نکلوائے ہوئے سخت کڑوئے تیل سے۔ ہماری ٹنڈ پہ خوب مالش کرتیں ۔سخت کڑوا تیل کاٹتا۔ میں خوب احتجاج کرتا جاتا ۔ مگر اٹھ کر بھاگ جانا اپنی مردانگی اور دادی اماں کے پیار اور احترام کے خلاف جانتا ۔ میرے ہر احتجاجی مظاہرے پہ دادی اماں نہایت محبت سے کہتیں ۔” بیٹا ۔ چپ کر کے آرام سے بیٹھے رہو ۔ ٹنڈ کروانے کے بعد تارے میرے کے تازہ تیل کی مالش سے گردن موٹی ہوتی ہے“۔ ماما کو ممتا کے ہاتھوں مجھ پہ بہت ترس آتا ۔مگر اس مشق میں وہ بھی دادای اماں کی ہمنوا بن جاتیں ۔ اور محض اس خیال سے دادی اماں کی ہم نوا بن جاتیں ۔کہ مبادا دادی اماں کے دل میں کہیں یہ خیال نہ آجائے ۔کہ میں پہلے ماما کا بیٹا ہوں اور بعد میں اپنی دادی اماں کا پوتا ہوں ۔ اور جب تک پوَا بھر تیل ہماری چندیا میں جذب نہ ہوجاتا۔ ہماری جان نہ چھوٹتی ۔ اب دادی مرحومہ کی میری چندیا پر کی گئی مالشوں سے واللہ علم میری گردن تو موٹی ہوئی یا نہ ہوئی ۔مگرنتیجاَ میرے سر پہ اب اسقدر خوبصورت گھنے ۔ سلکی اور مضبوط بال ہیں ۔کہ ہر نیا حجام پہلی دفعہ میرے بال بناتے حیران ضرور ہوتا ہے ۔ میں شہر کے اچھے سیلون کا ممبر ہوں اور وہاں سے اپنے بال بنواتا ہوں۔ جہاں فون کر کے وقت لینا پڑتا ہے ۔ مگر کبھی کبھار وقت کی قلت اور مصروفیت کی وجہ سے بال کٹوانے کے لئیے ۔ڈاؤن ٹاؤن میں ایک پاکستانی حجام کے پاس بھی چلا جاتا ہوں ۔ پہلی دفعہ حسبِ معمول حجام نے میرے بالوں کے گھنا اور خوبصورت ہونے کے ستائش کی۔ تو میں نے اسے اپنی دادی مرحومہ کی اس کار خیر کا واقعہ بیان کیا ۔تو حجامت بنوانے کے لئیے اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے ایک صاحب پھڑک اٹھے ، اور ان کے منہ سے ایک لمبی آہ نکل گئی ۔ میں نے آئینے کے عقب سے انھیں دیکھا تو وہ موصوف مجھے مخاطب کر کے گویا ہوئے کہ ”بیٹا جی ! اب تو ایسی محبتیں خوآب ہو گئیں اب کوئی دادی دادا کچھ کہے تو اپنے پوتے پوتی کو۔ بہو وہ جھگڑا اٹھائے کہ ایک زمانہ دیکھے ۔ “ اب حیران ہونے کی میری باری تھی کہ خدایا یوں بھی ہوتا ہے ؟ مگر پھر کچھ لوگوں نے اس بات کی تصدیق کی اور مجھے مانتے ہی بنی ۔
ہماری دادای اماں نے اسقدر اور اتنی بار ہماری چندیا صاف کروائی ۔کہ جب ہم جنگل میں شکار کے لئیے جاتے تو میرا ایک دوست جو نہائت بے تکلف تھا ۔ اکثر کہتا ”یار تمہارے گھونسوں کا خدشہ نہ ہو تو تمہاری اس نئی نویلی ٹنڈ پہ ایک چپت رسید کرنے کو خواہ مخواہ کو دل کرتا ہے “ ۔اور اتنا کہنے پہ میں اسے ایک آدھ خطاب سے نواز دیتا۔ سر میں تارے میرے کا اتنا تیل گھسا ہوتا کہ جب دوپہر کو سورج چمکتا ۔ اور سخت دھوپ ہوتی تو تیل سر سے بہہ کر کانوں سے سے نیچے تک آرہا ہوتا ۔ دادی اماں ہم سب سے بہت محبت کرتیں تھیں ۔ مجھ سے خصوصی پیار کرتیں تھیں۔ انھیں دعواہ تھا کہ میں ان کا پیار اور احترام باقی سبھی نواسوں اور پوتوں سے بڑھ کر کرتا ہوں ۔میری دادی اماں مجھے پورے اور درست نام سے کبھی نہ پکارپائیں۔ جب انکے عدم آباد روانہ ہونے کا وقت آیا تو وہ میرا نام لے کر بے چینی سے کہتیں ”میرا جاویج(جاوید ) پُتر نئیں آیا“۔ میں یوروپ میں تھا اور چھوٹی عمر تھی۔ جب دادی جان کے اللہ کو پیارے ہونے کے کئی دنوں بعد مجھے انکے فوت ہونے کی اطلاع ملی ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ؏ زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے ۔
میرے چاہنے والے بہت ہوئے ہیں۔ بہت سے ہیں۔ جو مجھے جان سے پیارا جانتے ہیں ۔ جو عمروں کے فرق کے باوجود مجھ سے اپنے دل کا ہر دکھ سکھ نہائت اعتماد سے کر لیتے ہیں ۔ جو مجھے اپنا بیٹا۔ چھوٹا بھائی ۔ بھتیجا ۔ دوست ۔ سمجھتے ہیں ۔ اس بارے میں، میں خاصا خوش نصیب واقع ہوا ہوں۔ مگر اپنے چاہنے والوں سے آخری ملاقات کے معاملے میں ، ۔میں خاصا بد نصیب واقع ہوا ہوں ۔ اس سلسلے کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ جسے بیان کرنے کا مجھ میں حوصلہ نہیں ۔ ہمت نہیں۔ دل پکڑ کر الفاظ ادا نہیں ہو سکتے ۔ بس گذرتے سال کے ساتھ کئی بیتیں یادیں تازہ ہوجاتی ہیں ۔ کئی زخم ہرے ہوجاتے ہیں۔ اور یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ خدا جانے اگلے دسمبر تک کونسا چہرہ دیکھنا نصیب میں نہیں ہوگا ۔اکثر لوگ دسمبر کے مہنیے کو ایک ڈیپریس اور اداس حقیقت کے طور تسلیم کر تے ہیں ۔ مگر دسمبر کی اداسیوں کی وجوہات میرے نزدیک عام افراد سے بہت مختلف ہیں۔ جسے بیان کرنا بہت دل گردے کا کام ہے ۔ جسے الفاظ میں ڈھالنا اگر ناممکن نہیں تو ناممکن جیسا مشکل ضرور ہے ۔ کسی کا ذکر کرتے جب اسکا چہرہ آنکھوں میں گھوم جائے تو ۔دل جو ایک اسفنج کی طرح بھرا رہتا ہے اور چھلک پڑنے کو تیار ۔ لیکن آنکھیں سالوں کی مشق سے ۔ کمال ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے قرینوں کو چھلکنے سے باز رکھتی ہیں ۔ ایسے میں سانس لینا دشوار ہوجاتا ہے اور پھر الفاظ اپنی صورت کھو دیتے ہیں ۔ اور انگلیاں ساکت ہو جاتی ہیں۔ اور دسمبر میں ایک بے نام سے اداسی چھا جاتی ہے۔
خواہشیں
خواہشیں۔۔۔ ؏”
خواہشیں جو لپٹ گئیں
خواہشیں جو نمٹ گئیں
خواہشیں جو روٹھ گئیں
خواہشیں جو سوکھ گئیں
خواہشیں جو سحاب ہوئیں
خواہشیں جو خوآب ہوئیں
خواہشیں جو بے حجاب ہوئیں
خواہشیں جو خاک ہوئیں
خواہشیں جو کستوری ہوئیں
خواہشیں جو نا پوری ہوئیں
خواہشیں جو ادہوری رہیں
خواہشیں جو مریض ہوتی ہیں
خواہشیں جو حریص ہوتی ہیں
خواہشیں جو ترکیب ہوتی ہیں
خواہشیں جو قریب ہوتی ہیں
خواہشیں جو رقیب ہوتی ہیں
خواہشیں جو نصیب ہوتی ہیں
خواہشیں جو ایمان لے لیں
خواہشیں جو پیمان لے لیں
خواہشیں جو جان لے لیں
خواہش دیوانہ بھی کرتا ہے
خواہش پہ فرزانہ بھی مرتا ہے
خواہش ، خواہش کا قرض اتنا
خواہش ، خواہش کا فرق اتنا
خواہش جو تذلیل کرتی ہے
خواہش جو ذلیل کرتی ہے
خواہش جو جلیل کرتی ہے
خواہش جو گھٹا بن جاتی ہے
خواہش جو جلا بن جاتی ہے
خواہش جو صدا بن جاتی ہے
خواہش جو قضا بن جاتی ہے
؏”اجنبیؔ
جاوید چوہدری صاحب !۔
جاوید چوہدری صاحب!۔
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے پاکستان کے میڈیا مالکان۔ میڈیا سے اپنی مطلب براری کے لئیے میڈیا کے ڈونرز۔ پالیسی سازوں۔ایڈیٹروں۔ کالم نگارروں۔ ٹی وی میزبان ۔ نت نئے شوشے چھوڑنے والوں اور نان ایشوز کو ایشوز بنا کر قوم کو پیش کرنے والوں کا مقدمہ لڑتے ہوئے آپ نے اپنے کیس کو مضبوط بنانے کے لئیے سارے میڈیا کو ایک فریق بنا لیا ہے جو کہ سراسر غلط ہے ۔ اپنے مقدمے میں میڈیا سے متعلق سبھی شعبہ جات کو ملوث کر لیا ہے۔ جبکہ پاکستان کے قارئین و ناظرین کے اعتراضات میں میڈیا سے متعلق سبھی لوگ شامل نہیں۔ اور معدودئے چند ایسے لوگ ابھی بھی پاکستان میں ہیں جو حقائق کا دامن نہیں چھوڑے ہوئے اور ایسے قابل احترام کالم نگار اور میزبان اور جان جوکھوں میں ڈال کر رپوٹنگ کرنے والے رپوٹر حضرات (جنہیں بجائے خود میڈیا مالکان انکی جان کو لاحق خطرات کے لئیے کام آنے والی مختلف سہولیات بہم پہنچانے میں ناکام رہے ہیں) اور حقائق عوام تک پہنچانے والے یہ رپورٹرز عوام کے اعتراضات میں شامل نہیں۔ جسطرح ہر شعبے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں اسی طرح میڈیا سے متعلق ان لوگوں پہ عوام کو اعتراضات ہیں۔ جن کا بے مقصد دفاع آپ کر رہے ہیں۔
آپکی یہ منطق ہی سرے سے غلط ہے کہ اس ملک(پاکستان) میں سب چلتا ہے۔ اور تقریبا سبھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کئی ایک لوگ۔ جائز یا ناجائزطریقوں سے کیا کچھ نہیں کما رہے۔ اور اسی منطق کے تحت اگر میڈیا اور صحافت سے تعلق رکھنے والے بھی وہی طریقہ کار اپنا رہے ہیں تو اس میں حرج کیا ہے؟۔ اسکا مطلب تو عام الفاظ میں یہی بنتا ہے کہ صحافت بھی ایک کاروبار ہے اور پاکستان میں رائج جائز ناجائزسبھی معروف طریقوں سے صحافت میں مال اور رسوخ کمانا بھی درست سمجھاجائےَ؟۔ تو حضور جب آپ یہ بات تسلیم کر رہے ہیں کہ بہتی گنگا میں ہاتھ دہونے کا حق بشمول میڈیا سبھی کو حاصل ہے۔ تو پھر عوام حق بجانب ہیں جو آپ اور آپ کے مثالی کردار کے میڈیا پہ اعتراضات کرتے ہیں۔ تو پھر آپ کو اتنا بڑھا سیریل وار کالم لکھنے کی کیا سوجھی؟۔
آپ نے اپنی برادری کے وسیع المطالعہ ہونے کا تاثر دیا ہے۔ اپنی برادری کو پاکستان کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد حتیٰ کے عام آدمی تو کیا علماء اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والوں سے بڑھ کر اپنے وسیع المطالعہ ہونے کا دعواہ کیا ہے اور مطالعے کے لئیے مختلف کتابوں پہ اٹھنے والے اخراجات کا ڈھنڈورہ پیٹا ہے۔ پاکستان کی بہترین یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ہونے کے اعزاز کا چرچا کیا ہے۔
حضور جاوید صاحب۔ پاکستان کے تنخواہ دار میڈیا کے چند ایک نہائت قابل افراد کو چھوڑ کر باقی کے وسیع المطالعہ ہونے کا اندازہ ان کے کالم اور تحریرو تقریر سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ وہ اقوام عالم اور دور حاضر میں اسلام یا پاکستان کے بارے کسقدر باخبر ہیں۔ اور تاریخ وغیرہ کی تو بات ہی جانے دی جئیے۔ اس لئیے آپکا یہ دعواہ نمائشی اور فہمائشی تو ہوسکتا ہے ۔ مگر اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ کیونکہ علم خود اپنا آپ بتا دیتا ہے۔ علم اپنا تعارف خود ہوتا ہے۔
آپ نے اپنی برادری کی پاکستان کی بہترین یونیورسٹیز سے حاصل کی جانے والی لٹریسی ڈگریزکا ذکر کیا ہے ۔ ان میں پاکستان کی یونیورسٹیز جنہیں آپ بہترین بیان کر رہے ہیں۔ ان یونیورسٹیز کو دنیا کی بہترین چھ سو یونیورسٹیزکے کسی شمار میں نہیں رکھا جاتا۔ نہ اب اور نہ پہلے کبھی کسی شمار میں رکھا گیا ہے ۔ لیکن کیا آپ کے علم میں ہے؟ ۔ کہ پاکستان میں اور بیرون پاکستان جو قارئین اور ناظرین آپ کے میڈیا کو دیکھتے ہیں اور گھن کھاتے ہیں۔ اور پاکستانی میڈیا پہ اعتراضات جڑتے ہیں۔ ان میں سے ہزاروں کی تعداد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو آپ سے بھی اہم اور پیچیدہ موضوعات پہ ڈگریز رکھتے ہیں۔ اور بہت سے ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو دنیا کی بہترین یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ہیں۔اور گرانقدر تجربہ ان کے پاس ہے۔
ایسے ایسے نابغہ روزگار اور اعلٰی تعلیم یافتہ لوگ۔ بلاگنگ۔ فیس بک۔ سوشل میڈیا پہ صرف اس لئیے اپنی صلاحتیں بلا معاضہ پیش کرتے ہیں کیونکہ وہ آپ سے آپکے مثالی کردار میڈیا سے بیزار ہی نہیں بلکہ مایوس ہوچکے ہیں۔ اور ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے دنیا کی بہترین یونیورسٹیز سے بہترین موضوعات پہ ڈگریز لے رکھی ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟؟ ۔ یہ ڈگریز کا حوالہ اور تذکرہ محض آپکی کالم نگاری کے جواب میں ہے ۔ ورنہ لازمی نہیں کہ محض ڈگریز کے حصول سے ہی کوئی فرد زیادہ قابل بن جائے۔
ملک کے جن اٹھارہ کروڑ عوام سے آپ نے گلے شکوے کئیے ہیں۔ کیا کبھی آپ نے ۔ آپکے دیگر ساتھیوں۔ یعنی بہ حیثیت میڈیا کبھی یہ جاننے کی تکلیف گوارہ کی کہ وہی اٹھارہ کروڑ عوام آپ سے کسقدر مطمئن اور خوش ہیں۔ اس بارے آپ کے قابل قدر میڈیا نے کوئی سروے کیا ہو؟ ۔ عوام سے کبھی رائے مانگی ہو؟؟۔
حال میں۔ جعلی اور فرضی خبریں جنہیں آپ۔ آپ کے ساتھیوں اور پاکستانی میڈیا نے ان فرضی اور جعلی واقعات کو ٹاپ ایشوز بنا کرقوم کے سامنے پیش کیا۔ قوم کو ورغلایا۔ غلط طور پہ رائے عامہ کو ایک مخصوص سمت میں موڑنے کی کوشش کی۔ اور جب جب جھوٹ ثابت ہوجانے پہ سوشل میڈیا سے اور دیگر ذرائع سے شوروغوغا اٹھا۔ تو آپ کے بیان کردہ پاکستانی مثالی میڈیا کو اسقدر توفیق نہ ہوئی کے اس بارے اسی شدو مد سے وضاحت جاری کرتا۔
جاوید صاحب! آپ اس بات کا جواب دینا پسند کریں گے کہ میڈیا پہ میڈیا کے پروردہ اور منتخب دانشور جو جعلی واقعات اور جھوٹی خبروں پہ جس غیض غضب کا مظاہرہ اسلام اور شرعی حدود کے خلاف کرتے رہے ہیں ۔ آخر کار اسطرح کی خبریں جھوٹی ہونے پہ آپکے بیان کردہ مثالی اینکرز اور خود آپ نے کبھی انھی افراد کو دوبارہ بلوا کر جھوٹ کا پردہ آشکارا ہونے پہ دوبارہ اسی طرح کسی مباحثے کا اہتمام کیا؟ ۔ جس سے میڈیا کی طرف سے قوم کو اسلام اور شرحی حدود کے بارے ورغلائے جانے پہ انھیں یعنی عوام کو اصلی حقائق کے بارے پتہ چلتا؟۔
پاکستان کے عام قاری کو اس بات سے غرض نہیں۔ کہ آپ معاوضہ کیوں لیتے ہیں۔ انکا اعتراض اس بات پہ ہے کہ حکومتی مدح سرائی کے بدلے سرکاری اشتہاروں سے ملنے والے کروڑوں روپے کے معاوضوں سے دواوراق کے اخبارات سے دیکھتے ہی دیکھتے اربوں روپے کے نیٹ ورک کا مالک بن جانے والے میڈیا ٹائکونز نے آپ جیسے لوگوں کو لاکھوں رؤپے کے مشاہیرے پہ کس لئیے ملازم رکھا ہوا ہے؟۔ آپ اپنا رزق حلال کرنے کے لئیے وہی بات پھیلاتے ہیں۔ جس کا اشارہ آپ کے مالکان آپ کو کرتے ہیں۔ اور آپ اور آپ کی برادری بے لاگ حقائق کو بیان کرنا کبھی کا چھوڑ چکی۔ جس کا شاید آپ کو اور آپکی برادری کو ابھی تک احساس نہیں ہوا۔
آپ سے مراد آپکی برادری کے اینکرز و پروگرام میزبان و کالم نگاروں کی اکثریت اس”آپ“ میں شامل ہے۔ اس ضمن میں صرف دو مثالیں دونگا۔ پہلی مثال۔ وہ مشہور کالم نگار ۔ جس نے مبینہ ناجائز طور پہ حاصل کردہ اپنے پلاٹ کا ذکر کرنے پہ اپنی ہی برادری کے ایک صاحب کو ننگی ننگی گالیاں دیں۔ دوسری مثال ۔ حال ہی میں پاکستان کے ایک توپ قسم کے ٹی وی میزبان نے پاکستانی عوام کی امیدوں کے آخری سہارے چیف جسٹس جناب افتخار چوہدری صاحب کو دیوار کے ساتھ لگانے کے لئیے ایک دوسری خاتون میزبان سے ملکر رئیل اسٹیٹ کی ایک متنازعہ شخصیت کا پلانٹڈ انٹرویو لیا۔
ایسی ان گنت مثالیں گنوائی جاسکتی ہیں حیرت ہوتی ہے۔ آپ میڈیا کو پوتر ثابت کرتے ہوئے کیسے ناک کے سامنے نظر آنے والی ایسی گھناؤنی مثالوں اور زندہ حقائق کو نظر انداز کر گئے ہیں؟۔
آپ اپنی برادری کی پارسائی ۔ دیانتداری کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ جبکہ عوام پوچھتے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے امریکہ کے لئیے نرم گوشہ پیدا کرنے کے لئیے معاوضے یا رشوت کے طور پہ میڈیا کو میلینز ڈالرز کے الزامات کا جواب ، تردید یا وضاحت کیوں نہیں کی جاتی؟۔
بھارتی ثقافت کی یلغار جس سے ایک عام آدمی بھی بے چین ہے۔ اور آپ جیسے پاکستان کی بہترین یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ڈگری ہولڈرز کو کیوں نظر نہیں آتی۔ اگر پاکستانی میڈیا پہ محض کاروباری لالچ میں بھارتی میڈیا کی یلغار نظر آتی ہے تو آپ جیسے لوگ کیوں اسکے خلاف کمر بستہ نہیں ہوتے؟۔ اور اگر آپ کو ایسا کچھ نہیں نظر آتا یا نہیں لگتا تو آپ پاکستان کے ایک عام ناظر یا قاری کے جذبات سے کوسوں دور ہیں تو آپ انکے اعتراضات کیسے سمجھ سکتے ہیں؟۔
پاکستان میں آزاد میڈیا کے بجائے جانے والے ترانوں پہ صرف اتنا عرض کرنا چاہوں گا۔ کہ دنیا کے ان سبھی ممالک کی تاریخ گواہ ہے جہاں میڈیا حکومتی تسلط سے آزاد ہوا وہاں عوام نے آزاد میڈیا کو سینے سے لگایا۔ انکی ستائش کی اور جب میڈیا نے من مانی کرنا چاہی تو میڈیا پہ عوام نے اعتراضات کئیے اور میڈیا کو اپنی سمت درست کرنی پڑی۔ جبکہ پاکستانی میڈیا کو ایولیشن کے ایک معروف عمل کے تحت آزادی ملی تو میڈیا نے بے سروپا اور بے ھنگم طریقوں کو محض کاروباری حیثیت کو مضبوط کرنے کے لئیے استعمال کیا۔ اور چند ایک مخصوص کالم نگاروں کا جو کریڈٹ آپ نے وصولنے کی کوشش کی ہے کہ انکی جان کو خطرے درپیش ہوئے ۔ ایجنسیوں نے انھیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیں۔ وغیرہ۔ آپ کیا یہ بتانا پسند کریں گے ۔ کہ اگر وہ یہ سب نہ لکھتے تو پاکستان کے میڈیا کا کونسا گروپ انہیں منہ لگاتا؟۔ تو حضور یہ لکھنا ہی انکا فن اور پیشہ ٹہرا جس کا وہ ان گنت معاوضہ لیتے رہے ہیں اور بدستور بہت سی شکلوں میں تا حال وصول کر رہے ہیں۔
آپ نے ڈائنو سار کے قدموں سے اپنی روزی نکالنے کا ذکر کیا ہے۔ اپنے ارد گرد دیکھیں ۔ پاکستان کی اکثریت کس طرح اپنے تن سے سانس کا رشتہ جوڑے ہوئے ہیں ۔ اور ایک تصوارتی ڈائنو سار کے پاؤں سے نہیں ۔۔ بلکہ اس نظام کے ہاتھوں اپنی عزت نفس گنوا کر دو وقت کی روٹی بمشکل حاصل کر پاتے ہیں۔ جس نظام کو تقویت دینے میں ایک ستون آپ اور آپ کا میڈیا ہے۔
عوام کو شکوہ ہے کہ پاکستانی میڈیا عوام کے ناتواں جسم و جان میں پنچے گاڑے نظام کے مخالف فریق کی بجائے اسی نظام کا ایک حصہ ایک ستون ہے۔
نوٹ:۔ یہ رائے عجلت میں لکھ کر جاوید چوہدری کے کالم پہ رائے کے طور بھیجنے کی بارہا کوششوں میں ناکام ہونے کے بعد اسے یہاں نقل کردیا ہے۔ موصوف کے آن لائن اخبار پہ انکے کالم پہ لکھنے کی صورت میں اسپیم کی اجازت نہیں وغیرہ لکھا آتا ہے۔
کولبیرٹ ازم ۔ برصغیر ہندؤستان۔ اور برئنیر رپورٹ۔چوتھی قسط
کولبیرٹ ازم ۔ برصغیر ہندؤستان۔ اور برئنیر رپورٹ۔ چوتھی قسط۔
برنئیر کی ہندؤستان کے بارے ۔مذہب سے لیکر خاندانی رسم و رواج ۔سیاست اور انتظامیہ کے متعلق معلومات انتہائی مفید تھیں۔ مالی اور اقتصادی مقابلے کے لئیے مسابقت کی دوڑ میں شامل ہونے سے قبل ضروری تھا۔ کہ ہر نقطہ نظر اور ہر زاویے سے ۔ اہم معلومات کے ساتھ (کسی ممکنہ مہم جوئی کی صور ت میں )کچھ اہم امور سرانجام دئیے جائیں۔اور اسی وجہ سے ریاستوں کو ایسے معاملات میں عام افراد اور نجی فرموں پہ برتری حاصل تھی۔”سابقہ ادوار یعنی حکومتوں میں نوآبادیت سے متعلقہ مسائل میں ایک بڑا الجھا ہوا مسئلہ ریاستوں اور کمپنیوں کے مابین ملکیت اور اختیارات کا مسئلہ تھا ۔ ملکیت اور اختیارات کے اس گنجلک مسئلے کے سیاسی اور مالی پہلو تھے ۔ اور اسے ”خصوصیت “ نام دیا گیا اور اس مسئلے کا حل”خصوصیت “ نامی نظام,( "L’exclusif” )پہ منحصر تھا۔ جسے بعد کی حکومتوں میں ”نوآبادیت معائدہ“ یعنی” کالونی پیکٹ “کا نام دیا گیا ۔(۱۴٭)۔
کمپنیوں کی کثیر جہتی سرگرمیاں عموماَ ایک تسلسل کے ساتھ ریاستوں کی مقرر کردہ سفارتی اور قانونی حدود پار کرتی رہتیں ۔ سترہویں صدی کے وسط سے (تجارتی مفادات حاصل ہونے۔ اور تجارتی مفادات کی اہمیت کے باوجود) کمپنیوں اور ریاستوں کی آپس میں ہمیشہ صلح نہیں رہتی تھی۔ یعنی آپس میں مفادات کا ٹکراؤ ہوتا تھا ۔(۱۵٭)۔
برنئیر اس ساری صورتحال کے بارے باخبر ہونے کی وجہ سے یہ جانتا تھا کہ اسکی مہیاء کردہ معلومات کسقدر اہم اور مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔اسلئیے وہ تمام تفضیلات اور جزئیات بیان کرتا ہے۔برنئیر لکھتا ہے”یہ نکتہ بہت اہم اور نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ مغل فرماں روا شعیہ نہیں جو علیؓ ( رضی اللہ تعالٰی عنہ) اور انکی آل کو مانتے ہیں۔ جیسا کہ ایران میں شعیہ مانتے ہیں ۔ بلکہ مغل فرماں روا محمدن ہے ۔ (صلی اللہ علیہ وسلم ) (یعنی سُنی مسلک رکھتا ہے) اور نتیجتاَمغل باشاہ کے دربار میں سُنی درباریوں کی اکثریت ہے ۔ ترکی کے مسلمانوں کی طرح انکامسلک سُنی ہے جو عثمانؓ ( رضی اللہ تعالٰی عنہ) کو ماننے والے ہیں ۔ اسکے علاوہ مغل فرماں روا کے ساتھ ایک اور مسئلہ ہے کہ مغل بادشاہ کے آباءاجداد غیر ملکہ ہونے کی وجہ سے خود مغل بادشاہ بھی غیر ملکی سمجھا جاتا ہے ۔ مغل بادشاہ کا نسب تیمور لنگ سے جا ملتا ہے جو تاتار کے منگولوں کا سردار تھا ۔ مغل بادشاہ کے اجداد ۱۴۰۱ء چودہ سو ایک عیسوی میں ہندؤستان پہ حملہ آور ہوئے ۔اور ہندؤستان کے مالک بن گئے۔اسلئیے مغل فرماں روا تقریباَایک دشمن ملک میں پایا جاتاہے۔ فی مغل بلکہ فی مسلمان کے مقابلے پہ سینکڑوں کٹڑ بت پرستوں اور مشرکوں (idolaters)کی آبادی ہے۔ اسکے علاوہ مغل شہنشاہیت کے ہمسائے میں ایرانی اور ازبک بھی مغل شہنشاہ کے لئیے ا یک بڑا درد سر ہیں ۔ جسکی وجہ سے امن کا دور ہو یا زمانہ جنگ مغل شہنشاہ بہت سے دشمنوں میں گھرا رہتا ہے اور ہر وقت دشمنوں میں گھرا ہونے کی وجہ سے مغل شہنشاہ اپنے آس پاس بڑی تعداد میں اپنی افواج دارالحکومت، بڑے شہروں اور بڑے میدانوں میں اپنی ذات کے لئیے تیار رکھتا ہے۔برنئیر کے الفاظ میں”آقا ۔(مائی لارڈ) اب میں آپ کو مغل شہنشاہ کی فوج کے بارے کچھ بیان کرتا چلوں کہ فوج پہ کتنا عظیم خرچہ اٹھتا ہے ۔ تانکہ آپ کو مغل شہنشاہ کے خزانے کے بارے کسی فیصلے پہ پہنچ سکیں“ ۔(۱۶٭)۔
فوجی شان و شوکت کی نمائش بہت کشادہ اور نمایاں طور پہ کی جاتی ہے۔ ۔مالیاتی کمپنیوں کی طرف سے فیکٹریوں کے قیام کی حکمت عملی کے بعد سے۔ مغل شہنشاہ کی طرف سے اس فوجی شان و شوکت کی نمائش کی اہم مالی اور فوجی وجوہات ہیں ۔کیونکہ اسطرح
۱)۔ مغل شہنشاہ یوں اپنی دفاعی صلاحیت کا عظیم مظاہرہ کرتا ہے ۔
۲)۔ مغل شہنشاہ یوں اتنی بڑی فوج پہ اٹھنے والے اخراجات کے ذریعیے مالی استحکام کا پیغام دیتا ہے ۔
۳)۔ مغل شہنشاہ یوں مختلف قوموں کے خلاف جیتے گئے محاذوں کی کامیابیوں کی دھاک بٹھاتا ہے
۴) مغل شہنشاہ یوں اپنی افواج کی نمائش سے فوجوں میں شامل مختلف قومیتوں اور قوموں کی کثیر النسل سپاہ کی شمولیت سے سے برابری اوراتنی قوموں کے بادشاہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔
۵)۔ مغل شہنشاہ اسطرح اپنے فوجی ساز و سامان کی نمائش سے کسی قسم کی ممکنہ بغاوت کو روند دینے کی طاقت اور قوت کا مظاہرہ کرتا ہے۔
اب ملاحظہ ہو ۔ اؤل ۔وہ فوج ہے جو شہنشاہ کی سرکاری فوج ہے ۔ اور جسکی تنخواہیں اور اخراجات لازمی طور پہ بادشاہ کے خزانے سے جاتی ہیں۔(۱۷٭)۔
”پھر وہ افواج ہیں ۔جن پہ راجوں کا حکم چلتا ہے ۔ بعین جیسے جے سنگھے اور دیگر ۔ جنہیں مغل فرماں روا بہت سے عطیات دیتا رہتا ہے تانکہ راجے وغیرہ اپنی افواج کو جن میں راجپوتوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے ۔ انہیں ہمیشہ لڑائی اور جنگ کے لئیے تیار رکھیں۔ ان راجوں وغیرہ کا مرتبہ اور رتبہ بھی بادشا ہ کے امراء کے برابر سمجھا جاتا ہے ۔ جو زمانہ امن میں فوجوں کے ساتھ شہروں میں اور میدان جنگ میں اپنی اپنی افواج کے ساتھ بادشاہ کی ذات کے گرد حفاظتی حصار کھینچے رکھتے ہیں ۔ان راجوں مہاراجوں کے فرائض بھی تقریباَوہی ہیں جو امراء کے ہیں۔ بس اتنا فرق ہے کہ امراء یہ فرائض قلعے کے اندر ادا کرتے ہیں۔ جبکہ کہ راجے وغیرہ فصیل شہر سے باہر اپنے خیموں میں بادشاہ کی حفاظت کا کام سر انجام دیتے ہیں“۔(۱۸٭)۔
برنئیر تفضیل پیان کرتا ہے کہ کس طرح جب راجے وغیرہ قلعے کے نزدیک آتے ہیں تو وہ اکیلے نہیں ہوتے بلکہ راجوں کے ساتھ وہ خصوصی سپاہی بھی ہوتے ہیں جو کسی بھی وقت حکم ملنے پہ اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتار دینے کے لئیے تیار رہتے ہیں ۔(۱۹٭)۔
مغل فرماں روا جن وجوہات کہ بناء پہ راجوں کی سے یہ خدمات لینا ضروری سمجھتا ہے ۔وہ وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔:
۱)۔راجوں کی سپاہ پیشہ ورانہ تربیت اچھی ہوتی ہے اور ایسے راجے بھی ہیں جو کسی وقت بھی بادشاہ کی کسی مہم کے لئیے بیس ہزار یا اس سے زیاہ گھڑ سوارں کے ساتھ تیار رہتے ہیں۔
۲)۔مغل بادشاہ کو ان راجوں پہ بھروسہ ہے جو بادشاہ کے تنخوادار نہیں ۔ اور جب کوئی ان راجوں میں سے سرکشی یا بغاوت پہ آمادہ ہو ۔ یا اپنے سپاہیوں کو بادشاہ کی کمان میں دینے سے انکار کرے۔ یا خراج ادا کرنے سے انکار کرے ۔ تو مغل بادشاہ انکی سرکوبی کرتا ہے اور انہیں سزا دیتاہے۔اس طرح یہ راجے بادشاہ کے وفادار رہتے ہیں۔(۲۰٭)۔
دوسری ایک فوج وہ ہے جو پٹھانوں کے خلاف لڑنے یا اپنے باغی امراء اور صوبیداروں کے خلاف لڑنے کے لئیے ہے۔ اور جب گولکنڈاہ کا مہاراجہ خراج ادا کرنے سے انکار کردے ۔ یا وسا پور کے راجہ کے دفاع پہ آمادہ ہو تو اس فوج کو گولکنڈاہ کے مہاراجہ کے خلاف لڑایا جاتا ہے ۔ یا ان فوجی دستوں سے تب کام لیا جاتا ہے جب ہمسائے راجوں میں سے کسی کو اس کی راج گدی سے محروم کرنا مقصود ہو۔ یا ان راجوں کو خراج ادا کرنے کا پابند کرنا ہو تو اس فوج کے دستے حرکت میں لائے جاتے ہیں ۔ان سبھی مندرجہ بالا صورتوں میں اپنے امراء پہ بھروسہ نہیں کرتا کیونکہ وہ زیادہ تر ایرانی النسل اور شعیہ ہیں۔جو بادشاہ کے مسلک سے مختلف مسلک رکھتے ہیں ۔(۲۱٭)۔
مسلکی اور مذہبی معاملات کو ہمیشہ مدنظر رکھا جاتا ہے۔ کیو نکہ دشمن کے مذہب یا مسلک کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک طرح یا دوسری طرح کی افواج کو میدانِ جنگ میں اتارا جاتا ہے ۔ اگر ایران کے خلاف مہم درپیش ہو تو امراء کومہم سر کرنے نہیں بیجھا جاتا کیونکہ امراء کی اکثریت میر ہے اور ایران کی طرح شعیہ مسلک رکھتی ہے۔ اور شعیہ ایران کے بادشاہ کو بیک وقت امام ۔ خلیفہ ۔ اور روحانی بادشاہ ۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے دامادعلیؓ (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کی آل مانتے ہیں۔ اسلئیے ایران کے بادشاہ کے خلاف لڑنے کو ایک جرم اور بہت بڑا گناہ سمجھتے ہیں۔ مغل بادشاہ اسطرح کی وجوہات کی بناء پہ پٹھانوں کی ایک تعداد کو فوج میں رکھنے پہ مجبور ہے۔اور آخر کار مغل بادشاہ مغلوں پہ مشتمل ایک بڑی اور بادشاہ کی بنیاد فوج کے مکمل اخراجات بھی اٹھاتا ہے ۔ مغل افواج ہندوستان کی بنیادی ریاستی فوج ہے۔جس پہ مغل فرماں روا کے بہت اخراجات اٹھتے ہیں ۔(۲۲٭)۔
اس کے علاوہ مغل فرماں روا ں کے پاس آگرہ میں ۔ دلی میں اور دونوں شہروں کے گرد و نواح میں دو سے تین ہزار گھڑ سوار کسی بھی مہم کو جانے کے لئیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔بادشاہ کی روز مرہ کی مہموں کے لئیے۔ بادشاہ کے پاس ۸۰۰ آٹھ سو سے ۹۰۰ نو سو تک کے لگ بھگ ہاتھی ہیں ۔بڑی تعداد میں خچر اور سامان کھینچنے والے گھوڑے ہیں۔ جن سے بڑے بڑے خیمے ۔ قناتیں ۔ بیگمات اور انکا سازوسامان ۔ فرنیچر ۔ مطبخ (باورچی خانہ)۔مشکیزے ۔اور سفر اور مہموں میں کام آنے والے دیگر سامان کی نقل و حرکت کا کام لیا جاتا ہے۔(۲۳٭)۔
مغل فرماں روا کے اخراجات کا اندازہ لگانے کے لئیے اس میں سراؤں یا محلات کے اخراجات بھی شامل کر لیں ۔جنہیں برنئیر ” ناقابل ِ یقین حد تک حیران کُن “ بیان کرتا ہے۔”اور جنہیں (اخراجات کو) آپکے اندازوں سے بڑھ کر حیرت انگیز طور پہ ناگزیر سمجھا جاتا ہے“۔ یہ محل اور سرائے ایسا خلاء ہیں جس میں قیمتی پارچات ۔ سونا۔ ریشم ۔ کمخوآب ۔ سونے کے کام والےریشمی پارچات ۔غسل کے لئیے خوشبودار گوندیں اور جڑی بوٹیاں ۔امبر ۔اور موتی ان خلاؤں میں گُم ہو جاتے ہیں۔”اگر مغل فرماں روا کے ان مستقل اخراجات جنہیں مغل فرما روا ں کسی طور نظر انداز نہیں کرسکتا اگر ان مستقل اخراجات کو مدنظر رکھاجائے تو مغل شہنشاہ کے ختم نہ ہونے والے خزانوں کے بارے آپ فیصلہ کر سکتے ہیں ۔ جیسا کہ مغل شہشنشاہ کے بارے بیان کیا جاتا ہے اور مغل شہنشاہ کی ناقابل تصور امارت جس کی کوئی حد نہیں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔(۲۴٭)۔”اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بادشاہ بہت بڑے خزانوں کا مالک ہے بلکہ ایران کے باشاہ اور آقا کے خزانوں کو ملانے سے بھی بڑھ کر مغل فرماں روا کے پاس ذیادہ خزانے ہیں۔(۲۴٭)۔
جاری ہے۔
(14) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., ob. cit., pág. 398.
(15) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., pág. 399.
(16) BERNIER, ob. cit., pág. 197.
(17) BERNIER, ob. cit., pág. 197.
(18) BERNIER, ob. cit., pág. 198.
(19) BERNIER, ob. cit., pág. 198.
(20) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(21) BERNIER, ob. cit., pág. 198, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(22) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(23) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15, 16 y 17.
(24) BERNIER, ob. cit., pág. 200.
کولبیرٹ ازم ۔ برصغیر ہندؤستان۔ اور برئنیر رپورٹ۔تیسری قسط
کولبیرٹ ازم ۔ برصغیر ہندؤستان۔ اور برئنیر رپورٹ۔تیسری قسط
فرانسسکو برنئیر لکھتا ہے۔(ہندؤستان میں) وراثتی بندوبست ایک قانون کے درجے کے طور تسلیم کیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں امراء منصب دار ۔ یعنی نسبتا چھوٹے امراء مغل فرمانروا (بادشاہ) کو وراثت میں ملتے ہیں۔ جو بادشاہ سے وظیفہ پاتے ہیں۔
اسی وراثتی بندوبست کے تحت ناج اگانے والی کچھ زمینوں اور باغات پہ رعایا کویہ اجازت ہے کہ وہ ان زمینوں کی خریدو فروخت کرسکیں یا وراثت کے طورپہ ملنے والی زمین کو آپس میں تقسیم کر سکیں ۔ اسکے علاوہ شہنشہاہی بندوبست کی کل زمین بادشاہ کی ملکیت ہے۔ برنئیر ۔ کولبیرٹ کو مخاطب کرتے لکھتا ہے۔”آپ اس نتیجے پہ پہنچیں گے کہ کہ یہی نہیں کہ ہندؤستان میں سونے اور چاندی کی کانیں نہ ہونے کے باوجود ۔ ملک میں بہت بڑی مقدار میں سونا اور چاندی موجود ہے ۔ بلکہ اسکے علاوہ مغل فرماں روا کے پاس بہت سے قیمتی خزانے ہونگے۔ (۷٭)۔
مزید براں ۔برنئیر کے اس بیان میں فرانس کے لئیے ان مالی اور سماجی مسائل کی نشاندہی کا بھی ذکر ملتا ہے۔ جواگر فرانس کو ہندؤستان کو اپنی نوآبادی بنانے میں دلچسپی ہونے کی صورت میں۔ ہندؤستان کو نو آبادی بنانے کی ایسی کسی کوشش کے نتیجے میں نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں ۔ ان مسائل کے پس منظرمیں مختلف النوع کی وجوہات ہیں۔ جن کی وجہ سے عظیم مغل سلطنت پہ حکمرانی قائم کرنے میں بہت مشکلات حائل ہیں۔ اور خاصکر اس صورت میں جب انگریز شہزادوں اور مقامی حاکموں سے اپنے مفادات طے کر رہے ہوں۔اس ساری حوصلہ شکن صورتحال اور بیان کردہ نہ قابل قبول حالات کی وجہ سے سونا ہندؤستان سے باہر نہیں جا پاتاتھا۔ اس سے برصغیر ہندؤستان کی مختلف النوع قسم اور دلچسپ ہیبت ترکیبی کا پتہ چلتا ہے۔
برنئیر کی رپوٹ سے مندرجہ ذیل نتیجہ سامنے آتاہے۔
۱)۔ہندؤستان کی زمین کا ایک حصہ پتھریلا ہے ۔ کم زرخیز پہاڑ ہیں جہاں بہت کم کاشتکاری ہوتی ہے۔ اور (اسی وجہ سے) آبادی بہت کم ہے۔
۲)۔ انتہائی زرخیز زمین جو افرادی قوت نہ ہونے کی وجہ سے غیر آباد ہیں۔
۳)۔بہت سے کسان مقامی حاکموں (گورنرز) کے مظالم کا شکار ہیں اور جان سےجاتے ہیں۔ عام طور پہ مقامی حاکموں(گورنرز) نے انہیں انتہائی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم کر رکھا ہے یہاں تک کہ جب ماں باپ لگان ادا نہ کر سکیں یا حاکموں کی احکام سے رد گردانی کریں تو انکے بچوں کو چھین لیتے ہیں۔ جنہیں غلام بنا لیا جاتا ہے۔
۴)۔ اندرونی نقل مکانی۔ بہت سے کسانوں نے مایوس ہوکر کھیتوں کو خیر آباد کہہ کر اجرت پہ مزدوری کرنے کو ترجیج دیتے ہوئے شہروں کا رخ کیا۔ جہاں انہوں نے سقہ (بہشتی یعنی ماشکی) اور پانڈی (وزن ڈھونے والوں) کا پیشہ اپنا لیا۔ یا پھر فوج میں بھرتے ہوگئے۔اورکچھ دوسری راجدھانیوں کو بھاگ گئے۔ جہاں ظلم و ستم نسبتاَ کم تھا۔
۵)۔ بہت سی ریاستیں اور قومیں ایسی ہیں جہاں کے حکمران مغل نہیں۔ اور ایسی ریاستوں اور قوموں کے سربراہ مغلوں کے احکامات ماننے سے انکاری ہیں اور خراج نہیں دیتے یا ان سے بہ جبر لگان وصول کیا جاتا ہے۔ یا پھر وہ ریاستیں ہیں جو نہ ہونے کے برابر خراج دیتیں ہیں۔ اور آخر میں وہ قومیں یا ریاستیں آتی ہیں۔ جو مغل سلطنت سے امداد لیتی ہیں۔
۶)۔ وہ ریاستیں جو خراج ادا نہیں کرتیں۔ وساپور Visapur کا باشاہ کسی قسم کا خراج نہیں ادا کرتا اور ہمیشہ مغل سلطنت سے جنگ آزماء رہتا ہے۔
جسکی۔ ۵ ۔درذیل وجوہات ہیں۔
الف)۔وسا پور کے حکمران کے پاس خاصی تعداد میں افواج ہونے کی کی وجہ۔
ب)۔ وسا پور سے دہلی اور آگرہ خاصے دور ہونے کی وجہ سے۔
ج)۔ اس حکمران کے پاس انتہائی مضبوط قلعہ ہے۔جس کو سر کرنا انتہائی دشوار اور کھٹن ہونے کی وجہ سے۔
د)۔ حملہ آوار افواج اور بابرداری کے جانوروں کے لئیے رستے میں چارہ اور پانی ملنے کی کوئی صورت نہ ہونے کی وجہ سے۔
اسکے علاوہ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ بہت سے راجے۔ وساپور Visapur کے مشترکہ دفاع کے لئیے اسکے حکمران کے ساتھ اتحاد کر لیتے ہیں۔مثال کے طور پہ مشہور و معروف۔ شیو جی ۔ جس نے کچھ عرصہ قبل۔ سُورت ۔کی بندرگاہ کو لوٹا اور جلادیا ۔
گولکنڈاہ کا طاقتور حکمران بھی مغل سلطنت کو کسی قسم کا خراج ادا نہیں کرتا۔ جو خفیہ طور پہ وسا پور کے راجہ کی مالی معاونت کرتا تھا اور ہمیشہ اسکی ایک فوج ضرورت پڑنے پہ ۔وسا پور کی سرحد پہ وسا پور کے دفاع کے لئیے تیار رہتی ہے۔
مغل سلطنت کے نواح میں کم وبیش اسی طرح لگ بھگ سو کے قریب مشرک (idolaters) راجوں کے ساتھ یہی معاملہ تھا۔ جن میں سے کچھ کی راجدھانیاں تو آگرہ اور دلی نزدیک واقع تھے ۔کچھ کی راجدہانیاں بہت زیادہ دور دراز واقع تھیں۔
جن میں سے پندرہ سولہ تو بہت زیادہ امیر اور طاقتور ہیں۔اور پانچ یا چھ راجے جیسے کہ رانا جوایک طرح کا راجوں مہاراجوں کا شہنشہاہ ہوتا ہے۔ اسکے بارے بیان کیا جاتا ہے کہ اسکا نسب۔ راجہ پورس ۔سے جا ملتا ہے ۔ اگر کوئی تین ایک مل جائیں تو مغل حکمران کے لئیے ایک بڑا درد سر بن سکتے ہیں۔کیونکہ ان میں سے ہر راجہ مغل فوج کی نسبت بہتر تربیت یافتہ بیس ہزار سوار کسی وقت بھی اکھٹے کرسکتا ہے ۔گھڑ سوار فوج کے ان سپاہیوں کو ۔راجپوت۔ کہا جاتا ہے۔یعنی ۔راجوں کے سپوت۔خاندانی پیشہ سپاہ گری باپ دادا کی طرح نسل در نسل انکے خون میں شامل ہے۔راجے مہاراجے انھیں اس شرط پہ زمینں عطا کرتے ہیں کہ بوقت ضرورت یہ گھوڑے کی پیٹھ پہ سوار ہوکر جنگ میں حصہ لیں گے۔۔ (۸٭)۔
اسکے علاوہ بلوچ ۔ افغان۔ کوہستانی۔ کی اکثریت بادشاہ یا مغل سلطنت کو کسی قسم کا خراج ادا نہیں کرتے اور مغل فرمانروا کو بلوچوں ۔ افغانوں اور کوہستانیوں کی طرف سے خراج نہ ادا کئیے جانے پہ کوئی خاص فکر بھی نہیں ہے۔(۹٭)۔
پٹھان بھی خراج ادا نہ کرنے والوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ جو مغلوں کے حملہ آور ہونے سے پہلے دلی اور اسکے بہت سی جگہوں پہ زیادہ طاقتور ہوچکے تھے۔ اور انہوں نے انگنت راجوں کو اپنا باجگزار بنا لیا تھا۔(۱۰٭)۔
کسی بھی ریاست کی طرف سے اپنی نو آبادیوں میں اضافہ کرنے کے لئیے ۔اس دور کے مشاہدات اور تجربات کے مطابق بہت سی باتوں کو مدِ نظر رکھنا پڑتا تھا۔تانکہ اسقدر دور اور اسقدر سرمایہ کاری کرنے کے بعد کم از کم کچھ نہ کچھ کامیابی حاصل ہوسکے ۔ فرانس میں متعدد مہمیں محض ناکافی معلومات کی وجہ سے ناکام ہوچکی تھیں۔تجرباتی منصوبہ بندی وقت کے ساتھ ”چارٹرڈ کمپینوں“ کے ذرئعیے دور دراز علاقوں تک پھیل گئی۔”انڈیا اورئنٹل“ نامی کمپنیاں بہت سے ممالک تک پھیل چکی تھیں۔ ”کیپ آف گڈ ہوپCape of Good Hope“۔ سے لیکر ۔ ” اسٹرائٹ آف میگیلین Strait of Magellan“۔ تک ان کمپنیوں کی مکمل اجارداری قائم ہوچکی تھی۔(۱۱٭)۔اس مشق کی وجہ سے مہم جوئی اور ایڈونچرازم کے شوق میں اضافہ ہوا۔ نتیجتاَ مبالغہ انگیز تعداد میں کمپنیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ افراد کی نسبتاَ ریاستیں زیادہ باخبر ہونےاور درست معلومات رکھنے کی وجہ سے اپنی نگرانی میں ایک ترجیجی کمپنی رکھتیں تھیں ۔ جبکہ ۱۶۰۰ء سولہ سو عیسوی اور ۱۷۸۹ء سترہ اننانوے عیسوی کے دوران صرف فرانس کے لئیے ۷۷ ستتر کمپنیوں کا پتہ چلتا ہے ۔اور سات ۷کمپنیاں صرف ”اورئنٹل انڈیا“ کے لئیے مخصوص تھیں ۔ جبکہ یہ فہرست ابھی مکمل نہیں۔۔(۱۲٭)۔دوسری طرف صورتحال سے مکمل آگہی اور وسائل صرف کبھی کبھار ایسے مواقع پیدا کرتے تھے کہ کوئی مثالی آبادکار کسی نو آبادی میں جابسے۔لیکن دور دیسوں میں جا بسنے کے لئیے ناپسندیدہ جرائم پیشہ افراد ۔جہالت اور یقین کے ہاتھوں عام طور پہ بحری جہازوں پہ سوار ہوجاتے تھے ۔ فرانس میں سے بنیادی طور پہ ۔”نوغمندیا۔ نارمنڈی۔ Normandía“۔ ”برطانیہ ۔برطانی۔ Bretaña “۔ ”پوئیتو Poitou “۔ ”سینت تونج Saintonge“ سے لوگ نوآبادیوں میں جا کر آباد ہوئے۔ یہاں تک کہ کولبیرٹ ان کوششوں کا کہ لوگ جا کر نوآبادیوں میں آباد ہوں۔ مگر اسکی انتھک کوششوں کا کوئی مثبت اور خاطر خواہ نتیجہ برآمدنہ ہوسکا ۔(۱۳٭)۔
(جاری ہے)
(7) BERNIER, ob. cit., pág. 194
(8) BERNIER, ob. cit., págs. 196 y 197.
(9) BERNIER, ob. cit., pág. 185.
(10) BERNIER, ob. cit., pág. 195.
(11) RiCH, E. E., y WiLSON, C. H., Historia Económica de Europa, t. IV; La Economía
de Expansión de Europa en los siglos XVI y XVII, versión de Javier García
Julve, Edit. de Derecho Privado, Jaén, 1977, pág. 351.
(12) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., ob. cit., pág. 390.
(13) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., ob. cit., pág. 390.