جاوید چوہدری صاحب!۔
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے پاکستان کے میڈیا مالکان۔ میڈیا سے اپنی مطلب براری کے لئیے میڈیا کے ڈونرز۔ پالیسی سازوں۔ایڈیٹروں۔ کالم نگارروں۔ ٹی وی میزبان ۔ نت نئے شوشے چھوڑنے والوں اور نان ایشوز کو ایشوز بنا کر قوم کو پیش کرنے والوں کا مقدمہ لڑتے ہوئے آپ نے اپنے کیس کو مضبوط بنانے کے لئیے سارے میڈیا کو ایک فریق بنا لیا ہے جو کہ سراسر غلط ہے ۔ اپنے مقدمے میں میڈیا سے متعلق سبھی شعبہ جات کو ملوث کر لیا ہے۔ جبکہ پاکستان کے قارئین و ناظرین کے اعتراضات میں میڈیا سے متعلق سبھی لوگ شامل نہیں۔ اور معدودئے چند ایسے لوگ ابھی بھی پاکستان میں ہیں جو حقائق کا دامن نہیں چھوڑے ہوئے اور ایسے قابل احترام کالم نگار اور میزبان اور جان جوکھوں میں ڈال کر رپوٹنگ کرنے والے رپوٹر حضرات (جنہیں بجائے خود میڈیا مالکان انکی جان کو لاحق خطرات کے لئیے کام آنے والی مختلف سہولیات بہم پہنچانے میں ناکام رہے ہیں) اور حقائق عوام تک پہنچانے والے یہ رپورٹرز عوام کے اعتراضات میں شامل نہیں۔ جسطرح ہر شعبے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں اسی طرح میڈیا سے متعلق ان لوگوں پہ عوام کو اعتراضات ہیں۔ جن کا بے مقصد دفاع آپ کر رہے ہیں۔
آپکی یہ منطق ہی سرے سے غلط ہے کہ اس ملک(پاکستان) میں سب چلتا ہے۔ اور تقریبا سبھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کئی ایک لوگ۔ جائز یا ناجائزطریقوں سے کیا کچھ نہیں کما رہے۔ اور اسی منطق کے تحت اگر میڈیا اور صحافت سے تعلق رکھنے والے بھی وہی طریقہ کار اپنا رہے ہیں تو اس میں حرج کیا ہے؟۔ اسکا مطلب تو عام الفاظ میں یہی بنتا ہے کہ صحافت بھی ایک کاروبار ہے اور پاکستان میں رائج جائز ناجائزسبھی معروف طریقوں سے صحافت میں مال اور رسوخ کمانا بھی درست سمجھاجائےَ؟۔ تو حضور جب آپ یہ بات تسلیم کر رہے ہیں کہ بہتی گنگا میں ہاتھ دہونے کا حق بشمول میڈیا سبھی کو حاصل ہے۔ تو پھر عوام حق بجانب ہیں جو آپ اور آپ کے مثالی کردار کے میڈیا پہ اعتراضات کرتے ہیں۔ تو پھر آپ کو اتنا بڑھا سیریل وار کالم لکھنے کی کیا سوجھی؟۔
آپ نے اپنی برادری کے وسیع المطالعہ ہونے کا تاثر دیا ہے۔ اپنی برادری کو پاکستان کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد حتیٰ کے عام آدمی تو کیا علماء اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والوں سے بڑھ کر اپنے وسیع المطالعہ ہونے کا دعواہ کیا ہے اور مطالعے کے لئیے مختلف کتابوں پہ اٹھنے والے اخراجات کا ڈھنڈورہ پیٹا ہے۔ پاکستان کی بہترین یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ہونے کے اعزاز کا چرچا کیا ہے۔
حضور جاوید صاحب۔ پاکستان کے تنخواہ دار میڈیا کے چند ایک نہائت قابل افراد کو چھوڑ کر باقی کے وسیع المطالعہ ہونے کا اندازہ ان کے کالم اور تحریرو تقریر سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ وہ اقوام عالم اور دور حاضر میں اسلام یا پاکستان کے بارے کسقدر باخبر ہیں۔ اور تاریخ وغیرہ کی تو بات ہی جانے دی جئیے۔ اس لئیے آپکا یہ دعواہ نمائشی اور فہمائشی تو ہوسکتا ہے ۔ مگر اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ کیونکہ علم خود اپنا آپ بتا دیتا ہے۔ علم اپنا تعارف خود ہوتا ہے۔
آپ نے اپنی برادری کی پاکستان کی بہترین یونیورسٹیز سے حاصل کی جانے والی لٹریسی ڈگریزکا ذکر کیا ہے ۔ ان میں پاکستان کی یونیورسٹیز جنہیں آپ بہترین بیان کر رہے ہیں۔ ان یونیورسٹیز کو دنیا کی بہترین چھ سو یونیورسٹیزکے کسی شمار میں نہیں رکھا جاتا۔ نہ اب اور نہ پہلے کبھی کسی شمار میں رکھا گیا ہے ۔ لیکن کیا آپ کے علم میں ہے؟ ۔ کہ پاکستان میں اور بیرون پاکستان جو قارئین اور ناظرین آپ کے میڈیا کو دیکھتے ہیں اور گھن کھاتے ہیں۔ اور پاکستانی میڈیا پہ اعتراضات جڑتے ہیں۔ ان میں سے ہزاروں کی تعداد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو آپ سے بھی اہم اور پیچیدہ موضوعات پہ ڈگریز رکھتے ہیں۔ اور بہت سے ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو دنیا کی بہترین یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ہیں۔اور گرانقدر تجربہ ان کے پاس ہے۔
ایسے ایسے نابغہ روزگار اور اعلٰی تعلیم یافتہ لوگ۔ بلاگنگ۔ فیس بک۔ سوشل میڈیا پہ صرف اس لئیے اپنی صلاحتیں بلا معاضہ پیش کرتے ہیں کیونکہ وہ آپ سے آپکے مثالی کردار میڈیا سے بیزار ہی نہیں بلکہ مایوس ہوچکے ہیں۔ اور ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے دنیا کی بہترین یونیورسٹیز سے بہترین موضوعات پہ ڈگریز لے رکھی ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟؟ ۔ یہ ڈگریز کا حوالہ اور تذکرہ محض آپکی کالم نگاری کے جواب میں ہے ۔ ورنہ لازمی نہیں کہ محض ڈگریز کے حصول سے ہی کوئی فرد زیادہ قابل بن جائے۔
ملک کے جن اٹھارہ کروڑ عوام سے آپ نے گلے شکوے کئیے ہیں۔ کیا کبھی آپ نے ۔ آپکے دیگر ساتھیوں۔ یعنی بہ حیثیت میڈیا کبھی یہ جاننے کی تکلیف گوارہ کی کہ وہی اٹھارہ کروڑ عوام آپ سے کسقدر مطمئن اور خوش ہیں۔ اس بارے آپ کے قابل قدر میڈیا نے کوئی سروے کیا ہو؟ ۔ عوام سے کبھی رائے مانگی ہو؟؟۔
حال میں۔ جعلی اور فرضی خبریں جنہیں آپ۔ آپ کے ساتھیوں اور پاکستانی میڈیا نے ان فرضی اور جعلی واقعات کو ٹاپ ایشوز بنا کرقوم کے سامنے پیش کیا۔ قوم کو ورغلایا۔ غلط طور پہ رائے عامہ کو ایک مخصوص سمت میں موڑنے کی کوشش کی۔ اور جب جب جھوٹ ثابت ہوجانے پہ سوشل میڈیا سے اور دیگر ذرائع سے شوروغوغا اٹھا۔ تو آپ کے بیان کردہ پاکستانی مثالی میڈیا کو اسقدر توفیق نہ ہوئی کے اس بارے اسی شدو مد سے وضاحت جاری کرتا۔
جاوید صاحب! آپ اس بات کا جواب دینا پسند کریں گے کہ میڈیا پہ میڈیا کے پروردہ اور منتخب دانشور جو جعلی واقعات اور جھوٹی خبروں پہ جس غیض غضب کا مظاہرہ اسلام اور شرعی حدود کے خلاف کرتے رہے ہیں ۔ آخر کار اسطرح کی خبریں جھوٹی ہونے پہ آپکے بیان کردہ مثالی اینکرز اور خود آپ نے کبھی انھی افراد کو دوبارہ بلوا کر جھوٹ کا پردہ آشکارا ہونے پہ دوبارہ اسی طرح کسی مباحثے کا اہتمام کیا؟ ۔ جس سے میڈیا کی طرف سے قوم کو اسلام اور شرحی حدود کے بارے ورغلائے جانے پہ انھیں یعنی عوام کو اصلی حقائق کے بارے پتہ چلتا؟۔
پاکستان کے عام قاری کو اس بات سے غرض نہیں۔ کہ آپ معاوضہ کیوں لیتے ہیں۔ انکا اعتراض اس بات پہ ہے کہ حکومتی مدح سرائی کے بدلے سرکاری اشتہاروں سے ملنے والے کروڑوں روپے کے معاوضوں سے دواوراق کے اخبارات سے دیکھتے ہی دیکھتے اربوں روپے کے نیٹ ورک کا مالک بن جانے والے میڈیا ٹائکونز نے آپ جیسے لوگوں کو لاکھوں رؤپے کے مشاہیرے پہ کس لئیے ملازم رکھا ہوا ہے؟۔ آپ اپنا رزق حلال کرنے کے لئیے وہی بات پھیلاتے ہیں۔ جس کا اشارہ آپ کے مالکان آپ کو کرتے ہیں۔ اور آپ اور آپ کی برادری بے لاگ حقائق کو بیان کرنا کبھی کا چھوڑ چکی۔ جس کا شاید آپ کو اور آپکی برادری کو ابھی تک احساس نہیں ہوا۔
آپ سے مراد آپکی برادری کے اینکرز و پروگرام میزبان و کالم نگاروں کی اکثریت اس”آپ“ میں شامل ہے۔ اس ضمن میں صرف دو مثالیں دونگا۔ پہلی مثال۔ وہ مشہور کالم نگار ۔ جس نے مبینہ ناجائز طور پہ حاصل کردہ اپنے پلاٹ کا ذکر کرنے پہ اپنی ہی برادری کے ایک صاحب کو ننگی ننگی گالیاں دیں۔ دوسری مثال ۔ حال ہی میں پاکستان کے ایک توپ قسم کے ٹی وی میزبان نے پاکستانی عوام کی امیدوں کے آخری سہارے چیف جسٹس جناب افتخار چوہدری صاحب کو دیوار کے ساتھ لگانے کے لئیے ایک دوسری خاتون میزبان سے ملکر رئیل اسٹیٹ کی ایک متنازعہ شخصیت کا پلانٹڈ انٹرویو لیا۔
ایسی ان گنت مثالیں گنوائی جاسکتی ہیں حیرت ہوتی ہے۔ آپ میڈیا کو پوتر ثابت کرتے ہوئے کیسے ناک کے سامنے نظر آنے والی ایسی گھناؤنی مثالوں اور زندہ حقائق کو نظر انداز کر گئے ہیں؟۔
آپ اپنی برادری کی پارسائی ۔ دیانتداری کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ جبکہ عوام پوچھتے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے امریکہ کے لئیے نرم گوشہ پیدا کرنے کے لئیے معاوضے یا رشوت کے طور پہ میڈیا کو میلینز ڈالرز کے الزامات کا جواب ، تردید یا وضاحت کیوں نہیں کی جاتی؟۔
بھارتی ثقافت کی یلغار جس سے ایک عام آدمی بھی بے چین ہے۔ اور آپ جیسے پاکستان کی بہترین یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ڈگری ہولڈرز کو کیوں نظر نہیں آتی۔ اگر پاکستانی میڈیا پہ محض کاروباری لالچ میں بھارتی میڈیا کی یلغار نظر آتی ہے تو آپ جیسے لوگ کیوں اسکے خلاف کمر بستہ نہیں ہوتے؟۔ اور اگر آپ کو ایسا کچھ نہیں نظر آتا یا نہیں لگتا تو آپ پاکستان کے ایک عام ناظر یا قاری کے جذبات سے کوسوں دور ہیں تو آپ انکے اعتراضات کیسے سمجھ سکتے ہیں؟۔
پاکستان میں آزاد میڈیا کے بجائے جانے والے ترانوں پہ صرف اتنا عرض کرنا چاہوں گا۔ کہ دنیا کے ان سبھی ممالک کی تاریخ گواہ ہے جہاں میڈیا حکومتی تسلط سے آزاد ہوا وہاں عوام نے آزاد میڈیا کو سینے سے لگایا۔ انکی ستائش کی اور جب میڈیا نے من مانی کرنا چاہی تو میڈیا پہ عوام نے اعتراضات کئیے اور میڈیا کو اپنی سمت درست کرنی پڑی۔ جبکہ پاکستانی میڈیا کو ایولیشن کے ایک معروف عمل کے تحت آزادی ملی تو میڈیا نے بے سروپا اور بے ھنگم طریقوں کو محض کاروباری حیثیت کو مضبوط کرنے کے لئیے استعمال کیا۔ اور چند ایک مخصوص کالم نگاروں کا جو کریڈٹ آپ نے وصولنے کی کوشش کی ہے کہ انکی جان کو خطرے درپیش ہوئے ۔ ایجنسیوں نے انھیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیں۔ وغیرہ۔ آپ کیا یہ بتانا پسند کریں گے ۔ کہ اگر وہ یہ سب نہ لکھتے تو پاکستان کے میڈیا کا کونسا گروپ انہیں منہ لگاتا؟۔ تو حضور یہ لکھنا ہی انکا فن اور پیشہ ٹہرا جس کا وہ ان گنت معاوضہ لیتے رہے ہیں اور بدستور بہت سی شکلوں میں تا حال وصول کر رہے ہیں۔
آپ نے ڈائنو سار کے قدموں سے اپنی روزی نکالنے کا ذکر کیا ہے۔ اپنے ارد گرد دیکھیں ۔ پاکستان کی اکثریت کس طرح اپنے تن سے سانس کا رشتہ جوڑے ہوئے ہیں ۔ اور ایک تصوارتی ڈائنو سار کے پاؤں سے نہیں ۔۔ بلکہ اس نظام کے ہاتھوں اپنی عزت نفس گنوا کر دو وقت کی روٹی بمشکل حاصل کر پاتے ہیں۔ جس نظام کو تقویت دینے میں ایک ستون آپ اور آپ کا میڈیا ہے۔
عوام کو شکوہ ہے کہ پاکستانی میڈیا عوام کے ناتواں جسم و جان میں پنچے گاڑے نظام کے مخالف فریق کی بجائے اسی نظام کا ایک حصہ ایک ستون ہے۔
نوٹ:۔ یہ رائے عجلت میں لکھ کر جاوید چوہدری کے کالم پہ رائے کے طور بھیجنے کی بارہا کوششوں میں ناکام ہونے کے بعد اسے یہاں نقل کردیا ہے۔ موصوف کے آن لائن اخبار پہ انکے کالم پہ لکھنے کی صورت میں اسپیم کی اجازت نہیں وغیرہ لکھا آتا ہے۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: ہوئے, ہوا, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں۔آپ, ہے, ہے۔, ہے۔عوام, ہاتھ, ہاتھوں, فریق, قوم, قدموں, قسم, لڑتے, لگانے, لگایا۔, لئیے, مقدمہ, ملکر, ممالک, من, میڈیا, میں, میزبان, مال, مالکان۔, مانی, متنازعہ, مثال, مخالف, مطلب, نہیں, نفس, ننگی, چوہدری, چیف, نے, نگارروں, چھوڑنے, نئے, نئت, چاہوں, چاہی, نان, ناتواں, نظام, و, وہاں, وقت, ڈونرز۔, وی, والوں, والے, ڈائنو, وصول, یہ, یہی, ۔, ۔۔, کہ, کمانا, کو, کی, کیا, کیس, کے, کئیے, کا, کالم, کاروبار, کر, کرنی, کرنے, کرنا, کس, گنوا, گنگا, گواہ, گالیاں, گاڑے, گا۔, گرد, ٹی, پہ, پہلی, پنچے, پیش, پڑی۔, پالیسی, پاکستان, پاکستانی, پاؤں, پاتے, آپ, آخری, آزاد, افتخار, امیدوں, ان, انکی, اور, ایک, ایشوز, اکثریت, اپنی, اپنے, اتنا, ارد, اس, اسی, اسٹیٹ, اشوز, اعتراضات, بہتی, بلکہ, بمشکل, بنا, بنتا, بھی, بات, بجائے, براری, بشمول, تقویت, تن, تو, توپ, تا, تاریخ, ترانوں, تسلیم, تسلط, تصوارتی, تعلق, جہاں, جناب, جوڑے, جان, جانے, جاوید, جب, جبکہ, جس, جسم, جسٹس, حق, حکومتی, حال, حاصل, حصہ, حضور, خاتون, دہونے, دنیا, دو, دوسری, دینے, دیوار, دیکھیں, دیں۔, درست, ذکر, رہے, روٹی, روزی, رئیل, رائج, رسوخ, رشتہ, زندگی, سہارے, سمت, سمجھاجائےَ؟۔, سینے, سے, سانس, ساتھ, سار, سازوں۔ایڈیٹروں۔, سبھی, ستون, ستائش, شوشے, شکوہ, شخصیت, شعبہ, صاحب, صحافت, صرف, طریقوں, طرح, عوام, عرض, عزت
مشکوک آئی پیز۔ گالم گلوچ اور قانون۔
محترمہ ! حجاب ِ شب !! کے بارے میں اردو بلاگنگ پہ سیر کرنے والے اس بات کی شہادت دینگے کہ ان کی تحریریں بے ضرر سی سلجھی ہوئیں اور عام سے موضوعات پہ اپنی سادگی کی وجہ سے انتہائی دلچسپ ہوتی ہیں۔ مگر انھیں اور دیگر بلاگرز کو گالیاں لکھی جارہی ہیں۔ اور ان سے اگر کسی کو کوئی اعتراض ہو گا تو شاید نام نہاد روشن خیالوں کو مگر "اہمیت آپا” باوجود اپنی کم علمی اور اضافی روشن خیالی اور انکے "بغل بچے” سے یہ امید نہیں کی جاتی کہ وہ اسقدر لغو حرکت پہ اتر آئیں گے۔ ویسے بھی اختلافات اپنی جگہ سبھی اردو بلاگستان کے حسین پھول ہیں جن کے دم سے اردو بلاگستان پہ رونق ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ جزاک اللہ بریگیڈ کے ساتھ انٹر نیشنل مرازئیت کو ذیادہ تکلیف ہے ۔ کیونکہ وہ بھی مولوی اور ملا سے چڑے ہوئے ہیں اور پاکستان میں اپنے عزائم کی راہ میں مولوی اور ملا صاحبان کو بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں ۔ایسا کچھ عرصے سے بہت سے بلاگرز کےساتھ یوں ہوتا آرہا ہے۔ اور اسمیں ایک بات مشترک ہے کہ انہی بلاگرز کے ساتھ یوں ہوتا ہے جو اپنے مسلمان ہونے پہ فخر محسوس کرتے ہیں۔
MULA@YAHOO.COM
174.36.29.73
اس آخری والی آئی پی سے کسی نے مجھے بھی اوپر والے نام سےغلیظ گالیاں لکھ بیجھی تھیں۔ یہ آئی پی کی رجسٹریشن "ویسٹ ڈیلاس” امریکہ میں "پارک ہاؤس اسٹریٹ” سے ساڑھے پانچ سو فٹ اور کانٹنیٹل ایو سے بمشکل پونے دو سو فٹ پہ واقع ہے۔
پوری یورپی یونین اور اسپین میں خاصکر آجکل انٹر نیٹ کو عام استعمال کی شئے بنانے کے لئیے جہاں بلاگنگ اور فورمز وغیرہ بنانے اور آزادی اظہار رائے کو قوانین کے تحت تحفظ کو مزید بہتر کیا جارہا ہے وہیں۔ کسی کو ای ۔ میل اور بلاگ یا فورم اٰیڈریس پہ جسے قوانین میں ایک طرح کی ای میل ہی سمجھا جاتا ہے کے ذریعے دھمکی دینا۔ فراڈ کرنا۔ یا گالی گلوچ یا بچوں کو ڈبل ایکس ریٹیڈ یا تشدد پہ مبنی وغیرہ لنک بیجھنے سے متعلق بہت سخت کئیے جارہے ہیں ۔
عرصہ دراز سے اسپین کی انٹر نیت سے سائینٹیفک پولیس اس بارے تفتیش میں یوروپ وغیرہ میں کلیدی رول کرتی آئی ہے۔ اور نہائت جانفشانی سے کم عمر بچون سے متعلق فاحش سائٹس اور بنکنگ فراڈ سے ۔عام آدمی کے تحفظ اور کم عمر بچوں کے انٹر نیٹ پہ حقوق کی حفاظت سے متعلق۔ اور کسی کو دھمکی ، اسپیم میلز، یا زبردستی کی کاروباری معلومات جب صارف نے منع کر رکھا ہو۔ اور گالی گلوچ ، ذاتی، سیاسی، مزھبی (اسلام، عیسائت ، یہودیت کوئی سا بھی مذھب ہو کہ تینوں مزاھب یہاں سرکاری طور پہ تسلیم شدہ مذھب ہیں) یا کسی کے عقیدے کی وجہ سے اسے ای میلز کے زرہئے توہین کرنا وغیرہ سختی جرم تصور کیا جاتا ہے۔ اور اس جرم کا پیچھا کرنے کی کوشش کی جاتی خواہ اسکا پتہ لگانے کے لئیے کسقدر ہی پیچیدگی کا سامنا کرنا پڑے اور اسکے ڈانڈے اسپین یا یوروپی یونین سے باہر کسی تیسرے ملک سے جا ملیں۔ وہاں کی پولیس کو شامل کو کیس کی تفتیش کرنے کی استدعا کی جاتی ہے۔
وجہ اسکی صرف یہ ہے کہ اسپین اور اسکے علاوہ دنیا کے بے شمار ممالک بجلی اور فون کے بلز سے لیکر بینکوں میں رقوم ٹرانسفر کرنے اور گھر بیٹھ کر اپنے اکاؤنٹس کو آپریٹ یا ہینڈل کرنا جسے آن لائن بینکنگ کا نام دیا گیا ہے۔ لاکھوں بلکہ کروڑوں یوروز کی نقل حرکت روازانہ انٹر نیٹ پہ ہوتی ہے۔ آلو ، کھیرے اور ٹماٹر جیسی روز مرہ کی باورچی خانے کے عام استعمال کی اشیاء سے لیکر ریلوے، بسوں، ہوائی جہازوں اور بحری جہازوں کے ٹکٹس کے علاوہ کسی قسم کی کوئی بھی چیز انٹر نیٹ پہ خریدنے کا رواج عام ہے۔
انتہائی مصروف وزارتوں کا بوجھ انٹرنیٹ پہ منتقل کردیا گیا ہے۔ جس پہ صارف اپنی سہولت سے گھر بیٹھے عام معاملات نمٹا لیتا ہے۔ اور مختلف قسم کے سرٹیفیکیٹس کا اجرا اور دستاویزات اپنے پرنٹ کرتے ہوئے وزارتوں کے دفاتر سے بچتا ہے وقت اور پیسے کے ضیاع سے بچ جاتا ہے وہیں بڑی بڑی منسٹریز کا کام کم ہونے کی وجہ سے بہت کم لوگ وہاں ملازم رکھے جاتے ہیں اور عمارتوں اور سیٹنگز ہالوں سے جان چھوٹنے سے اخراجات میں کمی ہوتی ہے، یعنی سہولت اور بچت، عوام اور حکومت دونوں کے مفاد میں ہونے کی وجہ سے انٹر نیٹ کو رواج دئیے اور اسطرح کی سہولتیں یعنی ڈاکٹرز سے مشورہ۔ یا فیملی ڈاکٹر سے ملاقات کا وقات طے کرنا یہ سب انٹر نیٹ کی وجہ سے آسان اور سستا ہوگیا ہے۔
اسپین اور اسطرح کے دیگر ممالک ہر سال انٹرنیٹ کے استعمال ، اسے سادہ بنانا، صارفین کو اسکے استعمال کرنے کو قائل کرنا، وغیرہ کے لئیے ۔ یہ ممالک اپنے اہداف مقرر کرتے ہیں اور پھر اسے حاصل کرنے کے لئیے مناسب تہشیر اور بجٹ مقرر کرتے ہیں۔
اسلئیے انٹر نیت پہ گھومتی معلومات اور انکے تحفظ کے لئیے اسپین اور دیگر ممالک بہت کوشاں ہیں۔ اس حوالے سے اسپین سائبر کرائمز سے متعلق سائنٹفیک پولیس نہائت متحرک ہے اور مقبولیت اور اہلیت رکھتی ہے۔ اور اسے اردگرد کے ممالک میں بھی نہائت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور انکے کام کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے انٹر نیٹ پہ گھومتی لاٹری جس میں بطور خاص خواتین اور بزرگ شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا ۔کے ایک سلسلے میں سائبر جرائم سے متلق پولیس کو آگاہ کرنے کی وجہ سے بات چیت کا موقع ملا ۔ تو بہت سے امور پہ روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بہت سے لوگ صرف اسلئیے اپنی ہیرا پھریوں میں کامیاب رہتے ہیں یا دوسروں کو ای۔ میلز وغیرہ سے تنگ کرتے ہیں۔ کیونکہ ایسے لوگوں کے خلاف لوگ پولیس سے رجوع کرنے کی بجائے ایسی ایسی مشکوک میلز ڈیلیٹ کر دینا ایک آسان حل سمجھتے ہییں
سائبر کرائم سے متلعقہ اسپین کی سائنٹفک پولیس کے افیسرز نے بتایا کہ "ہر شہری کا یہ حق ہے کہ اگر کوئی اسے اسطرح کی حرکت کی وجہ سے تنگ کر رہا ہے تو وہ ہمیں اطلاع کرے ۔ ہم مکمل چھان بین کریں گے۔ نیز جعلی آئی پیز سے کی گئیں ای۔ میلز اور اسطرح کے دوسرے سافٹ وئیرز سے جس میں فیک یا جعلی آئی ڈی آئی پیز سے گالی گلوچ کر کے اگر کوئی یہ تصور کرتا ہے کہ وہ اپنی اصلی آئی ڈی اور آئی پی چھپا لے گا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے ۔ کیونکہ پولیس کے لئیے ایسی ای میل کے مبنع کا سراغ لانا قطعی مشکل نہیں ۔ اور دوسرے ممالک کی پولیس سے اس بارے کاروائی کرنے کی استدعا کرنا ہمارے فرض میں آتا ہے۔ ورنہ لوگ انٹر نیٹ کو استعمال کرنے سے ہچکچائیں گے اور انکا اعتماد انٹر نیٹ پہ نہیں بڑھے گا اور حکومت کو اپنے اہداف حاصل کرنے میں مشکل ہوگی۔ آزادی اظہار رائے ہر انسان کا حق ہے اور کھلے عام بحث میں کوئی بھی فرد اپنے جزبات کا اظہار کر سکتا ہے ۔ مگر کسی کو دہمکی دینا یا صاحب بلاگ کا منع اور بلاک کرنے کے باوجود اسے اسپیمز سے تنگ کرنا ، یا بغیر اجازت کے کاروباری اشیاء فروخت کرنے کے لئیے تشہیر کرنا ۔ گالی گلوچ دینا جرم تصور کیا جاتاہے۔ جن میں مختلف جرمانوں سے لیکر قید تک کی سزا دی جاتی ہے”۔
اور میں سوچ رہا ہوں ۔MULA@YAHOO.COM 174.36.29.73 اسکے بارے آگاۃ کر دوں۔ یا ایک موقع اور دوں شاید یہ خباثت سے باز آجائے۔
ذیل میں وہ آئی پیز اور انکے ایڈریس ہیں جن کے بارے محترمہ حجاب نے لکھا ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ……..— …… —– …… —– ……………— …… —– …… —– …….
xamples: 213.86.83.116 (IP address) or google.com (Website)
178.162.134.29 IP address location & more:
IP address [?]: 178.162.134.29 [Whois] [Reverse IP]
IP country code: DE
IP address country: Germany
IP address state: n/a
IP address city: n/a
IP address latitude: 51.0000
IP address longitude: 9.0000
ISP of this IP [?]: Leaseweb Germany GmbH (previously netdirekt e. K.)
Organization: Leaseweb Germany GmbH (previously netdirekt e. K.)
Host of this IP: [?]: 178-162-134-29.local [Whois] [Trace]
……..— …… —– …… —– ……………— …… —– …… —– …….
178.162.131.60 IP address location & more:
IP address [?]: 178.162.131.60 [Whois] [Reverse IP]
IP country code: DE
IP address country: Germany
IP address state: n/a
IP address city: n/a
IP address latitude: 51.0000
IP address longitude: 9.0000
ISP of this IP [?]: Leaseweb Germany GmbH (previously netdirekt e. K.)
Organization: Leaseweb Germany GmbH (previously netdirekt e. K.)
Host of this IP: [?]: 178-162-131-60.local [Whois] [Trace]
……..— …… —– …… —– ……………— …… —– …… —– …….
174.36.29.73 IP address location & more:
IP address [?]: 174.36.29.73 [Whois] [Reverse IP]
IP country code: US
IP address country: United States
IP address state: Texas
IP address city: Dallas
IP postcode: 75207
IP address latitude: 32.7825
IP address longitude: -96.8207
ISP of this IP [?]: SoftLayer Technologies
Organization: EasyTech
Host of this IP: [?]: 174.36.29.73-static.reverse.softlayer.com [Whois] [Trace]
Local time in United States: 2011-06-12 16:09
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: فورمز, فخر, قوانین, مولوی, مُلا, مشکوک, یورپی یونین, گالم گلوچ, گالیاں, آئی پی, اسپین, اظہار رائے, بلاگ, بلاگنگ, بلاگستان, تحفظ, روشن خیال, روشن خیالی