RSS

Tag Archives: ٭

کولبیرٹ ازم ۔ برصغیر ہندؤستان۔ اور برئنیر رپورٹ۔چوتھی قسط


کولبیرٹ ازم ۔ برصغیر ہندؤستان۔ اور برئنیر رپورٹ۔ چوتھی قسط۔

برنئیر کی ہندؤستان کے بارے ۔مذہب سے لیکر خاندانی رسم و رواج ۔سیاست اور انتظامیہ کے متعلق معلومات انتہائی مفید تھیں۔ مالی اور اقتصادی مقابلے کے لئیے مسابقت کی دوڑ میں شامل ہونے سے قبل ضروری تھا۔ کہ ہر نقطہ نظر اور ہر زاویے سے ۔ اہم معلومات کے ساتھ (کسی ممکنہ مہم جوئی کی صور ت میں )کچھ اہم امور سرانجام دئیے جائیں۔اور اسی وجہ سے ریاستوں کو ایسے معاملات میں عام افراد اور نجی فرموں پہ برتری حاصل تھی۔”سابقہ ادوار یعنی حکومتوں میں نوآبادیت سے متعلقہ مسائل میں ایک بڑا الجھا ہوا مسئلہ ریاستوں اور کمپنیوں کے مابین ملکیت اور اختیارات کا مسئلہ تھا ۔ ملکیت اور اختیارات کے اس گنجلک مسئلے کے سیاسی اور مالی پہلو تھے ۔ اور اسے ”خصوصیت “ نام دیا گیا اور اس مسئلے کا حل”خصوصیت “ نامی نظام,( "L’exclusif” )پہ منحصر تھا۔ جسے بعد کی حکومتوں میں ”نوآبادیت معائدہ“ یعنی” کالونی پیکٹ “کا نام دیا گیا ۔(۱۴٭)۔

کمپنیوں کی کثیر جہتی سرگرمیاں عموماَ ایک تسلسل کے ساتھ ریاستوں کی مقرر کردہ سفارتی اور قانونی حدود پار کرتی رہتیں ۔ سترہویں صدی کے وسط سے (تجارتی مفادات حاصل ہونے۔ اور تجارتی مفادات کی اہمیت کے باوجود) کمپنیوں اور ریاستوں کی آپس میں ہمیشہ صلح نہیں رہتی تھی۔ یعنی آپس میں مفادات کا ٹکراؤ ہوتا تھا ۔(۱۵٭)۔

برنئیر اس ساری صورتحال کے بارے باخبر ہونے کی وجہ سے یہ جانتا تھا کہ اسکی مہیاء کردہ معلومات کسقدر اہم اور مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔اسلئیے وہ تمام تفضیلات اور جزئیات بیان کرتا ہے۔برنئیر لکھتا ہے”یہ نکتہ بہت اہم اور نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ مغل فرماں روا شعیہ نہیں جو علیؓ ( رضی اللہ تعالٰی عنہ) اور انکی آل کو مانتے ہیں۔ جیسا کہ ایران میں شعیہ مانتے ہیں ۔ بلکہ مغل فرماں روا محمدن ہے ۔ (صلی اللہ علیہ وسلم ) (یعنی سُنی مسلک رکھتا ہے) اور نتیجتاَمغل باشاہ کے دربار میں سُنی درباریوں کی اکثریت ہے ۔ ترکی کے مسلمانوں کی طرح انکامسلک سُنی ہے جو عثمانؓ ( رضی اللہ تعالٰی عنہ) کو ماننے والے ہیں ۔ اسکے علاوہ مغل فرماں روا کے ساتھ ایک اور مسئلہ ہے کہ مغل بادشاہ کے آباءاجداد غیر ملکہ ہونے کی وجہ سے خود مغل بادشاہ بھی غیر ملکی سمجھا جاتا ہے ۔ مغل بادشاہ کا نسب تیمور لنگ سے جا ملتا ہے جو تاتار کے منگولوں کا سردار تھا ۔ مغل بادشاہ کے اجداد ۱۴۰۱ء چودہ سو ایک عیسوی میں ہندؤستان پہ حملہ آور ہوئے ۔اور ہندؤستان کے مالک بن گئے۔اسلئیے مغل فرماں روا تقریباَایک دشمن ملک میں پایا جاتاہے۔ فی مغل بلکہ فی مسلمان کے مقابلے پہ سینکڑوں کٹڑ بت پرستوں اور مشرکوں (idolaters)کی آبادی ہے۔ اسکے علاوہ مغل شہنشاہیت کے ہمسائے میں ایرانی اور ازبک بھی مغل شہنشاہ کے لئیے ا یک بڑا درد سر ہیں ۔ جسکی وجہ سے امن کا دور ہو یا زمانہ جنگ مغل شہنشاہ بہت سے دشمنوں میں گھرا رہتا ہے اور ہر وقت دشمنوں میں گھرا ہونے کی وجہ سے مغل شہنشاہ اپنے آس پاس بڑی تعداد میں اپنی افواج دارالحکومت، بڑے شہروں اور بڑے میدانوں میں اپنی ذات کے لئیے تیار رکھتا ہے۔برنئیر کے الفاظ میں”آقا ۔(مائی لارڈ) اب میں آپ کو مغل شہنشاہ کی فوج کے بارے کچھ بیان کرتا چلوں کہ فوج پہ کتنا عظیم خرچہ اٹھتا ہے ۔ تانکہ آپ کو مغل شہنشاہ کے خزانے کے بارے کسی فیصلے پہ پہنچ سکیں“ ۔(۱۶٭)۔

فوجی شان و شوکت کی نمائش بہت کشادہ اور نمایاں طور پہ کی جاتی ہے۔ ۔مالیاتی کمپنیوں کی طرف سے فیکٹریوں کے قیام کی حکمت عملی کے بعد سے۔ مغل شہنشاہ کی طرف سے اس فوجی شان و شوکت کی نمائش کی اہم مالی اور فوجی وجوہات ہیں ۔کیونکہ اسطرح
۱)۔ مغل شہنشاہ یوں اپنی دفاعی صلاحیت کا عظیم مظاہرہ کرتا ہے ۔
۲)۔ مغل شہنشاہ یوں اتنی بڑی فوج پہ اٹھنے والے اخراجات کے ذریعیے مالی استحکام کا پیغام دیتا ہے ۔
۳)۔ مغل شہنشاہ یوں مختلف قوموں کے خلاف جیتے گئے محاذوں کی کامیابیوں کی دھاک بٹھاتا ہے
۴) مغل شہنشاہ یوں اپنی افواج کی نمائش سے فوجوں میں شامل مختلف قومیتوں اور قوموں کی کثیر النسل سپاہ کی شمولیت سے سے برابری اوراتنی قوموں کے بادشاہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔
۵)۔ مغل شہنشاہ اسطرح اپنے فوجی ساز و سامان کی نمائش سے کسی قسم کی ممکنہ بغاوت کو روند دینے کی طاقت اور قوت کا مظاہرہ کرتا ہے۔

اب ملاحظہ ہو ۔ اؤل ۔وہ فوج ہے جو شہنشاہ کی سرکاری فوج ہے ۔ اور جسکی تنخواہیں اور اخراجات لازمی طور پہ بادشاہ کے خزانے سے جاتی ہیں۔(۱۷٭)۔

”پھر وہ افواج ہیں ۔جن پہ راجوں کا حکم چلتا ہے ۔ بعین جیسے جے سنگھے اور دیگر ۔ جنہیں مغل فرماں روا بہت سے عطیات دیتا رہتا ہے تانکہ راجے وغیرہ اپنی افواج کو جن میں راجپوتوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے ۔ انہیں ہمیشہ لڑائی اور جنگ کے لئیے تیار رکھیں۔ ان راجوں وغیرہ کا مرتبہ اور رتبہ بھی بادشا ہ کے امراء کے برابر سمجھا جاتا ہے ۔ جو زمانہ امن میں فوجوں کے ساتھ شہروں میں اور میدان جنگ میں اپنی اپنی افواج کے ساتھ بادشاہ کی ذات کے گرد حفاظتی حصار کھینچے رکھتے ہیں ۔ان راجوں مہاراجوں کے فرائض بھی تقریباَوہی ہیں جو امراء کے ہیں۔ بس اتنا فرق ہے کہ امراء یہ فرائض قلعے کے اندر ادا کرتے ہیں۔ جبکہ کہ راجے وغیرہ فصیل شہر سے باہر اپنے خیموں میں بادشاہ کی حفاظت کا کام سر انجام دیتے ہیں“۔(۱۸٭)۔

برنئیر تفضیل پیان کرتا ہے کہ کس طرح جب راجے وغیرہ قلعے کے نزدیک آتے ہیں تو وہ اکیلے نہیں ہوتے بلکہ راجوں کے ساتھ وہ خصوصی سپاہی بھی ہوتے ہیں جو کسی بھی وقت حکم ملنے پہ اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتار دینے کے لئیے تیار رہتے ہیں ۔(۱۹٭)۔

مغل فرماں روا جن وجوہات کہ بناء پہ راجوں کی سے یہ خدمات لینا ضروری سمجھتا ہے ۔وہ وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔:
۱)۔راجوں کی سپاہ پیشہ ورانہ تربیت اچھی ہوتی ہے اور ایسے راجے بھی ہیں جو کسی وقت بھی بادشاہ کی کسی مہم کے لئیے بیس ہزار یا اس سے زیاہ گھڑ سوارں کے ساتھ تیار رہتے ہیں۔

۲)۔مغل بادشاہ کو ان راجوں پہ بھروسہ ہے جو بادشاہ کے تنخوادار نہیں ۔ اور جب کوئی ان راجوں میں سے سرکشی یا بغاوت پہ آمادہ ہو ۔ یا اپنے سپاہیوں کو بادشاہ کی کمان میں دینے سے انکار کرے۔ یا خراج ادا کرنے سے انکار کرے ۔ تو مغل بادشاہ انکی سرکوبی کرتا ہے اور انہیں سزا دیتاہے۔اس طرح یہ راجے بادشاہ کے وفادار رہتے ہیں۔(۲۰٭)۔

دوسری ایک فوج وہ ہے جو پٹھانوں کے خلاف لڑنے یا اپنے باغی امراء اور صوبیداروں کے خلاف لڑنے کے لئیے ہے۔ اور جب گولکنڈاہ کا مہاراجہ خراج ادا کرنے سے انکار کردے ۔ یا وسا پور کے راجہ کے دفاع پہ آمادہ ہو تو اس فوج کو گولکنڈاہ کے مہاراجہ کے خلاف لڑایا جاتا ہے ۔ یا ان فوجی دستوں سے تب کام لیا جاتا ہے جب ہمسائے راجوں میں سے کسی کو اس کی راج گدی سے محروم کرنا مقصود ہو۔ یا ان راجوں کو خراج ادا کرنے کا پابند کرنا ہو تو اس فوج کے دستے حرکت میں لائے جاتے ہیں ۔ان سبھی مندرجہ بالا صورتوں میں اپنے امراء پہ بھروسہ نہیں کرتا کیونکہ وہ زیادہ تر ایرانی النسل اور شعیہ ہیں۔جو بادشاہ کے مسلک سے مختلف مسلک رکھتے ہیں ۔(۲۱٭)۔

مسلکی اور مذہبی معاملات کو ہمیشہ مدنظر رکھا جاتا ہے۔ کیو نکہ دشمن کے مذہب یا مسلک کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک طرح یا دوسری طرح کی افواج کو میدانِ جنگ میں اتارا جاتا ہے ۔ اگر ایران کے خلاف مہم درپیش ہو تو امراء کومہم سر کرنے نہیں بیجھا جاتا کیونکہ امراء کی اکثریت میر ہے اور ایران کی طرح شعیہ مسلک رکھتی ہے۔ اور شعیہ ایران کے بادشاہ کو بیک وقت امام ۔ خلیفہ ۔ اور روحانی بادشاہ ۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے دامادعلیؓ (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کی آل مانتے ہیں۔ اسلئیے ایران کے بادشاہ کے خلاف لڑنے کو ایک جرم اور بہت بڑا گناہ سمجھتے ہیں۔ مغل بادشاہ اسطرح کی وجوہات کی بناء پہ پٹھانوں کی ایک تعداد کو فوج میں رکھنے پہ مجبور ہے۔اور آخر کار مغل بادشاہ مغلوں پہ مشتمل ایک بڑی اور بادشاہ کی بنیاد فوج کے مکمل اخراجات بھی اٹھاتا ہے ۔ مغل افواج ہندوستان کی بنیادی ریاستی فوج ہے۔جس پہ مغل فرماں روا کے بہت اخراجات اٹھتے ہیں ۔(۲۲٭)۔

اس کے علاوہ مغل فرماں روا ں کے پاس آگرہ میں ۔ دلی میں اور دونوں شہروں کے گرد و نواح میں دو سے تین ہزار گھڑ سوار کسی بھی مہم کو جانے کے لئیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔بادشاہ کی روز مرہ کی مہموں کے لئیے۔ بادشاہ کے پاس ۸۰۰ آٹھ سو سے ۹۰۰ نو سو تک کے لگ بھگ ہاتھی ہیں ۔بڑی تعداد میں خچر اور سامان کھینچنے والے گھوڑے ہیں۔ جن سے بڑے بڑے خیمے ۔ قناتیں ۔ بیگمات اور انکا سازوسامان ۔ فرنیچر ۔ مطبخ (باورچی خانہ)۔مشکیزے ۔اور سفر اور مہموں میں کام آنے والے دیگر سامان کی نقل و حرکت کا کام لیا جاتا ہے۔(۲۳٭)۔

مغل فرماں روا کے اخراجات کا اندازہ لگانے کے لئیے اس میں سراؤں یا محلات کے اخراجات بھی شامل کر لیں ۔جنہیں برنئیر ” ناقابل ِ یقین حد تک حیران کُن “ بیان کرتا ہے۔”اور جنہیں (اخراجات کو) آپکے اندازوں سے بڑھ کر حیرت انگیز طور پہ ناگزیر سمجھا جاتا ہے“۔ یہ محل اور سرائے ایسا خلاء ہیں جس میں قیمتی پارچات ۔ سونا۔ ریشم ۔ کمخوآب ۔ سونے کے کام والےریشمی پارچات ۔غسل کے لئیے خوشبودار گوندیں اور جڑی بوٹیاں ۔امبر ۔اور موتی ان خلاؤں میں گُم ہو جاتے ہیں۔”اگر مغل فرماں روا کے ان مستقل اخراجات جنہیں مغل فرما روا ں کسی طور نظر انداز نہیں کرسکتا اگر ان مستقل اخراجات کو مدنظر رکھاجائے تو مغل شہنشاہ کے ختم نہ ہونے والے خزانوں کے بارے آپ فیصلہ کر سکتے ہیں ۔ جیسا کہ مغل شہشنشاہ کے بارے بیان کیا جاتا ہے اور مغل شہنشاہ کی ناقابل تصور امارت جس کی کوئی حد نہیں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔(۲۴٭)۔”اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بادشاہ بہت بڑے خزانوں کا مالک ہے بلکہ ایران کے باشاہ اور آقا کے خزانوں کو ملانے سے بھی بڑھ کر مغل فرماں روا کے پاس ذیادہ خزانے ہیں۔(۲۴٭)۔

جاری ہے۔

(14) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., ob. cit., pág. 398.
(15) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., pág. 399.
(16) BERNIER, ob. cit., pág. 197.
(17) BERNIER, ob. cit., pág. 197.
(18) BERNIER, ob. cit., pág. 198.
(19) BERNIER, ob. cit., pág. 198.
(20) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(21) BERNIER, ob. cit., pág. 198, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(22) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(23) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15, 16 y 17.
(24) BERNIER, ob. cit., pág. 200.

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

کولبیرٹ ازم ۔ برصغیر ہندؤستان اور برئنیر رپورٹ


کولبیرٹ ازم۔ برصغیر ہندؤستان اور برئنیر رپورٹ۔پہلی قسط

قسط اول
ہمارا موضوع شاہجہان اور اورنگ زیب کے دور میں ہندؤستان سے متعلق "فرانسسکو برنئیر ” کے سفر اور خیالات ہیں۔ جن سے اس دور میں ہندؤستان اور یوروپ کی دیگر اقوام کے حالات اور سوچنے کا انداز ۔ اور برصغیر ۔ برصغیر میں مغلوں کی حکومت۔ برصغیر کے سماجی ۔ معاشرتی ۔ سیاسی ، فوجی اور حکومتی ڈھانچے کا جائزہ لینا اور برنئیر جیسے مغربی دانشور کی زبانی ہندؤستانیوں کی خامیوں اور خوبیوں کا موازنہ کرنا ہے ۔ اور اس دور میں ہندوستان کے بارے مغربی سوچ کا احاطہ کرنا شامل ہے۔
” کولبیرٹ” ( ۲۹۔انتیس اگست سولہ سو انیس عیسوی ۱۶۱۹ء تا ۶ چھ ستمبر سولہ سو تراسی ۱۶۸۳ء ) فرانس کے بادشاہ لوئیس چہاردہم (چودہویں) کا وزیر خزانہ تھااور وزیر اعظم کے بعد بادشاہ کی حکومت کا دوسرا طاقتور ترین فرد شمار کیا جاتا ۔ یہ وہ دور تھا۔ جب فرانس ۔ ہالینڈ سے مشرقی منڈیوں کی مصنوعات کا عالمی تجارت میں مقابلہ کرنا چاہتا تھا۔اور مشرقی منڈیوں کی مصنوعات اور مصالحہ جات کی اپنے ملک فرانس میں مانگ کی وجہ سے برآمد درآمد کا توازن اپنے حق میں کرنے کے لئیے۔ مشرقی اور دیگر ممالک میں قبضہ کرتے ہوئے اپنی نوآبادیاں قائم کر کے ۔دیگر فوائد کے ساتھ وہاں اپنی مصنوعات کی کھپت کرنا چاہتا تھا۔ فرانس کے مشہور وزیر خزانہ کولبیرٹ کی اس سوچ اور حکمت عملی کو فرانس میں بے حد مقبولیت ملی اور اسے ۔ "کولبیرٹ ازم” کا معروف نام دیا گیا۔
مسلسل ناکامیوں ، عزم کی کمی اور عدم اتفاق کی وجہ سے فرانس کی مختلف نجی جہاز راں کمپنیاں مہم جوئی سے ہاتھ اٹھا چکیں تھیں۔ تاہم کولبیرٹ سولہ سو چوسنٹھ میں فرانس کے بادشاہ لوئس چہاردہم کو اس بات پہ قائل کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔کہ ہندوستان کے لئیے الگ سے جہاز رانی اور مہم جوئی کے لئیے کمپنیاں قائم کی جانی ضروری ہیں۔جبکہ اورینٹل کمپنی جو کہ مڈغاسکر اور بوربون جزائر سے بڑی مہموں کے لئیے استعمال ہوتی تھی۔ فرانس کے پچھلے بادشاہ لوئس سیز دہم کے دور کے آخری دنوں کے بحران کا شکار ہونے کی وجہ سے اورینٹل کمپنی دیگر دوسرے معاملات میں استعمال کی جانے لگی۔
پہلے پانچ سالوں میں کولبیرٹ ازم کو عوام میں بے حد پسند کیا گیا۔اور نفسیاتی طور پہ کولبیرٹ ازم کے رحجان میں اضافہ ہوا۔”کولیبرٹ ازم” کو خود غرض تجارتی مقاصد کے طور پہ پہچانے جانے کی بجائے ایک ذہین منصوبہ بندی کا نتیجہ سمجھا گیا ۔ جس سے ولندیز (ہالینڈ) اور انگلستان کا مقابلہ کرنا مقصود ہو۔ کیونکہ اس دور یعنی سترھویں صدی میں فرانس کے اکثریتی دانشوراور باشعور طبقہ بھی ولندیز اور انگلستان کو ہی برتر تسلیم کئیے بیٹھے تھے۔
اس دور میں فرانسیسی نصرانی عقیدت مندوں میں سے فرانس کے بارے ایک پُر جوش اور محب الوطن ” فرانسسکو برنئیر” ہو گزرا ہے ۔ جوایک ڈاکٹر (طبیب) فلاسفر اور سیاح تھا۔ برنئیر سترھویں صدی میں ۱۶۲۰ء سو لہ سو بیس عیسوی میں "جوئے”( انگریس) فرانس میں پیدا ہوا۔ اور ۱۶۸۸ء اسولہ سو اٹاسی عیسوی میں پیرس، فرانس میں مرا۔ فرانسسکو برنئیر نے۱۶۴۲ء سولہ سو بیالیس عیسوی میں معروف فلاسفر "گاسیندی” سے اپنے مشہور ہم عصروں "کاپیلے ، مولیئیر، اور ھسنلات ” کے ساتھ فلسفے کی تعلیم حاصل کی۔ برنئیر "کریانو دے برجیراک” کا ہم عصر ہو گزاراہے۔ فرانسسکو برنئیر نے سترھویں صدی کا دوسرا نصف حصہ ایڈوانچر اور سیاح نودری میں گزارا۔برنئیر نے بہت سے ممالک کے سفر کئیے ۔ جن میں اٹلی ، جرمنی اور پولینڈ شامل ہیں۔فرانسسکو برنئیر نے "مونت پلئیر” میں ڈاکٹر بننے کے بعد اپنے استاد کی موت کے بعد ملک شام کا رُخ کیا اور وہاں سے برنئیر ہندؤستان پہنچا۔جہاں اسے طبیب (ڈاکٹر) کے طور کام کرنے کی اجازت مل گئی اور اسے شاہجہان کی بیماری کا علاج کرنے کے لئیے بارہا طلب کیا گیا ۔ یوں وہ دربار میں شامل ہوگیا اور اور اورنگ زیب نے جب اپنے باپ شاہجہان کو تخت و تاج سے محروم کیا تو فرانسسکو برنئیر اورنگزیب کے دربار میں شامل کر لیاگیا۔
مغل دربار میں شمولیت کے دوران بھی برنئیر نے وقت ضائع نہیں کیا اور شہنشاہ کے آغا دانشمند خان کو "ہیروی” اور "پسکیت” کی جسمانی ساخت کے بارے تحقیق اوردریافتوں کے بارے آگاہ کیا اور "گاسیندی” اور "دیس کارتیس” کے فلسفی نظریوں کے بارے بتایا۔
ہمہ وقت متجسس ہونے کی وجہ سے برنئیر نے ہندؤستانیوں کے مذہبی عقائد اور فلسفے کا بغور مطالعہ کیا۔ مغل سلطنت کی سماجی ، معاشرتی ، سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کے بارے معلومات اکھٹی کیں۔ یہ وہ دور تھا جب مغل شہنشاہیت عروج پہ تھی۔ شہاجہان کی بیوی تاج محل مر چکی تھی اور مشہورتاج محل بن چکا تھا۔ شاہجہان کی بیوی کا علاج بھی فرانسسکو برنئیر کر تا تھا۔ اور موسم گرما میں گرمیوں کی وجہ سے جب شہاجہان اورتاج محل دیگر دربار کے ساتھ کشمیر منتقل ہوتے تو برنئیر ساتھ ہوتا ۔
تیرہ ۱۳ سال فرانس سے باہر رہنے کے بعد فرانسسکو برنئیر فرانس واپس چلاگیا۔
فرانس واپس پہنچنے پہ فرانسسکو برنئیر نے بہت سے کتابیں لکھیں ۔ جن میں "عظیم مغل سلطنت کے سفر ” اور فلسفے پہ سات جلدوں پہ مشتمل "ابغریجئے دے فلاسفی دے گاسیندی” لکھی ۔ دیگر بہت سی کتابوں میں سے چند ایک قابل ذکر نام ذیل میں ہیں۔
Suite des mémoires sur l’empire du grand Mogol
Abregé de la philosophie de Gassendi (1674);
Doutes sur quelquesuns des principaux
chapitres de L’Abrégé de la philosophie de Gassendi (1682);
Eclaircissement sur le libre de M. Delaville (1684);
Traite du libre et du voluntaire(1685);
Memoire sur le quietisme des Indes (1688);
Extrait deDescripción du canal des Deux Mers, Eloge de Chapelle (Journal des Savants) (1688).

لیکن ہماری دلچسپی کا باعث اور موضوع "فرانسسکو "برنئیر کے وہ سفر نامے اور تفضیلات ہیں۔ جو برنئیر نے ۱۶۷۰ء سولہ سو ستر عیسوی اور ۱۶۷۱ء سولہ سو اکہتر عیسوی میں چھپوائے۔
دوسرے ممالک سے برنئیر نے بہت سے خطوط لکھے۔ جن میں بہت سے خطوط برنئیر کے سفر ناموں میں شامل ہیں ۔ لیکن کچھ خطوط ایسے بھی ہیں جو وضاحتی نہ ہونے کی وجہ سے نہیں چھپے یا انکے کچھ حصے چھپے۔

فرانسسکو برنئیر کے اس مختصر سے تعارف کا مقصد محض یہ تھا کہ برنئیر کے بارے میں پتہ چل سکے اور اسکی تحریروں کی سنجیدگی اور اہمیت کا اندازہ رہے۔

فرانسسکو برنئیر کے بیش قیمت تاریخی اہمیت کی حامل تحریروں کے کچھ حصے کوذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔ جنہیں برنئیر نے فرانس کے وزیر خزانہ "کولبریٹ ” کو لکھا ۔ یہ تحریریں اور خط فرانس کے وزیر خزانہ کی میز پہ نوآبادیت نامی فائلوں کا حصہ تھے۔ یاد رہے۔یہ وہ دور تھا۔ جب فرانس ۔ ہالینڈ سے مشرقی منڈیوں کی مصنوعات کا عالمی تجارت میں مقابلہ کرنا چاہتا تھا۔اور مشرق میں واقع مشرقی اور دیگر ممالک میں قبضہ کرکے ااپنی نوآبادیاں قائم کرنا چاہ رہا تھا تانکہ اُن ممالک کی معدنیات۔ پیداوار اور مصنوعات یعنی وسائل کو فرانس کے لئیے بروکار لائے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ فرانس کے مشہور وزیر خزانہ” کولبیرٹ” کی اس سوچ اور حکمت عملی کو فرانس میں بے حد مقبولیت ملی اور اسے ۔ "کولبیرٹ ازم” کا معروف نام دیا گیا۔

(جاری ہے۔)

1٭Jean-Baptiste Colbert (29 August 1619 – 6 September 1683) was a French politician who served as the Minister of Finances of France from 1665 to 1683 under the rule      

of King Louis XIV.

Jahangir, Shah Jahan, Aurangzeb, c.1605-1707
François Bernier (1625 – 1688) was a French physician and traveller. He was the personal physician of the Mughal emperor Aurangzeb for around 12 years during his stay in India.
4 ٭ La península del Indostán y el colbertismo. I. El informe de Bernier a Colbert Rojas Ferrer, Pedro
٭5.la description des Etats du Grand mogol

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

 
%d bloggers like this: