RSS

Tag Archives: نفرت

ڈاکٹر محترم جواد احمد خان صاحب!


ہمارے نہائت عزیز اور محترم! ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب۔ جن سے ہمیں قلبی تعلق ہے۔ اور انھیں میری گزشتہ تحریر سے رنجش پہنچی۔ واللہ جو ہمارا ارادہ قطعی طور پہ نہیں تھا۔ میں ایسا ہر گز نہیں چاہوں گا۔ کیونکہ ان سے یہ قلبی تعلق ہمیں بہر حال بہت عزیز ہے۔ مندرجہ ذیل تحریر انھیں مخاطب کر کے لکھی گئی ہے۔ مگر اس سے ہر اس فرد کو مخاطب سمجھا جائے۔ جس کو گزشتہ تحریر کے مآخذ اور وجوہات کا علم نہ ہونے کی وجہ سے۔ کوئی شکوہ یا شکایت پیدا ہوئی ہو۔ امید کرتا ہوں ۔اب کسی کو یہ شکایت نہیں ہونی چاہئیے۔

محترم جواد بھائی!

واللہ میرا ارادہ آپ کا یا کسی اور کا دل دکھانا ہر گز مقصود نہیں تھا۔ ذوالفقار مرزا کا مذکورہ بیان جس کی ہم بھی مذمت کرتے ہیں۔ اور میری رائے میں ہر عقل سلیم رکھنے والے پاکستانی کو ذوالفقار مرزا کے بیان اور اسکے الفاظ سے گھن آئی ہے۔ اور افسوس ہوا ہے۔

مگر اس ردعمل میں۔ جو بے گناہ اور راہ چلتے لوگ مارے گئے۔ ان کا المیہ کسی نے نہیں لکھا۔ کسی نے بیان نہیں کیا ۔ اور فرحان دانش صاحب نے اپنے بلاگ پہ منیر احمد بلوچ کا ایک ایسا کالم تو ضرور چسپاں کیا ہے۔ جس میں ڈرامائی طور پہ ایک مقدمے کی ادہوری روداد کا بیان ہے ۔ جبکہ اس مقدمے کے فیصلے کے بارے میں جان بوجھ کر نہیں لکھا گیا۔ اگر تب چند افراد کو تن بدن چھپانے کے لئیے۔ اسطرح کی افسوسناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ جو پاکستان کے نئے نئے بننے کے بعد پیش آئی۔ تو اسے جواز بنا کر یکطرفہ طور پہ اپنے آپ کو مظلوم اور انصارِ مدینہ جیسے ایثار کی کوشش کرنے والے سبھی پاکستانیوں کو جو آج اس دنیا میں نہیں، جن کے علاقے پاکستان میں ہونے کی وجہ سے انھیں ہجرت نہیں کرنی پڑی تھی۔ ان کو ظالم کے روپ میں پیش کرنے کا تاثر ابھرتا ہے۔ جیسے مذکورہ میاں بیوی کی جسم کے کپڑوں کے پھٹے کپڑوں کے ذمہ دار وہ لوگ تھے۔ جنہوں نے انصار مدینہ کی روشن مثال کی پیروی کی۔ کیونکہ اگر یہ تاثر دینا مقصود نہ ہوتا تو۔ اس ڈرامائی کالم میں۔ ایسے کسی مقدمے کی ادہوری روداد لکھنے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ ایسے ڈرامائی انداز میں واقعات کو درست طریقے سے بیان نہ کرنے کو غلو سے کام لینا کہا جاتا ہے۔ عام فہم سے مسائل کو جو اسطرح کی ناگہانی مصائب میں پاکستان جیسے ممالک میں اکثر پیش آتے ہیں ۔ جس کی ایک مثال ہے کہ پچھلے سال پاکستان میں سیلاب میں وسیع پیمانے پہ ہونے والی تباہی سے سیلاب متاثرین اور انکی مستورات نے مہینوں ایک ایک ہی کپڑوں کے گندے جوڑے میں گزارہ کیا۔ جو سیلاب کے وقت اچانک اپنا گھر بار چھوڑتے ہوئے انکے تن بدن پہ تھا۔ کہ مرد کہیں اور تھے۔ اور سیلاب نے سوائے بچوں کے کچھ اٹھانے کا موقع نہ دیا۔ اور اسطرح کے کئی واقعے اور داستانیں نہائت خوشحال خاندانوں کے ساتھ بھی پیش آئیں کہ جن کی مستورات کا منہ زندگی میں کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ وہ اپنے اور اپنے بچوں کے لئیے ایک ایک روٹی کے لئیے قطاروں میں چھینا چھپٹی کے دوران مجبوری سے بھاگتی پھریں ۔ لیکن اگر اس ناگہانی آفت سے پیدا ہونے والے وقتی مسائل کو جواز بنا کر۔ ان علاقوں کے رہنے والوں کے ساتھ بغض پال لیا جائے۔ جن میں سیلاب نہیں آیا تھا۔ تو یہ بھی مناسب نہیں اور قرین انصاف نہ ہوگا۔ خواہ مخواہ اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے۔ دلوں میں مذید نفرتیں جنم لیتیں ہیں۔ جبکہ اُس دور میں پاکستان کی حکومت جو مہاجرین کو بحال کرنے اور بسانے کی ذمہ دار تھی۔ وہ اور اسکے تقریبا سبھی اعلٰی عہدیدار بجائے خود مہاجرین تھے۔ آخر وہ کیوں چاہتے کہ کسی مہاجر میاں بیوی کے ساتھ یوں ہو؟ اور انہوں نے اور انصار پاکستان نے مل جل کر۔ اتنے بڑے اور تاریخی ہجرت سے پیدا ہونے والے مسائل پہ قابو پا بھی لیا تھا ۔ اگر پھر بھی کسی کوتاہی پہ کسی کو ذمہ دار ٹہرایا جائے کہ مذکورہ میاں بیوی تنِ برہنہ کو تنبو یا خیمے کے کپڑے کو استعمال کرنے پہ مجبور ہونے۔ تو اس وقت کی حکومت کو ذمہ دار ٹہرایا جائے۔ نہ کہ ڈرامائی قسم کے کالموں سے اور قندَ مکرر کے طور پہ اسے ایک بلاگ کی زینت بنا کر ایسے حالات سے گزرنے کی ذمہ داری عام مقامی لوگوں پہ ڈال دی جائے۔ جس سے نفرتوں کے اس دور میں۔ بے گناہ لوگوں کی جان کو نشانہ بنانے کا جواز مزید پختہ ہو۔ کیونکہ جو اس سے قبل جو بے گناہ مارے گئے۔ کیا وہ کافی نہیں تھے کہ اسطرح کے کالم لکھنے کی اور اسے بلاگ پہ چسپاں کرنے کی ضرورت پیش آگئی۔ اگر ذوالفقار مرزا نے بے ہودہ بیان دیا ہے اور مقامی لوگوں کے جذبات مہاجر برادری کے خلاف بھڑکائے ہیں تو اسطرح کے کالم بھی سستی اور زرد صحافت میں آتے ہیں۔جن سے مہاجر برادری کے دل میں سندھیوں یا دیگر کے خلاف کدورت اور نفرت کے الاؤ کو بھڑکانا بھی کہا جاسکتا ہے۔

محترم جواد بھائی! فرحان دانش صاحب۔ نے منیر احمد بلوچ کے مذکورہ ڈرامائی کالم کو اپنے بلاگ "اٹھو جاگو پاکستان” پہ۔ ہو بہو چسپاں کرتے ہوئے۔ اس تاثر کو مزید آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ کہ ہاں ہم مظلوم اور پاکستان کے انصار ظالم تھے۔ اور آج ساٹھ سالوں بعد بھی ظالم ہیں۔ جبکہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔ ذرا تصور کریں۔ پچھلے سال کے سیلاب متاثرین سال در سال چلتے۔ اور انکی اولادیں اور پھر انکی اولادیں۔ ساٹھ پینسٹھ سالوں بعد بھی۔ اسی بات کو جواز بنا کر کہ انکے آباء سیلاب کی وجہ سے مختلف مصائب کا شکار ہوئے۔ جبکہ جہاں سیلاب نے تباہی نہیں مچائی تھی وہاں کے رہنے والوں کی۔ کسی بھی بلکہ ہر خدمت اور ایثار سے انکار کرتے ہوئے۔ کسی خاتون کے تن پہ ایک ڈیڑھ ماہ تک ایک ہی جوڑے میں گزارا کرنے۔ کو جواز بنا کر کمر ٹھونک کر۔ جہاں سیلاب نہیں آیا تھا۔ انھی سبھی علاقوں کے مکینوں کے خلاف ایک محاذ بنا کر۔ انکے ہر ایثار اور خدمت پہ انگلی پھیر دیں۔
تو ایسا کرنے سے کیا دلوں کو جوڑنے اور آپس میں محبت میں اضافہ ہوگا؟ نہیں قطعی طور پہ یقینا ایسا نہیں ہوگا بلکہ کراچی کے سلگتے موجودہ حالات میں ایسے کالموں سے نفرتیں مزید پختہ ہونگی۔ اور بے گناہ ایسی نفرتوں کا حساب چکائیں گے۔ بے گناہ اور عام عوام جن کی زبان کوئی بھی ہو اور جلد کی رنگت کیسی بھی ہو مگر خون کا رنگ ایک ہی ہوگا۔ آگ جب بھڑکتی ہے تو اپنے پرائے کی تمیز نہیں کرتی۔

محترم جواد بھائی! بات یہاں تک بھی ہوتی تو کوئی بات نہیں تھی ۔ مگر ذوالفقار مرزا کے بیان کے بعد جو بے گناہ لوگ ایک رات میں بھون دئیے گئے ۔ کیا انکی جانیں اسقدر ارزاں تھیں انکی زندگی اسقدر بے اہمیت تھی کہ انھیں محض مرزا کے بیان کی قمیت چکانے کے لئیے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا؟ اور لوگ بھی ایسے بے گناہ لوگ جنہیں گولی آرپار ہوتے ہوئے۔ موت کے پنجے کی گرفت میں جاتے ہوئے موت کی وجہ معلوم نہ ہوئی۔ تقریبا ساری دنیا میں سزائے موت کے مجرموں کو کم از کم انھیں انکی موت کی سزا کی وجہ ضرور بیان کر دی جاتی ہے۔ جبکہ ایک لیڈر کے بیان پہ دوسرے لیڈر کی عظمت ثابت کرنے کے لئیے بھینٹ چڑھائے جانے والے بے گناہ ، غریب اور بے بس لوگ تھے۔ اگر اسے ایک عام بات سمجھ لیا جائے کہ ایک سیاسی لیڈر کے بیان پہ دوسرے سیاسی لیڈر کی شان ثابت کرنے کے لئیے کسی بھی راہ چلتے کو بھینٹ چڑھایا جاسکتا ہے تو پھر وہ ہمارے بلند بانگ آدرش کیا ہوئے؟ جس میں ہم اللہ اور اسکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے دیتے ہیں کہ "ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے”؟ کیونکہ اسلام کے نزدیک اور دنیا کے تقریبا سبھی قوانین میں سبھی انسان برابر ہوتے ہیں۔

محترم جواد بھائی! فرحان دانش صاحب کا بلاگ اور منیر احمد بلوچ کے کالم جن کا لنک بھی اصل تحریر میں موجود ہے ۔ جن میں نہ فرحان دانش صاحب نے اور نہ ہی ڈارامائی کالم نگار منیر احمد بلوچ نے ایسے بے گناہوں اور راہ چلتے غریب لوگوں کے بارے جو کہ اصل واقعہ ہیں۔ جو اصل المیہ ہیں ۔ جن کی جانیں گئیں۔ وہ دوبارہ کیسے واپس آئیں گی ، جن کے سروں کا سایہ کھو گیا۔ وہ کیسے اپنا راستہ تلاش کریں گے؟ انکے بارے میں کسی نے دو الفاظ تک لکھنا گواراہ نہیں کیا۔ کسی کو تو انکا دردر، انکا المیہ بیان کرنا چاہئیے۔ جبکہ آخری اطلاعات کے مطابق لیڈران ایک بار پھر اپنی اپنی پارٹیوں سمیت پھر سے شیرو شکر ہو رہے ہیں۔ جبکہ ہم بہ حیثیت ایک قوم، اخلاقی طور پہ اس حد تک گر چکے ہیں۔ کہ بے گناہ انسانی جانوں کے اسقدر ضیاع کو۔ اگر ایک حادثہ ہی سمجھ لیا جائے تو بھی۔ اس حادثے پہ کسی لکھنے والے کی آنکھ سے یا کسی سیاستدان کی آنکھ میں سے ایک آنسو نہیں گرا۔ کسی کے سینے سے رکی ہوئی ایک آہ نہیں نکلی۔ تو کیا ہمیں سبھی کو اس پہ چپ رہنا چاہئیے؟ اور صرف اور صرف اپنے اپنے گروپ اور گروہ بندیوں کے گیت اور المیے رقم کرنے چاہئیں؟

محترم جواد بھائی! امید کرتا ہوں کہ آپ اپنے پرائے سبھی دکھوں کو ایک ہی نظر سے دیکھیں گے ۔ اور مضمون مذکورہ کو ایک بار پھر سے پڑھیں گے۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

ذوالفقار مرزا فرمودات اور حقائق کا جبر


ذوالفقار مرزا نے جو کہا اور اس پہ معافی مانگی ۔ یہ "ارشادات” جہاں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے کچھ سندھی رہنماؤں کی تنگ نظر ذہنیت کا پتہ دیتے ہیں ، وہیں جبر کے اس دور کا شاخسانہ ہیں۔ "جبر ” جو سندھ باالخصوص کراچی میں ایم کیو ایم نامی تنظیم اپنا آبائی حق سمجھ کر اپنائے ہوئے ہے۔ جس طرح ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے ۔ ذوالفقار مرزا کے بیان سے اتفاق رائے یا اختلاف رائے سے قطع نظر ۔ یہ وہ رد عمل ہے۔ جو ایم کیو ایم کی کراچی میں طرز حکمرانی اور تشدد کی سیاست کے خلاف دلوں میں پل رہا ہے۔ بڑھ رہا ہے۔

عقل مند لوگ اس شاخ کو نہیں کاٹتے جس پہ بسیرا ہو،۔ جبکہ اپنے آپ کو سیاسی تنظیم کہلوانے والی ایم کیو ایم یہ کام لاکھ جتن اور بد تدبیری کر تے ہوئے انجام دے رہی ہے۔ یعنی کراچی اور سندھ کے جن عوام سے(سندھی، پنجابی، پٹھان بلوچی اور دیگر قومیں جو کراچی میں بستی ہیں وہ وہاں کے عوام ہیں)اس کا سامنا ہے ۔جن عوام سے اسکا روز مرہ کا مرنا جینا ہے ۔ ایم کیو ایم ، کمال بد تدبیری سے انہیں اپنا دشمن بنائے رہتی ہے۔

بر صغیر میں وہ دور گزر چکا۔ جب ریاستیں اور انکی حکومتیں۔ کسی ایک خاندان یا حکمران کی ملکیت ہوتیں تھیں۔ اسی طرح سیاسی تنظیموں اور پارٹیوں پہ بھی کسی ایک شخص کا قبضہ، ایک فرسودہ نظریہ ہے۔ پاکستان میں جو لوگ اور سیاسی پارٹیاں ایسے نظریے پہ یقین رکھتے ہیں۔ وہ اور تو سب کچھ ہوسکتے ہیں مگر انقلابی کبھی نہیں ہوسکتے۔ اور یہ وہ ایک بڑی وجہ ہے۔ جو ایم کیو ایم کو ایک انقلابی تنظیم میں تبدیل ہونے میں مانع ہے۔ جسے بادی النظر میں۔ ایم کیو ایم سمجھنے سے قاصر ہے۔

ذوالفقار مرزا کے بے وقوفانہ اور الاؤ بھڑکانے کے بیان کی ہم بھی مذمت کرتے ہیں مگر کیا آپ اور وہی منیر بلوچ جنکا کالم آپ نے بصد شوق اپنے بلاگ پہ چسپاں کیا ہے ۔ کیا آپ دونوں میرے کچھ سوالوں کا جواب دینا پسند کریں گے۔ کہ ذوالفقار مرزا کے مذکورہ بیان کے بعد اگلے چوبیس گھنٹوں میں مارے گئے لوگ کیا انسان نہیں تھے؟۔ انکا کیا قصور تھا؟۔ کیا ایک بیان کے بدلے درجنوں بے گناہ اور راہ چلتے لوگوں کی جان اسقدر انتہائی کم قیمت رکھتی تھی کہ انھہں خون میں نہلا دیا گیا؟۔کیا انکے قاتل پکڑے گئے؟ کیا اس قتل و غارت سے لوگوں کے دلوں میں الطاف حسین سے محبت میں اضافہ ہوا ہوگا؟۔

منیر بلوچ نے کالم کے آغاز میں جس جذباتی طریقے سے تنبو یعنی خیمے کے کپڑے کی چوری کے مقدمے کی روداد کی ادھوری کہانی جذباتی انداز میں لکھی ہے۔ اس سے منیر بلوچ نے مجرمانہ غفلت سے کام لیتے ہوئے یک طرفہ طور پہ کراچی کے وسائل اور سیاست پہ قابض مخصوص لوگوں کے جذبات کی تسکین کرنے کی بھونڈی کوشش کی ہے۔ اور پاکستان کی مقامی آبادی نے پورے پاکستان میں جس ایثار ، اخوت اور قربانی کا مظاہرہ اپنے مہاجر بھائیوں کے لئیے کیا ۔ جس سے انصار مدینہ کی یاد تازہ ہوگئی ۔اسے یکطرفہ نظر انداز کرتے ہوئے ۔ ایک ایسے واقعے کو مثال بنا کر پیش کیا ہے جس کا فیصلہ موصوف نے لکھنا گواراہ نہیں کیا۔ اور دلوں میں مزید نفرتیں ڈالنے اور حقائق کو توڑ مروڑ کر تاریخ کو جھٹلانے کی کوشش کی ہے ۔ جس سے غلط فہمیوں اور نفرتوں کو رواج تو ہوسکتا ہے مگر اس سے کسی کا بھلا ہونا ناممکن ہے۔

اور اگر اُس دور میں پاکستان کی نوزائیدہ حکومت جسکے کرتا دھرتا مہاجر ۔ اسکے اعمال مہاجر اور وزیر اعظم بجائے خود مہاجر تھے ۔ اور کسی ایک مہاجر کے ساتھ یوں ہوا تو اس میں بھی قصور وار حکومت تھی نہ کہ وہ عام آدمی جس کی بّلی ہر روز درجنوں کی تعداد میں کراچی میں چڑھائی جاتی ہے، عام آدمی جن میں سے اکثر کو سیاست کی الف وبے کا علم نہیں ہوتا اور وہ اپنے گھر سے کوسوں دور محض روزی روٹی کی خاطر کراچی کے کارخانوں اور عام آدمی کی خدمت بجا لا رہے ہوتے ہیں۔ ان جیتے جاگتے انسانوں کو الطاف حسین کی عظمت و رفعت ثابت کرنے کے لئیے خون میں نہلا دیا جاتا ہے۔خدایا ۔ یہ کیسی عظمت ہے؟۔ یہ کیسی رفعت ہے؟۔ جو زندہ انسانوں کی قربانی مانگتی ہے؟ ۔ایسا تو ہنود بھی نہیں کرتے ۔ وہ بھی اپنے کسی بت یا دیوتا کو خوش کرنے کے لئیے کبھی سالوں میں کسی ایک آدھ انسان کو قربان کرتے ہیں۔ جبکہ مسلمانی اور مکے کے مہاجرین کے ہم رتبہ ہونے کا دعواہ کرنے والے۔ درجنوں گھروں کے چراغ محض ایک بیان پہ بجھا دیں ۔ یہ وہ ظلم ہے جسے کسی بھی سیاسی اور جذباتی رو سے۔ دنیا میں کہیں بھی جائز قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ چہ جائیکہ ایک مسلمان ملک میں اور کچھ سال قبل تک کچھ ایسی ہی بنیادوں پہ مہاجر ہونے والوں کی طرف سے، یوں ہونا انتہائی قابل افسوس ہے ۔اسکے باوجود اگر کسی کو تنبو یا خیمے کا کپڑا اپنا جسم چھپانے کے لئیے استعمال کرنا پڑا۔ تو اسکا الزام بھی لیاقت علی خان کو ہی جاتا ہے ۔جس نے اپنوں کو نوازا ۔اور جو حقیقی مہاجر تھے انکے کلیم بھی وہ لوگ لے اڑے جو نوابزادے کے پسندیدہ لوگ تھے ۔ یہ خفیہ اور راز کی باتیں نہیں بلکہ انھیں سارا زمانہ اور خاص کر کراچی کے عام لوگ بھی جانتے ہیں ۔ آپ ذرا پتہ تو کریں۔

خیمے کے کپڑے کے ٹوٹے کی چوری کے مقدمے کا فیصلہ بھی آپ کو اور منیر بلوچ کو علم ہوگا؟ ۔ جبکہ یہاں انسانی جانوں کو محض اس لئیے بلی چڑھا دیا گیا کہ زوالفقار مرزا اور اور انکے حماتیوں کو یہ باور رہے کہ ایسا کہنے کا یہ انجام ہوتا ہے۔اور افسوس ہے اسکے باوجود آپ نے ساٹھ سال سے زیادہ پرانے ایک مقدمے پہ لکھے گئے یکطرفہ کالم کو بنیاد بنا کر یہاں چھاپ دیا۔ اور جو واقعتا کل پرسوں جان سے ہارے اور بے گناہ لوگ تھے انکا ذکر ہی نہیں۔ ذوالفقار مرزا کے بیان کے رد عمل میں جن درجنوں لوگوں کو اگلے چوبیس گھنٹوں میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ کیا وہ اس قابل بھی نہیں تھے کہ انکی مظلومیت پہ کچھ لکھا جاتا ؟۔

خدا گواہ ہے۔آپ لوگ حقیقت کا گلا نہیں گھونٹ سکتے۔ سورج بلند ہوتا ہے تو اسے چھپایا نہیں جاسکتا۔ آپ ہار جائیں گے اور سورج جیت جائے گا۔ حقائق اور سچ کو جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔ آپ ہار جائیں گے اور سچ اپنا آپ منوا کر رہے گا۔ یہ جو کل پرسوں بے گناہ لوگ قتل کر دئیے گئے ۔ انکے بیوی بچے ہونگے ۔ ان میں سے کئی ایک اپنے خاندان کے واحد کفیل ہونگے ۔ جب وہ گھروں کو نہیں لوٹے ہونگے ۔ ان معصوم بچوں کے کاندھوں پہ گھر کا بار کفالت کا بوجھ پڑے گا۔ وہ اسی کراچی شہر میں تلاش معاش کو نکلیں گے۔ تو کئی ایک اپنی بے بسی کا بدلہ مزید لوگوں سے لیں گے ۔

جو نفرتیں آج بیجی جارہی ہیں۔ اسکی فصل کچھ سالوں تک اہل کراچی کو کاٹنی پڑیں گی ۔تب ساٹھ ستر سال کے خیمے کے کپڑے کی چوری کے مقدموں کی جذباتی روداد کسی کو روک نہ سکے گی۔ انتقام اور اپنی بے بسیوں کا حساب چاق کرنے کے لئیے اٹھے ہوئے ہاتھوں کو پکڑنا ناممکن ہوگا۔

جبکہ اُس دور میں۔آغاز پاکستان میں۔ پاکستان کے وزیر اعظم جو بجائے خود مہاجر تھے ۔ اور انہوں نے مقامی سندھیوں کے خلاف انکا استہزاء اڑاتے ہوئے فرمایا "ان گدھا گاڑیاں چلانے والوں کا علم سے کیا تعلق ؟”۔ اور سندھ یونی ورسٹی کو کراچی سے حیدرآباد منتقل کردیا۔ اور کراچی میں کراچی یونیورسٹی قائم کی۔ یہ ایک مثال ہی کافی ہے کہ سندھیوں کے پڑھے لکھے لوگوں میں اپنی بدتدبیر سیاست سے لیاقت علی خان نے گانٹھ ڈال دی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ کراچی کی سیاست اور وسائل پہ سوائے اپنے مخصوص لوگوں کو جن میں سبھی مہاجر شامل نہیں ۔ کراچی کے ان وسائل کو صرف اپنا حق سمجھ کر دوسری قومیتوں بشمول وہ مہاجر جو ایم کیو ایم کو نہیں مانتے ان مہاجرو ں کو ، پٹھانوں کو ،سندھیوں کو، پنجابیوںکو، بلوچوں کو اور دیگر قومیتوں کو متواتر نطر انداز کیا جارہا ہے۔ جو شدید ردعمل کا جواز بنتا ہے اور بنتا رہے گا ۔ تا وقتیکہ کہ کراچی کے وسائل منصفانہ طریقے سے سے عام آدمی کے لئیے تقسیم نہ ہوں ۔ اس وقت تک دلوں میں رنجشیں بڑھتی رہیں گی۔ اور شدید ردعمل زبانی اور عملی سامنے آتا رہے گا۔ دانش کا تقاضہ یہ ہے جس شاخ پہ بسیرا ہو اسے کبھی نہ کاٹا جائے۔ بلکہ اس شاخ اور شجر کو توانا کیا جائے۔ مگر ایم کیو نے ماضی اور حال سے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔اور آپ جیسے سمجھدار اور فہم رکھنے والے لوگ بھی اتنے گھمبیر مسئلے کو اپنے مخصوص اور دلپسند رنگ اور اینگل سے دیکھتے ہوئے۔ اسطرح کے کالم چسپاں کر سمجھتے ہیں کہ آپ نے مہاجر ہونے کا حق نمک ادا کر دیا ۔ جبکہ ہم اسے مسائل سے چشم پوشی کا نام دیتے ہیں۔کیونکہ جب تک کسی مسئلے کو تسلیم نہیں کیا جاتا ۔ اور اسے حل کرنے کی تدبیر نہیں کی جاتی۔ اسوقت تک نہ صرف مسئلہ موجود رہے گا ۔ بلکہ وہ اپنے اندر کئی نئے مسائل کو جنم دیتا ر ہےگا۔ جو نہائت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ نفرت کا جن ایک دفعہ بوتل سے باہر آجائے تو اپنے پرائے کی تمیز کھو جاتی ہے۔آئیں مل جل کر کوشش کریں کہ نفرت کا یہ جن بے قابو نہ ہو۔ اور کراچی و پاکستان باہمی برداشت اور عدل و انصاف کو رواج دیا جاسکے ۔ جس سے لوگوں کے مسائل کا حل ہونا ایک عام قاعدہ ہو۔ جو عام آدمی کا حق ہو۔ نہ کہ کسی عطیم لیڈر یا پارٹی کی بخشیش ہو۔ یہی مہذب قوموں کا شیوہ ہے۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

 
%d bloggers like this: