RSS

Tag Archives: قوانین

جیو یا جیتا جاگتا پاکستان!۔


جیو گروپ ۔ آج یہ گروپ جو کچھ ہے۔ پاکستان کی بدولت ہے۔ اس نیٹ ورک اور اسکی ترقی پاکستان کی دین ہے۔ ایک کاروباری گروپ۔ جو کسی بھی قیمت پہ اپنی منڈی بڑھانا چاہتا ہے۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں کہ انہوں اور انکے بڑوں نے ہمیشہ صحافت کا بازو مروڑتے ہوئے اور زرد صحافت کرتے ہوئے۔ پاکستانی جائز ناجائز حکومتوں کی مدح سرائی اور کاسہ لیسی کرتے ہوئے سرکاری اشتہارات کے نام پہ زر کثیر اور سرمایہ کمایا ہے۔ اور انہی پالیسیوں سے یہ لوگ تین اورق کے اخبارات سے پاکستان اور خطے کے اتنے بڑے نیٹ ورک کے مالک بن گئے ہیں۔ اس ملک میں ابھی لاکھوں افراد اس بات کی گواہی دیں گے ۔ کہ اس گروپ نے صحافت کے نام پہ صحافت کو بیچا۔ اور اس میڈیا گروپ کو قائم کرے سے پہلے تک یہ لوگ ہمیشہ حکومت وقت کے مدح سرا رہے ہیں۔ اور ہر دور کی حکومت کی مدح سرائی کی ہے۔

اخبارات سے ٹی وی چینلز اور اب میڈیا کے ایک اور منفعت بخش میڈیم اور عوامی رائے بنانے کے ذریعے یعنی فلم بندی کے ذریعے پاکستانی فلم بینوں کو اپنی فلمز بنا کر سرمایہ کمانا اور معاشرے کی رائے عامہ تیار کرنے میں رسوخ حاصل کرنا ہے۔

اپنے کاروباری مفادات سے بڑھ کر پاکستان سے دلچسپی انھیں نہ تب تھی اور نہ اب ہے۔ اپنی مارکیٹ بڑھانے اور اپنی پراڈکٹس وسیع پیمانے پہ بیچنے کے لئیے۔ یہ گروپ چند سالوں سے بھارتی مارکیٹ کی طرف دیکھ رہا ہے۔ دہائیوں قبل جب انھوں نے دیگر پاکستانی اخبارات کے مقابلے پہ اپنے اخبارات کی سرکولیشن پاکستان کے اندر بڑھانا چاہی تھی اور ہر دور کی حکومتوں سے اشتہارات کے نام پہ زر خطیر اور مراعات حاصل کرنے کی خاطر ۔ تب اس گروپ کے اخبارات نے وطن پرستی اور حکومتوں کی کاسہ لیسی کو ایک پالیسی کے تحت معیار بنائے رکھا۔ مگر اب جبکہ ٹی وی چینلز جو سرحدوں کی ہر بندش سے آر پار صوتی و بصری لہروں کی صورت گزر جاتے ہیں۔ سیٹلائٹس کے ذریعیے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اور کوئی خاص سرمایہ کاری نہیں کرنی پڑتی۔ اس گروپ کو اب پاکستان کی مارکیٹ چھوٹی نظر آتی ہے۔ اور محض اپنے کاروبار ۔۔ کاروبار جس میں انکے مطمع نظر کے سامنے پاکستان کے مفادات سے وفاداری کبھی بھی مقصود نظر نہیں تھی۔ ۔ ۔ ۔ اس کاروبار کو وسیع اور اپنی مارکیٹ پرادکٹس کو بھارت میں بیچنے کے لئیے "امن کی آشا” جیسے بے ہودہ طریقے کا خیال سوجھا ہے۔

کیونکہ اگر بھارت اور پاکستان کے درمیان معاملات خراب ہوتے ہیں۔ تو یہ گروپ اپنے پراڈکٹس بھارتی مارکیٹ میں متعارف نہیں کرواپائے گا۔ اور اخلاقی طور پہ ہر وہ جواز کھو دے گا۔ جس سے یہ بھارتی مارکیٹ میں تجارت کر سکے۔ اور ایسی صورت میں پاکستانی کزیومرز بھی اس گروپ پہ دو لفظ بیھج دیں گے۔ بھارتی ناظر جو پاکستان اور عام پاکستانی سے حد درجہ بغض رکھتا ہے۔ اور انتہائی تنگ نظر ہے ۔ وہ اس گروپ کا نام لینا بھی گواراہ نہیں کرے گا ۔ایسے میں اس گروپ نے اس صورت کا بہترین حل جو سوچا ہے ۔۔ وہ ہے "امن کی آشا” خواہ اس کی قیمت یکطرفہ طور پہ پاکستان اور پاکستانی موقف کو قربان کر کے چکائی جائے۔ لیکن اس گروپ کے بڑوں کو شاید یہ علم نہیں کہ انہیں پھر بھی بھارتی مارکیٹ میں پزیرائی نہیں ملے گی کیونکہ بھارتی میڈیا اور عوام۔ مسلمانوں اور خاصکر پاکستان سے انتہائی درجے کا بغض رکھتے ہیں۔ جس سے اس گروپ کو نہ خدا ہی ملے گا نہ وصال صنم کے مصداق ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔

مگر آنے بہانے۔ نام نہاد روشن خیالی، بھارتی فلم انڈسٹری کی بے ہودہ خبروں اور گانوں کو اسقدر پرکشش انداز میں صرف چمکنے والی بے ہودگی کو پاکستانی عوام کے سامنے پیش کرکے پاکستانی عوام کو دہوکہ دینے۔ اور "امن کی آشا” کے نام پہ پاکستانی عوام کی خواہشات کے برعکس، بھارتی برتری کا ڈول ڈالنے سے۔ جو نقصانات "پاکستان” نامی کاز کو اس گروپ نے پہنچائے ہیں۔ ان نقصانات کا مداواہ کون کرے گا؟ جہاں تک امریکی آشیرباد سے دن گزارنے والے حکمرانوں کی بصیرت کا ذکر ہے کہ وہ قانون سازی یا پہلے سے موجودہ قوانین سے۔ ایسے شتر بے مہار قسم کے میڈیا کو جو اپنے مفاد کو ریاست پاکستان کے مفاد پہ ترجیج دیتا ہے ۔ وہ حکمران ایسے میڈیا اور مذکورہ گروپ کو لگام دینے کی کوشش کریں گے؟۔ ایسا سوچنا اپنے آپ کو دہوکہ دینے کے مترادف ہے۔ کیونکہ اپنے غیر اخلاقی اقدامات کو جائز ثابت کرنے والے حکمران ایسی کسی اخلاقی جرائت سے سرے سے محروم ہیں۔ اور ایسا میڈیا ، یہ گروپ اور حکمران اس معاملے میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے ہیں۔

یہ بات واضع ہے کہ جیو گروپ نے اپنی کاروباری ترجیجات پہ پاکستانی ترجیجات کو کبھی اہمیت نہیں دی۔ ہم الزام تراشی نہیں کرتے مگر ایک خبر یہ بھی گردش میں ہے۔ کہ امریکہ ملینز ڈالر پاکستانی کے ان اداروں اور صحافیوں کو رشوت دے رہا ہے۔ جو پاکستانی رائے عامہ پہ اثر انداز ہوتے ہیں اور پاکستانی موقف پہ ڈٹے رہنے کی بجائے اور امریکی مفادات کے حق میں پاکستانی رائے عامہ تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہماری بد قسمتی ہے۔ حکومت پہ وہ لوگ قابض ہیں۔ جو جہمور کی ۔ عوام کی جائز خواہشات کو سمجھنے اور پوری کرنے میں ناکام ہیں۔ فوج جو اپنے عوام کی حفاظت نہیں کرسکتی۔ جسے پاکستان کے اتحادی امریکہ کی افواج نے ایبٹ آباد حملے میں ملکی سالمیت اور سرحدوں کو روندتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ انہیں پاکستان یا پاکستانی افواج کی نہیں بلکہ صرف اپنے مفادات کی فکر ہے۔ خواہ اسکے لئیے پاکستان کی سالمیت، پاکستان کی سرحدوں کا تقدس اور ریاست پاکستان کے وقار کو ہی کیوں نہ روندنا پڑے۔ مگر بدستور افواج پاکستان دہشت گردی کے خلاف اس ننگ انسانیت نام نہاد جنگ میں اپنے آپ کو جھونک رہی ہے۔ جس سے پاکستانی فوج کے اہلکار اور عوام کی زندگیاں داؤ پہ لگ گئی ہیں۔۔ اسکے باوجود امریکی ڈراون طیارے جنہیں مار گرانا ہماری فوج کےلئیے کچھ خا ص مشکل نہیں ۔اس سے نہ صرف پاکستانی سر زمین کو آئے روز بے آبرو کیا جاتا ہے۔ بلکہ پاکستانی شہری اس میں شہید کئیے جاتے ہیں۔ اور فوج اور حکومت اسے پاکستانی سر زمین کی آبرو فاختگی تک تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اور میڈیا اور اسکا سب سے طاقتور گروپ ۔ جمہور یعنی عوام کی خواہشات اور رہن سہن اور اسلامی روایات کے بر عکس ہندؤ کلچر کو ہم پہ تھوپنے کی بھونڈی کوشش کرنے کی متواتر کاروائی جاری کئیے ہوئے ہے۔ اور عوام ہیں کہ کسی نشئی کی طرح بوٹی پیئے مدھوش ہیں۔ ہر تھپڑ پہ چہرے کا دوسرا رخ مزید تھپڑ کھانے کے لئیے سامنے کردیتے ہیں۔

حیرت ہوتی ہے اسقدر پر امن اور مسکین عوام کو مغربی میڈیا دنیا میں کیسے "دہشت گرد” مشہور کئیے ہوئے ہے؟۔

حکومت ۔ فوج، میڈیا، ان سب شتر بے مہاروں کو صرف دیانتدار قیادت سے قابو کیا جاسکتا ہے۔

آئیں ملکر دعا کریں۔ کہ اس "اوتر نکھتر” یعنی بانجھ قوم میں اللہ اپنے ایسے نیک بندے پیدا کرے۔ مسکین عوام کو انھیں درہافت کرنے کی بصیرت عطا کرے ۔ جو اس قوم کو منجدھاروں سے نکال کر پار لگا دیں اور قوم کی آنکھیں عقل و علم، فہم و ادراک۔ ہمت و محنت کے عمل سے وا کر دیں۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

مشکوک آئی پیز۔ گالم گلوچ اور قانون۔


مشکوک آئی پیز۔ گالم گلوچ اور قانون۔

محترمہ ! حجاب ِ شب !! کے بارے میں اردو بلاگنگ پہ سیر کرنے والے اس بات کی شہادت دینگے کہ ان کی تحریریں بے ضرر سی سلجھی ہوئیں اور عام سے موضوعات پہ اپنی سادگی کی وجہ سے انتہائی دلچسپ ہوتی ہیں۔ مگر انھیں اور دیگر بلاگرز کو گالیاں لکھی جارہی ہیں۔ اور ان سے اگر کسی کو کوئی اعتراض ہو گا تو شاید نام نہاد روشن خیالوں کو مگر "اہمیت آپا” باوجود اپنی کم علمی اور اضافی روشن خیالی اور انکے "بغل بچے” سے یہ امید نہیں کی جاتی کہ وہ اسقدر لغو حرکت پہ اتر آئیں گے۔ ویسے بھی اختلافات اپنی جگہ سبھی اردو بلاگستان کے حسین پھول ہیں جن کے دم سے اردو بلاگستان پہ رونق ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ جزاک اللہ بریگیڈ کے ساتھ انٹر نیشنل مرازئیت کو ذیادہ تکلیف ہے ۔ کیونکہ وہ بھی مولوی اور ملا سے چڑے ہوئے ہیں اور پاکستان میں اپنے عزائم کی راہ میں مولوی اور ملا صاحبان کو بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں ۔ایسا کچھ عرصے سے بہت سے بلاگرز کےساتھ یوں ہوتا آرہا ہے۔ اور اسمیں ایک بات مشترک ہے کہ انہی بلاگرز کے ساتھ یوں ہوتا ہے جو اپنے مسلمان ہونے پہ فخر محسوس کرتے ہیں۔
MULA@YAHOO.COM
174.36.29.73

اس آخری والی آئی پی سے کسی نے مجھے بھی اوپر والے نام سےغلیظ گالیاں لکھ بیجھی تھیں۔ یہ آئی پی کی رجسٹریشن "ویسٹ ڈیلاس” امریکہ میں "پارک ہاؤس اسٹریٹ” سے ساڑھے پانچ سو فٹ اور کانٹنیٹل ایو سے بمشکل پونے دو سو فٹ پہ واقع ہے۔

پوری یورپی یونین اور اسپین میں خاصکر آجکل انٹر نیٹ کو عام استعمال کی شئے بنانے کے لئیے جہاں بلاگنگ اور فورمز وغیرہ بنانے اور آزادی اظہار رائے کو قوانین کے تحت تحفظ کو مزید بہتر کیا جارہا ہے وہیں۔ کسی کو ای ۔ میل اور بلاگ یا فورم اٰیڈریس پہ جسے قوانین میں ایک طرح کی ای میل ہی سمجھا جاتا ہے کے ذریعے دھمکی دینا۔ فراڈ کرنا۔ یا گالی گلوچ یا بچوں کو ڈبل ایکس ریٹیڈ یا تشدد پہ مبنی وغیرہ لنک بیجھنے سے متعلق بہت سخت کئیے جارہے ہیں ۔

عرصہ دراز سے اسپین کی انٹر نیت سے سائینٹیفک پولیس اس بارے تفتیش میں یوروپ وغیرہ میں کلیدی رول کرتی آئی ہے۔ اور نہائت جانفشانی سے کم عمر بچون سے متعلق فاحش سائٹس اور بنکنگ فراڈ سے ۔عام آدمی کے تحفظ اور کم عمر بچوں کے انٹر نیٹ پہ حقوق کی حفاظت سے متعلق۔ اور کسی کو دھمکی ، اسپیم میلز، یا زبردستی کی کاروباری معلومات جب صارف نے منع کر رکھا ہو۔ اور گالی گلوچ ، ذاتی، سیاسی، مزھبی (اسلام، عیسائت ، یہودیت کوئی سا بھی مذھب ہو کہ تینوں مزاھب یہاں سرکاری طور پہ تسلیم شدہ مذھب ہیں) یا کسی کے عقیدے کی وجہ سے اسے ای میلز کے زرہئے توہین کرنا وغیرہ سختی جرم تصور کیا جاتا ہے۔ اور اس جرم کا پیچھا کرنے کی کوشش کی جاتی خواہ اسکا پتہ لگانے کے لئیے کسقدر ہی پیچیدگی کا سامنا کرنا پڑے اور اسکے ڈانڈے اسپین یا یوروپی یونین سے باہر کسی تیسرے ملک سے جا ملیں۔ وہاں کی پولیس کو شامل کو کیس کی تفتیش کرنے کی استدعا کی جاتی ہے۔

وجہ اسکی صرف یہ ہے کہ اسپین اور اسکے علاوہ دنیا کے بے شمار ممالک بجلی اور فون کے بلز سے لیکر بینکوں میں رقوم ٹرانسفر کرنے اور گھر بیٹھ کر اپنے اکاؤنٹس کو آپریٹ یا ہینڈل کرنا جسے آن لائن بینکنگ کا نام دیا گیا ہے۔ لاکھوں بلکہ کروڑوں یوروز کی نقل حرکت روازانہ انٹر نیٹ پہ ہوتی ہے۔ آلو ، کھیرے اور ٹماٹر جیسی روز مرہ کی باورچی خانے کے عام استعمال کی اشیاء سے لیکر ریلوے، بسوں، ہوائی جہازوں اور بحری جہازوں کے ٹکٹس کے علاوہ کسی قسم کی کوئی بھی چیز انٹر نیٹ پہ خریدنے کا رواج عام ہے۔

انتہائی مصروف وزارتوں کا بوجھ انٹرنیٹ پہ منتقل کردیا گیا ہے۔ جس پہ صارف اپنی سہولت سے گھر بیٹھے عام معاملات نمٹا لیتا ہے۔ اور مختلف قسم کے سرٹیفیکیٹس کا اجرا اور دستاویزات اپنے پرنٹ کرتے ہوئے وزارتوں کے دفاتر سے بچتا ہے وقت اور پیسے کے ضیاع سے بچ جاتا ہے وہیں بڑی بڑی منسٹریز کا کام کم ہونے کی وجہ سے بہت کم لوگ وہاں ملازم رکھے جاتے ہیں اور عمارتوں اور سیٹنگز ہالوں سے جان چھوٹنے سے اخراجات میں کمی ہوتی ہے، یعنی سہولت اور بچت، عوام اور حکومت دونوں کے مفاد میں ہونے کی وجہ سے انٹر نیٹ کو رواج دئیے اور اسطرح کی سہولتیں یعنی ڈاکٹرز سے مشورہ۔ یا فیملی ڈاکٹر سے ملاقات کا وقات طے کرنا یہ سب انٹر نیٹ کی وجہ سے آسان اور سستا ہوگیا ہے۔

اسپین اور اسطرح کے دیگر ممالک ہر سال انٹرنیٹ کے استعمال ، اسے سادہ بنانا، صارفین کو اسکے استعمال کرنے کو قائل کرنا، وغیرہ کے لئیے ۔ یہ ممالک اپنے اہداف مقرر کرتے ہیں اور پھر اسے حاصل کرنے کے لئیے مناسب تہشیر اور بجٹ مقرر کرتے ہیں۔

اسلئیے انٹر نیت پہ گھومتی معلومات اور انکے تحفظ کے لئیے اسپین اور دیگر ممالک بہت کوشاں ہیں۔ اس حوالے سے اسپین سائبر کرائمز سے متعلق سائنٹفیک پولیس نہائت متحرک ہے اور مقبولیت اور اہلیت رکھتی ہے۔ اور اسے اردگرد کے ممالک میں بھی نہائت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور انکے کام کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔

کچھ عرصہ پہلے انٹر نیٹ پہ گھومتی لاٹری جس میں بطور خاص خواتین اور بزرگ شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا ۔کے ایک سلسلے میں سائبر جرائم سے متلق پولیس کو آگاہ کرنے کی وجہ سے بات چیت کا موقع ملا ۔ تو بہت سے امور پہ روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بہت سے لوگ صرف اسلئیے اپنی ہیرا پھریوں میں کامیاب رہتے ہیں یا دوسروں کو ای۔ میلز وغیرہ سے تنگ کرتے ہیں۔ کیونکہ ایسے لوگوں کے خلاف لوگ پولیس سے رجوع کرنے کی بجائے ایسی ایسی مشکوک میلز ڈیلیٹ کر دینا ایک آسان حل سمجھتے ہییں

سائبر کرائم سے متلعقہ اسپین کی سائنٹفک پولیس کے افیسرز نے بتایا کہ "ہر شہری کا یہ حق ہے کہ اگر کوئی اسے اسطرح کی حرکت کی وجہ سے تنگ کر رہا ہے تو وہ ہمیں اطلاع کرے ۔ ہم مکمل چھان بین کریں گے۔ نیز جعلی آئی پیز سے کی گئیں ای۔ میلز اور اسطرح کے دوسرے سافٹ وئیرز سے جس میں فیک یا جعلی آئی ڈی آئی پیز سے گالی گلوچ کر کے اگر کوئی یہ تصور کرتا ہے کہ وہ اپنی اصلی آئی ڈی اور آئی پی چھپا لے گا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے ۔ کیونکہ پولیس کے لئیے ایسی ای میل کے مبنع کا سراغ لانا قطعی مشکل نہیں ۔ اور دوسرے ممالک کی پولیس سے اس بارے کاروائی کرنے کی استدعا کرنا ہمارے فرض میں آتا ہے۔ ورنہ لوگ انٹر نیٹ کو استعمال کرنے سے ہچکچائیں گے اور انکا اعتماد انٹر نیٹ پہ نہیں بڑھے گا اور حکومت کو اپنے اہداف حاصل کرنے میں مشکل ہوگی۔ آزادی اظہار رائے ہر انسان کا حق ہے اور کھلے عام بحث میں کوئی بھی فرد اپنے جزبات کا اظہار کر سکتا ہے ۔ مگر کسی کو دہمکی دینا یا صاحب بلاگ کا منع اور بلاک کرنے کے باوجود اسے اسپیمز سے تنگ کرنا ، یا بغیر اجازت کے کاروباری اشیاء فروخت کرنے کے لئیے تشہیر کرنا ۔ گالی گلوچ دینا جرم تصور کیا جاتاہے۔ جن میں مختلف جرمانوں سے لیکر قید تک کی سزا دی جاتی ہے”۔

اور میں سوچ رہا ہوں ۔MULA@YAHOO.COM 174.36.29.73 اسکے بارے آگاۃ کر دوں۔ یا ایک موقع اور دوں شاید یہ خباثت سے باز آجائے۔

ذیل میں وہ آئی پیز اور انکے ایڈریس ہیں جن کے بارے محترمہ حجاب نے لکھا ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ……..— …… —– …… —– ……………— …… —– …… —– …….
xamples: 213.86.83.116 (IP address) or google.com (Website)
178.162.134.29 IP address location & more:
IP address [?]: 178.162.134.29 [Whois] [Reverse IP]
IP country code: DE
IP address country: Germany
IP address state: n/a
IP address city: n/a
IP address latitude: 51.0000
IP address longitude: 9.0000
ISP of this IP [?]: Leaseweb Germany GmbH (previously netdirekt e. K.)
Organization: Leaseweb Germany GmbH (previously netdirekt e. K.)
Host of this IP: [?]: 178-162-134-29.local [Whois] [Trace]

……..— …… —– …… —– ……………— …… —– …… —– …….
178.162.131.60 IP address location & more:
IP address [?]: 178.162.131.60 [Whois] [Reverse IP]
IP country code: DE
IP address country: Germany
IP address state: n/a
IP address city: n/a
IP address latitude: 51.0000
IP address longitude: 9.0000
ISP of this IP [?]: Leaseweb Germany GmbH (previously netdirekt e. K.)
Organization: Leaseweb Germany GmbH (previously netdirekt e. K.)
Host of this IP: [?]: 178-162-131-60.local [Whois] [Trace]

……..— …… —– …… —– ……………— …… —– …… —– …….

174.36.29.73 IP address location & more:
IP address [?]: 174.36.29.73 [Whois] [Reverse IP]
IP country code: US
IP address country: United States
IP address state: Texas
IP address city: Dallas
IP postcode: 75207
IP address latitude: 32.7825
IP address longitude: -96.8207
ISP of this IP [?]: SoftLayer Technologies
Organization: EasyTech
Host of this IP: [?]: 174.36.29.73-static.reverse.softlayer.com [Whois] [Trace]
Local time in United States: 2011-06-12 16:09

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , ,

 
%d bloggers like this: