RSS

Tag Archives: مقدار

تابکاری سے متاثر غذائی اجناسں۔


نوٹ:۔ زیر نظر تحریر۔ پچھلے سال ۲۰۱۱ء میں جاپان کے بدترین سونامی طوفان کے بعد جوہری توانائی پیدا کرنے والے ”فوکوشیما“ نامی پلانٹ کو پیش آنے والے جوہری حادثے کے بعد لکھی گئی۔ جسے ”سائنس کی دنیا“ ۔ ”محترم! یاسر جاپانی صاحب کے بلاگ“ اور محترم!خاور کھوکھر صاحب کے آن لائن اخبار“ نے چھاپنے کا اعزاز بخشا۔ ہمارے ایک عزیز دوست کی خواہش اور پرزور اصرار پہ۔ اپنی اس تحریر کو یہاں نقل کرنے کا مقصد محض اتنا سا ہے۔ کہ خدا نخواستہ کسی ایسی صورتحال میں غذائی اجناس کے بارے کسی حد تک معلومات رہیں۔
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا، اسپین

تابکاری سے متاثر غذائی اجناسں۔

تابکاری سے متاثر غذائی اجناس اور انسانی زندگی کس بری طرح متاثر ہوتی ہے اور اسکے اثرات کتنے جان لیوا اور دیرپا ہوتے ہیں۔ غذا اور کھانے پینے کی اشیاء کے بارے میں سخت احتیاط برتی جائے اور ڈبہ بند وہ خوراک جو جاپان سے باہر سے برآمد کی گئی ہو وہ استعمال کریں ۔ اگر یوں ممکن نہ ہو تو متاثرہ علاقے کی غذائی اجناس کسی صورت ہر گز ہر گز استعمال نہ کریں۔ اور یہ بھی یاد رکھیں کہ حکومتوں کی اپنا مجبوریاں ہوتی ہیں اور لازمی نہیں کہ وہ ہر بات درست بیان کریں۔انیس سو اناسی میں امریکہ کے تھری مایل آئس لینڈ ایٹمی ری ایکٹر حادثے میں امریکی صدر کی کمیٹی نے تب یہ رپورٹ دی تھی کہ اس حادثے سے ہونے والی تابکاری سے انسانی جانوں کو نقصان نہیں ہوا ۔ پھر کہا گیا کہ اگر انسانی جانوں کو نقصان ہوا تو بہت کم ہوگا، اور اس “بہت کم” کی کوئی وضاحت یا حد نہیں تھی کہ کہاں سے شروع ہو کر کہاں تک ہوگا۔ مگر بعد میں ہزاروں لوگ کینسر میں مبتلا ء ہوئے۔

یاد رہے کہ انسانی جسم پہ کتنی مقدار میں تابکاری جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے یا اگلے پانچ دس سال یا اس سے بھی لمبے عرصے میں انسانی جسم میں کون کون سے مہلک قسم کے کینسر اور انکی رسولیاں اور دیگر بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں اس بارے سائنسدان تابکاری کی مقدار کے بارے متفق نہیں۔لیکن جس شخص کو صحت کے دیگر مسائل جیسے الرجی وغیرہ لاحق ہونگے۔ تابکاری ایسے فرد پہ عام آدمی کی نسبت بہت زیادہ اثر کرے گی۔


مثال کے طور پہ جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ ایکس رے بھی تابکاری شعائیں ہیں تو جونارمل بچہ رحم مادر میں ہو یعنی ابھی پیدا نہ ہوا ہو اوراگر اسکی ماں کا ایکس رے کیا جائے تو اس بچے میں کسی دوسرے ایسے بچے کی نسبت جو نارمل صحتمند ہو مگر جب وہ ماں کے پیٹ میں ہو تو اسکی ماں نے ایکسرے نہ کروایا ہو تو ایکسرے کروائی گئی ماں کے پیٹ میں بچے کونارمل صحتمند بچے کی نسبتا آئیندہ زندگی میں لیوکیما ہونے کے خطرات پچاس فیصد زیادہ ہوتے ہیں۔ جبکہ اگر ماں کے پیٹ میں ایکسرے سے گزرنے والا بچہ الرجی کا مریض ہے تو اسے صحتمند بچے کے مقابلے میں پچاس گنا زیادہ لیوکیمیا یعنی کینسر ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ ایک اہم بات جو قابل توجہ ہے کہ کچھ لوگ تابکاری سےقدرے کم متاثر ہوتے ہیں اور کچھ لوگ انکی نسبت بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ۔ ابھی اس بارے یقننی طور پہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔


جسطرح دائیں ، بائیں، آمنے ، سامنے ، آگے ، پیچھے، اوپر۔ نیچے سے گولیوں کی بوچھاڑ برسائی جارہی ہو ۔ مشین گن کے برسٹ پہ برسٹ لگاتار برسائے جارہے ہوں اور انکی گولیاں انسانی جسم کے آر پار ہورہی ہوں ۔ اسی طرح تابکاری ذرات جسم کے جسیموں (سیلز) کو ہر طرف اور ہر سمت سے چھید ڈالتے ہیں۔ یہ تابکاری ذرات بہت مختلف قسم کے ہوتے ہیں ۔ جیسے نیوٹران ، پروٹران۔ الفا وغیرہ ہیں۔ یہ نہایت چھوٹے نطر نہ آنے والا ذرات ہیں۔۔ جو جسم کے جسیموں (سیلز) میں اپنی توانائی خارج کرتےہیں۔ جس سے جسم کے سیلز سکڑتے سمٹتے ، ٹوٹتے پھوٹتے ، اورمردہ ہوجاتے ہیں۔


کچھ صورتوں میں سیلز کے بننے کا عمل جسم کی مرکزی کمان سے آزاد ہوجاتا ہے اور جسم میں کینسر اور رسولیاں بننا شروع ہوجاتی ہیں۔ یہ ایک بہت پیچیدہ اور لمبا موضوع ہےبس یہ سمجھ لیں کہ تابکاری کے اثرات نہائت خطرناک اور جان لیوا ہوتے ہیں ۔ نیوٹران، پروٹران کو اگر گولیوں سے مشہابت  دی جاسکتی ہے تو الفا کو توپ کے گولے کہا جاسکتا ہے۔ کسی ایٹمی حادثے کی صورت میں عموما یہ ذرات ایک ہی ساتھ پائے جاتے ہیں ۔ یہ نظر نہیں آتے مگر انتہائی مہلک اور جان لیوا ہوتے ہیں ۔ ان سے کینسر ، لیوکیمیا، عورت اور مرد کے جنسی گلینڈز مثانہ ، رحم وغیرہ اور دماغ میں رسولیاں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت۔ یا معذور یا زائد اور کم اعضاء کے بچے یا عجیب الخلقت بچوں کا پیدا ہونا۔ اور اسطرح کی بہت سی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔


ہوا، غذا، گوشت، مچھلی، پانی، دودھ، سبزی، ساگ پات، تابکاری کی زد میں آئی اشیاء کا استعمال۔ جیسے بجلی کی اشیاء۔ ایئرکنڈیشنز ، پنکھے، گاڑیاں، ہوائی جہاز،گاڑیوں، یا ہوائی جازوں وغیرہ کی قاضل پرزہ جات ، یا انکی ترسیل، ٹرانسپورٹ ، پیکنگ وغیرہ کے دوران انکو چھونا۔ یا تابکاری کی اشیاء کے اسٹورز یا گوداموں میں سانس وغیرہ لینا۔انسانی صحت اور جانداروں کو متاثر کرتا ہے۔


ایک نہائت اہم بات یاد رکھنی چاہیے کہ تابکاری سے متاثر ایک انسان سے دوسرے انسان کو تابکاری نہیں ہوتی یعنی یہ متعدی نہیں۔


سترہ مارچ دوہزار گیارہ کو ایک سیمنار سے خطاب کرتے ہوئےعالمی ادرہ برائے صحت(ڈبلیو ۔ایچ۔او۔) کے ایگزیکٹو کمیشن کے نائب صدر ڈاکٹرپاؤلو ایم بُوس Paulo M. Buss کے خطاب کا حوالہ لکھ رہا ہوں جو انہوں نے جاپان کے فوکوشیما نمبر ایک کے نیوکلئیر حادثے کے بعد وہاں سے حاصل کی گئی غذا اور تابکاری پہ کیاہے۔ تانکہ آپ کو علم رہے ۔ کہ یہ ایک ذمہ دار اور ایک ماہر کا حوالہ ہے۔عالمی ادرہ برائے صحت(ڈبلیو ۔ایچ۔او۔) کے ایگزیکٹو کمیشن کے نائب صدر ڈاکٹر پاؤلو ایم بُوس Paulo M. Buss کا کہنا ہے کہ فوکوشیما کا حادثہ نہ صرف انسانوں کو متاثر کرے گا بلکہ اس سے غذائی آفت آسکتی ہے۔ انھوں نے تنبیہ کی کہ فوکوشیما کا واقعہ اس بات کا تقاضہ کرتا ہےکہ ایسی کسی صورتحال کے لئیے پہلے سے تیار کی گئیں تمام حفاظتی تدابیرکا نئے سرے سے جائزہ لیا جانا بہت ضروری ہے۔


انھوں نے اپنی ماہرانہ رائےدیتے ہوئے سفارش کی ان تمام جانوروں کو ہلاک کردیا جانا چاہئیے جن کے بارے شبہ ہو کہ وہ تابکاری سے متاثر ہوئے ہیں۔تمام پودے اور نباتات جو تابکاری جذب کر چکے ہیں اور اس علاقے کی مچھلی وغیرہ بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ تابکاری کی پیمائش کی جائے اور جہاں تک تابکاری صفر ہوجائے وہاں سے اس پورے علاقے کے گرد ایک حصار قائم کر دیا جائے ۔ تانکہ تابکاری زدہ علاقے کے جانوروں کا گوشت ، دودھ مچھلی ، پھل اور سبزیاں وغیرہ ہر قسم کی کھانے پینے سے متعلقہ اشیاء کسی بھی صورت میں انسانی غذاءمیں شامل نہ ہوسکیں ۔


عالمی ادرہ برائے صحت(ڈبلیو ۔ایچ۔او۔) کے ایگزیکٹو کمیشن کے نائب صدر ڈاکٹر پاؤلو ایم بُوس Paulo M. Buss نے مزید فرمایا اور وہ لوگ جو تابکاری سے کسی طور متاثر ہو چکے ہوں انھیں اگلے پانچ سے دس سال تک اور بعض صورتوں میں اس سے بھی زیادہ سالوں تک ڈاکٹروں کی متواتر دیکھ بھال میں رہنا ہوگا ۔ جس سے بے شک ان کی زندگی متاثر ہوگی۔ڈاکٹر موصوف کا کہنا تھا کہ فوکوشیما پلانٹ کے حادثے کے بارے میں ابھی سے یہ نہیں بتایا جاسکتا کہ اس کے اثرات کس حد تک خطرناک ہونگے ۔


یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس بارے جاپانی حکومت نے کسی غفلت سے کام لیا ہوگا۔ مگر جاپانی حکومت نے شروع سے ہی فوکوشیما حادثے کو عام سی اہمیت دی۔ جبکہ درحقیقت اس خطرے کے بارے میں شروع ہی سے جاپانی حکومت کی طرف سے واضح طور پہ بتایا جانا چاہئیے تھا۔جبکہ امریکن ایجنسی آف اٹامک انرجی American Agency of Atomic Energy اور انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجینسی ویاناInternational Atomic Energy Agency in Vienna نے اس علاقے میں یہ تشخیص کیا ہے۔ کہ تابکاری بیان کی گئی شرح سے کہیں بڑھ کر ہے اور اسکا دائرہ بھی بیان کئیے گئے کلومیٹرز سے زیادہ ہے۔ جاپان سے تابکاری کے جو کوائف ہمیں ملے ہیں ۔ اسکے مطابق ممکن ہے کم مقدار تابکاری کے فوری اثر کے تحت فوری موت تو نہ ہو۔ مگر یہ تابکاری متاثرہ لوگوں کے لئیے۔ درمیانی اور طویل مدت کے انتہائی خطرناک مسائل پیدا کرے گی۔مختلف قسم کے کینسر oncological disease ، لیوکیمیا leukemia ، brain tumors دماغ میں کینسر کی رسولیاں۔مردو خواتین میں the gonads tumors جیسے مثانے اور رحم کے کینسر۔ sterility مردو خواتین میں بانجھ پن۔ یا معذور بچوں کا جنم ۔ یا ایک سے زائد یا کم اعضاء کے بچوں کا جنم ہونا وغیرہ ۔ جیسے خطرات شامل ہیں۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

کولبیرٹ ازم ۔ برصغیر ہندؤستان۔ اور برئنیر رپورٹ۔تیسری قسط


کولبیرٹ ازم ۔ برصغیر ہندؤستان۔ اور برئنیر رپورٹ۔تیسری قسط


فرانسسکو برنئیر لکھتا ہے۔(ہندؤستان میں) وراثتی بندوبست ایک قانون کے درجے کے طور تسلیم کیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں امراء منصب دار ۔ یعنی نسبتا چھوٹے امراء مغل  فرمانروا (بادشاہ) کو وراثت میں ملتے ہیں۔ جو بادشاہ سے وظیفہ پاتے ہیں۔
اسی وراثتی بندوبست کے تحت ناج اگانے والی کچھ زمینوں اور باغات پہ رعایا کویہ اجازت ہے کہ وہ ان زمینوں کی خریدو فروخت کرسکیں یا وراثت کے طورپہ ملنے والی زمین کو آپس میں تقسیم کر سکیں ۔ اسکے علاوہ شہنشہاہی بندوبست کی کل زمین بادشاہ کی ملکیت ہے۔ برنئیر ۔ کولبیرٹ کو مخاطب کرتے لکھتا ہے۔”آپ اس نتیجے پہ پہنچیں گے کہ کہ یہی نہیں کہ ہندؤستان میں سونے اور چاندی کی کانیں نہ ہونے کے باوجود ۔ ملک میں بہت بڑی مقدار میں سونا اور چاندی موجود ہے ۔ بلکہ اسکے علاوہ مغل فرماں روا کے پاس بہت سے قیمتی خزانے ہونگے۔ (۷٭)۔
مزید براں ۔برنئیر کے اس بیان میں فرانس کے لئیے ان مالی اور سماجی مسائل کی نشاندہی کا بھی ذکر ملتا ہے۔ جواگر فرانس کو ہندؤستان کو اپنی نوآبادی بنانے میں دلچسپی ہونے کی صورت میں۔ ہندؤستان کو نو آبادی بنانے کی ایسی کسی کوشش کے نتیجے میں نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں ۔ ان مسائل کے پس منظرمیں مختلف النوع کی وجوہات ہیں۔ جن کی وجہ سے عظیم مغل سلطنت پہ حکمرانی قائم کرنے میں بہت مشکلات حائل ہیں۔ اور خاصکر اس صورت میں جب انگریز شہزادوں اور مقامی حاکموں سے اپنے مفادات طے کر رہے ہوں۔اس ساری حوصلہ شکن صورتحال اور بیان کردہ نہ قابل قبول حالات کی وجہ سے سونا ہندؤستان سے باہر نہیں جا پاتاتھا۔ اس سے برصغیر ہندؤستان کی مختلف النوع قسم اور دلچسپ ہیبت ترکیبی کا پتہ چلتا ہے۔
برنئیر کی رپوٹ سے مندرجہ ذیل نتیجہ سامنے آتاہے۔
۱)۔ہندؤستان کی زمین کا ایک حصہ پتھریلا ہے ۔ کم زرخیز پہاڑ ہیں جہاں بہت کم کاشتکاری ہوتی ہے۔ اور (اسی وجہ سے) آبادی بہت کم ہے۔
۲)۔ انتہائی زرخیز زمین جو افرادی قوت نہ ہونے کی وجہ سے غیر آباد ہیں۔
۳)۔بہت سے کسان مقامی حاکموں (گورنرز) کے مظالم کا شکار ہیں اور جان سےجاتے ہیں۔ عام طور پہ مقامی حاکموں(گورنرز) نے انہیں انتہائی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم کر رکھا ہے یہاں تک کہ جب ماں باپ لگان ادا نہ کر سکیں یا حاکموں کی احکام سے رد گردانی کریں تو انکے بچوں کو چھین لیتے ہیں۔ جنہیں غلام بنا لیا جاتا ہے۔
۴)۔ اندرونی نقل مکانی۔ بہت سے کسانوں نے مایوس ہوکر کھیتوں کو خیر آباد کہہ کر اجرت پہ مزدوری کرنے کو ترجیج دیتے ہوئے شہروں کا رخ کیا۔ جہاں انہوں نے سقہ (بہشتی یعنی ماشکی) اور پانڈی (وزن ڈھونے والوں) کا پیشہ اپنا لیا۔ یا پھر فوج میں بھرتے ہوگئے۔اورکچھ دوسری راجدھانیوں کو بھاگ گئے۔ جہاں ظلم و ستم نسبتاَ کم تھا۔
۵)۔ بہت سی ریاستیں اور قومیں ایسی ہیں جہاں کے حکمران مغل نہیں۔ اور ایسی ریاستوں اور قوموں کے سربراہ مغلوں کے احکامات ماننے سے انکاری ہیں اور خراج نہیں دیتے یا ان سے بہ جبر لگان وصول کیا جاتا ہے۔ یا پھر وہ ریاستیں ہیں جو نہ ہونے کے برابر خراج دیتیں ہیں۔ اور آخر میں وہ قومیں یا ریاستیں آتی ہیں۔ جو مغل سلطنت سے امداد لیتی ہیں۔
۶)۔ وہ ریاستیں جو خراج ادا نہیں کرتیں۔ وساپور Visapur کا باشاہ کسی قسم کا خراج نہیں ادا کرتا اور ہمیشہ مغل سلطنت سے جنگ آزماء رہتا ہے۔
جسکی۔ ۵ ۔درذیل وجوہات ہیں۔
الف)۔وسا پور کے حکمران کے پاس خاصی تعداد میں افواج ہونے کی کی وجہ۔
ب)۔ وسا پور سے دہلی اور آگرہ خاصے دور ہونے کی وجہ سے۔
ج)۔ اس حکمران کے پاس انتہائی مضبوط قلعہ ہے۔جس کو سر کرنا انتہائی دشوار اور کھٹن ہونے کی وجہ سے۔
د)۔ حملہ آوار افواج اور بابرداری کے جانوروں کے لئیے رستے میں چارہ اور پانی ملنے کی کوئی صورت نہ ہونے کی وجہ سے۔
اسکے علاوہ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ بہت سے راجے۔ وساپور Visapur کے مشترکہ دفاع کے لئیے اسکے حکمران کے ساتھ اتحاد کر لیتے ہیں۔مثال کے طور پہ مشہور و معروف۔ شیو جی ۔ جس نے کچھ عرصہ قبل۔ سُورت ۔کی بندرگاہ کو لوٹا اور جلادیا ۔
گولکنڈاہ کا طاقتور حکمران بھی مغل سلطنت کو کسی قسم کا خراج ادا نہیں کرتا۔ جو خفیہ طور پہ وسا پور کے راجہ کی مالی معاونت کرتا تھا اور ہمیشہ اسکی ایک فوج ضرورت پڑنے پہ ۔وسا پور کی سرحد پہ وسا پور کے دفاع کے لئیے تیار رہتی ہے۔
مغل سلطنت کے نواح میں کم وبیش اسی طرح لگ بھگ سو کے قریب مشرک (idolaters) راجوں کے ساتھ یہی معاملہ تھا۔ جن میں سے کچھ کی راجدھانیاں تو آگرہ اور دلی نزدیک واقع تھے ۔کچھ کی راجدہانیاں بہت زیادہ دور دراز واقع تھیں۔
جن میں سے پندرہ سولہ تو بہت زیادہ امیر اور طاقتور ہیں۔اور پانچ یا چھ راجے جیسے کہ رانا جوایک طرح کا راجوں مہاراجوں کا شہنشہاہ ہوتا ہے۔ اسکے بارے بیان کیا جاتا ہے کہ اسکا نسب۔ راجہ پورس ۔سے جا ملتا ہے ۔ اگر کوئی تین ایک مل جائیں تو مغل حکمران کے لئیے ایک بڑا درد سر بن سکتے ہیں۔کیونکہ ان میں سے ہر راجہ مغل فوج کی نسبت بہتر تربیت یافتہ بیس ہزار سوار کسی وقت بھی اکھٹے کرسکتا ہے ۔گھڑ سوار فوج کے ان سپاہیوں کو ۔راجپوت۔ کہا جاتا ہے۔یعنی ۔راجوں کے سپوت۔خاندانی پیشہ سپاہ گری باپ دادا کی طرح نسل در نسل انکے خون میں شامل ہے۔راجے مہاراجے انھیں اس شرط پہ زمینں عطا کرتے ہیں کہ بوقت ضرورت یہ گھوڑے کی پیٹھ پہ سوار ہوکر جنگ میں حصہ لیں گے۔۔ (۸٭)۔
اسکے علاوہ بلوچ ۔ افغان۔ کوہستانی۔ کی اکثریت بادشاہ یا مغل سلطنت کو کسی قسم کا خراج ادا نہیں کرتے اور مغل فرمانروا کو بلوچوں ۔ افغانوں اور کوہستانیوں کی طرف سے خراج نہ ادا کئیے جانے پہ کوئی خاص فکر بھی نہیں ہے۔(۹٭)۔
پٹھان بھی خراج ادا نہ کرنے والوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ جو مغلوں کے حملہ آور ہونے سے پہلے دلی اور اسکے بہت سی جگہوں پہ زیادہ طاقتور ہوچکے تھے۔ اور انہوں نے انگنت راجوں کو اپنا باجگزار بنا لیا تھا۔(۱۰٭)۔
کسی بھی ریاست کی طرف سے اپنی نو آبادیوں میں اضافہ کرنے کے لئیے ۔اس دور کے مشاہدات اور تجربات کے مطابق بہت سی باتوں کو مدِ نظر رکھنا پڑتا تھا۔تانکہ اسقدر دور اور اسقدر سرمایہ کاری کرنے کے بعد کم از کم کچھ نہ کچھ کامیابی حاصل ہوسکے ۔ فرانس میں متعدد مہمیں محض ناکافی معلومات کی وجہ سے ناکام ہوچکی تھیں۔تجرباتی منصوبہ بندی وقت کے ساتھ ”چارٹرڈ کمپینوں“ کے ذرئعیے دور دراز علاقوں تک پھیل گئی۔”انڈیا اورئنٹل“ نامی کمپنیاں بہت سے ممالک تک پھیل چکی تھیں۔ ”کیپ آف گڈ ہوپCape of Good Hope“۔ سے لیکر ۔ ” اسٹرائٹ آف میگیلین Strait of Magellan“۔ تک ان کمپنیوں کی مکمل اجارداری قائم ہوچکی تھی۔(۱۱٭)۔اس مشق کی وجہ سے مہم جوئی اور ایڈونچرازم کے شوق میں اضافہ ہوا۔ نتیجتاَ مبالغہ انگیز تعداد میں کمپنیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ افراد کی نسبتاَ ریاستیں زیادہ باخبر ہونےاور درست معلومات رکھنے کی وجہ سے اپنی نگرانی میں ایک ترجیجی کمپنی رکھتیں تھیں ۔ جبکہ ۱۶۰۰ء سولہ سو عیسوی اور ۱۷۸۹ء سترہ اننانوے عیسوی کے دوران صرف فرانس کے لئیے ۷۷ ستتر کمپنیوں کا پتہ چلتا ہے ۔اور سات ۷کمپنیاں صرف ”اورئنٹل انڈیا“ کے لئیے مخصوص تھیں ۔ جبکہ یہ فہرست ابھی مکمل نہیں۔۔(۱۲٭)۔دوسری طرف صورتحال سے مکمل آگہی اور وسائل صرف کبھی کبھار ایسے مواقع پیدا کرتے تھے کہ کوئی مثالی آبادکار کسی نو آبادی میں جابسے۔لیکن دور دیسوں میں جا بسنے کے لئیے ناپسندیدہ جرائم پیشہ افراد ۔جہالت اور یقین کے ہاتھوں عام طور پہ بحری جہازوں پہ سوار ہوجاتے تھے ۔ فرانس میں سے بنیادی طور پہ ۔”نوغمندیا۔ نارمنڈی۔ Normandía“۔ ”برطانیہ ۔برطانی۔ Bretaña “۔ ”پوئیتو Poitou “۔ ”سینت تونج Saintonge“ سے لوگ نوآبادیوں میں جا کر آباد ہوئے۔ یہاں تک کہ کولبیرٹ ان کوششوں کا کہ لوگ جا کر نوآبادیوں میں آباد ہوں۔ مگر اسکی انتھک کوششوں کا کوئی مثبت اور خاطر خواہ نتیجہ برآمدنہ ہوسکا ۔(۱۳٭)۔
(جاری ہے)

(7) BERNIER, ob. cit., pág. 194
(8) BERNIER, ob. cit., págs. 196 y 197.
(9) BERNIER, ob. cit., pág. 185.
(10) BERNIER, ob. cit., pág. 195.
(11) RiCH, E. E., y WiLSON, C. H., Historia Económica de Europa, t. IV; La Economía
de Expansión de Europa en los siglos XVI y XVII, versión de Javier García
Julve, Edit. de Derecho Privado, Jaén, 1977, pág. 351.
(12) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., ob. cit., pág. 390.
(13) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., ob. cit., pág. 390.

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

اگر اس نوٹس

بھوک۔ تسلسل اور بجٹ ڈرامہ۔

آج ایک اخبار نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا واقعہ بیان کیا ہے کہ کسطرح عمرِ فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بیت المال سے دوائی کے طور شہد کی چند چمچ پرابر تھوڑی سی مقدار کے حصول کیلئے مسجد میں درخواست کی تھی۔ اگر اس واقعے کو مثال بنا کر پیش کیا جائے اور غالب گمان یہ ہے کہ گیلانی و زرداری سے استفسار کیا جائے تو انکےکسی بانکے چھبیلے وزیر کی طرف سے ڈھٹائی سے یہ بیان آئے گا کہ گیلانی اور موجودہ صدر بھی اپنے شاہانہ اخراجات کے لئیے کابینہ اور اسمبلی سے اجازت لیتے ہیں۔ وہ خود سے تو کروڑوں کے شاہی اخراجات نہیں کرتے ۔ جیسےموجودہ بجٹ میں پاکستان کے سابق صدور اور وزرائے اعظم کو تاحیات مراعات دینے کی رعایت شامل ہے جس سے نہ صرف زرداری ،گیلانی ،نواز شریف ، رفیق تارڑ ا بلکہ آئی ایم ایف کا چھیل چھبیلا اورتین ارب کا مالک امپورٹیڈ وزیر اعظم شوکت عزیز اور بردہ فروش سابق صدر مشرف کے لئیے بھی عمر بھر مراعات شامل ہیں۔اور یہ سلسہ ہائے داراز صرف یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ یہ بہت سی جائز اورنا جائز صورتوں میں ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔.

ایسی نااہل حکومتوں کے ہاتھوں پاکستان کا کوئی ایک المیہ ہو جو بیان کیا جا سکے۔ یہاں تو ہر لمحے ہر آن ایک المیہ ہوتا ہے ۔جس سے پاکستان دوچار ہے۔ مالِ مفت دلِ بے رحم کے مصداق اوباش اور نااہل لوگوں میں ریاست کے اہم اور حساس عہدوں کی بندر بانٹ کی جاتی ہے ۔ جس سےایسے عہدیدار ملک قوم کے ساتھ اپنی وفاداری نبھانے کی بجائے سیاسی پارٹیوں اور اپنے آقا و مربی سے وفاداری نباہتے ہیں۔ اور بجائے اس کے اپنے عہدے سے ملک و قوم کو فائدہ پہنچانے کے الٹا ساری عمر اپنی نااہلی اور چور دروازے سے عہدہ حاصل کرنے کی چوری کی وجہ سے حکومتوں کی خوشامد میں مصروف رہتے ہیں ۔اور اس پہ طرف تماشہ راشی اور بد عنوان حکومت کے گٹھ جوڑ سے پاکستان کے تن سے خون کا آخری قطرہ تک کشید کرنے کے جتن کئیے جاتے ہیں ۔جس طرح پاکستان کے وزیر اعظم گیلانی نے سپریم کورٹ کے واضح حکم کے باوجود ملک قوم کے مفاد میں سپریم کورٹ کے حکم کی تکمیل بجا لانے کی بجائے ۔وزیر اعظم نامزد کرنے والے زرداری کے ساتھ اپنی وفاداری نباہ کر پاکستان کی تاریخ میں عدلیہ کے حکم کی واضح نافرمانی کرتے ہوئے ڈھٹائی اور سینہ زوری کی ایک غلط روایت قائم کی ہے۔ اور اب یہ عالم ہے کہ پورا نظام مفلوج ہوچکا ہے۔

جسطرح مشہور ہے کہ گر بدنام ہوئے تو کیا نام نہ ہوگاَ ۔کے مطابق پیپلز پارٹی نے شروع دن سے ہر وہ قدم اٹھایا کہ کوئی آئے اور انھیں حکومت سے باہر کر دے۔ تانکہ پیپلز پارٹی کو حسب عادت سیاسی شہادت کا ایک اور موقع مل جاتا ۔مگر پیپلز پارٹی کے نصیبوں یوں ہونا سکا اور بجائے اسکے کہ وہ خدا کے دئیے اقتدار کو ایک ذمہ داری سمجھتے ہوئے اسے مکمل طریقے سے نباہنے کی کوشش کرتی ۔الٹا انھوں نے اسے نام نہاد جمہوریت کا نام دے کر سینہ زوری شروع کر دی۔ حالانکہ اگر جتنی توانائی پیپلز پارٹی کے حکمرانوں نے طاقت اور نام نہاد جمہوریت کے نام پہ مستی اور سینہ زوری پہ صرف کی اگر یہ اس سے نصف توانائی عوام کے مسائل حل کرنے پہ خرچ کرتے۔ تو آج ملک و قوم اور خدا کے حضور سرخرو ہوتے۔ لیکن ایسا کرنا پیپلز پارٹی کی سرشت میں شامل ہی نہیں۔ پیپلز پارٹی کی سیاست ہی ایجی ٹیشن سے شروع ہو کر ایجی ٹیشن پہ ختم ہوتی ہے۔ خواہ یہ پانچ سال تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک حکمران ہی کیوں نہ رہے ہوں ۔الیکشن ہونے دیں ۔جیتنے یا ہارنے کے بعد یعنی ہر دونوں صورتوں میں پیپلز پارٹی پاکستان کے اداروں کا رونا رو کر اپنے آپ کو سیاسی مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرے گی۔

دوسری طرف ماضی میں وفاق میں دو دفعہ حکمران رہنے والی اور پنجاب میں اس وقت حکمران ۔اور پاکستان کی دوسری بڑی پارٹی۔ اور اپنے آپ کو مستقبل میں پاکستان کے حکمران سمجھنے والی نون لیگ ۔سے کیا امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں؟۔ جو اخباری اطلاعات کے مطابق مینار ِپاکستان کے نیچے اپنا حکومتی کیمپ لگائے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ یا مبینہ غیر منصفانہ لوڈشیڈنگ کے خلاف اپنا ریکارڈاحتجاج کروارہے ہیں ۔ مانا کہ بجلی پیدا کرنا اور اسے سب صوبوں میں برابر تقسیم کرنا وفاق کے ذمے ہوگا ۔اورایسا کرنے میں پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت ناکام رہی ہے۔ مگر کیا پنجاب پولیس کے ہاتھوں ستائے ہوئے پنجاب کے عوام اور تھانہ کلچر کی من مانیا ں اور پنجاب پولیس میں غنڈہ گرد عناصر کے ہاتھوں مظلوم لوگوں کو نجات دلانا۔ اور ایک منصفانہ تھانہ کلچر قائم کرنا ۔کیا پنجاب حکومت کے فرائض میں نہیں آتا؟۔ آج بھی پنجاب پولیس کے زیر سرپرستی اور پنجاب کے اکثر و بیشتر تھانوں میں بھینس کی چوری سے لیکر قتل جیسے سنگین معاملات پہ باہمی فریقوں سے مُک مکا کے بعد پرچے رپوٹیں اور ایف آئی آر لکھی جاتی ہیں۔ اور عدالتوں سے بالا کمزور فریق کو راضی نامے پہ زبردستی مجبور کیا جاتا ہے۔ جس کے پیچھے طاقتور کا پیسہ اور اثر و رسوخ کام کر رہا ہوتا ہے۔ اور عام شریف آدمی کی یہ حالت ہے کہ وہ بھرے بازار میں لٹ جانا برداشت کر لیتا ہے۔ مگرپولیس کے خوف اور رشوت خوری کی وجہ سے تھانے میں رپورٹ کرانے سے ڈرتا ہے۔ اگر پنجاب حکومت یا دوسرے لفظوں میں ن لیگ اپنی حکومت میں اپنی پولیس کو درست نہیں کرسکی تو اس سے دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں۔ کہ ایسا نہ کرنے میں پنجاب حکومت کی نیت میں اخلاص کی کمی ہےیا پنجاب حکومت میں اہلیت کی کمی ہے ۔کوئی ایک وجہ ضرور ہے کہ پنجاب کے حکمرانوں کے بلند بانگ دعوؤں کے باجود پولیس کا محکمہ بجائے سیدھا ہونے کے مزید بگڑ چکا ہے۔جس سے ہر دو صورتوں نقصان سادہ لوح عوام کو پہنچ رہا ہے۔ پولیس کا محکمہ تو محض ایک مثال ہے۔ ایسی کئی مثالیں گنوائی جاسکتی ہیں۔ جبکہ مینار پاکستان کے سائے میں پنجاب حکومت کے کیمپ لگانےسے ،خدا جانے عوام کے کتنے ضروری کام رہ گئے ہونگے ۔پنجاب کے وزیر اعلٰی کے بس میں سفر کرنے سے نہ جانے کیوں ضیاءالحق کا سائیکل چلانا یاد آگیا ۔ہر باشعور شہری جانتا ہے کہ اسطرح کے پروپگنڈا ہ اور چونکا دینے والے اقدامات سے وی آئی پیز کی سیکورٹی اور تشہیر کے متعلقہ اقدامات پہ کس قدر خرچ آتا ہے ۔ اور جب حکمران اس طرح کے غیر ضروری کاموں میں اپنا قیمتی وقت ضائع کریں۔ تو قوم کے کس قدر ضروری کام حکمرانوں کی توجہ اور وقت نہ ملنے سے ادہورے رہ جاتے ہیں۔ یہ ماننے کو عقل تسلیم نہیں کرتی کہ اس بات کا ادراک پنجاب حکومت کے حکمرانوں کو نہیں ہوگا ۔اگر انہیں اس بات کا ادراک نہیں ہے تو یہ نااہلی ہے ۔اور اگر ادراک ہوتے ہوئے انہوں نے یوں کیا ہے ۔تو عام آدمی کو بے وقوف بناتے ہوئے محض پیپلز پارٹی کی نااہلی کے مقابلے پہ اپنا سیاسی گول کرنے کی تگ دور میں اپنے فرائض سے غفلت برتنے کا ارتکاب ہے۔

پاکستان کی ایک اور سیاسی جماعت عمران خان کی تحریک انصاف ہے ۔ جسے پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی قوت تسلیم کروانے کا پراپگنڈہ صبح شام کیا جاتا ہے۔ وہ کن ہاتھوں میں کھیل رہی ہے اور اسکے باہمی اجزائے ترکیبی کی دم پخت کیسی ہے ۔اس کے بارے ہر واقف حال جانتا ہے۔ عمران خان کے دل میں پاکستان کے لئیے خلوص بدرجہ اُتم موجود ہوگا ۔مگر چونکہ سیاسی جماعت کسی ایک رہنما کانام نہیں ہوتا ۔ اسمیں شامل سبھی چہرے مل کر ایک خاص تصویر بناتے ہیں اور تحریک انصاف میں شامل چہروں سے تحریک انصاف کی جو تصویر بن کر سامنے آتی ہے ۔و ہ سب کے سامنے ہے ۔ اور اقتدار مل جانے کی صورت میں صرف اسکا کوئی ایک رہنماء نہیں بلکہ اسمیں شامل چہرے ملکر ملک و قوم کی نیا کو پار لگانے یکا جتن کرتے ہیں اور جب بکل میں چور بٹھا رکھے ہوں تو قوم کی نیا پار لگنے کی بجائے ڈوب جانے کے خدشات و امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ انقلابی تبدیلی کے لئیے صرف عمران خان کے وعدے اور دعوے ہی کافی نہیں ۔ جبکہ تحریک انصاف کے علمبردار ابھی تک اس انقلابی تبدیلی ۔۔جس کے وہ دعویدار ہیں اس کے لئیے ٹھوس تجاویز ۔ بہتر طریقہ کار اور متبادل نظام واضح کرنے میں ناکام ہیں۔

اسکے بعد پاکستان کی وہ علاقائی ، لسانی اور گروہی پارٹیاں یا پریشر گروپ ہیں۔ جنکے وجود کے ہونے کا مقصد ہی اپنے وزن کو اقتدار نامی ترازو میں ڈال کر ۔بلیک میلنگ اور آنے بہانوں سے اقتدار میں اپنے جثے سے کہیں زیادہ حصہ وصول کرنا ہے۔

مذہبی جماعتیں اپنے ممکنہ اتحاد و نفاق اور پاکستان میں متواتر عالمی دخل در معقولات نے انھیں اس قابل نہیں چھوڑا ۔کہ انکی کسی معقول بات بھی عوام کان رکھنے کو تیار ہوں۔

فوجی حکومتوں نے جس بری طرح پاکستان کا حلیہ بگاڑا ہے۔ وہ سب کے سامنے ہے ۔ فوج سرحدوں کی بہتر نگہبانی صرف اسی صورت میں کر سکتی ہے۔ جب وہ خود اقتدار کی دیگ پہ قابض نہ ہو ۔ پاکستان کی بڑی جنگیں فوجی سربراہوں کے دور میں ہوئیں ۔ مشرقی پاکستان کے سابقہ ہونے۔اور بنگلہ دیش کے قیام کا واقعہ بھی فوجی حکومت میں ہوا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے دہشت گردی کے خلاف موجودہ جنگ میں کہ بغیر کسی تامل اور حیل حجت کے امریکہ کے سامنے پاکستان کو چارے کے طور پہ پھینکنے والا بھی ایک فوجی حکمران مشرف تھا ۔ جس کا نتیجہ ہم آج تک بھگت رہیں ۔اور خدا جانے کب تک پاکستان اس جنگ کے بداثرات سمیٹتا رہے گا۔

یہ مندرجہ بالا فریق ہیں جو پاکستان کے اقتدار اعلٰی میں رہنے۔ یا ریاست پاکستان کے اقتدار اعلٰی حاصل کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ اور ممکنہ طور پہ پاکستان کے مستقبل کے حکمران ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں ان سے کسی تبدیلی اور اسکے نتیجے میں پاکستان کے وفاقی بجٹ میں کسی عمدہ پیش رفت کا ہونا ۔ یا ملک و قوم اور خود پاکستان کے لئیے نتیجہ خیز انقلابی تبدیلی لانا ناممکن ہے ۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ایسے حالات میں پچھلے تریسنٹھ سالوں کی طرح اگلا بجٹ اس سے بھی ظالم اور خود فریب ہوگا ۔جس کی قیمت پاکستان اور پاکستان کے زندہ درگو عوام کو اپنی بھوک اور بے چارگی سے اٹھانی ہوگی۔ خاموشی سے ظلم سہنا اور اپنے پہ ظلم کرنے والے ظالم کا ہاتھ نہ پکڑنے سے بڑھ کر کوئی ظلم نہیں ہوتا ۔جب تک پاکستان کے عوام خود ایسے ظلم کا راستہ روکنے کی جدو جہد نہیں کرتے ۔اسطرح کے اعداو شمار کے گورکھ دھندے بجٹ کے نام پہ آتے رہیں گے۔ جس میں اربوں کے حساب سے غبن اور لوٹ کھسوٹ کرنے والے نااہل حکمرانوں کے لئیے تاحیات مراعات تو ہونگی ۔مگر عوام کے بھوکے بچوں کے کے لئیے دو باعزت روٹیوں کے لئیے محض جھوٹے وعدے اور روٹی کپڑا اور مکان جیسے خوشنما نعرے ہونگے۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین تین جون دو ہزار بارہ ء

بھوک۔ تسلسل اور بجٹ ڈرامہ۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

 
%d bloggers like this: