نُورا ملاح اور جے آئی ٹی ۔
نورا ملاح کشتی ”کھیہ“ رہا تھا ۔اس نے ”ونج“ کو آخری بار دریا کی تہہ میں گاڑا اور کشتی کوپتن سے لگادیا ۔ چھوٹی سی رسی سے کشتی کو دریا کنارے باندھنے کی دیر تھی کہ اس پار بکھرے دس بارہ دیہات کے اِکا دُکا مسافر جو دیر سے کشتی کا اِس پار آنے کا انتظار کررہے تھے اُچک اُچک کر جلدی جلدی کشتی میں چڑھنے لگے ۔نُورے کا گھر بھی دریا کے اِسی پار کے کچھ دُورواقع گاؤں ”وسن والا“ میں تھا،گرمیوں کی دوپہر سر پہ تھی ۔
نورے نے کشتی کا ”پُور“ (پھیرا)بھرتے سوچا یہ پچھے چار سالوں سے اسکے نصیب چمک اٹھے تھے ۔ بارہ اِس پار کے گاؤں اور بارہ چودہ اُس پار کے دیہاتوں کے لوگ بھی جوق در جوق اسکی کشتی سے اپنے ضروری کاموں سے اس یا اس پار آتے جاتے تھے ۔ اور ان سالوں میں گو ”ہاڑ“ (سیلاب) تو سر چڑھ کر آتا رہا مگر ہر بار کی مناسب پیش بندی سے اسکی کشتی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا ۔ ورنہ تو پچھلے سالوں میں دو دو بار اسکے کشتی دریا کے سیلاب میں بہہ کر گُم گُما گئی تھی اور اگلے سالوں میں نُورے اور اور اسکے خاندان کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مگر اب کی بار اللہ نے اس پہ اور اسکے خاندان پہ خاص کرم کیا تھا ۔
نُورا انہی سوچوں میں غرق اور دل ہی دل میں خوش ہوتا ہوا کشتی ”کھیتا“ دریا کے درمیان پہنچ چکا تھا کہ اُس کے گاؤں ”وسن والا“ کے ”مانے“ کو پتہ نہیں کیا سُوجھی کہ اس نے کہا کہ
”نُورے میں ابھی گاؤں سے آیا ہوں اور تمہارے لئیے ایک بری خبر ہے “
نورے کی ساری خوشی کافُور ہوگئی اور وہ مانے کی طرف متوجہ ہوگیا جو بتارہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
”نُورے ۔ تمہاری بیوی اپنے کسی آشناء کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی ہے“
نورے کا رنگ فوراََ فق ہوگیا ۔ کشتی میں سوار بار ہ گاؤں کے دیہاتیوں نے چونک کر اپنی باتیں چھوڑ چھاڑ کر نظریں نُورے پہ گاڑ دیں ۔ اور نورے کو یوں لگا جیسے کسی نے اسے بھرے بازار میں ننگا کر دیا ہو۔ایک لمحے کے لئیے ”ونج“ پہ اسکی گرفت کمزور ہوئی اور کشتی لہراکر رہ گئی ۔ مگر نُورے نے دوبارہ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے ”ونج “ پہ اپنی گرفت مضبوط کی مگر اُسے یوں لگا جیسے کسی نے اسکے بازؤں کی طاقت سلب کر لی ہو ۔ نورا ملاح جیسے تیسے کشتی ”کھیہ“ کہ دریا کے دوسرے کنارے لگانے میں کامیاب ہوگیا ۔ کشتی کے مسافر اسے عجیب نظروں سے دیکھتے اپنے اپنے رستوں کو ہو لئیے صرف ”مانا“ رک گیا تھا اور مسافروں کے جاتے ہی نُورااپنی بربادی پہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔اور اچانک ”مانا “ بے اختیار قہقے لگا کر ہنسے لگا ۔ نورے نے غم اور صدمے سے مانے کو دیکھا ۔ مانے نے کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
” اوئے جھلیا۔ میں تو تمہارے ساتھ دل لگی (مذاق) کر رہا تھا ۔ تمہیں پتہ تو ہے دل لگی کرنے والی میری اس پُرانی عادت کا۔ تمہاری بیوی کسی اپنے آشناء کے ساتھ بھاگ کر کہیں نہیں گئی اور وہ تمہارے گھر پہ ہی ہے۔ میں تو ایسے ہی تمہارے ساتھ دل لگی کر رہا تھا“
نُورے نے مایوسی اور غم کے ملے جُلے جذبات اور رندھے ہوئے گلے سے دور دراز راستوں پہ جانے والے کشتی کے مسافروں کو دیکھا اور ”مانے“ سے گویا ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
”مانے! تم نے تو دل لگی کی مگر میرا ستیا ناس کردیا۔اب یہ سمجھو کہ کہ میری بیوی واقعی گھر سے بھاگ ہی گئی ہے۔یہ بارہ گاؤں کے لوگ بارہ چودہ مختلف گاؤں کو جائیں گے اور اتنے ہی لوگوں کو بتائیں گے کہ نورے ملاح کی بیوی آج گھر سے بھاگ گئی ہے۔ نہ یہ سارا ”پُور“ دوبارہ اکھٹا ہوگا ۔ اور نہ ہی وہ تم سے یہ جاننا چاہیں گے کہ تم نے مجھ سے دل لگی کی تھی جبکہ میری بیوی کسی آشناء کے ساتھ گھر سے نہیں بھاگی تھی۔ اور اگر اتفاق سے وہ اکھٹے ہو بھی جائیں اور تم انہیں حقیقت بتا بھی دو تو اتنے سارے دیہاتوں میں جہاں ان کے بتانے سے میری نیک نامی تار تار ہوگی وہ کیسے نیک نامی میں بدل پائے گی؟ بس ”مانے“ اب یوں سمجھوں کہ میری بیوی کسی آشناء کے ساتھ بھاگ ہی گئی ہے اورمیری نیک نامی تواب واپس آنے سے رہی“
نواز شریف نے اگر کرپشن نہیں بھی کی تو بھی اب نواز شریف جس قدر متنازع شخصیت بن چکے ہیں اور ثابت اور غیر ثابت شدہ الزام تراشیوں میں گھر چکے ہیں ۔توانہیں چاہئیے کہ ملک و قوم کے وسیع ترمفاد میں اپنے عہدے سے استعفی دے کر بچی کچھی کچھ نیک نامی سمیٹنے اور جمہوریت کو بچانے کی کوشش کرنی چائیے۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: "ہاڑ", "مانے", "مانا", "نُورے, "وسن, "پُور", "پُورا", (مذاق), (پھیرا)بھرتے, )کچھ, “, ہ, فق, ہنسے, ہو, ہو۔ایک, ہوگی, ہوگیا, ہوگئی, ہوگا, ہوں, ہوئی, ہوئے, ہوا, ہوا۔, ہوتا, ہی, ہیں, ہے, ہے"نورے, ہے۔, ہے۔یہ, ہر, قوم, قدر, لہراکر, لمحے, لوگ, لوگوں, لی, لگی, لگے, لگا, لگانے, لگادیا, لئیے, م, ملک, ملاح, مناسب, میں, میری, مگر, متنازع, متوجہ, مجھ, مختلف, مسافر, مسافروں, مشکلات, مضبوط, نہ, نہیں, نقصان, نمک, ننگا, چوہ, چونک, نواز, چودہ, نورے, نورا, نیک, نُورا, نُورااپنی, چڑھ, چڑھنے, نے, چکے, چکا, چھوڑ, چھوٹی, چھاڑ, چاہیں, نامی, چائیے۔, چار, نصیب, نظروں, نظریں, و, وہ, ونج, والی, والے, والا, واپس, ورنہ, وسیع, یہ, یوں, یا, ۔, ۔نورے, ۔اس, کہ, کہیں, کہا, کمزور, کچھی, کنارے, کو, کوپتن, کوئی, کوشش, کی, کیا, کیسے, کے, کھیہ, کھیتا, کا, کافُور, کاموں, کامیاب, کا۔, کر, کرم, کرنی, کرنے, کرنا, کرپشن, کررہے, کسی, کشتی, گم, گما, گڈ, گویا, گی؟, گیا, گے, گھر, گئی, گاڑ, گاڑا, گاؤں, گرفت, پہ, پہنچ, پہنچا, پچھلے, پچھے, پیش, پڑا, پھوٹ, پائے, پار, پتہ, آنے, آیا, آپ, آتے, آتا, آج, آخری, آشناء, اللہ, ان, انہی, انہیں, اچک, اچانک, انتظار, اوئے, اور, اورمیری, ایک, ایسے, اُس, اُسے, اِس, اِسی, اکھٹے, اکھٹا, اکا, اگلے, اگر, اٹھے, اپنی, اپنے, اب, ابھی, اتفاق, اتنے, اختیار, ار, اس, اسے, اسکی, اسکے, استعفی, بہہ, بن, بنی, بنانے, بندی, بیوی, بڑی, بے, بکھرے, بھی, بھاگ, بھاگی, بھرے, باندھنے, باتیں, بار, بارہ, بازؤں, بازار, بتا, بتانے, بتائیں, بتارہا, بدل, بری, بربادی, بس, تہہ, تم, تمہیں, تمہاری, تمہارے, تو, توانہیں, تیسے, تھی, تھی۔, تھے, تھا, تھا"نُورے, تھا،گرمیوں, تار, ترمفاد, جہاں, جلدی, جمہوریت, جو, جوق, جیسے, جھلیا۔, جاننا, جانے, جائیں, جاتے, جبکہ, جس, حقیقت, خوش, خوشی, خاندان, خاص, خبر, دہ, دل, دو, دوپہر, دوبارہ, دور, دوسرے, دیہات, دیہاتوں, دیہاتیوں, دیکھا, دیکھتے, دیں, دیا, دیر, دُورواقع, دے, دکا, در, درمیان, دریا, دراز, دس, رہ, رہی, رہا, رنگ, رونے, رک, راستوں, رسی, رستوں, سلب, سمیٹنے, سمجھو, سمجھوں, سنبھالتے, سوچوں, سونا, سوار, سی, سیلاب, سُوجھی, سے, سالوں, سامنا, ساتھ, ساری, سارا, سر, شخصیت, شریف, صدمے, صرف, ضروری, طاقت, طرف, عہدے, عادت, عجیب, غم, غرق
جے آئی ٹی رپورٹ بھی ہوگئی۔
اب کیا ہوگا؟۔
کیا یہ سیریل آئندہ الیکشن تک چلے گا؟
اگر یوں ہوتا ہے کہ یہ سیریل آئندہ الیکشن تک چلتی ہے تو کیا اس کا یہ مطلب واضح ہے کہ گو کہ اس سیریل کے تمام اداکار پاکستانی ہیں مگر اس سیریل کو ڈائریکٹ کہیں اور سے کیا جارہا ہے؟
جنرل ایوب خان نے اپنی کتاب "فرینڈز ناٹ ماسٹرز” Friends Not Masters, میں آقاؤں کی طوطا چشمی کے شکوے کئیے ہیں اور ان کی بے وفائی کا دکھڑا بیان کیا ہے۔ اور ایوب خان کے خلاف بھی لانگ مارچ کا ہی فارمولہ آزمانے اور انہی طاقتوں کی ایماء پہ برسراقتدار آنے والے بڑے بھٹو مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار کے آخری ایام میں اپوزیشن جماعتوں کے قومی اتحاد اور بعد ازاں نظامِ مصطفی نامی تحریک کے زبردست دباؤ کے بعد پی ٹی وی پہ اپنی آخری تقریر میں امریکہ کو سفید ہاتھی گردانتے ہوئے یہی واویلہ کیا کہ ہائے ہائے مجھے بنانے والے مجھے گرانے پہ آمادہ ہیں۔
انہی طاقتوں کے اشارے پہ گرم سیاسی ماحول میں اسلامی نظام کا نعرہ لگا کر تختِ اسلام آباد پہ قبضہ جمانے والے جنرل ضیاء الحق بھی اپنے آخری دنوں میں اپنے انجام سے آگاہ ہوچکے تھے کہ آقاؤں کا دستِ شفقت انکے سر سے اٹھ چکا ہے اور وہ آج یا کل دیر یا سویر سے اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں۔ اسی لئیے وہ اپنے آخری دنوں میں امریکی سفیر اور اپنے جرنیلوں سمیت ہر اس شخص کو اپنے ساتھ لئیے پھرتے تھے جس پہ انہیں اپنے خلاف کسی سازش میں شریک ہونے کا ذرہ بھر بھی شائبہ تھا۔ اور بہاولپور فضائی حادثے میں مارے جانے والے پاکستان کے انتہائی ذمہ دار لوگوں کے ایک ہی طیارے میں سوار ہونے کی یہ بھی ایک وجہ تھی۔
موجودہ دور میں پاکستانی مسنندِ اقتدار پہ قابض ہونے والوں میں سے جنرل مشرف شاید وہ واحد کردار ہے جس نے ہدایت کاروں کی ہر فرمائش ان کی توقعات سے بڑھ کر پوری کی اور جب جنرل مشرف کو مسندِ اقتدار سمیٹنے کا اشارہ ہوا تو اس نے بلا چون چرا جان کی امان پاؤں کے صدقے اپنا بوریا لپیٹا اور اُدہر کو سدھار گئے جدہر سے انہیں جائے امان کا وعدہ کیا گیا تھا۔
ایسے ھی اچانک سے ڈرامائی طور پہ زرداری پاکستان کے صدر بن گئے۔ کیا تب صرف چند ماہ بیشتر کسی کے وہم گمان میں تھا کہ بے نظیر وزیر اعظم بننے کی بجائے زرداری پاکستان کے مختارِکُل قسم کے صدر بن جائیں گے؟۔ ہماری قومی یاداشت چونکہ کچھ کمزور واقع ہوئی ہے اگر کسی نے یاداشت تازہ کرنی ہو تو اس دور کے الیکشن سے چند ماہ قبل کے اخبارات اور ٹی وی مذاکروں کا مطالعہ و نظارہ کر لیں۔ جن میں بے نظیر کے ہوتے ہوئے زرداری کے صدر یا وزیر اعظم بننے کا خیال تک بھی کسی سیاسی جغادر کے وہم و گمان سے گزرا ہو۔ صرف چند ماہ میں زرداری پاکستان کے مختار کل قسم کے صدر تھے۔
زرداری حکومت میں نواز شریف عدلیہ بحالی کا عزم لے کر لاہور سے اسلام آباد کو ایک جمِ غفیر لے کر نکلے۔ عوام کا ٹھاٹا مارتا سمندر ساتھ تھا۔ زرداری حکومت چند دن میں ڈیڑھ سو کلو میٹر کی دوری پہ انجام پزیر ہوسکتی تھی۔ قومی یادشت کو تازہ کی جئیے کہ تب امریکی صدر اور سفیر اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل کیانی کے یکے بعد دیگرگوجرانوالہ نواز شریف کو فون آئے اور نواز شریف عام عوام کی توقعات اور امیدوں کے بر عکس تب گوجرانوالہ سے واپس لاہور سدھار گئے۔ سوجھ بوجھ والوں نے تب ھی فال ڈال دی کہ مک مکا ہوگئی ہے اور زردای کو ٹرم پوری کرنی دی جائے گی اور آئندہ ویز اعظم نواز شریف ہونگے۔ اور مڈٹرم کے طور یہی کلیہ نواز شریف کے خلاف مختلف مارچوں اور دھرنوں کے ذرئیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی مگر عام عوام کی عدم دلچسپی یا آئے دن کے بے مقصد سیاسی ہنگامہ آرائی سے بیزارگی کی وجہ سے یہ ایکٹ کامیاب نہ ہوسکا۔
کسی بھی قیمت پہ اقتدار میں آنے والے جب طے شدہ شرائط پہ کام کرنے کے بعد خالص اپنے ذاتی جاہ حشمت کو برقرار رکھنے کے لئیے کنٹریکٹ کوغیر ضروری طور پہ طوالت دینے کی ضد کریں۔ یا دی گئی بولی سے انحراف کریں تو ان کا انجام بخیر نہیں ہوتا۔
مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی قیمت پہ اقتدار کے خواب دیکھنے والے بچہ سقوں کی ہمارے ہاں کمی نہیں۔ مگر ایسے خوابوں کو پایہ تکمیل پہنچانے والی یا اقتدار کو استحکام بخشنے پہ قدرت رکھنے والی وہ طاقتیں جوبیرونِ پاکستان سے کٹھ پتلی تماشے کی ڈوریاں ہلاتی ہیں وہ کسی ایسے ڈھیلے ڈھالے کردار کو مسند اقتدار کا ایکٹ نبھانے کی اجازت دینے پہ تیار نہیں جو موجودہ دور میں پاکستانی اسٹیج پہ اپنے کردار اور ایکٹ کو زبردست عوامی پذیرائی اور عوام کی طرف سے پرجوش تالیوں کے استقبال کی اہلیت نہیں رکھتا۔
کیا پاکستان کے مفادات کے خلاف پھر سے بولی ہوگی؟ جو بڑھ کر بولی دے گا اسے مسند اقتدار بخشا جائے گا؟
کیا نئے مناسب اداکار دستیاب نہ ہونے کی صورت میں پرانی ٹیم نئی شرطوں اور تنخواہ پہ کام کے لئیے منتخب کی جائے گی؟
کیا ہمارے خدشات محض خدشات ثابت ہونگے۔اللہ کرے ہمارے خدشات محض خدشات ثابت ہوں۔
پردہ اٹھنے میں دیر ہی کتنی ہے؟ نئے انتخابات میں عرصہ ہی کتنا رہتا ہے؟
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: "فرینڈز, )کچھ, Friends, Masters, Not, ہلاتی, ہماری, ہمارے, ہنگامہ, ہو, فون, ہونے, ہوچکے, ہونگے۔, ہونگے۔اللہ, ہو۔, ہوگی؟, ہوگئی, ہوگئی۔اب, ہوگا؟۔کیا, ہوں۔پردہ, ہوئی, ہوئے, ہوا, ہوتا, ہوتا۔, ہوسکا۔کسی, ہوسکتی, ہی, ہیں, ہیں۔, ہے, ہے۔, ہے؟, ہے؟جنرل, ہال, ہاں, ہائے, ہاتھی, فارمولہ, ہدایت, ہر, فرمائش, فضائی, قومی, قیمت, قابض, قبل, قبضہ, قتدار, قدرت, قسم, لوگوں, لیں۔, لے, لگا, لپیٹا, لئیے, لاہور, لانگ, مفادات, مقصد, مناسب, منتخب, مڈٹرم, موجودہ, میٹر, میں, مک, مکا, مگر, ماہ, ماحول, مارچ, مارچوں, مارے, مارتا, ماسٹرز", مجھے, محض, مختلف, مختار, مختارِکُل, مذاکروں, مرحوم, مسنند, مسند, مسندِ, مسئلہ, مشرف, مصطفی, مطلب, مطالعہ, نہ, نہیں, نہیں۔, چلے, چلتی, چند, نون, چونکہ, نواز, چیف, نے, نکلے۔, چکا, نئی, نئے, نامی, ناٹ, نبھانے, چرا, چشمی, نظیر, نظام, نظامِ, نظارہ, نعرہ, و, وہ, وہم, وفائی, ڈوریاں, وی, ڈیڑھ, ویز, ڈھیلے, ڈھالے, واقع, ڈال, والوں, والی, والے, واویلہ, واپس, ڈائریکٹ, واحد, واضح, وجہ, ڈرامائی, وزیر, وعدہ, یہ, یہی, یوں, یکے, یا, یاداشت, یادشت, کہ, کہیں, کل, کلو, کلیہ, کمی, کمزور, کنٹریکٹ, کو, کوشش, کوغیر, کی, کیا, کیانی, کے, کٹھ, کئیے, کا, کام, کامیاب, کاروں, کتنی, کتنا, کتاب, کر, کرنی, کرنے, کریں, کریں۔, کرے, کرادر, کردار, کسی, گمان, گڈ, گوجرانوالہ, گی, گی؟کیا, گیا, گے؟۔, گئی, گئے, گئے۔, گا, گا؟, گا؟اگر, گرم, گرانے, گردانتے, گزرا, ٹی, ٹیم, ٹھاٹا, ٹرم, پہ, پہنچنے, پہنچانے, پوری, پی, پھر, پھرتے, پایہ, پاکستان, پاکستانی, پاؤں, پتلی, پذیرائی, پرانی, پرجوش, پزیر, آقاؤں, آمادہ, آنے, آگاۃ, آئندہ, آئی, آئے, آباد, آج, آخری, آرمی, آرائی, آزمانے, اہلیت, اقتدار, الیکشن, الحق, امیدوں, امان, امریکہ, امریکی, ان, انہی, انہیں, انکے, اچانک, انتہائی, انتخابات, انجام, انحراف, اور, ایماء, ایوب, ایک, ایکٹ, ایام, ایسے, اگر, اٹھ, اٹھنے, اپنی, اپنے, اپنا, اپوزیشن, اپے, ااور, اتحاد, اجازت, اخبارات, ادہر, اداکار, ازاں, اس, اسلام, اسلامی, اسی, اسے, اسٹیج, استقبال, استحکام, استعمال, اشارہ, اشارے, اعظم, بہاولپور, بلا, بن, بچہ, بننے, بنانے, بولی, بوجھ, بوریا, بیان, بیزارگی, بیشتر, بڑے, بڑھ, بے, بھی, بھٹو, بھر, بجائے, بحالی, بخنے, بخیر, بخشا, بر, برقرار, برسراقتدار, بعد, تقریر, تمام, تماشے, تنخواہ, تو, توقعات, تیار, تک, تکمیل, تھی۔, تھی۔موجودہ, تھے, تھے۔زرداری, تھا, تھا۔, تھا۔ایسے, تالیوں, تازہ, تب, تحریک, تختِ, ثابت, جمِ, جمانے, جماعتوں, جن, جنرل, جو, جوبیرونِ, جے, جئیے, جاہ, جان, جانے, جائیں, جائے, جارہا, جب, جدہر, جرنیلوں, جس, جغادر, حکومت, حادثے, حشمت, خلاف, خواب, خوابوں, خیال, خالص, خان, خدشات, دلچسپی, دن, دنوں, دور, دوری, دی, دینے, دیکھنے, دیگرگوجرانوالہ, دیر, دے, دکھڑا, دھرنوں, دار, دباؤ, دستیاب, دستِ, ذمہ, ذوالفقار, ذاتی, ذرئیے, رہتا, رکھنے, رکھتا۔کیا, رپورٹ, زبردست, زرہ, زردای, زرداری, سفید, سفیر, سقوں, سمندر, سمیٹنے, سمیت, سو, سویر, سوار, سوجھ, سیاسی, سیریل, سے, سایسی, ساتھ, سازش, سدھار, سر, شفقت, شکوے, شاید, شائبہ, شخص, شدہ, شریف, شریک, شرائط, شرطوں, صورت, صدقے, صدر, صرف, ضیاء, ضد, ضروری, طوالت, طور, طوطا, طیارے, طے, طاقتوں, طاقتیں, طرف, علی, عوام, عوامی, عکس, عام, عدلیہ, عدم, عرصہ, عزم, غفیر
دعوتِ فکر۔۔۔
تبدیلی ناگزیر! مگر کیسے ؟۔۔۔
پاکستان میں ۔۔۔آج کے پاکستان میں۔ جس میں ہم زندہ ہیں۔ جہاں انگنت مسائل ہیں ۔ صرف دہشت گردی ہی اس ملک کا بڑا مسئلہ نہیں۔ یہ دہشت گردی ایک آدھ دہائیوں سے ۔اِدہر کی پیداوار ہے۔ اور اس دہشت گردی کے جنم اور دہشت گردی کیخلاف جنگ کو ۔پاکستان میں اپنے گھروں تک کھینچ لانے میں بھی۔ ہماری اپنی بے حکمتی ۔ نالائقی اور فن کاریاں شامل ہیں۔
دہشت گردی کے اس عفریت کو جنم دینے سے پہلے اور ابھی بھی۔ بدستور پاکستان کے عوام کا بڑا مسئلہ ۔ ناخواندگی ۔ جہالت۔غریبی۔ افلاس اور بے روزگاری اور امن عامہ جیسے مسائل ہیں۔ مناسب تعلیم ۔ روزگار اور صحت سے متعلقہ سہولتوں کا فقدان اور امن عامہ کی صورتحال۔ قدم قدم پہ سرکاری اور غیر سرکاری لٹیرے۔ جو کبھی اختیار اور کبھی اپنی کرسی کی وجہ سے ۔ اپنے عہدے کے اعتبار سے۔نہ صرف اس ملک کے مفلوک الحال عوام کا خون چوس رہے ہیں ۔بلکہ اس ملک کی جڑیں بھی کھوکھلی کر رہے ہیں۔
اور پاکستان کے پہلے سے اوپر بیان کردہ مسائل کو مزید گھمبیر کرنے میں۔ پاکستان کے غریب عوام کی رگوں سے چوسے گئے ٹیکسز سے۔ اعلی مناصب۔ تنخواہیں اور مراعات پا کر۔ بجائے ان عوام کی حالت بدلنے میں۔ اپنے مناصب کے فرائض کے عین مطابق کردار ادا کرنے کی بجائے۔ اسی عوام کو مزید غریب ۔ بے بس۔ اور لاچار کرنے کے لئیے انکا مزید خون چوستے ہیں۔ اور انکے جائز کاموں میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
محض ریاست کے اندر ریاست بنا کر۔۔۔خاص اپنے اور اپنے محکموں اور سیاستدان حکمرانوں۔ انکی پارٹی کے کرتا دھرتاؤں اور چمچوں چیلوں کے مفادات کی آبیاری کرنے کے لئیے۔ اپنے عہدوں۔ اور اداروں کا استعمال کرتے ہیں ۔ادارے جو عوام کے پیسے سے عوام کی بہتری کے لئیے قائم کئے گئے تھے ۔ اور جنہیں باقی دنیا میں رائج دستور کے مطابق صرف عوام کے مفادِ عامہ کے لئیے کام کرنا تھا ۔ وہ محکمے ۔ انکے عہدیداران ۔ اہلکار۔ الغرض پوری سرکاری مشینری ۔ حکمرانوں کی ذاتی مشینری بن کر رہ گئی ہے۔ اور جس وجہ سے انہوں نے شہہ پا کر ۔ ریاست کے اندر کئی قسم کی ریاستیں قائم کر رکھی ہیں ۔ اور اپنے مفادات کو ریاست کے مفادات پہ ترجیج دیتے ہیں۔ اپنے مفادات کو عوم کے مفادات پہ مقدم سمجھتے ہیں ۔
ستم ظریفی کی انتہاء تو دیکھیں اور طرف تماشہ یوں ہے۔ کہ ہر نئے حکمران نے بلند بانٹ دعوؤں اور بیانات سے اقتدار کی مسند حاصل کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ اور اقتدار سے رخصتی کے وقت پاکستان کو ۔ پاکستان کے غریب عوام کو پہلے سے زیادہ مسائل کا تحفہ دیا۔
پاکستان کے حکمرانوں۔ وزیروں۔ مشیروں کے بیانات کا انداز یہ ہے ۔کہ صرف اس مثال سے اندازہ لگا لیں ۔کہ پاکستان کاکاروبار مملکت کس انوکھے طریقے سے چلایاجا رہا ہے ۔ پاکستان میں پٹرول کی قلت کا بحران آیا ۔ انہیں مافیاؤں نے جس کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں۔ مافیا نے پٹرول کی قلت کے خود ساختہ بحران میں جہاں عوام اور اور ملک کا پہیہ چلانے والے ٹرانسپورٹرز سڑکوں اور پٹرول پمپس پہ خوار ہورہے تھے ۔ جن میں ایمولینسز ۔ مریض ۔ اسپتالوں کا عملہ ۔ خواتین۔ اسکول جانے والےبچے بھی شامل تھے۔ یعنی ہر قسم کے طبقے کو پٹرول نہیں مل رہا تھا ۔ ڈیزل کی قلت تھی ۔ مگر وہیں حکومت کی ناک کے عین نیچے۔ ریاست کے اندر قائم ریاست کی مافیا۔ اربوں روپے ان دو ہفتوں میں کمانے میں کامیاب رہی ۔اور آج تک کوئی انکوائری۔کوئی کاروائی ان کے خلاف نہیں ہوئی اور کبھی پریس یا میڈیا میں انکے خلاف کوئی بیان نہیں آیا کہ ایسا کیوں ہوا اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف کیا کاروائی عمل میں لائی گئ؟۔ اور اس پٹرول قلت۔ کے براہ راست ذمہ دار ۔وزیر پٹرولیم خاقان عباسی۔ کا یہ بیان عام ہوا کہ "اس پٹرول ڈیزل بحران میں۔ میں یا میری وزارت پٹرولیم کا کوئی قصور نہیں”۔ یعنی وزیر موصوف نے سرے سے کسی قسم کی ذمہ داری قبول کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ اس سے جہاں یہ بات بھی پتہ چلتی ہے کہ وزیر موصوف کے نزدیک ان کا عہدہ ہر قسم کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہے۔ اور وہ کسی بھی مہذب ریاست کے وزیر کی طرح استعفی دینا تو کٌجا۔ وہ ریاست کو جام کر دینے میں اپنی کوئی ذمہ داری ہی محسوس نہیں کرتے۔
اس سے یہ بات بھی پتہ چلتی ہے جو انتہائی افسوسناک اور خوفناک حقیقت ہے کہ وزارت پٹرولیم محض ایک وزارت ہے جس کے وزیر کا عہدہ محض نمائشی ہے اور اصل معاملات کہیں اور طے ہوتے ہیں۔ جس سے حکومت کی منظور نظر مافیاز کو یہ طے کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ کہ کب کس قسم کی قلت پیدا ہونے میں کس طرح کے حالات میں کب اور عوام کا خون چوس لینا ہے۔
ہمارا مطمع نظر اور اس تحریر کا مقصد محض موجودہ حکمرانوں پہ تنقید کرنا نہیں۔ بلکہ یہ سب کچھ موجودہ حکمرانوں کے پیشرو ۔زرداری۔ مشرف۔ شریف و بے نظیر دونوں کے دونوں ادوار ۔ اور اس سے بیشتر جب سے پاکستان پہ بودے لوگوں کا قبضہ ہوا ہے۔ سب کے طریقہ واردات پہ بات کرنا ہے۔ آج تک اسی کا تسلسل ہے کہ صورتیں بدل بدل کر عوام کو غریب سے غریب تر کرتا آیا ہے اور اپنی جیبیں بھرتا آیا ہے۔
مگر پچھلی چار یا پانچ دہایوں سے اس خون چوسنے کے عمل میں جدت آئی ہے اور حکمرانوں نے اپنے مفادات کے آبیاری کے لئیے کاروبار مملکت چلانے والے ادارے ۔اپنے ذاتی ادارے کے طور پہ اپنے استعمال میں لائے ہیں ۔ جس سے کاروبار مملکت ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے ۔ اور پاکستان اور پاکستان کے عوام کے مسائل دن بدن بگڑتے گئے ہیں۔ اور آج یہ عالم ہے۔ کہ پاکستان نام آتے ہی ذہن میں ایک سو ایک مسائل تصور میں آتے ہیں ۔ جہاں پاکستان کی اکثریت آبادی جو غریب ہے۔ جس کے لئیے کوئی سہولت کوئی پناہ نہیں ۔ اور جو سفید پوشی کا بھرم لئیے ہوئے ہیں وہ بھی جان لڑا کر اپنا وقت دن کو رات اور رات کو دن کرتے ہیں۔ اور بڑی مشکل سے مہینہ آگے کرتے ہیں۔ ۔
جبکہ پاکستان جیسے غریب ملک کے مختلف اداروں کے سربراہان۔ دنیا کی کئی ایک ریاستوں کے سربراہان سے زیادہ امیر ہیں۔ اور بے انتہاء وسائل کے مالک ہیں ۔ انکے اہلکار جو سرکاری تنخواہ تو چند ہزار پاتے ہیں مگر ان کا رہن سہن اور جائدادیں انکی آمد سے کسی طور بھی میل نہیں کھاتیں اور حیرت اس بات پہ ہونی چاہئی تھی کہ وہ کچھ بھی پوشیدہ نہیں رکھتے ۔ اور یہ سب کچھ محض اس وجہ سے ہے۔ کہ حکمران خود بھی انہی طور طریقوں سے کاروبار حکومت چلا رہے ہیں جس طرح ان سے پیش رؤ چلاتے آئے ہیں۔ یعنی اپنے مالی۔ سیاسی اور گروہی مفاد کو ریاست کے مفاد پہ ترجیج دی جاتی ہے۔اور ریاست کی مشینری کے کل پرزے تو کبھی بھی پاکستان کے مفادات کے وفادار نہیں تھے ۔ انہیں سونے پہ سہاگہ یہ معاملہ نہائت موافق آیا ہے۔
ریاست کی مشینری کے کل پرزے۔عوام کا کوئی مسئلہ یا کام بغیر معاوضہ یا نذرانہ کے کرنے کو تیار نہیں۔ اگر کوئی قیمت بھر سکتا ہو۔ تو منہ بولا نذرانہ دے کر براہ براہ راست عوام یا ریاست کے مفادات کے خلاف بھی جو چاہے کرتا پھرے ۔ اسے کھلی چھٹی ہے۔
ایک شریف آدمی بھرے بازار میں لٹ جانے کو تھانے کچہری جانے پہ ترجیج دیتا ہے۔ آخر کیوں؟ جب کہ ساری دنیا میں انصاف کے لئیے لوگ عام طور پہ تھانے کچہری سے رجوع کرتے ہیں اور انھیں اطمینان کی حد تک انصاف ملتا ہے۔ تو آخر پاکستان میں عام عوام کیوں یوں نہیں کرتے؟ یہ پاکستان میں عوام کی روز مرہ کی تکلیف دہ صورتحال کی صرف ایک ادنی سی حقیقت ہے۔ جو دیگر بہت سی عام حقیقتوں اور حقائق کا پتہ دیتی ہے۔اور ادراک کرتی ہے
پاکستان کے حقائق کسی کی نظر سے اوجھل نہیں۔ ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ہر طرف پاکستان میں نا انصافی اور عدم مساوات سے سے دو قدم آگے۔ ظلم۔ استحصال اور غاصابانہ طور پہ حقوق سلب کرنے کے مظاہر و مناظر عام نظر آتے ہیں۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اسے ایک عام رواج یا چلن سمجھ لیا گیا ہے۔اور اس میں وہ لوگ ۔ ادارے اور حکمران۔ سیاستدان۔ اپوزیشن۔ عام اہلکار الغرض ساری حکومتی مشینری شامل ہے۔ حکمرانوں کا کوئی بڑے سے بڑا شاہ پرست اور درباری۔ یہ قسم نہیں دے سکتا کہ پاکستان کا کرپشن سے پاک کوئی ایک تھانہ ہی ایسا ہو کہ جس کی مثال دی جاسکتی ہو ۔ یا کوئی ادارہ جہاں رشوت۔ سفارش ۔ اور رسوخ کی بنیاد پہ حق داروں کے حق کو غصب نہ کیا جاتا ہو؟۔
ایک بوسیدہ نظام جو پاکستان کی۔ پاکستان میں بسنے والے مظلوم اور مجبور عوام کی جڑیں کھوکھلی کر چکا ہے ۔ ایسا نظام اور اس نظام کو ہر صورت میں برقرار رکھنے کے خواہشمند حکمران و سیاستدان ۔۔ اسٹیٹس کو ۔کے تحت اپنی اپنی باری کا انتظار کرنے والے۔ قانون ساز اسمبلیوں مقننہ کے رکن اور قانون کی دھجیاں اڑا دینے والے۔ اپنے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لئیے کسی بھی حد تک اور ہر حد سے گزر جانے والی ریاست کے اندر ریاست کے طور کام کرنے والی جابر اور ظالم مافیاز۔ بیکس عوام کے مالک و مختارِکُل۔ ادارے۔
کیا ایسا نظام ۔ ایسا طریقہ کار۔ کاروبار مملکت کو چلانے کا یہ انداز ۔ پاکستان کے اور پاکستان کے عوام کے مسائل حل کرسکتا ہے؟ کیا ایسا نظام اور اسکے پروردہ بے لگام اور بدعنوان ادارے اور انکے عہدیدار و اہل کاران پاکستان اور پاکستان کے عوام کو انکا جائز مقام اور ان کے جائزحقوق دلوا سکتے ہیں؟۔
اتنی سی بات سمجھنے کے لئیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں پڑتی کہ اگر منزل مغرب میں ہو۔ تو کیا مشرق کا سفر کرنے سے منزل نزدیک آتی ہے یا دور ہوتی ہے؟
پاکستان اپنی منزل سے دور ہو رہا ہے۔ اور اس میں کسی بیرونی دشمن کا ہاتھ ہو یا نہ ہو مگر مندرجہ بالا اندرونی دشمنوں کا ہاتھ ضرور ہے ۔اور پاکستان اور پاکستان کے عوام کو یہ دن دکھانے میں اور ہر آنے والے دن کو نا امیدی اور مایوسی میں بدلنے میں۔ انہی لوگوں کا۔کم از کم پچانوے فیصد کردار شامل ہے۔
جو حکمران یا پاکستان کے کرتا دھرتا ۔اسی بوسیدہ نظام اور اداروں کے ہوتے ہوئے۔ پاکستان اور پاکستان کے عوام کی تقدیر بدلنے کاےبیانات اور اعلانات کرتے ہیں۔ یقین مانیں۔ وہ حکمران۔۔۔ عوام کو بے وقوف سمجھتے ہوئے جھوٹ بولتے ہیں ۔
تبدیلی صرف اعلانات اور بیانات سے نہیں آتی ۔ یہ اعلانات و بیانات تو پاکستان میں مزید وقت حاصل کرنے اور عوام کو دہوکہ میں رکھنے کے پرانے حربے ہیں۔ کہ کسی طرح حکمرانوں کو اپنا دور اقتدار مکمل کرنے کی مہلت مل جائے ۔ چھوٹ مل جائے ۔ اور انکی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں رہے۔ اور وہ ادارے جنہوں نے انھیں ایسا کرنے سے باز رکھنا تھا۔ اور ریاست اور عوام کے مفادات کا نگران بننا تھا۔ وہ بے ایمانی۔ اور بد عنوانی میں انکے حلیف بن چکے ہیں۔ اور یہ کھیل پاکستان میں پچھلے ساٹھ سالوں سے زائد عرصے سے ہر بار مزید شدت کے ساتھ کھیلا جارہا ہے ۔ اور نتیجتاً عوام مفلوک الحال اور ایک بوسیدہ زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں۔ جس میں محض بنیادی ضرورتوں کو بہ احسن پورا کرنے کے لئیے ان کے حصے میں مایوسی اور ناامیدی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ جائز خواہشیں۔ حسرتوں اور مایوسی میں بدل جاتی ہیں۔
جس طرح ہم پاکستان میں ان تلخ حقیقتوں کا نظارہ روز کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو ان حالات کو بدلنے کے ذمہ دار ہیں ۔اور اس بات کا اختیار رکھتے ہیں ۔ اور یوں کرنا انکے مناصب کا بھی تقاضہ ہے ۔ اور وہ حالات بدلنے پہ قادر ہیں ۔ مگر وہ اپنے آپ کو بادشاہ اور عوام کو رعایا سمجھتے ہیں۔ اور نظام اور اداروں کو ان خامیوں سے پاک کرنے کی جرائت۔ صلاحیت و اہلیت ۔ یا نیت نہیں پاتے۔
تو سوال جو پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا پاکستان اور اس کے عوام کے نصیب میں عزت نام کی ۔ حقوق پورے ہونے نام کی کوئی شئے نہیں؟ اور اگر یہ پاکستان اور اسکے عوام کے نصیب میں ہے کہ انھیں بھی عزت سے جینے اور انکے حقوق پورے ہونے کا سلسلہ ہونا چاہئیے۔ تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ پاکستان کے ان دشمنوں کے لئیے۔ جن کی دہشت گردی سے پوری قوم بھکاری بن چکی ہے۔ اور ہر وہ بدعنوان شخص خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ جس نے پاکستان کے اور پاکستان کے عوام کے مفادات خلاف اپنے مفادات کو ترجیج دی۔ ان کے لئیے کب پھانسی گھاٹ تیار ہونگے؟۔ انہیں کب فرعونیت اور رعونت کی مسندوں سے اٹھا کر سلاخوں کے پیچھے بند کیا جائے گا؟۔ اور انہیں کب ان کے انجام تک پہنچایا جائے گا؟ ۔ کہ مخلوق خدا پہ سے عذاب ٹلے؟
اس کے سوا عزت اور ترقی کا کوئی راستہ نہیں۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, ہفتوں, فقدان, ہم, ہمیں, ہماری, فن, ہو, ہونی, ہونے, ہونگے؟۔, ہونا, ہو۔, ہو؟۔ایک, ہوئی, ہوئے, ہوئے۔, ہوا, ہوتی, ہوتے, ہوتا, ہورہے, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں۔محض, ہیں۔اور, ہیں۔جس, ہیں۔دہشت, ہیں؟۔اتنی, فیصد, ہے, ہے۔, ہے۔ہمارا, ہے۔مگر, ہے۔پاکستان, ہے۔اور, ہے۔ایک, ہے۔جو, ہے۔ریاست, ہے؟, ہے؟پاکستان, فکر۔۔۔تبدیلی, ہاتھ, ہر, فرائض, فرعونیت, ہزار, قلت, قوم, قیمت, قانون, قائم, قادر, قبل, قبول, قبضہ, قدم, قسم, قصور, لوگ, لوگوں, لینا, لیں, لیا, لڑا, لگا, لگام, لگایا۔, لٹ, لٹیرے۔, لئیے, لئیے۔, لانے, لاچار, لائے, مفلوک, مہلت, مہینہ, مفاد, مفادِ, مفادات, مہذب, مقننہ, مقام, مقدم, مقصد, مل, ملک, ملتا, مملکت, منہ, مناسب, مناصب, مناصب۔, مناظر, مندرجہ, منزل, منظور, موافق, موجودہ, موصوف, میل, میڈیا, میں, میں۔, میری, مکمل, مگر, مگرکب, مافیا, مافیا۔, مافیاؤں, مافیاز, مافیاز۔, مالی۔, مالک, مانیں۔, مایوسی, متعلقہ, مثال, مجبور, محکموں, محکمے, محسوس, محض, مخلوق, مختلف, مختارِکُل۔, مرہ, مریض, مراعات, مزید, مسند, مسندوں, مسئلہ, مساوات, مسائل, مشینری, مشیروں, مشکل, مشرف۔, مشرق, مطمع, مطابق, مظلوم, مظاہر, معاملہ, معاملات, معاوضہ, مغرب, نہ, نہیں, نہیں۔, نہیں؟, نہائت, چلن, چلا, چلانے, چلایاجا, چلاتے, چلتی, چمچوں, نمائشی, چند, چوٹی, چوس, چوسنے, چوسے, چوستے, چیلوں, نیچے۔, چیت, نے, چکی, چکے, چکا, نگران, چھوٹ, چھٹی, نئے, نا, چاہے, چاہئی, چاہئیے۔, نالائقی, نام, ناک, ناگزیر, ناامیدی, ناجائز, ناخواندگی, چار, نتیجتاً, نذرانہ, نزدیک, نصیب, نظیر, نظام, نظارہ, نظر, و, وہ, وہیں, وفادار, وقوف, وقت, ڈیزل, والی, والے, والے۔, والےبچے, واردات, وجہ, وزیر, وزیروں۔, وزارت, وسائل, یہ, یقین, یوں, ییوں, یا, یعنی, ۔, ۔وزیر, ۔۔, ۔۔۔آج, ۔کہ, ۔کے, ۔پاکستان, ۔اور, ۔اِدہر, ۔اپنے, ۔ادارے, ۔اسی, ۔بلکہ, ۔تبدیلی, ۔جبکہ, ۔زرداری۔, ۔ستم, کہ, کہیں, کل, کم, کمانے, کچہری, کو, کوئی, کی, کیوں, کیوں؟, کی۔, کیا, کٌجا۔, کیخلاف, کیسے, کڑاہی, کے, کھلی, کھوکھلی, کھیل, کھیلا, کھینچ, کھاتیں, کئی, کئے, کا, کام, کاموں, کامیاب, کاےبیانات, کا۔کم, کاکاروبار, کاروائی, کاروبار, کاریاں, کار۔, کاران, کب, کبھی, کر, کرنے, کرنا, کر۔, کر۔۔۔خاص, کرپشن, کرتی, کرتے, کرتے۔اس, کرتے؟, کرتا, کردہ, کردار, کرسی, کرسکتا, کس, کسی, گیا, گھمبیر, گھی, گھاٹ, گھروں, گئی, گئے, گا؟, گا؟۔, گروہی, گرد, گردی, گزارنے, گزر, ٹلے؟اس, ٹیکسز, ٹھپ, ٹرانسپورٹرز, پہ, پہلے, پہنچایا, پہیہ, پمپس, پچھلی, پچھلے, پناہ, پچانوے, پوری, پورے, پورا, پوشی, پوشیدہ, پیچھے, پیدا, پیداوار, پیسے, پیش, پیشرو, پڑتی, پٹرول, پٹرولیم, پھانسی, پھرے, پا, پانچ, پانچوں, پاک, پاکستان, پاتے, پاتے۔تو, پارٹی, پتہ, پروردہ, پریس, پرانے, پرزے, پرزے۔عوام, پرست, ؟۔۔۔پاکستان, آمد, آنے, آیا, آگے, آگے۔, آپ, آئی, آئے, آبیاری, آبادی, آتی, آتے, آتا۔, آج, آخر, آدمی, آدھ, آسانی, اہل, اہلیت, اہلکار, اہلکار۔, افلاس, افسوسناک, اقتدار, الحال, الذمہ, الغرض, امن, امیدی, امیر, ان, انہوں, انہی, انہیں, انوکھے, انکوائری۔کوئی, انکی, انکے, انکا, انکار, انگلیاں, انگنت, انھیں, انتہاء, انتہائی, انتظار, انجام, انداز, اندازہ, اندر, اندرونی, انصاف, انصافی, اوپر, اوجھل, اور, ایمولینسز, ایمانی۔, ایڑی, ایک, ایسا, اڑا, اکثریت, اگر, اٹھا, اٹھتا, اپنی, اپنے, اپنا, اپوزیشن۔, ابھی, احسن, اختیار, ادنی, ادوار, ادا, ادارہ, اداروں, ادارے, ادارے۔کیا, ادراک, اربوں, ارد, از, اس, اسمبلیوں, اسی, اسے, اسکول, اسکے, اسٹیٹس, اسپتالوں, استحصال, استعفی, استعمال, اصل, اطمینان, اعلی, اعلانات, اعتبار, بہ, بہت, بہتری, بلند, بلکہ, بن, بننا, بنیاد, بنیادی, بنا, بنتے, بند, بولا, بولتے, بودے, بوسیدہ, بیکس, بیان, بیانات, بیرونی, بیشتر, بڑی, بڑے, بڑا, بے, بگڑتے, بھی, بھی۔, بھکاری, بھر, بھرم, بھرے, بھرتا, باقی, بالا, بانٹ, بات, بادشاہ, بار, باری, باز, بازار, بجائے, بجائے۔, بحران, بد, بدل, بدلنے, بدن, بدستور, بدعنوان, برقرار, بری, براہ, بسنے, بس۔, بغیر, تقاضہ, تقدیر, تلخ, تماشہ, تنقید, تنخواہ, تنخواہیں, تو, تیار, تک, تکلیف, تھی, تھے, تھے۔, تھا, تھانہ, تھانے, تھا۔, تحفہ, تحفظ, تحت, تحریر, تر, ترقی, ترجیج, تسلسل, تصور, تعلیم, جہالت۔غریبی۔, جہاں, جن, جنہوں, جنہیں, جنم, جنگ, جو, جینے, جیبیں, جیسے, جڑیں, جھوٹ, جام, جان, جانے, جائے, جائدادیں, جائز, جائزحقوق, جابر, جاتی, جاتا, جارہا, جاسکتی, جب, جدت, جرائت۔, جس, حق, حقوق, حقیقت, حقیقتوں, حقائق, حل, حلیف, حیرت, حکمتی, حکمران, حکمرانوں, حکمرانوں۔, حکمران۔, حکمران۔۔۔, حکومت, حکومتی, حالات, حالت, حاصل, حد, حربے, حسرتوں, حصے, خلاف, خوفناک, خون, خواہ, خواہشمند, خواہشیں۔, خواتین۔, خوار, خود, خاقان, خامیوں, خدا, دہ, دہوکہ, دہایوں, دہائیوں, دہشت, دلوا, دن, دنیا, دو, دونوں, دوڑائیں, دور, دی, دینے, دینا, دی۔, دیکھیں, دیگر, دیا۔, دیا۔پاکستان, دیتی, دیتے, دیتا, دے, دکھانے, دھجیاں, دھرتا, دھرتاؤں, دار, داروں, داری, درباری۔, دستور, دشمن, دشمنوں, دعوؤں, دعوتِ, ذہن, ذمہ, ذکر, ذاتی, رہ, رہن, رہی, رہے, رہے۔, رہا, روپے, رواج, روز, روزگار, روزگاری, ریاست, ریاستوں, ریاستیں, رکن, رکھنے, رکھنا, رکھی, رکھتے, رکاوٹ, رگوں, رؤ, راکٹ, رائج, رات, راست, راستہ, رجوع, رخصتی, رسوخ, رشوت۔, رعونت, رعایا, زندہ, زندگی, زور, زیادہ, زائد, سہن, سہولت, سہولتوں, سفید, سہاگہ, سفارش, سفر, سلاخوں, سلب, سلسلہ, سمجھ, سمجھنے, سمجھتے, سو, سونے, سوا, سوال, سی, سیاسی, سیاستدان, سیاستدان۔, سڑکوں, سے, سے۔, سے۔نہ, سکتے, سکتا, سالوں, ساٹھ, سائنس, ساتھ, ساختہ, ساری, ساز, سب, ستم, سر, سرے, سرکاری, سربراہان, سربراہان۔, شہہ, شئے, شامل, شاپ, شخص, شدت, شریف, صلاحیت, صورت, صورتیں, صورتحال, صورتحال۔, صحت, صرف, ضرور, ضرورت, ضرورتوں, طور, طے, طبقے, طرف, طریقہ, طریقوں, طریقے, طرح, ظلم۔, ظالم, ظریفی, عہدہ, عہدوں۔, عہدیدار, عہدیداران, عہدے, عفریت, عمل, عملہ, عنوانی, عوم, عوام, عین, عالم, عام, عامہ, عباسی۔, عدم, عذاب, عرصے, عزت, غیر, غاصابانہ, غریب, غصب

والعصر
۔سورة العصر۔
وَالْعَصْرِ * إِنَّ الإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ * إِلاَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴾ (العصر1-3)
ترجمہ۔
1)۔ عصر کی قسم
2)۔ بے شک انسان خسارہ میں ہے۔
3)۔ بجز اُن کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور آپس میں حق (بات) کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ۔
سورۃ والعصر ۔قرآنِ کریم کی دوسری مختصر سی سورت ہے۔ جس میں اللہ تعالٰی نے گواہی دی ۔ قسم اٹھائی ہے ۔ اور وہ زمانوں کی قسم ہے۔ وقت کی قسم ہے کہ جب کچھ بھی نہیں تھا ۔تو اللہ تعالی موجود تھا اور اللہ تعالٰی ہر زمانے کا شاہد ہے۔ گواہ ہے کہ ۔ اللہ تعالٰی سب زمانوں سے پہلے کا ہے۔ ہمیشہ سے ہے۔ اللہ تعالٰی نے سارے زمانے دیکھے ہیں اور حضرتِ انسان کو بار بار پھسلتے دیکھا ہے۔ اسی لئیے اللہ تعالٰی اپنے بندوں کو زمانوں کی قسم کھا کر یہ باور کرواتا ہے کہ مجھے سارے زمانوں کی۔ وقت کی قسم ہے ۔کہ میں زمانوں سے شاہد ہوں ۔ جانتا ہوں اور مجھے علم ہے کہ یوں ہوا ہے ۔ یوں ہوتا آیا ہے اور یہی حقیقت ہے کہ
انسان خسارے کا سودا کرتا ہے ۔ تھوڑے کے لئیے زیادہ چھوڑ دیتا ہے ۔ وہ کام کرتا ہے جس میں خود اس کے لئیے۔ اور دوسروں کے لئیے سراسر خسارہ ہوتا ہے ۔ اور اللہ تعالٰی یہ سب کچھ زمانوں سے یعنی ابتدائے آفرینش سے دیکھ رہا ہے۔ کہ یوں ہو رہا ہے ۔انسان خساروں کا، گھاٹے کا ۔ نقصان کا ۔ سودا کرتا ہے ۔
مگر ۔ ہاں وہ لوگ ؟۔ اور کون ہیں وہ لوگ ؟ جوخسارے کا سودا نہیں کرتے ۔جواہلِ خسارہ میں شامل نہیں ؟۔ وہ جو ۔ ایمان لاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے دین پہ ۔ اسکی بتائی ہوئی باتوں پہ ۔ اسکے احکامات پہ ۔ عمل کرتے رہے ہیں ۔ عمل کرتے ہیں۔ وہ حق بات کی تلقین کرتے ہیں، یعنی وہ حق بات کرتے ہیں ۔حق پہ عمل کرتے ہیں اور دوسروں کو ایسا کرنے کا کہتے ہیں ۔
یعنی وہ اہلِ حق ہیں ۔ جھوٹ سے بچتے ہیں ۔ ہیر پھیر ۔ مکروفریب اور دہوکہ دہی نہیں کرتے رہے ، نہیں کرتے۔ ہمیشہ سچ کہتے رہے ہیں ، سچ کہتے ہیں۔ کسی جابر ۔ کسی آمر سے نہیں ڈرتے ۔ کسی مصلحت یا دنیاوی فائدے کے لئیے سچ کا ساتھ نہیں چھوڑتے ۔ حق کو حق کہتے ہیں۔ خواہ اس کے لئیے کتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑے اور انکے ایمان ۔ اور صالح اعمال کی وجہ سے۔ اور حق کا ساتھ دینے۔ اور حق پہ ڈٹ جانے کی وجہ سے۔ جب حالات انکے ناموافق ہوجاتے ہیں۔ ان پہ جبر اور ستم کیا جاتا ہے ۔ انکا جینا دوبھر کر دیا جاتا ہے۔ تو وہ زمانے کی ریت اور چلن کا ساتھ دیتے ہوئے بدکار لوگوں کاساتھ ۔ بدکار رسموں ۔ اور رواجوں کا ساتھ ۔جابر اور آمر حاکموں اور ظالموں کا ساتھ نہیں دیتے ۔انکے ظلم اور ستم پہ خاموش نہیں رہتے ۔کچھ بس میں نہ رہے ۔اورجب ان سب ستموں پہ۔ ان کا بس نہ چلے۔ کوئی پیش نہ چلے۔ تو وہ صبر کرتے ہیں اور اپنی کوشش جاری رکھتے ہیں۔اور اپنے جیسوں کو صبر کرنے اور اور سچ پہ ڈٹے رہنے کی تلقین اور ہدایت کرتے ہیں۔ یعنی وہ خود بھی ایمان لاتے ہیں۔ یقین رکھتے ہیں۔ اور نیک اعمال کرتے ہیں۔ حق اور سچ کا ساتھ دیتے ہیں ۔ دوسروں کو یوں کرنے کا کہتے ہیں۔ اور جب پیش نہ جائے تو برائی میں شامل نہیں ہوتے ۔ برائی کے سامنے سپر نہیں ڈالتے اور خود بھی صبر کرتے ہیں ۔ اور اپنے جیسوں کو بھی ۔ حق بات کہنے پہ۔ جو نامساعد حالات سے ۔ لوگوں کے ناروا رویے سے۔ اور جوروستم سے جب واسطہ پڑتا ہے ۔ تو انہیں صبر سے سب برداشت کرنے کی تلقین اور تاکید کرتے ہیں ۔ تانکہ حق بیان ہو۔ حق جاری ہو۔ اور لوگ حق کے لئیے ڈٹ جائیں۔ ڈٹے رہیں۔ اور مصیبت اور پریشانی میں صبر سے سب کچھ برداشت کریں ۔ بس یہی وہ لوگ ہیں۔ وہ لوگ! جو سارے زمانوں سے آج تک خسارے میں نہیں رہے!! اور نہ کبھی خسارے میں ہونگے!!۔
اور اللہ تعالٰی عصر کی۔ زمانوں کی ۔ وقت کی ۔ انسان کی تاریخ کا گواہ ہے۔اور اللہ تعالٰی خود۔ اس وقت کی قسم کھا کر اپنی شہادت کو ۔ گواہی کو بنیاد بنا کر۔ حضرتِ انسان کو خسارے اور خسارے میں نہ رہنے والوں کے بارے بیان کر رہا ہے ۔خبردار کر رہا ہے کہ ازلوں سے ۔ زمانوں سے کون سے لوگ فائدے اور کون سے لوگ خسارے میں رہے ۔ہیں کیونکہ اللہ سب کے انجام کو جانتا ہے۔ اور اسوقت بھی جانتا تھا۔ جب ہم سے بھی پہلے کے زمانوں میں جو لوگ مختلف برائیوں کے سامنے جھکتے نہیں تھے۔ اور اللہ کے بتائے ہوئے حق کے رستے پہ چلتے تھے۔ اور پریشانیوں پہ صبر کرتے ۔اور دوسروں کو حق پہ چلنے۔ اور صبر کرنے کی تاکید کرتے تھے ۔ تو فائدے میں رہتے تھے۔ اور جو اس کے برعکس جو لوگ جو یوں نہیں کرتے تھے۔ دنیاوی فائدوں اور مصحلتوں یا خوف یا ڈر کی وجہ سے ۔ ایمان نہیں لاتے تھے۔ نیک عمل نہیں کرتے تھے۔ اور حق کا ساتھ نہیں دیتے تھے۔ اور حق کا ساتھ دینے کی وجہ سے مصائب پہ صبر کی بجائے ظلم اور برائیوں پہ خاموش ہوجاتے تھے ۔ اور نہ ہی دیگر حق کا ساتھ دینے والے لوگوں کو۔ اور مصائب جھیلنے پہ انہیں صبر سے۔ حوصلے کے ساتھ، برداشت کرنے کی تلقین کرتےتھے۔ تو یہ لوگ خسارے میں رہے ۔ اور خسارے میں ہیں اور ۔ خسارے میں رہیں گے ۔
اور چونکہ اللہ تعالٰی نے یہ سب ہمیشہ سے دیکھ رکھا ہے۔ اورجو ہم سے پہلے کے سارے زمانوں میں بنی نوع انسان ہو گزرے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ان سب کے انجام کو دیکھ رکھا ہے ۔ انکے کئیے کے نتیجے سے واقف ہے ۔ اور وہ گواہ ہے ۔ اسلئیے انہی سارے زمانوں کی اور بنی نوع انسان کی ساری گزری نسلوں سے انکے حالات سے انجام سے باخبر ہونے کی وجہ سے۔ اللہ تعالٰی ہمیں خبردار کر رہا ہے ۔ کہ ہم اسکی قسم اور گواہی پہ یقین کرتے ہوئے سابقہ زمانوں اور آنے والے وقتوں کے خسارہ پانے والے لوگوں میں شامل نہ ہوجائیں اور ہدایت پائیں۔
اس لئیے ہمارے ہاں جن برائیوں کو رواج سمجھ کر۔ یا جن پہ اپنے آپ کو بے بس سمجھ کر۔ انہیں خاموشی سے برداشت کر لیا جاتا ہے۔ اس میں شامل ہوا جاتا ہے ۔ تو اس سورت والعصر سے ہمیں انسانوں کی دونوں قسموں کا پتہ چلتا ہے ۔کہ خسارے یا گھاٹے والے کون ہیں۔ اور اللہ سے منافع کا سودا کرنے والے کون ہیں اور انکا طریقہ کار کیا ہے۔
اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آج کے حالات میں ہمیں کس طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہئیے ،۔یعنی ایمان لانا اور یہ یقین ہونا کہ اللہ نے جو فرما دیا ہے۔ وہ ہی درست ہے ۔ وہی ہمارا اللہ ۔ وہی ہمارا آقا و مالک ہے ۔ اور اسی کا دین سچا ہے۔ کہ جو ہم اللہ کی خاطر اپنے دین کی خاطر اور اپنے پہ فرض ہونے کی وجہ سے اور اس فرض کی خاطر نیک عمل کریں ۔ اور حق کا ساتھ اور سچ کا ساتھ کبھی نہ چھوڑیں۔ خواہ کتنی ہی مشکلیں درپیش کیوں نہ ہوں ۔ کسی مصلحت کے تحت جھوٹ ۔ مکاری۔ فریب اور ناجائز کام نہ کریں ۔ اور اگر ایسا کرنے میں۔ یعنی سچ کہنے اور حق کام کرنے میں مشکلات پیش آئیں کہ جو عموماً آتی ہیں۔ تو اس پہ زمانے کا رواج کہہ کر اس برائی میں شامل نہ ہوں ۔ خود بھی اور دوسروں کو بھی تاکید کریں کہ ناشکرے نہ ہوں ۔ پچھتائیں نہیں ۔ بلکہ اس پہ صبر کریں اور اچھے عمل ۔ نیک عمل کرنے نہ چھوڑیں۔ اور حق کا ساتھ نہ چھوڑیں ۔ ۔ اور یہ اللہ تعالٰی ہے جو سارے زمانوں کی بنیاد پہ اپنی گواہی اور اسکی قسم دے کر فرما رہا ہے۔کہ اس میں ہمارا فائدہ ہے۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: (العصر13)ترجمہ۔۔عصر, (خسارے, )کچھ, ہم, ہمیں, ہمیشہ, ہمارے, ہمارا, ہو, ہونے, ہونا, ہوں, ہوئی, ہوئے, ہوا, ہوتا, ہوجاتے, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں،, ہیر, ہے, ہے۔, ہے۔۔, ہے۔کہ, ہے۔اور, ہاں, فائدہ, فائدے, ہر, فرما, فریب, فرض, قسموں, لوگوں, لیا, لئیے, لئیے۔, لانا, لاتے, منافع, موجود, میں۔, مکاری۔, مکروفریب, مالک, مجھے, مختصر, مشکلیں, مشکلات, مصلحت, نہ, نہیں, نقصان, چلن, چلے۔, چلتا, نے, چھوڑ, چھوڑیں, چھوڑیں۔, چھوڑتے, چھوریں, چاہئیے, ناموافق, ناجائز, ناشکرے, و, وہی, وقت, ڈٹ, والوں, والے, والعصر, والعصر۔سورة, وجہ, ڈرتے, یہ, یہی, یقین, یوں, یا, یعنی, ۔, ۔قرآنِ, ۔مگر, ۔۔, ۔کہ, ۔کچھ, ۔کیں, ۔کا, ۔انکے, ۔اور, ۔اسلئیے, ۔تو, ۔جواہلِ, ۔جابر, ۔حق, ۔سورۃ, کہ, کہہ, کہنے, کہتے, کو, کون, کو۔گواہی, کوشش, کیوں, کی۔, کیا, کے, کھا, کا, کام, کا،, کار, کاساتھ, کبھی, کتنی, کتنا, کر, کرنے, کرنا, کرواتا, کریم, کریں, کر۔, کرتے۔, کرتا, کس, کسی, گواہ, گواہی, گھاٹے, پہ, پہلے, پچھتائیں, پیش, پڑے, پھیر, پھسلتے, پتہ, ،, ،۔یعنی, ؟, ؟۔, آفرینش, آقا, آمر, آئیں, آتی, آج, اہلِ, اللہ, العصر۔ وَالْعَصْرِ, ان, انہیں, انکے, انکا, اچھے, انسانوں, ایسا, اگر, اٹھانا, اٹھائی, اپنی, اپنے, ابدائے, احکامات, اختیار, اس, اسی, اسکی, اسکے, اعمال, بلکہ, بنیاد, بنا, بنتے, بندوں, بیان, بڑا, بے, بھی, باور, بات, باتوں, بار, بارے, بتائی, بدکار, برائی, برائیوں, برداشت, بس, تو, تھوڑے, تھا, تاریخ, تحت, تعالیٰ, تعالٰی, جن, جوخسارے, جینا, جھوٹ, جانے, جانتا, جابر, جاتا, جاری, جب, جبر, جس, حقیقت, حالات, حاکموں, حضرتِ, خواہ, خود, خاموش, خاموشی, خاطر, خساروں, دہوکہ, دہی, دنیاوی, دونوں, دوبھر, دوسروں, دوسری, دی, دین, دینے۔, دیکھے, دیکھا, دیا, دیتے, دیتا, دے, درپیش, درست, رہنے, رہا, رہتے, رویہ, رواج, رواجوں, ریت, رکھتے, رسموں, زمانوں, زمانے, زیادہ, سمجھ, سچ, سنا, سودا, سورت, سی, سے, سے۔, ساتھ, سارے, سب, ستم, ستموں, سراسر, شہادت, شاہد, شامل, صالح, طریقہ, طرح, ظلم, ظالموں, علم, عموماً, عصر
انقلاب کا ڈول اور پاکستان۔
ہیں کواکب کچھ ۔نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ۔ یہ بازی گر کھلا
حکومت چھوڑ دو؟۔
اسملبیاں توڑ دی جائیں؟۔ورنہ ۔
یہ وہ مطالبات تھے جو اسلام آباد پہنچتے ہیں انقلاب کا ڈول ڈالنے والوں نے پہلے دن ہی داغنے شروع کئیے اور ان کی گھن گرج میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
یہ غیر آئینی مطالبات کس کی ایماء پہ ؟ اور کونسی طاقت کے بل بُوتے پہ کئیے جارہے تھے اور کئیے جارہےہیں ؟
وہ کون سی طاقتیں ہیں ۔ جو عمران اور طاہر القادری کو اشارہ دے چکی ہیں ۔ کہ ماحول کچھ اس طرح کا بناؤ ۔۔ کہ ہم کہنے والے ہوں کہ وزیر اعظم نواز شریف استعفی دےدیں۔ اس صورتحال کو سمجھنے کے لئیے علمِ سیاسیات میں ڈگری یافتہ ہونا ضروری نہیں ۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ کہ نواز حکومت کیوں اس مغالطے میں رہی۔ کہ یہ ایک دودن کا شور شرابہ ہے ۔اور جونہی یہ شو ختم ہوا ۔تو دیکھیں گے ان سے کیا مذاکرات کئیے جاسکتے ہیں؟۔
انبیاء علیة والسلام نے جب لوگوں کو دعوتِ دین دی۔ تو لوگ اس لئیے بھی ان پہ ایمان لے آئے کہ انبیاء علیة والسلام کا ماضی بے داغ ۔ کردار مثالی۔ فطرت میں حق گوئی وبیباکی اور اخلاق اعلیٰ ترین تھا۔ بہت سے لوگ فوراً ان کی نبوت پہ ایمان لے آتے ۔ اور دین میں شامل ہوتے چلےجاتے۔ کیونکہ لوگوں کو علم تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے ۔ انکا ماضی بے داغ ہے۔ انکا کردار مثالی ہے ۔ وہ حق گوئی اور بیباکی پہ کوئی مفاہمت نہیں کرتے ۔ اور انکے اخلاق اعلٰی ترین ہیں اور ایسے لوگ (انبیاء علیة والسلام) اگر نبوت کا دعواہ کر رہے ہیں ۔تو یقناً وہ اللہ کے نبی ہونگے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہےکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ کسی کی زبان پہ یقین کرنے کے لئیے اسکا کردار۔ اس کا ماضی دیکھتا ہے ۔اسکی حق گوئی و بیباکی کو پرکھتا ہے اور اسکے اخلاق کو جانچتا ہے ۔ عام طور پہ فوری یقین لانے کے لئیے ان چند صفات کو بنیاد بنا کر صاحب ِ بیان کی سچائی کو پرکھتا ہے اور اگر صاحب بیاں اس کی کسوٹی پہ اترے تووہ اس پہ یقین کر لیتا ہے کہ جو یہ کہہ رہا ہے وہ درست ہوگا۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شیخ السلام اور کپتان کا ماضی ۔ حق گوئی ۔ کردار اور اخلاق کے بارے کسی کو شائبہ ہے کہ وہ کب کب اور کیوں اپنے بیان بدلتے رہے ۔ اور انہوں نے یوٹرن لئیے ۔ اور کس کس کے سر پہ مغربی طاقتوں کا دستِ شفقت کیوں کررہا۔تو پھر ایسی کیا مصیبت آن پڑی تھی کہ عوام کی ایک بڑی تعداد میں ان شیخ السلام اور ماضی میں اسکینڈلز سے آلودہ سابقہ کرکٹ کپتان پہ آنکھیں بند کر کے۔ یقین کرتے ہوئے۔ لاکھوں کی تعداد میں اسلام آباد کی طرف رُخ کرتی؟ ۔اور شیخ السلام کے انقلاب پہ یقین رکھتے ہوئے ان کے ہاتھ بعیت کرتی؟ ۔ اور کپتان کی فرما روا آزادی کو اپنا منشاء بناتی؟ جب کہ دونوں کا ماضی عوام کے سامنے ہے ۔ کہ ایک محدود تعداد کو تو کئی سالوں کی محنت سے اپنی حمایت میں کھڑا کیا جاسکتا ہے ۔مگر لاکھوں کڑووں انسانوں کو یک دم لبیک کہنے پہ آمادہ کرنا فطرت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اور انسانی فطرت ہے کہ وہ ایسے جانے پہچانے لوگوں پہ خُوب سوچ سمجھ کر اعتبار کرتا ہے ۔اور پھونک پھونک کر قدم آگے بڑہاتا ہے ۔ تو پھر انقلاب لانے کا دعواہ کرنے والوں اور انہیں اسکرپٹ تیار کر کے دینے والوں نے۔ اسکرپٹ لکھتے ہوئے یہ اہم نکتہ کیوں نہ ذہن میں رکھا؟۔تو اسکی ایک سادہ سی وضاحت ہے ۔کہ اسکرپٹ رائٹر ز کو معلوم تھا کہ اسکرپٹ میں رنگ بھرنے کے لئے چند ہزار لوگ ھی کافی ہیں ۔ کہ پچیس تیس ہزار لوگ کبھی کسی بھی دو تہائی سے زائد اکثریت رکھنے والی حکومت کے لئیے اس حد تک خطرہ نہیں ہوتے کہ وہ حکومت کو چلتا کردیں ۔لاکھوں کی تعداد کی نسبت پچیس تیس ہزار لوگوں کو رام کرنا اور انہیں اپنی مرضی کے مطابق چلانا بہت آسان ہوتا ہے۔اور یوں حکومت کو بلیک میل کرتے ہوئے پس پردہ اپنے مطالبات منوانا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ کہ بہ نسبت لاکھوں کے بے قابو ہجوم کے ذریعئے حکومت گرا کر اپنے مطالبات منوانے کے۔
ان دونوں مارچوں کے اسکرپٹس جس نے بھی لکھے ہیں۔ خُوب سوچ سمجھ کر لکھے ہیں۔ اور نواز شریف کی معاملہ فہمی کو مد نظر رکھ کر لکھے ہیں ۔
اور اس سارے پلان کا اسکرپٹ رائٹر یہ جانتا ہے کہ میاں نواز شریف اپنی معروف ضدی طبعیت کی وجہ ایک ہی جگہ جمیں کھڑے رہیں گے۔ اور انھیں دباؤ میں لانا آسان ہوگا۔کہ سیاست میں جم جا جانا اور ایک ہی جگہ کھڑے ہوجانا ۔ جمود کا دوسرا نام ہے ۔ اور پاکستانی سیاست میں جمود لے ڈوبتا ہے۔اور یہی اسکرپٹ رائٹر نے تاثر دینا چاہا کہ نواز شریف ۔ حکومت اور نون لیگ کے بزرجمہر اسی دھوکے اور تفاخر میں رہیں کہ یہ چند ہزار لوگ ان کا اور انکی دوتہائی اکثریتی حکومت کاکیا بگاڑ لیں گے ۔ اور وہ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کی وجہ سے اس دہوکے میں آگئے ۔ اور ترپ کے پتوں سے چالیں یوں چلی گئیں کہ شریف بردران ۔ پنجاب حکومت اور نواز شریف حکومت یکے بعد دیگرے اپنی پوزیشنیں چھوڑتی ہوئی۔ پیچھے ہٹتی چلی گئی ۔ اتنی بڑی پارٹی کی دو تہائی اکثریتی حکومت ہوتے ہوئے نہ تو وہ اپنی اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ کر پائی اور نہ ہی جلد بازی میں ان سے کروائے گئے فیصلوں کے ما بعد نقصانات کو ہی سمجھ پائی ۔
کسی حکومت کی یہ ناکامی تصور کی جاتی ہے ۔ کہ لوگ اس کے خلاف سڑکوں پہ نکل آئیں۔کامیاب حکومت اسے گردانا جاتا ہے جو عوام کو سڑکوں پہ آنے سے پہلے ہی۔ انہیں راضی کرنے کا کوئی جتن کر لے۔ اس وقت پاکستانی عوام کی سب سے اولین مشکلات میں سے چند ایک مشکلات ۔ مہنگائی کا عفریت۔ توانائی کا بحران۔ بے روزگاری یا دوسرے لفظوں میں جسم اور جان کا رشتہ قائم رکھنے کے لئیے ہر روز جتن کرنا ہے۔ ملک کی آدہی سے زائد آبادی کو محض دو وقت کی روٹی پوری کرنی مشکل ہو رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت کو یہ سارے مسائل زرداری حکومت سے وراثت میں ملے ہیں ۔ مگر اس میں بھی کسی کو کوئی شک نہیں ۔ کہ نون لیگ کے بلند بانگ انتخابی دعوؤں کے برعکس نون لیگ کی حکومت کے ان پندرہ سولہ ماہ میں عوام کی زندگی پہلے سے زیادہ اجیرن ثابت ھوئی ہے۔
جس ملک میں توانائی کا خوفناک بحران ہو ۔ لوگوں کے کاروبار اور روزگار ٹھپ ہوں۔ ملک کے شہری بجلی پانی گیس نہ ہونے کی وجہ سے چڑچڑے ہو رہے ہوں ۔بجلی کی عدم فراہمی پورے خاندان کی نفسیاتی ساخت و پرواخت پہ اثر اندازہو رہی ہو۔ اس ملک میں نون لیگ کے وزیر توانائی۔خواجہ آصف ۔پندرہ ماہ بر سر اقتدار آنے کے بعد۔اپنی قوم کو کسی قسم کا ریلیف دینے کی بجائے گرمی میں جلتے عوام سے یہ کہیں ۔کہ اللہ سے دعا مانگیں کہ بارش ہو اور آپ کی تکالیف میں کچھ کمی ہو۔ تو ایسی گڈ گورنس پہ کون قربان جائے؟ ۔وزیر موصوف سے یہ سوال کیا جانا چاہئیے تھا کہ اگر آپ میں اتنی اہلیت نہیں کہ آپ عوام کو کوئی ریلیف دے سکیں تو کم از کم انکے زخموں پہ نمک تو نہ چھڑکیں۔ اور اگر عوام کی تکالیف میں کمی کا انحصار اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے میں ہی ہے۔ تو آپ کس خوشی میں اتنی بڑی وزات کی موجیں لُوٹ رہے ہیں۔ کسی بھی مہذب سیاستدان کی طرح استعفٰی دیں اور گھر کی راہ لیں۔ کہ ممکن ہے جو آپ کے بعد اس وزارت کو سنبھالے اس میں کچھ خداد صلاحیت آپ سے زیادہ ہو ںاور وہ عوام کو کچھ ریلیف دے سکے۔یہ تو ایک مثال ہے جو کسی لطیفہ سے کم نہیں ۔مگر پاکستان کے بے بس اور لاچار عوام کی ستم ظریفی دیکھئیے کہ ایسی مثالیں عام ہیں۔
شہباز شریف بڑے فخر سے دعواہ کرتے ہیں۔ کہ ان کا کوئی ایک بھی کرپشن کا کیس سامنے نہیں لایا جاسکتا ۔کیونکہ وہ کسی طور پہ کرپشن میں ملوث نہیں۔ مگر عوام نے پنجاب حکومت کے ایک وزیر کی ویڈیو دیکھی ہے ۔جس میں وہ ایک ایسے انسانی اسمگلر سے معاملات طے کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ جس پہ میڈیا کے مطابق ایک سو اسی سے زائد لوگوں نے دھوکہ بازی سے ۔رقم ہتیانے کے کیس کر رکھے ہیں ۔جو انٹر پول اور پتہ نہیں کس کس کو مطلوب ہے۔اور میاں صاحب نے اس ویڈیو کی حقیقت جانچنے کے لئیے ایک تین رکنی کمیٹی بنادی اور بس۔ سنا ہے بعد میں وزیر موصوف کے حمایتی یہ کہتے پائے گئے ہیں ۔کہ یہ لاکھوں روپے کی وہ رقم تھی۔ جو انہوں نے مذکورہ انسانی اسمگلر کو ادہار دے رکھی تھی ۔اور وہ انہوں نے واپس لی۔ ایک ایسا وزیر جو ایک معروف انسانی اسمگلر کے ساتھ معاملات کرتا ہے ۔ اسے رقم ادہار دیتا اور واپس لیتا ہے۔ ایسے جرم پیشہ فرد کے ساتھ معاملات کرنا تو کُجا اس کے ساتھ اگر کسی دعوت میں کسی وزیر کا کھانا کھایا جانا ثابت ہو جائے تو مہذب ممالک میں وزراء اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیتے ہیں۔ جبکہ وزیر موصوف کو ایک جرائم پیشہ کے ساتھ معاملات کرنے کے باوجود بجائے اس کے وزیر موصوف سے جواب طلبی کی جاتی اور تادیبی کاروائی کی جاتی ۔ انہیں اتنی اہم وزارت دے دی؟۔ اپنی ٹیم کے بارے خبر نہ رکھنی یا لاعلم رہنا۔ یا خبر ہوتے ہوئے اس پہ کاروائی نہ کرنا ۔یہ بھی اپنے فرائض سے غفلت برتنے کے برابر ہے۔
جہاں یہ عالم ہو کہ سرکاری ملازموں کو ذاتی ملازم سمجھا جائے ۔ نوکریاں بیچی جائیں۔ سرکار دربار میں اپنے من پسند لوگوں کو لانے کے لئیے ۔پرانے ملازمین حتٰی کے چھٹی یا ساتویں گریڈ کی خواتین ملازموں کو انکے گھر بار سے دور۔ بیس بائیس کلومیٹرز دورافتادہ جگہ پہ اچانک تبادلہ کر دیا جائے ۔ بہانے بہانے سے سرکاری ملازموں کو تنگ کیا جائے ۔تانکہ وہ بددل ہو کر اپنی ملازمت چھوڑ دیں ۔اور انکی جگہ اپنے منظور نظر لوگوں کو بھرتی کیا جاسکے۔ تعینات کیا جاسکے۔ وہاں عام عوام ہی نہیں بلکہ یہ سرکاری ملازمین کو ہی اگر اجازت دے دی جائے۔ اور انہیں اپنی نوکری کے جانے کا اندیشہ نہ ہو تا۔تو ہمیں نہیں لگتا کہ کوئی سرکاری ملازم ایسا ہوگا جو احتجاج میں شامل نہ ہواور سرکاری ملازمین کے احتجاج کی تعداد لاکھوں تک نہ ہو ۔ یعنی لوگ تنگ آگئے ہیں۔ انکے مسائل حل نہیں ہو رہے ۔ ممکن ہے نواز شریف حکومت کی ترجیجات میں لمبی ٹرم کے منصوبے ہوں ۔جن سے چند سالوں میں نتیجہ عوام کے حق میں بہتر آئے ، مگر عوام کا فی الحال مسئلہ زندہ رہنے کی جستجو کرنا ہے ۔ اور وہ موجودہ حکومت سے بہت سی توقعات لگائے بیٹھے تھے ۔ اور حکومت فی الفور عوام کو کچھ دینے کی بجائے۔ مہنگائی کے سیلاب سے انکے مسائل میں اضافہ کرنے کا سبب بنی ہے۔
حکومت کے بارے یہ عام طور پہ کہا جاتا ہے ۔کہ میاں نواز شریف نے اندیشہ ہائے دور است کے تحت حفظِ ماتقدم کے طور پہ ۔اپنے اقتدار و اختیار کو اپنے ارد گرد کچھ معدوئے چند لوگوں میں بانٹ رکھا ہے ۔ ممکن ہے اس میں انکے کچھ اندیشے درست ہوں۔ لیکن یہ امر واقع ہے کہ اقتدار اللہ کی دی ہوئی امانت ہوتی ہے۔ اور جن حکمرانوں نے اپنا اقتدار ۔نیچے تک عام شہری تک تقسیم کیا ۔ انھیں کسی اندیشے کا ڈر نہ رہا ۔اور اور یوں کرنے سے جہاں عوام کو ریلیف ملا ۔وہیں اللہ نے ایسے حکمرانوں کے اقتدار میں برکت دی ۔
یہ حد سے بڑھی خود اعتمادی تھی یا سانحہ ماڈل ٹاؤن کی وجہ سے نواز حکومت اخلاقی طور پہ ایسا کرنے پہ مجبور تھی کہ طاہر القادری ایک غیر سیاسی تحریک کے سربراہ اور پاکستان میں کسی بھی لیول پہ ان کا کوئی سیاسی عہدہ نہیں۔ تو پھر کس خوشی میں حکومت نے انہیں پہلے روکا تو عین آخری وقت میں ایک سیاسی اور منتخب حکومت کو غیر آئینی طور پہ حکومت گرانے کی دہمکیوں کے باوجود انہیں ملک کے دارالحکومت کی طرف ہزاروں لوگوں کے ساتھ بڑھنے دیا؟
یہ سیاسی ناعاقبت اندیشی نہیں تو کیا ہے کہ جنہیں چند ہزار افراد کہا گیا اور یہ سمجھا گیا کہ لاکھوں کا دعواٰہ کرنے والے ان بیس پچیس ہزار لوگوں سے کیا تبدیلی لے آئیں گے؟ اور من پسند خوشامدی تجزئیہ نگاروں سے اپنی حکمت عملی کی داد وصول کی جاتی رہی ۔ اور اب یہ عالم ہے کہ پچیس تیس ہزار افراد کے ہجوم نے اسلام آباد میں آج ریڈ زون بھی کراس کر لیا ہے۔ اور عین پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے۔ ملک کے حساس ترین علاقے ریڈ زون میں۔ آن ڈیرے جمائے ہیں ۔جس سے ملک اور حکومت کی کی جگ ہنسائی ہور رہی ہے۔ اور ساری دنیا کو ریاستِ پاکستان کا ایک غلط پیغام جارہا ہے ۔ اور نواز شریف ابھی تک اپنے معدودے چند ایسے افراد کی مشاورت پہ بھروسہ کرنے کی وجہ سے ایک بار پھر بند گلی میں کھڑے ہیں ۔
کچھ لوگوں کو یاد ہوگا کہ انقلاب کا ڈول ڈالتے ہی مشرف نے اپنے کارکنوں کو اس انقلاب اور آزادی مارچ کا ساتھ دینے کا ارشاد فرمایا۔اور نواز شریف نےایک بار پھر ایک تاریخی غلطی کی ہے۔فوج کو اس معاملے میں ملوث کرکے کے اپنے ۔ مسلم لیگ ن۔ اور جمہوریت کے ہاتھ پاؤں باندھ دئیے ہیں۔اور مستقبل میں کئی مخصوص اور حساس معاملوں میں آزادی سے فیصلے کرنے کا اختیار کھو دیا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے ۔اس سے بہتر تھا وزیر اعظم استعفٰی دے دیتے۔اور اپنی پارٹی میں سے کسی کو ویزر اعظم نامزد کر دیتے ۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہوتی۔ کہ بات بات پہ اپنی زبان سے پھر جانے والے۔ آزادی و انقلابی ڈول ڈالنے والے ۔اس کے بعد کوئی نیا مطالبہ نہ کر دیتے ؟۔
تاریخ گواہ ہے۔ کہ اس طرح کے پلانٹڈ اور پلانیڈ انقلاب۔ کبھی کامیاب نہیں ہوئے ۔ان سے تبدیلی تو ہوتی ہے۔ مگر تبدیلی نہیں آتی۔ کسی حقیقی انقلاب کے لئیے عام آدمی یعنی عوام کی تربیت لازمی ہوتی ہے کہ وہ انقلابی تبدیلی کا باعث بن سکے۔جو اس سارے انقلابی عمل میں کہیں نظر نہیں آتی ۔ کہ پاکستان کے عام آدمی یعنی عوام کو اس طرح لاچار کر دیا گیا ہے کہ وہ سوتے میں بھی دو وقت کی باعزت روٹی کمانے کی خاطر اور زندہ رہنے کی جستجو کے ڈراؤنے خواب دیکھتا ہے اور اس قدر منتشر ہے کہ اسے سوائے اپنے حالات کے کسی اور طرف دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ۔ تو پھر عام آدمی کی تربیت اور شمولیت کے بغیر یہ کیسا انقلاب برپا ہونے جارہا ہے؟ ۔
ایک تبدیلی وہ ہے جس کا نعرہ لگایا جارہا ہے۔ ”انقلاب“۔ اور ایک تبدیلی وہ ہے جو اسکرپٹ رائٹر نے اپنے من پسند طریقے سے لانی چاہی ہے۔ یعنی پہلی تبدیلی ”انقلاب “ کا جھانسہ دیکر دوسری تبدیلی ہی اصل گوہر مقصود ہے۔۔
جہاں ضامن حضرات جائز طور پہ برہم ہیں۔ وہیں لوگ اس بات پہ حیران ہیں کہ شیخ السلام اور کپتان نے مختلف سیاسی حکومتی شخصیات کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ کوئی غیر آئنی مطالبہ یا اقدام نہیں کریں گے ۔ تو پھر یہ کیوں بار بار اپنا بیان بدل رہے ہیں ۔ اور اتنی یقین دہانیوں کے باوجود غیر آئینی مطالبوں پہ اڑے ہوئے ہیں۔لیکن ان کو (عوام کو)یہ پتہ نہیں کہ جو کسی کے بھروسے پہ پہلی بار ہر حد پھلانگ جائیں ۔پھر انھیں اس کے اشارے پہ بار بار ہر حد پھلانگنی پڑتی ہے۔اتنے سالوں سے اس ملک میں کوڑھ کی فصل بیجی جارہی ہے ۔ اب یہ فصل پک چکی ہے۔کچھ طاقتیں ایسی ہیں جنہوں نے اس ملک کے تمام ستونوں کو بے بس کر رکھا ہے اور جب انھیں پاکستان کی ترقی یا استحکام کا پہیہ روکنا مقصود ہوتا ہے تو وہ اشارہ کر دیتی ہیں اور پہلے سے بنے بنائے بچے جمہورے طے شدہ پروگرام کے تحت حرکت میں آجاتے ہیں ۔اور حد یہ ہے کہ انھیں رسپانس بھی ملنا شروع ہو جاتا ہے ۔
چند ہفتے قبل کوئی سوچ سکتا تھا کہ۔ وہ لوگ جن کا پاکستان کی سیاست اور پارلیمینٹ میں وجود ہی نہیں۔ وہ آج کس زورو شور سے پورے ملک۔ کو اسکے عوام کو ۔بے یقینی کی ٹکٹکی پہ چڑہا کر تماشہ بنادیں گے؟یہ سیاسی بصیرت سے بڑھ کر کسی تیسری قوت کی اپروچ ھے۔اور جو لوگ ایک بار کسی کے ہاتھوں پہ کھیلیں ۔۔ پھر انھیں ہمیشہ انھی کے ہاتھوں کھیلنا پڑتا ہے۔
لمحہ بہ لحمہ بدلتی اس ساری صورتحال میں موجودہ حکومت کو دیوار کے ساتھ لگا کر پس پردہ اس سے وہ مطالبات منائے جائیں گے ۔ جس پہ ابھی تک ہماری حکومت بظا ہر اسٹینڈ لئیے کھڑی ہے ۔ اسمیں مشرف کی پاکستان سے غداری اور امریکہ سے وفاداری کے انعام کے طور پہ اس کی رہائی ۔ تانکہ امریکہ کے لئیے کام کرنے والے غداروں کو یہ پیغام جائے کہ وہ امریکہ کے لئیے اپنی قوم سے غداری کرنے والوں کو امریکہ تنہا نہیں چھوڑتا۔ دوسری بڑی وجہ ۔ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی ۔ اور تیسری بڑی وجہ ۔ پاکستانی عوام کو آمنے سامنے لا کر تصادم میں بدلنا ہے۔”عرب بہار“ جیسا فار مولہ بہت شاطر دماغوں نے اپنی پوری طاغوتی طاقت سے سارے وسائل بروئے کار لا کر بنا یا ہے ۔زرہ تصور کریں یہ دھرنا پروگرام کچھ طویل ہوتا ہے۔ تو دیگر جماعتیں بھی اپنے ہونے کا ثبوت دینے کے لئیے ۔اپنی اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ کرنے پہ نکل آئیں۔ تو کارکنوں کا ملک گیر پیمانے پہ یہ تصادم کیا رُخ اختیار کرے گا؟۔ یہ وہ کچھ پس پردہ عزائم ہیں جو عالمی طاقتیں دنیا کی واحد اسلامی نیوکلئیر ریاست کے بارے رکھتی ہیں۔ جس کے بارے میں عالمی میڈیا میں یہ تاثر دیا جائے گا ۔کہ اس ملک میں کبھی بھی۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ تو ایسے میں نیوکلئیر ہتیار اگر دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گئے۔ تو دنیا کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے ۔ اور اس تصور کو دنیا میں بڑہا چڑھا کر پیش کیا جائے گا ۔ اور ہماری بدقسمتی سے پاکستان مخالف عالمی طاقتیں پروپگنڈاہ اور دہمکی دھونس کے زور پہ ۔ایسے بے وجود سایوں کو وجود دینا جانتی ہیں۔ایسے میں پاکستان کا کیس عالمی برادری میں کمزور ہو جائیگا۔
اس بار شاید ہمیشہ کی طرح ”عزیز ہموطنو“ نہ ہو ۔کہ اب یہ فیشن بدلتا جارہا ۔ اورکچھ لوگ پہلے سے تیار کر لئیے جاتے ہیں ۔کہ جنہیں اگر نوبت آئی ۔تو انہیں آگے کر دیا جائے گا ۔ اور پس پشت”میرے ہموطنو“ پروگرام ہی ہوگا۔اس امر کا انحصار نواز شریف کی بارگینگ پاور پہ ہوگا۔ اور مارچ میں شامل کارکنوں کی تعداد اور استقلال کی بنیاد پہ ہوگا۔ کہ پس پردہ اپنی شرائط کس طرح منوائی جاسکتی ہیں۔ اگر دھرنے کے قائدین اسکرپٹ پلیئر کے اشارے پہ دھرنا اور احتجاج ختم بھی کر دیں ۔تو بہر حال ایک بات طے ہے کہ ان دھرنوں سے پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ پاکستان کی بنیادیں بھی ہل کر رہ جائیں گی ۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, فہمی, ہم, ہمیں, ہنسائی, ہو, ہونے, ہونگے۔, ہونا, ہو۔, ہوگا, ہوگا۔کہ, ہوگا۔تو, ہوں, ہوں“۔, ہوئی, ہوئی۔, ہوئے, ہوئے۔, ہوا, ہواور, ہوتی, ہوتی۔, ہوتے, ہوتا, ہوجانا, ہور, فوری, فوراً, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں۔اور, ہیں۔شہباز, ہیں؟۔, فیصلوں, فیصلے, ہے, ہے۔, ہے۔ جہاں, ہے۔فوج, ہے۔کچھ, ہے۔اور, ہے۔حکومت, ہےکہ, ہے؟, ہٹتی, ہاؤس, ہائے, ہاتھ, ہتیانے, ہجوم, فخر, ہر, فرما, فرمایا۔اور, فراہمی, فرائض, فرد, فرصت, ہزار, ہزاروں, فطرت, قوم, قائم, قابو, قدم, قدر, قربان, قسم, لفظوں, لمبی, لوگ, لوگوں, لیول, لی۔, لیکن, لیگ, لیں, لیں۔, لیا, لیتا, لُوٹ, لے, لے۔, لکھے, لکھتے, لگایا, لگائے, لگتا, لئیے, لئے, لانی, لانے, لانا, لاچار, لایا, لاکھوں, لازمی, لاعلم, لبیک, لطیفہ, مہنگائی, مفاہمت, مہذب, ملوث, ملے, ملک, ملا, ملازم, ملازموں, ملازمین, ملازمت, ممکن, ممالک, من, منونے, منوانا, منتخب, منتشر, منشاء, منصوبے, منظور, موجودہ, موجیں, موصوف, میل, میڈیا, میں, میں۔, میاں, مگر, ما, ماہ, مانگنے, مانگیں, ماڈل, ماتقدم, ماحول, مارچ, مارچوں, ماضی, مثال, مثالی, مثالی۔, مثالیں, مجبور, محنت, محدود, محض, مخصوص, مد, مذکورہ, مذاکرات, مرضی, مسلم, مسئلہ, مسائل, مستقبل, مشکل, مشکلات, مشاورت, مشرف, مصیبت, مطلوب, مطالبہ, مطالبات, مطابق, مظاہرہ, معلوم, معاملہ, معاملے, معاملات, معدوئے, معدودے, معروف, مغالطے, مغربی, نہ, نہیں, نہیں۔, نفسیاتی, نقصانات, چلی, چلےجاتے۔, چلا, چلانا, چلتا, نمک, چند, نون, نوکری, نوکریاں, نواز, نیا, چڑچڑے, نے, نے۔, نےایک, ن۔, نکل, چکی, نکتہ, نگاروں, چھوڑ, چھوڑتی, چھڑکیں۔, چھٹی, چاہی, چاہئیے, چاہا, چالیں, نام, نامزد, ناکامی, ناعاقبت, نبوت, نبی, نتیجہ, نسبت, نظر, نعرہ, و, وہ, وہاں, وقت, ڈول, ڈوبتی, ویڈیو, ڈیرے, ویزر, ڈگری, واقع, ڈالنے, والوں, والی, والے, والے۔, ڈالتے, والسلام, واپس, وبیباکی, وجہ, ور, ڈراؤنے, وراثت, وزیر, وزات, وزارت, وزراء, وصول, وضاحت, یہ, یہی, یقناً, یقین, یوٹرن, یوں, یک, یکے, یا, یافتہ, یاد, یعنی, ۔, ۔ یہ, ۔لاکھوں, ۔مگر, ۔نیچے, ۔نظر, ۔وہیں, ۔وزیر, ۔یہ, ۔۔, ۔کہ, ۔کیونکہ, ۔کسی, ۔پندرہ, ۔پرانے, ۔ان, ۔اور, ۔اپنے, ۔اس, ۔اسکی, ۔بجلی, ۔تو, ۔تانکہ, ۔جن, ۔جو, ۔جس, ۔رقم, کہ, کہہ, کہنے, کہیں, کہا, کہتے, کلومیٹرز, کم, کمی, کمیٹی, کمانے, کو, کون, کونسی, کوئی, کواکب, کی, کیونکہ, کیوں, کیا, کیس, کیسا, کُجا, کڑووں, کے, کے۔, کے۔ان, کھلا, کھو, کپڑے, کپڑا, کھانا, کھایا, کپتان, کئی, کئیے, کا, کافی, کامیاب, کاکیا, کاروائی, کاروبار, کارکنوں, کب, کبھی, کر, کرنی, کرنے, کرنا, کروائے, کرکے, کرکٹ, کرپشن, کراس, کرتی, کرتے, کرتا, کردیں, کردار, کردار۔, کررہا۔تو, کس, کسوٹی, کسی, گلی, گڈ, گوئی, گواہ, گورنس, گیا, گیس, گے, گے۔, گے؟, گھن, گھر, گئی, گئیں, گئے, گر, گرمی, گریڈ, گرا, گرانے, گرج, گرد, گردانا, ٹیم, ٹھپ, ٹاؤن, ٹرم, ںاور, پہ, پہلی, پہلے, پہنچتے, پہچانے, پلان, پلانیڈ, پلانٹڈ, پچیس, پنجاب, پندرہ, پول, ھوئی, پوری, پورے, پوزیشنیں, پی, پیچھے, پیدا, پیشہ, پیغام, پڑی, پھونک, پھر, پانی, پاور, پاکستان, پاکستانی, پاکستان۔ہیں, پاؤں, پائی, پائے, پارلیمنٹ, پارٹی, پتہ, پتوں, پرکھتا, پردہ, پس, پسند, ،, ؟, ؟۔, آلودہ, آمادہ, آن, آنے, آنکھیں, آگے, آگئے, آپ, آپنے, آئینی, آئیں, آئیں۔کامیاب, آئے, آباد, آبادی, آتی, آتی۔, آتے, آج, آخری, آدہی, آدمی, آزادی, آسان, آصف, اہلیت, اہم, افراد, اقتدار, الفور, القادری, اللہ, الحال, السلام, امانت, امر, ان, انہوں, انہیں, انقلاب, انقلابی, انقلاب۔, انکی, انکے, انکا, انٹر, انھیں, اچانک, انبیاء, انتخابی, انحصار, اندیشہ, اندیشی, اندیشے, اندازہو, انسانوں, انسانی, اولین, اور, ایمان, ایماء, ایک, ایسی, ایسے, ایسا, اکثریت, اکثریتی, اگر, اپنی, اپنے, اپنا, اب, ابھی, اتنی, اترے, اثر, اجیرن, اجازت, احتجاج, اخلاق, اخلاقی, اختیار, ادہار, ارد, ارشاد, از, اس, اسلام, اسمگلر, اسی, اسے, اسکی, اسکینڈلز, اسکے, اسکا, اسکرپٹ, اسکرپٹس, اسٹریٹ, است, استعفی, استعفیٰ, استعفٰی, اشارہ, اصولوں, اضافہ, اعلیٰ, اعلٰی, اعتمادی, اعتبار, اعظم, بہ, بہانے, بہت, بہتر, بل, بلند, بلیک, بلکہ, بن, بنی, بنیاد, بنا, بناؤ, بناتی؟, بنادی, بند, بولتے, بیچی, بیٹھے, بیان, بیاں, بیباکی, بیس, بُوتے, بڑہاتا, بڑی, بڑے, بڑھنے, بڑھی, بے, بگاڑ, بھی, بھرنے, بھروسہ, بھرتی, بانگ, بانٹ, باندھ, باوجود, بائیس, بات, بار, بارے, بارش, بازی, باعث, باعزت, بجلی, بجائے, بجائے۔, بحران, بحران۔, بدلتے, بددل, بر, برکت, برپا, برابر, برتنے, بردران, برعکس, بزرجمہر, بس, بس۔, بعیت, بعد, بعد۔اپنی, بغیر, تہائی, تفاخر, تقسیم, تنگ, تو, توقعات, تووہ, توڑ, توانائی, توانائی۔خواجہ, تین, تیار, تیس, تک, تکالیف, تھی, تھی۔, تھے, تھا, تھا۔, تا۔تو, تاثر, تادیبی, تاریخ, تاریخی, تبادلہ, تبدیلی, تجزئیہ, تحت, تحریک, ترین, ترپ, تربیت, ترجیجات, تصور, تعینات, تعالیٰ, تعداد, ثابت, جہاں, جلتے, جلد, جم, جمہوریت, جمود, جمیں, جمائے, جن, جنہیں, جو, جونہی, جواب, جگ, جگہ, جھوٹ, جا, جان, جانچنے, جانچتا, جانے, جانا, جانتا, جائیں۔, جائیں؟۔ورنہ, جائے, جائے۔, جائے؟, جاتی, جاتا, جارہے, جارہےہیں, جارہا, جاسکے۔, جاسکتے, جاسکتا, جب, جبکہ, جتن, جرم, جرائم, جس, جسم, جستجو, حفظِ, حق, حقیقی, حقیقت, حل, حمایت, حمایتی, حکمت, حکمرانوں, حکومت, حالات, حتٰی, حد, حساس, خلاف, خوفناک, خواب, خواتین, خود, خوشی, خوشامدی, خیال, خُوب, خاندان, خاطر, خبر, ختم, خداد, خطرہ, دہمکیوں, دہوکے, دم, دن, دنیا, دو, دون, دونوں, دو؟۔اسملبیاں, دوتہائی, دور, دور۔, دورافتادہ, دوسرے, دوسرا, دی, دین, دینے, دینا, دی۔, دیکھنے, دیکھی, دیکھیں, دیکھئیے, دیکھتا, دیگرے, دیں, دی؟۔, دیا, دیا؟یہ, دیتے, دیتے۔اور, دیتا, دے, دےدیں۔, دکھائے, دھوکہ, دھوکہ۔, دھوکے, دئیے, داد, دارالحکومت, داغ, داغنے, دباؤ, دربار, درست, دستِ, دعوؤں, دعواہ, دعواٰہ, دعوت, دعوتِ, دعا, ذہن, ذاتی, ذریعئے, رہنے, رہنا۔, رہی, رہی۔, رہیں, رہے, رہا, رقم, رنگ, روکا, روٹی, روپے, روا, روز, روزگار, روزگاری, ریلیف, ریڈ, ریاستِ, رُخ, رکنی, رکھ, رکھنی, رکھنے, رکھی, رکھے, رکھا, رکھا؟۔تو, رکھتے, راہ, رام, رائٹر, راضی, رشتہ, ز, زندہ, زندگی, زون, زیادہ, زائد, زبان, زخموں, زرداری, سمجھ, سمجھنے, سمجھا, سنا, سچائی, سنبھالے, سو, سولہ, سوچ, سوال, سوائے, سوتے, سی, سیلاب, سیاسی, سیاسات, سیاست, سیاستدان, سڑکوں, سے, سکیں“, سکے۔یہ, سکے۔جو, سالوں, سامنے, سامنے۔, سانحہ, ساتویں, ساتھ, ساخت, سادہ, ساری, سارے, سب, سبب, ستم, سر, سرکار, سرکاری, سربراہ, شفقت, شہری, شمولیت, شو, شور, شیخ, شک, شامل, شائبہ, شروع, شریف, شرابہ, صفات, صلاحیت, صورتحال, صاحب, ضمانت, ضدی, ضروری, ضرورت, طلبی, طور, طے, طاہر, طاقت, طاقتوں, طاقتیں, طبعیت, طرف, طریقے, طرح, ظریفی, عہدہ, عفریت۔, علم, علمِ, علیة, علاقے, عمل, عملی, عمران, عوام, عین, عالم, عام, عدم, غفلت, غلط, غلطی, غیر
جلتے سراب!
میں کچھ دیر سے پہنچا تھا۔ وہ ایک نواحی پہاڑی بستی ہے۔
میں سمجھ گیا تھا کہ رات پھر گھمسان کا رن پڑا تھا ۔ اور میدان کارِزار ۔ابھی تک گرم ہے ۔دونوں میاں بیوی ایک دوسرے سے رُوٹھے منہ بنائے ۔ابھی تک منہ لٹکائے ہوئے تھے ۔
جوزیبپ اور ماریہ ۔ یہ دونوں ہسپانوی میاں بیوی میرے پرانے جاننے والوں میں سے ہیں ۔عام یوروپی جوڑوں کی طرح ۔ ان کے بھی ابھی بچے نہیں ہیں۔ دونوں اعلٰی تعلیم یافتہ اور کاروباری ہیں ۔ خلوص کے بندے ہیں۔ میرے سبھی یوروپی شناسا لوگ ۔میری مسلمانی سمیت مجھے دوست رکھتے ہیں ۔ کبھی کسی نے نماز پڑھنے ۔ رمضان کے روزے رکھنے اور شراب نہ پینے اور سؤر کا گوشت نہ کھانے پہ اچھنپے کا اظہار نہیں کیا ۔ بلکہ کسی حد تک میرے دینی معاملات کا احترام کرتے ہیں ۔ خاص کر رمضان الکریم میں یورپی عادت کے مطابق دوپہر کے بعد سے بھُوک کی وجہ سے خریت پوچھتے اور دلاسہ بھی دیتے ہیں کہ بس اب روزہ افطاری میں کم وقت رہ گیا ہے۔ یا ممکن ہے یوں ہوا ہو کہ وہی لوگ میرے تعلق میں رہ گئے ہوں جو باہمی احترام کا شعور رکھتے ہیں۔ بدلے میں ، میں بھی انکے مشاغل میں مخل نہیں ہوتا اور انکی ذاتی زندگی کا ۔انکے معاملات کا احترام کرتا ہوں۔
آج کل دن بہت اجلے اور دُہلے ہوئے ہوتے ہیں۔آسمان صاف اور شفاف نظر آتا ہے۔ د ن کو ہر سُو چمکتی خوشگوار سی دھوپ آنکھوں کو بھلی محسوس ہوتی ہے ۔پیر کو مقامی چھٹی ہونے کی وجہ سے میں نے اپنا آفس جمعہ کی دوپہر کو تین دن کے لئے بند کر دیا تھا۔ ایسے میں گھرمیں اکیلے دن کو رات اور رات کو دن کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
جوزیبپ اور ماریہ ۔ نے لمبے ویک اینڈ پہ ایک جنگل میں ایک راوئتی فارم ہاؤس بُک کروا رکھا تھا ۔جوزیبپ اور ماریہ نے بہ إصرار اس لمبے ویک اینڈ پہ مجھے مدعو کر رکھا تھا ۔میں انکے گھر قدرے تاخیر سے پہنچاتھا۔ جہاں سے ہم نے فارم ہاؤس جانا تھا ۔ وہاں انکے کچھ اور دوست بھی مدعو تھے۔دونوں میاں بیوی کبھی کبھار نہائت خلوص اور جوش سے ایک دوسرے کی خبر بھی لیتے ہیں۔ دونوں الگ الگ مجھ سے ملے ۔میں نے کچھ دیر سمجھایا ۔آخر کار واپس شہر لوٹ جانےکی میری دہمکی کار گر ثابت ہوئی ۔تھوڑی دیر میں دونوں شیر شکر۔اپنی گاڑی میں ضروری سامان رکھ رہے تھے۔
کہنے کو تو یہ ایک بستی ہے مگر بلا مبالغہ اس بستی کا رقبہ کسی بڑے قصبے سے کم نہیں ۔علاقہ جدی پشتی امراء کا ہے ۔ جو بدلتے وقتوں میں نئے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال کر انتظامیہ کے بڑے عہدوں پہ فائز ہیں ۔اور ہر ویک اینڈ اور چھٹی پہ اپنی بڑی بڑی حویلیوں کو لوٹ جاتے ہیں۔چند ایک ایکڑوں پہ پھیلی حویلیوں میں۔ الپائن کے بڑے بڑے درختوں کے بیچ ۔کھلی جگہ پہ انکا قومی جھنڈا ۔اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہاں کوئی ایسا اعلٰی حکومتی عہدیدار مقیم ہے ۔ جس کی اقامت اس بات کی متقاضی ہے ۔کہ اس اعلٰی (وی آئی پی ) حکومتی عہدیدار کے حفظ و مراتب (پروٹوکول)کے مطابق اِس ملک کا قومی جھنڈا لہرایا جانا ضروری ہے۔
ویسے تو بستی کو اور بھی راستے جاتے ہیں ۔ مگر ان میں قابل ذکر تین راستے ہیں ۔ایک تو سمندر کے ساتھ ریلوے لائن کے متوازی بہتی قومی شاہرا ہ ہے جو بحیرہ روم کے ساحل کے ساتھ پیچ وخم کھاتی سمندر کنارے ساحلی بستیوں اور قصبوں میں سے لہراتی ہوئی فرانس کو نکل جاتی ہے۔اس پہ جائیں تو علاقائی تجارتی مرکز سے کچھ گیارہ کلومیٹرز آگے جا کر یک دم تقریبا نوے کے زاویے پہ الٹے ہاتھ کو گھوم کر ساحل سے نسبتا کچھ دور بلندی پہ واقع چند کلومیٹرز چلتی ہوئی ۔ موٹر وے کے کے لئیے بنے پُل کے نیچے سے گزرتی ہوئی مذکورہ بستی کی مضافاتی ایکڑوں پہ پھیلی اور مختلف سرسبز درختوں سے ڈہکیں حویلیوں میں جا نکلتی ہے۔ حویلوں میں اونچے اور صدیوں پرانے چیڑھ ا یعنی لپائن کے بڑے بڑے دیو قامت درختوں نے ۔حویلوں کو اپنے اندر چھپا رکھا ہے ۔ جس وجہ سے۔ عام نظر سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ کہاں سے حویلی کی حدختم ہوئی اور کب جنگل شروع ہو گیا۔ کچھ حویلیوں کا بیرونی احاطہ پہاڑی نشیب فراز کے ساتھ ساتھ اونچا نیچا ہوتا چلا جاتا ہے ۔ حفاظتی حصار کے طور لگائی گئی باڑھ اور ان پہ جگہ بہ جگہ الارم ۔مسلح گارڈز اور خوانخوار کتوں کی تنبیہ کی لگے بورڈوں سے پتہ چلتا ہے ۔کہ جنگل اور حویلی کی حدود کہاں ہیں۔ ایکڑوں پہ پھیلے حویلیوں کے رقبوں ۔ پہ جگہ بہ جگہ بنی روشیں اور اُن کے اس سرے پہ بنے گیٹ۔ اور دور اندر بنے نوکر پیشہ کے لئیے بنائے گئے گھرنظر آتے ہیں۔
اس بستی کو جانے کا دوسرا رستہ ۔ موٹر وے پہ ناک کی سیدھ میں چلتا۔ پچھلے علاقے کے تجاری مرکزی قصبے سے، الٹے ہاتھ کو بل کھا کر سیدھا اوپر کو اٹھتا ہے۔ اور وہاں سے ایک ذیلی راستہ۔ موٹر وے کو چھوڑ کر پھر اسی راستے سے جا ملتا ہے۔ جو بحیرہ روم کی طرف سے آنے والی سڑک ہے اور یہاں پہنچ کر وہ موٹر وے کے نیچے سے نکلتی ہے۔اور موٹر وے اوپر پُل سے گزر تا ہے۔
تیسرا رستہ وہ ہے جو شاہراہ یا موٹر وے سے نزدیکی تجارتی قصبے سے ایک سڑک کی صورت پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ متواتر اوپر چڑہتا چلا جاتا ہے اور تقریبا نصف فاصلے پہ پہنچ کر کچھ ہموار سطح پہ ۔زلفِ یار کے پیچ وخم کی طرح گول گول گھومتا ۔ہر موڑ پہ پہاڑی کے پیٹ میں سے ہو کر برآمد ہوتا ہے ۔ یہ سڑک کے اس حصے کا ٹاپ یعنی سب سے اونچی اونچائی ہے ۔ جہاں سے نیچے ترائی میں ۔ایک طرف ننھی منی پہاڑیوں کی کے ارد گرد۔ الپائن ۔ چیڑھ کے جھنڈوں اور جا بجا پھلوں اور پودوں کی نرسریوں کا ایک سلسلہ پھیلا ہوا ہے ۔ جن کے اوپر سے دور بہت دور ۔ کئی کلومیٹرز کے فاصلے پہ ۔ بحیرہ رُوم کے متوازی بہتی سڑک اور ریلوے لائن کے اُس پار ہمیشہ کی طرح ساکت اور پوری آب و تاب سے صدیوں کا عینی شاہد بحیرہ رُوم کھڑا ہے ۔ خاموش مگر ہزاروں سال کی انسانی تہذیب اور تمدن کا چشم دید گواہ ۔
اس تیسرے رستے کے الٹے ہاتھ پہ گھنا اور تاریک جنگل ہے۔ جس میں گاہے گاہے ۔ اکا دُکا کچھ لوگوں نے دور کہیں جنگل کے اندر گایوں اور دیگر جانوروں کے افزائش نسل کے لئیے روائتی فارم بنا رکھے ہیں ۔ سڑک کی الٹی سمت سے ۔ان فارموں کو جاتے نیم پختہ راستے اور ان پہ لگے چھوٹے چھوٹے بورڈا ُدہر جنگل میں انسانی وجود کا پتہ دیتے ہیں۔ سڑک گول گول گھومتی ۔ یکایک پہاڑی کے پیٹ میں سے ہو کر برآمد ہوتی ہے ۔سڑک کے دورویہ قدرتی طو ر پہ اُگے پھولوں کے تختے ۔ یہاں سے وہاں تک بہار کا پتہ دیتے ہیں۔ سبزہ اور رنگ برنگے قدرتی پھول ۔ مٹی ۔پتھروں اور چھوٹی موٹی چٹانوں کو برابر اپنے وجود سے ڈھانپے ہوئے ہیں۔ کہیں کہیں اوپر سے رستا۔ کسی چشمے سے بہتا پانی۔ ننھی لکیر سی بناتا ، سڑک کے الٹے کنارے پہ ہی کسی زمین دوز رستے میں گُم ہو کر سڑک کے نیچے سے ۔ سیدھے ہاتھ کو ترائی میں کہیں گُم ہو جاتا ہے۔ اس سڑک پہ گاڑی پارک کرنے یا ویویو پوائنٹ کے طور مناسب جگہ بہت ہی تھوڑی ۔یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ جہاں سے روشن دنوں میں ۔ عصر کے وقت ۔ دُور نیچے سمندر کے اُس پار تک ۔ جہاں تک نظر جاتی ہے۔ سوُرج پگھلے ہوئے سونے کے سیال کی طرح۔ دل کو بھانے والی سنہری دہوپ بکھیرتا ہے۔
رات رکنے کے بعد ہر کوئی دن کو جدہر جس کے سینگ سمائے نکل گیا ۔ جنگل یا سمندر پاس ہو اور چھٹی ہو تو گھر کون بیٹھتا ہے۔
میں چپکے سے گاڑی لے کر گول گھومتی چکر دار پہاڑیوں سے نکلتا ۔ نیچے وادی میں واقع سمندر کے برابر بہتی سڑک کی طرف نکل آیا ۔
سامنے تا حدِ نگاہ بحرہ روم پھیلا ہوا تھا۔ہمیشہ کی طرح پرسکون اور اور پر اسرار۔ اپنے اندر انگنت کہانیاں اور افسانے چھپائے ہوئے۔صدیوں کو اپنے سینے میں سموئے۔ اکا دکا آبی پرندےچیخ کر سطح سمندر پہ ڈبکی لگاتے اور ابھرتے۔ کچھ ساعتوں میں، دور مغرب میں سورج غروب ہوا چاہتا تھا۔ دن کے وقت سن باتھ لینے والے کب کے جاچکے تھے۔ ساحل سمندر خالی ہوا پڑا تھا۔ ادہر ادہر کچھ جوڑے اپنی رومانی دنیا میں کھوئے راز ونیاز کر رہے تھے۔
میں نے اپنے پیچھے سڑک کے اُس طرف، دوسرے کنارے ایکڑوں پہ پھیلی ۔ چھٹی کی وجہ سے بند مارکیٹ کے ساتھ پارکنگ ایریا میں گاڑی کھڑی کی تھی۔مارکیٹ کے نزدیکی بار سے کچھ اسنیکس اور ایک مشروب کا ٹھنڈا کین خرید کر سڑک اور سڑک کے بالکل متوازی چلتے، ریلوے کے دوہرے ٹریک کو ان پہ بنےہوئے پُل کو پیدل چل کر عبور کیا اور ساحل سمند کی طرف آگیا۔
پل پیدل چلنے والوں کی سہولت کے لئیے ہے۔اوراسکی سیڑہیاں ساحلِ سمندر پہ اترتی ہیں۔ اِس طرف درختوں کے دو چار جھنڈ ہیں جن کے ساتھ ساتھ بنچوں کی قطاریں بنی ہیں اور ایک طرف کچھ فاصلے سے صاف پانی کے فوارے کی سی شکل میں شاور بنے ہیں۔ جہاں دن کو سن باتھ لینے والے گھر جاتے وقت سمندری پانی کے نمک اور ریت سے جان چھڑاتے ہیں۔
دور کہیں ڈوبتے سورج کی روپہلی کرنیں سامنے سطح سمندر پہر سونا بکھیر رہی تھیں۔نمازِ مغرب بھی کچھ دیر باقی تھی۔ یہ ساحل عام آبادی سے ہٹ کر ہے۔ ساحل پہ سوائے سمندرکی لہروں کے اضطراب اور آبی پرندوں کے کوئی آواز نہیں تھی ۔ ایک خاموشی کا سا تاثر ابھرتا تھا۔
”کن سوچوں میں کھوئے ہو؟ اداس نہ ہوا کرو۔ آسمان کے اس پار جانے والے لوٹ کر واپس نہیں آیا کرتے”۔ایک بھولی بسری شناسا سی آواز سنائی دیتی محسوس ہوئی۔
میں نے بینچ پہ بیٹھے ہوئے، اچانک چونک کر پیچھے مڑ کر دیکھا۔
درختوں کے جھنڈ میں گھری حویلی ۔زمین کو چھوتی شاخوں والے آموں کے پیڑ ۔ پانی کے چھڑکاؤ سے اٹھتی مٹی کی سوندھی خوُشبؤ۔ نیم کے درخت والے دالان میں بچھی کرسیاں۔دیوار کے ساتھ ساتھ لگے رات کی رانی کے پودے سامنے آدھ کھُلے چوبی پھاٹک سے شیشم کے درختوں کے دو رویہ قطاروں کے بیچوں بیچ کھیتوں سے گزرتی بڑی سڑک کو ملاتی نیم پختہ سڑک۔ اور وہ مہربان آواز۔ آناََ فاناَ ۔ پُھر سے ۔ غائب ہوچکے تھے اور ریلوے ٹریک سے ایک سبق رفتارٹرین شور مچاتی گزر گئی تھی اور سمندر کے اس کنارے پہ پھر وہی خالی ساحل اور خاموشی تھی۔میں نے خالی کین کو بنچ کنارے لگی کوڑا سمیٹنے والی ٹوکری میں اچھال دیا۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, ہم, ہو, ہونے, ہوں, ہوں۔آج, ہوئی, ہوئے, ہوا, ہوتی, ہوتے, ہوتا, ہیں, ہیں۔, ہیں۔چند, ہیں۔آسمان, ہے, ہے۔, ہے۔جوزیبپ, ہاؤس, فائز, فارم, ہر, ہسپانوی, قومی, قدرے, قصبے, لمبے, لوگ, لوٹ, لیتے, لٹکائے, لئے, مقیم, مقامی, ملے, ممکن, منہ, میں, میں۔, میاں, میدان, میری, میرے, مگر, ماریہ, مبالغہ, متقاضی, مجھ, مجھے, محسوس, مخل, مدعو, مسلمانی, مشکل, مشاغل, مطابق, معاملات, ن, نہ, نہیں, نہائت, چمکتی, نماز, نواحی, نے, چھٹی, نئے, نظر, وہ, وہی, وہاں, وقت, وقتوں, وی, ویک, ڈھال, والوں, واپس, وجہ, یہ, یہاں, یوں, یوروپی, یورپی, یا, یافتہ, ۔, ۔میں, ۔میری, ۔کہ, ۔کھلی, ۔پیر, ۔آخر, ۔انکے, ۔اور, ۔ابھی, ۔اس, ۔تھوڑی, ۔جوزیبپ, ۔دونوں, ۔علاقہ, ۔عام, کہ, کہنے, کل, کم, کو, کوئی, کی, کیا, کے, کھانے, کا, کار, کاروباری, کارِزار, کبھی, کبھار, کر, کرنا, کروا, کرتے, کرتا, کسی, گواہی, گوشت, گیا, گھمسان, گھر, گھرمیں, گئے, گاڑی, گر, گرم, پہ, پہنچا, پہنچاتھا۔, پہاڑی, پوچھتے, پی, پینے, پڑھنے, پڑا, پھیلی, پھر, پرانے, پشتی, ،, آفسجمعہ, آپ, آئی, إصرار, افطاری, اقامت, الکریم, الگ, الپائن, امراء, ان, انکی, انکے, انکا, اچھنپے, انتظامیہ, اور, اینڈ, ایک, ایکڑوں, ایسے, ایسا, آنکھوں, آتا, اکیلے, اپنی, اپنے, اپنا, اب, ابھی, اجلے, احترام, اس, اظہار, اعلٰی, بہ, بہت, بلکہ, بلا, بچے, بنائے, بند, بندے, بیچ, بیوی, بُک, بڑی, بڑے, بھلی, بھی, بھُوک, باہمی, بات, بدلے, بدلتے, بس, بستی, بعد, تقاضوں, تو, تین, تک, تھے, تھے۔, تھے۔دونوں, تھا, تھا۔, تاخیر, تعلق, تعلیم, ثابت, جہاں, جلتے, جنگل, جو, جوڑوں, جوش, جگہ, جھنڈا, جاننے, جانےکی, جانا, جاتے, جاتا, جدی, جس, حویلیوں, حکومتی, حد, خلوص, خوشگوار, خاص, خبر, خریت, د, دہمکی, دلاسہ, دن, دونوں, دوپہر, دوست, دوسرے, دینی, دیا, دیتے, دیتا, دیر, دُہلے, دھوپ, درختوں, ذاتی, رہ, رہے, رقبہ, رمضان, رن, روزہ, روزے, رُوٹھے, رکھ, رکھنے, رکھا, رکھتے, راوئتی, رات, زندگی, سمیت, سمجھ, سمجھایا, سی, سُو, سے, سؤر, سامان, سبھی, سراب!میں, شفاف, شہر, شناسا, شیر, شکر۔اپنی, شراب, شعور, صاف, ضروری, طرح, عہدوں, عہدیدار, عادت