پھر بجٹ۔
Budget (مالی سال جولائی 2014ء تا 2015 ء)
دور روز قبل پاکستان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے پاکستان کا سالانہ (مالی سال جولائی 2014ء تا 2015 ء)بجٹ پیش کیا ہے ۔
یہاں حالیہ پیش کردہ بجٹ کے گورکھ دہندے پہ بحث کرنا مقصود نہیں ۔ کیونکہ یہ لچھے دار اور گنجلک بجٹ ہمیشہ سے عام آدمی کی سمجھ سے بالا تر رہے ہیں اور عام خیال یہی ہے کہ انہیں بابو لوگ پاکستان کے دیگر سرکاری نظام کی طرح جان بوجھ کر بھی کچھ اسطرح پیچیدہ اور سمجھ میں نہ آنے والی چیز بنا دیتے ہیں تانکہ عام عوام حسبِ معمول ہمیشہ کی طرح محض سر ہلا کر ”قبول ہے“ کہنے میں ہی عافیت سمجھے ۔
بجٹ کی ایک سادہ تعریف تو یہ ہے کہ کسی بھی ذاتی یا مشترکہ نظام کو چلانے کے لئیے اس نظام پہ اٹھنے والے اخراجات اور اسکی ترجیجات کے لئیے کسی ایک خاص مدت کے لئیے دستیاب میسر وسائل کی منصوبہ بندی کرناہے۔ اسے عام طور پہ بجٹ کہا جاتا ہے ۔ بجٹ ذاتی یا گھریلو بھی ہوسکتا ہے ۔محکمہ جاتی یا ملکی بھی ہوتا ہے ۔ گھریلو ہو تو عام طور پہ اسے ماہانہ بنیادوں پہ سوچا جاتا ہے اور اگر ادارہ جاتی اور ملکی ہو تو اسے سالانہ بنیادوں پہ بنایا جاتا ہے ۔ جسے ملک و قوم کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر سالانہ بنیادوں پہ تیار کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پہ تقریبا سارے دنیا کے ممالک کسی نہ کسی طور سالانہ بجٹ کے تحت اپنے معاملات چلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جس میں مختلف مقاصد کے لئیے مخصوص رقم مقرر کی جاتی ہے اور رقم اور وسائل کی دستیابی کے لئیے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔قومی ترقی۔ دفاع ۔ صحت ۔ تعلیم اور دیگر اہداف مقرر کئیے جاتے ہیں ۔ جبکہ پاکستان میں بجٹ کے آغاز سے بجٹ کے مالی سال کے اختتام تک بندر بانٹ ۔ وقتی ضرورت ۔ بد دیانتی اور دیگر کئی قسم کے جوازوں کے تحت قومی خزانے کے صندوق کا ڈھکن اٹھا دیا جاتا ہے اور بڑھے ہوئے ہاتھ ۔ قوم کی امانت رقم کو قومی ضروت سے کہیں زیادہ اپنی ذاتی اغراض کے لئیے اپنی طرف منتقل کر لیتے ہیں اور منتقلی کا یہ عمل ایسی سائنسی طریقوں سے کیا جاتا ہے ۔ کہ قومی خزانے کو بے دردی سے لُوٹنے والے چور بھی حلق پھاڑ پھاڑ کر ”چور“ چور“ کا شور مچاتے ہیں ۔اور مجال ہے کہ چشم دید گواہوں اور شہادتوں کے باوجود ایسی طریقہ واردات پہ کسی کو سزا دی گئی ہو۔ اور پاکستان کے نصیب میں ہمیشہ سے یوں ہی رہا ہے ۔
قوم کی امانت ۔ قومی خزانے کو خُرد بُرد ہر اور ہیرا پھیری سے اپنی جیب میں بھر لینا ۔شیر مادر کی طرح اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔ایسے میں کم وسائل اور عالمی مہاجنوں کے مہنگے قرضوں۔ امداد و خیرات سے تصور کئیے گے وسائل سے (خسارے کا بجٹ) خسارے کے بجٹ پہ حکومتوں اور اداروں کے سربراہوں ، مشیروں وزیروں کے شاہی اخراجات اور ایک عام چپڑاسی سے لیکر عام اہلکاروں اور اعلٰی عہدیداروں کے حصے بقدر جثے اور دیگر اللوں تللوں سے یہ تصور محض تصور ہی رہتا ہے کہ کہ پاکستان سے غربت اور ناخواندگی ختم ہو اور قومی ترقی کی شرح میں قابل قدر اضافہ ہو۔اور مالی سال کے آخر میں وہی نتیجہ سامنے آتا ہے جو پاکستان میں پچھلی چھ دہائیوں سے متواتر آرہا ہے کہ نہ صرف غریب ۔ غریب سے غریب تر ہوتا گیا بلکہ ہر سال غریبوں کی تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے ۔ عالمی اداروں کی حالیہ حد بندیوں میں پاکستان کئی درجے نیچے کو لڑھک رہا ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں غریبی کی سطح سے نیچے زندگی Low povertyگزارنے والی آبادی نصف سے زائد ہے ۔ خود اسحق ڈار نے اپنی بجٹ تقریر میں یہ بات تسلیم کی ہے کہ پاکستان کی نصف سے زائد آبادی غریبی کی آخری حد سے نیچے ۔ یعنی دو ڈالر یومیہ آمدن سے کم کماتی ہے۔ یعنی ایسے غریب جو مستقبل کے بارے کسی قسم کی منصوبہ بندی کرنے سے محض اس لئیے قاصر ہیں کہ وہ اپنے یومیہ بنیادی اخراجات پورے کرنے کی جستجو میں محض زندہ رہنے کا جتن کر پاتے ہیں۔ایسے حالات میں ایک لگے بندھے بجٹ کے طریقہ کار سے حکومت اور ذمہ دار اداروں کا اپنے آپ کوقومی ذمہ داریوں سے سبک دوش سمجھ لینا۔ پاکستان کی اکثریتی آبادی کی انتہائی غریب آبادی کی غربت اور غریبوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے مترادف ہے۔
پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی بجٹ اجلاسوں پہ اعدو شمار پیش کئیے جاتے ہیں ۔ اور ان پہ کئی کئی دن لگاتار یوانوں میں اجلاس ہوتے ہیں ۔ جہاں حکوت بجٹ کے حق میں دلائل دیتی ہے وہیں حب اختلاف اور دیگر جماعتیں بجٹ کی خامیوں کی نشاندہی کرتی ہیں ۔ حزب اختلاف کئی ایک تجاویز دیتی ہے ۔ حزب اختلاف اور حکومت سے باہر سیاسی جماعتیں حکومت کے متوازی۔ اپنے طور پہ بجٹ کے لئیے باقاعدہ تیاری کرتی ہیں ۔اور متبادل تجاویز کو کئی بار حکومت تسلیم کر لیتی ہے۔ اور ایک بار بجٹ طے پا جانے پہ اسے پائے تکمیل تک پہنچانے کے لئیے حکومت تہہ دل سےمقر ر کردہ اہداف حاصل کرنے کے لئیے مطلوب وسائل مہیاء کرتی ہے۔ ہمارے ارباب اقتدار و اختیار اور اور قومی اسمبلی کے معزز اراکین کا یہ عالم ہے کہ ایک اخباری اطلاع کے مطابق قومی خزانے سے کرڑوں روپے خرچ کر کے قومی اسملی کے ارکان کے لئیے بجٹ کی دستاویز چھپوائی گئی ۔ جسے ستر فیصد سے زائد قومی اسمبلی کے معزز ارکان بغیر کھولے ہی قومی اسمبلی ہال کے ہال میں اپنی سیٹوں پہ چھوڑ گئے ۔ اس میں حکومتی ارکان بھی شامل ہیں۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار کی تقریر کے دوران بھی قومی اسمبلی کی اکثریت ۔ بیزار ۔ بور اور آپس میں بات چیت کرتی نظر آئی ۔ ہماری رائے میں پاکستان سے متعلق اتنے اہم مسئلے پہ عدم دلچسپی کے اس مظاہرے کی وجہ اراکین اسمبلی کو بھی پاکستان کی سابقہ بجٹوں کی طرح اس بجٹ پہ بے یقینی اور بجٹ پیش کرنے کی کاروائی محض ایک رسم اور ایک قومی تقاضا پورا کرنے کے مترادف لینا ہے اور دوسری بڑی وجہ معزز اراکین کی بڑی تعداد کی تعلیمی استعداد اور سوجھ بوجھ کی کمی ہوسکتی ہے ۔ تو ایسے حالات میں پاکستان جیسے غریب سے غریب تر ہوتے معاشرے کے لئیے ایک قابل عمل اور نتیجہ خیز بجٹ کے لئیے مفید اصلاحات کون پیش کرےگا؟، حکومت کے بجٹ کی خامیوں کی نشاندہی کون کرے گا؟۔اسحق ڈار کے لبوں پہ ایک فاتح کی سی معنی خیز مسکراہٹ بھی اس امر کی غمازی کر رہی تھی ۔کہ کوئی تنقید نہیں کرے گا۔ اور بجٹ معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہوجائے گا۔ تو ایسے حالات میں پاکستانی عوام کس کا پلُو تھام کر اسطرح کے بجٹوں پہ فریاد کریں ؟۔
آجکل پاکستان میں ٹیکس گزاروں کا نیٹ ورک بڑہانے کے لئیے بہٹ شور مچا ہوا ہے ۔ بہت سے ترقی یافتہ اور ٹیکس سے چلنے والے ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ اور پاکستان میں ٹیکس گزاروں کی ٹیکس چور ی کو تنقید کا نشانہ بنانا عام ہے ۔ لیکن اس بات کا کوئی تذکرہ نہیں کرتا کہ اُن ممالک میں حکومتی ادارے کس طرح عوام کے ٹیکسوں سے ملکی آمدن کو سوچ سمجھ کر انتہائی ذمہ داری اور دیانتداری سے ایک مکمل منصوبہ بندی سے استعمال میں لاتےہیں جس کے نتیجے میں عام آدمی کو ہر قسم کی بنیادی سہولتیں میسر ہوتی ہیں اور عوام کی فلاح بہبود اور ترقی پہ ٹیکسوں کو خرچ کیا جاتا ہے ۔ اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے لوگوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جاتا اور انہیں نہ صرف کریمنل یعنی سنگین مجرم بلکہ اخلاقی مجرم بھی تصور کیا جاتا ہے ۔ ایسے لوگوں کے نام سے عام آدمی گھن کھاتا ہے اور انکا ذکر انتہائی ناگواری سے کرتا ہے ۔ اور بہت سے ممالک میں ایسے حکومتی عہدیدار اور سیاستدان اسطرح کے اسکینڈل منظر عام پہ آنے سے اپنے عہدوں سے استعفی دے کر گھر بیٹھ جاتے ہیں ۔ اپنے مقدموں کا سامنا کرتے ہیں ۔ اور بہت سے بدنامی کے ڈر اور لوگوں کی نظروں کی تاب نہ لا کر خود کشی کر لیتے ہیں ہیں ۔ جبکہ پاکستان میں ؟۔۔۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ کلچر عام ہے اور اسے ستائشی نظروں سے دیکھا جاتا ہے ۔ کہ جو جتنا بڑا چور ہوگا اسکے حفظ و مراتب بھی اسی حساب سے زیاد ہ ہونگے ۔ وی وی آئی پی تصور کیا جاتا ہے ۔ ایسے لوگ کسی وجہ سے اپنا عہدے سے سبک دوش ہوجائیں تو بھی انہیں ہر جگہ ۔ہر ادارے میں خصوصی اہمیت دی جاتی ہے ۔ایسے ماحول اور معاشرے میں تو ہر دوسرا فرد کسی نہ کسی طرح روپیہ کما کر جلد از جلد اہمیت پانا چاہے گا۔ خواہ اس کمائی کے حلال اور حرام ہونے پہ سو ال اٹھیں۔جبکہ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ جن کی وجہ سے ملک کی آج یہ حالت ہے کہ غریب اور مجبور لوگوں کی محض روز مرہ مسائل کی وجہ سے خودکشیوں میں شرح میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے ۔ انہیں ۔ ایسے لوگوں کو حقیر جانا جاتا ۔انکی حوصلہ شکنی کی جاتی ۔ اور نیک ۔ دیانتدار اور ٹیکس گزار وں کو قابل احترام سمجھا جاتا ۔ انکی حوصلہ افازئی کی جاتی تانکہ محنت سے آگے بڑھنے کا کلچر فروغ پاتا۔ عام آدمی بجائے شارٹ کٹ ڈہونڈنے کے محنت پہ یقین رکھتا۔مگر نہیں صاحب ۔ قومی چوروں کو حرام کے ۔ لُوٹ کھسوٹ اور قومی خزانے کو نقصان دے کر بنائی گئ جائیدادوں اور پیسے کی وجہ سے ہر جگہ سر آنکھوں پہ بٹھایا جاتا ہے ۔ اور جو لوگ بالواسطہ یا بلا واسطہ ٹیکس ادا کرتے ہیں انہیں انتہائی حقارت سے دھتکار دیا جاتا ہے ۔ تو سوال یہ بنتا ہے کہ پھر آپ کس طرح اپنے ٹیکس گزاروں کے نیٹ ورک میں اضافہ کرنا چاہئیں گے ۔ اور ٹیکس نہ دینے والوں کا رونا رونے کے ساتھ اپنی کمزوریوں اور خامیوں سے بھرپور کلچر کو بھی تبدیل کی جئیے ۔
وہ قومیں جو ہماری طرح شدید غربت سے دوچار نہیں وہ بھی اپنی قومی آمدنی بڑھانے کے لئیے کئی ایک حربے آزماتی اور نت نئے جتن کرتی ہیں ۔ جبکہ ہمارے ملک کے بادشاہ لوگوں کا باوا آدم ہی نرالا ہے جبکہ پاکستان کے پاس ایک سرمایہ کاری کا ایک مناسب اور اہم ذریعہ پاکستانی امیگرنٹس کی شکل میں بھی موجود ہے جنہیں مناسب ترغیب، اور منصوبہ بندی سے چھوٹے چھوٹے پراجیکٹس کی طرف راغب کرنا چندا مشکل نہ تھا کہ وہ قومی یا کاروباری اسکیموں میں پیسہ لگاتے اور کارپوریشنز کی طرز پہ انکے سرمایے اور منافع کی دیانتدارانہ نگرانی کی جاتی ۔ لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ۔ روٹی ۔ روزی ۔ روزگار کی وجہ سے یا ملازمت اور کاروبار کی وجہ سے پاکستان سے باہر مقیم افراد کو جسطرح بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح پاکستانی ائر پورٹو ں پہ ان سے سلوک کیا جاتا ہے۔ امیگریشن کاؤنٹر سمیت ہر قسم کے محکماتی کاؤنٹر پہ انکے ساتھ افسر مجاز انہیں کسی جیل سے بھاگے ہوئے قیدی کی طرح سوال جواب اور سلوک کرتا ہے۔ کہ دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ کہاں تو دیگر ممالک کے ائر پورٹس کاونٹر ز پہ مثالی انسانی سلوک کہ غیر قانونی دستاویزات پہ سفر کرنے والے مجبور پاکستانیوں کا جُرم پخرے جانے پہ بھی ان کی عزت نفس کا خیال رکھا جاتا ہے جبکہ اپنے ملک پاکستان سے آتے یا جاتے ہوئے ائر پورٹوں پہ اتنا انتہائی ذلت آمیز رویہ۔ کہ دماغ بھنا اٹھے۔ اور پاکستان کے اداروں کا یہ سلوک ان لوگوں سے۔ جو کئی دہائیوں سے مسلسل اپنے خُون پسینے کی کمائی سے۔ ریاستِ پاکستان کی زر مبادلہ کی کمائی کا بہت بڑا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ۔پاکستان میں مقیم کروڑوں افراد کی کفالت کا ذمہ اٹھا رکھا ہے ۔ تو آپ کیسے ان سے یہ توقع اور امید رکھیں گے کہ پاکستان میں ہر قسم کی عدم سہولتوں اور امن عامہ کی عدم موجودگی کے باوجود اور اسقدر انتہائی اہانت آمیز سلوک کے باوجود وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے؟ یہ ایک ننھی سی مثال ہے ۔ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاروں کو ترغیب دیتے ہوئے بعض اوقات ہم قومی مفادات کو بھی پس پیش ڈال دیتے ہیں۔ جبکہ اپنے پاس موجود وسائل کو ملکی رو میں شامل کرنے کی بجائے اسے ملکی نظام سے بدظن کرنے کے لئیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں ۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے عد توجہ اور لاپرواہی پاکستان میں گھسٹتے نظام کی ایک ادنی سی مثال ہے کہ کس طرح ہم اپنے دستیاب وسائل کو کس بے درردی سے ضائع کر دیتے ہیں ۔ اور بعد میں وسائل کی عدم دستیابی کا رونا روتے ہیں۔ اس ضمن میں بہت سے دیگر طبقوں کی مثالیں دی جاسکتیں ہے۔
ایک عام سا فطری اور مالیاتی اصول ہے کہ جس چیز کی ضرورت جتنی اشد ہو گی اسکے حصول کی لئیے کوشش بھی اسی طرح زیادہ کی جائے گی ۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ وسائل کا حصول اور انہیں مناسب طریقے سے استعمال میں لانا ہے۔جبکہ پاکستان میں کتنے صدق دل سے اس اصول کے خلاف کوشش کی جاتی ہے ۔ پاکستان کے کسی بھی ائر پورٹ یا پورٹ کو استعمال کر کے دیکھ لیں ۔ پاکستان میں درآمد کی جانے والی قابل کسٹم ڈیوٹی اشیاء ۔ خواہ وہ ذاتی ہوں یا کاروباری ۔ یا تحائف ۔ پاکستانی کسٹم کا مستعد عملہ بڑی جانفشانی سے آپکے سامان کی تلاشی لے گا ۔ اور نتیجے میں اس سے برآمد ہونے والی اشیاء کے بارے نہائت تندہی اور خونخوار لہجے میں اس پہ کسٹم ڈیوٹی کی رقم بتائے گا ۔اور ایک سانس فر فر سبھی قانون قائدے بیان کردے گا۔اور محصول کی رقم اسقدر بڑھا چڑھا کر بتائے گا کہ پاکستان پہنچنے والے پریشان حال اور تھکن کے مارے۔ لاعلم۔ مسافر کا منہ کھلے کا کھلا رہ جائے گا۔پریشانی بھانپتے ہی ایک آدھ اہلکار نہائت ہمدردی سے سر گوشی کے انداز میں استفسار کرے گا صاحب سے ککہ کر کچھ کم کروا دوں؟ اور دیکھتے۔ دیکھتے سر عام بولی لگے گی ۔ مُک مکا ہوگا۔ اور وہ رقم جسے قومی خزانے میں جانا چاہےتھا ۔ جس خزانے سے کار سرکار پہیہ چلتا ہے ۔ وہ رقم ۔ قومی خزانے سے تنخواہ اور مراعات پانے والے ہر قسم کے حفظ و مراتب وصولنے والوں کی جیب میں چلی جائے گی ۔ گویا حکومت نے قومی خزانے سے تنخواہ اور وردی دے کر لٹیروں کو قومی وسائل کو خرد برد کرنے کے لئیے بھرتی کر رکھا ہے ۔کچھ یہی عالم پولیس اور پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پاکستان کے سبھی چھوٹے ،بڑے ۔ اہم اور غیر اہم سرکاری اداروں کا ہے ۔ محکمہ کسٹم تو محض پاکستان میں کرپشن کے گلشیئر کا نکتہ آغاز ہے ۔کبھی سوچئیے کہ اگر صرف محکمہ پولیس کا ٹریفک ڈپارٹمنٹ جرمانوں کی وہ رقم جو قومی خزانے میں جمع ہونے کی بجائے پولیس اہلکاروں کی جیب میں چلی جاتی ہے ۔ یہ رقم اگر قومی خزانے میں جمع ہو تو پولیس کی ماہ بھر کی تنخواہ ان سے آسانی سے دی جاسکتی ہے۔ اور نتیجتا قانون کی حکمرانی کا شعور اور رواج بھی ملک میں پھیلے گا ۔ اگر کوئی یہ کہے پاکستان کے اداروں یا کسٹم کے ادارے میں اور ائر پورٹس وغیرہ پہ مکا مکا کی بولی سر عام اور سب کے سامنے نہیں ہوتی تو ایسی حکومت اور ذمہ داروں کو اپنی بے خبری پہ ماتم کرنا چاہئیے ا لاہور ۔ اسلام آباد ۔ کراچی ہر ائر پورٹ پہ بڑے دھڑلے سے اور سر عام ہوتا ہے تو حکومت اور بدقماشی ۔ رشوت اور کرپشن روکنے والے حکومتی اداروں کو اسکی خبر نہیں ؟ ایسے بدقماش اہلکاروں کو سزا دینا۔ دلوانا اور نوکریوں سے فارغ کرنا حکومت کے دیگر فرائض میں سے ایک فرض ہوتا ہے ۔۔ پاکستان میں زکواۃ کے دنوں پاکستانی اپنی رقم بنکوں سے محض اسلئیے نکال لیتے ہیں کہ انہیں حکومت کی زکواۃ کٹوتی پہ بھی شکوک ہیں اور وہ اپنی زکواۃ خود اپنی تسلی سے دیتے ہیں ۔ حکومتی زکواۃ کمیٹیوں پہ یقین نہیں کرتے ۔ حاصل بحث اگرحکومت خود سے کچھ کرنے سے قاصر ہو اورقومی خزانے کو تیل دینے والے عام معلوم اداروں اور عہدیداروں کو کرپشن سے باز نہ رکھ سکے تو ایسے ماحول میں آپ کا ٹیکس گذار کس خوشی میں آپ کو ٹیکس دینے کو تیار ہوگا؟
پاکستان کے اقتصادی و معاشی اور معاشرتی حالات ۔ اندھے بجٹ کے ذریعئے نہیں سدھریں گے۔ اعدادہ شمار کا یہ گورکھ دھندا اگر اتنا ہی مفید ہوتا تو ہر سال غربت میں کمی ہوتی اور ملک و قوم ترقی کرتے جب کہ حقائق اس کے بر عکس ہیں۔ ملک میں غربت اور مہنگائی کا عفریت کب کا منہ کھولے عوام کی امیدو اور خواہشوں کو ہڑپ کرچکا ہے اور کئی سالوں سے پاکستان کے غریب عوام مفلسی اور مفلوک الحالی میں محض زندہ رہنے کا جتن کرتے ہیں۔عام پاکستانی شہری کو پاکستان کے سال در سال پیش کئیے جانے والے بجٹوں سے کوئی امید اور توقع نہیں رہی۔ اور پاکستان میں ایک عام خیال جر پکڑ چکا ہے کہ ہر سال بجٹ کے ساتھ اور فورا بعد میں مہنگائی کی ایک تازہ لہر آئے گی جو شدت میں پچلی مہنگائی سے زیادہ ہوگی ۔ اور پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت کو مدنظر رکھتے ہوئے عام آدمی کے یوں سوچنا سمجھ میں آتا ہے۔
اگر ملک کی حالت اور قوم کی تقدیر بدلنا ہے تو ۔ بڑے منصوبوں کی افادیت اپنی جگہ مگر ایک حقیقی تبدیلی اورقومی اقتصادی ترقی کے لئیے ۔ اسکے ساتھ ساتھ گلی محلے سے لیکر گاؤں۔ گوٹھ۔ بستیوں اور شہروں کے لیول کی چھوٹی چھوٹی منصوبہ بندیاں کرنی پڑیگی ۔ ان منصوبوں کے لئیے وسائل ۔ سرمایہ ۔ اور دیانت دارانہ نگرانی ، اہداف کی تکمیل تک حکومت کو سرپرستی کرنا ہو گی ۔ گلی محلے سے لیکر ملکی اور قومی سطح پہ کی جانے والی منصوبہ بندی لوگوں کی مقامی ضروریات کے مطابق ۔ پاکستانی ۔ محنت کش ۔ اور ہنر مندوں کی صلاحیتوں پہ اعتماد کرتے ہوئے ۔ انکی تربیت اور رہنمائی کرتے ہوئے کی جائے ۔ انہیں چھوٹے چھوٹے پیداواری اہداف دئیے جائیں۔ حکومتی ادارے اپنی تحقیق سے ایسے اہداف کی نشاندہی کریں ۔ اس ضمن میں پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے تحقیقی شعبوں کو بھی شامل کیا جائے۔ اور مطلوبہ پیداوار کی عام منڈیوں میں کھپت ۔حکومت کے فعال اور دیانتدار ادارے کریں ۔ پاکستان با صلاحیت افرادی قوت سے مالامال ہے ، اسکی عمدہ مثالیں فیصل آباد میں ٹیکسٹائل انڈسٹریز ۔ گوجرنوالہ میں پنکھے ۔ اور واشنگ مشینیں ۔ اسٹیل کے برتن ۔ گجرات میں پنکھے ۔ فرنیچر ۔ برتن ۔ سیالکوٹ میں کھیلوں کا سامان ۔ لیدر جیکٹس ۔ جراہی کا سامان اور پاکستان میں کئی اور شہروں میں مختلف قسم کا سامان تیار کرنے والوں سے جڑے ہزاروں خاندانوں کا روزگار اور نتیجے میں وہ پیداوار ہے۔ جس سے پاکستان کثیر زرمبادلہ بھی کما رہا ہے اور ان شہروں کی عام آبادی مناسب روزگار ہونے کی وجہ سے عام علاقوں کی نسبت خوشحال بھی ہے ۔ ان شہروں میں بہت سی مصنوعات کے چھوٹے چھوٹے جُز پرزے گھروں میں تیار کئیے جاتے ہیں۔ اگر اس جوہر قابل کی مناسب تربیت کر کے اسے قومی پیدوار میں شامل کیا جائے تو قوم کو بہتر نتائج ملیں گے ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت سی قوموں نے ننھی سطح سے سے مائیکرو منصوبہ بندی کرتے ہوئے نہ صرف پیدواری عمل بڑہایا ہے اور آج صف اول کی قوموں صف میں کھڑی ہیں ۔ بلکہ انہوں نے اسطرح اپنے شہریوں کو روزگار مہیاء کرنے کی وجہ سے ان کا معیار زندگی بھی بلند کیا ہے ۔ جبکہ پاکستان صلاحیتوں سے بھرپور اور نوجوان افرادی قوت سے مالا مال ہے ۔
جب تک قومی وسائل کو بے دردی سے لُوٹنے والوں اور بودی اہلیت کے مالک منصوبہ و پالیسی سازوں سے چھٹکارہ نہیں پاتے ۔چور دورازوں کو بند نہیں کرتے ۔ پاکستان کو دستیاب وسائل کی قدر نہیں کرتے ۔ اور بھرپور طریقے سے انہیں استعمال میں نہیں لاتے ۔ بنیادی تبدیلی کے لئیے مناسب اور مائکرو منصوبہ بندی نہیں کرتے ۔ افرادی قوت کی مناسب رہنمائی اور تربیت نہیں کرتے تب تک معاشریہ ان چھوٹی بنیادوں۔ اور اکائیوں سے اوپر نہیں اٹھے گا اور تب تک ایک باعزت قوم بننے اور اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کا خوآب ادہورا رہے گا ۔ ہم خواہ کس قدر قابل عمل بجٹ بناتے رہیں نتائج وہی ڈھاک کے تین پات ہی رہیں گے اور قومی ترقی کا خوآب محض خوآب ہی رہے گا۔ سال گزرتے دیر نہیں لگتی ۔ جون 2015 ء میں ایک بار پھر وہی تقریر اور لفظوں کا ہیر پھر محض ایک خانہ پری ہوگی۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: (خسارے, )کچھ, 2014ء, 2015, budgetپھر, Low, povertyگزارنے, ہ, ہلا, فلاح, ہم, ہمیشہ, ہماری, ہمارے, ہمدردی, ہنر, ہو, ہونے, ہونگے, ہونا, ہو۔, ہو۔اور, ہوگی, ہوگی۔, ہوگا, ہوگا۔, ہوگا؟پاکستان, ہوں, ہوئی, ہوئے, ہوا, ہوتی, ہوتے, ہوتا, ہوجائیں, ہوجائے, ہورہا, فورا, ہوسکتی, ہوسکتا, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں۔ایسے, ہیں۔عام, ہیر, ہیرا, فیصل, فیصد, ہڑپ, ہے, ہے۔, ہے۔قومی, ہے۔ایک, ہے۔ایسے, ہے۔اگر, ہے۔جبکہ, ہال, ہاتھ, فاتح, فارغ, ہر, فرنیچر, فروغ, فریاد, فرائض, فرد, فرض, ہزاروں, فطری, فعال, قوم, قوموں, قومی, قومیں, قوت, قیدی, قانون, قانونی, قائدے, قابل, قاصر, قبل, قبول, قدر, قرضوں۔, قسم, لہجے, لہر, لفظوں, لچھے, لوگ, لوگوں, لینا, لینا۔, لیول, لیکن, لیکر, لیں, لیتی, لیتے, لیدر, لُوٹ, لُوٹنے, لڑھک, لے, لگے, لگاتے, لگاتار, لگتی, لٹیروں, لئیے, لا, لاہور, لانا, لاپرواہی, لاتے, لاتےہیں, لاعلم۔, لبوں, مفلوک, مفلسی, مہنگے, مہنگائی, مہیاء, مفید, مہاجنوں, مفادات, مقیم, مقامی, مقاصد, مقدموں, مقرر, مقصود, ملیں, ملک, ملکی, ملازمت, ممالک, منہ, منڈیوں, مچا, منافع, مچاتے, مناسب, منتقل, منتقلی, مندوں, منصوبہ, منصوبوں, منظر, موجود, موجودگی, میں, میسر, مُک, مکمل, مکا, مگر, ماہ, ماہانہ, مال, مالی, مالیاتی, مالک, مالا, مالامال, مائیکرو, مائکرو, ماتم, ماحول, مادر, مارے۔, مبادلہ, متواتر, متوازی۔, متبادل, مترادف, متعلق, مثال, مثالی, مثالیں, مجال, مجاز, مجبور, مجرم, محلے, محنت, محکمہ, محکماتی, محتاط, محصول, محض, مختلف, مخصوص, مدنظر, مدت, مرہ, مراتب, مراعات, مسلسل, مسکراہٹ, مسئلہ, مسئلے, مسافر, مسائل, مستقبل, مستعد, مشینیں, مشیروں, مشکل, مشترکہ, مصنوعات, مطلوب, مطلوبہ, مطابق, مظاہرے, معلوم, معمول, معنی, معیار, معاف, معاملہ, معاملات, معاشی, معاشریہ, معاشرے, معاشرتی, معزز, نہ, نہیں, نہائت, نفس, نقصان, چلنے, چلی, چلانے, چلتا, ننھی, چندا, نوکریوں, چوٹی, نوجوان, چور, چوروں, نیچے, نیک, نیٹ, چیت, نیز, چڑھا, نے, چکا, نکال, نکتہ, نگرانی, چھ, چھوڑ, چھوٹی, چھوٹے, چپڑاسی, چھٹکارہ, چھپوائی, نئے, چاہے, چاہےتھا, چاہئیے, چاہئیں, نافذ, نام, ناگواری, ناخواندگی, نت, نتیجہ, نتیجے, نتیجتا, نتائج, نرالا, نسبت, چشم, نشانہ, نشاندہی, نصف, نصیب, نظام, نظر, نظروں, و, وہ, ڈہونڈنے, وہی, وہیں, وفاقی, وقت, وقتی, وی, ڈیوٹی, وں, ڈھکن, ڈھاک, ڈپارٹمنٹ, ڈال, والوں, والی, والے, ڈالر, ڈار, واردات, واسطہ, واشنگ, وجہ, ور, ورک, وردی, وزیر, وزیروں, وسائل, وصولنے, وغیرہ, ی, یہ, یہی, یقین, یقینی, یومیہ, یونیورسٹیوں, یوں, یوانوں, یا, یافتہ, یعنی, ۔, ۔ہر, ۔محکمہ, ۔چور, ۔وہ, ۔یہاں, ۔۔, ۔کہ, ۔کچھ, ۔کبھی, ۔پاکستان, ۔انکی, ۔اور, ۔ایسے, ۔بجٹ, ۔حکومت, ۔شیر, کہ, کہنے, کہنا, کہیں, کہے, کہ۔, کہا, کفالت, کہاں, کلچر, کم, کمی, کمیٹیوں, کما, کمائی, کماتی, کمزوریوں, کو, کوقومی, کون, کوئی, کوشش, کی, کیونکہ, کیا, کیسے, کے, ککہ, کٹ, کٹوتی, کھلے, کھلا, کھولے, کھیلوں, کھڑی, کپڑا, کھپت, کھاتا, کھسوٹ, کئی, کئیے, کا, کاونٹر, کاؤنٹر, کار, کاروں, کاروائی, کاروبار, کاروباری, کاری, کارپوریشنز, کب, کتنے, کثیر, کر, کرنی, کرنے, کرچکا, کرنا, کرناہے۔, کروڑوں, کروا, کریمنل, کریں, کرڑوں, کرے, کرےگا؟،, کرپشن, کراچی, کرتی, کرتے, کرتا, کردہ, کردے, کس, کسی, کسٹم, کش, کشی, گلی, گلشیئر, گنجلک, گویا, گوٹھ۔, گواہوں, گوجرنوالہ, گورکھ, گوشی, گی, گیا, گے, گے۔, گے؟, گھن, گھر, گھروں, گھریلو, گھسٹتے, گئ, گئی, گئے, گا, گا۔, گا۔پریشانی, گا۔اور, گا؟۔اسحق, گاؤں۔, گجرات, گذار, گزار, گزاروں, گزرتے, ٹیکس, ٹیکسوں, ٹیکسٹائل, ٹریفک, ں, پہ, پہنچنے, پہنچانے, پہیہ, پلُو, پچلی, پنکھے, پچھلی, پولیس, پورے, پورٹ, پورٹو, پورٹوں, پورٹس, پورا, پی, پیچیدہ, پیدوار, پیدواری, پیداوار, پیداواری, پیسہ, پیسے, پیش, پڑیگی, پڑتا, پکڑ, پھیلے, پھیری, پھاڑ, پھر, پا, پالیسی, پانے, پانا, پاکستان, پاکستانی, پاکستانیوں, پاؤں, پائے, پات, پاتے, پاتا۔, پاس, پخرے, پری, پریشان, پراجیکٹس, پرزے, پس, پسینے, ،, ،بڑے, ؟, ؟۔۔۔, ؟۔آجکل, ء, ء)بجٹ, ء)دور, آمیز, آمدن, آمدنی, آنے, آنکھوں, آگے, آپ, آپکے, آپس, آئی, آئے, آباد, آبادی, آتے, آتا, آج, آخر, آخری, آدم, آدمی, آدھ, آرہا, آزماتی, آسانی, آغاز, ا, اہلیت, اہلکار, اہلکاروں, اہم, اہمیت, اہانت, افادیت, افازئی, اہداف, افراد, افرادی, افسوس, افسر, اقتدار, اقتصادی, ال, اللوں, الحالی, امن, امیگرنٹس, امیگریشن, امید, امیدو, امانت, امداد, امر, ان, انہوں, انہیں, انڈسٹریز, انکی, انکے, انکا, انتہائی, اندھے, انداز, اندازے, انسانی, اوقات, اول, اوپر, اور, اورقومی, ایوان, ایڑی, ایک, ایسی, ایسے, اُن, اکائیوں, اکثریت, اکثریتی, اگر, اگرحکومت, اٹھنے, اٹھیں۔جبکہ, اٹھے, اٹھے۔, اٹھا, اپنی, اپنے, اپنا, ائر, اتنے, اتنا, اجلاس, اجلاسوں, احترام, اخلاقی, اخباری, اختلاف, اختیار, اختتام, اخراجات, ادہورا, ادنی, ادا, ادارہ, اداروں, ادارے, ارکان, اراکین, ارباب, از, اس, اسقدر, اسلوبی, اسلئیے, اسلام, اسملی, اسمبلی, اسی, اسے, اسکی, اسکیموں, اسکینڈل, اسکے, اسٹیل, استفسار, استعفی, استعمال, استعداد, اسحق, اسطرح, اشیاء, اشد, اصلاحات, اصول, اضافہ, اطلاع, اعلٰی, اعتماد, اعدو, اعدادہ, اغراض, بہٹ, بہبود, بہت, بہتر, بقدر, بلند, بلکہ, بلا, بننے, بنیادوں, بنیادوں۔, بنیادی, بنکوں, بنا, بنانا, بنایا, بنائی, بناتے, بنتا, بند, بندی, بندیوں, بندیاں, بندھے, بندر, بولی, بوجھ, بودی, بور, بیٹھ, بیان, بیرون, بیرونی, بیزار, بُرد, بڑہانے, بڑہایا, بڑی, بڑے, بڑھنے, بڑھے, بڑھا, بڑھانے, بڑھتی, بڑا, بے, بکریوں, بٹھایا, بھنا, بھی, بھیڑ, بھانپتے, بھاگے, بھر, بھرپور, بھرتی, با, باہر, باقاعدہ, بالواسطہ, بالا, بانٹ, باوا, باوجود, بابو, بات, بادشاہ, بار, بارے, باز, باعزت, بتائے, بجٹ, بجٹوں, بجٹ۔, بجائے, بحث, بد, بدقماش, بدقماشی, بدقسمتی, بدلنا, بدنامی, بدظن, بر, برآمد, برتن, برد, بستیوں, بعد, بعض, بغیر, تہہ, تقاضا, تقدیر, تقریبا, تقریر, تللوں, تلاشی, تنقید, تنخواہ, تندہی, تو, توقع, توجہ, تیل, تین, تیار, تیاری, تک, تکمیل, تھی, تھکن, تھا, تھام, تا, تانکہ, تاب, تازہ, تب, تبدیل, تبدیلی, تجاویز, تحقیق, تحقیقی, تحائف, تحت, تذکرہ, تر, ترقی, ترقی۔, تربیت, ترجیجات, ترغیب, ترغیب،, تسلی, تسلیم, تصور, تعلیم, تعلیمی, تعداد, تعریف, جہاں, جلد, جماعتیں, جمع, جن, جنہیں, جنگ, جو, جوہر, جولائی, جون, جواب, جوازوں, جیل, جیکٹس, جیب, جیسے, جُرم, جُز, جڑے, جگہ, جھک, جئیے, جان, جانفشانی, جانے, جانا, جائیں۔, جائیدادوں, جائے, جائے۔, جاتی, جاتے, جاتا, جاسکتی, جاسکتیں, جب, جبکہ, جتن, جتنی, جتنا, جثے, جر, جرمانوں, جراہی, جس, جسے, جستجو, جسطرح, حفظ, حق, حقیقی, حقیر, حقائق, حقارت, حلق, حلال, حوصلہ, حکمرانی, حکومت, حکومتوں, حکومتی, حکوت, حال, حالیہ, حالات, حالت, حاصل, حب, حد, حرام, حربے, حزب, حساب, حسبِ, حصول, حصے, خلاف, خوفناک, خونخوار, خوآب, خواہ, خواہشوں, خود, خودکشیوں, خوش, خوشی, خوشحال, خیال, خیرات, خیز, خُون, خُرد, خامیوں, خانہ, خاندانوں, خاص, خبر, خبری, ختم, خرچ, خرد, خزانہ, خزانے, خصوصی, دہندے, دہائیوں, دفاع, دل, دلچسپی, دلوانا, دلائل, دماغ, دن, دنوں, دنیا, دو, دوچار, دوں؟, دوران, دورازوں, دوسری, دوسرا, دوش, دی, دینے, دینا۔, دیکھ, دیکھا, دیکھتے, دیکھتے۔, دیگر, دیا, دیانت, دیانتی, دیانتدار, دیانتداری, دیانتدارانہ, دیتی, دیتے, دید, دیر, دے, دھندا, دھڑلے, دھتکار, دئیے, دار, داروں, داری, داریوں, دارانہ, در, درآمد, درجے, دردی, درردی, دستیاب, دستیابی, دستاویز, دستاویزات, ذلت, ذمہ, ذکر, ذاتی, ذریعہ, ذریعئے, ر, رہ, رہنمائی, رہنے, رہی, رہی۔, رہیں, رہے, رہا, رہتا, رقم, رو, رونے, رونا, رویہ۔, روکنے, روٹی, روپیہ, روپے, رواج, روتے, روز, روزی, روزگار, ریوڑ, ریاستِ, رکھ, رکھیں, رکھا, رکھتے, رکھتا۔مگر, رائے, راغب, رسم, رشوت, ز, زندہ, زندگی, زور, زیاد, زیادہ, زیریں, زکواۃ, زائد, زر, زرمبادلہ, سہولتوں, سہولتیں, سفر, سلوک, سمیت, سمجھ, سمجھے, سمجھا, سنگین, سو, سوچ, سوچنا, سوچئیے, سونا, سوال, سوجھ, سی, سیٹوں, سیالکوٹ, سیاسی, سیاستدان, سے, سےمقر, سے۔, سکے, سا, سال, سالوں, سالانہ, سامنے, سامنا, سامان, سانس, سائنسی, سابقہ, ساتھ, سادہ, سارے, سازوں, سب, سبک, سبھی, ستائشی, ستر, سدھریں, سر, سرمایہ, سرمایے, سرکار, سرکاری, سرپرستی, سربراہوں, سزا, سطح, شہادتوں, شہروں, شہری, شہریوں, شمار, شور, شکل, شکنی, شکوک, شاہی, شامل, شارٹ, شدید, شدت, شرم, شرح, شعور, شعبوں, صف, صلاحیت, صلاحیتوں, صندوق, صورت, صاحب, صحت, صدق, صرف, ضمن, ضائع, ضروت, ضروریات, ضرورت, طور, طے, طبقوں, طرف, طریقہ, طریقوں, طریقے, طرح, طرز, عہدوں, عہدیدار, عہدیداروں, عہدے, عفریت, علاقوں, علاوہ, عمل, عملہ, عمومی, عمدہ, عوام, عکس, عافیت, عالم, عالمی, عام, عامہ, عد, عدم, عزت, عظیم, غمازی, غیر, غریب, غریبوں, غریبی, غربت
جاوید چوہدری صاحب!۔
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے پاکستان کے میڈیا مالکان۔ میڈیا سے اپنی مطلب براری کے لئیے میڈیا کے ڈونرز۔ پالیسی سازوں۔ایڈیٹروں۔ کالم نگارروں۔ ٹی وی میزبان ۔ نت نئے شوشے چھوڑنے والوں اور نان ایشوز کو ایشوز بنا کر قوم کو پیش کرنے والوں کا مقدمہ لڑتے ہوئے آپ نے اپنے کیس کو مضبوط بنانے کے لئیے سارے میڈیا کو ایک فریق بنا لیا ہے جو کہ سراسر غلط ہے ۔ اپنے مقدمے میں میڈیا سے متعلق سبھی شعبہ جات کو ملوث کر لیا ہے۔ جبکہ پاکستان کے قارئین و ناظرین کے اعتراضات میں میڈیا سے متعلق سبھی لوگ شامل نہیں۔ اور معدودئے چند ایسے لوگ ابھی بھی پاکستان میں ہیں جو حقائق کا دامن نہیں چھوڑے ہوئے اور ایسے قابل احترام کالم نگار اور میزبان اور جان جوکھوں میں ڈال کر رپوٹنگ کرنے والے رپوٹر حضرات (جنہیں بجائے خود میڈیا مالکان انکی جان کو لاحق خطرات کے لئیے کام آنے والی مختلف سہولیات بہم پہنچانے میں ناکام رہے ہیں) اور حقائق عوام تک پہنچانے والے یہ رپورٹرز عوام کے اعتراضات میں شامل نہیں۔ جسطرح ہر شعبے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں اسی طرح میڈیا سے متعلق ان لوگوں پہ عوام کو اعتراضات ہیں۔ جن کا بے مقصد دفاع آپ کر رہے ہیں۔
آپکی یہ منطق ہی سرے سے غلط ہے کہ اس ملک(پاکستان) میں سب چلتا ہے۔ اور تقریبا سبھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کئی ایک لوگ۔ جائز یا ناجائزطریقوں سے کیا کچھ نہیں کما رہے۔ اور اسی منطق کے تحت اگر میڈیا اور صحافت سے تعلق رکھنے والے بھی وہی طریقہ کار اپنا رہے ہیں تو اس میں حرج کیا ہے؟۔ اسکا مطلب تو عام الفاظ میں یہی بنتا ہے کہ صحافت بھی ایک کاروبار ہے اور پاکستان میں رائج جائز ناجائزسبھی معروف طریقوں سے صحافت میں مال اور رسوخ کمانا بھی درست سمجھاجائےَ؟۔ تو حضور جب آپ یہ بات تسلیم کر رہے ہیں کہ بہتی گنگا میں ہاتھ دہونے کا حق بشمول میڈیا سبھی کو حاصل ہے۔ تو پھر عوام حق بجانب ہیں جو آپ اور آپ کے مثالی کردار کے میڈیا پہ اعتراضات کرتے ہیں۔ تو پھر آپ کو اتنا بڑھا سیریل وار کالم لکھنے کی کیا سوجھی؟۔
آپ نے اپنی برادری کے وسیع المطالعہ ہونے کا تاثر دیا ہے۔ اپنی برادری کو پاکستان کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد حتیٰ کے عام آدمی تو کیا علماء اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والوں سے بڑھ کر اپنے وسیع المطالعہ ہونے کا دعواہ کیا ہے اور مطالعے کے لئیے مختلف کتابوں پہ اٹھنے والے اخراجات کا ڈھنڈورہ پیٹا ہے۔ پاکستان کی بہترین یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ہونے کے اعزاز کا چرچا کیا ہے۔
حضور جاوید صاحب۔ پاکستان کے تنخواہ دار میڈیا کے چند ایک نہائت قابل افراد کو چھوڑ کر باقی کے وسیع المطالعہ ہونے کا اندازہ ان کے کالم اور تحریرو تقریر سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ وہ اقوام عالم اور دور حاضر میں اسلام یا پاکستان کے بارے کسقدر باخبر ہیں۔ اور تاریخ وغیرہ کی تو بات ہی جانے دی جئیے۔ اس لئیے آپکا یہ دعواہ نمائشی اور فہمائشی تو ہوسکتا ہے ۔ مگر اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ کیونکہ علم خود اپنا آپ بتا دیتا ہے۔ علم اپنا تعارف خود ہوتا ہے۔
آپ نے اپنی برادری کی پاکستان کی بہترین یونیورسٹیز سے حاصل کی جانے والی لٹریسی ڈگریزکا ذکر کیا ہے ۔ ان میں پاکستان کی یونیورسٹیز جنہیں آپ بہترین بیان کر رہے ہیں۔ ان یونیورسٹیز کو دنیا کی بہترین چھ سو یونیورسٹیزکے کسی شمار میں نہیں رکھا جاتا۔ نہ اب اور نہ پہلے کبھی کسی شمار میں رکھا گیا ہے ۔ لیکن کیا آپ کے علم میں ہے؟ ۔ کہ پاکستان میں اور بیرون پاکستان جو قارئین اور ناظرین آپ کے میڈیا کو دیکھتے ہیں اور گھن کھاتے ہیں۔ اور پاکستانی میڈیا پہ اعتراضات جڑتے ہیں۔ ان میں سے ہزاروں کی تعداد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو آپ سے بھی اہم اور پیچیدہ موضوعات پہ ڈگریز رکھتے ہیں۔ اور بہت سے ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو دنیا کی بہترین یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ہیں۔اور گرانقدر تجربہ ان کے پاس ہے۔
ایسے ایسے نابغہ روزگار اور اعلٰی تعلیم یافتہ لوگ۔ بلاگنگ۔ فیس بک۔ سوشل میڈیا پہ صرف اس لئیے اپنی صلاحتیں بلا معاضہ پیش کرتے ہیں کیونکہ وہ آپ سے آپکے مثالی کردار میڈیا سے بیزار ہی نہیں بلکہ مایوس ہوچکے ہیں۔ اور ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے دنیا کی بہترین یونیورسٹیز سے بہترین موضوعات پہ ڈگریز لے رکھی ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟؟ ۔ یہ ڈگریز کا حوالہ اور تذکرہ محض آپکی کالم نگاری کے جواب میں ہے ۔ ورنہ لازمی نہیں کہ محض ڈگریز کے حصول سے ہی کوئی فرد زیادہ قابل بن جائے۔
ملک کے جن اٹھارہ کروڑ عوام سے آپ نے گلے شکوے کئیے ہیں۔ کیا کبھی آپ نے ۔ آپکے دیگر ساتھیوں۔ یعنی بہ حیثیت میڈیا کبھی یہ جاننے کی تکلیف گوارہ کی کہ وہی اٹھارہ کروڑ عوام آپ سے کسقدر مطمئن اور خوش ہیں۔ اس بارے آپ کے قابل قدر میڈیا نے کوئی سروے کیا ہو؟ ۔ عوام سے کبھی رائے مانگی ہو؟؟۔
حال میں۔ جعلی اور فرضی خبریں جنہیں آپ۔ آپ کے ساتھیوں اور پاکستانی میڈیا نے ان فرضی اور جعلی واقعات کو ٹاپ ایشوز بنا کرقوم کے سامنے پیش کیا۔ قوم کو ورغلایا۔ غلط طور پہ رائے عامہ کو ایک مخصوص سمت میں موڑنے کی کوشش کی۔ اور جب جب جھوٹ ثابت ہوجانے پہ سوشل میڈیا سے اور دیگر ذرائع سے شوروغوغا اٹھا۔ تو آپ کے بیان کردہ پاکستانی مثالی میڈیا کو اسقدر توفیق نہ ہوئی کے اس بارے اسی شدو مد سے وضاحت جاری کرتا۔
جاوید صاحب! آپ اس بات کا جواب دینا پسند کریں گے کہ میڈیا پہ میڈیا کے پروردہ اور منتخب دانشور جو جعلی واقعات اور جھوٹی خبروں پہ جس غیض غضب کا مظاہرہ اسلام اور شرعی حدود کے خلاف کرتے رہے ہیں ۔ آخر کار اسطرح کی خبریں جھوٹی ہونے پہ آپکے بیان کردہ مثالی اینکرز اور خود آپ نے کبھی انھی افراد کو دوبارہ بلوا کر جھوٹ کا پردہ آشکارا ہونے پہ دوبارہ اسی طرح کسی مباحثے کا اہتمام کیا؟ ۔ جس سے میڈیا کی طرف سے قوم کو اسلام اور شرحی حدود کے بارے ورغلائے جانے پہ انھیں یعنی عوام کو اصلی حقائق کے بارے پتہ چلتا؟۔
پاکستان کے عام قاری کو اس بات سے غرض نہیں۔ کہ آپ معاوضہ کیوں لیتے ہیں۔ انکا اعتراض اس بات پہ ہے کہ حکومتی مدح سرائی کے بدلے سرکاری اشتہاروں سے ملنے والے کروڑوں روپے کے معاوضوں سے دواوراق کے اخبارات سے دیکھتے ہی دیکھتے اربوں روپے کے نیٹ ورک کا مالک بن جانے والے میڈیا ٹائکونز نے آپ جیسے لوگوں کو لاکھوں رؤپے کے مشاہیرے پہ کس لئیے ملازم رکھا ہوا ہے؟۔ آپ اپنا رزق حلال کرنے کے لئیے وہی بات پھیلاتے ہیں۔ جس کا اشارہ آپ کے مالکان آپ کو کرتے ہیں۔ اور آپ اور آپ کی برادری بے لاگ حقائق کو بیان کرنا کبھی کا چھوڑ چکی۔ جس کا شاید آپ کو اور آپکی برادری کو ابھی تک احساس نہیں ہوا۔
آپ سے مراد آپکی برادری کے اینکرز و پروگرام میزبان و کالم نگاروں کی اکثریت اس”آپ“ میں شامل ہے۔ اس ضمن میں صرف دو مثالیں دونگا۔ پہلی مثال۔ وہ مشہور کالم نگار ۔ جس نے مبینہ ناجائز طور پہ حاصل کردہ اپنے پلاٹ کا ذکر کرنے پہ اپنی ہی برادری کے ایک صاحب کو ننگی ننگی گالیاں دیں۔ دوسری مثال ۔ حال ہی میں پاکستان کے ایک توپ قسم کے ٹی وی میزبان نے پاکستانی عوام کی امیدوں کے آخری سہارے چیف جسٹس جناب افتخار چوہدری صاحب کو دیوار کے ساتھ لگانے کے لئیے ایک دوسری خاتون میزبان سے ملکر رئیل اسٹیٹ کی ایک متنازعہ شخصیت کا پلانٹڈ انٹرویو لیا۔
ایسی ان گنت مثالیں گنوائی جاسکتی ہیں حیرت ہوتی ہے۔ آپ میڈیا کو پوتر ثابت کرتے ہوئے کیسے ناک کے سامنے نظر آنے والی ایسی گھناؤنی مثالوں اور زندہ حقائق کو نظر انداز کر گئے ہیں؟۔
آپ اپنی برادری کی پارسائی ۔ دیانتداری کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ جبکہ عوام پوچھتے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے امریکہ کے لئیے نرم گوشہ پیدا کرنے کے لئیے معاوضے یا رشوت کے طور پہ میڈیا کو میلینز ڈالرز کے الزامات کا جواب ، تردید یا وضاحت کیوں نہیں کی جاتی؟۔
بھارتی ثقافت کی یلغار جس سے ایک عام آدمی بھی بے چین ہے۔ اور آپ جیسے پاکستان کی بہترین یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ڈگری ہولڈرز کو کیوں نظر نہیں آتی۔ اگر پاکستانی میڈیا پہ محض کاروباری لالچ میں بھارتی میڈیا کی یلغار نظر آتی ہے تو آپ جیسے لوگ کیوں اسکے خلاف کمر بستہ نہیں ہوتے؟۔ اور اگر آپ کو ایسا کچھ نہیں نظر آتا یا نہیں لگتا تو آپ پاکستان کے ایک عام ناظر یا قاری کے جذبات سے کوسوں دور ہیں تو آپ انکے اعتراضات کیسے سمجھ سکتے ہیں؟۔
پاکستان میں آزاد میڈیا کے بجائے جانے والے ترانوں پہ صرف اتنا عرض کرنا چاہوں گا۔ کہ دنیا کے ان سبھی ممالک کی تاریخ گواہ ہے جہاں میڈیا حکومتی تسلط سے آزاد ہوا وہاں عوام نے آزاد میڈیا کو سینے سے لگایا۔ انکی ستائش کی اور جب میڈیا نے من مانی کرنا چاہی تو میڈیا پہ عوام نے اعتراضات کئیے اور میڈیا کو اپنی سمت درست کرنی پڑی۔ جبکہ پاکستانی میڈیا کو ایولیشن کے ایک معروف عمل کے تحت آزادی ملی تو میڈیا نے بے سروپا اور بے ھنگم طریقوں کو محض کاروباری حیثیت کو مضبوط کرنے کے لئیے استعمال کیا۔ اور چند ایک مخصوص کالم نگاروں کا جو کریڈٹ آپ نے وصولنے کی کوشش کی ہے کہ انکی جان کو خطرے درپیش ہوئے ۔ ایجنسیوں نے انھیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیں۔ وغیرہ۔ آپ کیا یہ بتانا پسند کریں گے ۔ کہ اگر وہ یہ سب نہ لکھتے تو پاکستان کے میڈیا کا کونسا گروپ انہیں منہ لگاتا؟۔ تو حضور یہ لکھنا ہی انکا فن اور پیشہ ٹہرا جس کا وہ ان گنت معاوضہ لیتے رہے ہیں اور بدستور بہت سی شکلوں میں تا حال وصول کر رہے ہیں۔
آپ نے ڈائنو سار کے قدموں سے اپنی روزی نکالنے کا ذکر کیا ہے۔ اپنے ارد گرد دیکھیں ۔ پاکستان کی اکثریت کس طرح اپنے تن سے سانس کا رشتہ جوڑے ہوئے ہیں ۔ اور ایک تصوارتی ڈائنو سار کے پاؤں سے نہیں ۔۔ بلکہ اس نظام کے ہاتھوں اپنی عزت نفس گنوا کر دو وقت کی روٹی بمشکل حاصل کر پاتے ہیں۔ جس نظام کو تقویت دینے میں ایک ستون آپ اور آپ کا میڈیا ہے۔
عوام کو شکوہ ہے کہ پاکستانی میڈیا عوام کے ناتواں جسم و جان میں پنچے گاڑے نظام کے مخالف فریق کی بجائے اسی نظام کا ایک حصہ ایک ستون ہے۔
نوٹ:۔ یہ رائے عجلت میں لکھ کر جاوید چوہدری کے کالم پہ رائے کے طور بھیجنے کی بارہا کوششوں میں ناکام ہونے کے بعد اسے یہاں نقل کردیا ہے۔ موصوف کے آن لائن اخبار پہ انکے کالم پہ لکھنے کی صورت میں اسپیم کی اجازت نہیں وغیرہ لکھا آتا ہے۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: ہوئے, ہوا, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں۔آپ, ہے, ہے۔, ہے۔عوام, ہاتھ, ہاتھوں, فریق, قوم, قدموں, قسم, لڑتے, لگانے, لگایا۔, لئیے, مقدمہ, ملکر, ممالک, من, میڈیا, میں, میزبان, مال, مالکان۔, مانی, متنازعہ, مثال, مخالف, مطلب, نہیں, نفس, ننگی, چوہدری, چیف, نے, نگارروں, چھوڑنے, نئے, نئت, چاہوں, چاہی, نان, ناتواں, نظام, و, وہاں, وقت, ڈونرز۔, وی, والوں, والے, ڈائنو, وصول, یہ, یہی, ۔, ۔۔, کہ, کمانا, کو, کی, کیا, کیس, کے, کئیے, کا, کالم, کاروبار, کر, کرنی, کرنے, کرنا, کس, گنوا, گنگا, گواہ, گالیاں, گاڑے, گا۔, گرد, ٹی, پہ, پہلی, پنچے, پیش, پڑی۔, پالیسی, پاکستان, پاکستانی, پاؤں, پاتے, آپ, آخری, آزاد, افتخار, امیدوں, ان, انکی, اور, ایک, ایشوز, اکثریت, اپنی, اپنے, اتنا, ارد, اس, اسی, اسٹیٹ, اشوز, اعتراضات, بہتی, بلکہ, بمشکل, بنا, بنتا, بھی, بات, بجائے, براری, بشمول, تقویت, تن, تو, توپ, تا, تاریخ, ترانوں, تسلیم, تسلط, تصوارتی, تعلق, جہاں, جناب, جوڑے, جان, جانے, جاوید, جب, جبکہ, جس, جسم, جسٹس, حق, حکومتی, حال, حاصل, حصہ, حضور, خاتون, دہونے, دنیا, دو, دوسری, دینے, دیوار, دیکھیں, دیں۔, درست, ذکر, رہے, روٹی, روزی, رئیل, رائج, رسوخ, رشتہ, زندگی, سہارے, سمت, سمجھاجائےَ؟۔, سینے, سے, سانس, ساتھ, سار, سازوں۔ایڈیٹروں۔, سبھی, ستون, ستائش, شوشے, شکوہ, شخصیت, شعبہ, صاحب, صحافت, صرف, طریقوں, طرح, عوام, عرض, عزت