RSS

Tag Archives: قرآن

یومِ تحفظ ختمِ نبوتﷺ ‏۔


youm e khtam e naboowaut

youm e khtam e naboowaut


یومِ تحفظ ختمِ نبوتﷺ ‏۔
فتنہِ قادیانیت اور پاکستان


7 ستمبر 1974ء ۔سات ستمبر انیس چوہتر سنہ ء کا دن۔ پاکستان کی تاریخ کا تابناک دن ہے ۔جس دن قادیانیوں ، المعروف مرزائیوں۔ المعروف احمدیوں بشمول لاہوری گروپ کو پاکستان کی پارلیمنٹ سے متفقہ طور پہ آئین کی رُو سے کافر قرار دیا گیا تھا ۔اور اس مرحلے تک پہنچنے کے لئیے مسلمانوں نے اپنی ان گنت جانوں کا نذارنہ پیش کیا تھا۔ اور ایک نہائیت لمبی ۔ کھٹن اور صبر آزماجدو جہد کی تھی ۔اور اگر اس طویل جد و جہد پہ روشنی ڈالی جائے ۔تو بلا مبالغہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئیے کی گئی کوششوں کو بیان کرنے کے لئیے ۔کئی صخیم کتب لکھنی درکار ہونگی ۔ اسلئیے ہم کوشش کریں گے کہ دین اسلام کے اس موجودہ اور تاریخ اسلام کے غالباً سب سے بڑے فتنے ” قادیانیت“  پہ اپنی سی حد تک روشنی ڈالیں۔

عقیدہ ختم نبوت ﷺ پہ اسلام کی اساسی بنیاد کھڑی ہے ۔اگر عقیدہ ختم نبوت ﷺ پہ آنچ آتی ہے تو براہِ راست ایمان اور اسلام پہ آنچ آتی ہے ۔ عقیدہ ختم نبوت ﷺ پہ قرآن کریم کی ایک سو سے زائد آیات اور دو سو سے زائد احادیثِ نبوی ﷺ موجود ہیں۔

عقیدہ ختم نبوت ﷺ کا تحفظ ہر مسلمان کا فرض اور نبی کریم ﷺ کے امتی ہونے کے دعویدار پہ فرض اور یومِ قیامت کو نبی کریم ﷺ کی شفاعت کا باعث ہے۔
عقیدہ ختم نبوت ﷺ پہ پوری مسلمان امت کا قرون ِ اولٰی سے یہ اجماع رہاہے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔ اور نبوت نبی کریم محمد ﷺ پہ ختم ہے ۔ اور تحفظِ ختم نبوت ﷺ کے عقیدے کے لئیے مسلمانوں کو بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئیے ۔

تحفظ ختمِ نبوتﷺ ‏ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے ہے کہ خاتم الانبیاء نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کے دوران اسلام کی خاطر جان دینے والے۔ بشمول بڑے ۔ بچے ۔ خواتین اورضعیفوں  کے۔  شہداءکی کل تعداد دو سو اناسٹھ 259 تھی ۔ کفار کے جہنم واصل ہونے والوں کی کل تعداد سات سو اناسٹھ 759 تھی۔ جو کل ملا کر ایک ہزار ایک سو اٹھارہ 1018 بنتی ہے۔ مگر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں جب مسلیمہ کذاب نے جھوٹی نبوت کا دعواہ کیا ۔تو عقیدہ ختم ِ نبوت کے تحفظ کی خاطر جنگ میں بائیس ہزار 22000 مرتدین کو تہہ تہیغ کیا گیا۔ اور بارہ سو کے قریب 1200کے قریب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جامِ شہادت نوش کیا ۔ جن میں سے چھ سو 600 قران کریم کے حافظ اور قاری رضی اللہ عنہم شہید ہوئے ۔ اس جنگ میں غزوہ بدر کے غازی اصحابہ اکرام رضی اللہ عنہم نے بھی جامِ شہادت نوش کیا۔ یعنی اس بات سے اندازہ لگایا جائے کہ تحفظ عقیدہ ختم نبوت ﷺ کی خاطر صرف ایک جنگ میں نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں شہید ہونے والے کل شہداء  سے  کئی گنا زائد مسلمان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے۔ اور نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں جہنم واصل ہونے والے  کافروں  سے  کئی گنا زائد مرتد  محض اس  ایک جنگ میں قتل ہوئے ۔

عقیدہ ختم نبوت ﷺ مسلمانوں کے نزدیک اس قدر حساس عقیدہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے نزدیک خاتم الانبیاء نبی کریم ﷺکے بعد نبوت کے کسی مدعی سے اسکی نبوت کی دلیل یا معجزہ مانگنا بھی اس قدر بڑا گناہ ہے کہ اسے کفر قرار دیا ہے۔ یعنی ایک مسلمان کا عقیدہ ختم نبوت ﷺ پہ اس قدر ایمان مضبوط ہونا چاہئیے کہ وہ نبوت کے دعویداروں سے اسکی نبوت کی دلیل یا معجزہ نہ مانگے ۔ بلکہ نبوت کے جھوٹے دعویدار کو اسلام کی تعلیمات کے مطابق سزا دے ۔اس لئے ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ عقیدہ ختم نبوت ﷺ کے لئیے اپنا کردار ادا کرے ۔ نئی نسل اور آئیندہ نسلوں کے ایمان کی حفاظت کی خاطر قادیانیت کے کفر اور ارتداد کا پردہ چاک کرے تانکہ روز قیامت سرخرو ہو اور خاتم الانبیاء نبی کریم ﷺ کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔

قادیانی اپنے آپ کو’’ احمدی ‘‘کہلواتے ہیں ۔ قادیانی اپنے آپ کو مسلمان اور مسلمانوں کو کافر شمار کرتے ہیں ۔ اور اس رُو سے قادیانی نہ صرف کافر ہیں بلکہ زندیق بھی ہیں ۔ جو اپنے کفر کو دہوکے سے اسلام اور اسلام کو کفر بیان کرتے ہیں۔ اور یوں مسلمانوں کو دہوکہ دیتے ہیں ۔قادیانیوں کے نزدیک جس دین میں نبوت جاری نہ ہو وہ دین مردہ دین ہے۔اور یوں قادیانی ۔ اسلام کو نعوذ باللہ مردہ دین قرار دیتے ہیں۔قادیانیوں کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام سولی پر لٹکا ئے گئے۔ قادیانی مکہ مکرمہ کی طرح قادیان کو ارض حرم قرار دیتے ہیں ۔انگریز کی اطاعت کو واجب قرار دیتے ہیں ۔اور انگریزوں کی ہدایت پہ مرزا نے جہاد کو غداری قرار دیا ۔قادیانی جہاد کے خلاف ہیں۔

مرزا غلام احمد قادیان کے بارے سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے ستمبر 1951 ء میں کراچی میں عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا ۔ ”تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی میں یہ کمزوریاں اور عیوب تھے۔ اس کے نقوش میں توازن نہ تھا۔ قدوقامت میں تناسب نہ تھا۔ اخلاق کا جنازہ تھا۔ کریکٹر کی موت تھی۔ سچ کبھی نہ بولتا تھا۔ معاملات کا درست نہ تھا۔بات کا پکا نہ تھا۔ بزدل اور ٹوڈی تھا۔تقریر و تحریر ایسی ہے کہ پڑھ کر متلی ہونے لگتی ہے لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اگر اس میں کوئی کمزوری بھی نہ ہوتی۔ وہ مجسمہ حسن و جمال ہوتا ۔قویٰ میں تناسب ہوتا۔چھاتی45 انچ کی۔کمر ایسی کہ سی آئی ڈی کو بھی پتہ نہ چلتا۔ بہادر بھی ہوتا۔کریکٹر کا آفتاب اور خاندان کا ماہتاب ہوتا۔ شاعر ہوتا۔ فردوسی وقت ہوتا۔ابوالفضل اس کا پانی بھرتا۔خیام اس کی چاکری کرتا۔غالب اس کا وظیفہ خوار ہوتا۔انگریزی کا شیکسپیئر اور اردو کا ابوالکلام ہوتا پھر نبوت کا دعویٰ کرتا تو کیا ہم اسے نبی مان لیتے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ میاں! آقا ﷺکے بعد کائنات میں کوئی انسان ایسا نہیں ۔جو تخت نبوت پر سج سکے اور تاج نبوت و رسالتﷺجس کے سر پر ناز کرے“۔

فتنہ ِ قادیانیت کا بانی اور اسکے جانشین ۔
فتنہ ِ قادیانیت کا بانی مرزا غلام احمد کذاب انگریزی دور میں موجودہ بھارت میں واقع قادیان (تحصیل بٹالہ ،ضلع گورداسپور،مشرقی پنجاب ، بھارت) میں اٹھارہ سو انتالیس یا چالیس 1839ء یا 1840 سنہ عیسوی میں پیدا ہوا۔اور اسی قادیان کی مناسبت کی وجہ سے قادیانی اور اسکے فتنے کو قادیانی فتنہ یا قادیانیت قرار دیا گیا ۔جبکہ مرزا ئی ۔ قادیانی اپنے آپ کو احمدی کہلوانے پہ مصر ہیں۔ اور ان میں بھی دو فرقے ہیں ۔ قادیانیوں کا دوسرا فرقہ لاہوری گروپ ہے۔
برصغیر ہندؤستان پہ قابض انگریزوں کی چھتری تلے مرزا غلام احمد قادیان نے 1883ء سے 1908ء تک اپنے آپ کو بتدریج مُلھم۔ محدث۔ مامور مِن اﷲ۔ امام مہدی ۔مثیلِ مسیح۔مسیح ابن مریم۔نبی۔حاملِ صفات باری تعالی ۔ا ور اس کے علاوہ بھی بہت سے لغو۔ متضاد اور اگنت دعوے کئیے ۔ اور دو مئی انیس سو آٹھ 2 مئی 1908 کو ہیضے میں مبتلاء ہو کر لاہور میں ہلاک ہوا۔ جسکے بعد حکیم نور دین اس فتنے کا  جانشین اول (قادیانیوں کے نزدیک خلیفہ اول)ٹہرا۔اور تین مارچ انیس سو چودہ 3 مارچ 1914 سنہ ء کو نوردین کے مرنے کے بعد قادیانی جماعت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ۔ قادیان جو اس فتنہِ خباثت کا مرکز تھا۔ اس پہ مرزا غلام احمد قادیان کے بیٹے مرزا محمود نے قبضہ جما لیا۔ اور قادیانی حصے کے دوسرے دھڑے کا سربراہ مرزا محمد علی ٹہرا اور مرزا محمد علی نے لاہور کو اپنا مرکز بنایا۔

پاک بھارت باؤنڈ ری کمیشن ریڈ کلف کو۔ قادیانیوں نے اپنے آپ کو باقی مسلمانوں سے الگ ظاہر کرتے ہوئے۔ ایک فائل بنا کر دی  کہ  ہم مسلمانوں سے الگ ہیں۔ لہٰذاہ ہمیں قادیان میں الگ ریاست دی جائے ۔ جس پہ پاک بھارت باؤنڈ ری کمیشن نے انکار کر دیا۔ انکار کے بعد مرزا غلام احمد قادیان کے بیٹے مرزا محمود (قادیانیوں کے نزدیک خلیفہ دوئم ) نے پاکستان کے ضلع چنیوٹ میں ایک مقام (چناب نگر) کو ”ربوہ“ کا نام دے کر اسے قادیانیت کا مرکز بنایا۔ مرزا کے جانشین دوئم کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے مرزا ناصر (قادیانیوں کے نزدیک خلیفہ سوئم )نے قادیانیوں کی  جانشینی سنبھالی ۔

10اپریل 1974ء کو رابطہ عالم اسلامی نے مکہ مکرمہ میں قادیانیوں کو متفقہ طور پہ کافر قرار دیا۔

7ستمبر 1974ء کو ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کی دونوں جماعتوں ۔ قادیانی اور لاہوری گروپ کو ہر دو گروہوں کو خارج از اسلام قرار دینے کا متفقہ دستوری اور تاریخ ساز فیصلہ کیا ۔ اور آئین کی رُو سے قادیانیوں ۔ بشمول قادیانیوں کے لاہوری گروپ کو کافر قرار دیا ۔اور آئین کی رُو سے قادیانیوں پہ انکے کفر کی وجہ سے  ریاستِ پاکستان میں کلیدی عہدوں پہ پابندی لگا دی گئی۔

9جون 1982ء کو مرزا ناصر کے مرنے کے بعد اس کا چھوٹا بھائی مرزا طاہر قادیانی کفریہ جماعت کا چوتھا سربراہ بنا۔

آئین پاکستان کی رُو سے کافر قرار دئیے جانے کے باوجود قادیانی مرزا غلام احمد قادیان کی پیروی اور اپنی فطرت کے عین مطابق اپنے آپ کو مسلمان قرار دے کر اور مسلمانوں کو کافر قرار دے کر بدستور سادہ لوح مسلمانوں کو دہوکے سے  ورغلاتے رہے ۔ اور اپنے اثر رسوخ میں اضافہ کرنے کی کوششوں سے باز نہ آئے ۔ تو قادیانیوں کو ان کے مذموم کفرانہ عزائم سے باز رکھنے کے لئیے ۔ پاکستان کے اس وقت کے صدر ضیاء الحق نے چھبیس اپریل انیس سو چوراسی ۔26 اپریل1984ء کو’’امتناع قادیانیت آرڈیننس‘‘ نامی آڑدیننس جاری کیا۔ تو ٹھیک چار دن بعد

یکم مئی 1984ء یکم مئی انیس سو چوراسی کو کو مرزا طاہرپاکستان سے لندن بھاگ گیا اور 18اپریل 2003ء  کو مرنے کے بعد اسے وہیں دفنایا گیا۔

جہاں سے قادیانی بڑے زور شور سے مسلمانوں اور اور خاصکر پاکستان اور پاکستانی مسلمانوں کے خلاف متواتر جھوٹا پروپگنڈاہ کرتے ہیں ۔ سادہ لوح مسلمانوں کودہوکہ دے کر  اپنے جال میں پھنساتے ہیں ۔ انہیں باہر سیٹ کروانے کا لالچ دے کر۔ اسلام سے بر گشتہ کرتے ہیں۔ اور قادیانیت کے نام پہ مغربی ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کرنے میں مدد کرتے ہیں ۔ جس سے، جہاں قادیانی کفریہ جماعت کی جھوٹی مظلومیت کا خُوب پروپگنڈہ کیا جاتا ہے ۔ وہیں کم علم ۔ سادہ اور غریب مسلمانوں کودہوکے سے  ورغلا کر قادیانی اپنی جماعت میں اضافے کی کوشش کرتے ہیں۔ عالم اسلام اور پاکستان کے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔ قادیانیت کے پاکستان کے خلاف مذموم سازشوں کے تانے بانے بھارت اور اسرائیل سے جا ملتے ہیں۔انٹر نیٹ پہ بھی خوب فعال ہیں ۔ لیکن اب دین سے محبت کرنے والے بہت سے مسلمان نوجوانوں نے قادیانیت کے خلاف اور اس کے سدباب کے لئیے بہت سے فوروم اسلام کی حقانیت خاطر  ۔ قادیانیت کے خلاف قائم کر لئیے ہیں ۔ جہاں سے شب و روز قادیانیت کا بھانڈاہ پھوڑنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے ۔اور جب قادیانیوں کو اسلام کی دعوت دی جائے تو لاجواب ہو کر آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں۔ اور ایک نظام کے تحت تربیتی طور پہ موضوع کو ادہر ادہر گھمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ملا اور مولوی صاحبان چونکہ پاکستان میں فتنہ قادیانیت کے سب سے بڑے نقاد ہیں۔ تو قادیانی ملا اور مولوی کی سخت تضحیک کرتے ہیں۔ اور مسلمانوں کو مولوی اور ملا کے دین کا طعنہ دیتے ہیں۔

قادیانی بھیس بدل کر اور ڈھکے چھپے ابھی تک پاکستان میں اپنے کفرانہ عزائم کا پرچار کرتے ہیں۔ پاکستان کی حکومتوں میں سیاسی وِ ل ۔ سیاسی خود اعتمادی اور دین سے مکمل شعف نہ ہونے کی وجہ اور عالمی استعمار سے پاکستان کی حکومتوں کا خوفزدہ ہونے کی وجہ سے ۔قادیانی پاکستان میں ابھی تک کُھل کھیل رہے ہیں۔ صرف ایک اس واقعہ سے اندازہ لگا لیں کہ قادیانی پاکستان میں کس قدر مضبوط تھے (اور ابھی تک ہیں ) کہ  مولانا سید ابو اعلٰی موددیؒ کو قادیانیت کے خلاف ”قادیانی مسئلہ “ نامی چھوٹی سی کتاب لکھنے پہ پاکستان میں  مولانا سید مودودی ؒ کو سزائے موت سنائی گئی ۔ جسے اندرونی اور عالمی دباؤ کی وجہ سے عدالت عالیہ نے منسوخ کر دیا ۔ اور مولانا سید ابو اعلٰی موددیؒ نے دو سال گیارہ ماہ جیل کاٹنے کے بعد رہائی پائی ۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ چونکہ قادیانی اگر انٹرنیٹ پہ اسلامی اور مسلمان ناموں کے پردے میں مسلمانوں کو دہوکہ دیتے ہیں ۔ تو یہ معاملہ ریاست پاکستان کی روز مرہ کی زندگی میں اور بھی زیادہ شدید ہوجاتا ہے اور اس مسئلے کی وجہ سے عام مسلمان قادیانیوں سے دہوکہ کھا جاتے ہیں۔ اور اسے مسئلے کو مستقل بنیادوں پہ حل کیا جانا بہت ضروری ہے۔
قادیانی نہ صرف کافر ہیں ۔بلکہ اسلام کے پردے کے پیچھے چھپ کر منافقت کرنے والے منافق ہیں ۔اور مسلمانوں کو دہوکہ دیتے ہیں ۔ اور صرف اسی پہ بس نہیں بلکہ یہ اپنے کفر کو اسلام اور مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں ۔ اس لئیے زندیق ہیں۔ یعنی جو کافر اپنے آپ کو مسلمان کہلوا کر مسلمان کو کافر کہے۔یوں سادہ لوح مسلمانوں اور غیر مسلموں کو اسلام کا جھانسہ دے کر ۔دہوکے سے اپنے کفر میں شامل کرتے ہیں۔
قادیانیت مذہب نہیں بلکہ مافیا کارٹیل ہے۔ جو مسلمانوں اور باالخصوص پاکستان اور پاکستانی مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئیے پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر نہائت سرگرمی سے مصروف عمل ہے۔ اور اپنے ان مذموم عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئیے اس قادیانیت کے ڈانڈے بھارت اور اسرائیل سے جاملتے ہیں۔

چونکہ یہ فتنہ ارتداد اور جھوٹی نبوت کی لعنت انگریزوں کی چھتری تلےبرصغیر میں پیدا ہوئی۔ اور پاکستان بننے کے بعد اس لعنت نے پاکستان میں پرورش پائی۔ اسلئیے آزاد اور اسلامی پاکستان کا یہ فرض بنتا تھا۔ اور بنتا ہے ۔ اور جیسا کہ آئین پاکستان کی رُو سے مرزا غلام احمد قادیانی، مرزائی ۔ المعروف احمدی بشمول لاہوری گروپ ۔ کافر ہیں اور اپنی عبادتگاہوں کو مساجد نہیں کہلوا سکتے۔ کہ مساجد مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے۔ اور اس طرح کی دیگر پابندیاں۔ ان پہ انکے کفر کی وجہ سے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا آخری نبی نہ ماننے کی وجہ سے ہیں۔ اسی طرح یہ پاکستان اور پاکستانی مسلم عوام کی دینی اور اخلاقی ذمہ داری میں آتا تھا۔ اور آتا ہے۔ کہ قادیانیوں ۔ مرزائیوں المعروف احمدیوں کو دین اسلام کے نام پہ انکے کفر اور دہوکہ دہی سے نہ صرف روکا جائے ۔بلکہ باقی دنیا کو انکے بارے مناسب طور پہ آگاہ کیا جائے۔ تانکہ یہ اپنی اسلام دشمنی اور کفر کو اسلام کا نام دے کر۔ سادح لوح مسلمانوں اور غیر مسلموں کو مزیددہوکہ نہ دے سکیں۔

دنیا کے سبھی مذاہب ۔اپنےناموں کی ترتیب کچھ یوں رکھتے ہیں۔ کہ پڑھنے سننے والوں کو انکے بارے علم ہو جاتا ہے ۔کہ وہ کونسے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔اور چونکہ بر صغیر میں صدیوں سے مختلف مذاہب رہتے آئے ہیں۔ اور ان مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا روز مرہ زندگی میں آپس میں واسطہ پڑنے پہ کسی کے مذہب کے بارے غلط فہمی سے بچنے کے لئیے – اس مسئلے کا حل سبھی مذاہب کے پیروکاروں نے۔ اپنے اپنے مذہب کا برملا اعتراف کرتے ہوئے ۔عوامی سطح پہ حل نکالا ۔کہ اپنے نام اپنے مذاہب کی زبان میں ۔اور اپنی مذہبی کتب میں پائے جانے والے ناموں کو رکھنے میں نکالا ۔مثلا ہنود نے ہندی میں نام رکھے۔ اور مسلمانوں نے عربی یا فارسی کے نام اپنائے۔ اور جہاں مشترکہ ناموں کی وجہ سے دہوکے ہونے کا خدشہ ہوا ۔ وہاں اپنے نام کے ساتھ اپنے مذہب کا لاحقہ لگا دیا ۔ مثلا سکھوں نے سنگھ ،جیسے اقبال سنگھ۔ گلاب سنگھ۔ اور نصرانیوں نے مسیح کا لاحقہ ۔استعمال کیا جیسے ،اقبال مسیح اور یونس مسیح وغیرہ۔ اور ایسا کرنے کے لئیے نہ تو کسی کو مجبور کیا گیا۔ اور نہ ہی یوں کرنے میں کسی بھی مذہب کے ماننے والوں نے اسے اپنے لئیے باعث پریشانی یا ندامت سمجھا ۔بلکہ اپنے اپنے مذہب پہ یقین کی وجہ سے انہیں ایسا کرنے میں کبھی کوئی تامل نہیں ہوا۔جبکہ اسلام دشمن قادیانی ۔ مرزائی المعروف احمدی اسلام اور آئین پاکستان کی رُو سے کافر اور شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ہونےکے باوجود پاکستان میں ہی مسلمانوں کے نام رکھ کر مسلمانوں کو اپنے کافرانہ عزائم خفیہ رکھتے ہوئے دہوکہ دیتے ہیں۔ اس لئیے


اسلام اور پاکستان کے وسیع تر مفاد کے لئیے ہمارا مطالبہ ہے :۔
کہ ریاست پاکستان اور پاکستانی عوام پہ یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ قادیانیوں المعروف مرزئیوں کو مسلمانوں کے نام رکھنے ۔ لکھنے۔ بیان کرنے سے منع کرے ۔ اگر یوں فوری طور پہ ممکن نہ ہو تو انہیں اپنے ناموں کے ساتھ قادیانی لکھنے۔ اور قادیانی بتانے کا پابند کرے ۔ تانکہ مسلمان ناموں کے پردوں میں چھپ کر قادیانی۔ پاکستانی مسلمانوں کو دہوکہ نہ دے سکیں۔اس کے لئیے ضروری ہے کہ دین ِ اسلام اور اللہ کے آخر ی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے تقاضے کے تحت آئین پاکستان کی رُو سے آئین میں یہ واضح طور پہ درج کیا جائے ۔ کہ جس طرح پاکستان میں دیگر بسنے والے مذاہب اپنے بارے میں محض نام سے ہی واضح کر دیتے ہیں کہ وہ کونسے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔ تانکہ معاشرے میں روز مرہ آپس کے معاملات میں کسی فرد کو دوسرے کے مذہب کے بارے مغالطہ نہ لگے ۔ اسی طرح قادیانی بھی اپنے نام کے ساتھ قادیانی لکھنے کی پابندی کریں۔

عقیدہ ختم ِ نبوتﷺ کے لئیے عالم اسلام اور بر صغیر کی انگنت شخصیات اور علمائے اکرام نے انتھک محنت کی اور کر رہے ہیں۔ جن سب کا فردا فردا نام گنوانا یہاں ناممکن ہے ۔

قادیانیت کے سدِ باب کے لئیے کام کرنے والی تنظیمیں۔

  • ختم نبوتﷺ فورم :۔
    انٹر نیٹ پہ  ” ختم نبوت ﷺ فورم “ ختمِ نبوت کی تمام تنظیموں  کا ترجمان فورم ہے ۔ اور اس پہ گرانقدر اور بے بہاء اور بہت لگن اور محنت سے نہائت قیمتی کام کیا گیا ہے ۔ اس فورم پہ دلائل کی روشنی میں قادیانیت کے ہر پہلو کو کا پردہ چاک کیا گیا ہے اور قادیانیت کے منہ سے مکر فریب اور دہوکے کا نقاب نوچ کر قادیانیت کا اصل چہر مسلمانوں کو دکھایا گیا ہے ۔عقیدہ تحفظِ ختمِ نبوتﷺ پہ ہر موضوع سے متعقلہ کتابوں کا بے بہا اور گرانقدر خزانہ بھی موجود ہے ۔
  • اسلامک اکیڈمی مانچسٹر ( برطانیہ)۔:
    یہ تنظیم علامہ داکٹر خالد محمود کی نگرانی اور سربراہی میں ۔یوروپی ممالک میں ختم نبوت ﷺ کے تحفظ کے لئیے کام کرتی ہے۔
  • ادارہ مرکز یہ دعوت وارشاد چنیوٹ :۔
    چنیوت میں فتنہ ارتداد قادیانیت کے سدِ باب کے لئیے "جامعہ عربیہ “ کے بانی مولانا منظور احمد چینوٹی ؒ نے ادارہ مرکز یہ دعوت وارشاد چنیوٹ قائم کیا اور اسکی ایک شاخ ادارہ مرکز یہ دعوت وارشاد چنیوٹ واشنگٹن میں بھی قائم ہے ۔
  • عالمی مجلس تحفظ ختم نبوتﷺ :۔
    عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے پہلے امیر سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ اور جنرل سیکرٹری مولانا محمد علی جالندھری منتخب ہوئے تھے ۔مجلس تحفظ ختم نبوت ۔ عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ اور منکرین ختم نبوت کے مقابل ختم نبوت کی تبلیغ کرتی ہے ۔ اس کی صدارت علامہ سید محمد یوسف بنوری ؒ نے بھی فرمائی۔ایک ہفتہ روزہ ’’ختم نبوت‘‘شائع ہوتا ہے ۔پاکستان اور پاکستان س ے باہر لندن میں انکے دفاتر موجود ہیں۔تحریری مواد اور تحقیقی کام کے حوالے سےحضرت انورشاہ کشمیری ۔ شہید اسلام مولا نامحمدیوسف لدھیانوی اور مولانا اﷲ وسایا کے اسمائے گرامی بہت نمایاں ہیں۔موجودہ امیر حضرت مولانا عبد المجید لدھیانوی ہیں۔
    تحریک تحفظ ختم نبوتﷺ :۔ اکیس اور بائیس ۔ 21 اور 22 جولائی 1934ء کوعالمی مجلس احرار اسلام نے مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی کے زیر قیادت ختم نبوت کے تحفظ کیلئے قادیان میں پہلی ختم نبوت کانفرنس منعقد کی ۔جس کی صدارت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ نے کی تھی۔عالمی مجلس احرار اسلام کا کام ابھی تک موجودہ دور میں فعال ہے اور اب اس کو تحریک تحفظ ختم نبوت کے نام سے جانا جاتا ہے۔
  • انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹﷺ :۔
    14 اگست1995ء مورخہ 17ربیع الاول 1416ھ کو ’’انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ ‘‘قائم کی گئی جس کا مرکزی دفتر لندن میں واقع ہے۔
  • ختم نبوتﷺ اکیڈیمی :۔(انگلینڈ)
    جسکے سربراہ مولانا سہیل باوا ہیں۔
  • آل انڈیا مجلس تحفظ ختم نبوت ﷺدیوبند (بھارت)
  • مجلس تحفظ ختم نبوتﷺ ڈھاکہ (بنگلہ دیش)
  • انجمن فدایان ختم نبوت ملتان(پاکستان)
  • تحریک پاسبان ختم نبوت (جرمنی)

اسکے علاوہ پاکستان کے اندر اور باہر بہت سی شخصیات اور تنظیمیں فتنہ ارتداد و کفر ”قادیانیت“ کے سدِ باب کے لئیے کام کر رہی ہیں ۔ مگر پاکستانی حکومتوں کی سیاسی ول اور سیاسی خود اعتمادی میں کمی اور قادیانیت کے خلاف پاکستان کے آئین کو بروئے کار لانے میں پس و پیش کی وجہ سے قادیانیت کا فتنہ ۔اسلام اور پاکستان کے خلاف پاکستان کے اندر اور باہر بدستور سازشیں کر رہا ہے ۔ اسلئیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی حکومت پہ پاکستانی عوام دباؤ ڈالیں تانکہ تحفظ ختم نبوت ﷺ کے لئیے آئین اور اسلام کی روح کے مطابق آئین پاکستان پہ عمل درآمد کو یقینی بنایا جاسکے ۔

ختم نبوت  ﷺ فورم  کا لنک  http://khatmenbuwat.org/

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

خدا ، مناظرہ اور گھمنڈ۔


خدا ، مناظرہ   اور  گھمنڈ۔

جیسے کہ آجکل انٹرنیٹ پہ ایک صاحب کچھ موضوعات پہ بڑے دھڑلے اور سرعت سے اپنے تئیں عالم فاضل سمجھتے ہوئے اسلام، قرآن کریم ، نبوت، احادیث  یعنی جن امور پہ روئے زمین کے مسلمان اتفاق کرتے ہیں اور دنیا بھر کے مسلمان ان امور پہ طنز یا  لایعنی بحث  کو اپنے عقائد،  پہ اپنے دین پہ  حملہ تصور کرتے ہیں۔ اس پہ ہاتھ صاف کئیے جارہے ہیں۔اورہر اگلی پوسٹ پہ قلابازی کھاتے ہوئے ایک نیا شوشہ  چھور کر سمجھتے ہیں کہ اپنے تئیں اپنی فہم فراست کے سامنے سب کو کوتاہ قامت قرار دے ڈالا ہے۔ سبحان اللہ ۔جبکہ کہ ایسی عقل پہ سبھی خندہ زن ہیں۔

 ایک بات نوٹ کی گئی ہے۔ کہ پاکستان کے نام نہاد روشن خیالوں کو اور اپنے آپ کو "کچھ” سمجھنے والوں کو درحقیقت یہ وہم سا ہوجاتا ہے کہ جی بس!اب ہم ہیں ناں۔ کوئی نکتہ ملے سہی معقولیت کی بات کرنے والوں کی ایسی تیسی کردیں گے۔

دوسرا مسئلہ ان کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ اسی زعم میں یہ کسی کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہوتے۔ اور یہ دونوں طبقے یعنی نام نہاد روش روشن خیال اور "میں کے مارے ہوئے نام نہاد عالم فاضل” دونوں میں ایک شئے مشترک ہے کہ دونوں حد سے زیادہ خود پسند ، جعلی تفاخرکا شکاراور اپنے آپ کو توپ قسم کی چیز سمجھتے ہیں۔ اورایک دوسرے کو مکھن لگاتے ہیں۔ پالش کرتے ہیں اورایسے مضحکہ خیز دلائل دیتے ہیں کہ بقول شخصے "ہاسہ” نکل آتا ہے۔ دوسروں کو اپنے زعم میں وہاں چوٹ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں اسے تکلیف زیادہ سے زیادہ ہو۔ مثلا ۔ اسلام۔ نظریہ پاکستان۔ پاکستان۔ اسلام پسندی۔ معقولیت پسندی۔  وغیرہ

ایسی حرکات پہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑا معرکہ مارا ہے۔ دراصل یہ ایک طرح کے  احساس کمتری کی ایک شکل ہے۔ جس کا آغاز شروع میں دوسروں پہ اپنی نام نہاد علمیت کا رعب ڈالنے سے، اور  دھاک بٹھانے کی لایعنی کوشش سے شروع ہوتا ہے اوررفتہ رفتہ یہ مرض بڑھتا چلا جاتا ہے۔اوربالا آخر مریض اسی گمان میں دین و دنیا حتٰی کے اپنے رفقاء تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ لیکن نہیں جانتے عین اسوقت جب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کا۔ پاکستانیوں کا۔ پاکستان کا۔اسلام کا۔ استہزاء اڑا نے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان بے چاروں کو پتہ نہیں ہوتا کہ عین اسوقت ان کی ان حرکات کی وجہ سے انکا اپنا مذاق اڑایا جارہا ہوتاہے۔ اور خدا جانتا ہے کہ کتنی بار انکا استہزاء اڑایا جائے گا۔

جس طرح کسی کھیل کے کچھ اصولوں پہ کھیل شروع کرنے سے پہلے اتفاق کرنا ضروری ہے اسی طرح مباحثے اورمناظرے کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ فریقین واضح طور پہ آگاہ کریں کہ وہ بنیادی اصولوں کو مانتے ہوئے اپنے دلائل میں آگے بڑھیں گے۔ یعنی جس موضوع پہ مباحثہ کرنا مقصود ہے اس  پہ ہردونوں فریقوں کو اپنا نقطعہ نظرواضح  کرنا لازمی ہوتا ہے کہ کہ کونسا فریق موضوع کے حق میں یا مخالفت میں اپنے دلائل دے گا۔ اور فریق مخالف انہیں رد کرتے ہوئے اپنے موقف کی حمایت میں دلائل دے گا۔ مثلا اگر ایک فریق خدا پہ یقین رکھتا  ہے تو وہ خدا کے وجود پہ دلائل دے گا اور اگر دوسرا فریق اگرخدا پہ یقین نہیں رکھتا  تو وہ خدا کےعدم وجود پہ اپنے دلائل دے گا یوں خدا کے وجود یا عدم وجود سے متعلق موضوع آگے بڑھے گا۔ لی جئیے اس موضوع پہ مناظرے و مباحثے کے بنیادی اصولوں میں سے ایک لازمی اصول طے ہوگیا ہے۔

اب یہ نہیں ہو سکتا  کہ  ان اصولوں کو جسے تسلیم کرتے ہوئے ایک فریق تو ہر اصول کا پابند ہو کر نہائت سلجھے طریقے سے دلائل دیتے ہوئے ہر ممکنہ سنجیدگی سے خدا کے وجود پہ دلائل دیتے ہوئے اس موضوع پہ آگے بڑھے جبکہ فریق مخالف انکے دلائل کے جواب میں غیر سنجیدگی سے انکا ٹھٹھ اڑا دے۔ اور جب کہ وہ خود جس نے خدا کے وجود پہ بحث کی دعوت دی ہو وہ خدا کے منکر ہونے سے انکار کرتے ہوئے  حضرت عیسٰی ابن مریم علیہ والسلام پہ بحث شروع کردے۔ وہاں سے  سے اگلی جست میں کمپیوٹر تیکنالوجی پہ اترانے لگے۔ اورمصرہو کہ اس کے موقف کو درست تسلیم کرلیا جائے۔

یہ یونہی ہے کہ کوئی ہاکی کھیلنے کی خواہش رکھنے والا جب وہ یہ محسوس کرے کہ کھیل پہ اسکی گرفت کمزور ہورہی ہے اوروہ ہار جائے گا تو ہاکی  کی اسٹک کو ایک طرف پھینک کر گیند کو پاؤں سے  کھیلنا شروع کردے ۔ اعتراض کریں تو وہ فٹ بال کے اصولوں پہ بحث شروع کردے۔ اوراگلی قلابازی میں اسی اصول کے تحت ہاکی کے میدان میں ہاکی کی اسٹک سے کرکٹ کھیلنے پہ اصرار  کرے۔ جب اتنی تیزی سے یکطرفہ طورپہ ضوابط تبدیل کئیے جائیں گے تواسے کھیل نہیں بے ہودگی تصور کیا جائے گا۔

اس لئیے اس طرح کے کسی معقول اورسنجیدہ مناظرے کے لئیے ۔ جب آپ ایک بحث چھیڑتے ہیں تو آپ پہ لازم ہے کہ پہلے آپ اپنا کردارواضح کریں۔ اگرموضوع ادیان یا مذاہب سے متعلق ہے تو آیا آپ مسلمان۔ عیسائی۔ کافر۔ دہریہ۔ میں سے کس سے تعلق رکھتے ہیں؟۔ آپکا واضح موقف کیا ہے؟۔ تانکہ آپکی بات سمجھنے میں آسانی ہواورآپ کو کوئی دلیل دی جاسکے۔ مثال کے طورپہ اگردہریہ ہیں تو دہریت کی بنیادوں پہ خدا کے وجود کے سے انکار کر رہے ہیں تو ایسا ہونے سے فریق اؤل یعنی خدا پہ یقین رکھنے والے آپکی سرے سے خدا کو تسلیم ہی نہ کرنے کو جانتے ہوئے اس نظر سے آپ کو خدا کے وجود پہ دلیل دیں گے۔ اوراگرآپ ہر دفعہ قلابازی کھاتے ہوئے۔ کبھی خدا کے وجود پہ دلیل دیں گے اور کبھی خدا کے عدم وجود پہ ۔ کبھی مادے اورعقل کو خدا بیان کریں گے ۔ اور کبھی  کسی کمپیوٹر یا سرچ انجن کا کلمہ پڑھنے لگیں ۔ تو آپ کا مقصد سنجیدہ بحث نہیں بلکہ اپنی دانست میں خدا پہ یقین رکھنے والوں کا  استہزاء اڑانا ہے۔ اپنی نام نہاد علمیت کی دوسروں پہ دھاک بٹھانے کی بچگانہ خواہش ہے۔ اپنے نفس کی تسکین مقصود ہے۔ واہ واہ کے ڈونگروں سے غرض ہے۔ ایک جو انتہائی افسوس ناک بات ہے۔اسے آپکے فہم و فراست پہ نہیں بلکہ آپکی کم علمی اورغیر سنجیدگی پہ محمول کیا جائے گا۔اور خدا الگ سے ناراض ہوگا۔

اسلئیے یہ طریقہ درست نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ والسلام کے موضوع پہ بات ہو رہی ہو تو اگلی جست میں خدا کے وجود پہ قلابازی کھا گئے۔  خدا کے وجود کو ثابت کرنے کی بات شروع ہوئی تو کسی سرچ انجن کا کلمہ پڑھنا شروع ہوگئے۔ اب پھر قلابازی کھائی اور اسے ایک جوک  قرار دیتے ہوئے۔ قرآن کریم پہ چڑھائی کر دی۔ نہ کسی اصول کو بنیاد بنایا نہ کسی زمین پہ اتفاق کرتے ہوئے بحث کو اگے بڑہایا۔

یہ محض کم علمی اور حد سے بڑھے ہوئے اور کم عقلی کی حدوں کو چھوتا عالم فاضل ہونے کا گھمنڈ ہے۔ جس کا علم سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ  جو صاحب علم ہوتے ہیں وہ نہائت منکسر المزاج ہوجاتے ہیں۔ وہ بہترجانتے ہیں کہ ایمان کا معاملہ عقل سے نہیں  دل سے ہوتا ہے اوراسے محض عقلی استدلال سے نہ سوچا اور سمجھا جاسکتا ہے اور نہ بیان کیا جاسکتا ہے۔ اتنی  بنیادی سی بات جاننے کے لئیے فلسفے میں ماہرہونا ضروری نہیں۔ اتنے چھوٹے سے نکتے کو ایک چار جماعت پاس گلی محلے کا ایک عام ساانسان بھی جانتا ہے۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , ,

سلیم شہزاد کا افسوسناک قتل اور پاک فوج پہ الزام تراشیاں۔


پتہ نہیں کیوں ہم ہر بات کو ہیر پھیر کر پاکستان کے دفاعی شعبوں پہ ڈال کر اپنے سارے فرائض سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔  بغیر کسی ثبوت کے اس سے پہلے کچھ لوگ افواج پاکستان کو بہ حیثیت مجموعی غدار کہہ چکے ہیں۔ جب بغیر کسی ثبوت و تصدیق کے ایسے افراد جنہیں ایک آزاد ملک میں آزاد میڈیا اور مختلف ذرائع سے ملنے والی معلومات کے بعد ایک آزاد رائے قائم کرنے میں اسقدر مسئلہ ہے تو پاکستان کے اندر رہنے والے ایک عام آدمی کو پاکستان کے بے ہودہ میڈیا اور پاکستان پہ اپنی خصوصی نطر کرم رکھنے والے این جی اوز غیر ملکی اداروں کے اردو ایڈیشنز جن کا مقصد ہی پاکستانی شہری کو اپنے صحفات پہ خصوصی ایجنڈے کے تحت۔ جن پہ اکثر بیشتر خبر دینے اور تجزئیہ نگار کا نام تک نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو انہی مخصوص لوگوں کا نام ہوتا ہے جنہیں پاکستان سے شدید بغض ہے جسکی ایک وجہ ایسے لوگوں کی قادیانیت سے ہمدردی بھی ہے۔ ان کے ذریعے پاکستانی نوجوان طبقے اور فارووڈ مائنڈ کو مایوسی اور ناکامی کا پیغام دینا ہے۔ تو ایسے بہت سے لوگ بغیر کسی مستند حوالہ جات کے زمانے کے چلن کے مطابق چند لائینیں اور کچھ جملو ں میں لکے آدھے صحفے کے اعلان میں فوج کو غدار اور سلیم شہزاد کا قاتل آئی ایس کو قرار دے کر بھارت امریکہ اور پاکستان کے دیگر دشمن ممالک کا کام آسان کر دیتے ہیں۔ ایک آرام دہ کرسی پہ محفوظ بیٹھ کر کمپیوٹر سے آدھ صحفہ لکھ کر چاند تارے توڑ لانے کا  زبانی کلامی عزم رکھنے والے جذباتی لوگوں کی اپنے ہی اداروں کو بغیر کسی ثبوت اور پیشگی تحقیق سے لکھے گئے الفاظ سے پاکستان کے اندرونی دشمنوں کے پاکستان کے خلاف زہریلے پروپگنڈے کو تقویت ملتی ہے۔ ان اندرونی دشمنوں اور دنیا کی انتہائی تربیت یافتہ اور مالی اور تکنیکی وسائل سے مالامال خفیہ ایجینسیوں اور پاکستان کے دشمن ممالک کے مفادات پاکستان کی سالمیت کے خلاف ایک ہونے کی وجہ سے اکھٹے ہوگئے ہیں۔

 شاید بہت لوگوں کو علم نہیں ہوگا۔ کہ اس وقت پاکستان کے اندر مشرف کی وجہ اور اجازت سے سی آئی اے۔ ایم فائیو۔ را۔ موساد۔ خاد۔ خلق اور پتہ نہیں کون کون ایجینسیوں کے ذہین ترین اور انتائی تربیت یافتہ لوگ پاکستان میں پاکستان کی جڑیں کاٹنے کا کام کر رہے ہیں۔ اور ہمارے سیاسیتدان جو دوسری یا تیسری کے بچوں کی طرح ہر آئے دن امریکن ایمبیسڈر کو شکائیتیں۔ وضاحتیں اور درخواستیں لگاتے نظر آتے ہیں۔ وہ بھی ان ایجنسیوں کے ایک قسم کے مراعات یافتہ اور تنخواہ دار ایجینٹوں کی طرح اپنی ذاتی اور گھٹیا مفادات کی خاطر پاکستان کے مفادات کو پس پشت ڈال کر پاکستان کی سالمیت کی خاطر جان کی بازی لگانے والوں کو اپنے :۔” کھل کھیلنے “۔: میں (پاکستان کے اچھے یا برے لیکن) پاکستان کے دفاعی اداروں کو دیوار کے ساتھ لگا دینا چاہتے اور اگر یوں ہوتا ہے تو پاکستانی قوم جدید تاریخ کی شاید پہلی قوم ہوگی جو اپنے وجود کو محض ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے کی وجہ سے منتشر اور مفقود ہوجائے گی۔ اور پاکستان کے دشمن یہ بات بخوبی جانتے ہیں۔ اور ہر وہ صحافی ۔ ادارہ ، وکیل۔ قادیانی، یا بکاؤ مال جو محض اپنے ذاتی معاملات کی وجہ سے پاکستان سے بغض رکھتا ہے وہ پاکستان کے خلاف ان طاقتوں کے پے رول لسٹ پہ ہے۔

پاکستان میں تو یہ عالم ہے کہ جسے یہ پاکستان آرمی کی یونٹوں کی فارمیشن تک کے بارے علم نہیں وہ بھی قسم قسم کے ٹی وی اینکرز اور غیر معروف صحافی ہر قسم کے قومی مفاد کو پس پشت دالتے ہوئے محض نمبر بنانے کی بے وقوفانہ دوڑ میں شامل اور کچھ اپنے آقاؤں کو خوش رکھنے کی خاطر۔ پاکستان دفاعی اداروں اور حال میں کراچی کے نیول بیس پہ اپنی جان لڑا کر رات کے اندھیرے میں حملہ آور وہنے والے انتہائی تربیت یافتہ دہشت گرد کمانڈوز کو انکے مذموم مقاصد کی تکمیل میں جان دینے والے شہداء تک پہ انگلیاں اٹھانے اور الزام تراشی سے باز نہیں آئے۔ لعنت ہے ایسے لوگوں پہ جنہوں نے انکی خاطر جان سے گزر جانے والے شہدا تک کو الزام تراشیوں سے نہیں بخشا۔ جبکہ انکی اپنی حب الوطنی اور اپنے اخبارات و ٹی وی چینلز سے وفاداری کا یہ عالم ہے کہ محض انہیں کچھ زیادہ معاوضے کا لالچ دے کر کبھی خریدا جاسکتا ہے ۔ جس کے لئیے وہ اپنے پچھلے ٹی وی چینل کے ساتھ کسی بھی معائدے کو روند کر آگے بڑھ جاتے ہیں اور روپے کی خاطر ایسی اخلاقیات کے مالک لوگوں سے قومی مفاد کی کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔ اور ان کی یاوہ گوئیاں دیکھ کر انٹر نیٹ کی موجودگی کا فائدہ اٹھا کر ہر تیسرا فرد ان سے بھی بڑھ کر دور کی کوڑی چھاپ رہا ہے۔ اسکی عمدہ مثال کچھ بلاگرز کے بغیر کسی ثبوت اور دلیل کے الزام تراشیاں دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ الزام تراشی کرنے والے پہ اخلاقی اور قانونی طور پہ یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے الزام کی صحت میں کوئی شہادت ، ثبوت، دلیل، یا واقعہ وغیرہ پیش کرے۔ مگر نہیں صاحب جسے بڑی مشکل سے اردو کے درست ہجے تک نہیں لکھنے آتے وہ بھی اپنے آپ کو دانشوروں کے ذمرے میں شمار کرتا ہے۔ بے شک کرتا رہے واللہ ہمیں اس پہ بھی اعتراض نہیں۔ مگر وہ اپنی داشوری کے اظہار کے لئیے آغاز اسلام ،نظریہ پاکستان ۔ پاکستان۔ افواج پاکستان۔ پاکستانی خفیہ دفاعی ادارے۔ بھارت ماتا کے ترانے و نغمے ۔ امریکہ درآمد مادر پدر آزاد روشن خیالی۔ سے کرتا ہے۔ جیسے پاکستان اور پاکستانی قوم کے مزھبی جزبات کا کوئی نانی نانا ہی نہ ہوا اور غریب کی جورو کی طرح جسکا دل چاہتا ہے اسے سے ٹھٹھہ مخول کرنے انٹر نیٹ پہ چڑھائی کرتے ہوئے اپنی بے وقوفی یعنی پاکستان کے رواج کے مطابق اپنی دانشوری کا اعلان کر دیتا ہے۔

اگر فریق مخالف جن پہ یہ اپنی لعن طعن سے اپنی داشوری کی بنیاد کا آغاز کرتے ہیں ۔ ایسے تمام نام نہاد دانشوروں میں سے صرف چند ایک گوشمالی کرنے پہ اتر آئے تو یقین مانیں نناوے فیصد دانشور مصلے پہ نظر آئیں اور ہر کسی کو انتائی عزت کی نگاہ سے دیکھیں کیونکہ شریف آدمی کبھی اسطرح کی حرکات نہیں کرتا یہ صرف شر سے لبریز اور شریر لوگوں کا کام ہوتا ہے۔ اور شریر لوگوں کو شر سے باز رکھنے کے ضابطے دنیا کی ہر قوم نے مقرر کر رکھے ہیں۔

پاکستان میں دن میں سینکروں قتل ہوتے ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ ہر قتل میں آئی ایس آئی ملوث ہو۔ کیا یہ ممکن نہیں ریمینڈ ڈیوس جیسے لوگوں کو ایسے افراد کا پتہ ہو۔افراد جنہیں ماضی میں واقعتا حکومتی اداروں کی طرف سے قومی سلامتی کے بارے بریف کیا گیا ہو کہ کس طرح ان کی بے تکی دانشوریاں جو درحقیقت ان میں اکثر پاکستانی صحافیوں کی کسی نہ کسی طرف سے دانہ ملنے کی وجہ سے اپنے اپنے آقاؤں اور بتوں سے وفاداری کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اور ایسے افراد کو بریف اور ڈی بریف کرنا اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے جسے مکر فریب یا جان کے خوف یا اپنے اندیدہ آقاؤں کے اشارے پہ جان کی دھمکی ظاہر کرتے رہے ہوں ۔ اور اس سے فائدہ اٹھا کر پاکستانی اداروں کو مزید کلفژر میں مبتلاء کرنے اور دباؤ میں لانے کے لئیے ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگ انھیں پار لگا  دیا ہو۔ اور اپنے باقی میڈیا ایجینٹوں کو اشارہ کر دیں کہ شور مچانا شروع کردو۔

فوج  سے ہمیں بھی شکایات ہیں اور فوج پہ تنقید بھی کرتے رہے ہیں مگر اس دور میں جبکہ پاکستان سخت مشکلات سے دوچار آگے بڑھ رہا ہے۔ امریکہ اپنے اخراجات کی وجہ سے اور لیبیا جیسے نسبتا کم خرچ اور بہت ہی بالا ترین تیل کی وجہ سے اس طرف توجہ کر رہا ہے۔ ویسے بھی امریکہ کی جنگ جوئی تاریخ بتاتی ہے کہ امریکہ کسی بھی قوم پہ اپنا قبضہ دیرپا قائم نہیں کرسکا۔ اور وہ آج نہیں تو کل یعنی ایک دو سالوں سے افغانستان سے اسے نکلتے بنے گی۔ مگر وہ جانے سے پہلے بھارت کو علاقے کی بالا طاقت اور افغانستان کو پاکستان کے شمال میں ایک بڑے حریف اور کرزئی جیسے  شخص کو افغانستان کا حاکم چھوڑ کر جانا جاتا ہے اور بھارت اور خود امریکہ پاکستان پہ اسی صورت میں بالا دستی قائم کر سکتے ہیں جبکہ پاکستان کے پاس جوہری ہتیار انھیں ھدف تک پہنچانے کے لئیے مزائیل وغیرہ کو کسی طرح ناقابل استعمال بنا دینا چاہتا ہے ۔ یا ممکن ہو تو پاکستان کی جوہری تنصیبات کو اپنے قبضے میں لے لینا چاہتا ہے۔یہ تبھی ممکن ہے جب پاکستان اندرونی طور پہ خلفشار کا شکار ہو کر کمزور ہوچکا ہوگا۔

ہمیں آنکھیں کھولنی چاہئیے اور قطار اندر قطار اپنی صحفوں میں اتحاد پیدا کرنا چاہئیے تانکہ اقوام عالم اور خاصکر پاکستان کے دشمنوں کو یہ پیغام جائے کہ کہ پاکستانی قوم اپنے مشکل وقت میں متحد ہے اور پاکستان کے وجود پہ کسی بھی بری نظر ڈالنے والے کے دانت کھٹے کرنے کا عزم رکھتی ہے۔

Read the rest of this entry »

 

ٹیگز: , , , , , , , , , ,

 
%d bloggers like this: