دعوتِ فکر۔۔۔
تبدیلی ناگزیر! مگر کیسے ؟۔۔۔
پاکستان میں ۔۔۔آج کے پاکستان میں۔ جس میں ہم زندہ ہیں۔ جہاں انگنت مسائل ہیں ۔ صرف دہشت گردی ہی اس ملک کا بڑا مسئلہ نہیں۔ یہ دہشت گردی ایک آدھ دہائیوں سے ۔اِدہر کی پیداوار ہے۔ اور اس دہشت گردی کے جنم اور دہشت گردی کیخلاف جنگ کو ۔پاکستان میں اپنے گھروں تک کھینچ لانے میں بھی۔ ہماری اپنی بے حکمتی ۔ نالائقی اور فن کاریاں شامل ہیں۔
دہشت گردی کے اس عفریت کو جنم دینے سے پہلے اور ابھی بھی۔ بدستور پاکستان کے عوام کا بڑا مسئلہ ۔ ناخواندگی ۔ جہالت۔غریبی۔ افلاس اور بے روزگاری اور امن عامہ جیسے مسائل ہیں۔ مناسب تعلیم ۔ روزگار اور صحت سے متعلقہ سہولتوں کا فقدان اور امن عامہ کی صورتحال۔ قدم قدم پہ سرکاری اور غیر سرکاری لٹیرے۔ جو کبھی اختیار اور کبھی اپنی کرسی کی وجہ سے ۔ اپنے عہدے کے اعتبار سے۔نہ صرف اس ملک کے مفلوک الحال عوام کا خون چوس رہے ہیں ۔بلکہ اس ملک کی جڑیں بھی کھوکھلی کر رہے ہیں۔
اور پاکستان کے پہلے سے اوپر بیان کردہ مسائل کو مزید گھمبیر کرنے میں۔ پاکستان کے غریب عوام کی رگوں سے چوسے گئے ٹیکسز سے۔ اعلی مناصب۔ تنخواہیں اور مراعات پا کر۔ بجائے ان عوام کی حالت بدلنے میں۔ اپنے مناصب کے فرائض کے عین مطابق کردار ادا کرنے کی بجائے۔ اسی عوام کو مزید غریب ۔ بے بس۔ اور لاچار کرنے کے لئیے انکا مزید خون چوستے ہیں۔ اور انکے جائز کاموں میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
محض ریاست کے اندر ریاست بنا کر۔۔۔خاص اپنے اور اپنے محکموں اور سیاستدان حکمرانوں۔ انکی پارٹی کے کرتا دھرتاؤں اور چمچوں چیلوں کے مفادات کی آبیاری کرنے کے لئیے۔ اپنے عہدوں۔ اور اداروں کا استعمال کرتے ہیں ۔ادارے جو عوام کے پیسے سے عوام کی بہتری کے لئیے قائم کئے گئے تھے ۔ اور جنہیں باقی دنیا میں رائج دستور کے مطابق صرف عوام کے مفادِ عامہ کے لئیے کام کرنا تھا ۔ وہ محکمے ۔ انکے عہدیداران ۔ اہلکار۔ الغرض پوری سرکاری مشینری ۔ حکمرانوں کی ذاتی مشینری بن کر رہ گئی ہے۔ اور جس وجہ سے انہوں نے شہہ پا کر ۔ ریاست کے اندر کئی قسم کی ریاستیں قائم کر رکھی ہیں ۔ اور اپنے مفادات کو ریاست کے مفادات پہ ترجیج دیتے ہیں۔ اپنے مفادات کو عوم کے مفادات پہ مقدم سمجھتے ہیں ۔
ستم ظریفی کی انتہاء تو دیکھیں اور طرف تماشہ یوں ہے۔ کہ ہر نئے حکمران نے بلند بانٹ دعوؤں اور بیانات سے اقتدار کی مسند حاصل کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ اور اقتدار سے رخصتی کے وقت پاکستان کو ۔ پاکستان کے غریب عوام کو پہلے سے زیادہ مسائل کا تحفہ دیا۔
پاکستان کے حکمرانوں۔ وزیروں۔ مشیروں کے بیانات کا انداز یہ ہے ۔کہ صرف اس مثال سے اندازہ لگا لیں ۔کہ پاکستان کاکاروبار مملکت کس انوکھے طریقے سے چلایاجا رہا ہے ۔ پاکستان میں پٹرول کی قلت کا بحران آیا ۔ انہیں مافیاؤں نے جس کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں۔ مافیا نے پٹرول کی قلت کے خود ساختہ بحران میں جہاں عوام اور اور ملک کا پہیہ چلانے والے ٹرانسپورٹرز سڑکوں اور پٹرول پمپس پہ خوار ہورہے تھے ۔ جن میں ایمولینسز ۔ مریض ۔ اسپتالوں کا عملہ ۔ خواتین۔ اسکول جانے والےبچے بھی شامل تھے۔ یعنی ہر قسم کے طبقے کو پٹرول نہیں مل رہا تھا ۔ ڈیزل کی قلت تھی ۔ مگر وہیں حکومت کی ناک کے عین نیچے۔ ریاست کے اندر قائم ریاست کی مافیا۔ اربوں روپے ان دو ہفتوں میں کمانے میں کامیاب رہی ۔اور آج تک کوئی انکوائری۔کوئی کاروائی ان کے خلاف نہیں ہوئی اور کبھی پریس یا میڈیا میں انکے خلاف کوئی بیان نہیں آیا کہ ایسا کیوں ہوا اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف کیا کاروائی عمل میں لائی گئ؟۔ اور اس پٹرول قلت۔ کے براہ راست ذمہ دار ۔وزیر پٹرولیم خاقان عباسی۔ کا یہ بیان عام ہوا کہ "اس پٹرول ڈیزل بحران میں۔ میں یا میری وزارت پٹرولیم کا کوئی قصور نہیں”۔ یعنی وزیر موصوف نے سرے سے کسی قسم کی ذمہ داری قبول کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ اس سے جہاں یہ بات بھی پتہ چلتی ہے کہ وزیر موصوف کے نزدیک ان کا عہدہ ہر قسم کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہے۔ اور وہ کسی بھی مہذب ریاست کے وزیر کی طرح استعفی دینا تو کٌجا۔ وہ ریاست کو جام کر دینے میں اپنی کوئی ذمہ داری ہی محسوس نہیں کرتے۔
اس سے یہ بات بھی پتہ چلتی ہے جو انتہائی افسوسناک اور خوفناک حقیقت ہے کہ وزارت پٹرولیم محض ایک وزارت ہے جس کے وزیر کا عہدہ محض نمائشی ہے اور اصل معاملات کہیں اور طے ہوتے ہیں۔ جس سے حکومت کی منظور نظر مافیاز کو یہ طے کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ کہ کب کس قسم کی قلت پیدا ہونے میں کس طرح کے حالات میں کب اور عوام کا خون چوس لینا ہے۔
ہمارا مطمع نظر اور اس تحریر کا مقصد محض موجودہ حکمرانوں پہ تنقید کرنا نہیں۔ بلکہ یہ سب کچھ موجودہ حکمرانوں کے پیشرو ۔زرداری۔ مشرف۔ شریف و بے نظیر دونوں کے دونوں ادوار ۔ اور اس سے بیشتر جب سے پاکستان پہ بودے لوگوں کا قبضہ ہوا ہے۔ سب کے طریقہ واردات پہ بات کرنا ہے۔ آج تک اسی کا تسلسل ہے کہ صورتیں بدل بدل کر عوام کو غریب سے غریب تر کرتا آیا ہے اور اپنی جیبیں بھرتا آیا ہے۔
مگر پچھلی چار یا پانچ دہایوں سے اس خون چوسنے کے عمل میں جدت آئی ہے اور حکمرانوں نے اپنے مفادات کے آبیاری کے لئیے کاروبار مملکت چلانے والے ادارے ۔اپنے ذاتی ادارے کے طور پہ اپنے استعمال میں لائے ہیں ۔ جس سے کاروبار مملکت ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے ۔ اور پاکستان اور پاکستان کے عوام کے مسائل دن بدن بگڑتے گئے ہیں۔ اور آج یہ عالم ہے۔ کہ پاکستان نام آتے ہی ذہن میں ایک سو ایک مسائل تصور میں آتے ہیں ۔ جہاں پاکستان کی اکثریت آبادی جو غریب ہے۔ جس کے لئیے کوئی سہولت کوئی پناہ نہیں ۔ اور جو سفید پوشی کا بھرم لئیے ہوئے ہیں وہ بھی جان لڑا کر اپنا وقت دن کو رات اور رات کو دن کرتے ہیں۔ اور بڑی مشکل سے مہینہ آگے کرتے ہیں۔ ۔
جبکہ پاکستان جیسے غریب ملک کے مختلف اداروں کے سربراہان۔ دنیا کی کئی ایک ریاستوں کے سربراہان سے زیادہ امیر ہیں۔ اور بے انتہاء وسائل کے مالک ہیں ۔ انکے اہلکار جو سرکاری تنخواہ تو چند ہزار پاتے ہیں مگر ان کا رہن سہن اور جائدادیں انکی آمد سے کسی طور بھی میل نہیں کھاتیں اور حیرت اس بات پہ ہونی چاہئی تھی کہ وہ کچھ بھی پوشیدہ نہیں رکھتے ۔ اور یہ سب کچھ محض اس وجہ سے ہے۔ کہ حکمران خود بھی انہی طور طریقوں سے کاروبار حکومت چلا رہے ہیں جس طرح ان سے پیش رؤ چلاتے آئے ہیں۔ یعنی اپنے مالی۔ سیاسی اور گروہی مفاد کو ریاست کے مفاد پہ ترجیج دی جاتی ہے۔اور ریاست کی مشینری کے کل پرزے تو کبھی بھی پاکستان کے مفادات کے وفادار نہیں تھے ۔ انہیں سونے پہ سہاگہ یہ معاملہ نہائت موافق آیا ہے۔
ریاست کی مشینری کے کل پرزے۔عوام کا کوئی مسئلہ یا کام بغیر معاوضہ یا نذرانہ کے کرنے کو تیار نہیں۔ اگر کوئی قیمت بھر سکتا ہو۔ تو منہ بولا نذرانہ دے کر براہ براہ راست عوام یا ریاست کے مفادات کے خلاف بھی جو چاہے کرتا پھرے ۔ اسے کھلی چھٹی ہے۔
ایک شریف آدمی بھرے بازار میں لٹ جانے کو تھانے کچہری جانے پہ ترجیج دیتا ہے۔ آخر کیوں؟ جب کہ ساری دنیا میں انصاف کے لئیے لوگ عام طور پہ تھانے کچہری سے رجوع کرتے ہیں اور انھیں اطمینان کی حد تک انصاف ملتا ہے۔ تو آخر پاکستان میں عام عوام کیوں یوں نہیں کرتے؟ یہ پاکستان میں عوام کی روز مرہ کی تکلیف دہ صورتحال کی صرف ایک ادنی سی حقیقت ہے۔ جو دیگر بہت سی عام حقیقتوں اور حقائق کا پتہ دیتی ہے۔اور ادراک کرتی ہے
پاکستان کے حقائق کسی کی نظر سے اوجھل نہیں۔ ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ہر طرف پاکستان میں نا انصافی اور عدم مساوات سے سے دو قدم آگے۔ ظلم۔ استحصال اور غاصابانہ طور پہ حقوق سلب کرنے کے مظاہر و مناظر عام نظر آتے ہیں۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اسے ایک عام رواج یا چلن سمجھ لیا گیا ہے۔اور اس میں وہ لوگ ۔ ادارے اور حکمران۔ سیاستدان۔ اپوزیشن۔ عام اہلکار الغرض ساری حکومتی مشینری شامل ہے۔ حکمرانوں کا کوئی بڑے سے بڑا شاہ پرست اور درباری۔ یہ قسم نہیں دے سکتا کہ پاکستان کا کرپشن سے پاک کوئی ایک تھانہ ہی ایسا ہو کہ جس کی مثال دی جاسکتی ہو ۔ یا کوئی ادارہ جہاں رشوت۔ سفارش ۔ اور رسوخ کی بنیاد پہ حق داروں کے حق کو غصب نہ کیا جاتا ہو؟۔
ایک بوسیدہ نظام جو پاکستان کی۔ پاکستان میں بسنے والے مظلوم اور مجبور عوام کی جڑیں کھوکھلی کر چکا ہے ۔ ایسا نظام اور اس نظام کو ہر صورت میں برقرار رکھنے کے خواہشمند حکمران و سیاستدان ۔۔ اسٹیٹس کو ۔کے تحت اپنی اپنی باری کا انتظار کرنے والے۔ قانون ساز اسمبلیوں مقننہ کے رکن اور قانون کی دھجیاں اڑا دینے والے۔ اپنے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لئیے کسی بھی حد تک اور ہر حد سے گزر جانے والی ریاست کے اندر ریاست کے طور کام کرنے والی جابر اور ظالم مافیاز۔ بیکس عوام کے مالک و مختارِکُل۔ ادارے۔
کیا ایسا نظام ۔ ایسا طریقہ کار۔ کاروبار مملکت کو چلانے کا یہ انداز ۔ پاکستان کے اور پاکستان کے عوام کے مسائل حل کرسکتا ہے؟ کیا ایسا نظام اور اسکے پروردہ بے لگام اور بدعنوان ادارے اور انکے عہدیدار و اہل کاران پاکستان اور پاکستان کے عوام کو انکا جائز مقام اور ان کے جائزحقوق دلوا سکتے ہیں؟۔
اتنی سی بات سمجھنے کے لئیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں پڑتی کہ اگر منزل مغرب میں ہو۔ تو کیا مشرق کا سفر کرنے سے منزل نزدیک آتی ہے یا دور ہوتی ہے؟
پاکستان اپنی منزل سے دور ہو رہا ہے۔ اور اس میں کسی بیرونی دشمن کا ہاتھ ہو یا نہ ہو مگر مندرجہ بالا اندرونی دشمنوں کا ہاتھ ضرور ہے ۔اور پاکستان اور پاکستان کے عوام کو یہ دن دکھانے میں اور ہر آنے والے دن کو نا امیدی اور مایوسی میں بدلنے میں۔ انہی لوگوں کا۔کم از کم پچانوے فیصد کردار شامل ہے۔
جو حکمران یا پاکستان کے کرتا دھرتا ۔اسی بوسیدہ نظام اور اداروں کے ہوتے ہوئے۔ پاکستان اور پاکستان کے عوام کی تقدیر بدلنے کاےبیانات اور اعلانات کرتے ہیں۔ یقین مانیں۔ وہ حکمران۔۔۔ عوام کو بے وقوف سمجھتے ہوئے جھوٹ بولتے ہیں ۔
تبدیلی صرف اعلانات اور بیانات سے نہیں آتی ۔ یہ اعلانات و بیانات تو پاکستان میں مزید وقت حاصل کرنے اور عوام کو دہوکہ میں رکھنے کے پرانے حربے ہیں۔ کہ کسی طرح حکمرانوں کو اپنا دور اقتدار مکمل کرنے کی مہلت مل جائے ۔ چھوٹ مل جائے ۔ اور انکی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں رہے۔ اور وہ ادارے جنہوں نے انھیں ایسا کرنے سے باز رکھنا تھا۔ اور ریاست اور عوام کے مفادات کا نگران بننا تھا۔ وہ بے ایمانی۔ اور بد عنوانی میں انکے حلیف بن چکے ہیں۔ اور یہ کھیل پاکستان میں پچھلے ساٹھ سالوں سے زائد عرصے سے ہر بار مزید شدت کے ساتھ کھیلا جارہا ہے ۔ اور نتیجتاً عوام مفلوک الحال اور ایک بوسیدہ زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں۔ جس میں محض بنیادی ضرورتوں کو بہ احسن پورا کرنے کے لئیے ان کے حصے میں مایوسی اور ناامیدی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ جائز خواہشیں۔ حسرتوں اور مایوسی میں بدل جاتی ہیں۔
جس طرح ہم پاکستان میں ان تلخ حقیقتوں کا نظارہ روز کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو ان حالات کو بدلنے کے ذمہ دار ہیں ۔اور اس بات کا اختیار رکھتے ہیں ۔ اور یوں کرنا انکے مناصب کا بھی تقاضہ ہے ۔ اور وہ حالات بدلنے پہ قادر ہیں ۔ مگر وہ اپنے آپ کو بادشاہ اور عوام کو رعایا سمجھتے ہیں۔ اور نظام اور اداروں کو ان خامیوں سے پاک کرنے کی جرائت۔ صلاحیت و اہلیت ۔ یا نیت نہیں پاتے۔
تو سوال جو پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا پاکستان اور اس کے عوام کے نصیب میں عزت نام کی ۔ حقوق پورے ہونے نام کی کوئی شئے نہیں؟ اور اگر یہ پاکستان اور اسکے عوام کے نصیب میں ہے کہ انھیں بھی عزت سے جینے اور انکے حقوق پورے ہونے کا سلسلہ ہونا چاہئیے۔ تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ پاکستان کے ان دشمنوں کے لئیے۔ جن کی دہشت گردی سے پوری قوم بھکاری بن چکی ہے۔ اور ہر وہ بدعنوان شخص خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ جس نے پاکستان کے اور پاکستان کے عوام کے مفادات خلاف اپنے مفادات کو ترجیج دی۔ ان کے لئیے کب پھانسی گھاٹ تیار ہونگے؟۔ انہیں کب فرعونیت اور رعونت کی مسندوں سے اٹھا کر سلاخوں کے پیچھے بند کیا جائے گا؟۔ اور انہیں کب ان کے انجام تک پہنچایا جائے گا؟ ۔ کہ مخلوق خدا پہ سے عذاب ٹلے؟
اس کے سوا عزت اور ترقی کا کوئی راستہ نہیں۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, ہفتوں, فقدان, ہم, ہمیں, ہماری, فن, ہو, ہونی, ہونے, ہونگے؟۔, ہونا, ہو۔, ہو؟۔ایک, ہوئی, ہوئے, ہوئے۔, ہوا, ہوتی, ہوتے, ہوتا, ہورہے, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں۔محض, ہیں۔اور, ہیں۔جس, ہیں۔دہشت, ہیں؟۔اتنی, فیصد, ہے, ہے۔, ہے۔ہمارا, ہے۔مگر, ہے۔پاکستان, ہے۔اور, ہے۔ایک, ہے۔جو, ہے۔ریاست, ہے؟, ہے؟پاکستان, فکر۔۔۔تبدیلی, ہاتھ, ہر, فرائض, فرعونیت, ہزار, قلت, قوم, قیمت, قانون, قائم, قادر, قبل, قبول, قبضہ, قدم, قسم, قصور, لوگ, لوگوں, لینا, لیں, لیا, لڑا, لگا, لگام, لگایا۔, لٹ, لٹیرے۔, لئیے, لئیے۔, لانے, لاچار, لائے, مفلوک, مہلت, مہینہ, مفاد, مفادِ, مفادات, مہذب, مقننہ, مقام, مقدم, مقصد, مل, ملک, ملتا, مملکت, منہ, مناسب, مناصب, مناصب۔, مناظر, مندرجہ, منزل, منظور, موافق, موجودہ, موصوف, میل, میڈیا, میں, میں۔, میری, مکمل, مگر, مگرکب, مافیا, مافیا۔, مافیاؤں, مافیاز, مافیاز۔, مالی۔, مالک, مانیں۔, مایوسی, متعلقہ, مثال, مجبور, محکموں, محکمے, محسوس, محض, مخلوق, مختلف, مختارِکُل۔, مرہ, مریض, مراعات, مزید, مسند, مسندوں, مسئلہ, مساوات, مسائل, مشینری, مشیروں, مشکل, مشرف۔, مشرق, مطمع, مطابق, مظلوم, مظاہر, معاملہ, معاملات, معاوضہ, مغرب, نہ, نہیں, نہیں۔, نہیں؟, نہائت, چلن, چلا, چلانے, چلایاجا, چلاتے, چلتی, چمچوں, نمائشی, چند, چوٹی, چوس, چوسنے, چوسے, چوستے, چیلوں, نیچے۔, چیت, نے, چکی, چکے, چکا, نگران, چھوٹ, چھٹی, نئے, نا, چاہے, چاہئی, چاہئیے۔, نالائقی, نام, ناک, ناگزیر, ناامیدی, ناجائز, ناخواندگی, چار, نتیجتاً, نذرانہ, نزدیک, نصیب, نظیر, نظام, نظارہ, نظر, و, وہ, وہیں, وفادار, وقوف, وقت, ڈیزل, والی, والے, والے۔, والےبچے, واردات, وجہ, وزیر, وزیروں۔, وزارت, وسائل, یہ, یقین, یوں, ییوں, یا, یعنی, ۔, ۔وزیر, ۔۔, ۔۔۔آج, ۔کہ, ۔کے, ۔پاکستان, ۔اور, ۔اِدہر, ۔اپنے, ۔ادارے, ۔اسی, ۔بلکہ, ۔تبدیلی, ۔جبکہ, ۔زرداری۔, ۔ستم, کہ, کہیں, کل, کم, کمانے, کچہری, کو, کوئی, کی, کیوں, کیوں؟, کی۔, کیا, کٌجا۔, کیخلاف, کیسے, کڑاہی, کے, کھلی, کھوکھلی, کھیل, کھیلا, کھینچ, کھاتیں, کئی, کئے, کا, کام, کاموں, کامیاب, کاےبیانات, کا۔کم, کاکاروبار, کاروائی, کاروبار, کاریاں, کار۔, کاران, کب, کبھی, کر, کرنے, کرنا, کر۔, کر۔۔۔خاص, کرپشن, کرتی, کرتے, کرتے۔اس, کرتے؟, کرتا, کردہ, کردار, کرسی, کرسکتا, کس, کسی, گیا, گھمبیر, گھی, گھاٹ, گھروں, گئی, گئے, گا؟, گا؟۔, گروہی, گرد, گردی, گزارنے, گزر, ٹلے؟اس, ٹیکسز, ٹھپ, ٹرانسپورٹرز, پہ, پہلے, پہنچایا, پہیہ, پمپس, پچھلی, پچھلے, پناہ, پچانوے, پوری, پورے, پورا, پوشی, پوشیدہ, پیچھے, پیدا, پیداوار, پیسے, پیش, پیشرو, پڑتی, پٹرول, پٹرولیم, پھانسی, پھرے, پا, پانچ, پانچوں, پاک, پاکستان, پاتے, پاتے۔تو, پارٹی, پتہ, پروردہ, پریس, پرانے, پرزے, پرزے۔عوام, پرست, ؟۔۔۔پاکستان, آمد, آنے, آیا, آگے, آگے۔, آپ, آئی, آئے, آبیاری, آبادی, آتی, آتے, آتا۔, آج, آخر, آدمی, آدھ, آسانی, اہل, اہلیت, اہلکار, اہلکار۔, افلاس, افسوسناک, اقتدار, الحال, الذمہ, الغرض, امن, امیدی, امیر, ان, انہوں, انہی, انہیں, انوکھے, انکوائری۔کوئی, انکی, انکے, انکا, انکار, انگلیاں, انگنت, انھیں, انتہاء, انتہائی, انتظار, انجام, انداز, اندازہ, اندر, اندرونی, انصاف, انصافی, اوپر, اوجھل, اور, ایمولینسز, ایمانی۔, ایڑی, ایک, ایسا, اڑا, اکثریت, اگر, اٹھا, اٹھتا, اپنی, اپنے, اپنا, اپوزیشن۔, ابھی, احسن, اختیار, ادنی, ادوار, ادا, ادارہ, اداروں, ادارے, ادارے۔کیا, ادراک, اربوں, ارد, از, اس, اسمبلیوں, اسی, اسے, اسکول, اسکے, اسٹیٹس, اسپتالوں, استحصال, استعفی, استعمال, اصل, اطمینان, اعلی, اعلانات, اعتبار, بہ, بہت, بہتری, بلند, بلکہ, بن, بننا, بنیاد, بنیادی, بنا, بنتے, بند, بولا, بولتے, بودے, بوسیدہ, بیکس, بیان, بیانات, بیرونی, بیشتر, بڑی, بڑے, بڑا, بے, بگڑتے, بھی, بھی۔, بھکاری, بھر, بھرم, بھرے, بھرتا, باقی, بالا, بانٹ, بات, بادشاہ, بار, باری, باز, بازار, بجائے, بجائے۔, بحران, بد, بدل, بدلنے, بدن, بدستور, بدعنوان, برقرار, بری, براہ, بسنے, بس۔, بغیر, تقاضہ, تقدیر, تلخ, تماشہ, تنقید, تنخواہ, تنخواہیں, تو, تیار, تک, تکلیف, تھی, تھے, تھے۔, تھا, تھانہ, تھانے, تھا۔, تحفہ, تحفظ, تحت, تحریر, تر, ترقی, ترجیج, تسلسل, تصور, تعلیم, جہالت۔غریبی۔, جہاں, جن, جنہوں, جنہیں, جنم, جنگ, جو, جینے, جیبیں, جیسے, جڑیں, جھوٹ, جام, جان, جانے, جائے, جائدادیں, جائز, جائزحقوق, جابر, جاتی, جاتا, جارہا, جاسکتی, جب, جدت, جرائت۔, جس, حق, حقوق, حقیقت, حقیقتوں, حقائق, حل, حلیف, حیرت, حکمتی, حکمران, حکمرانوں, حکمرانوں۔, حکمران۔, حکمران۔۔۔, حکومت, حکومتی, حالات, حالت, حاصل, حد, حربے, حسرتوں, حصے, خلاف, خوفناک, خون, خواہ, خواہشمند, خواہشیں۔, خواتین۔, خوار, خود, خاقان, خامیوں, خدا, دہ, دہوکہ, دہایوں, دہائیوں, دہشت, دلوا, دن, دنیا, دو, دونوں, دوڑائیں, دور, دی, دینے, دینا, دی۔, دیکھیں, دیگر, دیا۔, دیا۔پاکستان, دیتی, دیتے, دیتا, دے, دکھانے, دھجیاں, دھرتا, دھرتاؤں, دار, داروں, داری, درباری۔, دستور, دشمن, دشمنوں, دعوؤں, دعوتِ, ذہن, ذمہ, ذکر, ذاتی, رہ, رہن, رہی, رہے, رہے۔, رہا, روپے, رواج, روز, روزگار, روزگاری, ریاست, ریاستوں, ریاستیں, رکن, رکھنے, رکھنا, رکھی, رکھتے, رکاوٹ, رگوں, رؤ, راکٹ, رائج, رات, راست, راستہ, رجوع, رخصتی, رسوخ, رشوت۔, رعونت, رعایا, زندہ, زندگی, زور, زیادہ, زائد, سہن, سہولت, سہولتوں, سفید, سہاگہ, سفارش, سفر, سلاخوں, سلب, سلسلہ, سمجھ, سمجھنے, سمجھتے, سو, سونے, سوا, سوال, سی, سیاسی, سیاستدان, سیاستدان۔, سڑکوں, سے, سے۔, سے۔نہ, سکتے, سکتا, سالوں, ساٹھ, سائنس, ساتھ, ساختہ, ساری, ساز, سب, ستم, سر, سرے, سرکاری, سربراہان, سربراہان۔, شہہ, شئے, شامل, شاپ, شخص, شدت, شریف, صلاحیت, صورت, صورتیں, صورتحال, صورتحال۔, صحت, صرف, ضرور, ضرورت, ضرورتوں, طور, طے, طبقے, طرف, طریقہ, طریقوں, طریقے, طرح, ظلم۔, ظالم, ظریفی, عہدہ, عہدوں۔, عہدیدار, عہدیداران, عہدے, عفریت, عمل, عملہ, عنوانی, عوم, عوام, عین, عالم, عام, عامہ, عباسی۔, عدم, عذاب, عرصے, عزت, غیر, غاصابانہ, غریب, غصب
پاکستانی نام۔ ایک اہم مسئلہ۔
ہمارے ملک میں عام طور پہ بچے کے دو نام رکھے جاتے ہیں ۔
بچے کی علیحدہ سے شناخت کے لئے۔ اسکا نام ۔اس کے والد کا نام ۔ قبیلہ ۔ اور ذات، برادری بمعہ محلہ ،بستی، گاؤں ،گوٹھ ، ڈاک خانہ ،شہر ،تحصیل و ضلع۔ لکھ دیا جاتا ہے ۔
مگر اس کے باوجود ایک ہی محلے میں ایک ہی جیسے ناموں والے دو یا تین لوگ پائے جا سکتے ہیں۔ جس سے اجنبی لوگوں کو کسی خاص فرد کی تلاش و بسیار میں اور محکموں کی کسی ضروری کاروائی کے دوران بہت سے لطیفے جنم لیتے رہتے ہیں۔ اور بعض اوقات ایک نام کے کئی افراد ہونے کی وجہ سے پریشان کُن اور افسوس ناک صورتحال بن جاتی ہے۔ خط ایک ہی جیسے نام والے دوسرے افراد کو پہنچ جاتا ہے ۔یا مغالطہ میں لوگ غلط فرد سے معاملات کر لیتے ہیں۔
جبکہ بہت سے ممالک میں باپ کا خاندانی (بعض ملکوں میں قبائلی) نام اور ماں کا خاندانی نام بچے کے نام کے ساتھ لازمی جز کے طور لکھا جاتا ہے جو تا حیات اس کے نام کا حصہ بن جاتا ہے ۔ اور صرف نام سے ہی کسی کو الگ سے شناخت کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ کیونکہ صدیوں سے رائج ایسے ناموں کے نظام میں انتہائی مشکل سے ہی شاید کبھی دو ایک جیسے نام اور باپ کا خاندانی اور ماں کا خاندانی نام یعنی یہ نام دو یا دو سے زائد افراد کے ہوں۔
یوں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لیکر عام اداروں اور لوگوں کو بھی کسی سے رابطہ کرنے ، اور درست فرد کے ساتھ معاملات کرنے میں دشواری نہیں ہوتی ۔
پاکستان میں تو شناخت کئی طریقوں سے کروا ئی جا سکتی ہے۔ اور ایک دیسی طرز کے ہمارے نظام میں کئی لوگ کسی کی شہادت اور شناخت میں مدد گار ہوں گے۔ اور شناختی کارڈ بننے سے یہ مسئلہ کچھ بہتر ہوا ہے ۔ حالانکہ آج بھی پاکستان میں عام آدمی کم ہی کسی کو اسکی شناختی کارڈ کی وجہ سے شناخت کرتا ہے ۔ عام طور پہ ارد گرد کے لوگ ہی سوال و جواب کی صورت پتہ و مقام بتا دیتے ہیں۔
مگر جب پاکستانی اپنے ممالک سے باہر جاتے ہیں تو وہاں پہ فیملی نام نہ ہونے کی وجہ سے اور ایک ہی شہر میں ایک ہی نام سے دو سے زائد پاکستانی ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے لئے تکلیف دہ صورتحال جنم لیتی ہیں ۔ جس میں بنکوں کے اکاؤنٹ بلاک ہونے سے لیکر مختلف محکموں کے واجبات اور بل اور جرمانے وغیرہ ان لوگوں کے اکاؤنٹ سے کٹ جاتے ہیں جو ایک جیسے نام کی وجہ سے یہ تکلیف بھگتتے ہیں اور بعدمیں صورتحال کا درست علم ہونے پہ۔متعلقہ اداروں سے اپنی رقم واپس لینے کے لئے سر پھٹول کرتے پائے جاتے ہیں۔
بہت سے لوگوں کو رقم کی وصولی ۔یا پاکستان رقم بھیجنے پہ محض اس لئے نہیں وصول کی گئی کہ بھیجنے والے یا وصول کرنے والے کا نام بلیک لسٹ کیے جانے والے کسی مبینہ دہشت گرد کے نام کی طرح نام تھا۔
پاکستانی اداروں اور خاص کر ۔ نادرہ ۔ کو اس صورتحال کا کوئی حل نکالنا چاہیے۔ تانکہ بہت سے لوگ غیر ضروری طور پہ اس طرح کی صورتحال سے بچ سکیں ۔ نیز انہیں کسی سطح پہ یہ اہتمام بھی کرنا چاہیے کہ دیگر ممالک کے محکمہ داخلہ کے علم میں یہ بات لائی جائے کہ پاکستان میں بچے کی پیدائش پہ عام طور پہ محض دو نام رکھ دئیے جاتے ہیں ۔ جن کا خاندانی نام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بچے کے نام کے ساتھ خاندانی نام رکھنے کی پابندی نہیں اور نہ ہی اس کا رواج ہے۔ تانکہ ایک ہی جیسے نام رکھنے والے پاکستانیوں کو در پیش مشکلات میں سرکاری اداروں کو رہنمائی ہو سکے اور غیر متعلقہ لوگ عتاب یا پریشانیوں کا باعث نہ بنیں ۔
اسی طرح ایک اور مسئلہ جو بہت اہم ہے ۔ وہ ہے مقامی ، اردو، عربی اور فارسی کے ناموں کو انگریزی میں درج کرتے ہوئے انکے درست ہجوں کا ۔ مثال کے طور پہ ۔ محمد کو انگریزی میں لکھتے ہوئے ۔ بہت سے سرکاری ادارے اور خاص کر پا سپورٹ آ فسوں میں کلرک حضرات Mohammed اور Muhammad ان دو طریقوں سے لکھتے ہیں ۔ یعنی کہیں انگریزی کا حرف ”یُو“ ۔ اور کہیں انگریزی کا حرف ”او“ کے ساتھ ”محمد “ لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح کا معاملہ پاکستان میں بہت سے ناموں کے ساتھ ہے ۔۔ جن میں ۔جاوید۔ صدیق۔ اور دیگر کئی نام آتے ہیں۔
پاکستان کے مختلف سرکاری اداروں کے کلرک بابو ۔ ایک ہی فرد کا نام ۔ پاسپورٹ۔ اور دیگر کئی دستاویزات ۔ برتھ سرٹیفیکٹ ۔ نکاح نامہ وغیرہ پہ جن کا انگریزی میں ترجمہ کروانے پہ ۔ مختلف ہجوں سے لکھ دیا جاتا ہے ۔ جس سے غیر ممالک میں نہ صرف پاکستان کی جگ ہنسائی ہوتی ہے ۔ بلکہ سائل کو کئی بار اور کئی ماہ دفتروں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں اور خواری الگ سے ہوتی ہے۔
ہماری ذاتی رائے میں ۔ حکومت پاکستان کی ایماء پہ۔ نادرہ پاکستان میں رائج اور مستعمل ناموں کی ایک فہرست تیار کرے اور اسے لغات کی طرز پہ اردو کے سامنے درست انگریزی نام تجویز کرے۔ اور اس فہرست کو سبھی سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کو بھیج دیا جائے اور عام افراد کے لئیے اسے نادرہ کی ویب سائٹ پہ آن لائن شائع کر دیا جائے ۔تانکہ عام افراد اور نجی ادارے بھی اس سے استفادہ کر سکیں ۔ نیز سرکاری و نیم سرکاری اداروں کو آئیندہ کے لئیے پابند کیا جائے کہ وہ نادرہ کے۔ منظور و شائع کردہ ۔درست نام کے ساتھ دستاویزات جاری کریں گے۔ تانکہ مستقبل میں ایسی الجھنوں سے بچا جاسکے۔
کسی بھی حکومت ۔ متعلقہ اداروں اور ذمہ دار افراد کے لئیے یہ ایک معمولی مسئلہ ہے ۔ جسے حل کرنا چندا ںمشکل نہیں ۔ جس سے ۔اندرون و بیرون ملک پاکستانی بہت سی پیچیدگیوں سے محفوظ رہ سکیں گے ۔اور ملک کی جگ ہنسائی نہیں ہوگی۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, ”یُو“, Mohammed, Muhammad, NADRA, ہمارے, ہو, ہونے, ہوں, ہوں“۔, ہوئے, ہوا, ہوتی, ہوتی۔, ہوتا, ہی, فیملی, ہیں, ہیں۔, ہیں۔مگر, ہے, ہے۔, فارسی, ہجوں, فرد, فسوں, قانون, قبیلہ, قبائلی), لوگ, لوگوں, لینے, لیکر, لیتی, لیتے, لکھ, لکھا, لکھتے, لئے, لئے۔, لائی, لازمی, لسٹ, لطیفے, مقام, مقامی, ملک, ملکوں, ممالک, میں, مگر, ماں, مبینہ, متعلقہ, مثال, محلہ, محلے, محمد, محکمہ, محکموں, محض, مختلف, مدد, مسئلہ, مسئلہ۔ہمارے, مشکل, مشکلات, معاملات, مغالطہ, نہ, نہیں, نیز, نکالنا, چاہیے, نافذ, نام, ناموں, نام۔, ناک, نادرہ, نادرہ، نادرا, نظام, و, وہ, وہاں, والے, والد, ڈاک, واپس, واجبات, وجہ, وصول, وصولی, وغیرہ, یہ, یوں, یا, یعنی, ۔, ۔یا, ۔اس, ۔اسی, ۔بچے, کہ, کہیں, کلرک, کم, کو, کوئی, کی, کیونکہ, کیے, کُن, کے, کٹ, کئی, کا, کارڈ, کاروائی, کبھی, کر, کرنے, کرنا, کروا, کرتے, کرتا, کسی, گے۔, گئی, گاؤں, گار, گرد, پہ, پہنچ, پیدائش, پیش, پھٹول, پا, پاکستان, پاکستانی, پاکستانیوں, پائے, پابندی, پتہ, پریشان, پریشانی, پریشانیوں, ،, ،گوٹھ, ،بستی،, ،تحصیل, ،شہر, آ, آنے, آج, آدمی, ئی, اہم, اہتمام, افراد, افسوس, الگ, ان, انہیں, انکے, انگریزی, انتہائی, او, اوقات, اور, ایک, ایسے, اکاؤنٹ, اپنی, اپنے, اجنبی, اداروں, ادارے, ارد, اردو،, اس, اسکی, اسکا, بہت, بہتر, بل, بلیک, بلاک, بمعہ, بن, بننے, بنیں, بچے, بنکوں, بھی, بھیجنے, بھگتتے, باہر, باوجود, باپ, بات, باعث, بتا, برادری, بسیار, بعد, بعض, تلاش, تو, تین, تکلیف, تھا۔پاکستانی, تا, تانکہ, تعلق, جن, جنم, جو, جواب, جیسے, جا, جانے, جائے, جاتی, جاتے, جاتا, جب, جبکہ, جرمانے, جز, جس, حل, حیات, حالانکہ, حرف, حصہ, حضرات, خانہ, خاندانی, خاص, خط, دہ, دہشت, دو, دوران, دوسرے, دیگر, دیا, دیتے, دیسی, دئیے, داخلہ, در, درج, درست, دشواری, ذات،, رہنمائی, رہتی, رہتے, رقم, رواج, رکھ, رکھنے, رکھے, رائج, رابطہ, زائد, سوال, سے, سکیں“, سکے, سکتی, سکتے, سپورٹ, ساتھ, سر, سرکاری, سطح, شہادت, شہر, شناخت, شناختی, شاید, صورت, صورتحال, صدیوں, صرف, ضلع۔, ضروری, طور, طریقوں, طرح, طرز, علم, علیحدہ, عام, عتاب, عربی, غلط, غیر