صحن ميں نيم کے پيڑ پہ چڑيوں کے جاگنے کا شور ، صبح صادق نماز پڑھتے ہی مکھن نکالنے کے ليئے چٹوری ميں مداھنی سے دھی کے بلونےکی آواز ، مکئی يا باجرے کی روٹی پہ بھوری بھينس کے مکھن کاتازا پيڑہ اور رات کے بچے ساگ کے ساتھ لسّی کا کٹورا ، کچہ دير سستانے کے لئيے ہل چھوڑ کر “نے” منہ ميں دبائے حقہ گڑگڑاتے کسان ، چلچلاتي دھوپ ميں ٹاہليوں( شيشم) کے جھنڈ ميں گرم دوپہر کو بولتے جھينگر ، کيکر کے تنے سے چپکے چھپکلے ، سخت دوپہر ميں بيری کے درختوں کے ساتھ چلتی کچی راہگزر پہ ايک آدھ راہي کا گزرنا ، ڈيرے پہ گرمي سے پھنکارتيں بھينسيں ، کپڑے سے ڈھکی چنگير ميں گاؤں کے تندور (تنور) کي پکي تازہ روٹيوں کي بھيني بھيني خوشبو اور سالن ،دال، سبزي، اچار، چٹني اور ساتھ لسي کا دور ،گھروں کے کچے صحنوں پہ پاني کے چھڑکاؤ سے اٹھتی مٹي کي سوندھي سوندھی خوشبو ، گھڑونچی پہ پڑے گھڑے ، بالٹي ميں ٹھنڈے پانی ميں رکھے آم ، بوڑھے پيپل کے نيچے رہٹ (کنويں) پہ گھومتے بيل اورٹھنڈے پانی کی دور تک جاتی کھالی ، ڈيزل انجن پہ چلتی آتا پيسنے کی چکی کی ايک خاص تسلسل سے آتی مخصوص آواز ، گاؤں کی بھٹی سے بھنوائے مکئی کے دانے اور گڑ ، دن ڈھلے کشتي اور کبڈی کے مقابلے ، شام ڈھلے کچے گھروں سے اٹھتا دہواں ، گھروں اور ڈيروں کو واپس لوٹتے ڈھور ڈنگر ، ارد گرد کے کھيتوں سے ”شب خون،، مار کر حاصل کیے گیے ٹھنڈا کرنے کی خاطر کپڑے میں باندھ کر کھالے کے اندر لٹکائے گئے تربوز۔ الغرض کوئی کہاں تک بتائے زندگی بڑی ظالم شئے کا نام ہے یہ صرف آگے بڑھنے کا نام ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے والے پتھر کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ شايد ايسے ہی کسی موقعے کے لئيے ناصر کاظمی نے کہا تھا
کچھ اس ادا سے دکھايا ہے تيری ياد نے دل
وہ لہر سی جو رگ و پے ميں تھی پلٹ آئی
خبر نہيں وہ ميرے ہمسفر کہاں پہنچے
کہ راہگزر تو ميرے ساتھ ہی پلٹ آئی