کولبیرٹ ازم ۔ برصغیر ہندؤستان۔ اور برئنیر رپورٹ۔تیسری قسط
فرانسسکو برنئیر لکھتا ہے۔(ہندؤستان میں) وراثتی بندوبست ایک قانون کے درجے کے طور تسلیم کیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں امراء منصب دار ۔ یعنی نسبتا چھوٹے امراء مغل فرمانروا (بادشاہ) کو وراثت میں ملتے ہیں۔ جو بادشاہ سے وظیفہ پاتے ہیں۔
اسی وراثتی بندوبست کے تحت ناج اگانے والی کچھ زمینوں اور باغات پہ رعایا کویہ اجازت ہے کہ وہ ان زمینوں کی خریدو فروخت کرسکیں یا وراثت کے طورپہ ملنے والی زمین کو آپس میں تقسیم کر سکیں ۔ اسکے علاوہ شہنشہاہی بندوبست کی کل زمین بادشاہ کی ملکیت ہے۔ برنئیر ۔ کولبیرٹ کو مخاطب کرتے لکھتا ہے۔”آپ اس نتیجے پہ پہنچیں گے کہ کہ یہی نہیں کہ ہندؤستان میں سونے اور چاندی کی کانیں نہ ہونے کے باوجود ۔ ملک میں بہت بڑی مقدار میں سونا اور چاندی موجود ہے ۔ بلکہ اسکے علاوہ مغل فرماں روا کے پاس بہت سے قیمتی خزانے ہونگے۔ (۷٭)۔
مزید براں ۔برنئیر کے اس بیان میں فرانس کے لئیے ان مالی اور سماجی مسائل کی نشاندہی کا بھی ذکر ملتا ہے۔ جواگر فرانس کو ہندؤستان کو اپنی نوآبادی بنانے میں دلچسپی ہونے کی صورت میں۔ ہندؤستان کو نو آبادی بنانے کی ایسی کسی کوشش کے نتیجے میں نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں ۔ ان مسائل کے پس منظرمیں مختلف النوع کی وجوہات ہیں۔ جن کی وجہ سے عظیم مغل سلطنت پہ حکمرانی قائم کرنے میں بہت مشکلات حائل ہیں۔ اور خاصکر اس صورت میں جب انگریز شہزادوں اور مقامی حاکموں سے اپنے مفادات طے کر رہے ہوں۔اس ساری حوصلہ شکن صورتحال اور بیان کردہ نہ قابل قبول حالات کی وجہ سے سونا ہندؤستان سے باہر نہیں جا پاتاتھا۔ اس سے برصغیر ہندؤستان کی مختلف النوع قسم اور دلچسپ ہیبت ترکیبی کا پتہ چلتا ہے۔
برنئیر کی رپوٹ سے مندرجہ ذیل نتیجہ سامنے آتاہے۔
۱)۔ہندؤستان کی زمین کا ایک حصہ پتھریلا ہے ۔ کم زرخیز پہاڑ ہیں جہاں بہت کم کاشتکاری ہوتی ہے۔ اور (اسی وجہ سے) آبادی بہت کم ہے۔
۲)۔ انتہائی زرخیز زمین جو افرادی قوت نہ ہونے کی وجہ سے غیر آباد ہیں۔
۳)۔بہت سے کسان مقامی حاکموں (گورنرز) کے مظالم کا شکار ہیں اور جان سےجاتے ہیں۔ عام طور پہ مقامی حاکموں(گورنرز) نے انہیں انتہائی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم کر رکھا ہے یہاں تک کہ جب ماں باپ لگان ادا نہ کر سکیں یا حاکموں کی احکام سے رد گردانی کریں تو انکے بچوں کو چھین لیتے ہیں۔ جنہیں غلام بنا لیا جاتا ہے۔
۴)۔ اندرونی نقل مکانی۔ بہت سے کسانوں نے مایوس ہوکر کھیتوں کو خیر آباد کہہ کر اجرت پہ مزدوری کرنے کو ترجیج دیتے ہوئے شہروں کا رخ کیا۔ جہاں انہوں نے سقہ (بہشتی یعنی ماشکی) اور پانڈی (وزن ڈھونے والوں) کا پیشہ اپنا لیا۔ یا پھر فوج میں بھرتے ہوگئے۔اورکچھ دوسری راجدھانیوں کو بھاگ گئے۔ جہاں ظلم و ستم نسبتاَ کم تھا۔
۵)۔ بہت سی ریاستیں اور قومیں ایسی ہیں جہاں کے حکمران مغل نہیں۔ اور ایسی ریاستوں اور قوموں کے سربراہ مغلوں کے احکامات ماننے سے انکاری ہیں اور خراج نہیں دیتے یا ان سے بہ جبر لگان وصول کیا جاتا ہے۔ یا پھر وہ ریاستیں ہیں جو نہ ہونے کے برابر خراج دیتیں ہیں۔ اور آخر میں وہ قومیں یا ریاستیں آتی ہیں۔ جو مغل سلطنت سے امداد لیتی ہیں۔
۶)۔ وہ ریاستیں جو خراج ادا نہیں کرتیں۔ وساپور Visapur کا باشاہ کسی قسم کا خراج نہیں ادا کرتا اور ہمیشہ مغل سلطنت سے جنگ آزماء رہتا ہے۔
جسکی۔ ۵ ۔درذیل وجوہات ہیں۔
الف)۔وسا پور کے حکمران کے پاس خاصی تعداد میں افواج ہونے کی کی وجہ۔
ب)۔ وسا پور سے دہلی اور آگرہ خاصے دور ہونے کی وجہ سے۔
ج)۔ اس حکمران کے پاس انتہائی مضبوط قلعہ ہے۔جس کو سر کرنا انتہائی دشوار اور کھٹن ہونے کی وجہ سے۔
د)۔ حملہ آوار افواج اور بابرداری کے جانوروں کے لئیے رستے میں چارہ اور پانی ملنے کی کوئی صورت نہ ہونے کی وجہ سے۔
اسکے علاوہ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ بہت سے راجے۔ وساپور Visapur کے مشترکہ دفاع کے لئیے اسکے حکمران کے ساتھ اتحاد کر لیتے ہیں۔مثال کے طور پہ مشہور و معروف۔ شیو جی ۔ جس نے کچھ عرصہ قبل۔ سُورت ۔کی بندرگاہ کو لوٹا اور جلادیا ۔
گولکنڈاہ کا طاقتور حکمران بھی مغل سلطنت کو کسی قسم کا خراج ادا نہیں کرتا۔ جو خفیہ طور پہ وسا پور کے راجہ کی مالی معاونت کرتا تھا اور ہمیشہ اسکی ایک فوج ضرورت پڑنے پہ ۔وسا پور کی سرحد پہ وسا پور کے دفاع کے لئیے تیار رہتی ہے۔
مغل سلطنت کے نواح میں کم وبیش اسی طرح لگ بھگ سو کے قریب مشرک (idolaters) راجوں کے ساتھ یہی معاملہ تھا۔ جن میں سے کچھ کی راجدھانیاں تو آگرہ اور دلی نزدیک واقع تھے ۔کچھ کی راجدہانیاں بہت زیادہ دور دراز واقع تھیں۔
جن میں سے پندرہ سولہ تو بہت زیادہ امیر اور طاقتور ہیں۔اور پانچ یا چھ راجے جیسے کہ رانا جوایک طرح کا راجوں مہاراجوں کا شہنشہاہ ہوتا ہے۔ اسکے بارے بیان کیا جاتا ہے کہ اسکا نسب۔ راجہ پورس ۔سے جا ملتا ہے ۔ اگر کوئی تین ایک مل جائیں تو مغل حکمران کے لئیے ایک بڑا درد سر بن سکتے ہیں۔کیونکہ ان میں سے ہر راجہ مغل فوج کی نسبت بہتر تربیت یافتہ بیس ہزار سوار کسی وقت بھی اکھٹے کرسکتا ہے ۔گھڑ سوار فوج کے ان سپاہیوں کو ۔راجپوت۔ کہا جاتا ہے۔یعنی ۔راجوں کے سپوت۔خاندانی پیشہ سپاہ گری باپ دادا کی طرح نسل در نسل انکے خون میں شامل ہے۔راجے مہاراجے انھیں اس شرط پہ زمینں عطا کرتے ہیں کہ بوقت ضرورت یہ گھوڑے کی پیٹھ پہ سوار ہوکر جنگ میں حصہ لیں گے۔۔ (۸٭)۔
اسکے علاوہ بلوچ ۔ افغان۔ کوہستانی۔ کی اکثریت بادشاہ یا مغل سلطنت کو کسی قسم کا خراج ادا نہیں کرتے اور مغل فرمانروا کو بلوچوں ۔ افغانوں اور کوہستانیوں کی طرف سے خراج نہ ادا کئیے جانے پہ کوئی خاص فکر بھی نہیں ہے۔(۹٭)۔
پٹھان بھی خراج ادا نہ کرنے والوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ جو مغلوں کے حملہ آور ہونے سے پہلے دلی اور اسکے بہت سی جگہوں پہ زیادہ طاقتور ہوچکے تھے۔ اور انہوں نے انگنت راجوں کو اپنا باجگزار بنا لیا تھا۔(۱۰٭)۔
کسی بھی ریاست کی طرف سے اپنی نو آبادیوں میں اضافہ کرنے کے لئیے ۔اس دور کے مشاہدات اور تجربات کے مطابق بہت سی باتوں کو مدِ نظر رکھنا پڑتا تھا۔تانکہ اسقدر دور اور اسقدر سرمایہ کاری کرنے کے بعد کم از کم کچھ نہ کچھ کامیابی حاصل ہوسکے ۔ فرانس میں متعدد مہمیں محض ناکافی معلومات کی وجہ سے ناکام ہوچکی تھیں۔تجرباتی منصوبہ بندی وقت کے ساتھ ”چارٹرڈ کمپینوں“ کے ذرئعیے دور دراز علاقوں تک پھیل گئی۔”انڈیا اورئنٹل“ نامی کمپنیاں بہت سے ممالک تک پھیل چکی تھیں۔ ”کیپ آف گڈ ہوپCape of Good Hope“۔ سے لیکر ۔ ” اسٹرائٹ آف میگیلین Strait of Magellan“۔ تک ان کمپنیوں کی مکمل اجارداری قائم ہوچکی تھی۔(۱۱٭)۔اس مشق کی وجہ سے مہم جوئی اور ایڈونچرازم کے شوق میں اضافہ ہوا۔ نتیجتاَ مبالغہ انگیز تعداد میں کمپنیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ افراد کی نسبتاَ ریاستیں زیادہ باخبر ہونےاور درست معلومات رکھنے کی وجہ سے اپنی نگرانی میں ایک ترجیجی کمپنی رکھتیں تھیں ۔ جبکہ ۱۶۰۰ء سولہ سو عیسوی اور ۱۷۸۹ء سترہ اننانوے عیسوی کے دوران صرف فرانس کے لئیے ۷۷ ستتر کمپنیوں کا پتہ چلتا ہے ۔اور سات ۷کمپنیاں صرف ”اورئنٹل انڈیا“ کے لئیے مخصوص تھیں ۔ جبکہ یہ فہرست ابھی مکمل نہیں۔۔(۱۲٭)۔دوسری طرف صورتحال سے مکمل آگہی اور وسائل صرف کبھی کبھار ایسے مواقع پیدا کرتے تھے کہ کوئی مثالی آبادکار کسی نو آبادی میں جابسے۔لیکن دور دیسوں میں جا بسنے کے لئیے ناپسندیدہ جرائم پیشہ افراد ۔جہالت اور یقین کے ہاتھوں عام طور پہ بحری جہازوں پہ سوار ہوجاتے تھے ۔ فرانس میں سے بنیادی طور پہ ۔”نوغمندیا۔ نارمنڈی۔ Normandía“۔ ”برطانیہ ۔برطانی۔ Bretaña “۔ ”پوئیتو Poitou “۔ ”سینت تونج Saintonge“ سے لوگ نوآبادیوں میں جا کر آباد ہوئے۔ یہاں تک کہ کولبیرٹ ان کوششوں کا کہ لوگ جا کر نوآبادیوں میں آباد ہوں۔ مگر اسکی انتھک کوششوں کا کوئی مثبت اور خاطر خواہ نتیجہ برآمدنہ ہوسکا ۔(۱۳٭)۔
(جاری ہے)
(7) BERNIER, ob. cit., pág. 194
(8) BERNIER, ob. cit., págs. 196 y 197.
(9) BERNIER, ob. cit., pág. 185.
(10) BERNIER, ob. cit., pág. 195.
(11) RiCH, E. E., y WiLSON, C. H., Historia Económica de Europa, t. IV; La Economía
de Expansión de Europa en los siglos XVI y XVII, versión de Javier García
Julve, Edit. de Derecho Privado, Jaén, 1977, pág. 351.
(12) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., ob. cit., pág. 390.
(13) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., ob. cit., pág. 390.
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: (, ), ”, BERNIER, Bretaña, Cape of Good Hope, idolaters, Normandía, Poitou, Saintonge, Strait of Magellan, ہندؤستان, فوج, ہیں, ہیبت ترکیبی, فروخت, فرانس, فرانسسکو, قلعہ, قوت, قیمتی, قانون, قسط, لوٹا, لگان, مقامی, مقدار, ملکیت, منصب, مالی, مایوس, ماشکی, مثال, مثبت اور خاطر, محروم, مزید, مزدوری, مسائل, مشہور و معروف, مشترکہ, مشرک, مضبوط, مظالم, معاملہ, معاونت, مغل, مغل عالم, نقل مکانی, نوآبادی, نواح, نوغمندیا, چھوٹے, چھین, چاندی کی کانیں, ناج, چارہ, نارمنڈی, نتیجہ, نتیجے, نسبتا, و, والی, وراثت, وراثتی, وسا پور, وظیفہ, یعنی, کم, کم وبیش, کو, کولبیرٹ, کیپ آف گڈ ہوپ, کیا, کے, کھیتوں, کھٹن, کا, کاشتکاری, کسان, گولکنڈا ہ, گورنر, گردانی, پہ, پہاڑ, پناہ, پوئیتو, پورس, پیشہ, پٹھان, پانڈی, پاتے, پتھریلا, Visapur, آگرہ, آگرہ اور دہلی, آبادی, افواج, افرادی, امراء, انتہائی, انتھک, اندرونی, ایک, اگانے, اتحاد, اجارداری, اجازت, اجرت, احکام, ازم, اسٹرائٹ آف میگیلین, بہت, بچوں, بنیادی ضروریات, بندوبست, بندرگاہ, باوجود, بابرداری, بادشاہ, باغات, برنئیر, برآمد, برئنیر, برصغیر, برطانی, برطانیہ, تیسری, تحت, ترجیج, تعداد, جلا, جان, جانوروں, جاری ہے, حملہ آوار, حکمران, حاکموں, خفیہ, خواہ, خیر آباد, خاصی, خاصے, خرید, خزانے, دہلی, دفاع, دلچسپی, دور, دار, درجے, دشوار, رپورٹ, راجہ, راجوں, راجے, راجدہانیاں, راجدھانیوں, راجدھانیاں, رد, رعایا, زمین, زمینوں, زندگی, زرخیز, سلطنت, سماجی, سونے, سینت تونج, سُورت, سے, سر کرنا, شہنشہاہی, شہروں, شیو جی, شکار, طور تسلیم, ظلم و ستم, عالم, عام طور, عظیم, غلام, غیر آباد
کولبیرٹ ازم۔ برصغیر ہندؤستان اور برئنیر رپورٹ۔پہلی قسط
قسط اول
ہمارا موضوع شاہجہان اور اورنگ زیب کے دور میں ہندؤستان سے متعلق "فرانسسکو برنئیر ” کے سفر اور خیالات ہیں۔ جن سے اس دور میں ہندؤستان اور یوروپ کی دیگر اقوام کے حالات اور سوچنے کا انداز ۔ اور برصغیر ۔ برصغیر میں مغلوں کی حکومت۔ برصغیر کے سماجی ۔ معاشرتی ۔ سیاسی ، فوجی اور حکومتی ڈھانچے کا جائزہ لینا اور برنئیر جیسے مغربی دانشور کی زبانی ہندؤستانیوں کی خامیوں اور خوبیوں کا موازنہ کرنا ہے ۔ اور اس دور میں ہندوستان کے بارے مغربی سوچ کا احاطہ کرنا شامل ہے۔
” کولبیرٹ” ( ۲۹۔انتیس اگست سولہ سو انیس عیسوی ۱۶۱۹ء تا ۶ چھ ستمبر سولہ سو تراسی ۱۶۸۳ء ) فرانس کے بادشاہ لوئیس چہاردہم (چودہویں) کا وزیر خزانہ تھااور وزیر اعظم کے بعد بادشاہ کی حکومت کا دوسرا طاقتور ترین فرد شمار کیا جاتا ۔ یہ وہ دور تھا۔ جب فرانس ۔ ہالینڈ سے مشرقی منڈیوں کی مصنوعات کا عالمی تجارت میں مقابلہ کرنا چاہتا تھا۔اور مشرقی منڈیوں کی مصنوعات اور مصالحہ جات کی اپنے ملک فرانس میں مانگ کی وجہ سے برآمد درآمد کا توازن اپنے حق میں کرنے کے لئیے۔ مشرقی اور دیگر ممالک میں قبضہ کرتے ہوئے اپنی نوآبادیاں قائم کر کے ۔دیگر فوائد کے ساتھ وہاں اپنی مصنوعات کی کھپت کرنا چاہتا تھا۔ فرانس کے مشہور وزیر خزانہ کولبیرٹ کی اس سوچ اور حکمت عملی کو فرانس میں بے حد مقبولیت ملی اور اسے ۔ "کولبیرٹ ازم” کا معروف نام دیا گیا۔
مسلسل ناکامیوں ، عزم کی کمی اور عدم اتفاق کی وجہ سے فرانس کی مختلف نجی جہاز راں کمپنیاں مہم جوئی سے ہاتھ اٹھا چکیں تھیں۔ تاہم کولبیرٹ سولہ سو چوسنٹھ میں فرانس کے بادشاہ لوئس چہاردہم کو اس بات پہ قائل کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔کہ ہندوستان کے لئیے الگ سے جہاز رانی اور مہم جوئی کے لئیے کمپنیاں قائم کی جانی ضروری ہیں۔جبکہ اورینٹل کمپنی جو کہ مڈغاسکر اور بوربون جزائر سے بڑی مہموں کے لئیے استعمال ہوتی تھی۔ فرانس کے پچھلے بادشاہ لوئس سیز دہم کے دور کے آخری دنوں کے بحران کا شکار ہونے کی وجہ سے اورینٹل کمپنی دیگر دوسرے معاملات میں استعمال کی جانے لگی۔
پہلے پانچ سالوں میں کولبیرٹ ازم کو عوام میں بے حد پسند کیا گیا۔اور نفسیاتی طور پہ کولبیرٹ ازم کے رحجان میں اضافہ ہوا۔”کولیبرٹ ازم” کو خود غرض تجارتی مقاصد کے طور پہ پہچانے جانے کی بجائے ایک ذہین منصوبہ بندی کا نتیجہ سمجھا گیا ۔ جس سے ولندیز (ہالینڈ) اور انگلستان کا مقابلہ کرنا مقصود ہو۔ کیونکہ اس دور یعنی سترھویں صدی میں فرانس کے اکثریتی دانشوراور باشعور طبقہ بھی ولندیز اور انگلستان کو ہی برتر تسلیم کئیے بیٹھے تھے۔
اس دور میں فرانسیسی نصرانی عقیدت مندوں میں سے فرانس کے بارے ایک پُر جوش اور محب الوطن ” فرانسسکو برنئیر” ہو گزرا ہے ۔ جوایک ڈاکٹر (طبیب) فلاسفر اور سیاح تھا۔ برنئیر سترھویں صدی میں ۱۶۲۰ء سو لہ سو بیس عیسوی میں "جوئے”( انگریس) فرانس میں پیدا ہوا۔ اور ۱۶۸۸ء اسولہ سو اٹاسی عیسوی میں پیرس، فرانس میں مرا۔ فرانسسکو برنئیر نے۱۶۴۲ء سولہ سو بیالیس عیسوی میں معروف فلاسفر "گاسیندی” سے اپنے مشہور ہم عصروں "کاپیلے ، مولیئیر، اور ھسنلات ” کے ساتھ فلسفے کی تعلیم حاصل کی۔ برنئیر "کریانو دے برجیراک” کا ہم عصر ہو گزاراہے۔ فرانسسکو برنئیر نے سترھویں صدی کا دوسرا نصف حصہ ایڈوانچر اور سیاح نودری میں گزارا۔برنئیر نے بہت سے ممالک کے سفر کئیے ۔ جن میں اٹلی ، جرمنی اور پولینڈ شامل ہیں۔فرانسسکو برنئیر نے "مونت پلئیر” میں ڈاکٹر بننے کے بعد اپنے استاد کی موت کے بعد ملک شام کا رُخ کیا اور وہاں سے برنئیر ہندؤستان پہنچا۔جہاں اسے طبیب (ڈاکٹر) کے طور کام کرنے کی اجازت مل گئی اور اسے شاہجہان کی بیماری کا علاج کرنے کے لئیے بارہا طلب کیا گیا ۔ یوں وہ دربار میں شامل ہوگیا اور اور اورنگ زیب نے جب اپنے باپ شاہجہان کو تخت و تاج سے محروم کیا تو فرانسسکو برنئیر اورنگزیب کے دربار میں شامل کر لیاگیا۔
مغل دربار میں شمولیت کے دوران بھی برنئیر نے وقت ضائع نہیں کیا اور شہنشاہ کے آغا دانشمند خان کو "ہیروی” اور "پسکیت” کی جسمانی ساخت کے بارے تحقیق اوردریافتوں کے بارے آگاہ کیا اور "گاسیندی” اور "دیس کارتیس” کے فلسفی نظریوں کے بارے بتایا۔
ہمہ وقت متجسس ہونے کی وجہ سے برنئیر نے ہندؤستانیوں کے مذہبی عقائد اور فلسفے کا بغور مطالعہ کیا۔ مغل سلطنت کی سماجی ، معاشرتی ، سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کے بارے معلومات اکھٹی کیں۔ یہ وہ دور تھا جب مغل شہنشاہیت عروج پہ تھی۔ شہاجہان کی بیوی تاج محل مر چکی تھی اور مشہورتاج محل بن چکا تھا۔ شاہجہان کی بیوی کا علاج بھی فرانسسکو برنئیر کر تا تھا۔ اور موسم گرما میں گرمیوں کی وجہ سے جب شہاجہان اورتاج محل دیگر دربار کے ساتھ کشمیر منتقل ہوتے تو برنئیر ساتھ ہوتا ۔
تیرہ ۱۳ سال فرانس سے باہر رہنے کے بعد فرانسسکو برنئیر فرانس واپس چلاگیا۔
فرانس واپس پہنچنے پہ فرانسسکو برنئیر نے بہت سے کتابیں لکھیں ۔ جن میں "عظیم مغل سلطنت کے سفر ” اور فلسفے پہ سات جلدوں پہ مشتمل "ابغریجئے دے فلاسفی دے گاسیندی” لکھی ۔ دیگر بہت سی کتابوں میں سے چند ایک قابل ذکر نام ذیل میں ہیں۔
Suite des mémoires sur l’empire du grand Mogol
Abregé de la philosophie de Gassendi (1674);
Doutes sur quelquesuns des principaux
chapitres de L’Abrégé de la philosophie de Gassendi (1682);
Eclaircissement sur le libre de M. Delaville (1684);
Traite du libre et du voluntaire(1685);
Memoire sur le quietisme des Indes (1688);
Extrait deDescripción du canal des Deux Mers, Eloge de Chapelle (Journal des Savants) (1688).
لیکن ہماری دلچسپی کا باعث اور موضوع "فرانسسکو "برنئیر کے وہ سفر نامے اور تفضیلات ہیں۔ جو برنئیر نے ۱۶۷۰ء سولہ سو ستر عیسوی اور ۱۶۷۱ء سولہ سو اکہتر عیسوی میں چھپوائے۔
دوسرے ممالک سے برنئیر نے بہت سے خطوط لکھے۔ جن میں بہت سے خطوط برنئیر کے سفر ناموں میں شامل ہیں ۔ لیکن کچھ خطوط ایسے بھی ہیں جو وضاحتی نہ ہونے کی وجہ سے نہیں چھپے یا انکے کچھ حصے چھپے۔
فرانسسکو برنئیر کے اس مختصر سے تعارف کا مقصد محض یہ تھا کہ برنئیر کے بارے میں پتہ چل سکے اور اسکی تحریروں کی سنجیدگی اور اہمیت کا اندازہ رہے۔
فرانسسکو برنئیر کے بیش قیمت تاریخی اہمیت کی حامل تحریروں کے کچھ حصے کوذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔ جنہیں برنئیر نے فرانس کے وزیر خزانہ "کولبریٹ ” کو لکھا ۔ یہ تحریریں اور خط فرانس کے وزیر خزانہ کی میز پہ نوآبادیت نامی فائلوں کا حصہ تھے۔ یاد رہے۔یہ وہ دور تھا۔ جب فرانس ۔ ہالینڈ سے مشرقی منڈیوں کی مصنوعات کا عالمی تجارت میں مقابلہ کرنا چاہتا تھا۔اور مشرق میں واقع مشرقی اور دیگر ممالک میں قبضہ کرکے ااپنی نوآبادیاں قائم کرنا چاہ رہا تھا تانکہ اُن ممالک کی معدنیات۔ پیداوار اور مصنوعات یعنی وسائل کو فرانس کے لئیے بروکار لائے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ فرانس کے مشہور وزیر خزانہ” کولبیرٹ” کی اس سوچ اور حکمت عملی کو فرانس میں بے حد مقبولیت ملی اور اسے ۔ "کولبیرٹ ازم” کا معروف نام دیا گیا۔
(جاری ہے۔)
1٭Jean-Baptiste Colbert (29 August 1619 – 6 September 1683) was a French politician who served as the Minister of Finances of France from 1665 to 1683 under the rule
of King Louis XIV.
2٭Jahangir, Shah Jahan, Aurangzeb, c.1605-1707
3٭ François Bernier (1625 – 1688) was a French physician and traveller. He was the personal physician of the Mughal emperor Aurangzeb for around 12 years during his stay in India.
4 ٭ La península del Indostán y el colbertismo. I. El informe de Bernier a Colbert Rojas Ferrer, Pedro
٭5.la description des Etats du Grand mogol
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: (, ), ہمارا, ہندؤستان, ہندؤستانیوں, فوائد, فوجی, ہالینڈ, فرانس, فرانسسکو برنئیر, فرد, قائم, قبضہ, لوئیس, مہم جوئی, مقابلہ, مقبولیت, ملی, ممالک, منڈیوں, موازنہ, موضوع, میں, مانگ, مختلف, مسلسل, مشرقی, مصنوعات, مصالحہ جات, معاشرتی, معروف, مغلوں, مغربی, چہاردہم, نوآبادیاں, چودہویں, ناکامیوں, نجی, ڈھانچے, وزیر اعظم, وزیر خزانہ, یوروپ, کمی, کمپنیاں, کولبیرٹ ازم, کولبریٹ, کی, کے, کھپت, ٭, ۴, ا, اقوام, انداز, اور, اورنگ زیب, اتفاق, احاطہ, بادشاہ, بارے, برآمد, برئنیر, برصغیر, توازن, تجارت, ترین, جہاز راں, جائزہ, حق, حکمت عملی, حکومت, حکومتی, خوبیوں, خیالات, خامیوں, دور, دانشور, درآمد, رپورٹ, زبانی, سفر, سماجی, سوچنے, سیاسی, شمار, شاہجہان, شامل, طاقتور, عیسوی, عالمی, عدم, عزم