RSS

Tag Archives: ہوجائیں

پاکستان کے خلاف سائبر گوریلا وار اور تجاہل عارفانہ۔



پاکستان کے خلاف سائبر گوریلا وار اور تجاہل عارفانہ۔

لوہے کی دریافت اور پہیے کی ایجاد پہ۔ انسانی زندگی میں ہونے والی تبدیلی اور انقلاب کی طرح ۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے حضرتِ انسان کی زندگی میں تیسرا بڑا انقلاب برپا کیا ہے۔اور دنیا محض چند سالوں میں بدل کر رہ گئی ہے ۔جس کا کچھ سالوں قبل تک تصور کرنا بھی انسانی فہم کے لئیے ناممکن تھا ۔ تعلیم۔ صحت۔ توانائی ۔صنعت ۔ دفاع ۔شوق ۔کھیل ۔تمام پیداواری شعبہ جات یعنی دنیا کا کوئی شعبہ اب ایسا نہیں رہا ۔جہاں کمپیوٹر یا اس کی ذیلی مصنوعات استعمال نہ ہو رہی ہوں ۔ دنیا میں اب خواہ کچھ بھی ہوجائے ۔ اب وہ پہلی سی دنیا واپس لانا ناممکن ہے ۔ اور کسی قوم کا اس نئی ٹیکنالوجیز کے بغیر ترقی کرنے کا خواب ،محض ایک خواب پریشاں کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔یہ تبدیلی اس رفتار سے ہورہی ہے ۔کہ جو ایجاد آج نئی اورانوکھی تصور کی جارہی ہے۔ وہ ہفتے عشرے بعد پرانی ہوچکی ہوگی اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ نئی نئی ایجادات اور از بس ضروری قسم کی جدید ٹیکنالوجیز اس تیز رفتاری سے وجود میں آرہی ہیں۔ کہ جو قومیں اس کا ساتھ نہ دے سکیں گی ۔ وہ یا تو محتاجِ محض بن کر رہ جائیں گی۔ یا پھر تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لئیے گُم گشتہ ہوجائیں گی ۔اور اس محتاجی اور گمشدگی کے لئیے ۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے قبل کے ”امتدادِ زمانہ “ ۔ ”نیرنگی زمانہ“۔اور ۔”گردشِ زمانہ“ جیسی اصطلحات بے معنی اور فرسودہ ثابت ہونگی ۔کیونکہ اب کمپیوٹر اور نت نئی ٹیکنالوجیز کے مقابلے میں ۔قوموں کی عدم تیاری کی وجہ سے۔ دیگر قوموں کی محتاجی کرنے۔ یا ۔تاریخ میں گُم گشتہ ہونے کا دورانیہ ۔”زمانوں“ ۔اور۔” صدیوں “۔کی بجائے محض چند دہائیوں پہ مشتمل ہوگا۔


یہ ایک عام معروف بات ہے ۔کہ جو ں جوں دنیا میں ذارئع ابلاغ نے ترقی کی ہے ۔ حریف ممالک ۔ حریف قوموں ۔حریف سیاسی جماعتوں ۔ حریف سیاسی نظریات۔ حتی کہ حریف کاروباری اداروں کے خلاف محسوس اور غیر محسوس طریقے سے پراپگنڈاہ اور بے ہودہ الزامات کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا ہے ۔ مگر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی ایجاد نے ذرائع ابلاغ کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔جس نے دنیا میں انسانی معاشروں میں اقدار اور طور طریقوں کو بدل کر رکھ دیا ہے ۔ اور محض چند بٹن دبانے سے ۔ ٹچ کرنے سے ۔ آپ ہزاروں میل دور ۔ خدا کی وسیع تر دنیا میں ۔ کہیں بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔ کسی بھی فرضی نام سے ۔درجنوں طریقوں سے اپنا مدعا بیان کر سکتے ہیں۔ کسی دوسرے فرد۔ گروہ ۔ معاشرے ۔ ملک ۔ قوم۔ مذہب۔ اقدار۔ طور طریقوں۔ کی ستائش اور تعریف کرسکتے ہیں۔ یا اختلاف کرتے ہوئے اپنا مدعا یا احتجاج درج کروا سکتے ہیں۔ اور آزادی ِ اظہار رائے کا بھرپور استعمال کرسکتے ہیں ۔ مگر ان باہمی رابطوں اور آزادی اظہار رائے کے پردے میں بہت سے مضمر پہلو بھی پوشیدہ ہیں۔ جس کا بہت سے لوگ شکار ہورہے ہیں۔ اس آزادی اظہار رائے کے پردے میں دنیا کے تقریبا سبھی ممالک میں ۔کچھ لوگ خصوصی طور پہ تیار کئیے جارہے ہیں ۔جو اپنے حریف اور دشمن ممالک کے کمپیوٹرز تک رسائی حاصل کرنے ۔ انکی جاسوسی کرنے ۔ انکی قیادت ۔ سائینس دانوں۔ اداروں ۔ افواج۔ دفاعی تنصیبات اور دیگر اہداف تک رسائی حاصل کرنے ۔ انکے کمپیوٹرز سوفٹ وئیرز کو تباہ کرنے جیسی تخریبی کاروئیاں کررہے ہیں ۔ اس تخریب کاری کو سائبر وار کا نام بھی دیا جاتا ہے ۔ جو کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ۔


مگر اس اس سائبر تخریب کاری سے بھی زیادہ خطرناک۔ اس سائبر وار کا نہائت مہلک ہتیار ایک اور بھی ہے۔ جس کے نقصان دہ اثرات ۔سائبر تخریب کاری سے کئی گناہ زیادہ ہیں ۔ جس کے تحت دشمن ممالک اور عالمی طاقتوں کے خاص طور پہ تیار کردہ پیشہ ور افراد ۔اسلام اور مسلمان قوموں خاص کر ۔ پاکستان ۔نظریہ پاکستان ۔ اور افواجِ پاکستان کے خلاف۔ ایک پیشہ ورانہ تیاری کے ساتھ۔ بھرپور طریقے سے حملہ آور ہوتے ہیں۔ اور عام طور پہ مسلمان ناموں کے ساتھ ۔ مسلمانی کے پردے میں ۔ انکے حملے کا انداز۔ نہائت بے ساختہ اور بظاہر بے ضرر لیکن انتہائی مضر ہوتا ہے ۔ ایسے لوگ۔ اسلام ۔ پاکستان ۔نظریہ پاکستان ۔ اور افواجِ پاکستان کے بارے شکوک اور افواہیں پھیلاتے ہوئے ۔پاکستانی معاشرے ۔ ملک ۔ قوم۔ مذہب۔ اقدار اور طور طریقوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس بارے افواہیں۔ بے بنیاد باتیں۔ شکوک و شبہات ۔ نوجوانوں کو احساس کمتری میں مبتلاء کرنا ۔ اور مایوس کُن نظریات پھیلانے۔ میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں ۔ جو اپنے اس طریقہ کار کو آگے بڑھانے کے لئیے اپنے ساتھ لوگوں کو ملانے میں ماہر ہوتے ہیں ۔ اور بد قسمتی سے اسلام اور پاکستان سے شاکی کچھ لوگ۔ الحاد ی ۔ قادیانی۔ نظام سے شاکی۔ دین بیزار۔ اور کچھ ناعاقبت اندیش محض جدت کے شوق میں۔ ان کے آلہ کار بن کر اپنے ہی ملک و قوم کی جڑیں کاٹتے مصروف ہیں۔ اور نہائت زہریلے افکارات۔ معصوم اور سادہ نوجوانوں میں پھیلا رہے ہیں ۔ جن کا ایک خاص مقصد۔ اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان کے خلاف ۔ایک رائے عامہ تیار کرنا ہے ۔ جو بغیر کسی تحقیقی یا مطالعیاتی تکلف کے۔آنکھیں بند کر کے۔ انکے زہریلے پروپگنڈے پہ یقین لے آئے ۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں انٹرنیٹ اور حال ہی میں تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی فون پہ دستیاب ہونے کی وجہ سے ۔ واجبی تعلیم اور سطحی ذہنیت کے کچھ بے وقوف لوگوں کے ہاتھ میں ایک فون اور انٹرنیٹ ایسے آگیا ہے جیسے بندر کے ہاتھ میں ماچس۔ اور وہ نہ آؤ دیکھتے ہیں نہ تاؤ ۔ بس پورن سائٹس سے اخلاقی بگاڑ پیدا کرنے سے لیکر۔ لوگوں کو گالم گلوچ دینے ۔اور اپنے ہی ملک کے بارے فیشن کے طور پہ ۔اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان۔ کے خلاف گھڑی گھڑائی باتیں لکھنے۔ اورایک نئے میڈیا پہ ۔محض چند لائکس حاصل کرنے کے لئیے ۔ اول فول بکتے چلے جاتے ہیں ۔


مگر جو زیادہ سنجیدہ اور اور حساس لوگوں کے لئیے پریشان کُن مسئلہ ہے۔ وہ انٹر نیٹ پہ ۔ فیس بُک ۔ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پہ۔ بہت سے ہندؤوں ، قادیانیوں اور حتی کہ کچھ اردو جاننے والے یہودی صہونیوں نے ۔ مشنریوں نے ۔الحادیوں اور پاکستان سے بیزار نام نہاد تاریخ دانوں ۔ ماضی کے کچھ نام نہاد ترقی پسند اور آجکل امریکہ کی محبت میں دیوانے ۔ قوم فروش لوگوں نے۔ مسلمانوں اور دیگر نام سے اسلام ۔ پاکستان ۔نظریہ پاکستان ۔ اور افواجِ پاکستان کے خلاف بہت سے پیج بنا رکھے ہیں۔ پاکستانیوں میں لسانی اور صوبائی حتٰی علاقائی تعصب ابھارتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جنا ح اور اقبال رحمتہ اللہ علیہ جیسی شخصیتوں کے اسلام اور پاکستان کے بارے واضح افکارات کو مشکوک بنا کر پیش کرتے ہیں۔ کچھ بد بخت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے ۔ مسلمانی کے پردے میں نہائت رقیق اور غلیظ باتیں تک ان سے منسوب کرنے سے باز نہیں آتے۔

اپنے پیجز پہ۔ یہ لوگ نام بدل بدل کر اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان۔ کے بارے ہرزہ سرائی کرتے ہیں ۔ ایک دوسرے کی ستائش کرتے ہیں۔ اور بقائے باہمی کے تحت ایک دوسرے کی پوسٹس لائک اور شئیر کرتے ہیں۔ یہ لوگ دین اسلام اور پاکستانی کی اساسی بنیادوں کے بارے پیشہ وارانہ تیاری کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں۔جب کوئی انہیں مدلل جواب دے تو الامان الحفیظ ۔ یہ اسے جواب تک نہیں لکھنے دیتے ۔ غلیظ ہتکھنڈوں سے اس کے لتے لیتے ہیں ۔

بعض کا طریقہ واردات نہائت نپا تُلا ہے ۔ یہ مسلمانی کے پردے میں ۔اپنی طرف سے گھڑی مشکوک احادیث تک دھڑلے سے بیان کر دیتے ہیں۔ جب قائد اعظم محمد علی جنا ح رحمتہ اللہ اور اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے مسلمانی کردار کے بارے ۔ اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان۔ کے بارے فرضی کتابوں اور دانشوروں کے نام کا حوالہ دے دیں گے ۔۔ فرضی یا پچھلے کچھ سالوں سے پاکستان کے خلاف لکھنے والے ۔دیہاڑی دار۔ بزعم خویش دانشور اور تاریخ دان کے نام سے حوالہ دیں گے ۔ جن میں سے کچھ نے پاکستان کے خلاف۔ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے دھڑلے سے زہر اگلا ہے ۔ ان چند بکاؤ مال کےنام لکھ دیں گے ۔ ”فرضی ڈاکٹر دانشوروں کے نام سے فرضی کتاب سے استفادہ “لکھ کر شکوک اور مایوسی پیدا کرنے والے اسٹیٹس لکھ دیں گے۔

عام طور پہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے پیجز کو خواہ وہ کس قدر ہی دل آزار کیوں نہ ہو۔متعقلہ میڈیا کو رپوٹ کیا جائے۔ تو میڈیا کی انتظامیہ کا ۔پہلے سے پرنٹڈ جواب لمحوں میں آجائے گا ۔ کہ ”آپ کا شکریہ ۔ لیکن ہماری ٹیم نے متعلقہ پیج۔ یا تصویر پہ ایسا کوئی قابلِ اعتراض مواد نہیں دیکھا جس بارے آپ نے رپوٹ کی ہے“۔ اور ملک و قوم اور اسلام سے محبت رکھنے والے گُمنام لوگ ۔ انتہائی بے بسی سے ۔پھر سے۔ ایسے پیجز کے خلاف اپنی مقدور بھر کوشش سے۔ لکھنے میں جڑ جاتے ہیں ۔ مگر اسی پہ بس نہیں ۔ ایسے اسلام اور پاکستان ۔ دشمن پیجز کا مقابلہ کرنے والوں کو۔ اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان کا رضاکارانہ طور پہ دفاع کرنے والے لوگوں کو۔ حیرت کا جھٹکا اس وقت لگتا ہے۔ جب الٹا ایسے درد مند مسلمانوں اور محب الوطنوں کو اس پیج سے ہی نہیں۔ بلکہ اس سوشل میڈیا ہی سے بلاک کر دیا جاتا ہے ۔ اور وہ محض ایک ناظر کی حیثیت کے سوا ۔ کوئی سوال کرنے ۔ یا کچھ لکھنے یا شئیر کرنے یا اپنی رائے دینے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ یا اان کی آئی ڈی کو ہمیشہ کے لئیے بلاک کر دیا جاتا ہے۔


ہمارا مسئلہ۔ جسے بجا طور پہ ایک قومی مسئلہ کہا جا سکتا ہے ۔ وہ یہ ہے ۔ کہ پاکستان میں انٹر نیٹ عام ہونے سے اور خاصکر ٹیبس اور فون پہ انٹر نیٹ عام ہونے سے۔ کچھ لوگ تو اس سے اپنی تعلیمی ۔ کاروباری۔ باہمی رابطے ۔ مطالعاتی ۔ عام ریسرچ اور دینی اور دیگر کئی طرح کی سرگرمیوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ مگر کچھ ایسے بھی کم تعلیم یافتہ۔ یا ۔واجبی تعلیم کے حامل لوگ ہیں ۔ جو اس طرح کی سائٹس اور فیس بک۔ ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پہ ۔ اسلام اور پاکستان دشمن لوگوں کی ۔مشکوک اور مایوس باتوں ۔اور جھوٹی دلیلوں سے۔ دینی علوم اور پاکستان کے بارے مطالعہ کم ہونے کی وجہ سے ۔آسانی سے ٹریپ ہوجاتے ہیں۔ اور اسلام اور پاکستان کے بارے مختلف شکوک کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ ایسے شکار ہونے والے لوگوں میں نوجوان لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔جس سے قومی اور اسلامی سوچ منتشر ہورہی ہے ۔ اور پہلے سے انتشار کے شکار ۔معاشرہے میں عجیب و غریب اور نت نئے قسم کے افکارات کی فصل بونے کی کوشش ۔نہائت چابک دستی سے کی جارہی ہے۔جو آئیندہ چند سالوں میں پاکستان کے لئیے ایک بہت بڑی سردردی ثابت ہوگی۔
اس میں کوئی شک نہیں تقریبا ہر محاذ پہ مسلمان اور محب الوطن لوگوں نے ۔ایسے لوگوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔مگر کلی طور پہ اس مسئلے کا حل یہ ہے ۔کہ پاکستان میں قائم کئیے گئے ادارے جو سفید ہاتھیوں سے کم نہیں۔ انہیں اس نئی قسم کی سائبر گوریلا وار کے لئیے فعال کیا جائے ۔ انہیں ٹیلینٹد اور پڑھے لکھے افراد مہیاء کئیے جائیں۔ جو پروگرامرز ہوں۔ جو ایسی نئی ٹیکنالوجیز پہ عبور رکھتے ہوں۔ انکی متواتر تریبت کا بندوبست ہو۔ وہ ایسی ٹیکنالوجیز کا اسلامی اور ملکی مفاد میں حل نکالیں۔ انکا توڑ سوچیں ۔ اور ایسے لوگ جو صاحب علم ہوں ، ذہین ہوں اور اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان کے بارے سازشی اور مایوس نظریات پھیلانے والوں کا منہ توڑ جواب دے سکیں ۔ اور گوریلا سائبر وار کو یومیہ بنیادوں پہ روکنا ہوگا۔


پاکستان میں الکٹرانک میڈیا ۔جہاں سے نہائت سائنٹیفک طریقے سے۔بارہا ۔ اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان۔حملے کئیے گئے ۔ اور حکومت پاکستان اور متعقلہ ادارے ۔ پیمرا وغیرہ ۔میڈیا کو کسی ضابطہ اخلاق کے پابند بنانے میں ہنوز ناکام ہیں ۔سیاسی پارٹیاں اور حکمران۔ جو بجائے خود اسی بے لگام الیکٹرانک میڈیا پہ ۔اپنی بات کہنے کے لئیے اسی میڈیا کے محتاج ہیں ۔ وہ الیکٹرانک میڈیا کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہیں تو اسکے خلاف کاروائی کیسے کریں گے۔اور الیکٹرانک میڈیا کی ہی بے ہودگی کیا کم تھی ۔ کہ سوشل میڈیا سے پاکستان کے خلاف باقاعدہ ایک گوریلا سائبر وار چلائی جارہی ہے۔اور ذہن یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس کے خلاف کیونکر پاکستانی حکمران ایک موثر جوابی کاروائی کو معمول بنا سکیں گے؟۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری حکومتوں اور ارباب اقتدارو اختیار ۔ اور ذمہ داران کو۔ ان محکموں کو ۔جو ایسی نئی اور جدید ٹیکنالوجی کی جنگ کے لئیے تیار کئیے گئے ہیں ۔ انھیں خبر ہی نہیں۔ یا خبر ہے تو ۔وہ پاکستان کے دیگر اداروں کی طرح۔محض حکمرانوں کی کاسہ لیسی کے سوا کچھ اور کرنے کو تیار نہیں۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

پھر بجٹ۔


پھر بجٹ۔

Budget (مالی سال جولائی 2014ء تا 2015 ء)
دور روز قبل پاکستان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے پاکستان کا سالانہ (مالی سال جولائی 2014ء تا 2015 ء)بجٹ پیش کیا ہے ۔
یہاں حالیہ پیش کردہ بجٹ کے گورکھ دہندے پہ بحث کرنا مقصود نہیں ۔ کیونکہ یہ لچھے دار اور گنجلک بجٹ ہمیشہ سے عام آدمی کی سمجھ سے بالا تر رہے ہیں اور عام خیال یہی ہے کہ انہیں بابو لوگ پاکستان کے دیگر سرکاری نظام کی طرح جان بوجھ کر بھی کچھ اسطرح پیچیدہ اور سمجھ میں نہ آنے والی چیز بنا دیتے ہیں تانکہ عام عوام حسبِ معمول ہمیشہ کی طرح محض سر ہلا کر ”قبول ہے“ کہنے میں ہی عافیت سمجھے ۔
بجٹ کی ایک سادہ تعریف تو یہ ہے کہ کسی بھی ذاتی یا مشترکہ نظام کو چلانے کے لئیے اس نظام پہ اٹھنے والے اخراجات اور اسکی ترجیجات کے لئیے کسی ایک خاص مدت کے لئیے دستیاب میسر وسائل کی منصوبہ بندی کرناہے۔ اسے عام طور پہ بجٹ کہا جاتا ہے ۔ بجٹ ذاتی یا گھریلو بھی ہوسکتا ہے ۔محکمہ جاتی یا ملکی بھی ہوتا ہے ۔ گھریلو ہو تو عام طور پہ اسے ماہانہ بنیادوں پہ سوچا جاتا ہے اور اگر ادارہ جاتی اور ملکی ہو تو اسے سالانہ بنیادوں پہ بنایا جاتا ہے ۔ جسے ملک و قوم کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر سالانہ بنیادوں پہ تیار کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پہ تقریبا سارے دنیا کے ممالک کسی نہ کسی طور سالانہ بجٹ کے تحت اپنے معاملات چلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جس میں مختلف مقاصد کے لئیے مخصوص رقم مقرر کی جاتی ہے اور رقم اور وسائل کی دستیابی کے لئیے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔قومی ترقی۔ دفاع ۔ صحت ۔ تعلیم اور دیگر اہداف مقرر کئیے جاتے ہیں ۔ جبکہ پاکستان میں بجٹ کے آغاز سے بجٹ کے مالی سال کے اختتام تک بندر بانٹ ۔ وقتی ضرورت ۔ بد دیانتی اور دیگر کئی قسم کے جوازوں کے تحت قومی خزانے کے صندوق کا ڈھکن اٹھا دیا جاتا ہے اور بڑھے ہوئے ہاتھ ۔ قوم کی امانت رقم کو قومی ضروت سے کہیں زیادہ اپنی ذاتی اغراض کے لئیے اپنی طرف منتقل کر لیتے ہیں اور منتقلی کا یہ عمل ایسی سائنسی طریقوں سے کیا جاتا ہے ۔ کہ قومی خزانے کو بے دردی سے لُوٹنے والے چور بھی حلق پھاڑ پھاڑ کر ”چور“ چور“ کا شور مچاتے ہیں ۔اور مجال ہے کہ چشم دید گواہوں اور شہادتوں کے باوجود ایسی طریقہ واردات پہ کسی کو سزا دی گئی ہو۔ اور پاکستان کے نصیب میں ہمیشہ سے یوں ہی رہا ہے ۔
قوم کی امانت ۔ قومی خزانے کو خُرد بُرد ہر اور ہیرا پھیری سے اپنی جیب میں بھر لینا ۔شیر مادر کی طرح اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔ایسے میں کم وسائل اور عالمی مہاجنوں کے مہنگے قرضوں۔ امداد و خیرات سے تصور کئیے گے وسائل سے (خسارے کا بجٹ) خسارے کے بجٹ پہ حکومتوں اور اداروں کے سربراہوں ، مشیروں وزیروں کے شاہی اخراجات اور ایک عام چپڑاسی سے لیکر عام اہلکاروں اور اعلٰی عہدیداروں کے حصے بقدر جثے اور دیگر اللوں تللوں سے یہ تصور محض تصور ہی رہتا ہے کہ کہ پاکستان سے غربت اور ناخواندگی ختم ہو اور قومی ترقی کی شرح میں قابل قدر اضافہ ہو۔اور مالی سال کے آخر میں وہی نتیجہ سامنے آتا ہے جو پاکستان میں پچھلی چھ دہائیوں سے متواتر آرہا ہے کہ نہ صرف غریب ۔ غریب سے غریب تر ہوتا گیا بلکہ ہر سال غریبوں کی تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے ۔ عالمی اداروں کی حالیہ حد بندیوں میں پاکستان کئی درجے نیچے کو لڑھک رہا ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں غریبی کی سطح سے نیچے زندگی Low povertyگزارنے والی آبادی نصف سے زائد ہے ۔ خود اسحق ڈار نے اپنی بجٹ تقریر میں یہ بات تسلیم کی ہے کہ پاکستان کی نصف سے زائد آبادی غریبی کی آخری حد سے نیچے ۔ یعنی دو ڈالر یومیہ آمدن سے کم کماتی ہے۔ یعنی ایسے غریب جو مستقبل کے بارے کسی قسم کی منصوبہ بندی کرنے سے محض اس لئیے قاصر ہیں کہ وہ اپنے یومیہ بنیادی اخراجات پورے کرنے کی جستجو میں محض زندہ رہنے کا جتن کر پاتے ہیں۔ایسے حالات میں ایک لگے بندھے بجٹ کے طریقہ کار سے حکومت اور ذمہ دار اداروں کا اپنے آپ کوقومی ذمہ داریوں سے سبک دوش سمجھ لینا۔ پاکستان کی اکثریتی آبادی کی انتہائی غریب آبادی کی غربت اور غریبوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے مترادف ہے۔
پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی بجٹ اجلاسوں پہ اعدو شمار پیش کئیے جاتے ہیں ۔ اور ان پہ کئی کئی دن لگاتار یوانوں میں اجلاس ہوتے ہیں ۔ جہاں حکوت بجٹ کے حق میں دلائل دیتی ہے وہیں حب اختلاف اور دیگر جماعتیں بجٹ کی خامیوں کی نشاندہی کرتی ہیں ۔ حزب اختلاف کئی ایک تجاویز دیتی ہے ۔ حزب اختلاف اور حکومت سے باہر سیاسی جماعتیں حکومت کے متوازی۔ اپنے طور پہ بجٹ کے لئیے باقاعدہ تیاری کرتی ہیں ۔اور متبادل تجاویز کو کئی بار حکومت تسلیم کر لیتی ہے۔ اور ایک بار بجٹ طے پا جانے پہ اسے پائے تکمیل تک پہنچانے کے لئیے حکومت تہہ دل سےمقر ر کردہ اہداف حاصل کرنے کے لئیے مطلوب وسائل مہیاء کرتی ہے۔ ہمارے ارباب اقتدار و اختیار اور اور قومی اسمبلی کے معزز اراکین کا یہ عالم ہے کہ ایک اخباری اطلاع کے مطابق قومی خزانے سے کرڑوں روپے خرچ کر کے قومی اسملی کے ارکان کے لئیے بجٹ کی دستاویز چھپوائی گئی ۔ جسے ستر فیصد سے زائد قومی اسمبلی کے معزز ارکان بغیر کھولے ہی قومی اسمبلی ہال کے ہال میں اپنی سیٹوں پہ چھوڑ گئے ۔ اس میں حکومتی ارکان بھی شامل ہیں۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار کی تقریر کے دوران بھی قومی اسمبلی کی اکثریت ۔ بیزار ۔ بور اور آپس میں بات چیت کرتی نظر آئی ۔ ہماری رائے میں پاکستان سے متعلق اتنے اہم مسئلے پہ عدم دلچسپی کے اس مظاہرے کی وجہ اراکین اسمبلی کو بھی پاکستان کی سابقہ بجٹوں کی طرح اس بجٹ پہ بے یقینی اور بجٹ پیش کرنے کی کاروائی محض ایک رسم اور ایک قومی تقاضا پورا کرنے کے مترادف لینا ہے اور دوسری بڑی وجہ معزز اراکین کی بڑی تعداد کی تعلیمی استعداد اور سوجھ بوجھ کی کمی ہوسکتی ہے ۔ تو ایسے حالات میں پاکستان جیسے غریب سے غریب تر ہوتے معاشرے کے لئیے ایک قابل عمل اور نتیجہ خیز بجٹ کے لئیے مفید اصلاحات کون پیش کرےگا؟، حکومت کے بجٹ کی خامیوں کی نشاندہی کون کرے گا؟۔اسحق ڈار کے لبوں پہ ایک فاتح کی سی معنی خیز مسکراہٹ بھی اس امر کی غمازی کر رہی تھی ۔کہ کوئی تنقید نہیں کرے گا۔ اور بجٹ معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہوجائے گا۔ تو ایسے حالات میں پاکستانی عوام کس کا پلُو تھام کر اسطرح کے بجٹوں پہ فریاد کریں ؟۔
آجکل پاکستان میں ٹیکس گزاروں کا نیٹ ورک بڑہانے کے لئیے بہٹ شور مچا ہوا ہے ۔ بہت سے ترقی یافتہ اور ٹیکس سے چلنے والے ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ اور پاکستان میں ٹیکس گزاروں کی ٹیکس چور ی کو تنقید کا نشانہ بنانا عام ہے ۔ لیکن اس بات کا کوئی تذکرہ نہیں کرتا کہ اُن ممالک میں حکومتی ادارے کس طرح عوام کے ٹیکسوں سے ملکی آمدن کو سوچ سمجھ کر انتہائی ذمہ داری اور دیانتداری سے ایک مکمل منصوبہ بندی سے استعمال میں لاتےہیں جس کے نتیجے میں عام آدمی کو ہر قسم کی بنیادی سہولتیں میسر ہوتی ہیں اور عوام کی فلاح بہبود اور ترقی پہ ٹیکسوں کو خرچ کیا جاتا ہے ۔ اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے لوگوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جاتا اور انہیں نہ صرف کریمنل یعنی سنگین مجرم بلکہ اخلاقی مجرم بھی تصور کیا جاتا ہے ۔ ایسے لوگوں کے نام سے عام آدمی گھن کھاتا ہے اور انکا ذکر انتہائی ناگواری سے کرتا ہے ۔ اور بہت سے ممالک میں ایسے حکومتی عہدیدار اور سیاستدان اسطرح کے اسکینڈل منظر عام پہ آنے سے اپنے عہدوں سے استعفی دے کر گھر بیٹھ جاتے ہیں ۔ اپنے مقدموں کا سامنا کرتے ہیں ۔ اور بہت سے بدنامی کے ڈر اور لوگوں کی نظروں کی تاب نہ لا کر خود کشی کر لیتے ہیں ہیں ۔ جبکہ پاکستان میں ؟۔۔۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ کلچر عام ہے اور اسے ستائشی نظروں سے دیکھا جاتا ہے ۔ کہ جو جتنا بڑا چور ہوگا اسکے حفظ و مراتب بھی اسی حساب سے زیاد ہ ہونگے ۔ وی وی آئی پی تصور کیا جاتا ہے ۔ ایسے لوگ کسی وجہ سے اپنا عہدے سے سبک دوش ہوجائیں تو بھی انہیں ہر جگہ ۔ہر ادارے میں خصوصی اہمیت دی جاتی ہے ۔ایسے ماحول اور معاشرے میں تو ہر دوسرا فرد کسی نہ کسی طرح روپیہ کما کر جلد از جلد اہمیت پانا چاہے گا۔ خواہ اس کمائی کے حلال اور حرام ہونے پہ سو ال اٹھیں۔جبکہ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ جن کی وجہ سے ملک کی آج یہ حالت ہے کہ غریب اور مجبور لوگوں کی محض روز مرہ مسائل کی وجہ سے خودکشیوں میں شرح میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے ۔ انہیں ۔ ایسے لوگوں کو حقیر جانا جاتا ۔انکی حوصلہ شکنی کی جاتی ۔ اور نیک ۔ دیانتدار اور ٹیکس گزار وں کو قابل احترام سمجھا جاتا ۔ انکی حوصلہ افازئی کی جاتی تانکہ محنت سے آگے بڑھنے کا کلچر فروغ پاتا۔ عام آدمی بجائے شارٹ کٹ ڈہونڈنے کے محنت پہ یقین رکھتا۔مگر نہیں صاحب ۔ قومی چوروں کو حرام کے ۔ لُوٹ کھسوٹ اور قومی خزانے کو نقصان دے کر بنائی گئ جائیدادوں اور پیسے کی وجہ سے ہر جگہ سر آنکھوں پہ بٹھایا جاتا ہے ۔ اور جو لوگ بالواسطہ یا بلا واسطہ ٹیکس ادا کرتے ہیں انہیں انتہائی حقارت سے دھتکار دیا جاتا ہے ۔ تو سوال یہ بنتا ہے کہ پھر آپ کس طرح اپنے ٹیکس گزاروں کے نیٹ ورک میں اضافہ کرنا چاہئیں گے ۔ اور ٹیکس نہ دینے والوں کا رونا رونے کے ساتھ اپنی کمزوریوں اور خامیوں سے بھرپور کلچر کو بھی تبدیل کی جئیے ۔
وہ قومیں جو ہماری طرح شدید غربت سے دوچار نہیں وہ بھی اپنی قومی آمدنی بڑھانے کے لئیے کئی ایک حربے آزماتی اور نت نئے جتن کرتی ہیں ۔ جبکہ ہمارے ملک کے بادشاہ لوگوں کا باوا آدم ہی نرالا ہے جبکہ پاکستان کے پاس ایک سرمایہ کاری کا ایک مناسب اور اہم ذریعہ پاکستانی امیگرنٹس کی شکل میں بھی موجود ہے جنہیں مناسب ترغیب، اور منصوبہ بندی سے چھوٹے چھوٹے پراجیکٹس کی طرف راغب کرنا چندا مشکل نہ تھا کہ وہ قومی یا کاروباری اسکیموں میں پیسہ لگاتے اور کارپوریشنز کی طرز پہ انکے سرمایے اور منافع کی دیانتدارانہ نگرانی کی جاتی ۔ لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ۔ روٹی ۔ روزی ۔ روزگار کی وجہ سے یا ملازمت اور کاروبار کی وجہ سے پاکستان سے باہر مقیم افراد کو جسطرح بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح پاکستانی ائر پورٹو ں پہ ان سے سلوک کیا جاتا ہے۔ امیگریشن کاؤنٹر سمیت ہر قسم کے محکماتی کاؤنٹر پہ انکے ساتھ افسر مجاز انہیں کسی جیل سے بھاگے ہوئے قیدی کی طرح سوال جواب اور سلوک کرتا ہے۔ کہ دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ کہاں تو دیگر ممالک کے ائر پورٹس کاونٹر ز پہ مثالی انسانی سلوک کہ غیر قانونی دستاویزات پہ سفر کرنے والے مجبور پاکستانیوں کا جُرم پخرے جانے پہ بھی ان کی عزت نفس کا خیال رکھا جاتا ہے جبکہ اپنے ملک پاکستان سے آتے یا جاتے ہوئے ائر پورٹوں پہ اتنا انتہائی ذلت آمیز رویہ۔ کہ دماغ بھنا اٹھے۔ اور پاکستان کے اداروں کا یہ سلوک ان لوگوں سے۔ جو کئی دہائیوں سے مسلسل اپنے خُون پسینے کی کمائی سے۔ ریاستِ پاکستان کی زر مبادلہ کی کمائی کا بہت بڑا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ۔پاکستان میں مقیم کروڑوں افراد کی کفالت کا ذمہ اٹھا رکھا ہے ۔ تو آپ کیسے ان سے یہ توقع اور امید رکھیں گے کہ پاکستان میں ہر قسم کی عدم سہولتوں اور امن عامہ کی عدم موجودگی کے باوجود اور اسقدر انتہائی اہانت آمیز سلوک کے باوجود وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے؟ یہ ایک ننھی سی مثال ہے ۔ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاروں کو ترغیب دیتے ہوئے بعض اوقات ہم قومی مفادات کو بھی پس پیش ڈال دیتے ہیں۔ جبکہ اپنے پاس موجود وسائل کو ملکی رو میں شامل کرنے کی بجائے اسے ملکی نظام سے بدظن کرنے کے لئیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں ۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے عد توجہ اور لاپرواہی پاکستان میں گھسٹتے نظام کی ایک ادنی سی مثال ہے کہ کس طرح ہم اپنے دستیاب وسائل کو کس بے درردی سے ضائع کر دیتے ہیں ۔ اور بعد میں وسائل کی عدم دستیابی کا رونا روتے ہیں۔ اس ضمن میں بہت سے دیگر طبقوں کی مثالیں دی جاسکتیں ہے۔
ایک عام سا فطری اور مالیاتی اصول ہے کہ جس چیز کی ضرورت جتنی اشد ہو گی اسکے حصول کی لئیے کوشش بھی اسی طرح زیادہ کی جائے گی ۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ وسائل کا حصول اور انہیں مناسب طریقے سے استعمال میں لانا ہے۔جبکہ پاکستان میں کتنے صدق دل سے اس اصول کے خلاف کوشش کی جاتی ہے ۔ پاکستان کے کسی بھی ائر پورٹ یا پورٹ کو استعمال کر کے دیکھ لیں ۔ پاکستان میں درآمد کی جانے والی قابل کسٹم ڈیوٹی اشیاء ۔ خواہ وہ ذاتی ہوں یا کاروباری ۔ یا تحائف ۔ پاکستانی کسٹم کا مستعد عملہ بڑی جانفشانی سے آپکے سامان کی تلاشی لے گا ۔ اور نتیجے میں اس سے برآمد ہونے والی اشیاء کے بارے نہائت تندہی اور خونخوار لہجے میں اس پہ کسٹم ڈیوٹی کی رقم بتائے گا ۔اور ایک سانس فر فر سبھی قانون قائدے بیان کردے گا۔اور محصول کی رقم اسقدر بڑھا چڑھا کر بتائے گا کہ پاکستان پہنچنے والے پریشان حال اور تھکن کے مارے۔ لاعلم۔ مسافر کا منہ کھلے کا کھلا رہ جائے گا۔پریشانی بھانپتے ہی ایک آدھ اہلکار نہائت ہمدردی سے سر گوشی کے انداز میں استفسار کرے گا صاحب سے ککہ کر کچھ کم کروا دوں؟ اور دیکھتے۔ دیکھتے سر عام بولی لگے گی ۔ مُک مکا ہوگا۔ اور وہ رقم جسے قومی خزانے میں جانا چاہےتھا ۔ جس خزانے سے کار سرکار پہیہ چلتا ہے ۔ وہ رقم ۔ قومی خزانے سے تنخواہ اور مراعات پانے والے ہر قسم کے حفظ و مراتب وصولنے والوں کی جیب میں چلی جائے گی ۔ گویا حکومت نے قومی خزانے سے تنخواہ اور وردی دے کر لٹیروں کو قومی وسائل کو خرد برد کرنے کے لئیے بھرتی کر رکھا ہے ۔کچھ یہی عالم پولیس اور پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پاکستان کے سبھی چھوٹے ،بڑے ۔ اہم اور غیر اہم سرکاری اداروں کا ہے ۔ محکمہ کسٹم تو محض پاکستان میں کرپشن کے گلشیئر کا نکتہ آغاز ہے ۔کبھی سوچئیے کہ اگر صرف محکمہ پولیس کا ٹریفک ڈپارٹمنٹ جرمانوں کی وہ رقم جو قومی خزانے میں جمع ہونے کی بجائے پولیس اہلکاروں کی جیب میں چلی جاتی ہے ۔ یہ رقم اگر قومی خزانے میں جمع ہو تو پولیس کی ماہ بھر کی تنخواہ ان سے آسانی سے دی جاسکتی ہے۔ اور نتیجتا قانون کی حکمرانی کا شعور اور رواج بھی ملک میں پھیلے گا ۔ اگر کوئی یہ کہے پاکستان کے اداروں یا کسٹم کے ادارے میں اور ائر پورٹس وغیرہ پہ مکا مکا کی بولی سر عام اور سب کے سامنے نہیں ہوتی تو ایسی حکومت اور ذمہ داروں کو اپنی بے خبری پہ ماتم کرنا چاہئیے ا لاہور ۔ اسلام آباد ۔ کراچی ہر ائر پورٹ پہ بڑے دھڑلے سے اور سر عام ہوتا ہے تو حکومت اور بدقماشی ۔ رشوت اور کرپشن روکنے والے حکومتی اداروں کو اسکی خبر نہیں ؟ ایسے بدقماش اہلکاروں کو سزا دینا۔ دلوانا اور نوکریوں سے فارغ کرنا حکومت کے دیگر فرائض میں سے ایک فرض ہوتا ہے ۔۔ پاکستان میں زکواۃ کے دنوں پاکستانی اپنی رقم بنکوں سے محض اسلئیے نکال لیتے ہیں کہ انہیں حکومت کی زکواۃ کٹوتی پہ بھی شکوک ہیں اور وہ اپنی زکواۃ خود اپنی تسلی سے دیتے ہیں ۔ حکومتی زکواۃ کمیٹیوں پہ یقین نہیں کرتے ۔ حاصل بحث اگرحکومت خود سے کچھ کرنے سے قاصر ہو اورقومی خزانے کو تیل دینے والے عام معلوم اداروں اور عہدیداروں کو کرپشن سے باز نہ رکھ سکے تو ایسے ماحول میں آپ کا ٹیکس گذار کس خوشی میں آپ کو ٹیکس دینے کو تیار ہوگا؟
پاکستان کے اقتصادی و معاشی اور معاشرتی حالات ۔ اندھے بجٹ کے ذریعئے نہیں سدھریں گے۔ اعدادہ شمار کا یہ گورکھ دھندا اگر اتنا ہی مفید ہوتا تو ہر سال غربت میں کمی ہوتی اور ملک و قوم ترقی کرتے جب کہ حقائق اس کے بر عکس ہیں۔ ملک میں غربت اور مہنگائی کا عفریت کب کا منہ کھولے عوام کی امیدو اور خواہشوں کو ہڑپ کرچکا ہے اور کئی سالوں سے پاکستان کے غریب عوام مفلسی اور مفلوک الحالی میں محض زندہ رہنے کا جتن کرتے ہیں۔عام پاکستانی شہری کو پاکستان کے سال در سال پیش کئیے جانے والے بجٹوں سے کوئی امید اور توقع نہیں رہی۔ اور پاکستان میں ایک عام خیال جر پکڑ چکا ہے کہ ہر سال بجٹ کے ساتھ اور فورا بعد میں مہنگائی کی ایک تازہ لہر آئے گی جو شدت میں پچلی مہنگائی سے زیادہ ہوگی ۔ اور پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت کو مدنظر رکھتے ہوئے عام آدمی کے یوں سوچنا سمجھ میں آتا ہے۔
اگر ملک کی حالت اور قوم کی تقدیر بدلنا ہے تو ۔ بڑے منصوبوں کی افادیت اپنی جگہ مگر ایک حقیقی تبدیلی اورقومی اقتصادی ترقی کے لئیے ۔ اسکے ساتھ ساتھ گلی محلے سے لیکر گاؤں۔ گوٹھ۔ بستیوں اور شہروں کے لیول کی چھوٹی چھوٹی منصوبہ بندیاں کرنی پڑیگی ۔ ان منصوبوں کے لئیے وسائل ۔ سرمایہ ۔ اور دیانت دارانہ نگرانی ، اہداف کی تکمیل تک حکومت کو سرپرستی کرنا ہو گی ۔ گلی محلے سے لیکر ملکی اور قومی سطح پہ کی جانے والی منصوبہ بندی لوگوں کی مقامی ضروریات کے مطابق ۔ پاکستانی ۔ محنت کش ۔ اور ہنر مندوں کی صلاحیتوں پہ اعتماد کرتے ہوئے ۔ انکی تربیت اور رہنمائی کرتے ہوئے کی جائے ۔ انہیں چھوٹے چھوٹے پیداواری اہداف دئیے جائیں۔ حکومتی ادارے اپنی تحقیق سے ایسے اہداف کی نشاندہی کریں ۔ اس ضمن میں پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے تحقیقی شعبوں کو بھی شامل کیا جائے۔ اور مطلوبہ پیداوار کی عام منڈیوں میں کھپت ۔حکومت کے فعال اور دیانتدار ادارے کریں ۔ پاکستان با صلاحیت افرادی قوت سے مالامال ہے ، اسکی عمدہ مثالیں فیصل آباد میں ٹیکسٹائل انڈسٹریز ۔ گوجرنوالہ میں پنکھے ۔ اور واشنگ مشینیں ۔ اسٹیل کے برتن ۔ گجرات میں پنکھے ۔ فرنیچر ۔ برتن ۔ سیالکوٹ میں کھیلوں کا سامان ۔ لیدر جیکٹس ۔ جراہی کا سامان اور پاکستان میں کئی اور شہروں میں مختلف قسم کا سامان تیار کرنے والوں سے جڑے ہزاروں خاندانوں کا روزگار اور نتیجے میں وہ پیداوار ہے۔ جس سے پاکستان کثیر زرمبادلہ بھی کما رہا ہے اور ان شہروں کی عام آبادی مناسب روزگار ہونے کی وجہ سے عام علاقوں کی نسبت خوشحال بھی ہے ۔ ان شہروں میں بہت سی مصنوعات کے چھوٹے چھوٹے جُز پرزے گھروں میں تیار کئیے جاتے ہیں۔ اگر اس جوہر قابل کی مناسب تربیت کر کے اسے قومی پیدوار میں شامل کیا جائے تو قوم کو بہتر نتائج ملیں گے ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت سی قوموں نے ننھی سطح سے سے مائیکرو منصوبہ بندی کرتے ہوئے نہ صرف پیدواری عمل بڑہایا ہے اور آج صف اول کی قوموں صف میں کھڑی ہیں ۔ بلکہ انہوں نے اسطرح اپنے شہریوں کو روزگار مہیاء کرنے کی وجہ سے ان کا معیار زندگی بھی بلند کیا ہے ۔ جبکہ پاکستان صلاحیتوں سے بھرپور اور نوجوان افرادی قوت سے مالا مال ہے ۔
جب تک قومی وسائل کو بے دردی سے لُوٹنے والوں اور بودی اہلیت کے مالک منصوبہ و پالیسی سازوں سے چھٹکارہ نہیں پاتے ۔چور دورازوں کو بند نہیں کرتے ۔ پاکستان کو دستیاب وسائل کی قدر نہیں کرتے ۔ اور بھرپور طریقے سے انہیں استعمال میں نہیں لاتے ۔ بنیادی تبدیلی کے لئیے مناسب اور مائکرو منصوبہ بندی نہیں کرتے ۔ افرادی قوت کی مناسب رہنمائی اور تربیت نہیں کرتے تب تک معاشریہ ان چھوٹی بنیادوں۔ اور اکائیوں سے اوپر نہیں اٹھے گا اور تب تک ایک باعزت قوم بننے اور اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کا خوآب ادہورا رہے گا ۔ ہم خواہ کس قدر قابل عمل بجٹ بناتے رہیں نتائج وہی ڈھاک کے تین پات ہی رہیں گے اور قومی ترقی کا خوآب محض خوآب ہی رہے گا۔ سال گزرتے دیر نہیں لگتی ۔ جون 2015 ء میں ایک بار پھر وہی تقریر اور لفظوں کا ہیر پھر محض ایک خانہ پری ہوگی۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

 
%d bloggers like this: