RSS

Tag Archives: صدر

جے آئی ٹی رپورٹ بھی ہوگئی۔


جے آئی ٹی رپورٹ بھی ہوگئی۔

اب کیا ہوگا؟۔
کیا یہ سیریل آئندہ الیکشن تک چلے گا؟

اگر یوں ہوتا ہے کہ یہ سیریل آئندہ الیکشن تک چلتی ہے تو کیا اس کا یہ مطلب واضح ہے کہ گو کہ اس سیریل کے تمام اداکار پاکستانی ہیں مگر اس سیریل کو ڈائریکٹ کہیں اور سے کیا جارہا ہے؟

جنرل ایوب خان نے اپنی کتاب "فرینڈز ناٹ ماسٹرز” Friends Not Masters, میں آقاؤں کی طوطا چشمی کے شکوے کئیے ہیں اور ان کی بے وفائی کا دکھڑا بیان کیا ہے۔ اور ایوب خان کے خلاف بھی لانگ مارچ کا ہی فارمولہ آزمانے اور انہی طاقتوں کی ایماء پہ برسراقتدار آنے والے بڑے بھٹو مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار کے آخری ایام میں اپوزیشن جماعتوں کے قومی اتحاد اور بعد ازاں نظامِ مصطفی نامی تحریک کے زبردست دباؤ کے بعد پی ٹی وی پہ اپنی آخری تقریر میں امریکہ کو سفید ہاتھی گردانتے ہوئے یہی واویلہ کیا کہ ہائے ہائے مجھے بنانے والے مجھے گرانے پہ آمادہ ہیں۔

انہی طاقتوں کے اشارے پہ گرم سیاسی ماحول میں اسلامی نظام کا نعرہ لگا کر تختِ اسلام آباد پہ قبضہ جمانے والے جنرل ضیاء الحق بھی اپنے آخری دنوں میں اپنے انجام سے آگاہ ہوچکے تھے کہ آقاؤں کا دستِ شفقت انکے سر سے اٹھ چکا ہے اور وہ آج یا کل دیر یا سویر سے اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں۔ اسی لئیے وہ اپنے آخری دنوں میں امریکی سفیر اور اپنے جرنیلوں سمیت ہر اس شخص کو اپنے ساتھ لئیے پھرتے تھے جس پہ انہیں اپنے خلاف کسی سازش میں شریک ہونے کا ذرہ بھر بھی شائبہ تھا۔ اور بہاولپور فضائی حادثے میں مارے جانے والے پاکستان کے انتہائی ذمہ دار لوگوں کے ایک ہی طیارے میں سوار ہونے کی یہ بھی ایک وجہ تھی۔

موجودہ دور میں پاکستانی مسنندِ اقتدار پہ قابض ہونے والوں میں سے جنرل مشرف شاید وہ واحد کردار ہے جس نے ہدایت کاروں کی ہر فرمائش ان کی توقعات سے بڑھ کر پوری کی اور جب جنرل مشرف کو مسندِ اقتدار سمیٹنے کا اشارہ ہوا تو اس نے بلا چون چرا جان کی امان پاؤں کے صدقے اپنا بوریا لپیٹا اور اُدہر کو سدھار گئے جدہر سے انہیں جائے امان کا وعدہ کیا گیا تھا۔
ایسے ھی اچانک سے ڈرامائی طور پہ زرداری پاکستان کے صدر بن گئے۔ کیا تب صرف چند ماہ بیشتر کسی کے وہم گمان میں تھا کہ بے نظیر وزیر اعظم بننے کی بجائے زرداری پاکستان کے مختارِکُل قسم کے صدر بن جائیں گے؟۔ ہماری قومی یاداشت چونکہ کچھ کمزور واقع ہوئی ہے اگر کسی نے یاداشت تازہ کرنی ہو تو اس دور کے الیکشن سے چند ماہ قبل کے اخبارات اور ٹی وی مذاکروں کا مطالعہ و نظارہ کر لیں۔ جن میں بے نظیر کے ہوتے ہوئے زرداری کے صدر یا وزیر اعظم بننے کا خیال تک بھی کسی سیاسی جغادر کے وہم و گمان سے گزرا ہو۔ صرف چند ماہ میں زرداری پاکستان کے مختار کل قسم کے صدر تھے۔

زرداری حکومت میں نواز شریف عدلیہ بحالی کا عزم لے کر لاہور سے اسلام آباد کو ایک جمِ غفیر لے کر نکلے۔ عوام کا ٹھاٹا مارتا سمندر ساتھ تھا۔ زرداری حکومت چند دن میں ڈیڑھ سو کلو میٹر کی دوری پہ انجام پزیر ہوسکتی تھی۔ قومی یادشت کو تازہ کی جئیے کہ تب امریکی صدر اور سفیر اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل کیانی کے یکے بعد دیگرگوجرانوالہ نواز شریف کو فون آئے اور نواز شریف عام عوام کی توقعات اور امیدوں کے بر عکس تب گوجرانوالہ سے واپس لاہور سدھار گئے۔ سوجھ بوجھ والوں نے تب ھی فال ڈال دی کہ مک مکا ہوگئی ہے اور زردای کو ٹرم پوری کرنی دی جائے گی اور آئندہ ویز اعظم نواز شریف ہونگے۔ اور مڈٹرم کے طور یہی کلیہ نواز شریف کے خلاف مختلف مارچوں اور دھرنوں کے ذرئیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی مگر عام عوام کی عدم دلچسپی یا آئے دن کے بے مقصد سیاسی ہنگامہ آرائی سے بیزارگی کی وجہ سے یہ ایکٹ کامیاب نہ ہوسکا۔

کسی بھی قیمت پہ اقتدار میں آنے والے جب طے شدہ شرائط پہ کام کرنے کے بعد خالص اپنے ذاتی جاہ حشمت کو برقرار رکھنے کے لئیے کنٹریکٹ کوغیر ضروری طور پہ طوالت دینے کی ضد کریں۔ یا دی گئی بولی سے انحراف کریں تو ان کا انجام بخیر نہیں ہوتا۔

مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی قیمت پہ اقتدار کے خواب دیکھنے والے بچہ سقوں کی ہمارے ہاں کمی نہیں۔ مگر ایسے خوابوں کو پایہ تکمیل پہنچانے والی یا اقتدار کو استحکام بخشنے پہ قدرت رکھنے والی وہ طاقتیں جوبیرونِ پاکستان سے کٹھ پتلی تماشے کی ڈوریاں ہلاتی ہیں وہ کسی ایسے ڈھیلے ڈھالے کردار کو مسند اقتدار کا ایکٹ نبھانے کی اجازت دینے پہ تیار نہیں جو موجودہ دور میں پاکستانی اسٹیج پہ اپنے کردار اور ایکٹ کو زبردست عوامی پذیرائی اور عوام کی طرف سے پرجوش تالیوں کے استقبال کی اہلیت نہیں رکھتا۔

کیا پاکستان کے مفادات کے خلاف پھر سے بولی ہوگی؟ جو بڑھ کر بولی دے گا اسے مسند اقتدار بخشا جائے گا؟

کیا نئے مناسب اداکار دستیاب نہ ہونے کی صورت میں پرانی ٹیم نئی شرطوں اور تنخواہ پہ کام کے لئیے منتخب کی جائے گی؟
کیا ہمارے خدشات محض خدشات ثابت ہونگے۔اللہ کرے ہمارے خدشات محض خدشات ثابت ہوں۔

پردہ اٹھنے میں دیر ہی کتنی ہے؟ نئے انتخابات میں عرصہ ہی کتنا رہتا ہے؟

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

اردو



اردو۔۔۔
انتہائی توجہ طلب قومی فریضہ۔۔۔


چین کے ایک صدر کے بارے ایک واقعہ عام بیان کیا جاتا ہے ۔ کہ انہوں نے انگریزی زبان جانتے ہوئے بھی انگریزی زبان کی بجائے چینی زبان میں بات کرنے کو یہ کہہ کر ترجیج دی کہ” چین گونگا نہیں“ ۔
جن قوموں کی اپنی زبان نہیں ہوتی۔ وہ گونگی اور بہری قرار دی جاتی ہیں ۔اور تاریخ شاہد ہے کہ گونگی اور بہری بے زبان قومیں تاریخ کے دہندلکوں میں گم ہوگئیں اور ان کا نام نشان بھی اب نہیں ملتا۔
پاکستان میں باقاعدہ ایک مسلسل سازش اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اردو کو سرکاری زبان نافذ کرنے میں پس و پیش کی جارہی ہے۔ جب کہ پاکستان کا آئین بھی اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ پاکستان میں اردو زبان کو سرکاری اور کاروبارِمملکت کی زبان کے طور پہ نافذ کیا جائے ۔ مگر پاکستان میں انتہائی مراعات یافتہ انگریزی طبقہ ۔ اردو اور پاکستان کی دیگر زبانیں جاننے والی پاکستان کی اٹھانوے فیصد سے زائد اکثریت کو رعایا سمجھتا ہے ۔اور اپنے آپ کو پاکستان کا مالک اور حاکم بااختیار سمجھتا ہے ۔ اور نہیں چاہتا کہ پاکستان کے عوام بھی ترقی کر کے اس فرق کو ختم کردیں ۔جو اس انگریزی کلب اور عام پاکستانی عوام کے میعار زندگی اور اختیار و بے بسی میں ہے۔ اور یوں اس انگریزی کلب کی حاکمیت اور خصوصیت کا امتیاز ختم ہوجائے ۔
جہاں تک پاکستان کے سیاست دانوں اور کرتا دہرتاؤں کا تعلق ہے ۔جنہیں پاکستان میں اردو کو نافذ کرنے کا اپنا منصبی فرض پورا کرنا ہے ۔ ان کو یعنی حکمرانوں کو یہ انگریزی طبقہ غلط طور پہ تاویلات پیش کر کے ۔ اردو کو سرکاری اور پاکستان میں کاروبار ریاست کی زبان قرا ردینے کی بجائے۔ الٹا سرکاری سطح پہ انگریزی کو زرئعیہ تعلیم (میڈیم )قرار دینے پہ زور دیتا آیا ہے ۔
عام طور پہ پاکستان کےحکمران طبقہ کا تعلق چونکہ انگریزی کلب سے ہونے کی وجہ سے۔ یہ طبقہ اردو کے بارے انتہائی کم معلومات رکھتا ہے اور اردو سے کسی حد نابلد ہوتا ہے۔ اس لئیے اردو زبان کو حکمران طبقہ ایک مشکل مسئلہ سمجھتا ہے ۔ اور اردو کو درخود اعتناء نہیں سمجھتا۔ اور انگریزی کلب کی تاویلات سے متاثر ہوکر انگریزی کلب کے ہاتھوں میں کھیلنے لگتا ہے ۔ اور انگریزی زبان کو اپنا اور ریاست کا اوڑنا بچھونا بنائے رکھنے میں عافیت محسوس کرتا ہے ۔
ستم ظریفی کی حد ہے ایک ایسے معاشرے میں جس میں اٹھانوے فیصد آبادی انگریزی سمجھتی اور بولتی نہیں ۔ اس میں پہلی جماعت سے انگریزی کو زرئعیہ تعلیم قرار دیا گیا ہے ۔ جس کا فوری نقصان یہ ہوا کہ سالانہ نتائج میں پاکستان کی اکثریت غریب عوام کے بچوں کی کامیابی کی شرح اوسط مزید گر گئی ہے۔
مضمونِ ہذاہ میں ہم ان تاویلات کا تجزئیہ کرنے اور ان تاویلات کی منافقت سامنے لانے کی کوشش کریں گے ۔ تانکہ قارئن اکرام کو واضح ہو کہ پاکستان میں قومی زبان کو سرکاری زبان کے طور پہ نافذ نہ کر کے پاکستان اور پاکستان کے عوام کوکس قدر نقصان پہنچایا جارہا ہے۔
قیام پاکستان کے شروع سے لیکر اور پاکستان بن جانے کے بہت سالوں بعد ۔کمپیوٹر کے عام ہونے تک اردو کو سرکاری اور دفتری زبان بنانے کے خلاف ۔جو تاویل بڑی شدو مد سے انگریزی کلب بیان کرتا تھا۔ وہ یہ تھی ۔ کہ دفاتر میں تائپ رائٹنگ کے لئیے انگریزی زبان کا استعمال بہت ضروری ہے ۔ کیونکہ حروف تہجی اور انگریزی رسم الخط کی وجہ سے انگریزی ٹائپنگ میں بہت آسانی اور روانی رہتی ہے۔ جبکہ اردو میں ٹائپنگ کے لئیے ایک اردو ٹائپ رائٹر مشین میں اردو کے حروف تہجی جوڑنے اور الفاظ کی شکل دینے کے لئیے کم از کم تین سو سے زائد کیز والی ٹائپ رائٹنگ کی ضرورت پڑے گی۔ جو عملی طور پہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اور ایسے ٹائپ رائٹرز کو سرکاری دفاتر میں استعما ل کرنا نا ممکن کام ہے ۔ اور یوں حکومتوں نے بھی تجاہل عارفانہ سے کام لے کر اردو کو سرکاری اور دفتری زبان قرار دینے میں اغماض برتا جو قومی مفادات سے غداری کے مترادف سمجھا جانا چاہئیے ۔
مگر کمپیوٹر کی کرشماتی ایجاد اور اسکے عام ہونے کے معجزہ نے ۔انگریزی کلب کی اس تاویل کی ہوا نکال دی ۔ اور ٹائپ رائٹنگ مشینیں قصہ پارنیہ ہویئں۔ اور پاکستان کی قومی اور عوامی زبان۔۔ اردو لکھنا ۔اردو جاننے والوں کے لئیے انتہائی سہل ہوگیا ہے ۔ اس کے باوجود سرکاری سطح پہ اردو زبان کو ترقی دینے کے لئیے قیمتی بجٹ سے گرانقدر مشاہرہ اور مراعات سے جو ادارے قائم کئیے گئے۔ انکی عمارتیں اور اخراجات اور ہٹو بچو قسم کے سربراہ اور عہدیداران تو بہت تھے ۔مگر اردو کی خدمات کے حوالے سے ان کا کام نہ ہونے کے برابر تھا۔ بلکہ اردو کو ترقی دینے کے لئیے قائم کئیے گئے ان حکومتی اداروں کے نام تک انگریزی میں ہیں ۔اور انکے سالانہ اجلاس اور اردو کی ترویج و تشیہر کے لئیے بلائی گئی کانفرسوں کا مواد اور اشتہارات اور ویب سائٹس پہ مواد اردو کی بجائے انگریزی میں ہوتا ہے۔
یہ اردو۔۔۔ جو آپ کمپیوٹرز اور مختلف مصنوعات پہ پڑھ لکھ رہے ہیں ۔اسے اس حد تک ترقی دینے میں حسب معمول بہت سے لائقِ تحسین عام پاکستانی رضا کاروں کی انتھک کوششوں کا ثمر ہے۔ جنہوں نے محض اسے ایک قومی فریضہ سمجھتے ہوئے اور بغیر کسی معاوضے کے انتھک محنت سے اردو کی خدمت کی ہے۔ جس میں عام اردو کے دیدہ زیب فاؤنٹس سے لیکر مختلف پرگرام اور ایپس اردو میں متعارف کروائی ہیں اور اور اس وجہ سے پاکستانی اور دیگر دنیا کے اردو جاننے والے ۔ اپنے کمیپوٹر وں۔ موبائل فون اور دیگر مصنوعات پہ کسی دوسری زبان کی بجائے۔ اپنی زبان اردو کواستعمال کرنے کو ترجیج دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آج کمپیوٹر بنانے والی اور دیگر مصنوعات بنانے والی کمپنیاں اور فرمیں اردو زبان کو اپنی مصنوعات کی رابطہ زبانوں میں شامل کرتی ہیں ۔ جبکہ پاکستان کی حکومتوں اور پاکستانی عوام کے ٹیکسز سے قائم کئیے گئے بڑے بڑے اداروں جن کا واحد مقصد اردو کو ترقی دینا تھا ۔ ان کا اس معاملے میں کردار صفر کے برابر ہے ۔
ان مذکورہ اداروں کو اردو کی ترقی اور ترویج کا فریضہ دیا گیا تو انہوں نے انگریزی میں مروجہ اصطلاحات کو اسقدر مشکل ۔ غیر مستعمل۔ غیر عوامی۔ اور غیر زبانوں کے الفاظ سے اسقدر پیچیدہ ۔ ثقیل ۔ اور مضحکہ خیز بنا کر پیش کیا اور یہ ساری مشق اور قوم کا سرمایہ کا مصرف بیکار گیا۔ ہماری رائے میں ایسا کرنا اور حکومتی ادراے کے من پسندیدہ افراد کو نوازتے ہوئے یہ بجائے خود اردو کے خلاف ایک سازش ثابت ہوئی اور اردو سے اچھا خاصہ لگاؤ رکھنے والے نفیس لوگوں نے اسے اپنانے سے انکار کردیا ۔ اور پھر سے اس کا حل مکمل انگریزی اختیار کرنے میں نکالا گیا۔
مستعار اصطلاحات و ترکیبات اور مشکل الفاظ یا کوئی متبادل لفظ نہ ہونے کی صورت میں زبانیں اپنا رستہ خود بخود بنا لیتی ہیں۔ اور یہ مسئلہ دنیا بھر کی سبھی زبانوں کے ساتھ رہا ہے۔ اور ہے۔ خود انگریزی میں فرنچ اور دیگر لاطینی زبانوں کے بے شمار مستعار لفظ مستعمل ہیں۔ مثلا ”کیمرہ“۔۔ یہ بنیادی طور پہ یہ لاطینی لفظ ہے۔ جس کے معانی ہیں ڈبہ یا ڈبہ نما کوئی ایسے شئے جو اندر سے خالی ہو۔ اور انگریزی میں ہزاروں الفاظ کی ہم مثال یہاں دے سکتے ہیں ۔جو بنیادی طور پہ لاطینی ۔ فرانسیسی اور اسپانوی الفاظ ہیں ۔ اور انگریزی سے قدیم ہیں ۔ اور انگریزی نے اسے اپنا لیا ہے۔ اور اسے اپنا خاص انگریزی کا تلفظ دے ڈالا ہے۔ جس سے وہ ایک الگ صوتی شناخت پا گئے ہیں ۔
“اسی طرح کچھ خاص پہلوؤں سے عربی زبان اور دنیا کی دیگر زبانوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ جو دنیا کی فصیح و بلیغ زبان اور قدیم اور انتہائی ترقی یافتہ زبان ہے۔عربی زبان سے بڑھ کر کوئی بھی زبان کسی بھی صورت حال یا شئے کو واضح کرنے کے لئیے اپنے اندر اتنی صلاحیت نہیں رکھتی۔جتنی صلاحیت عربی زبان میں ہے۔ انگریز اور مغرب نے طیارہ ایجاد کیا۔ اور اسے ”ائیر پلین“۔ یا ا”ئر کرافٹ “یا دیگر نام دئیے جو بجائے خود دو ناموں کا مجموعہ ہیں۔مگر عربی نے اسے سیدھا سادا انداز میں ”طائرۃ“ کا نام دیا ۔ جو زیادہ ترقی یافتہ لفظ ہے۔ اور اس فصحات و بلاغت کے باوجود یونانی فاتح ۔جسے انگریزی نے ”الیگزینڈر“ کہہ کر پکارا ۔عربی نے اسے ”اسکندر“ کہا۔اور اسی مناسبت سے مصر کے مشہور شہر ”اسکندریہ“ کا نام عربی زبان کی مناسبت سے وجود میں آیا۔۔۔ لیبا کا مشہور شہر کا نام ”طرابلس” ۔ ”ٹریپولی “ نام کی وجہ سے وجود میں آیا۔ مگر اسے عربی نے اپنے انداز میں ”طرابلس“ کا نام دیا۔
کچھ ایسا ہی معاملہ دنیا میں رائج قدیم ترین زبانوں میں سے رائج ایک زبان اسپانوی کے ساتھ بھی ہے۔ عربی کے بعد ماہرینِ لسانیات عام طور پہ اسپانوی زبان کو دنیا کی دوسری فصیح و بلیغ زبان گردانتے ہیں ۔ مسلم اسپانیہ کے دور کے مشہور شہروں کے نام” اشییلیہ“۔”قرطبہ“۔ ”غرناطہ۔” مالقہ“۔”سرقسطہ“۔قادسیہ” وغیرہ اسپانوی زبان میں باالترتیب ۔ ”اِس بیا“۔ ”قوردبہ“۔ ”گارانادا“۔”مالاگا۔”ژاراگوثہ“۔ ”قادس۔ وغیرہ میں بدل گئے اور تلفظ بدلنے سے۔ امریکن قرطبہ کو ۔”کارڈواہ” کہہ کر پکارتے ہیں کیوں کہ وہ قرطبہ شہر کے نام کو انگریزی حروف تہجی Córdvba تلفظ بگڑ جانے سے یوں ”کارڈواہ“ پکارتے ہیں۔ مگر اس سے مراد قرطبہ شہر ہی ہے یعنی نام کوئی بھی دے دیا جائے۔ یا کسی طرح بھی اسے پکارا جائے۔ مراد وہی مخصوص شہر ۔معانی یا شئے ہوتی ہے۔ اسی طرح قدیم عربی کے ہزاروں الفاظ اسپانوی میں اتنی صدیوں بعد بھی عربی تلفظ کے ساتھ اور انہی معانوں میں مستعمل ہیں۔ مثلا ”قندیل“۔ ”بلبل“ وغیرہ ہیں ۔ سقوطِ غرناطہ کو پانچ سے زائد صدیاں گزرجانے کے بعد بھی اسپانوی رائل ڈکشنری یعنی شاہی لغت میں ایک ہزار کے لگ بھگ الفاظ قدیم عربی زبان کے ملتے ہیں ۔ یاد رہے کہ اسپانوی زبان میں کسی نئے لفظ کو شامل کرنے یا نئی اصطلاحات اور ترکیبات شامل یا متروک الفاظ کو خارج کرنے کے لئیے اسپانوی زبان کی شاہی کونسل کا باقاعدہ بورڈکا اجلاس ہوتا ہے جس میں اسپانوی زبان کے ماہر ترین اور اسپانوی زبان میں ڈاکٹری کا اعزاز رکھنے والے اس کے باقاعدہ ممبر کسی لفظ کے متروک یا شامل کرنے پہ نہائت غوروص کے بعد اسے شامل یا متروک کرتے ہیں ۔تو اگر رائل اسپانوی لغت میں بدستور ایک ہزار کے لگ بھگ الفاظ تقریبا اپنی اصل حالت اور معانی میں شامل ہیں ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ روز مرہ کی زندگی میں استعمال میں لائے جاتے ہیں ۔ اور اسپانوی حکومت اور عوام کو ان پہ کوئی اعتراض نہیں کہ وہ زبردستی سے ان الفاظ کا متبادل اپنی زبان اسپانوی میں مسلط کرتے ۔
خود اردو زبان میں بہت سے انگریزی زبان کے کئی الفاظ مثلاً ”فون “۔”بس“۔ ”ٹرک“۔ ”ڈاکٹر“۔ ”انجئنیر“۔ ”نرس“۔” ہاکی“۔ ”جنگل“۔”ٹیم“۔ وغیرہ یوں مستعمل ہوئے کہ انہیں ادا کرنے کے لئیے انگریزی سے واقفیت ہونا ضروری نہیں۔ اور اسی طرح اردو نے عربی۔ فارسی۔ ہندی۔ ترکی اور دیگر بہت سی زبانوں کے الفاظ اپنائے ہیں جن کے بارے یہ جانے بغیر کہ یہ کون سی زبان کے الفاظ ہیں اور ان کا درست تلفظ کونسا ہے۔ ان الفاظ کو سمجھنے ۔ بولنے اور ادا کرنے میں عام آدمی کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔
اردو چونکہ دیگر زبانوں کے مقابلے میں نئی زبان ہے۔ اس لئیے اردو میں دیگر زبانوں کے الفاظ اپنے اندر سمو لینے کی صلاحیت حیرت انگیز ہے۔ اور یہی اردو کی ترقی کا راز بھی ہے۔ کہ اردو اتنے کم وقت میں اتنے کڑوڑوں انسانوں نے اسے اپنا لیا ہے اور انہیں اردو کو بولنے ۔ سمجھنے اور ادا کرنے میں پریشانی نہیں ہوتی ۔
جہاں تک مخصوص سائنسی اصطلاحات کا زکر ہے تو ان میں سے بیشتر یونانی اور لاطینی سے انگریزی میں منتقل ہوئیں ہیں ۔ یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔ کہ اگر آپ ان سائنسی اصطلاحات کو اگر جوں کا توں بھی اردو میں اپنا لیں تو جمہورِ اردو خود بخود ایک دن انہیں اپنے سے تلفظ اور نام دے دے گا ۔ جیسے ٹریپولی کو عربوں نے طرابلس کا نام میں بدل ڈالا یا الیگزینڈر کو اسکندر۔ اور آج عام عرب یونان کے مشہور فاتح کو اسکندر کے نام سے ہی جانتے ہیں ۔ اور اسی طرح جیسے مندرجہ نالا مثالوں میں مختلف خطوں اور زبانوں کے جمہورِ نے مختلف زبانوں کے الفاظ کو اپنی ضرورت کے تحت اپنے تلفظ یا صورت میں اپنا لیا تو کیا وجہ ہے کہ اردو کے ساتھ یوں نہیں سکتا؟ جبکہ اردو کا ظرف اور دامن بہت وسیع ہے۔مثال کے طور پہ جیسے فون لفظ اب اردو میں اور پاکستان میں عام مستعمل ہے اسے ” صوتی آلہ“ بلانے لکھنے پہ زور دینا ایک نامناسب بات ہے ۔ ا
حاصلِ بحث یہ ہے جن الفاظ۔ ترکیبات اور سائنسی یا دیگر ناگزیر اصطلاحات کا فوری طور پہ اردو میں آسان ترجمہ نہ ہوسکے۔ تو انھیں انکی اصلی حالت میں ہی حالت اردو رسم الخط میں لکھ دینے سے اور باقی نفس مضمون اردو میں لکھ دینے سے ان کی ماہیئت نہیں بدلے گی ۔ انگریزی اور دیگر زبانوں کے جو ناگزیر الفاظ اردو میں لکھے جاسکتے ہیں ۔ انہیں اردو رسم الخط میں لکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔
ناعاقبت اندیش لوگ ایک اورتاویل ا انگریزی کے حق میں یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ مادی ترقی کے لئیے انگریزی جاننا ضروری ہے ۔ کیونکہ کہ انگریزی امریکا اور برطانیہ کی ترقی یافتہ اقوام کی زبان ہے ۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چین جو اپنی چینی زبان سمیت اتنی تیزی سے ترقی کر کے۔ اس وقت دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے۔ اور کچھ وقت جاتا ہے کہ وہ امریکہ کومعاشی ترقی میں پیچھے چھوڑ دے گا ۔ تو پھر کی اس کلئیے کے تحت پاکستان کے پورے نظام اور اسکی آبادی کو چینی زبان سیکھنی اور اپنانی پڑے گی ؟ ترقی اپنی زبان کے استعمال اور نفاذسے ہوتی ہے۔ مستعار زبانوں سے کبھی ترقی نہیں ہوا کرتی۔
جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ بین الاقوامی زبان چونکہ انگریزی ہے تو ہمیں انگریزی سیکھنی چاہیئے انکا یہ استدلال اپنی جگہ مگر چند ہزار افراد کی انگریزی میں مہارت کے لئیے پوری ایک قوم کو بے زبان کر دینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ کیا اسکے لئیے یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ اپنے ان افراد کو جنہیں بین الاقوامی معاملے کرنے ہوتے ہیں۔ انھیں بہترین معیار کی انگریزی اور دیگر مغربی و مشرقی زبانیں سکھانے پہاکتفاء کر لیں اور باقی پچانوے فیصد پاکستانی قوم پہ انگریزی مسلط کرنے میں جو توانائی اور وسائل برباد کر کے۔ پوری قوم کو ٹکٹکی پہ لٹکا رکھا ہے۔ اس سے پاکستانی قوم کو معافی دے دیں ۔
انگریزی زبان کو ذرئعیہ تعلیم قرار دینے کی ایک اور بڑی خرابی جو پاکستانی معاشرے بگاڑ پیدا کرنا کر رہی ہے اور آیندہ اگلے سالوں میں مزید بگاڑ پیدا کرے گی وہ خرابی انگریزی کی نصابی کتب اور انکے پیچھے چھپی مخصوص سوچ ہیں ۔ کیونکہ عام طور پہ انہیں لکھنے والوں ۔ ترتیب دینے والوں کیاکثریت یا تو سیکولر غیر ملکی مواد کو نقل کرتے ہیں یا وہ اپنے مخصوص اسیکولر نکتہ نظر سے مضامین اور کتب لکھتے ۔ جو پاکستانی قوم کی نظریاتی بنیادوں کے خلاف ہے ۔ ایسے سیکولر نصاب میں پاکستانی قومیت اور اسلامی و مشرقی اقدار کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔ اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہمارا نوجوان طبقہ دین و ملت سے بیزار نظر آتا ہے۔ کیونکہ انہیں اسلامی اخلاق ۔ مشرقی اقدار یا قومی جذبات کی ہوا تک نہیں لگنے دی جاتی۔ کیونکہ انگریزی نکتہ نظر سے یہ سب دقیانوسیت قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ انگریزی نصاب جو لوگ ترتیب دیتے ہیں وہ انگریزی نصاب سے صرف انگریزی کی نہیں بلکہ اپنے انگریزی خیالات کی بھی ترویج کرتے ہیں۔ اور ملکی و قومی افکار کی۔ دین و ملت سے محبت کی اس میں گنجائش نہیں رکھی جاتی ۔ انگریزی ایک برآمدی زبان ہے جو کلچر انگریزوں کے ہاں آج رائج ہے۔ اسی کی جھلکیاں آپ کو انکی برآمدی زبان میں نظر آئینگی۔ جو کچے ذہنوں کو متاثر کرتی ہیں اور اور ویسی ہی ترغیب دیتی ہیں ۔
سائنسی تحقیقات کے مطابق یہ بات طے ہے کہ ہر انسان اپنی مادری زبان میں سوچتا ہے۔ جس کے تحت اسکے خیالات ترتیب پاتے ہیں۔ جسے وہ عملی شکل دے کر ۔عام روز مرہ کے معاملات سے لیکر محیر العقول دریافتیں۔ ایجادات اور پیچیدہ مسائل کا حل ڈہونڈ نکالتا ہے۔ اور سوچنے کا یہ عمل اگر ایک انسان چاہے تو کسی ایسی دوسری زبان میں سوچ بھی سکتا ہے جو اسکے لئیے آسان اور سہل اور عام فہم ہو۔ جیسے مثال کے طور پہ اگر معاشرے میں دو یا دو سے زائد زبانیں رائج ہوں ۔ یا اسے دوسری زبانوں پہ عبور ہو ۔ جس طرح کنیڈا میں بہت سے لوگ انگریزی اور فرانسیسی پہ عبور رکھتے ہیں ۔اسپانیہ کے صوبہ ”قتئلونیہ“ میں ”قئتلان“ اور” اسپانوی“ پہ ۔اسپین کے صوبہ” گالی سیا “میں” گالیگو “اور ”اسپانوی “پہ عبور رکھتے ہیں ۔ پاکستان میں ”پنجاب“ میں ”پنجابی“ اور ”اردو“ کے ساتھ ۔ اور پاکستان کے دیگر صوبوں میں دیگر صوبوں کی زبانوں اور اردو کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔تو یہ لوگ ہر دو زبانوں میں سے کسی ایک زان میں سوچ کر اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں ۔ کیونکہ یہ مذکورہ زبانیں ان کے لئیے اجنبی اور پیچیدہ زبانیں نہیں ۔ اور اس لئیے وہ اپنی صلاحیتوں کو اپنی زبانوں کے ذریئعے زیادہ بہت طور پہ اجاگر کر سکتے ہیں ۔ جبکہ انگریزی زبان پاکستان کے عوام کے لئیے قطعی برآمدی زبان ہے ۔سائنس یہ بات تسلیم کرتی ہے۔ اور زبان کو انسانی سوچ کے لئیے کو مادری یا دوسری معلوم اور عبور رکھنے والی زبان کو بنیاد مانتی ہے جس سے وہ اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنا تا ہے یوں کسی معاشرے میں اسکی اپنی زبان ترقی و تمدن میں بنیادی اورمسلمہ حیثیت رکھتی ہے۔
شاعری ۔ نثر ۔اور روز مرہ مسائل کے حل کے لئیے سوچنے۔تخیل دوڑانے اور تصور کرنے کے لئیے انسان اپنی بنیادی یا عام فہم سمجھنے والی زبان سے کام لیتا ہے۔
ہم اس تصور کو ایک اور مثال سے واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ ذرا تصور کریں۔ میر ۔ غالب۔نظیر اکبر الہ آبادی۔ اقبال رح۔ فیض یا دیگر شعراءنےجو اردو وغیرہ میں کلام کیا ہے وہ سب انھیں انگریزی میں سوچنے۔ اور ڈھالنے کے لئیے۔انگریزی میں اس پائے کا کلام کرنے کے لئیے ۔کتنا عرصہ انگریزی سوچنے اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لئیے درکارتھا؟ اور کیا اس کے بعد بھی وہی نتائج سامنے آتے۔اور ان کا وہی معیار ہوتا ۔جو آج دیوانِ غالب اور کلیاتِ اقبال یا بانگ درا کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں ؟ بعین اسی طرح کا معاملہ ان خداد ذہین انسانوں کے ساتھ بھی ہے جو چٹکی بجانے میں بڑے سے بڑا مسئلہ حل کردیتے ہیں ۔ ایک سے بڑھ کر ایک ایجاد کرتے ہیں ۔ مسائل کا حل دریافت کرتے ہیں ۔ یا اپنی کسی خاص دلچسپی میں مہارت رکھتے ہیں۔ اگر انھیں ایک غیر ملکی زبان انگریزی سیکھنے اور پھر اسی خاص زبان انگریزی کے تحت اپنے خیالات کو عملی جامہ اپنانے پہ پابند کر دیا جائے ۔جب کہ خداد تخلیقی صلاحیتوں کے حامل لوگ ویسے بھی عام طور پہ۔ اپنی فطری ساخت کی وجہ سے اپنے پہ مسلط بے جاضابطوں سے کسی حد تک باغی ہوتے ہیں ۔ تو کیا ان کی قابل قدر صلاحیتیں ایک ایسی زبان پہ صرف ہو جانی چاہئیں۔ جس میں وہ بددل ہو کر سارے سلسلے سے ہی ہاتھ اٹھا کر دنیا کی بھیڑ بھاڑ میں گم ہو جاتے ہیں۔ اور اگر وہ انگریزی سیکھنے میں کامیاب ہو بھی جائیں۔ تو بہت سا قیمتی وقت وہ ایک ایسے عمل پہ خرچ کر چکے ہوتے ہیں جو ضروری نہیں تھا۔ اور یہ تماشہ پاکستان کے جوہر قابل اور ذہین طلبہ کے ساتھ عام ہوتا ہے کہ خواہ وہ کس قدر ہی کیوں نہ لائق اور ذہین فطین ہوں لیکن بد قسمتی سے ۔یا۔ اردو میڈیم ہونے کی وجہ سے۔اگر ایک برآمدی زبان انگریزی میں انکا ہاتھ تنگ ہے ۔ تو جہاں انکے لئیے آگے بڑھنے کے مواقع معدوم ہوجاتے ہیں۔ وہیں پاکستان اور پاکستان کے عوام ذہین اور قابل لوگوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔
ملک میں خداد جوہر قابل کو محض انگریزی زبان کو لازمی قرار دینے سے ضائع ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں عام آدمی کو پاکستان کی ترقی میں کوئی موقع نہیں ملتا اور آخر کار وہ مایوس ہو کر اپنے آپ کو قومی سو چ اور قومی دھارے سے الگ کر لیتا ہے ۔جس سے معاشرے میں امن و عامہ سے لیکر کئی قسم کے تعصبات اور انکے نتیجہ میں مسائل جنم لے رہےہیں۔
اس لئیے صرف یہ کہہ کر ٹال دینا کہ اردو زبان کو سرکاری زبان کے طور پہ اسلئیے نافذ نہیں کیا جاسکتا کہ اردو ایک ترقی یافتہ زبان نہیں ۔ یا۔ اردو زبان میں لاطینی یا انگریزی کی سائنسی اصطلاحات کا ترجمہ مشکل ہے۔ اور اسے سرکاری زبان کی حیثیت سے نافذ نہ کرنا۔ محض بد نیتی کے سوا کچھ نہیں۔
جو لوگ انگریزی کو محض اس لئیے اپنانے پہ اصرار کرتے ہیں اور بضد ہیں کہ اردو کی قربانی دے کر انگریزی زبان کو اپنانا ترقی کے لئیے ضروری ہے۔ انکی یہ توجہیہ درست نہیں ۔ کیونکہ اس خاص انگریزی طبقے کی یہ بات درست تسلیم کر لی جائے تو پھر اپنی زبانوں میں مشرق و مغرب میں۔ ترقی کرنے والے ممالک ۔ جاپان۔ چین۔جرمنی۔روس۔ فرانس وغیرہ کو آپ کس کھاتے میں رکھیں گے؟ یورپ کے ننھے ننھے ترقی یافتہ ممالک ڈنمارک۔ ناروے۔ سویڈن۔ سوئٹزرلینڈ۔ہالینڈ۔ لکسمبرگ ۔ یوروپ کے بڑے ممالک روس اسپین ۔ فرانس۔ اٹلی۔ جرمنی۔ وغیرہ کسی ملک کی سرکاری زبان انگریزی نہیں۔ معاشی طور پہ تیزی سے ابھرتے ہوئے ممالک۔ برازیل ۔ انڈونیشا ۔ ملائشیاء ۔وغیرہ۔ ان میں سے کسی ملک کی زبان انگریزی نہیں۔ اور ان تمام ملکوں۔ کی زبانیں انکی اپنے ملک میں رائج جمہور کی۔ عوام کی۔ زبانیں سرکاری طور پہ نافذ ہیں۔ اس لئیے ترقی کرنے کے لئیے۔ پاکستان کی دیگر بہت سی خرابیاں درست کرنے کی ضرورت ہے ۔جن کی وجہ سے پاکستان ترقی نہیں کر پا رہا اور اس بد حالی کی ایک بڑی وجہ بھی پاکستان کی جمہور کی۔ عوام کی آواز اردو زبان کو سرکاری زبان کے طور پہ نہ نافذ کرنا ہے۔
پاکستان کی اٹھانوے فیصد آبادی اپنا مدعا اور منشاء انگریزی میں ادا کرنے کی اسطاعت نہیں رکھتی۔ پاکستان کے انگریزی دان طبقے کی اہلیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انگریزی پہ زور دینے والا یہ طبقہ انگریزی ادب میں اپنا حصہ ڈالنے کے حوالے سے نثر ۔ نظم ۔ ناول یا ادب کی دیگر کسی صنف میں کوئی نمایاں کارنامہ سر انجام نہیں دے سکا ۔ اور سائنسی اور تکنیکی علوم میں انگریزی کلب کا ہاتھ مزید تنگ ہوجاتا ہے ۔تو کیا پاکستان کے انگریزی کلب کے سامنے محض اس لئیے سر تسلیم خم کر دیا جائے کہ وہ انگریزی جانتے ہیں؟ اور انگریزی زبان جاننا قدر مشترک ہونے کی وجہ سے۔ انگریزی کلب پاکستان کے نظام پہ حاوی رہے؟ ۔ اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ انگریزی دان طبقہ پاکستان میں انگریزی زبان کا تسلط اس لئیے نہیں رکھنا چاہتا کہ انگریزی سے اہلیت بڑھتی ہے اور انگریزی کے تسلط سے پاکستان ترقی کر جائے گا ۔ بلکہ پاکستان کا انگریزی کلب۔ پاکستانی عوام اور وسائل کو انگریزی زبان کے ذرئعیے پاکستان میں اپناتسلط قائم رکھنا چاہتا ہے ۔
پاکستان کے مسائل کی ایک بہت بڑی وجہ عام بول چال اور سمجھ میں آنے والی جمہورِ کی زبان اردو کے ساتھ یہ یتیمانہ سلوک ہے۔ اگر اسے سرکاری طور پہ نافذ کر دیا جائے تو پاکستان کی بے مہار اورانگریزی کلب کی پیداوار بیورکریسی جو محض انگریزی زبان کی وجہ سے جمہورِ پاکستان سے اپنے آپ کو الگ شناخت کرتی ہے۔ اپنے آپ کو خاص اور عوام کو اپنی رعایا سمجھتی ہے۔ اردو کو سرکاری زبان نافذ کرنے سے پاکستان اور پاکستان کے عوام کی جان چھوٹ جائے گی۔جب پاکستان میں اعلی عہدوں کے لئیے مقابلہ کے امتحانات اردو میں ہونگے اور اردو کو سرکاری طور پہ اوڑنا بچھونا بنایا جائے گا۔ تو انگریزی اور پاکستان جیسے مشرقی اور مسلمان ملک میں انگریزی بودوباش باش کا امتیاز و اعزاز خود بخود ختم ہو جائیگا۔ اور اردو وہ عزت پائے گی جس کی وہ مستحق ہے ۔ کیونکہ اردو کے عزت پانے سے پاکستانی قوم عزت پائے گی۔ کاروبارِ مملکت اردو میں ہونے سے عام فہم اور سہل ہوگا ۔
اردو سمجھنے والوں میں بے شمار خداد صلاحیتوں کے حامل اور اہل لوگوں کو کاروبار ریاستِ پاکستان چلانے کا موقع ملے گا ۔ عوام اور خاص کی ایک ہی زبان ہونے سے عوام اور خاص میں فاصلہ کم ہوگا ۔ ریاستی اور دفتری امور کو سمجھنے میں عام آدمی کو آسانی ہوگی۔
اس لیے پہلے گزارش کر چکے ہیں مستعار اصطلاحات و ترکیبات اور مشکل الفاظ یا کوئی متبادل لفظ نہ ہونے کی صورت میں زبانیں اپنا رستہ خود بخود بنا لیتی ہیں ۔دریا کے سامنے وقتی طور پہ بند باندھ کر۔ اس کا پانی روکا جاسکتا ہے ۔ مگر ہمیشہ کے لئیے یوں کرنا ناممکن ہے۔۔۔۔ اور اردو۔۔۔اس ملک ۔پاکستان میں وہ سیل رواں ہے۔ کہ اس کے سامنے جو رکاوٹ بن کر آیا۔ وہ خس خاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔ کیونکہ اردو زبان پاکستان کے عوام کی۔ جمہور کی زبان ہے۔ اور جمہور اپنا رستہ خود بنا لیا کرتا ہے۔
بس کچھ سالوں کی بات ہے ۔ یا پھر ہماری قیادت کو قومی غیرت کا ادراک ہوجائے۔ تو اردو کو فی الفور سرکاری زبان کا درجہ دے کر۔ اسے سرکاری طور پہ نافذ کرے۔ اسی کو تعلیم کا ذرئعیہ (میڈیم) بنائے۔۔۔اتنی بڑی آبادی کے ملک کے لئیے۔ قومی ہی کیا۔ عالمی ناشران بھی اردو میں کتابیں چھاپنے پہ مجبور ہونگے ۔۔ اور جو نہیں چھاپیں گے وہ خسارے میں رہیں گے ۔ شروع میں ایک حد تک حکومت تراجم کی سہولت خود بھی مہیاء کر سکتی ہے۔ بعد ازاں سب اردو میں کتب لے کر بھاگے آئیں گے۔ کہ ہم سے بہت ہی کئی درجہ چھوٹے ممالک میں انکی اپنی زبانوں میں تعلیم ہونے کی وجہ سے عالمی ناشران انہی زبانوں میں بھی کتب چھاپتے ہیں۔ کہ یہ ایک کاروبار ہے۔ کسی زبان پہ احسان نہیں۔
اگر حکومت نہ بھی دلچسپی دکھائے تو بھی ایک بات تو طے ہے کہ اردو کا مستقبل پاکستان میں روشن ہے اور ایک روشن اور ترقی یافتہ پاکستان کے لئیے اردو زبان کو بطور سرکاری زبان اپنانا اور سرکاری طور پہ نافذ کرنا۔ نہ صرف ضروری ہے بلکہ یہ ایک لازمی قومی فریضہ ہے ۔
جاوید گوندل
پچیس فروری سنہ دو ہزار پندرہ
۲۵۔۰۲۔۲۰۱۵ ء

 

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

اردو


اردو۔۔۔
انتہائی توجہ طلب قومی فریضہ۔۔۔


حصہ اول۔
چین کے ایک صدر کے بارے ایک واقعہ عام بیان کیا جاتا ہے ۔ کہ انہوں نے انگریزی زبان جانتے ہوئے بھی انگریزی زبان کی بجائے چینی زبان میں بات کرنے کو یہ کہہ کر ترجیج دی کہ” چین گونگا نہیں“ ۔
جن قوموں کی اپنی زبان نہیں ہوتی۔ وہ گونگی اور بہری قرار دی جاتی ہیں ۔اور تاریخ شاہد ہے کہ گونگی اور بہری بے زبان قومیں تاریخ کے دہندلکوں میں گم ہوگئیں اور ان کا نام نشان بھی اب نہیں ملتا۔
پاکستان میں باقاعدہ ایک مسلسل سازش اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اردو کو سرکاری زبان نافذ کرنے میں پس و پیش کی جارہی ہے۔ جب کہ پاکستان کا آئین بھی اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ پاکستان میں اردو زبان کو سرکاری اور کاروبارِمملکت کی زبان کے طور پہ نافذ کیا جائے ۔ مگر پاکستان میں انتہائی مراعات یافتہ انگریزی طبقہ ۔ اردو اور پاکستان کی دیگر زبانیں جاننے والی پاکستان کی اٹھانوے فیصد سے زائد اکثریت کو رعایا سمجھتا ہے ۔اور اپنے آپ کو پاکستان کا مالک اور حاکم بااختیار سمجھتا ہے ۔ اور نہیں چاہتا کہ پاکستان کے عوام بھی ترقی کر کے اس فرق کو ختم کردیں ۔جو اس انگریزی کلب اور عام پاکستانی عوام کے میعار زندگی اور اختیار و بے بسی میں ہے۔ اور یوں اس انگریزی کلب کی حاکمیت اور خصوصیت کا امتیاز ختم ہوجائے ۔
جہاں تک پاکستان کے سیاست دانوں اور کرتا دہرتاؤں کا تعلق ہے ۔جنہیں پاکستان میں اردو کو نافذ کرنے کا اپنا منصبی فرض پورا کرنا ہے ۔ اان کو یعنی حکمرانوں کو یہ انگریزی طبقہ غلط طور پہ تاویلات پیش کر کے ۔ اردو کو سرکاری اور پاکستان میں کاروبار ریاست کی زبان قرا ردینے کی بجائے۔ الٹا سرکاری سطح پہ انگریزی کو زرئعیہ تعلیم (میڈیم )قرار دینے پہ زور دیتا آیا ہے ۔
عام طور پہ پاکستان کےحکمران طبقہ کا تعلق چونکہ انگریزی کلب سے ہونے کی وجہ سے۔ یہ طبقہ اردو کے بارے انتہائی کم معلومات رکھتا ہے اور اردو سے کسی حد نابلد ہوتا ہے۔ اس لئیے اردو زبان کو حکمران طبقہ ایک مشکل مسئلہ سمجھتا ہے ۔ اور اردو کو درخود اعتناء نہیں سمجھتا۔ اور انگریزی کلب کی تاویلات سے متاثر ہوکر انگریزی کلب کے ہاتھوں میں کھیلنے لگتا ہے ۔ اور انگریزی زبان کو اپنا اور ریاست کا اوڑنا بچھونا بنائے رکھنے میں عافیت محسوس کرتا ہے ۔
ستم ظریفی کی حد ہے ایک ایسے معاشرے میں جس میں اٹھانوے فیصد آبادی انگریزی سمجھتی اور بولتی نہیں ۔ اس میں پہلی جماعت سے انگریزی کو زرئعیہ تعلیم قرار دیا گیا ہے ۔ جس کا فوری نقصان یہ ہوا کہ سالانہ نتائج میں پاکستان کی اکثریت غریب عوام کے بچوں کی کامیابی کی شرح اوسط مزید گر گئی ہے۔
مضمونِ ہذاہ میں ہم ان تاویلات کا تجزئیہ کرنے اور ان تاویلات کی منافقت سامنے لانے کی کوشش کریں گے ۔ تانکہ قارئن اکرام کو واضح ہو کہ پاکستان میں قومی زبان کو سرکاری زبان کے طور پہ نافذ نہ کر کے پاکستان اور پاکستان کے عوام کوکس قدر نقصان پہنچایا جارہا ہے۔
قیام پاکستان کے شروع سے لیکر اور پاکستان بن جانے کے بہت سالوں بعد ۔کمپیوٹر کے عام ہونے تک اردو کو سرکاری اور دفتری زبان بنانے کے خلاف ۔جو تاویل بڑی شدو مد سے انگریزی کلب بیان کرتا تھا۔ وہ یہ تھی ۔ کہ دفاتر میں تائپ رائٹنگ کے لئیے انگریزی زبان کا استعمال بہت ضروری ہے ۔ کیونکہ حروف تہجی اور انگریزی رسم الخط کی وجہ سے انگریزی ٹائپنگ میں بہت آسانی اور روانی رہتی ہے۔ جبکہ اردو میں ٹائپنگ کے لئیے ایک اردو ٹائپ رائٹر مشین میں اردو کے حروف تہجی جوڑنے اور الفاظ کی شکل دینے کے لئیے کم از کم تین سو سے زائد کیز والی ٹائپ رائٹنگ کی ضرورت پڑے گی۔ جو عملی طور پہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اور ایسے ٹائپ رائٹرز کو سرکاری دفاتر میں استعما ل کرنا نا ممکن کام ہے ۔ اور یوں حکومتوں نے بھی تجاہل عارفانہ سے کام لے کر اردو کو سرکاری اور دفتری زبان قرار دینے میں اغماض برتا جو قومی مفادات سے غداری کے مترادف سمجھا جانا چاہئیے ۔
مگر کمپیوٹر کی کرشماتی ایجاد اور اسکے عام ہونے کے معجزہ نے ۔انگریزی کلب کی اس تاویل کی ہوا نکال دی ۔ اور ٹائپ رائٹنگ مشینیں قصہ پارنیہ ہویئں۔ اور پاکستان کی قومی اور عوامی زبان۔۔ اردو لکھنا ۔اردو جاننے والوں کے لئیے انتہائی سہل ہوگیا ہے ۔ اس کے باوجود سرکاری سطح پہ اردو زبان کو ترقی دینے کے لئیے قیمتی بجٹ سے گرانقدر مشاہرہ اور مراعات سے جو ادارے قائم کئیے گئے۔ انکی عمارتیں اور اخراجات اور ہٹو بچو قسم کے سربراہ اور عہدیداران تو بہت تھے ۔مگر اردو کی خدمات کے حوالے سے ان کا کام نہ ہونے کے برابر تھا۔ بلکہ اردو کو ترقی دینے کے لئیے قائم کئیے گئے ان حکومتی اداروں کے نام تک انگریزی میں ہیں ۔اور انکے سالانہ اجلاس اور اردو کی ترویج و تشیہر کے لئیے بلائی گئی کانفرسوں کا مواد اور اشتہارات اور ویب سائٹس پہ مواد اردو کی بجائے انگریزی میں ہوتا ہے۔
یہ اردو۔۔۔ جو آپ کمپیوٹرز اور مختلف مصنوعات پہ پڑھ لکھ رہے ہیں ۔اسے اس حد تک ترقی دینے میں حسب معمول بہت سے لائقِ تحسین عام پاکستانی رضا کاروں کی انتھک کوششوں کا ثمر ہے۔ جنہوں نے محض اسے ایک قومی فریضہ سمجھتے ہوئے اور بغیر کسی معاوضے کے انتھک محنت سے اردو کی خدمت کی ہے۔ جس میں عام اردو کے دیدہ زیب فاؤنٹس سے لیکر مختلف پرگرام اور ایپس اردو میں متعارف کروائی ہیں اور اور اس وجہ سے پاکستانی اور دیگر دنیا کے اردو جاننے والے ۔ اپنے کمیپوٹر وں۔ موبائل فون اور دیگر مصنوعات پہ کسی دوسری زبان کی بجائے۔ اپنی زبان اردو کواستعمال کرنے کو ترجیج دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آج کمپیوٹر بنانے والی اور دیگر مصنوعات بنانے والی کمپنیاں اور فرمیں اردو زبان کو اپنی مصنوعات کی رابطہ زبانوں میں شامل کرتی ہیں ۔ جبکہ پاکستان کی حکومتوں اور پاکستانی عوام کے ٹیکسز سے قائم کئیے گئے بڑے بڑے اداروں جن کا واحد مقصد اردو کو ترقی دینا تھا ۔ ان کا اس معاملے میں کردار صفر کے برابر ہے ۔
ان مذکورہ اداروں کو اردو کی ترقی اور ترویج کا فریضہ دیا گیا تو انہوں نے انگریزی میں مروجہ اصطلاحات کو اسقدر مشکل ۔ غیر مستعمل۔ غیر عوامی۔ اور غیر زبانوں کے الفاظ سے اسقدر پیچیدہ ۔ ثقیل ۔ اور مضحکہ خیز بنا کر پیش کیا اور یہ ساری مشق اور قوم کا سرمایہ کا مصرف بیکار گیا۔ ہماری رائے میں ایسا کرنا اور حکومتی ادراے کے من پسندیدہ افراد کو نوازتے ہوئے یہ بجائے خود اردو کے خلاف ایک سازش ثابت ہوئی اور اردو سے اچھا خاصہ لگاؤ رکھنے والے نفیس لوگوں نے اسے اپنانے سے انکار کردیا ۔ اور پھر سے اس کا حل مکمل انگریزی اختیار کرنے میں نکالا گیا۔
مستعار اصطلاحات و ترکیبات اور مشکل الفاظ یا کوئی متبادل لفظ نہ ہونے کی صورت میں زبانیں اپنا رستہ خود بخود بنا لیتی ہیں۔ اور یہ مسئلہ دنیا بھر کی سبھی زبانوں کے ساتھ رہا ہے۔ اور ہے۔ خود انگریزی میں فرنچ اور دیگر لاطینی زبانوں کے بے شمار مستعار لفظ مستعمل ہیں۔ مثلا ”کیمرہ“۔۔ یہ بنیادی طور پہ یہ لاطینی لفظ ہے۔ جس کے معانی ہیں ڈبہ یا ڈبہ نما کوئی ایسے شئے جو اندر سے خالی ہو۔ اور انگریزی میں ہزاروں الفاظ کی ہم مثال یہاں دے سکتے ہیں ۔جو بنیادی طور پہ لاطینی ۔ فرانسیسی اور اسپانوی الفاظ ہیں ۔ اور انگریزی سے قدیم ہیں ۔ اور انگریزی نے اسے اپنا لیا ہے۔ اور اسے اپنا خاص انگریزی کا تلفظ دے ڈالا ہے۔ جس سے وہ ایک الگ صوتی شناخت پا گئے ہیں ۔
“اسی طرح کچھ خاص پہلوؤں سے عربی زبان اور دنیا کی دیگر زبانوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ جو دنیا کی فصیح و بلیغ زبان اور قدیم اور انتہائی ترقی یافتہ زبان ہے۔عربی زبان سے بڑھ کر کوئی بھی زبان کسی بھی صورت حال یا شئے کو واضح کرنے کے لئیے اپنے اندر اتنی صلاحیت نہیں رکھتی۔جتنی صلاحیت عربی زبان میں ہے۔ انگریز اور مغرب نے طیارہ ایجاد کیا۔ اور اسے ”ائیر پلین“۔ یا ا”ئر کرافٹ “یا دیگر نام دئیے جو بجائے خود دو ناموں کا مجموعہ ہیں۔مگر عربی نے اسے سیدھا سادا انداز میں ”طائرۃ“ کا نام دیا ۔ جو زیادہ ترقی یافتہ لفظ ہے۔ اور اس فصحات و بلاغت کے باوجود یونانی فاتح ۔جسے انگریزی نے ”الیگزینڈر“ کہہ کر پکارا ۔عربی نے اسے ”اسکندر“ کہا۔اور اسی مناسبت سے مصر کے مشہور شہر ”اسکندریہ“ کا نام عربی زبان کی مناسبت سے وجود میں آیا۔۔۔ لیبا کا مشہور شہر کا نام ”طرابلس” ۔ ”ٹریپولی “ نام کی وجہ سے وجود میں آیا۔ مگر اسے عربی نے اپنے انداز میں ”طرابلس“ کا نام دیا۔
کچھ ایسا ہی معاملہ دنیا میں رائج قدیم ترین زبانوں میں سے رائج ایک زبان اسپانوی کے ساتھ بھی ہے۔ عربی کے بعد ماہرینِ لسانیات عام طور پہ اسپانوی زبان کو دنیا کی دوسری فصیح و بلیغ زبان گردانتے ہیں ۔ مسلم اسپانیہ کے دور کے مشہور شہروں کے نام” اشییلیہ“۔”قرطبہ“۔ ”غرناطہ۔” مالقہ“۔”سرقسطہ“۔قادسیہ” وغیرہ اسپانوی زبان میں باالترتیب ۔ ”اِس بیا“۔ ”قوردبہ“۔ ”گارانادا“۔”مالاگا۔”ژاراگوثہ“۔ ”قادس۔ وغیرہ میں بدل گئے اور تلفظ بدلنے سے۔ امریکن قرطبہ کو ۔”کارڈوباہ” کہہ کر پکارتے ہیں کیوں کہ وہ قرطبہ شہر کے نام کو انگریزی حروف تہجی Córdoba میں تلفظ بگڑ جانے سے یوں ”کارڈوباہ“ پکارتے ہیں۔مگر اس سے مراد قرطبہ شہر ہی ہے یعنی نام کوئی بھی دے دیا جائے۔ یا کسی طرح بھی اسے پکارا جائے۔ مراد وہی مخصوص شہر ۔معانی یا شئے ہوتی ہے۔ اسی طرح قدیم عربی کے ہزاروں الفاظ اسپانوی میں اتنی صدیوں بعد بھی عربی تلفظ کے ساتھ اور انہی معانوں میں مستعمل ہیں۔ مثلا ”قندیل“۔ ”بلبل“ وغیرہ ہیں ۔ سقوطِ غرناطہ کو پانچ سے زائد صدیاں گزرجانے کے بعد بھی اسپانوی رائل ڈکشنری یعنی شاہی لغت میں ایک ہزار کے لگ بھگ الفاظ قدیم عربی زبان کے ملتے ہیں ۔ یاد رہے کہ اسپانوی زبان میں کسی نئے لفظ کو شامل کرنے یا نئی اصطلاحات اور ترکیبات شامل یا متروک الفاظ کو خارج کرنے کے لئیے اسپانوی زبان کی شاہی کونسل کا باقاعدہ بورڈکا اجلاس ہوتا ہے جس میں اسپانوی زبان کے ماہر ترین اور اسپانوی زبان میں ڈاکٹری کا اعزاز رکھنے والے اس کے باقاعدہ ممبر کسی لفظ کے متروک یا شامل کرنے پہ نہائت غوروص کے بعد اسے شامل یا متروک کرتے ہیں ۔تو اگر رائل اسپانوی لغت میں بدستور ایک ہزار کے لگ بھگ الفاظ تقریبا اپنی اصل حالت اور معانی میں شامل ہیں ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ روز مرہ کی زندگی میں استعمال میں لائے جاتے ہیں ۔ اور اسپانوی حکومت اور عوام کو ان پہ کوئی اعتراض نہیں کہ وہ زبردستی سے ان الفاظ کا متبادل اپنی زبان اسپانوی میں مسلط کرتے ۔
خود اردو زبان میں بہت سے انگریزی زبان کے کئی الفاظ مثلاً ”فون “۔”بس“۔ ”ٹرک“۔ ”ڈاکٹر“۔ ”انجئنیر“۔ ”نرس“۔” ہاکی“۔ ”جنگل“۔”ٹیم“۔ وغیرہ یوں مستعمل ہوئے کہ انہیں ادا کرنے کے لئیے انگریزی سے واقفیت ہونا ضروری نہیں۔ اور اسی طرح اردو نے عربی۔ فارسی۔ ہندی۔ ترکی اور دیگر بہت سی زبانوں کے الفاظ اپنائے ہیں جن کے بارے یہ جانے بغیر کہ یہ کون سی زبان کے الفاظ ہیں اور ان کا درست تلفظ کونسا ہے۔ ان الفاظ کو سمجھنے ۔ بولنے اور ادا کرنے میں عام آدمی کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔
اردو چونکہ دیگر زبانوں کے مقابلے میں نئی زبان ہے۔ اس لئیے اردو میں دیگر زبانوں کے الفاظ اپنے اندر سمو لینے کی صلاحیت حیرت انگیز ہے۔ اور یہی اردو کی ترقی کا راز بھی ہے۔ کہ اردو اتنے کم وقت میں اتنے کڑوڑوں انسانوں نے اسے اپنا لیا ہے اور انہیں اردو کو بولنے ۔ سمجھنے اور ادا کرنے میں پریشانی نہیں ہوتی ۔
جہاں تک مخصوص سائنسی اصطلاحات کا زکر ہے تو ان میں سے بیشتر یونانی اور لاطینی سے انگریزی میں منتقل ہوئیں ہیں ۔ یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔ کہ اگر آپ ان سائنسی اصطلاحات کو اگر جوں کا توں بھی اردو میں اپنا لیں تو جمہورِ اردو خود بخود ایک دن انہیں اپنے سے تلفظ اور نام دے دے گا ۔ جیسے ٹریپولی کو عربوں نے طرابلس کا نام میں بدل ڈالا یا الیگزینڈر کو اسکندر۔ اور آج عام عرب یونان کے مشہور فاتح کو اسکندر کے نام سے ہی جانتے ہیں ۔ اور اسی طرح جیسے مندرجہ نالا مثالوں میں مختلف خطوں اور زبانوں کے جمہورِ نے مختلف زبانوں کے الفاظ کو اپنی ضرورت کے تحت اپنے تلفظ یا صورت میں اپنا لیا تو کیا وجہ ہے کہ اردو کے ساتھ یوں نہیں سکتا؟ جبکہ اردو کا ظرف اور دامن بہت وسیع ہے۔مثال کے طور پہ جیسے فون لفظ اب اردو میں اور پاکستان میں عام مستعمل ہے اسے ” صوتی آلہ“ بلانے لکھنے پہ زور دینا ایک نامناسب بات ہے ۔
حاصلِ بحث یہ ہے جن الفاظ۔ ترکیبات اور سائنسی یا دیگر ناگزیر اصطلاحات کا فوری طور پہ اردو میں آسان ترجمہ نہ ہوسکے۔ تو انھیں انکی اصلی حالت میں ہی حالت اردو رسم الخط میں لکھ دینے سے اور باقی نفس مضمون اردو میں لکھ دینے سے ان کی ماہیئت نہیں بدلے گی ۔ انگریزی اور دیگر زبانوں کے جو ناگزیر الفاظ اردو میں لکھے جاسکتے ہیں ۔ انہیں اردو رسم الخط میں لکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔

حصہ دوئم۔
ناعاقبت اندیش لوگ ایک اورتاویل ا انگریزی کے حق میں یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ مادی ترقی کے لئیے انگریزی جاننا ضروری ہے ۔ کیونکہ کہ انگریزی امریکا اور برطانیہ کی ترقی یافتہ اقوام کی زبان ہے ۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چین جو اپنی چینی زبان سمیت اتنی تیزی سے ترقی کر کے۔ اس وقت دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے۔ اور کچھ وقت جاتا ہے کہ وہ امریکہ کومعاشی ترقی میں پیچھے چھوڑ دے گا ۔ تو پھر کی اس کلئیے کے تحت پاکستان کے پورے نظام اور اسکی آبادی کو چینی زبان سیکھنی اور اپنانی پڑے گی ؟ ترقی اپنی زبان کے استعمال اور نفاذسے ہوتی ہے۔ مستعار زبانوں سے کبھی ترقی نہیں ہوا کرتی۔
جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ بین الاقوامی زبان چونکہ انگریزی ہے تو ہمیں انگریزی سیکھنی چاہیئے انکا یہ استدلال اپنی جگہ مگر چند ہزار افراد کی انگریزی میں مہارت کے لئیے پوری ایک قوم کو بے زبان کر دینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ کیا اسکے لئیے یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ اپنے ان افراد کو جنہیں بین الاقوامی معاملے کرنے ہوتے ہیں۔ انھیں بہترین معیار کی انگریزی اور دیگر مغربی و مشرقی زبانیں سکھانے پہاکتفاء کر لیں اور باقی پچانوے فیصد پاکستانی قوم پہ انگریزی مسلط کرنے میں جو توانائی اور وسائل برباد کر کے۔ پوری قوم کو ٹکٹکی پہ لٹکا رکھا ہے۔ اس سے پاکستانی قوم کو معافی دے دیں ۔
انگریزی زبان کو ذرئعیہ تعلیم قرار دینے کی ایک اور بڑی خرابی جو پاکستانی معاشرے بگاڑ پیدا کرنا کر رہی ہے اور آیندہ اگلے سالوں میں مزید بگاڑ پیدا کرے گی وہ خرابی انگریزی کی نصابی کتب اور انکے پیچھے چھپی مخصوص سوچ ہیں ۔ کیونکہ عام طور پہ انہیں لکھنے والوں ۔ ترتیب دینے والوں کیاکثریت یا تو سیکولر غیر ملکی مواد کو نقل کرتے ہیں یا وہ اپنے مخصوص اسیکولر نکتہ نظر سے مضامین اور کتب لکھتے ۔ جو پاکستانی قوم کی نظریاتی بنیادوں کے خلاف ہے ۔ ایسے سیکولر نصاب میں پاکستانی قومیت اور اسلامی و مشرقی اقدار کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔ اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہمارا نوجوان طبقہ دین و ملت سے بیزار نظر آتا ہے۔ کیونکہ انہیں اسلامی اخلاق ۔ مشرقی اقدار یا قومی جذبات کی ہوا تک نہیں لگنے دی جاتی۔ کیونکہ انگریزی نکتہ نظر سے یہ سب دقیانوسیت قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ انگریزی نصاب جو لوگ ترتیب دیتے ہیں وہ انگریزی نصاب سے صرف انگریزی کی نہیں بلکہ اپنے انگریزی خیالات کی بھی ترویج کرتے ہیں۔ اور ملکی و قومی افکار کی۔ دین و ملت سے محبت کی اس میں گنجائش نہیں رکھی جاتی ۔ انگریزی ایک برآمدی زبان ہے جو کلچر انگریزوں کے ہاں آج رائج ہے۔ اسی کی جھلکیاں آپ کو انکی برآمدی زبان میں نظر آئینگی۔ جو کچے ذہنوں کو متاثر کرتی ہیں اور اور ویسی ہی ترغیب دیتی ہیں ۔
سائنسی تحقیقات کے مطابق یہ بات طے ہے کہ ہر انسان اپنی مادری زبان میں سوچتا ہے۔ جس کے تحت اسکے خیالات ترتیب پاتے ہیں۔ جسے وہ عملی شکل دے کر ۔عام روز مرہ کے معاملات سے لیکر محیر العقول دریافتیں۔ ایجادات اور پیچیدہ مسائل کا حل ڈہونڈ نکالتا ہے۔ اور سوچنے کا یہ عمل اگر ایک انسان چاہے تو کسی ایسی دوسری زبان میں سوچ بھی سکتا ہے جو اسکے لئیے آسان اور سہل اور عام فہم ہو۔ جیسے مثال کے طور پہ اگر معاشرے میں دو یا دو سے زائد زبانیں رائج ہوں ۔ یا اسے دوسری زبانوں پہ عبور ہو ۔ جس طرح کنیڈا میں بہت سے لوگ انگریزی اور فرانسیسی پہ عبور رکھتے ہیں ۔اسپانیہ کے صوبہ ”قتئلونیہ“ میں ”قئتلان“ اور” اسپانوی“ پہ ۔اسپین کے صوبہ” گالی سیا “میں” گالیگو “اور ”اسپانوی “پہ عبور رکھتے ہیں ۔ پاکستان میں ”پنجاب“ میں ”پنجابی“ اور ”اردو“ کے ساتھ ۔ اور پاکستان کے دیگر صوبوں میں دیگر صوبوں کی زبانوں اور اردو کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔تو یہ لوگ ہر دو زبانوں میں سے کسی ایک زان میں سوچ کر اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں ۔ کیونکہ یہ مذکورہ زبانیں ان کے لئیے اجنبی اور پیچیدہ زبانیں نہیں ۔ اور اس لئیے وہ اپنی صلاحیتوں کو اپنی زبانوں کے ذریئعے زیادہ بہت طور پہ اجاگر کر سکتے ہیں ۔ جبکہ انگریزی زبان پاکستان کے عوام کے لئیے قطعی برآمدی زبان ہے ۔سائنس یہ بات تسلیم کرتی ہے۔ اور زبان کو انسانی سوچ کے لئیے کو مادری یا دوسری معلوم اور عبور رکھنے والی زبان کو بنیاد مانتی ہے جس سے وہ اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنا تا ہے یوں کسی معاشرے میں اسکی اپنی زبان ترقی و تمدن میں بنیادی اورمسلمہ حیثیت رکھتی ہے۔
شاعری ۔ نثر ۔اور روز مرہ مسائل کے حل کے لئیے سوچنے۔تخیل دوڑانے اور تصور کرنے کے لئیے انسان اپنی بنیادی یا عام فہم سمجھنے والی زبان سے کام لیتا ہے۔
ہم اس تصور کو ایک اور مثال سے واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ ذرا تصور کریں۔ میر ۔ غالب۔نظیر اکبر الہ آبادی۔ اقبال رح۔ فیض یا دیگر شعراءنےجو اردو وغیرہ میں کلام کیا ہے وہ سب انھیں انگریزی میں سوچنے۔ اور ڈھالنے کے لئیے۔انگریزی میں اس پائے کا کلام کرنے کے لئیے ۔کتنا عرصہ انگریزی سوچنے اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لئیے درکارتھا؟ اور کیا اس کے بعد بھی وہی نتائج سامنے آتے۔اور ان کا وہی معیار ہوتا ۔جو آج دیوانِ غالب اور کلیاتِ اقبال یا بانگ درا کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں ؟ بعین اسی طرح کا معاملہ ان خداد ذہین انسانوں کے ساتھ بھی ہے جو چٹکی بجانے میں بڑے سے بڑا مسئلہ حل کردیتے ہیں ۔ ایک سے بڑھ کر ایک ایجاد کرتے ہیں ۔ مسائل کا حل دریافت کرتے ہیں ۔ یا اپنی کسی خاص دلچسپی میں مہارت رکھتے ہیں۔ اگر انھیں ایک غیر ملکی زبان انگریزی سیکھنے اور پھر اسی خاص زبان انگریزی کے تحت اپنے خیالات کو عملی جامہ اپنانے پہ پابند کر دیا جائے ۔جب کہ خداد تخلیقی صلاحیتوں کے حامل لوگ ویسے بھی عام طور پہ۔ اپنی فطری ساخت کی وجہ سے اپنے پہ مسلط بے جاضابطوں سے کسی حد تک باغی ہوتے ہیں ۔ تو کیا ان کی قابل قدر صلاحیتیں ایک ایسی زبان پہ صرف ہو جانی چاہئیں۔ جس میں وہ بددل ہو کر سارے سلسلے سے ہی ہاتھ اٹھا کر دنیا کی بھیڑ بھاڑ میں گم ہو جاتے ہیں۔ اور اگر وہ انگریزی سیکھنے میں کامیاب ہو بھی جائیں۔ تو بہت سا قیمتی وقت وہ ایک ایسے عمل پہ خرچ کر چکے ہوتے ہیں جو ضروری نہیں تھا۔ اور یہ تماشہ پاکستان کے جوہر قابل اور ذہین طلبہ کے ساتھ عام ہوتا ہے کہ خواہ وہ کس قدر ہی کیوں نہ لائق اور ذہین فطین ہوں لیکن بد قسمتی سے ۔یا۔ اردو میڈیم ہونے کی وجہ سے۔اگر ایک برآمدی زبان انگریزی میں انکا ہاتھ تنگ ہے ۔ تو جہاں انکے لئیے آگے بڑھنے کے مواقع معدوم ہوجاتے ہیں۔ وہیں پاکستان اور پاکستان کے عوام ذہین اور قابل لوگوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔
ملک میں خداد جوہر قابل کو محض انگریزی زبان کو لازمی قرار دینے سے ضائع ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں عام آدمی کو پاکستان کی ترقی میں کوئی موقع نہیں ملتا اور آخر کار وہ مایوس ہو کر اپنے آپ کو قومی سو چ اور قومی دھارے سے الگ کر لیتا ہے ۔جس سے معاشرے میں امن و عامہ سے لیکر کئی قسم کے تعصبات اور انکے نتیجہ میں مسائل جنم لے رہےہیں۔
اس لئیے صرف یہ کہہ کر ٹال دینا کہ اردو زبان کو سرکاری زبان کے طور پہ اسلئیے نافذ نہیں کیا جاسکتا کہ اردو ایک ترقی یافتہ زبان نہیں ۔ یا۔ اردو زبان میں لاطینی یا انگریزی کی سائنسی اصطلاحات کا ترجمہ مشکل ہے۔ اور اسے سرکاری زبان کی حیثیت سے نافذ نہ کرنا۔ محض بد نیتی کے سوا کچھ نہیں۔
جو لوگ انگریزی کو محض اس لئیے اپنانے پہ اصرار کرتے ہیں اور بضد ہیں کہ اردو کی قربانی دے کر انگریزی زبان کو اپنانا ترقی کے لئیے ضروری ہے۔ انکی یہ توجہیہ درست نہیں ۔ کیونکہ اس خاص انگریزی طبقے کی یہ بات درست تسلیم کر لی جائے تو پھر اپنی زبانوں میں مشرق و مغرب میں۔ ترقی کرنے والے ممالک ۔ جاپان۔ چین۔جرمنی۔روس۔ فرانس وغیرہ کو آپ کس کھاتے میں رکھیں گے؟ یورپ کے ننھے ننھے ترقی یافتہ ممالک ڈنمارک۔ ناروے۔ سویڈن۔ سوئٹزرلینڈ۔ہالینڈ۔ لکسمبرگ ۔ یوروپ کے بڑے ممالک روس اسپین ۔ فرانس۔ اٹلی۔ جرمنی۔ وغیرہ کسی ملک کی سرکاری زبان انگریزی نہیں۔ معاشی طور پہ تیزی سے ابھرتے ہوئے ممالک۔ برازیل ۔ انڈونیشا ۔ ملائشیاء ۔وغیرہ۔ ان میں سے کسی ملک کی زبان انگریزی نہیں۔ اور ان تمام ملکوں۔ کی زبانیں انکی اپنے ملک میں رائج جمہور کی۔ عوام کی۔ زبانیں سرکاری طور پہ نافذ ہیں۔ اس لئیے ترقی کرنے کے لئیے۔ پاکستان کی دیگر بہت سی خرابیاں درست کرنے کی ضرورت ہے ۔جن کی وجہ سے پاکستان ترقی نہیں کر پا رہا اور اس بد حالی کی ایک بڑی وجہ بھی پاکستان کی جمہور کی۔ عوام کی آواز اردو زبان کو سرکاری زبان کے طور پہ نہ نافذ کرنا ہے۔
پاکستان کی اٹھانوے فیصد آبادی اپنا مدعا اور منشاء انگریزی میں ادا کرنے کی اسطاعت نہیں رکھتی۔ پاکستان کے انگریزی دان طبقے کی اہلیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انگریزی پہ زور دینے والا یہ طبقہ انگریزی ادب میں اپنا حصہ ڈالنے کے حوالے سے نثر ۔ نظم ۔ ناول یا ادب کی دیگر کسی صنف میں کوئی نمایاں کارنامہ سر انجام نہیں دے سکا ۔ اور سائنسی اور تکنیکی علوم میں انگریزی کلب کا ہاتھ مزید تنگ ہوجاتا ہے ۔تو کیا پاکستان کے انگریزی کلب کے سامنے محض اس لئیے سر تسلیم خم کر دیا جائے کہ وہ انگریزی جانتے ہیں؟ اور انگریزی زبان جاننا قدر مشترک ہونے کی وجہ سے۔ انگریزی کلب پاکستان کے نظام پہ حاوی رہے؟ ۔ اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ انگریزی دان طبقہ پاکستان میں انگریزی زبان کا تسلط اس لئیے نہیں رکھنا چاہتا کہ انگریزی سے اہلیت بڑھتی ہے اور انگریزی کے تسلط سے پاکستان ترقی کر جائے گا ۔ بلکہ پاکستان کا انگریزی کلب۔ پاکستانی عوام اور وسائل کو انگریزی زبان کے ذرئعیے پاکستان میں اپناتسلط قائم رکھنا چاہتا ہے ۔
پاکستان کے مسائل کی ایک بہت بڑی وجہ عام بول چال اور سمجھ میں آنے والی جمہورِ کی زبان اردو کے ساتھ یہ یتیمانہ سلوک ہے۔ اگر اسے سرکاری طور پہ نافذ کر دیا جائے تو پاکستان کی بے مہار اورانگریزی کلب کی پیداوار بیورکریسی جو محض انگریزی زبان کی وجہ سے جمہورِ پاکستان سے اپنے آپ کو الگ شناخت کرتی ہے۔ اپنے آپ کو خاص اور عوام کو اپنی رعایا سمجھتی ہے۔ اردو کو سرکاری زبان نافذ کرنے سے پاکستان اور پاکستان کے عوام کی جان چھوٹ جائے گی۔جب پاکستان میں اعلی عہدوں کے لئیے مقابلہ کے امتحانات اردو میں ہونگے اور اردو کو سرکاری طور پہ اوڑنا بچھونا بنایا جائے گا۔ تو انگریزی اور پاکستان جیسے مشرقی اور مسلمان ملک میں انگریزی بودوباش باش کا امتیاز و اعزاز خود بخود ختم ہو جائیگا۔ اور اردو وہ عزت پائے گی جس کی وہ مستحق ہے ۔ کیونکہ اردو کے عزت پانے سے پاکستانی قوم عزت پائے گی۔ کاروبارِ مملکت اردو میں ہونے سے عام فہم اور سہل ہوگا ۔
اردو سمجھنے والوں میں بے شمار خداد صلاحیتوں کے حامل اور اہل لوگوں کو کاروبار ریاستِ پاکستان چلانے کا موقع ملے گا ۔ عوام اور خاص کی ایک ہی زبان ہونے سے عوام اور خاص میں فاصلہ کم ہوگا ۔ ریاستی اور دفتری امور کو سمجھنے میں عام آدمی کو آسانی ہوگی۔
اس لیے پہلے گزارش کر چکے ہیں مستعار اصطلاحات و ترکیبات اور مشکل الفاظ یا کوئی متبادل لفظ نہ ہونے کی صورت میں زبانیں اپنا رستہ خود بخود بنا لیتی ہیں ۔دریا کے سامنے وقتی طور پہ بند باندھ کر۔ اس کا پانی روکا جاسکتا ہے ۔ مگر ہمیشہ کے لئیے یوں کرنا ناممکن ہے۔۔۔۔ اور اردو۔۔۔اس ملک ۔پاکستان میں وہ سیل رواں ہے۔ کہ اس کے سامنے جو رکاوٹ بن کر آیا۔ وہ خس خاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔ کیونکہ اردو زبان پاکستان کے عوام کی۔ جمہور کی زبان ہے۔ اور جمہور اپنا رستہ خود بنا لیا کرتا ہے۔
بس کچھ سالوں کی بات ہے ۔ یا پھر ہماری قیادت کو قومی غیرت کا ادراک ہوجائے۔ تو اردو کو فی الفور سرکاری زبان کا درجہ دے کر۔ اسے سرکاری طور پہ نافذ کرے۔ اسی کو تعلیم کا ذرئعیہ (میڈیم) بنائے۔۔۔اتنی بڑی آبادی کے ملک کے لئیے۔ قومی ہی کیا۔ عالمی ناشران بھی اردو میں کتابیں چھاپنے پہ مجبور ہونگے ۔۔ اور جو نہیں چھاپیں گے وہ خسارے میں رہیں گے ۔ شروع میں ایک حد تک حکومت تراجم کی سہولت خود بھی مہیاء کر سکتی ہے۔ بعد ازاں سب اردو میں کتب لے کر بھاگے آئیں گے۔ کہ ہم سے بہت ہی کئی درجہ چھوٹے ممالک میں انکی اپنی زبانوں میں تعلیم ہونے کی وجہ سے عالمی ناشران انہی زبانوں میں بھی کتب چھاپتے ہیں۔ کہ یہ ایک کاروبار ہے۔ کسی زبان پہ احسان نہیں۔
اگر حکومت نہ بھی دلچسپی دکھائے تو بھی ایک بات تو طے ہے کہ اردو کا مستقبل پاکستان میں روشن ہے اور ایک روشن اور ترقی یافتہ پاکستان کے لئیے اردو زبان کو بطور سرکاری زبان اپنانا اور سرکاری طور پہ نافذ کرنا۔ نہ صرف ضروری ہے بلکہ یہ ایک لازمی قومی فریضہ ہے ۔
جاوید گوندل
پچیس فروری سنہ دو ہزار پندرہ
۲۵۔۰۲۔۲۰۱۵ ء

 

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

تابکاری سے متاثر غذائی اجناسں۔


نوٹ:۔ زیر نظر تحریر۔ پچھلے سال ۲۰۱۱ء میں جاپان کے بدترین سونامی طوفان کے بعد جوہری توانائی پیدا کرنے والے ”فوکوشیما“ نامی پلانٹ کو پیش آنے والے جوہری حادثے کے بعد لکھی گئی۔ جسے ”سائنس کی دنیا“ ۔ ”محترم! یاسر جاپانی صاحب کے بلاگ“ اور محترم!خاور کھوکھر صاحب کے آن لائن اخبار“ نے چھاپنے کا اعزاز بخشا۔ ہمارے ایک عزیز دوست کی خواہش اور پرزور اصرار پہ۔ اپنی اس تحریر کو یہاں نقل کرنے کا مقصد محض اتنا سا ہے۔ کہ خدا نخواستہ کسی ایسی صورتحال میں غذائی اجناس کے بارے کسی حد تک معلومات رہیں۔
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا، اسپین

تابکاری سے متاثر غذائی اجناسں۔

تابکاری سے متاثر غذائی اجناس اور انسانی زندگی کس بری طرح متاثر ہوتی ہے اور اسکے اثرات کتنے جان لیوا اور دیرپا ہوتے ہیں۔ غذا اور کھانے پینے کی اشیاء کے بارے میں سخت احتیاط برتی جائے اور ڈبہ بند وہ خوراک جو جاپان سے باہر سے برآمد کی گئی ہو وہ استعمال کریں ۔ اگر یوں ممکن نہ ہو تو متاثرہ علاقے کی غذائی اجناس کسی صورت ہر گز ہر گز استعمال نہ کریں۔ اور یہ بھی یاد رکھیں کہ حکومتوں کی اپنا مجبوریاں ہوتی ہیں اور لازمی نہیں کہ وہ ہر بات درست بیان کریں۔انیس سو اناسی میں امریکہ کے تھری مایل آئس لینڈ ایٹمی ری ایکٹر حادثے میں امریکی صدر کی کمیٹی نے تب یہ رپورٹ دی تھی کہ اس حادثے سے ہونے والی تابکاری سے انسانی جانوں کو نقصان نہیں ہوا ۔ پھر کہا گیا کہ اگر انسانی جانوں کو نقصان ہوا تو بہت کم ہوگا، اور اس “بہت کم” کی کوئی وضاحت یا حد نہیں تھی کہ کہاں سے شروع ہو کر کہاں تک ہوگا۔ مگر بعد میں ہزاروں لوگ کینسر میں مبتلا ء ہوئے۔

یاد رہے کہ انسانی جسم پہ کتنی مقدار میں تابکاری جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے یا اگلے پانچ دس سال یا اس سے بھی لمبے عرصے میں انسانی جسم میں کون کون سے مہلک قسم کے کینسر اور انکی رسولیاں اور دیگر بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں اس بارے سائنسدان تابکاری کی مقدار کے بارے متفق نہیں۔لیکن جس شخص کو صحت کے دیگر مسائل جیسے الرجی وغیرہ لاحق ہونگے۔ تابکاری ایسے فرد پہ عام آدمی کی نسبت بہت زیادہ اثر کرے گی۔


مثال کے طور پہ جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ ایکس رے بھی تابکاری شعائیں ہیں تو جونارمل بچہ رحم مادر میں ہو یعنی ابھی پیدا نہ ہوا ہو اوراگر اسکی ماں کا ایکس رے کیا جائے تو اس بچے میں کسی دوسرے ایسے بچے کی نسبت جو نارمل صحتمند ہو مگر جب وہ ماں کے پیٹ میں ہو تو اسکی ماں نے ایکسرے نہ کروایا ہو تو ایکسرے کروائی گئی ماں کے پیٹ میں بچے کونارمل صحتمند بچے کی نسبتا آئیندہ زندگی میں لیوکیما ہونے کے خطرات پچاس فیصد زیادہ ہوتے ہیں۔ جبکہ اگر ماں کے پیٹ میں ایکسرے سے گزرنے والا بچہ الرجی کا مریض ہے تو اسے صحتمند بچے کے مقابلے میں پچاس گنا زیادہ لیوکیمیا یعنی کینسر ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ ایک اہم بات جو قابل توجہ ہے کہ کچھ لوگ تابکاری سےقدرے کم متاثر ہوتے ہیں اور کچھ لوگ انکی نسبت بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ۔ ابھی اس بارے یقننی طور پہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔


جسطرح دائیں ، بائیں، آمنے ، سامنے ، آگے ، پیچھے، اوپر۔ نیچے سے گولیوں کی بوچھاڑ برسائی جارہی ہو ۔ مشین گن کے برسٹ پہ برسٹ لگاتار برسائے جارہے ہوں اور انکی گولیاں انسانی جسم کے آر پار ہورہی ہوں ۔ اسی طرح تابکاری ذرات جسم کے جسیموں (سیلز) کو ہر طرف اور ہر سمت سے چھید ڈالتے ہیں۔ یہ تابکاری ذرات بہت مختلف قسم کے ہوتے ہیں ۔ جیسے نیوٹران ، پروٹران۔ الفا وغیرہ ہیں۔ یہ نہایت چھوٹے نطر نہ آنے والا ذرات ہیں۔۔ جو جسم کے جسیموں (سیلز) میں اپنی توانائی خارج کرتےہیں۔ جس سے جسم کے سیلز سکڑتے سمٹتے ، ٹوٹتے پھوٹتے ، اورمردہ ہوجاتے ہیں۔


کچھ صورتوں میں سیلز کے بننے کا عمل جسم کی مرکزی کمان سے آزاد ہوجاتا ہے اور جسم میں کینسر اور رسولیاں بننا شروع ہوجاتی ہیں۔ یہ ایک بہت پیچیدہ اور لمبا موضوع ہےبس یہ سمجھ لیں کہ تابکاری کے اثرات نہائت خطرناک اور جان لیوا ہوتے ہیں ۔ نیوٹران، پروٹران کو اگر گولیوں سے مشہابت  دی جاسکتی ہے تو الفا کو توپ کے گولے کہا جاسکتا ہے۔ کسی ایٹمی حادثے کی صورت میں عموما یہ ذرات ایک ہی ساتھ پائے جاتے ہیں ۔ یہ نظر نہیں آتے مگر انتہائی مہلک اور جان لیوا ہوتے ہیں ۔ ان سے کینسر ، لیوکیمیا، عورت اور مرد کے جنسی گلینڈز مثانہ ، رحم وغیرہ اور دماغ میں رسولیاں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت۔ یا معذور یا زائد اور کم اعضاء کے بچے یا عجیب الخلقت بچوں کا پیدا ہونا۔ اور اسطرح کی بہت سی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔


ہوا، غذا، گوشت، مچھلی، پانی، دودھ، سبزی، ساگ پات، تابکاری کی زد میں آئی اشیاء کا استعمال۔ جیسے بجلی کی اشیاء۔ ایئرکنڈیشنز ، پنکھے، گاڑیاں، ہوائی جہاز،گاڑیوں، یا ہوائی جازوں وغیرہ کی قاضل پرزہ جات ، یا انکی ترسیل، ٹرانسپورٹ ، پیکنگ وغیرہ کے دوران انکو چھونا۔ یا تابکاری کی اشیاء کے اسٹورز یا گوداموں میں سانس وغیرہ لینا۔انسانی صحت اور جانداروں کو متاثر کرتا ہے۔


ایک نہائت اہم بات یاد رکھنی چاہیے کہ تابکاری سے متاثر ایک انسان سے دوسرے انسان کو تابکاری نہیں ہوتی یعنی یہ متعدی نہیں۔


سترہ مارچ دوہزار گیارہ کو ایک سیمنار سے خطاب کرتے ہوئےعالمی ادرہ برائے صحت(ڈبلیو ۔ایچ۔او۔) کے ایگزیکٹو کمیشن کے نائب صدر ڈاکٹرپاؤلو ایم بُوس Paulo M. Buss کے خطاب کا حوالہ لکھ رہا ہوں جو انہوں نے جاپان کے فوکوشیما نمبر ایک کے نیوکلئیر حادثے کے بعد وہاں سے حاصل کی گئی غذا اور تابکاری پہ کیاہے۔ تانکہ آپ کو علم رہے ۔ کہ یہ ایک ذمہ دار اور ایک ماہر کا حوالہ ہے۔عالمی ادرہ برائے صحت(ڈبلیو ۔ایچ۔او۔) کے ایگزیکٹو کمیشن کے نائب صدر ڈاکٹر پاؤلو ایم بُوس Paulo M. Buss کا کہنا ہے کہ فوکوشیما کا حادثہ نہ صرف انسانوں کو متاثر کرے گا بلکہ اس سے غذائی آفت آسکتی ہے۔ انھوں نے تنبیہ کی کہ فوکوشیما کا واقعہ اس بات کا تقاضہ کرتا ہےکہ ایسی کسی صورتحال کے لئیے پہلے سے تیار کی گئیں تمام حفاظتی تدابیرکا نئے سرے سے جائزہ لیا جانا بہت ضروری ہے۔


انھوں نے اپنی ماہرانہ رائےدیتے ہوئے سفارش کی ان تمام جانوروں کو ہلاک کردیا جانا چاہئیے جن کے بارے شبہ ہو کہ وہ تابکاری سے متاثر ہوئے ہیں۔تمام پودے اور نباتات جو تابکاری جذب کر چکے ہیں اور اس علاقے کی مچھلی وغیرہ بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ تابکاری کی پیمائش کی جائے اور جہاں تک تابکاری صفر ہوجائے وہاں سے اس پورے علاقے کے گرد ایک حصار قائم کر دیا جائے ۔ تانکہ تابکاری زدہ علاقے کے جانوروں کا گوشت ، دودھ مچھلی ، پھل اور سبزیاں وغیرہ ہر قسم کی کھانے پینے سے متعلقہ اشیاء کسی بھی صورت میں انسانی غذاءمیں شامل نہ ہوسکیں ۔


عالمی ادرہ برائے صحت(ڈبلیو ۔ایچ۔او۔) کے ایگزیکٹو کمیشن کے نائب صدر ڈاکٹر پاؤلو ایم بُوس Paulo M. Buss نے مزید فرمایا اور وہ لوگ جو تابکاری سے کسی طور متاثر ہو چکے ہوں انھیں اگلے پانچ سے دس سال تک اور بعض صورتوں میں اس سے بھی زیادہ سالوں تک ڈاکٹروں کی متواتر دیکھ بھال میں رہنا ہوگا ۔ جس سے بے شک ان کی زندگی متاثر ہوگی۔ڈاکٹر موصوف کا کہنا تھا کہ فوکوشیما پلانٹ کے حادثے کے بارے میں ابھی سے یہ نہیں بتایا جاسکتا کہ اس کے اثرات کس حد تک خطرناک ہونگے ۔


یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس بارے جاپانی حکومت نے کسی غفلت سے کام لیا ہوگا۔ مگر جاپانی حکومت نے شروع سے ہی فوکوشیما حادثے کو عام سی اہمیت دی۔ جبکہ درحقیقت اس خطرے کے بارے میں شروع ہی سے جاپانی حکومت کی طرف سے واضح طور پہ بتایا جانا چاہئیے تھا۔جبکہ امریکن ایجنسی آف اٹامک انرجی American Agency of Atomic Energy اور انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجینسی ویاناInternational Atomic Energy Agency in Vienna نے اس علاقے میں یہ تشخیص کیا ہے۔ کہ تابکاری بیان کی گئی شرح سے کہیں بڑھ کر ہے اور اسکا دائرہ بھی بیان کئیے گئے کلومیٹرز سے زیادہ ہے۔ جاپان سے تابکاری کے جو کوائف ہمیں ملے ہیں ۔ اسکے مطابق ممکن ہے کم مقدار تابکاری کے فوری اثر کے تحت فوری موت تو نہ ہو۔ مگر یہ تابکاری متاثرہ لوگوں کے لئیے۔ درمیانی اور طویل مدت کے انتہائی خطرناک مسائل پیدا کرے گی۔مختلف قسم کے کینسر oncological disease ، لیوکیمیا leukemia ، brain tumors دماغ میں کینسر کی رسولیاں۔مردو خواتین میں the gonads tumors جیسے مثانے اور رحم کے کینسر۔ sterility مردو خواتین میں بانجھ پن۔ یا معذور بچوں کا جنم ۔ یا ایک سے زائد یا کم اعضاء کے بچوں کا جنم ہونا وغیرہ ۔ جیسے خطرات شامل ہیں۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

اگر اس نوٹس

بھوک۔ تسلسل اور بجٹ ڈرامہ۔

آج ایک اخبار نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا واقعہ بیان کیا ہے کہ کسطرح عمرِ فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بیت المال سے دوائی کے طور شہد کی چند چمچ پرابر تھوڑی سی مقدار کے حصول کیلئے مسجد میں درخواست کی تھی۔ اگر اس واقعے کو مثال بنا کر پیش کیا جائے اور غالب گمان یہ ہے کہ گیلانی و زرداری سے استفسار کیا جائے تو انکےکسی بانکے چھبیلے وزیر کی طرف سے ڈھٹائی سے یہ بیان آئے گا کہ گیلانی اور موجودہ صدر بھی اپنے شاہانہ اخراجات کے لئیے کابینہ اور اسمبلی سے اجازت لیتے ہیں۔ وہ خود سے تو کروڑوں کے شاہی اخراجات نہیں کرتے ۔ جیسےموجودہ بجٹ میں پاکستان کے سابق صدور اور وزرائے اعظم کو تاحیات مراعات دینے کی رعایت شامل ہے جس سے نہ صرف زرداری ،گیلانی ،نواز شریف ، رفیق تارڑ ا بلکہ آئی ایم ایف کا چھیل چھبیلا اورتین ارب کا مالک امپورٹیڈ وزیر اعظم شوکت عزیز اور بردہ فروش سابق صدر مشرف کے لئیے بھی عمر بھر مراعات شامل ہیں۔اور یہ سلسہ ہائے داراز صرف یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ یہ بہت سی جائز اورنا جائز صورتوں میں ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔.

ایسی نااہل حکومتوں کے ہاتھوں پاکستان کا کوئی ایک المیہ ہو جو بیان کیا جا سکے۔ یہاں تو ہر لمحے ہر آن ایک المیہ ہوتا ہے ۔جس سے پاکستان دوچار ہے۔ مالِ مفت دلِ بے رحم کے مصداق اوباش اور نااہل لوگوں میں ریاست کے اہم اور حساس عہدوں کی بندر بانٹ کی جاتی ہے ۔ جس سےایسے عہدیدار ملک قوم کے ساتھ اپنی وفاداری نبھانے کی بجائے سیاسی پارٹیوں اور اپنے آقا و مربی سے وفاداری نباہتے ہیں۔ اور بجائے اس کے اپنے عہدے سے ملک و قوم کو فائدہ پہنچانے کے الٹا ساری عمر اپنی نااہلی اور چور دروازے سے عہدہ حاصل کرنے کی چوری کی وجہ سے حکومتوں کی خوشامد میں مصروف رہتے ہیں ۔اور اس پہ طرف تماشہ راشی اور بد عنوان حکومت کے گٹھ جوڑ سے پاکستان کے تن سے خون کا آخری قطرہ تک کشید کرنے کے جتن کئیے جاتے ہیں ۔جس طرح پاکستان کے وزیر اعظم گیلانی نے سپریم کورٹ کے واضح حکم کے باوجود ملک قوم کے مفاد میں سپریم کورٹ کے حکم کی تکمیل بجا لانے کی بجائے ۔وزیر اعظم نامزد کرنے والے زرداری کے ساتھ اپنی وفاداری نباہ کر پاکستان کی تاریخ میں عدلیہ کے حکم کی واضح نافرمانی کرتے ہوئے ڈھٹائی اور سینہ زوری کی ایک غلط روایت قائم کی ہے۔ اور اب یہ عالم ہے کہ پورا نظام مفلوج ہوچکا ہے۔

جسطرح مشہور ہے کہ گر بدنام ہوئے تو کیا نام نہ ہوگاَ ۔کے مطابق پیپلز پارٹی نے شروع دن سے ہر وہ قدم اٹھایا کہ کوئی آئے اور انھیں حکومت سے باہر کر دے۔ تانکہ پیپلز پارٹی کو حسب عادت سیاسی شہادت کا ایک اور موقع مل جاتا ۔مگر پیپلز پارٹی کے نصیبوں یوں ہونا سکا اور بجائے اسکے کہ وہ خدا کے دئیے اقتدار کو ایک ذمہ داری سمجھتے ہوئے اسے مکمل طریقے سے نباہنے کی کوشش کرتی ۔الٹا انھوں نے اسے نام نہاد جمہوریت کا نام دے کر سینہ زوری شروع کر دی۔ حالانکہ اگر جتنی توانائی پیپلز پارٹی کے حکمرانوں نے طاقت اور نام نہاد جمہوریت کے نام پہ مستی اور سینہ زوری پہ صرف کی اگر یہ اس سے نصف توانائی عوام کے مسائل حل کرنے پہ خرچ کرتے۔ تو آج ملک و قوم اور خدا کے حضور سرخرو ہوتے۔ لیکن ایسا کرنا پیپلز پارٹی کی سرشت میں شامل ہی نہیں۔ پیپلز پارٹی کی سیاست ہی ایجی ٹیشن سے شروع ہو کر ایجی ٹیشن پہ ختم ہوتی ہے۔ خواہ یہ پانچ سال تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک حکمران ہی کیوں نہ رہے ہوں ۔الیکشن ہونے دیں ۔جیتنے یا ہارنے کے بعد یعنی ہر دونوں صورتوں میں پیپلز پارٹی پاکستان کے اداروں کا رونا رو کر اپنے آپ کو سیاسی مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرے گی۔

دوسری طرف ماضی میں وفاق میں دو دفعہ حکمران رہنے والی اور پنجاب میں اس وقت حکمران ۔اور پاکستان کی دوسری بڑی پارٹی۔ اور اپنے آپ کو مستقبل میں پاکستان کے حکمران سمجھنے والی نون لیگ ۔سے کیا امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں؟۔ جو اخباری اطلاعات کے مطابق مینار ِپاکستان کے نیچے اپنا حکومتی کیمپ لگائے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ یا مبینہ غیر منصفانہ لوڈشیڈنگ کے خلاف اپنا ریکارڈاحتجاج کروارہے ہیں ۔ مانا کہ بجلی پیدا کرنا اور اسے سب صوبوں میں برابر تقسیم کرنا وفاق کے ذمے ہوگا ۔اورایسا کرنے میں پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت ناکام رہی ہے۔ مگر کیا پنجاب پولیس کے ہاتھوں ستائے ہوئے پنجاب کے عوام اور تھانہ کلچر کی من مانیا ں اور پنجاب پولیس میں غنڈہ گرد عناصر کے ہاتھوں مظلوم لوگوں کو نجات دلانا۔ اور ایک منصفانہ تھانہ کلچر قائم کرنا ۔کیا پنجاب حکومت کے فرائض میں نہیں آتا؟۔ آج بھی پنجاب پولیس کے زیر سرپرستی اور پنجاب کے اکثر و بیشتر تھانوں میں بھینس کی چوری سے لیکر قتل جیسے سنگین معاملات پہ باہمی فریقوں سے مُک مکا کے بعد پرچے رپوٹیں اور ایف آئی آر لکھی جاتی ہیں۔ اور عدالتوں سے بالا کمزور فریق کو راضی نامے پہ زبردستی مجبور کیا جاتا ہے۔ جس کے پیچھے طاقتور کا پیسہ اور اثر و رسوخ کام کر رہا ہوتا ہے۔ اور عام شریف آدمی کی یہ حالت ہے کہ وہ بھرے بازار میں لٹ جانا برداشت کر لیتا ہے۔ مگرپولیس کے خوف اور رشوت خوری کی وجہ سے تھانے میں رپورٹ کرانے سے ڈرتا ہے۔ اگر پنجاب حکومت یا دوسرے لفظوں میں ن لیگ اپنی حکومت میں اپنی پولیس کو درست نہیں کرسکی تو اس سے دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں۔ کہ ایسا نہ کرنے میں پنجاب حکومت کی نیت میں اخلاص کی کمی ہےیا پنجاب حکومت میں اہلیت کی کمی ہے ۔کوئی ایک وجہ ضرور ہے کہ پنجاب کے حکمرانوں کے بلند بانگ دعوؤں کے باجود پولیس کا محکمہ بجائے سیدھا ہونے کے مزید بگڑ چکا ہے۔جس سے ہر دو صورتوں نقصان سادہ لوح عوام کو پہنچ رہا ہے۔ پولیس کا محکمہ تو محض ایک مثال ہے۔ ایسی کئی مثالیں گنوائی جاسکتی ہیں۔ جبکہ مینار پاکستان کے سائے میں پنجاب حکومت کے کیمپ لگانےسے ،خدا جانے عوام کے کتنے ضروری کام رہ گئے ہونگے ۔پنجاب کے وزیر اعلٰی کے بس میں سفر کرنے سے نہ جانے کیوں ضیاءالحق کا سائیکل چلانا یاد آگیا ۔ہر باشعور شہری جانتا ہے کہ اسطرح کے پروپگنڈا ہ اور چونکا دینے والے اقدامات سے وی آئی پیز کی سیکورٹی اور تشہیر کے متعلقہ اقدامات پہ کس قدر خرچ آتا ہے ۔ اور جب حکمران اس طرح کے غیر ضروری کاموں میں اپنا قیمتی وقت ضائع کریں۔ تو قوم کے کس قدر ضروری کام حکمرانوں کی توجہ اور وقت نہ ملنے سے ادہورے رہ جاتے ہیں۔ یہ ماننے کو عقل تسلیم نہیں کرتی کہ اس بات کا ادراک پنجاب حکومت کے حکمرانوں کو نہیں ہوگا ۔اگر انہیں اس بات کا ادراک نہیں ہے تو یہ نااہلی ہے ۔اور اگر ادراک ہوتے ہوئے انہوں نے یوں کیا ہے ۔تو عام آدمی کو بے وقوف بناتے ہوئے محض پیپلز پارٹی کی نااہلی کے مقابلے پہ اپنا سیاسی گول کرنے کی تگ دور میں اپنے فرائض سے غفلت برتنے کا ارتکاب ہے۔

پاکستان کی ایک اور سیاسی جماعت عمران خان کی تحریک انصاف ہے ۔ جسے پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی قوت تسلیم کروانے کا پراپگنڈہ صبح شام کیا جاتا ہے۔ وہ کن ہاتھوں میں کھیل رہی ہے اور اسکے باہمی اجزائے ترکیبی کی دم پخت کیسی ہے ۔اس کے بارے ہر واقف حال جانتا ہے۔ عمران خان کے دل میں پاکستان کے لئیے خلوص بدرجہ اُتم موجود ہوگا ۔مگر چونکہ سیاسی جماعت کسی ایک رہنما کانام نہیں ہوتا ۔ اسمیں شامل سبھی چہرے مل کر ایک خاص تصویر بناتے ہیں اور تحریک انصاف میں شامل چہروں سے تحریک انصاف کی جو تصویر بن کر سامنے آتی ہے ۔و ہ سب کے سامنے ہے ۔ اور اقتدار مل جانے کی صورت میں صرف اسکا کوئی ایک رہنماء نہیں بلکہ اسمیں شامل چہرے ملکر ملک و قوم کی نیا کو پار لگانے یکا جتن کرتے ہیں اور جب بکل میں چور بٹھا رکھے ہوں تو قوم کی نیا پار لگنے کی بجائے ڈوب جانے کے خدشات و امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ انقلابی تبدیلی کے لئیے صرف عمران خان کے وعدے اور دعوے ہی کافی نہیں ۔ جبکہ تحریک انصاف کے علمبردار ابھی تک اس انقلابی تبدیلی ۔۔جس کے وہ دعویدار ہیں اس کے لئیے ٹھوس تجاویز ۔ بہتر طریقہ کار اور متبادل نظام واضح کرنے میں ناکام ہیں۔

اسکے بعد پاکستان کی وہ علاقائی ، لسانی اور گروہی پارٹیاں یا پریشر گروپ ہیں۔ جنکے وجود کے ہونے کا مقصد ہی اپنے وزن کو اقتدار نامی ترازو میں ڈال کر ۔بلیک میلنگ اور آنے بہانوں سے اقتدار میں اپنے جثے سے کہیں زیادہ حصہ وصول کرنا ہے۔

مذہبی جماعتیں اپنے ممکنہ اتحاد و نفاق اور پاکستان میں متواتر عالمی دخل در معقولات نے انھیں اس قابل نہیں چھوڑا ۔کہ انکی کسی معقول بات بھی عوام کان رکھنے کو تیار ہوں۔

فوجی حکومتوں نے جس بری طرح پاکستان کا حلیہ بگاڑا ہے۔ وہ سب کے سامنے ہے ۔ فوج سرحدوں کی بہتر نگہبانی صرف اسی صورت میں کر سکتی ہے۔ جب وہ خود اقتدار کی دیگ پہ قابض نہ ہو ۔ پاکستان کی بڑی جنگیں فوجی سربراہوں کے دور میں ہوئیں ۔ مشرقی پاکستان کے سابقہ ہونے۔اور بنگلہ دیش کے قیام کا واقعہ بھی فوجی حکومت میں ہوا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے دہشت گردی کے خلاف موجودہ جنگ میں کہ بغیر کسی تامل اور حیل حجت کے امریکہ کے سامنے پاکستان کو چارے کے طور پہ پھینکنے والا بھی ایک فوجی حکمران مشرف تھا ۔ جس کا نتیجہ ہم آج تک بھگت رہیں ۔اور خدا جانے کب تک پاکستان اس جنگ کے بداثرات سمیٹتا رہے گا۔

یہ مندرجہ بالا فریق ہیں جو پاکستان کے اقتدار اعلٰی میں رہنے۔ یا ریاست پاکستان کے اقتدار اعلٰی حاصل کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ اور ممکنہ طور پہ پاکستان کے مستقبل کے حکمران ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں ان سے کسی تبدیلی اور اسکے نتیجے میں پاکستان کے وفاقی بجٹ میں کسی عمدہ پیش رفت کا ہونا ۔ یا ملک و قوم اور خود پاکستان کے لئیے نتیجہ خیز انقلابی تبدیلی لانا ناممکن ہے ۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ایسے حالات میں پچھلے تریسنٹھ سالوں کی طرح اگلا بجٹ اس سے بھی ظالم اور خود فریب ہوگا ۔جس کی قیمت پاکستان اور پاکستان کے زندہ درگو عوام کو اپنی بھوک اور بے چارگی سے اٹھانی ہوگی۔ خاموشی سے ظلم سہنا اور اپنے پہ ظلم کرنے والے ظالم کا ہاتھ نہ پکڑنے سے بڑھ کر کوئی ظلم نہیں ہوتا ۔جب تک پاکستان کے عوام خود ایسے ظلم کا راستہ روکنے کی جدو جہد نہیں کرتے ۔اسطرح کے اعداو شمار کے گورکھ دھندے بجٹ کے نام پہ آتے رہیں گے۔ جس میں اربوں کے حساب سے غبن اور لوٹ کھسوٹ کرنے والے نااہل حکمرانوں کے لئیے تاحیات مراعات تو ہونگی ۔مگر عوام کے بھوکے بچوں کے کے لئیے دو باعزت روٹیوں کے لئیے محض جھوٹے وعدے اور روٹی کپڑا اور مکان جیسے خوشنما نعرے ہونگے۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین تین جون دو ہزار بارہ ء

بھوک۔ تسلسل اور بجٹ ڈرامہ۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

 
%d bloggers like this: