RSS

Tag Archives: مراعات

اردو



اردو۔۔۔
انتہائی توجہ طلب قومی فریضہ۔۔۔


چین کے ایک صدر کے بارے ایک واقعہ عام بیان کیا جاتا ہے ۔ کہ انہوں نے انگریزی زبان جانتے ہوئے بھی انگریزی زبان کی بجائے چینی زبان میں بات کرنے کو یہ کہہ کر ترجیج دی کہ” چین گونگا نہیں“ ۔
جن قوموں کی اپنی زبان نہیں ہوتی۔ وہ گونگی اور بہری قرار دی جاتی ہیں ۔اور تاریخ شاہد ہے کہ گونگی اور بہری بے زبان قومیں تاریخ کے دہندلکوں میں گم ہوگئیں اور ان کا نام نشان بھی اب نہیں ملتا۔
پاکستان میں باقاعدہ ایک مسلسل سازش اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اردو کو سرکاری زبان نافذ کرنے میں پس و پیش کی جارہی ہے۔ جب کہ پاکستان کا آئین بھی اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ پاکستان میں اردو زبان کو سرکاری اور کاروبارِمملکت کی زبان کے طور پہ نافذ کیا جائے ۔ مگر پاکستان میں انتہائی مراعات یافتہ انگریزی طبقہ ۔ اردو اور پاکستان کی دیگر زبانیں جاننے والی پاکستان کی اٹھانوے فیصد سے زائد اکثریت کو رعایا سمجھتا ہے ۔اور اپنے آپ کو پاکستان کا مالک اور حاکم بااختیار سمجھتا ہے ۔ اور نہیں چاہتا کہ پاکستان کے عوام بھی ترقی کر کے اس فرق کو ختم کردیں ۔جو اس انگریزی کلب اور عام پاکستانی عوام کے میعار زندگی اور اختیار و بے بسی میں ہے۔ اور یوں اس انگریزی کلب کی حاکمیت اور خصوصیت کا امتیاز ختم ہوجائے ۔
جہاں تک پاکستان کے سیاست دانوں اور کرتا دہرتاؤں کا تعلق ہے ۔جنہیں پاکستان میں اردو کو نافذ کرنے کا اپنا منصبی فرض پورا کرنا ہے ۔ ان کو یعنی حکمرانوں کو یہ انگریزی طبقہ غلط طور پہ تاویلات پیش کر کے ۔ اردو کو سرکاری اور پاکستان میں کاروبار ریاست کی زبان قرا ردینے کی بجائے۔ الٹا سرکاری سطح پہ انگریزی کو زرئعیہ تعلیم (میڈیم )قرار دینے پہ زور دیتا آیا ہے ۔
عام طور پہ پاکستان کےحکمران طبقہ کا تعلق چونکہ انگریزی کلب سے ہونے کی وجہ سے۔ یہ طبقہ اردو کے بارے انتہائی کم معلومات رکھتا ہے اور اردو سے کسی حد نابلد ہوتا ہے۔ اس لئیے اردو زبان کو حکمران طبقہ ایک مشکل مسئلہ سمجھتا ہے ۔ اور اردو کو درخود اعتناء نہیں سمجھتا۔ اور انگریزی کلب کی تاویلات سے متاثر ہوکر انگریزی کلب کے ہاتھوں میں کھیلنے لگتا ہے ۔ اور انگریزی زبان کو اپنا اور ریاست کا اوڑنا بچھونا بنائے رکھنے میں عافیت محسوس کرتا ہے ۔
ستم ظریفی کی حد ہے ایک ایسے معاشرے میں جس میں اٹھانوے فیصد آبادی انگریزی سمجھتی اور بولتی نہیں ۔ اس میں پہلی جماعت سے انگریزی کو زرئعیہ تعلیم قرار دیا گیا ہے ۔ جس کا فوری نقصان یہ ہوا کہ سالانہ نتائج میں پاکستان کی اکثریت غریب عوام کے بچوں کی کامیابی کی شرح اوسط مزید گر گئی ہے۔
مضمونِ ہذاہ میں ہم ان تاویلات کا تجزئیہ کرنے اور ان تاویلات کی منافقت سامنے لانے کی کوشش کریں گے ۔ تانکہ قارئن اکرام کو واضح ہو کہ پاکستان میں قومی زبان کو سرکاری زبان کے طور پہ نافذ نہ کر کے پاکستان اور پاکستان کے عوام کوکس قدر نقصان پہنچایا جارہا ہے۔
قیام پاکستان کے شروع سے لیکر اور پاکستان بن جانے کے بہت سالوں بعد ۔کمپیوٹر کے عام ہونے تک اردو کو سرکاری اور دفتری زبان بنانے کے خلاف ۔جو تاویل بڑی شدو مد سے انگریزی کلب بیان کرتا تھا۔ وہ یہ تھی ۔ کہ دفاتر میں تائپ رائٹنگ کے لئیے انگریزی زبان کا استعمال بہت ضروری ہے ۔ کیونکہ حروف تہجی اور انگریزی رسم الخط کی وجہ سے انگریزی ٹائپنگ میں بہت آسانی اور روانی رہتی ہے۔ جبکہ اردو میں ٹائپنگ کے لئیے ایک اردو ٹائپ رائٹر مشین میں اردو کے حروف تہجی جوڑنے اور الفاظ کی شکل دینے کے لئیے کم از کم تین سو سے زائد کیز والی ٹائپ رائٹنگ کی ضرورت پڑے گی۔ جو عملی طور پہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اور ایسے ٹائپ رائٹرز کو سرکاری دفاتر میں استعما ل کرنا نا ممکن کام ہے ۔ اور یوں حکومتوں نے بھی تجاہل عارفانہ سے کام لے کر اردو کو سرکاری اور دفتری زبان قرار دینے میں اغماض برتا جو قومی مفادات سے غداری کے مترادف سمجھا جانا چاہئیے ۔
مگر کمپیوٹر کی کرشماتی ایجاد اور اسکے عام ہونے کے معجزہ نے ۔انگریزی کلب کی اس تاویل کی ہوا نکال دی ۔ اور ٹائپ رائٹنگ مشینیں قصہ پارنیہ ہویئں۔ اور پاکستان کی قومی اور عوامی زبان۔۔ اردو لکھنا ۔اردو جاننے والوں کے لئیے انتہائی سہل ہوگیا ہے ۔ اس کے باوجود سرکاری سطح پہ اردو زبان کو ترقی دینے کے لئیے قیمتی بجٹ سے گرانقدر مشاہرہ اور مراعات سے جو ادارے قائم کئیے گئے۔ انکی عمارتیں اور اخراجات اور ہٹو بچو قسم کے سربراہ اور عہدیداران تو بہت تھے ۔مگر اردو کی خدمات کے حوالے سے ان کا کام نہ ہونے کے برابر تھا۔ بلکہ اردو کو ترقی دینے کے لئیے قائم کئیے گئے ان حکومتی اداروں کے نام تک انگریزی میں ہیں ۔اور انکے سالانہ اجلاس اور اردو کی ترویج و تشیہر کے لئیے بلائی گئی کانفرسوں کا مواد اور اشتہارات اور ویب سائٹس پہ مواد اردو کی بجائے انگریزی میں ہوتا ہے۔
یہ اردو۔۔۔ جو آپ کمپیوٹرز اور مختلف مصنوعات پہ پڑھ لکھ رہے ہیں ۔اسے اس حد تک ترقی دینے میں حسب معمول بہت سے لائقِ تحسین عام پاکستانی رضا کاروں کی انتھک کوششوں کا ثمر ہے۔ جنہوں نے محض اسے ایک قومی فریضہ سمجھتے ہوئے اور بغیر کسی معاوضے کے انتھک محنت سے اردو کی خدمت کی ہے۔ جس میں عام اردو کے دیدہ زیب فاؤنٹس سے لیکر مختلف پرگرام اور ایپس اردو میں متعارف کروائی ہیں اور اور اس وجہ سے پاکستانی اور دیگر دنیا کے اردو جاننے والے ۔ اپنے کمیپوٹر وں۔ موبائل فون اور دیگر مصنوعات پہ کسی دوسری زبان کی بجائے۔ اپنی زبان اردو کواستعمال کرنے کو ترجیج دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آج کمپیوٹر بنانے والی اور دیگر مصنوعات بنانے والی کمپنیاں اور فرمیں اردو زبان کو اپنی مصنوعات کی رابطہ زبانوں میں شامل کرتی ہیں ۔ جبکہ پاکستان کی حکومتوں اور پاکستانی عوام کے ٹیکسز سے قائم کئیے گئے بڑے بڑے اداروں جن کا واحد مقصد اردو کو ترقی دینا تھا ۔ ان کا اس معاملے میں کردار صفر کے برابر ہے ۔
ان مذکورہ اداروں کو اردو کی ترقی اور ترویج کا فریضہ دیا گیا تو انہوں نے انگریزی میں مروجہ اصطلاحات کو اسقدر مشکل ۔ غیر مستعمل۔ غیر عوامی۔ اور غیر زبانوں کے الفاظ سے اسقدر پیچیدہ ۔ ثقیل ۔ اور مضحکہ خیز بنا کر پیش کیا اور یہ ساری مشق اور قوم کا سرمایہ کا مصرف بیکار گیا۔ ہماری رائے میں ایسا کرنا اور حکومتی ادراے کے من پسندیدہ افراد کو نوازتے ہوئے یہ بجائے خود اردو کے خلاف ایک سازش ثابت ہوئی اور اردو سے اچھا خاصہ لگاؤ رکھنے والے نفیس لوگوں نے اسے اپنانے سے انکار کردیا ۔ اور پھر سے اس کا حل مکمل انگریزی اختیار کرنے میں نکالا گیا۔
مستعار اصطلاحات و ترکیبات اور مشکل الفاظ یا کوئی متبادل لفظ نہ ہونے کی صورت میں زبانیں اپنا رستہ خود بخود بنا لیتی ہیں۔ اور یہ مسئلہ دنیا بھر کی سبھی زبانوں کے ساتھ رہا ہے۔ اور ہے۔ خود انگریزی میں فرنچ اور دیگر لاطینی زبانوں کے بے شمار مستعار لفظ مستعمل ہیں۔ مثلا ”کیمرہ“۔۔ یہ بنیادی طور پہ یہ لاطینی لفظ ہے۔ جس کے معانی ہیں ڈبہ یا ڈبہ نما کوئی ایسے شئے جو اندر سے خالی ہو۔ اور انگریزی میں ہزاروں الفاظ کی ہم مثال یہاں دے سکتے ہیں ۔جو بنیادی طور پہ لاطینی ۔ فرانسیسی اور اسپانوی الفاظ ہیں ۔ اور انگریزی سے قدیم ہیں ۔ اور انگریزی نے اسے اپنا لیا ہے۔ اور اسے اپنا خاص انگریزی کا تلفظ دے ڈالا ہے۔ جس سے وہ ایک الگ صوتی شناخت پا گئے ہیں ۔
“اسی طرح کچھ خاص پہلوؤں سے عربی زبان اور دنیا کی دیگر زبانوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ جو دنیا کی فصیح و بلیغ زبان اور قدیم اور انتہائی ترقی یافتہ زبان ہے۔عربی زبان سے بڑھ کر کوئی بھی زبان کسی بھی صورت حال یا شئے کو واضح کرنے کے لئیے اپنے اندر اتنی صلاحیت نہیں رکھتی۔جتنی صلاحیت عربی زبان میں ہے۔ انگریز اور مغرب نے طیارہ ایجاد کیا۔ اور اسے ”ائیر پلین“۔ یا ا”ئر کرافٹ “یا دیگر نام دئیے جو بجائے خود دو ناموں کا مجموعہ ہیں۔مگر عربی نے اسے سیدھا سادا انداز میں ”طائرۃ“ کا نام دیا ۔ جو زیادہ ترقی یافتہ لفظ ہے۔ اور اس فصحات و بلاغت کے باوجود یونانی فاتح ۔جسے انگریزی نے ”الیگزینڈر“ کہہ کر پکارا ۔عربی نے اسے ”اسکندر“ کہا۔اور اسی مناسبت سے مصر کے مشہور شہر ”اسکندریہ“ کا نام عربی زبان کی مناسبت سے وجود میں آیا۔۔۔ لیبا کا مشہور شہر کا نام ”طرابلس” ۔ ”ٹریپولی “ نام کی وجہ سے وجود میں آیا۔ مگر اسے عربی نے اپنے انداز میں ”طرابلس“ کا نام دیا۔
کچھ ایسا ہی معاملہ دنیا میں رائج قدیم ترین زبانوں میں سے رائج ایک زبان اسپانوی کے ساتھ بھی ہے۔ عربی کے بعد ماہرینِ لسانیات عام طور پہ اسپانوی زبان کو دنیا کی دوسری فصیح و بلیغ زبان گردانتے ہیں ۔ مسلم اسپانیہ کے دور کے مشہور شہروں کے نام” اشییلیہ“۔”قرطبہ“۔ ”غرناطہ۔” مالقہ“۔”سرقسطہ“۔قادسیہ” وغیرہ اسپانوی زبان میں باالترتیب ۔ ”اِس بیا“۔ ”قوردبہ“۔ ”گارانادا“۔”مالاگا۔”ژاراگوثہ“۔ ”قادس۔ وغیرہ میں بدل گئے اور تلفظ بدلنے سے۔ امریکن قرطبہ کو ۔”کارڈواہ” کہہ کر پکارتے ہیں کیوں کہ وہ قرطبہ شہر کے نام کو انگریزی حروف تہجی Córdvba تلفظ بگڑ جانے سے یوں ”کارڈواہ“ پکارتے ہیں۔ مگر اس سے مراد قرطبہ شہر ہی ہے یعنی نام کوئی بھی دے دیا جائے۔ یا کسی طرح بھی اسے پکارا جائے۔ مراد وہی مخصوص شہر ۔معانی یا شئے ہوتی ہے۔ اسی طرح قدیم عربی کے ہزاروں الفاظ اسپانوی میں اتنی صدیوں بعد بھی عربی تلفظ کے ساتھ اور انہی معانوں میں مستعمل ہیں۔ مثلا ”قندیل“۔ ”بلبل“ وغیرہ ہیں ۔ سقوطِ غرناطہ کو پانچ سے زائد صدیاں گزرجانے کے بعد بھی اسپانوی رائل ڈکشنری یعنی شاہی لغت میں ایک ہزار کے لگ بھگ الفاظ قدیم عربی زبان کے ملتے ہیں ۔ یاد رہے کہ اسپانوی زبان میں کسی نئے لفظ کو شامل کرنے یا نئی اصطلاحات اور ترکیبات شامل یا متروک الفاظ کو خارج کرنے کے لئیے اسپانوی زبان کی شاہی کونسل کا باقاعدہ بورڈکا اجلاس ہوتا ہے جس میں اسپانوی زبان کے ماہر ترین اور اسپانوی زبان میں ڈاکٹری کا اعزاز رکھنے والے اس کے باقاعدہ ممبر کسی لفظ کے متروک یا شامل کرنے پہ نہائت غوروص کے بعد اسے شامل یا متروک کرتے ہیں ۔تو اگر رائل اسپانوی لغت میں بدستور ایک ہزار کے لگ بھگ الفاظ تقریبا اپنی اصل حالت اور معانی میں شامل ہیں ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ روز مرہ کی زندگی میں استعمال میں لائے جاتے ہیں ۔ اور اسپانوی حکومت اور عوام کو ان پہ کوئی اعتراض نہیں کہ وہ زبردستی سے ان الفاظ کا متبادل اپنی زبان اسپانوی میں مسلط کرتے ۔
خود اردو زبان میں بہت سے انگریزی زبان کے کئی الفاظ مثلاً ”فون “۔”بس“۔ ”ٹرک“۔ ”ڈاکٹر“۔ ”انجئنیر“۔ ”نرس“۔” ہاکی“۔ ”جنگل“۔”ٹیم“۔ وغیرہ یوں مستعمل ہوئے کہ انہیں ادا کرنے کے لئیے انگریزی سے واقفیت ہونا ضروری نہیں۔ اور اسی طرح اردو نے عربی۔ فارسی۔ ہندی۔ ترکی اور دیگر بہت سی زبانوں کے الفاظ اپنائے ہیں جن کے بارے یہ جانے بغیر کہ یہ کون سی زبان کے الفاظ ہیں اور ان کا درست تلفظ کونسا ہے۔ ان الفاظ کو سمجھنے ۔ بولنے اور ادا کرنے میں عام آدمی کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔
اردو چونکہ دیگر زبانوں کے مقابلے میں نئی زبان ہے۔ اس لئیے اردو میں دیگر زبانوں کے الفاظ اپنے اندر سمو لینے کی صلاحیت حیرت انگیز ہے۔ اور یہی اردو کی ترقی کا راز بھی ہے۔ کہ اردو اتنے کم وقت میں اتنے کڑوڑوں انسانوں نے اسے اپنا لیا ہے اور انہیں اردو کو بولنے ۔ سمجھنے اور ادا کرنے میں پریشانی نہیں ہوتی ۔
جہاں تک مخصوص سائنسی اصطلاحات کا زکر ہے تو ان میں سے بیشتر یونانی اور لاطینی سے انگریزی میں منتقل ہوئیں ہیں ۔ یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔ کہ اگر آپ ان سائنسی اصطلاحات کو اگر جوں کا توں بھی اردو میں اپنا لیں تو جمہورِ اردو خود بخود ایک دن انہیں اپنے سے تلفظ اور نام دے دے گا ۔ جیسے ٹریپولی کو عربوں نے طرابلس کا نام میں بدل ڈالا یا الیگزینڈر کو اسکندر۔ اور آج عام عرب یونان کے مشہور فاتح کو اسکندر کے نام سے ہی جانتے ہیں ۔ اور اسی طرح جیسے مندرجہ نالا مثالوں میں مختلف خطوں اور زبانوں کے جمہورِ نے مختلف زبانوں کے الفاظ کو اپنی ضرورت کے تحت اپنے تلفظ یا صورت میں اپنا لیا تو کیا وجہ ہے کہ اردو کے ساتھ یوں نہیں سکتا؟ جبکہ اردو کا ظرف اور دامن بہت وسیع ہے۔مثال کے طور پہ جیسے فون لفظ اب اردو میں اور پاکستان میں عام مستعمل ہے اسے ” صوتی آلہ“ بلانے لکھنے پہ زور دینا ایک نامناسب بات ہے ۔ ا
حاصلِ بحث یہ ہے جن الفاظ۔ ترکیبات اور سائنسی یا دیگر ناگزیر اصطلاحات کا فوری طور پہ اردو میں آسان ترجمہ نہ ہوسکے۔ تو انھیں انکی اصلی حالت میں ہی حالت اردو رسم الخط میں لکھ دینے سے اور باقی نفس مضمون اردو میں لکھ دینے سے ان کی ماہیئت نہیں بدلے گی ۔ انگریزی اور دیگر زبانوں کے جو ناگزیر الفاظ اردو میں لکھے جاسکتے ہیں ۔ انہیں اردو رسم الخط میں لکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔
ناعاقبت اندیش لوگ ایک اورتاویل ا انگریزی کے حق میں یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ مادی ترقی کے لئیے انگریزی جاننا ضروری ہے ۔ کیونکہ کہ انگریزی امریکا اور برطانیہ کی ترقی یافتہ اقوام کی زبان ہے ۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چین جو اپنی چینی زبان سمیت اتنی تیزی سے ترقی کر کے۔ اس وقت دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے۔ اور کچھ وقت جاتا ہے کہ وہ امریکہ کومعاشی ترقی میں پیچھے چھوڑ دے گا ۔ تو پھر کی اس کلئیے کے تحت پاکستان کے پورے نظام اور اسکی آبادی کو چینی زبان سیکھنی اور اپنانی پڑے گی ؟ ترقی اپنی زبان کے استعمال اور نفاذسے ہوتی ہے۔ مستعار زبانوں سے کبھی ترقی نہیں ہوا کرتی۔
جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ بین الاقوامی زبان چونکہ انگریزی ہے تو ہمیں انگریزی سیکھنی چاہیئے انکا یہ استدلال اپنی جگہ مگر چند ہزار افراد کی انگریزی میں مہارت کے لئیے پوری ایک قوم کو بے زبان کر دینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ کیا اسکے لئیے یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ اپنے ان افراد کو جنہیں بین الاقوامی معاملے کرنے ہوتے ہیں۔ انھیں بہترین معیار کی انگریزی اور دیگر مغربی و مشرقی زبانیں سکھانے پہاکتفاء کر لیں اور باقی پچانوے فیصد پاکستانی قوم پہ انگریزی مسلط کرنے میں جو توانائی اور وسائل برباد کر کے۔ پوری قوم کو ٹکٹکی پہ لٹکا رکھا ہے۔ اس سے پاکستانی قوم کو معافی دے دیں ۔
انگریزی زبان کو ذرئعیہ تعلیم قرار دینے کی ایک اور بڑی خرابی جو پاکستانی معاشرے بگاڑ پیدا کرنا کر رہی ہے اور آیندہ اگلے سالوں میں مزید بگاڑ پیدا کرے گی وہ خرابی انگریزی کی نصابی کتب اور انکے پیچھے چھپی مخصوص سوچ ہیں ۔ کیونکہ عام طور پہ انہیں لکھنے والوں ۔ ترتیب دینے والوں کیاکثریت یا تو سیکولر غیر ملکی مواد کو نقل کرتے ہیں یا وہ اپنے مخصوص اسیکولر نکتہ نظر سے مضامین اور کتب لکھتے ۔ جو پاکستانی قوم کی نظریاتی بنیادوں کے خلاف ہے ۔ ایسے سیکولر نصاب میں پاکستانی قومیت اور اسلامی و مشرقی اقدار کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔ اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہمارا نوجوان طبقہ دین و ملت سے بیزار نظر آتا ہے۔ کیونکہ انہیں اسلامی اخلاق ۔ مشرقی اقدار یا قومی جذبات کی ہوا تک نہیں لگنے دی جاتی۔ کیونکہ انگریزی نکتہ نظر سے یہ سب دقیانوسیت قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ انگریزی نصاب جو لوگ ترتیب دیتے ہیں وہ انگریزی نصاب سے صرف انگریزی کی نہیں بلکہ اپنے انگریزی خیالات کی بھی ترویج کرتے ہیں۔ اور ملکی و قومی افکار کی۔ دین و ملت سے محبت کی اس میں گنجائش نہیں رکھی جاتی ۔ انگریزی ایک برآمدی زبان ہے جو کلچر انگریزوں کے ہاں آج رائج ہے۔ اسی کی جھلکیاں آپ کو انکی برآمدی زبان میں نظر آئینگی۔ جو کچے ذہنوں کو متاثر کرتی ہیں اور اور ویسی ہی ترغیب دیتی ہیں ۔
سائنسی تحقیقات کے مطابق یہ بات طے ہے کہ ہر انسان اپنی مادری زبان میں سوچتا ہے۔ جس کے تحت اسکے خیالات ترتیب پاتے ہیں۔ جسے وہ عملی شکل دے کر ۔عام روز مرہ کے معاملات سے لیکر محیر العقول دریافتیں۔ ایجادات اور پیچیدہ مسائل کا حل ڈہونڈ نکالتا ہے۔ اور سوچنے کا یہ عمل اگر ایک انسان چاہے تو کسی ایسی دوسری زبان میں سوچ بھی سکتا ہے جو اسکے لئیے آسان اور سہل اور عام فہم ہو۔ جیسے مثال کے طور پہ اگر معاشرے میں دو یا دو سے زائد زبانیں رائج ہوں ۔ یا اسے دوسری زبانوں پہ عبور ہو ۔ جس طرح کنیڈا میں بہت سے لوگ انگریزی اور فرانسیسی پہ عبور رکھتے ہیں ۔اسپانیہ کے صوبہ ”قتئلونیہ“ میں ”قئتلان“ اور” اسپانوی“ پہ ۔اسپین کے صوبہ” گالی سیا “میں” گالیگو “اور ”اسپانوی “پہ عبور رکھتے ہیں ۔ پاکستان میں ”پنجاب“ میں ”پنجابی“ اور ”اردو“ کے ساتھ ۔ اور پاکستان کے دیگر صوبوں میں دیگر صوبوں کی زبانوں اور اردو کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔تو یہ لوگ ہر دو زبانوں میں سے کسی ایک زان میں سوچ کر اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں ۔ کیونکہ یہ مذکورہ زبانیں ان کے لئیے اجنبی اور پیچیدہ زبانیں نہیں ۔ اور اس لئیے وہ اپنی صلاحیتوں کو اپنی زبانوں کے ذریئعے زیادہ بہت طور پہ اجاگر کر سکتے ہیں ۔ جبکہ انگریزی زبان پاکستان کے عوام کے لئیے قطعی برآمدی زبان ہے ۔سائنس یہ بات تسلیم کرتی ہے۔ اور زبان کو انسانی سوچ کے لئیے کو مادری یا دوسری معلوم اور عبور رکھنے والی زبان کو بنیاد مانتی ہے جس سے وہ اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنا تا ہے یوں کسی معاشرے میں اسکی اپنی زبان ترقی و تمدن میں بنیادی اورمسلمہ حیثیت رکھتی ہے۔
شاعری ۔ نثر ۔اور روز مرہ مسائل کے حل کے لئیے سوچنے۔تخیل دوڑانے اور تصور کرنے کے لئیے انسان اپنی بنیادی یا عام فہم سمجھنے والی زبان سے کام لیتا ہے۔
ہم اس تصور کو ایک اور مثال سے واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ ذرا تصور کریں۔ میر ۔ غالب۔نظیر اکبر الہ آبادی۔ اقبال رح۔ فیض یا دیگر شعراءنےجو اردو وغیرہ میں کلام کیا ہے وہ سب انھیں انگریزی میں سوچنے۔ اور ڈھالنے کے لئیے۔انگریزی میں اس پائے کا کلام کرنے کے لئیے ۔کتنا عرصہ انگریزی سوچنے اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لئیے درکارتھا؟ اور کیا اس کے بعد بھی وہی نتائج سامنے آتے۔اور ان کا وہی معیار ہوتا ۔جو آج دیوانِ غالب اور کلیاتِ اقبال یا بانگ درا کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں ؟ بعین اسی طرح کا معاملہ ان خداد ذہین انسانوں کے ساتھ بھی ہے جو چٹکی بجانے میں بڑے سے بڑا مسئلہ حل کردیتے ہیں ۔ ایک سے بڑھ کر ایک ایجاد کرتے ہیں ۔ مسائل کا حل دریافت کرتے ہیں ۔ یا اپنی کسی خاص دلچسپی میں مہارت رکھتے ہیں۔ اگر انھیں ایک غیر ملکی زبان انگریزی سیکھنے اور پھر اسی خاص زبان انگریزی کے تحت اپنے خیالات کو عملی جامہ اپنانے پہ پابند کر دیا جائے ۔جب کہ خداد تخلیقی صلاحیتوں کے حامل لوگ ویسے بھی عام طور پہ۔ اپنی فطری ساخت کی وجہ سے اپنے پہ مسلط بے جاضابطوں سے کسی حد تک باغی ہوتے ہیں ۔ تو کیا ان کی قابل قدر صلاحیتیں ایک ایسی زبان پہ صرف ہو جانی چاہئیں۔ جس میں وہ بددل ہو کر سارے سلسلے سے ہی ہاتھ اٹھا کر دنیا کی بھیڑ بھاڑ میں گم ہو جاتے ہیں۔ اور اگر وہ انگریزی سیکھنے میں کامیاب ہو بھی جائیں۔ تو بہت سا قیمتی وقت وہ ایک ایسے عمل پہ خرچ کر چکے ہوتے ہیں جو ضروری نہیں تھا۔ اور یہ تماشہ پاکستان کے جوہر قابل اور ذہین طلبہ کے ساتھ عام ہوتا ہے کہ خواہ وہ کس قدر ہی کیوں نہ لائق اور ذہین فطین ہوں لیکن بد قسمتی سے ۔یا۔ اردو میڈیم ہونے کی وجہ سے۔اگر ایک برآمدی زبان انگریزی میں انکا ہاتھ تنگ ہے ۔ تو جہاں انکے لئیے آگے بڑھنے کے مواقع معدوم ہوجاتے ہیں۔ وہیں پاکستان اور پاکستان کے عوام ذہین اور قابل لوگوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔
ملک میں خداد جوہر قابل کو محض انگریزی زبان کو لازمی قرار دینے سے ضائع ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں عام آدمی کو پاکستان کی ترقی میں کوئی موقع نہیں ملتا اور آخر کار وہ مایوس ہو کر اپنے آپ کو قومی سو چ اور قومی دھارے سے الگ کر لیتا ہے ۔جس سے معاشرے میں امن و عامہ سے لیکر کئی قسم کے تعصبات اور انکے نتیجہ میں مسائل جنم لے رہےہیں۔
اس لئیے صرف یہ کہہ کر ٹال دینا کہ اردو زبان کو سرکاری زبان کے طور پہ اسلئیے نافذ نہیں کیا جاسکتا کہ اردو ایک ترقی یافتہ زبان نہیں ۔ یا۔ اردو زبان میں لاطینی یا انگریزی کی سائنسی اصطلاحات کا ترجمہ مشکل ہے۔ اور اسے سرکاری زبان کی حیثیت سے نافذ نہ کرنا۔ محض بد نیتی کے سوا کچھ نہیں۔
جو لوگ انگریزی کو محض اس لئیے اپنانے پہ اصرار کرتے ہیں اور بضد ہیں کہ اردو کی قربانی دے کر انگریزی زبان کو اپنانا ترقی کے لئیے ضروری ہے۔ انکی یہ توجہیہ درست نہیں ۔ کیونکہ اس خاص انگریزی طبقے کی یہ بات درست تسلیم کر لی جائے تو پھر اپنی زبانوں میں مشرق و مغرب میں۔ ترقی کرنے والے ممالک ۔ جاپان۔ چین۔جرمنی۔روس۔ فرانس وغیرہ کو آپ کس کھاتے میں رکھیں گے؟ یورپ کے ننھے ننھے ترقی یافتہ ممالک ڈنمارک۔ ناروے۔ سویڈن۔ سوئٹزرلینڈ۔ہالینڈ۔ لکسمبرگ ۔ یوروپ کے بڑے ممالک روس اسپین ۔ فرانس۔ اٹلی۔ جرمنی۔ وغیرہ کسی ملک کی سرکاری زبان انگریزی نہیں۔ معاشی طور پہ تیزی سے ابھرتے ہوئے ممالک۔ برازیل ۔ انڈونیشا ۔ ملائشیاء ۔وغیرہ۔ ان میں سے کسی ملک کی زبان انگریزی نہیں۔ اور ان تمام ملکوں۔ کی زبانیں انکی اپنے ملک میں رائج جمہور کی۔ عوام کی۔ زبانیں سرکاری طور پہ نافذ ہیں۔ اس لئیے ترقی کرنے کے لئیے۔ پاکستان کی دیگر بہت سی خرابیاں درست کرنے کی ضرورت ہے ۔جن کی وجہ سے پاکستان ترقی نہیں کر پا رہا اور اس بد حالی کی ایک بڑی وجہ بھی پاکستان کی جمہور کی۔ عوام کی آواز اردو زبان کو سرکاری زبان کے طور پہ نہ نافذ کرنا ہے۔
پاکستان کی اٹھانوے فیصد آبادی اپنا مدعا اور منشاء انگریزی میں ادا کرنے کی اسطاعت نہیں رکھتی۔ پاکستان کے انگریزی دان طبقے کی اہلیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انگریزی پہ زور دینے والا یہ طبقہ انگریزی ادب میں اپنا حصہ ڈالنے کے حوالے سے نثر ۔ نظم ۔ ناول یا ادب کی دیگر کسی صنف میں کوئی نمایاں کارنامہ سر انجام نہیں دے سکا ۔ اور سائنسی اور تکنیکی علوم میں انگریزی کلب کا ہاتھ مزید تنگ ہوجاتا ہے ۔تو کیا پاکستان کے انگریزی کلب کے سامنے محض اس لئیے سر تسلیم خم کر دیا جائے کہ وہ انگریزی جانتے ہیں؟ اور انگریزی زبان جاننا قدر مشترک ہونے کی وجہ سے۔ انگریزی کلب پاکستان کے نظام پہ حاوی رہے؟ ۔ اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ انگریزی دان طبقہ پاکستان میں انگریزی زبان کا تسلط اس لئیے نہیں رکھنا چاہتا کہ انگریزی سے اہلیت بڑھتی ہے اور انگریزی کے تسلط سے پاکستان ترقی کر جائے گا ۔ بلکہ پاکستان کا انگریزی کلب۔ پاکستانی عوام اور وسائل کو انگریزی زبان کے ذرئعیے پاکستان میں اپناتسلط قائم رکھنا چاہتا ہے ۔
پاکستان کے مسائل کی ایک بہت بڑی وجہ عام بول چال اور سمجھ میں آنے والی جمہورِ کی زبان اردو کے ساتھ یہ یتیمانہ سلوک ہے۔ اگر اسے سرکاری طور پہ نافذ کر دیا جائے تو پاکستان کی بے مہار اورانگریزی کلب کی پیداوار بیورکریسی جو محض انگریزی زبان کی وجہ سے جمہورِ پاکستان سے اپنے آپ کو الگ شناخت کرتی ہے۔ اپنے آپ کو خاص اور عوام کو اپنی رعایا سمجھتی ہے۔ اردو کو سرکاری زبان نافذ کرنے سے پاکستان اور پاکستان کے عوام کی جان چھوٹ جائے گی۔جب پاکستان میں اعلی عہدوں کے لئیے مقابلہ کے امتحانات اردو میں ہونگے اور اردو کو سرکاری طور پہ اوڑنا بچھونا بنایا جائے گا۔ تو انگریزی اور پاکستان جیسے مشرقی اور مسلمان ملک میں انگریزی بودوباش باش کا امتیاز و اعزاز خود بخود ختم ہو جائیگا۔ اور اردو وہ عزت پائے گی جس کی وہ مستحق ہے ۔ کیونکہ اردو کے عزت پانے سے پاکستانی قوم عزت پائے گی۔ کاروبارِ مملکت اردو میں ہونے سے عام فہم اور سہل ہوگا ۔
اردو سمجھنے والوں میں بے شمار خداد صلاحیتوں کے حامل اور اہل لوگوں کو کاروبار ریاستِ پاکستان چلانے کا موقع ملے گا ۔ عوام اور خاص کی ایک ہی زبان ہونے سے عوام اور خاص میں فاصلہ کم ہوگا ۔ ریاستی اور دفتری امور کو سمجھنے میں عام آدمی کو آسانی ہوگی۔
اس لیے پہلے گزارش کر چکے ہیں مستعار اصطلاحات و ترکیبات اور مشکل الفاظ یا کوئی متبادل لفظ نہ ہونے کی صورت میں زبانیں اپنا رستہ خود بخود بنا لیتی ہیں ۔دریا کے سامنے وقتی طور پہ بند باندھ کر۔ اس کا پانی روکا جاسکتا ہے ۔ مگر ہمیشہ کے لئیے یوں کرنا ناممکن ہے۔۔۔۔ اور اردو۔۔۔اس ملک ۔پاکستان میں وہ سیل رواں ہے۔ کہ اس کے سامنے جو رکاوٹ بن کر آیا۔ وہ خس خاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔ کیونکہ اردو زبان پاکستان کے عوام کی۔ جمہور کی زبان ہے۔ اور جمہور اپنا رستہ خود بنا لیا کرتا ہے۔
بس کچھ سالوں کی بات ہے ۔ یا پھر ہماری قیادت کو قومی غیرت کا ادراک ہوجائے۔ تو اردو کو فی الفور سرکاری زبان کا درجہ دے کر۔ اسے سرکاری طور پہ نافذ کرے۔ اسی کو تعلیم کا ذرئعیہ (میڈیم) بنائے۔۔۔اتنی بڑی آبادی کے ملک کے لئیے۔ قومی ہی کیا۔ عالمی ناشران بھی اردو میں کتابیں چھاپنے پہ مجبور ہونگے ۔۔ اور جو نہیں چھاپیں گے وہ خسارے میں رہیں گے ۔ شروع میں ایک حد تک حکومت تراجم کی سہولت خود بھی مہیاء کر سکتی ہے۔ بعد ازاں سب اردو میں کتب لے کر بھاگے آئیں گے۔ کہ ہم سے بہت ہی کئی درجہ چھوٹے ممالک میں انکی اپنی زبانوں میں تعلیم ہونے کی وجہ سے عالمی ناشران انہی زبانوں میں بھی کتب چھاپتے ہیں۔ کہ یہ ایک کاروبار ہے۔ کسی زبان پہ احسان نہیں۔
اگر حکومت نہ بھی دلچسپی دکھائے تو بھی ایک بات تو طے ہے کہ اردو کا مستقبل پاکستان میں روشن ہے اور ایک روشن اور ترقی یافتہ پاکستان کے لئیے اردو زبان کو بطور سرکاری زبان اپنانا اور سرکاری طور پہ نافذ کرنا۔ نہ صرف ضروری ہے بلکہ یہ ایک لازمی قومی فریضہ ہے ۔
جاوید گوندل
پچیس فروری سنہ دو ہزار پندرہ
۲۵۔۰۲۔۲۰۱۵ ء

 

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

اردو


اردو۔۔۔
انتہائی توجہ طلب قومی فریضہ۔۔۔


حصہ اول۔
چین کے ایک صدر کے بارے ایک واقعہ عام بیان کیا جاتا ہے ۔ کہ انہوں نے انگریزی زبان جانتے ہوئے بھی انگریزی زبان کی بجائے چینی زبان میں بات کرنے کو یہ کہہ کر ترجیج دی کہ” چین گونگا نہیں“ ۔
جن قوموں کی اپنی زبان نہیں ہوتی۔ وہ گونگی اور بہری قرار دی جاتی ہیں ۔اور تاریخ شاہد ہے کہ گونگی اور بہری بے زبان قومیں تاریخ کے دہندلکوں میں گم ہوگئیں اور ان کا نام نشان بھی اب نہیں ملتا۔
پاکستان میں باقاعدہ ایک مسلسل سازش اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اردو کو سرکاری زبان نافذ کرنے میں پس و پیش کی جارہی ہے۔ جب کہ پاکستان کا آئین بھی اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ پاکستان میں اردو زبان کو سرکاری اور کاروبارِمملکت کی زبان کے طور پہ نافذ کیا جائے ۔ مگر پاکستان میں انتہائی مراعات یافتہ انگریزی طبقہ ۔ اردو اور پاکستان کی دیگر زبانیں جاننے والی پاکستان کی اٹھانوے فیصد سے زائد اکثریت کو رعایا سمجھتا ہے ۔اور اپنے آپ کو پاکستان کا مالک اور حاکم بااختیار سمجھتا ہے ۔ اور نہیں چاہتا کہ پاکستان کے عوام بھی ترقی کر کے اس فرق کو ختم کردیں ۔جو اس انگریزی کلب اور عام پاکستانی عوام کے میعار زندگی اور اختیار و بے بسی میں ہے۔ اور یوں اس انگریزی کلب کی حاکمیت اور خصوصیت کا امتیاز ختم ہوجائے ۔
جہاں تک پاکستان کے سیاست دانوں اور کرتا دہرتاؤں کا تعلق ہے ۔جنہیں پاکستان میں اردو کو نافذ کرنے کا اپنا منصبی فرض پورا کرنا ہے ۔ اان کو یعنی حکمرانوں کو یہ انگریزی طبقہ غلط طور پہ تاویلات پیش کر کے ۔ اردو کو سرکاری اور پاکستان میں کاروبار ریاست کی زبان قرا ردینے کی بجائے۔ الٹا سرکاری سطح پہ انگریزی کو زرئعیہ تعلیم (میڈیم )قرار دینے پہ زور دیتا آیا ہے ۔
عام طور پہ پاکستان کےحکمران طبقہ کا تعلق چونکہ انگریزی کلب سے ہونے کی وجہ سے۔ یہ طبقہ اردو کے بارے انتہائی کم معلومات رکھتا ہے اور اردو سے کسی حد نابلد ہوتا ہے۔ اس لئیے اردو زبان کو حکمران طبقہ ایک مشکل مسئلہ سمجھتا ہے ۔ اور اردو کو درخود اعتناء نہیں سمجھتا۔ اور انگریزی کلب کی تاویلات سے متاثر ہوکر انگریزی کلب کے ہاتھوں میں کھیلنے لگتا ہے ۔ اور انگریزی زبان کو اپنا اور ریاست کا اوڑنا بچھونا بنائے رکھنے میں عافیت محسوس کرتا ہے ۔
ستم ظریفی کی حد ہے ایک ایسے معاشرے میں جس میں اٹھانوے فیصد آبادی انگریزی سمجھتی اور بولتی نہیں ۔ اس میں پہلی جماعت سے انگریزی کو زرئعیہ تعلیم قرار دیا گیا ہے ۔ جس کا فوری نقصان یہ ہوا کہ سالانہ نتائج میں پاکستان کی اکثریت غریب عوام کے بچوں کی کامیابی کی شرح اوسط مزید گر گئی ہے۔
مضمونِ ہذاہ میں ہم ان تاویلات کا تجزئیہ کرنے اور ان تاویلات کی منافقت سامنے لانے کی کوشش کریں گے ۔ تانکہ قارئن اکرام کو واضح ہو کہ پاکستان میں قومی زبان کو سرکاری زبان کے طور پہ نافذ نہ کر کے پاکستان اور پاکستان کے عوام کوکس قدر نقصان پہنچایا جارہا ہے۔
قیام پاکستان کے شروع سے لیکر اور پاکستان بن جانے کے بہت سالوں بعد ۔کمپیوٹر کے عام ہونے تک اردو کو سرکاری اور دفتری زبان بنانے کے خلاف ۔جو تاویل بڑی شدو مد سے انگریزی کلب بیان کرتا تھا۔ وہ یہ تھی ۔ کہ دفاتر میں تائپ رائٹنگ کے لئیے انگریزی زبان کا استعمال بہت ضروری ہے ۔ کیونکہ حروف تہجی اور انگریزی رسم الخط کی وجہ سے انگریزی ٹائپنگ میں بہت آسانی اور روانی رہتی ہے۔ جبکہ اردو میں ٹائپنگ کے لئیے ایک اردو ٹائپ رائٹر مشین میں اردو کے حروف تہجی جوڑنے اور الفاظ کی شکل دینے کے لئیے کم از کم تین سو سے زائد کیز والی ٹائپ رائٹنگ کی ضرورت پڑے گی۔ جو عملی طور پہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اور ایسے ٹائپ رائٹرز کو سرکاری دفاتر میں استعما ل کرنا نا ممکن کام ہے ۔ اور یوں حکومتوں نے بھی تجاہل عارفانہ سے کام لے کر اردو کو سرکاری اور دفتری زبان قرار دینے میں اغماض برتا جو قومی مفادات سے غداری کے مترادف سمجھا جانا چاہئیے ۔
مگر کمپیوٹر کی کرشماتی ایجاد اور اسکے عام ہونے کے معجزہ نے ۔انگریزی کلب کی اس تاویل کی ہوا نکال دی ۔ اور ٹائپ رائٹنگ مشینیں قصہ پارنیہ ہویئں۔ اور پاکستان کی قومی اور عوامی زبان۔۔ اردو لکھنا ۔اردو جاننے والوں کے لئیے انتہائی سہل ہوگیا ہے ۔ اس کے باوجود سرکاری سطح پہ اردو زبان کو ترقی دینے کے لئیے قیمتی بجٹ سے گرانقدر مشاہرہ اور مراعات سے جو ادارے قائم کئیے گئے۔ انکی عمارتیں اور اخراجات اور ہٹو بچو قسم کے سربراہ اور عہدیداران تو بہت تھے ۔مگر اردو کی خدمات کے حوالے سے ان کا کام نہ ہونے کے برابر تھا۔ بلکہ اردو کو ترقی دینے کے لئیے قائم کئیے گئے ان حکومتی اداروں کے نام تک انگریزی میں ہیں ۔اور انکے سالانہ اجلاس اور اردو کی ترویج و تشیہر کے لئیے بلائی گئی کانفرسوں کا مواد اور اشتہارات اور ویب سائٹس پہ مواد اردو کی بجائے انگریزی میں ہوتا ہے۔
یہ اردو۔۔۔ جو آپ کمپیوٹرز اور مختلف مصنوعات پہ پڑھ لکھ رہے ہیں ۔اسے اس حد تک ترقی دینے میں حسب معمول بہت سے لائقِ تحسین عام پاکستانی رضا کاروں کی انتھک کوششوں کا ثمر ہے۔ جنہوں نے محض اسے ایک قومی فریضہ سمجھتے ہوئے اور بغیر کسی معاوضے کے انتھک محنت سے اردو کی خدمت کی ہے۔ جس میں عام اردو کے دیدہ زیب فاؤنٹس سے لیکر مختلف پرگرام اور ایپس اردو میں متعارف کروائی ہیں اور اور اس وجہ سے پاکستانی اور دیگر دنیا کے اردو جاننے والے ۔ اپنے کمیپوٹر وں۔ موبائل فون اور دیگر مصنوعات پہ کسی دوسری زبان کی بجائے۔ اپنی زبان اردو کواستعمال کرنے کو ترجیج دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آج کمپیوٹر بنانے والی اور دیگر مصنوعات بنانے والی کمپنیاں اور فرمیں اردو زبان کو اپنی مصنوعات کی رابطہ زبانوں میں شامل کرتی ہیں ۔ جبکہ پاکستان کی حکومتوں اور پاکستانی عوام کے ٹیکسز سے قائم کئیے گئے بڑے بڑے اداروں جن کا واحد مقصد اردو کو ترقی دینا تھا ۔ ان کا اس معاملے میں کردار صفر کے برابر ہے ۔
ان مذکورہ اداروں کو اردو کی ترقی اور ترویج کا فریضہ دیا گیا تو انہوں نے انگریزی میں مروجہ اصطلاحات کو اسقدر مشکل ۔ غیر مستعمل۔ غیر عوامی۔ اور غیر زبانوں کے الفاظ سے اسقدر پیچیدہ ۔ ثقیل ۔ اور مضحکہ خیز بنا کر پیش کیا اور یہ ساری مشق اور قوم کا سرمایہ کا مصرف بیکار گیا۔ ہماری رائے میں ایسا کرنا اور حکومتی ادراے کے من پسندیدہ افراد کو نوازتے ہوئے یہ بجائے خود اردو کے خلاف ایک سازش ثابت ہوئی اور اردو سے اچھا خاصہ لگاؤ رکھنے والے نفیس لوگوں نے اسے اپنانے سے انکار کردیا ۔ اور پھر سے اس کا حل مکمل انگریزی اختیار کرنے میں نکالا گیا۔
مستعار اصطلاحات و ترکیبات اور مشکل الفاظ یا کوئی متبادل لفظ نہ ہونے کی صورت میں زبانیں اپنا رستہ خود بخود بنا لیتی ہیں۔ اور یہ مسئلہ دنیا بھر کی سبھی زبانوں کے ساتھ رہا ہے۔ اور ہے۔ خود انگریزی میں فرنچ اور دیگر لاطینی زبانوں کے بے شمار مستعار لفظ مستعمل ہیں۔ مثلا ”کیمرہ“۔۔ یہ بنیادی طور پہ یہ لاطینی لفظ ہے۔ جس کے معانی ہیں ڈبہ یا ڈبہ نما کوئی ایسے شئے جو اندر سے خالی ہو۔ اور انگریزی میں ہزاروں الفاظ کی ہم مثال یہاں دے سکتے ہیں ۔جو بنیادی طور پہ لاطینی ۔ فرانسیسی اور اسپانوی الفاظ ہیں ۔ اور انگریزی سے قدیم ہیں ۔ اور انگریزی نے اسے اپنا لیا ہے۔ اور اسے اپنا خاص انگریزی کا تلفظ دے ڈالا ہے۔ جس سے وہ ایک الگ صوتی شناخت پا گئے ہیں ۔
“اسی طرح کچھ خاص پہلوؤں سے عربی زبان اور دنیا کی دیگر زبانوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ جو دنیا کی فصیح و بلیغ زبان اور قدیم اور انتہائی ترقی یافتہ زبان ہے۔عربی زبان سے بڑھ کر کوئی بھی زبان کسی بھی صورت حال یا شئے کو واضح کرنے کے لئیے اپنے اندر اتنی صلاحیت نہیں رکھتی۔جتنی صلاحیت عربی زبان میں ہے۔ انگریز اور مغرب نے طیارہ ایجاد کیا۔ اور اسے ”ائیر پلین“۔ یا ا”ئر کرافٹ “یا دیگر نام دئیے جو بجائے خود دو ناموں کا مجموعہ ہیں۔مگر عربی نے اسے سیدھا سادا انداز میں ”طائرۃ“ کا نام دیا ۔ جو زیادہ ترقی یافتہ لفظ ہے۔ اور اس فصحات و بلاغت کے باوجود یونانی فاتح ۔جسے انگریزی نے ”الیگزینڈر“ کہہ کر پکارا ۔عربی نے اسے ”اسکندر“ کہا۔اور اسی مناسبت سے مصر کے مشہور شہر ”اسکندریہ“ کا نام عربی زبان کی مناسبت سے وجود میں آیا۔۔۔ لیبا کا مشہور شہر کا نام ”طرابلس” ۔ ”ٹریپولی “ نام کی وجہ سے وجود میں آیا۔ مگر اسے عربی نے اپنے انداز میں ”طرابلس“ کا نام دیا۔
کچھ ایسا ہی معاملہ دنیا میں رائج قدیم ترین زبانوں میں سے رائج ایک زبان اسپانوی کے ساتھ بھی ہے۔ عربی کے بعد ماہرینِ لسانیات عام طور پہ اسپانوی زبان کو دنیا کی دوسری فصیح و بلیغ زبان گردانتے ہیں ۔ مسلم اسپانیہ کے دور کے مشہور شہروں کے نام” اشییلیہ“۔”قرطبہ“۔ ”غرناطہ۔” مالقہ“۔”سرقسطہ“۔قادسیہ” وغیرہ اسپانوی زبان میں باالترتیب ۔ ”اِس بیا“۔ ”قوردبہ“۔ ”گارانادا“۔”مالاگا۔”ژاراگوثہ“۔ ”قادس۔ وغیرہ میں بدل گئے اور تلفظ بدلنے سے۔ امریکن قرطبہ کو ۔”کارڈوباہ” کہہ کر پکارتے ہیں کیوں کہ وہ قرطبہ شہر کے نام کو انگریزی حروف تہجی Córdoba میں تلفظ بگڑ جانے سے یوں ”کارڈوباہ“ پکارتے ہیں۔مگر اس سے مراد قرطبہ شہر ہی ہے یعنی نام کوئی بھی دے دیا جائے۔ یا کسی طرح بھی اسے پکارا جائے۔ مراد وہی مخصوص شہر ۔معانی یا شئے ہوتی ہے۔ اسی طرح قدیم عربی کے ہزاروں الفاظ اسپانوی میں اتنی صدیوں بعد بھی عربی تلفظ کے ساتھ اور انہی معانوں میں مستعمل ہیں۔ مثلا ”قندیل“۔ ”بلبل“ وغیرہ ہیں ۔ سقوطِ غرناطہ کو پانچ سے زائد صدیاں گزرجانے کے بعد بھی اسپانوی رائل ڈکشنری یعنی شاہی لغت میں ایک ہزار کے لگ بھگ الفاظ قدیم عربی زبان کے ملتے ہیں ۔ یاد رہے کہ اسپانوی زبان میں کسی نئے لفظ کو شامل کرنے یا نئی اصطلاحات اور ترکیبات شامل یا متروک الفاظ کو خارج کرنے کے لئیے اسپانوی زبان کی شاہی کونسل کا باقاعدہ بورڈکا اجلاس ہوتا ہے جس میں اسپانوی زبان کے ماہر ترین اور اسپانوی زبان میں ڈاکٹری کا اعزاز رکھنے والے اس کے باقاعدہ ممبر کسی لفظ کے متروک یا شامل کرنے پہ نہائت غوروص کے بعد اسے شامل یا متروک کرتے ہیں ۔تو اگر رائل اسپانوی لغت میں بدستور ایک ہزار کے لگ بھگ الفاظ تقریبا اپنی اصل حالت اور معانی میں شامل ہیں ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ روز مرہ کی زندگی میں استعمال میں لائے جاتے ہیں ۔ اور اسپانوی حکومت اور عوام کو ان پہ کوئی اعتراض نہیں کہ وہ زبردستی سے ان الفاظ کا متبادل اپنی زبان اسپانوی میں مسلط کرتے ۔
خود اردو زبان میں بہت سے انگریزی زبان کے کئی الفاظ مثلاً ”فون “۔”بس“۔ ”ٹرک“۔ ”ڈاکٹر“۔ ”انجئنیر“۔ ”نرس“۔” ہاکی“۔ ”جنگل“۔”ٹیم“۔ وغیرہ یوں مستعمل ہوئے کہ انہیں ادا کرنے کے لئیے انگریزی سے واقفیت ہونا ضروری نہیں۔ اور اسی طرح اردو نے عربی۔ فارسی۔ ہندی۔ ترکی اور دیگر بہت سی زبانوں کے الفاظ اپنائے ہیں جن کے بارے یہ جانے بغیر کہ یہ کون سی زبان کے الفاظ ہیں اور ان کا درست تلفظ کونسا ہے۔ ان الفاظ کو سمجھنے ۔ بولنے اور ادا کرنے میں عام آدمی کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔
اردو چونکہ دیگر زبانوں کے مقابلے میں نئی زبان ہے۔ اس لئیے اردو میں دیگر زبانوں کے الفاظ اپنے اندر سمو لینے کی صلاحیت حیرت انگیز ہے۔ اور یہی اردو کی ترقی کا راز بھی ہے۔ کہ اردو اتنے کم وقت میں اتنے کڑوڑوں انسانوں نے اسے اپنا لیا ہے اور انہیں اردو کو بولنے ۔ سمجھنے اور ادا کرنے میں پریشانی نہیں ہوتی ۔
جہاں تک مخصوص سائنسی اصطلاحات کا زکر ہے تو ان میں سے بیشتر یونانی اور لاطینی سے انگریزی میں منتقل ہوئیں ہیں ۔ یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔ کہ اگر آپ ان سائنسی اصطلاحات کو اگر جوں کا توں بھی اردو میں اپنا لیں تو جمہورِ اردو خود بخود ایک دن انہیں اپنے سے تلفظ اور نام دے دے گا ۔ جیسے ٹریپولی کو عربوں نے طرابلس کا نام میں بدل ڈالا یا الیگزینڈر کو اسکندر۔ اور آج عام عرب یونان کے مشہور فاتح کو اسکندر کے نام سے ہی جانتے ہیں ۔ اور اسی طرح جیسے مندرجہ نالا مثالوں میں مختلف خطوں اور زبانوں کے جمہورِ نے مختلف زبانوں کے الفاظ کو اپنی ضرورت کے تحت اپنے تلفظ یا صورت میں اپنا لیا تو کیا وجہ ہے کہ اردو کے ساتھ یوں نہیں سکتا؟ جبکہ اردو کا ظرف اور دامن بہت وسیع ہے۔مثال کے طور پہ جیسے فون لفظ اب اردو میں اور پاکستان میں عام مستعمل ہے اسے ” صوتی آلہ“ بلانے لکھنے پہ زور دینا ایک نامناسب بات ہے ۔
حاصلِ بحث یہ ہے جن الفاظ۔ ترکیبات اور سائنسی یا دیگر ناگزیر اصطلاحات کا فوری طور پہ اردو میں آسان ترجمہ نہ ہوسکے۔ تو انھیں انکی اصلی حالت میں ہی حالت اردو رسم الخط میں لکھ دینے سے اور باقی نفس مضمون اردو میں لکھ دینے سے ان کی ماہیئت نہیں بدلے گی ۔ انگریزی اور دیگر زبانوں کے جو ناگزیر الفاظ اردو میں لکھے جاسکتے ہیں ۔ انہیں اردو رسم الخط میں لکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔

حصہ دوئم۔
ناعاقبت اندیش لوگ ایک اورتاویل ا انگریزی کے حق میں یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ مادی ترقی کے لئیے انگریزی جاننا ضروری ہے ۔ کیونکہ کہ انگریزی امریکا اور برطانیہ کی ترقی یافتہ اقوام کی زبان ہے ۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چین جو اپنی چینی زبان سمیت اتنی تیزی سے ترقی کر کے۔ اس وقت دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے۔ اور کچھ وقت جاتا ہے کہ وہ امریکہ کومعاشی ترقی میں پیچھے چھوڑ دے گا ۔ تو پھر کی اس کلئیے کے تحت پاکستان کے پورے نظام اور اسکی آبادی کو چینی زبان سیکھنی اور اپنانی پڑے گی ؟ ترقی اپنی زبان کے استعمال اور نفاذسے ہوتی ہے۔ مستعار زبانوں سے کبھی ترقی نہیں ہوا کرتی۔
جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ بین الاقوامی زبان چونکہ انگریزی ہے تو ہمیں انگریزی سیکھنی چاہیئے انکا یہ استدلال اپنی جگہ مگر چند ہزار افراد کی انگریزی میں مہارت کے لئیے پوری ایک قوم کو بے زبان کر دینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ کیا اسکے لئیے یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ اپنے ان افراد کو جنہیں بین الاقوامی معاملے کرنے ہوتے ہیں۔ انھیں بہترین معیار کی انگریزی اور دیگر مغربی و مشرقی زبانیں سکھانے پہاکتفاء کر لیں اور باقی پچانوے فیصد پاکستانی قوم پہ انگریزی مسلط کرنے میں جو توانائی اور وسائل برباد کر کے۔ پوری قوم کو ٹکٹکی پہ لٹکا رکھا ہے۔ اس سے پاکستانی قوم کو معافی دے دیں ۔
انگریزی زبان کو ذرئعیہ تعلیم قرار دینے کی ایک اور بڑی خرابی جو پاکستانی معاشرے بگاڑ پیدا کرنا کر رہی ہے اور آیندہ اگلے سالوں میں مزید بگاڑ پیدا کرے گی وہ خرابی انگریزی کی نصابی کتب اور انکے پیچھے چھپی مخصوص سوچ ہیں ۔ کیونکہ عام طور پہ انہیں لکھنے والوں ۔ ترتیب دینے والوں کیاکثریت یا تو سیکولر غیر ملکی مواد کو نقل کرتے ہیں یا وہ اپنے مخصوص اسیکولر نکتہ نظر سے مضامین اور کتب لکھتے ۔ جو پاکستانی قوم کی نظریاتی بنیادوں کے خلاف ہے ۔ ایسے سیکولر نصاب میں پاکستانی قومیت اور اسلامی و مشرقی اقدار کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔ اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہمارا نوجوان طبقہ دین و ملت سے بیزار نظر آتا ہے۔ کیونکہ انہیں اسلامی اخلاق ۔ مشرقی اقدار یا قومی جذبات کی ہوا تک نہیں لگنے دی جاتی۔ کیونکہ انگریزی نکتہ نظر سے یہ سب دقیانوسیت قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ انگریزی نصاب جو لوگ ترتیب دیتے ہیں وہ انگریزی نصاب سے صرف انگریزی کی نہیں بلکہ اپنے انگریزی خیالات کی بھی ترویج کرتے ہیں۔ اور ملکی و قومی افکار کی۔ دین و ملت سے محبت کی اس میں گنجائش نہیں رکھی جاتی ۔ انگریزی ایک برآمدی زبان ہے جو کلچر انگریزوں کے ہاں آج رائج ہے۔ اسی کی جھلکیاں آپ کو انکی برآمدی زبان میں نظر آئینگی۔ جو کچے ذہنوں کو متاثر کرتی ہیں اور اور ویسی ہی ترغیب دیتی ہیں ۔
سائنسی تحقیقات کے مطابق یہ بات طے ہے کہ ہر انسان اپنی مادری زبان میں سوچتا ہے۔ جس کے تحت اسکے خیالات ترتیب پاتے ہیں۔ جسے وہ عملی شکل دے کر ۔عام روز مرہ کے معاملات سے لیکر محیر العقول دریافتیں۔ ایجادات اور پیچیدہ مسائل کا حل ڈہونڈ نکالتا ہے۔ اور سوچنے کا یہ عمل اگر ایک انسان چاہے تو کسی ایسی دوسری زبان میں سوچ بھی سکتا ہے جو اسکے لئیے آسان اور سہل اور عام فہم ہو۔ جیسے مثال کے طور پہ اگر معاشرے میں دو یا دو سے زائد زبانیں رائج ہوں ۔ یا اسے دوسری زبانوں پہ عبور ہو ۔ جس طرح کنیڈا میں بہت سے لوگ انگریزی اور فرانسیسی پہ عبور رکھتے ہیں ۔اسپانیہ کے صوبہ ”قتئلونیہ“ میں ”قئتلان“ اور” اسپانوی“ پہ ۔اسپین کے صوبہ” گالی سیا “میں” گالیگو “اور ”اسپانوی “پہ عبور رکھتے ہیں ۔ پاکستان میں ”پنجاب“ میں ”پنجابی“ اور ”اردو“ کے ساتھ ۔ اور پاکستان کے دیگر صوبوں میں دیگر صوبوں کی زبانوں اور اردو کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔تو یہ لوگ ہر دو زبانوں میں سے کسی ایک زان میں سوچ کر اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں ۔ کیونکہ یہ مذکورہ زبانیں ان کے لئیے اجنبی اور پیچیدہ زبانیں نہیں ۔ اور اس لئیے وہ اپنی صلاحیتوں کو اپنی زبانوں کے ذریئعے زیادہ بہت طور پہ اجاگر کر سکتے ہیں ۔ جبکہ انگریزی زبان پاکستان کے عوام کے لئیے قطعی برآمدی زبان ہے ۔سائنس یہ بات تسلیم کرتی ہے۔ اور زبان کو انسانی سوچ کے لئیے کو مادری یا دوسری معلوم اور عبور رکھنے والی زبان کو بنیاد مانتی ہے جس سے وہ اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنا تا ہے یوں کسی معاشرے میں اسکی اپنی زبان ترقی و تمدن میں بنیادی اورمسلمہ حیثیت رکھتی ہے۔
شاعری ۔ نثر ۔اور روز مرہ مسائل کے حل کے لئیے سوچنے۔تخیل دوڑانے اور تصور کرنے کے لئیے انسان اپنی بنیادی یا عام فہم سمجھنے والی زبان سے کام لیتا ہے۔
ہم اس تصور کو ایک اور مثال سے واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ ذرا تصور کریں۔ میر ۔ غالب۔نظیر اکبر الہ آبادی۔ اقبال رح۔ فیض یا دیگر شعراءنےجو اردو وغیرہ میں کلام کیا ہے وہ سب انھیں انگریزی میں سوچنے۔ اور ڈھالنے کے لئیے۔انگریزی میں اس پائے کا کلام کرنے کے لئیے ۔کتنا عرصہ انگریزی سوچنے اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لئیے درکارتھا؟ اور کیا اس کے بعد بھی وہی نتائج سامنے آتے۔اور ان کا وہی معیار ہوتا ۔جو آج دیوانِ غالب اور کلیاتِ اقبال یا بانگ درا کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں ؟ بعین اسی طرح کا معاملہ ان خداد ذہین انسانوں کے ساتھ بھی ہے جو چٹکی بجانے میں بڑے سے بڑا مسئلہ حل کردیتے ہیں ۔ ایک سے بڑھ کر ایک ایجاد کرتے ہیں ۔ مسائل کا حل دریافت کرتے ہیں ۔ یا اپنی کسی خاص دلچسپی میں مہارت رکھتے ہیں۔ اگر انھیں ایک غیر ملکی زبان انگریزی سیکھنے اور پھر اسی خاص زبان انگریزی کے تحت اپنے خیالات کو عملی جامہ اپنانے پہ پابند کر دیا جائے ۔جب کہ خداد تخلیقی صلاحیتوں کے حامل لوگ ویسے بھی عام طور پہ۔ اپنی فطری ساخت کی وجہ سے اپنے پہ مسلط بے جاضابطوں سے کسی حد تک باغی ہوتے ہیں ۔ تو کیا ان کی قابل قدر صلاحیتیں ایک ایسی زبان پہ صرف ہو جانی چاہئیں۔ جس میں وہ بددل ہو کر سارے سلسلے سے ہی ہاتھ اٹھا کر دنیا کی بھیڑ بھاڑ میں گم ہو جاتے ہیں۔ اور اگر وہ انگریزی سیکھنے میں کامیاب ہو بھی جائیں۔ تو بہت سا قیمتی وقت وہ ایک ایسے عمل پہ خرچ کر چکے ہوتے ہیں جو ضروری نہیں تھا۔ اور یہ تماشہ پاکستان کے جوہر قابل اور ذہین طلبہ کے ساتھ عام ہوتا ہے کہ خواہ وہ کس قدر ہی کیوں نہ لائق اور ذہین فطین ہوں لیکن بد قسمتی سے ۔یا۔ اردو میڈیم ہونے کی وجہ سے۔اگر ایک برآمدی زبان انگریزی میں انکا ہاتھ تنگ ہے ۔ تو جہاں انکے لئیے آگے بڑھنے کے مواقع معدوم ہوجاتے ہیں۔ وہیں پاکستان اور پاکستان کے عوام ذہین اور قابل لوگوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔
ملک میں خداد جوہر قابل کو محض انگریزی زبان کو لازمی قرار دینے سے ضائع ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں عام آدمی کو پاکستان کی ترقی میں کوئی موقع نہیں ملتا اور آخر کار وہ مایوس ہو کر اپنے آپ کو قومی سو چ اور قومی دھارے سے الگ کر لیتا ہے ۔جس سے معاشرے میں امن و عامہ سے لیکر کئی قسم کے تعصبات اور انکے نتیجہ میں مسائل جنم لے رہےہیں۔
اس لئیے صرف یہ کہہ کر ٹال دینا کہ اردو زبان کو سرکاری زبان کے طور پہ اسلئیے نافذ نہیں کیا جاسکتا کہ اردو ایک ترقی یافتہ زبان نہیں ۔ یا۔ اردو زبان میں لاطینی یا انگریزی کی سائنسی اصطلاحات کا ترجمہ مشکل ہے۔ اور اسے سرکاری زبان کی حیثیت سے نافذ نہ کرنا۔ محض بد نیتی کے سوا کچھ نہیں۔
جو لوگ انگریزی کو محض اس لئیے اپنانے پہ اصرار کرتے ہیں اور بضد ہیں کہ اردو کی قربانی دے کر انگریزی زبان کو اپنانا ترقی کے لئیے ضروری ہے۔ انکی یہ توجہیہ درست نہیں ۔ کیونکہ اس خاص انگریزی طبقے کی یہ بات درست تسلیم کر لی جائے تو پھر اپنی زبانوں میں مشرق و مغرب میں۔ ترقی کرنے والے ممالک ۔ جاپان۔ چین۔جرمنی۔روس۔ فرانس وغیرہ کو آپ کس کھاتے میں رکھیں گے؟ یورپ کے ننھے ننھے ترقی یافتہ ممالک ڈنمارک۔ ناروے۔ سویڈن۔ سوئٹزرلینڈ۔ہالینڈ۔ لکسمبرگ ۔ یوروپ کے بڑے ممالک روس اسپین ۔ فرانس۔ اٹلی۔ جرمنی۔ وغیرہ کسی ملک کی سرکاری زبان انگریزی نہیں۔ معاشی طور پہ تیزی سے ابھرتے ہوئے ممالک۔ برازیل ۔ انڈونیشا ۔ ملائشیاء ۔وغیرہ۔ ان میں سے کسی ملک کی زبان انگریزی نہیں۔ اور ان تمام ملکوں۔ کی زبانیں انکی اپنے ملک میں رائج جمہور کی۔ عوام کی۔ زبانیں سرکاری طور پہ نافذ ہیں۔ اس لئیے ترقی کرنے کے لئیے۔ پاکستان کی دیگر بہت سی خرابیاں درست کرنے کی ضرورت ہے ۔جن کی وجہ سے پاکستان ترقی نہیں کر پا رہا اور اس بد حالی کی ایک بڑی وجہ بھی پاکستان کی جمہور کی۔ عوام کی آواز اردو زبان کو سرکاری زبان کے طور پہ نہ نافذ کرنا ہے۔
پاکستان کی اٹھانوے فیصد آبادی اپنا مدعا اور منشاء انگریزی میں ادا کرنے کی اسطاعت نہیں رکھتی۔ پاکستان کے انگریزی دان طبقے کی اہلیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انگریزی پہ زور دینے والا یہ طبقہ انگریزی ادب میں اپنا حصہ ڈالنے کے حوالے سے نثر ۔ نظم ۔ ناول یا ادب کی دیگر کسی صنف میں کوئی نمایاں کارنامہ سر انجام نہیں دے سکا ۔ اور سائنسی اور تکنیکی علوم میں انگریزی کلب کا ہاتھ مزید تنگ ہوجاتا ہے ۔تو کیا پاکستان کے انگریزی کلب کے سامنے محض اس لئیے سر تسلیم خم کر دیا جائے کہ وہ انگریزی جانتے ہیں؟ اور انگریزی زبان جاننا قدر مشترک ہونے کی وجہ سے۔ انگریزی کلب پاکستان کے نظام پہ حاوی رہے؟ ۔ اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ انگریزی دان طبقہ پاکستان میں انگریزی زبان کا تسلط اس لئیے نہیں رکھنا چاہتا کہ انگریزی سے اہلیت بڑھتی ہے اور انگریزی کے تسلط سے پاکستان ترقی کر جائے گا ۔ بلکہ پاکستان کا انگریزی کلب۔ پاکستانی عوام اور وسائل کو انگریزی زبان کے ذرئعیے پاکستان میں اپناتسلط قائم رکھنا چاہتا ہے ۔
پاکستان کے مسائل کی ایک بہت بڑی وجہ عام بول چال اور سمجھ میں آنے والی جمہورِ کی زبان اردو کے ساتھ یہ یتیمانہ سلوک ہے۔ اگر اسے سرکاری طور پہ نافذ کر دیا جائے تو پاکستان کی بے مہار اورانگریزی کلب کی پیداوار بیورکریسی جو محض انگریزی زبان کی وجہ سے جمہورِ پاکستان سے اپنے آپ کو الگ شناخت کرتی ہے۔ اپنے آپ کو خاص اور عوام کو اپنی رعایا سمجھتی ہے۔ اردو کو سرکاری زبان نافذ کرنے سے پاکستان اور پاکستان کے عوام کی جان چھوٹ جائے گی۔جب پاکستان میں اعلی عہدوں کے لئیے مقابلہ کے امتحانات اردو میں ہونگے اور اردو کو سرکاری طور پہ اوڑنا بچھونا بنایا جائے گا۔ تو انگریزی اور پاکستان جیسے مشرقی اور مسلمان ملک میں انگریزی بودوباش باش کا امتیاز و اعزاز خود بخود ختم ہو جائیگا۔ اور اردو وہ عزت پائے گی جس کی وہ مستحق ہے ۔ کیونکہ اردو کے عزت پانے سے پاکستانی قوم عزت پائے گی۔ کاروبارِ مملکت اردو میں ہونے سے عام فہم اور سہل ہوگا ۔
اردو سمجھنے والوں میں بے شمار خداد صلاحیتوں کے حامل اور اہل لوگوں کو کاروبار ریاستِ پاکستان چلانے کا موقع ملے گا ۔ عوام اور خاص کی ایک ہی زبان ہونے سے عوام اور خاص میں فاصلہ کم ہوگا ۔ ریاستی اور دفتری امور کو سمجھنے میں عام آدمی کو آسانی ہوگی۔
اس لیے پہلے گزارش کر چکے ہیں مستعار اصطلاحات و ترکیبات اور مشکل الفاظ یا کوئی متبادل لفظ نہ ہونے کی صورت میں زبانیں اپنا رستہ خود بخود بنا لیتی ہیں ۔دریا کے سامنے وقتی طور پہ بند باندھ کر۔ اس کا پانی روکا جاسکتا ہے ۔ مگر ہمیشہ کے لئیے یوں کرنا ناممکن ہے۔۔۔۔ اور اردو۔۔۔اس ملک ۔پاکستان میں وہ سیل رواں ہے۔ کہ اس کے سامنے جو رکاوٹ بن کر آیا۔ وہ خس خاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔ کیونکہ اردو زبان پاکستان کے عوام کی۔ جمہور کی زبان ہے۔ اور جمہور اپنا رستہ خود بنا لیا کرتا ہے۔
بس کچھ سالوں کی بات ہے ۔ یا پھر ہماری قیادت کو قومی غیرت کا ادراک ہوجائے۔ تو اردو کو فی الفور سرکاری زبان کا درجہ دے کر۔ اسے سرکاری طور پہ نافذ کرے۔ اسی کو تعلیم کا ذرئعیہ (میڈیم) بنائے۔۔۔اتنی بڑی آبادی کے ملک کے لئیے۔ قومی ہی کیا۔ عالمی ناشران بھی اردو میں کتابیں چھاپنے پہ مجبور ہونگے ۔۔ اور جو نہیں چھاپیں گے وہ خسارے میں رہیں گے ۔ شروع میں ایک حد تک حکومت تراجم کی سہولت خود بھی مہیاء کر سکتی ہے۔ بعد ازاں سب اردو میں کتب لے کر بھاگے آئیں گے۔ کہ ہم سے بہت ہی کئی درجہ چھوٹے ممالک میں انکی اپنی زبانوں میں تعلیم ہونے کی وجہ سے عالمی ناشران انہی زبانوں میں بھی کتب چھاپتے ہیں۔ کہ یہ ایک کاروبار ہے۔ کسی زبان پہ احسان نہیں۔
اگر حکومت نہ بھی دلچسپی دکھائے تو بھی ایک بات تو طے ہے کہ اردو کا مستقبل پاکستان میں روشن ہے اور ایک روشن اور ترقی یافتہ پاکستان کے لئیے اردو زبان کو بطور سرکاری زبان اپنانا اور سرکاری طور پہ نافذ کرنا۔ نہ صرف ضروری ہے بلکہ یہ ایک لازمی قومی فریضہ ہے ۔
جاوید گوندل
پچیس فروری سنہ دو ہزار پندرہ
۲۵۔۰۲۔۲۰۱۵ ء

 

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

دعوتِ فکر


دعوتِ فکر۔۔۔
تبدیلی ناگزیر! مگر کیسے ؟۔۔۔

پاکستان میں ۔۔۔آج کے پاکستان میں۔ جس میں ہم زندہ ہیں۔ جہاں انگنت مسائل ہیں ۔ صرف دہشت گردی ہی اس ملک کا بڑا مسئلہ نہیں۔ یہ دہشت گردی ایک آدھ دہائیوں سے ۔اِدہر کی پیداوار ہے۔ اور اس دہشت گردی کے جنم اور دہشت گردی کیخلاف جنگ کو ۔پاکستان میں اپنے گھروں تک کھینچ لانے میں بھی۔ ہماری اپنی بے حکمتی ۔ نالائقی اور فن کاریاں شامل ہیں۔
دہشت گردی کے اس عفریت کو جنم دینے سے پہلے اور ابھی بھی۔ بدستور پاکستان کے عوام کا بڑا مسئلہ ۔ ناخواندگی ۔ جہالت۔غریبی۔ افلاس اور بے روزگاری اور امن عامہ جیسے مسائل ہیں۔ مناسب تعلیم ۔ روزگار اور صحت سے متعلقہ سہولتوں کا فقدان اور امن عامہ کی صورتحال۔ قدم قدم پہ سرکاری اور غیر سرکاری لٹیرے۔ جو کبھی اختیار اور کبھی اپنی کرسی کی وجہ سے ۔ اپنے عہدے کے اعتبار سے۔نہ صرف اس ملک کے مفلوک الحال عوام کا خون چوس رہے ہیں ۔بلکہ اس ملک کی جڑیں بھی کھوکھلی کر رہے ہیں۔
اور پاکستان کے پہلے سے اوپر بیان کردہ مسائل کو مزید گھمبیر کرنے میں۔ پاکستان کے غریب عوام کی رگوں سے چوسے گئے ٹیکسز سے۔ اعلی مناصب۔ تنخواہیں اور مراعات پا کر۔ بجائے ان عوام کی حالت بدلنے میں۔ اپنے مناصب کے فرائض کے عین مطابق کردار ادا کرنے کی بجائے۔ اسی عوام کو مزید غریب ۔ بے بس۔ اور لاچار کرنے کے لئیے انکا مزید خون چوستے ہیں۔ اور انکے جائز کاموں میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
محض ریاست کے اندر ریاست بنا کر۔۔۔خاص اپنے اور اپنے محکموں اور سیاستدان حکمرانوں۔ انکی پارٹی کے کرتا دھرتاؤں اور چمچوں چیلوں کے مفادات کی آبیاری کرنے کے لئیے۔ اپنے عہدوں۔ اور اداروں کا استعمال کرتے ہیں ۔ادارے جو عوام کے پیسے سے عوام کی بہتری کے لئیے قائم کئے گئے تھے ۔ اور جنہیں باقی دنیا میں رائج دستور کے مطابق صرف عوام کے مفادِ عامہ کے لئیے کام کرنا تھا ۔ وہ محکمے ۔ انکے عہدیداران ۔ اہلکار۔ الغرض پوری سرکاری مشینری ۔ حکمرانوں کی ذاتی مشینری بن کر رہ گئی ہے۔ اور جس وجہ سے انہوں نے شہہ پا کر ۔ ریاست کے اندر کئی قسم کی ریاستیں قائم کر رکھی ہیں ۔ اور اپنے مفادات کو ریاست کے مفادات پہ ترجیج دیتے ہیں۔ اپنے مفادات کو عوم کے مفادات پہ مقدم سمجھتے ہیں ۔
ستم ظریفی کی انتہاء تو دیکھیں اور طرف تماشہ یوں ہے۔ کہ ہر نئے حکمران نے بلند بانٹ دعوؤں اور بیانات سے اقتدار کی مسند حاصل کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ اور اقتدار سے رخصتی کے وقت پاکستان کو ۔ پاکستان کے غریب عوام کو پہلے سے زیادہ مسائل کا تحفہ دیا۔
پاکستان کے حکمرانوں۔ وزیروں۔ مشیروں کے بیانات کا انداز یہ ہے ۔کہ صرف اس مثال سے اندازہ لگا لیں ۔کہ پاکستان کاکاروبار مملکت کس انوکھے طریقے سے چلایاجا رہا ہے ۔ پاکستان میں پٹرول کی قلت کا بحران آیا ۔ انہیں مافیاؤں نے جس کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں۔ مافیا نے پٹرول کی قلت کے خود ساختہ بحران میں جہاں عوام اور اور ملک کا پہیہ چلانے والے ٹرانسپورٹرز سڑکوں اور پٹرول پمپس پہ خوار ہورہے تھے ۔ جن میں ایمولینسز ۔ مریض ۔ اسپتالوں کا عملہ ۔ خواتین۔ اسکول جانے والےبچے بھی شامل تھے۔ یعنی ہر قسم کے طبقے کو پٹرول نہیں مل رہا تھا ۔ ڈیزل کی قلت تھی ۔ مگر وہیں حکومت کی ناک کے عین نیچے۔ ریاست کے اندر قائم ریاست کی مافیا۔ اربوں روپے ان دو ہفتوں میں کمانے میں کامیاب رہی ۔اور آج تک کوئی انکوائری۔کوئی کاروائی ان کے خلاف نہیں ہوئی اور کبھی پریس یا میڈیا میں انکے خلاف کوئی بیان نہیں آیا کہ ایسا کیوں ہوا اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف کیا کاروائی عمل میں لائی گئ؟۔ اور اس پٹرول قلت۔ کے براہ راست ذمہ دار ۔وزیر پٹرولیم خاقان عباسی۔ کا یہ بیان عام ہوا کہ "اس پٹرول ڈیزل بحران میں۔ میں یا میری وزارت پٹرولیم کا کوئی قصور نہیں”۔ یعنی وزیر موصوف نے سرے سے کسی قسم کی ذمہ داری قبول کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ اس سے جہاں یہ بات بھی پتہ چلتی ہے کہ وزیر موصوف کے نزدیک ان کا عہدہ ہر قسم کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہے۔ اور وہ کسی بھی مہذب ریاست کے وزیر کی طرح استعفی دینا تو کٌجا۔ وہ ریاست کو جام کر دینے میں اپنی کوئی ذمہ داری ہی محسوس نہیں کرتے۔
اس سے یہ بات بھی پتہ چلتی ہے جو انتہائی افسوسناک اور خوفناک حقیقت ہے کہ وزارت پٹرولیم محض ایک وزارت ہے جس کے وزیر کا عہدہ محض نمائشی ہے اور اصل معاملات کہیں اور طے ہوتے ہیں۔ جس سے حکومت کی منظور نظر مافیاز کو یہ طے کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ کہ کب کس قسم کی قلت پیدا ہونے میں کس طرح کے حالات میں کب اور عوام کا خون چوس لینا ہے۔
ہمارا مطمع نظر اور اس تحریر کا مقصد محض موجودہ حکمرانوں پہ تنقید کرنا نہیں۔ بلکہ یہ سب کچھ موجودہ حکمرانوں کے پیشرو ۔زرداری۔ مشرف۔ شریف و بے نظیر دونوں کے دونوں ادوار ۔ اور اس سے بیشتر جب سے پاکستان پہ بودے لوگوں کا قبضہ ہوا ہے۔ سب کے طریقہ واردات پہ بات کرنا ہے۔ آج تک اسی کا تسلسل ہے کہ صورتیں بدل بدل کر عوام کو غریب سے غریب تر کرتا آیا ہے اور اپنی جیبیں بھرتا آیا ہے۔
مگر پچھلی چار یا پانچ دہایوں سے اس خون چوسنے کے عمل میں جدت آئی ہے اور حکمرانوں نے اپنے مفادات کے آبیاری کے لئیے کاروبار مملکت چلانے والے ادارے ۔اپنے ذاتی ادارے کے طور پہ اپنے استعمال میں لائے ہیں ۔ جس سے کاروبار مملکت ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے ۔ اور پاکستان اور پاکستان کے عوام کے مسائل دن بدن بگڑتے گئے ہیں۔ اور آج یہ عالم ہے۔ کہ پاکستان نام آتے ہی ذہن میں ایک سو ایک مسائل تصور میں آتے ہیں ۔ جہاں پاکستان کی اکثریت آبادی جو غریب ہے۔ جس کے لئیے کوئی سہولت کوئی پناہ نہیں ۔ اور جو سفید پوشی کا بھرم لئیے ہوئے ہیں وہ بھی جان لڑا کر اپنا وقت دن کو رات اور رات کو دن کرتے ہیں۔ اور بڑی مشکل سے مہینہ آگے کرتے ہیں۔ ۔
جبکہ پاکستان جیسے غریب ملک کے مختلف اداروں کے سربراہان۔ دنیا کی کئی ایک ریاستوں کے سربراہان سے زیادہ امیر ہیں۔ اور بے انتہاء وسائل کے مالک ہیں ۔ انکے اہلکار جو سرکاری تنخواہ تو چند ہزار پاتے ہیں مگر ان کا رہن سہن اور جائدادیں انکی آمد سے کسی طور بھی میل نہیں کھاتیں اور حیرت اس بات پہ ہونی چاہئی تھی کہ وہ کچھ بھی پوشیدہ نہیں رکھتے ۔ اور یہ سب کچھ محض اس وجہ سے ہے۔ کہ حکمران خود بھی انہی طور طریقوں سے کاروبار حکومت چلا رہے ہیں جس طرح ان سے پیش رؤ چلاتے آئے ہیں۔ یعنی اپنے مالی۔ سیاسی اور گروہی مفاد کو ریاست کے مفاد پہ ترجیج دی جاتی ہے۔اور ریاست کی مشینری کے کل پرزے تو کبھی بھی پاکستان کے مفادات کے وفادار نہیں تھے ۔ انہیں سونے پہ سہاگہ یہ معاملہ نہائت موافق آیا ہے۔
ریاست کی مشینری کے کل پرزے۔عوام کا کوئی مسئلہ یا کام بغیر معاوضہ یا نذرانہ کے کرنے کو تیار نہیں۔ اگر کوئی قیمت بھر سکتا ہو۔ تو منہ بولا نذرانہ دے کر براہ براہ راست عوام یا ریاست کے مفادات کے خلاف بھی جو چاہے کرتا پھرے ۔ اسے کھلی چھٹی ہے۔
ایک شریف آدمی بھرے بازار میں لٹ جانے کو تھانے کچہری جانے پہ ترجیج دیتا ہے۔ آخر کیوں؟ جب کہ ساری دنیا میں انصاف کے لئیے لوگ عام طور پہ تھانے کچہری سے رجوع کرتے ہیں اور انھیں اطمینان کی حد تک انصاف ملتا ہے۔ تو آخر پاکستان میں عام عوام کیوں یوں نہیں کرتے؟ یہ پاکستان میں عوام کی روز مرہ کی تکلیف دہ صورتحال کی صرف ایک ادنی سی حقیقت ہے۔ جو دیگر بہت سی عام حقیقتوں اور حقائق کا پتہ دیتی ہے۔اور ادراک کرتی ہے
پاکستان کے حقائق کسی کی نظر سے اوجھل نہیں۔ ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ہر طرف پاکستان میں نا انصافی اور عدم مساوات سے سے دو قدم آگے۔ ظلم۔ استحصال اور غاصابانہ طور پہ حقوق سلب کرنے کے مظاہر و مناظر عام نظر آتے ہیں۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اسے ایک عام رواج یا چلن سمجھ لیا گیا ہے۔اور اس میں وہ لوگ ۔ ادارے اور حکمران۔ سیاستدان۔ اپوزیشن۔ عام اہلکار الغرض ساری حکومتی مشینری شامل ہے۔ حکمرانوں کا کوئی بڑے سے بڑا شاہ پرست اور درباری۔ یہ قسم نہیں دے سکتا کہ پاکستان کا کرپشن سے پاک کوئی ایک تھانہ ہی ایسا ہو کہ جس کی مثال دی جاسکتی ہو ۔ یا کوئی ادارہ جہاں رشوت۔ سفارش ۔ اور رسوخ کی بنیاد پہ حق داروں کے حق کو غصب نہ کیا جاتا ہو؟۔
ایک بوسیدہ نظام جو پاکستان کی۔ پاکستان میں بسنے والے مظلوم اور مجبور عوام کی جڑیں کھوکھلی کر چکا ہے ۔ ایسا نظام اور اس نظام کو ہر صورت میں برقرار رکھنے کے خواہشمند حکمران و سیاستدان ۔۔ اسٹیٹس کو ۔کے تحت اپنی اپنی باری کا انتظار کرنے والے۔ قانون ساز اسمبلیوں مقننہ کے رکن اور قانون کی دھجیاں اڑا دینے والے۔ اپنے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لئیے کسی بھی حد تک اور ہر حد سے گزر جانے والی ریاست کے اندر ریاست کے طور کام کرنے والی جابر اور ظالم مافیاز۔ بیکس عوام کے مالک و مختارِکُل۔ ادارے۔
کیا ایسا نظام ۔ ایسا طریقہ کار۔ کاروبار مملکت کو چلانے کا یہ انداز ۔ پاکستان کے اور پاکستان کے عوام کے مسائل حل کرسکتا ہے؟ کیا ایسا نظام اور اسکے پروردہ بے لگام اور بدعنوان ادارے اور انکے عہدیدار و اہل کاران پاکستان اور پاکستان کے عوام کو انکا جائز مقام اور ان کے جائزحقوق دلوا سکتے ہیں؟۔
اتنی سی بات سمجھنے کے لئیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں پڑتی کہ اگر منزل مغرب میں ہو۔ تو کیا مشرق کا سفر کرنے سے منزل نزدیک آتی ہے یا دور ہوتی ہے؟
پاکستان اپنی منزل سے دور ہو رہا ہے۔ اور اس میں کسی بیرونی دشمن کا ہاتھ ہو یا نہ ہو مگر مندرجہ بالا اندرونی دشمنوں کا ہاتھ ضرور ہے ۔اور پاکستان اور پاکستان کے عوام کو یہ دن دکھانے میں اور ہر آنے والے دن کو نا امیدی اور مایوسی میں بدلنے میں۔ انہی لوگوں کا۔کم از کم پچانوے فیصد کردار شامل ہے۔
جو حکمران یا پاکستان کے کرتا دھرتا ۔اسی بوسیدہ نظام اور اداروں کے ہوتے ہوئے۔ پاکستان اور پاکستان کے عوام کی تقدیر بدلنے کاےبیانات اور اعلانات کرتے ہیں۔ یقین مانیں۔ وہ حکمران۔۔۔ عوام کو بے وقوف سمجھتے ہوئے جھوٹ بولتے ہیں ۔
تبدیلی صرف اعلانات اور بیانات سے نہیں آتی ۔ یہ اعلانات و بیانات تو پاکستان میں مزید وقت حاصل کرنے اور عوام کو دہوکہ میں رکھنے کے پرانے حربے ہیں۔ کہ کسی طرح حکمرانوں کو اپنا دور اقتدار مکمل کرنے کی مہلت مل جائے ۔ چھوٹ مل جائے ۔ اور انکی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں رہے۔ اور وہ ادارے جنہوں نے انھیں ایسا کرنے سے باز رکھنا تھا۔ اور ریاست اور عوام کے مفادات کا نگران بننا تھا۔ وہ بے ایمانی۔ اور بد عنوانی میں انکے حلیف بن چکے ہیں۔ اور یہ کھیل پاکستان میں پچھلے ساٹھ سالوں سے زائد عرصے سے ہر بار مزید شدت کے ساتھ کھیلا جارہا ہے ۔ اور نتیجتاً عوام مفلوک الحال اور ایک بوسیدہ زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں۔ جس میں محض بنیادی ضرورتوں کو بہ احسن پورا کرنے کے لئیے ان کے حصے میں مایوسی اور ناامیدی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ جائز خواہشیں۔ حسرتوں اور مایوسی میں بدل جاتی ہیں۔
جس طرح ہم پاکستان میں ان تلخ حقیقتوں کا نظارہ روز کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو ان حالات کو بدلنے کے ذمہ دار ہیں ۔اور اس بات کا اختیار رکھتے ہیں ۔ اور یوں کرنا انکے مناصب کا بھی تقاضہ ہے ۔ اور وہ حالات بدلنے پہ قادر ہیں ۔ مگر وہ اپنے آپ کو بادشاہ اور عوام کو رعایا سمجھتے ہیں۔ اور نظام اور اداروں کو ان خامیوں سے پاک کرنے کی جرائت۔ صلاحیت و اہلیت ۔ یا نیت نہیں پاتے۔
تو سوال جو پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا پاکستان اور اس کے عوام کے نصیب میں عزت نام کی ۔ حقوق پورے ہونے نام کی کوئی شئے نہیں؟ اور اگر یہ پاکستان اور اسکے عوام کے نصیب میں ہے کہ انھیں بھی عزت سے جینے اور انکے حقوق پورے ہونے کا سلسلہ ہونا چاہئیے۔ تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ پاکستان کے ان دشمنوں کے لئیے۔ جن کی دہشت گردی سے پوری قوم بھکاری بن چکی ہے۔ اور ہر وہ بدعنوان شخص خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ جس نے پاکستان کے اور پاکستان کے عوام کے مفادات خلاف اپنے مفادات کو ترجیج دی۔ ان کے لئیے کب پھانسی گھاٹ تیار ہونگے؟۔ انہیں کب فرعونیت اور رعونت کی مسندوں سے اٹھا کر سلاخوں کے پیچھے بند کیا جائے گا؟۔ اور انہیں کب ان کے انجام تک پہنچایا جائے گا؟ ۔ کہ مخلوق خدا پہ سے عذاب ٹلے؟
اس کے سوا عزت اور ترقی کا کوئی راستہ نہیں۔

 

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

پھر بجٹ۔


پھر بجٹ۔

Budget (مالی سال جولائی 2014ء تا 2015 ء)
دور روز قبل پاکستان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے پاکستان کا سالانہ (مالی سال جولائی 2014ء تا 2015 ء)بجٹ پیش کیا ہے ۔
یہاں حالیہ پیش کردہ بجٹ کے گورکھ دہندے پہ بحث کرنا مقصود نہیں ۔ کیونکہ یہ لچھے دار اور گنجلک بجٹ ہمیشہ سے عام آدمی کی سمجھ سے بالا تر رہے ہیں اور عام خیال یہی ہے کہ انہیں بابو لوگ پاکستان کے دیگر سرکاری نظام کی طرح جان بوجھ کر بھی کچھ اسطرح پیچیدہ اور سمجھ میں نہ آنے والی چیز بنا دیتے ہیں تانکہ عام عوام حسبِ معمول ہمیشہ کی طرح محض سر ہلا کر ”قبول ہے“ کہنے میں ہی عافیت سمجھے ۔
بجٹ کی ایک سادہ تعریف تو یہ ہے کہ کسی بھی ذاتی یا مشترکہ نظام کو چلانے کے لئیے اس نظام پہ اٹھنے والے اخراجات اور اسکی ترجیجات کے لئیے کسی ایک خاص مدت کے لئیے دستیاب میسر وسائل کی منصوبہ بندی کرناہے۔ اسے عام طور پہ بجٹ کہا جاتا ہے ۔ بجٹ ذاتی یا گھریلو بھی ہوسکتا ہے ۔محکمہ جاتی یا ملکی بھی ہوتا ہے ۔ گھریلو ہو تو عام طور پہ اسے ماہانہ بنیادوں پہ سوچا جاتا ہے اور اگر ادارہ جاتی اور ملکی ہو تو اسے سالانہ بنیادوں پہ بنایا جاتا ہے ۔ جسے ملک و قوم کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر سالانہ بنیادوں پہ تیار کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پہ تقریبا سارے دنیا کے ممالک کسی نہ کسی طور سالانہ بجٹ کے تحت اپنے معاملات چلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جس میں مختلف مقاصد کے لئیے مخصوص رقم مقرر کی جاتی ہے اور رقم اور وسائل کی دستیابی کے لئیے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔قومی ترقی۔ دفاع ۔ صحت ۔ تعلیم اور دیگر اہداف مقرر کئیے جاتے ہیں ۔ جبکہ پاکستان میں بجٹ کے آغاز سے بجٹ کے مالی سال کے اختتام تک بندر بانٹ ۔ وقتی ضرورت ۔ بد دیانتی اور دیگر کئی قسم کے جوازوں کے تحت قومی خزانے کے صندوق کا ڈھکن اٹھا دیا جاتا ہے اور بڑھے ہوئے ہاتھ ۔ قوم کی امانت رقم کو قومی ضروت سے کہیں زیادہ اپنی ذاتی اغراض کے لئیے اپنی طرف منتقل کر لیتے ہیں اور منتقلی کا یہ عمل ایسی سائنسی طریقوں سے کیا جاتا ہے ۔ کہ قومی خزانے کو بے دردی سے لُوٹنے والے چور بھی حلق پھاڑ پھاڑ کر ”چور“ چور“ کا شور مچاتے ہیں ۔اور مجال ہے کہ چشم دید گواہوں اور شہادتوں کے باوجود ایسی طریقہ واردات پہ کسی کو سزا دی گئی ہو۔ اور پاکستان کے نصیب میں ہمیشہ سے یوں ہی رہا ہے ۔
قوم کی امانت ۔ قومی خزانے کو خُرد بُرد ہر اور ہیرا پھیری سے اپنی جیب میں بھر لینا ۔شیر مادر کی طرح اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔ایسے میں کم وسائل اور عالمی مہاجنوں کے مہنگے قرضوں۔ امداد و خیرات سے تصور کئیے گے وسائل سے (خسارے کا بجٹ) خسارے کے بجٹ پہ حکومتوں اور اداروں کے سربراہوں ، مشیروں وزیروں کے شاہی اخراجات اور ایک عام چپڑاسی سے لیکر عام اہلکاروں اور اعلٰی عہدیداروں کے حصے بقدر جثے اور دیگر اللوں تللوں سے یہ تصور محض تصور ہی رہتا ہے کہ کہ پاکستان سے غربت اور ناخواندگی ختم ہو اور قومی ترقی کی شرح میں قابل قدر اضافہ ہو۔اور مالی سال کے آخر میں وہی نتیجہ سامنے آتا ہے جو پاکستان میں پچھلی چھ دہائیوں سے متواتر آرہا ہے کہ نہ صرف غریب ۔ غریب سے غریب تر ہوتا گیا بلکہ ہر سال غریبوں کی تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے ۔ عالمی اداروں کی حالیہ حد بندیوں میں پاکستان کئی درجے نیچے کو لڑھک رہا ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں غریبی کی سطح سے نیچے زندگی Low povertyگزارنے والی آبادی نصف سے زائد ہے ۔ خود اسحق ڈار نے اپنی بجٹ تقریر میں یہ بات تسلیم کی ہے کہ پاکستان کی نصف سے زائد آبادی غریبی کی آخری حد سے نیچے ۔ یعنی دو ڈالر یومیہ آمدن سے کم کماتی ہے۔ یعنی ایسے غریب جو مستقبل کے بارے کسی قسم کی منصوبہ بندی کرنے سے محض اس لئیے قاصر ہیں کہ وہ اپنے یومیہ بنیادی اخراجات پورے کرنے کی جستجو میں محض زندہ رہنے کا جتن کر پاتے ہیں۔ایسے حالات میں ایک لگے بندھے بجٹ کے طریقہ کار سے حکومت اور ذمہ دار اداروں کا اپنے آپ کوقومی ذمہ داریوں سے سبک دوش سمجھ لینا۔ پاکستان کی اکثریتی آبادی کی انتہائی غریب آبادی کی غربت اور غریبوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے مترادف ہے۔
پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی بجٹ اجلاسوں پہ اعدو شمار پیش کئیے جاتے ہیں ۔ اور ان پہ کئی کئی دن لگاتار یوانوں میں اجلاس ہوتے ہیں ۔ جہاں حکوت بجٹ کے حق میں دلائل دیتی ہے وہیں حب اختلاف اور دیگر جماعتیں بجٹ کی خامیوں کی نشاندہی کرتی ہیں ۔ حزب اختلاف کئی ایک تجاویز دیتی ہے ۔ حزب اختلاف اور حکومت سے باہر سیاسی جماعتیں حکومت کے متوازی۔ اپنے طور پہ بجٹ کے لئیے باقاعدہ تیاری کرتی ہیں ۔اور متبادل تجاویز کو کئی بار حکومت تسلیم کر لیتی ہے۔ اور ایک بار بجٹ طے پا جانے پہ اسے پائے تکمیل تک پہنچانے کے لئیے حکومت تہہ دل سےمقر ر کردہ اہداف حاصل کرنے کے لئیے مطلوب وسائل مہیاء کرتی ہے۔ ہمارے ارباب اقتدار و اختیار اور اور قومی اسمبلی کے معزز اراکین کا یہ عالم ہے کہ ایک اخباری اطلاع کے مطابق قومی خزانے سے کرڑوں روپے خرچ کر کے قومی اسملی کے ارکان کے لئیے بجٹ کی دستاویز چھپوائی گئی ۔ جسے ستر فیصد سے زائد قومی اسمبلی کے معزز ارکان بغیر کھولے ہی قومی اسمبلی ہال کے ہال میں اپنی سیٹوں پہ چھوڑ گئے ۔ اس میں حکومتی ارکان بھی شامل ہیں۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار کی تقریر کے دوران بھی قومی اسمبلی کی اکثریت ۔ بیزار ۔ بور اور آپس میں بات چیت کرتی نظر آئی ۔ ہماری رائے میں پاکستان سے متعلق اتنے اہم مسئلے پہ عدم دلچسپی کے اس مظاہرے کی وجہ اراکین اسمبلی کو بھی پاکستان کی سابقہ بجٹوں کی طرح اس بجٹ پہ بے یقینی اور بجٹ پیش کرنے کی کاروائی محض ایک رسم اور ایک قومی تقاضا پورا کرنے کے مترادف لینا ہے اور دوسری بڑی وجہ معزز اراکین کی بڑی تعداد کی تعلیمی استعداد اور سوجھ بوجھ کی کمی ہوسکتی ہے ۔ تو ایسے حالات میں پاکستان جیسے غریب سے غریب تر ہوتے معاشرے کے لئیے ایک قابل عمل اور نتیجہ خیز بجٹ کے لئیے مفید اصلاحات کون پیش کرےگا؟، حکومت کے بجٹ کی خامیوں کی نشاندہی کون کرے گا؟۔اسحق ڈار کے لبوں پہ ایک فاتح کی سی معنی خیز مسکراہٹ بھی اس امر کی غمازی کر رہی تھی ۔کہ کوئی تنقید نہیں کرے گا۔ اور بجٹ معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہوجائے گا۔ تو ایسے حالات میں پاکستانی عوام کس کا پلُو تھام کر اسطرح کے بجٹوں پہ فریاد کریں ؟۔
آجکل پاکستان میں ٹیکس گزاروں کا نیٹ ورک بڑہانے کے لئیے بہٹ شور مچا ہوا ہے ۔ بہت سے ترقی یافتہ اور ٹیکس سے چلنے والے ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ اور پاکستان میں ٹیکس گزاروں کی ٹیکس چور ی کو تنقید کا نشانہ بنانا عام ہے ۔ لیکن اس بات کا کوئی تذکرہ نہیں کرتا کہ اُن ممالک میں حکومتی ادارے کس طرح عوام کے ٹیکسوں سے ملکی آمدن کو سوچ سمجھ کر انتہائی ذمہ داری اور دیانتداری سے ایک مکمل منصوبہ بندی سے استعمال میں لاتےہیں جس کے نتیجے میں عام آدمی کو ہر قسم کی بنیادی سہولتیں میسر ہوتی ہیں اور عوام کی فلاح بہبود اور ترقی پہ ٹیکسوں کو خرچ کیا جاتا ہے ۔ اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے لوگوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جاتا اور انہیں نہ صرف کریمنل یعنی سنگین مجرم بلکہ اخلاقی مجرم بھی تصور کیا جاتا ہے ۔ ایسے لوگوں کے نام سے عام آدمی گھن کھاتا ہے اور انکا ذکر انتہائی ناگواری سے کرتا ہے ۔ اور بہت سے ممالک میں ایسے حکومتی عہدیدار اور سیاستدان اسطرح کے اسکینڈل منظر عام پہ آنے سے اپنے عہدوں سے استعفی دے کر گھر بیٹھ جاتے ہیں ۔ اپنے مقدموں کا سامنا کرتے ہیں ۔ اور بہت سے بدنامی کے ڈر اور لوگوں کی نظروں کی تاب نہ لا کر خود کشی کر لیتے ہیں ہیں ۔ جبکہ پاکستان میں ؟۔۔۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ کلچر عام ہے اور اسے ستائشی نظروں سے دیکھا جاتا ہے ۔ کہ جو جتنا بڑا چور ہوگا اسکے حفظ و مراتب بھی اسی حساب سے زیاد ہ ہونگے ۔ وی وی آئی پی تصور کیا جاتا ہے ۔ ایسے لوگ کسی وجہ سے اپنا عہدے سے سبک دوش ہوجائیں تو بھی انہیں ہر جگہ ۔ہر ادارے میں خصوصی اہمیت دی جاتی ہے ۔ایسے ماحول اور معاشرے میں تو ہر دوسرا فرد کسی نہ کسی طرح روپیہ کما کر جلد از جلد اہمیت پانا چاہے گا۔ خواہ اس کمائی کے حلال اور حرام ہونے پہ سو ال اٹھیں۔جبکہ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ جن کی وجہ سے ملک کی آج یہ حالت ہے کہ غریب اور مجبور لوگوں کی محض روز مرہ مسائل کی وجہ سے خودکشیوں میں شرح میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے ۔ انہیں ۔ ایسے لوگوں کو حقیر جانا جاتا ۔انکی حوصلہ شکنی کی جاتی ۔ اور نیک ۔ دیانتدار اور ٹیکس گزار وں کو قابل احترام سمجھا جاتا ۔ انکی حوصلہ افازئی کی جاتی تانکہ محنت سے آگے بڑھنے کا کلچر فروغ پاتا۔ عام آدمی بجائے شارٹ کٹ ڈہونڈنے کے محنت پہ یقین رکھتا۔مگر نہیں صاحب ۔ قومی چوروں کو حرام کے ۔ لُوٹ کھسوٹ اور قومی خزانے کو نقصان دے کر بنائی گئ جائیدادوں اور پیسے کی وجہ سے ہر جگہ سر آنکھوں پہ بٹھایا جاتا ہے ۔ اور جو لوگ بالواسطہ یا بلا واسطہ ٹیکس ادا کرتے ہیں انہیں انتہائی حقارت سے دھتکار دیا جاتا ہے ۔ تو سوال یہ بنتا ہے کہ پھر آپ کس طرح اپنے ٹیکس گزاروں کے نیٹ ورک میں اضافہ کرنا چاہئیں گے ۔ اور ٹیکس نہ دینے والوں کا رونا رونے کے ساتھ اپنی کمزوریوں اور خامیوں سے بھرپور کلچر کو بھی تبدیل کی جئیے ۔
وہ قومیں جو ہماری طرح شدید غربت سے دوچار نہیں وہ بھی اپنی قومی آمدنی بڑھانے کے لئیے کئی ایک حربے آزماتی اور نت نئے جتن کرتی ہیں ۔ جبکہ ہمارے ملک کے بادشاہ لوگوں کا باوا آدم ہی نرالا ہے جبکہ پاکستان کے پاس ایک سرمایہ کاری کا ایک مناسب اور اہم ذریعہ پاکستانی امیگرنٹس کی شکل میں بھی موجود ہے جنہیں مناسب ترغیب، اور منصوبہ بندی سے چھوٹے چھوٹے پراجیکٹس کی طرف راغب کرنا چندا مشکل نہ تھا کہ وہ قومی یا کاروباری اسکیموں میں پیسہ لگاتے اور کارپوریشنز کی طرز پہ انکے سرمایے اور منافع کی دیانتدارانہ نگرانی کی جاتی ۔ لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ۔ روٹی ۔ روزی ۔ روزگار کی وجہ سے یا ملازمت اور کاروبار کی وجہ سے پاکستان سے باہر مقیم افراد کو جسطرح بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح پاکستانی ائر پورٹو ں پہ ان سے سلوک کیا جاتا ہے۔ امیگریشن کاؤنٹر سمیت ہر قسم کے محکماتی کاؤنٹر پہ انکے ساتھ افسر مجاز انہیں کسی جیل سے بھاگے ہوئے قیدی کی طرح سوال جواب اور سلوک کرتا ہے۔ کہ دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ کہاں تو دیگر ممالک کے ائر پورٹس کاونٹر ز پہ مثالی انسانی سلوک کہ غیر قانونی دستاویزات پہ سفر کرنے والے مجبور پاکستانیوں کا جُرم پخرے جانے پہ بھی ان کی عزت نفس کا خیال رکھا جاتا ہے جبکہ اپنے ملک پاکستان سے آتے یا جاتے ہوئے ائر پورٹوں پہ اتنا انتہائی ذلت آمیز رویہ۔ کہ دماغ بھنا اٹھے۔ اور پاکستان کے اداروں کا یہ سلوک ان لوگوں سے۔ جو کئی دہائیوں سے مسلسل اپنے خُون پسینے کی کمائی سے۔ ریاستِ پاکستان کی زر مبادلہ کی کمائی کا بہت بڑا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ۔پاکستان میں مقیم کروڑوں افراد کی کفالت کا ذمہ اٹھا رکھا ہے ۔ تو آپ کیسے ان سے یہ توقع اور امید رکھیں گے کہ پاکستان میں ہر قسم کی عدم سہولتوں اور امن عامہ کی عدم موجودگی کے باوجود اور اسقدر انتہائی اہانت آمیز سلوک کے باوجود وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے؟ یہ ایک ننھی سی مثال ہے ۔ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاروں کو ترغیب دیتے ہوئے بعض اوقات ہم قومی مفادات کو بھی پس پیش ڈال دیتے ہیں۔ جبکہ اپنے پاس موجود وسائل کو ملکی رو میں شامل کرنے کی بجائے اسے ملکی نظام سے بدظن کرنے کے لئیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں ۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے عد توجہ اور لاپرواہی پاکستان میں گھسٹتے نظام کی ایک ادنی سی مثال ہے کہ کس طرح ہم اپنے دستیاب وسائل کو کس بے درردی سے ضائع کر دیتے ہیں ۔ اور بعد میں وسائل کی عدم دستیابی کا رونا روتے ہیں۔ اس ضمن میں بہت سے دیگر طبقوں کی مثالیں دی جاسکتیں ہے۔
ایک عام سا فطری اور مالیاتی اصول ہے کہ جس چیز کی ضرورت جتنی اشد ہو گی اسکے حصول کی لئیے کوشش بھی اسی طرح زیادہ کی جائے گی ۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ وسائل کا حصول اور انہیں مناسب طریقے سے استعمال میں لانا ہے۔جبکہ پاکستان میں کتنے صدق دل سے اس اصول کے خلاف کوشش کی جاتی ہے ۔ پاکستان کے کسی بھی ائر پورٹ یا پورٹ کو استعمال کر کے دیکھ لیں ۔ پاکستان میں درآمد کی جانے والی قابل کسٹم ڈیوٹی اشیاء ۔ خواہ وہ ذاتی ہوں یا کاروباری ۔ یا تحائف ۔ پاکستانی کسٹم کا مستعد عملہ بڑی جانفشانی سے آپکے سامان کی تلاشی لے گا ۔ اور نتیجے میں اس سے برآمد ہونے والی اشیاء کے بارے نہائت تندہی اور خونخوار لہجے میں اس پہ کسٹم ڈیوٹی کی رقم بتائے گا ۔اور ایک سانس فر فر سبھی قانون قائدے بیان کردے گا۔اور محصول کی رقم اسقدر بڑھا چڑھا کر بتائے گا کہ پاکستان پہنچنے والے پریشان حال اور تھکن کے مارے۔ لاعلم۔ مسافر کا منہ کھلے کا کھلا رہ جائے گا۔پریشانی بھانپتے ہی ایک آدھ اہلکار نہائت ہمدردی سے سر گوشی کے انداز میں استفسار کرے گا صاحب سے ککہ کر کچھ کم کروا دوں؟ اور دیکھتے۔ دیکھتے سر عام بولی لگے گی ۔ مُک مکا ہوگا۔ اور وہ رقم جسے قومی خزانے میں جانا چاہےتھا ۔ جس خزانے سے کار سرکار پہیہ چلتا ہے ۔ وہ رقم ۔ قومی خزانے سے تنخواہ اور مراعات پانے والے ہر قسم کے حفظ و مراتب وصولنے والوں کی جیب میں چلی جائے گی ۔ گویا حکومت نے قومی خزانے سے تنخواہ اور وردی دے کر لٹیروں کو قومی وسائل کو خرد برد کرنے کے لئیے بھرتی کر رکھا ہے ۔کچھ یہی عالم پولیس اور پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پاکستان کے سبھی چھوٹے ،بڑے ۔ اہم اور غیر اہم سرکاری اداروں کا ہے ۔ محکمہ کسٹم تو محض پاکستان میں کرپشن کے گلشیئر کا نکتہ آغاز ہے ۔کبھی سوچئیے کہ اگر صرف محکمہ پولیس کا ٹریفک ڈپارٹمنٹ جرمانوں کی وہ رقم جو قومی خزانے میں جمع ہونے کی بجائے پولیس اہلکاروں کی جیب میں چلی جاتی ہے ۔ یہ رقم اگر قومی خزانے میں جمع ہو تو پولیس کی ماہ بھر کی تنخواہ ان سے آسانی سے دی جاسکتی ہے۔ اور نتیجتا قانون کی حکمرانی کا شعور اور رواج بھی ملک میں پھیلے گا ۔ اگر کوئی یہ کہے پاکستان کے اداروں یا کسٹم کے ادارے میں اور ائر پورٹس وغیرہ پہ مکا مکا کی بولی سر عام اور سب کے سامنے نہیں ہوتی تو ایسی حکومت اور ذمہ داروں کو اپنی بے خبری پہ ماتم کرنا چاہئیے ا لاہور ۔ اسلام آباد ۔ کراچی ہر ائر پورٹ پہ بڑے دھڑلے سے اور سر عام ہوتا ہے تو حکومت اور بدقماشی ۔ رشوت اور کرپشن روکنے والے حکومتی اداروں کو اسکی خبر نہیں ؟ ایسے بدقماش اہلکاروں کو سزا دینا۔ دلوانا اور نوکریوں سے فارغ کرنا حکومت کے دیگر فرائض میں سے ایک فرض ہوتا ہے ۔۔ پاکستان میں زکواۃ کے دنوں پاکستانی اپنی رقم بنکوں سے محض اسلئیے نکال لیتے ہیں کہ انہیں حکومت کی زکواۃ کٹوتی پہ بھی شکوک ہیں اور وہ اپنی زکواۃ خود اپنی تسلی سے دیتے ہیں ۔ حکومتی زکواۃ کمیٹیوں پہ یقین نہیں کرتے ۔ حاصل بحث اگرحکومت خود سے کچھ کرنے سے قاصر ہو اورقومی خزانے کو تیل دینے والے عام معلوم اداروں اور عہدیداروں کو کرپشن سے باز نہ رکھ سکے تو ایسے ماحول میں آپ کا ٹیکس گذار کس خوشی میں آپ کو ٹیکس دینے کو تیار ہوگا؟
پاکستان کے اقتصادی و معاشی اور معاشرتی حالات ۔ اندھے بجٹ کے ذریعئے نہیں سدھریں گے۔ اعدادہ شمار کا یہ گورکھ دھندا اگر اتنا ہی مفید ہوتا تو ہر سال غربت میں کمی ہوتی اور ملک و قوم ترقی کرتے جب کہ حقائق اس کے بر عکس ہیں۔ ملک میں غربت اور مہنگائی کا عفریت کب کا منہ کھولے عوام کی امیدو اور خواہشوں کو ہڑپ کرچکا ہے اور کئی سالوں سے پاکستان کے غریب عوام مفلسی اور مفلوک الحالی میں محض زندہ رہنے کا جتن کرتے ہیں۔عام پاکستانی شہری کو پاکستان کے سال در سال پیش کئیے جانے والے بجٹوں سے کوئی امید اور توقع نہیں رہی۔ اور پاکستان میں ایک عام خیال جر پکڑ چکا ہے کہ ہر سال بجٹ کے ساتھ اور فورا بعد میں مہنگائی کی ایک تازہ لہر آئے گی جو شدت میں پچلی مہنگائی سے زیادہ ہوگی ۔ اور پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت کو مدنظر رکھتے ہوئے عام آدمی کے یوں سوچنا سمجھ میں آتا ہے۔
اگر ملک کی حالت اور قوم کی تقدیر بدلنا ہے تو ۔ بڑے منصوبوں کی افادیت اپنی جگہ مگر ایک حقیقی تبدیلی اورقومی اقتصادی ترقی کے لئیے ۔ اسکے ساتھ ساتھ گلی محلے سے لیکر گاؤں۔ گوٹھ۔ بستیوں اور شہروں کے لیول کی چھوٹی چھوٹی منصوبہ بندیاں کرنی پڑیگی ۔ ان منصوبوں کے لئیے وسائل ۔ سرمایہ ۔ اور دیانت دارانہ نگرانی ، اہداف کی تکمیل تک حکومت کو سرپرستی کرنا ہو گی ۔ گلی محلے سے لیکر ملکی اور قومی سطح پہ کی جانے والی منصوبہ بندی لوگوں کی مقامی ضروریات کے مطابق ۔ پاکستانی ۔ محنت کش ۔ اور ہنر مندوں کی صلاحیتوں پہ اعتماد کرتے ہوئے ۔ انکی تربیت اور رہنمائی کرتے ہوئے کی جائے ۔ انہیں چھوٹے چھوٹے پیداواری اہداف دئیے جائیں۔ حکومتی ادارے اپنی تحقیق سے ایسے اہداف کی نشاندہی کریں ۔ اس ضمن میں پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے تحقیقی شعبوں کو بھی شامل کیا جائے۔ اور مطلوبہ پیداوار کی عام منڈیوں میں کھپت ۔حکومت کے فعال اور دیانتدار ادارے کریں ۔ پاکستان با صلاحیت افرادی قوت سے مالامال ہے ، اسکی عمدہ مثالیں فیصل آباد میں ٹیکسٹائل انڈسٹریز ۔ گوجرنوالہ میں پنکھے ۔ اور واشنگ مشینیں ۔ اسٹیل کے برتن ۔ گجرات میں پنکھے ۔ فرنیچر ۔ برتن ۔ سیالکوٹ میں کھیلوں کا سامان ۔ لیدر جیکٹس ۔ جراہی کا سامان اور پاکستان میں کئی اور شہروں میں مختلف قسم کا سامان تیار کرنے والوں سے جڑے ہزاروں خاندانوں کا روزگار اور نتیجے میں وہ پیداوار ہے۔ جس سے پاکستان کثیر زرمبادلہ بھی کما رہا ہے اور ان شہروں کی عام آبادی مناسب روزگار ہونے کی وجہ سے عام علاقوں کی نسبت خوشحال بھی ہے ۔ ان شہروں میں بہت سی مصنوعات کے چھوٹے چھوٹے جُز پرزے گھروں میں تیار کئیے جاتے ہیں۔ اگر اس جوہر قابل کی مناسب تربیت کر کے اسے قومی پیدوار میں شامل کیا جائے تو قوم کو بہتر نتائج ملیں گے ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت سی قوموں نے ننھی سطح سے سے مائیکرو منصوبہ بندی کرتے ہوئے نہ صرف پیدواری عمل بڑہایا ہے اور آج صف اول کی قوموں صف میں کھڑی ہیں ۔ بلکہ انہوں نے اسطرح اپنے شہریوں کو روزگار مہیاء کرنے کی وجہ سے ان کا معیار زندگی بھی بلند کیا ہے ۔ جبکہ پاکستان صلاحیتوں سے بھرپور اور نوجوان افرادی قوت سے مالا مال ہے ۔
جب تک قومی وسائل کو بے دردی سے لُوٹنے والوں اور بودی اہلیت کے مالک منصوبہ و پالیسی سازوں سے چھٹکارہ نہیں پاتے ۔چور دورازوں کو بند نہیں کرتے ۔ پاکستان کو دستیاب وسائل کی قدر نہیں کرتے ۔ اور بھرپور طریقے سے انہیں استعمال میں نہیں لاتے ۔ بنیادی تبدیلی کے لئیے مناسب اور مائکرو منصوبہ بندی نہیں کرتے ۔ افرادی قوت کی مناسب رہنمائی اور تربیت نہیں کرتے تب تک معاشریہ ان چھوٹی بنیادوں۔ اور اکائیوں سے اوپر نہیں اٹھے گا اور تب تک ایک باعزت قوم بننے اور اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کا خوآب ادہورا رہے گا ۔ ہم خواہ کس قدر قابل عمل بجٹ بناتے رہیں نتائج وہی ڈھاک کے تین پات ہی رہیں گے اور قومی ترقی کا خوآب محض خوآب ہی رہے گا۔ سال گزرتے دیر نہیں لگتی ۔ جون 2015 ء میں ایک بار پھر وہی تقریر اور لفظوں کا ہیر پھر محض ایک خانہ پری ہوگی۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

شیخ السلام ؟ طاہر القا دری ۔لانگ مارچ ۔بلوچستان اور پس پردہ عزائم ۔


شیخ السلام ؟ طاہر القا دری ۔لانگ مارچ ۔بلوچستان اور پس پردہ عزائم ۔

کیا شیخ کوا س لئے میدان میں اتارا گیا ہے کہ ایک اور المیہ وجود میں آئے اور خدا نخواستہ مشرقی پاکستان کی طرح بلوچستان کا ٹنٹنا ختم کرتے ہوئے ریاست پاکستان کو دیوار کے ساتھ لگا دیا جائے؟۔

ایک عام رائے یہ ہے کہ شیخ کے پیچھے افواج پاکستان کا ہاتھ ہے۔ اور کچھ نہ کچھ ایسا ہے۔ جو شیخ پاکستان کا موجودہ جمہوری نظام ملیا میٹ کرنے کا مطالبہ الیکشن کمیشن کو منسوخ کرنے کا ایک نکتہ فائر کرنے کے بعد باقی چھ نکتے اسلام آباد میں ظاہر کرنے کی دھمکی لگا کر عازمِ اسلام آباد ہوئے ہیں۔ افواج پاکستان سے غیر ضروری طور پہ ہمدردی کئیے بغیر ۔ ہماری رائے میں افواج پاکستان اس وقت ایک سخت اور کٹھن دور سے گزر رہی ہیں۔ جس کے چاروں اطراف قسما قسمی کے مختلف رنگ روپ کے بھیڑیے اور لکڑ بھگے غرا رہے ہیں ۔ اور مشرقی سرحدوں پہ ازلی دشمن نے بھی اپنی ازلی کمینگی کا ایک بار پھر ثبوت دیتے ہوئے ۔ بغیر کسی وجہ کے مدتوں بعد ۔کنٹرول لائن جنگ بندی۔ نامی معائدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے۔ نہ صرف یکے بعد دیگرے پاکستان آرمی کے دو جوان شہید کر دئیے ہیں۔ بلکہ ہنوز سرحد پار سے گیدڑ بھھبکیاں اور دہمکیاں لگا رہا ہے۔اس لئیے خیال یہ ہے کہ افواج پاکستان ان حالات پہ کبھی بھی نہیں چاہیں گی۔ کہ پاکستان کے اندر حکومتی کاروبار کی بلا بھی ان کے سر آپڑے ۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قوت و وسائل کے وہ کونسے خفیہ و اعلانیہ سر چشمے ہیں جن کی بناء پہ شیخ ۔اسلام آباد پہ غیر آئینی و غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پہ چڑھ دوڑے ہیں؟۔

شیخ کو کس نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اچانک پاکستان وارد ہوں اور غیر آئنی طور پہ وہ پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کرنے نکل کھڑے ہوں۔ وہ بھی اس صورت پہ جب انتخابات کا ڈول ڈالے جانے والا ہے۔ پاکستان کی انتخاباتی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک سول حکومت دوسری سول حکومت کو اختیار و اقتدار منتقل کرے گی؟۔ وہ کونسا ایساقانون ہے جو شیخ کو اپنے ذاتی نظریات کے زور پہ پاکستان میں انتشار پھیلانے اور عوام کو بے سُود ہیجان میں مبتلاء کرنے کی اجازت دیتا ہے؟۔

شیخ۔ کامل اتنے سالوں سے کنیڈا کی شہریت سمیت ۔کنیڈا میں اپنی ذاتی تنظیم منہاج القرآن کی تنظیم و تدوین و ترغیب میں مصروف رہے۔ ذاتی اس لئیے کہ شیخ موصوف اسکے بانی اور صاحبزادہ گان اور بہوئیں اور زوجہ محترمہ اسکے ڈائریکٹر ز ہیں ۔ اور ایک ہاتھ کی انگلیوں پہ گنے جانے والے۔ شیخ کے منظور نظر چند باہر کے افراد شیخ کے نامزدہ ہیں۔اور جمہوریت نام کی شئے کی انکی تنظیم میں کوئی جگہ نہیں۔ ان سالوں میں جب شیخ اور شیخ کے ماننے والے ہر اسلامی اور غیر اسلامی طریقوں سے اور مغرب کے لئیے دلآویز ناموں اور طور طریقوں سے اپنی نامی تنظیم کو پاپولر بنانے کی کوشش کر رہے تھے ۔تو اسوقت شیخ کو پاکستان کی محبت کیوں نہ جاگی؟ جبکہ ایک وقت تھا کہ شیخ پاکستان کی قومی اسمبلی کے رُکن تھے اور شیخ چاہتے تو پاکستان میں رہ کر جمہوری طور طریقوں سے پاکستان کی خدمت ۔لانگ مارچ۔ نامی ہیجان اور انتشار برپا کئیے بغیر زیادہ بہتر طریقے سے کر سکتے تھے ۔ یوں اچانک پاکستان وارد ہونا اور عین اسوقت پہ جب جمہوری طریقے سے قوم کو اپنی تاریخ میں پہلی بار نئے نمائندوں کو نااہل اور سابقہ نمائندوں سے بدل ڈالنے کا موقع ملنے والا ہے۔تو شیخ کے پاس کونسا اختیار اور اخلاقی جواز بنتاہے جس کی بناء پہ وہ چھ خفیہ نکات لیکر پورے ملک کے جمہوری نظام کو لپیٹنے کا مطالبہ کر رہے ہیں؟۔

شیخ نے اپنے لانگ مارچ کو کئی ایک شاعرانہ اور دل خوش کُن نام دینے کے بعد ”جمہوریت بچاؤ“نامی نام دیا ہے۔ جبکہ شیخ کی اپنی ذاتی تنظیم میں جمہوریت نامی کوئی شئے نہیں۔ اور شیخ کے نزدیک مختلف ممالک میں وہی لوگ شیخ کے لئیے کارآمد ہیں۔ جو انکی تنظیم کے لئیے مفید ثابت ہوں اور غیر مشروط طور پہ انھیں ہر طور اسلامی اور غیر اسلامی طور پہ شیخ تسلیم کریں۔ غیر اسلامی کی کوئی حد نہیں ۔ شیخ کے منظور نظر اور یوروپ کے ممالک میں تحریک منہاج القرآن کے کرتا دھرتا یہ لوگ تنظیم منہاج القرآن کے لئیے یوروپی ممالک میں یوروپی بنکوں سے سود پہ قرضہ لے کر۔ اپنی تنظیم کے نام سے مساجد اور مرکز قائم کرنے میں ذرا بھر ندامت محسوس نہیں کرتے ۔نماز جمعہ اور عیدین کے اجتماعات میں سادہ لوح پاکستانی اور مختلف ممالک کے سادہ لوح مسلمانوں کو حقیقت بتلائے بغیر صفوں کے سامنے سے تھیلے بھر بھر کر رقومات مسجد کے لئیے اکٹھی کرتے ہیں اور اس سے بنکوں کے سودی قرضے بھی چکائے جاتے ہیں۔ اور سود پہ مساجد بنانے کے بارے سوال پوچھے جانے پہ برملا اپنے انٹرویوز اور نماز جمعہ اور نماز عیدین پہ مساجد بنانے کے لئیے سود پہ قرضہ لینا جائز بیان کرتے ہیں ۔انکی تنظیم شاید وہ واحد تنظیم ہے جو نائن الیون کے ٹوئن ٹاورز کے المیے کے بعد مغربی ممالک میں زیر عتاب نہیں ہوئی بلکہ کئی طور پہ مراعات اور یوروپی سیاستدانوں کی توجہ پاتی رہی ہے ۔یہاں تک بعض یوروپی ممالک میں انہوں نے منہاج القرآن نامی تنظیم کو ”پیس وے “ یعنی ”امن کا راستہ“ نامی نام سے متعارف کروایا ہے تانکہ نائن الیون کو ٹوئن ٹاورز کے المیے کے بعد یہ تاثر عام ہو کہ منہاج القرآن نامی تنظیم ہی وہ تنظیم ہے جو مغرب کے لئیے فائدہ مند ہونے کی وجہ سے منظور نظر ہوسکتی ہے۔

شیخ کا ماضی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ ہم اس پہ روشنی ڈالیں۔ مقصد شیخ کے پس پردہ مقاصد سے پردہ اٹھانے کی اپنی سی کوشش کرنا ہے۔ شیخ کے خوابوں ۔ شہدا کو جگانے ۔ اور قوالی کی اس محفل جس کے بول ” بت خانہ ہو یا کعبہ۔ طاہر سجدے تجھے ہم کئیے جائینگے“ جیسی محفلوں میں سجدہ کروانے ۔ پاؤں چومے جانے پہ کسی طور بغیر نادم ہوئے یا منع کئیے بغیر ۔ نفس کی تسکین کے ہلکورے لیتے مناظر کے ویڈیوز ۔ پاکستان میں توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نامی قانون کے بنائے جانے کا اور اس قانون کے تحت مسلم اور غیر مسلم و کافر کو کتے کی طرح مار دئیے جانے کا کریڈیٹ لینا اورڈنمارک کے ایک ٹی وی چینل کے انٹرویو کے میں کیمرہ کے سامنے۔ اس قانون کے بننے بنائے جانے کے عمل سے مکمل طور پہ برائت کا اعلان اور اس قانون کے ناقص عمل کا بیان اور شیخ موصوف کےاسطرح کے دیگر ویڈیوز۔ یو ٹیوب۔ فیس بُک اور دیگر میڈیا کی سائٹس پہ تھوڑی سی جستجو کے بعد سینکڑوں کے حساب سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ جن سے صرف ایک ہی بات کا پتہ ملتا ہے کہ شیخ کو اپنے نفس کی تسکین سے والہانہ دلچسپی ہے ۔ جن میں شیخ کی خود پسندی ہر طور۔ہر انداز میں جھلکتی نظر آتی ہے۔
آخر ایسے آدمی کو ایسی کیا سوجھی کہ وہ پاکستان کے خاردار سیاست میں کود پڑا ؟۔ خیال ہے کہ شیخ جن دنوں کنیڈا میں تزکیہ نفس کا عندیہ دے رہے تھے۔ عین انھی دنوں میں کچھ ایسی طاقتیں جو روز اول سے پاکستان کے وجود کے در پے ہیں۔ شیخ کو اپنے مفادات کے لئیے بھرتی کر چکی تھیں ۔اور شیخ کو پاکستانی جذباتی عوام کے سامنے مسحیا کے طور پیش کرنے کا فیصلہ کر چکی تھیں ۔ بعین اسی طرح جس طرح انہوں نے الطاف حسین اور عمران خان کو یکے بعد دیگر میدان میں اتارا اور بوجہ انتہائی ناکامی کے شیخ طاہر القادی کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ انکی اسلامی چھاپ کی مضبوط تنظیم اور ان سےعقیدتمندوں کا والہانہ اسلامی شوق دیکھ کر کیا۔ اور شیخ ایک عام مولوی اور لیکچرار سے اتنی تیزی سے ترقی کرنے کے بعد اپنے روایتی خود پسند نفس کے ہاتھوں اپنے آپ کو ریاست پاکستان کے سربراہ بننے کے خوآب آنکھوں میں سجائے اس لانگ مارچ کا ڈول ڈالنے پہ تیار ہو گئے ۔قطع نظر اس کے کہ انکے اس لانگ مارچ سے پاکستان کی سالمیت کو کس قدر نقصان پہنچ سکتا ہے۔

عالمی سامراج یہ تجربہ اس سے قبل مشرقی پاکستان کو توڑنے کے لئیے کر چکا ہے ۔

ایک رائے ہے کہ امریکہ افغانستان کی بے مقصد جنگ سے نکلنے پہ مجبور ہونے کی وجہ سے ۔ افغانستان سے نکلنے سے قبل اور نکلنے کے عمل کے دوران ۔اپنے پرانے مربی بھارت کو آزاد بلوچستان کی صورت میں یاکم از کم بلوچستان میں بھرپور شورش کی صورت میں۔ بھارت کو اسکی چاپلوسیوں کا انعام دینا چاہتا ہے ۔ اور امریکہ میں کچھ لوگ یہ تصور کئیے اور خار کھائےبیٹھے ہیں۔ کہ جب تک ایک مضبوط اور جمہوری پاکستان کا وجود باقی ہے۔ تب تک افغانستان اور خطے میں امریکی مفادات کی کھلم کھلا تکمیل ہونا ناممکن ہے ۔ امریکہ اسی صورت میں افغانستان پہ اپنا تسلط قائم رکھ سکتا ہے اگر مفادات کے ”کچھ لو اور کچھ دو “ کے معروف لین دین کے عالمی پیمانے میں پاکستان کو کسی طور کہیں سے مجبور کیا جاسکے۔ تانکہ پاکستان افغانستان میں سے اپنی دلچسپی ختم کر کے۔ اپنی بقاء کی بھیک عالمی گماشتوں سے مانگنے پہ مجبور ہو جائے ۔ عالمی گماشتوں کی نظر میں پاکستان کے بڑے شہروں میں امن و امان کی صورتحال ۔ گیس ۔ پانی ۔ بجلی ۔ کے خطرناک بحران اور ٹیلی فون سمیت دیگر مواصلاتی نظام کی تباہی کے علاوہ ۔بلوچستان میں شورش کا بڑھانا شامل ہے ۔ شورش !جس میں بھارتی تربیت اور وسائل استعمال کیئے جارہے ہیں۔ جوں جوں افغانستان سے امریکی افواج منظر عام سے گُم ہونگی ۔افغانستان میں طالبان کے اثرو رسوخ میں اضافہ ہوگا۔ افغانستان میں بھارتی مفادات پہ کاری ضرب پڑے گی ۔اسلئیے عالمی طاقت اور بھارت کی نظر میں۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں تاریخی تبدیلی اقتدار ممکن ہونے جارہا ہے ۔ پاکستان کو فوری طور پہ غیر مستحکم کرنے کے اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانا بہت ضروری ہو گیا ہے ۔ تانکہ پاکستان میں نمائیندہ اور عوامی و جمہوری حکومت کی عدم موجودگی کی وجہ سے روز بروز پاکستان کے وجود کو لاحق ہونے والے خطرات سے بچاؤ کے فیصلے کرنا۔ ایک غیر جمہوری حکومت کے لئیے ناممکن ہوگا ۔ کیونکہ ایک غیر جمہوری حکومت کا اول آخر مقصد۔ محض اپنے وجود کا جواز پیدا کرنا اور اسے بچانا ہوتا ہے۔ ایسے میں قومی مفادات پس منظر میں چلےجاتے ہیں اور انکی حیثیت ثانوی سی ہو کر رہ جاتی ہے۔ غیر جمہوری حکومت کا بازو مروڑ کر اپنی مرضی کے فیصلے لینا۔ عالمی استعمار کے لئیے بہت آسان ہوگا ۔ یہ تجربہ عالمی طاقت پاکستان میں بار ہا دہرا چکی ہے ہے اور اسمیں ہمیشہ کامیاب رہی ہے۔

ہم تسلیم کرتے ہیں کہ جمہوریت دنیا کا بہترین نظام حکومت نہیں۔ مگر آمرانہ طرز حکومت کے مقابلے پہ ایک بہتر نظام ہے۔ جس طرح تیل کو بار بار چھاننی سے چھانے جانے کے بعد ہر بار آلائشوں سے پاک اور صاف تیل سامنے آتا ہے ۔ اسی طرح کسی ملک میں جمہوری نظام کے چلتے رہنے سے نئے ۔ اچھے لوگ ۔ اور دیانتدار قیادت سامنے آنے کے امکانات دیگر فی زمانہ رائج الوقت نظاموں سے کہیں ذیادہ ہیں ۔ اور جتنی دفعہ اتنخابات ہونگے عوام میں شعور بڑھتا جائیگا ۔ اور ایک دن وہ خود ہی اپنے لئیے ایک بہترین نظام چننے میں کامیاب ہوجانئگے۔یہ وہ وجہ ہے کہ اس جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے لئیے ۔ عالمی گماشتوں نے طاہر القادری کو میدان میں اتارا ہے ۔ اور اس مقصد کے لئیے پہلے سے پاکستان کے اندر ان طاقتوں کے مفادات کی تکمیل کے لئیے ان عالمی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے لوگوں کو پہلے سے ہی اشارہ کر دیا گیا ہے ۔ جو طاہر القادری کا لانگ مارچ کامیاب ہونے کی صورت میں اپنی کوششوں کا آغاز کرنا ہے ۔اور عین ممکن ہے کہ امن و عامہ کی صورتحال ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر حکومت کی نالائقی پہ فوج کو میدان میں اترنا پڑے اور جمہوریت کی بساط ایک دفعہ پھر لپیٹ دی جائے۔ جو بلوچستان میں شورش کو علیحدگی کی حد تک بڑھا دینے کا نکتہ آغاز ہو گا۔ اگر حکومت پاکستان اپنی نالائقی سے کوئٹہ میں اس حد تک مجبور ہوجاتی ہے کہ وزیر اعلٰی کو فارغ کر دیا جاتا ہے ۔تو یہ شیخ کے دھرنے کے کے لئیے مہمیز ثابت ہوگا۔ بلوچستان میں انتہائی سنگدلی سے اٹھاسی افراد کی ہلاکت ۔ حکومت کی نالائقی ۔ دھرنا۔ اور بلوچستان حکومت کی برطرفی کا مطالبہ اور شہر فوج کے حوالے کرنے کا اصرار۔ پاکستان کی مشرقی سرحدوں پہ چھیڑ چھاڑ ۔ مغربی سرحدوں پہ فوج پہ بم حملوں میں اضافہ ۔ ایسے میں شیخ کے لانگ مارچ کی ٹائمنگ حیران کُن ہے۔ 

عوام اب اس حد تک باشعور ہو چکے ہیں کہ اب کسی ابن الوقت کے ہاتھوں میں کھیلنے کو تیار نہیں ۔ اور انہیں اس بات کا بخوبی احساس ہو چکا ہے کہ تبدیلی یا انقلاب وہی دیرپا ہوتا ہے جو پُر امن ہو اور اس دفعہ عوام کو کامل پانچ سال بعد تاریخ میں پہلی بار تبدیلی قیادت کا موقع مل رہا ۔ ہماری نظر میں لانگ مارچ کے کامیاب ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ایک مرد قلندر نے کہا تھا۔ عالمی استعمار کا یجینڈا اپنی جگہ لیکن مشیت ایزدی کی منصوبہ بندی بہر حال اس پہ فوقیت رکھتی ہے ۔اور شاید اس دفعہ مشیت ایزدی پاکستان کے ساتھ ہے۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

اگر اس نوٹس

بھوک۔ تسلسل اور بجٹ ڈرامہ۔

آج ایک اخبار نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا واقعہ بیان کیا ہے کہ کسطرح عمرِ فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بیت المال سے دوائی کے طور شہد کی چند چمچ پرابر تھوڑی سی مقدار کے حصول کیلئے مسجد میں درخواست کی تھی۔ اگر اس واقعے کو مثال بنا کر پیش کیا جائے اور غالب گمان یہ ہے کہ گیلانی و زرداری سے استفسار کیا جائے تو انکےکسی بانکے چھبیلے وزیر کی طرف سے ڈھٹائی سے یہ بیان آئے گا کہ گیلانی اور موجودہ صدر بھی اپنے شاہانہ اخراجات کے لئیے کابینہ اور اسمبلی سے اجازت لیتے ہیں۔ وہ خود سے تو کروڑوں کے شاہی اخراجات نہیں کرتے ۔ جیسےموجودہ بجٹ میں پاکستان کے سابق صدور اور وزرائے اعظم کو تاحیات مراعات دینے کی رعایت شامل ہے جس سے نہ صرف زرداری ،گیلانی ،نواز شریف ، رفیق تارڑ ا بلکہ آئی ایم ایف کا چھیل چھبیلا اورتین ارب کا مالک امپورٹیڈ وزیر اعظم شوکت عزیز اور بردہ فروش سابق صدر مشرف کے لئیے بھی عمر بھر مراعات شامل ہیں۔اور یہ سلسہ ہائے داراز صرف یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ یہ بہت سی جائز اورنا جائز صورتوں میں ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔.

ایسی نااہل حکومتوں کے ہاتھوں پاکستان کا کوئی ایک المیہ ہو جو بیان کیا جا سکے۔ یہاں تو ہر لمحے ہر آن ایک المیہ ہوتا ہے ۔جس سے پاکستان دوچار ہے۔ مالِ مفت دلِ بے رحم کے مصداق اوباش اور نااہل لوگوں میں ریاست کے اہم اور حساس عہدوں کی بندر بانٹ کی جاتی ہے ۔ جس سےایسے عہدیدار ملک قوم کے ساتھ اپنی وفاداری نبھانے کی بجائے سیاسی پارٹیوں اور اپنے آقا و مربی سے وفاداری نباہتے ہیں۔ اور بجائے اس کے اپنے عہدے سے ملک و قوم کو فائدہ پہنچانے کے الٹا ساری عمر اپنی نااہلی اور چور دروازے سے عہدہ حاصل کرنے کی چوری کی وجہ سے حکومتوں کی خوشامد میں مصروف رہتے ہیں ۔اور اس پہ طرف تماشہ راشی اور بد عنوان حکومت کے گٹھ جوڑ سے پاکستان کے تن سے خون کا آخری قطرہ تک کشید کرنے کے جتن کئیے جاتے ہیں ۔جس طرح پاکستان کے وزیر اعظم گیلانی نے سپریم کورٹ کے واضح حکم کے باوجود ملک قوم کے مفاد میں سپریم کورٹ کے حکم کی تکمیل بجا لانے کی بجائے ۔وزیر اعظم نامزد کرنے والے زرداری کے ساتھ اپنی وفاداری نباہ کر پاکستان کی تاریخ میں عدلیہ کے حکم کی واضح نافرمانی کرتے ہوئے ڈھٹائی اور سینہ زوری کی ایک غلط روایت قائم کی ہے۔ اور اب یہ عالم ہے کہ پورا نظام مفلوج ہوچکا ہے۔

جسطرح مشہور ہے کہ گر بدنام ہوئے تو کیا نام نہ ہوگاَ ۔کے مطابق پیپلز پارٹی نے شروع دن سے ہر وہ قدم اٹھایا کہ کوئی آئے اور انھیں حکومت سے باہر کر دے۔ تانکہ پیپلز پارٹی کو حسب عادت سیاسی شہادت کا ایک اور موقع مل جاتا ۔مگر پیپلز پارٹی کے نصیبوں یوں ہونا سکا اور بجائے اسکے کہ وہ خدا کے دئیے اقتدار کو ایک ذمہ داری سمجھتے ہوئے اسے مکمل طریقے سے نباہنے کی کوشش کرتی ۔الٹا انھوں نے اسے نام نہاد جمہوریت کا نام دے کر سینہ زوری شروع کر دی۔ حالانکہ اگر جتنی توانائی پیپلز پارٹی کے حکمرانوں نے طاقت اور نام نہاد جمہوریت کے نام پہ مستی اور سینہ زوری پہ صرف کی اگر یہ اس سے نصف توانائی عوام کے مسائل حل کرنے پہ خرچ کرتے۔ تو آج ملک و قوم اور خدا کے حضور سرخرو ہوتے۔ لیکن ایسا کرنا پیپلز پارٹی کی سرشت میں شامل ہی نہیں۔ پیپلز پارٹی کی سیاست ہی ایجی ٹیشن سے شروع ہو کر ایجی ٹیشن پہ ختم ہوتی ہے۔ خواہ یہ پانچ سال تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک حکمران ہی کیوں نہ رہے ہوں ۔الیکشن ہونے دیں ۔جیتنے یا ہارنے کے بعد یعنی ہر دونوں صورتوں میں پیپلز پارٹی پاکستان کے اداروں کا رونا رو کر اپنے آپ کو سیاسی مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرے گی۔

دوسری طرف ماضی میں وفاق میں دو دفعہ حکمران رہنے والی اور پنجاب میں اس وقت حکمران ۔اور پاکستان کی دوسری بڑی پارٹی۔ اور اپنے آپ کو مستقبل میں پاکستان کے حکمران سمجھنے والی نون لیگ ۔سے کیا امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں؟۔ جو اخباری اطلاعات کے مطابق مینار ِپاکستان کے نیچے اپنا حکومتی کیمپ لگائے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ یا مبینہ غیر منصفانہ لوڈشیڈنگ کے خلاف اپنا ریکارڈاحتجاج کروارہے ہیں ۔ مانا کہ بجلی پیدا کرنا اور اسے سب صوبوں میں برابر تقسیم کرنا وفاق کے ذمے ہوگا ۔اورایسا کرنے میں پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت ناکام رہی ہے۔ مگر کیا پنجاب پولیس کے ہاتھوں ستائے ہوئے پنجاب کے عوام اور تھانہ کلچر کی من مانیا ں اور پنجاب پولیس میں غنڈہ گرد عناصر کے ہاتھوں مظلوم لوگوں کو نجات دلانا۔ اور ایک منصفانہ تھانہ کلچر قائم کرنا ۔کیا پنجاب حکومت کے فرائض میں نہیں آتا؟۔ آج بھی پنجاب پولیس کے زیر سرپرستی اور پنجاب کے اکثر و بیشتر تھانوں میں بھینس کی چوری سے لیکر قتل جیسے سنگین معاملات پہ باہمی فریقوں سے مُک مکا کے بعد پرچے رپوٹیں اور ایف آئی آر لکھی جاتی ہیں۔ اور عدالتوں سے بالا کمزور فریق کو راضی نامے پہ زبردستی مجبور کیا جاتا ہے۔ جس کے پیچھے طاقتور کا پیسہ اور اثر و رسوخ کام کر رہا ہوتا ہے۔ اور عام شریف آدمی کی یہ حالت ہے کہ وہ بھرے بازار میں لٹ جانا برداشت کر لیتا ہے۔ مگرپولیس کے خوف اور رشوت خوری کی وجہ سے تھانے میں رپورٹ کرانے سے ڈرتا ہے۔ اگر پنجاب حکومت یا دوسرے لفظوں میں ن لیگ اپنی حکومت میں اپنی پولیس کو درست نہیں کرسکی تو اس سے دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں۔ کہ ایسا نہ کرنے میں پنجاب حکومت کی نیت میں اخلاص کی کمی ہےیا پنجاب حکومت میں اہلیت کی کمی ہے ۔کوئی ایک وجہ ضرور ہے کہ پنجاب کے حکمرانوں کے بلند بانگ دعوؤں کے باجود پولیس کا محکمہ بجائے سیدھا ہونے کے مزید بگڑ چکا ہے۔جس سے ہر دو صورتوں نقصان سادہ لوح عوام کو پہنچ رہا ہے۔ پولیس کا محکمہ تو محض ایک مثال ہے۔ ایسی کئی مثالیں گنوائی جاسکتی ہیں۔ جبکہ مینار پاکستان کے سائے میں پنجاب حکومت کے کیمپ لگانےسے ،خدا جانے عوام کے کتنے ضروری کام رہ گئے ہونگے ۔پنجاب کے وزیر اعلٰی کے بس میں سفر کرنے سے نہ جانے کیوں ضیاءالحق کا سائیکل چلانا یاد آگیا ۔ہر باشعور شہری جانتا ہے کہ اسطرح کے پروپگنڈا ہ اور چونکا دینے والے اقدامات سے وی آئی پیز کی سیکورٹی اور تشہیر کے متعلقہ اقدامات پہ کس قدر خرچ آتا ہے ۔ اور جب حکمران اس طرح کے غیر ضروری کاموں میں اپنا قیمتی وقت ضائع کریں۔ تو قوم کے کس قدر ضروری کام حکمرانوں کی توجہ اور وقت نہ ملنے سے ادہورے رہ جاتے ہیں۔ یہ ماننے کو عقل تسلیم نہیں کرتی کہ اس بات کا ادراک پنجاب حکومت کے حکمرانوں کو نہیں ہوگا ۔اگر انہیں اس بات کا ادراک نہیں ہے تو یہ نااہلی ہے ۔اور اگر ادراک ہوتے ہوئے انہوں نے یوں کیا ہے ۔تو عام آدمی کو بے وقوف بناتے ہوئے محض پیپلز پارٹی کی نااہلی کے مقابلے پہ اپنا سیاسی گول کرنے کی تگ دور میں اپنے فرائض سے غفلت برتنے کا ارتکاب ہے۔

پاکستان کی ایک اور سیاسی جماعت عمران خان کی تحریک انصاف ہے ۔ جسے پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی قوت تسلیم کروانے کا پراپگنڈہ صبح شام کیا جاتا ہے۔ وہ کن ہاتھوں میں کھیل رہی ہے اور اسکے باہمی اجزائے ترکیبی کی دم پخت کیسی ہے ۔اس کے بارے ہر واقف حال جانتا ہے۔ عمران خان کے دل میں پاکستان کے لئیے خلوص بدرجہ اُتم موجود ہوگا ۔مگر چونکہ سیاسی جماعت کسی ایک رہنما کانام نہیں ہوتا ۔ اسمیں شامل سبھی چہرے مل کر ایک خاص تصویر بناتے ہیں اور تحریک انصاف میں شامل چہروں سے تحریک انصاف کی جو تصویر بن کر سامنے آتی ہے ۔و ہ سب کے سامنے ہے ۔ اور اقتدار مل جانے کی صورت میں صرف اسکا کوئی ایک رہنماء نہیں بلکہ اسمیں شامل چہرے ملکر ملک و قوم کی نیا کو پار لگانے یکا جتن کرتے ہیں اور جب بکل میں چور بٹھا رکھے ہوں تو قوم کی نیا پار لگنے کی بجائے ڈوب جانے کے خدشات و امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ انقلابی تبدیلی کے لئیے صرف عمران خان کے وعدے اور دعوے ہی کافی نہیں ۔ جبکہ تحریک انصاف کے علمبردار ابھی تک اس انقلابی تبدیلی ۔۔جس کے وہ دعویدار ہیں اس کے لئیے ٹھوس تجاویز ۔ بہتر طریقہ کار اور متبادل نظام واضح کرنے میں ناکام ہیں۔

اسکے بعد پاکستان کی وہ علاقائی ، لسانی اور گروہی پارٹیاں یا پریشر گروپ ہیں۔ جنکے وجود کے ہونے کا مقصد ہی اپنے وزن کو اقتدار نامی ترازو میں ڈال کر ۔بلیک میلنگ اور آنے بہانوں سے اقتدار میں اپنے جثے سے کہیں زیادہ حصہ وصول کرنا ہے۔

مذہبی جماعتیں اپنے ممکنہ اتحاد و نفاق اور پاکستان میں متواتر عالمی دخل در معقولات نے انھیں اس قابل نہیں چھوڑا ۔کہ انکی کسی معقول بات بھی عوام کان رکھنے کو تیار ہوں۔

فوجی حکومتوں نے جس بری طرح پاکستان کا حلیہ بگاڑا ہے۔ وہ سب کے سامنے ہے ۔ فوج سرحدوں کی بہتر نگہبانی صرف اسی صورت میں کر سکتی ہے۔ جب وہ خود اقتدار کی دیگ پہ قابض نہ ہو ۔ پاکستان کی بڑی جنگیں فوجی سربراہوں کے دور میں ہوئیں ۔ مشرقی پاکستان کے سابقہ ہونے۔اور بنگلہ دیش کے قیام کا واقعہ بھی فوجی حکومت میں ہوا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے دہشت گردی کے خلاف موجودہ جنگ میں کہ بغیر کسی تامل اور حیل حجت کے امریکہ کے سامنے پاکستان کو چارے کے طور پہ پھینکنے والا بھی ایک فوجی حکمران مشرف تھا ۔ جس کا نتیجہ ہم آج تک بھگت رہیں ۔اور خدا جانے کب تک پاکستان اس جنگ کے بداثرات سمیٹتا رہے گا۔

یہ مندرجہ بالا فریق ہیں جو پاکستان کے اقتدار اعلٰی میں رہنے۔ یا ریاست پاکستان کے اقتدار اعلٰی حاصل کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ اور ممکنہ طور پہ پاکستان کے مستقبل کے حکمران ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں ان سے کسی تبدیلی اور اسکے نتیجے میں پاکستان کے وفاقی بجٹ میں کسی عمدہ پیش رفت کا ہونا ۔ یا ملک و قوم اور خود پاکستان کے لئیے نتیجہ خیز انقلابی تبدیلی لانا ناممکن ہے ۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ایسے حالات میں پچھلے تریسنٹھ سالوں کی طرح اگلا بجٹ اس سے بھی ظالم اور خود فریب ہوگا ۔جس کی قیمت پاکستان اور پاکستان کے زندہ درگو عوام کو اپنی بھوک اور بے چارگی سے اٹھانی ہوگی۔ خاموشی سے ظلم سہنا اور اپنے پہ ظلم کرنے والے ظالم کا ہاتھ نہ پکڑنے سے بڑھ کر کوئی ظلم نہیں ہوتا ۔جب تک پاکستان کے عوام خود ایسے ظلم کا راستہ روکنے کی جدو جہد نہیں کرتے ۔اسطرح کے اعداو شمار کے گورکھ دھندے بجٹ کے نام پہ آتے رہیں گے۔ جس میں اربوں کے حساب سے غبن اور لوٹ کھسوٹ کرنے والے نااہل حکمرانوں کے لئیے تاحیات مراعات تو ہونگی ۔مگر عوام کے بھوکے بچوں کے کے لئیے دو باعزت روٹیوں کے لئیے محض جھوٹے وعدے اور روٹی کپڑا اور مکان جیسے خوشنما نعرے ہونگے۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین تین جون دو ہزار بارہ ء

بھوک۔ تسلسل اور بجٹ ڈرامہ۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

 
%d bloggers like this: