RSS

Tag Archives: شکار

اجتماعی شعور کا ارتقاء اور پاکستان کی کم ظرف اشرافیہ۔



اجتماعی شعور کا ارتقاء اور پاکستان کی کم ظرف اشرافیہ۔

عوام
جہاں تک سو فیصد دیانتداری کا تقاضہ ہے تو یہ سو فیصد دیانتداری دنیا کے عوام میں کہیں بھی نہیں پائی جاتی ۔اس بات کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ دنیا بھر کی جیلوں میں دنیا کی سبھی قوموں کے کرپٹ لوگ بند ہیں۔
لیکن پاکستانیوں کی اکثریت اپنے پیدائشی ماحول اور اپنے ارد گرد ہر طرف پائے جانے والی بے بسی اور روز مرہ زندہ رہنے کی جستجو میں زندگی گھسیٹنے کے لئیے معاشرے اور بااثر طبقے کی طرف سے مسلط کی گئی کرپٹ اقدار اور بدعنوانی کی وجہ سے محض زندہ رہنے کے لئیے ڈہیٹ بن کر ہر قسم کے ظلم و ستم پہ بہ جبر زندگی گزارنے پہ مجبور ہے۔
اور جب اپنی اور اپنے خاندان کا جان اور جسم کا سانس کا ناطہ آپس میں میں جوڑے رکھنا محال ہو جائے۔ اور ایسا کئی نسلوں سے نسل درنسل ہو رہا ہو اور ہر اگلی نسل کو پچھلی نسل سے زیادہ مصائب و آلام کا سامنا ہو اور اسی معاشرے کے ہر قسم کے رہنماؤں کی اکثریت جن میں مذہبی ۔ علمی۔ سیاسی۔ دینی۔ حکومتی ۔ فوجی۔ قسما قسمی کی حل المشکلات کی معجون بیچنے والے دہوکے باز۔اٹھائی گیر ہوں اور بد ترین اور بدعنوان ہوں۔ تو وہاں خالی پیٹ۔ اور بے علم۔ بے شعور عوام سے دیانتداری کا اور وہ بھی سو فیصد دیانتداری کا تقاضہ ظلم ہے۔
مندرجہ بالا بیان کردہ حالات ایسا کلٹ کلچر بنا دیتے ہیں جس میں دیانتداری کا خمیر پیدا ہی نہیں ہوتا۔جیسے رات کو دہوپ نہیں ہوتی۔ اور اس کا مظاہرہ پاکستانی معاشرے میں روزہ مرہ زندگی میں سرعام نظر آتا ہے ۔


کوڑھ کی کاشت کر کے خیر کی امید کیسے باندھی جائے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہمیشہ بڑے لوگ۔ مشہور لوگ۔ لیڈ کرنے والے لوگ۔ بااثر طبقہ سے سے تعلق رکھنے والے لوگ۔ اشرافیہ۔ حکمران۔ رہنماء۔ علماء۔ جرنیل۔ اساتذہ اور اس قبیل کے دیگر لوگ مثال بنا کرتے ہیں ۔
جیسے گھر کا سربراہ یا بڑا بھائی اگر سگریٹ نوشی ۔ شراب نوشی یا آوارہ گردی کرے تو سارا گھرانہ وہی عادتیں پکڑتا ہے۔مگر پاکستان کی اشرافیہ اور بااثر طبقے  کو مثالی کہنے کی بجائے کم ظرف اور تنگ دل کہنا بجا نہ ہوگا کہ جن سے پاکستانی عام  عوام  کویئ مثبت تحریک پا سکے ۔
اس کے باوجود اگر پاکستانی قوم میں کچھ اقدار باقی ہیں تو یہ شاید ان جینز کا اثر ہے جو عام عوام کے خون میں شامل ہیں۔ اور ہنوز اخلاقی بد عنوانی کے خلاف مزاحمت کر ہے ہیں۔
ہمارا معاشرہ مختلف وجوہات کی وجہ سے ۔ ہزراوں سال سے غلامی میں پسنے کی وجہ سے مجبور و معذور ہےاور ہماری ذہنی بلوغت ہی  نہیں ہوسکی۔ 

ہمارے معاشرے میں۔
ہماری انفرادی معاشی خود مختاری ۔ روٹی روزی۔ بنیادی ضروریات اور گھر جیسے تحفظ کا تصور ہی اپنے صحیح معنوں میں فروغ نہیں پا سکا ۔ کیونکہ پاکستان کی بہت بڑی آبادی کو یہ چیزیں مکمل آزادی اور عزت نفس کو پامال کئیے بغیر نصیب ہی نہیں ہوئیں ۔ تو شخصی آزادی یا اجتماعی سوچ بھلا کیونکر فروغ پاتیں؟
آج بھی پاکستان کی  بڑی اکثریت کے لئیے۔ پٹواری۔ نیم خواندہ تھانیدار اور گھٹیا اخلاق و تربیت کے اہلکار۔ حکومت اور عام آدمی کے درمیان تعلق کا پُل ہیں۔اور ان سے آگے عام آدمی کی سوچ مفروضوں پہ قائم  اپنے ملک و قوم کا تصور رکھتی ہے۔ اگر تو کوئی تصور رکھتی ہے؟۔
اور یہ سلسلہ برصغیر کے عوام کے ساتھ ہزاروں سالوں سے روا ہے ۔ اس لئیے عام آدمی کے نزدیک ۔ آزادی۔ عزت نفس۔ اور جائز حقوق کی بازیابی کا کوئی تصور ہی نہیں  نپ سکا۔
اس لئیے وہ معاشرے میں ہر عمل اور اس کے رد عمل کے لئیے بااثر طبقے کی طرف دیکھتے ہیں ۔ اور اس بااثر طبقے کے عمل۔ بیانات اور منشاء کو ہی مقصد حیات سمجھتے ہیں۔ جس وجہ سے زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے وجود میں آتے ہیں اور اس سے آگے قومی شعور نہیں بڑھ پاتا۔
ان وجوہات کی بناء پہ ہمارے معاشرے میں اکثریتی طبقے کبھی کا کوئی رول نہیں رہا۔ اور یہی وہ وجہ ہے جس وجہ سے اکثریت کسی انقلاب یا تبدیلی میں کبھی کوئی کردار ادا نہیں کر سکی۔
کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں اور انیس سو سینتالیس سے آزاد ہیں۔لیکن دل پہ ہاتھ رکھ دیانتداری سے بتائیں کیا آزاد قوم اور مسلمان یوں ہوتے ہیں؟
اس کی یہ وجہ بھی وہی ہے کہ اسلام روزمرہ کی معاملگی حیثیت سے ہماری زندگیوں کا حصہ ہی نہیں بن سکا ۔ اس لئیے ہماری اخلاقی حدود و قیود عام طور پہ اسلامی اخلاق سے باہر ہوتی ہیں۔
جب عوام کو کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو وہ اپنے اپنے ۔ سرداروں۔ پیروں۔ دینی رہنماؤں ۔ علماء اکرام۔ سرکاری افسروں۔ سیاسی رہنماؤں ۔ حکومت اور حکمرانوں۔ فوج اور جرنیلوں کی طرف دیکھنا شروع کردیتے ہیں ۔ اور پھر جس کی کوئی ادا ۔ کوئی بات دل کو بھا جائے اسے اپنا اپنا ہیرو مان لیتے ہیں۔
ہمارا اجتماعی شعور کبھی تھا ہی نہیں۔ اور ہمارے نصب العین ہمیشہ بااثر طبقے نے طے کئیے۔
ہماری اشرافیہ۔ ہمارا بااثر طبقہ انتہائی بے ضمیر۔ دہوکے باز۔ کم ظرف۔ سطحی شخصیت کا مالک اور اپنے اقتدار یا اثر و رسوخ کے لئیے کسی بھی حد تک جانے کے لئیے تیار رہتا ہے۔
اور مرے پہ سو درے ۔ اس سارے تماشے سے کچھ قوم فروش اور ابن الوقت لوگوں نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا اور بغیر کسی جھجھک کے اپنی ابن الوقتی اور ضمیر فروشی کو نہائت بالا نرخوں پہ فروخت کیا۔ جسے حرف عام میں پاکستان کا "میڈیا” کہا جاتا ہے۔
یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ تیزی سے تنزلی کا شکار ہو رہا ہے۔ کیونکہ تنزل ہماری اشرافیہ پہ طاری ہے اور عام عوام وہیں سے تحریک پاتے ہیں ۔ چند اشتنساء چھوڑ کر۔ جسے فوری طور پہ پھیلانے کا اہتمام قوم فروش میڈیا اور اسکے مالکان کرتے ہیں۔
اس لئیے کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئیے کہ عام آدمی کیونکر اپنے مستقبل سے مایوس ہے۔ مگر اس کے باوجود اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانے کے لئیے بجائے کچھ مثبت قدم اٹھانے کے ۔ وہ بجائے خود اسی تنزلی میں شامل ہو رہا ہے۔
اور یہ وہ وجہ ہے کہ عام عوام میں۔ معاشرے میں۔ ہر طرف لاقانونیت۔ بد عنوانی۔ بے ایمانی۔ بد دیانتی۔ بد نظمی اور افراتفری نظر آتی ہے۔

اس لئیے پاکستان کے ان موجودہ حالات میں

 عام آدمی میں اجتماعی شعور کی تربیت کرنا اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک اشرافیہ۔ یعنی بااثر طبقہ۔ دینی و سیاسی رہنماء۔ جرنیل اور حکمران ۔ اور پاکستان کے وسائل پہ قابض مافیا۔اپنے انداز نہیں بدلتی۔اور بد قسمتی سے تب تک پاکستان کے عوام کا مجموعی رویہ بدلنا اور اجتماعی شعور کا فروغ پانا۔ بغیر کسی معجزے کے ممکن نظر نہیں آتا۔ اور دائرے کا معکوس سفر جاری رہے گا۔
اگر عام عوام کو اس بات کا ادراک دلانا مقصود ہے کہ وہ ایک باعزت قوم ہیں اور انھیں ایک اجتماعی شعور بخشنا ہے۔ تانکہ وہ ایک قومی اخلاق اپنا کر اس ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں تو اس کے لئیے ضروری ہے کہ صرف حکومتی اداروں کے عام اہلکاروں اور عہدیداروں سے نااہلی ۔ بدنیتی اور بد عنوانی کا حساب نہ لیا جائے اور انھیں سلاخوں کے پیچھے بند کیا جائے کیونکہ عام اہلکاروں کو معطل کرنے یا چند ایک لوگوں کو ان کے عہدوں سے برخاست کر دینے سے۔ پاکستان کی بد عنوانی پہ قابو نہیں پایا جاسکتا ۔ ایسا کرنا تو دراصل دنیا کی بدترین۔ ایک نمبر کی بدعنوان پاکستانی اشرافیہ کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
اسلئیے یہ از بس ضروری ہے کہ پاکستان میں بد نیتی۔ بدیانتی اور بد عنوانی ختم کرنے کی کوشش کے لئیے لا محالہ طور پہ اس کا آغاز بالادست طبقے اور پاکستان کے وسائل پہ قابض کم ظرف اشرافیہ سے نہ کیا گیا تو ایسی ہر مہم ناکام ہو جائے گی۔ اور اجتماعی قومی شعور۔ ایک باوقار با اختیار قوم۔ اور ایک آزاد پاکستان کا تصور صرف چند ہزار لوگوں کو ناجائز تحفظ دینے کی وجہ سے محض ایک خیال بن کر رہ جائے گا۔
پاکستان کے وسائل پہ قابض چند ہزار نفوس کی کم ظرف اشرافیہ۔ یا۔ بنیادی اور ضروری سہولتوں کے مالک کروڑوں باشعور عوام کا ایک بااختیار اور آزاد پاکستان؟ جب تک یہ طے نہیں ہوتا۔ تب تک ہم ایک معکوس دائرے میں سفر کرتے رہیں گے اور بدیانت غفلت کا شکار رہیں گے۔

جاوید گوندل۔ بارسیلونا

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

کولبیرٹ ازم ۔ برصغیر ہندؤستان۔ اور برئنیر رپورٹ۔تیسری قسط


کولبیرٹ ازم ۔ برصغیر ہندؤستان۔ اور برئنیر رپورٹ۔تیسری قسط


فرانسسکو برنئیر لکھتا ہے۔(ہندؤستان میں) وراثتی بندوبست ایک قانون کے درجے کے طور تسلیم کیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں امراء منصب دار ۔ یعنی نسبتا چھوٹے امراء مغل  فرمانروا (بادشاہ) کو وراثت میں ملتے ہیں۔ جو بادشاہ سے وظیفہ پاتے ہیں۔
اسی وراثتی بندوبست کے تحت ناج اگانے والی کچھ زمینوں اور باغات پہ رعایا کویہ اجازت ہے کہ وہ ان زمینوں کی خریدو فروخت کرسکیں یا وراثت کے طورپہ ملنے والی زمین کو آپس میں تقسیم کر سکیں ۔ اسکے علاوہ شہنشہاہی بندوبست کی کل زمین بادشاہ کی ملکیت ہے۔ برنئیر ۔ کولبیرٹ کو مخاطب کرتے لکھتا ہے۔”آپ اس نتیجے پہ پہنچیں گے کہ کہ یہی نہیں کہ ہندؤستان میں سونے اور چاندی کی کانیں نہ ہونے کے باوجود ۔ ملک میں بہت بڑی مقدار میں سونا اور چاندی موجود ہے ۔ بلکہ اسکے علاوہ مغل فرماں روا کے پاس بہت سے قیمتی خزانے ہونگے۔ (۷٭)۔
مزید براں ۔برنئیر کے اس بیان میں فرانس کے لئیے ان مالی اور سماجی مسائل کی نشاندہی کا بھی ذکر ملتا ہے۔ جواگر فرانس کو ہندؤستان کو اپنی نوآبادی بنانے میں دلچسپی ہونے کی صورت میں۔ ہندؤستان کو نو آبادی بنانے کی ایسی کسی کوشش کے نتیجے میں نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں ۔ ان مسائل کے پس منظرمیں مختلف النوع کی وجوہات ہیں۔ جن کی وجہ سے عظیم مغل سلطنت پہ حکمرانی قائم کرنے میں بہت مشکلات حائل ہیں۔ اور خاصکر اس صورت میں جب انگریز شہزادوں اور مقامی حاکموں سے اپنے مفادات طے کر رہے ہوں۔اس ساری حوصلہ شکن صورتحال اور بیان کردہ نہ قابل قبول حالات کی وجہ سے سونا ہندؤستان سے باہر نہیں جا پاتاتھا۔ اس سے برصغیر ہندؤستان کی مختلف النوع قسم اور دلچسپ ہیبت ترکیبی کا پتہ چلتا ہے۔
برنئیر کی رپوٹ سے مندرجہ ذیل نتیجہ سامنے آتاہے۔
۱)۔ہندؤستان کی زمین کا ایک حصہ پتھریلا ہے ۔ کم زرخیز پہاڑ ہیں جہاں بہت کم کاشتکاری ہوتی ہے۔ اور (اسی وجہ سے) آبادی بہت کم ہے۔
۲)۔ انتہائی زرخیز زمین جو افرادی قوت نہ ہونے کی وجہ سے غیر آباد ہیں۔
۳)۔بہت سے کسان مقامی حاکموں (گورنرز) کے مظالم کا شکار ہیں اور جان سےجاتے ہیں۔ عام طور پہ مقامی حاکموں(گورنرز) نے انہیں انتہائی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم کر رکھا ہے یہاں تک کہ جب ماں باپ لگان ادا نہ کر سکیں یا حاکموں کی احکام سے رد گردانی کریں تو انکے بچوں کو چھین لیتے ہیں۔ جنہیں غلام بنا لیا جاتا ہے۔
۴)۔ اندرونی نقل مکانی۔ بہت سے کسانوں نے مایوس ہوکر کھیتوں کو خیر آباد کہہ کر اجرت پہ مزدوری کرنے کو ترجیج دیتے ہوئے شہروں کا رخ کیا۔ جہاں انہوں نے سقہ (بہشتی یعنی ماشکی) اور پانڈی (وزن ڈھونے والوں) کا پیشہ اپنا لیا۔ یا پھر فوج میں بھرتے ہوگئے۔اورکچھ دوسری راجدھانیوں کو بھاگ گئے۔ جہاں ظلم و ستم نسبتاَ کم تھا۔
۵)۔ بہت سی ریاستیں اور قومیں ایسی ہیں جہاں کے حکمران مغل نہیں۔ اور ایسی ریاستوں اور قوموں کے سربراہ مغلوں کے احکامات ماننے سے انکاری ہیں اور خراج نہیں دیتے یا ان سے بہ جبر لگان وصول کیا جاتا ہے۔ یا پھر وہ ریاستیں ہیں جو نہ ہونے کے برابر خراج دیتیں ہیں۔ اور آخر میں وہ قومیں یا ریاستیں آتی ہیں۔ جو مغل سلطنت سے امداد لیتی ہیں۔
۶)۔ وہ ریاستیں جو خراج ادا نہیں کرتیں۔ وساپور Visapur کا باشاہ کسی قسم کا خراج نہیں ادا کرتا اور ہمیشہ مغل سلطنت سے جنگ آزماء رہتا ہے۔
جسکی۔ ۵ ۔درذیل وجوہات ہیں۔
الف)۔وسا پور کے حکمران کے پاس خاصی تعداد میں افواج ہونے کی کی وجہ۔
ب)۔ وسا پور سے دہلی اور آگرہ خاصے دور ہونے کی وجہ سے۔
ج)۔ اس حکمران کے پاس انتہائی مضبوط قلعہ ہے۔جس کو سر کرنا انتہائی دشوار اور کھٹن ہونے کی وجہ سے۔
د)۔ حملہ آوار افواج اور بابرداری کے جانوروں کے لئیے رستے میں چارہ اور پانی ملنے کی کوئی صورت نہ ہونے کی وجہ سے۔
اسکے علاوہ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ بہت سے راجے۔ وساپور Visapur کے مشترکہ دفاع کے لئیے اسکے حکمران کے ساتھ اتحاد کر لیتے ہیں۔مثال کے طور پہ مشہور و معروف۔ شیو جی ۔ جس نے کچھ عرصہ قبل۔ سُورت ۔کی بندرگاہ کو لوٹا اور جلادیا ۔
گولکنڈاہ کا طاقتور حکمران بھی مغل سلطنت کو کسی قسم کا خراج ادا نہیں کرتا۔ جو خفیہ طور پہ وسا پور کے راجہ کی مالی معاونت کرتا تھا اور ہمیشہ اسکی ایک فوج ضرورت پڑنے پہ ۔وسا پور کی سرحد پہ وسا پور کے دفاع کے لئیے تیار رہتی ہے۔
مغل سلطنت کے نواح میں کم وبیش اسی طرح لگ بھگ سو کے قریب مشرک (idolaters) راجوں کے ساتھ یہی معاملہ تھا۔ جن میں سے کچھ کی راجدھانیاں تو آگرہ اور دلی نزدیک واقع تھے ۔کچھ کی راجدہانیاں بہت زیادہ دور دراز واقع تھیں۔
جن میں سے پندرہ سولہ تو بہت زیادہ امیر اور طاقتور ہیں۔اور پانچ یا چھ راجے جیسے کہ رانا جوایک طرح کا راجوں مہاراجوں کا شہنشہاہ ہوتا ہے۔ اسکے بارے بیان کیا جاتا ہے کہ اسکا نسب۔ راجہ پورس ۔سے جا ملتا ہے ۔ اگر کوئی تین ایک مل جائیں تو مغل حکمران کے لئیے ایک بڑا درد سر بن سکتے ہیں۔کیونکہ ان میں سے ہر راجہ مغل فوج کی نسبت بہتر تربیت یافتہ بیس ہزار سوار کسی وقت بھی اکھٹے کرسکتا ہے ۔گھڑ سوار فوج کے ان سپاہیوں کو ۔راجپوت۔ کہا جاتا ہے۔یعنی ۔راجوں کے سپوت۔خاندانی پیشہ سپاہ گری باپ دادا کی طرح نسل در نسل انکے خون میں شامل ہے۔راجے مہاراجے انھیں اس شرط پہ زمینں عطا کرتے ہیں کہ بوقت ضرورت یہ گھوڑے کی پیٹھ پہ سوار ہوکر جنگ میں حصہ لیں گے۔۔ (۸٭)۔
اسکے علاوہ بلوچ ۔ افغان۔ کوہستانی۔ کی اکثریت بادشاہ یا مغل سلطنت کو کسی قسم کا خراج ادا نہیں کرتے اور مغل فرمانروا کو بلوچوں ۔ افغانوں اور کوہستانیوں کی طرف سے خراج نہ ادا کئیے جانے پہ کوئی خاص فکر بھی نہیں ہے۔(۹٭)۔
پٹھان بھی خراج ادا نہ کرنے والوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ جو مغلوں کے حملہ آور ہونے سے پہلے دلی اور اسکے بہت سی جگہوں پہ زیادہ طاقتور ہوچکے تھے۔ اور انہوں نے انگنت راجوں کو اپنا باجگزار بنا لیا تھا۔(۱۰٭)۔
کسی بھی ریاست کی طرف سے اپنی نو آبادیوں میں اضافہ کرنے کے لئیے ۔اس دور کے مشاہدات اور تجربات کے مطابق بہت سی باتوں کو مدِ نظر رکھنا پڑتا تھا۔تانکہ اسقدر دور اور اسقدر سرمایہ کاری کرنے کے بعد کم از کم کچھ نہ کچھ کامیابی حاصل ہوسکے ۔ فرانس میں متعدد مہمیں محض ناکافی معلومات کی وجہ سے ناکام ہوچکی تھیں۔تجرباتی منصوبہ بندی وقت کے ساتھ ”چارٹرڈ کمپینوں“ کے ذرئعیے دور دراز علاقوں تک پھیل گئی۔”انڈیا اورئنٹل“ نامی کمپنیاں بہت سے ممالک تک پھیل چکی تھیں۔ ”کیپ آف گڈ ہوپCape of Good Hope“۔ سے لیکر ۔ ” اسٹرائٹ آف میگیلین Strait of Magellan“۔ تک ان کمپنیوں کی مکمل اجارداری قائم ہوچکی تھی۔(۱۱٭)۔اس مشق کی وجہ سے مہم جوئی اور ایڈونچرازم کے شوق میں اضافہ ہوا۔ نتیجتاَ مبالغہ انگیز تعداد میں کمپنیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ افراد کی نسبتاَ ریاستیں زیادہ باخبر ہونےاور درست معلومات رکھنے کی وجہ سے اپنی نگرانی میں ایک ترجیجی کمپنی رکھتیں تھیں ۔ جبکہ ۱۶۰۰ء سولہ سو عیسوی اور ۱۷۸۹ء سترہ اننانوے عیسوی کے دوران صرف فرانس کے لئیے ۷۷ ستتر کمپنیوں کا پتہ چلتا ہے ۔اور سات ۷کمپنیاں صرف ”اورئنٹل انڈیا“ کے لئیے مخصوص تھیں ۔ جبکہ یہ فہرست ابھی مکمل نہیں۔۔(۱۲٭)۔دوسری طرف صورتحال سے مکمل آگہی اور وسائل صرف کبھی کبھار ایسے مواقع پیدا کرتے تھے کہ کوئی مثالی آبادکار کسی نو آبادی میں جابسے۔لیکن دور دیسوں میں جا بسنے کے لئیے ناپسندیدہ جرائم پیشہ افراد ۔جہالت اور یقین کے ہاتھوں عام طور پہ بحری جہازوں پہ سوار ہوجاتے تھے ۔ فرانس میں سے بنیادی طور پہ ۔”نوغمندیا۔ نارمنڈی۔ Normandía“۔ ”برطانیہ ۔برطانی۔ Bretaña “۔ ”پوئیتو Poitou “۔ ”سینت تونج Saintonge“ سے لوگ نوآبادیوں میں جا کر آباد ہوئے۔ یہاں تک کہ کولبیرٹ ان کوششوں کا کہ لوگ جا کر نوآبادیوں میں آباد ہوں۔ مگر اسکی انتھک کوششوں کا کوئی مثبت اور خاطر خواہ نتیجہ برآمدنہ ہوسکا ۔(۱۳٭)۔
(جاری ہے)

(7) BERNIER, ob. cit., pág. 194
(8) BERNIER, ob. cit., págs. 196 y 197.
(9) BERNIER, ob. cit., pág. 185.
(10) BERNIER, ob. cit., pág. 195.
(11) RiCH, E. E., y WiLSON, C. H., Historia Económica de Europa, t. IV; La Economía
de Expansión de Europa en los siglos XVI y XVII, versión de Javier García
Julve, Edit. de Derecho Privado, Jaén, 1977, pág. 351.
(12) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., ob. cit., pág. 390.
(13) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., ob. cit., pág. 390.

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

جمہوری مرغی، طوطی اور نقار خانہ۔


جمہوری مرغی، طوطی اور نقار خانہ۔

طوطی کی نقار خانے میں کون سنتا ہے۔ ویسے اس بات کی بھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ کہ طوطی کون تھا اور نقار خانے میں کیا کر رہا تھا ۔ کیونکہ یہ نفیس فطرت ، اصول پرست طوطی لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ اس چوں چوں کے مربے نقار خانے کا باسی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ طوطی رہتا ہی طوطیوں کے دیس میں ہو۔ جیسے طوطی خانہ ہوتا ہے۔ اور کسی دل جلے نے اسے "نقار خانہ ” کا نام دے دیا ہو۔ یا یہ بھی ممکن ہے یا یوں ہوا کہ طوطی نے نقار خانے میں جا گھونسلا بنایا ہو ۔اور اہل نقار خانہ کو اپنی سی سنانے پہ بضد ہواہو۔ ویسے طوطی کے اطوار نیک ۔ بال و پر اور پوشاک عمدہ اور سب سے بڑھ کر دل پاک اور زبان پاکیزہ تھی ۔واقعہ کچھ بھی رہا ہو مگر ایک دنیا کو یہ خبر ہوگئی کہ طوطی نقار خانے میں "اپنی سی "سناتا پھرتا تھا ۔مگر کوئی اس کی سننے پہ تیار نہ تھا ۔بات یہاں تک رہتی تو شاید طوطی بھی برادشت کر لیتا مگر نقار خانے میں دیگر قسم قسم کے چیل کوؤں اور چرخ چمگاڈروں یعنی اہل نقار خانہ نے طوطی کے وجود کو برداشت کرنے سے انکار کر دیا ۔اور نہ صرف طوطی کے وجود کو براداشت کرنے سے انکار کر دیا بلکہ طوطی نام کی جنس کے تمام طوطیوں کو برداشت کرنے سے انکار کر دیا جس پہ طوطی نے مجبور ہو کر اپنے ہم جنسوں کو نقار خانے کے ایک دوسرے حصے استھان میں جا بسنے کا مشورہ دیا اور خود بھی ان کے ساتھ جا بسا۔ طوطیوں کے حصے میں آنے والا استھان گھوڑوں گدھوں کے روایتی اصطبل یا استھان کی طرح نہایت درہم برہم اور بکھرا بسرا تھا ۔ہر طرف سے بے ترتیبی منتشر تھی ۔ اور گندگی کے ڈھیر تھے ۔ طوطیوں نے نیک صفت ۔دیانتدار طوطی کی رہنمائی میں نہائت محنت صبر اور شکر سے استھان یا استان کو رہنے سہنے کے قابل بنا لیا اور گندے استھان کو پاک استان میں بدلنے کی بھرپور کوشش کی ۔ اب اللہ کی حکمت کہ نیک اطوار ، پاک دل اور پاکیزہ اور یک زبان طوطی اللہ کو پیارا ہوگیا ۔ اور استھان کو باقی طوطیوں کے رحم و کرم پہ چھوڑ گیا ۔اسکے مرنے کے بعد کسی راہبر قسم کے طوطی کی عدم موجودگی میں طوطی بھی اپنی اپنی بولیوں کو لوٹ آئے ۔
اب طوطیوں کو نت نئی بولی بولنے کے علاوہ کوئی کام نہیں رہ گیا تھا۔بظاہر تو دانشور قسم کے طوطی مگر درحقیقت خبثِ باطن سے کُوٹ کُوٹ بھرے نمائیندوں اور رہنماؤں کے نام پہ ہر روز سر جوڑ کر بیٹھتے کہ استان کا نظام کس طور چلایا جائے ۔جبکہ بگلا بھگت اور بنگلہ بھگت قسم کےطوطی نت نئی بولیاں بولتے ۔اور اپنی بولی کو بزور زعم دوسروں کو سنانے اور انکی بولی پہ مسلط کرنے کی پوری کوشش کرتے۔ ۔ معصوم فطرت طوطی سارا سارا دن دانشور طوطیوں کی طرف منہ اٹھا کر بیٹھے رہتے ۔دن گزر جاتا ۔ رات آجاتی مگر طوطیوں کے بارے کوئی ایسا فیصلہ۔ کوئی ایسا حل سامنے نہ آتا ۔ جس سے بے چارے طوطی اپنے استان کو باقی دنیا کی مانند مستحکم رکھتے اور اس میں کوئی ایسا طریقہ جاری کرسکتے ۔ جس سے طوطیوں کی روز مرہ کی مشکل زندگی بہر طور گزر بسر سکتی۔
طوطیوں کے استان سے کچھ طویلے ۔اصطبلوں ۔ نقار خانوں اور دیگر چمن آرائیوں سے بھی آگے اور دور جو عام طوطیوں کے لئیے اتنی دور تھا کہ اسکا نام یا پتا ٹھکانہ کسی طوطی نے نہیں سنا تھا ۔اور دیکھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ایک بہت بڑے جزیرے پہ ایک خوفناک قسم کا اژدھا رہتا تھا۔جس کی عمر سو سال سے کہیں زائد تھی اور اسی بناء پہ وہ کوئی سا روپ اپنانے پہ قادر تھا۔ اور جسکا باطن ہر روپ میں خبث سے بہر طور لبیریز ہوتا ۔ اور اسکی اسی خوبی کی بناء پہ اس پہ شیطان تب سے مہربان تھا ۔ جب وہ اژدھا ابھی چھوٹا سا تھا جب اسکی عمر چند سال ہوگی کہ شیطانی قوتوں نے اسے اپنی گود لے لیا تھا اور جب سوسال سے زائد عمر ہوئی تو روپ بدلنے کی قدرتی خوبی کے ساتھ شیطان نے اسے ہر قسم کی شعبدہ بازی میں تاک کر دیا ۔ اور وہ اژدھا ایسے ایسے شعبدے دکھانے لگا کہ جن پہ اچھے اچھوں کو اصلی ہونے کا دہوکا ہوجاتا اور یہ دہوکہ تاحیات رہتا۔ جبکہ شعبدے صرف اور صرف دہوکہ ہوتے اور جن کی حقیقت محض فریب نظر کے سوا کچھ نہ ہوتی ۔ وہ اژدھا شعبدوں ۔دہوکے اور دھونس سے اپنے زہر سے آلودہ کرنے کے بعد اپنے زیر اثر دوسری چمن شاہیوں اور نقار خانوں کے ساتھ اتحاد کرلیتا ۔اور انہیں اپنا اتحادی بنا لیتا۔ اور جو چرند پرند ۔ یا چمن آرائیاں اور نقار خانے یا استان اسکے شعبدوں کو سمجھ جاتے اور اس کے دھوکے میں نہ آتے ۔ انھیں اپنے اتحادیوں اور شیطانی قوتوں کے بل بوتے پہ نہس تہس کردیتا۔ اور ایسا کئیے بغیر اسکا اپنا وجود خطرے میں پڑ جانے کا خطرہ تھا ۔کیونکہ شیطان کے ہاتھ بعیت ہوتے وقت شیطان کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ جب تک وہ دہوکے باز اژدھا دوسروں کو دہوکے دھونس سے زیر کر کے شیطانی ٹولے میں شامل کرتا رہے گا تب تک اژدھا اور اسکے جزیرے پہ اسکی شاہی قائم رہے گی اور باقی چمن آرئیوں ، نقار خانوں۔ طویلوں۔ اصطبلوں اور استھانوں پہ بھی اسکا دبدبہ قائم رہے گا۔
ادہر معصوم فطرت طوطیوں کے استان میں بنگلہ بھگت اور بگلا بھگت قسم کے رہنمائی کے دعویدار طوطیوں میں سے ایک بگلا بھگت طوطی۔ جو دیگر رہنماء اور دانشور قسم کے طوطیوں سے دوچار ہاتھ زیادہ چالاک چتر تھا ۔کو کسی طور اس خوفناک اور نہائت طاقتور اژدھے کی بھنک پڑی اور اس بگلہ بھگت نے اپنی بولی اور ٹیں ٹیں کو سب کو سنانے اور دیگر طوطیوں کی بولتی بند کرنے کے لئیے ۔ اژدھے کے پاس جانے اور امداد طلب کرنے کا ارداہِ خبث کیا۔ اژدھے کی تو باچھیں کھل گئیں اور رال معصوم طوطیوں کے نئے نئے استان پہ ٹپکنے لگی۔ بگلا بھگت طوطی اور اژدھا اور اژدھے کی شیطانی منڈلی سر جوڑ کر بیٹھے کہ کس طرح معصوم طوطیوں کو اپنے فریب اور شعبدوں کے زیر اثر کیا جائے۔ کیونکہ اگر اژدھا اپنی اصلی اور مکروہ شکل میں طوطیوں کے استان وارد ہوتا تو لازم تھا کہ طوطی لاکھ معصوم سہی مگر اپنے استان کی خاطر مرنے مارنے پہ اتر آتے ۔ اور اژدھے کی طوطیوں کو ایک ہی نوالے میں تر کرنے کی دال نہ گلتی۔ ایسے میں بگلہ بھگت طوطی نے ایک تجویز اژدھے اور اس کی منڈلی کو بتائی اور اژدھے سے گزارش کی کہ
"مائی باپ آپ کو تو ہر روپ بدلنے پہ قدرت ہے۔ طوطیوں کو اپنے ہمسائے میں نقار خانے کی چیل کوؤں سے سے ہمیشہ دھمکیاں وغیرہ ملتی رہتی ہیں اور بے سروسامان طوطی بے چارے سہم کر رہ جاتے ہیں ۔ ایسے میں آپ اژدھے کی بجائے ایک جسیم اور طوطیوں کے ہمدرد بلے کی صورت ہمارے استان آئیں اور بے وقوف سادہ دل طوطیوں کو انکے ہمسائے نقارخانے کی چیل کؤؤں کے مقابلے پہ اپنی ہیبت اور طاقت طوطیوں کے پلڑے میں ڈالنے کا تاثر دیں۔ اور اگر ہوسکے تو کچھ سامان حرب بھی بے سروسامان طوطیوں کے لئیے لائیں۔اور کچھ سامان ِ عیش نشاط خرانٹ قسم کے رہنما دانشور طوطیوں کے لئیے ساتھ لے آئیں ۔ اور میرے لئیے بس اور کچھ ہو یا نہ ہو آپ کا میرے لئیے اس بندوبست کا اہتمام اور سامان ہی کافی ہوگا کہ مجھے میری بولی ۔ بنگلہ بھگت طوطیوں اور دیگر بولیاں بولنے والے طوطیوں کو سنانے اور انکی بولتی بند کرنے کا کلی اختیار ہوگا۔ ”
بگلہ بھگت کی یہ تجویز سن کر اژدھے کی پہلے سے کھلی باچھیں اور کھل اٹھیں۔ (یہ الگ بات ہے کہ طوطیوں کے استان پہ اپنا شیطانی اثر رسوخ جمانے کے بعد بگلہ بھگت طوطی کچھ سال دو سال بعد اژدھے کے ایک ہی نوالے میں پہلاشکار ہوگیا۔ اور استان کے ہمسائے نقار خانے کی چیل کوؤں نے اژدھے کی مکاری سے شہ پاتے ہوئے بنگلہ بھگت طوطیوں کا گھونٹ ایک ہی بار بھرتے ہوئے آدھے استان پہ قبضہ جما لیا) ۔آناََ فاناََ بگلا بھگت طوطی کی تجویز پہ عمل کیا گیا۔ وہ دن اور آج کا دن طوطیوں کا بے ضرر وجود ہے اور دہوکے باز اژدھے کا منہ جس کے ذریعئے معصوم طوطی اپنا وجود برقرار رکھنے کی خاطر جدو جہد میں ظالم اژدھے کی شیطان ہوس کا شکار ہورہے ہیں۔
اژدھے نے نہائت شاطر طریقے سے محافظ بلے کا روپ دھارا اور طوطیوں کو زندہ رہنے کے نت نئے گُر سکھانے کے نام پہ شیطانی مطالبات کے لئیے راہ ہموار کرنے لگا ۔ خرانٹ اور رہنماء قسم کے تقریبا ََ سبھی طوطی پہلے ہی ہلے میں اژدھے کے سامان عیش عشرت اور کام و دہن کے ساتھ ساتھ دیگر طوطیوں پہ ظلم و ستم روا رکھنے کے اختیار پہ اژدھے اور اسکی شیطانی قوتوں کے اسیر ہوگئے۔ چند ایک ہی رہنماء قسم کے طوطی اژدھے کے شعبدوں کا شکار نہیں ہوئے ہونگے ۔ جن کے بارے بھی وسوخ سے نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں بھی ان طوطیوں کی نیت کا اثر ہے یا اژدھے کی کوئی چال ہے ۔جبکہ طوطیوں کی اصل طاقت جو معصوم اور لاتعداد اور انگنت طوطیوں کی صورت میں تھی۔ اسے قابو کرنے کے لئیے اژدھے نے جو طوطیوں کے ہمدرد اور دوست بلے کا روپ دھارے ہوئے تھا۔ اس مکار بلے نے اپنی شیطانی رسوخ سے طوطیوں کے وجود سے ایسے ایسے اصیل مرغے کشید کئیے۔ جو در حقیقت اژدھے کے تخم کی وجہ سے اس کی نسل کے مطابق خود چھوٹے موٹے سانپ تھے۔ مگر اصیل مرغوں کا روپ دھارے ہوئے تھے۔ اور انکا روپ و رنگت طوطیوں سے مشابہ تھی ۔جنھیں رہنماء اور حقیقی طوطی سمجھ کر طوطی اپنا سب کچھ ان پہ نچھاور کرتے رہے ۔ اور اپنا پورا اختیار انھیں سونپ دیتے ۔ اور جہاں کہیں طوطی اڑی کرتے ۔ نسلی سنپولئیے جو اصیل مرغوں کی ماند ہر وقت اپنی قلغی پھولائے رہتے اور چھاتی تان کر چلتے۔ وہ آگے بڑھ کر طوطیوں کا اختیار بجائے خود سنبھال لیتے۔ اور طوطیوں کو مار مار کر انکی درگت بنا دیتے۔ جب بلے نے نے دیکھا کہ طوطی اصیل مرغوں کو بھی آنکھیں دکھانے کے قابل ہوگئے ہیں۔ تو اس نے اختیار کا کام کچھ مرغیوں کو سونپا ۔ مرغیاں جو روپ رنگ میں طوطیوں سے مشہابت رکھتیں تھیں ۔ مگر درحقیت اژدھا زادیاں تھیں ۔ اژدھا جس نے طوطیوں کے دیس میں محافظ بلے کے طور اپنا سر گھسیڑ رکھا تھا اور من پسند طوطیوں کو تر نوالہ بنانے کے ساتھ ساتھ شیطان کی شرطوں کے عین مطابق ہر اس رواج اور رسم کو پروان چڑھا رہا تھا جس سے طوطیوں کے معصوم جسموں میں تن حرامی ، منافقت۔ جھوٹ۔ ہیراپھیری۔ ریاکاری۔ دہوکہ دہی۔ فریب۔ جہالت۔ الغرض ہر شیطانی عادت عام ہو۔اژدھے نے کچھ سال قبل جمہوریت نامی مرغی طوطیوں کے سر منڈھ رکھی ہے ۔جس کے بطن سے اژدھے کے شیطانی انڈے پیدا ہورہے ہیں۔ بھولے طوطی جمہوریت نامی مرغی کو روز ادہر ادہر کر دیکھتے ہیں کہ شاید جمہوری انڈوں کوئی اصلی قسم کا اصلی ۔ نسلی اور حلالی طوطی برآمد ہوا ہو مگر جمہوریت نامی مرغی کے انڈوں سے ایک سے بڑھ کر ایک شاہ ناگ اور راجا ناگ جنم لے رہاہے۔جو شکل صورت میں تو طوطیوں سے ملتے جلتے ہیں ۔ مگر ان کے باطن میں شیطان نے اژدھے کی وساطت سے اپنا تخم داخل کر رکھا ہے۔ اب طوطیوں کا یہ عالم ہے کہ وہ ہر قسم کی منافقت ۔ جھوٹ ۔ ہیراپھیری ۔ دہوکہ دہی ۔ اور تمام لعنتوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے انکھیں بند کئیے ۔کانوں میں انگلیاں ٹھونسے ۔ سانس روکے ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ اصیل مرغوں اور جمہوریت نامی مرغی کے گندے انڈوں کے غلیظ چھلکے اور شیطانی تخم سے جنم لینے والے سنپولئیے انکے استان کو غلیظ نہیں کر رہے ۔ یہ انکے استان کی داستان نہیں جیسے شاید کسی دور دیس کا کوئی واقعہ ہو۔
ویسے تو اس نقار خانے یا استان میں سبھی طوطی اپنی اپنی بولی سے وہ شور مچاتے ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی مگر طوطیوں کو پھر بھی گلہ ہے کہ نقار خانے میں انکی کوئی نہیں سنتا۔طوطی سارا سارا دن دانہ روزی کے لئیے سب لعنتیں برداشت کرتے ہیں ۔ ہر ذلت سہتے ہیں ۔ ایک سے ایک بڑھ شاہ اور راجا قسم کے سنپولئیوں کو بھگتتےہیں ۔ مگر مجال ہے اپنے پہ ہونے والے ظلم پہ آواز اٹھاتے ہوں ۔ اگر اسمیں بلے کا روپ دھارے اژدھے اور شیطان کا قصور ہے تو ظلم برداشت کرنے اور اس پہ احتجاج نہ کرنے پہ طوطیوں کا قصور اژدھے۔ بلے اور شیطان کے ظلم سے بڑھ کر ہے۔
۔ بے چارے بھولے طوطی!!!

Javed Gondal Barcelona Spain جاوید گوندل ، بآرسیلونا ۔اسپین ۲۳ جون دو ہزار بارہ ۲۰۱۲ء

 
 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

 
%d bloggers like this: