نُورا ملاح اور جے آئی ٹی ۔
نورا ملاح کشتی ”کھیہ“ رہا تھا ۔اس نے ”ونج“ کو آخری بار دریا کی تہہ میں گاڑا اور کشتی کوپتن سے لگادیا ۔ چھوٹی سی رسی سے کشتی کو دریا کنارے باندھنے کی دیر تھی کہ اس پار بکھرے دس بارہ دیہات کے اِکا دُکا مسافر جو دیر سے کشتی کا اِس پار آنے کا انتظار کررہے تھے اُچک اُچک کر جلدی جلدی کشتی میں چڑھنے لگے ۔نُورے کا گھر بھی دریا کے اِسی پار کے کچھ دُورواقع گاؤں ”وسن والا“ میں تھا،گرمیوں کی دوپہر سر پہ تھی ۔
نورے نے کشتی کا ”پُور“ (پھیرا)بھرتے سوچا یہ پچھے چار سالوں سے اسکے نصیب چمک اٹھے تھے ۔ بارہ اِس پار کے گاؤں اور بارہ چودہ اُس پار کے دیہاتوں کے لوگ بھی جوق در جوق اسکی کشتی سے اپنے ضروری کاموں سے اس یا اس پار آتے جاتے تھے ۔ اور ان سالوں میں گو ”ہاڑ“ (سیلاب) تو سر چڑھ کر آتا رہا مگر ہر بار کی مناسب پیش بندی سے اسکی کشتی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا ۔ ورنہ تو پچھلے سالوں میں دو دو بار اسکے کشتی دریا کے سیلاب میں بہہ کر گُم گُما گئی تھی اور اگلے سالوں میں نُورے اور اور اسکے خاندان کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مگر اب کی بار اللہ نے اس پہ اور اسکے خاندان پہ خاص کرم کیا تھا ۔
نُورا انہی سوچوں میں غرق اور دل ہی دل میں خوش ہوتا ہوا کشتی ”کھیتا“ دریا کے درمیان پہنچ چکا تھا کہ اُس کے گاؤں ”وسن والا“ کے ”مانے“ کو پتہ نہیں کیا سُوجھی کہ اس نے کہا کہ
”نُورے میں ابھی گاؤں سے آیا ہوں اور تمہارے لئیے ایک بری خبر ہے “
نورے کی ساری خوشی کافُور ہوگئی اور وہ مانے کی طرف متوجہ ہوگیا جو بتارہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
”نُورے ۔ تمہاری بیوی اپنے کسی آشناء کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی ہے“
نورے کا رنگ فوراََ فق ہوگیا ۔ کشتی میں سوار بار ہ گاؤں کے دیہاتیوں نے چونک کر اپنی باتیں چھوڑ چھاڑ کر نظریں نُورے پہ گاڑ دیں ۔ اور نورے کو یوں لگا جیسے کسی نے اسے بھرے بازار میں ننگا کر دیا ہو۔ایک لمحے کے لئیے ”ونج“ پہ اسکی گرفت کمزور ہوئی اور کشتی لہراکر رہ گئی ۔ مگر نُورے نے دوبارہ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے ”ونج “ پہ اپنی گرفت مضبوط کی مگر اُسے یوں لگا جیسے کسی نے اسکے بازؤں کی طاقت سلب کر لی ہو ۔ نورا ملاح جیسے تیسے کشتی ”کھیہ“ کہ دریا کے دوسرے کنارے لگانے میں کامیاب ہوگیا ۔ کشتی کے مسافر اسے عجیب نظروں سے دیکھتے اپنے اپنے رستوں کو ہو لئیے صرف ”مانا“ رک گیا تھا اور مسافروں کے جاتے ہی نُورااپنی بربادی پہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔اور اچانک ”مانا “ بے اختیار قہقے لگا کر ہنسے لگا ۔ نورے نے غم اور صدمے سے مانے کو دیکھا ۔ مانے نے کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
” اوئے جھلیا۔ میں تو تمہارے ساتھ دل لگی (مذاق) کر رہا تھا ۔ تمہیں پتہ تو ہے دل لگی کرنے والی میری اس پُرانی عادت کا۔ تمہاری بیوی کسی اپنے آشناء کے ساتھ بھاگ کر کہیں نہیں گئی اور وہ تمہارے گھر پہ ہی ہے۔ میں تو ایسے ہی تمہارے ساتھ دل لگی کر رہا تھا“
نُورے نے مایوسی اور غم کے ملے جُلے جذبات اور رندھے ہوئے گلے سے دور دراز راستوں پہ جانے والے کشتی کے مسافروں کو دیکھا اور ”مانے“ سے گویا ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
”مانے! تم نے تو دل لگی کی مگر میرا ستیا ناس کردیا۔اب یہ سمجھو کہ کہ میری بیوی واقعی گھر سے بھاگ ہی گئی ہے۔یہ بارہ گاؤں کے لوگ بارہ چودہ مختلف گاؤں کو جائیں گے اور اتنے ہی لوگوں کو بتائیں گے کہ نورے ملاح کی بیوی آج گھر سے بھاگ گئی ہے۔ نہ یہ سارا ”پُور“ دوبارہ اکھٹا ہوگا ۔ اور نہ ہی وہ تم سے یہ جاننا چاہیں گے کہ تم نے مجھ سے دل لگی کی تھی جبکہ میری بیوی کسی آشناء کے ساتھ گھر سے نہیں بھاگی تھی۔ اور اگر اتفاق سے وہ اکھٹے ہو بھی جائیں اور تم انہیں حقیقت بتا بھی دو تو اتنے سارے دیہاتوں میں جہاں ان کے بتانے سے میری نیک نامی تار تار ہوگی وہ کیسے نیک نامی میں بدل پائے گی؟ بس ”مانے“ اب یوں سمجھوں کہ میری بیوی کسی آشناء کے ساتھ بھاگ ہی گئی ہے اورمیری نیک نامی تواب واپس آنے سے رہی“
نواز شریف نے اگر کرپشن نہیں بھی کی تو بھی اب نواز شریف جس قدر متنازع شخصیت بن چکے ہیں اور ثابت اور غیر ثابت شدہ الزام تراشیوں میں گھر چکے ہیں ۔توانہیں چاہئیے کہ ملک و قوم کے وسیع ترمفاد میں اپنے عہدے سے استعفی دے کر بچی کچھی کچھ نیک نامی سمیٹنے اور جمہوریت کو بچانے کی کوشش کرنی چائیے۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: "ہاڑ", "مانے", "مانا", "نُورے, "وسن, "پُور", "پُورا", (مذاق), (پھیرا)بھرتے, )کچھ, “, ہ, فق, ہنسے, ہو, ہو۔ایک, ہوگی, ہوگیا, ہوگئی, ہوگا, ہوں, ہوئی, ہوئے, ہوا, ہوا۔, ہوتا, ہی, ہیں, ہے, ہے"نورے, ہے۔, ہے۔یہ, ہر, قوم, قدر, لہراکر, لمحے, لوگ, لوگوں, لی, لگی, لگے, لگا, لگانے, لگادیا, لئیے, م, ملک, ملاح, مناسب, میں, میری, مگر, متنازع, متوجہ, مجھ, مختلف, مسافر, مسافروں, مشکلات, مضبوط, نہ, نہیں, نقصان, نمک, ننگا, چوہ, چونک, نواز, چودہ, نورے, نورا, نیک, نُورا, نُورااپنی, چڑھ, چڑھنے, نے, چکے, چکا, چھوڑ, چھوٹی, چھاڑ, چاہیں, نامی, چائیے۔, چار, نصیب, نظروں, نظریں, و, وہ, ونج, والی, والے, والا, واپس, ورنہ, وسیع, یہ, یوں, یا, ۔, ۔نورے, ۔اس, کہ, کہیں, کہا, کمزور, کچھی, کنارے, کو, کوپتن, کوئی, کوشش, کی, کیا, کیسے, کے, کھیہ, کھیتا, کا, کافُور, کاموں, کامیاب, کا۔, کر, کرم, کرنی, کرنے, کرنا, کرپشن, کررہے, کسی, کشتی, گم, گما, گڈ, گویا, گی؟, گیا, گے, گھر, گئی, گاڑ, گاڑا, گاؤں, گرفت, پہ, پہنچ, پہنچا, پچھلے, پچھے, پیش, پڑا, پھوٹ, پائے, پار, پتہ, آنے, آیا, آپ, آتے, آتا, آج, آخری, آشناء, اللہ, ان, انہی, انہیں, اچک, اچانک, انتظار, اوئے, اور, اورمیری, ایک, ایسے, اُس, اُسے, اِس, اِسی, اکھٹے, اکھٹا, اکا, اگلے, اگر, اٹھے, اپنی, اپنے, اب, ابھی, اتفاق, اتنے, اختیار, ار, اس, اسے, اسکی, اسکے, استعفی, بہہ, بن, بنی, بنانے, بندی, بیوی, بڑی, بے, بکھرے, بھی, بھاگ, بھاگی, بھرے, باندھنے, باتیں, بار, بارہ, بازؤں, بازار, بتا, بتانے, بتائیں, بتارہا, بدل, بری, بربادی, بس, تہہ, تم, تمہیں, تمہاری, تمہارے, تو, توانہیں, تیسے, تھی, تھی۔, تھے, تھا, تھا"نُورے, تھا،گرمیوں, تار, ترمفاد, جہاں, جلدی, جمہوریت, جو, جوق, جیسے, جھلیا۔, جاننا, جانے, جائیں, جاتے, جبکہ, جس, حقیقت, خوش, خوشی, خاندان, خاص, خبر, دہ, دل, دو, دوپہر, دوبارہ, دور, دوسرے, دیہات, دیہاتوں, دیہاتیوں, دیکھا, دیکھتے, دیں, دیا, دیر, دُورواقع, دے, دکا, در, درمیان, دریا, دراز, دس, رہ, رہی, رہا, رنگ, رونے, رک, راستوں, رسی, رستوں, سلب, سمیٹنے, سمجھو, سمجھوں, سنبھالتے, سوچوں, سونا, سوار, سی, سیلاب, سُوجھی, سے, سالوں, سامنا, ساتھ, ساری, سارا, سر, شخصیت, شریف, صدمے, صرف, ضروری, طاقت, طرف, عہدے, عادت, عجیب, غم, غرق
جاوید چوہدری صاحب!۔
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے پاکستان کے میڈیا مالکان۔ میڈیا سے اپنی مطلب براری کے لئیے میڈیا کے ڈونرز۔ پالیسی سازوں۔ایڈیٹروں۔ کالم نگارروں۔ ٹی وی میزبان ۔ نت نئے شوشے چھوڑنے والوں اور نان ایشوز کو ایشوز بنا کر قوم کو پیش کرنے والوں کا مقدمہ لڑتے ہوئے آپ نے اپنے کیس کو مضبوط بنانے کے لئیے سارے میڈیا کو ایک فریق بنا لیا ہے جو کہ سراسر غلط ہے ۔ اپنے مقدمے میں میڈیا سے متعلق سبھی شعبہ جات کو ملوث کر لیا ہے۔ جبکہ پاکستان کے قارئین و ناظرین کے اعتراضات میں میڈیا سے متعلق سبھی لوگ شامل نہیں۔ اور معدودئے چند ایسے لوگ ابھی بھی پاکستان میں ہیں جو حقائق کا دامن نہیں چھوڑے ہوئے اور ایسے قابل احترام کالم نگار اور میزبان اور جان جوکھوں میں ڈال کر رپوٹنگ کرنے والے رپوٹر حضرات (جنہیں بجائے خود میڈیا مالکان انکی جان کو لاحق خطرات کے لئیے کام آنے والی مختلف سہولیات بہم پہنچانے میں ناکام رہے ہیں) اور حقائق عوام تک پہنچانے والے یہ رپورٹرز عوام کے اعتراضات میں شامل نہیں۔ جسطرح ہر شعبے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں اسی طرح میڈیا سے متعلق ان لوگوں پہ عوام کو اعتراضات ہیں۔ جن کا بے مقصد دفاع آپ کر رہے ہیں۔
آپکی یہ منطق ہی سرے سے غلط ہے کہ اس ملک(پاکستان) میں سب چلتا ہے۔ اور تقریبا سبھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کئی ایک لوگ۔ جائز یا ناجائزطریقوں سے کیا کچھ نہیں کما رہے۔ اور اسی منطق کے تحت اگر میڈیا اور صحافت سے تعلق رکھنے والے بھی وہی طریقہ کار اپنا رہے ہیں تو اس میں حرج کیا ہے؟۔ اسکا مطلب تو عام الفاظ میں یہی بنتا ہے کہ صحافت بھی ایک کاروبار ہے اور پاکستان میں رائج جائز ناجائزسبھی معروف طریقوں سے صحافت میں مال اور رسوخ کمانا بھی درست سمجھاجائےَ؟۔ تو حضور جب آپ یہ بات تسلیم کر رہے ہیں کہ بہتی گنگا میں ہاتھ دہونے کا حق بشمول میڈیا سبھی کو حاصل ہے۔ تو پھر عوام حق بجانب ہیں جو آپ اور آپ کے مثالی کردار کے میڈیا پہ اعتراضات کرتے ہیں۔ تو پھر آپ کو اتنا بڑھا سیریل وار کالم لکھنے کی کیا سوجھی؟۔
آپ نے اپنی برادری کے وسیع المطالعہ ہونے کا تاثر دیا ہے۔ اپنی برادری کو پاکستان کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد حتیٰ کے عام آدمی تو کیا علماء اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والوں سے بڑھ کر اپنے وسیع المطالعہ ہونے کا دعواہ کیا ہے اور مطالعے کے لئیے مختلف کتابوں پہ اٹھنے والے اخراجات کا ڈھنڈورہ پیٹا ہے۔ پاکستان کی بہترین یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ہونے کے اعزاز کا چرچا کیا ہے۔
حضور جاوید صاحب۔ پاکستان کے تنخواہ دار میڈیا کے چند ایک نہائت قابل افراد کو چھوڑ کر باقی کے وسیع المطالعہ ہونے کا اندازہ ان کے کالم اور تحریرو تقریر سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ وہ اقوام عالم اور دور حاضر میں اسلام یا پاکستان کے بارے کسقدر باخبر ہیں۔ اور تاریخ وغیرہ کی تو بات ہی جانے دی جئیے۔ اس لئیے آپکا یہ دعواہ نمائشی اور فہمائشی تو ہوسکتا ہے ۔ مگر اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ کیونکہ علم خود اپنا آپ بتا دیتا ہے۔ علم اپنا تعارف خود ہوتا ہے۔
آپ نے اپنی برادری کی پاکستان کی بہترین یونیورسٹیز سے حاصل کی جانے والی لٹریسی ڈگریزکا ذکر کیا ہے ۔ ان میں پاکستان کی یونیورسٹیز جنہیں آپ بہترین بیان کر رہے ہیں۔ ان یونیورسٹیز کو دنیا کی بہترین چھ سو یونیورسٹیزکے کسی شمار میں نہیں رکھا جاتا۔ نہ اب اور نہ پہلے کبھی کسی شمار میں رکھا گیا ہے ۔ لیکن کیا آپ کے علم میں ہے؟ ۔ کہ پاکستان میں اور بیرون پاکستان جو قارئین اور ناظرین آپ کے میڈیا کو دیکھتے ہیں اور گھن کھاتے ہیں۔ اور پاکستانی میڈیا پہ اعتراضات جڑتے ہیں۔ ان میں سے ہزاروں کی تعداد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو آپ سے بھی اہم اور پیچیدہ موضوعات پہ ڈگریز رکھتے ہیں۔ اور بہت سے ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو دنیا کی بہترین یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ہیں۔اور گرانقدر تجربہ ان کے پاس ہے۔
ایسے ایسے نابغہ روزگار اور اعلٰی تعلیم یافتہ لوگ۔ بلاگنگ۔ فیس بک۔ سوشل میڈیا پہ صرف اس لئیے اپنی صلاحتیں بلا معاضہ پیش کرتے ہیں کیونکہ وہ آپ سے آپکے مثالی کردار میڈیا سے بیزار ہی نہیں بلکہ مایوس ہوچکے ہیں۔ اور ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے دنیا کی بہترین یونیورسٹیز سے بہترین موضوعات پہ ڈگریز لے رکھی ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟؟ ۔ یہ ڈگریز کا حوالہ اور تذکرہ محض آپکی کالم نگاری کے جواب میں ہے ۔ ورنہ لازمی نہیں کہ محض ڈگریز کے حصول سے ہی کوئی فرد زیادہ قابل بن جائے۔
ملک کے جن اٹھارہ کروڑ عوام سے آپ نے گلے شکوے کئیے ہیں۔ کیا کبھی آپ نے ۔ آپکے دیگر ساتھیوں۔ یعنی بہ حیثیت میڈیا کبھی یہ جاننے کی تکلیف گوارہ کی کہ وہی اٹھارہ کروڑ عوام آپ سے کسقدر مطمئن اور خوش ہیں۔ اس بارے آپ کے قابل قدر میڈیا نے کوئی سروے کیا ہو؟ ۔ عوام سے کبھی رائے مانگی ہو؟؟۔
حال میں۔ جعلی اور فرضی خبریں جنہیں آپ۔ آپ کے ساتھیوں اور پاکستانی میڈیا نے ان فرضی اور جعلی واقعات کو ٹاپ ایشوز بنا کرقوم کے سامنے پیش کیا۔ قوم کو ورغلایا۔ غلط طور پہ رائے عامہ کو ایک مخصوص سمت میں موڑنے کی کوشش کی۔ اور جب جب جھوٹ ثابت ہوجانے پہ سوشل میڈیا سے اور دیگر ذرائع سے شوروغوغا اٹھا۔ تو آپ کے بیان کردہ پاکستانی مثالی میڈیا کو اسقدر توفیق نہ ہوئی کے اس بارے اسی شدو مد سے وضاحت جاری کرتا۔
جاوید صاحب! آپ اس بات کا جواب دینا پسند کریں گے کہ میڈیا پہ میڈیا کے پروردہ اور منتخب دانشور جو جعلی واقعات اور جھوٹی خبروں پہ جس غیض غضب کا مظاہرہ اسلام اور شرعی حدود کے خلاف کرتے رہے ہیں ۔ آخر کار اسطرح کی خبریں جھوٹی ہونے پہ آپکے بیان کردہ مثالی اینکرز اور خود آپ نے کبھی انھی افراد کو دوبارہ بلوا کر جھوٹ کا پردہ آشکارا ہونے پہ دوبارہ اسی طرح کسی مباحثے کا اہتمام کیا؟ ۔ جس سے میڈیا کی طرف سے قوم کو اسلام اور شرحی حدود کے بارے ورغلائے جانے پہ انھیں یعنی عوام کو اصلی حقائق کے بارے پتہ چلتا؟۔
پاکستان کے عام قاری کو اس بات سے غرض نہیں۔ کہ آپ معاوضہ کیوں لیتے ہیں۔ انکا اعتراض اس بات پہ ہے کہ حکومتی مدح سرائی کے بدلے سرکاری اشتہاروں سے ملنے والے کروڑوں روپے کے معاوضوں سے دواوراق کے اخبارات سے دیکھتے ہی دیکھتے اربوں روپے کے نیٹ ورک کا مالک بن جانے والے میڈیا ٹائکونز نے آپ جیسے لوگوں کو لاکھوں رؤپے کے مشاہیرے پہ کس لئیے ملازم رکھا ہوا ہے؟۔ آپ اپنا رزق حلال کرنے کے لئیے وہی بات پھیلاتے ہیں۔ جس کا اشارہ آپ کے مالکان آپ کو کرتے ہیں۔ اور آپ اور آپ کی برادری بے لاگ حقائق کو بیان کرنا کبھی کا چھوڑ چکی۔ جس کا شاید آپ کو اور آپکی برادری کو ابھی تک احساس نہیں ہوا۔
آپ سے مراد آپکی برادری کے اینکرز و پروگرام میزبان و کالم نگاروں کی اکثریت اس”آپ“ میں شامل ہے۔ اس ضمن میں صرف دو مثالیں دونگا۔ پہلی مثال۔ وہ مشہور کالم نگار ۔ جس نے مبینہ ناجائز طور پہ حاصل کردہ اپنے پلاٹ کا ذکر کرنے پہ اپنی ہی برادری کے ایک صاحب کو ننگی ننگی گالیاں دیں۔ دوسری مثال ۔ حال ہی میں پاکستان کے ایک توپ قسم کے ٹی وی میزبان نے پاکستانی عوام کی امیدوں کے آخری سہارے چیف جسٹس جناب افتخار چوہدری صاحب کو دیوار کے ساتھ لگانے کے لئیے ایک دوسری خاتون میزبان سے ملکر رئیل اسٹیٹ کی ایک متنازعہ شخصیت کا پلانٹڈ انٹرویو لیا۔
ایسی ان گنت مثالیں گنوائی جاسکتی ہیں حیرت ہوتی ہے۔ آپ میڈیا کو پوتر ثابت کرتے ہوئے کیسے ناک کے سامنے نظر آنے والی ایسی گھناؤنی مثالوں اور زندہ حقائق کو نظر انداز کر گئے ہیں؟۔
آپ اپنی برادری کی پارسائی ۔ دیانتداری کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ جبکہ عوام پوچھتے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے امریکہ کے لئیے نرم گوشہ پیدا کرنے کے لئیے معاوضے یا رشوت کے طور پہ میڈیا کو میلینز ڈالرز کے الزامات کا جواب ، تردید یا وضاحت کیوں نہیں کی جاتی؟۔
بھارتی ثقافت کی یلغار جس سے ایک عام آدمی بھی بے چین ہے۔ اور آپ جیسے پاکستان کی بہترین یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ڈگری ہولڈرز کو کیوں نظر نہیں آتی۔ اگر پاکستانی میڈیا پہ محض کاروباری لالچ میں بھارتی میڈیا کی یلغار نظر آتی ہے تو آپ جیسے لوگ کیوں اسکے خلاف کمر بستہ نہیں ہوتے؟۔ اور اگر آپ کو ایسا کچھ نہیں نظر آتا یا نہیں لگتا تو آپ پاکستان کے ایک عام ناظر یا قاری کے جذبات سے کوسوں دور ہیں تو آپ انکے اعتراضات کیسے سمجھ سکتے ہیں؟۔
پاکستان میں آزاد میڈیا کے بجائے جانے والے ترانوں پہ صرف اتنا عرض کرنا چاہوں گا۔ کہ دنیا کے ان سبھی ممالک کی تاریخ گواہ ہے جہاں میڈیا حکومتی تسلط سے آزاد ہوا وہاں عوام نے آزاد میڈیا کو سینے سے لگایا۔ انکی ستائش کی اور جب میڈیا نے من مانی کرنا چاہی تو میڈیا پہ عوام نے اعتراضات کئیے اور میڈیا کو اپنی سمت درست کرنی پڑی۔ جبکہ پاکستانی میڈیا کو ایولیشن کے ایک معروف عمل کے تحت آزادی ملی تو میڈیا نے بے سروپا اور بے ھنگم طریقوں کو محض کاروباری حیثیت کو مضبوط کرنے کے لئیے استعمال کیا۔ اور چند ایک مخصوص کالم نگاروں کا جو کریڈٹ آپ نے وصولنے کی کوشش کی ہے کہ انکی جان کو خطرے درپیش ہوئے ۔ ایجنسیوں نے انھیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیں۔ وغیرہ۔ آپ کیا یہ بتانا پسند کریں گے ۔ کہ اگر وہ یہ سب نہ لکھتے تو پاکستان کے میڈیا کا کونسا گروپ انہیں منہ لگاتا؟۔ تو حضور یہ لکھنا ہی انکا فن اور پیشہ ٹہرا جس کا وہ ان گنت معاوضہ لیتے رہے ہیں اور بدستور بہت سی شکلوں میں تا حال وصول کر رہے ہیں۔
آپ نے ڈائنو سار کے قدموں سے اپنی روزی نکالنے کا ذکر کیا ہے۔ اپنے ارد گرد دیکھیں ۔ پاکستان کی اکثریت کس طرح اپنے تن سے سانس کا رشتہ جوڑے ہوئے ہیں ۔ اور ایک تصوارتی ڈائنو سار کے پاؤں سے نہیں ۔۔ بلکہ اس نظام کے ہاتھوں اپنی عزت نفس گنوا کر دو وقت کی روٹی بمشکل حاصل کر پاتے ہیں۔ جس نظام کو تقویت دینے میں ایک ستون آپ اور آپ کا میڈیا ہے۔
عوام کو شکوہ ہے کہ پاکستانی میڈیا عوام کے ناتواں جسم و جان میں پنچے گاڑے نظام کے مخالف فریق کی بجائے اسی نظام کا ایک حصہ ایک ستون ہے۔
نوٹ:۔ یہ رائے عجلت میں لکھ کر جاوید چوہدری کے کالم پہ رائے کے طور بھیجنے کی بارہا کوششوں میں ناکام ہونے کے بعد اسے یہاں نقل کردیا ہے۔ موصوف کے آن لائن اخبار پہ انکے کالم پہ لکھنے کی صورت میں اسپیم کی اجازت نہیں وغیرہ لکھا آتا ہے۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: ہوئے, ہوا, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں۔آپ, ہے, ہے۔, ہے۔عوام, ہاتھ, ہاتھوں, فریق, قوم, قدموں, قسم, لڑتے, لگانے, لگایا۔, لئیے, مقدمہ, ملکر, ممالک, من, میڈیا, میں, میزبان, مال, مالکان۔, مانی, متنازعہ, مثال, مخالف, مطلب, نہیں, نفس, ننگی, چوہدری, چیف, نے, نگارروں, چھوڑنے, نئے, نئت, چاہوں, چاہی, نان, ناتواں, نظام, و, وہاں, وقت, ڈونرز۔, وی, والوں, والے, ڈائنو, وصول, یہ, یہی, ۔, ۔۔, کہ, کمانا, کو, کی, کیا, کیس, کے, کئیے, کا, کالم, کاروبار, کر, کرنی, کرنے, کرنا, کس, گنوا, گنگا, گواہ, گالیاں, گاڑے, گا۔, گرد, ٹی, پہ, پہلی, پنچے, پیش, پڑی۔, پالیسی, پاکستان, پاکستانی, پاؤں, پاتے, آپ, آخری, آزاد, افتخار, امیدوں, ان, انکی, اور, ایک, ایشوز, اکثریت, اپنی, اپنے, اتنا, ارد, اس, اسی, اسٹیٹ, اشوز, اعتراضات, بہتی, بلکہ, بمشکل, بنا, بنتا, بھی, بات, بجائے, براری, بشمول, تقویت, تن, تو, توپ, تا, تاریخ, ترانوں, تسلیم, تسلط, تصوارتی, تعلق, جہاں, جناب, جوڑے, جان, جانے, جاوید, جب, جبکہ, جس, جسم, جسٹس, حق, حکومتی, حال, حاصل, حصہ, حضور, خاتون, دہونے, دنیا, دو, دوسری, دینے, دیوار, دیکھیں, دیں۔, درست, ذکر, رہے, روٹی, روزی, رئیل, رائج, رسوخ, رشتہ, زندگی, سہارے, سمت, سمجھاجائےَ؟۔, سینے, سے, سانس, ساتھ, سار, سازوں۔ایڈیٹروں۔, سبھی, ستون, ستائش, شوشے, شکوہ, شخصیت, شعبہ, صاحب, صحافت, صرف, طریقوں, طرح, عوام, عرض, عزت
کولبیرٹ ازم ۔ برصغیر ہندؤستان۔ اور برئنیر رپورٹ۔ چوتھی قسط۔
برنئیر کی ہندؤستان کے بارے ۔مذہب سے لیکر خاندانی رسم و رواج ۔سیاست اور انتظامیہ کے متعلق معلومات انتہائی مفید تھیں۔ مالی اور اقتصادی مقابلے کے لئیے مسابقت کی دوڑ میں شامل ہونے سے قبل ضروری تھا۔ کہ ہر نقطہ نظر اور ہر زاویے سے ۔ اہم معلومات کے ساتھ (کسی ممکنہ مہم جوئی کی صور ت میں )کچھ اہم امور سرانجام دئیے جائیں۔اور اسی وجہ سے ریاستوں کو ایسے معاملات میں عام افراد اور نجی فرموں پہ برتری حاصل تھی۔”سابقہ ادوار یعنی حکومتوں میں نوآبادیت سے متعلقہ مسائل میں ایک بڑا الجھا ہوا مسئلہ ریاستوں اور کمپنیوں کے مابین ملکیت اور اختیارات کا مسئلہ تھا ۔ ملکیت اور اختیارات کے اس گنجلک مسئلے کے سیاسی اور مالی پہلو تھے ۔ اور اسے ”خصوصیت “ نام دیا گیا اور اس مسئلے کا حل”خصوصیت “ نامی نظام,( "L’exclusif” )پہ منحصر تھا۔ جسے بعد کی حکومتوں میں ”نوآبادیت معائدہ“ یعنی” کالونی پیکٹ “کا نام دیا گیا ۔(۱۴٭)۔
کمپنیوں کی کثیر جہتی سرگرمیاں عموماَ ایک تسلسل کے ساتھ ریاستوں کی مقرر کردہ سفارتی اور قانونی حدود پار کرتی رہتیں ۔ سترہویں صدی کے وسط سے (تجارتی مفادات حاصل ہونے۔ اور تجارتی مفادات کی اہمیت کے باوجود) کمپنیوں اور ریاستوں کی آپس میں ہمیشہ صلح نہیں رہتی تھی۔ یعنی آپس میں مفادات کا ٹکراؤ ہوتا تھا ۔(۱۵٭)۔
برنئیر اس ساری صورتحال کے بارے باخبر ہونے کی وجہ سے یہ جانتا تھا کہ اسکی مہیاء کردہ معلومات کسقدر اہم اور مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔اسلئیے وہ تمام تفضیلات اور جزئیات بیان کرتا ہے۔برنئیر لکھتا ہے”یہ نکتہ بہت اہم اور نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ مغل فرماں روا شعیہ نہیں جو علیؓ ( رضی اللہ تعالٰی عنہ) اور انکی آل کو مانتے ہیں۔ جیسا کہ ایران میں شعیہ مانتے ہیں ۔ بلکہ مغل فرماں روا محمدن ہے ۔ (صلی اللہ علیہ وسلم ) (یعنی سُنی مسلک رکھتا ہے) اور نتیجتاَمغل باشاہ کے دربار میں سُنی درباریوں کی اکثریت ہے ۔ ترکی کے مسلمانوں کی طرح انکامسلک سُنی ہے جو عثمانؓ ( رضی اللہ تعالٰی عنہ) کو ماننے والے ہیں ۔ اسکے علاوہ مغل فرماں روا کے ساتھ ایک اور مسئلہ ہے کہ مغل بادشاہ کے آباءاجداد غیر ملکہ ہونے کی وجہ سے خود مغل بادشاہ بھی غیر ملکی سمجھا جاتا ہے ۔ مغل بادشاہ کا نسب تیمور لنگ سے جا ملتا ہے جو تاتار کے منگولوں کا سردار تھا ۔ مغل بادشاہ کے اجداد ۱۴۰۱ء چودہ سو ایک عیسوی میں ہندؤستان پہ حملہ آور ہوئے ۔اور ہندؤستان کے مالک بن گئے۔اسلئیے مغل فرماں روا تقریباَایک دشمن ملک میں پایا جاتاہے۔ فی مغل بلکہ فی مسلمان کے مقابلے پہ سینکڑوں کٹڑ بت پرستوں اور مشرکوں (idolaters)کی آبادی ہے۔ اسکے علاوہ مغل شہنشاہیت کے ہمسائے میں ایرانی اور ازبک بھی مغل شہنشاہ کے لئیے ا یک بڑا درد سر ہیں ۔ جسکی وجہ سے امن کا دور ہو یا زمانہ جنگ مغل شہنشاہ بہت سے دشمنوں میں گھرا رہتا ہے اور ہر وقت دشمنوں میں گھرا ہونے کی وجہ سے مغل شہنشاہ اپنے آس پاس بڑی تعداد میں اپنی افواج دارالحکومت، بڑے شہروں اور بڑے میدانوں میں اپنی ذات کے لئیے تیار رکھتا ہے۔برنئیر کے الفاظ میں”آقا ۔(مائی لارڈ) اب میں آپ کو مغل شہنشاہ کی فوج کے بارے کچھ بیان کرتا چلوں کہ فوج پہ کتنا عظیم خرچہ اٹھتا ہے ۔ تانکہ آپ کو مغل شہنشاہ کے خزانے کے بارے کسی فیصلے پہ پہنچ سکیں“ ۔(۱۶٭)۔
فوجی شان و شوکت کی نمائش بہت کشادہ اور نمایاں طور پہ کی جاتی ہے۔ ۔مالیاتی کمپنیوں کی طرف سے فیکٹریوں کے قیام کی حکمت عملی کے بعد سے۔ مغل شہنشاہ کی طرف سے اس فوجی شان و شوکت کی نمائش کی اہم مالی اور فوجی وجوہات ہیں ۔کیونکہ اسطرح
۱)۔ مغل شہنشاہ یوں اپنی دفاعی صلاحیت کا عظیم مظاہرہ کرتا ہے ۔
۲)۔ مغل شہنشاہ یوں اتنی بڑی فوج پہ اٹھنے والے اخراجات کے ذریعیے مالی استحکام کا پیغام دیتا ہے ۔
۳)۔ مغل شہنشاہ یوں مختلف قوموں کے خلاف جیتے گئے محاذوں کی کامیابیوں کی دھاک بٹھاتا ہے
۴) مغل شہنشاہ یوں اپنی افواج کی نمائش سے فوجوں میں شامل مختلف قومیتوں اور قوموں کی کثیر النسل سپاہ کی شمولیت سے سے برابری اوراتنی قوموں کے بادشاہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔
۵)۔ مغل شہنشاہ اسطرح اپنے فوجی ساز و سامان کی نمائش سے کسی قسم کی ممکنہ بغاوت کو روند دینے کی طاقت اور قوت کا مظاہرہ کرتا ہے۔
اب ملاحظہ ہو ۔ اؤل ۔وہ فوج ہے جو شہنشاہ کی سرکاری فوج ہے ۔ اور جسکی تنخواہیں اور اخراجات لازمی طور پہ بادشاہ کے خزانے سے جاتی ہیں۔(۱۷٭)۔
”پھر وہ افواج ہیں ۔جن پہ راجوں کا حکم چلتا ہے ۔ بعین جیسے جے سنگھے اور دیگر ۔ جنہیں مغل فرماں روا بہت سے عطیات دیتا رہتا ہے تانکہ راجے وغیرہ اپنی افواج کو جن میں راجپوتوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے ۔ انہیں ہمیشہ لڑائی اور جنگ کے لئیے تیار رکھیں۔ ان راجوں وغیرہ کا مرتبہ اور رتبہ بھی بادشا ہ کے امراء کے برابر سمجھا جاتا ہے ۔ جو زمانہ امن میں فوجوں کے ساتھ شہروں میں اور میدان جنگ میں اپنی اپنی افواج کے ساتھ بادشاہ کی ذات کے گرد حفاظتی حصار کھینچے رکھتے ہیں ۔ان راجوں مہاراجوں کے فرائض بھی تقریباَوہی ہیں جو امراء کے ہیں۔ بس اتنا فرق ہے کہ امراء یہ فرائض قلعے کے اندر ادا کرتے ہیں۔ جبکہ کہ راجے وغیرہ فصیل شہر سے باہر اپنے خیموں میں بادشاہ کی حفاظت کا کام سر انجام دیتے ہیں“۔(۱۸٭)۔
برنئیر تفضیل پیان کرتا ہے کہ کس طرح جب راجے وغیرہ قلعے کے نزدیک آتے ہیں تو وہ اکیلے نہیں ہوتے بلکہ راجوں کے ساتھ وہ خصوصی سپاہی بھی ہوتے ہیں جو کسی بھی وقت حکم ملنے پہ اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتار دینے کے لئیے تیار رہتے ہیں ۔(۱۹٭)۔
مغل فرماں روا جن وجوہات کہ بناء پہ راجوں کی سے یہ خدمات لینا ضروری سمجھتا ہے ۔وہ وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔:
۱)۔راجوں کی سپاہ پیشہ ورانہ تربیت اچھی ہوتی ہے اور ایسے راجے بھی ہیں جو کسی وقت بھی بادشاہ کی کسی مہم کے لئیے بیس ہزار یا اس سے زیاہ گھڑ سوارں کے ساتھ تیار رہتے ہیں۔
۲)۔مغل بادشاہ کو ان راجوں پہ بھروسہ ہے جو بادشاہ کے تنخوادار نہیں ۔ اور جب کوئی ان راجوں میں سے سرکشی یا بغاوت پہ آمادہ ہو ۔ یا اپنے سپاہیوں کو بادشاہ کی کمان میں دینے سے انکار کرے۔ یا خراج ادا کرنے سے انکار کرے ۔ تو مغل بادشاہ انکی سرکوبی کرتا ہے اور انہیں سزا دیتاہے۔اس طرح یہ راجے بادشاہ کے وفادار رہتے ہیں۔(۲۰٭)۔
دوسری ایک فوج وہ ہے جو پٹھانوں کے خلاف لڑنے یا اپنے باغی امراء اور صوبیداروں کے خلاف لڑنے کے لئیے ہے۔ اور جب گولکنڈاہ کا مہاراجہ خراج ادا کرنے سے انکار کردے ۔ یا وسا پور کے راجہ کے دفاع پہ آمادہ ہو تو اس فوج کو گولکنڈاہ کے مہاراجہ کے خلاف لڑایا جاتا ہے ۔ یا ان فوجی دستوں سے تب کام لیا جاتا ہے جب ہمسائے راجوں میں سے کسی کو اس کی راج گدی سے محروم کرنا مقصود ہو۔ یا ان راجوں کو خراج ادا کرنے کا پابند کرنا ہو تو اس فوج کے دستے حرکت میں لائے جاتے ہیں ۔ان سبھی مندرجہ بالا صورتوں میں اپنے امراء پہ بھروسہ نہیں کرتا کیونکہ وہ زیادہ تر ایرانی النسل اور شعیہ ہیں۔جو بادشاہ کے مسلک سے مختلف مسلک رکھتے ہیں ۔(۲۱٭)۔
مسلکی اور مذہبی معاملات کو ہمیشہ مدنظر رکھا جاتا ہے۔ کیو نکہ دشمن کے مذہب یا مسلک کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک طرح یا دوسری طرح کی افواج کو میدانِ جنگ میں اتارا جاتا ہے ۔ اگر ایران کے خلاف مہم درپیش ہو تو امراء کومہم سر کرنے نہیں بیجھا جاتا کیونکہ امراء کی اکثریت میر ہے اور ایران کی طرح شعیہ مسلک رکھتی ہے۔ اور شعیہ ایران کے بادشاہ کو بیک وقت امام ۔ خلیفہ ۔ اور روحانی بادشاہ ۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے دامادعلیؓ (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کی آل مانتے ہیں۔ اسلئیے ایران کے بادشاہ کے خلاف لڑنے کو ایک جرم اور بہت بڑا گناہ سمجھتے ہیں۔ مغل بادشاہ اسطرح کی وجوہات کی بناء پہ پٹھانوں کی ایک تعداد کو فوج میں رکھنے پہ مجبور ہے۔اور آخر کار مغل بادشاہ مغلوں پہ مشتمل ایک بڑی اور بادشاہ کی بنیاد فوج کے مکمل اخراجات بھی اٹھاتا ہے ۔ مغل افواج ہندوستان کی بنیادی ریاستی فوج ہے۔جس پہ مغل فرماں روا کے بہت اخراجات اٹھتے ہیں ۔(۲۲٭)۔
اس کے علاوہ مغل فرماں روا ں کے پاس آگرہ میں ۔ دلی میں اور دونوں شہروں کے گرد و نواح میں دو سے تین ہزار گھڑ سوار کسی بھی مہم کو جانے کے لئیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔بادشاہ کی روز مرہ کی مہموں کے لئیے۔ بادشاہ کے پاس ۸۰۰ آٹھ سو سے ۹۰۰ نو سو تک کے لگ بھگ ہاتھی ہیں ۔بڑی تعداد میں خچر اور سامان کھینچنے والے گھوڑے ہیں۔ جن سے بڑے بڑے خیمے ۔ قناتیں ۔ بیگمات اور انکا سازوسامان ۔ فرنیچر ۔ مطبخ (باورچی خانہ)۔مشکیزے ۔اور سفر اور مہموں میں کام آنے والے دیگر سامان کی نقل و حرکت کا کام لیا جاتا ہے۔(۲۳٭)۔
مغل فرماں روا کے اخراجات کا اندازہ لگانے کے لئیے اس میں سراؤں یا محلات کے اخراجات بھی شامل کر لیں ۔جنہیں برنئیر ” ناقابل ِ یقین حد تک حیران کُن “ بیان کرتا ہے۔”اور جنہیں (اخراجات کو) آپکے اندازوں سے بڑھ کر حیرت انگیز طور پہ ناگزیر سمجھا جاتا ہے“۔ یہ محل اور سرائے ایسا خلاء ہیں جس میں قیمتی پارچات ۔ سونا۔ ریشم ۔ کمخوآب ۔ سونے کے کام والےریشمی پارچات ۔غسل کے لئیے خوشبودار گوندیں اور جڑی بوٹیاں ۔امبر ۔اور موتی ان خلاؤں میں گُم ہو جاتے ہیں۔”اگر مغل فرماں روا کے ان مستقل اخراجات جنہیں مغل فرما روا ں کسی طور نظر انداز نہیں کرسکتا اگر ان مستقل اخراجات کو مدنظر رکھاجائے تو مغل شہنشاہ کے ختم نہ ہونے والے خزانوں کے بارے آپ فیصلہ کر سکتے ہیں ۔ جیسا کہ مغل شہشنشاہ کے بارے بیان کیا جاتا ہے اور مغل شہنشاہ کی ناقابل تصور امارت جس کی کوئی حد نہیں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔(۲۴٭)۔”اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بادشاہ بہت بڑے خزانوں کا مالک ہے بلکہ ایران کے باشاہ اور آقا کے خزانوں کو ملانے سے بھی بڑھ کر مغل فرماں روا کے پاس ذیادہ خزانے ہیں۔(۲۴٭)۔
جاری ہے۔
(14) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., ob. cit., pág. 398.
(15) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., pág. 399.
(16) BERNIER, ob. cit., pág. 197.
(17) BERNIER, ob. cit., pág. 197.
(18) BERNIER, ob. cit., pág. 198.
(19) BERNIER, ob. cit., pág. 198.
(20) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(21) BERNIER, ob. cit., pág. 198, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(22) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(23) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15, 16 y 17.
(24) BERNIER, ob. cit., pág. 200.
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: "L'exclusif", (, (, (14), (15), (16), (17), (18), (19), (20), (21), (22), (23), (24), (25), (26), (باورچی, (تجارتی, (صلی, ), ), )۔مغل, )کچھ, ., ., 197, 198, 199, 200., 398, 399, :, :, “, “, ”, ”خصوصیت, BERNIER, C., Carta, cit., E., fols., Gondal, H., idolaters, Javed, Javed gondal, ob., original, pág., RiCH, ہ, ہمیشہ, ہمسائے, ہندوستان, ہندؤستان, ہو, ہونے, ہونے۔, ہو۔, ہوئے, ہوا, ہوتی, ہوتے, ہوتا, فوج, فوجوں, فوجی, ہوسکتی, ہی, فیکٹریوں, ہیں, ہیں“۔(۱۸٭)., ہیں۔, ہیں۔(۲۰٭)۔, ہیں۔(۲۴٭)۔, ہیں۔”اگر, ہیں۔اسلئیے, ہیں۔بادشاہ, ہیں۔جو, فیصلہ, فیصلے, ہے, ہے”یہ, ہے۔, ہے۔اور, ہے۔برنئیر, ہے۔جس, ہاتھی, ہر, فرق, فرموں, فرما, فرماں, فرنیچر, فرائض, ہزار, فصیل, قلعے, قناتیں, قوموں, قومیتوں, قوت, قیمتی, قیام, قانونی, قابل, قب, قسم, قسط, لنگ, لینا, لیکر, لیں, لیا, لڑنے, لڑایا, لڑائی, لکھتا, لگ, لگانے, لگایا, لئیے, لئیے۔, لائے, لارڈ), لازمی, مہم, مہموں, مہیاء, مفید, مفادات, مہاراجہ, مہاراجوں, مقابلے, مقرر, مقصود, ملنے, ملک, ملکہ, ملکی, ملکیت, ملانے, ملاحظہ, ملتا, ممکنہ, منگولوں, منحصر, مندرجہ, موت, موتی, میں, میں”آقا, میدان, میدانوں, میدانِ, میر, مکمل, مالی, مالک, ماننے, مانتے, مابین, متعلق, متعلقہ, مجبور, محل, محلات, محمد, محمدن, محاذوں, محروم, مختلف, مد, مدنظر, مذہب, مذہبی, مذھب, مرہ, مرتبہ, مسلمان, مسلمانوں, مسلک, مسلکی, مسئلہ, مسئلے, مسائل, مسابقت, مستقل, مشتمل, مشرکوں, مطبخ, مظاہرہ, معلومات, معاملات, معائدہ“, مغل, مغلوں, نہ, نہیں, نقل, نقطہ, چلوں, چلتا, نمایاں, نمائش, نو, نوٹ, نوآبادیت, نواح, چوتھی, چودہ, نکہ, نکتہ, ناقابل, نام, نامی, ناگزیر, نتیجتاََ, نجی, نزدیک, نسب, نظام, نظر, و, وہ, وہی, وفادار, وقت, والے, والےریشمی, وجہ, وجہسے, وجوہات, ورانہ, وسلم, وسا, وسط, وغیرہ, یہ, یقین, یوں, یک, یا, یعنی, ۔, ۔(مائی, ۔(۱۴٭)۔, ۔(۱۵٭)۔, ۔(۱۶٭)۔, ۔(۲۱٭)۔, ۔(۲۲٭), ۔(۲۴٭)۔”اس, ۔مالیاتی, ۔وہ, ۔کیونکہ, ۔۳, ۔امبر, ۔ان, ۔اور, ۔بڑی, ۔جن, ۔جنہیں, ۔غسل, کہ, کمپنیوں, کمان, کمخوآب, کو, کولبیرٹ, کومہم, کوئی, کی, کیو, کیونکہ, کیا, کُن, کے, کٹڑ, کھینچنے, کھینچے, کا, کالونی, کام, کامیابیوں, کار, کتنا, کثیر, کر, کرنے, کرنا, کرے, کرے۔, کرتی, کرتے, کرتا, کردہ, کردے, کرسکتا, کس, کسقدر, کسی, کشادہ, ٭, گناہ, گنجلک, گولکنڈاہ, گوندل, گوندیں, گیا, گُم, گھوڑے, گھڑ, گھاٹ, گھرا, گئے, گئے۔اسلئیے, گدی, گرد, ۱, ۱)۔, ۱۴۰۱ء, ۱۷, ۲, ۲)۔, ۲۳, ۴, ۵)۔, ۸۰۰, ۹, ٹکراؤ, ۹۰۰, ں, پہ, پہلو, پہنچ, پور, پیکٹ, پیان, پیشہ, پیغام, پٹھانوں, پھر, پایا, پابند, پار, پارچات, پاس, پرستوں, WILSON, y, آقا, آل, آمادہ, آنے, آور, آگرہ, آٹھ, آپ, آپکے, آپس, آباءاجداد, آبادی, آتے, آخر, آس, ا, اہم, اہمیت, افواج, افراد, اقتصادی, الفاظ, اللہ, النسل, الجھا, امن, امور, امام, امارت, امر, امراء, امستقل, ان, انہیں, انکی, انکا, انکار, انگیز, اچھی, انتہائی, انتظامیہ, انجام, انداز, اندازہ, اندازوں, اندر, اور, اوراتنی, ایک, ایران, ایرانی, ایسے, ایسا, اکیلے, اکثریت, اگر, اٹھنے, اٹھاتا, اٹھتے, اٹھتا, اپنی, اپنے, اؤل, اب, اتنی, اتنا, اتار, اتارا, اجداد, اختیارات, اخراجات, ادوار, ادا, ازم, ازبک, اس, اسلئیے, اسی, اسے, اسکی, اسکے, اسپین, استحکام, اسطرح, اظہار, بہت, بلکہ, بن, بنیاد, بنیادی, بناء, بوٹیاں, بیک, بیگمات, بیان, بیجھا, بیس, بڑی, بڑے, بڑھ, بڑا, بٹھاتا, بھی, بھگ, بھروسہ, باہر, بالا, باوجود, باخبر, بادشا, بادشاہ, بارے, بارسیلونا, باشاہ, باغی, بت, برنئیر, برئنیر, برابر, برابری, برتری, برصغیر, بس, بعین, بعد, بغاوت, ت, تفضیل, تفضیلات, تقریباََ, تقریباََایک, تمام, تنخواہیں, تنخوادار, تو, تیمور, تین, تیار, تک, تھی۔, تھی۔”سابقہ, تھیں, تھے, تھا, تھا۔, تانکہ, تاتار, تب, تر, ترکی, تربیت, تسلسل, تصور, تعالٰی, تعداد, ثابت, جہتی, جن, جنہیں, جنگ, جو, جوئی, جیتے, جیسے, جیسا, جڑی, جے, جا, جانے, جانتا, جاوید, جاوید گوندل, جائیں۔اور, جاتی, جاتے, جاتا, جاتاہے۔, جاری, جاسکتا, جب, جبکہ, جرم, جزئیات, جس, جسے, جسکی, حفاظت, حفاظتی, حل”خصوصیت, حملہ, حیران, حیرت, حکم, حکمت, حکومتوں, حاصل, حد, حدود, حرکت, حصار, خلیفہ, خلاف, خلاء, خلاؤں, خچر, خود, خوشبودار, خیموں, خیمے, خانہ)۔مشکیزے, خاندانی, ختم, خدمات, خرچہ, خراج, خزانوں, خزانے, خصوصی, دفاع, دفاعی, دلی, دو, دونوں, دوڑ, دور, دوسری, دینے, دیگر, دیا, دیتے, دیتا, دیتاہے۔اس, دھاک, دئیے, دامادعلیؓ, دارالحکومت،, درپیش, دربار, درباریوں, درد, دستوں, دستے, دشمن, دشمنوں, ذیل, ذیادہ, ذات, ذریعیے, رہتی, رہتیں, رہتے, رہتا, روند, روا, رواج, روحانی, روز, ریاستوں, ریاستی, ریشم, رکھنے, رکھیں۔, رکھا, رکھاجائے, رکھتی, رکھتے, رکھتا, رپورٹ, راج, راجہ, راجوں, راجے, راجپوتوں, رتبہ, رسم, رضی, زمانہ, زیاہ, زیادہ, زاویے, سفارتی, سفر, سمجھا, سمجھتے, سمجھتا, سنگھے, سو, سونے, سونا۔, سوار, سوارں, سینکڑوں, سیاسی, سیاست, سُنی, سے, سے۔, سکیں“, سکتے, سپاہ, سپاہی, سپاہیوں, سامان, ساتھ, ساری, ساز, سازوسامان, سبھی, سترہویں, سر, سرکوبی, سرکاری, سرکشی, سرگرمیاں, سرانجام, سراؤں, سرائے, سردار, سزا, شہنشاہ, شہنشاہیت, شہر, شہروں, شہشنشاہ, شمولیت, شوکت, شامل, شان, شعیہ, صلاحیت, صلح, صوبیداروں, صور, صورتوں, صورتحال, صدی, ضروری, طور, طاقت, طرف, طرح, علیہ, علیؓ, علاوہ, عملی, عموماََ, عنہ), عیسوی, عام, عثمانؓ, عطیات, عظیم, غیر