RSS

Tag Archives: صحافت

جاوید چوہدری صاحب !۔


جاوید چوہدری صاحب!۔

اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ

پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے پاکستان کے میڈیا مالکان۔ میڈیا سے اپنی مطلب براری کے لئیے میڈیا کے ڈونرز۔ پالیسی سازوں۔ایڈیٹروں۔ کالم نگارروں۔ ٹی وی میزبان ۔ نت نئے شوشے چھوڑنے والوں اور نان ایشوز کو ایشوز بنا کر قوم کو پیش کرنے والوں کا مقدمہ لڑتے ہوئے آپ نے اپنے کیس کو مضبوط بنانے کے لئیے سارے میڈیا کو ایک فریق بنا لیا ہے جو کہ سراسر غلط ہے ۔ اپنے مقدمے میں میڈیا سے متعلق سبھی شعبہ جات کو ملوث کر لیا ہے۔ جبکہ پاکستان کے قارئین و ناظرین کے اعتراضات میں میڈیا سے متعلق سبھی لوگ شامل نہیں۔ اور معدودئے چند ایسے لوگ ابھی بھی پاکستان میں ہیں جو حقائق کا دامن نہیں چھوڑے ہوئے اور ایسے قابل احترام کالم نگار اور میزبان اور جان جوکھوں میں ڈال کر رپوٹنگ کرنے والے رپوٹر حضرات (جنہیں بجائے خود میڈیا مالکان انکی جان کو لاحق خطرات کے لئیے کام آنے والی مختلف سہولیات بہم پہنچانے میں ناکام رہے ہیں) اور حقائق عوام تک پہنچانے والے یہ رپورٹرز عوام کے اعتراضات میں شامل نہیں۔ جسطرح ہر شعبے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں اسی طرح میڈیا سے متعلق ان لوگوں پہ عوام کو اعتراضات ہیں۔ جن کا بے مقصد دفاع آپ کر رہے ہیں۔

آپکی یہ منطق ہی سرے سے غلط ہے کہ اس ملک(پاکستان) میں سب چلتا ہے۔ اور تقریبا سبھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کئی ایک لوگ۔ جائز یا ناجائزطریقوں سے کیا کچھ نہیں کما رہے۔ اور اسی منطق کے تحت اگر میڈیا اور صحافت سے تعلق رکھنے والے بھی وہی طریقہ کار اپنا رہے ہیں تو اس میں حرج کیا ہے؟۔ اسکا مطلب تو عام الفاظ میں یہی بنتا ہے کہ صحافت بھی ایک کاروبار ہے اور پاکستان میں رائج جائز ناجائزسبھی معروف طریقوں سے صحافت میں مال اور رسوخ کمانا بھی درست سمجھاجائےَ؟۔ تو حضور جب آپ یہ بات تسلیم کر رہے ہیں کہ بہتی گنگا میں ہاتھ دہونے کا حق بشمول میڈیا سبھی کو حاصل ہے۔ تو پھر عوام حق بجانب ہیں جو آپ اور آپ کے مثالی کردار کے میڈیا پہ اعتراضات کرتے ہیں۔ تو پھر آپ کو اتنا بڑھا سیریل وار کالم لکھنے کی کیا سوجھی؟۔

آپ نے اپنی برادری  کے وسیع المطالعہ ہونے کا تاثر دیا ہے۔ اپنی برادری کو پاکستان کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد حتیٰ کے عام آدمی تو کیا علماء اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والوں سے بڑھ کر اپنے وسیع المطالعہ ہونے کا دعواہ کیا ہے اور مطالعے کے لئیے مختلف کتابوں پہ اٹھنے والے اخراجات کا ڈھنڈورہ پیٹا ہے۔ پاکستان کی بہترین یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ہونے کے اعزاز کا چرچا کیا ہے۔

حضور جاوید صاحب۔ پاکستان کے تنخواہ دار میڈیا کے چند ایک نہائت قابل افراد کو چھوڑ کر باقی کے وسیع المطالعہ ہونے کا اندازہ ان کے کالم اور تحریرو تقریر سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ وہ اقوام عالم اور دور حاضر میں اسلام یا پاکستان کے بارے کسقدر باخبر ہیں۔ اور تاریخ وغیرہ کی تو بات ہی جانے دی جئیے۔ اس لئیے آپکا یہ دعواہ نمائشی اور فہمائشی تو ہوسکتا ہے ۔ مگر اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ کیونکہ علم خود اپنا آپ بتا دیتا ہے۔ علم اپنا تعارف خود ہوتا ہے۔

آپ نے اپنی برادری کی پاکستان کی بہترین یونیورسٹیز سے حاصل کی جانے والی لٹریسی ڈگریزکا ذکر کیا ہے ۔ ان میں پاکستان کی یونیورسٹیز جنہیں آپ بہترین بیان کر رہے ہیں۔ ان یونیورسٹیز کو دنیا کی بہترین چھ سو یونیورسٹیزکے کسی شمار میں نہیں رکھا جاتا۔ نہ اب اور نہ پہلے کبھی کسی شمار میں رکھا گیا ہے ۔ لیکن کیا آپ کے علم میں ہے؟ ۔ کہ پاکستان میں اور بیرون پاکستان جو قارئین اور ناظرین آپ کے میڈیا کو دیکھتے ہیں اور گھن کھاتے ہیں۔ اور پاکستانی میڈیا پہ اعتراضات جڑتے ہیں۔ ان میں سے ہزاروں کی تعداد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو آپ سے بھی اہم اور پیچیدہ موضوعات پہ ڈگریز رکھتے ہیں۔ اور بہت سے ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو دنیا کی بہترین یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ہیں۔اور گرانقدر تجربہ ان کے پاس ہے۔

ایسے ایسے نابغہ روزگار اور اعلٰی تعلیم یافتہ لوگ۔ بلاگنگ۔ فیس بک۔ سوشل میڈیا پہ صرف اس لئیے اپنی صلاحتیں بلا معاضہ پیش کرتے ہیں کیونکہ وہ آپ سے آپکے مثالی کردار میڈیا سے بیزار ہی نہیں بلکہ مایوس ہوچکے ہیں۔ اور ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے دنیا کی بہترین یونیورسٹیز سے بہترین موضوعات پہ ڈگریز لے رکھی ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟؟ ۔ یہ ڈگریز کا حوالہ اور تذکرہ محض آپکی کالم نگاری کے جواب میں ہے ۔ ورنہ لازمی نہیں کہ محض ڈگریز کے حصول سے ہی کوئی فرد زیادہ قابل بن جائے۔

ملک کے جن اٹھارہ کروڑ عوام سے آپ نے گلے شکوے کئیے ہیں۔ کیا کبھی آپ نے ۔ آپکے دیگر ساتھیوں۔ یعنی بہ حیثیت میڈیا کبھی یہ جاننے کی تکلیف گوارہ کی کہ وہی اٹھارہ کروڑ عوام آپ سے کسقدر مطمئن اور خوش ہیں۔ اس بارے آپ کے قابل قدر میڈیا نے کوئی سروے کیا ہو؟ ۔ عوام سے کبھی رائے مانگی ہو؟؟۔


حال میں۔ جعلی اور فرضی خبریں جنہیں آپ۔ آپ کے ساتھیوں اور پاکستانی میڈیا نے ان فرضی اور جعلی واقعات کو ٹاپ ایشوز بنا کرقوم کے سامنے پیش کیا۔ قوم کو ورغلایا۔ غلط طور پہ رائے عامہ کو ایک مخصوص سمت میں موڑنے کی کوشش کی۔ اور جب جب جھوٹ ثابت ہوجانے پہ سوشل میڈیا سے اور دیگر ذرائع سے شوروغوغا اٹھا۔ تو آپ کے بیان کردہ پاکستانی مثالی میڈیا کو اسقدر توفیق نہ ہوئی کے اس بارے اسی شدو مد سے وضاحت جاری کرتا۔

جاوید صاحب! آپ اس بات کا جواب دینا پسند کریں گے کہ میڈیا پہ میڈیا کے پروردہ اور منتخب دانشور جو جعلی واقعات اور جھوٹی خبروں پہ جس غیض غضب کا مظاہرہ اسلام اور شرعی حدود کے خلاف کرتے رہے ہیں ۔ آخر کار اسطرح کی خبریں جھوٹی ہونے پہ آپکے بیان کردہ مثالی اینکرز اور خود آپ نے کبھی انھی افراد کو دوبارہ بلوا کر جھوٹ کا پردہ آشکارا ہونے پہ دوبارہ اسی طرح کسی مباحثے کا اہتمام کیا؟ ۔ جس سے میڈیا کی طرف سے قوم کو اسلام اور شرحی حدود کے بارے ورغلائے جانے پہ انھیں یعنی عوام کو اصلی حقائق کے بارے پتہ چلتا؟۔

پاکستان کے عام قاری کو اس بات سے غرض نہیں۔ کہ آپ معاوضہ کیوں لیتے ہیں۔ انکا اعتراض اس بات پہ ہے کہ حکومتی مدح سرائی کے بدلے سرکاری اشتہاروں سے ملنے والے کروڑوں روپے کے معاوضوں سے دواوراق کے اخبارات سے دیکھتے ہی دیکھتے اربوں روپے کے نیٹ ورک کا مالک بن جانے والے میڈیا ٹائکونز نے آپ جیسے لوگوں   کو لاکھوں رؤپے کے مشاہیرے پہ کس لئیے ملازم رکھا ہوا ہے؟۔  آپ اپنا رزق حلال کرنے کے لئیے وہی بات پھیلاتے ہیں۔ جس کا اشارہ آپ کے مالکان آپ کو کرتے ہیں۔ اور آپ اور آپ کی برادری بے لاگ حقائق کو بیان کرنا کبھی کا چھوڑ چکی۔ جس کا شاید آپ کو اور آپکی برادری کو ابھی تک احساس نہیں ہوا۔

آپ سے مراد آپکی برادری کے اینکرز و پروگرام میزبان و کالم نگاروں کی اکثریت اس”آپ“ میں شامل ہے۔ اس ضمن میں صرف دو مثالیں دونگا۔ پہلی مثال۔ وہ مشہور کالم نگار ۔ جس نے مبینہ ناجائز طور پہ حاصل کردہ اپنے پلاٹ کا ذکر کرنے پہ اپنی ہی برادری کے ایک صاحب کو ننگی ننگی گالیاں دیں۔ دوسری مثال ۔ حال ہی میں پاکستان کے ایک توپ قسم کے ٹی وی میزبان نے پاکستانی عوام کی امیدوں کے آخری سہارے چیف جسٹس جناب افتخار چوہدری صاحب کو دیوار کے ساتھ لگانے کے لئیے ایک دوسری خاتون میزبان سے ملکر رئیل اسٹیٹ کی ایک متنازعہ شخصیت کا پلانٹڈ انٹرویو لیا۔

ایسی ان گنت مثالیں گنوائی جاسکتی ہیں حیرت ہوتی ہے۔ آپ میڈیا کو پوتر ثابت کرتے ہوئے کیسے ناک کے سامنے نظر آنے والی  ایسی گھناؤنی مثالوں اور زندہ حقائق کو نظر انداز کر گئے ہیں؟۔

آپ اپنی برادری کی پارسائی ۔ دیانتداری کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ جبکہ عوام پوچھتے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے امریکہ کے لئیے نرم گوشہ پیدا کرنے کے لئیے معاوضے یا رشوت کے طور پہ میڈیا کو میلینز ڈالرز کے الزامات کا جواب ، تردید یا وضاحت کیوں نہیں کی جاتی؟۔

بھارتی ثقافت کی یلغار جس سے ایک عام آدمی بھی بے چین ہے۔ اور آپ جیسے پاکستان کی بہترین یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ڈگری ہولڈرز کو کیوں نظر نہیں آتی۔ اگر پاکستانی میڈیا پہ محض کاروباری لالچ میں بھارتی میڈیا کی یلغار نظر آتی ہے تو آپ جیسے لوگ کیوں اسکے خلاف کمر بستہ نہیں ہوتے؟۔ اور اگر آپ کو ایسا کچھ نہیں نظر آتا یا نہیں لگتا تو آپ پاکستان کے ایک عام ناظر یا قاری کے جذبات سے کوسوں دور ہیں تو آپ انکے اعتراضات کیسے سمجھ سکتے ہیں؟۔

پاکستان میں آزاد میڈیا کے بجائے جانے والے ترانوں پہ صرف اتنا عرض کرنا چاہوں گا۔ کہ دنیا کے ان سبھی ممالک کی تاریخ گواہ ہے جہاں میڈیا حکومتی تسلط سے آزاد ہوا وہاں عوام نے آزاد میڈیا کو سینے سے لگایا۔ انکی ستائش کی اور جب میڈیا نے من مانی کرنا چاہی تو میڈیا پہ عوام نے اعتراضات کئیے اور میڈیا کو اپنی سمت درست کرنی پڑی۔ جبکہ پاکستانی میڈیا کو ایولیشن کے ایک معروف عمل کے تحت آزادی ملی تو میڈیا نے بے سروپا اور بے ھنگم طریقوں کو محض کاروباری حیثیت کو مضبوط کرنے کے لئیے استعمال کیا۔ اور چند ایک مخصوص کالم نگاروں کا جو کریڈٹ آپ نے وصولنے کی کوشش کی ہے کہ انکی جان کو خطرے درپیش ہوئے ۔ ایجنسیوں نے انھیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیں۔ وغیرہ۔ آپ کیا یہ بتانا پسند کریں گے ۔ کہ اگر وہ یہ سب نہ لکھتے تو پاکستان کے میڈیا کا کونسا گروپ انہیں منہ لگاتا؟۔ تو حضور یہ لکھنا ہی انکا فن اور پیشہ ٹہرا جس کا وہ ان گنت معاوضہ لیتے رہے ہیں اور بدستور بہت سی شکلوں میں تا حال وصول کر رہے ہیں۔

آپ نے ڈائنو سار کے قدموں سے اپنی روزی نکالنے کا ذکر کیا ہے۔ اپنے ارد گرد دیکھیں ۔ پاکستان کی اکثریت کس طرح اپنے تن سے سانس کا رشتہ جوڑے ہوئے ہیں ۔ اور ایک تصوارتی ڈائنو سار کے پاؤں سے نہیں ۔۔ بلکہ اس نظام کے ہاتھوں اپنی عزت نفس گنوا کر دو وقت کی روٹی بمشکل حاصل کر پاتے ہیں۔ جس نظام کو تقویت دینے میں ایک ستون آپ اور آپ کا میڈیا ہے۔

عوام کو شکوہ ہے کہ پاکستانی میڈیا عوام کے ناتواں جسم و جان میں پنچے گاڑے نظام کے مخالف فریق کی بجائے اسی نظام کا ایک حصہ ایک ستون ہے۔

نوٹ:۔ یہ رائے عجلت میں لکھ کر جاوید چوہدری کے کالم پہ رائے کے طور بھیجنے کی بارہا کوششوں  میں ناکام ہونے کے بعد اسے یہاں نقل کردیا ہے۔ موصوف کے آن لائن اخبار پہ انکے کالم پہ لکھنے کی صورت میں اسپیم کی اجازت نہیں وغیرہ لکھا آتا ہے۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

جیو یا جیتا جاگتا پاکستان!۔


جیو گروپ ۔ آج یہ گروپ جو کچھ ہے۔ پاکستان کی بدولت ہے۔ اس نیٹ ورک اور اسکی ترقی پاکستان کی دین ہے۔ ایک کاروباری گروپ۔ جو کسی بھی قیمت پہ اپنی منڈی بڑھانا چاہتا ہے۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں کہ انہوں اور انکے بڑوں نے ہمیشہ صحافت کا بازو مروڑتے ہوئے اور زرد صحافت کرتے ہوئے۔ پاکستانی جائز ناجائز حکومتوں کی مدح سرائی اور کاسہ لیسی کرتے ہوئے سرکاری اشتہارات کے نام پہ زر کثیر اور سرمایہ کمایا ہے۔ اور انہی پالیسیوں سے یہ لوگ تین اورق کے اخبارات سے پاکستان اور خطے کے اتنے بڑے نیٹ ورک کے مالک بن گئے ہیں۔ اس ملک میں ابھی لاکھوں افراد اس بات کی گواہی دیں گے ۔ کہ اس گروپ نے صحافت کے نام پہ صحافت کو بیچا۔ اور اس میڈیا گروپ کو قائم کرے سے پہلے تک یہ لوگ ہمیشہ حکومت وقت کے مدح سرا رہے ہیں۔ اور ہر دور کی حکومت کی مدح سرائی کی ہے۔

اخبارات سے ٹی وی چینلز اور اب میڈیا کے ایک اور منفعت بخش میڈیم اور عوامی رائے بنانے کے ذریعے یعنی فلم بندی کے ذریعے پاکستانی فلم بینوں کو اپنی فلمز بنا کر سرمایہ کمانا اور معاشرے کی رائے عامہ تیار کرنے میں رسوخ حاصل کرنا ہے۔

اپنے کاروباری مفادات سے بڑھ کر پاکستان سے دلچسپی انھیں نہ تب تھی اور نہ اب ہے۔ اپنی مارکیٹ بڑھانے اور اپنی پراڈکٹس وسیع پیمانے پہ بیچنے کے لئیے۔ یہ گروپ چند سالوں سے بھارتی مارکیٹ کی طرف دیکھ رہا ہے۔ دہائیوں قبل جب انھوں نے دیگر پاکستانی اخبارات کے مقابلے پہ اپنے اخبارات کی سرکولیشن پاکستان کے اندر بڑھانا چاہی تھی اور ہر دور کی حکومتوں سے اشتہارات کے نام پہ زر خطیر اور مراعات حاصل کرنے کی خاطر ۔ تب اس گروپ کے اخبارات نے وطن پرستی اور حکومتوں کی کاسہ لیسی کو ایک پالیسی کے تحت معیار بنائے رکھا۔ مگر اب جبکہ ٹی وی چینلز جو سرحدوں کی ہر بندش سے آر پار صوتی و بصری لہروں کی صورت گزر جاتے ہیں۔ سیٹلائٹس کے ذریعیے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اور کوئی خاص سرمایہ کاری نہیں کرنی پڑتی۔ اس گروپ کو اب پاکستان کی مارکیٹ چھوٹی نظر آتی ہے۔ اور محض اپنے کاروبار ۔۔ کاروبار جس میں انکے مطمع نظر کے سامنے پاکستان کے مفادات سے وفاداری کبھی بھی مقصود نظر نہیں تھی۔ ۔ ۔ ۔ اس کاروبار کو وسیع اور اپنی مارکیٹ پرادکٹس کو بھارت میں بیچنے کے لئیے "امن کی آشا” جیسے بے ہودہ طریقے کا خیال سوجھا ہے۔

کیونکہ اگر بھارت اور پاکستان کے درمیان معاملات خراب ہوتے ہیں۔ تو یہ گروپ اپنے پراڈکٹس بھارتی مارکیٹ میں متعارف نہیں کرواپائے گا۔ اور اخلاقی طور پہ ہر وہ جواز کھو دے گا۔ جس سے یہ بھارتی مارکیٹ میں تجارت کر سکے۔ اور ایسی صورت میں پاکستانی کزیومرز بھی اس گروپ پہ دو لفظ بیھج دیں گے۔ بھارتی ناظر جو پاکستان اور عام پاکستانی سے حد درجہ بغض رکھتا ہے۔ اور انتہائی تنگ نظر ہے ۔ وہ اس گروپ کا نام لینا بھی گواراہ نہیں کرے گا ۔ایسے میں اس گروپ نے اس صورت کا بہترین حل جو سوچا ہے ۔۔ وہ ہے "امن کی آشا” خواہ اس کی قیمت یکطرفہ طور پہ پاکستان اور پاکستانی موقف کو قربان کر کے چکائی جائے۔ لیکن اس گروپ کے بڑوں کو شاید یہ علم نہیں کہ انہیں پھر بھی بھارتی مارکیٹ میں پزیرائی نہیں ملے گی کیونکہ بھارتی میڈیا اور عوام۔ مسلمانوں اور خاصکر پاکستان سے انتہائی درجے کا بغض رکھتے ہیں۔ جس سے اس گروپ کو نہ خدا ہی ملے گا نہ وصال صنم کے مصداق ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔

مگر آنے بہانے۔ نام نہاد روشن خیالی، بھارتی فلم انڈسٹری کی بے ہودہ خبروں اور گانوں کو اسقدر پرکشش انداز میں صرف چمکنے والی بے ہودگی کو پاکستانی عوام کے سامنے پیش کرکے پاکستانی عوام کو دہوکہ دینے۔ اور "امن کی آشا” کے نام پہ پاکستانی عوام کی خواہشات کے برعکس، بھارتی برتری کا ڈول ڈالنے سے۔ جو نقصانات "پاکستان” نامی کاز کو اس گروپ نے پہنچائے ہیں۔ ان نقصانات کا مداواہ کون کرے گا؟ جہاں تک امریکی آشیرباد سے دن گزارنے والے حکمرانوں کی بصیرت کا ذکر ہے کہ وہ قانون سازی یا پہلے سے موجودہ قوانین سے۔ ایسے شتر بے مہار قسم کے میڈیا کو جو اپنے مفاد کو ریاست پاکستان کے مفاد پہ ترجیج دیتا ہے ۔ وہ حکمران ایسے میڈیا اور مذکورہ گروپ کو لگام دینے کی کوشش کریں گے؟۔ ایسا سوچنا اپنے آپ کو دہوکہ دینے کے مترادف ہے۔ کیونکہ اپنے غیر اخلاقی اقدامات کو جائز ثابت کرنے والے حکمران ایسی کسی اخلاقی جرائت سے سرے سے محروم ہیں۔ اور ایسا میڈیا ، یہ گروپ اور حکمران اس معاملے میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے ہیں۔

یہ بات واضع ہے کہ جیو گروپ نے اپنی کاروباری ترجیجات پہ پاکستانی ترجیجات کو کبھی اہمیت نہیں دی۔ ہم الزام تراشی نہیں کرتے مگر ایک خبر یہ بھی گردش میں ہے۔ کہ امریکہ ملینز ڈالر پاکستانی کے ان اداروں اور صحافیوں کو رشوت دے رہا ہے۔ جو پاکستانی رائے عامہ پہ اثر انداز ہوتے ہیں اور پاکستانی موقف پہ ڈٹے رہنے کی بجائے اور امریکی مفادات کے حق میں پاکستانی رائے عامہ تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہماری بد قسمتی ہے۔ حکومت پہ وہ لوگ قابض ہیں۔ جو جہمور کی ۔ عوام کی جائز خواہشات کو سمجھنے اور پوری کرنے میں ناکام ہیں۔ فوج جو اپنے عوام کی حفاظت نہیں کرسکتی۔ جسے پاکستان کے اتحادی امریکہ کی افواج نے ایبٹ آباد حملے میں ملکی سالمیت اور سرحدوں کو روندتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ انہیں پاکستان یا پاکستانی افواج کی نہیں بلکہ صرف اپنے مفادات کی فکر ہے۔ خواہ اسکے لئیے پاکستان کی سالمیت، پاکستان کی سرحدوں کا تقدس اور ریاست پاکستان کے وقار کو ہی کیوں نہ روندنا پڑے۔ مگر بدستور افواج پاکستان دہشت گردی کے خلاف اس ننگ انسانیت نام نہاد جنگ میں اپنے آپ کو جھونک رہی ہے۔ جس سے پاکستانی فوج کے اہلکار اور عوام کی زندگیاں داؤ پہ لگ گئی ہیں۔۔ اسکے باوجود امریکی ڈراون طیارے جنہیں مار گرانا ہماری فوج کےلئیے کچھ خا ص مشکل نہیں ۔اس سے نہ صرف پاکستانی سر زمین کو آئے روز بے آبرو کیا جاتا ہے۔ بلکہ پاکستانی شہری اس میں شہید کئیے جاتے ہیں۔ اور فوج اور حکومت اسے پاکستانی سر زمین کی آبرو فاختگی تک تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اور میڈیا اور اسکا سب سے طاقتور گروپ ۔ جمہور یعنی عوام کی خواہشات اور رہن سہن اور اسلامی روایات کے بر عکس ہندؤ کلچر کو ہم پہ تھوپنے کی بھونڈی کوشش کرنے کی متواتر کاروائی جاری کئیے ہوئے ہے۔ اور عوام ہیں کہ کسی نشئی کی طرح بوٹی پیئے مدھوش ہیں۔ ہر تھپڑ پہ چہرے کا دوسرا رخ مزید تھپڑ کھانے کے لئیے سامنے کردیتے ہیں۔

حیرت ہوتی ہے اسقدر پر امن اور مسکین عوام کو مغربی میڈیا دنیا میں کیسے "دہشت گرد” مشہور کئیے ہوئے ہے؟۔

حکومت ۔ فوج، میڈیا، ان سب شتر بے مہاروں کو صرف دیانتدار قیادت سے قابو کیا جاسکتا ہے۔

آئیں ملکر دعا کریں۔ کہ اس "اوتر نکھتر” یعنی بانجھ قوم میں اللہ اپنے ایسے نیک بندے پیدا کرے۔ مسکین عوام کو انھیں درہافت کرنے کی بصیرت عطا کرے ۔ جو اس قوم کو منجدھاروں سے نکال کر پار لگا دیں اور قوم کی آنکھیں عقل و علم، فہم و ادراک۔ ہمت و محنت کے عمل سے وا کر دیں۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

 
%d bloggers like this: