RSS

Tag Archives: جائیں

نُورا ملاح اور جے آئی ٹی


نُورا ملاح اور جے آئی ٹی ۔

نورا ملاح کشتی ”کھیہ“ رہا تھا ۔اس نے ”ونج“ کو آخری بار دریا کی تہہ میں گاڑا اور کشتی کوپتن سے لگادیا ۔ چھوٹی سی رسی سے کشتی کو دریا کنارے باندھنے کی دیر تھی کہ اس پار بکھرے دس بارہ دیہات کے اِکا دُکا مسافر جو دیر سے کشتی کا اِس پار آنے کا انتظار کررہے تھے اُچک اُچک کر جلدی جلدی کشتی میں چڑھنے لگے ۔نُورے کا گھر بھی دریا کے اِسی پار کے کچھ دُورواقع گاؤں ”وسن والا“ میں تھا،گرمیوں کی دوپہر سر پہ تھی ۔


نورے نے کشتی کا ”پُور“ (پھیرا)بھرتے سوچا یہ پچھے چار سالوں سے اسکے نصیب چمک اٹھے تھے ۔ بارہ اِس پار کے گاؤں اور بارہ چودہ اُس پار کے دیہاتوں کے لوگ بھی جوق در جوق اسکی کشتی سے اپنے ضروری کاموں سے اس یا اس پار آتے جاتے تھے ۔ اور ان سالوں میں گو ”ہاڑ“ (سیلاب) تو سر چڑھ کر آتا رہا مگر ہر بار کی مناسب پیش بندی سے اسکی کشتی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا ۔ ورنہ تو پچھلے سالوں میں دو دو بار اسکے کشتی دریا کے سیلاب میں بہہ کر گُم گُما گئی تھی اور اگلے سالوں میں نُورے اور اور اسکے خاندان کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مگر اب کی بار اللہ نے اس پہ اور اسکے خاندان پہ خاص کرم کیا تھا ۔


نُورا انہی سوچوں میں غرق اور دل ہی دل میں خوش ہوتا ہوا کشتی ”کھیتا“ دریا کے درمیان پہنچ چکا تھا کہ اُس کے گاؤں ”وسن والا“ کے ”مانے“ کو پتہ نہیں کیا سُوجھی کہ اس نے کہا کہ
”نُورے میں ابھی گاؤں سے آیا ہوں اور تمہارے لئیے ایک بری خبر ہے “
نورے کی ساری خوشی کافُور ہوگئی اور وہ مانے کی طرف متوجہ ہوگیا جو بتارہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
”نُورے ۔ تمہاری بیوی اپنے کسی آشناء کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی ہے“


نورے کا رنگ فوراََ فق ہوگیا ۔ کشتی میں سوار بار ہ گاؤں کے دیہاتیوں نے چونک کر اپنی باتیں چھوڑ چھاڑ کر نظریں نُورے پہ گاڑ دیں ۔ اور نورے کو یوں لگا جیسے کسی نے اسے بھرے بازار میں ننگا کر دیا ہو۔ایک لمحے کے لئیے ”ونج“ پہ اسکی گرفت کمزور ہوئی اور کشتی لہراکر رہ گئی ۔ مگر نُورے نے دوبارہ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے ”ونج “ پہ اپنی گرفت مضبوط کی مگر اُسے یوں لگا جیسے کسی نے اسکے بازؤں کی طاقت سلب کر لی ہو ۔ نورا ملاح جیسے تیسے کشتی ”کھیہ“ کہ دریا کے دوسرے کنارے لگانے میں کامیاب ہوگیا ۔ کشتی کے مسافر اسے عجیب نظروں سے دیکھتے اپنے اپنے رستوں کو ہو لئیے صرف ”مانا“ رک گیا تھا اور مسافروں کے جاتے ہی نُورااپنی بربادی پہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔اور اچانک ”مانا “ بے اختیار قہقے لگا کر ہنسے لگا ۔ نورے نے غم اور صدمے سے مانے کو دیکھا ۔ مانے نے کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
” اوئے جھلیا۔ میں تو تمہارے ساتھ دل لگی (مذاق) کر رہا تھا ۔ تمہیں پتہ تو ہے دل لگی کرنے والی میری اس پُرانی عادت کا۔ تمہاری بیوی کسی اپنے آشناء کے ساتھ بھاگ کر کہیں نہیں گئی اور وہ تمہارے گھر پہ ہی ہے۔ میں تو ایسے ہی تمہارے ساتھ دل لگی کر رہا تھا“

