نُورا ملاح اور جے آئی ٹی ۔
نورا ملاح کشتی ”کھیہ“ رہا تھا ۔اس نے ”ونج“ کو آخری بار دریا کی تہہ میں گاڑا اور کشتی کوپتن سے لگادیا ۔ چھوٹی سی رسی سے کشتی کو دریا کنارے باندھنے کی دیر تھی کہ اس پار بکھرے دس بارہ دیہات کے اِکا دُکا مسافر جو دیر سے کشتی کا اِس پار آنے کا انتظار کررہے تھے اُچک اُچک کر جلدی جلدی کشتی میں چڑھنے لگے ۔نُورے کا گھر بھی دریا کے اِسی پار کے کچھ دُورواقع گاؤں ”وسن والا“ میں تھا،گرمیوں کی دوپہر سر پہ تھی ۔
نورے نے کشتی کا ”پُور“ (پھیرا)بھرتے سوچا یہ پچھے چار سالوں سے اسکے نصیب چمک اٹھے تھے ۔ بارہ اِس پار کے گاؤں اور بارہ چودہ اُس پار کے دیہاتوں کے لوگ بھی جوق در جوق اسکی کشتی سے اپنے ضروری کاموں سے اس یا اس پار آتے جاتے تھے ۔ اور ان سالوں میں گو ”ہاڑ“ (سیلاب) تو سر چڑھ کر آتا رہا مگر ہر بار کی مناسب پیش بندی سے اسکی کشتی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا ۔ ورنہ تو پچھلے سالوں میں دو دو بار اسکے کشتی دریا کے سیلاب میں بہہ کر گُم گُما گئی تھی اور اگلے سالوں میں نُورے اور اور اسکے خاندان کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مگر اب کی بار اللہ نے اس پہ اور اسکے خاندان پہ خاص کرم کیا تھا ۔
نُورا انہی سوچوں میں غرق اور دل ہی دل میں خوش ہوتا ہوا کشتی ”کھیتا“ دریا کے درمیان پہنچ چکا تھا کہ اُس کے گاؤں ”وسن والا“ کے ”مانے“ کو پتہ نہیں کیا سُوجھی کہ اس نے کہا کہ
”نُورے میں ابھی گاؤں سے آیا ہوں اور تمہارے لئیے ایک بری خبر ہے “
نورے کی ساری خوشی کافُور ہوگئی اور وہ مانے کی طرف متوجہ ہوگیا جو بتارہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
”نُورے ۔ تمہاری بیوی اپنے کسی آشناء کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی ہے“
نورے کا رنگ فوراََ فق ہوگیا ۔ کشتی میں سوار بار ہ گاؤں کے دیہاتیوں نے چونک کر اپنی باتیں چھوڑ چھاڑ کر نظریں نُورے پہ گاڑ دیں ۔ اور نورے کو یوں لگا جیسے کسی نے اسے بھرے بازار میں ننگا کر دیا ہو۔ایک لمحے کے لئیے ”ونج“ پہ اسکی گرفت کمزور ہوئی اور کشتی لہراکر رہ گئی ۔ مگر نُورے نے دوبارہ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے ”ونج “ پہ اپنی گرفت مضبوط کی مگر اُسے یوں لگا جیسے کسی نے اسکے بازؤں کی طاقت سلب کر لی ہو ۔ نورا ملاح جیسے تیسے کشتی ”کھیہ“ کہ دریا کے دوسرے کنارے لگانے میں کامیاب ہوگیا ۔ کشتی کے مسافر اسے عجیب نظروں سے دیکھتے اپنے اپنے رستوں کو ہو لئیے صرف ”مانا“ رک گیا تھا اور مسافروں کے جاتے ہی نُورااپنی بربادی پہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔اور اچانک ”مانا “ بے اختیار قہقے لگا کر ہنسے لگا ۔ نورے نے غم اور صدمے سے مانے کو دیکھا ۔ مانے نے کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
” اوئے جھلیا۔ میں تو تمہارے ساتھ دل لگی (مذاق) کر رہا تھا ۔ تمہیں پتہ تو ہے دل لگی کرنے والی میری اس پُرانی عادت کا۔ تمہاری بیوی کسی اپنے آشناء کے ساتھ بھاگ کر کہیں نہیں گئی اور وہ تمہارے گھر پہ ہی ہے۔ میں تو ایسے ہی تمہارے ساتھ دل لگی کر رہا تھا“
نُورے نے مایوسی اور غم کے ملے جُلے جذبات اور رندھے ہوئے گلے سے دور دراز راستوں پہ جانے والے کشتی کے مسافروں کو دیکھا اور ”مانے“ سے گویا ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
”مانے! تم نے تو دل لگی کی مگر میرا ستیا ناس کردیا۔اب یہ سمجھو کہ کہ میری بیوی واقعی گھر سے بھاگ ہی گئی ہے۔یہ بارہ گاؤں کے لوگ بارہ چودہ مختلف گاؤں کو جائیں گے اور اتنے ہی لوگوں کو بتائیں گے کہ نورے ملاح کی بیوی آج گھر سے بھاگ گئی ہے۔ نہ یہ سارا ”پُور“ دوبارہ اکھٹا ہوگا ۔ اور نہ ہی وہ تم سے یہ جاننا چاہیں گے کہ تم نے مجھ سے دل لگی کی تھی جبکہ میری بیوی کسی آشناء کے ساتھ گھر سے نہیں بھاگی تھی۔ اور اگر اتفاق سے وہ اکھٹے ہو بھی جائیں اور تم انہیں حقیقت بتا بھی دو تو اتنے سارے دیہاتوں میں جہاں ان کے بتانے سے میری نیک نامی تار تار ہوگی وہ کیسے نیک نامی میں بدل پائے گی؟ بس ”مانے“ اب یوں سمجھوں کہ میری بیوی کسی آشناء کے ساتھ بھاگ ہی گئی ہے اورمیری نیک نامی تواب واپس آنے سے رہی“
نواز شریف نے اگر کرپشن نہیں بھی کی تو بھی اب نواز شریف جس قدر متنازع شخصیت بن چکے ہیں اور ثابت اور غیر ثابت شدہ الزام تراشیوں میں گھر چکے ہیں ۔توانہیں چاہئیے کہ ملک و قوم کے وسیع ترمفاد میں اپنے عہدے سے استعفی دے کر بچی کچھی کچھ نیک نامی سمیٹنے اور جمہوریت کو بچانے کی کوشش کرنی چائیے۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: "ہاڑ", "مانے", "مانا", "نُورے, "وسن, "پُور", "پُورا", (مذاق), (پھیرا)بھرتے, )کچھ, “, ہ, فق, ہنسے, ہو, ہو۔ایک, ہوگی, ہوگیا, ہوگئی, ہوگا, ہوں, ہوئی, ہوئے, ہوا, ہوا۔, ہوتا, ہی, ہیں, ہے, ہے"نورے, ہے۔, ہے۔یہ, ہر, قوم, قدر, لہراکر, لمحے, لوگ, لوگوں, لی, لگی, لگے, لگا, لگانے, لگادیا, لئیے, م, ملک, ملاح, مناسب, میں, میری, مگر, متنازع, متوجہ, مجھ, مختلف, مسافر, مسافروں, مشکلات, مضبوط, نہ, نہیں, نقصان, نمک, ننگا, چوہ, چونک, نواز, چودہ, نورے, نورا, نیک, نُورا, نُورااپنی, چڑھ, چڑھنے, نے, چکے, چکا, چھوڑ, چھوٹی, چھاڑ, چاہیں, نامی, چائیے۔, چار, نصیب, نظروں, نظریں, و, وہ, ونج, والی, والے, والا, واپس, ورنہ, وسیع, یہ, یوں, یا, ۔, ۔نورے, ۔اس, کہ, کہیں, کہا, کمزور, کچھی, کنارے, کو, کوپتن, کوئی, کوشش, کی, کیا, کیسے, کے, کھیہ, کھیتا, کا, کافُور, کاموں, کامیاب, کا۔, کر, کرم, کرنی, کرنے, کرنا, کرپشن, کررہے, کسی, کشتی, گم, گما, گڈ, گویا, گی؟, گیا, گے, گھر, گئی, گاڑ, گاڑا, گاؤں, گرفت, پہ, پہنچ, پہنچا, پچھلے, پچھے, پیش, پڑا, پھوٹ, پائے, پار, پتہ, آنے, آیا, آپ, آتے, آتا, آج, آخری, آشناء, اللہ, ان, انہی, انہیں, اچک, اچانک, انتظار, اوئے, اور, اورمیری, ایک, ایسے, اُس, اُسے, اِس, اِسی, اکھٹے, اکھٹا, اکا, اگلے, اگر, اٹھے, اپنی, اپنے, اب, ابھی, اتفاق, اتنے, اختیار, ار, اس, اسے, اسکی, اسکے, استعفی, بہہ, بن, بنی, بنانے, بندی, بیوی, بڑی, بے, بکھرے, بھی, بھاگ, بھاگی, بھرے, باندھنے, باتیں, بار, بارہ, بازؤں, بازار, بتا, بتانے, بتائیں, بتارہا, بدل, بری, بربادی, بس, تہہ, تم, تمہیں, تمہاری, تمہارے, تو, توانہیں, تیسے, تھی, تھی۔, تھے, تھا, تھا"نُورے, تھا،گرمیوں, تار, ترمفاد, جہاں, جلدی, جمہوریت, جو, جوق, جیسے, جھلیا۔, جاننا, جانے, جائیں, جاتے, جبکہ, جس, حقیقت, خوش, خوشی, خاندان, خاص, خبر, دہ, دل, دو, دوپہر, دوبارہ, دور, دوسرے, دیہات, دیہاتوں, دیہاتیوں, دیکھا, دیکھتے, دیں, دیا, دیر, دُورواقع, دے, دکا, در, درمیان, دریا, دراز, دس, رہ, رہی, رہا, رنگ, رونے, رک, راستوں, رسی, رستوں, سلب, سمیٹنے, سمجھو, سمجھوں, سنبھالتے, سوچوں, سونا, سوار, سی, سیلاب, سُوجھی, سے, سالوں, سامنا, ساتھ, ساری, سارا, سر, شخصیت, شریف, صدمے, صرف, ضروری, طاقت, طرف, عہدے, عادت, عجیب, غم, غرق
جے آئی ٹی رپورٹ بھی ہوگئی۔
اب کیا ہوگا؟۔
کیا یہ سیریل آئندہ الیکشن تک چلے گا؟
اگر یوں ہوتا ہے کہ یہ سیریل آئندہ الیکشن تک چلتی ہے تو کیا اس کا یہ مطلب واضح ہے کہ گو کہ اس سیریل کے تمام اداکار پاکستانی ہیں مگر اس سیریل کو ڈائریکٹ کہیں اور سے کیا جارہا ہے؟
جنرل ایوب خان نے اپنی کتاب "فرینڈز ناٹ ماسٹرز” Friends Not Masters, میں آقاؤں کی طوطا چشمی کے شکوے کئیے ہیں اور ان کی بے وفائی کا دکھڑا بیان کیا ہے۔ اور ایوب خان کے خلاف بھی لانگ مارچ کا ہی فارمولہ آزمانے اور انہی طاقتوں کی ایماء پہ برسراقتدار آنے والے بڑے بھٹو مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار کے آخری ایام میں اپوزیشن جماعتوں کے قومی اتحاد اور بعد ازاں نظامِ مصطفی نامی تحریک کے زبردست دباؤ کے بعد پی ٹی وی پہ اپنی آخری تقریر میں امریکہ کو سفید ہاتھی گردانتے ہوئے یہی واویلہ کیا کہ ہائے ہائے مجھے بنانے والے مجھے گرانے پہ آمادہ ہیں۔
انہی طاقتوں کے اشارے پہ گرم سیاسی ماحول میں اسلامی نظام کا نعرہ لگا کر تختِ اسلام آباد پہ قبضہ جمانے والے جنرل ضیاء الحق بھی اپنے آخری دنوں میں اپنے انجام سے آگاہ ہوچکے تھے کہ آقاؤں کا دستِ شفقت انکے سر سے اٹھ چکا ہے اور وہ آج یا کل دیر یا سویر سے اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں۔ اسی لئیے وہ اپنے آخری دنوں میں امریکی سفیر اور اپنے جرنیلوں سمیت ہر اس شخص کو اپنے ساتھ لئیے پھرتے تھے جس پہ انہیں اپنے خلاف کسی سازش میں شریک ہونے کا ذرہ بھر بھی شائبہ تھا۔ اور بہاولپور فضائی حادثے میں مارے جانے والے پاکستان کے انتہائی ذمہ دار لوگوں کے ایک ہی طیارے میں سوار ہونے کی یہ بھی ایک وجہ تھی۔
موجودہ دور میں پاکستانی مسنندِ اقتدار پہ قابض ہونے والوں میں سے جنرل مشرف شاید وہ واحد کردار ہے جس نے ہدایت کاروں کی ہر فرمائش ان کی توقعات سے بڑھ کر پوری کی اور جب جنرل مشرف کو مسندِ اقتدار سمیٹنے کا اشارہ ہوا تو اس نے بلا چون چرا جان کی امان پاؤں کے صدقے اپنا بوریا لپیٹا اور اُدہر کو سدھار گئے جدہر سے انہیں جائے امان کا وعدہ کیا گیا تھا۔
ایسے ھی اچانک سے ڈرامائی طور پہ زرداری پاکستان کے صدر بن گئے۔ کیا تب صرف چند ماہ بیشتر کسی کے وہم گمان میں تھا کہ بے نظیر وزیر اعظم بننے کی بجائے زرداری پاکستان کے مختارِکُل قسم کے صدر بن جائیں گے؟۔ ہماری قومی یاداشت چونکہ کچھ کمزور واقع ہوئی ہے اگر کسی نے یاداشت تازہ کرنی ہو تو اس دور کے الیکشن سے چند ماہ قبل کے اخبارات اور ٹی وی مذاکروں کا مطالعہ و نظارہ کر لیں۔ جن میں بے نظیر کے ہوتے ہوئے زرداری کے صدر یا وزیر اعظم بننے کا خیال تک بھی کسی سیاسی جغادر کے وہم و گمان سے گزرا ہو۔ صرف چند ماہ میں زرداری پاکستان کے مختار کل قسم کے صدر تھے۔
زرداری حکومت میں نواز شریف عدلیہ بحالی کا عزم لے کر لاہور سے اسلام آباد کو ایک جمِ غفیر لے کر نکلے۔ عوام کا ٹھاٹا مارتا سمندر ساتھ تھا۔ زرداری حکومت چند دن میں ڈیڑھ سو کلو میٹر کی دوری پہ انجام پزیر ہوسکتی تھی۔ قومی یادشت کو تازہ کی جئیے کہ تب امریکی صدر اور سفیر اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل کیانی کے یکے بعد دیگرگوجرانوالہ نواز شریف کو فون آئے اور نواز شریف عام عوام کی توقعات اور امیدوں کے بر عکس تب گوجرانوالہ سے واپس لاہور سدھار گئے۔ سوجھ بوجھ والوں نے تب ھی فال ڈال دی کہ مک مکا ہوگئی ہے اور زردای کو ٹرم پوری کرنی دی جائے گی اور آئندہ ویز اعظم نواز شریف ہونگے۔ اور مڈٹرم کے طور یہی کلیہ نواز شریف کے خلاف مختلف مارچوں اور دھرنوں کے ذرئیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی مگر عام عوام کی عدم دلچسپی یا آئے دن کے بے مقصد سیاسی ہنگامہ آرائی سے بیزارگی کی وجہ سے یہ ایکٹ کامیاب نہ ہوسکا۔
کسی بھی قیمت پہ اقتدار میں آنے والے جب طے شدہ شرائط پہ کام کرنے کے بعد خالص اپنے ذاتی جاہ حشمت کو برقرار رکھنے کے لئیے کنٹریکٹ کوغیر ضروری طور پہ طوالت دینے کی ضد کریں۔ یا دی گئی بولی سے انحراف کریں تو ان کا انجام بخیر نہیں ہوتا۔
مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی قیمت پہ اقتدار کے خواب دیکھنے والے بچہ سقوں کی ہمارے ہاں کمی نہیں۔ مگر ایسے خوابوں کو پایہ تکمیل پہنچانے والی یا اقتدار کو استحکام بخشنے پہ قدرت رکھنے والی وہ طاقتیں جوبیرونِ پاکستان سے کٹھ پتلی تماشے کی ڈوریاں ہلاتی ہیں وہ کسی ایسے ڈھیلے ڈھالے کردار کو مسند اقتدار کا ایکٹ نبھانے کی اجازت دینے پہ تیار نہیں جو موجودہ دور میں پاکستانی اسٹیج پہ اپنے کردار اور ایکٹ کو زبردست عوامی پذیرائی اور عوام کی طرف سے پرجوش تالیوں کے استقبال کی اہلیت نہیں رکھتا۔
کیا پاکستان کے مفادات کے خلاف پھر سے بولی ہوگی؟ جو بڑھ کر بولی دے گا اسے مسند اقتدار بخشا جائے گا؟
کیا نئے مناسب اداکار دستیاب نہ ہونے کی صورت میں پرانی ٹیم نئی شرطوں اور تنخواہ پہ کام کے لئیے منتخب کی جائے گی؟
کیا ہمارے خدشات محض خدشات ثابت ہونگے۔اللہ کرے ہمارے خدشات محض خدشات ثابت ہوں۔
پردہ اٹھنے میں دیر ہی کتنی ہے؟ نئے انتخابات میں عرصہ ہی کتنا رہتا ہے؟
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: "فرینڈز, )کچھ, Friends, Masters, Not, ہلاتی, ہماری, ہمارے, ہنگامہ, ہو, فون, ہونے, ہوچکے, ہونگے۔, ہونگے۔اللہ, ہو۔, ہوگی؟, ہوگئی, ہوگئی۔اب, ہوگا؟۔کیا, ہوں۔پردہ, ہوئی, ہوئے, ہوا, ہوتا, ہوتا۔, ہوسکا۔کسی, ہوسکتی, ہی, ہیں, ہیں۔, ہے, ہے۔, ہے؟, ہے؟جنرل, ہال, ہاں, ہائے, ہاتھی, فارمولہ, ہدایت, ہر, فرمائش, فضائی, قومی, قیمت, قابض, قبل, قبضہ, قتدار, قدرت, قسم, لوگوں, لیں۔, لے, لگا, لپیٹا, لئیے, لاہور, لانگ, مفادات, مقصد, مناسب, منتخب, مڈٹرم, موجودہ, میٹر, میں, مک, مکا, مگر, ماہ, ماحول, مارچ, مارچوں, مارے, مارتا, ماسٹرز", مجھے, محض, مختلف, مختار, مختارِکُل, مذاکروں, مرحوم, مسنند, مسند, مسندِ, مسئلہ, مشرف, مصطفی, مطلب, مطالعہ, نہ, نہیں, نہیں۔, چلے, چلتی, چند, نون, چونکہ, نواز, چیف, نے, نکلے۔, چکا, نئی, نئے, نامی, ناٹ, نبھانے, چرا, چشمی, نظیر, نظام, نظامِ, نظارہ, نعرہ, و, وہ, وہم, وفائی, ڈوریاں, وی, ڈیڑھ, ویز, ڈھیلے, ڈھالے, واقع, ڈال, والوں, والی, والے, واویلہ, واپس, ڈائریکٹ, واحد, واضح, وجہ, ڈرامائی, وزیر, وعدہ, یہ, یہی, یوں, یکے, یا, یاداشت, یادشت, کہ, کہیں, کل, کلو, کلیہ, کمی, کمزور, کنٹریکٹ, کو, کوشش, کوغیر, کی, کیا, کیانی, کے, کٹھ, کئیے, کا, کام, کامیاب, کاروں, کتنی, کتنا, کتاب, کر, کرنی, کرنے, کریں, کریں۔, کرے, کرادر, کردار, کسی, گمان, گڈ, گوجرانوالہ, گی, گی؟کیا, گیا, گے؟۔, گئی, گئے, گئے۔, گا, گا؟, گا؟اگر, گرم, گرانے, گردانتے, گزرا, ٹی, ٹیم, ٹھاٹا, ٹرم, پہ, پہنچنے, پہنچانے, پوری, پی, پھر, پھرتے, پایہ, پاکستان, پاکستانی, پاؤں, پتلی, پذیرائی, پرانی, پرجوش, پزیر, آقاؤں, آمادہ, آنے, آگاۃ, آئندہ, آئی, آئے, آباد, آج, آخری, آرمی, آرائی, آزمانے, اہلیت, اقتدار, الیکشن, الحق, امیدوں, امان, امریکہ, امریکی, ان, انہی, انہیں, انکے, اچانک, انتہائی, انتخابات, انجام, انحراف, اور, ایماء, ایوب, ایک, ایکٹ, ایام, ایسے, اگر, اٹھ, اٹھنے, اپنی, اپنے, اپنا, اپوزیشن, اپے, ااور, اتحاد, اجازت, اخبارات, ادہر, اداکار, ازاں, اس, اسلام, اسلامی, اسی, اسے, اسٹیج, استقبال, استحکام, استعمال, اشارہ, اشارے, اعظم, بہاولپور, بلا, بن, بچہ, بننے, بنانے, بولی, بوجھ, بوریا, بیان, بیزارگی, بیشتر, بڑے, بڑھ, بے, بھی, بھٹو, بھر, بجائے, بحالی, بخنے, بخیر, بخشا, بر, برقرار, برسراقتدار, بعد, تقریر, تمام, تماشے, تنخواہ, تو, توقعات, تیار, تک, تکمیل, تھی۔, تھی۔موجودہ, تھے, تھے۔زرداری, تھا, تھا۔, تھا۔ایسے, تالیوں, تازہ, تب, تحریک, تختِ, ثابت, جمِ, جمانے, جماعتوں, جن, جنرل, جو, جوبیرونِ, جے, جئیے, جاہ, جان, جانے, جائیں, جائے, جارہا, جب, جدہر, جرنیلوں, جس, جغادر, حکومت, حادثے, حشمت, خلاف, خواب, خوابوں, خیال, خالص, خان, خدشات, دلچسپی, دن, دنوں, دور, دوری, دی, دینے, دیکھنے, دیگرگوجرانوالہ, دیر, دے, دکھڑا, دھرنوں, دار, دباؤ, دستیاب, دستِ, ذمہ, ذوالفقار, ذاتی, ذرئیے, رہتا, رکھنے, رکھتا۔کیا, رپورٹ, زبردست, زرہ, زردای, زرداری, سفید, سفیر, سقوں, سمندر, سمیٹنے, سمیت, سو, سویر, سوار, سوجھ, سیاسی, سیریل, سے, سایسی, ساتھ, سازش, سدھار, سر, شفقت, شکوے, شاید, شائبہ, شخص, شدہ, شریف, شریک, شرائط, شرطوں, صورت, صدقے, صدر, صرف, ضیاء, ضد, ضروری, طوالت, طور, طوطا, طیارے, طے, طاقتوں, طاقتیں, طرف, علی, عوام, عوامی, عکس, عام, عدلیہ, عدم, عرصہ, عزم, غفیر
مہلت۔
حکمران ہوش کے ناخن لیں۔۔۔
جنرل مشرف کے دور میں اس خطےکے ممالک کے عام شہری ہی کیا۔ اچھے خاصے تجزئیہ نگار ہمیں امریکہ کی ایک سیٹلائٹ ریاست گردانتے تھے۔ آج بھی پاک امریکہ تعلقات کی تعریف کرنا اتنا آسان نہیں۔ کہیں تو یوں لگتا ہے کہ دونوں ممالک یک جان دو قالب ہیں ۔اور کچھ معاملات میں دو بدو آمنے سامنے نظر آتے ہیں۔ پاکستان سے باہر خطے کے دیگر ممالک کے سنجیدہ سوچ رکھنے والے اور حالات حاضرہ پہ نظر رکھنے والے اچھے خاصے دانشور۔ پاکستان کے بارے میں کینفیوز ہوجاتے ہیں اور الجھ جاتے ہیں۔ کہ آیا امریکا پاکستان کا دوست ہے یا دشمن؟۔ اس ضمن میں صلالہ پوسٹ پہ حملہ۔ ایبٹ آباد کے قریب حملہ۔ پاکستان میں افغانستان سے دہشت گردی کا اہتمام ۔اور دیگر بہت سے معاملات۔ باہمی تعلقات کی رسہ کشی کو جہاں نمایاں کرتے ہیں ۔ وہیں روز اسلام آباد کے نت نئے دوروں پہ آئے۔ امریکی اعمال اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل در معقولات۔ اسکول اساتذہ کی تربیت سے لیکر فارمی مرغیوں کے گوشت اور انڈوں کی اقسام اور ان پہ بھاؤ تاؤ اور مول تول تک میں۔ ناک گھسیڑتے امریکی۔ پاکستان و امریکہ کے تعلقات کی ایک پیچیدہ داستان بیان کرتے ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آج کی دنیا ۔ بین الاقوام مفادات کی دنیا ہے ۔ جس میں کوئی ملک کسی کا حتمی دوست نہیں ہوتا۔ اور مفادات کے تابع دوستیاں اور دشمنیاں طے ہوتی ہیں۔
ایک مشہور مغربی کہاوت ہے کہ ۔۔۔ "نئے دشمن کی نسبت ایک دیرینہ دشمن بہتر ہوتا ہے”۔۔۔۔ یعنی دیرینہ دشمن کے طریقہ واردات کو آپ سمجھ چکے ہوتے ہیں۔ جب کہ نئے دشمن کے بارے میں آپ مکمل اندھیرے میں ہوتے ہیں۔امریکی۔ بشار الاسد کی امریکی شرائط ماننے پہ آمادہ حکومت کو۔ ایک کمزور حکومت کو۔ اپنے اور اسرائیل کے وسیع تر مفاد میں قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ داعش کا حیرت انگیز طریقے سے وجود میں آنا۔ تیزی سے ابھرنا ۔ پھیلنا اور پھر سکڑنا۔ عراقی باقاعدہ فوج کے ساتھ سنی کرد ” پیش مرگہ” کی داعش کے خلاف تیزی سے پیش قدمی۔ پھر اسے نظر انداز کرنے کی پالیسی اور عراقی و ایرانی شعیہ ملیشیاء کا داعش کے خلاف میدان میں اترنا۔ داعش کا شامی حکومت کے خلاف اعلان جنگ ۔اور اسرائیل کی بجائے۔ بیک وقت سعودی عرب اردن اور دیگر کے خلاف صف بندیوں کی دھمکی ۔اور اقدامات۔ امریکہ کی طرف سے کچھ لوگوں کی تربیت اور امداد ۔جو بیک وقت شامی حکومت اور داعش کے خلاف امریکی مفادات کے لئیے میدان میں اتریں ۔ عرب ممالک کا بیک وقت بشار الاسد اور داعش کے خلاف صف بندی۔ یہ وہ اجزائے ترکیبی ہیں جن سے اس خطے کی نئی تصویر بننے جارہی ہے۔ مگر یہ اجزائے ترکیبہ ابھی مکمل نہیں ۔ کیونکہ آنے والے دنوں میں داعش اور شامی حکومت میں امریکہ کے خلاف کسی حد تک مفاہمت ہوسکتی ہے۔
اس پورے خطے کو میدان جنگ بنانے میں جس میں پاکستان کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس میں خام مال کا زیادہ حصہ پاکستان سے لیا جانا مقصود ہے اور اس خام مال کی تیاری راتوں رات نہیں ہوئی۔ بلکہ اسے کاشت کرنے اور پروان چڑھانے میں۔ آپکے دشمنوں نے کئی دہائیاں لگائی ہیں قرضہ ۔ مدد۔ اور بھیک کی مد میں اربوں ڈالرز خرچ کئے ہیں۔ درجنوں سالوں سے منصوبہ بندی کی ہے۔ مسلمان ملکوں میں اپنی مرضی کے سربراہ مسلط کر کے قوموں کو بانجھ کیا ہے۔ قوموں کو بھیڑ اور منتشر ہجوم میں تبدیل کیا ہے۔ جو قومیں تاریخی اور پرانی تھیں مثلاََجیسے ترکی وغیرہ اور انہوں نے اپنے حکمران خود چنے۔ وہ آج قدرے مستحکم اور بہتر پوزیشن میں ہیں ۔ جن ممالک کے حکمرانوں نے امریکہ و مغرب کی منشاء کے سائے میں زندگی گزاری۔ آج ان ممالک اور قوموں کو ۔ غداری۔ فحاشی ۔آوارگی۔ نفرت۔ احساس محرومی۔ لاتعلقی۔اور بالآخر خانہ جنگی جیسے مسائل بھگتنے پڑ رہے ہیں اور بھگتنے پڑیں گے۔ امریکہ کے مسلط کردہ حکمرانوں نے اس خطے کی قوموں میں جوہر قابل پیدا ہی نہیں ہونے دیا۔ انھیں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے کو دے دی گئیں۔ اور یہ آپس میں دست و گریباں ہوئے ۔ایک کو تھپکی۔ دوسرے کو ڈانٹ اور تیسرے کو اشارہ ۔ کئی دہائیوں سے امریکہ کی اس خطے کے بارے خارجہ پالیسی یہی رہی ہے۔
پاکستان میں اسکندر مرزا ۔ایوب ۔ یحییٰ خان۔ ضیاء۔ مشرف کے لمبے آمرانہ دور اقتدار میں۔ مقامی جوہر قابل کو پروان چڑھنے اور مقامی صنت و حرفت کے پھلنے پھولنے کو بھاری امریکی منصوبوں سے روکا گیا۔ ملک میں اپنے وسائل سے ترقی کرنے ۔ اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے اور خود انحصاری کے خواب کو۔ ایک بھوکے ننگے ملک کی تصویر میں بدل دیا گیا۔ پاکستان کو امریکہ اور مغرب سے درآمد شدہ منصوبوں اور ماہرین کی درآمد سے رفتہ رفتہ ۔اور بالآخر محض ڈالروں کی آمدن تک محدود کر دیا گیا۔ جس میں امریکی چہیتوں کے لئیے تو آسانیاں اور فروانیاں تھیں۔ انہوں نے ان میلنز ڈالرز سے خوب جیبیں بھریں مگر بدقسمتی سے عام عوام کے حصہ میں یہ قرضہ اور اس کا سود چکانے کے لئیے بھاری ٹیکس آئے۔ اور آئی ایم ایف جیسے عالمی ساہوکار ادارے پاکستانی اناج کی قیمت پہ اثر انداز ہونے لگے۔ پاکستانی قوم کی ایک بڑی اکثریت پچاس سالوں سے مسلسل درد زہ بھگتتے بھگتتے ۔ پاکستان میں قسما قسمی کے تعصبات۔ لسانی ۔ صوبائی۔ علاقائی۔ مذہبی۔ مسلکی ۔ گروہی۔ سیاسی۔ اور دہشت گردی جیسے بھیانک مسائل پیدا کرتی چلی گئی اور اپنے خوابوں کی تعبیر اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہوتی گئی۔
آج یہ عالم ہے کہ ہر شہری ۔ ہر فرد ۔ شاکی ہے اور کسی کا بھی گلا کاٹنے کو تیار ہے۔ اس کی ایک حالیہ مثال لاہور میں نصرانی برادی کے ہاتھوں دو زندہ جلائے جانے والے عام راہگیروں کی ایک مثال ہی کافی ہے۔ نتائج سے بے پرواہ ہو کر تشدد پہ آمادہ ہوجانے اور اچانک کسی انتہائی قدم پہ اترنے سے پاکستانی عوام کے مزاج میں مایوسی اور فرسٹریشن کی خوفناک صورتحال سامنے آتی ہے۔ جو کہیں بھی محض کسی ایک واقعے سے ایک خوفناک تصادم میں بدل سکتی ہے۔
یہ سب محض چند دنوں میں نہیں ہوا ۔ اسکے پیچھے عالمی طاقتوں کی پچاس سالوں سے زائد وہ حکمت عملی ہے۔جس میں ہمارے بے برکتے اور سیاسی شعور اور بصیرت سے عاری۔ بے بس حکمرانوں کی حماقتیں اور بے عملیاں برابر کی ذمہ دار ہیں۔ جن میں عوام مسلسل پسے ہیں اور ان کے احساس محرومی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے ۔ انکی عزت نفس کو قدم قدم پہ کچلا گیا ہے۔ عوام کی کئی نسلیں جوان ہو چکی ہیں اور انکے حصے میں پچھلی نسل کی نسبت پہلے سے زیادہ مایوسی آئی ہے۔ اور بدستور پاکستان میں عوام کو مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ جہاں کوئی بھی چارہ گر انھیں اپنے مقاصد کے لئیے دھوکے سے استعمال کر سکتا ہے ۔ جس سے مشرق وسطی جیسے حالات پاکستان میں بھی پیدا کئیے جاسکتے ہیں ۔ اس لئیے بھی پاکستانی کرتا دھرتاؤں کو چاہئیے کہ وہ اپنی بقا کی ہی خاطر سہی۔ اپنے عوام کا معیار زندگی بہتر کرنے کی کوششوں کو اپنی اولین ترجیج سمجھیں ۔ اور پاکستان پہ مسلط ۔ورثے میں ملے اس بوسیدہ انگریزی نظام اور سوچ سے جان چھڑائیں۔ اور ایسی تبدیلیوں کا آغاذ کریں۔ جن سے عوام کی زندگی میں بہتری آئے اور عوام یہ بہتری ہوتے ہوئے محسوس کریں ۔ محض خالی خولی دعووں سے خالی پیٹ بھرنا ناممکن ہوتا ہے۔ ورنہ کوئی وقت جاتا ہے۔ کہ حالات حکمرانوں کے بس سے باہر ہو جائیں گے خدا نخواستہ۔
پاکستان کے حالات کو ہم بہتر سمجھتے ہیں۔ اسلئے پاکستان کے حالات کی مثال بیان کی ہے۔ پاکستان جیسے حالات مشرق وسطی کے بہت سے ممالک کے ہیں ۔مثلاََ مصر کو پاکستان کے نقش قدم پہ چلایا جارہا ہے۔ وہاں وہی پاکستان کی طرز کی امریکی پالیسیز ہیں اور السیسی جیسا فوجی جرنیل حکومت میں ہے۔ جبکہ پاکستان میں بھی سیاسی حکومتیں ابھی تک لرزہ براندام ہیں۔
پاکستان کے اور مشرق وسطی کے منظر نامے کو جو لوگ محض مذہبی نکتہ نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس خطے کے حالات محض اس لئیے بگاڑے گئے کہ عالمی طاقتیں مسلمانوں سے نفرت کرتی ہیں ۔ انھیں اس سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان طاقتوں کے لئیے ہمارا مذھب۔ اسلام ۔ایک اہم فیکٹر ضرور ہے۔ جس میں مسلکی اختلافات کو ہوا دے کر وہ اپنے حق میں کئیش کروانا چاتے ہیں ۔ مگر انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ۔کہ ان ممالک میں شیعہ بستے ہیں یا سنی ۔ مالکی یا حنبلی ۔ دیو بندی یا بریلوی۔ اہل حدیث یا اہل سنت ۔ عالمی طاقتوں کو محض اپنے اغراض و مقاصد سے دلچسپی ہے۔ جو بہت مختلف ہیں ۔ جہاں خطے کے وسائل سے استفادہ سے لیکر ایسی کسی ممکنہ سیاسی طاقت ۔۔۔۔۔خواہ وہ اسلامی ہو یا نیم اسلامی مگر جو خطے کے مذھب اور مزاج کی وجہ سے اسلامی ہوسکتی ہے۔۔۔۔۔ ایسی کسی بڑی اور مستحکم سیاسی طاقت کو وقوع پزیر ہونے سے روکنا ہے ۔ جو عالمی طاقتوں کے سیاسی اور معاشی مفادات کے لئیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ اور انکے مفادات لئیے چیلنج بن جائے۔ یہ طاقتیں ہندو بنئیے کی سی سوچ رکھتی ہیں اور ہر صورت میں اپنے مفادات کے لئیے۔ دہائیوں پہ محیط منصوبوں پہ عمل درآمد کرتی ہیں ۔ وقتی مفادات کے تحت یہ وقتی یا غیر متوقع طور پہ پیدا ہونے والی صورتحال سے ممکن ہے وقتی طور پہ سمجھوتہ کر لیں ۔یا ۔ایسی صورتحال کو اپنے مفاد میں کئیش کروانے کی کوشش کریں ۔ مگر اپنے حتمی مفادات کو ہمیشہ مد نظر رکھتی ہیں ۔ اور وہ اس سارے خطے کی بے چینی اور خون خرابی اور سیاسی عدم استحکام کو بھی اپنی ایک کامیابی سمجھتی ہیں ۔کہ انہوں نے ہمیں دنیا کی ترقی و ترویج میں حصہ لینے سے روک رکھا ہے ۔ خطے کے ممالک کے مسلمان عوام کی ترقی رکی ہوئی ہے۔ اور دنیا میں مسلمان ممالک کے ایک بڑے خطے کو کئی دہائیوں سے باہم دست گریباں کر رکھا ہے۔ اور جہاں وہ ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ بات نہیں بنی ۔ وہاں وہ براہ راست اپنی فوجیں اتار دیتے ہیں ۔ عراق اور افغانستان اس کی ایک مثال ہیں۔ اسلئے اس ساری صورتحال کو محض مذہب یعنی اسلام کے خلاف صف آرائی سے کچھ آگے۔ یعنی دنیا میں بنیاء ذہنیت اور اسکے مفادات کی تکمیل کے تناظر میں دیکھنے کی اور سمجھنے کی ضرورت ہے تانکہ مکمل تصویر سامنے آسکے ۔
جس طرح مشرق وسطی میں کچھ سالوں قبل تک شام کو ایک بہت مستحکم ملک سمجھا جاتا تھا ۔ حکومت کی عوام پہ گرفت بہت مضبوط تھی ۔ شامی مخابرات لوگوں کے گھروں میں پکنے والے کھانوں تک کی تفضیلات کی خبر رکھتی تھی۔ مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ فضاء بنی کہ آج یقین ہی نہیں آتا کہ جبر کی بنیاد پہ قائم شام۔ کل تک مشرق وسطی کا سیاسی طور پہ ایک مستحکم ملک تھا ۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملک وہی مستحکم ہوتے ہیں اور ہر قسم کے اندرونی و بیرونی چیلنجز کا باآسانی مقابلہ کر لیتے ہیں ۔ جن ممالک کے عوام مضبوط اور مستحکم ہوتے ہیں۔ جنہیں اپنے ملک کے اندر آزادی ۔ انصاف اور تحفظ حاصل ہو۔ جہاں مسائل کا حقیقی حل ہو۔ جہاں زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے پالیسیز ترتیب دی جائیں ۔ مقامی طور پہ عوام کے مسائل حل کئیے جائیں ۔روزی روٹی ۔امن عامہ اور توانائی جیسے بحران نہ ہوں۔ عوام کو احساس تحفظ ہو۔
پاکستانی عوام کے مسائل وہی بنیادی ضرورتوں کے نہ ہونے سے متعلق ہیں ۔ جنہیں حل کرنے کی بجائے حکمران ہمیشہ دور کی کوڑی لاتے رہیں ہیں۔ اس لئیے شتر مرغ کی طرح مسائل سے اغماض برتنے کی بجائے انہیں جنگی بنیادوں پہ تیز ترین حکمت عملی کے تحت حل کیا جاناچاہئیے۔ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی فیصلوں اور اقدامات کرنے سے سے ہی حالات بہتر کئیے جاسکتے ہیں ۔
ورنہ پاکستانی عوام میں بے بسی اور مایوسی کی انتہاء کو چھوتا جو غصہ ان کے دلوں میں پل رہا ہے وہ کبھی بھی خوفناک صورتحال اختیار کر سکتا ہے۔ پاکستان میں اگر کبھی خدا نخواستہ حالات قابو سے باہر ہوئے اور حکمران طبقے کو تو ہزیمت اٹھانی ہی پڑے گی مگر ملک و قوم کا بہت نقصان ہوگا۔
یہ ایک معجزہ ہے کہ پاکستان میں باہمی ٹکراؤ کے سارے اجزائے ترکیبی ہونے کے باوجود۔پاکستانی قوم نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا ۔ مگر حکمرانوں کو بھی اس معجزہ کو قدرت کی طرف سے حالات بہتر کرنے کے لئیے ایک مہلت سمجھنا چاہئیے۔ اور عوام کے حالات بہتر کرنے کے لئیے انتھک کوشش کرنی چاہئیے۔
جاوید گوندل ۔
۱۸ مارچ ۲۰۱۵۔بارسیلونا
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, “, Gondal, Javed, ہمیں, ہونے, ہوئی۔, ہوئے, ہوتی, ہوتے, ہوتا, ہوتا۔, فوج, ہوجاتے, ہوسکتی, ہوش, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں۔امریکی۔, ہیں۔ایک, ہے, ہے"۔۔۔۔, ہے۔, ہے۔اس, ہے۔صرف, فارمی, ہجوم, فحاشی, قوموں, قومیں, قالب, قائم, قابل, قدمی۔, قدرے, قریب, قرضہ, لمبے, لوگوں, لیکر, لیں۔۔۔جنرل, لیا, لگائی, لگتا, لئیے, لاتعلقی۔اور, مہلت۔حکمران, مفاہمت, مفاد, مفادات, مقامی, مقصود, ملیشیاء, ملک, ملکوں, ممالک, منتشر, منصوبہ, منصوبوں, مول, میں, میں۔, میدان, مکمل, مگر, ماہرین, مال, ماننے, مثلاََجیسے, محرومی۔, محض, مد, مدد۔, مرگہ", مرزا, مرضی, مرغیوں, مسلمان, مسلط, مسائل, مستحکم, مشہور, مشرف, معقولات۔, معاملات, معاملات۔, مغرب, مغربی, نہیں, نہیں۔, نفرت۔, نمایاں, چنے۔, ننگے, چڑھنے, چڑھانے, نے, چکے, نگار, نئی, نئے, چاہتے, ناک, ناخن, نت, نسبت, نظر, و, وہ, وہیں, وقت, والے, ڈالروں, ڈالرز, ڈانٹ, واردات, وجود, وسیع, وسائل, وغیرہ, یہ, یہی, یوں, یک, یا, یحییٰ, یعنی, ۔, ۔۔۔, ۔۱۸, ۔آوارگی۔, ۔اور, ۔ایوب, ۔ایک, ۔جو, کہ, کہیں, کہاوت, کمزور, کو, کو۔, کوئی, کوشش, کی, کینفیوز, کیونکہ, کیا, کیا۔, کے, کپڑا, کئی, کئے, کا, کاشت, کر, کرنے, کرنا, کرتے, کرد, کردہ, کسی, کشی, گوندل, گوشت, گیا۔, گے۔, گھسیڑتے, گئیں۔, گریباں, گردی, گردانتے, گزاری۔, ۲۰۱۵۔بارسیلونا, پہ, پورے, پوزیشن, پوسٹ, پیچیدہ, پیدا, پیش, پڑ, پڑیں, پھلنے, پھولنے, پھیلنا, پھر, پالیسی, پاک, پاکستان, پاؤں, پروان, پرانی, آمنے, آمادہ, آمدن, آمرانہ, آنے, آنا۔, آیا, آپ, آپکے, آپس, آئے۔, آباد, آتے, آج, آسان, اہتمام, افغانستان, اقتدار, اقدامات۔, اقسام, القوام, الاسد, الجھ, امداد, امریکہ, امریکی, امریکی۔, امریکا, ان, انہوں, انڈوں, انگیز, انھیں, اچھے, انحصاری, اندھیرے, انداز, اندرونی, اور, ایک, ایبٹ, ایرانی, اگست, اپنی, اپنے, ابھی, ابھرنا, اتنا, اترنا۔, اتریں, اجزائے, احساس, اربوں, اردن, اس, اسلام, اسے, اسکندر, اسکول, اساتذہ, اسخطےکے, اسرائیل, اشارہ, اعلان, اعمال, بہت, بہتر, بلکہ, بننے, بنانے, بندی, بندیوں, بندی۔, بولنے, بولیاں, بیچ, بیک, بیان, بھوکے, بھی, بھیڑ, بھیک, بھگتنے, بھانت, بھاؤ, بھاری, باہمی, باہر, باقاعدہ, بالآخر, بانجھ, بارے, بجائے۔, بدل, بدو, بشار, تلے, تو, تول, تیاری, تیزی, تیسرے, تک, تھیں, تھے۔, تھپکی۔, تاؤ, تابع, تاریخی, تبدیل, تجزئیہ, تر, ترقی, ترکی, ترکیبہ, ترکیبی, تربیت, تصویر, تعلقات, تعریف, ثابت, جہاں, جن, جنہوں, جنگ, جنگی, جو, جوہر, جیسے, جان, جانا, جاوید, جاتے, جارہی, جب, جس, حملہ۔, حیرت, حکمران, حکمرانوں, حکومت, حالات, حاضرہ, حتمی, حد, حرفت, حصہ, خلاف, خواب, خود, خام, خانہ, خان۔, خارجہ, خاصے, خرچ, خطے, دہائیوں, دہائیاں, دہشت, دنوں, دنیا, دو, دونوں, دور, دوروں, دوست, دوستیاں, دوسرے, دی, دیگر, دیا, دیا۔, دیرینہ, دے, دھمکی, دانشور۔, داستان, داعش, دخل, در, درآمد, درجنوں, دست, دشمن, دشمنوں, دشمنیاں, دشمن؟۔, رہی, رہے, رفتہ, روکا, روز, ریاست, رکھنے, رکھنا, رات, راتوں, رسہ, زندگی, زیادہ, سمجھ, سچی, سنجیدہ, سوچ, سیٹلائٹ, سے, سکڑنا۔, سالوں, سامنے, سائے, ساتھ, سربراہ, سعودی, شہری, شامل, شامی, شدہ, شرائط, شعیہ, صف, صلالہ, صنت, ضمن, ضیاء۔, طے, طرف, طریقہ, طریقے, عام, عراقی, عرب, غداری۔
دعوتِ فکر۔۔۔
تبدیلی ناگزیر! مگر کیسے ؟۔۔۔
پاکستان میں ۔۔۔آج کے پاکستان میں۔ جس میں ہم زندہ ہیں۔ جہاں انگنت مسائل ہیں ۔ صرف دہشت گردی ہی اس ملک کا بڑا مسئلہ نہیں۔ یہ دہشت گردی ایک آدھ دہائیوں سے ۔اِدہر کی پیداوار ہے۔ اور اس دہشت گردی کے جنم اور دہشت گردی کیخلاف جنگ کو ۔پاکستان میں اپنے گھروں تک کھینچ لانے میں بھی۔ ہماری اپنی بے حکمتی ۔ نالائقی اور فن کاریاں شامل ہیں۔
دہشت گردی کے اس عفریت کو جنم دینے سے پہلے اور ابھی بھی۔ بدستور پاکستان کے عوام کا بڑا مسئلہ ۔ ناخواندگی ۔ جہالت۔غریبی۔ افلاس اور بے روزگاری اور امن عامہ جیسے مسائل ہیں۔ مناسب تعلیم ۔ روزگار اور صحت سے متعلقہ سہولتوں کا فقدان اور امن عامہ کی صورتحال۔ قدم قدم پہ سرکاری اور غیر سرکاری لٹیرے۔ جو کبھی اختیار اور کبھی اپنی کرسی کی وجہ سے ۔ اپنے عہدے کے اعتبار سے۔نہ صرف اس ملک کے مفلوک الحال عوام کا خون چوس رہے ہیں ۔بلکہ اس ملک کی جڑیں بھی کھوکھلی کر رہے ہیں۔
اور پاکستان کے پہلے سے اوپر بیان کردہ مسائل کو مزید گھمبیر کرنے میں۔ پاکستان کے غریب عوام کی رگوں سے چوسے گئے ٹیکسز سے۔ اعلی مناصب۔ تنخواہیں اور مراعات پا کر۔ بجائے ان عوام کی حالت بدلنے میں۔ اپنے مناصب کے فرائض کے عین مطابق کردار ادا کرنے کی بجائے۔ اسی عوام کو مزید غریب ۔ بے بس۔ اور لاچار کرنے کے لئیے انکا مزید خون چوستے ہیں۔ اور انکے جائز کاموں میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
محض ریاست کے اندر ریاست بنا کر۔۔۔خاص اپنے اور اپنے محکموں اور سیاستدان حکمرانوں۔ انکی پارٹی کے کرتا دھرتاؤں اور چمچوں چیلوں کے مفادات کی آبیاری کرنے کے لئیے۔ اپنے عہدوں۔ اور اداروں کا استعمال کرتے ہیں ۔ادارے جو عوام کے پیسے سے عوام کی بہتری کے لئیے قائم کئے گئے تھے ۔ اور جنہیں باقی دنیا میں رائج دستور کے مطابق صرف عوام کے مفادِ عامہ کے لئیے کام کرنا تھا ۔ وہ محکمے ۔ انکے عہدیداران ۔ اہلکار۔ الغرض پوری سرکاری مشینری ۔ حکمرانوں کی ذاتی مشینری بن کر رہ گئی ہے۔ اور جس وجہ سے انہوں نے شہہ پا کر ۔ ریاست کے اندر کئی قسم کی ریاستیں قائم کر رکھی ہیں ۔ اور اپنے مفادات کو ریاست کے مفادات پہ ترجیج دیتے ہیں۔ اپنے مفادات کو عوم کے مفادات پہ مقدم سمجھتے ہیں ۔
ستم ظریفی کی انتہاء تو دیکھیں اور طرف تماشہ یوں ہے۔ کہ ہر نئے حکمران نے بلند بانٹ دعوؤں اور بیانات سے اقتدار کی مسند حاصل کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ اور اقتدار سے رخصتی کے وقت پاکستان کو ۔ پاکستان کے غریب عوام کو پہلے سے زیادہ مسائل کا تحفہ دیا۔
پاکستان کے حکمرانوں۔ وزیروں۔ مشیروں کے بیانات کا انداز یہ ہے ۔کہ صرف اس مثال سے اندازہ لگا لیں ۔کہ پاکستان کاکاروبار مملکت کس انوکھے طریقے سے چلایاجا رہا ہے ۔ پاکستان میں پٹرول کی قلت کا بحران آیا ۔ انہیں مافیاؤں نے جس کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں۔ مافیا نے پٹرول کی قلت کے خود ساختہ بحران میں جہاں عوام اور اور ملک کا پہیہ چلانے والے ٹرانسپورٹرز سڑکوں اور پٹرول پمپس پہ خوار ہورہے تھے ۔ جن میں ایمولینسز ۔ مریض ۔ اسپتالوں کا عملہ ۔ خواتین۔ اسکول جانے والےبچے بھی شامل تھے۔ یعنی ہر قسم کے طبقے کو پٹرول نہیں مل رہا تھا ۔ ڈیزل کی قلت تھی ۔ مگر وہیں حکومت کی ناک کے عین نیچے۔ ریاست کے اندر قائم ریاست کی مافیا۔ اربوں روپے ان دو ہفتوں میں کمانے میں کامیاب رہی ۔اور آج تک کوئی انکوائری۔کوئی کاروائی ان کے خلاف نہیں ہوئی اور کبھی پریس یا میڈیا میں انکے خلاف کوئی بیان نہیں آیا کہ ایسا کیوں ہوا اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف کیا کاروائی عمل میں لائی گئ؟۔ اور اس پٹرول قلت۔ کے براہ راست ذمہ دار ۔وزیر پٹرولیم خاقان عباسی۔ کا یہ بیان عام ہوا کہ "اس پٹرول ڈیزل بحران میں۔ میں یا میری وزارت پٹرولیم کا کوئی قصور نہیں”۔ یعنی وزیر موصوف نے سرے سے کسی قسم کی ذمہ داری قبول کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ اس سے جہاں یہ بات بھی پتہ چلتی ہے کہ وزیر موصوف کے نزدیک ان کا عہدہ ہر قسم کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہے۔ اور وہ کسی بھی مہذب ریاست کے وزیر کی طرح استعفی دینا تو کٌجا۔ وہ ریاست کو جام کر دینے میں اپنی کوئی ذمہ داری ہی محسوس نہیں کرتے۔
اس سے یہ بات بھی پتہ چلتی ہے جو انتہائی افسوسناک اور خوفناک حقیقت ہے کہ وزارت پٹرولیم محض ایک وزارت ہے جس کے وزیر کا عہدہ محض نمائشی ہے اور اصل معاملات کہیں اور طے ہوتے ہیں۔ جس سے حکومت کی منظور نظر مافیاز کو یہ طے کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ کہ کب کس قسم کی قلت پیدا ہونے میں کس طرح کے حالات میں کب اور عوام کا خون چوس لینا ہے۔
ہمارا مطمع نظر اور اس تحریر کا مقصد محض موجودہ حکمرانوں پہ تنقید کرنا نہیں۔ بلکہ یہ سب کچھ موجودہ حکمرانوں کے پیشرو ۔زرداری۔ مشرف۔ شریف و بے نظیر دونوں کے دونوں ادوار ۔ اور اس سے بیشتر جب سے پاکستان پہ بودے لوگوں کا قبضہ ہوا ہے۔ سب کے طریقہ واردات پہ بات کرنا ہے۔ آج تک اسی کا تسلسل ہے کہ صورتیں بدل بدل کر عوام کو غریب سے غریب تر کرتا آیا ہے اور اپنی جیبیں بھرتا آیا ہے۔
مگر پچھلی چار یا پانچ دہایوں سے اس خون چوسنے کے عمل میں جدت آئی ہے اور حکمرانوں نے اپنے مفادات کے آبیاری کے لئیے کاروبار مملکت چلانے والے ادارے ۔اپنے ذاتی ادارے کے طور پہ اپنے استعمال میں لائے ہیں ۔ جس سے کاروبار مملکت ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے ۔ اور پاکستان اور پاکستان کے عوام کے مسائل دن بدن بگڑتے گئے ہیں۔ اور آج یہ عالم ہے۔ کہ پاکستان نام آتے ہی ذہن میں ایک سو ایک مسائل تصور میں آتے ہیں ۔ جہاں پاکستان کی اکثریت آبادی جو غریب ہے۔ جس کے لئیے کوئی سہولت کوئی پناہ نہیں ۔ اور جو سفید پوشی کا بھرم لئیے ہوئے ہیں وہ بھی جان لڑا کر اپنا وقت دن کو رات اور رات کو دن کرتے ہیں۔ اور بڑی مشکل سے مہینہ آگے کرتے ہیں۔ ۔
جبکہ پاکستان جیسے غریب ملک کے مختلف اداروں کے سربراہان۔ دنیا کی کئی ایک ریاستوں کے سربراہان سے زیادہ امیر ہیں۔ اور بے انتہاء وسائل کے مالک ہیں ۔ انکے اہلکار جو سرکاری تنخواہ تو چند ہزار پاتے ہیں مگر ان کا رہن سہن اور جائدادیں انکی آمد سے کسی طور بھی میل نہیں کھاتیں اور حیرت اس بات پہ ہونی چاہئی تھی کہ وہ کچھ بھی پوشیدہ نہیں رکھتے ۔ اور یہ سب کچھ محض اس وجہ سے ہے۔ کہ حکمران خود بھی انہی طور طریقوں سے کاروبار حکومت چلا رہے ہیں جس طرح ان سے پیش رؤ چلاتے آئے ہیں۔ یعنی اپنے مالی۔ سیاسی اور گروہی مفاد کو ریاست کے مفاد پہ ترجیج دی جاتی ہے۔اور ریاست کی مشینری کے کل پرزے تو کبھی بھی پاکستان کے مفادات کے وفادار نہیں تھے ۔ انہیں سونے پہ سہاگہ یہ معاملہ نہائت موافق آیا ہے۔
ریاست کی مشینری کے کل پرزے۔عوام کا کوئی مسئلہ یا کام بغیر معاوضہ یا نذرانہ کے کرنے کو تیار نہیں۔ اگر کوئی قیمت بھر سکتا ہو۔ تو منہ بولا نذرانہ دے کر براہ براہ راست عوام یا ریاست کے مفادات کے خلاف بھی جو چاہے کرتا پھرے ۔ اسے کھلی چھٹی ہے۔
ایک شریف آدمی بھرے بازار میں لٹ جانے کو تھانے کچہری جانے پہ ترجیج دیتا ہے۔ آخر کیوں؟ جب کہ ساری دنیا میں انصاف کے لئیے لوگ عام طور پہ تھانے کچہری سے رجوع کرتے ہیں اور انھیں اطمینان کی حد تک انصاف ملتا ہے۔ تو آخر پاکستان میں عام عوام کیوں یوں نہیں کرتے؟ یہ پاکستان میں عوام کی روز مرہ کی تکلیف دہ صورتحال کی صرف ایک ادنی سی حقیقت ہے۔ جو دیگر بہت سی عام حقیقتوں اور حقائق کا پتہ دیتی ہے۔اور ادراک کرتی ہے
پاکستان کے حقائق کسی کی نظر سے اوجھل نہیں۔ ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ہر طرف پاکستان میں نا انصافی اور عدم مساوات سے سے دو قدم آگے۔ ظلم۔ استحصال اور غاصابانہ طور پہ حقوق سلب کرنے کے مظاہر و مناظر عام نظر آتے ہیں۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اسے ایک عام رواج یا چلن سمجھ لیا گیا ہے۔اور اس میں وہ لوگ ۔ ادارے اور حکمران۔ سیاستدان۔ اپوزیشن۔ عام اہلکار الغرض ساری حکومتی مشینری شامل ہے۔ حکمرانوں کا کوئی بڑے سے بڑا شاہ پرست اور درباری۔ یہ قسم نہیں دے سکتا کہ پاکستان کا کرپشن سے پاک کوئی ایک تھانہ ہی ایسا ہو کہ جس کی مثال دی جاسکتی ہو ۔ یا کوئی ادارہ جہاں رشوت۔ سفارش ۔ اور رسوخ کی بنیاد پہ حق داروں کے حق کو غصب نہ کیا جاتا ہو؟۔
ایک بوسیدہ نظام جو پاکستان کی۔ پاکستان میں بسنے والے مظلوم اور مجبور عوام کی جڑیں کھوکھلی کر چکا ہے ۔ ایسا نظام اور اس نظام کو ہر صورت میں برقرار رکھنے کے خواہشمند حکمران و سیاستدان ۔۔ اسٹیٹس کو ۔کے تحت اپنی اپنی باری کا انتظار کرنے والے۔ قانون ساز اسمبلیوں مقننہ کے رکن اور قانون کی دھجیاں اڑا دینے والے۔ اپنے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لئیے کسی بھی حد تک اور ہر حد سے گزر جانے والی ریاست کے اندر ریاست کے طور کام کرنے والی جابر اور ظالم مافیاز۔ بیکس عوام کے مالک و مختارِکُل۔ ادارے۔
کیا ایسا نظام ۔ ایسا طریقہ کار۔ کاروبار مملکت کو چلانے کا یہ انداز ۔ پاکستان کے اور پاکستان کے عوام کے مسائل حل کرسکتا ہے؟ کیا ایسا نظام اور اسکے پروردہ بے لگام اور بدعنوان ادارے اور انکے عہدیدار و اہل کاران پاکستان اور پاکستان کے عوام کو انکا جائز مقام اور ان کے جائزحقوق دلوا سکتے ہیں؟۔
اتنی سی بات سمجھنے کے لئیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں پڑتی کہ اگر منزل مغرب میں ہو۔ تو کیا مشرق کا سفر کرنے سے منزل نزدیک آتی ہے یا دور ہوتی ہے؟
پاکستان اپنی منزل سے دور ہو رہا ہے۔ اور اس میں کسی بیرونی دشمن کا ہاتھ ہو یا نہ ہو مگر مندرجہ بالا اندرونی دشمنوں کا ہاتھ ضرور ہے ۔اور پاکستان اور پاکستان کے عوام کو یہ دن دکھانے میں اور ہر آنے والے دن کو نا امیدی اور مایوسی میں بدلنے میں۔ انہی لوگوں کا۔کم از کم پچانوے فیصد کردار شامل ہے۔
جو حکمران یا پاکستان کے کرتا دھرتا ۔اسی بوسیدہ نظام اور اداروں کے ہوتے ہوئے۔ پاکستان اور پاکستان کے عوام کی تقدیر بدلنے کاےبیانات اور اعلانات کرتے ہیں۔ یقین مانیں۔ وہ حکمران۔۔۔ عوام کو بے وقوف سمجھتے ہوئے جھوٹ بولتے ہیں ۔
تبدیلی صرف اعلانات اور بیانات سے نہیں آتی ۔ یہ اعلانات و بیانات تو پاکستان میں مزید وقت حاصل کرنے اور عوام کو دہوکہ میں رکھنے کے پرانے حربے ہیں۔ کہ کسی طرح حکمرانوں کو اپنا دور اقتدار مکمل کرنے کی مہلت مل جائے ۔ چھوٹ مل جائے ۔ اور انکی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں رہے۔ اور وہ ادارے جنہوں نے انھیں ایسا کرنے سے باز رکھنا تھا۔ اور ریاست اور عوام کے مفادات کا نگران بننا تھا۔ وہ بے ایمانی۔ اور بد عنوانی میں انکے حلیف بن چکے ہیں۔ اور یہ کھیل پاکستان میں پچھلے ساٹھ سالوں سے زائد عرصے سے ہر بار مزید شدت کے ساتھ کھیلا جارہا ہے ۔ اور نتیجتاً عوام مفلوک الحال اور ایک بوسیدہ زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں۔ جس میں محض بنیادی ضرورتوں کو بہ احسن پورا کرنے کے لئیے ان کے حصے میں مایوسی اور ناامیدی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ جائز خواہشیں۔ حسرتوں اور مایوسی میں بدل جاتی ہیں۔
جس طرح ہم پاکستان میں ان تلخ حقیقتوں کا نظارہ روز کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو ان حالات کو بدلنے کے ذمہ دار ہیں ۔اور اس بات کا اختیار رکھتے ہیں ۔ اور یوں کرنا انکے مناصب کا بھی تقاضہ ہے ۔ اور وہ حالات بدلنے پہ قادر ہیں ۔ مگر وہ اپنے آپ کو بادشاہ اور عوام کو رعایا سمجھتے ہیں۔ اور نظام اور اداروں کو ان خامیوں سے پاک کرنے کی جرائت۔ صلاحیت و اہلیت ۔ یا نیت نہیں پاتے۔
تو سوال جو پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا پاکستان اور اس کے عوام کے نصیب میں عزت نام کی ۔ حقوق پورے ہونے نام کی کوئی شئے نہیں؟ اور اگر یہ پاکستان اور اسکے عوام کے نصیب میں ہے کہ انھیں بھی عزت سے جینے اور انکے حقوق پورے ہونے کا سلسلہ ہونا چاہئیے۔ تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ پاکستان کے ان دشمنوں کے لئیے۔ جن کی دہشت گردی سے پوری قوم بھکاری بن چکی ہے۔ اور ہر وہ بدعنوان شخص خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ جس نے پاکستان کے اور پاکستان کے عوام کے مفادات خلاف اپنے مفادات کو ترجیج دی۔ ان کے لئیے کب پھانسی گھاٹ تیار ہونگے؟۔ انہیں کب فرعونیت اور رعونت کی مسندوں سے اٹھا کر سلاخوں کے پیچھے بند کیا جائے گا؟۔ اور انہیں کب ان کے انجام تک پہنچایا جائے گا؟ ۔ کہ مخلوق خدا پہ سے عذاب ٹلے؟
اس کے سوا عزت اور ترقی کا کوئی راستہ نہیں۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, ہفتوں, فقدان, ہم, ہمیں, ہماری, فن, ہو, ہونی, ہونے, ہونگے؟۔, ہونا, ہو۔, ہو؟۔ایک, ہوئی, ہوئے, ہوئے۔, ہوا, ہوتی, ہوتے, ہوتا, ہورہے, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں۔محض, ہیں۔اور, ہیں۔جس, ہیں۔دہشت, ہیں؟۔اتنی, فیصد, ہے, ہے۔, ہے۔ہمارا, ہے۔مگر, ہے۔پاکستان, ہے۔اور, ہے۔ایک, ہے۔جو, ہے۔ریاست, ہے؟, ہے؟پاکستان, فکر۔۔۔تبدیلی, ہاتھ, ہر, فرائض, فرعونیت, ہزار, قلت, قوم, قیمت, قانون, قائم, قادر, قبل, قبول, قبضہ, قدم, قسم, قصور, لوگ, لوگوں, لینا, لیں, لیا, لڑا, لگا, لگام, لگایا۔, لٹ, لٹیرے۔, لئیے, لئیے۔, لانے, لاچار, لائے, مفلوک, مہلت, مہینہ, مفاد, مفادِ, مفادات, مہذب, مقننہ, مقام, مقدم, مقصد, مل, ملک, ملتا, مملکت, منہ, مناسب, مناصب, مناصب۔, مناظر, مندرجہ, منزل, منظور, موافق, موجودہ, موصوف, میل, میڈیا, میں, میں۔, میری, مکمل, مگر, مگرکب, مافیا, مافیا۔, مافیاؤں, مافیاز, مافیاز۔, مالی۔, مالک, مانیں۔, مایوسی, متعلقہ, مثال, مجبور, محکموں, محکمے, محسوس, محض, مخلوق, مختلف, مختارِکُل۔, مرہ, مریض, مراعات, مزید, مسند, مسندوں, مسئلہ, مساوات, مسائل, مشینری, مشیروں, مشکل, مشرف۔, مشرق, مطمع, مطابق, مظلوم, مظاہر, معاملہ, معاملات, معاوضہ, مغرب, نہ, نہیں, نہیں۔, نہیں؟, نہائت, چلن, چلا, چلانے, چلایاجا, چلاتے, چلتی, چمچوں, نمائشی, چند, چوٹی, چوس, چوسنے, چوسے, چوستے, چیلوں, نیچے۔, چیت, نے, چکی, چکے, چکا, نگران, چھوٹ, چھٹی, نئے, نا, چاہے, چاہئی, چاہئیے۔, نالائقی, نام, ناک, ناگزیر, ناامیدی, ناجائز, ناخواندگی, چار, نتیجتاً, نذرانہ, نزدیک, نصیب, نظیر, نظام, نظارہ, نظر, و, وہ, وہیں, وفادار, وقوف, وقت, ڈیزل, والی, والے, والے۔, والےبچے, واردات, وجہ, وزیر, وزیروں۔, وزارت, وسائل, یہ, یقین, یوں, ییوں, یا, یعنی, ۔, ۔وزیر, ۔۔, ۔۔۔آج, ۔کہ, ۔کے, ۔پاکستان, ۔اور, ۔اِدہر, ۔اپنے, ۔ادارے, ۔اسی, ۔بلکہ, ۔تبدیلی, ۔جبکہ, ۔زرداری۔, ۔ستم, کہ, کہیں, کل, کم, کمانے, کچہری, کو, کوئی, کی, کیوں, کیوں؟, کی۔, کیا, کٌجا۔, کیخلاف, کیسے, کڑاہی, کے, کھلی, کھوکھلی, کھیل, کھیلا, کھینچ, کھاتیں, کئی, کئے, کا, کام, کاموں, کامیاب, کاےبیانات, کا۔کم, کاکاروبار, کاروائی, کاروبار, کاریاں, کار۔, کاران, کب, کبھی, کر, کرنے, کرنا, کر۔, کر۔۔۔خاص, کرپشن, کرتی, کرتے, کرتے۔اس, کرتے؟, کرتا, کردہ, کردار, کرسی, کرسکتا, کس, کسی, گیا, گھمبیر, گھی, گھاٹ, گھروں, گئی, گئے, گا؟, گا؟۔, گروہی, گرد, گردی, گزارنے, گزر, ٹلے؟اس, ٹیکسز, ٹھپ, ٹرانسپورٹرز, پہ, پہلے, پہنچایا, پہیہ, پمپس, پچھلی, پچھلے, پناہ, پچانوے, پوری, پورے, پورا, پوشی, پوشیدہ, پیچھے, پیدا, پیداوار, پیسے, پیش, پیشرو, پڑتی, پٹرول, پٹرولیم, پھانسی, پھرے, پا, پانچ, پانچوں, پاک, پاکستان, پاتے, پاتے۔تو, پارٹی, پتہ, پروردہ, پریس, پرانے, پرزے, پرزے۔عوام, پرست, ؟۔۔۔پاکستان, آمد, آنے, آیا, آگے, آگے۔, آپ, آئی, آئے, آبیاری, آبادی, آتی, آتے, آتا۔, آج, آخر, آدمی, آدھ, آسانی, اہل, اہلیت, اہلکار, اہلکار۔, افلاس, افسوسناک, اقتدار, الحال, الذمہ, الغرض, امن, امیدی, امیر, ان, انہوں, انہی, انہیں, انوکھے, انکوائری۔کوئی, انکی, انکے, انکا, انکار, انگلیاں, انگنت, انھیں, انتہاء, انتہائی, انتظار, انجام, انداز, اندازہ, اندر, اندرونی, انصاف, انصافی, اوپر, اوجھل, اور, ایمولینسز, ایمانی۔, ایڑی, ایک, ایسا, اڑا, اکثریت, اگر, اٹھا, اٹھتا, اپنی, اپنے, اپنا, اپوزیشن۔, ابھی, احسن, اختیار, ادنی, ادوار, ادا, ادارہ, اداروں, ادارے, ادارے۔کیا, ادراک, اربوں, ارد, از, اس, اسمبلیوں, اسی, اسے, اسکول, اسکے, اسٹیٹس, اسپتالوں, استحصال, استعفی, استعمال, اصل, اطمینان, اعلی, اعلانات, اعتبار, بہ, بہت, بہتری, بلند, بلکہ, بن, بننا, بنیاد, بنیادی, بنا, بنتے, بند, بولا, بولتے, بودے, بوسیدہ, بیکس, بیان, بیانات, بیرونی, بیشتر, بڑی, بڑے, بڑا, بے, بگڑتے, بھی, بھی۔, بھکاری, بھر, بھرم, بھرے, بھرتا, باقی, بالا, بانٹ, بات, بادشاہ, بار, باری, باز, بازار, بجائے, بجائے۔, بحران, بد, بدل, بدلنے, بدن, بدستور, بدعنوان, برقرار, بری, براہ, بسنے, بس۔, بغیر, تقاضہ, تقدیر, تلخ, تماشہ, تنقید, تنخواہ, تنخواہیں, تو, تیار, تک, تکلیف, تھی, تھے, تھے۔, تھا, تھانہ, تھانے, تھا۔, تحفہ, تحفظ, تحت, تحریر, تر, ترقی, ترجیج, تسلسل, تصور, تعلیم, جہالت۔غریبی۔, جہاں, جن, جنہوں, جنہیں, جنم, جنگ, جو, جینے, جیبیں, جیسے, جڑیں, جھوٹ, جام, جان, جانے, جائے, جائدادیں, جائز, جائزحقوق, جابر, جاتی, جاتا, جارہا, جاسکتی, جب, جدت, جرائت۔, جس, حق, حقوق, حقیقت, حقیقتوں, حقائق, حل, حلیف, حیرت, حکمتی, حکمران, حکمرانوں, حکمرانوں۔, حکمران۔, حکمران۔۔۔, حکومت, حکومتی, حالات, حالت, حاصل, حد, حربے, حسرتوں, حصے, خلاف, خوفناک, خون, خواہ, خواہشمند, خواہشیں۔, خواتین۔, خوار, خود, خاقان, خامیوں, خدا, دہ, دہوکہ, دہایوں, دہائیوں, دہشت, دلوا, دن, دنیا, دو, دونوں, دوڑائیں, دور, دی, دینے, دینا, دی۔, دیکھیں, دیگر, دیا۔, دیا۔پاکستان, دیتی, دیتے, دیتا, دے, دکھانے, دھجیاں, دھرتا, دھرتاؤں, دار, داروں, داری, درباری۔, دستور, دشمن, دشمنوں, دعوؤں, دعوتِ, ذہن, ذمہ, ذکر, ذاتی, رہ, رہن, رہی, رہے, رہے۔, رہا, روپے, رواج, روز, روزگار, روزگاری, ریاست, ریاستوں, ریاستیں, رکن, رکھنے, رکھنا, رکھی, رکھتے, رکاوٹ, رگوں, رؤ, راکٹ, رائج, رات, راست, راستہ, رجوع, رخصتی, رسوخ, رشوت۔, رعونت, رعایا, زندہ, زندگی, زور, زیادہ, زائد, سہن, سہولت, سہولتوں, سفید, سہاگہ, سفارش, سفر, سلاخوں, سلب, سلسلہ, سمجھ, سمجھنے, سمجھتے, سو, سونے, سوا, سوال, سی, سیاسی, سیاستدان, سیاستدان۔, سڑکوں, سے, سے۔, سے۔نہ, سکتے, سکتا, سالوں, ساٹھ, سائنس, ساتھ, ساختہ, ساری, ساز, سب, ستم, سر, سرے, سرکاری, سربراہان, سربراہان۔, شہہ, شئے, شامل, شاپ, شخص, شدت, شریف, صلاحیت, صورت, صورتیں, صورتحال, صورتحال۔, صحت, صرف, ضرور, ضرورت, ضرورتوں, طور, طے, طبقے, طرف, طریقہ, طریقوں, طریقے, طرح, ظلم۔, ظالم, ظریفی, عہدہ, عہدوں۔, عہدیدار, عہدیداران, عہدے, عفریت, عمل, عملہ, عنوانی, عوم, عوام, عین, عالم, عام, عامہ, عباسی۔, عدم, عذاب, عرصے, عزت, غیر, غاصابانہ, غریب, غصب
اجتماعی شعور کا ارتقاء اور پاکستان کی کم ظرف اشرافیہ۔
عوام
جہاں تک سو فیصد دیانتداری کا تقاضہ ہے تو یہ سو فیصد دیانتداری دنیا کے عوام میں کہیں بھی نہیں پائی جاتی ۔اس بات کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ دنیا بھر کی جیلوں میں دنیا کی سبھی قوموں کے کرپٹ لوگ بند ہیں۔
لیکن پاکستانیوں کی اکثریت اپنے پیدائشی ماحول اور اپنے ارد گرد ہر طرف پائے جانے والی بے بسی اور روز مرہ زندہ رہنے کی جستجو میں زندگی گھسیٹنے کے لئیے معاشرے اور بااثر طبقے کی طرف سے مسلط کی گئی کرپٹ اقدار اور بدعنوانی کی وجہ سے محض زندہ رہنے کے لئیے ڈہیٹ بن کر ہر قسم کے ظلم و ستم پہ بہ جبر زندگی گزارنے پہ مجبور ہے۔
اور جب اپنی اور اپنے خاندان کا جان اور جسم کا سانس کا ناطہ آپس میں میں جوڑے رکھنا محال ہو جائے۔ اور ایسا کئی نسلوں سے نسل درنسل ہو رہا ہو اور ہر اگلی نسل کو پچھلی نسل سے زیادہ مصائب و آلام کا سامنا ہو اور اسی معاشرے کے ہر قسم کے رہنماؤں کی اکثریت جن میں مذہبی ۔ علمی۔ سیاسی۔ دینی۔ حکومتی ۔ فوجی۔ قسما قسمی کی حل المشکلات کی معجون بیچنے والے دہوکے باز۔اٹھائی گیر ہوں اور بد ترین اور بدعنوان ہوں۔ تو وہاں خالی پیٹ۔ اور بے علم۔ بے شعور عوام سے دیانتداری کا اور وہ بھی سو فیصد دیانتداری کا تقاضہ ظلم ہے۔
مندرجہ بالا بیان کردہ حالات ایسا کلٹ کلچر بنا دیتے ہیں جس میں دیانتداری کا خمیر پیدا ہی نہیں ہوتا۔جیسے رات کو دہوپ نہیں ہوتی۔ اور اس کا مظاہرہ پاکستانی معاشرے میں روزہ مرہ زندگی میں سرعام نظر آتا ہے ۔
کوڑھ کی کاشت کر کے خیر کی امید کیسے باندھی جائے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہمیشہ بڑے لوگ۔ مشہور لوگ۔ لیڈ کرنے والے لوگ۔ بااثر طبقہ سے سے تعلق رکھنے والے لوگ۔ اشرافیہ۔ حکمران۔ رہنماء۔ علماء۔ جرنیل۔ اساتذہ اور اس قبیل کے دیگر لوگ مثال بنا کرتے ہیں ۔
جیسے گھر کا سربراہ یا بڑا بھائی اگر سگریٹ نوشی ۔ شراب نوشی یا آوارہ گردی کرے تو سارا گھرانہ وہی عادتیں پکڑتا ہے۔مگر پاکستان کی اشرافیہ اور بااثر طبقے کو مثالی کہنے کی بجائے کم ظرف اور تنگ دل کہنا بجا نہ ہوگا کہ جن سے پاکستانی عام عوام کویئ مثبت تحریک پا سکے ۔
اس کے باوجود اگر پاکستانی قوم میں کچھ اقدار باقی ہیں تو یہ شاید ان جینز کا اثر ہے جو عام عوام کے خون میں شامل ہیں۔ اور ہنوز اخلاقی بد عنوانی کے خلاف مزاحمت کر ہے ہیں۔
ہمارا معاشرہ مختلف وجوہات کی وجہ سے ۔ ہزراوں سال سے غلامی میں پسنے کی وجہ سے مجبور و معذور ہےاور ہماری ذہنی بلوغت ہی نہیں ہوسکی۔
ہمارے معاشرے میں۔
ہماری انفرادی معاشی خود مختاری ۔ روٹی روزی۔ بنیادی ضروریات اور گھر جیسے تحفظ کا تصور ہی اپنے صحیح معنوں میں فروغ نہیں پا سکا ۔ کیونکہ پاکستان کی بہت بڑی آبادی کو یہ چیزیں مکمل آزادی اور عزت نفس کو پامال کئیے بغیر نصیب ہی نہیں ہوئیں ۔ تو شخصی آزادی یا اجتماعی سوچ بھلا کیونکر فروغ پاتیں؟
آج بھی پاکستان کی بڑی اکثریت کے لئیے۔ پٹواری۔ نیم خواندہ تھانیدار اور گھٹیا اخلاق و تربیت کے اہلکار۔ حکومت اور عام آدمی کے درمیان تعلق کا پُل ہیں۔اور ان سے آگے عام آدمی کی سوچ مفروضوں پہ قائم اپنے ملک و قوم کا تصور رکھتی ہے۔ اگر تو کوئی تصور رکھتی ہے؟۔
اور یہ سلسلہ برصغیر کے عوام کے ساتھ ہزاروں سالوں سے روا ہے ۔ اس لئیے عام آدمی کے نزدیک ۔ آزادی۔ عزت نفس۔ اور جائز حقوق کی بازیابی کا کوئی تصور ہی نہیں نپ سکا۔
اس لئیے وہ معاشرے میں ہر عمل اور اس کے رد عمل کے لئیے بااثر طبقے کی طرف دیکھتے ہیں ۔ اور اس بااثر طبقے کے عمل۔ بیانات اور منشاء کو ہی مقصد حیات سمجھتے ہیں۔ جس وجہ سے زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے وجود میں آتے ہیں اور اس سے آگے قومی شعور نہیں بڑھ پاتا۔
ان وجوہات کی بناء پہ ہمارے معاشرے میں اکثریتی طبقے کبھی کا کوئی رول نہیں رہا۔ اور یہی وہ وجہ ہے جس وجہ سے اکثریت کسی انقلاب یا تبدیلی میں کبھی کوئی کردار ادا نہیں کر سکی۔
کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں اور انیس سو سینتالیس سے آزاد ہیں۔لیکن دل پہ ہاتھ رکھ دیانتداری سے بتائیں کیا آزاد قوم اور مسلمان یوں ہوتے ہیں؟
اس کی یہ وجہ بھی وہی ہے کہ اسلام روزمرہ کی معاملگی حیثیت سے ہماری زندگیوں کا حصہ ہی نہیں بن سکا ۔ اس لئیے ہماری اخلاقی حدود و قیود عام طور پہ اسلامی اخلاق سے باہر ہوتی ہیں۔
جب عوام کو کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو وہ اپنے اپنے ۔ سرداروں۔ پیروں۔ دینی رہنماؤں ۔ علماء اکرام۔ سرکاری افسروں۔ سیاسی رہنماؤں ۔ حکومت اور حکمرانوں۔ فوج اور جرنیلوں کی طرف دیکھنا شروع کردیتے ہیں ۔ اور پھر جس کی کوئی ادا ۔ کوئی بات دل کو بھا جائے اسے اپنا اپنا ہیرو مان لیتے ہیں۔
ہمارا اجتماعی شعور کبھی تھا ہی نہیں۔ اور ہمارے نصب العین ہمیشہ بااثر طبقے نے طے کئیے۔
ہماری اشرافیہ۔ ہمارا بااثر طبقہ انتہائی بے ضمیر۔ دہوکے باز۔ کم ظرف۔ سطحی شخصیت کا مالک اور اپنے اقتدار یا اثر و رسوخ کے لئیے کسی بھی حد تک جانے کے لئیے تیار رہتا ہے۔
اور مرے پہ سو درے ۔ اس سارے تماشے سے کچھ قوم فروش اور ابن الوقت لوگوں نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا اور بغیر کسی جھجھک کے اپنی ابن الوقتی اور ضمیر فروشی کو نہائت بالا نرخوں پہ فروخت کیا۔ جسے حرف عام میں پاکستان کا "میڈیا” کہا جاتا ہے۔
یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ تیزی سے تنزلی کا شکار ہو رہا ہے۔ کیونکہ تنزل ہماری اشرافیہ پہ طاری ہے اور عام عوام وہیں سے تحریک پاتے ہیں ۔ چند اشتنساء چھوڑ کر۔ جسے فوری طور پہ پھیلانے کا اہتمام قوم فروش میڈیا اور اسکے مالکان کرتے ہیں۔
اس لئیے کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئیے کہ عام آدمی کیونکر اپنے مستقبل سے مایوس ہے۔ مگر اس کے باوجود اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانے کے لئیے بجائے کچھ مثبت قدم اٹھانے کے ۔ وہ بجائے خود اسی تنزلی میں شامل ہو رہا ہے۔
اور یہ وہ وجہ ہے کہ عام عوام میں۔ معاشرے میں۔ ہر طرف لاقانونیت۔ بد عنوانی۔ بے ایمانی۔ بد دیانتی۔ بد نظمی اور افراتفری نظر آتی ہے۔
اس لئیے پاکستان کے ان موجودہ حالات میں
عام آدمی میں اجتماعی شعور کی تربیت کرنا اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک اشرافیہ۔ یعنی بااثر طبقہ۔ دینی و سیاسی رہنماء۔ جرنیل اور حکمران ۔ اور پاکستان کے وسائل پہ قابض مافیا۔اپنے انداز نہیں بدلتی۔اور بد قسمتی سے تب تک پاکستان کے عوام کا مجموعی رویہ بدلنا اور اجتماعی شعور کا فروغ پانا۔ بغیر کسی معجزے کے ممکن نظر نہیں آتا۔ اور دائرے کا معکوس سفر جاری رہے گا۔
اگر عام عوام کو اس بات کا ادراک دلانا مقصود ہے کہ وہ ایک باعزت قوم ہیں اور انھیں ایک اجتماعی شعور بخشنا ہے۔ تانکہ وہ ایک قومی اخلاق اپنا کر اس ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں تو اس کے لئیے ضروری ہے کہ صرف حکومتی اداروں کے عام اہلکاروں اور عہدیداروں سے نااہلی ۔ بدنیتی اور بد عنوانی کا حساب نہ لیا جائے اور انھیں سلاخوں کے پیچھے بند کیا جائے کیونکہ عام اہلکاروں کو معطل کرنے یا چند ایک لوگوں کو ان کے عہدوں سے برخاست کر دینے سے۔ پاکستان کی بد عنوانی پہ قابو نہیں پایا جاسکتا ۔ ایسا کرنا تو دراصل دنیا کی بدترین۔ ایک نمبر کی بدعنوان پاکستانی اشرافیہ کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
اسلئیے یہ از بس ضروری ہے کہ پاکستان میں بد نیتی۔ بدیانتی اور بد عنوانی ختم کرنے کی کوشش کے لئیے لا محالہ طور پہ اس کا آغاز بالادست طبقے اور پاکستان کے وسائل پہ قابض کم ظرف اشرافیہ سے نہ کیا گیا تو ایسی ہر مہم ناکام ہو جائے گی۔ اور اجتماعی قومی شعور۔ ایک باوقار با اختیار قوم۔ اور ایک آزاد پاکستان کا تصور صرف چند ہزار لوگوں کو ناجائز تحفظ دینے کی وجہ سے محض ایک خیال بن کر رہ جائے گا۔
پاکستان کے وسائل پہ قابض چند ہزار نفوس کی کم ظرف اشرافیہ۔ یا۔ بنیادی اور ضروری سہولتوں کے مالک کروڑوں باشعور عوام کا ایک بااختیار اور آزاد پاکستان؟ جب تک یہ طے نہیں ہوتا۔ تب تک ہم ایک معکوس دائرے میں سفر کرتے رہیں گے اور بدیانت غفلت کا شکار رہیں گے۔
جاوید گوندل۔ بارسیلونا
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, Barcelona, Be-Laag, Gondal, Javed, ہم, ہمیشہ, ہماری, ہمارے, ہمارا, ہنوز, ہو, ہونا, ہوگا, ہوں, ہوں“۔, ہوئیں, ہوتی, ہوتی۔, ہوتے, ہوتا, ہوتا۔, ہوتا۔جیسے, فوج, فوجی۔, فوری, ہوسکی۔, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں۔ہمارا, ہیں۔لیکن, ہیں۔اور, ہیں۔اس, ہیں۔جب, ہیں؟اس, ہیرو, فیصد, ہے, ہے۔, ہے۔مندرجہ, ہے۔مگر, ہے۔یہ, ہے۔اور, ہے۔اس, ہے۔اسلئیے, ہے؟۔اور, ہےاور, فائدہ, ہاتھ, ہر, فروخت, فروش, فروشی, فروغ, فراہم, ہزار, ہزاروں, ہزراوں, قوم, قوموں, قومی, قوم۔, قیود, قائم, قابو, قابض, قبیل, قدم, قسم, قسمی, قسما, قسمتی, لوگ, لوگوں, لوگ۔, لیڈ, لیا, لیتے, لئیے, لئیے۔, لا, لاقانونیت۔, لانے, لاگ۔, مہم, مفروضوں, مقصود, مقصد, ملک, ملتا, ممکن, منشاء, موجودہ, میڈیا, میں, میں۔, میں۔ہماری, میںعام, مکمل, مگر, مافیا۔اپنے, مالک, مالکان, مان, مایوس, ماحول, مثال, مثالی, مثبت, مجموعی, مجبور, محال, محالہ, محض, مختلف, مختاری, مذہبی, مرہ, مرے, مردہ, مزاحمت, مسلمان, مسلط, مسئلہ, مستقبل, مشہور, مصائب, مظاہرہ, معنوں, معکوس, معاملگی, معاشی, معاشرہ, معاشرے, معجون, معجزے, معذور, معطل, نہ, نفوس, نہیں, نہیں۔, نہائت, نفس, نفس۔, نمبر, چند, نوشی, نیم, نیتی۔, چیزیں, نے, چھ, چھوڑ, نا, چاہئیے, ناکام, نااہلی, ناجائز, ناطہ, نرخوں, نزدیک, نسل, نسلوں, نصیب, نصب, نظمی, نظر, نعرے, و, وہ, وہی, ڈہیٹ, وہیں, وہاں, وقت, والی, والے, وجہ, وجوہات, وجود, وسائل, یہ, یہی, یوں, یا, یا۔, یعنی, ۔, ۔کوڑھ, ۔اس, ۔جیسے, کہ, کہنے, کہنا, کہیں, کہا, کلچر, کلٹ, کم, کو, کویئ, کوئی, کوشش, کی, کیونکہ, کیونکر, کیا, کیا۔, کیسے, کے, کئی, کئیے, کئیے۔ہماری, کا, کاشت, کبھی, کر, کرنے, کرنا, کروڑوں, کرے, کر۔, کرپٹ, کرتے, کردہ, کردیتے, کردار, کسی, گوندل۔, گی۔, گیا, گیر, گے, گے۔جاوید, گھٹیا, گھر, گھرانہ, گھسیٹنے, گئی, گا۔پاکستان, گا۔اگر, گرد, گردی, گزارنے, پہ, پچھلی, پیچھے, پیٹ۔, پیدا, پیدائشی, پیروں۔, پُل, پکڑتا, پٹواری۔, پھیلانے, پھر, پا, پامال, پانا۔, پایا, پاکستان, پاکستانی, پاکستانیوں, پاکستان؟, پائی, پائے, پاتیں؟آج, پاتے, پاتا۔ان, پسنے, آلام, آوارہ, آگے, آپس, آبادی, آتی, آتے, آتا, آتا۔, آدمی, آزاد, آزادی, آزادی۔, آغاز, اہلکاروں, اہلکار۔, اہتمام, افراتفری, افسروں۔, اقتدار, اقدار, المشکلات, الوقت, الوقتی, العین, امید, ان, انفرادی, انقلاب, انیس, انھیں, انتہائی, انداز, اور, ایمانی۔, ایک, ایسی, ایسا, اکثریت, اکثریتی, اکرام۔, اگلی, اگر, اٹھانے, اٹھایا, اپنی, اپنے, اپنا, ابن, اثر, اجتماعی, اخلاق, اخلاقی, اختیار, ادا, اداروں, ادراک, ارتقاء, ارد, از, اس, اسلام, اسلامی, اسی, اسے, اسکے, اساتذہ, اشتنساء, اشرافیہ, اشرافیہ۔, اشرافیہ۔عوام, بہ, بہت, بلوغت, بن, بنیادی, بنا, بناء, بند, بیچنے, بیان, بیانات, بڑی, بڑے, بڑھ, بڑا, بے, بھلا, بھی, بھا, بھائی, بھر, با, باہر, باقی, بالا, بالادست, باندھی, باوقار, باوجود, بااثر, بااختیار, بات, باد, بارسیلونا, بازیابی, باز۔, باز۔اٹھائی, باشعور, باعزت, بتائیں, بجا, بجائے, بخشنا, بد, بدلنا, بدلتی۔اور, بدنیتی, بدیانت, بدیانتی, بدترین۔, بدعنوان, بدعنوانی, برخاست, برصغیر, بس, بسی, بغیر, تقاضہ, تماشے, تنگ, تنزل, تنزلی, تو, تیار, تیزی, تک, تھا, تھانیدار, تانکہ, تب, تبدیلی, تحفظ, تحریک, ترقی, ترین, تربیت, تصور, تعلق, تعجب, ثبوت, جہاں, جن, جو, جوڑے, جیلوں, جینز, جیسے, جھجھک, جان, جانے, جائے, جائے۔, جائے۔مسئلہ, جائز, جاتی, جاتا, جاری, جاسکتا, جب, جبر, جرنیل, جرنیلوں, جرنیل۔, جس, جسم, جسے, جستجو, حقوق, حل, حیات, حیثیت, حکمران, حکمرانوں۔, حکمران۔, حکومت, حکومتی, حالات, حد, حدود, حرف, حساب, حصہ, خلاف, خمیر, خون, خواندہ, خوب, خود, خیال, خیر, خالی, خاندان, ختم, دہوکے, دہوپ, دل, دلانا, دنیا, دینی, دینی۔, دینے, دیکھنا, دیکھتے, دیگر, دیانتی۔, دیانتداری, دیتے, دائرے, درمیان, درنسل, درے, دراصل, ذہنی, رہ, رہنماء۔, رہنماؤں, رہنے, رہیں, رہے, رہا, رہا۔, رہتا, رول, رویہ, روٹی, روا, روز, روزہ, روزمرہ, روزی۔, رکھ, رکھنے, رکھنا, رکھتی, رات, رد, رسوخ, زندہ, زندگی, زندگیوں, زیادہ, سہولتوں, سفر, سلاخوں, سلسلہ, سمجھتے, سو, سوچ, سینتالیس, سیاسی, سیاسی۔, سے, سے۔, سکی۔کہنے, سکیں“, سکے, سکا, سکا۔اس, سگریٹ, سال, سالوں, سامنا, سانس, ساتھ, سارے, سارا, سبھی, ستم, سرکاری, سربراہ, سرداروں۔, سرعام, سطحی, شکار, شامل, شاید, شخصی, شخصیت, شروع, شراب, شعور, شعور۔, صحیح, صرف, ضمیر, ضمیر۔, ضروری, ضروریات, طور, طے, طاری, طبقہ, طبقہ۔, طبقے, طرف, ظلم, ظرف, ظرف۔, عہدوں, عہدیداروں, علمی۔, علم۔, علماء, علماء۔, عمل, عمل۔, عنوانی, عنوانی۔, عوام, عام, عادتیں, عزت, غفلت, غلامی
انقلاب کا ڈول اور پاکستان۔
ہیں کواکب کچھ ۔نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ۔ یہ بازی گر کھلا
حکومت چھوڑ دو؟۔
اسملبیاں توڑ دی جائیں؟۔ورنہ ۔
یہ وہ مطالبات تھے جو اسلام آباد پہنچتے ہیں انقلاب کا ڈول ڈالنے والوں نے پہلے دن ہی داغنے شروع کئیے اور ان کی گھن گرج میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
یہ غیر آئینی مطالبات کس کی ایماء پہ ؟ اور کونسی طاقت کے بل بُوتے پہ کئیے جارہے تھے اور کئیے جارہےہیں ؟
وہ کون سی طاقتیں ہیں ۔ جو عمران اور طاہر القادری کو اشارہ دے چکی ہیں ۔ کہ ماحول کچھ اس طرح کا بناؤ ۔۔ کہ ہم کہنے والے ہوں کہ وزیر اعظم نواز شریف استعفی دےدیں۔ اس صورتحال کو سمجھنے کے لئیے علمِ سیاسیات میں ڈگری یافتہ ہونا ضروری نہیں ۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ کہ نواز حکومت کیوں اس مغالطے میں رہی۔ کہ یہ ایک دودن کا شور شرابہ ہے ۔اور جونہی یہ شو ختم ہوا ۔تو دیکھیں گے ان سے کیا مذاکرات کئیے جاسکتے ہیں؟۔
انبیاء علیة والسلام نے جب لوگوں کو دعوتِ دین دی۔ تو لوگ اس لئیے بھی ان پہ ایمان لے آئے کہ انبیاء علیة والسلام کا ماضی بے داغ ۔ کردار مثالی۔ فطرت میں حق گوئی وبیباکی اور اخلاق اعلیٰ ترین تھا۔ بہت سے لوگ فوراً ان کی نبوت پہ ایمان لے آتے ۔ اور دین میں شامل ہوتے چلےجاتے۔ کیونکہ لوگوں کو علم تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے ۔ انکا ماضی بے داغ ہے۔ انکا کردار مثالی ہے ۔ وہ حق گوئی اور بیباکی پہ کوئی مفاہمت نہیں کرتے ۔ اور انکے اخلاق اعلٰی ترین ہیں اور ایسے لوگ (انبیاء علیة والسلام) اگر نبوت کا دعواہ کر رہے ہیں ۔تو یقناً وہ اللہ کے نبی ہونگے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہےکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ کسی کی زبان پہ یقین کرنے کے لئیے اسکا کردار۔ اس کا ماضی دیکھتا ہے ۔اسکی حق گوئی و بیباکی کو پرکھتا ہے اور اسکے اخلاق کو جانچتا ہے ۔ عام طور پہ فوری یقین لانے کے لئیے ان چند صفات کو بنیاد بنا کر صاحب ِ بیان کی سچائی کو پرکھتا ہے اور اگر صاحب بیاں اس کی کسوٹی پہ اترے تووہ اس پہ یقین کر لیتا ہے کہ جو یہ کہہ رہا ہے وہ درست ہوگا۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شیخ السلام اور کپتان کا ماضی ۔ حق گوئی ۔ کردار اور اخلاق کے بارے کسی کو شائبہ ہے کہ وہ کب کب اور کیوں اپنے بیان بدلتے رہے ۔ اور انہوں نے یوٹرن لئیے ۔ اور کس کس کے سر پہ مغربی طاقتوں کا دستِ شفقت کیوں کررہا۔تو پھر ایسی کیا مصیبت آن پڑی تھی کہ عوام کی ایک بڑی تعداد میں ان شیخ السلام اور ماضی میں اسکینڈلز سے آلودہ سابقہ کرکٹ کپتان پہ آنکھیں بند کر کے۔ یقین کرتے ہوئے۔ لاکھوں کی تعداد میں اسلام آباد کی طرف رُخ کرتی؟ ۔اور شیخ السلام کے انقلاب پہ یقین رکھتے ہوئے ان کے ہاتھ بعیت کرتی؟ ۔ اور کپتان کی فرما روا آزادی کو اپنا منشاء بناتی؟ جب کہ دونوں کا ماضی عوام کے سامنے ہے ۔ کہ ایک محدود تعداد کو تو کئی سالوں کی محنت سے اپنی حمایت میں کھڑا کیا جاسکتا ہے ۔مگر لاکھوں کڑووں انسانوں کو یک دم لبیک کہنے پہ آمادہ کرنا فطرت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اور انسانی فطرت ہے کہ وہ ایسے جانے پہچانے لوگوں پہ خُوب سوچ سمجھ کر اعتبار کرتا ہے ۔اور پھونک پھونک کر قدم آگے بڑہاتا ہے ۔ تو پھر انقلاب لانے کا دعواہ کرنے والوں اور انہیں اسکرپٹ تیار کر کے دینے والوں نے۔ اسکرپٹ لکھتے ہوئے یہ اہم نکتہ کیوں نہ ذہن میں رکھا؟۔تو اسکی ایک سادہ سی وضاحت ہے ۔کہ اسکرپٹ رائٹر ز کو معلوم تھا کہ اسکرپٹ میں رنگ بھرنے کے لئے چند ہزار لوگ ھی کافی ہیں ۔ کہ پچیس تیس ہزار لوگ کبھی کسی بھی دو تہائی سے زائد اکثریت رکھنے والی حکومت کے لئیے اس حد تک خطرہ نہیں ہوتے کہ وہ حکومت کو چلتا کردیں ۔لاکھوں کی تعداد کی نسبت پچیس تیس ہزار لوگوں کو رام کرنا اور انہیں اپنی مرضی کے مطابق چلانا بہت آسان ہوتا ہے۔اور یوں حکومت کو بلیک میل کرتے ہوئے پس پردہ اپنے مطالبات منوانا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ کہ بہ نسبت لاکھوں کے بے قابو ہجوم کے ذریعئے حکومت گرا کر اپنے مطالبات منوانے کے۔
ان دونوں مارچوں کے اسکرپٹس جس نے بھی لکھے ہیں۔ خُوب سوچ سمجھ کر لکھے ہیں۔ اور نواز شریف کی معاملہ فہمی کو مد نظر رکھ کر لکھے ہیں ۔
اور اس سارے پلان کا اسکرپٹ رائٹر یہ جانتا ہے کہ میاں نواز شریف اپنی معروف ضدی طبعیت کی وجہ ایک ہی جگہ جمیں کھڑے رہیں گے۔ اور انھیں دباؤ میں لانا آسان ہوگا۔کہ سیاست میں جم جا جانا اور ایک ہی جگہ کھڑے ہوجانا ۔ جمود کا دوسرا نام ہے ۔ اور پاکستانی سیاست میں جمود لے ڈوبتا ہے۔اور یہی اسکرپٹ رائٹر نے تاثر دینا چاہا کہ نواز شریف ۔ حکومت اور نون لیگ کے بزرجمہر اسی دھوکے اور تفاخر میں رہیں کہ یہ چند ہزار لوگ ان کا اور انکی دوتہائی اکثریتی حکومت کاکیا بگاڑ لیں گے ۔ اور وہ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کی وجہ سے اس دہوکے میں آگئے ۔ اور ترپ کے پتوں سے چالیں یوں چلی گئیں کہ شریف بردران ۔ پنجاب حکومت اور نواز شریف حکومت یکے بعد دیگرے اپنی پوزیشنیں چھوڑتی ہوئی۔ پیچھے ہٹتی چلی گئی ۔ اتنی بڑی پارٹی کی دو تہائی اکثریتی حکومت ہوتے ہوئے نہ تو وہ اپنی اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ کر پائی اور نہ ہی جلد بازی میں ان سے کروائے گئے فیصلوں کے ما بعد نقصانات کو ہی سمجھ پائی ۔
کسی حکومت کی یہ ناکامی تصور کی جاتی ہے ۔ کہ لوگ اس کے خلاف سڑکوں پہ نکل آئیں۔کامیاب حکومت اسے گردانا جاتا ہے جو عوام کو سڑکوں پہ آنے سے پہلے ہی۔ انہیں راضی کرنے کا کوئی جتن کر لے۔ اس وقت پاکستانی عوام کی سب سے اولین مشکلات میں سے چند ایک مشکلات ۔ مہنگائی کا عفریت۔ توانائی کا بحران۔ بے روزگاری یا دوسرے لفظوں میں جسم اور جان کا رشتہ قائم رکھنے کے لئیے ہر روز جتن کرنا ہے۔ ملک کی آدہی سے زائد آبادی کو محض دو وقت کی روٹی پوری کرنی مشکل ہو رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت کو یہ سارے مسائل زرداری حکومت سے وراثت میں ملے ہیں ۔ مگر اس میں بھی کسی کو کوئی شک نہیں ۔ کہ نون لیگ کے بلند بانگ انتخابی دعوؤں کے برعکس نون لیگ کی حکومت کے ان پندرہ سولہ ماہ میں عوام کی زندگی پہلے سے زیادہ اجیرن ثابت ھوئی ہے۔
جس ملک میں توانائی کا خوفناک بحران ہو ۔ لوگوں کے کاروبار اور روزگار ٹھپ ہوں۔ ملک کے شہری بجلی پانی گیس نہ ہونے کی وجہ سے چڑچڑے ہو رہے ہوں ۔بجلی کی عدم فراہمی پورے خاندان کی نفسیاتی ساخت و پرواخت پہ اثر اندازہو رہی ہو۔ اس ملک میں نون لیگ کے وزیر توانائی۔خواجہ آصف ۔پندرہ ماہ بر سر اقتدار آنے کے بعد۔اپنی قوم کو کسی قسم کا ریلیف دینے کی بجائے گرمی میں جلتے عوام سے یہ کہیں ۔کہ اللہ سے دعا مانگیں کہ بارش ہو اور آپ کی تکالیف میں کچھ کمی ہو۔ تو ایسی گڈ گورنس پہ کون قربان جائے؟ ۔وزیر موصوف سے یہ سوال کیا جانا چاہئیے تھا کہ اگر آپ میں اتنی اہلیت نہیں کہ آپ عوام کو کوئی ریلیف دے سکیں تو کم از کم انکے زخموں پہ نمک تو نہ چھڑکیں۔ اور اگر عوام کی تکالیف میں کمی کا انحصار اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے میں ہی ہے۔ تو آپ کس خوشی میں اتنی بڑی وزات کی موجیں لُوٹ رہے ہیں۔ کسی بھی مہذب سیاستدان کی طرح استعفٰی دیں اور گھر کی راہ لیں۔ کہ ممکن ہے جو آپ کے بعد اس وزارت کو سنبھالے اس میں کچھ خداد صلاحیت آپ سے زیادہ ہو ںاور وہ عوام کو کچھ ریلیف دے سکے۔یہ تو ایک مثال ہے جو کسی لطیفہ سے کم نہیں ۔مگر پاکستان کے بے بس اور لاچار عوام کی ستم ظریفی دیکھئیے کہ ایسی مثالیں عام ہیں۔
شہباز شریف بڑے فخر سے دعواہ کرتے ہیں۔ کہ ان کا کوئی ایک بھی کرپشن کا کیس سامنے نہیں لایا جاسکتا ۔کیونکہ وہ کسی طور پہ کرپشن میں ملوث نہیں۔ مگر عوام نے پنجاب حکومت کے ایک وزیر کی ویڈیو دیکھی ہے ۔جس میں وہ ایک ایسے انسانی اسمگلر سے معاملات طے کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ جس پہ میڈیا کے مطابق ایک سو اسی سے زائد لوگوں نے دھوکہ بازی سے ۔رقم ہتیانے کے کیس کر رکھے ہیں ۔جو انٹر پول اور پتہ نہیں کس کس کو مطلوب ہے۔اور میاں صاحب نے اس ویڈیو کی حقیقت جانچنے کے لئیے ایک تین رکنی کمیٹی بنادی اور بس۔ سنا ہے بعد میں وزیر موصوف کے حمایتی یہ کہتے پائے گئے ہیں ۔کہ یہ لاکھوں روپے کی وہ رقم تھی۔ جو انہوں نے مذکورہ انسانی اسمگلر کو ادہار دے رکھی تھی ۔اور وہ انہوں نے واپس لی۔ ایک ایسا وزیر جو ایک معروف انسانی اسمگلر کے ساتھ معاملات کرتا ہے ۔ اسے رقم ادہار دیتا اور واپس لیتا ہے۔ ایسے جرم پیشہ فرد کے ساتھ معاملات کرنا تو کُجا اس کے ساتھ اگر کسی دعوت میں کسی وزیر کا کھانا کھایا جانا ثابت ہو جائے تو مہذب ممالک میں وزراء اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیتے ہیں۔ جبکہ وزیر موصوف کو ایک جرائم پیشہ کے ساتھ معاملات کرنے کے باوجود بجائے اس کے وزیر موصوف سے جواب طلبی کی جاتی اور تادیبی کاروائی کی جاتی ۔ انہیں اتنی اہم وزارت دے دی؟۔ اپنی ٹیم کے بارے خبر نہ رکھنی یا لاعلم رہنا۔ یا خبر ہوتے ہوئے اس پہ کاروائی نہ کرنا ۔یہ بھی اپنے فرائض سے غفلت برتنے کے برابر ہے۔
جہاں یہ عالم ہو کہ سرکاری ملازموں کو ذاتی ملازم سمجھا جائے ۔ نوکریاں بیچی جائیں۔ سرکار دربار میں اپنے من پسند لوگوں کو لانے کے لئیے ۔پرانے ملازمین حتٰی کے چھٹی یا ساتویں گریڈ کی خواتین ملازموں کو انکے گھر بار سے دور۔ بیس بائیس کلومیٹرز دورافتادہ جگہ پہ اچانک تبادلہ کر دیا جائے ۔ بہانے بہانے سے سرکاری ملازموں کو تنگ کیا جائے ۔تانکہ وہ بددل ہو کر اپنی ملازمت چھوڑ دیں ۔اور انکی جگہ اپنے منظور نظر لوگوں کو بھرتی کیا جاسکے۔ تعینات کیا جاسکے۔ وہاں عام عوام ہی نہیں بلکہ یہ سرکاری ملازمین کو ہی اگر اجازت دے دی جائے۔ اور انہیں اپنی نوکری کے جانے کا اندیشہ نہ ہو تا۔تو ہمیں نہیں لگتا کہ کوئی سرکاری ملازم ایسا ہوگا جو احتجاج میں شامل نہ ہواور سرکاری ملازمین کے احتجاج کی تعداد لاکھوں تک نہ ہو ۔ یعنی لوگ تنگ آگئے ہیں۔ انکے مسائل حل نہیں ہو رہے ۔ ممکن ہے نواز شریف حکومت کی ترجیجات میں لمبی ٹرم کے منصوبے ہوں ۔جن سے چند سالوں میں نتیجہ عوام کے حق میں بہتر آئے ، مگر عوام کا فی الحال مسئلہ زندہ رہنے کی جستجو کرنا ہے ۔ اور وہ موجودہ حکومت سے بہت سی توقعات لگائے بیٹھے تھے ۔ اور حکومت فی الفور عوام کو کچھ دینے کی بجائے۔ مہنگائی کے سیلاب سے انکے مسائل میں اضافہ کرنے کا سبب بنی ہے۔
حکومت کے بارے یہ عام طور پہ کہا جاتا ہے ۔کہ میاں نواز شریف نے اندیشہ ہائے دور است کے تحت حفظِ ماتقدم کے طور پہ ۔اپنے اقتدار و اختیار کو اپنے ارد گرد کچھ معدوئے چند لوگوں میں بانٹ رکھا ہے ۔ ممکن ہے اس میں انکے کچھ اندیشے درست ہوں۔ لیکن یہ امر واقع ہے کہ اقتدار اللہ کی دی ہوئی امانت ہوتی ہے۔ اور جن حکمرانوں نے اپنا اقتدار ۔نیچے تک عام شہری تک تقسیم کیا ۔ انھیں کسی اندیشے کا ڈر نہ رہا ۔اور اور یوں کرنے سے جہاں عوام کو ریلیف ملا ۔وہیں اللہ نے ایسے حکمرانوں کے اقتدار میں برکت دی ۔
یہ حد سے بڑھی خود اعتمادی تھی یا سانحہ ماڈل ٹاؤن کی وجہ سے نواز حکومت اخلاقی طور پہ ایسا کرنے پہ مجبور تھی کہ طاہر القادری ایک غیر سیاسی تحریک کے سربراہ اور پاکستان میں کسی بھی لیول پہ ان کا کوئی سیاسی عہدہ نہیں۔ تو پھر کس خوشی میں حکومت نے انہیں پہلے روکا تو عین آخری وقت میں ایک سیاسی اور منتخب حکومت کو غیر آئینی طور پہ حکومت گرانے کی دہمکیوں کے باوجود انہیں ملک کے دارالحکومت کی طرف ہزاروں لوگوں کے ساتھ بڑھنے دیا؟
یہ سیاسی ناعاقبت اندیشی نہیں تو کیا ہے کہ جنہیں چند ہزار افراد کہا گیا اور یہ سمجھا گیا کہ لاکھوں کا دعواٰہ کرنے والے ان بیس پچیس ہزار لوگوں سے کیا تبدیلی لے آئیں گے؟ اور من پسند خوشامدی تجزئیہ نگاروں سے اپنی حکمت عملی کی داد وصول کی جاتی رہی ۔ اور اب یہ عالم ہے کہ پچیس تیس ہزار افراد کے ہجوم نے اسلام آباد میں آج ریڈ زون بھی کراس کر لیا ہے۔ اور عین پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے۔ ملک کے حساس ترین علاقے ریڈ زون میں۔ آن ڈیرے جمائے ہیں ۔جس سے ملک اور حکومت کی کی جگ ہنسائی ہور رہی ہے۔ اور ساری دنیا کو ریاستِ پاکستان کا ایک غلط پیغام جارہا ہے ۔ اور نواز شریف ابھی تک اپنے معدودے چند ایسے افراد کی مشاورت پہ بھروسہ کرنے کی وجہ سے ایک بار پھر بند گلی میں کھڑے ہیں ۔
کچھ لوگوں کو یاد ہوگا کہ انقلاب کا ڈول ڈالتے ہی مشرف نے اپنے کارکنوں کو اس انقلاب اور آزادی مارچ کا ساتھ دینے کا ارشاد فرمایا۔اور نواز شریف نےایک بار پھر ایک تاریخی غلطی کی ہے۔فوج کو اس معاملے میں ملوث کرکے کے اپنے ۔ مسلم لیگ ن۔ اور جمہوریت کے ہاتھ پاؤں باندھ دئیے ہیں۔اور مستقبل میں کئی مخصوص اور حساس معاملوں میں آزادی سے فیصلے کرنے کا اختیار کھو دیا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے ۔اس سے بہتر تھا وزیر اعظم استعفٰی دے دیتے۔اور اپنی پارٹی میں سے کسی کو ویزر اعظم نامزد کر دیتے ۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہوتی۔ کہ بات بات پہ اپنی زبان سے پھر جانے والے۔ آزادی و انقلابی ڈول ڈالنے والے ۔اس کے بعد کوئی نیا مطالبہ نہ کر دیتے ؟۔
تاریخ گواہ ہے۔ کہ اس طرح کے پلانٹڈ اور پلانیڈ انقلاب۔ کبھی کامیاب نہیں ہوئے ۔ان سے تبدیلی تو ہوتی ہے۔ مگر تبدیلی نہیں آتی۔ کسی حقیقی انقلاب کے لئیے عام آدمی یعنی عوام کی تربیت لازمی ہوتی ہے کہ وہ انقلابی تبدیلی کا باعث بن سکے۔جو اس سارے انقلابی عمل میں کہیں نظر نہیں آتی ۔ کہ پاکستان کے عام آدمی یعنی عوام کو اس طرح لاچار کر دیا گیا ہے کہ وہ سوتے میں بھی دو وقت کی باعزت روٹی کمانے کی خاطر اور زندہ رہنے کی جستجو کے ڈراؤنے خواب دیکھتا ہے اور اس قدر منتشر ہے کہ اسے سوائے اپنے حالات کے کسی اور طرف دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ۔ تو پھر عام آدمی کی تربیت اور شمولیت کے بغیر یہ کیسا انقلاب برپا ہونے جارہا ہے؟ ۔
ایک تبدیلی وہ ہے جس کا نعرہ لگایا جارہا ہے۔ ”انقلاب“۔ اور ایک تبدیلی وہ ہے جو اسکرپٹ رائٹر نے اپنے من پسند طریقے سے لانی چاہی ہے۔ یعنی پہلی تبدیلی ”انقلاب “ کا جھانسہ دیکر دوسری تبدیلی ہی اصل گوہر مقصود ہے۔۔
جہاں ضامن حضرات جائز طور پہ برہم ہیں۔ وہیں لوگ اس بات پہ حیران ہیں کہ شیخ السلام اور کپتان نے مختلف سیاسی حکومتی شخصیات کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ کوئی غیر آئنی مطالبہ یا اقدام نہیں کریں گے ۔ تو پھر یہ کیوں بار بار اپنا بیان بدل رہے ہیں ۔ اور اتنی یقین دہانیوں کے باوجود غیر آئینی مطالبوں پہ اڑے ہوئے ہیں۔لیکن ان کو (عوام کو)یہ پتہ نہیں کہ جو کسی کے بھروسے پہ پہلی بار ہر حد پھلانگ جائیں ۔پھر انھیں اس کے اشارے پہ بار بار ہر حد پھلانگنی پڑتی ہے۔اتنے سالوں سے اس ملک میں کوڑھ کی فصل بیجی جارہی ہے ۔ اب یہ فصل پک چکی ہے۔کچھ طاقتیں ایسی ہیں جنہوں نے اس ملک کے تمام ستونوں کو بے بس کر رکھا ہے اور جب انھیں پاکستان کی ترقی یا استحکام کا پہیہ روکنا مقصود ہوتا ہے تو وہ اشارہ کر دیتی ہیں اور پہلے سے بنے بنائے بچے جمہورے طے شدہ پروگرام کے تحت حرکت میں آجاتے ہیں ۔اور حد یہ ہے کہ انھیں رسپانس بھی ملنا شروع ہو جاتا ہے ۔
چند ہفتے قبل کوئی سوچ سکتا تھا کہ۔ وہ لوگ جن کا پاکستان کی سیاست اور پارلیمینٹ میں وجود ہی نہیں۔ وہ آج کس زورو شور سے پورے ملک۔ کو اسکے عوام کو ۔بے یقینی کی ٹکٹکی پہ چڑہا کر تماشہ بنادیں گے؟یہ سیاسی بصیرت سے بڑھ کر کسی تیسری قوت کی اپروچ ھے۔اور جو لوگ ایک بار کسی کے ہاتھوں پہ کھیلیں ۔۔ پھر انھیں ہمیشہ انھی کے ہاتھوں کھیلنا پڑتا ہے۔
لمحہ بہ لحمہ بدلتی اس ساری صورتحال میں موجودہ حکومت کو دیوار کے ساتھ لگا کر پس پردہ اس سے وہ مطالبات منائے جائیں گے ۔ جس پہ ابھی تک ہماری حکومت بظا ہر اسٹینڈ لئیے کھڑی ہے ۔ اسمیں مشرف کی پاکستان سے غداری اور امریکہ سے وفاداری کے انعام کے طور پہ اس کی رہائی ۔ تانکہ امریکہ کے لئیے کام کرنے والے غداروں کو یہ پیغام جائے کہ وہ امریکہ کے لئیے اپنی قوم سے غداری کرنے والوں کو امریکہ تنہا نہیں چھوڑتا۔ دوسری بڑی وجہ ۔ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی ۔ اور تیسری بڑی وجہ ۔ پاکستانی عوام کو آمنے سامنے لا کر تصادم میں بدلنا ہے۔”عرب بہار“ جیسا فار مولہ بہت شاطر دماغوں نے اپنی پوری طاغوتی طاقت سے سارے وسائل بروئے کار لا کر بنا یا ہے ۔زرہ تصور کریں یہ دھرنا پروگرام کچھ طویل ہوتا ہے۔ تو دیگر جماعتیں بھی اپنے ہونے کا ثبوت دینے کے لئیے ۔اپنی اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ کرنے پہ نکل آئیں۔ تو کارکنوں کا ملک گیر پیمانے پہ یہ تصادم کیا رُخ اختیار کرے گا؟۔ یہ وہ کچھ پس پردہ عزائم ہیں جو عالمی طاقتیں دنیا کی واحد اسلامی نیوکلئیر ریاست کے بارے رکھتی ہیں۔ جس کے بارے میں عالمی میڈیا میں یہ تاثر دیا جائے گا ۔کہ اس ملک میں کبھی بھی۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ تو ایسے میں نیوکلئیر ہتیار اگر دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گئے۔ تو دنیا کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے ۔ اور اس تصور کو دنیا میں بڑہا چڑھا کر پیش کیا جائے گا ۔ اور ہماری بدقسمتی سے پاکستان مخالف عالمی طاقتیں پروپگنڈاہ اور دہمکی دھونس کے زور پہ ۔ایسے بے وجود سایوں کو وجود دینا جانتی ہیں۔ایسے میں پاکستان کا کیس عالمی برادری میں کمزور ہو جائیگا۔
اس بار شاید ہمیشہ کی طرح ”عزیز ہموطنو“ نہ ہو ۔کہ اب یہ فیشن بدلتا جارہا ۔ اورکچھ لوگ پہلے سے تیار کر لئیے جاتے ہیں ۔کہ جنہیں اگر نوبت آئی ۔تو انہیں آگے کر دیا جائے گا ۔ اور پس پشت”میرے ہموطنو“ پروگرام ہی ہوگا۔اس امر کا انحصار نواز شریف کی بارگینگ پاور پہ ہوگا۔ اور مارچ میں شامل کارکنوں کی تعداد اور استقلال کی بنیاد پہ ہوگا۔ کہ پس پردہ اپنی شرائط کس طرح منوائی جاسکتی ہیں۔ اگر دھرنے کے قائدین اسکرپٹ پلیئر کے اشارے پہ دھرنا اور احتجاج ختم بھی کر دیں ۔تو بہر حال ایک بات طے ہے کہ ان دھرنوں سے پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ پاکستان کی بنیادیں بھی ہل کر رہ جائیں گی ۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, فہمی, ہم, ہمیں, ہنسائی, ہو, ہونے, ہونگے۔, ہونا, ہو۔, ہوگا, ہوگا۔کہ, ہوگا۔تو, ہوں, ہوں“۔, ہوئی, ہوئی۔, ہوئے, ہوئے۔, ہوا, ہواور, ہوتی, ہوتی۔, ہوتے, ہوتا, ہوجانا, ہور, فوری, فوراً, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں۔اور, ہیں۔شہباز, ہیں؟۔, فیصلوں, فیصلے, ہے, ہے۔, ہے۔ جہاں, ہے۔فوج, ہے۔کچھ, ہے۔اور, ہے۔حکومت, ہےکہ, ہے؟, ہٹتی, ہاؤس, ہائے, ہاتھ, ہتیانے, ہجوم, فخر, ہر, فرما, فرمایا۔اور, فراہمی, فرائض, فرد, فرصت, ہزار, ہزاروں, فطرت, قوم, قائم, قابو, قدم, قدر, قربان, قسم, لفظوں, لمبی, لوگ, لوگوں, لیول, لی۔, لیکن, لیگ, لیں, لیں۔, لیا, لیتا, لُوٹ, لے, لے۔, لکھے, لکھتے, لگایا, لگائے, لگتا, لئیے, لئے, لانی, لانے, لانا, لاچار, لایا, لاکھوں, لازمی, لاعلم, لبیک, لطیفہ, مہنگائی, مفاہمت, مہذب, ملوث, ملے, ملک, ملا, ملازم, ملازموں, ملازمین, ملازمت, ممکن, ممالک, من, منونے, منوانا, منتخب, منتشر, منشاء, منصوبے, منظور, موجودہ, موجیں, موصوف, میل, میڈیا, میں, میں۔, میاں, مگر, ما, ماہ, مانگنے, مانگیں, ماڈل, ماتقدم, ماحول, مارچ, مارچوں, ماضی, مثال, مثالی, مثالی۔, مثالیں, مجبور, محنت, محدود, محض, مخصوص, مد, مذکورہ, مذاکرات, مرضی, مسلم, مسئلہ, مسائل, مستقبل, مشکل, مشکلات, مشاورت, مشرف, مصیبت, مطلوب, مطالبہ, مطالبات, مطابق, مظاہرہ, معلوم, معاملہ, معاملے, معاملات, معدوئے, معدودے, معروف, مغالطے, مغربی, نہ, نہیں, نہیں۔, نفسیاتی, نقصانات, چلی, چلےجاتے۔, چلا, چلانا, چلتا, نمک, چند, نون, نوکری, نوکریاں, نواز, نیا, چڑچڑے, نے, نے۔, نےایک, ن۔, نکل, چکی, نکتہ, نگاروں, چھوڑ, چھوڑتی, چھڑکیں۔, چھٹی, چاہی, چاہئیے, چاہا, چالیں, نام, نامزد, ناکامی, ناعاقبت, نبوت, نبی, نتیجہ, نسبت, نظر, نعرہ, و, وہ, وہاں, وقت, ڈول, ڈوبتی, ویڈیو, ڈیرے, ویزر, ڈگری, واقع, ڈالنے, والوں, والی, والے, والے۔, ڈالتے, والسلام, واپس, وبیباکی, وجہ, ور, ڈراؤنے, وراثت, وزیر, وزات, وزارت, وزراء, وصول, وضاحت, یہ, یہی, یقناً, یقین, یوٹرن, یوں, یک, یکے, یا, یافتہ, یاد, یعنی, ۔, ۔ یہ, ۔لاکھوں, ۔مگر, ۔نیچے, ۔نظر, ۔وہیں, ۔وزیر, ۔یہ, ۔۔, ۔کہ, ۔کیونکہ, ۔کسی, ۔پندرہ, ۔پرانے, ۔ان, ۔اور, ۔اپنے, ۔اس, ۔اسکی, ۔بجلی, ۔تو, ۔تانکہ, ۔جن, ۔جو, ۔جس, ۔رقم, کہ, کہہ, کہنے, کہیں, کہا, کہتے, کلومیٹرز, کم, کمی, کمیٹی, کمانے, کو, کون, کونسی, کوئی, کواکب, کی, کیونکہ, کیوں, کیا, کیس, کیسا, کُجا, کڑووں, کے, کے۔, کے۔ان, کھلا, کھو, کپڑے, کپڑا, کھانا, کھایا, کپتان, کئی, کئیے, کا, کافی, کامیاب, کاکیا, کاروائی, کاروبار, کارکنوں, کب, کبھی, کر, کرنی, کرنے, کرنا, کروائے, کرکے, کرکٹ, کرپشن, کراس, کرتی, کرتے, کرتا, کردیں, کردار, کردار۔, کررہا۔تو, کس, کسوٹی, کسی, گلی, گڈ, گوئی, گواہ, گورنس, گیا, گیس, گے, گے۔, گے؟, گھن, گھر, گئی, گئیں, گئے, گر, گرمی, گریڈ, گرا, گرانے, گرج, گرد, گردانا, ٹیم, ٹھپ, ٹاؤن, ٹرم, ںاور, پہ, پہلی, پہلے, پہنچتے, پہچانے, پلان, پلانیڈ, پلانٹڈ, پچیس, پنجاب, پندرہ, پول, ھوئی, پوری, پورے, پوزیشنیں, پی, پیچھے, پیدا, پیشہ, پیغام, پڑی, پھونک, پھر, پانی, پاور, پاکستان, پاکستانی, پاکستان۔ہیں, پاؤں, پائی, پائے, پارلیمنٹ, پارٹی, پتہ, پتوں, پرکھتا, پردہ, پس, پسند, ،, ؟, ؟۔, آلودہ, آمادہ, آن, آنے, آنکھیں, آگے, آگئے, آپ, آپنے, آئینی, آئیں, آئیں۔کامیاب, آئے, آباد, آبادی, آتی, آتی۔, آتے, آج, آخری, آدہی, آدمی, آزادی, آسان, آصف, اہلیت, اہم, افراد, اقتدار, الفور, القادری, اللہ, الحال, السلام, امانت, امر, ان, انہوں, انہیں, انقلاب, انقلابی, انقلاب۔, انکی, انکے, انکا, انٹر, انھیں, اچانک, انبیاء, انتخابی, انحصار, اندیشہ, اندیشی, اندیشے, اندازہو, انسانوں, انسانی, اولین, اور, ایمان, ایماء, ایک, ایسی, ایسے, ایسا, اکثریت, اکثریتی, اگر, اپنی, اپنے, اپنا, اب, ابھی, اتنی, اترے, اثر, اجیرن, اجازت, احتجاج, اخلاق, اخلاقی, اختیار, ادہار, ارد, ارشاد, از, اس, اسلام, اسمگلر, اسی, اسے, اسکی, اسکینڈلز, اسکے, اسکا, اسکرپٹ, اسکرپٹس, اسٹریٹ, است, استعفی, استعفیٰ, استعفٰی, اشارہ, اصولوں, اضافہ, اعلیٰ, اعلٰی, اعتمادی, اعتبار, اعظم, بہ, بہانے, بہت, بہتر, بل, بلند, بلیک, بلکہ, بن, بنی, بنیاد, بنا, بناؤ, بناتی؟, بنادی, بند, بولتے, بیچی, بیٹھے, بیان, بیاں, بیباکی, بیس, بُوتے, بڑہاتا, بڑی, بڑے, بڑھنے, بڑھی, بے, بگاڑ, بھی, بھرنے, بھروسہ, بھرتی, بانگ, بانٹ, باندھ, باوجود, بائیس, بات, بار, بارے, بارش, بازی, باعث, باعزت, بجلی, بجائے, بجائے۔, بحران, بحران۔, بدلتے, بددل, بر, برکت, برپا, برابر, برتنے, بردران, برعکس, بزرجمہر, بس, بس۔, بعیت, بعد, بعد۔اپنی, بغیر, تہائی, تفاخر, تقسیم, تنگ, تو, توقعات, تووہ, توڑ, توانائی, توانائی۔خواجہ, تین, تیار, تیس, تک, تکالیف, تھی, تھی۔, تھے, تھا, تھا۔, تا۔تو, تاثر, تادیبی, تاریخ, تاریخی, تبادلہ, تبدیلی, تجزئیہ, تحت, تحریک, ترین, ترپ, تربیت, ترجیجات, تصور, تعینات, تعالیٰ, تعداد, ثابت, جہاں, جلتے, جلد, جم, جمہوریت, جمود, جمیں, جمائے, جن, جنہیں, جو, جونہی, جواب, جگ, جگہ, جھوٹ, جا, جان, جانچنے, جانچتا, جانے, جانا, جانتا, جائیں۔, جائیں؟۔ورنہ, جائے, جائے۔, جائے؟, جاتی, جاتا, جارہے, جارہےہیں, جارہا, جاسکے۔, جاسکتے, جاسکتا, جب, جبکہ, جتن, جرم, جرائم, جس, جسم, جستجو, حفظِ, حق, حقیقی, حقیقت, حل, حمایت, حمایتی, حکمت, حکمرانوں, حکومت, حالات, حتٰی, حد, حساس, خلاف, خوفناک, خواب, خواتین, خود, خوشی, خوشامدی, خیال, خُوب, خاندان, خاطر, خبر, ختم, خداد, خطرہ, دہمکیوں, دہوکے, دم, دن, دنیا, دو, دون, دونوں, دو؟۔اسملبیاں, دوتہائی, دور, دور۔, دورافتادہ, دوسرے, دوسرا, دی, دین, دینے, دینا, دی۔, دیکھنے, دیکھی, دیکھیں, دیکھئیے, دیکھتا, دیگرے, دیں, دی؟۔, دیا, دیا؟یہ, دیتے, دیتے۔اور, دیتا, دے, دےدیں۔, دکھائے, دھوکہ, دھوکہ۔, دھوکے, دئیے, داد, دارالحکومت, داغ, داغنے, دباؤ, دربار, درست, دستِ, دعوؤں, دعواہ, دعواٰہ, دعوت, دعوتِ, دعا, ذہن, ذاتی, ذریعئے, رہنے, رہنا۔, رہی, رہی۔, رہیں, رہے, رہا, رقم, رنگ, روکا, روٹی, روپے, روا, روز, روزگار, روزگاری, ریلیف, ریڈ, ریاستِ, رُخ, رکنی, رکھ, رکھنی, رکھنے, رکھی, رکھے, رکھا, رکھا؟۔تو, رکھتے, راہ, رام, رائٹر, راضی, رشتہ, ز, زندہ, زندگی, زون, زیادہ, زائد, زبان, زخموں, زرداری, سمجھ, سمجھنے, سمجھا, سنا, سچائی, سنبھالے, سو, سولہ, سوچ, سوال, سوائے, سوتے, سی, سیلاب, سیاسی, سیاسات, سیاست, سیاستدان, سڑکوں, سے, سکیں“, سکے۔یہ, سکے۔جو, سالوں, سامنے, سامنے۔, سانحہ, ساتویں, ساتھ, ساخت, سادہ, ساری, سارے, سب, سبب, ستم, سر, سرکار, سرکاری, سربراہ, شفقت, شہری, شمولیت, شو, شور, شیخ, شک, شامل, شائبہ, شروع, شریف, شرابہ, صفات, صلاحیت, صورتحال, صاحب, ضمانت, ضدی, ضروری, ضرورت, طلبی, طور, طے, طاہر, طاقت, طاقتوں, طاقتیں, طبعیت, طرف, طریقے, طرح, ظریفی, عہدہ, عفریت۔, علم, علمِ, علیة, علاقے, عمل, عملی, عمران, عوام, عین, عالم, عام, عدم, غفلت, غلط, غلطی, غیر