RSS

Tag Archives: زمینوں

کولبیرٹ ازم ۔ برصغیر ہندؤستان۔ اور برئنیر رپورٹ۔تیسری قسط


کولبیرٹ ازم ۔ برصغیر ہندؤستان۔ اور برئنیر رپورٹ۔تیسری قسط


فرانسسکو برنئیر لکھتا ہے۔(ہندؤستان میں) وراثتی بندوبست ایک قانون کے درجے کے طور تسلیم کیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں امراء منصب دار ۔ یعنی نسبتا چھوٹے امراء مغل  فرمانروا (بادشاہ) کو وراثت میں ملتے ہیں۔ جو بادشاہ سے وظیفہ پاتے ہیں۔
اسی وراثتی بندوبست کے تحت ناج اگانے والی کچھ زمینوں اور باغات پہ رعایا کویہ اجازت ہے کہ وہ ان زمینوں کی خریدو فروخت کرسکیں یا وراثت کے طورپہ ملنے والی زمین کو آپس میں تقسیم کر سکیں ۔ اسکے علاوہ شہنشہاہی بندوبست کی کل زمین بادشاہ کی ملکیت ہے۔ برنئیر ۔ کولبیرٹ کو مخاطب کرتے لکھتا ہے۔”آپ اس نتیجے پہ پہنچیں گے کہ کہ یہی نہیں کہ ہندؤستان میں سونے اور چاندی کی کانیں نہ ہونے کے باوجود ۔ ملک میں بہت بڑی مقدار میں سونا اور چاندی موجود ہے ۔ بلکہ اسکے علاوہ مغل فرماں روا کے پاس بہت سے قیمتی خزانے ہونگے۔ (۷٭)۔
مزید براں ۔برنئیر کے اس بیان میں فرانس کے لئیے ان مالی اور سماجی مسائل کی نشاندہی کا بھی ذکر ملتا ہے۔ جواگر فرانس کو ہندؤستان کو اپنی نوآبادی بنانے میں دلچسپی ہونے کی صورت میں۔ ہندؤستان کو نو آبادی بنانے کی ایسی کسی کوشش کے نتیجے میں نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں ۔ ان مسائل کے پس منظرمیں مختلف النوع کی وجوہات ہیں۔ جن کی وجہ سے عظیم مغل سلطنت پہ حکمرانی قائم کرنے میں بہت مشکلات حائل ہیں۔ اور خاصکر اس صورت میں جب انگریز شہزادوں اور مقامی حاکموں سے اپنے مفادات طے کر رہے ہوں۔اس ساری حوصلہ شکن صورتحال اور بیان کردہ نہ قابل قبول حالات کی وجہ سے سونا ہندؤستان سے باہر نہیں جا پاتاتھا۔ اس سے برصغیر ہندؤستان کی مختلف النوع قسم اور دلچسپ ہیبت ترکیبی کا پتہ چلتا ہے۔
برنئیر کی رپوٹ سے مندرجہ ذیل نتیجہ سامنے آتاہے۔
۱)۔ہندؤستان کی زمین کا ایک حصہ پتھریلا ہے ۔ کم زرخیز پہاڑ ہیں جہاں بہت کم کاشتکاری ہوتی ہے۔ اور (اسی وجہ سے) آبادی بہت کم ہے۔
۲)۔ انتہائی زرخیز زمین جو افرادی قوت نہ ہونے کی وجہ سے غیر آباد ہیں۔
۳)۔بہت سے کسان مقامی حاکموں (گورنرز) کے مظالم کا شکار ہیں اور جان سےجاتے ہیں۔ عام طور پہ مقامی حاکموں(گورنرز) نے انہیں انتہائی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم کر رکھا ہے یہاں تک کہ جب ماں باپ لگان ادا نہ کر سکیں یا حاکموں کی احکام سے رد گردانی کریں تو انکے بچوں کو چھین لیتے ہیں۔ جنہیں غلام بنا لیا جاتا ہے۔
۴)۔ اندرونی نقل مکانی۔ بہت سے کسانوں نے مایوس ہوکر کھیتوں کو خیر آباد کہہ کر اجرت پہ مزدوری کرنے کو ترجیج دیتے ہوئے شہروں کا رخ کیا۔ جہاں انہوں نے سقہ (بہشتی یعنی ماشکی) اور پانڈی (وزن ڈھونے والوں) کا پیشہ اپنا لیا۔ یا پھر فوج میں بھرتے ہوگئے۔اورکچھ دوسری راجدھانیوں کو بھاگ گئے۔ جہاں ظلم و ستم نسبتاَ کم تھا۔
۵)۔ بہت سی ریاستیں اور قومیں ایسی ہیں جہاں کے حکمران مغل نہیں۔ اور ایسی ریاستوں اور قوموں کے سربراہ مغلوں کے احکامات ماننے سے انکاری ہیں اور خراج نہیں دیتے یا ان سے بہ جبر لگان وصول کیا جاتا ہے۔ یا پھر وہ ریاستیں ہیں جو نہ ہونے کے برابر خراج دیتیں ہیں۔ اور آخر میں وہ قومیں یا ریاستیں آتی ہیں۔ جو مغل سلطنت سے امداد لیتی ہیں۔
۶)۔ وہ ریاستیں جو خراج ادا نہیں کرتیں۔ وساپور Visapur کا باشاہ کسی قسم کا خراج نہیں ادا کرتا اور ہمیشہ مغل سلطنت سے جنگ آزماء رہتا ہے۔
جسکی۔ ۵ ۔درذیل وجوہات ہیں۔
الف)۔وسا پور کے حکمران کے پاس خاصی تعداد میں افواج ہونے کی کی وجہ۔
ب)۔ وسا پور سے دہلی اور آگرہ خاصے دور ہونے کی وجہ سے۔
ج)۔ اس حکمران کے پاس انتہائی مضبوط قلعہ ہے۔جس کو سر کرنا انتہائی دشوار اور کھٹن ہونے کی وجہ سے۔
د)۔ حملہ آوار افواج اور بابرداری کے جانوروں کے لئیے رستے میں چارہ اور پانی ملنے کی کوئی صورت نہ ہونے کی وجہ سے۔
اسکے علاوہ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ بہت سے راجے۔ وساپور Visapur کے مشترکہ دفاع کے لئیے اسکے حکمران کے ساتھ اتحاد کر لیتے ہیں۔مثال کے طور پہ مشہور و معروف۔ شیو جی ۔ جس نے کچھ عرصہ قبل۔ سُورت ۔کی بندرگاہ کو لوٹا اور جلادیا ۔
گولکنڈاہ کا طاقتور حکمران بھی مغل سلطنت کو کسی قسم کا خراج ادا نہیں کرتا۔ جو خفیہ طور پہ وسا پور کے راجہ کی مالی معاونت کرتا تھا اور ہمیشہ اسکی ایک فوج ضرورت پڑنے پہ ۔وسا پور کی سرحد پہ وسا پور کے دفاع کے لئیے تیار رہتی ہے۔
مغل سلطنت کے نواح میں کم وبیش اسی طرح لگ بھگ سو کے قریب مشرک (idolaters) راجوں کے ساتھ یہی معاملہ تھا۔ جن میں سے کچھ کی راجدھانیاں تو آگرہ اور دلی نزدیک واقع تھے ۔کچھ کی راجدہانیاں بہت زیادہ دور دراز واقع تھیں۔
جن میں سے پندرہ سولہ تو بہت زیادہ امیر اور طاقتور ہیں۔اور پانچ یا چھ راجے جیسے کہ رانا جوایک طرح کا راجوں مہاراجوں کا شہنشہاہ ہوتا ہے۔ اسکے بارے بیان کیا جاتا ہے کہ اسکا نسب۔ راجہ پورس ۔سے جا ملتا ہے ۔ اگر کوئی تین ایک مل جائیں تو مغل حکمران کے لئیے ایک بڑا درد سر بن سکتے ہیں۔کیونکہ ان میں سے ہر راجہ مغل فوج کی نسبت بہتر تربیت یافتہ بیس ہزار سوار کسی وقت بھی اکھٹے کرسکتا ہے ۔گھڑ سوار فوج کے ان سپاہیوں کو ۔راجپوت۔ کہا جاتا ہے۔یعنی ۔راجوں کے سپوت۔خاندانی پیشہ سپاہ گری باپ دادا کی طرح نسل در نسل انکے خون میں شامل ہے۔راجے مہاراجے انھیں اس شرط پہ زمینں عطا کرتے ہیں کہ بوقت ضرورت یہ گھوڑے کی پیٹھ پہ سوار ہوکر جنگ میں حصہ لیں گے۔۔ (۸٭)۔
اسکے علاوہ بلوچ ۔ افغان۔ کوہستانی۔ کی اکثریت بادشاہ یا مغل سلطنت کو کسی قسم کا خراج ادا نہیں کرتے اور مغل فرمانروا کو بلوچوں ۔ افغانوں اور کوہستانیوں کی طرف سے خراج نہ ادا کئیے جانے پہ کوئی خاص فکر بھی نہیں ہے۔(۹٭)۔
پٹھان بھی خراج ادا نہ کرنے والوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ جو مغلوں کے حملہ آور ہونے سے پہلے دلی اور اسکے بہت سی جگہوں پہ زیادہ طاقتور ہوچکے تھے۔ اور انہوں نے انگنت راجوں کو اپنا باجگزار بنا لیا تھا۔(۱۰٭)۔
کسی بھی ریاست کی طرف سے اپنی نو آبادیوں میں اضافہ کرنے کے لئیے ۔اس دور کے مشاہدات اور تجربات کے مطابق بہت سی باتوں کو مدِ نظر رکھنا پڑتا تھا۔تانکہ اسقدر دور اور اسقدر سرمایہ کاری کرنے کے بعد کم از کم کچھ نہ کچھ کامیابی حاصل ہوسکے ۔ فرانس میں متعدد مہمیں محض ناکافی معلومات کی وجہ سے ناکام ہوچکی تھیں۔تجرباتی منصوبہ بندی وقت کے ساتھ ”چارٹرڈ کمپینوں“ کے ذرئعیے دور دراز علاقوں تک پھیل گئی۔”انڈیا اورئنٹل“ نامی کمپنیاں بہت سے ممالک تک پھیل چکی تھیں۔ ”کیپ آف گڈ ہوپCape of Good Hope“۔ سے لیکر ۔ ” اسٹرائٹ آف میگیلین Strait of Magellan“۔ تک ان کمپنیوں کی مکمل اجارداری قائم ہوچکی تھی۔(۱۱٭)۔اس مشق کی وجہ سے مہم جوئی اور ایڈونچرازم کے شوق میں اضافہ ہوا۔ نتیجتاَ مبالغہ انگیز تعداد میں کمپنیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ افراد کی نسبتاَ ریاستیں زیادہ باخبر ہونےاور درست معلومات رکھنے کی وجہ سے اپنی نگرانی میں ایک ترجیجی کمپنی رکھتیں تھیں ۔ جبکہ ۱۶۰۰ء سولہ سو عیسوی اور ۱۷۸۹ء سترہ اننانوے عیسوی کے دوران صرف فرانس کے لئیے ۷۷ ستتر کمپنیوں کا پتہ چلتا ہے ۔اور سات ۷کمپنیاں صرف ”اورئنٹل انڈیا“ کے لئیے مخصوص تھیں ۔ جبکہ یہ فہرست ابھی مکمل نہیں۔۔(۱۲٭)۔دوسری طرف صورتحال سے مکمل آگہی اور وسائل صرف کبھی کبھار ایسے مواقع پیدا کرتے تھے کہ کوئی مثالی آبادکار کسی نو آبادی میں جابسے۔لیکن دور دیسوں میں جا بسنے کے لئیے ناپسندیدہ جرائم پیشہ افراد ۔جہالت اور یقین کے ہاتھوں عام طور پہ بحری جہازوں پہ سوار ہوجاتے تھے ۔ فرانس میں سے بنیادی طور پہ ۔”نوغمندیا۔ نارمنڈی۔ Normandía“۔ ”برطانیہ ۔برطانی۔ Bretaña “۔ ”پوئیتو Poitou “۔ ”سینت تونج Saintonge“ سے لوگ نوآبادیوں میں جا کر آباد ہوئے۔ یہاں تک کہ کولبیرٹ ان کوششوں کا کہ لوگ جا کر نوآبادیوں میں آباد ہوں۔ مگر اسکی انتھک کوششوں کا کوئی مثبت اور خاطر خواہ نتیجہ برآمدنہ ہوسکا ۔(۱۳٭)۔
(جاری ہے)

(7) BERNIER, ob. cit., pág. 194
(8) BERNIER, ob. cit., págs. 196 y 197.
(9) BERNIER, ob. cit., pág. 185.
(10) BERNIER, ob. cit., pág. 195.
(11) RiCH, E. E., y WiLSON, C. H., Historia Económica de Europa, t. IV; La Economía
de Expansión de Europa en los siglos XVI y XVII, versión de Javier García
Julve, Edit. de Derecho Privado, Jaén, 1977, pág. 351.
(12) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., ob. cit., pág. 390.
(13) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., ob. cit., pág. 390.

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

کولبیرٹ ازم ۔ برصغیر ہندؤستان۔ اور برئنیر رپورٹ۔ دوسری قسط ۔


کولبیرٹ ازم ۔ برصغیر ہندؤستان۔ اور برئنیر رپورٹ۔دوسری قسط

دوسری قسط
فرانسسکو برنئیر لکھتا ہے۔(۱٭)۔ ” آرچ بشپ ! ہندوستان میں مجھے پتہ چلا ۔ جہاں میں ترک وطنی کے بارہ سال رہ کر واپس فرانس واپس آیا ہوں ۔ کہ آپ نے اپنی دیکھ بھال اور نگرانی میں فرانس کےلئیے جس مہم کا آغاز کیا ہے۔وہ آپ کے باوقار نام کی مرہونِ منت ہے۔جس بارے بخوبی تفضیلی بات کی جاسکتی ہے مگر میں یہاں بات چیت کو صرف دو نئے امور تک محدود رکھوؤنگا۔ وہ باتیں جو سب کے علم ہیں۔ ان باتوں سے گریز کرتے ہوئے۔ یہاں میں میں آپکو صرف ان باتوں سے مستفید کرؤنگا جن سے آپ کو ہندوستان کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ جیسے کہ میں نے اسکا وعدہ کیا تھا “(۲٭)۔برنئیرکی نفسیاتی حقیقت اس ”تہمید“ میں واضح ہوجاتی ہے جو وہ آرچ بشپ کی نذر کرتا ہے۔ برنئیر لکھتا ہے کیونکہ ”ہندؤستان میں یہ رسم عام ہے کہ کار اقتدار و اختیار اور بڑے آدمیوں کے پاس تحفوں کے بغیر خالی ہاتھ نہیں جاتے ۔“اور برنئیر بادشاہ کے پاس خالی ہاتھ اور نہ ہی آرچ بشپ کے پاس خالی ہاتھ جانا چاہتا ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ماسوائے اس تعریف بھری تہمید کے ۔ برنئیر بادشاہ اور آرچ بشپ کی نذر کوئی تحفہ نہیں کرتا ۔ برنئیر گویا ہے ۔” آرچ بشپ ! مجھے ۔غزل خان ۔ سے بڑھ کر بادشاہ (لوئس چہاردہم) سے عقیدت ہے ۔میری اس تہمید (تعریف) کا مقصد بادشاہ (لوئس چہاردہم) کی کونسل (دربار) میں آپ کا مقام۔ آپکی کوششیں اور آپ کا وہ محسورکن کردار جو آپ نے فرانس کے لئیے ادا کیا ہے جو میں نے فرانس واپس آنے کے بعد فرانس میں محسوس کیا ہے۔فرانس سے باہر جانے سے پہلے معاملات اس قدر الجھے ہوئے تھے کہ میں سمجھتا تھا کہ اس سارے نظام کو درست کرنا کبھی بھی ممکن نہیں ہےمگر واپسی پہ فرانس میں نظام(حکومتی اور معاشی ) کو نہائت موثر پایا ہے۔ یہ آپکی محنت ہے کہ آج دنیا کے آخری کونے تک ہمارے بادشاہ کی عظمت جانی جاتی ہے“۔(۳٭)۔
ماروئیس نے نہائت مختصر اورموثر الفاظ میں کولبیرٹ کی نگرانی میں ہونے والی فرانس کی اقتصادی اور معاشی حالت پہ نظر ڈالی ہے۔”کولبیرٹ کا بینادی مقصد یہ تھا کہ باقی دنیا سے سونا اور چاندی کو فرانس کے لئیے حاصل کیا جائے۔ (کیونکہ کولبیرٹ کے نزدیک حقیقی دولت صرف سونا اور چاندی کو ہی کہا جاسکتا تھا)۔اور وہ کس طرح سے ؟۔
الف)۔ روزگار کے مواقع کو ترقی دے کر۔ جو روحانی و دنیاوی امارت کا ذریعہ سمجھا گیا۔ فرانس کے امراء اور بادشاہت کے اعمال جو دولت یابڑی جائدادوں کے ذریعئے اپنی مرضی کا لگان یا کرایہ وصول کرتے تھے انکے مقام اور مرتبے کو کم کرتے ہوئے فرانس میں پہلی دفعہ زراعتی اور صنعتی پیداوار کرنے والوں کو فرانس میں کولبیرٹ نے انکا جائز مقام دیا اور انھیں باعزت جانا گیا۔
ب)۔ اقتصادی اصلاحات کے ذریعے۔ چونکہ کولبیرٹ خود بھی مرچنٹ تاجر تھا اس نے سونا چاندی کے لئیے حفاظتی نرخ نافذ کئیے اور سونا چاندی فرانس سے باہر لانے پہ کچھ اسطرح سے ٹیکس لگائے تانکہ سونا اور چاندی ملک سے باہر لے جانے کی حوصلہ شکنی ہو خواہ سونا اور چاندی تجارتی مقاصد کے لئیے دوسرے ممالک سے کچھ منگوانے کے لئیے ہی کیوں نہ چاہیے ہو۔
ج)۔ قانونی اصلاحات کے ذریعے ۔ صنعتوں کو دفاتر کے مختلف شعبوں سے کنٹرول کرنے کی بجائے ریاست (فرانس) پہ فرض کیا کہ سارے ملک میں صنعتوں کو ایک نظام میں لائے اور اسکے معاملات کی نگرانی کرے ۔(۴٭)۔
ہندوستان کی لمبائی چوڑائی ۔ زمینوں کی بے حد زرخیزی۔ ہندوستان کے عوام ۔ فصلوں اور دست کاری کے بارے بیان کرنے کے بعد برنئیر مقامی لوگوں کے بارے لکھتا ہے۔”طبعی طور پہ نہائت سست اور کاہل ہیں۔ قالین بافی ، کشیدہ کاری ۔ کپڑے پہ سونے اور چاندی کی کڑھائی ۔ سونے اور چاندی کے کام سے ریشمی کپڑا تیار کرنے والے۔ ریشم کے عام کپڑے اور سوتی کپڑا تیار کرنے والے ۔ اس وقت تک کام کی طرف مائل نہیں ہوتے جب تک انھیں کام کرنے کی ضرورت یا کوئی خاص وجہ درپیش نہ ہو خواہ وہ اسے مقامی استعمال کے لئیے یا ہندوستان سے باہر دوسرے ممالک کو بھیجنے کے لئیے تیار کرتے ہوں ۔(۵٭)۔
برنئیر کے ہاں بنیادی طور پہ سونے کی بہت اہمیت نظر آتی ہے ۔اور وہ سونے کی عالمی نقل حرکت کی وضاحت کرتا ہے کہ کس طرح سونے کا سفر ہندوستان پہنچ کر رک جاتا ہے ( برنئیر کے الفاظ میں ہندوستان سونے کا مدفن ہے یعنی سونا ہندوستان پہنچ کر دفن ہوجاتا ہے)۔کیونکہ ایک دفعہ سونا ہندوستان میں پہنچ کر واپس باہر نہیں آتا۔ اسلئیے ضروری ہےکہ سونے کے سفر اور اور سونے کے اس سفر کے مختلف رستوں کا بغور جائزہ لیا جائے ۔تانکہ یہ بات سمجھی جاسکے کہ ہندوستان کا سونا کیوں کم نہیں ہوتا ۔ برنئیر مزید وضاحت کرتا ہے ۔”اسکی قدرتی وجہ ہندوستان کی پیداوار اور مصنوعات ہیں۔ جو سونے کو مقناطیسی کشش کی طرح خود بخود ہندوستان کی طرف کھینچ لیتی ہیں ۔
براعظم امریکہ سے یورپ سونا پہنچ کر :۔ (الف)۔ ایک بڑا حصہ ترکی پہنچ جاتا ہے ۔ (ب)۔ دوسرا بڑا حصہ براستہ اسمیرنا (ترکی کے شہر ۔ازمیر۔ کا لاطینی نام) ریشم کی خریداری کے بدلے ایران پہنچ جاتا ہے۔
اس سفر کے دوسرے مرحلے میں اس سونے کا چاندی کاایک بڑا حصہ یمن اور جزیرۃالعرب (موجودہ سعودی عرب ۔ بحرینَ۔ عرب امارات۔ اردن۔ کویت۔ اومان۔ قطر۔ یمن ۔عراق کا کچھ حصہ اور ملک شام کا کچھ حصہ) سے ترکی میں عام رائج مشروب ۔ قہوہ ۔ منگوانے کے بدلے میں یمن اور جزیرہ العرب پہنچ جاتا ہے۔اور دوسری طرف اور ایک ہی وقت میں یہ ممالک ہندوستان کی مصنوعات منگوانے کے لئیے سونے اور چاندی کو بصرہ بھیجتے ہیں جو خلیج فارس کے انتہائی سرے پہ واقع ہے۔ یا پھر ھرمیز (ہرمز شہر کی تصویر) کے نزدیکی شہر بندرعباس بھیجا جاتا ہے ۔ وہاں ہر سال مون سون کے موسم میں وہ بحری جہاز اور کشتیاں جو ہندوستانی مصنوعات لیکر آتی ہیں وہ واپسی پہ اس سونے میں سے سونے اور چاندی کا ایک بڑا حصہ برصغیر ہندوستان لے جاتی ہیں۔
سونے چاندی کے ہندوستان پہنچنے کی دوسری بڑی وجہ بھی انہی بندرگاہوں سے وہ ہندوستانی ۔ ولندیزی ۔ انگلستانی ۔ اور پرتگیزی بحری جہاز ہیں جو بلا تفریق۔ سارا سال برصغیر سے (باگو یا تھائی نام پیگو اور تانہ ساری موجودہ برما یا میانمار)۔ سیام (تھائی لینڈ)۔ سیلون (سری لنکا) ۔آشیم ۔ نکسر ۔ مالدیپ ۔ موزمبیق اور وہاں سے زنگبار (تنزانیہ) جہاں تجارت کے بہت سے مواقع ہیں۔وہاں سے واپسی پہ سونے اور چاندی کے ساتھ ہندؤستان پہنچتے ہیں ۔ جہاں سے سونا اور چاندی مغل بادشاہ کے دربار پہنچ جاتا ہے۔

Pegu, Tanasseri, Siam, Ceilán, Achem, Nacassar, las Maldivas, Mozambique, Zamzibar

جاپان میں سونے کی کانوں سے ولندیزی سونے کی بڑی مقدار کی شکل میں بہت منافع کماتے ہیں۔ جلد یا بدیر اس سونے کی منزل ہندوستان ہوتی ہے۔ آخر کار پرتگیزی اور فرانسیسی جو سونا اور چاندی لیکر ہندوستان جاتے ہیں ۔ وہ ہندوستان سے سونے چاندی کے بدلے میں مال لیکر اپنے ملکوں کو واپس آتے ہیں۔
یہ سب جاننے کے بعد کولبیرت نے فوراً تجارتی اصلاحات نافذ کیں جیسا کہ کولبیرٹ (فرانسیسی زبان میں ”کولغبیت“) اسکے بیان اور خط سے پتہ چلتا ہے ۔ کولبیرٹ اس واضح نتیجے پہ پہنچتا ہے کہ ہندؤستان کو مندرجہ ذیل اشیاء کی ضرورت ہے ۔
۱)۔ تانبہ۔ جائفل ۔ دارچینی ۔ ہاتھی اور وہ اشیائے مصرف جو جاپان سے ۔ ملاکوس جزائر سے۔ سری لنکا ۔اور یوروپ سے سے ولندیزی اپنے جہاذوں پہ لے کر ہندوستان جاتے تھے ۔
۲)۔ جست جو انگلستان فراہم کرتا تھا۔
۳)۔ کپڑا اور دیگراشیاء فرانس سے ۔
۴)۔ ازبک گھوڑے ۔ جہاں سے ہر سال پچیس ہزار ۲۵۰۰۰ سے زائد گھوڑے ہندوستان منگوائے جاتے تھے۔
۵)۔اسی طرح ایک بڑی تعداد میں گھوڑے ایران سے براستہ قندھار اور ایتھوپیا سے ہر سال منگوائے جاتے ۔عرب سے بھی گھوڑے منگوائے جاتے۔موکا ۔ بصرہ اور بندر عباس سے بھی بحری جہازوں سے گھوڑے منگوائے جاتےتھے۔
۶)۔ ثمر قند۔ بخارا ۔ بالی ۔ اور ایران سے سے بے شمار قسم کے تازہ پھل۔ گرما۔ سیب ۔ ناشپاتی اور انگور ہندوستان منگوائے جاتے۔ اور سردیوں مین سارا سال دلی ہندوستان میں کھائے جاتے اور جن کی اچھی خاصی مہنگی قیمت ادا کی جاتی تھی۔
۷)۔ انہی ممالک سے سارا سال خشک پھل اور میوہ جات منگوائے جاتے ۔ جو زیادہ تر ۔ بادام ۔ اخروٹ۔ خشک آلوبخارا۔ اور خشک خرمانی پہ مشتمل ہوتے۔
۸)۔ اور آخر میں مالدیب سے چھوٹی سمندری سیپیاں جو بنگال اور بنگال کے ارد گرد رائج سکہ کے طور استعمال ہوتیں۔ اور عنبر ۔ جبکہ موزمبیق سے گینڈے کے سینگ اور ہاتھی دانت۔
اسکے علاوہ :۔
الف)۔ ایتھوپیا سے کچھ غلاموں کے دانت۔
ب)۔چین سے مشک اور چینی مٹی۔
ج)۔ بحرین سے اور ٹٹوکری ( سری لنکا )سے موتی ۔
د)۔ عام استعمال کی دیگر غیر ضروری اشیاء ۔
اس ساری تجارتی مشق جس سے ہندوستان میں یہ ساری اشیاء پہنچتی تھیں۔ اس تجارت میں ہندوستان کے سونا اور چاندی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا تھا کیونکہ جب یہ مال ہندوستان پہنچتا توغیر ملکی اسکے بدلے ہندوستان کی مصنوعات خریدتے اور یوں سونا اور چاندی جیسی قیمتی دھاتیں ہندوستان سے باہر نہ جاتیں۔
ان سب امور کی وضاحت کے بعد جو کہ تجارتی راہیں متعین کرنے اور تجارتی منصوبہ بندی کرنے کے لئیے بہت مفید ثابت ہوسکتیں تھیں ۔ مگر برنئیر کو علم تھا کہ ان سب باتوں سے بڑھ کر کولبیرٹ کو براہ راست سونے اور چاندی حاصل کرنے سے دلچسپی ہے۔اور برنئیر اس نتیجے پہ پہنچنے کے بعد لکھتا ہے۔”اگر آپ کا یہ ہی مقصد ہے تو ہندوستان وہ خلاء ہے جہاں دنیا کے سونے چاندی کا بڑا حصہ گم ہے۔ ہندوستان میں داخل ہونے کے بہت سے راستے ہیں مگر وہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں “۔(۶٭)۔
(جاری ہے)

کولبیرٹ (فرانسیسی زبان میں اس نام کا تلفظ کولبیغت ہے)
(1) BERNIER, Viaje al Gran Mongol, Indostán y Cachemira, t. II, Edit. Calpe,
Gráficas Artes de la Ilustración, Madrid^Barcelona, 1921, y Extraits et copies des
lettres de Bernier. Memoires et Documents. Archives del Departament des Affairs
Etrangeres. Fond divers.
(2) Carta de Bernier a Colbert. Versión española en Viaje al Gran Mogol, Indostán
y Cachemira, ob. cit., pág. 190.
(3) Carta de Bernier a Colbert, obra editada,.pág. 190
(4) MAUROIS, ANDRÉ, Historia de Francia , 4.° edic, Edit. Surco, Barcelona, 1958,
629 págs. Piel 4.°, pág. 227.
(5) BERNIER, ob. cit., pág. 191.
(6) BERNIER, ob. cit., pág. 194

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

 
%d bloggers like this: