RSS

بونے، دیو، اور ٹھگ۔

06 جولائی

ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ کسی جگہ بھلے مانسوں کے کچھ گروہ نسلوں سے رہتے آرہے تھے۔ انکا پیشہ کھیتی باڑی کرنا تھا۔ ان میں کچھ ٹھگ بھی رہتے تھے۔ٹھگوں نے انہیں نسل درنسل یہ احساس دلا دیا تھا کہ وہ بھلے مانس تو "بونے "۔ ہیں۔ اسلئیے انھیں باقی دنیا اور اسکے بدلتے حالات سے کیا لینا دینا۔ جبکہ وہ بھلے مانس واقعی میں اپنے آپ کو بونا سمجھنے لگے۔اسلئیے انھیں بھی اس میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا تھا کہ باقی دنیا بھی انھیں "بونے "۔ کہہ کر پکارے۔

بونے تو سارا دن کام کاج اور مشقت کرتے۔ جبکہ ٹھگ سارا دن اس ہیر پھر میں رہتے کہ بونوں کی سخت مشقت اور محنت کا پھل کسی طرح ھتیا سکیں۔ بونے بہت بھولے بھالے لوگ تھے۔ عقل اور دانش جو تھی وہ خداد داد تھی۔ دنیا اور تجربے سے انہیں فہم و دانش کشید کرنے کا نہ موقع ملا اور نہ ہی انہوں نے اسے اپنے لئے لائق اشتناء جانا۔

جبکہ ٹھگ بظاہر تو بونوں سے قدرے کچھ زیادہ فہم کے مالک تھے۔ مگر وہ اپنے تجربوں اور ہیراپھیریوں کو آپس میں بیان کرتے۔ اسطرح ٹھگنے کے نت نئے طریقوں اور صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا رہتا۔ جو بدلتے زمانے میں ان کے بڑا کام آتیں۔ ٹھگ بڑے سمجھدار تھے اگر سمجھدار نہ ہوتے تو ٹھگ نہ ہوتے۔ جبکہ بونے فہم و ادراک بانٹنے یا تجربے سے حاصل کرنے اور آپس میں ایک دوسرے کو بیان کرنے، تقسیم کرنے کو اپنی شیخی خوری کی وجہ سے سے ایک کمتر عمل سمجھتے تھے۔ بونوں کو کوتاہ قامتی کے احساس نے کہیں کا نہ رکھا تھا۔ جس کے باعث ان میں ٹھگوں کا مقابلہ کرنے کی سکت ہی نہ پیدا ہوسکی۔

شمال اور مغرب سے چلنے والی تند و تیز آندھیوں کے ساتھ کچھ بادشاہ بھی کبھی کبھار بونوں پہ حملہ آور ہوتے۔ اور غیر قومیں بونوں کے کھیت کھلیانوں پہ قبضہ کر لیتیں۔ بونوں سے بیگار لیتیں۔ ان کے بچوں اور عورتوں کو غلام بنا لیتیں۔ جو بونے بچ پاتے وہ پہاڑوں یا دور دارز کے علاقوں میں بھاگ جاتے۔ اب ایسے میں ٹھگ کیا کرتے تھے؟۔ ٹھگ اس دوران ادہر ادھر ہوجاتے اور حالات معمول پہ آجانے کے بعد پھر سے بونوں کو نئے طریقوں سے لوٹنا اور ٹھگنا شروع کردیتے۔

جب بھی نیا حملہ آور حملہ کرتا ٹھگوں کے بھاگ بھی جاگنے لگے۔ نئے لوگوں کو بونوں کے بارے سب معلومات اور انکے کھیت ۔ کھلیانوں اور اناج نیز ہر اس شئے سے جس سے حملہ آوروں کو فائدہ ہو، اس بارے جاننے کے لئیے ٹھگوں کی ضرورت پڑتی۔ اور ٹھگ جو اپنے تجربے سے گھاگ ہوچکے تھے۔ وہ جہاں پناہ اور جہاں پناہ کرتے انعامات کے طور بڑی بڑی زمینوں اور حد نظر سے آگے بڑی بڑی جاگیریں اور ان میں بسنے والے بونوں کی جان مال اور عزت کا اختیار حاصل کرتے کرتے خود سے چھوٹے موٹے بادشاہ سے بن گئے۔ اور اوپر سے ٹھگ۔

بونوں کے گھر میں ایک دن ایک دیو قامت پیدا ہوا۔ دیکھنے میں تو وہ باقیوں جیسا لگتا مگر وہ فولاد حوصلہ تھا۔ اس نے بونوں سے کہا "بھئی بات ہے یوں تم لوگ صدیوں سے بھگتتے اور جان چھپاتے پھرتے ہو۔ کھیتیاں تم کاشت کرتے ہو۔ محنت کرتے ہو اور پھل، دور دیس کا بادشاہ لے جاتا ہے۔ اپنے اندر ہمت پیدا کرو۔ آخر کب تک یوں ہوتا رہے گا؟۔ آؤ دنیا کے باقی لوگوں کی طرح ایک باقاعدہ ایک ریاست اور حکومت بناؤ اور اغیار کے طوق غلامی کو اتار پھینکو۔” ٹھگوں کو پتہ چلا کہ ریاست کے ساتھ حکومت بھی ہوگی۔ انھیں ریاست میں تو کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی مگر اسکی بادشاہی بھلی لگی۔ جس کے سامنے انھیں اپنی جاگیریں اور زمین داریاں ننھی منی نظر آنے لگیں۔ ٹھگ تو وہ تھے ہی انہوں نے فٹ چولا بدلا اور بونوں کے ہمدردوں کے طور پہ اس دیو سے جاملے کہ ہمیں بھی اس مہم میں شامل کر لیا جائے۔

جبکہ بونے مان کے ہی نہیں دے رہے تھے کہ وہ اپنی کوتاہ قامتی کے باعث دنیا کے باعزت لوگوں کی طرح کچھ ایسا کر سکتے ہیں۔ اس دیو قامت کو بڑی پریشانی ہوئی۔ جسکا احساس ان کچھ لوگوں کو بھی تھا جو نہ تو ٹھگ تھے اور نہ ہی اپنے آپ کو بونا سمجھتے تھے۔ مگر سوائے درد رکھنے کے کچھ کر نہیں پارہے تھے۔ ان دردمندوں میں ایک ایسا "جادوگر” بھی تھا جسکا جادو اسکی شاعری تھی۔ جو پانی میں بھی آگ لگا دیتی۔ ایک دن وہ اس دیو قامت کی خدمت حاضر ہوا اور بونوں کو انکے قد کا احساس دلانے کی ذمہ داری میں اسکا ہاتھ بٹانے کی درخواست کی۔ پھر کیا تھا اسکی شاعری اور دیو قامت کی فولادی مستقل مزاجی۔ بونوں کو اپنی کوتاہ قامتی کے احساس کمتری سے نجات ملنے لگی۔ جادوگر کی لگائی آگ نے بونوں کو انکے قد کا احساس دلانا شروع کر دیا اور دیو نے اپنے فولادی عزم سے بونوں کو ایک ریاست تشکیل کردی۔ جہاں بونے آزاد تھے۔بونوں کو اپنی طویل قامتی کا احساس ہونے لگا تھا۔ اور شمال مغرب سے کوئی بادشاہ ان پہ حملہ نہیں کرسکتا تھا۔

ٹھگوں کا کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ وہ چولا بدل کر نئی حکومت سے حصہ بقدر جثہ پانے پہ راضی نہیں تھے۔ وہ تو بادشاہ بننے کے خواب دیکھنے لگے۔ انہوں نے مغرب کی ایک راجدھانی سے ساز باز کر کے دیو کو زہر دلوا دیا۔ اس راجدھانی سے نیاز حاصل کر کے خود بونوں کے بادشاہ بن بیٹھے۔ اور بونوں کو یہ احساس دلا دیا کہ انکی طویل القامتی محض دیو کے طلسم کا جادو تھا جو دیو کے مرنے کے ساتھ ہی ٹوٹ گیا۔ اور بونے وہ وہی صدیوں پرانے نسل در نسل بونے ہیں۔

ٹھگوں کی موجاں ہی موجاں تھیں۔ جو ٹھگ مر جاتے وہ جانے سے پہلے اپنی نسل میں سے کامل ٹھگ کو جو دوسروں کی نسبت "ٹھگی” میں زیادہ مہارت رکھتا۔ اُس کو آئیندہ بادشاہی کے لئیے ولی عہد کے طور مقرر کر جاتے۔ بونوں کو بے وقوف بنائے رکھنے کے لئیے ٹھگ آپس میں ایک دوسرے کو دشمن کہتے اور بدل بدل کر بادشاہ بھی بنتے۔ جو باقاعدہ خاندانوں کے نام سے پہچانے جانے لگے۔ دور دیس کی راجدھانی نے کبھی ایک ٹھگ اور کبھی دوسرے ٹھگ کو بادشاہ بنائے رکھنے کا معاملہ کرنے کے لئیے۔ ان سے جو قیمت اور حصہ وصولنا شروع کیا تھا۔ اسے آئے دن نت نئ شرائط کے ساتھ ذیادہ سے ذیادہ وصولنا شروع کردیا۔ جسے پورا کرنے کے لئیے ٹھگوں نے بونوں سے اور زیادہ بیگار لینی شروع کردی۔ اور اسمیں سے اپنا اور اُس "راجدھانی” کا حصہ بڑے آرام سے وصول لیتے۔ مگر وہ بونوں کے لئیے کچھ نہ چھوڑتے۔ بونے اپنا اناج ٹھگوں کو اٹھا دیتے اور خود بھوک سے لاغر ہوتے گئے۔ کچھ نے بھوک سے تنگ آکر خود کشی کر لی ۔ کچھ خود کش بن گئے۔ بچے بکتے گئے۔ بھوک سے مرتے گئے مگر بونوں کو اپنی کوتاہ قامتی کے وہم نے کہیں کا نہ رکھا۔ وہ ٹھگوں کے سامنے اپنی آواز کبھی بھی بلند نہ کرسکے۔

کبھی کبھار ان بونوں میں ایک آدھ دیو قامت قاضی یا ایک آدھ دیو قامت ایماندار جو ٹھگوں کی لوٹی ہوئی دولت بونوں کو واپس دلوانے کی سعی کرتا۔ مگر ٹھگوں نے۔ ٹھگوں کے بڑے بڑے خاندانوں نے ان دونوں اور اسطرح کے چند دیو قامت لوگوں کے خلاف ایک محاذ کھڑا کردیا۔ ایک دیو قامت قاضی اور ایک دیو ایماندار اہلکار بونوں کے لئیے جان لڑانے پہ اتر آیا مگر بونوں میں ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنے حق کے لئیے اٹھ کھڑے ہوتے۔ اور قاضی اور اہلکار کا ساتھ دیتے۔ ان کی کوتاہ قامتی کے وہم نے ان سے ہمت اور جرائت چھین لی۔ ورنہ چند ٹھگ انکے گھروں کے چراغ نہ بجھا پاتے اور نہ بونوں کے پیٹ کمر سے جالگتے۔ بونے ایک دوسرے کو ٹُکر ٹُکر دیکھتے رہتے۔ اپنی کوتاہ قامتی کے وہم پہ شاکر۔

ایک دفعہ کا ذکر پاکستان میں ہر روز کا ذکر ہے۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , ,

26 responses to “بونے، دیو، اور ٹھگ۔

  1. Dr.Jawwad Khan

    جولائی 6, 2011 at 15:31

    …بہت عمدہ تمثیل پیش کی ہے . اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

     
  2. یاسر خوامخواہ جاپانی

    جولائی 6, 2011 at 15:39

    آج کل ٹھگ پھر سر گرم ہیں۔
    اور بونے پیٹ پوجا کیلئے پریشان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ عرصے بعد جو کچھ اپنی محنت سے بچائیں گے ٹھگ لے اڑیں گے

     
  3. Saad

    جولائی 6, 2011 at 16:33

    بونے بھی اب ٹھگ بن چکے ہیں اور دوسرے بونوں کو ٹھگ بن کر لوٹتے ہیں۔ مگر ان بونے ٹھگوں میں بڑے ٹھگوں کو اپنا مرشد مان لیا ہے اور سب ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جولائی 9, 2011 at 01:40

      محترم! سعد بھائی!!۔

      بلاگ پہ خوش آمدید اور شکریہ

      آپ کی اس بات سے کچھ کچھ اتفاق کرنے کو جی چاہتا اگر۔ ۔ ۔ ۔اگر بونے واقعی ہنسی خوشی رہ رہے ہوتے۔ 🙂

       
  4. shahidaakram

    جولائی 6, 2011 at 16:39

    جاوید بھائ دردِ دِل رکھنے والے بس سوچ ہی سکتے ہیں کرنے والے اپنا کام کِئے جاتے ہیں یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے کہ اگر اچھا اچھا کر جائیں تو جانے کے بعد نام بھی ہوگا لیکِن جانے کا سوچتا بھی کون ہے؟؟؟
    کہ جو بھی یہاں آیا یہی سوچ کر آیا کہ
    اَساں مرنا ناہیں،،گور پیا کوئ ہور
    تو ڈر کاہے کا ،،،
    بہُت اچھا لِکھا ہمیشہ کی طرح،،،

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جولائی 9, 2011 at 00:57

      سسٹر!

      تعریف کا شکریہ

      مگر جانا سب کو ایک دن ہے۔ کسی کے یہ سوچ لینے سے کہ "گور پیا کوئی ہور” گور اسکا انتظار نہیں چھوڑتی۔

      موت اس وقت تک زندگی کی حفاظت کرتی ہے۔ جب اللہ کاحکم آ نہیں جاتا۔ کاش یہ بکاؤ مال اور ظالم عالمی طاقتوں کے سامنے ہر روز خوف سے گھگیانے والے یہ سمجھ لیں تو انھیں ہر روز مرنا نہ پڑے اور مخلوق خدا بھی انھیں دعائیں دے۔

       
  5. جہالستان سے جاہل اور سنکی ۔

    جولائی 6, 2011 at 18:11

    اچھا آرٹیکل لکھا ہے ۔ بس معمولی سا اختلاف ہے کہ پہلے والا دیو قامت مذہبی طور پر تو بونوں میں سے ہی تھا مگر معاشی طور پر بونوں میں سے نہیں تھا ۔ بونے تو ہوتے ہی معاشی طور پر بونے اور مذہبی طور پر تو بونا انہیں کہا جا سکتا ہے جو ہم مذہب نہ ہوں ۔

    محترم!جاہل و سنکی صاحب!!

    بلاگ پہ تشریف آوری کا شکریہ اور خوش آمدید

    ممکن ہے کہ آپ کے پاس اپنی کہی ہوئی بات کے لئیے کوئی دلیل ہو، جس سے بہت سے لوگ بشمول یہ خادم بھی لاعلم ہو تو ایسی صورت میں آپ اپنی معلومات اور دلیل کو دوسروں سے بھی بانٹیں۔ اس سے لوگوں کا علم بڑھے گا۔

    مگر میری ذاتی رائے اور معلومات کے مطابق، قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ نے حصول تعلیم اور فورا بعد نہائت مایوس کن معاشی حالات کا سامنا کیا۔ یہ انہی کا حوصلہ اور فولادی عزم تھا کہ اسقدر مشکل حالات پہ نہ صرف قابو پا لیا بلکہ اپنی معاشی حالت اس حد تک مضبوط کر لی کہ سیاسی زندگی میں بھی اپنے ذاتی اخراجات بھی اپنی جیب سے ادا کرتے رہے۔ جو انکی اصول پسندی اور مضبوط معاشی حالت کو ظاہر کرتے ہیں۔

    قائد رحمتہ اللہ علیہ ایک سیلف میڈ انسان تھے۔

    بہر حال آپکی رائے کا شکریہ

     
    • ghulammurtazaali

      جولائی 7, 2011 at 00:27

      پیارے بھائی(جو خود کو جاہل اور سنکی کہتے ہیں، میں نہیں کہتا)
      لگتا ہے کہ آپ نے پہلے دیو ہیکل بندے کی سوانح کا غور سے مطالعہ نہیں کیا۔ اس کا باپ چمڑے کا تاجر بتایا جاتا ہے اور اس نے دیو کے زمانہ عنفوانِ شباب میں اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے سات سمندر پار بھیجا تھا۔ اس دوران میں شومئی قسمت سے باپ کا کاروبار بالکل ٹھپ ہو گیا اور وہ باقاعدہ دیوالیہ ہو گیا۔ اب جبکہ کاروبار ہی نہ رہا تو اس کی توسیع کیا معنی؟ چنانچہ پردیسی دیو نے بچے کھچے زادِ سفر سے قانون پڑھنا شروع کر دیا اور تھوڑے ہی عرصے میں وکالت کا امتحان پاس کر کے وطن لوٹ آیا۔ یہاں گھریلو معاشی حالات نا گفتہ بہ تھے۔ اپنے شہر میں وکالت چلنے کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔ چنانچہ نوجوان دیو نے ایک ریاستی راجدھانی میں جا کر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت اس کی معاشی حالت یہ تھی کہ اس کے پاس عدالت میں آنے جانے کے لیے دو طرفہ تانگے کا کرایہ تک نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ وہ اکثر چلچلاتی دھوپ اور ٹھٹھرتی سردی میں پیدل اپنی کھولی سے عدالت آیا جایا کرتا تھا۔

      ولایت پاس ہونے کے باوجود اسے تین سال تک کوئی گاہک نہ ملا۔ رہی سہی ساری پونچی ختم ہو گئی۔ بعض بڑے وکیلوں کے ٹاوٹوں نے کمیشن پر اسے کیس دینا چاہے لیکن اس نے سختی سے انکار کر دیا۔ اسی دوران قسمت نے یاوری کی اور اسے چند ماہ کے لیے چھوٹی موٹی مجسٹریٹی مل گئی جس سے اس کی زندگی کی رکی ہوئی معاشی گاڑی دھکا سٹارٹ ہو گئی۔ او ر پھر چل سو چل۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ اپنے وطن کے سب سے بڑے وکیلوں میں شمار ہونے لگا۔ اس کے پاس دولت اور آسائشوں کی کوئی کمی نہ رہی۔ لیکن وہ اس پر مطمئن نہ ہوا اور اس نے اپنی بونی قوم کو غاصبوں اور ٹھگوں کی دوہری تہری قید سے آزاد کرانے کا کیس لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اور اس کی کوئی فیس اپنی کنگلی قوم سے وصولنے کی بجائے اپنی جیب سے کورٹ فیس ،سٹیشنری اور آمدورفت وغیرہ کے خرچے بھی برداشت کرتا رہا۔ چونسٹھ سال کی بہت پکی اور آرام کی طالب عمر میں یہ بڈھا وکیل اپنی زندگی کا سب سے بڑا کیس لڑنے نکلا اور تب تک چین سے نہ بیٹھا جب تک بونوں کی دو تہائی تعداد کو ظالموں کی قید سے آزاد نہ کروالیا۔ آزادی کے بعد بھی وہ ان کے فلاح بہبود کے کاموں میں جُتا رہا یہانتک کہ وہ کام کرتے کرتے شہید ہو گیا۔

      پیارے بھائی کہانی یہیں ختم نہیں ہوگئی۔ آخری سفر پر جانے سے قبل وہ اپنی خون پسینے کی کمائی کا بہت بڑا حصہ اپنی قوم کے تعلیمی اداروں کے نام کر گیا۔
      آپ کیسے کہ سکتے ہیں کہ وہ معاشی طور پر ان میں سے نہیں تھا؟ وہ تو انھی میں سے اُٹھا ، انھی میں جیا اور انھی میں مرا ۔۔۔۔۔۔۔


      ارے۔۔۔


      وہ تو صدیوں کا سفر کرکے یہاں پہنچا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تُو نے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں


      غلام مرتضیٰ علی

       
      • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

        جولائی 9, 2011 at 01:35

        محترم! غلام علی رضا صاحب!!

        بلاگ پہ خوش آمدید اور شکریہ

        جزاک اللہ آپ نے اسقدر مفید معلومات بہم پہنچائیں۔ اللہ تعالٰی آپکو جزائے خیر دے ۔

         
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جولائی 30, 2011 at 13:17

      محترم!جاہل و سنکی صاحب!!

      بلاگ پہ تشریف آوری کا شکریہ اور خوش آمدید

      ممکن ہے کہ آپ کے پاس اپنی کہی ہوئی بات کے لئیے کوئی دلیل ہو، جس سے بہت سے لوگ بشمول یہ خادم بھی لاعلم ہو تو ایسی صورت میں آپ اپنی معلومات اور دلیل کو دوسروں سے بھی بانٹیں۔ اس سے لوگوں کا علم بڑھے گا۔

      مگر میری ذاتی رائے اور معلومات کے مطابق، قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ نے حصول تعلیم اور فورا بعد نہائت مایوس کن معاشی حالات کا سامنا کیا۔ یہ انہی کا حوصلہ اور فولادی عزم تھا کہ اسقدر مشکل حالات پہ نہ صرف قابو پا لیا بلکہ اپنی معاشی حالت اس حد تک مضبوط کر لی کہ سیاسی زندگی میں بھی اپنے ذاتی اخراجات بھی اپنی جیب سے ادا کرتے رہے۔ جو انکی اصول پسندی اور مضبوط معاشی حالت کو ظاہر کرتے ہیں۔

      قائد رحمتہ اللہ علیہ ایک سیلف میڈ انسان تھے۔

      بہر حال آپکی رائے کا شکریہ

       
  6. Bilal ahmed

    جولائی 6, 2011 at 18:45

    Aoa wah janab ap ne jis rawani se hmari haqiqat Hm Hi pe kholi hai Wo daad ki haqdar hai or ye tehreer hmare liye jahan aik ( ? ) hAi wahan yehi tehreer motivation b hai agr koi samjhe tu

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جولائی 9, 2011 at 01:09

      محترم ! بلال احمد صاحب!!

      بلاگ پہ تشریف آوری پہ خوش آمدید اور شکریہ۔

      تعریف کے لئیے شکریہ۔ یہ آپکا حسن ظن ہے کہ آپ نے داد دی ورنہ یہ ناچیز اس قابل تو نہیں۔

      اگر صرف "ترغیب” دینے سے ہی میری قوم کی انکھیں کھل جائیں تو واللہ میں اور ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ سارا دن لکھتے رہیں۔ مگر ٹھگوں نے ان کے ذہنوں پہ کچھ اسطرح قبضہ کر رکھا ہے کہ اس قبضے کو ختم کرنے اور اس کے اثرات زائل کرنے کے لئیے ابھی کچھ عشرے لگیں گے۔ وہ بھی اس صورت میں اگر علم عام ہو اور کوشش کی جائے۔

       
  7. fikrepakistan

    جولائی 7, 2011 at 00:07

    قاضی اور ایماندار؟

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جولائی 9, 2011 at 01:12

      محترم! فکر پاکستان!!

      بلاگ پہ خواش آمدید اور شکریہ۔

      کل پندرہ الفاظ اور ایک سوالیہ نشان سے کوئی بھی مذاکرہ چھیڑنا ناممکن نہیں تو قدرے مشکل ضرور ہوتا ہے۔ آپ چند جملے تو کہتے کہ ہم بھی پھر اس پہ رائے شائے دیتے۔ ؟ 🙂

       
  8. جہالستان سے جاہل اور سنکی ۔

    جولائی 7, 2011 at 01:23

    ہمیں دیو قامت انسان کے دیو قامت انسان ہونے یا دیو قامت انسان کے بونے بننے بعد دوبارہ سے دیو قامت انسان بن جانے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ۔ اور نہ ہی ہمارے کچھ کہنے سے کسی دیو قامت انسان کو کچھ اثر ہونا ہے ۔ بہرحال یہ ضرور کہیں گے کے دیو قامت، انسان دیو قامت انسان ہی رہے اور انکے بونے، بونے ہی ۔ جبکہ ٹھگوں نے ہی ہمیشہ دیو قامت انسانوں کو ریپلیس کیا ہے ۔ یقینا کچھ اچھے بونوں نے بھی دیو قامت انسانوں کو ریپلیس کیا ہوگا مگر ان پر بونوں میں ہمیشہ ہی اختلاف رہا ہے ۔
    بونوں کو دوسری قوموں کی نسبت اپنے ہی ٹھگ ہی ذیادہ تر بلکہ اچھی طرح سے ٹھگا کرتے ہیں ۔ ٹھگ ہی چاہیں گے کے بونے کبھی بھی ٹھگی نہ سیکھیں اور ایسے ہیروز بنیں کے جنہیں آسانی سے ٹھگا جا سکے ۔ ہماری آپسے اور نئے آنے والے دیو قامت انسانوں سے درخواست ہے کہ بونوں کو ٹھگی سکھائیں نہ کے وہ طریقے جن سے ٹھگی کبھی رک ہی نہ پائی ہو ۔
    باقی بات سعد والی ہی کے بونوں نے آخر ٹھگ بننا ہی ہے اور ان بونوں کو اگر کسی نے ٹھگ بننے سے روکا ہوا تھا تو اس بات کا کریڈٹ صرف دیو قامت انسانوں کو ہی دیا جا سکتا ہے ۔ ٹھگوں کیلئے تو دیو قامت انسانوں کا روپ دھارنا آسان ہی رہا ہے ۔ پر دیو قامت انسان بھی ہونا اور ٹھگی کرتے ہوئے بھی نظر آنا تو میجک ہی ہو جائیگا نا ۔

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جولائی 30, 2011 at 13:15

      محترم! خدا کرے کہ بونے اپنے قد کو پہچانیں اور پور قد سے کھڑے ہو کر ٹھگوں کا ہاتھ پکڑ کر انہیں ٹھگی سے باز رکھ سکیں۔

       
  9. افتخار اجمل بھوپال

    جولائی 7, 2011 at 06:28

    بہت اچھی تمثيل لکھی ہے ۔ اللہ کرے کئی ديو قامت بونے پيدا ہو جائيں اور جلد حالات بہتر ہوں
    غلام مرتضٰے علی صاحؤ ںۓ كآۓڈ آڎظم محمد علی جنا کی مختصر کہانی لکھ دی ہے ۔ بہت خوب

     
  10. khalidhameed

    جولائی 7, 2011 at 07:18

    بہت خوب

     
  11. javediqbal26

    جولائی 7, 2011 at 16:52

    اس میں میرےخیال میں زیادہ قصوربونوں کاہی ہےاس میں بونوں کاجب تک ایکانہیں ہوگاوہ یکجہانہیں ہوں گےاسطرح ٹھگ ان کی کمائی پرشپ خون مارتےرہیں گے۔ ہم سب کومل کرسب سےپہلےتعلیم کوعام کرنےکےلئےاکٹھاہوناہےجب تک تعلیم ناں ہوگی کچھـ نہیں ہوگا۔ اللہ تعالی سےدعاہے کہ ہم کوسیدھی رہا دکھادے۔ آمین ثم آمین

     
  12. Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

    جولائی 9, 2011 at 02:20

    بہت شکریہ اور خوش آمدید آپکی بات درست ہے جب تک تعلیم عام نہیں ہوگی عوام کی حالت مخدوش رہے گی۔

     
  13. درویش خُراسانی

    جولائی 9, 2011 at 18:36

    مثال تو اچھی ہے لیکن وہی بونوں والی بات کہ ملک میں تبدیلی کا امکان کم ہے،انتخابات میں پھر انہیں لوگوں کو ووٹ مل جائیں گے۔ظاہر ہے اب بھی کراچی وغیرہ میں کشت وخون انہیں پارٹیوں کے حامی کر رہے ہین تو جب وہ پارٹی کیلئے قتل تک تیار ہیں تو ووٹ کیا چیز ہے،
    تعلیم سے تبدیلی ممکن ہے لیکن پاکستان میں تعلیم کہاں؟؟؟؟؟؟
    یہ جو ہم حاصل کر رہے ہیں تعلیم نہیں بلکہ لارڈ میکالے کی لکیر کے فقیر ہیں۔

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جولائی 10, 2011 at 14:27

      یہ جو ہم حاصل کر رہے ہیں تعلیم نہیں بلکہ لارڈ میکالے کی لکیر کے فقیر ہیں۔

      واللہ درویش بھائی! آپ نے جو بات کی ہے اسمیں کوئی شک نہیں۔ ہم اپنے لوگوں کو انگریز قوموں کے لئیے بابو منشی بنانے کے لئیے تعلیم دیتے ہیں۔

       

تبصرہ کریں