اجتماعی شعور کا ارتقاء اور پاکستان کی کم ظرف اشرافیہ۔
عوام
جہاں تک سو فیصد دیانتداری کا تقاضہ ہے تو یہ سو فیصد دیانتداری دنیا کے عوام میں کہیں بھی نہیں پائی جاتی ۔اس بات کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ دنیا بھر کی جیلوں میں دنیا کی سبھی قوموں کے کرپٹ لوگ بند ہیں۔
لیکن پاکستانیوں کی اکثریت اپنے پیدائشی ماحول اور اپنے ارد گرد ہر طرف پائے جانے والی بے بسی اور روز مرہ زندہ رہنے کی جستجو میں زندگی گھسیٹنے کے لئیے معاشرے اور بااثر طبقے کی طرف سے مسلط کی گئی کرپٹ اقدار اور بدعنوانی کی وجہ سے محض زندہ رہنے کے لئیے ڈہیٹ بن کر ہر قسم کے ظلم و ستم پہ بہ جبر زندگی گزارنے پہ مجبور ہے۔
اور جب اپنی اور اپنے خاندان کا جان اور جسم کا سانس کا ناطہ آپس میں میں جوڑے رکھنا محال ہو جائے۔ اور ایسا کئی نسلوں سے نسل درنسل ہو رہا ہو اور ہر اگلی نسل کو پچھلی نسل سے زیادہ مصائب و آلام کا سامنا ہو اور اسی معاشرے کے ہر قسم کے رہنماؤں کی اکثریت جن میں مذہبی ۔ علمی۔ سیاسی۔ دینی۔ حکومتی ۔ فوجی۔ قسما قسمی کی حل المشکلات کی معجون بیچنے والے دہوکے باز۔اٹھائی گیر ہوں اور بد ترین اور بدعنوان ہوں۔ تو وہاں خالی پیٹ۔ اور بے علم۔ بے شعور عوام سے دیانتداری کا اور وہ بھی سو فیصد دیانتداری کا تقاضہ ظلم ہے۔
مندرجہ بالا بیان کردہ حالات ایسا کلٹ کلچر بنا دیتے ہیں جس میں دیانتداری کا خمیر پیدا ہی نہیں ہوتا۔جیسے رات کو دہوپ نہیں ہوتی۔ اور اس کا مظاہرہ پاکستانی معاشرے میں روزہ مرہ زندگی میں سرعام نظر آتا ہے ۔
کوڑھ کی کاشت کر کے خیر کی امید کیسے باندھی جائے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہمیشہ بڑے لوگ۔ مشہور لوگ۔ لیڈ کرنے والے لوگ۔ بااثر طبقہ سے سے تعلق رکھنے والے لوگ۔ اشرافیہ۔ حکمران۔ رہنماء۔ علماء۔ جرنیل۔ اساتذہ اور اس قبیل کے دیگر لوگ مثال بنا کرتے ہیں ۔
جیسے گھر کا سربراہ یا بڑا بھائی اگر سگریٹ نوشی ۔ شراب نوشی یا آوارہ گردی کرے تو سارا گھرانہ وہی عادتیں پکڑتا ہے۔مگر پاکستان کی اشرافیہ اور بااثر طبقے کو مثالی کہنے کی بجائے کم ظرف اور تنگ دل کہنا بجا نہ ہوگا کہ جن سے پاکستانی عام عوام کویئ مثبت تحریک پا سکے ۔
اس کے باوجود اگر پاکستانی قوم میں کچھ اقدار باقی ہیں تو یہ شاید ان جینز کا اثر ہے جو عام عوام کے خون میں شامل ہیں۔ اور ہنوز اخلاقی بد عنوانی کے خلاف مزاحمت کر ہے ہیں۔
ہمارا معاشرہ مختلف وجوہات کی وجہ سے ۔ ہزراوں سال سے غلامی میں پسنے کی وجہ سے مجبور و معذور ہےاور ہماری ذہنی بلوغت ہی نہیں ہوسکی۔
ہمارے معاشرے میں۔
ہماری انفرادی معاشی خود مختاری ۔ روٹی روزی۔ بنیادی ضروریات اور گھر جیسے تحفظ کا تصور ہی اپنے صحیح معنوں میں فروغ نہیں پا سکا ۔ کیونکہ پاکستان کی بہت بڑی آبادی کو یہ چیزیں مکمل آزادی اور عزت نفس کو پامال کئیے بغیر نصیب ہی نہیں ہوئیں ۔ تو شخصی آزادی یا اجتماعی سوچ بھلا کیونکر فروغ پاتیں؟
آج بھی پاکستان کی بڑی اکثریت کے لئیے۔ پٹواری۔ نیم خواندہ تھانیدار اور گھٹیا اخلاق و تربیت کے اہلکار۔ حکومت اور عام آدمی کے درمیان تعلق کا پُل ہیں۔اور ان سے آگے عام آدمی کی سوچ مفروضوں پہ قائم اپنے ملک و قوم کا تصور رکھتی ہے۔ اگر تو کوئی تصور رکھتی ہے؟۔
اور یہ سلسلہ برصغیر کے عوام کے ساتھ ہزاروں سالوں سے روا ہے ۔ اس لئیے عام آدمی کے نزدیک ۔ آزادی۔ عزت نفس۔ اور جائز حقوق کی بازیابی کا کوئی تصور ہی نہیں نپ سکا۔
اس لئیے وہ معاشرے میں ہر عمل اور اس کے رد عمل کے لئیے بااثر طبقے کی طرف دیکھتے ہیں ۔ اور اس بااثر طبقے کے عمل۔ بیانات اور منشاء کو ہی مقصد حیات سمجھتے ہیں۔ جس وجہ سے زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے وجود میں آتے ہیں اور اس سے آگے قومی شعور نہیں بڑھ پاتا۔
ان وجوہات کی بناء پہ ہمارے معاشرے میں اکثریتی طبقے کبھی کا کوئی رول نہیں رہا۔ اور یہی وہ وجہ ہے جس وجہ سے اکثریت کسی انقلاب یا تبدیلی میں کبھی کوئی کردار ادا نہیں کر سکی۔
کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں اور انیس سو سینتالیس سے آزاد ہیں۔لیکن دل پہ ہاتھ رکھ دیانتداری سے بتائیں کیا آزاد قوم اور مسلمان یوں ہوتے ہیں؟
اس کی یہ وجہ بھی وہی ہے کہ اسلام روزمرہ کی معاملگی حیثیت سے ہماری زندگیوں کا حصہ ہی نہیں بن سکا ۔ اس لئیے ہماری اخلاقی حدود و قیود عام طور پہ اسلامی اخلاق سے باہر ہوتی ہیں۔
جب عوام کو کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو وہ اپنے اپنے ۔ سرداروں۔ پیروں۔ دینی رہنماؤں ۔ علماء اکرام۔ سرکاری افسروں۔ سیاسی رہنماؤں ۔ حکومت اور حکمرانوں۔ فوج اور جرنیلوں کی طرف دیکھنا شروع کردیتے ہیں ۔ اور پھر جس کی کوئی ادا ۔ کوئی بات دل کو بھا جائے اسے اپنا اپنا ہیرو مان لیتے ہیں۔
ہمارا اجتماعی شعور کبھی تھا ہی نہیں۔ اور ہمارے نصب العین ہمیشہ بااثر طبقے نے طے کئیے۔
ہماری اشرافیہ۔ ہمارا بااثر طبقہ انتہائی بے ضمیر۔ دہوکے باز۔ کم ظرف۔ سطحی شخصیت کا مالک اور اپنے اقتدار یا اثر و رسوخ کے لئیے کسی بھی حد تک جانے کے لئیے تیار رہتا ہے۔
اور مرے پہ سو درے ۔ اس سارے تماشے سے کچھ قوم فروش اور ابن الوقت لوگوں نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا اور بغیر کسی جھجھک کے اپنی ابن الوقتی اور ضمیر فروشی کو نہائت بالا نرخوں پہ فروخت کیا۔ جسے حرف عام میں پاکستان کا "میڈیا” کہا جاتا ہے۔
یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ تیزی سے تنزلی کا شکار ہو رہا ہے۔ کیونکہ تنزل ہماری اشرافیہ پہ طاری ہے اور عام عوام وہیں سے تحریک پاتے ہیں ۔ چند اشتنساء چھوڑ کر۔ جسے فوری طور پہ پھیلانے کا اہتمام قوم فروش میڈیا اور اسکے مالکان کرتے ہیں۔
اس لئیے کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئیے کہ عام آدمی کیونکر اپنے مستقبل سے مایوس ہے۔ مگر اس کے باوجود اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانے کے لئیے بجائے کچھ مثبت قدم اٹھانے کے ۔ وہ بجائے خود اسی تنزلی میں شامل ہو رہا ہے۔
اور یہ وہ وجہ ہے کہ عام عوام میں۔ معاشرے میں۔ ہر طرف لاقانونیت۔ بد عنوانی۔ بے ایمانی۔ بد دیانتی۔ بد نظمی اور افراتفری نظر آتی ہے۔
اس لئیے پاکستان کے ان موجودہ حالات میں
عام آدمی میں اجتماعی شعور کی تربیت کرنا اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک اشرافیہ۔ یعنی بااثر طبقہ۔ دینی و سیاسی رہنماء۔ جرنیل اور حکمران ۔ اور پاکستان کے وسائل پہ قابض مافیا۔اپنے انداز نہیں بدلتی۔اور بد قسمتی سے تب تک پاکستان کے عوام کا مجموعی رویہ بدلنا اور اجتماعی شعور کا فروغ پانا۔ بغیر کسی معجزے کے ممکن نظر نہیں آتا۔ اور دائرے کا معکوس سفر جاری رہے گا۔
اگر عام عوام کو اس بات کا ادراک دلانا مقصود ہے کہ وہ ایک باعزت قوم ہیں اور انھیں ایک اجتماعی شعور بخشنا ہے۔ تانکہ وہ ایک قومی اخلاق اپنا کر اس ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں تو اس کے لئیے ضروری ہے کہ صرف حکومتی اداروں کے عام اہلکاروں اور عہدیداروں سے نااہلی ۔ بدنیتی اور بد عنوانی کا حساب نہ لیا جائے اور انھیں سلاخوں کے پیچھے بند کیا جائے کیونکہ عام اہلکاروں کو معطل کرنے یا چند ایک لوگوں کو ان کے عہدوں سے برخاست کر دینے سے۔ پاکستان کی بد عنوانی پہ قابو نہیں پایا جاسکتا ۔ ایسا کرنا تو دراصل دنیا کی بدترین۔ ایک نمبر کی بدعنوان پاکستانی اشرافیہ کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
اسلئیے یہ از بس ضروری ہے کہ پاکستان میں بد نیتی۔ بدیانتی اور بد عنوانی ختم کرنے کی کوشش کے لئیے لا محالہ طور پہ اس کا آغاز بالادست طبقے اور پاکستان کے وسائل پہ قابض کم ظرف اشرافیہ سے نہ کیا گیا تو ایسی ہر مہم ناکام ہو جائے گی۔ اور اجتماعی قومی شعور۔ ایک باوقار با اختیار قوم۔ اور ایک آزاد پاکستان کا تصور صرف چند ہزار لوگوں کو ناجائز تحفظ دینے کی وجہ سے محض ایک خیال بن کر رہ جائے گا۔
پاکستان کے وسائل پہ قابض چند ہزار نفوس کی کم ظرف اشرافیہ۔ یا۔ بنیادی اور ضروری سہولتوں کے مالک کروڑوں باشعور عوام کا ایک بااختیار اور آزاد پاکستان؟ جب تک یہ طے نہیں ہوتا۔ تب تک ہم ایک معکوس دائرے میں سفر کرتے رہیں گے اور بدیانت غفلت کا شکار رہیں گے۔
جاوید گوندل۔ بارسیلونا
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, Barcelona, Be-Laag, Gondal, Javed, ہم, ہمیشہ, ہماری, ہمارے, ہمارا, ہنوز, ہو, ہونا, ہوگا, ہوں, ہوں“۔, ہوئیں, ہوتی, ہوتی۔, ہوتے, ہوتا, ہوتا۔, ہوتا۔جیسے, فوج, فوجی۔, فوری, ہوسکی۔, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں۔ہمارا, ہیں۔لیکن, ہیں۔اور, ہیں۔اس, ہیں۔جب, ہیں؟اس, ہیرو, فیصد, ہے, ہے۔, ہے۔مندرجہ, ہے۔مگر, ہے۔یہ, ہے۔اور, ہے۔اس, ہے۔اسلئیے, ہے؟۔اور, ہےاور, فائدہ, ہاتھ, ہر, فروخت, فروش, فروشی, فروغ, فراہم, ہزار, ہزاروں, ہزراوں, قوم, قوموں, قومی, قوم۔, قیود, قائم, قابو, قابض, قبیل, قدم, قسم, قسمی, قسما, قسمتی, لوگ, لوگوں, لوگ۔, لیڈ, لیا, لیتے, لئیے, لئیے۔, لا, لاقانونیت۔, لانے, لاگ۔, مہم, مفروضوں, مقصود, مقصد, ملک, ملتا, ممکن, منشاء, موجودہ, میڈیا, میں, میں۔, میں۔ہماری, میںعام, مکمل, مگر, مافیا۔اپنے, مالک, مالکان, مان, مایوس, ماحول, مثال, مثالی, مثبت, مجموعی, مجبور, محال, محالہ, محض, مختلف, مختاری, مذہبی, مرہ, مرے, مردہ, مزاحمت, مسلمان, مسلط, مسئلہ, مستقبل, مشہور, مصائب, مظاہرہ, معنوں, معکوس, معاملگی, معاشی, معاشرہ, معاشرے, معجون, معجزے, معذور, معطل, نہ, نفوس, نہیں, نہیں۔, نہائت, نفس, نفس۔, نمبر, چند, نوشی, نیم, نیتی۔, چیزیں, نے, چھ, چھوڑ, نا, چاہئیے, ناکام, نااہلی, ناجائز, ناطہ, نرخوں, نزدیک, نسل, نسلوں, نصیب, نصب, نظمی, نظر, نعرے, و, وہ, وہی, ڈہیٹ, وہیں, وہاں, وقت, والی, والے, وجہ, وجوہات, وجود, وسائل, یہ, یہی, یوں, یا, یا۔, یعنی, ۔, ۔کوڑھ, ۔اس, ۔جیسے, کہ, کہنے, کہنا, کہیں, کہا, کلچر, کلٹ, کم, کو, کویئ, کوئی, کوشش, کی, کیونکہ, کیونکر, کیا, کیا۔, کیسے, کے, کئی, کئیے, کئیے۔ہماری, کا, کاشت, کبھی, کر, کرنے, کرنا, کروڑوں, کرے, کر۔, کرپٹ, کرتے, کردہ, کردیتے, کردار, کسی, گوندل۔, گی۔, گیا, گیر, گے, گے۔جاوید, گھٹیا, گھر, گھرانہ, گھسیٹنے, گئی, گا۔پاکستان, گا۔اگر, گرد, گردی, گزارنے, پہ, پچھلی, پیچھے, پیٹ۔, پیدا, پیدائشی, پیروں۔, پُل, پکڑتا, پٹواری۔, پھیلانے, پھر, پا, پامال, پانا۔, پایا, پاکستان, پاکستانی, پاکستانیوں, پاکستان؟, پائی, پائے, پاتیں؟آج, پاتے, پاتا۔ان, پسنے, آلام, آوارہ, آگے, آپس, آبادی, آتی, آتے, آتا, آتا۔, آدمی, آزاد, آزادی, آزادی۔, آغاز, اہلکاروں, اہلکار۔, اہتمام, افراتفری, افسروں۔, اقتدار, اقدار, المشکلات, الوقت, الوقتی, العین, امید, ان, انفرادی, انقلاب, انیس, انھیں, انتہائی, انداز, اور, ایمانی۔, ایک, ایسی, ایسا, اکثریت, اکثریتی, اکرام۔, اگلی, اگر, اٹھانے, اٹھایا, اپنی, اپنے, اپنا, ابن, اثر, اجتماعی, اخلاق, اخلاقی, اختیار, ادا, اداروں, ادراک, ارتقاء, ارد, از, اس, اسلام, اسلامی, اسی, اسے, اسکے, اساتذہ, اشتنساء, اشرافیہ, اشرافیہ۔, اشرافیہ۔عوام, بہ, بہت, بلوغت, بن, بنیادی, بنا, بناء, بند, بیچنے, بیان, بیانات, بڑی, بڑے, بڑھ, بڑا, بے, بھلا, بھی, بھا, بھائی, بھر, با, باہر, باقی, بالا, بالادست, باندھی, باوقار, باوجود, بااثر, بااختیار, بات, باد, بارسیلونا, بازیابی, باز۔, باز۔اٹھائی, باشعور, باعزت, بتائیں, بجا, بجائے, بخشنا, بد, بدلنا, بدلتی۔اور, بدنیتی, بدیانت, بدیانتی, بدترین۔, بدعنوان, بدعنوانی, برخاست, برصغیر, بس, بسی, بغیر, تقاضہ, تماشے, تنگ, تنزل, تنزلی, تو, تیار, تیزی, تک, تھا, تھانیدار, تانکہ, تب, تبدیلی, تحفظ, تحریک, ترقی, ترین, تربیت, تصور, تعلق, تعجب, ثبوت, جہاں, جن, جو, جوڑے, جیلوں, جینز, جیسے, جھجھک, جان, جانے, جائے, جائے۔, جائے۔مسئلہ, جائز, جاتی, جاتا, جاری, جاسکتا, جب, جبر, جرنیل, جرنیلوں, جرنیل۔, جس, جسم, جسے, جستجو, حقوق, حل, حیات, حیثیت, حکمران, حکمرانوں۔, حکمران۔, حکومت, حکومتی, حالات, حد, حدود, حرف, حساب, حصہ, خلاف, خمیر, خون, خواندہ, خوب, خود, خیال, خیر, خالی, خاندان, ختم, دہوکے, دہوپ, دل, دلانا, دنیا, دینی, دینی۔, دینے, دیکھنا, دیکھتے, دیگر, دیانتی۔, دیانتداری, دیتے, دائرے, درمیان, درنسل, درے, دراصل, ذہنی, رہ, رہنماء۔, رہنماؤں, رہنے, رہیں, رہے, رہا, رہا۔, رہتا, رول, رویہ, روٹی, روا, روز, روزہ, روزمرہ, روزی۔, رکھ, رکھنے, رکھنا, رکھتی, رات, رد, رسوخ, زندہ, زندگی, زندگیوں, زیادہ, سہولتوں, سفر, سلاخوں, سلسلہ, سمجھتے, سو, سوچ, سینتالیس, سیاسی, سیاسی۔, سے, سے۔, سکی۔کہنے, سکیں“, سکے, سکا, سکا۔اس, سگریٹ, سال, سالوں, سامنا, سانس, ساتھ, سارے, سارا, سبھی, ستم, سرکاری, سربراہ, سرداروں۔, سرعام, سطحی, شکار, شامل, شاید, شخصی, شخصیت, شروع, شراب, شعور, شعور۔, صحیح, صرف, ضمیر, ضمیر۔, ضروری, ضروریات, طور, طے, طاری, طبقہ, طبقہ۔, طبقے, طرف, ظلم, ظرف, ظرف۔, عہدوں, عہدیداروں, علمی۔, علم۔, علماء, علماء۔, عمل, عمل۔, عنوانی, عنوانی۔, عوام, عام, عادتیں, عزت, غفلت, غلامی

والعصر
۔سورة العصر۔
وَالْعَصْرِ * إِنَّ الإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ * إِلاَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴾ (العصر1-3)
ترجمہ۔
1)۔ عصر کی قسم
2)۔ بے شک انسان خسارہ میں ہے۔
3)۔ بجز اُن کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور آپس میں حق (بات) کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ۔
سورۃ والعصر ۔قرآنِ کریم کی دوسری مختصر سی سورت ہے۔ جس میں اللہ تعالٰی نے گواہی دی ۔ قسم اٹھائی ہے ۔ اور وہ زمانوں کی قسم ہے۔ وقت کی قسم ہے کہ جب کچھ بھی نہیں تھا ۔تو اللہ تعالی موجود تھا اور اللہ تعالٰی ہر زمانے کا شاہد ہے۔ گواہ ہے کہ ۔ اللہ تعالٰی سب زمانوں سے پہلے کا ہے۔ ہمیشہ سے ہے۔ اللہ تعالٰی نے سارے زمانے دیکھے ہیں اور حضرتِ انسان کو بار بار پھسلتے دیکھا ہے۔ اسی لئیے اللہ تعالٰی اپنے بندوں کو زمانوں کی قسم کھا کر یہ باور کرواتا ہے کہ مجھے سارے زمانوں کی۔ وقت کی قسم ہے ۔کہ میں زمانوں سے شاہد ہوں ۔ جانتا ہوں اور مجھے علم ہے کہ یوں ہوا ہے ۔ یوں ہوتا آیا ہے اور یہی حقیقت ہے کہ
انسان خسارے کا سودا کرتا ہے ۔ تھوڑے کے لئیے زیادہ چھوڑ دیتا ہے ۔ وہ کام کرتا ہے جس میں خود اس کے لئیے۔ اور دوسروں کے لئیے سراسر خسارہ ہوتا ہے ۔ اور اللہ تعالٰی یہ سب کچھ زمانوں سے یعنی ابتدائے آفرینش سے دیکھ رہا ہے۔ کہ یوں ہو رہا ہے ۔انسان خساروں کا، گھاٹے کا ۔ نقصان کا ۔ سودا کرتا ہے ۔
مگر ۔ ہاں وہ لوگ ؟۔ اور کون ہیں وہ لوگ ؟ جوخسارے کا سودا نہیں کرتے ۔جواہلِ خسارہ میں شامل نہیں ؟۔ وہ جو ۔ ایمان لاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے دین پہ ۔ اسکی بتائی ہوئی باتوں پہ ۔ اسکے احکامات پہ ۔ عمل کرتے رہے ہیں ۔ عمل کرتے ہیں۔ وہ حق بات کی تلقین کرتے ہیں، یعنی وہ حق بات کرتے ہیں ۔حق پہ عمل کرتے ہیں اور دوسروں کو ایسا کرنے کا کہتے ہیں ۔
یعنی وہ اہلِ حق ہیں ۔ جھوٹ سے بچتے ہیں ۔ ہیر پھیر ۔ مکروفریب اور دہوکہ دہی نہیں کرتے رہے ، نہیں کرتے۔ ہمیشہ سچ کہتے رہے ہیں ، سچ کہتے ہیں۔ کسی جابر ۔ کسی آمر سے نہیں ڈرتے ۔ کسی مصلحت یا دنیاوی فائدے کے لئیے سچ کا ساتھ نہیں چھوڑتے ۔ حق کو حق کہتے ہیں۔ خواہ اس کے لئیے کتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑے اور انکے ایمان ۔ اور صالح اعمال کی وجہ سے۔ اور حق کا ساتھ دینے۔ اور حق پہ ڈٹ جانے کی وجہ سے۔ جب حالات انکے ناموافق ہوجاتے ہیں۔ ان پہ جبر اور ستم کیا جاتا ہے ۔ انکا جینا دوبھر کر دیا جاتا ہے۔ تو وہ زمانے کی ریت اور چلن کا ساتھ دیتے ہوئے بدکار لوگوں کاساتھ ۔ بدکار رسموں ۔ اور رواجوں کا ساتھ ۔جابر اور آمر حاکموں اور ظالموں کا ساتھ نہیں دیتے ۔انکے ظلم اور ستم پہ خاموش نہیں رہتے ۔کچھ بس میں نہ رہے ۔اورجب ان سب ستموں پہ۔ ان کا بس نہ چلے۔ کوئی پیش نہ چلے۔ تو وہ صبر کرتے ہیں اور اپنی کوشش جاری رکھتے ہیں۔اور اپنے جیسوں کو صبر کرنے اور اور سچ پہ ڈٹے رہنے کی تلقین اور ہدایت کرتے ہیں۔ یعنی وہ خود بھی ایمان لاتے ہیں۔ یقین رکھتے ہیں۔ اور نیک اعمال کرتے ہیں۔ حق اور سچ کا ساتھ دیتے ہیں ۔ دوسروں کو یوں کرنے کا کہتے ہیں۔ اور جب پیش نہ جائے تو برائی میں شامل نہیں ہوتے ۔ برائی کے سامنے سپر نہیں ڈالتے اور خود بھی صبر کرتے ہیں ۔ اور اپنے جیسوں کو بھی ۔ حق بات کہنے پہ۔ جو نامساعد حالات سے ۔ لوگوں کے ناروا رویے سے۔ اور جوروستم سے جب واسطہ پڑتا ہے ۔ تو انہیں صبر سے سب برداشت کرنے کی تلقین اور تاکید کرتے ہیں ۔ تانکہ حق بیان ہو۔ حق جاری ہو۔ اور لوگ حق کے لئیے ڈٹ جائیں۔ ڈٹے رہیں۔ اور مصیبت اور پریشانی میں صبر سے سب کچھ برداشت کریں ۔ بس یہی وہ لوگ ہیں۔ وہ لوگ! جو سارے زمانوں سے آج تک خسارے میں نہیں رہے!! اور نہ کبھی خسارے میں ہونگے!!۔
اور اللہ تعالٰی عصر کی۔ زمانوں کی ۔ وقت کی ۔ انسان کی تاریخ کا گواہ ہے۔اور اللہ تعالٰی خود۔ اس وقت کی قسم کھا کر اپنی شہادت کو ۔ گواہی کو بنیاد بنا کر۔ حضرتِ انسان کو خسارے اور خسارے میں نہ رہنے والوں کے بارے بیان کر رہا ہے ۔خبردار کر رہا ہے کہ ازلوں سے ۔ زمانوں سے کون سے لوگ فائدے اور کون سے لوگ خسارے میں رہے ۔ہیں کیونکہ اللہ سب کے انجام کو جانتا ہے۔ اور اسوقت بھی جانتا تھا۔ جب ہم سے بھی پہلے کے زمانوں میں جو لوگ مختلف برائیوں کے سامنے جھکتے نہیں تھے۔ اور اللہ کے بتائے ہوئے حق کے رستے پہ چلتے تھے۔ اور پریشانیوں پہ صبر کرتے ۔اور دوسروں کو حق پہ چلنے۔ اور صبر کرنے کی تاکید کرتے تھے ۔ تو فائدے میں رہتے تھے۔ اور جو اس کے برعکس جو لوگ جو یوں نہیں کرتے تھے۔ دنیاوی فائدوں اور مصحلتوں یا خوف یا ڈر کی وجہ سے ۔ ایمان نہیں لاتے تھے۔ نیک عمل نہیں کرتے تھے۔ اور حق کا ساتھ نہیں دیتے تھے۔ اور حق کا ساتھ دینے کی وجہ سے مصائب پہ صبر کی بجائے ظلم اور برائیوں پہ خاموش ہوجاتے تھے ۔ اور نہ ہی دیگر حق کا ساتھ دینے والے لوگوں کو۔ اور مصائب جھیلنے پہ انہیں صبر سے۔ حوصلے کے ساتھ، برداشت کرنے کی تلقین کرتےتھے۔ تو یہ لوگ خسارے میں رہے ۔ اور خسارے میں ہیں اور ۔ خسارے میں رہیں گے ۔
اور چونکہ اللہ تعالٰی نے یہ سب ہمیشہ سے دیکھ رکھا ہے۔ اورجو ہم سے پہلے کے سارے زمانوں میں بنی نوع انسان ہو گزرے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ان سب کے انجام کو دیکھ رکھا ہے ۔ انکے کئیے کے نتیجے سے واقف ہے ۔ اور وہ گواہ ہے ۔ اسلئیے انہی سارے زمانوں کی اور بنی نوع انسان کی ساری گزری نسلوں سے انکے حالات سے انجام سے باخبر ہونے کی وجہ سے۔ اللہ تعالٰی ہمیں خبردار کر رہا ہے ۔ کہ ہم اسکی قسم اور گواہی پہ یقین کرتے ہوئے سابقہ زمانوں اور آنے والے وقتوں کے خسارہ پانے والے لوگوں میں شامل نہ ہوجائیں اور ہدایت پائیں۔
اس لئیے ہمارے ہاں جن برائیوں کو رواج سمجھ کر۔ یا جن پہ اپنے آپ کو بے بس سمجھ کر۔ انہیں خاموشی سے برداشت کر لیا جاتا ہے۔ اس میں شامل ہوا جاتا ہے ۔ تو اس سورت والعصر سے ہمیں انسانوں کی دونوں قسموں کا پتہ چلتا ہے ۔کہ خسارے یا گھاٹے والے کون ہیں۔ اور اللہ سے منافع کا سودا کرنے والے کون ہیں اور انکا طریقہ کار کیا ہے۔
اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آج کے حالات میں ہمیں کس طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہئیے ،۔یعنی ایمان لانا اور یہ یقین ہونا کہ اللہ نے جو فرما دیا ہے۔ وہ ہی درست ہے ۔ وہی ہمارا اللہ ۔ وہی ہمارا آقا و مالک ہے ۔ اور اسی کا دین سچا ہے۔ کہ جو ہم اللہ کی خاطر اپنے دین کی خاطر اور اپنے پہ فرض ہونے کی وجہ سے اور اس فرض کی خاطر نیک عمل کریں ۔ اور حق کا ساتھ اور سچ کا ساتھ کبھی نہ چھوڑیں۔ خواہ کتنی ہی مشکلیں درپیش کیوں نہ ہوں ۔ کسی مصلحت کے تحت جھوٹ ۔ مکاری۔ فریب اور ناجائز کام نہ کریں ۔ اور اگر ایسا کرنے میں۔ یعنی سچ کہنے اور حق کام کرنے میں مشکلات پیش آئیں کہ جو عموماً آتی ہیں۔ تو اس پہ زمانے کا رواج کہہ کر اس برائی میں شامل نہ ہوں ۔ خود بھی اور دوسروں کو بھی تاکید کریں کہ ناشکرے نہ ہوں ۔ پچھتائیں نہیں ۔ بلکہ اس پہ صبر کریں اور اچھے عمل ۔ نیک عمل کرنے نہ چھوڑیں۔ اور حق کا ساتھ نہ چھوڑیں ۔ ۔ اور یہ اللہ تعالٰی ہے جو سارے زمانوں کی بنیاد پہ اپنی گواہی اور اسکی قسم دے کر فرما رہا ہے۔کہ اس میں ہمارا فائدہ ہے۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: (العصر13)ترجمہ۔۔عصر, (خسارے, )کچھ, ہم, ہمیں, ہمیشہ, ہمارے, ہمارا, ہو, ہونے, ہونا, ہوں, ہوئی, ہوئے, ہوا, ہوتا, ہوجاتے, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں،, ہیر, ہے, ہے۔, ہے۔۔, ہے۔کہ, ہے۔اور, ہاں, فائدہ, فائدے, ہر, فرما, فریب, فرض, قسموں, لوگوں, لیا, لئیے, لئیے۔, لانا, لاتے, منافع, موجود, میں۔, مکاری۔, مکروفریب, مالک, مجھے, مختصر, مشکلیں, مشکلات, مصلحت, نہ, نہیں, نقصان, چلن, چلے۔, چلتا, نے, چھوڑ, چھوڑیں, چھوڑیں۔, چھوڑتے, چھوریں, چاہئیے, ناموافق, ناجائز, ناشکرے, و, وہی, وقت, ڈٹ, والوں, والے, والعصر, والعصر۔سورة, وجہ, ڈرتے, یہ, یہی, یقین, یوں, یا, یعنی, ۔, ۔قرآنِ, ۔مگر, ۔۔, ۔کہ, ۔کچھ, ۔کیں, ۔کا, ۔انکے, ۔اور, ۔اسلئیے, ۔تو, ۔جواہلِ, ۔جابر, ۔حق, ۔سورۃ, کہ, کہہ, کہنے, کہتے, کو, کون, کو۔گواہی, کوشش, کیوں, کی۔, کیا, کے, کھا, کا, کام, کا،, کار, کاساتھ, کبھی, کتنی, کتنا, کر, کرنے, کرنا, کرواتا, کریم, کریں, کر۔, کرتے۔, کرتا, کس, کسی, گواہ, گواہی, گھاٹے, پہ, پہلے, پچھتائیں, پیش, پڑے, پھیر, پھسلتے, پتہ, ،, ،۔یعنی, ؟, ؟۔, آفرینش, آقا, آمر, آئیں, آتی, آج, اہلِ, اللہ, العصر۔ وَالْعَصْرِ, ان, انہیں, انکے, انکا, اچھے, انسانوں, ایسا, اگر, اٹھانا, اٹھائی, اپنی, اپنے, ابدائے, احکامات, اختیار, اس, اسی, اسکی, اسکے, اعمال, بلکہ, بنیاد, بنا, بنتے, بندوں, بیان, بڑا, بے, بھی, باور, بات, باتوں, بار, بارے, بتائی, بدکار, برائی, برائیوں, برداشت, بس, تو, تھوڑے, تھا, تاریخ, تحت, تعالیٰ, تعالٰی, جن, جوخسارے, جینا, جھوٹ, جانے, جانتا, جابر, جاتا, جاری, جب, جبر, جس, حقیقت, حالات, حاکموں, حضرتِ, خواہ, خود, خاموش, خاموشی, خاطر, خساروں, دہوکہ, دہی, دنیاوی, دونوں, دوبھر, دوسروں, دوسری, دی, دین, دینے۔, دیکھے, دیکھا, دیا, دیتے, دیتا, دے, درپیش, درست, رہنے, رہا, رہتے, رویہ, رواج, رواجوں, ریت, رکھتے, رسموں, زمانوں, زمانے, زیادہ, سمجھ, سچ, سنا, سودا, سورت, سی, سے, سے۔, ساتھ, سارے, سب, ستم, ستموں, سراسر, شہادت, شاہد, شامل, صالح, طریقہ, طرح, ظلم, ظالموں, علم, عموماً, عصر
پاکستان کے خلاف سائبر گوریلا وار اور تجاہل عارفانہ۔
لوہے کی دریافت اور پہیے کی ایجاد پہ۔ انسانی زندگی میں ہونے والی تبدیلی اور انقلاب کی طرح ۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے حضرتِ انسان کی زندگی میں تیسرا بڑا انقلاب برپا کیا ہے۔اور دنیا محض چند سالوں میں بدل کر رہ گئی ہے ۔جس کا کچھ سالوں قبل تک تصور کرنا بھی انسانی فہم کے لئیے ناممکن تھا ۔ تعلیم۔ صحت۔ توانائی ۔صنعت ۔ دفاع ۔شوق ۔کھیل ۔تمام پیداواری شعبہ جات یعنی دنیا کا کوئی شعبہ اب ایسا نہیں رہا ۔جہاں کمپیوٹر یا اس کی ذیلی مصنوعات استعمال نہ ہو رہی ہوں ۔ دنیا میں اب خواہ کچھ بھی ہوجائے ۔ اب وہ پہلی سی دنیا واپس لانا ناممکن ہے ۔ اور کسی قوم کا اس نئی ٹیکنالوجیز کے بغیر ترقی کرنے کا خواب ،محض ایک خواب پریشاں کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔یہ تبدیلی اس رفتار سے ہورہی ہے ۔کہ جو ایجاد آج نئی اورانوکھی تصور کی جارہی ہے۔ وہ ہفتے عشرے بعد پرانی ہوچکی ہوگی اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ نئی نئی ایجادات اور از بس ضروری قسم کی جدید ٹیکنالوجیز اس تیز رفتاری سے وجود میں آرہی ہیں۔ کہ جو قومیں اس کا ساتھ نہ دے سکیں گی ۔ وہ یا تو محتاجِ محض بن کر رہ جائیں گی۔ یا پھر تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لئیے گُم گشتہ ہوجائیں گی ۔اور اس محتاجی اور گمشدگی کے لئیے ۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے قبل کے ”امتدادِ زمانہ “ ۔ ”نیرنگی زمانہ“۔اور ۔”گردشِ زمانہ“ جیسی اصطلحات بے معنی اور فرسودہ ثابت ہونگی ۔کیونکہ اب کمپیوٹر اور نت نئی ٹیکنالوجیز کے مقابلے میں ۔قوموں کی عدم تیاری کی وجہ سے۔ دیگر قوموں کی محتاجی کرنے۔ یا ۔تاریخ میں گُم گشتہ ہونے کا دورانیہ ۔”زمانوں“ ۔اور۔” صدیوں “۔کی بجائے محض چند دہائیوں پہ مشتمل ہوگا۔
یہ ایک عام معروف بات ہے ۔کہ جو ں جوں دنیا میں ذارئع ابلاغ نے ترقی کی ہے ۔ حریف ممالک ۔ حریف قوموں ۔حریف سیاسی جماعتوں ۔ حریف سیاسی نظریات۔ حتی کہ حریف کاروباری اداروں کے خلاف محسوس اور غیر محسوس طریقے سے پراپگنڈاہ اور بے ہودہ الزامات کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا ہے ۔ مگر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی ایجاد نے ذرائع ابلاغ کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔جس نے دنیا میں انسانی معاشروں میں اقدار اور طور طریقوں کو بدل کر رکھ دیا ہے ۔ اور محض چند بٹن دبانے سے ۔ ٹچ کرنے سے ۔ آپ ہزاروں میل دور ۔ خدا کی وسیع تر دنیا میں ۔ کہیں بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔ کسی بھی فرضی نام سے ۔درجنوں طریقوں سے اپنا مدعا بیان کر سکتے ہیں۔ کسی دوسرے فرد۔ گروہ ۔ معاشرے ۔ ملک ۔ قوم۔ مذہب۔ اقدار۔ طور طریقوں۔ کی ستائش اور تعریف کرسکتے ہیں۔ یا اختلاف کرتے ہوئے اپنا مدعا یا احتجاج درج کروا سکتے ہیں۔ اور آزادی ِ اظہار رائے کا بھرپور استعمال کرسکتے ہیں ۔ مگر ان باہمی رابطوں اور آزادی اظہار رائے کے پردے میں بہت سے مضمر پہلو بھی پوشیدہ ہیں۔ جس کا بہت سے لوگ شکار ہورہے ہیں۔ اس آزادی اظہار رائے کے پردے میں دنیا کے تقریبا سبھی ممالک میں ۔کچھ لوگ خصوصی طور پہ تیار کئیے جارہے ہیں ۔جو اپنے حریف اور دشمن ممالک کے کمپیوٹرز تک رسائی حاصل کرنے ۔ انکی جاسوسی کرنے ۔ انکی قیادت ۔ سائینس دانوں۔ اداروں ۔ افواج۔ دفاعی تنصیبات اور دیگر اہداف تک رسائی حاصل کرنے ۔ انکے کمپیوٹرز سوفٹ وئیرز کو تباہ کرنے جیسی تخریبی کاروئیاں کررہے ہیں ۔ اس تخریب کاری کو سائبر وار کا نام بھی دیا جاتا ہے ۔ جو کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ۔
مگر اس اس سائبر تخریب کاری سے بھی زیادہ خطرناک۔ اس سائبر وار کا نہائت مہلک ہتیار ایک اور بھی ہے۔ جس کے نقصان دہ اثرات ۔سائبر تخریب کاری سے کئی گناہ زیادہ ہیں ۔ جس کے تحت دشمن ممالک اور عالمی طاقتوں کے خاص طور پہ تیار کردہ پیشہ ور افراد ۔اسلام اور مسلمان قوموں خاص کر ۔ پاکستان ۔نظریہ پاکستان ۔ اور افواجِ پاکستان کے خلاف۔ ایک پیشہ ورانہ تیاری کے ساتھ۔ بھرپور طریقے سے حملہ آور ہوتے ہیں۔ اور عام طور پہ مسلمان ناموں کے ساتھ ۔ مسلمانی کے پردے میں ۔ انکے حملے کا انداز۔ نہائت بے ساختہ اور بظاہر بے ضرر لیکن انتہائی مضر ہوتا ہے ۔ ایسے لوگ۔ اسلام ۔ پاکستان ۔نظریہ پاکستان ۔ اور افواجِ پاکستان کے بارے شکوک اور افواہیں پھیلاتے ہوئے ۔پاکستانی معاشرے ۔ ملک ۔ قوم۔ مذہب۔ اقدار اور طور طریقوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس بارے افواہیں۔ بے بنیاد باتیں۔ شکوک و شبہات ۔ نوجوانوں کو احساس کمتری میں مبتلاء کرنا ۔ اور مایوس کُن نظریات پھیلانے۔ میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں ۔ جو اپنے اس طریقہ کار کو آگے بڑھانے کے لئیے اپنے ساتھ لوگوں کو ملانے میں ماہر ہوتے ہیں ۔ اور بد قسمتی سے اسلام اور پاکستان سے شاکی کچھ لوگ۔ الحاد ی ۔ قادیانی۔ نظام سے شاکی۔ دین بیزار۔ اور کچھ ناعاقبت اندیش محض جدت کے شوق میں۔ ان کے آلہ کار بن کر اپنے ہی ملک و قوم کی جڑیں کاٹتے مصروف ہیں۔ اور نہائت زہریلے افکارات۔ معصوم اور سادہ نوجوانوں میں پھیلا رہے ہیں ۔ جن کا ایک خاص مقصد۔ اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان کے خلاف ۔ایک رائے عامہ تیار کرنا ہے ۔ جو بغیر کسی تحقیقی یا مطالعیاتی تکلف کے۔آنکھیں بند کر کے۔ انکے زہریلے پروپگنڈے پہ یقین لے آئے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں انٹرنیٹ اور حال ہی میں تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی فون پہ دستیاب ہونے کی وجہ سے ۔ واجبی تعلیم اور سطحی ذہنیت کے کچھ بے وقوف لوگوں کے ہاتھ میں ایک فون اور انٹرنیٹ ایسے آگیا ہے جیسے بندر کے ہاتھ میں ماچس۔ اور وہ نہ آؤ دیکھتے ہیں نہ تاؤ ۔ بس پورن سائٹس سے اخلاقی بگاڑ پیدا کرنے سے لیکر۔ لوگوں کو گالم گلوچ دینے ۔اور اپنے ہی ملک کے بارے فیشن کے طور پہ ۔اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان۔ کے خلاف گھڑی گھڑائی باتیں لکھنے۔ اورایک نئے میڈیا پہ ۔محض چند لائکس حاصل کرنے کے لئیے ۔ اول فول بکتے چلے جاتے ہیں ۔
مگر جو زیادہ سنجیدہ اور اور حساس لوگوں کے لئیے پریشان کُن مسئلہ ہے۔ وہ انٹر نیٹ پہ ۔ فیس بُک ۔ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پہ۔ بہت سے ہندؤوں ، قادیانیوں اور حتی کہ کچھ اردو جاننے والے یہودی صہونیوں نے ۔ مشنریوں نے ۔الحادیوں اور پاکستان سے بیزار نام نہاد تاریخ دانوں ۔ ماضی کے کچھ نام نہاد ترقی پسند اور آجکل امریکہ کی محبت میں دیوانے ۔ قوم فروش لوگوں نے۔ مسلمانوں اور دیگر نام سے اسلام ۔ پاکستان ۔نظریہ پاکستان ۔ اور افواجِ پاکستان کے خلاف بہت سے پیج بنا رکھے ہیں۔ پاکستانیوں میں لسانی اور صوبائی حتٰی علاقائی تعصب ابھارتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جنا ح اور اقبال رحمتہ اللہ علیہ جیسی شخصیتوں کے اسلام اور پاکستان کے بارے واضح افکارات کو مشکوک بنا کر پیش کرتے ہیں۔ کچھ بد بخت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے ۔ مسلمانی کے پردے میں نہائت رقیق اور غلیظ باتیں تک ان سے منسوب کرنے سے باز نہیں آتے۔
اپنے پیجز پہ۔ یہ لوگ نام بدل بدل کر اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان۔ کے بارے ہرزہ سرائی کرتے ہیں ۔ ایک دوسرے کی ستائش کرتے ہیں۔ اور بقائے باہمی کے تحت ایک دوسرے کی پوسٹس لائک اور شئیر کرتے ہیں۔ یہ لوگ دین اسلام اور پاکستانی کی اساسی بنیادوں کے بارے پیشہ وارانہ تیاری کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں۔جب کوئی انہیں مدلل جواب دے تو الامان الحفیظ ۔ یہ اسے جواب تک نہیں لکھنے دیتے ۔ غلیظ ہتکھنڈوں سے اس کے لتے لیتے ہیں ۔
بعض کا طریقہ واردات نہائت نپا تُلا ہے ۔ یہ مسلمانی کے پردے میں ۔اپنی طرف سے گھڑی مشکوک احادیث تک دھڑلے سے بیان کر دیتے ہیں۔ جب قائد اعظم محمد علی جنا ح رحمتہ اللہ اور اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے مسلمانی کردار کے بارے ۔ اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان۔ کے بارے فرضی کتابوں اور دانشوروں کے نام کا حوالہ دے دیں گے ۔۔ فرضی یا پچھلے کچھ سالوں سے پاکستان کے خلاف لکھنے والے ۔دیہاڑی دار۔ بزعم خویش دانشور اور تاریخ دان کے نام سے حوالہ دیں گے ۔ جن میں سے کچھ نے پاکستان کے خلاف۔ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے دھڑلے سے زہر اگلا ہے ۔ ان چند بکاؤ مال کےنام لکھ دیں گے ۔ ”فرضی ڈاکٹر دانشوروں کے نام سے فرضی کتاب سے استفادہ “لکھ کر شکوک اور مایوسی پیدا کرنے والے اسٹیٹس لکھ دیں گے۔
عام طور پہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے پیجز کو خواہ وہ کس قدر ہی دل آزار کیوں نہ ہو۔متعقلہ میڈیا کو رپوٹ کیا جائے۔ تو میڈیا کی انتظامیہ کا ۔پہلے سے پرنٹڈ جواب لمحوں میں آجائے گا ۔ کہ ”آپ کا شکریہ ۔ لیکن ہماری ٹیم نے متعلقہ پیج۔ یا تصویر پہ ایسا کوئی قابلِ اعتراض مواد نہیں دیکھا جس بارے آپ نے رپوٹ کی ہے“۔ اور ملک و قوم اور اسلام سے محبت رکھنے والے گُمنام لوگ ۔ انتہائی بے بسی سے ۔پھر سے۔ ایسے پیجز کے خلاف اپنی مقدور بھر کوشش سے۔ لکھنے میں جڑ جاتے ہیں ۔ مگر اسی پہ بس نہیں ۔ ایسے اسلام اور پاکستان ۔ دشمن پیجز کا مقابلہ کرنے والوں کو۔ اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان کا رضاکارانہ طور پہ دفاع کرنے والے لوگوں کو۔ حیرت کا جھٹکا اس وقت لگتا ہے۔ جب الٹا ایسے درد مند مسلمانوں اور محب الوطنوں کو اس پیج سے ہی نہیں۔ بلکہ اس سوشل میڈیا ہی سے بلاک کر دیا جاتا ہے ۔ اور وہ محض ایک ناظر کی حیثیت کے سوا ۔ کوئی سوال کرنے ۔ یا کچھ لکھنے یا شئیر کرنے یا اپنی رائے دینے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ یا اان کی آئی ڈی کو ہمیشہ کے لئیے بلاک کر دیا جاتا ہے۔
ہمارا مسئلہ۔ جسے بجا طور پہ ایک قومی مسئلہ کہا جا سکتا ہے ۔ وہ یہ ہے ۔ کہ پاکستان میں انٹر نیٹ عام ہونے سے اور خاصکر ٹیبس اور فون پہ انٹر نیٹ عام ہونے سے۔ کچھ لوگ تو اس سے اپنی تعلیمی ۔ کاروباری۔ باہمی رابطے ۔ مطالعاتی ۔ عام ریسرچ اور دینی اور دیگر کئی طرح کی سرگرمیوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ مگر کچھ ایسے بھی کم تعلیم یافتہ۔ یا ۔واجبی تعلیم کے حامل لوگ ہیں ۔ جو اس طرح کی سائٹس اور فیس بک۔ ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پہ ۔ اسلام اور پاکستان دشمن لوگوں کی ۔مشکوک اور مایوس باتوں ۔اور جھوٹی دلیلوں سے۔ دینی علوم اور پاکستان کے بارے مطالعہ کم ہونے کی وجہ سے ۔آسانی سے ٹریپ ہوجاتے ہیں۔ اور اسلام اور پاکستان کے بارے مختلف شکوک کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ ایسے شکار ہونے والے لوگوں میں نوجوان لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔جس سے قومی اور اسلامی سوچ منتشر ہورہی ہے ۔ اور پہلے سے انتشار کے شکار ۔معاشرہے میں عجیب و غریب اور نت نئے قسم کے افکارات کی فصل بونے کی کوشش ۔نہائت چابک دستی سے کی جارہی ہے۔جو آئیندہ چند سالوں میں پاکستان کے لئیے ایک بہت بڑی سردردی ثابت ہوگی۔
اس میں کوئی شک نہیں تقریبا ہر محاذ پہ مسلمان اور محب الوطن لوگوں نے ۔ایسے لوگوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔مگر کلی طور پہ اس مسئلے کا حل یہ ہے ۔کہ پاکستان میں قائم کئیے گئے ادارے جو سفید ہاتھیوں سے کم نہیں۔ انہیں اس نئی قسم کی سائبر گوریلا وار کے لئیے فعال کیا جائے ۔ انہیں ٹیلینٹد اور پڑھے لکھے افراد مہیاء کئیے جائیں۔ جو پروگرامرز ہوں۔ جو ایسی نئی ٹیکنالوجیز پہ عبور رکھتے ہوں۔ انکی متواتر تریبت کا بندوبست ہو۔ وہ ایسی ٹیکنالوجیز کا اسلامی اور ملکی مفاد میں حل نکالیں۔ انکا توڑ سوچیں ۔ اور ایسے لوگ جو صاحب علم ہوں ، ذہین ہوں اور اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان کے بارے سازشی اور مایوس نظریات پھیلانے والوں کا منہ توڑ جواب دے سکیں ۔ اور گوریلا سائبر وار کو یومیہ بنیادوں پہ روکنا ہوگا۔
پاکستان میں الکٹرانک میڈیا ۔جہاں سے نہائت سائنٹیفک طریقے سے۔بارہا ۔ اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان۔حملے کئیے گئے ۔ اور حکومت پاکستان اور متعقلہ ادارے ۔ پیمرا وغیرہ ۔میڈیا کو کسی ضابطہ اخلاق کے پابند بنانے میں ہنوز ناکام ہیں ۔سیاسی پارٹیاں اور حکمران۔ جو بجائے خود اسی بے لگام الیکٹرانک میڈیا پہ ۔اپنی بات کہنے کے لئیے اسی میڈیا کے محتاج ہیں ۔ وہ الیکٹرانک میڈیا کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہیں تو اسکے خلاف کاروائی کیسے کریں گے۔اور الیکٹرانک میڈیا کی ہی بے ہودگی کیا کم تھی ۔ کہ سوشل میڈیا سے پاکستان کے خلاف باقاعدہ ایک گوریلا سائبر وار چلائی جارہی ہے۔اور ذہن یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس کے خلاف کیونکر پاکستانی حکمران ایک موثر جوابی کاروائی کو معمول بنا سکیں گے؟۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری حکومتوں اور ارباب اقتدارو اختیار ۔ اور ذمہ داران کو۔ ان محکموں کو ۔جو ایسی نئی اور جدید ٹیکنالوجی کی جنگ کے لئیے تیار کئیے گئے ہیں ۔ انھیں خبر ہی نہیں۔ یا خبر ہے تو ۔وہ پاکستان کے دیگر اداروں کی طرح۔محض حکمرانوں کی کاسہ لیسی کے سوا کچھ اور کرنے کو تیار نہیں۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, ”امتدادِ, فہم, ہفتے, ہمیشہ, ہو, ہونے, ہوچکی, ہوگی, ہوگا۔یہ, ہوں, ہوجائیں, ہوجائے, ہورہی, ہیں۔, ہے, ہے۔, ہے۔اور, ہر, قوم, قومیں, قبل, قسم, لئیے, لانا, میں, محتاجی, محتاجِ, محض, مصنوعات, نہ, نہیں, چند, نے, نئی, ناممکن, وہ, والی, والے, واپس, ڈار, وجود, یا, یعنی, ۔, ۔کہ, ۔کھیل, ۔اور, ۔تمام, ۔جہاں, ۔جس, ۔شوق, ۔صنعت, کہ, کمپیوٹر, کوئی, کی, کیا, کے, کا, کر, کرنے, کرنا, کسی, گمشدگی, گوریلا, گی, گی۔, گُم, گئی, گزرنے, گشتہ, ٹیکنالوجیز, پہلی, پہیے, پہ۔, پیداواری, پھر, پاکستان, پریشاں, پرانی, ،محض, آج, آرہی, انقلاب, انٹرنیٹ, انسان, انسانی, اور, اوراق, اورانوکھی, ایک, ایجاد, ایجادات, ایسا, اب, از, اس, استعمال, بن, بڑا, بھی, بدل, برپا, بس, بعد, بغیر, تو, توانائی, تیز, تیسرا, تک, تھا, تاریخ, تبدیلی, تجاہل, ترقی, تصور, تعلیم۔, جو, جائیں, جات, جارہی, جدید, حضرتِ, خلاف, خواہ, خواب, دفاع, دن, دنیا, دے, دریافت, ذیلی, رہ, رہی, رہا, رفتار, رفتاری, زمانہ, زندگی, سوا, سی, سے, سکیں“, سالوں, سائبر, ساتھ, شعبہ, صحت۔, ضروری, طرح, عارفانہ۔لوہے, عشرے
پھر بجٹ۔
Budget (مالی سال جولائی 2014ء تا 2015 ء)
دور روز قبل پاکستان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے پاکستان کا سالانہ (مالی سال جولائی 2014ء تا 2015 ء)بجٹ پیش کیا ہے ۔
یہاں حالیہ پیش کردہ بجٹ کے گورکھ دہندے پہ بحث کرنا مقصود نہیں ۔ کیونکہ یہ لچھے دار اور گنجلک بجٹ ہمیشہ سے عام آدمی کی سمجھ سے بالا تر رہے ہیں اور عام خیال یہی ہے کہ انہیں بابو لوگ پاکستان کے دیگر سرکاری نظام کی طرح جان بوجھ کر بھی کچھ اسطرح پیچیدہ اور سمجھ میں نہ آنے والی چیز بنا دیتے ہیں تانکہ عام عوام حسبِ معمول ہمیشہ کی طرح محض سر ہلا کر ”قبول ہے“ کہنے میں ہی عافیت سمجھے ۔
بجٹ کی ایک سادہ تعریف تو یہ ہے کہ کسی بھی ذاتی یا مشترکہ نظام کو چلانے کے لئیے اس نظام پہ اٹھنے والے اخراجات اور اسکی ترجیجات کے لئیے کسی ایک خاص مدت کے لئیے دستیاب میسر وسائل کی منصوبہ بندی کرناہے۔ اسے عام طور پہ بجٹ کہا جاتا ہے ۔ بجٹ ذاتی یا گھریلو بھی ہوسکتا ہے ۔محکمہ جاتی یا ملکی بھی ہوتا ہے ۔ گھریلو ہو تو عام طور پہ اسے ماہانہ بنیادوں پہ سوچا جاتا ہے اور اگر ادارہ جاتی اور ملکی ہو تو اسے سالانہ بنیادوں پہ بنایا جاتا ہے ۔ جسے ملک و قوم کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر سالانہ بنیادوں پہ تیار کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پہ تقریبا سارے دنیا کے ممالک کسی نہ کسی طور سالانہ بجٹ کے تحت اپنے معاملات چلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جس میں مختلف مقاصد کے لئیے مخصوص رقم مقرر کی جاتی ہے اور رقم اور وسائل کی دستیابی کے لئیے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔قومی ترقی۔ دفاع ۔ صحت ۔ تعلیم اور دیگر اہداف مقرر کئیے جاتے ہیں ۔ جبکہ پاکستان میں بجٹ کے آغاز سے بجٹ کے مالی سال کے اختتام تک بندر بانٹ ۔ وقتی ضرورت ۔ بد دیانتی اور دیگر کئی قسم کے جوازوں کے تحت قومی خزانے کے صندوق کا ڈھکن اٹھا دیا جاتا ہے اور بڑھے ہوئے ہاتھ ۔ قوم کی امانت رقم کو قومی ضروت سے کہیں زیادہ اپنی ذاتی اغراض کے لئیے اپنی طرف منتقل کر لیتے ہیں اور منتقلی کا یہ عمل ایسی سائنسی طریقوں سے کیا جاتا ہے ۔ کہ قومی خزانے کو بے دردی سے لُوٹنے والے چور بھی حلق پھاڑ پھاڑ کر ”چور“ چور“ کا شور مچاتے ہیں ۔اور مجال ہے کہ چشم دید گواہوں اور شہادتوں کے باوجود ایسی طریقہ واردات پہ کسی کو سزا دی گئی ہو۔ اور پاکستان کے نصیب میں ہمیشہ سے یوں ہی رہا ہے ۔
قوم کی امانت ۔ قومی خزانے کو خُرد بُرد ہر اور ہیرا پھیری سے اپنی جیب میں بھر لینا ۔شیر مادر کی طرح اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔ایسے میں کم وسائل اور عالمی مہاجنوں کے مہنگے قرضوں۔ امداد و خیرات سے تصور کئیے گے وسائل سے (خسارے کا بجٹ) خسارے کے بجٹ پہ حکومتوں اور اداروں کے سربراہوں ، مشیروں وزیروں کے شاہی اخراجات اور ایک عام چپڑاسی سے لیکر عام اہلکاروں اور اعلٰی عہدیداروں کے حصے بقدر جثے اور دیگر اللوں تللوں سے یہ تصور محض تصور ہی رہتا ہے کہ کہ پاکستان سے غربت اور ناخواندگی ختم ہو اور قومی ترقی کی شرح میں قابل قدر اضافہ ہو۔اور مالی سال کے آخر میں وہی نتیجہ سامنے آتا ہے جو پاکستان میں پچھلی چھ دہائیوں سے متواتر آرہا ہے کہ نہ صرف غریب ۔ غریب سے غریب تر ہوتا گیا بلکہ ہر سال غریبوں کی تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے ۔ عالمی اداروں کی حالیہ حد بندیوں میں پاکستان کئی درجے نیچے کو لڑھک رہا ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں غریبی کی سطح سے نیچے زندگی Low povertyگزارنے والی آبادی نصف سے زائد ہے ۔ خود اسحق ڈار نے اپنی بجٹ تقریر میں یہ بات تسلیم کی ہے کہ پاکستان کی نصف سے زائد آبادی غریبی کی آخری حد سے نیچے ۔ یعنی دو ڈالر یومیہ آمدن سے کم کماتی ہے۔ یعنی ایسے غریب جو مستقبل کے بارے کسی قسم کی منصوبہ بندی کرنے سے محض اس لئیے قاصر ہیں کہ وہ اپنے یومیہ بنیادی اخراجات پورے کرنے کی جستجو میں محض زندہ رہنے کا جتن کر پاتے ہیں۔ایسے حالات میں ایک لگے بندھے بجٹ کے طریقہ کار سے حکومت اور ذمہ دار اداروں کا اپنے آپ کوقومی ذمہ داریوں سے سبک دوش سمجھ لینا۔ پاکستان کی اکثریتی آبادی کی انتہائی غریب آبادی کی غربت اور غریبوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے مترادف ہے۔
پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی بجٹ اجلاسوں پہ اعدو شمار پیش کئیے جاتے ہیں ۔ اور ان پہ کئی کئی دن لگاتار یوانوں میں اجلاس ہوتے ہیں ۔ جہاں حکوت بجٹ کے حق میں دلائل دیتی ہے وہیں حب اختلاف اور دیگر جماعتیں بجٹ کی خامیوں کی نشاندہی کرتی ہیں ۔ حزب اختلاف کئی ایک تجاویز دیتی ہے ۔ حزب اختلاف اور حکومت سے باہر سیاسی جماعتیں حکومت کے متوازی۔ اپنے طور پہ بجٹ کے لئیے باقاعدہ تیاری کرتی ہیں ۔اور متبادل تجاویز کو کئی بار حکومت تسلیم کر لیتی ہے۔ اور ایک بار بجٹ طے پا جانے پہ اسے پائے تکمیل تک پہنچانے کے لئیے حکومت تہہ دل سےمقر ر کردہ اہداف حاصل کرنے کے لئیے مطلوب وسائل مہیاء کرتی ہے۔ ہمارے ارباب اقتدار و اختیار اور اور قومی اسمبلی کے معزز اراکین کا یہ عالم ہے کہ ایک اخباری اطلاع کے مطابق قومی خزانے سے کرڑوں روپے خرچ کر کے قومی اسملی کے ارکان کے لئیے بجٹ کی دستاویز چھپوائی گئی ۔ جسے ستر فیصد سے زائد قومی اسمبلی کے معزز ارکان بغیر کھولے ہی قومی اسمبلی ہال کے ہال میں اپنی سیٹوں پہ چھوڑ گئے ۔ اس میں حکومتی ارکان بھی شامل ہیں۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار کی تقریر کے دوران بھی قومی اسمبلی کی اکثریت ۔ بیزار ۔ بور اور آپس میں بات چیت کرتی نظر آئی ۔ ہماری رائے میں پاکستان سے متعلق اتنے اہم مسئلے پہ عدم دلچسپی کے اس مظاہرے کی وجہ اراکین اسمبلی کو بھی پاکستان کی سابقہ بجٹوں کی طرح اس بجٹ پہ بے یقینی اور بجٹ پیش کرنے کی کاروائی محض ایک رسم اور ایک قومی تقاضا پورا کرنے کے مترادف لینا ہے اور دوسری بڑی وجہ معزز اراکین کی بڑی تعداد کی تعلیمی استعداد اور سوجھ بوجھ کی کمی ہوسکتی ہے ۔ تو ایسے حالات میں پاکستان جیسے غریب سے غریب تر ہوتے معاشرے کے لئیے ایک قابل عمل اور نتیجہ خیز بجٹ کے لئیے مفید اصلاحات کون پیش کرےگا؟، حکومت کے بجٹ کی خامیوں کی نشاندہی کون کرے گا؟۔اسحق ڈار کے لبوں پہ ایک فاتح کی سی معنی خیز مسکراہٹ بھی اس امر کی غمازی کر رہی تھی ۔کہ کوئی تنقید نہیں کرے گا۔ اور بجٹ معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہوجائے گا۔ تو ایسے حالات میں پاکستانی عوام کس کا پلُو تھام کر اسطرح کے بجٹوں پہ فریاد کریں ؟۔
آجکل پاکستان میں ٹیکس گزاروں کا نیٹ ورک بڑہانے کے لئیے بہٹ شور مچا ہوا ہے ۔ بہت سے ترقی یافتہ اور ٹیکس سے چلنے والے ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ اور پاکستان میں ٹیکس گزاروں کی ٹیکس چور ی کو تنقید کا نشانہ بنانا عام ہے ۔ لیکن اس بات کا کوئی تذکرہ نہیں کرتا کہ اُن ممالک میں حکومتی ادارے کس طرح عوام کے ٹیکسوں سے ملکی آمدن کو سوچ سمجھ کر انتہائی ذمہ داری اور دیانتداری سے ایک مکمل منصوبہ بندی سے استعمال میں لاتےہیں جس کے نتیجے میں عام آدمی کو ہر قسم کی بنیادی سہولتیں میسر ہوتی ہیں اور عوام کی فلاح بہبود اور ترقی پہ ٹیکسوں کو خرچ کیا جاتا ہے ۔ اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے لوگوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جاتا اور انہیں نہ صرف کریمنل یعنی سنگین مجرم بلکہ اخلاقی مجرم بھی تصور کیا جاتا ہے ۔ ایسے لوگوں کے نام سے عام آدمی گھن کھاتا ہے اور انکا ذکر انتہائی ناگواری سے کرتا ہے ۔ اور بہت سے ممالک میں ایسے حکومتی عہدیدار اور سیاستدان اسطرح کے اسکینڈل منظر عام پہ آنے سے اپنے عہدوں سے استعفی دے کر گھر بیٹھ جاتے ہیں ۔ اپنے مقدموں کا سامنا کرتے ہیں ۔ اور بہت سے بدنامی کے ڈر اور لوگوں کی نظروں کی تاب نہ لا کر خود کشی کر لیتے ہیں ہیں ۔ جبکہ پاکستان میں ؟۔۔۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ کلچر عام ہے اور اسے ستائشی نظروں سے دیکھا جاتا ہے ۔ کہ جو جتنا بڑا چور ہوگا اسکے حفظ و مراتب بھی اسی حساب سے زیاد ہ ہونگے ۔ وی وی آئی پی تصور کیا جاتا ہے ۔ ایسے لوگ کسی وجہ سے اپنا عہدے سے سبک دوش ہوجائیں تو بھی انہیں ہر جگہ ۔ہر ادارے میں خصوصی اہمیت دی جاتی ہے ۔ایسے ماحول اور معاشرے میں تو ہر دوسرا فرد کسی نہ کسی طرح روپیہ کما کر جلد از جلد اہمیت پانا چاہے گا۔ خواہ اس کمائی کے حلال اور حرام ہونے پہ سو ال اٹھیں۔جبکہ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ جن کی وجہ سے ملک کی آج یہ حالت ہے کہ غریب اور مجبور لوگوں کی محض روز مرہ مسائل کی وجہ سے خودکشیوں میں شرح میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے ۔ انہیں ۔ ایسے لوگوں کو حقیر جانا جاتا ۔انکی حوصلہ شکنی کی جاتی ۔ اور نیک ۔ دیانتدار اور ٹیکس گزار وں کو قابل احترام سمجھا جاتا ۔ انکی حوصلہ افازئی کی جاتی تانکہ محنت سے آگے بڑھنے کا کلچر فروغ پاتا۔ عام آدمی بجائے شارٹ کٹ ڈہونڈنے کے محنت پہ یقین رکھتا۔مگر نہیں صاحب ۔ قومی چوروں کو حرام کے ۔ لُوٹ کھسوٹ اور قومی خزانے کو نقصان دے کر بنائی گئ جائیدادوں اور پیسے کی وجہ سے ہر جگہ سر آنکھوں پہ بٹھایا جاتا ہے ۔ اور جو لوگ بالواسطہ یا بلا واسطہ ٹیکس ادا کرتے ہیں انہیں انتہائی حقارت سے دھتکار دیا جاتا ہے ۔ تو سوال یہ بنتا ہے کہ پھر آپ کس طرح اپنے ٹیکس گزاروں کے نیٹ ورک میں اضافہ کرنا چاہئیں گے ۔ اور ٹیکس نہ دینے والوں کا رونا رونے کے ساتھ اپنی کمزوریوں اور خامیوں سے بھرپور کلچر کو بھی تبدیل کی جئیے ۔
وہ قومیں جو ہماری طرح شدید غربت سے دوچار نہیں وہ بھی اپنی قومی آمدنی بڑھانے کے لئیے کئی ایک حربے آزماتی اور نت نئے جتن کرتی ہیں ۔ جبکہ ہمارے ملک کے بادشاہ لوگوں کا باوا آدم ہی نرالا ہے جبکہ پاکستان کے پاس ایک سرمایہ کاری کا ایک مناسب اور اہم ذریعہ پاکستانی امیگرنٹس کی شکل میں بھی موجود ہے جنہیں مناسب ترغیب، اور منصوبہ بندی سے چھوٹے چھوٹے پراجیکٹس کی طرف راغب کرنا چندا مشکل نہ تھا کہ وہ قومی یا کاروباری اسکیموں میں پیسہ لگاتے اور کارپوریشنز کی طرز پہ انکے سرمایے اور منافع کی دیانتدارانہ نگرانی کی جاتی ۔ لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ۔ روٹی ۔ روزی ۔ روزگار کی وجہ سے یا ملازمت اور کاروبار کی وجہ سے پاکستان سے باہر مقیم افراد کو جسطرح بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح پاکستانی ائر پورٹو ں پہ ان سے سلوک کیا جاتا ہے۔ امیگریشن کاؤنٹر سمیت ہر قسم کے محکماتی کاؤنٹر پہ انکے ساتھ افسر مجاز انہیں کسی جیل سے بھاگے ہوئے قیدی کی طرح سوال جواب اور سلوک کرتا ہے۔ کہ دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ کہاں تو دیگر ممالک کے ائر پورٹس کاونٹر ز پہ مثالی انسانی سلوک کہ غیر قانونی دستاویزات پہ سفر کرنے والے مجبور پاکستانیوں کا جُرم پخرے جانے پہ بھی ان کی عزت نفس کا خیال رکھا جاتا ہے جبکہ اپنے ملک پاکستان سے آتے یا جاتے ہوئے ائر پورٹوں پہ اتنا انتہائی ذلت آمیز رویہ۔ کہ دماغ بھنا اٹھے۔ اور پاکستان کے اداروں کا یہ سلوک ان لوگوں سے۔ جو کئی دہائیوں سے مسلسل اپنے خُون پسینے کی کمائی سے۔ ریاستِ پاکستان کی زر مبادلہ کی کمائی کا بہت بڑا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ۔پاکستان میں مقیم کروڑوں افراد کی کفالت کا ذمہ اٹھا رکھا ہے ۔ تو آپ کیسے ان سے یہ توقع اور امید رکھیں گے کہ پاکستان میں ہر قسم کی عدم سہولتوں اور امن عامہ کی عدم موجودگی کے باوجود اور اسقدر انتہائی اہانت آمیز سلوک کے باوجود وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے؟ یہ ایک ننھی سی مثال ہے ۔ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاروں کو ترغیب دیتے ہوئے بعض اوقات ہم قومی مفادات کو بھی پس پیش ڈال دیتے ہیں۔ جبکہ اپنے پاس موجود وسائل کو ملکی رو میں شامل کرنے کی بجائے اسے ملکی نظام سے بدظن کرنے کے لئیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں ۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے عد توجہ اور لاپرواہی پاکستان میں گھسٹتے نظام کی ایک ادنی سی مثال ہے کہ کس طرح ہم اپنے دستیاب وسائل کو کس بے درردی سے ضائع کر دیتے ہیں ۔ اور بعد میں وسائل کی عدم دستیابی کا رونا روتے ہیں۔ اس ضمن میں بہت سے دیگر طبقوں کی مثالیں دی جاسکتیں ہے۔
ایک عام سا فطری اور مالیاتی اصول ہے کہ جس چیز کی ضرورت جتنی اشد ہو گی اسکے حصول کی لئیے کوشش بھی اسی طرح زیادہ کی جائے گی ۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ وسائل کا حصول اور انہیں مناسب طریقے سے استعمال میں لانا ہے۔جبکہ پاکستان میں کتنے صدق دل سے اس اصول کے خلاف کوشش کی جاتی ہے ۔ پاکستان کے کسی بھی ائر پورٹ یا پورٹ کو استعمال کر کے دیکھ لیں ۔ پاکستان میں درآمد کی جانے والی قابل کسٹم ڈیوٹی اشیاء ۔ خواہ وہ ذاتی ہوں یا کاروباری ۔ یا تحائف ۔ پاکستانی کسٹم کا مستعد عملہ بڑی جانفشانی سے آپکے سامان کی تلاشی لے گا ۔ اور نتیجے میں اس سے برآمد ہونے والی اشیاء کے بارے نہائت تندہی اور خونخوار لہجے میں اس پہ کسٹم ڈیوٹی کی رقم بتائے گا ۔اور ایک سانس فر فر سبھی قانون قائدے بیان کردے گا۔اور محصول کی رقم اسقدر بڑھا چڑھا کر بتائے گا کہ پاکستان پہنچنے والے پریشان حال اور تھکن کے مارے۔ لاعلم۔ مسافر کا منہ کھلے کا کھلا رہ جائے گا۔پریشانی بھانپتے ہی ایک آدھ اہلکار نہائت ہمدردی سے سر گوشی کے انداز میں استفسار کرے گا صاحب سے ککہ کر کچھ کم کروا دوں؟ اور دیکھتے۔ دیکھتے سر عام بولی لگے گی ۔ مُک مکا ہوگا۔ اور وہ رقم جسے قومی خزانے میں جانا چاہےتھا ۔ جس خزانے سے کار سرکار پہیہ چلتا ہے ۔ وہ رقم ۔ قومی خزانے سے تنخواہ اور مراعات پانے والے ہر قسم کے حفظ و مراتب وصولنے والوں کی جیب میں چلی جائے گی ۔ گویا حکومت نے قومی خزانے سے تنخواہ اور وردی دے کر لٹیروں کو قومی وسائل کو خرد برد کرنے کے لئیے بھرتی کر رکھا ہے ۔کچھ یہی عالم پولیس اور پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پاکستان کے سبھی چھوٹے ،بڑے ۔ اہم اور غیر اہم سرکاری اداروں کا ہے ۔ محکمہ کسٹم تو محض پاکستان میں کرپشن کے گلشیئر کا نکتہ آغاز ہے ۔کبھی سوچئیے کہ اگر صرف محکمہ پولیس کا ٹریفک ڈپارٹمنٹ جرمانوں کی وہ رقم جو قومی خزانے میں جمع ہونے کی بجائے پولیس اہلکاروں کی جیب میں چلی جاتی ہے ۔ یہ رقم اگر قومی خزانے میں جمع ہو تو پولیس کی ماہ بھر کی تنخواہ ان سے آسانی سے دی جاسکتی ہے۔ اور نتیجتا قانون کی حکمرانی کا شعور اور رواج بھی ملک میں پھیلے گا ۔ اگر کوئی یہ کہے پاکستان کے اداروں یا کسٹم کے ادارے میں اور ائر پورٹس وغیرہ پہ مکا مکا کی بولی سر عام اور سب کے سامنے نہیں ہوتی تو ایسی حکومت اور ذمہ داروں کو اپنی بے خبری پہ ماتم کرنا چاہئیے ا لاہور ۔ اسلام آباد ۔ کراچی ہر ائر پورٹ پہ بڑے دھڑلے سے اور سر عام ہوتا ہے تو حکومت اور بدقماشی ۔ رشوت اور کرپشن روکنے والے حکومتی اداروں کو اسکی خبر نہیں ؟ ایسے بدقماش اہلکاروں کو سزا دینا۔ دلوانا اور نوکریوں سے فارغ کرنا حکومت کے دیگر فرائض میں سے ایک فرض ہوتا ہے ۔۔ پاکستان میں زکواۃ کے دنوں پاکستانی اپنی رقم بنکوں سے محض اسلئیے نکال لیتے ہیں کہ انہیں حکومت کی زکواۃ کٹوتی پہ بھی شکوک ہیں اور وہ اپنی زکواۃ خود اپنی تسلی سے دیتے ہیں ۔ حکومتی زکواۃ کمیٹیوں پہ یقین نہیں کرتے ۔ حاصل بحث اگرحکومت خود سے کچھ کرنے سے قاصر ہو اورقومی خزانے کو تیل دینے والے عام معلوم اداروں اور عہدیداروں کو کرپشن سے باز نہ رکھ سکے تو ایسے ماحول میں آپ کا ٹیکس گذار کس خوشی میں آپ کو ٹیکس دینے کو تیار ہوگا؟
پاکستان کے اقتصادی و معاشی اور معاشرتی حالات ۔ اندھے بجٹ کے ذریعئے نہیں سدھریں گے۔ اعدادہ شمار کا یہ گورکھ دھندا اگر اتنا ہی مفید ہوتا تو ہر سال غربت میں کمی ہوتی اور ملک و قوم ترقی کرتے جب کہ حقائق اس کے بر عکس ہیں۔ ملک میں غربت اور مہنگائی کا عفریت کب کا منہ کھولے عوام کی امیدو اور خواہشوں کو ہڑپ کرچکا ہے اور کئی سالوں سے پاکستان کے غریب عوام مفلسی اور مفلوک الحالی میں محض زندہ رہنے کا جتن کرتے ہیں۔عام پاکستانی شہری کو پاکستان کے سال در سال پیش کئیے جانے والے بجٹوں سے کوئی امید اور توقع نہیں رہی۔ اور پاکستان میں ایک عام خیال جر پکڑ چکا ہے کہ ہر سال بجٹ کے ساتھ اور فورا بعد میں مہنگائی کی ایک تازہ لہر آئے گی جو شدت میں پچلی مہنگائی سے زیادہ ہوگی ۔ اور پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت کو مدنظر رکھتے ہوئے عام آدمی کے یوں سوچنا سمجھ میں آتا ہے۔
اگر ملک کی حالت اور قوم کی تقدیر بدلنا ہے تو ۔ بڑے منصوبوں کی افادیت اپنی جگہ مگر ایک حقیقی تبدیلی اورقومی اقتصادی ترقی کے لئیے ۔ اسکے ساتھ ساتھ گلی محلے سے لیکر گاؤں۔ گوٹھ۔ بستیوں اور شہروں کے لیول کی چھوٹی چھوٹی منصوبہ بندیاں کرنی پڑیگی ۔ ان منصوبوں کے لئیے وسائل ۔ سرمایہ ۔ اور دیانت دارانہ نگرانی ، اہداف کی تکمیل تک حکومت کو سرپرستی کرنا ہو گی ۔ گلی محلے سے لیکر ملکی اور قومی سطح پہ کی جانے والی منصوبہ بندی لوگوں کی مقامی ضروریات کے مطابق ۔ پاکستانی ۔ محنت کش ۔ اور ہنر مندوں کی صلاحیتوں پہ اعتماد کرتے ہوئے ۔ انکی تربیت اور رہنمائی کرتے ہوئے کی جائے ۔ انہیں چھوٹے چھوٹے پیداواری اہداف دئیے جائیں۔ حکومتی ادارے اپنی تحقیق سے ایسے اہداف کی نشاندہی کریں ۔ اس ضمن میں پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے تحقیقی شعبوں کو بھی شامل کیا جائے۔ اور مطلوبہ پیداوار کی عام منڈیوں میں کھپت ۔حکومت کے فعال اور دیانتدار ادارے کریں ۔ پاکستان با صلاحیت افرادی قوت سے مالامال ہے ، اسکی عمدہ مثالیں فیصل آباد میں ٹیکسٹائل انڈسٹریز ۔ گوجرنوالہ میں پنکھے ۔ اور واشنگ مشینیں ۔ اسٹیل کے برتن ۔ گجرات میں پنکھے ۔ فرنیچر ۔ برتن ۔ سیالکوٹ میں کھیلوں کا سامان ۔ لیدر جیکٹس ۔ جراہی کا سامان اور پاکستان میں کئی اور شہروں میں مختلف قسم کا سامان تیار کرنے والوں سے جڑے ہزاروں خاندانوں کا روزگار اور نتیجے میں وہ پیداوار ہے۔ جس سے پاکستان کثیر زرمبادلہ بھی کما رہا ہے اور ان شہروں کی عام آبادی مناسب روزگار ہونے کی وجہ سے عام علاقوں کی نسبت خوشحال بھی ہے ۔ ان شہروں میں بہت سی مصنوعات کے چھوٹے چھوٹے جُز پرزے گھروں میں تیار کئیے جاتے ہیں۔ اگر اس جوہر قابل کی مناسب تربیت کر کے اسے قومی پیدوار میں شامل کیا جائے تو قوم کو بہتر نتائج ملیں گے ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت سی قوموں نے ننھی سطح سے سے مائیکرو منصوبہ بندی کرتے ہوئے نہ صرف پیدواری عمل بڑہایا ہے اور آج صف اول کی قوموں صف میں کھڑی ہیں ۔ بلکہ انہوں نے اسطرح اپنے شہریوں کو روزگار مہیاء کرنے کی وجہ سے ان کا معیار زندگی بھی بلند کیا ہے ۔ جبکہ پاکستان صلاحیتوں سے بھرپور اور نوجوان افرادی قوت سے مالا مال ہے ۔
جب تک قومی وسائل کو بے دردی سے لُوٹنے والوں اور بودی اہلیت کے مالک منصوبہ و پالیسی سازوں سے چھٹکارہ نہیں پاتے ۔چور دورازوں کو بند نہیں کرتے ۔ پاکستان کو دستیاب وسائل کی قدر نہیں کرتے ۔ اور بھرپور طریقے سے انہیں استعمال میں نہیں لاتے ۔ بنیادی تبدیلی کے لئیے مناسب اور مائکرو منصوبہ بندی نہیں کرتے ۔ افرادی قوت کی مناسب رہنمائی اور تربیت نہیں کرتے تب تک معاشریہ ان چھوٹی بنیادوں۔ اور اکائیوں سے اوپر نہیں اٹھے گا اور تب تک ایک باعزت قوم بننے اور اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کا خوآب ادہورا رہے گا ۔ ہم خواہ کس قدر قابل عمل بجٹ بناتے رہیں نتائج وہی ڈھاک کے تین پات ہی رہیں گے اور قومی ترقی کا خوآب محض خوآب ہی رہے گا۔ سال گزرتے دیر نہیں لگتی ۔ جون 2015 ء میں ایک بار پھر وہی تقریر اور لفظوں کا ہیر پھر محض ایک خانہ پری ہوگی۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: (خسارے, )کچھ, 2014ء, 2015, budgetپھر, Low, povertyگزارنے, ہ, ہلا, فلاح, ہم, ہمیشہ, ہماری, ہمارے, ہمدردی, ہنر, ہو, ہونے, ہونگے, ہونا, ہو۔, ہو۔اور, ہوگی, ہوگی۔, ہوگا, ہوگا۔, ہوگا؟پاکستان, ہوں, ہوئی, ہوئے, ہوا, ہوتی, ہوتے, ہوتا, ہوجائیں, ہوجائے, ہورہا, فورا, ہوسکتی, ہوسکتا, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں۔ایسے, ہیں۔عام, ہیر, ہیرا, فیصل, فیصد, ہڑپ, ہے, ہے۔, ہے۔قومی, ہے۔ایک, ہے۔ایسے, ہے۔اگر, ہے۔جبکہ, ہال, ہاتھ, فاتح, فارغ, ہر, فرنیچر, فروغ, فریاد, فرائض, فرد, فرض, ہزاروں, فطری, فعال, قوم, قوموں, قومی, قومیں, قوت, قیدی, قانون, قانونی, قائدے, قابل, قاصر, قبل, قبول, قدر, قرضوں۔, قسم, لہجے, لہر, لفظوں, لچھے, لوگ, لوگوں, لینا, لینا۔, لیول, لیکن, لیکر, لیں, لیتی, لیتے, لیدر, لُوٹ, لُوٹنے, لڑھک, لے, لگے, لگاتے, لگاتار, لگتی, لٹیروں, لئیے, لا, لاہور, لانا, لاپرواہی, لاتے, لاتےہیں, لاعلم۔, لبوں, مفلوک, مفلسی, مہنگے, مہنگائی, مہیاء, مفید, مہاجنوں, مفادات, مقیم, مقامی, مقاصد, مقدموں, مقرر, مقصود, ملیں, ملک, ملکی, ملازمت, ممالک, منہ, منڈیوں, مچا, منافع, مچاتے, مناسب, منتقل, منتقلی, مندوں, منصوبہ, منصوبوں, منظر, موجود, موجودگی, میں, میسر, مُک, مکمل, مکا, مگر, ماہ, ماہانہ, مال, مالی, مالیاتی, مالک, مالا, مالامال, مائیکرو, مائکرو, ماتم, ماحول, مادر, مارے۔, مبادلہ, متواتر, متوازی۔, متبادل, مترادف, متعلق, مثال, مثالی, مثالیں, مجال, مجاز, مجبور, مجرم, محلے, محنت, محکمہ, محکماتی, محتاط, محصول, محض, مختلف, مخصوص, مدنظر, مدت, مرہ, مراتب, مراعات, مسلسل, مسکراہٹ, مسئلہ, مسئلے, مسافر, مسائل, مستقبل, مستعد, مشینیں, مشیروں, مشکل, مشترکہ, مصنوعات, مطلوب, مطلوبہ, مطابق, مظاہرے, معلوم, معمول, معنی, معیار, معاف, معاملہ, معاملات, معاشی, معاشریہ, معاشرے, معاشرتی, معزز, نہ, نہیں, نہائت, نفس, نقصان, چلنے, چلی, چلانے, چلتا, ننھی, چندا, نوکریوں, چوٹی, نوجوان, چور, چوروں, نیچے, نیک, نیٹ, چیت, نیز, چڑھا, نے, چکا, نکال, نکتہ, نگرانی, چھ, چھوڑ, چھوٹی, چھوٹے, چپڑاسی, چھٹکارہ, چھپوائی, نئے, چاہے, چاہےتھا, چاہئیے, چاہئیں, نافذ, نام, ناگواری, ناخواندگی, نت, نتیجہ, نتیجے, نتیجتا, نتائج, نرالا, نسبت, چشم, نشانہ, نشاندہی, نصف, نصیب, نظام, نظر, نظروں, و, وہ, ڈہونڈنے, وہی, وہیں, وفاقی, وقت, وقتی, وی, ڈیوٹی, وں, ڈھکن, ڈھاک, ڈپارٹمنٹ, ڈال, والوں, والی, والے, ڈالر, ڈار, واردات, واسطہ, واشنگ, وجہ, ور, ورک, وردی, وزیر, وزیروں, وسائل, وصولنے, وغیرہ, ی, یہ, یہی, یقین, یقینی, یومیہ, یونیورسٹیوں, یوں, یوانوں, یا, یافتہ, یعنی, ۔, ۔ہر, ۔محکمہ, ۔چور, ۔وہ, ۔یہاں, ۔۔, ۔کہ, ۔کچھ, ۔کبھی, ۔پاکستان, ۔انکی, ۔اور, ۔ایسے, ۔بجٹ, ۔حکومت, ۔شیر, کہ, کہنے, کہنا, کہیں, کہے, کہ۔, کہا, کفالت, کہاں, کلچر, کم, کمی, کمیٹیوں, کما, کمائی, کماتی, کمزوریوں, کو, کوقومی, کون, کوئی, کوشش, کی, کیونکہ, کیا, کیسے, کے, ککہ, کٹ, کٹوتی, کھلے, کھلا, کھولے, کھیلوں, کھڑی, کپڑا, کھپت, کھاتا, کھسوٹ, کئی, کئیے, کا, کاونٹر, کاؤنٹر, کار, کاروں, کاروائی, کاروبار, کاروباری, کاری, کارپوریشنز, کب, کتنے, کثیر, کر, کرنی, کرنے, کرچکا, کرنا, کرناہے۔, کروڑوں, کروا, کریمنل, کریں, کرڑوں, کرے, کرےگا؟،, کرپشن, کراچی, کرتی, کرتے, کرتا, کردہ, کردے, کس, کسی, کسٹم, کش, کشی, گلی, گلشیئر, گنجلک, گویا, گوٹھ۔, گواہوں, گوجرنوالہ, گورکھ, گوشی, گی, گیا, گے, گے۔, گے؟, گھن, گھر, گھروں, گھریلو, گھسٹتے, گئ, گئی, گئے, گا, گا۔, گا۔پریشانی, گا۔اور, گا؟۔اسحق, گاؤں۔, گجرات, گذار, گزار, گزاروں, گزرتے, ٹیکس, ٹیکسوں, ٹیکسٹائل, ٹریفک, ں, پہ, پہنچنے, پہنچانے, پہیہ, پلُو, پچلی, پنکھے, پچھلی, پولیس, پورے, پورٹ, پورٹو, پورٹوں, پورٹس, پورا, پی, پیچیدہ, پیدوار, پیدواری, پیداوار, پیداواری, پیسہ, پیسے, پیش, پڑیگی, پڑتا, پکڑ, پھیلے, پھیری, پھاڑ, پھر, پا, پالیسی, پانے, پانا, پاکستان, پاکستانی, پاکستانیوں, پاؤں, پائے, پات, پاتے, پاتا۔, پاس, پخرے, پری, پریشان, پراجیکٹس, پرزے, پس, پسینے, ،, ،بڑے, ؟, ؟۔۔۔, ؟۔آجکل, ء, ء)بجٹ, ء)دور, آمیز, آمدن, آمدنی, آنے, آنکھوں, آگے, آپ, آپکے, آپس, آئی, آئے, آباد, آبادی, آتے, آتا, آج, آخر, آخری, آدم, آدمی, آدھ, آرہا, آزماتی, آسانی, آغاز, ا, اہلیت, اہلکار, اہلکاروں, اہم, اہمیت, اہانت, افادیت, افازئی, اہداف, افراد, افرادی, افسوس, افسر, اقتدار, اقتصادی, ال, اللوں, الحالی, امن, امیگرنٹس, امیگریشن, امید, امیدو, امانت, امداد, امر, ان, انہوں, انہیں, انڈسٹریز, انکی, انکے, انکا, انتہائی, اندھے, انداز, اندازے, انسانی, اوقات, اول, اوپر, اور, اورقومی, ایوان, ایڑی, ایک, ایسی, ایسے, اُن, اکائیوں, اکثریت, اکثریتی, اگر, اگرحکومت, اٹھنے, اٹھیں۔جبکہ, اٹھے, اٹھے۔, اٹھا, اپنی, اپنے, اپنا, ائر, اتنے, اتنا, اجلاس, اجلاسوں, احترام, اخلاقی, اخباری, اختلاف, اختیار, اختتام, اخراجات, ادہورا, ادنی, ادا, ادارہ, اداروں, ادارے, ارکان, اراکین, ارباب, از, اس, اسقدر, اسلوبی, اسلئیے, اسلام, اسملی, اسمبلی, اسی, اسے, اسکی, اسکیموں, اسکینڈل, اسکے, اسٹیل, استفسار, استعفی, استعمال, استعداد, اسحق, اسطرح, اشیاء, اشد, اصلاحات, اصول, اضافہ, اطلاع, اعلٰی, اعتماد, اعدو, اعدادہ, اغراض, بہٹ, بہبود, بہت, بہتر, بقدر, بلند, بلکہ, بلا, بننے, بنیادوں, بنیادوں۔, بنیادی, بنکوں, بنا, بنانا, بنایا, بنائی, بناتے, بنتا, بند, بندی, بندیوں, بندیاں, بندھے, بندر, بولی, بوجھ, بودی, بور, بیٹھ, بیان, بیرون, بیرونی, بیزار, بُرد, بڑہانے, بڑہایا, بڑی, بڑے, بڑھنے, بڑھے, بڑھا, بڑھانے, بڑھتی, بڑا, بے, بکریوں, بٹھایا, بھنا, بھی, بھیڑ, بھانپتے, بھاگے, بھر, بھرپور, بھرتی, با, باہر, باقاعدہ, بالواسطہ, بالا, بانٹ, باوا, باوجود, بابو, بات, بادشاہ, بار, بارے, باز, باعزت, بتائے, بجٹ, بجٹوں, بجٹ۔, بجائے, بحث, بد, بدقماش, بدقماشی, بدقسمتی, بدلنا, بدنامی, بدظن, بر, برآمد, برتن, برد, بستیوں, بعد, بعض, بغیر, تہہ, تقاضا, تقدیر, تقریبا, تقریر, تللوں, تلاشی, تنقید, تنخواہ, تندہی, تو, توقع, توجہ, تیل, تین, تیار, تیاری, تک, تکمیل, تھی, تھکن, تھا, تھام, تا, تانکہ, تاب, تازہ, تب, تبدیل, تبدیلی, تجاویز, تحقیق, تحقیقی, تحائف, تحت, تذکرہ, تر, ترقی, ترقی۔, تربیت, ترجیجات, ترغیب, ترغیب،, تسلی, تسلیم, تصور, تعلیم, تعلیمی, تعداد, تعریف, جہاں, جلد, جماعتیں, جمع, جن, جنہیں, جنگ, جو, جوہر, جولائی, جون, جواب, جوازوں, جیل, جیکٹس, جیب, جیسے, جُرم, جُز, جڑے, جگہ, جھک, جئیے, جان, جانفشانی, جانے, جانا, جائیں۔, جائیدادوں, جائے, جائے۔, جاتی, جاتے, جاتا, جاسکتی, جاسکتیں, جب, جبکہ, جتن, جتنی, جتنا, جثے, جر, جرمانوں, جراہی, جس, جسے, جستجو, جسطرح, حفظ, حق, حقیقی, حقیر, حقائق, حقارت, حلق, حلال, حوصلہ, حکمرانی, حکومت, حکومتوں, حکومتی, حکوت, حال, حالیہ, حالات, حالت, حاصل, حب, حد, حرام, حربے, حزب, حساب, حسبِ, حصول, حصے, خلاف, خوفناک, خونخوار, خوآب, خواہ, خواہشوں, خود, خودکشیوں, خوش, خوشی, خوشحال, خیال, خیرات, خیز, خُون, خُرد, خامیوں, خانہ, خاندانوں, خاص, خبر, خبری, ختم, خرچ, خرد, خزانہ, خزانے, خصوصی, دہندے, دہائیوں, دفاع, دل, دلچسپی, دلوانا, دلائل, دماغ, دن, دنوں, دنیا, دو, دوچار, دوں؟, دوران, دورازوں, دوسری, دوسرا, دوش, دی, دینے, دینا۔, دیکھ, دیکھا, دیکھتے, دیکھتے۔, دیگر, دیا, دیانت, دیانتی, دیانتدار, دیانتداری, دیانتدارانہ, دیتی, دیتے, دید, دیر, دے, دھندا, دھڑلے, دھتکار, دئیے, دار, داروں, داری, داریوں, دارانہ, در, درآمد, درجے, دردی, درردی, دستیاب, دستیابی, دستاویز, دستاویزات, ذلت, ذمہ, ذکر, ذاتی, ذریعہ, ذریعئے, ر, رہ, رہنمائی, رہنے, رہی, رہی۔, رہیں, رہے, رہا, رہتا, رقم, رو, رونے, رونا, رویہ۔, روکنے, روٹی, روپیہ, روپے, رواج, روتے, روز, روزی, روزگار, ریوڑ, ریاستِ, رکھ, رکھیں, رکھا, رکھتے, رکھتا۔مگر, رائے, راغب, رسم, رشوت, ز, زندہ, زندگی, زور, زیاد, زیادہ, زیریں, زکواۃ, زائد, زر, زرمبادلہ, سہولتوں, سہولتیں, سفر, سلوک, سمیت, سمجھ, سمجھے, سمجھا, سنگین, سو, سوچ, سوچنا, سوچئیے, سونا, سوال, سوجھ, سی, سیٹوں, سیالکوٹ, سیاسی, سیاستدان, سے, سےمقر, سے۔, سکے, سا, سال, سالوں, سالانہ, سامنے, سامنا, سامان, سانس, سائنسی, سابقہ, ساتھ, سادہ, سارے, سازوں, سب, سبک, سبھی, ستائشی, ستر, سدھریں, سر, سرمایہ, سرمایے, سرکار, سرکاری, سرپرستی, سربراہوں, سزا, سطح, شہادتوں, شہروں, شہری, شہریوں, شمار, شور, شکل, شکنی, شکوک, شاہی, شامل, شارٹ, شدید, شدت, شرم, شرح, شعور, شعبوں, صف, صلاحیت, صلاحیتوں, صندوق, صورت, صاحب, صحت, صدق, صرف, ضمن, ضائع, ضروت, ضروریات, ضرورت, طور, طے, طبقوں, طرف, طریقہ, طریقوں, طریقے, طرح, طرز, عہدوں, عہدیدار, عہدیداروں, عہدے, عفریت, علاقوں, علاوہ, عمل, عملہ, عمومی, عمدہ, عوام, عکس, عافیت, عالم, عالمی, عام, عامہ, عد, عدم, عزت, عظیم, غمازی, غیر, غریب, غریبوں, غریبی, غربت
کولبیرٹ ازم ۔ برصغیر ہندؤستان۔ اور برئنیر رپورٹ۔ چوتھی قسط۔
برنئیر کی ہندؤستان کے بارے ۔مذہب سے لیکر خاندانی رسم و رواج ۔سیاست اور انتظامیہ کے متعلق معلومات انتہائی مفید تھیں۔ مالی اور اقتصادی مقابلے کے لئیے مسابقت کی دوڑ میں شامل ہونے سے قبل ضروری تھا۔ کہ ہر نقطہ نظر اور ہر زاویے سے ۔ اہم معلومات کے ساتھ (کسی ممکنہ مہم جوئی کی صور ت میں )کچھ اہم امور سرانجام دئیے جائیں۔اور اسی وجہ سے ریاستوں کو ایسے معاملات میں عام افراد اور نجی فرموں پہ برتری حاصل تھی۔”سابقہ ادوار یعنی حکومتوں میں نوآبادیت سے متعلقہ مسائل میں ایک بڑا الجھا ہوا مسئلہ ریاستوں اور کمپنیوں کے مابین ملکیت اور اختیارات کا مسئلہ تھا ۔ ملکیت اور اختیارات کے اس گنجلک مسئلے کے سیاسی اور مالی پہلو تھے ۔ اور اسے ”خصوصیت “ نام دیا گیا اور اس مسئلے کا حل”خصوصیت “ نامی نظام,( "L’exclusif” )پہ منحصر تھا۔ جسے بعد کی حکومتوں میں ”نوآبادیت معائدہ“ یعنی” کالونی پیکٹ “کا نام دیا گیا ۔(۱۴٭)۔
کمپنیوں کی کثیر جہتی سرگرمیاں عموماَ ایک تسلسل کے ساتھ ریاستوں کی مقرر کردہ سفارتی اور قانونی حدود پار کرتی رہتیں ۔ سترہویں صدی کے وسط سے (تجارتی مفادات حاصل ہونے۔ اور تجارتی مفادات کی اہمیت کے باوجود) کمپنیوں اور ریاستوں کی آپس میں ہمیشہ صلح نہیں رہتی تھی۔ یعنی آپس میں مفادات کا ٹکراؤ ہوتا تھا ۔(۱۵٭)۔
برنئیر اس ساری صورتحال کے بارے باخبر ہونے کی وجہ سے یہ جانتا تھا کہ اسکی مہیاء کردہ معلومات کسقدر اہم اور مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔اسلئیے وہ تمام تفضیلات اور جزئیات بیان کرتا ہے۔برنئیر لکھتا ہے”یہ نکتہ بہت اہم اور نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ مغل فرماں روا شعیہ نہیں جو علیؓ ( رضی اللہ تعالٰی عنہ) اور انکی آل کو مانتے ہیں۔ جیسا کہ ایران میں شعیہ مانتے ہیں ۔ بلکہ مغل فرماں روا محمدن ہے ۔ (صلی اللہ علیہ وسلم ) (یعنی سُنی مسلک رکھتا ہے) اور نتیجتاَمغل باشاہ کے دربار میں سُنی درباریوں کی اکثریت ہے ۔ ترکی کے مسلمانوں کی طرح انکامسلک سُنی ہے جو عثمانؓ ( رضی اللہ تعالٰی عنہ) کو ماننے والے ہیں ۔ اسکے علاوہ مغل فرماں روا کے ساتھ ایک اور مسئلہ ہے کہ مغل بادشاہ کے آباءاجداد غیر ملکہ ہونے کی وجہ سے خود مغل بادشاہ بھی غیر ملکی سمجھا جاتا ہے ۔ مغل بادشاہ کا نسب تیمور لنگ سے جا ملتا ہے جو تاتار کے منگولوں کا سردار تھا ۔ مغل بادشاہ کے اجداد ۱۴۰۱ء چودہ سو ایک عیسوی میں ہندؤستان پہ حملہ آور ہوئے ۔اور ہندؤستان کے مالک بن گئے۔اسلئیے مغل فرماں روا تقریباَایک دشمن ملک میں پایا جاتاہے۔ فی مغل بلکہ فی مسلمان کے مقابلے پہ سینکڑوں کٹڑ بت پرستوں اور مشرکوں (idolaters)کی آبادی ہے۔ اسکے علاوہ مغل شہنشاہیت کے ہمسائے میں ایرانی اور ازبک بھی مغل شہنشاہ کے لئیے ا یک بڑا درد سر ہیں ۔ جسکی وجہ سے امن کا دور ہو یا زمانہ جنگ مغل شہنشاہ بہت سے دشمنوں میں گھرا رہتا ہے اور ہر وقت دشمنوں میں گھرا ہونے کی وجہ سے مغل شہنشاہ اپنے آس پاس بڑی تعداد میں اپنی افواج دارالحکومت، بڑے شہروں اور بڑے میدانوں میں اپنی ذات کے لئیے تیار رکھتا ہے۔برنئیر کے الفاظ میں”آقا ۔(مائی لارڈ) اب میں آپ کو مغل شہنشاہ کی فوج کے بارے کچھ بیان کرتا چلوں کہ فوج پہ کتنا عظیم خرچہ اٹھتا ہے ۔ تانکہ آپ کو مغل شہنشاہ کے خزانے کے بارے کسی فیصلے پہ پہنچ سکیں“ ۔(۱۶٭)۔
فوجی شان و شوکت کی نمائش بہت کشادہ اور نمایاں طور پہ کی جاتی ہے۔ ۔مالیاتی کمپنیوں کی طرف سے فیکٹریوں کے قیام کی حکمت عملی کے بعد سے۔ مغل شہنشاہ کی طرف سے اس فوجی شان و شوکت کی نمائش کی اہم مالی اور فوجی وجوہات ہیں ۔کیونکہ اسطرح
۱)۔ مغل شہنشاہ یوں اپنی دفاعی صلاحیت کا عظیم مظاہرہ کرتا ہے ۔
۲)۔ مغل شہنشاہ یوں اتنی بڑی فوج پہ اٹھنے والے اخراجات کے ذریعیے مالی استحکام کا پیغام دیتا ہے ۔
۳)۔ مغل شہنشاہ یوں مختلف قوموں کے خلاف جیتے گئے محاذوں کی کامیابیوں کی دھاک بٹھاتا ہے
۴) مغل شہنشاہ یوں اپنی افواج کی نمائش سے فوجوں میں شامل مختلف قومیتوں اور قوموں کی کثیر النسل سپاہ کی شمولیت سے سے برابری اوراتنی قوموں کے بادشاہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔
۵)۔ مغل شہنشاہ اسطرح اپنے فوجی ساز و سامان کی نمائش سے کسی قسم کی ممکنہ بغاوت کو روند دینے کی طاقت اور قوت کا مظاہرہ کرتا ہے۔
اب ملاحظہ ہو ۔ اؤل ۔وہ فوج ہے جو شہنشاہ کی سرکاری فوج ہے ۔ اور جسکی تنخواہیں اور اخراجات لازمی طور پہ بادشاہ کے خزانے سے جاتی ہیں۔(۱۷٭)۔
”پھر وہ افواج ہیں ۔جن پہ راجوں کا حکم چلتا ہے ۔ بعین جیسے جے سنگھے اور دیگر ۔ جنہیں مغل فرماں روا بہت سے عطیات دیتا رہتا ہے تانکہ راجے وغیرہ اپنی افواج کو جن میں راجپوتوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے ۔ انہیں ہمیشہ لڑائی اور جنگ کے لئیے تیار رکھیں۔ ان راجوں وغیرہ کا مرتبہ اور رتبہ بھی بادشا ہ کے امراء کے برابر سمجھا جاتا ہے ۔ جو زمانہ امن میں فوجوں کے ساتھ شہروں میں اور میدان جنگ میں اپنی اپنی افواج کے ساتھ بادشاہ کی ذات کے گرد حفاظتی حصار کھینچے رکھتے ہیں ۔ان راجوں مہاراجوں کے فرائض بھی تقریباَوہی ہیں جو امراء کے ہیں۔ بس اتنا فرق ہے کہ امراء یہ فرائض قلعے کے اندر ادا کرتے ہیں۔ جبکہ کہ راجے وغیرہ فصیل شہر سے باہر اپنے خیموں میں بادشاہ کی حفاظت کا کام سر انجام دیتے ہیں“۔(۱۸٭)۔
برنئیر تفضیل پیان کرتا ہے کہ کس طرح جب راجے وغیرہ قلعے کے نزدیک آتے ہیں تو وہ اکیلے نہیں ہوتے بلکہ راجوں کے ساتھ وہ خصوصی سپاہی بھی ہوتے ہیں جو کسی بھی وقت حکم ملنے پہ اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتار دینے کے لئیے تیار رہتے ہیں ۔(۱۹٭)۔
مغل فرماں روا جن وجوہات کہ بناء پہ راجوں کی سے یہ خدمات لینا ضروری سمجھتا ہے ۔وہ وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔:
۱)۔راجوں کی سپاہ پیشہ ورانہ تربیت اچھی ہوتی ہے اور ایسے راجے بھی ہیں جو کسی وقت بھی بادشاہ کی کسی مہم کے لئیے بیس ہزار یا اس سے زیاہ گھڑ سوارں کے ساتھ تیار رہتے ہیں۔
۲)۔مغل بادشاہ کو ان راجوں پہ بھروسہ ہے جو بادشاہ کے تنخوادار نہیں ۔ اور جب کوئی ان راجوں میں سے سرکشی یا بغاوت پہ آمادہ ہو ۔ یا اپنے سپاہیوں کو بادشاہ کی کمان میں دینے سے انکار کرے۔ یا خراج ادا کرنے سے انکار کرے ۔ تو مغل بادشاہ انکی سرکوبی کرتا ہے اور انہیں سزا دیتاہے۔اس طرح یہ راجے بادشاہ کے وفادار رہتے ہیں۔(۲۰٭)۔
دوسری ایک فوج وہ ہے جو پٹھانوں کے خلاف لڑنے یا اپنے باغی امراء اور صوبیداروں کے خلاف لڑنے کے لئیے ہے۔ اور جب گولکنڈاہ کا مہاراجہ خراج ادا کرنے سے انکار کردے ۔ یا وسا پور کے راجہ کے دفاع پہ آمادہ ہو تو اس فوج کو گولکنڈاہ کے مہاراجہ کے خلاف لڑایا جاتا ہے ۔ یا ان فوجی دستوں سے تب کام لیا جاتا ہے جب ہمسائے راجوں میں سے کسی کو اس کی راج گدی سے محروم کرنا مقصود ہو۔ یا ان راجوں کو خراج ادا کرنے کا پابند کرنا ہو تو اس فوج کے دستے حرکت میں لائے جاتے ہیں ۔ان سبھی مندرجہ بالا صورتوں میں اپنے امراء پہ بھروسہ نہیں کرتا کیونکہ وہ زیادہ تر ایرانی النسل اور شعیہ ہیں۔جو بادشاہ کے مسلک سے مختلف مسلک رکھتے ہیں ۔(۲۱٭)۔
مسلکی اور مذہبی معاملات کو ہمیشہ مدنظر رکھا جاتا ہے۔ کیو نکہ دشمن کے مذہب یا مسلک کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک طرح یا دوسری طرح کی افواج کو میدانِ جنگ میں اتارا جاتا ہے ۔ اگر ایران کے خلاف مہم درپیش ہو تو امراء کومہم سر کرنے نہیں بیجھا جاتا کیونکہ امراء کی اکثریت میر ہے اور ایران کی طرح شعیہ مسلک رکھتی ہے۔ اور شعیہ ایران کے بادشاہ کو بیک وقت امام ۔ خلیفہ ۔ اور روحانی بادشاہ ۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے دامادعلیؓ (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کی آل مانتے ہیں۔ اسلئیے ایران کے بادشاہ کے خلاف لڑنے کو ایک جرم اور بہت بڑا گناہ سمجھتے ہیں۔ مغل بادشاہ اسطرح کی وجوہات کی بناء پہ پٹھانوں کی ایک تعداد کو فوج میں رکھنے پہ مجبور ہے۔اور آخر کار مغل بادشاہ مغلوں پہ مشتمل ایک بڑی اور بادشاہ کی بنیاد فوج کے مکمل اخراجات بھی اٹھاتا ہے ۔ مغل افواج ہندوستان کی بنیادی ریاستی فوج ہے۔جس پہ مغل فرماں روا کے بہت اخراجات اٹھتے ہیں ۔(۲۲٭)۔
اس کے علاوہ مغل فرماں روا ں کے پاس آگرہ میں ۔ دلی میں اور دونوں شہروں کے گرد و نواح میں دو سے تین ہزار گھڑ سوار کسی بھی مہم کو جانے کے لئیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔بادشاہ کی روز مرہ کی مہموں کے لئیے۔ بادشاہ کے پاس ۸۰۰ آٹھ سو سے ۹۰۰ نو سو تک کے لگ بھگ ہاتھی ہیں ۔بڑی تعداد میں خچر اور سامان کھینچنے والے گھوڑے ہیں۔ جن سے بڑے بڑے خیمے ۔ قناتیں ۔ بیگمات اور انکا سازوسامان ۔ فرنیچر ۔ مطبخ (باورچی خانہ)۔مشکیزے ۔اور سفر اور مہموں میں کام آنے والے دیگر سامان کی نقل و حرکت کا کام لیا جاتا ہے۔(۲۳٭)۔
مغل فرماں روا کے اخراجات کا اندازہ لگانے کے لئیے اس میں سراؤں یا محلات کے اخراجات بھی شامل کر لیں ۔جنہیں برنئیر ” ناقابل ِ یقین حد تک حیران کُن “ بیان کرتا ہے۔”اور جنہیں (اخراجات کو) آپکے اندازوں سے بڑھ کر حیرت انگیز طور پہ ناگزیر سمجھا جاتا ہے“۔ یہ محل اور سرائے ایسا خلاء ہیں جس میں قیمتی پارچات ۔ سونا۔ ریشم ۔ کمخوآب ۔ سونے کے کام والےریشمی پارچات ۔غسل کے لئیے خوشبودار گوندیں اور جڑی بوٹیاں ۔امبر ۔اور موتی ان خلاؤں میں گُم ہو جاتے ہیں۔”اگر مغل فرماں روا کے ان مستقل اخراجات جنہیں مغل فرما روا ں کسی طور نظر انداز نہیں کرسکتا اگر ان مستقل اخراجات کو مدنظر رکھاجائے تو مغل شہنشاہ کے ختم نہ ہونے والے خزانوں کے بارے آپ فیصلہ کر سکتے ہیں ۔ جیسا کہ مغل شہشنشاہ کے بارے بیان کیا جاتا ہے اور مغل شہنشاہ کی ناقابل تصور امارت جس کی کوئی حد نہیں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔(۲۴٭)۔”اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بادشاہ بہت بڑے خزانوں کا مالک ہے بلکہ ایران کے باشاہ اور آقا کے خزانوں کو ملانے سے بھی بڑھ کر مغل فرماں روا کے پاس ذیادہ خزانے ہیں۔(۲۴٭)۔
جاری ہے۔
(14) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., ob. cit., pág. 398.
(15) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., pág. 399.
(16) BERNIER, ob. cit., pág. 197.
(17) BERNIER, ob. cit., pág. 197.
(18) BERNIER, ob. cit., pág. 198.
(19) BERNIER, ob. cit., pág. 198.
(20) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(21) BERNIER, ob. cit., pág. 198, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(22) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(23) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15, 16 y 17.
(24) BERNIER, ob. cit., pág. 200.
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: "L'exclusif", (, (, (14), (15), (16), (17), (18), (19), (20), (21), (22), (23), (24), (25), (26), (باورچی, (تجارتی, (صلی, ), ), )۔مغل, )کچھ, ., ., 197, 198, 199, 200., 398, 399, :, :, “, “, ”, ”خصوصیت, BERNIER, C., Carta, cit., E., fols., Gondal, H., idolaters, Javed, Javed gondal, ob., original, pág., RiCH, ہ, ہمیشہ, ہمسائے, ہندوستان, ہندؤستان, ہو, ہونے, ہونے۔, ہو۔, ہوئے, ہوا, ہوتی, ہوتے, ہوتا, فوج, فوجوں, فوجی, ہوسکتی, ہی, فیکٹریوں, ہیں, ہیں“۔(۱۸٭)., ہیں۔, ہیں۔(۲۰٭)۔, ہیں۔(۲۴٭)۔, ہیں۔”اگر, ہیں۔اسلئیے, ہیں۔بادشاہ, ہیں۔جو, فیصلہ, فیصلے, ہے, ہے”یہ, ہے۔, ہے۔اور, ہے۔برنئیر, ہے۔جس, ہاتھی, ہر, فرق, فرموں, فرما, فرماں, فرنیچر, فرائض, ہزار, فصیل, قلعے, قناتیں, قوموں, قومیتوں, قوت, قیمتی, قیام, قانونی, قابل, قب, قسم, قسط, لنگ, لینا, لیکر, لیں, لیا, لڑنے, لڑایا, لڑائی, لکھتا, لگ, لگانے, لگایا, لئیے, لئیے۔, لائے, لارڈ), لازمی, مہم, مہموں, مہیاء, مفید, مفادات, مہاراجہ, مہاراجوں, مقابلے, مقرر, مقصود, ملنے, ملک, ملکہ, ملکی, ملکیت, ملانے, ملاحظہ, ملتا, ممکنہ, منگولوں, منحصر, مندرجہ, موت, موتی, میں, میں”آقا, میدان, میدانوں, میدانِ, میر, مکمل, مالی, مالک, ماننے, مانتے, مابین, متعلق, متعلقہ, مجبور, محل, محلات, محمد, محمدن, محاذوں, محروم, مختلف, مد, مدنظر, مذہب, مذہبی, مذھب, مرہ, مرتبہ, مسلمان, مسلمانوں, مسلک, مسلکی, مسئلہ, مسئلے, مسائل, مسابقت, مستقل, مشتمل, مشرکوں, مطبخ, مظاہرہ, معلومات, معاملات, معائدہ“, مغل, مغلوں, نہ, نہیں, نقل, نقطہ, چلوں, چلتا, نمایاں, نمائش, نو, نوٹ, نوآبادیت, نواح, چوتھی, چودہ, نکہ, نکتہ, ناقابل, نام, نامی, ناگزیر, نتیجتاََ, نجی, نزدیک, نسب, نظام, نظر, و, وہ, وہی, وفادار, وقت, والے, والےریشمی, وجہ, وجہسے, وجوہات, ورانہ, وسلم, وسا, وسط, وغیرہ, یہ, یقین, یوں, یک, یا, یعنی, ۔, ۔(مائی, ۔(۱۴٭)۔, ۔(۱۵٭)۔, ۔(۱۶٭)۔, ۔(۲۱٭)۔, ۔(۲۲٭), ۔(۲۴٭)۔”اس, ۔مالیاتی, ۔وہ, ۔کیونکہ, ۔۳, ۔امبر, ۔ان, ۔اور, ۔بڑی, ۔جن, ۔جنہیں, ۔غسل, کہ, کمپنیوں, کمان, کمخوآب, کو, کولبیرٹ, کومہم, کوئی, کی, کیو, کیونکہ, کیا, کُن, کے, کٹڑ, کھینچنے, کھینچے, کا, کالونی, کام, کامیابیوں, کار, کتنا, کثیر, کر, کرنے, کرنا, کرے, کرے۔, کرتی, کرتے, کرتا, کردہ, کردے, کرسکتا, کس, کسقدر, کسی, کشادہ, ٭, گناہ, گنجلک, گولکنڈاہ, گوندل, گوندیں, گیا, گُم, گھوڑے, گھڑ, گھاٹ, گھرا, گئے, گئے۔اسلئیے, گدی, گرد, ۱, ۱)۔, ۱۴۰۱ء, ۱۷, ۲, ۲)۔, ۲۳, ۴, ۵)۔, ۸۰۰, ۹, ٹکراؤ, ۹۰۰, ں, پہ, پہلو, پہنچ, پور, پیکٹ, پیان, پیشہ, پیغام, پٹھانوں, پھر, پایا, پابند, پار, پارچات, پاس, پرستوں, WILSON, y, آقا, آل, آمادہ, آنے, آور, آگرہ, آٹھ, آپ, آپکے, آپس, آباءاجداد, آبادی, آتے, آخر, آس, ا, اہم, اہمیت, افواج, افراد, اقتصادی, الفاظ, اللہ, النسل, الجھا, امن, امور, امام, امارت, امر, امراء, امستقل, ان, انہیں, انکی, انکا, انکار, انگیز, اچھی, انتہائی, انتظامیہ, انجام, انداز, اندازہ, اندازوں, اندر, اور, اوراتنی, ایک, ایران, ایرانی, ایسے, ایسا, اکیلے, اکثریت, اگر, اٹھنے, اٹھاتا, اٹھتے, اٹھتا, اپنی, اپنے, اؤل, اب, اتنی, اتنا, اتار, اتارا, اجداد, اختیارات, اخراجات, ادوار, ادا, ازم, ازبک, اس, اسلئیے, اسی, اسے, اسکی, اسکے, اسپین, استحکام, اسطرح, اظہار, بہت, بلکہ, بن, بنیاد, بنیادی, بناء, بوٹیاں, بیک, بیگمات, بیان, بیجھا, بیس, بڑی, بڑے, بڑھ, بڑا, بٹھاتا, بھی, بھگ, بھروسہ, باہر, بالا, باوجود, باخبر, بادشا, بادشاہ, بارے, بارسیلونا, باشاہ, باغی, بت, برنئیر, برئنیر, برابر, برابری, برتری, برصغیر, بس, بعین, بعد, بغاوت, ت, تفضیل, تفضیلات, تقریباََ, تقریباََایک, تمام, تنخواہیں, تنخوادار, تو, تیمور, تین, تیار, تک, تھی۔, تھی۔”سابقہ, تھیں, تھے, تھا, تھا۔, تانکہ, تاتار, تب, تر, ترکی, تربیت, تسلسل, تصور, تعالٰی, تعداد, ثابت, جہتی, جن, جنہیں, جنگ, جو, جوئی, جیتے, جیسے, جیسا, جڑی, جے, جا, جانے, جانتا, جاوید, جاوید گوندل, جائیں۔اور, جاتی, جاتے, جاتا, جاتاہے۔, جاری, جاسکتا, جب, جبکہ, جرم, جزئیات, جس, جسے, جسکی, حفاظت, حفاظتی, حل”خصوصیت, حملہ, حیران, حیرت, حکم, حکمت, حکومتوں, حاصل, حد, حدود, حرکت, حصار, خلیفہ, خلاف, خلاء, خلاؤں, خچر, خود, خوشبودار, خیموں, خیمے, خانہ)۔مشکیزے, خاندانی, ختم, خدمات, خرچہ, خراج, خزانوں, خزانے, خصوصی, دفاع, دفاعی, دلی, دو, دونوں, دوڑ, دور, دوسری, دینے, دیگر, دیا, دیتے, دیتا, دیتاہے۔اس, دھاک, دئیے, دامادعلیؓ, دارالحکومت،, درپیش, دربار, درباریوں, درد, دستوں, دستے, دشمن, دشمنوں, ذیل, ذیادہ, ذات, ذریعیے, رہتی, رہتیں, رہتے, رہتا, روند, روا, رواج, روحانی, روز, ریاستوں, ریاستی, ریشم, رکھنے, رکھیں۔, رکھا, رکھاجائے, رکھتی, رکھتے, رکھتا, رپورٹ, راج, راجہ, راجوں, راجے, راجپوتوں, رتبہ, رسم, رضی, زمانہ, زیاہ, زیادہ, زاویے, سفارتی, سفر, سمجھا, سمجھتے, سمجھتا, سنگھے, سو, سونے, سونا۔, سوار, سوارں, سینکڑوں, سیاسی, سیاست, سُنی, سے, سے۔, سکیں“, سکتے, سپاہ, سپاہی, سپاہیوں, سامان, ساتھ, ساری, ساز, سازوسامان, سبھی, سترہویں, سر, سرکوبی, سرکاری, سرکشی, سرگرمیاں, سرانجام, سراؤں, سرائے, سردار, سزا, شہنشاہ, شہنشاہیت, شہر, شہروں, شہشنشاہ, شمولیت, شوکت, شامل, شان, شعیہ, صلاحیت, صلح, صوبیداروں, صور, صورتوں, صورتحال, صدی, ضروری, طور, طاقت, طرف, طرح, علیہ, علیؓ, علاوہ, عملی, عموماََ, عنہ), عیسوی, عام, عثمانؓ, عطیات, عظیم, غیر