نُورا ملاح اور جے آئی ٹی ۔
نورا ملاح کشتی ”کھیہ“ رہا تھا ۔اس نے ”ونج“ کو آخری بار دریا کی تہہ میں گاڑا اور کشتی کوپتن سے لگادیا ۔ چھوٹی سی رسی سے کشتی کو دریا کنارے باندھنے کی دیر تھی کہ اس پار بکھرے دس بارہ دیہات کے اِکا دُکا مسافر جو دیر سے کشتی کا اِس پار آنے کا انتظار کررہے تھے اُچک اُچک کر جلدی جلدی کشتی میں چڑھنے لگے ۔نُورے کا گھر بھی دریا کے اِسی پار کے کچھ دُورواقع گاؤں ”وسن والا“ میں تھا،گرمیوں کی دوپہر سر پہ تھی ۔
نورے نے کشتی کا ”پُور“ (پھیرا)بھرتے سوچا یہ پچھے چار سالوں سے اسکے نصیب چمک اٹھے تھے ۔ بارہ اِس پار کے گاؤں اور بارہ چودہ اُس پار کے دیہاتوں کے لوگ بھی جوق در جوق اسکی کشتی سے اپنے ضروری کاموں سے اس یا اس پار آتے جاتے تھے ۔ اور ان سالوں میں گو ”ہاڑ“ (سیلاب) تو سر چڑھ کر آتا رہا مگر ہر بار کی مناسب پیش بندی سے اسکی کشتی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا ۔ ورنہ تو پچھلے سالوں میں دو دو بار اسکے کشتی دریا کے سیلاب میں بہہ کر گُم گُما گئی تھی اور اگلے سالوں میں نُورے اور اور اسکے خاندان کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مگر اب کی بار اللہ نے اس پہ اور اسکے خاندان پہ خاص کرم کیا تھا ۔
نُورا انہی سوچوں میں غرق اور دل ہی دل میں خوش ہوتا ہوا کشتی ”کھیتا“ دریا کے درمیان پہنچ چکا تھا کہ اُس کے گاؤں ”وسن والا“ کے ”مانے“ کو پتہ نہیں کیا سُوجھی کہ اس نے کہا کہ
”نُورے میں ابھی گاؤں سے آیا ہوں اور تمہارے لئیے ایک بری خبر ہے “
نورے کی ساری خوشی کافُور ہوگئی اور وہ مانے کی طرف متوجہ ہوگیا جو بتارہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
”نُورے ۔ تمہاری بیوی اپنے کسی آشناء کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی ہے“
نورے کا رنگ فوراََ فق ہوگیا ۔ کشتی میں سوار بار ہ گاؤں کے دیہاتیوں نے چونک کر اپنی باتیں چھوڑ چھاڑ کر نظریں نُورے پہ گاڑ دیں ۔ اور نورے کو یوں لگا جیسے کسی نے اسے بھرے بازار میں ننگا کر دیا ہو۔ایک لمحے کے لئیے ”ونج“ پہ اسکی گرفت کمزور ہوئی اور کشتی لہراکر رہ گئی ۔ مگر نُورے نے دوبارہ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے ”ونج “ پہ اپنی گرفت مضبوط کی مگر اُسے یوں لگا جیسے کسی نے اسکے بازؤں کی طاقت سلب کر لی ہو ۔ نورا ملاح جیسے تیسے کشتی ”کھیہ“ کہ دریا کے دوسرے کنارے لگانے میں کامیاب ہوگیا ۔ کشتی کے مسافر اسے عجیب نظروں سے دیکھتے اپنے اپنے رستوں کو ہو لئیے صرف ”مانا“ رک گیا تھا اور مسافروں کے جاتے ہی نُورااپنی بربادی پہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔اور اچانک ”مانا “ بے اختیار قہقے لگا کر ہنسے لگا ۔ نورے نے غم اور صدمے سے مانے کو دیکھا ۔ مانے نے کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
” اوئے جھلیا۔ میں تو تمہارے ساتھ دل لگی (مذاق) کر رہا تھا ۔ تمہیں پتہ تو ہے دل لگی کرنے والی میری اس پُرانی عادت کا۔ تمہاری بیوی کسی اپنے آشناء کے ساتھ بھاگ کر کہیں نہیں گئی اور وہ تمہارے گھر پہ ہی ہے۔ میں تو ایسے ہی تمہارے ساتھ دل لگی کر رہا تھا“
نُورے نے مایوسی اور غم کے ملے جُلے جذبات اور رندھے ہوئے گلے سے دور دراز راستوں پہ جانے والے کشتی کے مسافروں کو دیکھا اور ”مانے“ سے گویا ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
”مانے! تم نے تو دل لگی کی مگر میرا ستیا ناس کردیا۔اب یہ سمجھو کہ کہ میری بیوی واقعی گھر سے بھاگ ہی گئی ہے۔یہ بارہ گاؤں کے لوگ بارہ چودہ مختلف گاؤں کو جائیں گے اور اتنے ہی لوگوں کو بتائیں گے کہ نورے ملاح کی بیوی آج گھر سے بھاگ گئی ہے۔ نہ یہ سارا ”پُور“ دوبارہ اکھٹا ہوگا ۔ اور نہ ہی وہ تم سے یہ جاننا چاہیں گے کہ تم نے مجھ سے دل لگی کی تھی جبکہ میری بیوی کسی آشناء کے ساتھ گھر سے نہیں بھاگی تھی۔ اور اگر اتفاق سے وہ اکھٹے ہو بھی جائیں اور تم انہیں حقیقت بتا بھی دو تو اتنے سارے دیہاتوں میں جہاں ان کے بتانے سے میری نیک نامی تار تار ہوگی وہ کیسے نیک نامی میں بدل پائے گی؟ بس ”مانے“ اب یوں سمجھوں کہ میری بیوی کسی آشناء کے ساتھ بھاگ ہی گئی ہے اورمیری نیک نامی تواب واپس آنے سے رہی“
نواز شریف نے اگر کرپشن نہیں بھی کی تو بھی اب نواز شریف جس قدر متنازع شخصیت بن چکے ہیں اور ثابت اور غیر ثابت شدہ الزام تراشیوں میں گھر چکے ہیں ۔توانہیں چاہئیے کہ ملک و قوم کے وسیع ترمفاد میں اپنے عہدے سے استعفی دے کر بچی کچھی کچھ نیک نامی سمیٹنے اور جمہوریت کو بچانے کی کوشش کرنی چائیے۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: "ہاڑ", "مانے", "مانا", "نُورے, "وسن, "پُور", "پُورا", (مذاق), (پھیرا)بھرتے, )کچھ, “, ہ, فق, ہنسے, ہو, ہو۔ایک, ہوگی, ہوگیا, ہوگئی, ہوگا, ہوں, ہوئی, ہوئے, ہوا, ہوا۔, ہوتا, ہی, ہیں, ہے, ہے"نورے, ہے۔, ہے۔یہ, ہر, قوم, قدر, لہراکر, لمحے, لوگ, لوگوں, لی, لگی, لگے, لگا, لگانے, لگادیا, لئیے, م, ملک, ملاح, مناسب, میں, میری, مگر, متنازع, متوجہ, مجھ, مختلف, مسافر, مسافروں, مشکلات, مضبوط, نہ, نہیں, نقصان, نمک, ننگا, چوہ, چونک, نواز, چودہ, نورے, نورا, نیک, نُورا, نُورااپنی, چڑھ, چڑھنے, نے, چکے, چکا, چھوڑ, چھوٹی, چھاڑ, چاہیں, نامی, چائیے۔, چار, نصیب, نظروں, نظریں, و, وہ, ونج, والی, والے, والا, واپس, ورنہ, وسیع, یہ, یوں, یا, ۔, ۔نورے, ۔اس, کہ, کہیں, کہا, کمزور, کچھی, کنارے, کو, کوپتن, کوئی, کوشش, کی, کیا, کیسے, کے, کھیہ, کھیتا, کا, کافُور, کاموں, کامیاب, کا۔, کر, کرم, کرنی, کرنے, کرنا, کرپشن, کررہے, کسی, کشتی, گم, گما, گڈ, گویا, گی؟, گیا, گے, گھر, گئی, گاڑ, گاڑا, گاؤں, گرفت, پہ, پہنچ, پہنچا, پچھلے, پچھے, پیش, پڑا, پھوٹ, پائے, پار, پتہ, آنے, آیا, آپ, آتے, آتا, آج, آخری, آشناء, اللہ, ان, انہی, انہیں, اچک, اچانک, انتظار, اوئے, اور, اورمیری, ایک, ایسے, اُس, اُسے, اِس, اِسی, اکھٹے, اکھٹا, اکا, اگلے, اگر, اٹھے, اپنی, اپنے, اب, ابھی, اتفاق, اتنے, اختیار, ار, اس, اسے, اسکی, اسکے, استعفی, بہہ, بن, بنی, بنانے, بندی, بیوی, بڑی, بے, بکھرے, بھی, بھاگ, بھاگی, بھرے, باندھنے, باتیں, بار, بارہ, بازؤں, بازار, بتا, بتانے, بتائیں, بتارہا, بدل, بری, بربادی, بس, تہہ, تم, تمہیں, تمہاری, تمہارے, تو, توانہیں, تیسے, تھی, تھی۔, تھے, تھا, تھا"نُورے, تھا،گرمیوں, تار, ترمفاد, جہاں, جلدی, جمہوریت, جو, جوق, جیسے, جھلیا۔, جاننا, جانے, جائیں, جاتے, جبکہ, جس, حقیقت, خوش, خوشی, خاندان, خاص, خبر, دہ, دل, دو, دوپہر, دوبارہ, دور, دوسرے, دیہات, دیہاتوں, دیہاتیوں, دیکھا, دیکھتے, دیں, دیا, دیر, دُورواقع, دے, دکا, در, درمیان, دریا, دراز, دس, رہ, رہی, رہا, رنگ, رونے, رک, راستوں, رسی, رستوں, سلب, سمیٹنے, سمجھو, سمجھوں, سنبھالتے, سوچوں, سونا, سوار, سی, سیلاب, سُوجھی, سے, سالوں, سامنا, ساتھ, ساری, سارا, سر, شخصیت, شریف, صدمے, صرف, ضروری, طاقت, طرف, عہدے, عادت, عجیب, غم, غرق
مہلت۔
حکمران ہوش کے ناخن لیں۔۔۔
جنرل مشرف کے دور میں اس خطےکے ممالک کے عام شہری ہی کیا۔ اچھے خاصے تجزئیہ نگار ہمیں امریکہ کی ایک سیٹلائٹ ریاست گردانتے تھے۔ آج بھی پاک امریکہ تعلقات کی تعریف کرنا اتنا آسان نہیں۔ کہیں تو یوں لگتا ہے کہ دونوں ممالک یک جان دو قالب ہیں ۔اور کچھ معاملات میں دو بدو آمنے سامنے نظر آتے ہیں۔ پاکستان سے باہر خطے کے دیگر ممالک کے سنجیدہ سوچ رکھنے والے اور حالات حاضرہ پہ نظر رکھنے والے اچھے خاصے دانشور۔ پاکستان کے بارے میں کینفیوز ہوجاتے ہیں اور الجھ جاتے ہیں۔ کہ آیا امریکا پاکستان کا دوست ہے یا دشمن؟۔ اس ضمن میں صلالہ پوسٹ پہ حملہ۔ ایبٹ آباد کے قریب حملہ۔ پاکستان میں افغانستان سے دہشت گردی کا اہتمام ۔اور دیگر بہت سے معاملات۔ باہمی تعلقات کی رسہ کشی کو جہاں نمایاں کرتے ہیں ۔ وہیں روز اسلام آباد کے نت نئے دوروں پہ آئے۔ امریکی اعمال اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل در معقولات۔ اسکول اساتذہ کی تربیت سے لیکر فارمی مرغیوں کے گوشت اور انڈوں کی اقسام اور ان پہ بھاؤ تاؤ اور مول تول تک میں۔ ناک گھسیڑتے امریکی۔ پاکستان و امریکہ کے تعلقات کی ایک پیچیدہ داستان بیان کرتے ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آج کی دنیا ۔ بین الاقوام مفادات کی دنیا ہے ۔ جس میں کوئی ملک کسی کا حتمی دوست نہیں ہوتا۔ اور مفادات کے تابع دوستیاں اور دشمنیاں طے ہوتی ہیں۔
ایک مشہور مغربی کہاوت ہے کہ ۔۔۔ "نئے دشمن کی نسبت ایک دیرینہ دشمن بہتر ہوتا ہے”۔۔۔۔ یعنی دیرینہ دشمن کے طریقہ واردات کو آپ سمجھ چکے ہوتے ہیں۔ جب کہ نئے دشمن کے بارے میں آپ مکمل اندھیرے میں ہوتے ہیں۔امریکی۔ بشار الاسد کی امریکی شرائط ماننے پہ آمادہ حکومت کو۔ ایک کمزور حکومت کو۔ اپنے اور اسرائیل کے وسیع تر مفاد میں قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ داعش کا حیرت انگیز طریقے سے وجود میں آنا۔ تیزی سے ابھرنا ۔ پھیلنا اور پھر سکڑنا۔ عراقی باقاعدہ فوج کے ساتھ سنی کرد ” پیش مرگہ” کی داعش کے خلاف تیزی سے پیش قدمی۔ پھر اسے نظر انداز کرنے کی پالیسی اور عراقی و ایرانی شعیہ ملیشیاء کا داعش کے خلاف میدان میں اترنا۔ داعش کا شامی حکومت کے خلاف اعلان جنگ ۔اور اسرائیل کی بجائے۔ بیک وقت سعودی عرب اردن اور دیگر کے خلاف صف بندیوں کی دھمکی ۔اور اقدامات۔ امریکہ کی طرف سے کچھ لوگوں کی تربیت اور امداد ۔جو بیک وقت شامی حکومت اور داعش کے خلاف امریکی مفادات کے لئیے میدان میں اتریں ۔ عرب ممالک کا بیک وقت بشار الاسد اور داعش کے خلاف صف بندی۔ یہ وہ اجزائے ترکیبی ہیں جن سے اس خطے کی نئی تصویر بننے جارہی ہے۔ مگر یہ اجزائے ترکیبہ ابھی مکمل نہیں ۔ کیونکہ آنے والے دنوں میں داعش اور شامی حکومت میں امریکہ کے خلاف کسی حد تک مفاہمت ہوسکتی ہے۔
اس پورے خطے کو میدان جنگ بنانے میں جس میں پاکستان کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس میں خام مال کا زیادہ حصہ پاکستان سے لیا جانا مقصود ہے اور اس خام مال کی تیاری راتوں رات نہیں ہوئی۔ بلکہ اسے کاشت کرنے اور پروان چڑھانے میں۔ آپکے دشمنوں نے کئی دہائیاں لگائی ہیں قرضہ ۔ مدد۔ اور بھیک کی مد میں اربوں ڈالرز خرچ کئے ہیں۔ درجنوں سالوں سے منصوبہ بندی کی ہے۔ مسلمان ملکوں میں اپنی مرضی کے سربراہ مسلط کر کے قوموں کو بانجھ کیا ہے۔ قوموں کو بھیڑ اور منتشر ہجوم میں تبدیل کیا ہے۔ جو قومیں تاریخی اور پرانی تھیں مثلاََجیسے ترکی وغیرہ اور انہوں نے اپنے حکمران خود چنے۔ وہ آج قدرے مستحکم اور بہتر پوزیشن میں ہیں ۔ جن ممالک کے حکمرانوں نے امریکہ و مغرب کی منشاء کے سائے میں زندگی گزاری۔ آج ان ممالک اور قوموں کو ۔ غداری۔ فحاشی ۔آوارگی۔ نفرت۔ احساس محرومی۔ لاتعلقی۔اور بالآخر خانہ جنگی جیسے مسائل بھگتنے پڑ رہے ہیں اور بھگتنے پڑیں گے۔ امریکہ کے مسلط کردہ حکمرانوں نے اس خطے کی قوموں میں جوہر قابل پیدا ہی نہیں ہونے دیا۔ انھیں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے کو دے دی گئیں۔ اور یہ آپس میں دست و گریباں ہوئے ۔ایک کو تھپکی۔ دوسرے کو ڈانٹ اور تیسرے کو اشارہ ۔ کئی دہائیوں سے امریکہ کی اس خطے کے بارے خارجہ پالیسی یہی رہی ہے۔
پاکستان میں اسکندر مرزا ۔ایوب ۔ یحییٰ خان۔ ضیاء۔ مشرف کے لمبے آمرانہ دور اقتدار میں۔ مقامی جوہر قابل کو پروان چڑھنے اور مقامی صنت و حرفت کے پھلنے پھولنے کو بھاری امریکی منصوبوں سے روکا گیا۔ ملک میں اپنے وسائل سے ترقی کرنے ۔ اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے اور خود انحصاری کے خواب کو۔ ایک بھوکے ننگے ملک کی تصویر میں بدل دیا گیا۔ پاکستان کو امریکہ اور مغرب سے درآمد شدہ منصوبوں اور ماہرین کی درآمد سے رفتہ رفتہ ۔اور بالآخر محض ڈالروں کی آمدن تک محدود کر دیا گیا۔ جس میں امریکی چہیتوں کے لئیے تو آسانیاں اور فروانیاں تھیں۔ انہوں نے ان میلنز ڈالرز سے خوب جیبیں بھریں مگر بدقسمتی سے عام عوام کے حصہ میں یہ قرضہ اور اس کا سود چکانے کے لئیے بھاری ٹیکس آئے۔ اور آئی ایم ایف جیسے عالمی ساہوکار ادارے پاکستانی اناج کی قیمت پہ اثر انداز ہونے لگے۔ پاکستانی قوم کی ایک بڑی اکثریت پچاس سالوں سے مسلسل درد زہ بھگتتے بھگتتے ۔ پاکستان میں قسما قسمی کے تعصبات۔ لسانی ۔ صوبائی۔ علاقائی۔ مذہبی۔ مسلکی ۔ گروہی۔ سیاسی۔ اور دہشت گردی جیسے بھیانک مسائل پیدا کرتی چلی گئی اور اپنے خوابوں کی تعبیر اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہوتی گئی۔
آج یہ عالم ہے کہ ہر شہری ۔ ہر فرد ۔ شاکی ہے اور کسی کا بھی گلا کاٹنے کو تیار ہے۔ اس کی ایک حالیہ مثال لاہور میں نصرانی برادی کے ہاتھوں دو زندہ جلائے جانے والے عام راہگیروں کی ایک مثال ہی کافی ہے۔ نتائج سے بے پرواہ ہو کر تشدد پہ آمادہ ہوجانے اور اچانک کسی انتہائی قدم پہ اترنے سے پاکستانی عوام کے مزاج میں مایوسی اور فرسٹریشن کی خوفناک صورتحال سامنے آتی ہے۔ جو کہیں بھی محض کسی ایک واقعے سے ایک خوفناک تصادم میں بدل سکتی ہے۔
یہ سب محض چند دنوں میں نہیں ہوا ۔ اسکے پیچھے عالمی طاقتوں کی پچاس سالوں سے زائد وہ حکمت عملی ہے۔جس میں ہمارے بے برکتے اور سیاسی شعور اور بصیرت سے عاری۔ بے بس حکمرانوں کی حماقتیں اور بے عملیاں برابر کی ذمہ دار ہیں۔ جن میں عوام مسلسل پسے ہیں اور ان کے احساس محرومی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے ۔ انکی عزت نفس کو قدم قدم پہ کچلا گیا ہے۔ عوام کی کئی نسلیں جوان ہو چکی ہیں اور انکے حصے میں پچھلی نسل کی نسبت پہلے سے زیادہ مایوسی آئی ہے۔ اور بدستور پاکستان میں عوام کو مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ جہاں کوئی بھی چارہ گر انھیں اپنے مقاصد کے لئیے دھوکے سے استعمال کر سکتا ہے ۔ جس سے مشرق وسطی جیسے حالات پاکستان میں بھی پیدا کئیے جاسکتے ہیں ۔ اس لئیے بھی پاکستانی کرتا دھرتاؤں کو چاہئیے کہ وہ اپنی بقا کی ہی خاطر سہی۔ اپنے عوام کا معیار زندگی بہتر کرنے کی کوششوں کو اپنی اولین ترجیج سمجھیں ۔ اور پاکستان پہ مسلط ۔ورثے میں ملے اس بوسیدہ انگریزی نظام اور سوچ سے جان چھڑائیں۔ اور ایسی تبدیلیوں کا آغاذ کریں۔ جن سے عوام کی زندگی میں بہتری آئے اور عوام یہ بہتری ہوتے ہوئے محسوس کریں ۔ محض خالی خولی دعووں سے خالی پیٹ بھرنا ناممکن ہوتا ہے۔ ورنہ کوئی وقت جاتا ہے۔ کہ حالات حکمرانوں کے بس سے باہر ہو جائیں گے خدا نخواستہ۔
پاکستان کے حالات کو ہم بہتر سمجھتے ہیں۔ اسلئے پاکستان کے حالات کی مثال بیان کی ہے۔ پاکستان جیسے حالات مشرق وسطی کے بہت سے ممالک کے ہیں ۔مثلاََ مصر کو پاکستان کے نقش قدم پہ چلایا جارہا ہے۔ وہاں وہی پاکستان کی طرز کی امریکی پالیسیز ہیں اور السیسی جیسا فوجی جرنیل حکومت میں ہے۔ جبکہ پاکستان میں بھی سیاسی حکومتیں ابھی تک لرزہ براندام ہیں۔
پاکستان کے اور مشرق وسطی کے منظر نامے کو جو لوگ محض مذہبی نکتہ نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس خطے کے حالات محض اس لئیے بگاڑے گئے کہ عالمی طاقتیں مسلمانوں سے نفرت کرتی ہیں ۔ انھیں اس سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان طاقتوں کے لئیے ہمارا مذھب۔ اسلام ۔ایک اہم فیکٹر ضرور ہے۔ جس میں مسلکی اختلافات کو ہوا دے کر وہ اپنے حق میں کئیش کروانا چاتے ہیں ۔ مگر انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ۔کہ ان ممالک میں شیعہ بستے ہیں یا سنی ۔ مالکی یا حنبلی ۔ دیو بندی یا بریلوی۔ اہل حدیث یا اہل سنت ۔ عالمی طاقتوں کو محض اپنے اغراض و مقاصد سے دلچسپی ہے۔ جو بہت مختلف ہیں ۔ جہاں خطے کے وسائل سے استفادہ سے لیکر ایسی کسی ممکنہ سیاسی طاقت ۔۔۔۔۔خواہ وہ اسلامی ہو یا نیم اسلامی مگر جو خطے کے مذھب اور مزاج کی وجہ سے اسلامی ہوسکتی ہے۔۔۔۔۔ ایسی کسی بڑی اور مستحکم سیاسی طاقت کو وقوع پزیر ہونے سے روکنا ہے ۔ جو عالمی طاقتوں کے سیاسی اور معاشی مفادات کے لئیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ اور انکے مفادات لئیے چیلنج بن جائے۔ یہ طاقتیں ہندو بنئیے کی سی سوچ رکھتی ہیں اور ہر صورت میں اپنے مفادات کے لئیے۔ دہائیوں پہ محیط منصوبوں پہ عمل درآمد کرتی ہیں ۔ وقتی مفادات کے تحت یہ وقتی یا غیر متوقع طور پہ پیدا ہونے والی صورتحال سے ممکن ہے وقتی طور پہ سمجھوتہ کر لیں ۔یا ۔ایسی صورتحال کو اپنے مفاد میں کئیش کروانے کی کوشش کریں ۔ مگر اپنے حتمی مفادات کو ہمیشہ مد نظر رکھتی ہیں ۔ اور وہ اس سارے خطے کی بے چینی اور خون خرابی اور سیاسی عدم استحکام کو بھی اپنی ایک کامیابی سمجھتی ہیں ۔کہ انہوں نے ہمیں دنیا کی ترقی و ترویج میں حصہ لینے سے روک رکھا ہے ۔ خطے کے ممالک کے مسلمان عوام کی ترقی رکی ہوئی ہے۔ اور دنیا میں مسلمان ممالک کے ایک بڑے خطے کو کئی دہائیوں سے باہم دست گریباں کر رکھا ہے۔ اور جہاں وہ ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ بات نہیں بنی ۔ وہاں وہ براہ راست اپنی فوجیں اتار دیتے ہیں ۔ عراق اور افغانستان اس کی ایک مثال ہیں۔ اسلئے اس ساری صورتحال کو محض مذہب یعنی اسلام کے خلاف صف آرائی سے کچھ آگے۔ یعنی دنیا میں بنیاء ذہنیت اور اسکے مفادات کی تکمیل کے تناظر میں دیکھنے کی اور سمجھنے کی ضرورت ہے تانکہ مکمل تصویر سامنے آسکے ۔
جس طرح مشرق وسطی میں کچھ سالوں قبل تک شام کو ایک بہت مستحکم ملک سمجھا جاتا تھا ۔ حکومت کی عوام پہ گرفت بہت مضبوط تھی ۔ شامی مخابرات لوگوں کے گھروں میں پکنے والے کھانوں تک کی تفضیلات کی خبر رکھتی تھی۔ مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ فضاء بنی کہ آج یقین ہی نہیں آتا کہ جبر کی بنیاد پہ قائم شام۔ کل تک مشرق وسطی کا سیاسی طور پہ ایک مستحکم ملک تھا ۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملک وہی مستحکم ہوتے ہیں اور ہر قسم کے اندرونی و بیرونی چیلنجز کا باآسانی مقابلہ کر لیتے ہیں ۔ جن ممالک کے عوام مضبوط اور مستحکم ہوتے ہیں۔ جنہیں اپنے ملک کے اندر آزادی ۔ انصاف اور تحفظ حاصل ہو۔ جہاں مسائل کا حقیقی حل ہو۔ جہاں زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے پالیسیز ترتیب دی جائیں ۔ مقامی طور پہ عوام کے مسائل حل کئیے جائیں ۔روزی روٹی ۔امن عامہ اور توانائی جیسے بحران نہ ہوں۔ عوام کو احساس تحفظ ہو۔
پاکستانی عوام کے مسائل وہی بنیادی ضرورتوں کے نہ ہونے سے متعلق ہیں ۔ جنہیں حل کرنے کی بجائے حکمران ہمیشہ دور کی کوڑی لاتے رہیں ہیں۔ اس لئیے شتر مرغ کی طرح مسائل سے اغماض برتنے کی بجائے انہیں جنگی بنیادوں پہ تیز ترین حکمت عملی کے تحت حل کیا جاناچاہئیے۔ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی فیصلوں اور اقدامات کرنے سے سے ہی حالات بہتر کئیے جاسکتے ہیں ۔
ورنہ پاکستانی عوام میں بے بسی اور مایوسی کی انتہاء کو چھوتا جو غصہ ان کے دلوں میں پل رہا ہے وہ کبھی بھی خوفناک صورتحال اختیار کر سکتا ہے۔ پاکستان میں اگر کبھی خدا نخواستہ حالات قابو سے باہر ہوئے اور حکمران طبقے کو تو ہزیمت اٹھانی ہی پڑے گی مگر ملک و قوم کا بہت نقصان ہوگا۔
یہ ایک معجزہ ہے کہ پاکستان میں باہمی ٹکراؤ کے سارے اجزائے ترکیبی ہونے کے باوجود۔پاکستانی قوم نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا ۔ مگر حکمرانوں کو بھی اس معجزہ کو قدرت کی طرف سے حالات بہتر کرنے کے لئیے ایک مہلت سمجھنا چاہئیے۔ اور عوام کے حالات بہتر کرنے کے لئیے انتھک کوشش کرنی چاہئیے۔
جاوید گوندل ۔
۱۸ مارچ ۲۰۱۵۔بارسیلونا
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, “, Gondal, Javed, ہمیں, ہونے, ہوئی۔, ہوئے, ہوتی, ہوتے, ہوتا, ہوتا۔, فوج, ہوجاتے, ہوسکتی, ہوش, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں۔امریکی۔, ہیں۔ایک, ہے, ہے"۔۔۔۔, ہے۔, ہے۔اس, ہے۔صرف, فارمی, ہجوم, فحاشی, قوموں, قومیں, قالب, قائم, قابل, قدمی۔, قدرے, قریب, قرضہ, لمبے, لوگوں, لیکر, لیں۔۔۔جنرل, لیا, لگائی, لگتا, لئیے, لاتعلقی۔اور, مہلت۔حکمران, مفاہمت, مفاد, مفادات, مقامی, مقصود, ملیشیاء, ملک, ملکوں, ممالک, منتشر, منصوبہ, منصوبوں, مول, میں, میں۔, میدان, مکمل, مگر, ماہرین, مال, ماننے, مثلاََجیسے, محرومی۔, محض, مد, مدد۔, مرگہ", مرزا, مرضی, مرغیوں, مسلمان, مسلط, مسائل, مستحکم, مشہور, مشرف, معقولات۔, معاملات, معاملات۔, مغرب, مغربی, نہیں, نہیں۔, نفرت۔, نمایاں, چنے۔, ننگے, چڑھنے, چڑھانے, نے, چکے, نگار, نئی, نئے, چاہتے, ناک, ناخن, نت, نسبت, نظر, و, وہ, وہیں, وقت, والے, ڈالروں, ڈالرز, ڈانٹ, واردات, وجود, وسیع, وسائل, وغیرہ, یہ, یہی, یوں, یک, یا, یحییٰ, یعنی, ۔, ۔۔۔, ۔۱۸, ۔آوارگی۔, ۔اور, ۔ایوب, ۔ایک, ۔جو, کہ, کہیں, کہاوت, کمزور, کو, کو۔, کوئی, کوشش, کی, کینفیوز, کیونکہ, کیا, کیا۔, کے, کپڑا, کئی, کئے, کا, کاشت, کر, کرنے, کرنا, کرتے, کرد, کردہ, کسی, کشی, گوندل, گوشت, گیا۔, گے۔, گھسیڑتے, گئیں۔, گریباں, گردی, گردانتے, گزاری۔, ۲۰۱۵۔بارسیلونا, پہ, پورے, پوزیشن, پوسٹ, پیچیدہ, پیدا, پیش, پڑ, پڑیں, پھلنے, پھولنے, پھیلنا, پھر, پالیسی, پاک, پاکستان, پاؤں, پروان, پرانی, آمنے, آمادہ, آمدن, آمرانہ, آنے, آنا۔, آیا, آپ, آپکے, آپس, آئے۔, آباد, آتے, آج, آسان, اہتمام, افغانستان, اقتدار, اقدامات۔, اقسام, القوام, الاسد, الجھ, امداد, امریکہ, امریکی, امریکی۔, امریکا, ان, انہوں, انڈوں, انگیز, انھیں, اچھے, انحصاری, اندھیرے, انداز, اندرونی, اور, ایک, ایبٹ, ایرانی, اگست, اپنی, اپنے, ابھی, ابھرنا, اتنا, اترنا۔, اتریں, اجزائے, احساس, اربوں, اردن, اس, اسلام, اسے, اسکندر, اسکول, اساتذہ, اسخطےکے, اسرائیل, اشارہ, اعلان, اعمال, بہت, بہتر, بلکہ, بننے, بنانے, بندی, بندیوں, بندی۔, بولنے, بولیاں, بیچ, بیک, بیان, بھوکے, بھی, بھیڑ, بھیک, بھگتنے, بھانت, بھاؤ, بھاری, باہمی, باہر, باقاعدہ, بالآخر, بانجھ, بارے, بجائے۔, بدل, بدو, بشار, تلے, تو, تول, تیاری, تیزی, تیسرے, تک, تھیں, تھے۔, تھپکی۔, تاؤ, تابع, تاریخی, تبدیل, تجزئیہ, تر, ترقی, ترکی, ترکیبہ, ترکیبی, تربیت, تصویر, تعلقات, تعریف, ثابت, جہاں, جن, جنہوں, جنگ, جنگی, جو, جوہر, جیسے, جان, جانا, جاوید, جاتے, جارہی, جب, جس, حملہ۔, حیرت, حکمران, حکمرانوں, حکومت, حالات, حاضرہ, حتمی, حد, حرفت, حصہ, خلاف, خواب, خود, خام, خانہ, خان۔, خارجہ, خاصے, خرچ, خطے, دہائیوں, دہائیاں, دہشت, دنوں, دنیا, دو, دونوں, دور, دوروں, دوست, دوستیاں, دوسرے, دی, دیگر, دیا, دیا۔, دیرینہ, دے, دھمکی, دانشور۔, داستان, داعش, دخل, در, درآمد, درجنوں, دست, دشمن, دشمنوں, دشمنیاں, دشمن؟۔, رہی, رہے, رفتہ, روکا, روز, ریاست, رکھنے, رکھنا, رات, راتوں, رسہ, زندگی, زیادہ, سمجھ, سچی, سنجیدہ, سوچ, سیٹلائٹ, سے, سکڑنا۔, سالوں, سامنے, سائے, ساتھ, سربراہ, سعودی, شہری, شامل, شامی, شدہ, شرائط, شعیہ, صف, صلالہ, صنت, ضمن, ضیاء۔, طے, طرف, طریقہ, طریقے, عام, عراقی, عرب, غداری۔
جلتے سراب!
میں کچھ دیر سے پہنچا تھا۔ وہ ایک نواحی پہاڑی بستی ہے۔
میں سمجھ گیا تھا کہ رات پھر گھمسان کا رن پڑا تھا ۔ اور میدان کارِزار ۔ابھی تک گرم ہے ۔دونوں میاں بیوی ایک دوسرے سے رُوٹھے منہ بنائے ۔ابھی تک منہ لٹکائے ہوئے تھے ۔
جوزیبپ اور ماریہ ۔ یہ دونوں ہسپانوی میاں بیوی میرے پرانے جاننے والوں میں سے ہیں ۔عام یوروپی جوڑوں کی طرح ۔ ان کے بھی ابھی بچے نہیں ہیں۔ دونوں اعلٰی تعلیم یافتہ اور کاروباری ہیں ۔ خلوص کے بندے ہیں۔ میرے سبھی یوروپی شناسا لوگ ۔میری مسلمانی سمیت مجھے دوست رکھتے ہیں ۔ کبھی کسی نے نماز پڑھنے ۔ رمضان کے روزے رکھنے اور شراب نہ پینے اور سؤر کا گوشت نہ کھانے پہ اچھنپے کا اظہار نہیں کیا ۔ بلکہ کسی حد تک میرے دینی معاملات کا احترام کرتے ہیں ۔ خاص کر رمضان الکریم میں یورپی عادت کے مطابق دوپہر کے بعد سے بھُوک کی وجہ سے خریت پوچھتے اور دلاسہ بھی دیتے ہیں کہ بس اب روزہ افطاری میں کم وقت رہ گیا ہے۔ یا ممکن ہے یوں ہوا ہو کہ وہی لوگ میرے تعلق میں رہ گئے ہوں جو باہمی احترام کا شعور رکھتے ہیں۔ بدلے میں ، میں بھی انکے مشاغل میں مخل نہیں ہوتا اور انکی ذاتی زندگی کا ۔انکے معاملات کا احترام کرتا ہوں۔
آج کل دن بہت اجلے اور دُہلے ہوئے ہوتے ہیں۔آسمان صاف اور شفاف نظر آتا ہے۔ د ن کو ہر سُو چمکتی خوشگوار سی دھوپ آنکھوں کو بھلی محسوس ہوتی ہے ۔پیر کو مقامی چھٹی ہونے کی وجہ سے میں نے اپنا آفس جمعہ کی دوپہر کو تین دن کے لئے بند کر دیا تھا۔ ایسے میں گھرمیں اکیلے دن کو رات اور رات کو دن کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
جوزیبپ اور ماریہ ۔ نے لمبے ویک اینڈ پہ ایک جنگل میں ایک راوئتی فارم ہاؤس بُک کروا رکھا تھا ۔جوزیبپ اور ماریہ نے بہ إصرار اس لمبے ویک اینڈ پہ مجھے مدعو کر رکھا تھا ۔میں انکے گھر قدرے تاخیر سے پہنچاتھا۔ جہاں سے ہم نے فارم ہاؤس جانا تھا ۔ وہاں انکے کچھ اور دوست بھی مدعو تھے۔دونوں میاں بیوی کبھی کبھار نہائت خلوص اور جوش سے ایک دوسرے کی خبر بھی لیتے ہیں۔ دونوں الگ الگ مجھ سے ملے ۔میں نے کچھ دیر سمجھایا ۔آخر کار واپس شہر لوٹ جانےکی میری دہمکی کار گر ثابت ہوئی ۔تھوڑی دیر میں دونوں شیر شکر۔اپنی گاڑی میں ضروری سامان رکھ رہے تھے۔
کہنے کو تو یہ ایک بستی ہے مگر بلا مبالغہ اس بستی کا رقبہ کسی بڑے قصبے سے کم نہیں ۔علاقہ جدی پشتی امراء کا ہے ۔ جو بدلتے وقتوں میں نئے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال کر انتظامیہ کے بڑے عہدوں پہ فائز ہیں ۔اور ہر ویک اینڈ اور چھٹی پہ اپنی بڑی بڑی حویلیوں کو لوٹ جاتے ہیں۔چند ایک ایکڑوں پہ پھیلی حویلیوں میں۔ الپائن کے بڑے بڑے درختوں کے بیچ ۔کھلی جگہ پہ انکا قومی جھنڈا ۔اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہاں کوئی ایسا اعلٰی حکومتی عہدیدار مقیم ہے ۔ جس کی اقامت اس بات کی متقاضی ہے ۔کہ اس اعلٰی (وی آئی پی ) حکومتی عہدیدار کے حفظ و مراتب (پروٹوکول)کے مطابق اِس ملک کا قومی جھنڈا لہرایا جانا ضروری ہے۔
ویسے تو بستی کو اور بھی راستے جاتے ہیں ۔ مگر ان میں قابل ذکر تین راستے ہیں ۔ایک تو سمندر کے ساتھ ریلوے لائن کے متوازی بہتی قومی شاہرا ہ ہے جو بحیرہ روم کے ساحل کے ساتھ پیچ وخم کھاتی سمندر کنارے ساحلی بستیوں اور قصبوں میں سے لہراتی ہوئی فرانس کو نکل جاتی ہے۔اس پہ جائیں تو علاقائی تجارتی مرکز سے کچھ گیارہ کلومیٹرز آگے جا کر یک دم تقریبا نوے کے زاویے پہ الٹے ہاتھ کو گھوم کر ساحل سے نسبتا کچھ دور بلندی پہ واقع چند کلومیٹرز چلتی ہوئی ۔ موٹر وے کے کے لئیے بنے پُل کے نیچے سے گزرتی ہوئی مذکورہ بستی کی مضافاتی ایکڑوں پہ پھیلی اور مختلف سرسبز درختوں سے ڈہکیں حویلیوں میں جا نکلتی ہے۔ حویلوں میں اونچے اور صدیوں پرانے چیڑھ ا یعنی لپائن کے بڑے بڑے دیو قامت درختوں نے ۔حویلوں کو اپنے اندر چھپا رکھا ہے ۔ جس وجہ سے۔ عام نظر سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ کہاں سے حویلی کی حدختم ہوئی اور کب جنگل شروع ہو گیا۔ کچھ حویلیوں کا بیرونی احاطہ پہاڑی نشیب فراز کے ساتھ ساتھ اونچا نیچا ہوتا چلا جاتا ہے ۔ حفاظتی حصار کے طور لگائی گئی باڑھ اور ان پہ جگہ بہ جگہ الارم ۔مسلح گارڈز اور خوانخوار کتوں کی تنبیہ کی لگے بورڈوں سے پتہ چلتا ہے ۔کہ جنگل اور حویلی کی حدود کہاں ہیں۔ ایکڑوں پہ پھیلے حویلیوں کے رقبوں ۔ پہ جگہ بہ جگہ بنی روشیں اور اُن کے اس سرے پہ بنے گیٹ۔ اور دور اندر بنے نوکر پیشہ کے لئیے بنائے گئے گھرنظر آتے ہیں۔
اس بستی کو جانے کا دوسرا رستہ ۔ موٹر وے پہ ناک کی سیدھ میں چلتا۔ پچھلے علاقے کے تجاری مرکزی قصبے سے، الٹے ہاتھ کو بل کھا کر سیدھا اوپر کو اٹھتا ہے۔ اور وہاں سے ایک ذیلی راستہ۔ موٹر وے کو چھوڑ کر پھر اسی راستے سے جا ملتا ہے۔ جو بحیرہ روم کی طرف سے آنے والی سڑک ہے اور یہاں پہنچ کر وہ موٹر وے کے نیچے سے نکلتی ہے۔اور موٹر وے اوپر پُل سے گزر تا ہے۔
تیسرا رستہ وہ ہے جو شاہراہ یا موٹر وے سے نزدیکی تجارتی قصبے سے ایک سڑک کی صورت پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ متواتر اوپر چڑہتا چلا جاتا ہے اور تقریبا نصف فاصلے پہ پہنچ کر کچھ ہموار سطح پہ ۔زلفِ یار کے پیچ وخم کی طرح گول گول گھومتا ۔ہر موڑ پہ پہاڑی کے پیٹ میں سے ہو کر برآمد ہوتا ہے ۔ یہ سڑک کے اس حصے کا ٹاپ یعنی سب سے اونچی اونچائی ہے ۔ جہاں سے نیچے ترائی میں ۔ایک طرف ننھی منی پہاڑیوں کی کے ارد گرد۔ الپائن ۔ چیڑھ کے جھنڈوں اور جا بجا پھلوں اور پودوں کی نرسریوں کا ایک سلسلہ پھیلا ہوا ہے ۔ جن کے اوپر سے دور بہت دور ۔ کئی کلومیٹرز کے فاصلے پہ ۔ بحیرہ رُوم کے متوازی بہتی سڑک اور ریلوے لائن کے اُس پار ہمیشہ کی طرح ساکت اور پوری آب و تاب سے صدیوں کا عینی شاہد بحیرہ رُوم کھڑا ہے ۔ خاموش مگر ہزاروں سال کی انسانی تہذیب اور تمدن کا چشم دید گواہ ۔
اس تیسرے رستے کے الٹے ہاتھ پہ گھنا اور تاریک جنگل ہے۔ جس میں گاہے گاہے ۔ اکا دُکا کچھ لوگوں نے دور کہیں جنگل کے اندر گایوں اور دیگر جانوروں کے افزائش نسل کے لئیے روائتی فارم بنا رکھے ہیں ۔ سڑک کی الٹی سمت سے ۔ان فارموں کو جاتے نیم پختہ راستے اور ان پہ لگے چھوٹے چھوٹے بورڈا ُدہر جنگل میں انسانی وجود کا پتہ دیتے ہیں۔ سڑک گول گول گھومتی ۔ یکایک پہاڑی کے پیٹ میں سے ہو کر برآمد ہوتی ہے ۔سڑک کے دورویہ قدرتی طو ر پہ اُگے پھولوں کے تختے ۔ یہاں سے وہاں تک بہار کا پتہ دیتے ہیں۔ سبزہ اور رنگ برنگے قدرتی پھول ۔ مٹی ۔پتھروں اور چھوٹی موٹی چٹانوں کو برابر اپنے وجود سے ڈھانپے ہوئے ہیں۔ کہیں کہیں اوپر سے رستا۔ کسی چشمے سے بہتا پانی۔ ننھی لکیر سی بناتا ، سڑک کے الٹے کنارے پہ ہی کسی زمین دوز رستے میں گُم ہو کر سڑک کے نیچے سے ۔ سیدھے ہاتھ کو ترائی میں کہیں گُم ہو جاتا ہے۔ اس سڑک پہ گاڑی پارک کرنے یا ویویو پوائنٹ کے طور مناسب جگہ بہت ہی تھوڑی ۔یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ جہاں سے روشن دنوں میں ۔ عصر کے وقت ۔ دُور نیچے سمندر کے اُس پار تک ۔ جہاں تک نظر جاتی ہے۔ سوُرج پگھلے ہوئے سونے کے سیال کی طرح۔ دل کو بھانے والی سنہری دہوپ بکھیرتا ہے۔
رات رکنے کے بعد ہر کوئی دن کو جدہر جس کے سینگ سمائے نکل گیا ۔ جنگل یا سمندر پاس ہو اور چھٹی ہو تو گھر کون بیٹھتا ہے۔
میں چپکے سے گاڑی لے کر گول گھومتی چکر دار پہاڑیوں سے نکلتا ۔ نیچے وادی میں واقع سمندر کے برابر بہتی سڑک کی طرف نکل آیا ۔
سامنے تا حدِ نگاہ بحرہ روم پھیلا ہوا تھا۔ہمیشہ کی طرح پرسکون اور اور پر اسرار۔ اپنے اندر انگنت کہانیاں اور افسانے چھپائے ہوئے۔صدیوں کو اپنے سینے میں سموئے۔ اکا دکا آبی پرندےچیخ کر سطح سمندر پہ ڈبکی لگاتے اور ابھرتے۔ کچھ ساعتوں میں، دور مغرب میں سورج غروب ہوا چاہتا تھا۔ دن کے وقت سن باتھ لینے والے کب کے جاچکے تھے۔ ساحل سمندر خالی ہوا پڑا تھا۔ ادہر ادہر کچھ جوڑے اپنی رومانی دنیا میں کھوئے راز ونیاز کر رہے تھے۔
میں نے اپنے پیچھے سڑک کے اُس طرف، دوسرے کنارے ایکڑوں پہ پھیلی ۔ چھٹی کی وجہ سے بند مارکیٹ کے ساتھ پارکنگ ایریا میں گاڑی کھڑی کی تھی۔مارکیٹ کے نزدیکی بار سے کچھ اسنیکس اور ایک مشروب کا ٹھنڈا کین خرید کر سڑک اور سڑک کے بالکل متوازی چلتے، ریلوے کے دوہرے ٹریک کو ان پہ بنےہوئے پُل کو پیدل چل کر عبور کیا اور ساحل سمند کی طرف آگیا۔
پل پیدل چلنے والوں کی سہولت کے لئیے ہے۔اوراسکی سیڑہیاں ساحلِ سمندر پہ اترتی ہیں۔ اِس طرف درختوں کے دو چار جھنڈ ہیں جن کے ساتھ ساتھ بنچوں کی قطاریں بنی ہیں اور ایک طرف کچھ فاصلے سے صاف پانی کے فوارے کی سی شکل میں شاور بنے ہیں۔ جہاں دن کو سن باتھ لینے والے گھر جاتے وقت سمندری پانی کے نمک اور ریت سے جان چھڑاتے ہیں۔
دور کہیں ڈوبتے سورج کی روپہلی کرنیں سامنے سطح سمندر پہر سونا بکھیر رہی تھیں۔نمازِ مغرب بھی کچھ دیر باقی تھی۔ یہ ساحل عام آبادی سے ہٹ کر ہے۔ ساحل پہ سوائے سمندرکی لہروں کے اضطراب اور آبی پرندوں کے کوئی آواز نہیں تھی ۔ ایک خاموشی کا سا تاثر ابھرتا تھا۔
”کن سوچوں میں کھوئے ہو؟ اداس نہ ہوا کرو۔ آسمان کے اس پار جانے والے لوٹ کر واپس نہیں آیا کرتے”۔ایک بھولی بسری شناسا سی آواز سنائی دیتی محسوس ہوئی۔
میں نے بینچ پہ بیٹھے ہوئے، اچانک چونک کر پیچھے مڑ کر دیکھا۔
درختوں کے جھنڈ میں گھری حویلی ۔زمین کو چھوتی شاخوں والے آموں کے پیڑ ۔ پانی کے چھڑکاؤ سے اٹھتی مٹی کی سوندھی خوُشبؤ۔ نیم کے درخت والے دالان میں بچھی کرسیاں۔دیوار کے ساتھ ساتھ لگے رات کی رانی کے پودے سامنے آدھ کھُلے چوبی پھاٹک سے شیشم کے درختوں کے دو رویہ قطاروں کے بیچوں بیچ کھیتوں سے گزرتی بڑی سڑک کو ملاتی نیم پختہ سڑک۔ اور وہ مہربان آواز۔ آناََ فاناَ ۔ پُھر سے ۔ غائب ہوچکے تھے اور ریلوے ٹریک سے ایک سبق رفتارٹرین شور مچاتی گزر گئی تھی اور سمندر کے اس کنارے پہ پھر وہی خالی ساحل اور خاموشی تھی۔میں نے خالی کین کو بنچ کنارے لگی کوڑا سمیٹنے والی ٹوکری میں اچھال دیا۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, ہم, ہو, ہونے, ہوں, ہوں۔آج, ہوئی, ہوئے, ہوا, ہوتی, ہوتے, ہوتا, ہیں, ہیں۔, ہیں۔چند, ہیں۔آسمان, ہے, ہے۔, ہے۔جوزیبپ, ہاؤس, فائز, فارم, ہر, ہسپانوی, قومی, قدرے, قصبے, لمبے, لوگ, لوٹ, لیتے, لٹکائے, لئے, مقیم, مقامی, ملے, ممکن, منہ, میں, میں۔, میاں, میدان, میری, میرے, مگر, ماریہ, مبالغہ, متقاضی, مجھ, مجھے, محسوس, مخل, مدعو, مسلمانی, مشکل, مشاغل, مطابق, معاملات, ن, نہ, نہیں, نہائت, چمکتی, نماز, نواحی, نے, چھٹی, نئے, نظر, وہ, وہی, وہاں, وقت, وقتوں, وی, ویک, ڈھال, والوں, واپس, وجہ, یہ, یہاں, یوں, یوروپی, یورپی, یا, یافتہ, ۔, ۔میں, ۔میری, ۔کہ, ۔کھلی, ۔پیر, ۔آخر, ۔انکے, ۔اور, ۔ابھی, ۔اس, ۔تھوڑی, ۔جوزیبپ, ۔دونوں, ۔علاقہ, ۔عام, کہ, کہنے, کل, کم, کو, کوئی, کی, کیا, کے, کھانے, کا, کار, کاروباری, کارِزار, کبھی, کبھار, کر, کرنا, کروا, کرتے, کرتا, کسی, گواہی, گوشت, گیا, گھمسان, گھر, گھرمیں, گئے, گاڑی, گر, گرم, پہ, پہنچا, پہنچاتھا۔, پہاڑی, پوچھتے, پی, پینے, پڑھنے, پڑا, پھیلی, پھر, پرانے, پشتی, ،, آفسجمعہ, آپ, آئی, إصرار, افطاری, اقامت, الکریم, الگ, الپائن, امراء, ان, انکی, انکے, انکا, اچھنپے, انتظامیہ, اور, اینڈ, ایک, ایکڑوں, ایسے, ایسا, آنکھوں, آتا, اکیلے, اپنی, اپنے, اپنا, اب, ابھی, اجلے, احترام, اس, اظہار, اعلٰی, بہ, بہت, بلکہ, بلا, بچے, بنائے, بند, بندے, بیچ, بیوی, بُک, بڑی, بڑے, بھلی, بھی, بھُوک, باہمی, بات, بدلے, بدلتے, بس, بستی, بعد, تقاضوں, تو, تین, تک, تھے, تھے۔, تھے۔دونوں, تھا, تھا۔, تاخیر, تعلق, تعلیم, ثابت, جہاں, جلتے, جنگل, جو, جوڑوں, جوش, جگہ, جھنڈا, جاننے, جانےکی, جانا, جاتے, جاتا, جدی, جس, حویلیوں, حکومتی, حد, خلوص, خوشگوار, خاص, خبر, خریت, د, دہمکی, دلاسہ, دن, دونوں, دوپہر, دوست, دوسرے, دینی, دیا, دیتے, دیتا, دیر, دُہلے, دھوپ, درختوں, ذاتی, رہ, رہے, رقبہ, رمضان, رن, روزہ, روزے, رُوٹھے, رکھ, رکھنے, رکھا, رکھتے, راوئتی, رات, زندگی, سمیت, سمجھ, سمجھایا, سی, سُو, سے, سؤر, سامان, سبھی, سراب!میں, شفاف, شہر, شناسا, شیر, شکر۔اپنی, شراب, شعور, صاف, ضروری, طرح, عہدوں, عہدیدار, عادت
پھر بجٹ۔
Budget (مالی سال جولائی 2014ء تا 2015 ء)
دور روز قبل پاکستان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے پاکستان کا سالانہ (مالی سال جولائی 2014ء تا 2015 ء)بجٹ پیش کیا ہے ۔
یہاں حالیہ پیش کردہ بجٹ کے گورکھ دہندے پہ بحث کرنا مقصود نہیں ۔ کیونکہ یہ لچھے دار اور گنجلک بجٹ ہمیشہ سے عام آدمی کی سمجھ سے بالا تر رہے ہیں اور عام خیال یہی ہے کہ انہیں بابو لوگ پاکستان کے دیگر سرکاری نظام کی طرح جان بوجھ کر بھی کچھ اسطرح پیچیدہ اور سمجھ میں نہ آنے والی چیز بنا دیتے ہیں تانکہ عام عوام حسبِ معمول ہمیشہ کی طرح محض سر ہلا کر ”قبول ہے“ کہنے میں ہی عافیت سمجھے ۔
بجٹ کی ایک سادہ تعریف تو یہ ہے کہ کسی بھی ذاتی یا مشترکہ نظام کو چلانے کے لئیے اس نظام پہ اٹھنے والے اخراجات اور اسکی ترجیجات کے لئیے کسی ایک خاص مدت کے لئیے دستیاب میسر وسائل کی منصوبہ بندی کرناہے۔ اسے عام طور پہ بجٹ کہا جاتا ہے ۔ بجٹ ذاتی یا گھریلو بھی ہوسکتا ہے ۔محکمہ جاتی یا ملکی بھی ہوتا ہے ۔ گھریلو ہو تو عام طور پہ اسے ماہانہ بنیادوں پہ سوچا جاتا ہے اور اگر ادارہ جاتی اور ملکی ہو تو اسے سالانہ بنیادوں پہ بنایا جاتا ہے ۔ جسے ملک و قوم کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر سالانہ بنیادوں پہ تیار کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پہ تقریبا سارے دنیا کے ممالک کسی نہ کسی طور سالانہ بجٹ کے تحت اپنے معاملات چلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جس میں مختلف مقاصد کے لئیے مخصوص رقم مقرر کی جاتی ہے اور رقم اور وسائل کی دستیابی کے لئیے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔قومی ترقی۔ دفاع ۔ صحت ۔ تعلیم اور دیگر اہداف مقرر کئیے جاتے ہیں ۔ جبکہ پاکستان میں بجٹ کے آغاز سے بجٹ کے مالی سال کے اختتام تک بندر بانٹ ۔ وقتی ضرورت ۔ بد دیانتی اور دیگر کئی قسم کے جوازوں کے تحت قومی خزانے کے صندوق کا ڈھکن اٹھا دیا جاتا ہے اور بڑھے ہوئے ہاتھ ۔ قوم کی امانت رقم کو قومی ضروت سے کہیں زیادہ اپنی ذاتی اغراض کے لئیے اپنی طرف منتقل کر لیتے ہیں اور منتقلی کا یہ عمل ایسی سائنسی طریقوں سے کیا جاتا ہے ۔ کہ قومی خزانے کو بے دردی سے لُوٹنے والے چور بھی حلق پھاڑ پھاڑ کر ”چور“ چور“ کا شور مچاتے ہیں ۔اور مجال ہے کہ چشم دید گواہوں اور شہادتوں کے باوجود ایسی طریقہ واردات پہ کسی کو سزا دی گئی ہو۔ اور پاکستان کے نصیب میں ہمیشہ سے یوں ہی رہا ہے ۔
قوم کی امانت ۔ قومی خزانے کو خُرد بُرد ہر اور ہیرا پھیری سے اپنی جیب میں بھر لینا ۔شیر مادر کی طرح اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔ایسے میں کم وسائل اور عالمی مہاجنوں کے مہنگے قرضوں۔ امداد و خیرات سے تصور کئیے گے وسائل سے (خسارے کا بجٹ) خسارے کے بجٹ پہ حکومتوں اور اداروں کے سربراہوں ، مشیروں وزیروں کے شاہی اخراجات اور ایک عام چپڑاسی سے لیکر عام اہلکاروں اور اعلٰی عہدیداروں کے حصے بقدر جثے اور دیگر اللوں تللوں سے یہ تصور محض تصور ہی رہتا ہے کہ کہ پاکستان سے غربت اور ناخواندگی ختم ہو اور قومی ترقی کی شرح میں قابل قدر اضافہ ہو۔اور مالی سال کے آخر میں وہی نتیجہ سامنے آتا ہے جو پاکستان میں پچھلی چھ دہائیوں سے متواتر آرہا ہے کہ نہ صرف غریب ۔ غریب سے غریب تر ہوتا گیا بلکہ ہر سال غریبوں کی تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے ۔ عالمی اداروں کی حالیہ حد بندیوں میں پاکستان کئی درجے نیچے کو لڑھک رہا ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں غریبی کی سطح سے نیچے زندگی Low povertyگزارنے والی آبادی نصف سے زائد ہے ۔ خود اسحق ڈار نے اپنی بجٹ تقریر میں یہ بات تسلیم کی ہے کہ پاکستان کی نصف سے زائد آبادی غریبی کی آخری حد سے نیچے ۔ یعنی دو ڈالر یومیہ آمدن سے کم کماتی ہے۔ یعنی ایسے غریب جو مستقبل کے بارے کسی قسم کی منصوبہ بندی کرنے سے محض اس لئیے قاصر ہیں کہ وہ اپنے یومیہ بنیادی اخراجات پورے کرنے کی جستجو میں محض زندہ رہنے کا جتن کر پاتے ہیں۔ایسے حالات میں ایک لگے بندھے بجٹ کے طریقہ کار سے حکومت اور ذمہ دار اداروں کا اپنے آپ کوقومی ذمہ داریوں سے سبک دوش سمجھ لینا۔ پاکستان کی اکثریتی آبادی کی انتہائی غریب آبادی کی غربت اور غریبوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے مترادف ہے۔
پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی بجٹ اجلاسوں پہ اعدو شمار پیش کئیے جاتے ہیں ۔ اور ان پہ کئی کئی دن لگاتار یوانوں میں اجلاس ہوتے ہیں ۔ جہاں حکوت بجٹ کے حق میں دلائل دیتی ہے وہیں حب اختلاف اور دیگر جماعتیں بجٹ کی خامیوں کی نشاندہی کرتی ہیں ۔ حزب اختلاف کئی ایک تجاویز دیتی ہے ۔ حزب اختلاف اور حکومت سے باہر سیاسی جماعتیں حکومت کے متوازی۔ اپنے طور پہ بجٹ کے لئیے باقاعدہ تیاری کرتی ہیں ۔اور متبادل تجاویز کو کئی بار حکومت تسلیم کر لیتی ہے۔ اور ایک بار بجٹ طے پا جانے پہ اسے پائے تکمیل تک پہنچانے کے لئیے حکومت تہہ دل سےمقر ر کردہ اہداف حاصل کرنے کے لئیے مطلوب وسائل مہیاء کرتی ہے۔ ہمارے ارباب اقتدار و اختیار اور اور قومی اسمبلی کے معزز اراکین کا یہ عالم ہے کہ ایک اخباری اطلاع کے مطابق قومی خزانے سے کرڑوں روپے خرچ کر کے قومی اسملی کے ارکان کے لئیے بجٹ کی دستاویز چھپوائی گئی ۔ جسے ستر فیصد سے زائد قومی اسمبلی کے معزز ارکان بغیر کھولے ہی قومی اسمبلی ہال کے ہال میں اپنی سیٹوں پہ چھوڑ گئے ۔ اس میں حکومتی ارکان بھی شامل ہیں۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار کی تقریر کے دوران بھی قومی اسمبلی کی اکثریت ۔ بیزار ۔ بور اور آپس میں بات چیت کرتی نظر آئی ۔ ہماری رائے میں پاکستان سے متعلق اتنے اہم مسئلے پہ عدم دلچسپی کے اس مظاہرے کی وجہ اراکین اسمبلی کو بھی پاکستان کی سابقہ بجٹوں کی طرح اس بجٹ پہ بے یقینی اور بجٹ پیش کرنے کی کاروائی محض ایک رسم اور ایک قومی تقاضا پورا کرنے کے مترادف لینا ہے اور دوسری بڑی وجہ معزز اراکین کی بڑی تعداد کی تعلیمی استعداد اور سوجھ بوجھ کی کمی ہوسکتی ہے ۔ تو ایسے حالات میں پاکستان جیسے غریب سے غریب تر ہوتے معاشرے کے لئیے ایک قابل عمل اور نتیجہ خیز بجٹ کے لئیے مفید اصلاحات کون پیش کرےگا؟، حکومت کے بجٹ کی خامیوں کی نشاندہی کون کرے گا؟۔اسحق ڈار کے لبوں پہ ایک فاتح کی سی معنی خیز مسکراہٹ بھی اس امر کی غمازی کر رہی تھی ۔کہ کوئی تنقید نہیں کرے گا۔ اور بجٹ معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہوجائے گا۔ تو ایسے حالات میں پاکستانی عوام کس کا پلُو تھام کر اسطرح کے بجٹوں پہ فریاد کریں ؟۔
آجکل پاکستان میں ٹیکس گزاروں کا نیٹ ورک بڑہانے کے لئیے بہٹ شور مچا ہوا ہے ۔ بہت سے ترقی یافتہ اور ٹیکس سے چلنے والے ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ اور پاکستان میں ٹیکس گزاروں کی ٹیکس چور ی کو تنقید کا نشانہ بنانا عام ہے ۔ لیکن اس بات کا کوئی تذکرہ نہیں کرتا کہ اُن ممالک میں حکومتی ادارے کس طرح عوام کے ٹیکسوں سے ملکی آمدن کو سوچ سمجھ کر انتہائی ذمہ داری اور دیانتداری سے ایک مکمل منصوبہ بندی سے استعمال میں لاتےہیں جس کے نتیجے میں عام آدمی کو ہر قسم کی بنیادی سہولتیں میسر ہوتی ہیں اور عوام کی فلاح بہبود اور ترقی پہ ٹیکسوں کو خرچ کیا جاتا ہے ۔ اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے لوگوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جاتا اور انہیں نہ صرف کریمنل یعنی سنگین مجرم بلکہ اخلاقی مجرم بھی تصور کیا جاتا ہے ۔ ایسے لوگوں کے نام سے عام آدمی گھن کھاتا ہے اور انکا ذکر انتہائی ناگواری سے کرتا ہے ۔ اور بہت سے ممالک میں ایسے حکومتی عہدیدار اور سیاستدان اسطرح کے اسکینڈل منظر عام پہ آنے سے اپنے عہدوں سے استعفی دے کر گھر بیٹھ جاتے ہیں ۔ اپنے مقدموں کا سامنا کرتے ہیں ۔ اور بہت سے بدنامی کے ڈر اور لوگوں کی نظروں کی تاب نہ لا کر خود کشی کر لیتے ہیں ہیں ۔ جبکہ پاکستان میں ؟۔۔۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ کلچر عام ہے اور اسے ستائشی نظروں سے دیکھا جاتا ہے ۔ کہ جو جتنا بڑا چور ہوگا اسکے حفظ و مراتب بھی اسی حساب سے زیاد ہ ہونگے ۔ وی وی آئی پی تصور کیا جاتا ہے ۔ ایسے لوگ کسی وجہ سے اپنا عہدے سے سبک دوش ہوجائیں تو بھی انہیں ہر جگہ ۔ہر ادارے میں خصوصی اہمیت دی جاتی ہے ۔ایسے ماحول اور معاشرے میں تو ہر دوسرا فرد کسی نہ کسی طرح روپیہ کما کر جلد از جلد اہمیت پانا چاہے گا۔ خواہ اس کمائی کے حلال اور حرام ہونے پہ سو ال اٹھیں۔جبکہ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ جن کی وجہ سے ملک کی آج یہ حالت ہے کہ غریب اور مجبور لوگوں کی محض روز مرہ مسائل کی وجہ سے خودکشیوں میں شرح میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے ۔ انہیں ۔ ایسے لوگوں کو حقیر جانا جاتا ۔انکی حوصلہ شکنی کی جاتی ۔ اور نیک ۔ دیانتدار اور ٹیکس گزار وں کو قابل احترام سمجھا جاتا ۔ انکی حوصلہ افازئی کی جاتی تانکہ محنت سے آگے بڑھنے کا کلچر فروغ پاتا۔ عام آدمی بجائے شارٹ کٹ ڈہونڈنے کے محنت پہ یقین رکھتا۔مگر نہیں صاحب ۔ قومی چوروں کو حرام کے ۔ لُوٹ کھسوٹ اور قومی خزانے کو نقصان دے کر بنائی گئ جائیدادوں اور پیسے کی وجہ سے ہر جگہ سر آنکھوں پہ بٹھایا جاتا ہے ۔ اور جو لوگ بالواسطہ یا بلا واسطہ ٹیکس ادا کرتے ہیں انہیں انتہائی حقارت سے دھتکار دیا جاتا ہے ۔ تو سوال یہ بنتا ہے کہ پھر آپ کس طرح اپنے ٹیکس گزاروں کے نیٹ ورک میں اضافہ کرنا چاہئیں گے ۔ اور ٹیکس نہ دینے والوں کا رونا رونے کے ساتھ اپنی کمزوریوں اور خامیوں سے بھرپور کلچر کو بھی تبدیل کی جئیے ۔
وہ قومیں جو ہماری طرح شدید غربت سے دوچار نہیں وہ بھی اپنی قومی آمدنی بڑھانے کے لئیے کئی ایک حربے آزماتی اور نت نئے جتن کرتی ہیں ۔ جبکہ ہمارے ملک کے بادشاہ لوگوں کا باوا آدم ہی نرالا ہے جبکہ پاکستان کے پاس ایک سرمایہ کاری کا ایک مناسب اور اہم ذریعہ پاکستانی امیگرنٹس کی شکل میں بھی موجود ہے جنہیں مناسب ترغیب، اور منصوبہ بندی سے چھوٹے چھوٹے پراجیکٹس کی طرف راغب کرنا چندا مشکل نہ تھا کہ وہ قومی یا کاروباری اسکیموں میں پیسہ لگاتے اور کارپوریشنز کی طرز پہ انکے سرمایے اور منافع کی دیانتدارانہ نگرانی کی جاتی ۔ لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ۔ روٹی ۔ روزی ۔ روزگار کی وجہ سے یا ملازمت اور کاروبار کی وجہ سے پاکستان سے باہر مقیم افراد کو جسطرح بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح پاکستانی ائر پورٹو ں پہ ان سے سلوک کیا جاتا ہے۔ امیگریشن کاؤنٹر سمیت ہر قسم کے محکماتی کاؤنٹر پہ انکے ساتھ افسر مجاز انہیں کسی جیل سے بھاگے ہوئے قیدی کی طرح سوال جواب اور سلوک کرتا ہے۔ کہ دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ کہاں تو دیگر ممالک کے ائر پورٹس کاونٹر ز پہ مثالی انسانی سلوک کہ غیر قانونی دستاویزات پہ سفر کرنے والے مجبور پاکستانیوں کا جُرم پخرے جانے پہ بھی ان کی عزت نفس کا خیال رکھا جاتا ہے جبکہ اپنے ملک پاکستان سے آتے یا جاتے ہوئے ائر پورٹوں پہ اتنا انتہائی ذلت آمیز رویہ۔ کہ دماغ بھنا اٹھے۔ اور پاکستان کے اداروں کا یہ سلوک ان لوگوں سے۔ جو کئی دہائیوں سے مسلسل اپنے خُون پسینے کی کمائی سے۔ ریاستِ پاکستان کی زر مبادلہ کی کمائی کا بہت بڑا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ۔پاکستان میں مقیم کروڑوں افراد کی کفالت کا ذمہ اٹھا رکھا ہے ۔ تو آپ کیسے ان سے یہ توقع اور امید رکھیں گے کہ پاکستان میں ہر قسم کی عدم سہولتوں اور امن عامہ کی عدم موجودگی کے باوجود اور اسقدر انتہائی اہانت آمیز سلوک کے باوجود وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے؟ یہ ایک ننھی سی مثال ہے ۔ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاروں کو ترغیب دیتے ہوئے بعض اوقات ہم قومی مفادات کو بھی پس پیش ڈال دیتے ہیں۔ جبکہ اپنے پاس موجود وسائل کو ملکی رو میں شامل کرنے کی بجائے اسے ملکی نظام سے بدظن کرنے کے لئیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں ۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے عد توجہ اور لاپرواہی پاکستان میں گھسٹتے نظام کی ایک ادنی سی مثال ہے کہ کس طرح ہم اپنے دستیاب وسائل کو کس بے درردی سے ضائع کر دیتے ہیں ۔ اور بعد میں وسائل کی عدم دستیابی کا رونا روتے ہیں۔ اس ضمن میں بہت سے دیگر طبقوں کی مثالیں دی جاسکتیں ہے۔
ایک عام سا فطری اور مالیاتی اصول ہے کہ جس چیز کی ضرورت جتنی اشد ہو گی اسکے حصول کی لئیے کوشش بھی اسی طرح زیادہ کی جائے گی ۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ وسائل کا حصول اور انہیں مناسب طریقے سے استعمال میں لانا ہے۔جبکہ پاکستان میں کتنے صدق دل سے اس اصول کے خلاف کوشش کی جاتی ہے ۔ پاکستان کے کسی بھی ائر پورٹ یا پورٹ کو استعمال کر کے دیکھ لیں ۔ پاکستان میں درآمد کی جانے والی قابل کسٹم ڈیوٹی اشیاء ۔ خواہ وہ ذاتی ہوں یا کاروباری ۔ یا تحائف ۔ پاکستانی کسٹم کا مستعد عملہ بڑی جانفشانی سے آپکے سامان کی تلاشی لے گا ۔ اور نتیجے میں اس سے برآمد ہونے والی اشیاء کے بارے نہائت تندہی اور خونخوار لہجے میں اس پہ کسٹم ڈیوٹی کی رقم بتائے گا ۔اور ایک سانس فر فر سبھی قانون قائدے بیان کردے گا۔اور محصول کی رقم اسقدر بڑھا چڑھا کر بتائے گا کہ پاکستان پہنچنے والے پریشان حال اور تھکن کے مارے۔ لاعلم۔ مسافر کا منہ کھلے کا کھلا رہ جائے گا۔پریشانی بھانپتے ہی ایک آدھ اہلکار نہائت ہمدردی سے سر گوشی کے انداز میں استفسار کرے گا صاحب سے ککہ کر کچھ کم کروا دوں؟ اور دیکھتے۔ دیکھتے سر عام بولی لگے گی ۔ مُک مکا ہوگا۔ اور وہ رقم جسے قومی خزانے میں جانا چاہےتھا ۔ جس خزانے سے کار سرکار پہیہ چلتا ہے ۔ وہ رقم ۔ قومی خزانے سے تنخواہ اور مراعات پانے والے ہر قسم کے حفظ و مراتب وصولنے والوں کی جیب میں چلی جائے گی ۔ گویا حکومت نے قومی خزانے سے تنخواہ اور وردی دے کر لٹیروں کو قومی وسائل کو خرد برد کرنے کے لئیے بھرتی کر رکھا ہے ۔کچھ یہی عالم پولیس اور پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پاکستان کے سبھی چھوٹے ،بڑے ۔ اہم اور غیر اہم سرکاری اداروں کا ہے ۔ محکمہ کسٹم تو محض پاکستان میں کرپشن کے گلشیئر کا نکتہ آغاز ہے ۔کبھی سوچئیے کہ اگر صرف محکمہ پولیس کا ٹریفک ڈپارٹمنٹ جرمانوں کی وہ رقم جو قومی خزانے میں جمع ہونے کی بجائے پولیس اہلکاروں کی جیب میں چلی جاتی ہے ۔ یہ رقم اگر قومی خزانے میں جمع ہو تو پولیس کی ماہ بھر کی تنخواہ ان سے آسانی سے دی جاسکتی ہے۔ اور نتیجتا قانون کی حکمرانی کا شعور اور رواج بھی ملک میں پھیلے گا ۔ اگر کوئی یہ کہے پاکستان کے اداروں یا کسٹم کے ادارے میں اور ائر پورٹس وغیرہ پہ مکا مکا کی بولی سر عام اور سب کے سامنے نہیں ہوتی تو ایسی حکومت اور ذمہ داروں کو اپنی بے خبری پہ ماتم کرنا چاہئیے ا لاہور ۔ اسلام آباد ۔ کراچی ہر ائر پورٹ پہ بڑے دھڑلے سے اور سر عام ہوتا ہے تو حکومت اور بدقماشی ۔ رشوت اور کرپشن روکنے والے حکومتی اداروں کو اسکی خبر نہیں ؟ ایسے بدقماش اہلکاروں کو سزا دینا۔ دلوانا اور نوکریوں سے فارغ کرنا حکومت کے دیگر فرائض میں سے ایک فرض ہوتا ہے ۔۔ پاکستان میں زکواۃ کے دنوں پاکستانی اپنی رقم بنکوں سے محض اسلئیے نکال لیتے ہیں کہ انہیں حکومت کی زکواۃ کٹوتی پہ بھی شکوک ہیں اور وہ اپنی زکواۃ خود اپنی تسلی سے دیتے ہیں ۔ حکومتی زکواۃ کمیٹیوں پہ یقین نہیں کرتے ۔ حاصل بحث اگرحکومت خود سے کچھ کرنے سے قاصر ہو اورقومی خزانے کو تیل دینے والے عام معلوم اداروں اور عہدیداروں کو کرپشن سے باز نہ رکھ سکے تو ایسے ماحول میں آپ کا ٹیکس گذار کس خوشی میں آپ کو ٹیکس دینے کو تیار ہوگا؟
پاکستان کے اقتصادی و معاشی اور معاشرتی حالات ۔ اندھے بجٹ کے ذریعئے نہیں سدھریں گے۔ اعدادہ شمار کا یہ گورکھ دھندا اگر اتنا ہی مفید ہوتا تو ہر سال غربت میں کمی ہوتی اور ملک و قوم ترقی کرتے جب کہ حقائق اس کے بر عکس ہیں۔ ملک میں غربت اور مہنگائی کا عفریت کب کا منہ کھولے عوام کی امیدو اور خواہشوں کو ہڑپ کرچکا ہے اور کئی سالوں سے پاکستان کے غریب عوام مفلسی اور مفلوک الحالی میں محض زندہ رہنے کا جتن کرتے ہیں۔عام پاکستانی شہری کو پاکستان کے سال در سال پیش کئیے جانے والے بجٹوں سے کوئی امید اور توقع نہیں رہی۔ اور پاکستان میں ایک عام خیال جر پکڑ چکا ہے کہ ہر سال بجٹ کے ساتھ اور فورا بعد میں مہنگائی کی ایک تازہ لہر آئے گی جو شدت میں پچلی مہنگائی سے زیادہ ہوگی ۔ اور پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت کو مدنظر رکھتے ہوئے عام آدمی کے یوں سوچنا سمجھ میں آتا ہے۔
اگر ملک کی حالت اور قوم کی تقدیر بدلنا ہے تو ۔ بڑے منصوبوں کی افادیت اپنی جگہ مگر ایک حقیقی تبدیلی اورقومی اقتصادی ترقی کے لئیے ۔ اسکے ساتھ ساتھ گلی محلے سے لیکر گاؤں۔ گوٹھ۔ بستیوں اور شہروں کے لیول کی چھوٹی چھوٹی منصوبہ بندیاں کرنی پڑیگی ۔ ان منصوبوں کے لئیے وسائل ۔ سرمایہ ۔ اور دیانت دارانہ نگرانی ، اہداف کی تکمیل تک حکومت کو سرپرستی کرنا ہو گی ۔ گلی محلے سے لیکر ملکی اور قومی سطح پہ کی جانے والی منصوبہ بندی لوگوں کی مقامی ضروریات کے مطابق ۔ پاکستانی ۔ محنت کش ۔ اور ہنر مندوں کی صلاحیتوں پہ اعتماد کرتے ہوئے ۔ انکی تربیت اور رہنمائی کرتے ہوئے کی جائے ۔ انہیں چھوٹے چھوٹے پیداواری اہداف دئیے جائیں۔ حکومتی ادارے اپنی تحقیق سے ایسے اہداف کی نشاندہی کریں ۔ اس ضمن میں پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے تحقیقی شعبوں کو بھی شامل کیا جائے۔ اور مطلوبہ پیداوار کی عام منڈیوں میں کھپت ۔حکومت کے فعال اور دیانتدار ادارے کریں ۔ پاکستان با صلاحیت افرادی قوت سے مالامال ہے ، اسکی عمدہ مثالیں فیصل آباد میں ٹیکسٹائل انڈسٹریز ۔ گوجرنوالہ میں پنکھے ۔ اور واشنگ مشینیں ۔ اسٹیل کے برتن ۔ گجرات میں پنکھے ۔ فرنیچر ۔ برتن ۔ سیالکوٹ میں کھیلوں کا سامان ۔ لیدر جیکٹس ۔ جراہی کا سامان اور پاکستان میں کئی اور شہروں میں مختلف قسم کا سامان تیار کرنے والوں سے جڑے ہزاروں خاندانوں کا روزگار اور نتیجے میں وہ پیداوار ہے۔ جس سے پاکستان کثیر زرمبادلہ بھی کما رہا ہے اور ان شہروں کی عام آبادی مناسب روزگار ہونے کی وجہ سے عام علاقوں کی نسبت خوشحال بھی ہے ۔ ان شہروں میں بہت سی مصنوعات کے چھوٹے چھوٹے جُز پرزے گھروں میں تیار کئیے جاتے ہیں۔ اگر اس جوہر قابل کی مناسب تربیت کر کے اسے قومی پیدوار میں شامل کیا جائے تو قوم کو بہتر نتائج ملیں گے ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت سی قوموں نے ننھی سطح سے سے مائیکرو منصوبہ بندی کرتے ہوئے نہ صرف پیدواری عمل بڑہایا ہے اور آج صف اول کی قوموں صف میں کھڑی ہیں ۔ بلکہ انہوں نے اسطرح اپنے شہریوں کو روزگار مہیاء کرنے کی وجہ سے ان کا معیار زندگی بھی بلند کیا ہے ۔ جبکہ پاکستان صلاحیتوں سے بھرپور اور نوجوان افرادی قوت سے مالا مال ہے ۔
جب تک قومی وسائل کو بے دردی سے لُوٹنے والوں اور بودی اہلیت کے مالک منصوبہ و پالیسی سازوں سے چھٹکارہ نہیں پاتے ۔چور دورازوں کو بند نہیں کرتے ۔ پاکستان کو دستیاب وسائل کی قدر نہیں کرتے ۔ اور بھرپور طریقے سے انہیں استعمال میں نہیں لاتے ۔ بنیادی تبدیلی کے لئیے مناسب اور مائکرو منصوبہ بندی نہیں کرتے ۔ افرادی قوت کی مناسب رہنمائی اور تربیت نہیں کرتے تب تک معاشریہ ان چھوٹی بنیادوں۔ اور اکائیوں سے اوپر نہیں اٹھے گا اور تب تک ایک باعزت قوم بننے اور اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کا خوآب ادہورا رہے گا ۔ ہم خواہ کس قدر قابل عمل بجٹ بناتے رہیں نتائج وہی ڈھاک کے تین پات ہی رہیں گے اور قومی ترقی کا خوآب محض خوآب ہی رہے گا۔ سال گزرتے دیر نہیں لگتی ۔ جون 2015 ء میں ایک بار پھر وہی تقریر اور لفظوں کا ہیر پھر محض ایک خانہ پری ہوگی۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: (خسارے, )کچھ, 2014ء, 2015, budgetپھر, Low, povertyگزارنے, ہ, ہلا, فلاح, ہم, ہمیشہ, ہماری, ہمارے, ہمدردی, ہنر, ہو, ہونے, ہونگے, ہونا, ہو۔, ہو۔اور, ہوگی, ہوگی۔, ہوگا, ہوگا۔, ہوگا؟پاکستان, ہوں, ہوئی, ہوئے, ہوا, ہوتی, ہوتے, ہوتا, ہوجائیں, ہوجائے, ہورہا, فورا, ہوسکتی, ہوسکتا, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں۔ایسے, ہیں۔عام, ہیر, ہیرا, فیصل, فیصد, ہڑپ, ہے, ہے۔, ہے۔قومی, ہے۔ایک, ہے۔ایسے, ہے۔اگر, ہے۔جبکہ, ہال, ہاتھ, فاتح, فارغ, ہر, فرنیچر, فروغ, فریاد, فرائض, فرد, فرض, ہزاروں, فطری, فعال, قوم, قوموں, قومی, قومیں, قوت, قیدی, قانون, قانونی, قائدے, قابل, قاصر, قبل, قبول, قدر, قرضوں۔, قسم, لہجے, لہر, لفظوں, لچھے, لوگ, لوگوں, لینا, لینا۔, لیول, لیکن, لیکر, لیں, لیتی, لیتے, لیدر, لُوٹ, لُوٹنے, لڑھک, لے, لگے, لگاتے, لگاتار, لگتی, لٹیروں, لئیے, لا, لاہور, لانا, لاپرواہی, لاتے, لاتےہیں, لاعلم۔, لبوں, مفلوک, مفلسی, مہنگے, مہنگائی, مہیاء, مفید, مہاجنوں, مفادات, مقیم, مقامی, مقاصد, مقدموں, مقرر, مقصود, ملیں, ملک, ملکی, ملازمت, ممالک, منہ, منڈیوں, مچا, منافع, مچاتے, مناسب, منتقل, منتقلی, مندوں, منصوبہ, منصوبوں, منظر, موجود, موجودگی, میں, میسر, مُک, مکمل, مکا, مگر, ماہ, ماہانہ, مال, مالی, مالیاتی, مالک, مالا, مالامال, مائیکرو, مائکرو, ماتم, ماحول, مادر, مارے۔, مبادلہ, متواتر, متوازی۔, متبادل, مترادف, متعلق, مثال, مثالی, مثالیں, مجال, مجاز, مجبور, مجرم, محلے, محنت, محکمہ, محکماتی, محتاط, محصول, محض, مختلف, مخصوص, مدنظر, مدت, مرہ, مراتب, مراعات, مسلسل, مسکراہٹ, مسئلہ, مسئلے, مسافر, مسائل, مستقبل, مستعد, مشینیں, مشیروں, مشکل, مشترکہ, مصنوعات, مطلوب, مطلوبہ, مطابق, مظاہرے, معلوم, معمول, معنی, معیار, معاف, معاملہ, معاملات, معاشی, معاشریہ, معاشرے, معاشرتی, معزز, نہ, نہیں, نہائت, نفس, نقصان, چلنے, چلی, چلانے, چلتا, ننھی, چندا, نوکریوں, چوٹی, نوجوان, چور, چوروں, نیچے, نیک, نیٹ, چیت, نیز, چڑھا, نے, چکا, نکال, نکتہ, نگرانی, چھ, چھوڑ, چھوٹی, چھوٹے, چپڑاسی, چھٹکارہ, چھپوائی, نئے, چاہے, چاہےتھا, چاہئیے, چاہئیں, نافذ, نام, ناگواری, ناخواندگی, نت, نتیجہ, نتیجے, نتیجتا, نتائج, نرالا, نسبت, چشم, نشانہ, نشاندہی, نصف, نصیب, نظام, نظر, نظروں, و, وہ, ڈہونڈنے, وہی, وہیں, وفاقی, وقت, وقتی, وی, ڈیوٹی, وں, ڈھکن, ڈھاک, ڈپارٹمنٹ, ڈال, والوں, والی, والے, ڈالر, ڈار, واردات, واسطہ, واشنگ, وجہ, ور, ورک, وردی, وزیر, وزیروں, وسائل, وصولنے, وغیرہ, ی, یہ, یہی, یقین, یقینی, یومیہ, یونیورسٹیوں, یوں, یوانوں, یا, یافتہ, یعنی, ۔, ۔ہر, ۔محکمہ, ۔چور, ۔وہ, ۔یہاں, ۔۔, ۔کہ, ۔کچھ, ۔کبھی, ۔پاکستان, ۔انکی, ۔اور, ۔ایسے, ۔بجٹ, ۔حکومت, ۔شیر, کہ, کہنے, کہنا, کہیں, کہے, کہ۔, کہا, کفالت, کہاں, کلچر, کم, کمی, کمیٹیوں, کما, کمائی, کماتی, کمزوریوں, کو, کوقومی, کون, کوئی, کوشش, کی, کیونکہ, کیا, کیسے, کے, ککہ, کٹ, کٹوتی, کھلے, کھلا, کھولے, کھیلوں, کھڑی, کپڑا, کھپت, کھاتا, کھسوٹ, کئی, کئیے, کا, کاونٹر, کاؤنٹر, کار, کاروں, کاروائی, کاروبار, کاروباری, کاری, کارپوریشنز, کب, کتنے, کثیر, کر, کرنی, کرنے, کرچکا, کرنا, کرناہے۔, کروڑوں, کروا, کریمنل, کریں, کرڑوں, کرے, کرےگا؟،, کرپشن, کراچی, کرتی, کرتے, کرتا, کردہ, کردے, کس, کسی, کسٹم, کش, کشی, گلی, گلشیئر, گنجلک, گویا, گوٹھ۔, گواہوں, گوجرنوالہ, گورکھ, گوشی, گی, گیا, گے, گے۔, گے؟, گھن, گھر, گھروں, گھریلو, گھسٹتے, گئ, گئی, گئے, گا, گا۔, گا۔پریشانی, گا۔اور, گا؟۔اسحق, گاؤں۔, گجرات, گذار, گزار, گزاروں, گزرتے, ٹیکس, ٹیکسوں, ٹیکسٹائل, ٹریفک, ں, پہ, پہنچنے, پہنچانے, پہیہ, پلُو, پچلی, پنکھے, پچھلی, پولیس, پورے, پورٹ, پورٹو, پورٹوں, پورٹس, پورا, پی, پیچیدہ, پیدوار, پیدواری, پیداوار, پیداواری, پیسہ, پیسے, پیش, پڑیگی, پڑتا, پکڑ, پھیلے, پھیری, پھاڑ, پھر, پا, پالیسی, پانے, پانا, پاکستان, پاکستانی, پاکستانیوں, پاؤں, پائے, پات, پاتے, پاتا۔, پاس, پخرے, پری, پریشان, پراجیکٹس, پرزے, پس, پسینے, ،, ،بڑے, ؟, ؟۔۔۔, ؟۔آجکل, ء, ء)بجٹ, ء)دور, آمیز, آمدن, آمدنی, آنے, آنکھوں, آگے, آپ, آپکے, آپس, آئی, آئے, آباد, آبادی, آتے, آتا, آج, آخر, آخری, آدم, آدمی, آدھ, آرہا, آزماتی, آسانی, آغاز, ا, اہلیت, اہلکار, اہلکاروں, اہم, اہمیت, اہانت, افادیت, افازئی, اہداف, افراد, افرادی, افسوس, افسر, اقتدار, اقتصادی, ال, اللوں, الحالی, امن, امیگرنٹس, امیگریشن, امید, امیدو, امانت, امداد, امر, ان, انہوں, انہیں, انڈسٹریز, انکی, انکے, انکا, انتہائی, اندھے, انداز, اندازے, انسانی, اوقات, اول, اوپر, اور, اورقومی, ایوان, ایڑی, ایک, ایسی, ایسے, اُن, اکائیوں, اکثریت, اکثریتی, اگر, اگرحکومت, اٹھنے, اٹھیں۔جبکہ, اٹھے, اٹھے۔, اٹھا, اپنی, اپنے, اپنا, ائر, اتنے, اتنا, اجلاس, اجلاسوں, احترام, اخلاقی, اخباری, اختلاف, اختیار, اختتام, اخراجات, ادہورا, ادنی, ادا, ادارہ, اداروں, ادارے, ارکان, اراکین, ارباب, از, اس, اسقدر, اسلوبی, اسلئیے, اسلام, اسملی, اسمبلی, اسی, اسے, اسکی, اسکیموں, اسکینڈل, اسکے, اسٹیل, استفسار, استعفی, استعمال, استعداد, اسحق, اسطرح, اشیاء, اشد, اصلاحات, اصول, اضافہ, اطلاع, اعلٰی, اعتماد, اعدو, اعدادہ, اغراض, بہٹ, بہبود, بہت, بہتر, بقدر, بلند, بلکہ, بلا, بننے, بنیادوں, بنیادوں۔, بنیادی, بنکوں, بنا, بنانا, بنایا, بنائی, بناتے, بنتا, بند, بندی, بندیوں, بندیاں, بندھے, بندر, بولی, بوجھ, بودی, بور, بیٹھ, بیان, بیرون, بیرونی, بیزار, بُرد, بڑہانے, بڑہایا, بڑی, بڑے, بڑھنے, بڑھے, بڑھا, بڑھانے, بڑھتی, بڑا, بے, بکریوں, بٹھایا, بھنا, بھی, بھیڑ, بھانپتے, بھاگے, بھر, بھرپور, بھرتی, با, باہر, باقاعدہ, بالواسطہ, بالا, بانٹ, باوا, باوجود, بابو, بات, بادشاہ, بار, بارے, باز, باعزت, بتائے, بجٹ, بجٹوں, بجٹ۔, بجائے, بحث, بد, بدقماش, بدقماشی, بدقسمتی, بدلنا, بدنامی, بدظن, بر, برآمد, برتن, برد, بستیوں, بعد, بعض, بغیر, تہہ, تقاضا, تقدیر, تقریبا, تقریر, تللوں, تلاشی, تنقید, تنخواہ, تندہی, تو, توقع, توجہ, تیل, تین, تیار, تیاری, تک, تکمیل, تھی, تھکن, تھا, تھام, تا, تانکہ, تاب, تازہ, تب, تبدیل, تبدیلی, تجاویز, تحقیق, تحقیقی, تحائف, تحت, تذکرہ, تر, ترقی, ترقی۔, تربیت, ترجیجات, ترغیب, ترغیب،, تسلی, تسلیم, تصور, تعلیم, تعلیمی, تعداد, تعریف, جہاں, جلد, جماعتیں, جمع, جن, جنہیں, جنگ, جو, جوہر, جولائی, جون, جواب, جوازوں, جیل, جیکٹس, جیب, جیسے, جُرم, جُز, جڑے, جگہ, جھک, جئیے, جان, جانفشانی, جانے, جانا, جائیں۔, جائیدادوں, جائے, جائے۔, جاتی, جاتے, جاتا, جاسکتی, جاسکتیں, جب, جبکہ, جتن, جتنی, جتنا, جثے, جر, جرمانوں, جراہی, جس, جسے, جستجو, جسطرح, حفظ, حق, حقیقی, حقیر, حقائق, حقارت, حلق, حلال, حوصلہ, حکمرانی, حکومت, حکومتوں, حکومتی, حکوت, حال, حالیہ, حالات, حالت, حاصل, حب, حد, حرام, حربے, حزب, حساب, حسبِ, حصول, حصے, خلاف, خوفناک, خونخوار, خوآب, خواہ, خواہشوں, خود, خودکشیوں, خوش, خوشی, خوشحال, خیال, خیرات, خیز, خُون, خُرد, خامیوں, خانہ, خاندانوں, خاص, خبر, خبری, ختم, خرچ, خرد, خزانہ, خزانے, خصوصی, دہندے, دہائیوں, دفاع, دل, دلچسپی, دلوانا, دلائل, دماغ, دن, دنوں, دنیا, دو, دوچار, دوں؟, دوران, دورازوں, دوسری, دوسرا, دوش, دی, دینے, دینا۔, دیکھ, دیکھا, دیکھتے, دیکھتے۔, دیگر, دیا, دیانت, دیانتی, دیانتدار, دیانتداری, دیانتدارانہ, دیتی, دیتے, دید, دیر, دے, دھندا, دھڑلے, دھتکار, دئیے, دار, داروں, داری, داریوں, دارانہ, در, درآمد, درجے, دردی, درردی, دستیاب, دستیابی, دستاویز, دستاویزات, ذلت, ذمہ, ذکر, ذاتی, ذریعہ, ذریعئے, ر, رہ, رہنمائی, رہنے, رہی, رہی۔, رہیں, رہے, رہا, رہتا, رقم, رو, رونے, رونا, رویہ۔, روکنے, روٹی, روپیہ, روپے, رواج, روتے, روز, روزی, روزگار, ریوڑ, ریاستِ, رکھ, رکھیں, رکھا, رکھتے, رکھتا۔مگر, رائے, راغب, رسم, رشوت, ز, زندہ, زندگی, زور, زیاد, زیادہ, زیریں, زکواۃ, زائد, زر, زرمبادلہ, سہولتوں, سہولتیں, سفر, سلوک, سمیت, سمجھ, سمجھے, سمجھا, سنگین, سو, سوچ, سوچنا, سوچئیے, سونا, سوال, سوجھ, سی, سیٹوں, سیالکوٹ, سیاسی, سیاستدان, سے, سےمقر, سے۔, سکے, سا, سال, سالوں, سالانہ, سامنے, سامنا, سامان, سانس, سائنسی, سابقہ, ساتھ, سادہ, سارے, سازوں, سب, سبک, سبھی, ستائشی, ستر, سدھریں, سر, سرمایہ, سرمایے, سرکار, سرکاری, سرپرستی, سربراہوں, سزا, سطح, شہادتوں, شہروں, شہری, شہریوں, شمار, شور, شکل, شکنی, شکوک, شاہی, شامل, شارٹ, شدید, شدت, شرم, شرح, شعور, شعبوں, صف, صلاحیت, صلاحیتوں, صندوق, صورت, صاحب, صحت, صدق, صرف, ضمن, ضائع, ضروت, ضروریات, ضرورت, طور, طے, طبقوں, طرف, طریقہ, طریقوں, طریقے, طرح, طرز, عہدوں, عہدیدار, عہدیداروں, عہدے, عفریت, علاقوں, علاوہ, عمل, عملہ, عمومی, عمدہ, عوام, عکس, عافیت, عالم, عالمی, عام, عامہ, عد, عدم, عزت, عظیم, غمازی, غیر, غریب, غریبوں, غریبی, غربت
پاکستانی نام۔ ایک اہم مسئلہ۔
ہمارے ملک میں عام طور پہ بچے کے دو نام رکھے جاتے ہیں ۔
بچے کی علیحدہ سے شناخت کے لئے۔ اسکا نام ۔اس کے والد کا نام ۔ قبیلہ ۔ اور ذات، برادری بمعہ محلہ ،بستی، گاؤں ،گوٹھ ، ڈاک خانہ ،شہر ،تحصیل و ضلع۔ لکھ دیا جاتا ہے ۔
مگر اس کے باوجود ایک ہی محلے میں ایک ہی جیسے ناموں والے دو یا تین لوگ پائے جا سکتے ہیں۔ جس سے اجنبی لوگوں کو کسی خاص فرد کی تلاش و بسیار میں اور محکموں کی کسی ضروری کاروائی کے دوران بہت سے لطیفے جنم لیتے رہتے ہیں۔ اور بعض اوقات ایک نام کے کئی افراد ہونے کی وجہ سے پریشان کُن اور افسوس ناک صورتحال بن جاتی ہے۔ خط ایک ہی جیسے نام والے دوسرے افراد کو پہنچ جاتا ہے ۔یا مغالطہ میں لوگ غلط فرد سے معاملات کر لیتے ہیں۔
جبکہ بہت سے ممالک میں باپ کا خاندانی (بعض ملکوں میں قبائلی) نام اور ماں کا خاندانی نام بچے کے نام کے ساتھ لازمی جز کے طور لکھا جاتا ہے جو تا حیات اس کے نام کا حصہ بن جاتا ہے ۔ اور صرف نام سے ہی کسی کو الگ سے شناخت کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ کیونکہ صدیوں سے رائج ایسے ناموں کے نظام میں انتہائی مشکل سے ہی شاید کبھی دو ایک جیسے نام اور باپ کا خاندانی اور ماں کا خاندانی نام یعنی یہ نام دو یا دو سے زائد افراد کے ہوں۔
یوں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لیکر عام اداروں اور لوگوں کو بھی کسی سے رابطہ کرنے ، اور درست فرد کے ساتھ معاملات کرنے میں دشواری نہیں ہوتی ۔
پاکستان میں تو شناخت کئی طریقوں سے کروا ئی جا سکتی ہے۔ اور ایک دیسی طرز کے ہمارے نظام میں کئی لوگ کسی کی شہادت اور شناخت میں مدد گار ہوں گے۔ اور شناختی کارڈ بننے سے یہ مسئلہ کچھ بہتر ہوا ہے ۔ حالانکہ آج بھی پاکستان میں عام آدمی کم ہی کسی کو اسکی شناختی کارڈ کی وجہ سے شناخت کرتا ہے ۔ عام طور پہ ارد گرد کے لوگ ہی سوال و جواب کی صورت پتہ و مقام بتا دیتے ہیں۔
مگر جب پاکستانی اپنے ممالک سے باہر جاتے ہیں تو وہاں پہ فیملی نام نہ ہونے کی وجہ سے اور ایک ہی شہر میں ایک ہی نام سے دو سے زائد پاکستانی ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے لئے تکلیف دہ صورتحال جنم لیتی ہیں ۔ جس میں بنکوں کے اکاؤنٹ بلاک ہونے سے لیکر مختلف محکموں کے واجبات اور بل اور جرمانے وغیرہ ان لوگوں کے اکاؤنٹ سے کٹ جاتے ہیں جو ایک جیسے نام کی وجہ سے یہ تکلیف بھگتتے ہیں اور بعدمیں صورتحال کا درست علم ہونے پہ۔متعلقہ اداروں سے اپنی رقم واپس لینے کے لئے سر پھٹول کرتے پائے جاتے ہیں۔
بہت سے لوگوں کو رقم کی وصولی ۔یا پاکستان رقم بھیجنے پہ محض اس لئے نہیں وصول کی گئی کہ بھیجنے والے یا وصول کرنے والے کا نام بلیک لسٹ کیے جانے والے کسی مبینہ دہشت گرد کے نام کی طرح نام تھا۔
پاکستانی اداروں اور خاص کر ۔ نادرہ ۔ کو اس صورتحال کا کوئی حل نکالنا چاہیے۔ تانکہ بہت سے لوگ غیر ضروری طور پہ اس طرح کی صورتحال سے بچ سکیں ۔ نیز انہیں کسی سطح پہ یہ اہتمام بھی کرنا چاہیے کہ دیگر ممالک کے محکمہ داخلہ کے علم میں یہ بات لائی جائے کہ پاکستان میں بچے کی پیدائش پہ عام طور پہ محض دو نام رکھ دئیے جاتے ہیں ۔ جن کا خاندانی نام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بچے کے نام کے ساتھ خاندانی نام رکھنے کی پابندی نہیں اور نہ ہی اس کا رواج ہے۔ تانکہ ایک ہی جیسے نام رکھنے والے پاکستانیوں کو در پیش مشکلات میں سرکاری اداروں کو رہنمائی ہو سکے اور غیر متعلقہ لوگ عتاب یا پریشانیوں کا باعث نہ بنیں ۔
اسی طرح ایک اور مسئلہ جو بہت اہم ہے ۔ وہ ہے مقامی ، اردو، عربی اور فارسی کے ناموں کو انگریزی میں درج کرتے ہوئے انکے درست ہجوں کا ۔ مثال کے طور پہ ۔ محمد کو انگریزی میں لکھتے ہوئے ۔ بہت سے سرکاری ادارے اور خاص کر پا سپورٹ آ فسوں میں کلرک حضرات Mohammed اور Muhammad ان دو طریقوں سے لکھتے ہیں ۔ یعنی کہیں انگریزی کا حرف ”یُو“ ۔ اور کہیں انگریزی کا حرف ”او“ کے ساتھ ”محمد “ لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح کا معاملہ پاکستان میں بہت سے ناموں کے ساتھ ہے ۔۔ جن میں ۔جاوید۔ صدیق۔ اور دیگر کئی نام آتے ہیں۔
پاکستان کے مختلف سرکاری اداروں کے کلرک بابو ۔ ایک ہی فرد کا نام ۔ پاسپورٹ۔ اور دیگر کئی دستاویزات ۔ برتھ سرٹیفیکٹ ۔ نکاح نامہ وغیرہ پہ جن کا انگریزی میں ترجمہ کروانے پہ ۔ مختلف ہجوں سے لکھ دیا جاتا ہے ۔ جس سے غیر ممالک میں نہ صرف پاکستان کی جگ ہنسائی ہوتی ہے ۔ بلکہ سائل کو کئی بار اور کئی ماہ دفتروں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں اور خواری الگ سے ہوتی ہے۔
ہماری ذاتی رائے میں ۔ حکومت پاکستان کی ایماء پہ۔ نادرہ پاکستان میں رائج اور مستعمل ناموں کی ایک فہرست تیار کرے اور اسے لغات کی طرز پہ اردو کے سامنے درست انگریزی نام تجویز کرے۔ اور اس فہرست کو سبھی سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کو بھیج دیا جائے اور عام افراد کے لئیے اسے نادرہ کی ویب سائٹ پہ آن لائن شائع کر دیا جائے ۔تانکہ عام افراد اور نجی ادارے بھی اس سے استفادہ کر سکیں ۔ نیز سرکاری و نیم سرکاری اداروں کو آئیندہ کے لئیے پابند کیا جائے کہ وہ نادرہ کے۔ منظور و شائع کردہ ۔درست نام کے ساتھ دستاویزات جاری کریں گے۔ تانکہ مستقبل میں ایسی الجھنوں سے بچا جاسکے۔
کسی بھی حکومت ۔ متعلقہ اداروں اور ذمہ دار افراد کے لئیے یہ ایک معمولی مسئلہ ہے ۔ جسے حل کرنا چندا ںمشکل نہیں ۔ جس سے ۔اندرون و بیرون ملک پاکستانی بہت سی پیچیدگیوں سے محفوظ رہ سکیں گے ۔اور ملک کی جگ ہنسائی نہیں ہوگی۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, ”یُو“, Mohammed, Muhammad, NADRA, ہمارے, ہو, ہونے, ہوں, ہوں“۔, ہوئے, ہوا, ہوتی, ہوتی۔, ہوتا, ہی, فیملی, ہیں, ہیں۔, ہیں۔مگر, ہے, ہے۔, فارسی, ہجوں, فرد, فسوں, قانون, قبیلہ, قبائلی), لوگ, لوگوں, لینے, لیکر, لیتی, لیتے, لکھ, لکھا, لکھتے, لئے, لئے۔, لائی, لازمی, لسٹ, لطیفے, مقام, مقامی, ملک, ملکوں, ممالک, میں, مگر, ماں, مبینہ, متعلقہ, مثال, محلہ, محلے, محمد, محکمہ, محکموں, محض, مختلف, مدد, مسئلہ, مسئلہ۔ہمارے, مشکل, مشکلات, معاملات, مغالطہ, نہ, نہیں, نیز, نکالنا, چاہیے, نافذ, نام, ناموں, نام۔, ناک, نادرہ, نادرہ، نادرا, نظام, و, وہ, وہاں, والے, والد, ڈاک, واپس, واجبات, وجہ, وصول, وصولی, وغیرہ, یہ, یوں, یا, یعنی, ۔, ۔یا, ۔اس, ۔اسی, ۔بچے, کہ, کہیں, کلرک, کم, کو, کوئی, کی, کیونکہ, کیے, کُن, کے, کٹ, کئی, کا, کارڈ, کاروائی, کبھی, کر, کرنے, کرنا, کروا, کرتے, کرتا, کسی, گے۔, گئی, گاؤں, گار, گرد, پہ, پہنچ, پیدائش, پیش, پھٹول, پا, پاکستان, پاکستانی, پاکستانیوں, پائے, پابندی, پتہ, پریشان, پریشانی, پریشانیوں, ،, ،گوٹھ, ،بستی،, ،تحصیل, ،شہر, آ, آنے, آج, آدمی, ئی, اہم, اہتمام, افراد, افسوس, الگ, ان, انہیں, انکے, انگریزی, انتہائی, او, اوقات, اور, ایک, ایسے, اکاؤنٹ, اپنی, اپنے, اجنبی, اداروں, ادارے, ارد, اردو،, اس, اسکی, اسکا, بہت, بہتر, بل, بلیک, بلاک, بمعہ, بن, بننے, بنیں, بچے, بنکوں, بھی, بھیجنے, بھگتتے, باہر, باوجود, باپ, بات, باعث, بتا, برادری, بسیار, بعد, بعض, تلاش, تو, تین, تکلیف, تھا۔پاکستانی, تا, تانکہ, تعلق, جن, جنم, جو, جواب, جیسے, جا, جانے, جائے, جاتی, جاتے, جاتا, جب, جبکہ, جرمانے, جز, جس, حل, حیات, حالانکہ, حرف, حصہ, حضرات, خانہ, خاندانی, خاص, خط, دہ, دہشت, دو, دوران, دوسرے, دیگر, دیا, دیتے, دیسی, دئیے, داخلہ, در, درج, درست, دشواری, ذات،, رہنمائی, رہتی, رہتے, رقم, رواج, رکھ, رکھنے, رکھے, رائج, رابطہ, زائد, سوال, سے, سکیں“, سکے, سکتی, سکتے, سپورٹ, ساتھ, سر, سرکاری, سطح, شہادت, شہر, شناخت, شناختی, شاید, صورت, صورتحال, صدیوں, صرف, ضلع۔, ضروری, طور, طریقوں, طرح, طرز, علم, علیحدہ, عام, عتاب, عربی, غلط, غیر
شیخ السلام ؟ طاہر القا دری ۔لانگ مارچ ۔بلوچستان اور پس پردہ عزائم ۔
کیا شیخ کوا س لئے میدان میں اتارا گیا ہے کہ ایک اور المیہ وجود میں آئے اور خدا نخواستہ مشرقی پاکستان کی طرح بلوچستان کا ٹنٹنا ختم کرتے ہوئے ریاست پاکستان کو دیوار کے ساتھ لگا دیا جائے؟۔
ایک عام رائے یہ ہے کہ شیخ کے پیچھے افواج پاکستان کا ہاتھ ہے۔ اور کچھ نہ کچھ ایسا ہے۔ جو شیخ پاکستان کا موجودہ جمہوری نظام ملیا میٹ کرنے کا مطالبہ الیکشن کمیشن کو منسوخ کرنے کا ایک نکتہ فائر کرنے کے بعد باقی چھ نکتے اسلام آباد میں ظاہر کرنے کی دھمکی لگا کر عازمِ اسلام آباد ہوئے ہیں۔ افواج پاکستان سے غیر ضروری طور پہ ہمدردی کئیے بغیر ۔ ہماری رائے میں افواج پاکستان اس وقت ایک سخت اور کٹھن دور سے گزر رہی ہیں۔ جس کے چاروں اطراف قسما قسمی کے مختلف رنگ روپ کے بھیڑیے اور لکڑ بھگے غرا رہے ہیں ۔ اور مشرقی سرحدوں پہ ازلی دشمن نے بھی اپنی ازلی کمینگی کا ایک بار پھر ثبوت دیتے ہوئے ۔ بغیر کسی وجہ کے مدتوں بعد ۔کنٹرول لائن جنگ بندی۔ نامی معائدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے۔ نہ صرف یکے بعد دیگرے پاکستان آرمی کے دو جوان شہید کر دئیے ہیں۔ بلکہ ہنوز سرحد پار سے گیدڑ بھھبکیاں اور دہمکیاں لگا رہا ہے۔اس لئیے خیال یہ ہے کہ افواج پاکستان ان حالات پہ کبھی بھی نہیں چاہیں گی۔ کہ پاکستان کے اندر حکومتی کاروبار کی بلا بھی ان کے سر آپڑے ۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قوت و وسائل کے وہ کونسے خفیہ و اعلانیہ سر چشمے ہیں جن کی بناء پہ شیخ ۔اسلام آباد پہ غیر آئینی و غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پہ چڑھ دوڑے ہیں؟۔
شیخ کو کس نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اچانک پاکستان وارد ہوں اور غیر آئنی طور پہ وہ پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کرنے نکل کھڑے ہوں۔ وہ بھی اس صورت پہ جب انتخابات کا ڈول ڈالے جانے والا ہے۔ پاکستان کی انتخاباتی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک سول حکومت دوسری سول حکومت کو اختیار و اقتدار منتقل کرے گی؟۔ وہ کونسا ایساقانون ہے جو شیخ کو اپنے ذاتی نظریات کے زور پہ پاکستان میں انتشار پھیلانے اور عوام کو بے سُود ہیجان میں مبتلاء کرنے کی اجازت دیتا ہے؟۔
شیخ۔ کامل اتنے سالوں سے کنیڈا کی شہریت سمیت ۔کنیڈا میں اپنی ذاتی تنظیم منہاج القرآن کی تنظیم و تدوین و ترغیب میں مصروف رہے۔ ذاتی اس لئیے کہ شیخ موصوف اسکے بانی اور صاحبزادہ گان اور بہوئیں اور زوجہ محترمہ اسکے ڈائریکٹر ز ہیں ۔ اور ایک ہاتھ کی انگلیوں پہ گنے جانے والے۔ شیخ کے منظور نظر چند باہر کے افراد شیخ کے نامزدہ ہیں۔اور جمہوریت نام کی شئے کی انکی تنظیم میں کوئی جگہ نہیں۔ ان سالوں میں جب شیخ اور شیخ کے ماننے والے ہر اسلامی اور غیر اسلامی طریقوں سے اور مغرب کے لئیے دلآویز ناموں اور طور طریقوں سے اپنی نامی تنظیم کو پاپولر بنانے کی کوشش کر رہے تھے ۔تو اسوقت شیخ کو پاکستان کی محبت کیوں نہ جاگی؟ جبکہ ایک وقت تھا کہ شیخ پاکستان کی قومی اسمبلی کے رُکن تھے اور شیخ چاہتے تو پاکستان میں رہ کر جمہوری طور طریقوں سے پاکستان کی خدمت ۔لانگ مارچ۔ نامی ہیجان اور انتشار برپا کئیے بغیر زیادہ بہتر طریقے سے کر سکتے تھے ۔ یوں اچانک پاکستان وارد ہونا اور عین اسوقت پہ جب جمہوری طریقے سے قوم کو اپنی تاریخ میں پہلی بار نئے نمائندوں کو نااہل اور سابقہ نمائندوں سے بدل ڈالنے کا موقع ملنے والا ہے۔تو شیخ کے پاس کونسا اختیار اور اخلاقی جواز بنتاہے جس کی بناء پہ وہ چھ خفیہ نکات لیکر پورے ملک کے جمہوری نظام کو لپیٹنے کا مطالبہ کر رہے ہیں؟۔
شیخ نے اپنے لانگ مارچ کو کئی ایک شاعرانہ اور دل خوش کُن نام دینے کے بعد ”جمہوریت بچاؤ“نامی نام دیا ہے۔ جبکہ شیخ کی اپنی ذاتی تنظیم میں جمہوریت نامی کوئی شئے نہیں۔ اور شیخ کے نزدیک مختلف ممالک میں وہی لوگ شیخ کے لئیے کارآمد ہیں۔ جو انکی تنظیم کے لئیے مفید ثابت ہوں اور غیر مشروط طور پہ انھیں ہر طور اسلامی اور غیر اسلامی طور پہ شیخ تسلیم کریں۔ غیر اسلامی کی کوئی حد نہیں ۔ شیخ کے منظور نظر اور یوروپ کے ممالک میں تحریک منہاج القرآن کے کرتا دھرتا یہ لوگ تنظیم منہاج القرآن کے لئیے یوروپی ممالک میں یوروپی بنکوں سے سود پہ قرضہ لے کر۔ اپنی تنظیم کے نام سے مساجد اور مرکز قائم کرنے میں ذرا بھر ندامت محسوس نہیں کرتے ۔نماز جمعہ اور عیدین کے اجتماعات میں سادہ لوح پاکستانی اور مختلف ممالک کے سادہ لوح مسلمانوں کو حقیقت بتلائے بغیر صفوں کے سامنے سے تھیلے بھر بھر کر رقومات مسجد کے لئیے اکٹھی کرتے ہیں اور اس سے بنکوں کے سودی قرضے بھی چکائے جاتے ہیں۔ اور سود پہ مساجد بنانے کے بارے سوال پوچھے جانے پہ برملا اپنے انٹرویوز اور نماز جمعہ اور نماز عیدین پہ مساجد بنانے کے لئیے سود پہ قرضہ لینا جائز بیان کرتے ہیں ۔انکی تنظیم شاید وہ واحد تنظیم ہے جو نائن الیون کے ٹوئن ٹاورز کے المیے کے بعد مغربی ممالک میں زیر عتاب نہیں ہوئی بلکہ کئی طور پہ مراعات اور یوروپی سیاستدانوں کی توجہ پاتی رہی ہے ۔یہاں تک بعض یوروپی ممالک میں انہوں نے منہاج القرآن نامی تنظیم کو ”پیس وے “ یعنی ”امن کا راستہ“ نامی نام سے متعارف کروایا ہے تانکہ نائن الیون کو ٹوئن ٹاورز کے المیے کے بعد یہ تاثر عام ہو کہ منہاج القرآن نامی تنظیم ہی وہ تنظیم ہے جو مغرب کے لئیے فائدہ مند ہونے کی وجہ سے منظور نظر ہوسکتی ہے۔
شیخ کا ماضی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ ہم اس پہ روشنی ڈالیں۔ مقصد شیخ کے پس پردہ مقاصد سے پردہ اٹھانے کی اپنی سی کوشش کرنا ہے۔ شیخ کے خوابوں ۔ شہدا کو جگانے ۔ اور قوالی کی اس محفل جس کے بول ” بت خانہ ہو یا کعبہ۔ طاہر سجدے تجھے ہم کئیے جائینگے“ جیسی محفلوں میں سجدہ کروانے ۔ پاؤں چومے جانے پہ کسی طور بغیر نادم ہوئے یا منع کئیے بغیر ۔ نفس کی تسکین کے ہلکورے لیتے مناظر کے ویڈیوز ۔ پاکستان میں توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نامی قانون کے بنائے جانے کا اور اس قانون کے تحت مسلم اور غیر مسلم و کافر کو کتے کی طرح مار دئیے جانے کا کریڈیٹ لینا اورڈنمارک کے ایک ٹی وی چینل کے انٹرویو کے میں کیمرہ کے سامنے۔ اس قانون کے بننے بنائے جانے کے عمل سے مکمل طور پہ برائت کا اعلان اور اس قانون کے ناقص عمل کا بیان اور شیخ موصوف کےاسطرح کے دیگر ویڈیوز۔ یو ٹیوب۔ فیس بُک اور دیگر میڈیا کی سائٹس پہ تھوڑی سی جستجو کے بعد سینکڑوں کے حساب سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ جن سے صرف ایک ہی بات کا پتہ ملتا ہے کہ شیخ کو اپنے نفس کی تسکین سے والہانہ دلچسپی ہے ۔ جن میں شیخ کی خود پسندی ہر طور۔ہر انداز میں جھلکتی نظر آتی ہے۔
آخر ایسے آدمی کو ایسی کیا سوجھی کہ وہ پاکستان کے خاردار سیاست میں کود پڑا ؟۔ خیال ہے کہ شیخ جن دنوں کنیڈا میں تزکیہ نفس کا عندیہ دے رہے تھے۔ عین انھی دنوں میں کچھ ایسی طاقتیں جو روز اول سے پاکستان کے وجود کے در پے ہیں۔ شیخ کو اپنے مفادات کے لئیے بھرتی کر چکی تھیں ۔اور شیخ کو پاکستانی جذباتی عوام کے سامنے مسحیا کے طور پیش کرنے کا فیصلہ کر چکی تھیں ۔ بعین اسی طرح جس طرح انہوں نے الطاف حسین اور عمران خان کو یکے بعد دیگر میدان میں اتارا اور بوجہ انتہائی ناکامی کے شیخ طاہر القادی کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ انکی اسلامی چھاپ کی مضبوط تنظیم اور ان سےعقیدتمندوں کا والہانہ اسلامی شوق دیکھ کر کیا۔ اور شیخ ایک عام مولوی اور لیکچرار سے اتنی تیزی سے ترقی کرنے کے بعد اپنے روایتی خود پسند نفس کے ہاتھوں اپنے آپ کو ریاست پاکستان کے سربراہ بننے کے خوآب آنکھوں میں سجائے اس لانگ مارچ کا ڈول ڈالنے پہ تیار ہو گئے ۔قطع نظر اس کے کہ انکے اس لانگ مارچ سے پاکستان کی سالمیت کو کس قدر نقصان پہنچ سکتا ہے۔
عالمی سامراج یہ تجربہ اس سے قبل مشرقی پاکستان کو توڑنے کے لئیے کر چکا ہے ۔
ایک رائے ہے کہ امریکہ افغانستان کی بے مقصد جنگ سے نکلنے پہ مجبور ہونے کی وجہ سے ۔ افغانستان سے نکلنے سے قبل اور نکلنے کے عمل کے دوران ۔اپنے پرانے مربی بھارت کو آزاد بلوچستان کی صورت میں یاکم از کم بلوچستان میں بھرپور شورش کی صورت میں۔ بھارت کو اسکی چاپلوسیوں کا انعام دینا چاہتا ہے ۔ اور امریکہ میں کچھ لوگ یہ تصور کئیے اور خار کھائےبیٹھے ہیں۔ کہ جب تک ایک مضبوط اور جمہوری پاکستان کا وجود باقی ہے۔ تب تک افغانستان اور خطے میں امریکی مفادات کی کھلم کھلا تکمیل ہونا ناممکن ہے ۔ امریکہ اسی صورت میں افغانستان پہ اپنا تسلط قائم رکھ سکتا ہے اگر مفادات کے ”کچھ لو اور کچھ دو “ کے معروف لین دین کے عالمی پیمانے میں پاکستان کو کسی طور کہیں سے مجبور کیا جاسکے۔ تانکہ پاکستان افغانستان میں سے اپنی دلچسپی ختم کر کے۔ اپنی بقاء کی بھیک عالمی گماشتوں سے مانگنے پہ مجبور ہو جائے ۔ عالمی گماشتوں کی نظر میں پاکستان کے بڑے شہروں میں امن و امان کی صورتحال ۔ گیس ۔ پانی ۔ بجلی ۔ کے خطرناک بحران اور ٹیلی فون سمیت دیگر مواصلاتی نظام کی تباہی کے علاوہ ۔بلوچستان میں شورش کا بڑھانا شامل ہے ۔ شورش !جس میں بھارتی تربیت اور وسائل استعمال کیئے جارہے ہیں۔ جوں جوں افغانستان سے امریکی افواج منظر عام سے گُم ہونگی ۔افغانستان میں طالبان کے اثرو رسوخ میں اضافہ ہوگا۔ افغانستان میں بھارتی مفادات پہ کاری ضرب پڑے گی ۔اسلئیے عالمی طاقت اور بھارت کی نظر میں۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں تاریخی تبدیلی اقتدار ممکن ہونے جارہا ہے ۔ پاکستان کو فوری طور پہ غیر مستحکم کرنے کے اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانا بہت ضروری ہو گیا ہے ۔ تانکہ پاکستان میں نمائیندہ اور عوامی و جمہوری حکومت کی عدم موجودگی کی وجہ سے روز بروز پاکستان کے وجود کو لاحق ہونے والے خطرات سے بچاؤ کے فیصلے کرنا۔ ایک غیر جمہوری حکومت کے لئیے ناممکن ہوگا ۔ کیونکہ ایک غیر جمہوری حکومت کا اول آخر مقصد۔ محض اپنے وجود کا جواز پیدا کرنا اور اسے بچانا ہوتا ہے۔ ایسے میں قومی مفادات پس منظر میں چلےجاتے ہیں اور انکی حیثیت ثانوی سی ہو کر رہ جاتی ہے۔ غیر جمہوری حکومت کا بازو مروڑ کر اپنی مرضی کے فیصلے لینا۔ عالمی استعمار کے لئیے بہت آسان ہوگا ۔ یہ تجربہ عالمی طاقت پاکستان میں بار ہا دہرا چکی ہے ہے اور اسمیں ہمیشہ کامیاب رہی ہے۔
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ جمہوریت دنیا کا بہترین نظام حکومت نہیں۔ مگر آمرانہ طرز حکومت کے مقابلے پہ ایک بہتر نظام ہے۔ جس طرح تیل کو بار بار چھاننی سے چھانے جانے کے بعد ہر بار آلائشوں سے پاک اور صاف تیل سامنے آتا ہے ۔ اسی طرح کسی ملک میں جمہوری نظام کے چلتے رہنے سے نئے ۔ اچھے لوگ ۔ اور دیانتدار قیادت سامنے آنے کے امکانات دیگر فی زمانہ رائج الوقت نظاموں سے کہیں ذیادہ ہیں ۔ اور جتنی دفعہ اتنخابات ہونگے عوام میں شعور بڑھتا جائیگا ۔ اور ایک دن وہ خود ہی اپنے لئیے ایک بہترین نظام چننے میں کامیاب ہوجانئگے۔یہ وہ وجہ ہے کہ اس جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے لئیے ۔ عالمی گماشتوں نے طاہر القادری کو میدان میں اتارا ہے ۔ اور اس مقصد کے لئیے پہلے سے پاکستان کے اندر ان طاقتوں کے مفادات کی تکمیل کے لئیے ان عالمی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے لوگوں کو پہلے سے ہی اشارہ کر دیا گیا ہے ۔ جو طاہر القادری کا لانگ مارچ کامیاب ہونے کی صورت میں اپنی کوششوں کا آغاز کرنا ہے ۔اور عین ممکن ہے کہ امن و عامہ کی صورتحال ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر حکومت کی نالائقی پہ فوج کو میدان میں اترنا پڑے اور جمہوریت کی بساط ایک دفعہ پھر لپیٹ دی جائے۔ جو بلوچستان میں شورش کو علیحدگی کی حد تک بڑھا دینے کا نکتہ آغاز ہو گا۔ اگر حکومت پاکستان اپنی نالائقی سے کوئٹہ میں اس حد تک مجبور ہوجاتی ہے کہ وزیر اعلٰی کو فارغ کر دیا جاتا ہے ۔تو یہ شیخ کے دھرنے کے کے لئیے مہمیز ثابت ہوگا۔ بلوچستان میں انتہائی سنگدلی سے اٹھاسی افراد کی ہلاکت ۔ حکومت کی نالائقی ۔ دھرنا۔ اور بلوچستان حکومت کی برطرفی کا مطالبہ اور شہر فوج کے حوالے کرنے کا اصرار۔ پاکستان کی مشرقی سرحدوں پہ چھیڑ چھاڑ ۔ مغربی سرحدوں پہ فوج پہ بم حملوں میں اضافہ ۔ ایسے میں شیخ کے لانگ مارچ کی ٹائمنگ حیران کُن ہے۔
عوام اب اس حد تک باشعور ہو چکے ہیں کہ اب کسی ابن الوقت کے ہاتھوں میں کھیلنے کو تیار نہیں ۔ اور انہیں اس بات کا بخوبی احساس ہو چکا ہے کہ تبدیلی یا انقلاب وہی دیرپا ہوتا ہے جو پُر امن ہو اور اس دفعہ عوام کو کامل پانچ سال بعد تاریخ میں پہلی بار تبدیلی قیادت کا موقع مل رہا ۔ ہماری نظر میں لانگ مارچ کے کامیاب ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ایک مرد قلندر نے کہا تھا۔ عالمی استعمار کا یجینڈا اپنی جگہ لیکن مشیت ایزدی کی منصوبہ بندی بہر حال اس پہ فوقیت رکھتی ہے ۔اور شاید اس دفعہ مشیت ایزدی پاکستان کے ساتھ ہے۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, ”پیس, ہماری, ہمدردی, ہنوز, ہونا, ہوں, ہوں“۔, ہوئی, ہوئے, ہوئے۔, ہوتا, ہیں, ہیں۔, ہیں۔اور, ہیں؟۔, ہیں؟شیخ, ہیجان, فیصلہ, ہے, ہے۔, ہے۔اس, ہے۔تو, ہے؟۔, فائر, ہاتھ, ہر, قوم, قومی, قوت, قانونی, قائم, قرضہ, قرضے, قسمی, قسما, قسمت, لوگ, لوح, لینا, لیکر, لے, لکڑ, لگا, لپیٹنے, لئیے, لئے, لانگ, لائن, مفید, ملنے, ملیا, ملک, ممالک, منہاج, منتقل, منسوخ, منظور, موقع, موجودہ, موصوف, میٹ, میں, میدان, ماننے, مارچ, مارچ۔, مبتلاء, مثروط, محبت, محترمہ, محسوس, مختلف, مدتوں, مرکز, مراعات, مسلمانوں, مساجد, مسجد, مشرقی, مصروف, مطالبہ, معائدے, مغرب, مغربی, نہ, نہیں, نہیں۔, نمائندوں, نماز, چند, چڑھ, نے, نکل, چکائے, نکات, نکتہ, نکتے, چھ, نئے, چاہیں, چاہتے, نام, ناموں, نامی, نامزدہ, نائن, نااہل, چاروں, نخواستہ, ندامت, نزدیک, چشمے, نظام, نظر, نظریات, و, وہ, وہی, وقت, ڈول, وے, ڈالنے, والے, والے۔, والا, ڈائریکٹر, واحد, وارد, وجہ, وجود, ورزی, وسائل, یہ, یوں, یوروپ, یوروپی, یکے, ۔, ۔لانگ, ۔نماز, ۔یہاں, ۔کنیڈا, ۔کنٹرول, ۔کیا, ۔انکی, ۔اسلام, ۔بلوچستان, ۔تو, کہ, کمینگی, کمیشن, کنیڈا, کو, کونسے, کونسا, کوئی, کوا, کوشش, کی, کیوں, کُن, کے, کٹھن, کپڑے, کئی, کئیے, کا, کامل, کاروبار, کارآمد, کبھی, کر, کرنے, کریں۔, کرے, کر۔, کرتے, کرتا, کس, کسی, گنے, گی۔, گی؟۔, گیا, گیدڑ, گان, گزر, ٹنٹنا, ٹوئن, ٹاورز, پہ, پہلی, پوچھے, پورے, پیچھے, پیدا, پھیلانے, پھر, پاکستان, پاکستانی, پاپولر, پاتی, پار, پاس, پردہ, پس, ؟, آپڑے, آئنی, آئینی, آئے, آباد, آرمی, افواج, افراد, اقتدار, القا, القرآن, المیہ, المیے, الیون, الیکشن, السلام, ان, انہوں, انکی, انگلیوں, انٹرویوز, انھیں, اچانک, انتخابات, انتخاباتی, انتشار, اندر, اور, ایک, ایسا, ایساقانون, اکٹھی, اپنی, اپنے, اتنے, اتارا, اجازت, اجتماعات, اخلاقی, اختیار, ازلی, اس, اسلام, اسلامی, اسمبلی, اسوقت, اسکے, اطراف, اعلانیہ, بہوئیں, بہتر, بلوچستان, بلکہ, بلا, بنکوں, بنانے, بناء, بچاؤ“نامی, بنتاہے, بندی۔, بیان, بے, بھی, بھیڑیے, بھگے, بھھبکیاں, بھر, باہر, باقی, باننے, بانی, بار, بارے, بتلائے, بدل, برملا, برپا, بعد, بعض, بغیر, تنظیم, تو, توجہ, تک, تھیلے, تھے, تھا, تاریخ, تحریک, تدوین, ترغیب, تسلیم, ثابت, ثبوت, جمہوری, جمہوریت, جمعہ, جن, جنگ, جو, جوان, جواز, جگہ, جانے, جاگی؟, جائے؟۔ایک, جائز, جاتے, جب, جبکہ, جس, حقیقت, حکومت, حکومتی, حالات, حد, خفیہ, خلاف, خوش, خیال, ختم, خدمت, خدا, دہمکیاں, دفعہ, دل, دلآویز, دو, دوڑے, دور, دوسری, دینے, دیوار, دیگرے, دیا, دیتے, دیتا, دھمکی, دھرتا, دئیے, دری, دشمن, ذاتی, ذرا, رہ, رہی, رہے, رہے۔, رہا, رقومات, رنگ, روپ, ریاست, رُکن, رائے, ررہے, ز, زوجہ, زور, زیادہ, زیر, س, سمیت, سول, سوال, سود, سودی, سیاستدانوں, سُود, سے, سکتے, سالوں, سامنے, سابقہ, ساتھ, سادہ, سخت, سر, سرحد, سرحدوں, شہید, شہریت, شیخ, شئے, شاید, شاعرانہ, صفوں, صورت, صاحبزادہ, صرف, ضروری, طور, طاہر, طریقوں, طریقے, طرح, ظاہر, عوام, عین, عیدین, عام, عازمِ, عتاب, عزائم, غیر, غرا