بلی تھیلے سے باہر۔۔۔
زیادہ وقت نہیں گزرا بھارتی وزیر اعظم افغانستان سے واپسی پہ اپنے لاؤ لشکر سمیت اچانک لاہور ائر پورٹ پہ اترے۔
ایک دوسرے سے خبر دینے میں سبقت لے جانے کی دوڑ میں میڈیا کاسٹرز کی آواز کانپ رہی تھی۔ اس اچانک افتاد کے آن پڑنے سے حکومت پاکستان کے اہلکاران اور اعمال کے ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے۔ انھیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ اور حکمران پھولے نہیں سما رہے تھے۔ بھاگم بھاگ دونوں دونوں ہاتھوں سے مودی کو جھپیاں ڈال رہے تھے۔ پاکستان کے ساتھ سبھی تصفیہ طلب مسائل باالخصوص کشمیر پہ بھارت کا غاصبانہ قبضہ۔ پاکستانی دریاؤں کا پانی روکنے کی ناپاک کوششیں۔ پاکستان کے اندر دہشت گردی۔ پاکستان کے خلاف معاندانہ پروپگنڈہ۔ اور دیگر مسائل کو بائی پاس کرتے ہوئے۔ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہمارے وزیر اعظم اور مودی کی تصاویر ہر طرف گردش کر رہی تھیں۔ بھارتی وزیراعظم مودی ریاستِ پاکستان کی بجائے ہمارے حکمرانوں کے ذاتی دوست ہونے کا تاثر چھوڑنے میں کامیاب رہے۔ اور عوام حیران پریشان تھے کہ ہم کسے اپنا کہیں؟ کسے دشمن جانیں ؟
اس سے بھی کچھ اور عرصہ قبل پیچھے چلے جائیں۔ جب مودی گجرات کے مسلمانوں کے خون سے غسل کر کے پورے بھارت کے مسلمانوں کو دیوار کے ساتھ لگاتے بھارت کا وزیر اعظم بنے تو ہمارے وزیر اعظم مودی کی حلف برداری کی تقریب پہ پہنچے۔ پھر ساڑھیوں۔ شالوں اور نیک خواہشات کے تبادلے ہوئے۔ نیک خواہشات جو محض وزیر اعظم پاکستان کے افرادِ خانہ کے لئیے تھیں۔ جن میں پاکستان اور پاکستانی قوم کے لئیے کچھ نہ تھا۔ نہ کوئی نیک خواہش نہ کوئی پیغام ۔ کچھ بھی نہیں تھا۔ مگر وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز جنہیں کچھ حلقوں کی جانب سے نائب وزیراعظم بھی کہا جاتا ہے۔ وہ ٹوئٹر پہ ساڑھیوں کی تفضیل اور رنگت بیان کرتیں پھولی نہیں سماتیں تھیں۔
پھر ہمیشہ کی طرح لہو لہو رستے کشمیر کے باسیوں نے ایک بار پھر جہاں اپنے خون اور جانوں کی قربانی دے کر بھارت۔ اور بھارتی حکمرانوں کے اصل چہروں کو بے نقاب کردیا ہے۔ وہیں پاکستان میں بھارت سے امن کی آشا کے راگ الاپنے والوں۔ تنخواہ دار غلاموں۔ زر خرید سیاستدانوں۔ بھارت سے امن آتشی کے منتر پڑھنے والے جعلی دانشوروں۔ اور بھارت کی حمایت میں بھانت بھانت کی بولی بولنے والے میڈیا پرسنز کے منہ سے بھی نقاب نوچ ڈالا ہے۔
سارک ممالک کے وزرائے داخلہ کے عمومی اجلاس میں شرکت کے لئیے بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ روائتی بھارتی گھمنڈ میں میزبان پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار سے ملاقات کسی طور نہ کرنے کا پیشگی بیان دے کر اسلام آباد پہنچے۔ تفاخر اور بھارتی برہمنی گھمنڈ میں اجلاس کے دوران میزبان ملک کی عزت کو روندنے کی جسارت کرتے ہوئے پاکستان پہ برسے اور جب لالہ جی کو پاکستانی وزیر داخلہ نے انکی اوقات یاد دلائی تو موصوف خفت کے مارے منہ چھپاتے وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے اور نئی دلی پہنچ کر دم لیا۔
اجلاس کے دوران وہ چھ سے آٹھ مرتبہ واش روم گئے اور فون پہ بھارتی وزیر اعظم کو لمحے لمحے کی روداد سناتے اور مزید نئی ہدایات لیتے۔
جب کہ ہمارے یہاں وزیر داخلہ چوہدری نثار کے علاوہ سبھی حکمرانوں بشمول وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کسی نے اس بارے دو الفاظ تک ادا نہیں کئیے۔ جبکہ چوہدری نثار نے ایک پاکستانی اور پاکستانی رہنماء ہونے کا حق ادا کیا۔
چند ہی دنوں بعد کوئٹہ کا حالیہ افسوسناک دھماکہ ہوا اور اس سانحہ میں بہتر سے زائد لوگ جان سے گئے ۔شہید ہوئے۔ جن میں کم ازکم پچپن وکلاء تھے۔
قومی اسمبلی اور قومی اسمبلی سے باہر بھانت بھات کی بولی بولنے والے کچھ لوگوں اور سیاستدانوں نے قوم کو ایسے نازک موقع پہ دہشت گردی کے خلاف متحد ہونے کا پیغام دینے کی بجائے ایک نہائت منظم طریقے سے لاکھوں جانوں کی قربانی دینے والے پاکستان کی قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے خلاف الزامات تراشی کی اور بھارت سے معذرتی رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے بھارت اور افغانستان کا کھایا نمک حلال کیا اور پاکستانی سے نمک حرامی کرتے ہوئے بیانات داغے۔ یہاں بھی ایک بار پھر چوہدری نثار اور کچھ دیگر محبانِ وطن نے ایسے احمقوں کو کھری کھری سنائیں۔
رات۔ آج رات بھارتی وزیر اعظم نے کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک کو دبانے کے لئیے بلائی گئی بھارت کی کل جماعتی کانفرنس میں مقبوضہ کشمیر اور اسکے مظلوم عوام پہ اپنا تسلط برقرار رکھتے ہوئے ہر قسم کے بین القوامی اخلاقی ضابطوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نہائت ڈھٹائی سے الٹا پاکستان سے بلوچستان اور آزاد کشمیر کا حساب مانگنے کی یاوہ گوئی کی ہے اور حسب معمول پاکستان کے خلاف معاندانہ زبان استعمال کی ہے یعنی بلی کھل کر تھیلی سے باہر آگئی ہے۔
اب جب کہ بھارتی وزیر اعظم نے اپنے چہرے سے نقاب اتار پھینکا ہے اور بھارت کی پاکستان سے ازلی دشمنی کا چہرہ کھل کر سامنے آگیا ہے تو کیا ہم امید رکھیں کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی لن ترانیوں کا جواب اس بار پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف دیں گے؟ یا اس بار بھی یہ بار چوہدری نثار اور کچھ سر پھروں کو اٹھانا پڑے گا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستانی وزیر داخلہ کے خلاف مشکوک ماضی رکھنے والوں اور کرپٹ سیاستدانوں نے ایک محاذ کھڑا کر دیا ہے اور پاکستانی کے قومی سلامی کے ذمہ دار اداروں کے خلاف بھی پروپگنڈہ اور شکوک کا ایک محاذ کھول دیا ہے۔ اور بد قسمتی سے دن بدن اس میں تندہی لائی جارہی ہے۔
ایسے حالات میں جب قوم ایک ایک کا منہ دیکھ رہی ہے۔ کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف گو مگو اور صاف نظر بھی نہیں آتے صاف چھپتے بھی نہیں کی صورتحال سے باہر نکلیں اور بھارتی وزیر اعظم کی یاوہ گوئی کا بے دھڑک جواب دیں اور بھارت سمیت دنیا کو یہ پیغام دیں کہ اصل مسئلہ مقبوضہ کشمیر ہے جسے حل کئیے بغیر بھارت سے دوستی کے اقدامات بے معنی ہیں۔ اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لئیے عالمی برادری کو بھارت پہ دباؤ بڑھانا چاہئیے۔
اس طرح وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کا اپنا امیج بھی بہتر ہوگا اور مودی کی ذاتی دوستی کی بجائے پاکستان کے مفادات کی ترجیج بھی عیاں ہو گی اور قوم جو ان دنوں کی پے در پے بیان بازیوں پہ سے حیران پریشان ہے انھیں یہ احساس ہوگا کہ ملک و قوم کے تمام ادارے اور حکمران پاکستان کی حفاظت، ملک میں پھیلی دہشت گردی کے خلاف اور کشمیر کے نہتے مسلمانوں کو آزادی دلوانے کے لئیے ایک ہی پیچ پہ کھڑے ہیں۔