مہلت۔
حکمران ہوش کے ناخن لیں۔۔۔
جنرل مشرف کے دور میں اس خطےکے ممالک کے عام شہری ہی کیا۔ اچھے خاصے تجزئیہ نگار ہمیں امریکہ کی ایک سیٹلائٹ ریاست گردانتے تھے۔ آج بھی پاک امریکہ تعلقات کی تعریف کرنا اتنا آسان نہیں۔ کہیں تو یوں لگتا ہے کہ دونوں ممالک یک جان دو قالب ہیں ۔اور کچھ معاملات میں دو بدو آمنے سامنے نظر آتے ہیں۔ پاکستان سے باہر خطے کے دیگر ممالک کے سنجیدہ سوچ رکھنے والے اور حالات حاضرہ پہ نظر رکھنے والے اچھے خاصے دانشور۔ پاکستان کے بارے میں کینفیوز ہوجاتے ہیں اور الجھ جاتے ہیں۔ کہ آیا امریکا پاکستان کا دوست ہے یا دشمن؟۔ اس ضمن میں صلالہ پوسٹ پہ حملہ۔ ایبٹ آباد کے قریب حملہ۔ پاکستان میں افغانستان سے دہشت گردی کا اہتمام ۔اور دیگر بہت سے معاملات۔ باہمی تعلقات کی رسہ کشی کو جہاں نمایاں کرتے ہیں ۔ وہیں روز اسلام آباد کے نت نئے دوروں پہ آئے۔ امریکی اعمال اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل در معقولات۔ اسکول اساتذہ کی تربیت سے لیکر فارمی مرغیوں کے گوشت اور انڈوں کی اقسام اور ان پہ بھاؤ تاؤ اور مول تول تک میں۔ ناک گھسیڑتے امریکی۔ پاکستان و امریکہ کے تعلقات کی ایک پیچیدہ داستان بیان کرتے ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آج کی دنیا ۔ بین الاقوام مفادات کی دنیا ہے ۔ جس میں کوئی ملک کسی کا حتمی دوست نہیں ہوتا۔ اور مفادات کے تابع دوستیاں اور دشمنیاں طے ہوتی ہیں۔
ایک مشہور مغربی کہاوت ہے کہ ۔۔۔ "نئے دشمن کی نسبت ایک دیرینہ دشمن بہتر ہوتا ہے”۔۔۔۔ یعنی دیرینہ دشمن کے طریقہ واردات کو آپ سمجھ چکے ہوتے ہیں۔ جب کہ نئے دشمن کے بارے میں آپ مکمل اندھیرے میں ہوتے ہیں۔امریکی۔ بشار الاسد کی امریکی شرائط ماننے پہ آمادہ حکومت کو۔ ایک کمزور حکومت کو۔ اپنے اور اسرائیل کے وسیع تر مفاد میں قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ داعش کا حیرت انگیز طریقے سے وجود میں آنا۔ تیزی سے ابھرنا ۔ پھیلنا اور پھر سکڑنا۔ عراقی باقاعدہ فوج کے ساتھ سنی کرد ” پیش مرگہ” کی داعش کے خلاف تیزی سے پیش قدمی۔ پھر اسے نظر انداز کرنے کی پالیسی اور عراقی و ایرانی شعیہ ملیشیاء کا داعش کے خلاف میدان میں اترنا۔ داعش کا شامی حکومت کے خلاف اعلان جنگ ۔اور اسرائیل کی بجائے۔ بیک وقت سعودی عرب اردن اور دیگر کے خلاف صف بندیوں کی دھمکی ۔اور اقدامات۔ امریکہ کی طرف سے کچھ لوگوں کی تربیت اور امداد ۔جو بیک وقت شامی حکومت اور داعش کے خلاف امریکی مفادات کے لئیے میدان میں اتریں ۔ عرب ممالک کا بیک وقت بشار الاسد اور داعش کے خلاف صف بندی۔ یہ وہ اجزائے ترکیبی ہیں جن سے اس خطے کی نئی تصویر بننے جارہی ہے۔ مگر یہ اجزائے ترکیبہ ابھی مکمل نہیں ۔ کیونکہ آنے والے دنوں میں داعش اور شامی حکومت میں امریکہ کے خلاف کسی حد تک مفاہمت ہوسکتی ہے۔
اس پورے خطے کو میدان جنگ بنانے میں جس میں پاکستان کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس میں خام مال کا زیادہ حصہ پاکستان سے لیا جانا مقصود ہے اور اس خام مال کی تیاری راتوں رات نہیں ہوئی۔ بلکہ اسے کاشت کرنے اور پروان چڑھانے میں۔ آپکے دشمنوں نے کئی دہائیاں لگائی ہیں قرضہ ۔ مدد۔ اور بھیک کی مد میں اربوں ڈالرز خرچ کئے ہیں۔ درجنوں سالوں سے منصوبہ بندی کی ہے۔ مسلمان ملکوں میں اپنی مرضی کے سربراہ مسلط کر کے قوموں کو بانجھ کیا ہے۔ قوموں کو بھیڑ اور منتشر ہجوم میں تبدیل کیا ہے۔ جو قومیں تاریخی اور پرانی تھیں مثلاََجیسے ترکی وغیرہ اور انہوں نے اپنے حکمران خود چنے۔ وہ آج قدرے مستحکم اور بہتر پوزیشن میں ہیں ۔ جن ممالک کے حکمرانوں نے امریکہ و مغرب کی منشاء کے سائے میں زندگی گزاری۔ آج ان ممالک اور قوموں کو ۔ غداری۔ فحاشی ۔آوارگی۔ نفرت۔ احساس محرومی۔ لاتعلقی۔اور بالآخر خانہ جنگی جیسے مسائل بھگتنے پڑ رہے ہیں اور بھگتنے پڑیں گے۔ امریکہ کے مسلط کردہ حکمرانوں نے اس خطے کی قوموں میں جوہر قابل پیدا ہی نہیں ہونے دیا۔ انھیں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے کو دے دی گئیں۔ اور یہ آپس میں دست و گریباں ہوئے ۔ایک کو تھپکی۔ دوسرے کو ڈانٹ اور تیسرے کو اشارہ ۔ کئی دہائیوں سے امریکہ کی اس خطے کے بارے خارجہ پالیسی یہی رہی ہے۔
پاکستان میں اسکندر مرزا ۔ایوب ۔ یحییٰ خان۔ ضیاء۔ مشرف کے لمبے آمرانہ دور اقتدار میں۔ مقامی جوہر قابل کو پروان چڑھنے اور مقامی صنت و حرفت کے پھلنے پھولنے کو بھاری امریکی منصوبوں سے روکا گیا۔ ملک میں اپنے وسائل سے ترقی کرنے ۔ اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے اور خود انحصاری کے خواب کو۔ ایک بھوکے ننگے ملک کی تصویر میں بدل دیا گیا۔ پاکستان کو امریکہ اور مغرب سے درآمد شدہ منصوبوں اور ماہرین کی درآمد سے رفتہ رفتہ ۔اور بالآخر محض ڈالروں کی آمدن تک محدود کر دیا گیا۔ جس میں امریکی چہیتوں کے لئیے تو آسانیاں اور فروانیاں تھیں۔ انہوں نے ان میلنز ڈالرز سے خوب جیبیں بھریں مگر بدقسمتی سے عام عوام کے حصہ میں یہ قرضہ اور اس کا سود چکانے کے لئیے بھاری ٹیکس آئے۔ اور آئی ایم ایف جیسے عالمی ساہوکار ادارے پاکستانی اناج کی قیمت پہ اثر انداز ہونے لگے۔ پاکستانی قوم کی ایک بڑی اکثریت پچاس سالوں سے مسلسل درد زہ بھگتتے بھگتتے ۔ پاکستان میں قسما قسمی کے تعصبات۔ لسانی ۔ صوبائی۔ علاقائی۔ مذہبی۔ مسلکی ۔ گروہی۔ سیاسی۔ اور دہشت گردی جیسے بھیانک مسائل پیدا کرتی چلی گئی اور اپنے خوابوں کی تعبیر اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہوتی گئی۔
آج یہ عالم ہے کہ ہر شہری ۔ ہر فرد ۔ شاکی ہے اور کسی کا بھی گلا کاٹنے کو تیار ہے۔ اس کی ایک حالیہ مثال لاہور میں نصرانی برادی کے ہاتھوں دو زندہ جلائے جانے والے عام راہگیروں کی ایک مثال ہی کافی ہے۔ نتائج سے بے پرواہ ہو کر تشدد پہ آمادہ ہوجانے اور اچانک کسی انتہائی قدم پہ اترنے سے پاکستانی عوام کے مزاج میں مایوسی اور فرسٹریشن کی خوفناک صورتحال سامنے آتی ہے۔ جو کہیں بھی محض کسی ایک واقعے سے ایک خوفناک تصادم میں بدل سکتی ہے۔
یہ سب محض چند دنوں میں نہیں ہوا ۔ اسکے پیچھے عالمی طاقتوں کی پچاس سالوں سے زائد وہ حکمت عملی ہے۔جس میں ہمارے بے برکتے اور سیاسی شعور اور بصیرت سے عاری۔ بے بس حکمرانوں کی حماقتیں اور بے عملیاں برابر کی ذمہ دار ہیں۔ جن میں عوام مسلسل پسے ہیں اور ان کے احساس محرومی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے ۔ انکی عزت نفس کو قدم قدم پہ کچلا گیا ہے۔ عوام کی کئی نسلیں جوان ہو چکی ہیں اور انکے حصے میں پچھلی نسل کی نسبت پہلے سے زیادہ مایوسی آئی ہے۔ اور بدستور پاکستان میں عوام کو مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ جہاں کوئی بھی چارہ گر انھیں اپنے مقاصد کے لئیے دھوکے سے استعمال کر سکتا ہے ۔ جس سے مشرق وسطی جیسے حالات پاکستان میں بھی پیدا کئیے جاسکتے ہیں ۔ اس لئیے بھی پاکستانی کرتا دھرتاؤں کو چاہئیے کہ وہ اپنی بقا کی ہی خاطر سہی۔ اپنے عوام کا معیار زندگی بہتر کرنے کی کوششوں کو اپنی اولین ترجیج سمجھیں ۔ اور پاکستان پہ مسلط ۔ورثے میں ملے اس بوسیدہ انگریزی نظام اور سوچ سے جان چھڑائیں۔ اور ایسی تبدیلیوں کا آغاذ کریں۔ جن سے عوام کی زندگی میں بہتری آئے اور عوام یہ بہتری ہوتے ہوئے محسوس کریں ۔ محض خالی خولی دعووں سے خالی پیٹ بھرنا ناممکن ہوتا ہے۔ ورنہ کوئی وقت جاتا ہے۔ کہ حالات حکمرانوں کے بس سے باہر ہو جائیں گے خدا نخواستہ۔
پاکستان کے حالات کو ہم بہتر سمجھتے ہیں۔ اسلئے پاکستان کے حالات کی مثال بیان کی ہے۔ پاکستان جیسے حالات مشرق وسطی کے بہت سے ممالک کے ہیں ۔مثلاََ مصر کو پاکستان کے نقش قدم پہ چلایا جارہا ہے۔ وہاں وہی پاکستان کی طرز کی امریکی پالیسیز ہیں اور السیسی جیسا فوجی جرنیل حکومت میں ہے۔ جبکہ پاکستان میں بھی سیاسی حکومتیں ابھی تک لرزہ براندام ہیں۔
پاکستان کے اور مشرق وسطی کے منظر نامے کو جو لوگ محض مذہبی نکتہ نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس خطے کے حالات محض اس لئیے بگاڑے گئے کہ عالمی طاقتیں مسلمانوں سے نفرت کرتی ہیں ۔ انھیں اس سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان طاقتوں کے لئیے ہمارا مذھب۔ اسلام ۔ایک اہم فیکٹر ضرور ہے۔ جس میں مسلکی اختلافات کو ہوا دے کر وہ اپنے حق میں کئیش کروانا چاتے ہیں ۔ مگر انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ۔کہ ان ممالک میں شیعہ بستے ہیں یا سنی ۔ مالکی یا حنبلی ۔ دیو بندی یا بریلوی۔ اہل حدیث یا اہل سنت ۔ عالمی طاقتوں کو محض اپنے اغراض و مقاصد سے دلچسپی ہے۔ جو بہت مختلف ہیں ۔ جہاں خطے کے وسائل سے استفادہ سے لیکر ایسی کسی ممکنہ سیاسی طاقت ۔۔۔۔۔خواہ وہ اسلامی ہو یا نیم اسلامی مگر جو خطے کے مذھب اور مزاج کی وجہ سے اسلامی ہوسکتی ہے۔۔۔۔۔ ایسی کسی بڑی اور مستحکم سیاسی طاقت کو وقوع پزیر ہونے سے روکنا ہے ۔ جو عالمی طاقتوں کے سیاسی اور معاشی مفادات کے لئیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ اور انکے مفادات لئیے چیلنج بن جائے۔ یہ طاقتیں ہندو بنئیے کی سی سوچ رکھتی ہیں اور ہر صورت میں اپنے مفادات کے لئیے۔ دہائیوں پہ محیط منصوبوں پہ عمل درآمد کرتی ہیں ۔ وقتی مفادات کے تحت یہ وقتی یا غیر متوقع طور پہ پیدا ہونے والی صورتحال سے ممکن ہے وقتی طور پہ سمجھوتہ کر لیں ۔یا ۔ایسی صورتحال کو اپنے مفاد میں کئیش کروانے کی کوشش کریں ۔ مگر اپنے حتمی مفادات کو ہمیشہ مد نظر رکھتی ہیں ۔ اور وہ اس سارے خطے کی بے چینی اور خون خرابی اور سیاسی عدم استحکام کو بھی اپنی ایک کامیابی سمجھتی ہیں ۔کہ انہوں نے ہمیں دنیا کی ترقی و ترویج میں حصہ لینے سے روک رکھا ہے ۔ خطے کے ممالک کے مسلمان عوام کی ترقی رکی ہوئی ہے۔ اور دنیا میں مسلمان ممالک کے ایک بڑے خطے کو کئی دہائیوں سے باہم دست گریباں کر رکھا ہے۔ اور جہاں وہ ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ بات نہیں بنی ۔ وہاں وہ براہ راست اپنی فوجیں اتار دیتے ہیں ۔ عراق اور افغانستان اس کی ایک مثال ہیں۔ اسلئے اس ساری صورتحال کو محض مذہب یعنی اسلام کے خلاف صف آرائی سے کچھ آگے۔ یعنی دنیا میں بنیاء ذہنیت اور اسکے مفادات کی تکمیل کے تناظر میں دیکھنے کی اور سمجھنے کی ضرورت ہے تانکہ مکمل تصویر سامنے آسکے ۔
جس طرح مشرق وسطی میں کچھ سالوں قبل تک شام کو ایک بہت مستحکم ملک سمجھا جاتا تھا ۔ حکومت کی عوام پہ گرفت بہت مضبوط تھی ۔ شامی مخابرات لوگوں کے گھروں میں پکنے والے کھانوں تک کی تفضیلات کی خبر رکھتی تھی۔ مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ فضاء بنی کہ آج یقین ہی نہیں آتا کہ جبر کی بنیاد پہ قائم شام۔ کل تک مشرق وسطی کا سیاسی طور پہ ایک مستحکم ملک تھا ۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملک وہی مستحکم ہوتے ہیں اور ہر قسم کے اندرونی و بیرونی چیلنجز کا باآسانی مقابلہ کر لیتے ہیں ۔ جن ممالک کے عوام مضبوط اور مستحکم ہوتے ہیں۔ جنہیں اپنے ملک کے اندر آزادی ۔ انصاف اور تحفظ حاصل ہو۔ جہاں مسائل کا حقیقی حل ہو۔ جہاں زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے پالیسیز ترتیب دی جائیں ۔ مقامی طور پہ عوام کے مسائل حل کئیے جائیں ۔روزی روٹی ۔امن عامہ اور توانائی جیسے بحران نہ ہوں۔ عوام کو احساس تحفظ ہو۔
پاکستانی عوام کے مسائل وہی بنیادی ضرورتوں کے نہ ہونے سے متعلق ہیں ۔ جنہیں حل کرنے کی بجائے حکمران ہمیشہ دور کی کوڑی لاتے رہیں ہیں۔ اس لئیے شتر مرغ کی طرح مسائل سے اغماض برتنے کی بجائے انہیں جنگی بنیادوں پہ تیز ترین حکمت عملی کے تحت حل کیا جاناچاہئیے۔ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی فیصلوں اور اقدامات کرنے سے سے ہی حالات بہتر کئیے جاسکتے ہیں ۔
ورنہ پاکستانی عوام میں بے بسی اور مایوسی کی انتہاء کو چھوتا جو غصہ ان کے دلوں میں پل رہا ہے وہ کبھی بھی خوفناک صورتحال اختیار کر سکتا ہے۔ پاکستان میں اگر کبھی خدا نخواستہ حالات قابو سے باہر ہوئے اور حکمران طبقے کو تو ہزیمت اٹھانی ہی پڑے گی مگر ملک و قوم کا بہت نقصان ہوگا۔
یہ ایک معجزہ ہے کہ پاکستان میں باہمی ٹکراؤ کے سارے اجزائے ترکیبی ہونے کے باوجود۔پاکستانی قوم نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا ۔ مگر حکمرانوں کو بھی اس معجزہ کو قدرت کی طرف سے حالات بہتر کرنے کے لئیے ایک مہلت سمجھنا چاہئیے۔ اور عوام کے حالات بہتر کرنے کے لئیے انتھک کوشش کرنی چاہئیے۔
جاوید گوندل ۔
۱۸ مارچ ۲۰۱۵۔بارسیلونا
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, “, Gondal, Javed, ہمیں, ہونے, ہوئی۔, ہوئے, ہوتی, ہوتے, ہوتا, ہوتا۔, فوج, ہوجاتے, ہوسکتی, ہوش, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں۔امریکی۔, ہیں۔ایک, ہے, ہے"۔۔۔۔, ہے۔, ہے۔اس, ہے۔صرف, فارمی, ہجوم, فحاشی, قوموں, قومیں, قالب, قائم, قابل, قدمی۔, قدرے, قریب, قرضہ, لمبے, لوگوں, لیکر, لیں۔۔۔جنرل, لیا, لگائی, لگتا, لئیے, لاتعلقی۔اور, مہلت۔حکمران, مفاہمت, مفاد, مفادات, مقامی, مقصود, ملیشیاء, ملک, ملکوں, ممالک, منتشر, منصوبہ, منصوبوں, مول, میں, میں۔, میدان, مکمل, مگر, ماہرین, مال, ماننے, مثلاََجیسے, محرومی۔, محض, مد, مدد۔, مرگہ", مرزا, مرضی, مرغیوں, مسلمان, مسلط, مسائل, مستحکم, مشہور, مشرف, معقولات۔, معاملات, معاملات۔, مغرب, مغربی, نہیں, نہیں۔, نفرت۔, نمایاں, چنے۔, ننگے, چڑھنے, چڑھانے, نے, چکے, نگار, نئی, نئے, چاہتے, ناک, ناخن, نت, نسبت, نظر, و, وہ, وہیں, وقت, والے, ڈالروں, ڈالرز, ڈانٹ, واردات, وجود, وسیع, وسائل, وغیرہ, یہ, یہی, یوں, یک, یا, یحییٰ, یعنی, ۔, ۔۔۔, ۔۱۸, ۔آوارگی۔, ۔اور, ۔ایوب, ۔ایک, ۔جو, کہ, کہیں, کہاوت, کمزور, کو, کو۔, کوئی, کوشش, کی, کینفیوز, کیونکہ, کیا, کیا۔, کے, کپڑا, کئی, کئے, کا, کاشت, کر, کرنے, کرنا, کرتے, کرد, کردہ, کسی, کشی, گوندل, گوشت, گیا۔, گے۔, گھسیڑتے, گئیں۔, گریباں, گردی, گردانتے, گزاری۔, ۲۰۱۵۔بارسیلونا, پہ, پورے, پوزیشن, پوسٹ, پیچیدہ, پیدا, پیش, پڑ, پڑیں, پھلنے, پھولنے, پھیلنا, پھر, پالیسی, پاک, پاکستان, پاؤں, پروان, پرانی, آمنے, آمادہ, آمدن, آمرانہ, آنے, آنا۔, آیا, آپ, آپکے, آپس, آئے۔, آباد, آتے, آج, آسان, اہتمام, افغانستان, اقتدار, اقدامات۔, اقسام, القوام, الاسد, الجھ, امداد, امریکہ, امریکی, امریکی۔, امریکا, ان, انہوں, انڈوں, انگیز, انھیں, اچھے, انحصاری, اندھیرے, انداز, اندرونی, اور, ایک, ایبٹ, ایرانی, اگست, اپنی, اپنے, ابھی, ابھرنا, اتنا, اترنا۔, اتریں, اجزائے, احساس, اربوں, اردن, اس, اسلام, اسے, اسکندر, اسکول, اساتذہ, اسخطےکے, اسرائیل, اشارہ, اعلان, اعمال, بہت, بہتر, بلکہ, بننے, بنانے, بندی, بندیوں, بندی۔, بولنے, بولیاں, بیچ, بیک, بیان, بھوکے, بھی, بھیڑ, بھیک, بھگتنے, بھانت, بھاؤ, بھاری, باہمی, باہر, باقاعدہ, بالآخر, بانجھ, بارے, بجائے۔, بدل, بدو, بشار, تلے, تو, تول, تیاری, تیزی, تیسرے, تک, تھیں, تھے۔, تھپکی۔, تاؤ, تابع, تاریخی, تبدیل, تجزئیہ, تر, ترقی, ترکی, ترکیبہ, ترکیبی, تربیت, تصویر, تعلقات, تعریف, ثابت, جہاں, جن, جنہوں, جنگ, جنگی, جو, جوہر, جیسے, جان, جانا, جاوید, جاتے, جارہی, جب, جس, حملہ۔, حیرت, حکمران, حکمرانوں, حکومت, حالات, حاضرہ, حتمی, حد, حرفت, حصہ, خلاف, خواب, خود, خام, خانہ, خان۔, خارجہ, خاصے, خرچ, خطے, دہائیوں, دہائیاں, دہشت, دنوں, دنیا, دو, دونوں, دور, دوروں, دوست, دوستیاں, دوسرے, دی, دیگر, دیا, دیا۔, دیرینہ, دے, دھمکی, دانشور۔, داستان, داعش, دخل, در, درآمد, درجنوں, دست, دشمن, دشمنوں, دشمنیاں, دشمن؟۔, رہی, رہے, رفتہ, روکا, روز, ریاست, رکھنے, رکھنا, رات, راتوں, رسہ, زندگی, زیادہ, سمجھ, سچی, سنجیدہ, سوچ, سیٹلائٹ, سے, سکڑنا۔, سالوں, سامنے, سائے, ساتھ, سربراہ, سعودی, شہری, شامل, شامی, شدہ, شرائط, شعیہ, صف, صلالہ, صنت, ضمن, ضیاء۔, طے, طرف, طریقہ, طریقے, عام, عراقی, عرب, غداری۔
اجتماعی شعور کا ارتقاء اور پاکستان کی کم ظرف اشرافیہ۔
عوام
جہاں تک سو فیصد دیانتداری کا تقاضہ ہے تو یہ سو فیصد دیانتداری دنیا کے عوام میں کہیں بھی نہیں پائی جاتی ۔اس بات کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ دنیا بھر کی جیلوں میں دنیا کی سبھی قوموں کے کرپٹ لوگ بند ہیں۔
لیکن پاکستانیوں کی اکثریت اپنے پیدائشی ماحول اور اپنے ارد گرد ہر طرف پائے جانے والی بے بسی اور روز مرہ زندہ رہنے کی جستجو میں زندگی گھسیٹنے کے لئیے معاشرے اور بااثر طبقے کی طرف سے مسلط کی گئی کرپٹ اقدار اور بدعنوانی کی وجہ سے محض زندہ رہنے کے لئیے ڈہیٹ بن کر ہر قسم کے ظلم و ستم پہ بہ جبر زندگی گزارنے پہ مجبور ہے۔
اور جب اپنی اور اپنے خاندان کا جان اور جسم کا سانس کا ناطہ آپس میں میں جوڑے رکھنا محال ہو جائے۔ اور ایسا کئی نسلوں سے نسل درنسل ہو رہا ہو اور ہر اگلی نسل کو پچھلی نسل سے زیادہ مصائب و آلام کا سامنا ہو اور اسی معاشرے کے ہر قسم کے رہنماؤں کی اکثریت جن میں مذہبی ۔ علمی۔ سیاسی۔ دینی۔ حکومتی ۔ فوجی۔ قسما قسمی کی حل المشکلات کی معجون بیچنے والے دہوکے باز۔اٹھائی گیر ہوں اور بد ترین اور بدعنوان ہوں۔ تو وہاں خالی پیٹ۔ اور بے علم۔ بے شعور عوام سے دیانتداری کا اور وہ بھی سو فیصد دیانتداری کا تقاضہ ظلم ہے۔
مندرجہ بالا بیان کردہ حالات ایسا کلٹ کلچر بنا دیتے ہیں جس میں دیانتداری کا خمیر پیدا ہی نہیں ہوتا۔جیسے رات کو دہوپ نہیں ہوتی۔ اور اس کا مظاہرہ پاکستانی معاشرے میں روزہ مرہ زندگی میں سرعام نظر آتا ہے ۔
کوڑھ کی کاشت کر کے خیر کی امید کیسے باندھی جائے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہمیشہ بڑے لوگ۔ مشہور لوگ۔ لیڈ کرنے والے لوگ۔ بااثر طبقہ سے سے تعلق رکھنے والے لوگ۔ اشرافیہ۔ حکمران۔ رہنماء۔ علماء۔ جرنیل۔ اساتذہ اور اس قبیل کے دیگر لوگ مثال بنا کرتے ہیں ۔
جیسے گھر کا سربراہ یا بڑا بھائی اگر سگریٹ نوشی ۔ شراب نوشی یا آوارہ گردی کرے تو سارا گھرانہ وہی عادتیں پکڑتا ہے۔مگر پاکستان کی اشرافیہ اور بااثر طبقے کو مثالی کہنے کی بجائے کم ظرف اور تنگ دل کہنا بجا نہ ہوگا کہ جن سے پاکستانی عام عوام کویئ مثبت تحریک پا سکے ۔
اس کے باوجود اگر پاکستانی قوم میں کچھ اقدار باقی ہیں تو یہ شاید ان جینز کا اثر ہے جو عام عوام کے خون میں شامل ہیں۔ اور ہنوز اخلاقی بد عنوانی کے خلاف مزاحمت کر ہے ہیں۔
ہمارا معاشرہ مختلف وجوہات کی وجہ سے ۔ ہزراوں سال سے غلامی میں پسنے کی وجہ سے مجبور و معذور ہےاور ہماری ذہنی بلوغت ہی نہیں ہوسکی۔
ہمارے معاشرے میں۔
ہماری انفرادی معاشی خود مختاری ۔ روٹی روزی۔ بنیادی ضروریات اور گھر جیسے تحفظ کا تصور ہی اپنے صحیح معنوں میں فروغ نہیں پا سکا ۔ کیونکہ پاکستان کی بہت بڑی آبادی کو یہ چیزیں مکمل آزادی اور عزت نفس کو پامال کئیے بغیر نصیب ہی نہیں ہوئیں ۔ تو شخصی آزادی یا اجتماعی سوچ بھلا کیونکر فروغ پاتیں؟
آج بھی پاکستان کی بڑی اکثریت کے لئیے۔ پٹواری۔ نیم خواندہ تھانیدار اور گھٹیا اخلاق و تربیت کے اہلکار۔ حکومت اور عام آدمی کے درمیان تعلق کا پُل ہیں۔اور ان سے آگے عام آدمی کی سوچ مفروضوں پہ قائم اپنے ملک و قوم کا تصور رکھتی ہے۔ اگر تو کوئی تصور رکھتی ہے؟۔
اور یہ سلسلہ برصغیر کے عوام کے ساتھ ہزاروں سالوں سے روا ہے ۔ اس لئیے عام آدمی کے نزدیک ۔ آزادی۔ عزت نفس۔ اور جائز حقوق کی بازیابی کا کوئی تصور ہی نہیں نپ سکا۔
اس لئیے وہ معاشرے میں ہر عمل اور اس کے رد عمل کے لئیے بااثر طبقے کی طرف دیکھتے ہیں ۔ اور اس بااثر طبقے کے عمل۔ بیانات اور منشاء کو ہی مقصد حیات سمجھتے ہیں۔ جس وجہ سے زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے وجود میں آتے ہیں اور اس سے آگے قومی شعور نہیں بڑھ پاتا۔
ان وجوہات کی بناء پہ ہمارے معاشرے میں اکثریتی طبقے کبھی کا کوئی رول نہیں رہا۔ اور یہی وہ وجہ ہے جس وجہ سے اکثریت کسی انقلاب یا تبدیلی میں کبھی کوئی کردار ادا نہیں کر سکی۔
کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں اور انیس سو سینتالیس سے آزاد ہیں۔لیکن دل پہ ہاتھ رکھ دیانتداری سے بتائیں کیا آزاد قوم اور مسلمان یوں ہوتے ہیں؟
اس کی یہ وجہ بھی وہی ہے کہ اسلام روزمرہ کی معاملگی حیثیت سے ہماری زندگیوں کا حصہ ہی نہیں بن سکا ۔ اس لئیے ہماری اخلاقی حدود و قیود عام طور پہ اسلامی اخلاق سے باہر ہوتی ہیں۔
جب عوام کو کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو وہ اپنے اپنے ۔ سرداروں۔ پیروں۔ دینی رہنماؤں ۔ علماء اکرام۔ سرکاری افسروں۔ سیاسی رہنماؤں ۔ حکومت اور حکمرانوں۔ فوج اور جرنیلوں کی طرف دیکھنا شروع کردیتے ہیں ۔ اور پھر جس کی کوئی ادا ۔ کوئی بات دل کو بھا جائے اسے اپنا اپنا ہیرو مان لیتے ہیں۔
ہمارا اجتماعی شعور کبھی تھا ہی نہیں۔ اور ہمارے نصب العین ہمیشہ بااثر طبقے نے طے کئیے۔
ہماری اشرافیہ۔ ہمارا بااثر طبقہ انتہائی بے ضمیر۔ دہوکے باز۔ کم ظرف۔ سطحی شخصیت کا مالک اور اپنے اقتدار یا اثر و رسوخ کے لئیے کسی بھی حد تک جانے کے لئیے تیار رہتا ہے۔
اور مرے پہ سو درے ۔ اس سارے تماشے سے کچھ قوم فروش اور ابن الوقت لوگوں نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا اور بغیر کسی جھجھک کے اپنی ابن الوقتی اور ضمیر فروشی کو نہائت بالا نرخوں پہ فروخت کیا۔ جسے حرف عام میں پاکستان کا "میڈیا” کہا جاتا ہے۔
یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ تیزی سے تنزلی کا شکار ہو رہا ہے۔ کیونکہ تنزل ہماری اشرافیہ پہ طاری ہے اور عام عوام وہیں سے تحریک پاتے ہیں ۔ چند اشتنساء چھوڑ کر۔ جسے فوری طور پہ پھیلانے کا اہتمام قوم فروش میڈیا اور اسکے مالکان کرتے ہیں۔
اس لئیے کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئیے کہ عام آدمی کیونکر اپنے مستقبل سے مایوس ہے۔ مگر اس کے باوجود اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانے کے لئیے بجائے کچھ مثبت قدم اٹھانے کے ۔ وہ بجائے خود اسی تنزلی میں شامل ہو رہا ہے۔
اور یہ وہ وجہ ہے کہ عام عوام میں۔ معاشرے میں۔ ہر طرف لاقانونیت۔ بد عنوانی۔ بے ایمانی۔ بد دیانتی۔ بد نظمی اور افراتفری نظر آتی ہے۔
اس لئیے پاکستان کے ان موجودہ حالات میں
عام آدمی میں اجتماعی شعور کی تربیت کرنا اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک اشرافیہ۔ یعنی بااثر طبقہ۔ دینی و سیاسی رہنماء۔ جرنیل اور حکمران ۔ اور پاکستان کے وسائل پہ قابض مافیا۔اپنے انداز نہیں بدلتی۔اور بد قسمتی سے تب تک پاکستان کے عوام کا مجموعی رویہ بدلنا اور اجتماعی شعور کا فروغ پانا۔ بغیر کسی معجزے کے ممکن نظر نہیں آتا۔ اور دائرے کا معکوس سفر جاری رہے گا۔
اگر عام عوام کو اس بات کا ادراک دلانا مقصود ہے کہ وہ ایک باعزت قوم ہیں اور انھیں ایک اجتماعی شعور بخشنا ہے۔ تانکہ وہ ایک قومی اخلاق اپنا کر اس ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں تو اس کے لئیے ضروری ہے کہ صرف حکومتی اداروں کے عام اہلکاروں اور عہدیداروں سے نااہلی ۔ بدنیتی اور بد عنوانی کا حساب نہ لیا جائے اور انھیں سلاخوں کے پیچھے بند کیا جائے کیونکہ عام اہلکاروں کو معطل کرنے یا چند ایک لوگوں کو ان کے عہدوں سے برخاست کر دینے سے۔ پاکستان کی بد عنوانی پہ قابو نہیں پایا جاسکتا ۔ ایسا کرنا تو دراصل دنیا کی بدترین۔ ایک نمبر کی بدعنوان پاکستانی اشرافیہ کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
اسلئیے یہ از بس ضروری ہے کہ پاکستان میں بد نیتی۔ بدیانتی اور بد عنوانی ختم کرنے کی کوشش کے لئیے لا محالہ طور پہ اس کا آغاز بالادست طبقے اور پاکستان کے وسائل پہ قابض کم ظرف اشرافیہ سے نہ کیا گیا تو ایسی ہر مہم ناکام ہو جائے گی۔ اور اجتماعی قومی شعور۔ ایک باوقار با اختیار قوم۔ اور ایک آزاد پاکستان کا تصور صرف چند ہزار لوگوں کو ناجائز تحفظ دینے کی وجہ سے محض ایک خیال بن کر رہ جائے گا۔
پاکستان کے وسائل پہ قابض چند ہزار نفوس کی کم ظرف اشرافیہ۔ یا۔ بنیادی اور ضروری سہولتوں کے مالک کروڑوں باشعور عوام کا ایک بااختیار اور آزاد پاکستان؟ جب تک یہ طے نہیں ہوتا۔ تب تک ہم ایک معکوس دائرے میں سفر کرتے رہیں گے اور بدیانت غفلت کا شکار رہیں گے۔
جاوید گوندل۔ بارسیلونا
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, Barcelona, Be-Laag, Gondal, Javed, ہم, ہمیشہ, ہماری, ہمارے, ہمارا, ہنوز, ہو, ہونا, ہوگا, ہوں, ہوں“۔, ہوئیں, ہوتی, ہوتی۔, ہوتے, ہوتا, ہوتا۔, ہوتا۔جیسے, فوج, فوجی۔, فوری, ہوسکی۔, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں۔ہمارا, ہیں۔لیکن, ہیں۔اور, ہیں۔اس, ہیں۔جب, ہیں؟اس, ہیرو, فیصد, ہے, ہے۔, ہے۔مندرجہ, ہے۔مگر, ہے۔یہ, ہے۔اور, ہے۔اس, ہے۔اسلئیے, ہے؟۔اور, ہےاور, فائدہ, ہاتھ, ہر, فروخت, فروش, فروشی, فروغ, فراہم, ہزار, ہزاروں, ہزراوں, قوم, قوموں, قومی, قوم۔, قیود, قائم, قابو, قابض, قبیل, قدم, قسم, قسمی, قسما, قسمتی, لوگ, لوگوں, لوگ۔, لیڈ, لیا, لیتے, لئیے, لئیے۔, لا, لاقانونیت۔, لانے, لاگ۔, مہم, مفروضوں, مقصود, مقصد, ملک, ملتا, ممکن, منشاء, موجودہ, میڈیا, میں, میں۔, میں۔ہماری, میںعام, مکمل, مگر, مافیا۔اپنے, مالک, مالکان, مان, مایوس, ماحول, مثال, مثالی, مثبت, مجموعی, مجبور, محال, محالہ, محض, مختلف, مختاری, مذہبی, مرہ, مرے, مردہ, مزاحمت, مسلمان, مسلط, مسئلہ, مستقبل, مشہور, مصائب, مظاہرہ, معنوں, معکوس, معاملگی, معاشی, معاشرہ, معاشرے, معجون, معجزے, معذور, معطل, نہ, نفوس, نہیں, نہیں۔, نہائت, نفس, نفس۔, نمبر, چند, نوشی, نیم, نیتی۔, چیزیں, نے, چھ, چھوڑ, نا, چاہئیے, ناکام, نااہلی, ناجائز, ناطہ, نرخوں, نزدیک, نسل, نسلوں, نصیب, نصب, نظمی, نظر, نعرے, و, وہ, وہی, ڈہیٹ, وہیں, وہاں, وقت, والی, والے, وجہ, وجوہات, وجود, وسائل, یہ, یہی, یوں, یا, یا۔, یعنی, ۔, ۔کوڑھ, ۔اس, ۔جیسے, کہ, کہنے, کہنا, کہیں, کہا, کلچر, کلٹ, کم, کو, کویئ, کوئی, کوشش, کی, کیونکہ, کیونکر, کیا, کیا۔, کیسے, کے, کئی, کئیے, کئیے۔ہماری, کا, کاشت, کبھی, کر, کرنے, کرنا, کروڑوں, کرے, کر۔, کرپٹ, کرتے, کردہ, کردیتے, کردار, کسی, گوندل۔, گی۔, گیا, گیر, گے, گے۔جاوید, گھٹیا, گھر, گھرانہ, گھسیٹنے, گئی, گا۔پاکستان, گا۔اگر, گرد, گردی, گزارنے, پہ, پچھلی, پیچھے, پیٹ۔, پیدا, پیدائشی, پیروں۔, پُل, پکڑتا, پٹواری۔, پھیلانے, پھر, پا, پامال, پانا۔, پایا, پاکستان, پاکستانی, پاکستانیوں, پاکستان؟, پائی, پائے, پاتیں؟آج, پاتے, پاتا۔ان, پسنے, آلام, آوارہ, آگے, آپس, آبادی, آتی, آتے, آتا, آتا۔, آدمی, آزاد, آزادی, آزادی۔, آغاز, اہلکاروں, اہلکار۔, اہتمام, افراتفری, افسروں۔, اقتدار, اقدار, المشکلات, الوقت, الوقتی, العین, امید, ان, انفرادی, انقلاب, انیس, انھیں, انتہائی, انداز, اور, ایمانی۔, ایک, ایسی, ایسا, اکثریت, اکثریتی, اکرام۔, اگلی, اگر, اٹھانے, اٹھایا, اپنی, اپنے, اپنا, ابن, اثر, اجتماعی, اخلاق, اخلاقی, اختیار, ادا, اداروں, ادراک, ارتقاء, ارد, از, اس, اسلام, اسلامی, اسی, اسے, اسکے, اساتذہ, اشتنساء, اشرافیہ, اشرافیہ۔, اشرافیہ۔عوام, بہ, بہت, بلوغت, بن, بنیادی, بنا, بناء, بند, بیچنے, بیان, بیانات, بڑی, بڑے, بڑھ, بڑا, بے, بھلا, بھی, بھا, بھائی, بھر, با, باہر, باقی, بالا, بالادست, باندھی, باوقار, باوجود, بااثر, بااختیار, بات, باد, بارسیلونا, بازیابی, باز۔, باز۔اٹھائی, باشعور, باعزت, بتائیں, بجا, بجائے, بخشنا, بد, بدلنا, بدلتی۔اور, بدنیتی, بدیانت, بدیانتی, بدترین۔, بدعنوان, بدعنوانی, برخاست, برصغیر, بس, بسی, بغیر, تقاضہ, تماشے, تنگ, تنزل, تنزلی, تو, تیار, تیزی, تک, تھا, تھانیدار, تانکہ, تب, تبدیلی, تحفظ, تحریک, ترقی, ترین, تربیت, تصور, تعلق, تعجب, ثبوت, جہاں, جن, جو, جوڑے, جیلوں, جینز, جیسے, جھجھک, جان, جانے, جائے, جائے۔, جائے۔مسئلہ, جائز, جاتی, جاتا, جاری, جاسکتا, جب, جبر, جرنیل, جرنیلوں, جرنیل۔, جس, جسم, جسے, جستجو, حقوق, حل, حیات, حیثیت, حکمران, حکمرانوں۔, حکمران۔, حکومت, حکومتی, حالات, حد, حدود, حرف, حساب, حصہ, خلاف, خمیر, خون, خواندہ, خوب, خود, خیال, خیر, خالی, خاندان, ختم, دہوکے, دہوپ, دل, دلانا, دنیا, دینی, دینی۔, دینے, دیکھنا, دیکھتے, دیگر, دیانتی۔, دیانتداری, دیتے, دائرے, درمیان, درنسل, درے, دراصل, ذہنی, رہ, رہنماء۔, رہنماؤں, رہنے, رہیں, رہے, رہا, رہا۔, رہتا, رول, رویہ, روٹی, روا, روز, روزہ, روزمرہ, روزی۔, رکھ, رکھنے, رکھنا, رکھتی, رات, رد, رسوخ, زندہ, زندگی, زندگیوں, زیادہ, سہولتوں, سفر, سلاخوں, سلسلہ, سمجھتے, سو, سوچ, سینتالیس, سیاسی, سیاسی۔, سے, سے۔, سکی۔کہنے, سکیں“, سکے, سکا, سکا۔اس, سگریٹ, سال, سالوں, سامنا, سانس, ساتھ, سارے, سارا, سبھی, ستم, سرکاری, سربراہ, سرداروں۔, سرعام, سطحی, شکار, شامل, شاید, شخصی, شخصیت, شروع, شراب, شعور, شعور۔, صحیح, صرف, ضمیر, ضمیر۔, ضروری, ضروریات, طور, طے, طاری, طبقہ, طبقہ۔, طبقے, طرف, ظلم, ظرف, ظرف۔, عہدوں, عہدیداروں, علمی۔, علم۔, علماء, علماء۔, عمل, عمل۔, عنوانی, عنوانی۔, عوام, عام, عادتیں, عزت, غفلت, غلامی
شیخ السلام ؟ طاہر القا دری ۔لانگ مارچ ۔بلوچستان اور پس پردہ عزائم ۔
کیا شیخ کوا س لئے میدان میں اتارا گیا ہے کہ ایک اور المیہ وجود میں آئے اور خدا نخواستہ مشرقی پاکستان کی طرح بلوچستان کا ٹنٹنا ختم کرتے ہوئے ریاست پاکستان کو دیوار کے ساتھ لگا دیا جائے؟۔
ایک عام رائے یہ ہے کہ شیخ کے پیچھے افواج پاکستان کا ہاتھ ہے۔ اور کچھ نہ کچھ ایسا ہے۔ جو شیخ پاکستان کا موجودہ جمہوری نظام ملیا میٹ کرنے کا مطالبہ الیکشن کمیشن کو منسوخ کرنے کا ایک نکتہ فائر کرنے کے بعد باقی چھ نکتے اسلام آباد میں ظاہر کرنے کی دھمکی لگا کر عازمِ اسلام آباد ہوئے ہیں۔ افواج پاکستان سے غیر ضروری طور پہ ہمدردی کئیے بغیر ۔ ہماری رائے میں افواج پاکستان اس وقت ایک سخت اور کٹھن دور سے گزر رہی ہیں۔ جس کے چاروں اطراف قسما قسمی کے مختلف رنگ روپ کے بھیڑیے اور لکڑ بھگے غرا رہے ہیں ۔ اور مشرقی سرحدوں پہ ازلی دشمن نے بھی اپنی ازلی کمینگی کا ایک بار پھر ثبوت دیتے ہوئے ۔ بغیر کسی وجہ کے مدتوں بعد ۔کنٹرول لائن جنگ بندی۔ نامی معائدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے۔ نہ صرف یکے بعد دیگرے پاکستان آرمی کے دو جوان شہید کر دئیے ہیں۔ بلکہ ہنوز سرحد پار سے گیدڑ بھھبکیاں اور دہمکیاں لگا رہا ہے۔اس لئیے خیال یہ ہے کہ افواج پاکستان ان حالات پہ کبھی بھی نہیں چاہیں گی۔ کہ پاکستان کے اندر حکومتی کاروبار کی بلا بھی ان کے سر آپڑے ۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قوت و وسائل کے وہ کونسے خفیہ و اعلانیہ سر چشمے ہیں جن کی بناء پہ شیخ ۔اسلام آباد پہ غیر آئینی و غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پہ چڑھ دوڑے ہیں؟۔
شیخ کو کس نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اچانک پاکستان وارد ہوں اور غیر آئنی طور پہ وہ پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کرنے نکل کھڑے ہوں۔ وہ بھی اس صورت پہ جب انتخابات کا ڈول ڈالے جانے والا ہے۔ پاکستان کی انتخاباتی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک سول حکومت دوسری سول حکومت کو اختیار و اقتدار منتقل کرے گی؟۔ وہ کونسا ایساقانون ہے جو شیخ کو اپنے ذاتی نظریات کے زور پہ پاکستان میں انتشار پھیلانے اور عوام کو بے سُود ہیجان میں مبتلاء کرنے کی اجازت دیتا ہے؟۔
شیخ۔ کامل اتنے سالوں سے کنیڈا کی شہریت سمیت ۔کنیڈا میں اپنی ذاتی تنظیم منہاج القرآن کی تنظیم و تدوین و ترغیب میں مصروف رہے۔ ذاتی اس لئیے کہ شیخ موصوف اسکے بانی اور صاحبزادہ گان اور بہوئیں اور زوجہ محترمہ اسکے ڈائریکٹر ز ہیں ۔ اور ایک ہاتھ کی انگلیوں پہ گنے جانے والے۔ شیخ کے منظور نظر چند باہر کے افراد شیخ کے نامزدہ ہیں۔اور جمہوریت نام کی شئے کی انکی تنظیم میں کوئی جگہ نہیں۔ ان سالوں میں جب شیخ اور شیخ کے ماننے والے ہر اسلامی اور غیر اسلامی طریقوں سے اور مغرب کے لئیے دلآویز ناموں اور طور طریقوں سے اپنی نامی تنظیم کو پاپولر بنانے کی کوشش کر رہے تھے ۔تو اسوقت شیخ کو پاکستان کی محبت کیوں نہ جاگی؟ جبکہ ایک وقت تھا کہ شیخ پاکستان کی قومی اسمبلی کے رُکن تھے اور شیخ چاہتے تو پاکستان میں رہ کر جمہوری طور طریقوں سے پاکستان کی خدمت ۔لانگ مارچ۔ نامی ہیجان اور انتشار برپا کئیے بغیر زیادہ بہتر طریقے سے کر سکتے تھے ۔ یوں اچانک پاکستان وارد ہونا اور عین اسوقت پہ جب جمہوری طریقے سے قوم کو اپنی تاریخ میں پہلی بار نئے نمائندوں کو نااہل اور سابقہ نمائندوں سے بدل ڈالنے کا موقع ملنے والا ہے۔تو شیخ کے پاس کونسا اختیار اور اخلاقی جواز بنتاہے جس کی بناء پہ وہ چھ خفیہ نکات لیکر پورے ملک کے جمہوری نظام کو لپیٹنے کا مطالبہ کر رہے ہیں؟۔
شیخ نے اپنے لانگ مارچ کو کئی ایک شاعرانہ اور دل خوش کُن نام دینے کے بعد ”جمہوریت بچاؤ“نامی نام دیا ہے۔ جبکہ شیخ کی اپنی ذاتی تنظیم میں جمہوریت نامی کوئی شئے نہیں۔ اور شیخ کے نزدیک مختلف ممالک میں وہی لوگ شیخ کے لئیے کارآمد ہیں۔ جو انکی تنظیم کے لئیے مفید ثابت ہوں اور غیر مشروط طور پہ انھیں ہر طور اسلامی اور غیر اسلامی طور پہ شیخ تسلیم کریں۔ غیر اسلامی کی کوئی حد نہیں ۔ شیخ کے منظور نظر اور یوروپ کے ممالک میں تحریک منہاج القرآن کے کرتا دھرتا یہ لوگ تنظیم منہاج القرآن کے لئیے یوروپی ممالک میں یوروپی بنکوں سے سود پہ قرضہ لے کر۔ اپنی تنظیم کے نام سے مساجد اور مرکز قائم کرنے میں ذرا بھر ندامت محسوس نہیں کرتے ۔نماز جمعہ اور عیدین کے اجتماعات میں سادہ لوح پاکستانی اور مختلف ممالک کے سادہ لوح مسلمانوں کو حقیقت بتلائے بغیر صفوں کے سامنے سے تھیلے بھر بھر کر رقومات مسجد کے لئیے اکٹھی کرتے ہیں اور اس سے بنکوں کے سودی قرضے بھی چکائے جاتے ہیں۔ اور سود پہ مساجد بنانے کے بارے سوال پوچھے جانے پہ برملا اپنے انٹرویوز اور نماز جمعہ اور نماز عیدین پہ مساجد بنانے کے لئیے سود پہ قرضہ لینا جائز بیان کرتے ہیں ۔انکی تنظیم شاید وہ واحد تنظیم ہے جو نائن الیون کے ٹوئن ٹاورز کے المیے کے بعد مغربی ممالک میں زیر عتاب نہیں ہوئی بلکہ کئی طور پہ مراعات اور یوروپی سیاستدانوں کی توجہ پاتی رہی ہے ۔یہاں تک بعض یوروپی ممالک میں انہوں نے منہاج القرآن نامی تنظیم کو ”پیس وے “ یعنی ”امن کا راستہ“ نامی نام سے متعارف کروایا ہے تانکہ نائن الیون کو ٹوئن ٹاورز کے المیے کے بعد یہ تاثر عام ہو کہ منہاج القرآن نامی تنظیم ہی وہ تنظیم ہے جو مغرب کے لئیے فائدہ مند ہونے کی وجہ سے منظور نظر ہوسکتی ہے۔
شیخ کا ماضی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ ہم اس پہ روشنی ڈالیں۔ مقصد شیخ کے پس پردہ مقاصد سے پردہ اٹھانے کی اپنی سی کوشش کرنا ہے۔ شیخ کے خوابوں ۔ شہدا کو جگانے ۔ اور قوالی کی اس محفل جس کے بول ” بت خانہ ہو یا کعبہ۔ طاہر سجدے تجھے ہم کئیے جائینگے“ جیسی محفلوں میں سجدہ کروانے ۔ پاؤں چومے جانے پہ کسی طور بغیر نادم ہوئے یا منع کئیے بغیر ۔ نفس کی تسکین کے ہلکورے لیتے مناظر کے ویڈیوز ۔ پاکستان میں توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نامی قانون کے بنائے جانے کا اور اس قانون کے تحت مسلم اور غیر مسلم و کافر کو کتے کی طرح مار دئیے جانے کا کریڈیٹ لینا اورڈنمارک کے ایک ٹی وی چینل کے انٹرویو کے میں کیمرہ کے سامنے۔ اس قانون کے بننے بنائے جانے کے عمل سے مکمل طور پہ برائت کا اعلان اور اس قانون کے ناقص عمل کا بیان اور شیخ موصوف کےاسطرح کے دیگر ویڈیوز۔ یو ٹیوب۔ فیس بُک اور دیگر میڈیا کی سائٹس پہ تھوڑی سی جستجو کے بعد سینکڑوں کے حساب سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ جن سے صرف ایک ہی بات کا پتہ ملتا ہے کہ شیخ کو اپنے نفس کی تسکین سے والہانہ دلچسپی ہے ۔ جن میں شیخ کی خود پسندی ہر طور۔ہر انداز میں جھلکتی نظر آتی ہے۔
آخر ایسے آدمی کو ایسی کیا سوجھی کہ وہ پاکستان کے خاردار سیاست میں کود پڑا ؟۔ خیال ہے کہ شیخ جن دنوں کنیڈا میں تزکیہ نفس کا عندیہ دے رہے تھے۔ عین انھی دنوں میں کچھ ایسی طاقتیں جو روز اول سے پاکستان کے وجود کے در پے ہیں۔ شیخ کو اپنے مفادات کے لئیے بھرتی کر چکی تھیں ۔اور شیخ کو پاکستانی جذباتی عوام کے سامنے مسحیا کے طور پیش کرنے کا فیصلہ کر چکی تھیں ۔ بعین اسی طرح جس طرح انہوں نے الطاف حسین اور عمران خان کو یکے بعد دیگر میدان میں اتارا اور بوجہ انتہائی ناکامی کے شیخ طاہر القادی کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ انکی اسلامی چھاپ کی مضبوط تنظیم اور ان سےعقیدتمندوں کا والہانہ اسلامی شوق دیکھ کر کیا۔ اور شیخ ایک عام مولوی اور لیکچرار سے اتنی تیزی سے ترقی کرنے کے بعد اپنے روایتی خود پسند نفس کے ہاتھوں اپنے آپ کو ریاست پاکستان کے سربراہ بننے کے خوآب آنکھوں میں سجائے اس لانگ مارچ کا ڈول ڈالنے پہ تیار ہو گئے ۔قطع نظر اس کے کہ انکے اس لانگ مارچ سے پاکستان کی سالمیت کو کس قدر نقصان پہنچ سکتا ہے۔
عالمی سامراج یہ تجربہ اس سے قبل مشرقی پاکستان کو توڑنے کے لئیے کر چکا ہے ۔
ایک رائے ہے کہ امریکہ افغانستان کی بے مقصد جنگ سے نکلنے پہ مجبور ہونے کی وجہ سے ۔ افغانستان سے نکلنے سے قبل اور نکلنے کے عمل کے دوران ۔اپنے پرانے مربی بھارت کو آزاد بلوچستان کی صورت میں یاکم از کم بلوچستان میں بھرپور شورش کی صورت میں۔ بھارت کو اسکی چاپلوسیوں کا انعام دینا چاہتا ہے ۔ اور امریکہ میں کچھ لوگ یہ تصور کئیے اور خار کھائےبیٹھے ہیں۔ کہ جب تک ایک مضبوط اور جمہوری پاکستان کا وجود باقی ہے۔ تب تک افغانستان اور خطے میں امریکی مفادات کی کھلم کھلا تکمیل ہونا ناممکن ہے ۔ امریکہ اسی صورت میں افغانستان پہ اپنا تسلط قائم رکھ سکتا ہے اگر مفادات کے ”کچھ لو اور کچھ دو “ کے معروف لین دین کے عالمی پیمانے میں پاکستان کو کسی طور کہیں سے مجبور کیا جاسکے۔ تانکہ پاکستان افغانستان میں سے اپنی دلچسپی ختم کر کے۔ اپنی بقاء کی بھیک عالمی گماشتوں سے مانگنے پہ مجبور ہو جائے ۔ عالمی گماشتوں کی نظر میں پاکستان کے بڑے شہروں میں امن و امان کی صورتحال ۔ گیس ۔ پانی ۔ بجلی ۔ کے خطرناک بحران اور ٹیلی فون سمیت دیگر مواصلاتی نظام کی تباہی کے علاوہ ۔بلوچستان میں شورش کا بڑھانا شامل ہے ۔ شورش !جس میں بھارتی تربیت اور وسائل استعمال کیئے جارہے ہیں۔ جوں جوں افغانستان سے امریکی افواج منظر عام سے گُم ہونگی ۔افغانستان میں طالبان کے اثرو رسوخ میں اضافہ ہوگا۔ افغانستان میں بھارتی مفادات پہ کاری ضرب پڑے گی ۔اسلئیے عالمی طاقت اور بھارت کی نظر میں۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں تاریخی تبدیلی اقتدار ممکن ہونے جارہا ہے ۔ پاکستان کو فوری طور پہ غیر مستحکم کرنے کے اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانا بہت ضروری ہو گیا ہے ۔ تانکہ پاکستان میں نمائیندہ اور عوامی و جمہوری حکومت کی عدم موجودگی کی وجہ سے روز بروز پاکستان کے وجود کو لاحق ہونے والے خطرات سے بچاؤ کے فیصلے کرنا۔ ایک غیر جمہوری حکومت کے لئیے ناممکن ہوگا ۔ کیونکہ ایک غیر جمہوری حکومت کا اول آخر مقصد۔ محض اپنے وجود کا جواز پیدا کرنا اور اسے بچانا ہوتا ہے۔ ایسے میں قومی مفادات پس منظر میں چلےجاتے ہیں اور انکی حیثیت ثانوی سی ہو کر رہ جاتی ہے۔ غیر جمہوری حکومت کا بازو مروڑ کر اپنی مرضی کے فیصلے لینا۔ عالمی استعمار کے لئیے بہت آسان ہوگا ۔ یہ تجربہ عالمی طاقت پاکستان میں بار ہا دہرا چکی ہے ہے اور اسمیں ہمیشہ کامیاب رہی ہے۔
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ جمہوریت دنیا کا بہترین نظام حکومت نہیں۔ مگر آمرانہ طرز حکومت کے مقابلے پہ ایک بہتر نظام ہے۔ جس طرح تیل کو بار بار چھاننی سے چھانے جانے کے بعد ہر بار آلائشوں سے پاک اور صاف تیل سامنے آتا ہے ۔ اسی طرح کسی ملک میں جمہوری نظام کے چلتے رہنے سے نئے ۔ اچھے لوگ ۔ اور دیانتدار قیادت سامنے آنے کے امکانات دیگر فی زمانہ رائج الوقت نظاموں سے کہیں ذیادہ ہیں ۔ اور جتنی دفعہ اتنخابات ہونگے عوام میں شعور بڑھتا جائیگا ۔ اور ایک دن وہ خود ہی اپنے لئیے ایک بہترین نظام چننے میں کامیاب ہوجانئگے۔یہ وہ وجہ ہے کہ اس جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے لئیے ۔ عالمی گماشتوں نے طاہر القادری کو میدان میں اتارا ہے ۔ اور اس مقصد کے لئیے پہلے سے پاکستان کے اندر ان طاقتوں کے مفادات کی تکمیل کے لئیے ان عالمی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے لوگوں کو پہلے سے ہی اشارہ کر دیا گیا ہے ۔ جو طاہر القادری کا لانگ مارچ کامیاب ہونے کی صورت میں اپنی کوششوں کا آغاز کرنا ہے ۔اور عین ممکن ہے کہ امن و عامہ کی صورتحال ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر حکومت کی نالائقی پہ فوج کو میدان میں اترنا پڑے اور جمہوریت کی بساط ایک دفعہ پھر لپیٹ دی جائے۔ جو بلوچستان میں شورش کو علیحدگی کی حد تک بڑھا دینے کا نکتہ آغاز ہو گا۔ اگر حکومت پاکستان اپنی نالائقی سے کوئٹہ میں اس حد تک مجبور ہوجاتی ہے کہ وزیر اعلٰی کو فارغ کر دیا جاتا ہے ۔تو یہ شیخ کے دھرنے کے کے لئیے مہمیز ثابت ہوگا۔ بلوچستان میں انتہائی سنگدلی سے اٹھاسی افراد کی ہلاکت ۔ حکومت کی نالائقی ۔ دھرنا۔ اور بلوچستان حکومت کی برطرفی کا مطالبہ اور شہر فوج کے حوالے کرنے کا اصرار۔ پاکستان کی مشرقی سرحدوں پہ چھیڑ چھاڑ ۔ مغربی سرحدوں پہ فوج پہ بم حملوں میں اضافہ ۔ ایسے میں شیخ کے لانگ مارچ کی ٹائمنگ حیران کُن ہے۔
عوام اب اس حد تک باشعور ہو چکے ہیں کہ اب کسی ابن الوقت کے ہاتھوں میں کھیلنے کو تیار نہیں ۔ اور انہیں اس بات کا بخوبی احساس ہو چکا ہے کہ تبدیلی یا انقلاب وہی دیرپا ہوتا ہے جو پُر امن ہو اور اس دفعہ عوام کو کامل پانچ سال بعد تاریخ میں پہلی بار تبدیلی قیادت کا موقع مل رہا ۔ ہماری نظر میں لانگ مارچ کے کامیاب ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ایک مرد قلندر نے کہا تھا۔ عالمی استعمار کا یجینڈا اپنی جگہ لیکن مشیت ایزدی کی منصوبہ بندی بہر حال اس پہ فوقیت رکھتی ہے ۔اور شاید اس دفعہ مشیت ایزدی پاکستان کے ساتھ ہے۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, ”پیس, ہماری, ہمدردی, ہنوز, ہونا, ہوں, ہوں“۔, ہوئی, ہوئے, ہوئے۔, ہوتا, ہیں, ہیں۔, ہیں۔اور, ہیں؟۔, ہیں؟شیخ, ہیجان, فیصلہ, ہے, ہے۔, ہے۔اس, ہے۔تو, ہے؟۔, فائر, ہاتھ, ہر, قوم, قومی, قوت, قانونی, قائم, قرضہ, قرضے, قسمی, قسما, قسمت, لوگ, لوح, لینا, لیکر, لے, لکڑ, لگا, لپیٹنے, لئیے, لئے, لانگ, لائن, مفید, ملنے, ملیا, ملک, ممالک, منہاج, منتقل, منسوخ, منظور, موقع, موجودہ, موصوف, میٹ, میں, میدان, ماننے, مارچ, مارچ۔, مبتلاء, مثروط, محبت, محترمہ, محسوس, مختلف, مدتوں, مرکز, مراعات, مسلمانوں, مساجد, مسجد, مشرقی, مصروف, مطالبہ, معائدے, مغرب, مغربی, نہ, نہیں, نہیں۔, نمائندوں, نماز, چند, چڑھ, نے, نکل, چکائے, نکات, نکتہ, نکتے, چھ, نئے, چاہیں, چاہتے, نام, ناموں, نامی, نامزدہ, نائن, نااہل, چاروں, نخواستہ, ندامت, نزدیک, چشمے, نظام, نظر, نظریات, و, وہ, وہی, وقت, ڈول, وے, ڈالنے, والے, والے۔, والا, ڈائریکٹر, واحد, وارد, وجہ, وجود, ورزی, وسائل, یہ, یوں, یوروپ, یوروپی, یکے, ۔, ۔لانگ, ۔نماز, ۔یہاں, ۔کنیڈا, ۔کنٹرول, ۔کیا, ۔انکی, ۔اسلام, ۔بلوچستان, ۔تو, کہ, کمینگی, کمیشن, کنیڈا, کو, کونسے, کونسا, کوئی, کوا, کوشش, کی, کیوں, کُن, کے, کٹھن, کپڑے, کئی, کئیے, کا, کامل, کاروبار, کارآمد, کبھی, کر, کرنے, کریں۔, کرے, کر۔, کرتے, کرتا, کس, کسی, گنے, گی۔, گی؟۔, گیا, گیدڑ, گان, گزر, ٹنٹنا, ٹوئن, ٹاورز, پہ, پہلی, پوچھے, پورے, پیچھے, پیدا, پھیلانے, پھر, پاکستان, پاکستانی, پاپولر, پاتی, پار, پاس, پردہ, پس, ؟, آپڑے, آئنی, آئینی, آئے, آباد, آرمی, افواج, افراد, اقتدار, القا, القرآن, المیہ, المیے, الیون, الیکشن, السلام, ان, انہوں, انکی, انگلیوں, انٹرویوز, انھیں, اچانک, انتخابات, انتخاباتی, انتشار, اندر, اور, ایک, ایسا, ایساقانون, اکٹھی, اپنی, اپنے, اتنے, اتارا, اجازت, اجتماعات, اخلاقی, اختیار, ازلی, اس, اسلام, اسلامی, اسمبلی, اسوقت, اسکے, اطراف, اعلانیہ, بہوئیں, بہتر, بلوچستان, بلکہ, بلا, بنکوں, بنانے, بناء, بچاؤ“نامی, بنتاہے, بندی۔, بیان, بے, بھی, بھیڑیے, بھگے, بھھبکیاں, بھر, باہر, باقی, باننے, بانی, بار, بارے, بتلائے, بدل, برملا, برپا, بعد, بعض, بغیر, تنظیم, تو, توجہ, تک, تھیلے, تھے, تھا, تاریخ, تحریک, تدوین, ترغیب, تسلیم, ثابت, ثبوت, جمہوری, جمہوریت, جمعہ, جن, جنگ, جو, جوان, جواز, جگہ, جانے, جاگی؟, جائے؟۔ایک, جائز, جاتے, جب, جبکہ, جس, حقیقت, حکومت, حکومتی, حالات, حد, خفیہ, خلاف, خوش, خیال, ختم, خدمت, خدا, دہمکیاں, دفعہ, دل, دلآویز, دو, دوڑے, دور, دوسری, دینے, دیوار, دیگرے, دیا, دیتے, دیتا, دھمکی, دھرتا, دئیے, دری, دشمن, ذاتی, ذرا, رہ, رہی, رہے, رہے۔, رہا, رقومات, رنگ, روپ, ریاست, رُکن, رائے, ررہے, ز, زوجہ, زور, زیادہ, زیر, س, سمیت, سول, سوال, سود, سودی, سیاستدانوں, سُود, سے, سکتے, سالوں, سامنے, سابقہ, ساتھ, سادہ, سخت, سر, سرحد, سرحدوں, شہید, شہریت, شیخ, شئے, شاید, شاعرانہ, صفوں, صورت, صاحبزادہ, صرف, ضروری, طور, طاہر, طریقوں, طریقے, طرح, ظاہر, عوام, عین, عیدین, عام, عازمِ, عتاب, عزائم, غیر, غرا