نُورے نے مایوسی اور غم کے ملے جُلے جذبات اور رندھے ہوئے گلے سے دور دراز راستوں پہ جانے والے کشتی کے مسافروں کو دیکھا اور ”مانے“ سے گویا ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
”مانے! تم نے تو دل لگی کی مگر میرا ستیا ناس کردیا۔اب یہ سمجھو کہ کہ میری بیوی واقعی گھر سے بھاگ ہی گئی ہے۔یہ بارہ گاؤں کے لوگ بارہ چودہ مختلف گاؤں کو جائیں گے اور اتنے ہی لوگوں کو بتائیں گے کہ نورے ملاح کی بیوی آج گھر سے بھاگ گئی ہے۔ نہ یہ سارا ”پُور“ دوبارہ اکھٹا ہوگا ۔ اور نہ ہی وہ تم سے یہ جاننا چاہیں گے کہ تم نے مجھ سے دل لگی کی تھی جبکہ میری بیوی کسی آشناء کے ساتھ گھر سے نہیں بھاگی تھی۔ اور اگر اتفاق سے وہ اکھٹے ہو بھی جائیں اور تم انہیں حقیقت بتا بھی دو تو اتنے سارے دیہاتوں میں جہاں ان کے بتانے سے میری نیک نامی تار تار ہوگی وہ کیسے نیک نامی میں بدل پائے گی؟ بس ”مانے“ اب یوں سمجھوں کہ میری بیوی کسی آشناء کے ساتھ بھاگ ہی گئی ہے اورمیری نیک نامی تواب واپس آنے سے رہی“


نواز شریف نے اگر کرپشن نہیں بھی کی تو بھی اب نواز شریف جس قدر متنازع شخصیت بن چکے ہیں اور ثابت اور غیر ثابت شدہ الزام تراشیوں میں گھر چکے ہیں ۔توانہیں چاہئیے کہ ملک و قوم کے وسیع ترمفاد میں اپنے عہدے سے استعفی دے کر بچی کچھی کچھ نیک نامی سمیٹنے اور جمہوریت کو بچانے کی کوشش کرنی چائیے۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

جے آئی ٹی رپورٹ بھی ہوگئی۔


جے آئی ٹی رپورٹ بھی ہوگئی۔

اب کیا ہوگا؟۔
کیا یہ سیریل آئندہ الیکشن تک چلے گا؟

اگر یوں ہوتا ہے کہ یہ سیریل آئندہ الیکشن تک چلتی ہے تو کیا اس کا یہ مطلب واضح ہے کہ گو کہ اس سیریل کے تمام اداکار پاکستانی ہیں مگر اس سیریل کو ڈائریکٹ کہیں اور سے کیا جارہا ہے؟

جنرل ایوب خان نے اپنی کتاب "فرینڈز ناٹ ماسٹرز” Friends Not Masters, میں آقاؤں کی طوطا چشمی کے شکوے کئیے ہیں اور ان کی بے وفائی کا دکھڑا بیان کیا ہے۔ اور ایوب خان کے خلاف بھی لانگ مارچ کا ہی فارمولہ آزمانے اور انہی طاقتوں کی ایماء پہ برسراقتدار آنے والے بڑے بھٹو مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار کے آخری ایام میں اپوزیشن جماعتوں کے قومی اتحاد اور بعد ازاں نظامِ مصطفی نامی تحریک کے زبردست دباؤ کے بعد پی ٹی وی پہ اپنی آخری تقریر میں امریکہ کو سفید ہاتھی گردانتے ہوئے یہی واویلہ کیا کہ ہائے ہائے مجھے بنانے والے مجھے گرانے پہ آمادہ ہیں۔

انہی طاقتوں کے اشارے پہ گرم سیاسی ماحول میں اسلامی نظام کا نعرہ لگا کر تختِ اسلام آباد پہ قبضہ جمانے والے جنرل ضیاء الحق بھی اپنے آخری دنوں میں اپنے انجام سے آگاہ ہوچکے تھے کہ آقاؤں کا دستِ شفقت انکے سر سے اٹھ چکا ہے اور وہ آج یا کل دیر یا سویر سے اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں۔ اسی لئیے وہ اپنے آخری دنوں میں امریکی سفیر اور اپنے جرنیلوں سمیت ہر اس شخص کو اپنے ساتھ لئیے پھرتے تھے جس پہ انہیں اپنے خلاف کسی سازش میں شریک ہونے کا ذرہ بھر بھی شائبہ تھا۔ اور بہاولپور فضائی حادثے میں مارے جانے والے پاکستان کے انتہائی ذمہ دار لوگوں کے ایک ہی طیارے میں سوار ہونے کی یہ بھی ایک وجہ تھی۔

موجودہ دور میں پاکستانی مسنندِ اقتدار پہ قابض ہونے والوں میں سے جنرل مشرف شاید وہ واحد کردار ہے جس نے ہدایت کاروں کی ہر فرمائش ان کی توقعات سے بڑھ کر پوری کی اور جب جنرل مشرف کو مسندِ اقتدار سمیٹنے کا اشارہ ہوا تو اس نے بلا چون چرا جان کی امان پاؤں کے صدقے اپنا بوریا لپیٹا اور اُدہر کو سدھار گئے جدہر سے انہیں جائے امان کا وعدہ کیا گیا تھا۔
ایسے ھی اچانک سے ڈرامائی طور پہ زرداری پاکستان کے صدر بن گئے۔ کیا تب صرف چند ماہ بیشتر کسی کے وہم گمان میں تھا کہ بے نظیر وزیر اعظم بننے کی بجائے زرداری پاکستان کے مختارِکُل قسم کے صدر بن جائیں گے؟۔ ہماری قومی یاداشت چونکہ کچھ کمزور واقع ہوئی ہے اگر کسی نے یاداشت تازہ کرنی ہو تو اس دور کے الیکشن سے چند ماہ قبل کے اخبارات اور ٹی وی مذاکروں کا مطالعہ و نظارہ کر لیں۔ جن میں بے نظیر کے ہوتے ہوئے زرداری کے صدر یا وزیر اعظم بننے کا خیال تک بھی کسی سیاسی جغادر کے وہم و گمان سے گزرا ہو۔ صرف چند ماہ میں زرداری پاکستان کے مختار کل قسم کے صدر تھے۔

زرداری حکومت میں نواز شریف عدلیہ بحالی کا عزم لے کر لاہور سے اسلام آباد کو ایک جمِ غفیر لے کر نکلے۔ عوام کا ٹھاٹا مارتا سمندر ساتھ تھا۔ زرداری حکومت چند دن میں ڈیڑھ سو کلو میٹر کی دوری پہ انجام پزیر ہوسکتی تھی۔ قومی یادشت کو تازہ کی جئیے کہ تب امریکی صدر اور سفیر اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل کیانی کے یکے بعد دیگرگوجرانوالہ نواز شریف کو فون آئے اور نواز شریف عام عوام کی توقعات اور امیدوں کے بر عکس تب گوجرانوالہ سے واپس لاہور سدھار گئے۔ سوجھ بوجھ والوں نے تب ھی فال ڈال دی کہ مک مکا ہوگئی ہے اور زردای کو ٹرم پوری کرنی دی جائے گی اور آئندہ ویز اعظم نواز شریف ہونگے۔ اور مڈٹرم کے طور یہی کلیہ نواز شریف کے خلاف مختلف مارچوں اور دھرنوں کے ذرئیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی مگر عام عوام کی عدم دلچسپی یا آئے دن کے بے مقصد سیاسی ہنگامہ آرائی سے بیزارگی کی وجہ سے یہ ایکٹ کامیاب نہ ہوسکا۔

کسی بھی قیمت پہ اقتدار میں آنے والے جب طے شدہ شرائط پہ کام کرنے کے بعد خالص اپنے ذاتی جاہ حشمت کو برقرار رکھنے کے لئیے کنٹریکٹ کوغیر ضروری طور پہ طوالت دینے کی ضد کریں۔ یا دی گئی بولی سے انحراف کریں تو ان کا انجام بخیر نہیں ہوتا۔

مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی قیمت پہ اقتدار کے خواب دیکھنے والے بچہ سقوں کی ہمارے ہاں کمی نہیں۔ مگر ایسے خوابوں کو پایہ تکمیل پہنچانے والی یا اقتدار کو استحکام بخشنے پہ قدرت رکھنے والی وہ طاقتیں جوبیرونِ پاکستان سے کٹھ پتلی تماشے کی ڈوریاں ہلاتی ہیں وہ کسی ایسے ڈھیلے ڈھالے کردار کو مسند اقتدار کا ایکٹ نبھانے کی اجازت دینے پہ تیار نہیں جو موجودہ دور میں پاکستانی اسٹیج پہ اپنے کردار اور ایکٹ کو زبردست عوامی پذیرائی اور عوام کی طرف سے پرجوش تالیوں کے استقبال کی اہلیت نہیں رکھتا۔

کیا پاکستان کے مفادات کے خلاف پھر سے بولی ہوگی؟ جو بڑھ کر بولی دے گا اسے مسند اقتدار بخشا جائے گا؟

کیا نئے مناسب اداکار دستیاب نہ ہونے کی صورت میں پرانی ٹیم نئی شرطوں اور تنخواہ پہ کام کے لئیے منتخب کی جائے گی؟
کیا ہمارے خدشات محض خدشات ثابت ہونگے۔اللہ کرے ہمارے خدشات محض خدشات ثابت ہوں۔

پردہ اٹھنے میں دیر ہی کتنی ہے؟ نئے انتخابات میں عرصہ ہی کتنا رہتا ہے؟

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

پاکستان کے خلاف سائبر گوریلا وار اور تجاہل عارفانہ۔



پاکستان کے خلاف سائبر گوریلا وار اور تجاہل عارفانہ۔

لوہے کی دریافت اور پہیے کی ایجاد پہ۔ انسانی زندگی میں ہونے والی تبدیلی اور انقلاب کی طرح ۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے حضرتِ انسان کی زندگی میں تیسرا بڑا انقلاب برپا کیا ہے۔اور دنیا محض چند سالوں میں بدل کر رہ گئی ہے ۔جس کا کچھ سالوں قبل تک تصور کرنا بھی انسانی فہم کے لئیے ناممکن تھا ۔ تعلیم۔ صحت۔ توانائی ۔صنعت ۔ دفاع ۔شوق ۔کھیل ۔تمام پیداواری شعبہ جات یعنی دنیا کا کوئی شعبہ اب ایسا نہیں رہا ۔جہاں کمپیوٹر یا اس کی ذیلی مصنوعات استعمال نہ ہو رہی ہوں ۔ دنیا میں اب خواہ کچھ بھی ہوجائے ۔ اب وہ پہلی سی دنیا واپس لانا ناممکن ہے ۔ اور کسی قوم کا اس نئی ٹیکنالوجیز کے بغیر ترقی کرنے کا خواب ،محض ایک خواب پریشاں کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔یہ تبدیلی اس رفتار سے ہورہی ہے ۔کہ جو ایجاد آج نئی اورانوکھی تصور کی جارہی ہے۔ وہ ہفتے عشرے بعد پرانی ہوچکی ہوگی اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ نئی نئی ایجادات اور از بس ضروری قسم کی جدید ٹیکنالوجیز اس تیز رفتاری سے وجود میں آرہی ہیں۔ کہ جو قومیں اس کا ساتھ نہ دے سکیں گی ۔ وہ یا تو محتاجِ محض بن کر رہ جائیں گی۔ یا پھر تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لئیے گُم گشتہ ہوجائیں گی ۔اور اس محتاجی اور گمشدگی کے لئیے ۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے قبل کے ”امتدادِ زمانہ “ ۔ ”نیرنگی زمانہ“۔اور ۔”گردشِ زمانہ“ جیسی اصطلحات بے معنی اور فرسودہ ثابت ہونگی ۔کیونکہ اب کمپیوٹر اور نت نئی ٹیکنالوجیز کے مقابلے میں ۔قوموں کی عدم تیاری کی وجہ سے۔ دیگر قوموں کی محتاجی کرنے۔ یا ۔تاریخ میں گُم گشتہ ہونے کا دورانیہ ۔”زمانوں“ ۔اور۔” صدیوں “۔کی بجائے محض چند دہائیوں پہ مشتمل ہوگا۔


یہ ایک عام معروف بات ہے ۔کہ جو ں جوں دنیا میں ذارئع ابلاغ نے ترقی کی ہے ۔ حریف ممالک ۔ حریف قوموں ۔حریف سیاسی جماعتوں ۔ حریف سیاسی نظریات۔ حتی کہ حریف کاروباری اداروں کے خلاف محسوس اور غیر محسوس طریقے سے پراپگنڈاہ اور بے ہودہ الزامات کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا ہے ۔ مگر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی ایجاد نے ذرائع ابلاغ کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔جس نے دنیا میں انسانی معاشروں میں اقدار اور طور طریقوں کو بدل کر رکھ دیا ہے ۔ اور محض چند بٹن دبانے سے ۔ ٹچ کرنے سے ۔ آپ ہزاروں میل دور ۔ خدا کی وسیع تر دنیا میں ۔ کہیں بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔ کسی بھی فرضی نام سے ۔درجنوں طریقوں سے اپنا مدعا بیان کر سکتے ہیں۔ کسی دوسرے فرد۔ گروہ ۔ معاشرے ۔ ملک ۔ قوم۔ مذہب۔ اقدار۔ طور طریقوں۔ کی ستائش اور تعریف کرسکتے ہیں۔ یا اختلاف کرتے ہوئے اپنا مدعا یا احتجاج درج کروا سکتے ہیں۔ اور آزادی ِ اظہار رائے کا بھرپور استعمال کرسکتے ہیں ۔ مگر ان باہمی رابطوں اور آزادی اظہار رائے کے پردے میں بہت سے مضمر پہلو بھی پوشیدہ ہیں۔ جس کا بہت سے لوگ شکار ہورہے ہیں۔ اس آزادی اظہار رائے کے پردے میں دنیا کے تقریبا سبھی ممالک میں ۔کچھ لوگ خصوصی طور پہ تیار کئیے جارہے ہیں ۔جو اپنے حریف اور دشمن ممالک کے کمپیوٹرز تک رسائی حاصل کرنے ۔ انکی جاسوسی کرنے ۔ انکی قیادت ۔ سائینس دانوں۔ اداروں ۔ افواج۔ دفاعی تنصیبات اور دیگر اہداف تک رسائی حاصل کرنے ۔ انکے کمپیوٹرز سوفٹ وئیرز کو تباہ کرنے جیسی تخریبی کاروئیاں کررہے ہیں ۔ اس تخریب کاری کو سائبر وار کا نام بھی دیا جاتا ہے ۔ جو کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ۔


مگر اس اس سائبر تخریب کاری سے بھی زیادہ خطرناک۔ اس سائبر وار کا نہائت مہلک ہتیار ایک اور بھی ہے۔ جس کے نقصان دہ اثرات ۔سائبر تخریب کاری سے کئی گناہ زیادہ ہیں ۔ جس کے تحت دشمن ممالک اور عالمی طاقتوں کے خاص طور پہ تیار کردہ پیشہ ور افراد ۔اسلام اور مسلمان قوموں خاص کر ۔ پاکستان ۔نظریہ پاکستان ۔ اور افواجِ پاکستان کے خلاف۔ ایک پیشہ ورانہ تیاری کے ساتھ۔ بھرپور طریقے سے حملہ آور ہوتے ہیں۔ اور عام طور پہ مسلمان ناموں کے ساتھ ۔ مسلمانی کے پردے میں ۔ انکے حملے کا انداز۔ نہائت بے ساختہ اور بظاہر بے ضرر لیکن انتہائی مضر ہوتا ہے ۔ ایسے لوگ۔ اسلام ۔ پاکستان ۔نظریہ پاکستان ۔ اور افواجِ پاکستان کے بارے شکوک اور افواہیں پھیلاتے ہوئے ۔پاکستانی معاشرے ۔ ملک ۔ قوم۔ مذہب۔ اقدار اور طور طریقوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس بارے افواہیں۔ بے بنیاد باتیں۔ شکوک و شبہات ۔ نوجوانوں کو احساس کمتری میں مبتلاء کرنا ۔ اور مایوس کُن نظریات پھیلانے۔ میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں ۔ جو اپنے اس طریقہ کار کو آگے بڑھانے کے لئیے اپنے ساتھ لوگوں کو ملانے میں ماہر ہوتے ہیں ۔ اور بد قسمتی سے اسلام اور پاکستان سے شاکی کچھ لوگ۔ الحاد ی ۔ قادیانی۔ نظام سے شاکی۔ دین بیزار۔ اور کچھ ناعاقبت اندیش محض جدت کے شوق میں۔ ان کے آلہ کار بن کر اپنے ہی ملک و قوم کی جڑیں کاٹتے مصروف ہیں۔ اور نہائت زہریلے افکارات۔ معصوم اور سادہ نوجوانوں میں پھیلا رہے ہیں ۔ جن کا ایک خاص مقصد۔ اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان کے خلاف ۔ایک رائے عامہ تیار کرنا ہے ۔ جو بغیر کسی تحقیقی یا مطالعیاتی تکلف کے۔آنکھیں بند کر کے۔ انکے زہریلے پروپگنڈے پہ یقین لے آئے ۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں انٹرنیٹ اور حال ہی میں تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی فون پہ دستیاب ہونے کی وجہ سے ۔ واجبی تعلیم اور سطحی ذہنیت کے کچھ بے وقوف لوگوں کے ہاتھ میں ایک فون اور انٹرنیٹ ایسے آگیا ہے جیسے بندر کے ہاتھ میں ماچس۔ اور وہ نہ آؤ دیکھتے ہیں نہ تاؤ ۔ بس پورن سائٹس سے اخلاقی بگاڑ پیدا کرنے سے لیکر۔ لوگوں کو گالم گلوچ دینے ۔اور اپنے ہی ملک کے بارے فیشن کے طور پہ ۔اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان۔ کے خلاف گھڑی گھڑائی باتیں لکھنے۔ اورایک نئے میڈیا پہ ۔محض چند لائکس حاصل کرنے کے لئیے ۔ اول فول بکتے چلے جاتے ہیں ۔


مگر جو زیادہ سنجیدہ اور اور حساس لوگوں کے لئیے پریشان کُن مسئلہ ہے۔ وہ انٹر نیٹ پہ ۔ فیس بُک ۔ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پہ۔ بہت سے ہندؤوں ، قادیانیوں اور حتی کہ کچھ اردو جاننے والے یہودی صہونیوں نے ۔ مشنریوں نے ۔الحادیوں اور پاکستان سے بیزار نام نہاد تاریخ دانوں ۔ ماضی کے کچھ نام نہاد ترقی پسند اور آجکل امریکہ کی محبت میں دیوانے ۔ قوم فروش لوگوں نے۔ مسلمانوں اور دیگر نام سے اسلام ۔ پاکستان ۔نظریہ پاکستان ۔ اور افواجِ پاکستان کے خلاف بہت سے پیج بنا رکھے ہیں۔ پاکستانیوں میں لسانی اور صوبائی حتٰی علاقائی تعصب ابھارتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جنا ح اور اقبال رحمتہ اللہ علیہ جیسی شخصیتوں کے اسلام اور پاکستان کے بارے واضح افکارات کو مشکوک بنا کر پیش کرتے ہیں۔ کچھ بد بخت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے ۔ مسلمانی کے پردے میں نہائت رقیق اور غلیظ باتیں تک ان سے منسوب کرنے سے باز نہیں آتے۔

اپنے پیجز پہ۔ یہ لوگ نام بدل بدل کر اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان۔ کے بارے ہرزہ سرائی کرتے ہیں ۔ ایک دوسرے کی ستائش کرتے ہیں۔ اور بقائے باہمی کے تحت ایک دوسرے کی پوسٹس لائک اور شئیر کرتے ہیں۔ یہ لوگ دین اسلام اور پاکستانی کی اساسی بنیادوں کے بارے پیشہ وارانہ تیاری کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں۔جب کوئی انہیں مدلل جواب دے تو الامان الحفیظ ۔ یہ اسے جواب تک نہیں لکھنے دیتے ۔ غلیظ ہتکھنڈوں سے اس کے لتے لیتے ہیں ۔

بعض کا طریقہ واردات نہائت نپا تُلا ہے ۔ یہ مسلمانی کے پردے میں ۔اپنی طرف سے گھڑی مشکوک احادیث تک دھڑلے سے بیان کر دیتے ہیں۔ جب قائد اعظم محمد علی جنا ح رحمتہ اللہ اور اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے مسلمانی کردار کے بارے ۔ اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان۔ کے بارے فرضی کتابوں اور دانشوروں کے نام کا حوالہ دے دیں گے ۔۔ فرضی یا پچھلے کچھ سالوں سے پاکستان کے خلاف لکھنے والے ۔دیہاڑی دار۔ بزعم خویش دانشور اور تاریخ دان کے نام سے حوالہ دیں گے ۔ جن میں سے کچھ نے پاکستان کے خلاف۔ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے دھڑلے سے زہر اگلا ہے ۔ ان چند بکاؤ مال کےنام لکھ دیں گے ۔ ”فرضی ڈاکٹر دانشوروں کے نام سے فرضی کتاب سے استفادہ “لکھ کر شکوک اور مایوسی پیدا کرنے والے اسٹیٹس لکھ دیں گے۔

عام طور پہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے پیجز کو خواہ وہ کس قدر ہی دل آزار کیوں نہ ہو۔متعقلہ میڈیا کو رپوٹ کیا جائے۔ تو میڈیا کی انتظامیہ کا ۔پہلے سے پرنٹڈ جواب لمحوں میں آجائے گا ۔ کہ ”آپ کا شکریہ ۔ لیکن ہماری ٹیم نے متعلقہ پیج۔ یا تصویر پہ ایسا کوئی قابلِ اعتراض مواد نہیں دیکھا جس بارے آپ نے رپوٹ کی ہے“۔ اور ملک و قوم اور اسلام سے محبت رکھنے والے گُمنام لوگ ۔ انتہائی بے بسی سے ۔پھر سے۔ ایسے پیجز کے خلاف اپنی مقدور بھر کوشش سے۔ لکھنے میں جڑ جاتے ہیں ۔ مگر اسی پہ بس نہیں ۔ ایسے اسلام اور پاکستان ۔ دشمن پیجز کا مقابلہ کرنے والوں کو۔ اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان کا رضاکارانہ طور پہ دفاع کرنے والے لوگوں کو۔ حیرت کا جھٹکا اس وقت لگتا ہے۔ جب الٹا ایسے درد مند مسلمانوں اور محب الوطنوں کو اس پیج سے ہی نہیں۔ بلکہ اس سوشل میڈیا ہی سے بلاک کر دیا جاتا ہے ۔ اور وہ محض ایک ناظر کی حیثیت کے سوا ۔ کوئی سوال کرنے ۔ یا کچھ لکھنے یا شئیر کرنے یا اپنی رائے دینے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ یا اان کی آئی ڈی کو ہمیشہ کے لئیے بلاک کر دیا جاتا ہے۔


ہمارا مسئلہ۔ جسے بجا طور پہ ایک قومی مسئلہ کہا جا سکتا ہے ۔ وہ یہ ہے ۔ کہ پاکستان میں انٹر نیٹ عام ہونے سے اور خاصکر ٹیبس اور فون پہ انٹر نیٹ عام ہونے سے۔ کچھ لوگ تو اس سے اپنی تعلیمی ۔ کاروباری۔ باہمی رابطے ۔ مطالعاتی ۔ عام ریسرچ اور دینی اور دیگر کئی طرح کی سرگرمیوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ مگر کچھ ایسے بھی کم تعلیم یافتہ۔ یا ۔واجبی تعلیم کے حامل لوگ ہیں ۔ جو اس طرح کی سائٹس اور فیس بک۔ ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پہ ۔ اسلام اور پاکستان دشمن لوگوں کی ۔مشکوک اور مایوس باتوں ۔اور جھوٹی دلیلوں سے۔ دینی علوم اور پاکستان کے بارے مطالعہ کم ہونے کی وجہ سے ۔آسانی سے ٹریپ ہوجاتے ہیں۔ اور اسلام اور پاکستان کے بارے مختلف شکوک کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ ایسے شکار ہونے والے لوگوں میں نوجوان لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔جس سے قومی اور اسلامی سوچ منتشر ہورہی ہے ۔ اور پہلے سے انتشار کے شکار ۔معاشرہے میں عجیب و غریب اور نت نئے قسم کے افکارات کی فصل بونے کی کوشش ۔نہائت چابک دستی سے کی جارہی ہے۔جو آئیندہ چند سالوں میں پاکستان کے لئیے ایک بہت بڑی سردردی ثابت ہوگی۔
اس میں کوئی شک نہیں تقریبا ہر محاذ پہ مسلمان اور محب الوطن لوگوں نے ۔ایسے لوگوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔مگر کلی طور پہ اس مسئلے کا حل یہ ہے ۔کہ پاکستان میں قائم کئیے گئے ادارے جو سفید ہاتھیوں سے کم نہیں۔ انہیں اس نئی قسم کی سائبر گوریلا وار کے لئیے فعال کیا جائے ۔ انہیں ٹیلینٹد اور پڑھے لکھے افراد مہیاء کئیے جائیں۔ جو پروگرامرز ہوں۔ جو ایسی نئی ٹیکنالوجیز پہ عبور رکھتے ہوں۔ انکی متواتر تریبت کا بندوبست ہو۔ وہ ایسی ٹیکنالوجیز کا اسلامی اور ملکی مفاد میں حل نکالیں۔ انکا توڑ سوچیں ۔ اور ایسے لوگ جو صاحب علم ہوں ، ذہین ہوں اور اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان کے بارے سازشی اور مایوس نظریات پھیلانے والوں کا منہ توڑ جواب دے سکیں ۔ اور گوریلا سائبر وار کو یومیہ بنیادوں پہ روکنا ہوگا۔


پاکستان میں الکٹرانک میڈیا ۔جہاں سے نہائت سائنٹیفک طریقے سے۔بارہا ۔ اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان۔حملے کئیے گئے ۔ اور حکومت پاکستان اور متعقلہ ادارے ۔ پیمرا وغیرہ ۔میڈیا کو کسی ضابطہ اخلاق کے پابند بنانے میں ہنوز ناکام ہیں ۔سیاسی پارٹیاں اور حکمران۔ جو بجائے خود اسی بے لگام الیکٹرانک میڈیا پہ ۔اپنی بات کہنے کے لئیے اسی میڈیا کے محتاج ہیں ۔ وہ الیکٹرانک میڈیا کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہیں تو اسکے خلاف کاروائی کیسے کریں گے۔اور الیکٹرانک میڈیا کی ہی بے ہودگی کیا کم تھی ۔ کہ سوشل میڈیا سے پاکستان کے خلاف باقاعدہ ایک گوریلا سائبر وار چلائی جارہی ہے۔اور ذہن یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس کے خلاف کیونکر پاکستانی حکمران ایک موثر جوابی کاروائی کو معمول بنا سکیں گے؟۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری حکومتوں اور ارباب اقتدارو اختیار ۔ اور ذمہ داران کو۔ ان محکموں کو ۔جو ایسی نئی اور جدید ٹیکنالوجی کی جنگ کے لئیے تیار کئیے گئے ہیں ۔ انھیں خبر ہی نہیں۔ یا خبر ہے تو ۔وہ پاکستان کے دیگر اداروں کی طرح۔محض حکمرانوں کی کاسہ لیسی کے سوا کچھ اور کرنے کو تیار نہیں۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

یوم پاکستان- انتخابات ۔ اور ہماری ذمہ داری.


Minar-e-Pakistan-Lahore1
یوم پاکستان- انتخابات ۔ اور ہماری ذمہ داری۔

آج یوم پاکستان ہے ۔ اس دن قرارداد پاکستان پیش کی گئی تھی۔جس کے محض سات سال بعد اس قوم نے انتھک محنت اور سچی لگن کے تحت موجودہ دنیا میں پہلا اسلامی ملک قائم کردیا تھا ۔
ایک مضبوط و توانا پاکستان قائم کرنے کے لئیے ۔اس وقت ویسی ہی قربانی اور جذبے کی ضرورت ہے ۔جیسا ۱۹۴۰ء انیس سو چالیس عیسوی میں برصغیر کے مسلمانوں میں تھا ۔
ہم سب کی عزت پاکستان سے ہے۔ اگر پاکستان ایک مضبوط اور باعزت ملک بن کر ابھرے گا ۔تو نہ صرف ہم سب کی عزت اور شان میں اضافہ ہوگا ۔ بلکہ ہماری آئیندہ نسلیں بھی شان و شوکت سے اس دنیا میں زندہ رہ سکیں گی۔
جبکہ اس وقت ہم یعنی پاکستانیوں کی ایک بڑی اکثریت اپنے مستقبل سے مایوس نہیں تو پُر امید بھی نظر نہیں آتی۔ اور بہت سے لوگ محض اچھے مستقبل کی خاطر اپنا وطن۔ اپنی جان سے پیا را پاکستان چھوڑ آئے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلوں کو یوں نہ کرنا پڑے تو اس کے لئیے ضروری ہے ۔ پاکستان میں ایسے حالات پیدا کئیے جائیں ۔ جس میں پاکستانیوں کو محض ایک اچھے مستبقل کی خاطر غریب الوطنی کا زہر نہ پینا پڑے ۔ محض اپنے مالی حالات کی خاطر ملک چھور کر پردیس کو نہ اپنانا پڑے ۔ اور پاکستان میں بسنے والے پاکستانیوں کا جینا ایک باعزت شہری کا ہو ۔ اور وہ دو وقت کی روٹی ۔ باعزت روزگار اور رہائش کے لئیے کسی کے محتاج نہ ہوں ۔تو اس کے لئیے ضروری ہے کہ ہم پاکستان میں موافق حالات پیدا کریں ۔ اور پاکستان میں ایسے اچھے حالات پیدا ہوسکتے ہیں ۔ یقینا یوں ہو سکتا ہے مگر اس کے لئیے ضروری ہے کہ پاکستان میں اچھے حکمران ہوں۔ جن کی دلچسپی صرف اور صرف پاکستان اور پاکستانی قوم کی ترقی میں ہو۔ اور یوں ہونا تب تک ممکن نہیں ۔جب تک پکی نوکری والوں کی دال روٹی کچی نوکری والوں کی “پرچی” سے نتھی ہے۔ تب تک پاکستان کے مجموعی حالات بدلنے مشکل ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ”شخصیات“ کی بجائے ادارے مضبوط ہوں۔ اور اداروں کے اہلکار اپنے آپ کو حاکموں کی بجائے ریاست کے ملازم سمجھیں۔
ترقی یافتہ دنیا کے ممالک میں دیکھتے ہیں کہ حکومتیں بدل جاتی ہیں ۔ اور نئی سیاسی جماعتیں اور نئے لوگ اقتدار میں آجاتے ہیں مگر ان کے ادارے مکمل تسلسل کے ساتھ اپنے عوام کے مسائل کو شب و روز حل کرتے نظر آتے ہیں ۔ کیونکہ انکے اداروں کے ملازمین اور افسر اپنے آپ کو صرف اور صرف ریاست کے ملازمین سمجھتے ہوئے صرف ریاست کی طرف تفویض کئیے گئے فرائض کی بجا آوری ہی اپنا فرض ۔ اپنی ڈیوٹی سمجھتے ہیں۔ جب کہ پاکستان میں جیسے ہی نئے حکمران ۔حکومت میں آتے ہیں ۔ وہ تمام سرکاری ملازمین۔ افسران ۔ بیورو کریسی یعنی انتظامیہ کو اپنا ذاتی ملازم سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور اب تو یہ عالم ہے کہ پاکستانی اداروں کے بڑے بڑے افسران بھی اپنی وفاداریاں ریاست پاکستان کے ساتھ نبھانے کی بجائے ۔ حکمرانوں۔ وزیروں ۔ مشیروں ۔ اور اسی طرح چار پانچ سال کے لئیے کچی نوکری والوں سے نباہنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
اسی سال مئی میں پاکستان میں صوبائی اور قومی الیکشن ہونے والے ہیں۔ بے شک ہم دیار غیر میں رہنے والے ووٹ نہیں ڈال سکتے مگر اپنی آواز کو پاکستان میں اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں تک تو پہنچا سکتے ہیں کہ ۔ وہ اپنی قومی امانت یعنی ووٹ اسے دیں جو پاکستان کو ایک عظیم ریاست سمجھتے ہوئے پاکستان کی عظمت بحال کرنے میں دلچسپی رکھتا ہو۔ جو پاکستان کے وسائل کو قوم کی امانت سمجھ کر اس میں خیانت نہ کرے ۔ جو شخصیات کی بجائے پاکستان کے اداروں ۔پاکستان کے اثاثوں کو مضبوط کرے ۔ جو بڑے بڑے عہدیداروں کے عہدوں کو اپنی پرچی کا مرہون منت نہ جانیں ۔ جو پاکستانی سرکاری ملازمین میں یہ احساس اور جذبہ پیدا کر سکے کہ وہ آنے جانے والے حکمرانوں کے ملازم نہیں ۔بلکہ شخصیات کی بجائے ۔ ریاست پاکستان کے ملازم ہیں ۔ جو پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق پاکستانی اداروں کو مضبوط کریں ۔
یقین مانئیے اگر پاکستان کے ادارے مضبوط ہوں گے اور انکے اہلکار اپنے آپ کو شخصیات کی بجائے ریاست پاکستان کے ملازم سمجھیں گے ۔ اور ہر صورت میں ریاست پاکستان اور پاکستانی عوام کا مفاد مقدم جانیں گے ۔ تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں ۔ کہ ہماری آئیندہ آنے والی نسلیں محض پاکستانی ہونے کی وجہ سے خوار نہیں ہونگی ۔ اور وہ اقوام عالم میں باعزت قوم کے طور پہ جانی جائیں گیں ۔
میری طرف سے سب پاکستانیوں کو یوم پاکستان مبارک ہو۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

 
%d bloggers like this: