نُورا ملاح اور جے آئی ٹی ۔
نورا ملاح کشتی ”کھیہ“ رہا تھا ۔اس نے ”ونج“ کو آخری بار دریا کی تہہ میں گاڑا اور کشتی کوپتن سے لگادیا ۔ چھوٹی سی رسی سے کشتی کو دریا کنارے باندھنے کی دیر تھی کہ اس پار بکھرے دس بارہ دیہات کے اِکا دُکا مسافر جو دیر سے کشتی کا اِس پار آنے کا انتظار کررہے تھے اُچک اُچک کر جلدی جلدی کشتی میں چڑھنے لگے ۔نُورے کا گھر بھی دریا کے اِسی پار کے کچھ دُورواقع گاؤں ”وسن والا“ میں تھا،گرمیوں کی دوپہر سر پہ تھی ۔
نورے نے کشتی کا ”پُور“ (پھیرا)بھرتے سوچا یہ پچھے چار سالوں سے اسکے نصیب چمک اٹھے تھے ۔ بارہ اِس پار کے گاؤں اور بارہ چودہ اُس پار کے دیہاتوں کے لوگ بھی جوق در جوق اسکی کشتی سے اپنے ضروری کاموں سے اس یا اس پار آتے جاتے تھے ۔ اور ان سالوں میں گو ”ہاڑ“ (سیلاب) تو سر چڑھ کر آتا رہا مگر ہر بار کی مناسب پیش بندی سے اسکی کشتی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا ۔ ورنہ تو پچھلے سالوں میں دو دو بار اسکے کشتی دریا کے سیلاب میں بہہ کر گُم گُما گئی تھی اور اگلے سالوں میں نُورے اور اور اسکے خاندان کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مگر اب کی بار اللہ نے اس پہ اور اسکے خاندان پہ خاص کرم کیا تھا ۔
نُورا انہی سوچوں میں غرق اور دل ہی دل میں خوش ہوتا ہوا کشتی ”کھیتا“ دریا کے درمیان پہنچ چکا تھا کہ اُس کے گاؤں ”وسن والا“ کے ”مانے“ کو پتہ نہیں کیا سُوجھی کہ اس نے کہا کہ
”نُورے میں ابھی گاؤں سے آیا ہوں اور تمہارے لئیے ایک بری خبر ہے “
نورے کی ساری خوشی کافُور ہوگئی اور وہ مانے کی طرف متوجہ ہوگیا جو بتارہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
”نُورے ۔ تمہاری بیوی اپنے کسی آشناء کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی ہے“
نورے کا رنگ فوراََ فق ہوگیا ۔ کشتی میں سوار بار ہ گاؤں کے دیہاتیوں نے چونک کر اپنی باتیں چھوڑ چھاڑ کر نظریں نُورے پہ گاڑ دیں ۔ اور نورے کو یوں لگا جیسے کسی نے اسے بھرے بازار میں ننگا کر دیا ہو۔ایک لمحے کے لئیے ”ونج“ پہ اسکی گرفت کمزور ہوئی اور کشتی لہراکر رہ گئی ۔ مگر نُورے نے دوبارہ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے ”ونج “ پہ اپنی گرفت مضبوط کی مگر اُسے یوں لگا جیسے کسی نے اسکے بازؤں کی طاقت سلب کر لی ہو ۔ نورا ملاح جیسے تیسے کشتی ”کھیہ“ کہ دریا کے دوسرے کنارے لگانے میں کامیاب ہوگیا ۔ کشتی کے مسافر اسے عجیب نظروں سے دیکھتے اپنے اپنے رستوں کو ہو لئیے صرف ”مانا“ رک گیا تھا اور مسافروں کے جاتے ہی نُورااپنی بربادی پہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔اور اچانک ”مانا “ بے اختیار قہقے لگا کر ہنسے لگا ۔ نورے نے غم اور صدمے سے مانے کو دیکھا ۔ مانے نے کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
” اوئے جھلیا۔ میں تو تمہارے ساتھ دل لگی (مذاق) کر رہا تھا ۔ تمہیں پتہ تو ہے دل لگی کرنے والی میری اس پُرانی عادت کا۔ تمہاری بیوی کسی اپنے آشناء کے ساتھ بھاگ کر کہیں نہیں گئی اور وہ تمہارے گھر پہ ہی ہے۔ میں تو ایسے ہی تمہارے ساتھ دل لگی کر رہا تھا“
نُورے نے مایوسی اور غم کے ملے جُلے جذبات اور رندھے ہوئے گلے سے دور دراز راستوں پہ جانے والے کشتی کے مسافروں کو دیکھا اور ”مانے“ سے گویا ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
”مانے! تم نے تو دل لگی کی مگر میرا ستیا ناس کردیا۔اب یہ سمجھو کہ کہ میری بیوی واقعی گھر سے بھاگ ہی گئی ہے۔یہ بارہ گاؤں کے لوگ بارہ چودہ مختلف گاؤں کو جائیں گے اور اتنے ہی لوگوں کو بتائیں گے کہ نورے ملاح کی بیوی آج گھر سے بھاگ گئی ہے۔ نہ یہ سارا ”پُور“ دوبارہ اکھٹا ہوگا ۔ اور نہ ہی وہ تم سے یہ جاننا چاہیں گے کہ تم نے مجھ سے دل لگی کی تھی جبکہ میری بیوی کسی آشناء کے ساتھ گھر سے نہیں بھاگی تھی۔ اور اگر اتفاق سے وہ اکھٹے ہو بھی جائیں اور تم انہیں حقیقت بتا بھی دو تو اتنے سارے دیہاتوں میں جہاں ان کے بتانے سے میری نیک نامی تار تار ہوگی وہ کیسے نیک نامی میں بدل پائے گی؟ بس ”مانے“ اب یوں سمجھوں کہ میری بیوی کسی آشناء کے ساتھ بھاگ ہی گئی ہے اورمیری نیک نامی تواب واپس آنے سے رہی“
نواز شریف نے اگر کرپشن نہیں بھی کی تو بھی اب نواز شریف جس قدر متنازع شخصیت بن چکے ہیں اور ثابت اور غیر ثابت شدہ الزام تراشیوں میں گھر چکے ہیں ۔توانہیں چاہئیے کہ ملک و قوم کے وسیع ترمفاد میں اپنے عہدے سے استعفی دے کر بچی کچھی کچھ نیک نامی سمیٹنے اور جمہوریت کو بچانے کی کوشش کرنی چائیے۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: "ہاڑ", "مانے", "مانا", "نُورے, "وسن, "پُور", "پُورا", (مذاق), (پھیرا)بھرتے, )کچھ, “, ہ, فق, ہنسے, ہو, ہو۔ایک, ہوگی, ہوگیا, ہوگئی, ہوگا, ہوں, ہوئی, ہوئے, ہوا, ہوا۔, ہوتا, ہی, ہیں, ہے, ہے"نورے, ہے۔, ہے۔یہ, ہر, قوم, قدر, لہراکر, لمحے, لوگ, لوگوں, لی, لگی, لگے, لگا, لگانے, لگادیا, لئیے, م, ملک, ملاح, مناسب, میں, میری, مگر, متنازع, متوجہ, مجھ, مختلف, مسافر, مسافروں, مشکلات, مضبوط, نہ, نہیں, نقصان, نمک, ننگا, چوہ, چونک, نواز, چودہ, نورے, نورا, نیک, نُورا, نُورااپنی, چڑھ, چڑھنے, نے, چکے, چکا, چھوڑ, چھوٹی, چھاڑ, چاہیں, نامی, چائیے۔, چار, نصیب, نظروں, نظریں, و, وہ, ونج, والی, والے, والا, واپس, ورنہ, وسیع, یہ, یوں, یا, ۔, ۔نورے, ۔اس, کہ, کہیں, کہا, کمزور, کچھی, کنارے, کو, کوپتن, کوئی, کوشش, کی, کیا, کیسے, کے, کھیہ, کھیتا, کا, کافُور, کاموں, کامیاب, کا۔, کر, کرم, کرنی, کرنے, کرنا, کرپشن, کررہے, کسی, کشتی, گم, گما, گڈ, گویا, گی؟, گیا, گے, گھر, گئی, گاڑ, گاڑا, گاؤں, گرفت, پہ, پہنچ, پہنچا, پچھلے, پچھے, پیش, پڑا, پھوٹ, پائے, پار, پتہ, آنے, آیا, آپ, آتے, آتا, آج, آخری, آشناء, اللہ, ان, انہی, انہیں, اچک, اچانک, انتظار, اوئے, اور, اورمیری, ایک, ایسے, اُس, اُسے, اِس, اِسی, اکھٹے, اکھٹا, اکا, اگلے, اگر, اٹھے, اپنی, اپنے, اب, ابھی, اتفاق, اتنے, اختیار, ار, اس, اسے, اسکی, اسکے, استعفی, بہہ, بن, بنی, بنانے, بندی, بیوی, بڑی, بے, بکھرے, بھی, بھاگ, بھاگی, بھرے, باندھنے, باتیں, بار, بارہ, بازؤں, بازار, بتا, بتانے, بتائیں, بتارہا, بدل, بری, بربادی, بس, تہہ, تم, تمہیں, تمہاری, تمہارے, تو, توانہیں, تیسے, تھی, تھی۔, تھے, تھا, تھا"نُورے, تھا،گرمیوں, تار, ترمفاد, جہاں, جلدی, جمہوریت, جو, جوق, جیسے, جھلیا۔, جاننا, جانے, جائیں, جاتے, جبکہ, جس, حقیقت, خوش, خوشی, خاندان, خاص, خبر, دہ, دل, دو, دوپہر, دوبارہ, دور, دوسرے, دیہات, دیہاتوں, دیہاتیوں, دیکھا, دیکھتے, دیں, دیا, دیر, دُورواقع, دے, دکا, در, درمیان, دریا, دراز, دس, رہ, رہی, رہا, رنگ, رونے, رک, راستوں, رسی, رستوں, سلب, سمیٹنے, سمجھو, سمجھوں, سنبھالتے, سوچوں, سونا, سوار, سی, سیلاب, سُوجھی, سے, سالوں, سامنا, ساتھ, ساری, سارا, سر, شخصیت, شریف, صدمے, صرف, ضروری, طاقت, طرف, عہدے, عادت, عجیب, غم, غرق
جے آئی ٹی رپورٹ بھی ہوگئی۔
اب کیا ہوگا؟۔
کیا یہ سیریل آئندہ الیکشن تک چلے گا؟
اگر یوں ہوتا ہے کہ یہ سیریل آئندہ الیکشن تک چلتی ہے تو کیا اس کا یہ مطلب واضح ہے کہ گو کہ اس سیریل کے تمام اداکار پاکستانی ہیں مگر اس سیریل کو ڈائریکٹ کہیں اور سے کیا جارہا ہے؟
جنرل ایوب خان نے اپنی کتاب "فرینڈز ناٹ ماسٹرز” Friends Not Masters, میں آقاؤں کی طوطا چشمی کے شکوے کئیے ہیں اور ان کی بے وفائی کا دکھڑا بیان کیا ہے۔ اور ایوب خان کے خلاف بھی لانگ مارچ کا ہی فارمولہ آزمانے اور انہی طاقتوں کی ایماء پہ برسراقتدار آنے والے بڑے بھٹو مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار کے آخری ایام میں اپوزیشن جماعتوں کے قومی اتحاد اور بعد ازاں نظامِ مصطفی نامی تحریک کے زبردست دباؤ کے بعد پی ٹی وی پہ اپنی آخری تقریر میں امریکہ کو سفید ہاتھی گردانتے ہوئے یہی واویلہ کیا کہ ہائے ہائے مجھے بنانے والے مجھے گرانے پہ آمادہ ہیں۔
انہی طاقتوں کے اشارے پہ گرم سیاسی ماحول میں اسلامی نظام کا نعرہ لگا کر تختِ اسلام آباد پہ قبضہ جمانے والے جنرل ضیاء الحق بھی اپنے آخری دنوں میں اپنے انجام سے آگاہ ہوچکے تھے کہ آقاؤں کا دستِ شفقت انکے سر سے اٹھ چکا ہے اور وہ آج یا کل دیر یا سویر سے اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں۔ اسی لئیے وہ اپنے آخری دنوں میں امریکی سفیر اور اپنے جرنیلوں سمیت ہر اس شخص کو اپنے ساتھ لئیے پھرتے تھے جس پہ انہیں اپنے خلاف کسی سازش میں شریک ہونے کا ذرہ بھر بھی شائبہ تھا۔ اور بہاولپور فضائی حادثے میں مارے جانے والے پاکستان کے انتہائی ذمہ دار لوگوں کے ایک ہی طیارے میں سوار ہونے کی یہ بھی ایک وجہ تھی۔
موجودہ دور میں پاکستانی مسنندِ اقتدار پہ قابض ہونے والوں میں سے جنرل مشرف شاید وہ واحد کردار ہے جس نے ہدایت کاروں کی ہر فرمائش ان کی توقعات سے بڑھ کر پوری کی اور جب جنرل مشرف کو مسندِ اقتدار سمیٹنے کا اشارہ ہوا تو اس نے بلا چون چرا جان کی امان پاؤں کے صدقے اپنا بوریا لپیٹا اور اُدہر کو سدھار گئے جدہر سے انہیں جائے امان کا وعدہ کیا گیا تھا۔
ایسے ھی اچانک سے ڈرامائی طور پہ زرداری پاکستان کے صدر بن گئے۔ کیا تب صرف چند ماہ بیشتر کسی کے وہم گمان میں تھا کہ بے نظیر وزیر اعظم بننے کی بجائے زرداری پاکستان کے مختارِکُل قسم کے صدر بن جائیں گے؟۔ ہماری قومی یاداشت چونکہ کچھ کمزور واقع ہوئی ہے اگر کسی نے یاداشت تازہ کرنی ہو تو اس دور کے الیکشن سے چند ماہ قبل کے اخبارات اور ٹی وی مذاکروں کا مطالعہ و نظارہ کر لیں۔ جن میں بے نظیر کے ہوتے ہوئے زرداری کے صدر یا وزیر اعظم بننے کا خیال تک بھی کسی سیاسی جغادر کے وہم و گمان سے گزرا ہو۔ صرف چند ماہ میں زرداری پاکستان کے مختار کل قسم کے صدر تھے۔
زرداری حکومت میں نواز شریف عدلیہ بحالی کا عزم لے کر لاہور سے اسلام آباد کو ایک جمِ غفیر لے کر نکلے۔ عوام کا ٹھاٹا مارتا سمندر ساتھ تھا۔ زرداری حکومت چند دن میں ڈیڑھ سو کلو میٹر کی دوری پہ انجام پزیر ہوسکتی تھی۔ قومی یادشت کو تازہ کی جئیے کہ تب امریکی صدر اور سفیر اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل کیانی کے یکے بعد دیگرگوجرانوالہ نواز شریف کو فون آئے اور نواز شریف عام عوام کی توقعات اور امیدوں کے بر عکس تب گوجرانوالہ سے واپس لاہور سدھار گئے۔ سوجھ بوجھ والوں نے تب ھی فال ڈال دی کہ مک مکا ہوگئی ہے اور زردای کو ٹرم پوری کرنی دی جائے گی اور آئندہ ویز اعظم نواز شریف ہونگے۔ اور مڈٹرم کے طور یہی کلیہ نواز شریف کے خلاف مختلف مارچوں اور دھرنوں کے ذرئیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی مگر عام عوام کی عدم دلچسپی یا آئے دن کے بے مقصد سیاسی ہنگامہ آرائی سے بیزارگی کی وجہ سے یہ ایکٹ کامیاب نہ ہوسکا۔
کسی بھی قیمت پہ اقتدار میں آنے والے جب طے شدہ شرائط پہ کام کرنے کے بعد خالص اپنے ذاتی جاہ حشمت کو برقرار رکھنے کے لئیے کنٹریکٹ کوغیر ضروری طور پہ طوالت دینے کی ضد کریں۔ یا دی گئی بولی سے انحراف کریں تو ان کا انجام بخیر نہیں ہوتا۔
مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی قیمت پہ اقتدار کے خواب دیکھنے والے بچہ سقوں کی ہمارے ہاں کمی نہیں۔ مگر ایسے خوابوں کو پایہ تکمیل پہنچانے والی یا اقتدار کو استحکام بخشنے پہ قدرت رکھنے والی وہ طاقتیں جوبیرونِ پاکستان سے کٹھ پتلی تماشے کی ڈوریاں ہلاتی ہیں وہ کسی ایسے ڈھیلے ڈھالے کردار کو مسند اقتدار کا ایکٹ نبھانے کی اجازت دینے پہ تیار نہیں جو موجودہ دور میں پاکستانی اسٹیج پہ اپنے کردار اور ایکٹ کو زبردست عوامی پذیرائی اور عوام کی طرف سے پرجوش تالیوں کے استقبال کی اہلیت نہیں رکھتا۔
کیا پاکستان کے مفادات کے خلاف پھر سے بولی ہوگی؟ جو بڑھ کر بولی دے گا اسے مسند اقتدار بخشا جائے گا؟
کیا نئے مناسب اداکار دستیاب نہ ہونے کی صورت میں پرانی ٹیم نئی شرطوں اور تنخواہ پہ کام کے لئیے منتخب کی جائے گی؟
کیا ہمارے خدشات محض خدشات ثابت ہونگے۔اللہ کرے ہمارے خدشات محض خدشات ثابت ہوں۔
پردہ اٹھنے میں دیر ہی کتنی ہے؟ نئے انتخابات میں عرصہ ہی کتنا رہتا ہے؟
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: "فرینڈز, )کچھ, Friends, Masters, Not, ہلاتی, ہماری, ہمارے, ہنگامہ, ہو, فون, ہونے, ہوچکے, ہونگے۔, ہونگے۔اللہ, ہو۔, ہوگی؟, ہوگئی, ہوگئی۔اب, ہوگا؟۔کیا, ہوں۔پردہ, ہوئی, ہوئے, ہوا, ہوتا, ہوتا۔, ہوسکا۔کسی, ہوسکتی, ہی, ہیں, ہیں۔, ہے, ہے۔, ہے؟, ہے؟جنرل, ہال, ہاں, ہائے, ہاتھی, فارمولہ, ہدایت, ہر, فرمائش, فضائی, قومی, قیمت, قابض, قبل, قبضہ, قتدار, قدرت, قسم, لوگوں, لیں۔, لے, لگا, لپیٹا, لئیے, لاہور, لانگ, مفادات, مقصد, مناسب, منتخب, مڈٹرم, موجودہ, میٹر, میں, مک, مکا, مگر, ماہ, ماحول, مارچ, مارچوں, مارے, مارتا, ماسٹرز", مجھے, محض, مختلف, مختار, مختارِکُل, مذاکروں, مرحوم, مسنند, مسند, مسندِ, مسئلہ, مشرف, مصطفی, مطلب, مطالعہ, نہ, نہیں, نہیں۔, چلے, چلتی, چند, نون, چونکہ, نواز, چیف, نے, نکلے۔, چکا, نئی, نئے, نامی, ناٹ, نبھانے, چرا, چشمی, نظیر, نظام, نظامِ, نظارہ, نعرہ, و, وہ, وہم, وفائی, ڈوریاں, وی, ڈیڑھ, ویز, ڈھیلے, ڈھالے, واقع, ڈال, والوں, والی, والے, واویلہ, واپس, ڈائریکٹ, واحد, واضح, وجہ, ڈرامائی, وزیر, وعدہ, یہ, یہی, یوں, یکے, یا, یاداشت, یادشت, کہ, کہیں, کل, کلو, کلیہ, کمی, کمزور, کنٹریکٹ, کو, کوشش, کوغیر, کی, کیا, کیانی, کے, کٹھ, کئیے, کا, کام, کامیاب, کاروں, کتنی, کتنا, کتاب, کر, کرنی, کرنے, کریں, کریں۔, کرے, کرادر, کردار, کسی, گمان, گڈ, گوجرانوالہ, گی, گی؟کیا, گیا, گے؟۔, گئی, گئے, گئے۔, گا, گا؟, گا؟اگر, گرم, گرانے, گردانتے, گزرا, ٹی, ٹیم, ٹھاٹا, ٹرم, پہ, پہنچنے, پہنچانے, پوری, پی, پھر, پھرتے, پایہ, پاکستان, پاکستانی, پاؤں, پتلی, پذیرائی, پرانی, پرجوش, پزیر, آقاؤں, آمادہ, آنے, آگاۃ, آئندہ, آئی, آئے, آباد, آج, آخری, آرمی, آرائی, آزمانے, اہلیت, اقتدار, الیکشن, الحق, امیدوں, امان, امریکہ, امریکی, ان, انہی, انہیں, انکے, اچانک, انتہائی, انتخابات, انجام, انحراف, اور, ایماء, ایوب, ایک, ایکٹ, ایام, ایسے, اگر, اٹھ, اٹھنے, اپنی, اپنے, اپنا, اپوزیشن, اپے, ااور, اتحاد, اجازت, اخبارات, ادہر, اداکار, ازاں, اس, اسلام, اسلامی, اسی, اسے, اسٹیج, استقبال, استحکام, استعمال, اشارہ, اشارے, اعظم, بہاولپور, بلا, بن, بچہ, بننے, بنانے, بولی, بوجھ, بوریا, بیان, بیزارگی, بیشتر, بڑے, بڑھ, بے, بھی, بھٹو, بھر, بجائے, بحالی, بخنے, بخیر, بخشا, بر, برقرار, برسراقتدار, بعد, تقریر, تمام, تماشے, تنخواہ, تو, توقعات, تیار, تک, تکمیل, تھی۔, تھی۔موجودہ, تھے, تھے۔زرداری, تھا, تھا۔, تھا۔ایسے, تالیوں, تازہ, تب, تحریک, تختِ, ثابت, جمِ, جمانے, جماعتوں, جن, جنرل, جو, جوبیرونِ, جے, جئیے, جاہ, جان, جانے, جائیں, جائے, جارہا, جب, جدہر, جرنیلوں, جس, جغادر, حکومت, حادثے, حشمت, خلاف, خواب, خوابوں, خیال, خالص, خان, خدشات, دلچسپی, دن, دنوں, دور, دوری, دی, دینے, دیکھنے, دیگرگوجرانوالہ, دیر, دے, دکھڑا, دھرنوں, دار, دباؤ, دستیاب, دستِ, ذمہ, ذوالفقار, ذاتی, ذرئیے, رہتا, رکھنے, رکھتا۔کیا, رپورٹ, زبردست, زرہ, زردای, زرداری, سفید, سفیر, سقوں, سمندر, سمیٹنے, سمیت, سو, سویر, سوار, سوجھ, سیاسی, سیریل, سے, سایسی, ساتھ, سازش, سدھار, سر, شفقت, شکوے, شاید, شائبہ, شخص, شدہ, شریف, شریک, شرائط, شرطوں, صورت, صدقے, صدر, صرف, ضیاء, ضد, ضروری, طوالت, طور, طوطا, طیارے, طے, طاقتوں, طاقتیں, طرف, علی, عوام, عوامی, عکس, عام, عدلیہ, عدم, عرصہ, عزم, غفیر
انقلاب کا ڈول اور پاکستان۔
ہیں کواکب کچھ ۔نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ۔ یہ بازی گر کھلا
حکومت چھوڑ دو؟۔
اسملبیاں توڑ دی جائیں؟۔ورنہ ۔
یہ وہ مطالبات تھے جو اسلام آباد پہنچتے ہیں انقلاب کا ڈول ڈالنے والوں نے پہلے دن ہی داغنے شروع کئیے اور ان کی گھن گرج میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
یہ غیر آئینی مطالبات کس کی ایماء پہ ؟ اور کونسی طاقت کے بل بُوتے پہ کئیے جارہے تھے اور کئیے جارہےہیں ؟
وہ کون سی طاقتیں ہیں ۔ جو عمران اور طاہر القادری کو اشارہ دے چکی ہیں ۔ کہ ماحول کچھ اس طرح کا بناؤ ۔۔ کہ ہم کہنے والے ہوں کہ وزیر اعظم نواز شریف استعفی دےدیں۔ اس صورتحال کو سمجھنے کے لئیے علمِ سیاسیات میں ڈگری یافتہ ہونا ضروری نہیں ۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ کہ نواز حکومت کیوں اس مغالطے میں رہی۔ کہ یہ ایک دودن کا شور شرابہ ہے ۔اور جونہی یہ شو ختم ہوا ۔تو دیکھیں گے ان سے کیا مذاکرات کئیے جاسکتے ہیں؟۔
انبیاء علیة والسلام نے جب لوگوں کو دعوتِ دین دی۔ تو لوگ اس لئیے بھی ان پہ ایمان لے آئے کہ انبیاء علیة والسلام کا ماضی بے داغ ۔ کردار مثالی۔ فطرت میں حق گوئی وبیباکی اور اخلاق اعلیٰ ترین تھا۔ بہت سے لوگ فوراً ان کی نبوت پہ ایمان لے آتے ۔ اور دین میں شامل ہوتے چلےجاتے۔ کیونکہ لوگوں کو علم تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے ۔ انکا ماضی بے داغ ہے۔ انکا کردار مثالی ہے ۔ وہ حق گوئی اور بیباکی پہ کوئی مفاہمت نہیں کرتے ۔ اور انکے اخلاق اعلٰی ترین ہیں اور ایسے لوگ (انبیاء علیة والسلام) اگر نبوت کا دعواہ کر رہے ہیں ۔تو یقناً وہ اللہ کے نبی ہونگے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہےکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ کسی کی زبان پہ یقین کرنے کے لئیے اسکا کردار۔ اس کا ماضی دیکھتا ہے ۔اسکی حق گوئی و بیباکی کو پرکھتا ہے اور اسکے اخلاق کو جانچتا ہے ۔ عام طور پہ فوری یقین لانے کے لئیے ان چند صفات کو بنیاد بنا کر صاحب ِ بیان کی سچائی کو پرکھتا ہے اور اگر صاحب بیاں اس کی کسوٹی پہ اترے تووہ اس پہ یقین کر لیتا ہے کہ جو یہ کہہ رہا ہے وہ درست ہوگا۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شیخ السلام اور کپتان کا ماضی ۔ حق گوئی ۔ کردار اور اخلاق کے بارے کسی کو شائبہ ہے کہ وہ کب کب اور کیوں اپنے بیان بدلتے رہے ۔ اور انہوں نے یوٹرن لئیے ۔ اور کس کس کے سر پہ مغربی طاقتوں کا دستِ شفقت کیوں کررہا۔تو پھر ایسی کیا مصیبت آن پڑی تھی کہ عوام کی ایک بڑی تعداد میں ان شیخ السلام اور ماضی میں اسکینڈلز سے آلودہ سابقہ کرکٹ کپتان پہ آنکھیں بند کر کے۔ یقین کرتے ہوئے۔ لاکھوں کی تعداد میں اسلام آباد کی طرف رُخ کرتی؟ ۔اور شیخ السلام کے انقلاب پہ یقین رکھتے ہوئے ان کے ہاتھ بعیت کرتی؟ ۔ اور کپتان کی فرما روا آزادی کو اپنا منشاء بناتی؟ جب کہ دونوں کا ماضی عوام کے سامنے ہے ۔ کہ ایک محدود تعداد کو تو کئی سالوں کی محنت سے اپنی حمایت میں کھڑا کیا جاسکتا ہے ۔مگر لاکھوں کڑووں انسانوں کو یک دم لبیک کہنے پہ آمادہ کرنا فطرت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اور انسانی فطرت ہے کہ وہ ایسے جانے پہچانے لوگوں پہ خُوب سوچ سمجھ کر اعتبار کرتا ہے ۔اور پھونک پھونک کر قدم آگے بڑہاتا ہے ۔ تو پھر انقلاب لانے کا دعواہ کرنے والوں اور انہیں اسکرپٹ تیار کر کے دینے والوں نے۔ اسکرپٹ لکھتے ہوئے یہ اہم نکتہ کیوں نہ ذہن میں رکھا؟۔تو اسکی ایک سادہ سی وضاحت ہے ۔کہ اسکرپٹ رائٹر ز کو معلوم تھا کہ اسکرپٹ میں رنگ بھرنے کے لئے چند ہزار لوگ ھی کافی ہیں ۔ کہ پچیس تیس ہزار لوگ کبھی کسی بھی دو تہائی سے زائد اکثریت رکھنے والی حکومت کے لئیے اس حد تک خطرہ نہیں ہوتے کہ وہ حکومت کو چلتا کردیں ۔لاکھوں کی تعداد کی نسبت پچیس تیس ہزار لوگوں کو رام کرنا اور انہیں اپنی مرضی کے مطابق چلانا بہت آسان ہوتا ہے۔اور یوں حکومت کو بلیک میل کرتے ہوئے پس پردہ اپنے مطالبات منوانا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ کہ بہ نسبت لاکھوں کے بے قابو ہجوم کے ذریعئے حکومت گرا کر اپنے مطالبات منوانے کے۔
ان دونوں مارچوں کے اسکرپٹس جس نے بھی لکھے ہیں۔ خُوب سوچ سمجھ کر لکھے ہیں۔ اور نواز شریف کی معاملہ فہمی کو مد نظر رکھ کر لکھے ہیں ۔
اور اس سارے پلان کا اسکرپٹ رائٹر یہ جانتا ہے کہ میاں نواز شریف اپنی معروف ضدی طبعیت کی وجہ ایک ہی جگہ جمیں کھڑے رہیں گے۔ اور انھیں دباؤ میں لانا آسان ہوگا۔کہ سیاست میں جم جا جانا اور ایک ہی جگہ کھڑے ہوجانا ۔ جمود کا دوسرا نام ہے ۔ اور پاکستانی سیاست میں جمود لے ڈوبتا ہے۔اور یہی اسکرپٹ رائٹر نے تاثر دینا چاہا کہ نواز شریف ۔ حکومت اور نون لیگ کے بزرجمہر اسی دھوکے اور تفاخر میں رہیں کہ یہ چند ہزار لوگ ان کا اور انکی دوتہائی اکثریتی حکومت کاکیا بگاڑ لیں گے ۔ اور وہ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کی وجہ سے اس دہوکے میں آگئے ۔ اور ترپ کے پتوں سے چالیں یوں چلی گئیں کہ شریف بردران ۔ پنجاب حکومت اور نواز شریف حکومت یکے بعد دیگرے اپنی پوزیشنیں چھوڑتی ہوئی۔ پیچھے ہٹتی چلی گئی ۔ اتنی بڑی پارٹی کی دو تہائی اکثریتی حکومت ہوتے ہوئے نہ تو وہ اپنی اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ کر پائی اور نہ ہی جلد بازی میں ان سے کروائے گئے فیصلوں کے ما بعد نقصانات کو ہی سمجھ پائی ۔
کسی حکومت کی یہ ناکامی تصور کی جاتی ہے ۔ کہ لوگ اس کے خلاف سڑکوں پہ نکل آئیں۔کامیاب حکومت اسے گردانا جاتا ہے جو عوام کو سڑکوں پہ آنے سے پہلے ہی۔ انہیں راضی کرنے کا کوئی جتن کر لے۔ اس وقت پاکستانی عوام کی سب سے اولین مشکلات میں سے چند ایک مشکلات ۔ مہنگائی کا عفریت۔ توانائی کا بحران۔ بے روزگاری یا دوسرے لفظوں میں جسم اور جان کا رشتہ قائم رکھنے کے لئیے ہر روز جتن کرنا ہے۔ ملک کی آدہی سے زائد آبادی کو محض دو وقت کی روٹی پوری کرنی مشکل ہو رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت کو یہ سارے مسائل زرداری حکومت سے وراثت میں ملے ہیں ۔ مگر اس میں بھی کسی کو کوئی شک نہیں ۔ کہ نون لیگ کے بلند بانگ انتخابی دعوؤں کے برعکس نون لیگ کی حکومت کے ان پندرہ سولہ ماہ میں عوام کی زندگی پہلے سے زیادہ اجیرن ثابت ھوئی ہے۔
جس ملک میں توانائی کا خوفناک بحران ہو ۔ لوگوں کے کاروبار اور روزگار ٹھپ ہوں۔ ملک کے شہری بجلی پانی گیس نہ ہونے کی وجہ سے چڑچڑے ہو رہے ہوں ۔بجلی کی عدم فراہمی پورے خاندان کی نفسیاتی ساخت و پرواخت پہ اثر اندازہو رہی ہو۔ اس ملک میں نون لیگ کے وزیر توانائی۔خواجہ آصف ۔پندرہ ماہ بر سر اقتدار آنے کے بعد۔اپنی قوم کو کسی قسم کا ریلیف دینے کی بجائے گرمی میں جلتے عوام سے یہ کہیں ۔کہ اللہ سے دعا مانگیں کہ بارش ہو اور آپ کی تکالیف میں کچھ کمی ہو۔ تو ایسی گڈ گورنس پہ کون قربان جائے؟ ۔وزیر موصوف سے یہ سوال کیا جانا چاہئیے تھا کہ اگر آپ میں اتنی اہلیت نہیں کہ آپ عوام کو کوئی ریلیف دے سکیں تو کم از کم انکے زخموں پہ نمک تو نہ چھڑکیں۔ اور اگر عوام کی تکالیف میں کمی کا انحصار اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے میں ہی ہے۔ تو آپ کس خوشی میں اتنی بڑی وزات کی موجیں لُوٹ رہے ہیں۔ کسی بھی مہذب سیاستدان کی طرح استعفٰی دیں اور گھر کی راہ لیں۔ کہ ممکن ہے جو آپ کے بعد اس وزارت کو سنبھالے اس میں کچھ خداد صلاحیت آپ سے زیادہ ہو ںاور وہ عوام کو کچھ ریلیف دے سکے۔یہ تو ایک مثال ہے جو کسی لطیفہ سے کم نہیں ۔مگر پاکستان کے بے بس اور لاچار عوام کی ستم ظریفی دیکھئیے کہ ایسی مثالیں عام ہیں۔
شہباز شریف بڑے فخر سے دعواہ کرتے ہیں۔ کہ ان کا کوئی ایک بھی کرپشن کا کیس سامنے نہیں لایا جاسکتا ۔کیونکہ وہ کسی طور پہ کرپشن میں ملوث نہیں۔ مگر عوام نے پنجاب حکومت کے ایک وزیر کی ویڈیو دیکھی ہے ۔جس میں وہ ایک ایسے انسانی اسمگلر سے معاملات طے کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ جس پہ میڈیا کے مطابق ایک سو اسی سے زائد لوگوں نے دھوکہ بازی سے ۔رقم ہتیانے کے کیس کر رکھے ہیں ۔جو انٹر پول اور پتہ نہیں کس کس کو مطلوب ہے۔اور میاں صاحب نے اس ویڈیو کی حقیقت جانچنے کے لئیے ایک تین رکنی کمیٹی بنادی اور بس۔ سنا ہے بعد میں وزیر موصوف کے حمایتی یہ کہتے پائے گئے ہیں ۔کہ یہ لاکھوں روپے کی وہ رقم تھی۔ جو انہوں نے مذکورہ انسانی اسمگلر کو ادہار دے رکھی تھی ۔اور وہ انہوں نے واپس لی۔ ایک ایسا وزیر جو ایک معروف انسانی اسمگلر کے ساتھ معاملات کرتا ہے ۔ اسے رقم ادہار دیتا اور واپس لیتا ہے۔ ایسے جرم پیشہ فرد کے ساتھ معاملات کرنا تو کُجا اس کے ساتھ اگر کسی دعوت میں کسی وزیر کا کھانا کھایا جانا ثابت ہو جائے تو مہذب ممالک میں وزراء اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیتے ہیں۔ جبکہ وزیر موصوف کو ایک جرائم پیشہ کے ساتھ معاملات کرنے کے باوجود بجائے اس کے وزیر موصوف سے جواب طلبی کی جاتی اور تادیبی کاروائی کی جاتی ۔ انہیں اتنی اہم وزارت دے دی؟۔ اپنی ٹیم کے بارے خبر نہ رکھنی یا لاعلم رہنا۔ یا خبر ہوتے ہوئے اس پہ کاروائی نہ کرنا ۔یہ بھی اپنے فرائض سے غفلت برتنے کے برابر ہے۔
جہاں یہ عالم ہو کہ سرکاری ملازموں کو ذاتی ملازم سمجھا جائے ۔ نوکریاں بیچی جائیں۔ سرکار دربار میں اپنے من پسند لوگوں کو لانے کے لئیے ۔پرانے ملازمین حتٰی کے چھٹی یا ساتویں گریڈ کی خواتین ملازموں کو انکے گھر بار سے دور۔ بیس بائیس کلومیٹرز دورافتادہ جگہ پہ اچانک تبادلہ کر دیا جائے ۔ بہانے بہانے سے سرکاری ملازموں کو تنگ کیا جائے ۔تانکہ وہ بددل ہو کر اپنی ملازمت چھوڑ دیں ۔اور انکی جگہ اپنے منظور نظر لوگوں کو بھرتی کیا جاسکے۔ تعینات کیا جاسکے۔ وہاں عام عوام ہی نہیں بلکہ یہ سرکاری ملازمین کو ہی اگر اجازت دے دی جائے۔ اور انہیں اپنی نوکری کے جانے کا اندیشہ نہ ہو تا۔تو ہمیں نہیں لگتا کہ کوئی سرکاری ملازم ایسا ہوگا جو احتجاج میں شامل نہ ہواور سرکاری ملازمین کے احتجاج کی تعداد لاکھوں تک نہ ہو ۔ یعنی لوگ تنگ آگئے ہیں۔ انکے مسائل حل نہیں ہو رہے ۔ ممکن ہے نواز شریف حکومت کی ترجیجات میں لمبی ٹرم کے منصوبے ہوں ۔جن سے چند سالوں میں نتیجہ عوام کے حق میں بہتر آئے ، مگر عوام کا فی الحال مسئلہ زندہ رہنے کی جستجو کرنا ہے ۔ اور وہ موجودہ حکومت سے بہت سی توقعات لگائے بیٹھے تھے ۔ اور حکومت فی الفور عوام کو کچھ دینے کی بجائے۔ مہنگائی کے سیلاب سے انکے مسائل میں اضافہ کرنے کا سبب بنی ہے۔
حکومت کے بارے یہ عام طور پہ کہا جاتا ہے ۔کہ میاں نواز شریف نے اندیشہ ہائے دور است کے تحت حفظِ ماتقدم کے طور پہ ۔اپنے اقتدار و اختیار کو اپنے ارد گرد کچھ معدوئے چند لوگوں میں بانٹ رکھا ہے ۔ ممکن ہے اس میں انکے کچھ اندیشے درست ہوں۔ لیکن یہ امر واقع ہے کہ اقتدار اللہ کی دی ہوئی امانت ہوتی ہے۔ اور جن حکمرانوں نے اپنا اقتدار ۔نیچے تک عام شہری تک تقسیم کیا ۔ انھیں کسی اندیشے کا ڈر نہ رہا ۔اور اور یوں کرنے سے جہاں عوام کو ریلیف ملا ۔وہیں اللہ نے ایسے حکمرانوں کے اقتدار میں برکت دی ۔
یہ حد سے بڑھی خود اعتمادی تھی یا سانحہ ماڈل ٹاؤن کی وجہ سے نواز حکومت اخلاقی طور پہ ایسا کرنے پہ مجبور تھی کہ طاہر القادری ایک غیر سیاسی تحریک کے سربراہ اور پاکستان میں کسی بھی لیول پہ ان کا کوئی سیاسی عہدہ نہیں۔ تو پھر کس خوشی میں حکومت نے انہیں پہلے روکا تو عین آخری وقت میں ایک سیاسی اور منتخب حکومت کو غیر آئینی طور پہ حکومت گرانے کی دہمکیوں کے باوجود انہیں ملک کے دارالحکومت کی طرف ہزاروں لوگوں کے ساتھ بڑھنے دیا؟
یہ سیاسی ناعاقبت اندیشی نہیں تو کیا ہے کہ جنہیں چند ہزار افراد کہا گیا اور یہ سمجھا گیا کہ لاکھوں کا دعواٰہ کرنے والے ان بیس پچیس ہزار لوگوں سے کیا تبدیلی لے آئیں گے؟ اور من پسند خوشامدی تجزئیہ نگاروں سے اپنی حکمت عملی کی داد وصول کی جاتی رہی ۔ اور اب یہ عالم ہے کہ پچیس تیس ہزار افراد کے ہجوم نے اسلام آباد میں آج ریڈ زون بھی کراس کر لیا ہے۔ اور عین پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے۔ ملک کے حساس ترین علاقے ریڈ زون میں۔ آن ڈیرے جمائے ہیں ۔جس سے ملک اور حکومت کی کی جگ ہنسائی ہور رہی ہے۔ اور ساری دنیا کو ریاستِ پاکستان کا ایک غلط پیغام جارہا ہے ۔ اور نواز شریف ابھی تک اپنے معدودے چند ایسے افراد کی مشاورت پہ بھروسہ کرنے کی وجہ سے ایک بار پھر بند گلی میں کھڑے ہیں ۔
کچھ لوگوں کو یاد ہوگا کہ انقلاب کا ڈول ڈالتے ہی مشرف نے اپنے کارکنوں کو اس انقلاب اور آزادی مارچ کا ساتھ دینے کا ارشاد فرمایا۔اور نواز شریف نےایک بار پھر ایک تاریخی غلطی کی ہے۔فوج کو اس معاملے میں ملوث کرکے کے اپنے ۔ مسلم لیگ ن۔ اور جمہوریت کے ہاتھ پاؤں باندھ دئیے ہیں۔اور مستقبل میں کئی مخصوص اور حساس معاملوں میں آزادی سے فیصلے کرنے کا اختیار کھو دیا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے ۔اس سے بہتر تھا وزیر اعظم استعفٰی دے دیتے۔اور اپنی پارٹی میں سے کسی کو ویزر اعظم نامزد کر دیتے ۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہوتی۔ کہ بات بات پہ اپنی زبان سے پھر جانے والے۔ آزادی و انقلابی ڈول ڈالنے والے ۔اس کے بعد کوئی نیا مطالبہ نہ کر دیتے ؟۔
تاریخ گواہ ہے۔ کہ اس طرح کے پلانٹڈ اور پلانیڈ انقلاب۔ کبھی کامیاب نہیں ہوئے ۔ان سے تبدیلی تو ہوتی ہے۔ مگر تبدیلی نہیں آتی۔ کسی حقیقی انقلاب کے لئیے عام آدمی یعنی عوام کی تربیت لازمی ہوتی ہے کہ وہ انقلابی تبدیلی کا باعث بن سکے۔جو اس سارے انقلابی عمل میں کہیں نظر نہیں آتی ۔ کہ پاکستان کے عام آدمی یعنی عوام کو اس طرح لاچار کر دیا گیا ہے کہ وہ سوتے میں بھی دو وقت کی باعزت روٹی کمانے کی خاطر اور زندہ رہنے کی جستجو کے ڈراؤنے خواب دیکھتا ہے اور اس قدر منتشر ہے کہ اسے سوائے اپنے حالات کے کسی اور طرف دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ۔ تو پھر عام آدمی کی تربیت اور شمولیت کے بغیر یہ کیسا انقلاب برپا ہونے جارہا ہے؟ ۔
ایک تبدیلی وہ ہے جس کا نعرہ لگایا جارہا ہے۔ ”انقلاب“۔ اور ایک تبدیلی وہ ہے جو اسکرپٹ رائٹر نے اپنے من پسند طریقے سے لانی چاہی ہے۔ یعنی پہلی تبدیلی ”انقلاب “ کا جھانسہ دیکر دوسری تبدیلی ہی اصل گوہر مقصود ہے۔۔
جہاں ضامن حضرات جائز طور پہ برہم ہیں۔ وہیں لوگ اس بات پہ حیران ہیں کہ شیخ السلام اور کپتان نے مختلف سیاسی حکومتی شخصیات کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ کوئی غیر آئنی مطالبہ یا اقدام نہیں کریں گے ۔ تو پھر یہ کیوں بار بار اپنا بیان بدل رہے ہیں ۔ اور اتنی یقین دہانیوں کے باوجود غیر آئینی مطالبوں پہ اڑے ہوئے ہیں۔لیکن ان کو (عوام کو)یہ پتہ نہیں کہ جو کسی کے بھروسے پہ پہلی بار ہر حد پھلانگ جائیں ۔پھر انھیں اس کے اشارے پہ بار بار ہر حد پھلانگنی پڑتی ہے۔اتنے سالوں سے اس ملک میں کوڑھ کی فصل بیجی جارہی ہے ۔ اب یہ فصل پک چکی ہے۔کچھ طاقتیں ایسی ہیں جنہوں نے اس ملک کے تمام ستونوں کو بے بس کر رکھا ہے اور جب انھیں پاکستان کی ترقی یا استحکام کا پہیہ روکنا مقصود ہوتا ہے تو وہ اشارہ کر دیتی ہیں اور پہلے سے بنے بنائے بچے جمہورے طے شدہ پروگرام کے تحت حرکت میں آجاتے ہیں ۔اور حد یہ ہے کہ انھیں رسپانس بھی ملنا شروع ہو جاتا ہے ۔
چند ہفتے قبل کوئی سوچ سکتا تھا کہ۔ وہ لوگ جن کا پاکستان کی سیاست اور پارلیمینٹ میں وجود ہی نہیں۔ وہ آج کس زورو شور سے پورے ملک۔ کو اسکے عوام کو ۔بے یقینی کی ٹکٹکی پہ چڑہا کر تماشہ بنادیں گے؟یہ سیاسی بصیرت سے بڑھ کر کسی تیسری قوت کی اپروچ ھے۔اور جو لوگ ایک بار کسی کے ہاتھوں پہ کھیلیں ۔۔ پھر انھیں ہمیشہ انھی کے ہاتھوں کھیلنا پڑتا ہے۔
لمحہ بہ لحمہ بدلتی اس ساری صورتحال میں موجودہ حکومت کو دیوار کے ساتھ لگا کر پس پردہ اس سے وہ مطالبات منائے جائیں گے ۔ جس پہ ابھی تک ہماری حکومت بظا ہر اسٹینڈ لئیے کھڑی ہے ۔ اسمیں مشرف کی پاکستان سے غداری اور امریکہ سے وفاداری کے انعام کے طور پہ اس کی رہائی ۔ تانکہ امریکہ کے لئیے کام کرنے والے غداروں کو یہ پیغام جائے کہ وہ امریکہ کے لئیے اپنی قوم سے غداری کرنے والوں کو امریکہ تنہا نہیں چھوڑتا۔ دوسری بڑی وجہ ۔ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی ۔ اور تیسری بڑی وجہ ۔ پاکستانی عوام کو آمنے سامنے لا کر تصادم میں بدلنا ہے۔”عرب بہار“ جیسا فار مولہ بہت شاطر دماغوں نے اپنی پوری طاغوتی طاقت سے سارے وسائل بروئے کار لا کر بنا یا ہے ۔زرہ تصور کریں یہ دھرنا پروگرام کچھ طویل ہوتا ہے۔ تو دیگر جماعتیں بھی اپنے ہونے کا ثبوت دینے کے لئیے ۔اپنی اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ کرنے پہ نکل آئیں۔ تو کارکنوں کا ملک گیر پیمانے پہ یہ تصادم کیا رُخ اختیار کرے گا؟۔ یہ وہ کچھ پس پردہ عزائم ہیں جو عالمی طاقتیں دنیا کی واحد اسلامی نیوکلئیر ریاست کے بارے رکھتی ہیں۔ جس کے بارے میں عالمی میڈیا میں یہ تاثر دیا جائے گا ۔کہ اس ملک میں کبھی بھی۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ تو ایسے میں نیوکلئیر ہتیار اگر دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گئے۔ تو دنیا کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے ۔ اور اس تصور کو دنیا میں بڑہا چڑھا کر پیش کیا جائے گا ۔ اور ہماری بدقسمتی سے پاکستان مخالف عالمی طاقتیں پروپگنڈاہ اور دہمکی دھونس کے زور پہ ۔ایسے بے وجود سایوں کو وجود دینا جانتی ہیں۔ایسے میں پاکستان کا کیس عالمی برادری میں کمزور ہو جائیگا۔
اس بار شاید ہمیشہ کی طرح ”عزیز ہموطنو“ نہ ہو ۔کہ اب یہ فیشن بدلتا جارہا ۔ اورکچھ لوگ پہلے سے تیار کر لئیے جاتے ہیں ۔کہ جنہیں اگر نوبت آئی ۔تو انہیں آگے کر دیا جائے گا ۔ اور پس پشت”میرے ہموطنو“ پروگرام ہی ہوگا۔اس امر کا انحصار نواز شریف کی بارگینگ پاور پہ ہوگا۔ اور مارچ میں شامل کارکنوں کی تعداد اور استقلال کی بنیاد پہ ہوگا۔ کہ پس پردہ اپنی شرائط کس طرح منوائی جاسکتی ہیں۔ اگر دھرنے کے قائدین اسکرپٹ پلیئر کے اشارے پہ دھرنا اور احتجاج ختم بھی کر دیں ۔تو بہر حال ایک بات طے ہے کہ ان دھرنوں سے پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ پاکستان کی بنیادیں بھی ہل کر رہ جائیں گی ۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, فہمی, ہم, ہمیں, ہنسائی, ہو, ہونے, ہونگے۔, ہونا, ہو۔, ہوگا, ہوگا۔کہ, ہوگا۔تو, ہوں, ہوں“۔, ہوئی, ہوئی۔, ہوئے, ہوئے۔, ہوا, ہواور, ہوتی, ہوتی۔, ہوتے, ہوتا, ہوجانا, ہور, فوری, فوراً, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں۔اور, ہیں۔شہباز, ہیں؟۔, فیصلوں, فیصلے, ہے, ہے۔, ہے۔ جہاں, ہے۔فوج, ہے۔کچھ, ہے۔اور, ہے۔حکومت, ہےکہ, ہے؟, ہٹتی, ہاؤس, ہائے, ہاتھ, ہتیانے, ہجوم, فخر, ہر, فرما, فرمایا۔اور, فراہمی, فرائض, فرد, فرصت, ہزار, ہزاروں, فطرت, قوم, قائم, قابو, قدم, قدر, قربان, قسم, لفظوں, لمبی, لوگ, لوگوں, لیول, لی۔, لیکن, لیگ, لیں, لیں۔, لیا, لیتا, لُوٹ, لے, لے۔, لکھے, لکھتے, لگایا, لگائے, لگتا, لئیے, لئے, لانی, لانے, لانا, لاچار, لایا, لاکھوں, لازمی, لاعلم, لبیک, لطیفہ, مہنگائی, مفاہمت, مہذب, ملوث, ملے, ملک, ملا, ملازم, ملازموں, ملازمین, ملازمت, ممکن, ممالک, من, منونے, منوانا, منتخب, منتشر, منشاء, منصوبے, منظور, موجودہ, موجیں, موصوف, میل, میڈیا, میں, میں۔, میاں, مگر, ما, ماہ, مانگنے, مانگیں, ماڈل, ماتقدم, ماحول, مارچ, مارچوں, ماضی, مثال, مثالی, مثالی۔, مثالیں, مجبور, محنت, محدود, محض, مخصوص, مد, مذکورہ, مذاکرات, مرضی, مسلم, مسئلہ, مسائل, مستقبل, مشکل, مشکلات, مشاورت, مشرف, مصیبت, مطلوب, مطالبہ, مطالبات, مطابق, مظاہرہ, معلوم, معاملہ, معاملے, معاملات, معدوئے, معدودے, معروف, مغالطے, مغربی, نہ, نہیں, نہیں۔, نفسیاتی, نقصانات, چلی, چلےجاتے۔, چلا, چلانا, چلتا, نمک, چند, نون, نوکری, نوکریاں, نواز, نیا, چڑچڑے, نے, نے۔, نےایک, ن۔, نکل, چکی, نکتہ, نگاروں, چھوڑ, چھوڑتی, چھڑکیں۔, چھٹی, چاہی, چاہئیے, چاہا, چالیں, نام, نامزد, ناکامی, ناعاقبت, نبوت, نبی, نتیجہ, نسبت, نظر, نعرہ, و, وہ, وہاں, وقت, ڈول, ڈوبتی, ویڈیو, ڈیرے, ویزر, ڈگری, واقع, ڈالنے, والوں, والی, والے, والے۔, ڈالتے, والسلام, واپس, وبیباکی, وجہ, ور, ڈراؤنے, وراثت, وزیر, وزات, وزارت, وزراء, وصول, وضاحت, یہ, یہی, یقناً, یقین, یوٹرن, یوں, یک, یکے, یا, یافتہ, یاد, یعنی, ۔, ۔ یہ, ۔لاکھوں, ۔مگر, ۔نیچے, ۔نظر, ۔وہیں, ۔وزیر, ۔یہ, ۔۔, ۔کہ, ۔کیونکہ, ۔کسی, ۔پندرہ, ۔پرانے, ۔ان, ۔اور, ۔اپنے, ۔اس, ۔اسکی, ۔بجلی, ۔تو, ۔تانکہ, ۔جن, ۔جو, ۔جس, ۔رقم, کہ, کہہ, کہنے, کہیں, کہا, کہتے, کلومیٹرز, کم, کمی, کمیٹی, کمانے, کو, کون, کونسی, کوئی, کواکب, کی, کیونکہ, کیوں, کیا, کیس, کیسا, کُجا, کڑووں, کے, کے۔, کے۔ان, کھلا, کھو, کپڑے, کپڑا, کھانا, کھایا, کپتان, کئی, کئیے, کا, کافی, کامیاب, کاکیا, کاروائی, کاروبار, کارکنوں, کب, کبھی, کر, کرنی, کرنے, کرنا, کروائے, کرکے, کرکٹ, کرپشن, کراس, کرتی, کرتے, کرتا, کردیں, کردار, کردار۔, کررہا۔تو, کس, کسوٹی, کسی, گلی, گڈ, گوئی, گواہ, گورنس, گیا, گیس, گے, گے۔, گے؟, گھن, گھر, گئی, گئیں, گئے, گر, گرمی, گریڈ, گرا, گرانے, گرج, گرد, گردانا, ٹیم, ٹھپ, ٹاؤن, ٹرم, ںاور, پہ, پہلی, پہلے, پہنچتے, پہچانے, پلان, پلانیڈ, پلانٹڈ, پچیس, پنجاب, پندرہ, پول, ھوئی, پوری, پورے, پوزیشنیں, پی, پیچھے, پیدا, پیشہ, پیغام, پڑی, پھونک, پھر, پانی, پاور, پاکستان, پاکستانی, پاکستان۔ہیں, پاؤں, پائی, پائے, پارلیمنٹ, پارٹی, پتہ, پتوں, پرکھتا, پردہ, پس, پسند, ،, ؟, ؟۔, آلودہ, آمادہ, آن, آنے, آنکھیں, آگے, آگئے, آپ, آپنے, آئینی, آئیں, آئیں۔کامیاب, آئے, آباد, آبادی, آتی, آتی۔, آتے, آج, آخری, آدہی, آدمی, آزادی, آسان, آصف, اہلیت, اہم, افراد, اقتدار, الفور, القادری, اللہ, الحال, السلام, امانت, امر, ان, انہوں, انہیں, انقلاب, انقلابی, انقلاب۔, انکی, انکے, انکا, انٹر, انھیں, اچانک, انبیاء, انتخابی, انحصار, اندیشہ, اندیشی, اندیشے, اندازہو, انسانوں, انسانی, اولین, اور, ایمان, ایماء, ایک, ایسی, ایسے, ایسا, اکثریت, اکثریتی, اگر, اپنی, اپنے, اپنا, اب, ابھی, اتنی, اترے, اثر, اجیرن, اجازت, احتجاج, اخلاق, اخلاقی, اختیار, ادہار, ارد, ارشاد, از, اس, اسلام, اسمگلر, اسی, اسے, اسکی, اسکینڈلز, اسکے, اسکا, اسکرپٹ, اسکرپٹس, اسٹریٹ, است, استعفی, استعفیٰ, استعفٰی, اشارہ, اصولوں, اضافہ, اعلیٰ, اعلٰی, اعتمادی, اعتبار, اعظم, بہ, بہانے, بہت, بہتر, بل, بلند, بلیک, بلکہ, بن, بنی, بنیاد, بنا, بناؤ, بناتی؟, بنادی, بند, بولتے, بیچی, بیٹھے, بیان, بیاں, بیباکی, بیس, بُوتے, بڑہاتا, بڑی, بڑے, بڑھنے, بڑھی, بے, بگاڑ, بھی, بھرنے, بھروسہ, بھرتی, بانگ, بانٹ, باندھ, باوجود, بائیس, بات, بار, بارے, بارش, بازی, باعث, باعزت, بجلی, بجائے, بجائے۔, بحران, بحران۔, بدلتے, بددل, بر, برکت, برپا, برابر, برتنے, بردران, برعکس, بزرجمہر, بس, بس۔, بعیت, بعد, بعد۔اپنی, بغیر, تہائی, تفاخر, تقسیم, تنگ, تو, توقعات, تووہ, توڑ, توانائی, توانائی۔خواجہ, تین, تیار, تیس, تک, تکالیف, تھی, تھی۔, تھے, تھا, تھا۔, تا۔تو, تاثر, تادیبی, تاریخ, تاریخی, تبادلہ, تبدیلی, تجزئیہ, تحت, تحریک, ترین, ترپ, تربیت, ترجیجات, تصور, تعینات, تعالیٰ, تعداد, ثابت, جہاں, جلتے, جلد, جم, جمہوریت, جمود, جمیں, جمائے, جن, جنہیں, جو, جونہی, جواب, جگ, جگہ, جھوٹ, جا, جان, جانچنے, جانچتا, جانے, جانا, جانتا, جائیں۔, جائیں؟۔ورنہ, جائے, جائے۔, جائے؟, جاتی, جاتا, جارہے, جارہےہیں, جارہا, جاسکے۔, جاسکتے, جاسکتا, جب, جبکہ, جتن, جرم, جرائم, جس, جسم, جستجو, حفظِ, حق, حقیقی, حقیقت, حل, حمایت, حمایتی, حکمت, حکمرانوں, حکومت, حالات, حتٰی, حد, حساس, خلاف, خوفناک, خواب, خواتین, خود, خوشی, خوشامدی, خیال, خُوب, خاندان, خاطر, خبر, ختم, خداد, خطرہ, دہمکیوں, دہوکے, دم, دن, دنیا, دو, دون, دونوں, دو؟۔اسملبیاں, دوتہائی, دور, دور۔, دورافتادہ, دوسرے, دوسرا, دی, دین, دینے, دینا, دی۔, دیکھنے, دیکھی, دیکھیں, دیکھئیے, دیکھتا, دیگرے, دیں, دی؟۔, دیا, دیا؟یہ, دیتے, دیتے۔اور, دیتا, دے, دےدیں۔, دکھائے, دھوکہ, دھوکہ۔, دھوکے, دئیے, داد, دارالحکومت, داغ, داغنے, دباؤ, دربار, درست, دستِ, دعوؤں, دعواہ, دعواٰہ, دعوت, دعوتِ, دعا, ذہن, ذاتی, ذریعئے, رہنے, رہنا۔, رہی, رہی۔, رہیں, رہے, رہا, رقم, رنگ, روکا, روٹی, روپے, روا, روز, روزگار, روزگاری, ریلیف, ریڈ, ریاستِ, رُخ, رکنی, رکھ, رکھنی, رکھنے, رکھی, رکھے, رکھا, رکھا؟۔تو, رکھتے, راہ, رام, رائٹر, راضی, رشتہ, ز, زندہ, زندگی, زون, زیادہ, زائد, زبان, زخموں, زرداری, سمجھ, سمجھنے, سمجھا, سنا, سچائی, سنبھالے, سو, سولہ, سوچ, سوال, سوائے, سوتے, سی, سیلاب, سیاسی, سیاسات, سیاست, سیاستدان, سڑکوں, سے, سکیں“, سکے۔یہ, سکے۔جو, سالوں, سامنے, سامنے۔, سانحہ, ساتویں, ساتھ, ساخت, سادہ, ساری, سارے, سب, سبب, ستم, سر, سرکار, سرکاری, سربراہ, شفقت, شہری, شمولیت, شو, شور, شیخ, شک, شامل, شائبہ, شروع, شریف, شرابہ, صفات, صلاحیت, صورتحال, صاحب, ضمانت, ضدی, ضروری, ضرورت, طلبی, طور, طے, طاہر, طاقت, طاقتوں, طاقتیں, طبعیت, طرف, طریقے, طرح, ظریفی, عہدہ, عفریت۔, علم, علمِ, علیة, علاقے, عمل, عملی, عمران, عوام, عین, عالم, عام, عدم, غفلت, غلط, غلطی, غیر
دسمبر دے دُکھ ۔
پہاڑیاں میرے سیدھے ہاتھ پہ تھیں۔ بحر روم میرے الٹے ہاتھ پہ اپنے پُر سکون اور روایتی انداز میں بہہ رہا تھا ۔ دبیز دھند بلندی سے وادیوں پہ اتر رہی تھی ۔ پہاڑوں کے بلند سرے ا ور چوٹیاں دھند میں چھپتی جارہی تھیں۔ ظہر کا وقت گزر چکا تھا ۔عصر کا مختصر سا وقت شروع ہو رہا تھا ۔ موسم میں خنکی اچانک بڑھ گئی تھی۔ میں نے گاڑی کے ہیٹر کو معمولی سا مزید بڑھا دیا تھا ۔ یہاں سڑک سمندر کے متوازی بہتی ہے ۔ اور میری دیکھی بھالی ہے ۔ سڑک کے اس حصے پہ غالبا میں سینکڑوں مرتبہ ڈرائیو کر چکا ہوں ۔لیکن ہر مرتبہ اس سڑک پہ سفر کرتے ہوئے تازگی اور فرحت کا ایک نیا إحساس ہوتا ہے ۔ سڑک کے کنارے چھوٹی موٹی آبادیاں اور آبادی سے پرے اس طرف چیڑھ (پائن ) کے درختوں سے ہری بھری پہاڑیوں کے درمیان مختلف چھوٹے بڑے شاداب کھیتوں سے سر سبز پھیلتی سکڑتی وادیاں ۔ اس طرف سڑک کے ساتھ متوازی چلتی ریلوے لائن اور بے بیکراں تاحد نظر پھیلا ہوا بظاہر ساکت بحیرہ روم اسقدر تغیر لئیے ہوئے ہے کہ ا س کے کناروں نے درجنوں مختلف تہذیبوں کو جنم دے ڈالا ۔ بلا مبالغہ دنیا کی گذشتہ اور موجودہ تہذیبوں میں بحرہ روم کا ایک بڑا ہاتھ ہے ۔میرا ذہن بہت مختلف سے احساسات اور سوچوں کی آمجگاہ بنا ہوا ہے ، سوچوں کا سرا کسی طور ٹوٹنے میں نہیں آتا ۔میں میکانکی انداز میں گاڑی چلا رہا تھا ۔ کبھی کبھار کسی آبادی سے پہلے یا بعد ۔کسی ”گیو وے “ یا ” اباؤٹ ٹرن“ پہ کسی دوسری گاڑی کو رستہ دیتے ہوئے سوچوں کا یہ سلسلہ کچھ دیر کے لئیے منقطع ہوتا اور پھر سے سوچیں ذہن کے پردے پہ وہیں سے عکاس ہونا شروع ہوجاتیں جہاں سے یہ سلسلہ منقطع ہوا تھا۔
آج چوبیس دسمبر ہے ۔ ہر چوبیس اور پچیس دسمبر کی طرح مجھے یہ دن بہت اداس سا محسوس ہوتا ہے ۔اس سڑک پہ عام طور پہ محسوس ہونے والی روایتی تازگی اور فرحت کے إحساس کی بجائے ایک اداسی کی سی لکیر محسوس ہوتی ہے۔ جو مجھے یہاں سے وہاں تک ہر شئے سے لپٹی محسوس ہوتی ہے۔ دسمبر کے دن بھی انتہائی مختصر ہوتے ہیں۔ ادہر دوپہر ڈھلی ادہر شام سر پہ آجاتی ہے ۔ نصرانی مذہب کے پیروکار چوبیس دسمبر کی شام کو کرسمس ڈنر Christmas eve dinner اور پچیس کو کرسمس مناتے ہیں۔ عیسیٰ علیۃ والسلام سے منسُوب آخری ڈنر کی کی روایت سے شروع ہونے والے اس کرسمس ڈنر کے لئیے ۔اس رات سارا خاندان مل بیٹھتا ہے ۔ دور دراز سے سفر کر کے لوگ اپنے چاہنے والوں یعنی اپنے عزیزو أقارب سے کے ساتھ یہ مخصوص ڈنر کرتے ہیں ۔میرے ایک جاننے والی کی بہن جرمنی میں مقیم ہیں ۔ وہ تقریبا ہر سال وہاں سے یہاں اپنے بہن بھائیوں اور خاندان کے ساتھ کرسمس ڈنر پہ شامل ہوتی ہے۔اسی طرح ایک اور جاننے والے کے کچھ رشتے دار کنیڈا میں مقیم ہیں۔ وہ وہاں سے کچھ دنوں کے لئیے واپس آتے ہیں ۔ کرسمس ڈنر عام طور پہ یہ ایک روایتی اور نہائت نجی تقریب ہوتی ہے ۔ جس میں داماد یا بہو ۔ یا ہونے والے داماد یا ہونے والی بہو یعنی منگیتر کے علاوہ شاید ہی کوئی غیر رشتہ دار شامل ہوتا ہو۔ نصرانی مذہب اور خاصکر نصرانی مذہب کے دیگر اکثر فرقوں کی طرح کھیتولک فرقہ بھی کرسمس ڈنر کے لئیے خوب تیاری کرتا ہے۔ جس میں ٹرکی سے لیکر سالم سؤر اورسالم بکرے تک بھون کر کھائے جاتے ہیں۔ مچھلی اور سی فوڈ کی کھانے کی میز پہ بھرمار ہوتی ہے۔درجنوں اقسام کے کیک اور مٹھائیاں میز پہ سجائی جاتی ہیں۔ لیٹروں کے حساب سے شمپئین ، وائن اور مختلف شرابوں کے جام لنڈھائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ محض بہت زیادہ کھانا کھانے کی وجہ سے موت کے منہ میں پہنچ جاتے ہیں۔کرسمس ڈنر کی تیاری کے لئیے خصوصی طور پہ خریداری کی جاتی ہے ۔چاہنے والوں کے لئیے خصوصی تحائف خریدے جاتے ہیں ۔
عام طور پہ ان مخصوص دنوں میں شہر کے آس پاس تک ہی محدود رہتا ہوں ۔ مگر اس دفعہ ایک نواحی شہر کے ایک پرانے کسٹمر نے کچھ مال کریڈٹ پہ خرید رکھا رکھا تھا ۔جو کاروباری معاملے کی وجہ سے اس شرط پہ دے دیا تھا ۔کہ وہ ایک آدھے ہفتے کے دوران دسمبر کا مہینہ ختم ہونے سے پہلے۔ تمام رقم ادا کر دے گا ۔ مجھے اس سلسلے میں رقم کی قسط لینے نواحی شہر کو آج جانا ہوا تھا ۔ اڑھائی دو گھنٹے میں، میں فارغ ہو چکا تھا ۔واپسی پہ سڑک کے کنارے ایک انٹر نیشنل چین کے کئی ایکڑوں پہ پھیلے مشہور ڈپارٹمنٹل اسٹور پہ رک کر ۔گاڑی میں فیول ڈلوایا اور اسپین کی مختلف ذائقوں اور اقسام کی روایتی مٹھائی ”تُرون“ خریدے ۔ چونکہ دفتر ۔ کاروبار سے دو دن سب کچھ بند ہونے کی وجہ سے چھٹی ہے ۔ لہذاہ اس دوران اسٹور سے گھر کے لئیے ضروری خریداری بھی کر لی ۔
دسمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی سرکاری یا غیرسرکاری سب اداروں میں تمام ملازموں کو ایک اضافی تنخواہ ملتی ہے ۔ جسے ”کرسمس پے “ کا نام دیا جاتا ہے ۔مگر ہر جیب میں اس دفعہ اضافی تنخواہ نہیں ۔ سرکاری ملازموں کو اس دفعہ حکومت نے اضافی تنخواہ کی کٹوتی کا اعلان کر رکھا ہے ۔ مالی بحران زوروں پہ ہے ۔ مگر سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور سہولتیں اسقدر ہیں ۔کہ انہیں ایک اضافی تنخواہ کے نہ ملنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ۔جب کہ ملک میں مالی بحران کے ہاتھوں پریشان لاکھوں بیروزگاروں کی جیب خالی ہے۔ حکومت مقدور بھر کوشش کرتی ہے کہ بیروزگاری الاؤنس سے بیروزگاروں کی کچھ مدد کر سکے ۔ مگر اتنے لمبے مالی بحران کی وجہ سے اب حکومت بھی بے بس اور لاچار نظر آتی ہے ۔ جب کہ نجی اداروں میں کام کرنے والوں کی اضافی تنخواہ نہیں روکی گئیں ۔ جیب میں اضافی تنخواہ ہو اور کرسمس جیسے تہوار کا معقول بہانہ ہو۔ تو مختلف سپر مارکیٹس ۔ دوکانوں اور ڈیپارٹمنٹل اسٹورز کی رونق دوبالا ہوجاتی ہے ا۔ور دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔فراغت جو مجھے کبھی کبھار نصیب ہوتی ہے ۔ اس فراغت کی وجہ سے میں کافئ دیر ڈپارٹمنٹل اسٹور کے اندر گھومتا رہا ۔ آج رات کے لئیے کھانے کی ہر شئے پوری کرنے کے لئیے خریداری کی لمبی فہرستیں سنبھالے۔ خوشی سے دمکتے چہرے ۔ سالم خاندان اور جوڑوں کی شکل میں میں رنگ برنگ کے ملبوسات سجائے ۔تحائف ۔ مختلف شرابوں ۔ مٹھائیوں ۔ پھلوں ۔ خشک میوں ۔ گوشت ۔ مچھلی ۔ سی فوڈز ۔ اور انکی تیاری میں استعمال ہونے والے لوازمات سے سے لدی پھندی ٹرالیوں کے بیچ بیچ خریداری سے قبل۔ میں خالی ہاتھ گھومتا رہا ۔ بس یونہی دل کی بے نام سے بے کلی کے درماں کے لئیے ۔ کچھ دیر بعد بار میں جا بیٹھا ۔ ایک کالی اور تلخ کافی کے سِپ لینے کے دوران بھی کرسمس خریداروں کا یہ مشاہدہ میں نے جاری رکھا ۔ ان چمکتے اور شاداب چہروں کے بیچ میں بہت سے لوگ اداس بھی نظر آئے ۔ ان میں ایک تو وہ لوگ تھے جو لمبی بیروزگاری کے ہاتھوں۔ اپنے محدود سے بجٹ کے ہاتھوں پریشان ۔ اشیاء اٹھاتے اور قیمت وغیرہ دیکھ بھال کر دوبارہ رکھ دیتے اور اس سے نسبتا کم قیمت کی شئے دوبارہ سے اٹھا کر اسکی قیمت اور اپنی جیب کا حساب لگانا شروع کر دیتے ۔ بے شک اب اس ملک میں ایسے لوگ لاکھوں کے حساب سے ہیں۔ میں انسانی ہمدردی کے تحت مقدور بھر کوشش کرتا ہوں کہ کسی کی مدد کر سکوں ۔ مگر میری معمولی سی مدد اتنے بڑے سمندر میں ایک قطرے سے بھی کم درجہ رکھتی ہے۔ کسی شئے کی ضد کرنے پہ ایک روتی ہوئی بچی کا باپ۔ اسے اپنی مالی حیثیت کی پہنچ نہ ہونے کا حسابی فارمولا سمجھانے کی بے سُود کوشش کر رہا تھا ۔ بچی تھی کہ ضد اور دُکھ سے روئے جارہی تھی ۔ یہ قرین انصاف نہیں کہ اکثریت تو بے جا اصراف کرے۔ اور کچھ لوگ اپنے معصوم بچوں کو معمولی اشیاء بھی نہ خرید کر دے سکیں ۔ مجھے اپنے ملک کی عید یں یاد آگئیں۔ وہاں مناطر اس سے بھی بڑھ کر تلخ ہوتے ہیں ۔ ان لوگوں کی بے سرو سامانی اور اپنے دیس کے مجبور لوگوں کے حالات نے کافی کی تلخی سے کہیں زیادہ تلخی میرے حلق میں گھول دی ۔
دوسری قسم کے وہ لوگ تھے ۔ جو اکیلے خریداری کر رہے تھے ۔ شاید انکا کوئی چاہنے والا اس کرسمس ڈنڑ پہ ان سے ملنے کے لئیے آنے والا نہیں تھا ۔ کیونکہ ایسا انکی انتہائی مختصر سی خریداری کی فہرست اور اسمیں مطلوبہ اشیاء کی تعداد جو عام طور پہ ایک عدد اکائی میں تھیں ۔ اور اس پہ انکا تنہاء ہونا۔ اس بات کا غماز تھا کہ وہ شاید اکیلے ہی کرسمس ڈنر کریں گے ۔ یا زیادہ سے ذیادہ ایک آدھ رشتے دار یا ساتھی ہوگا ۔ ایک تیس سالہ خاتون ایک باسکٹ میں اکا دکا اشیاء رکھ رہی تھیں ۔ دو سو گرام کا ایک تُرون (کرسمس کی رنگا رنگ مٹھائیوں میں سے ایک مٹھائی) پنیر کا ایک ٹکڑا ۔ زیتون کے کچھ اچاری دانے ۔ اور اسطرح کی کچھ اشیاء ۔ بغور جائزہ لینے سے اسطرح کے مختلف عمروں کے لوگ نظر آئے ۔ اداسی کی ایک لہر رگ و پے میرے سراپے میں دوڑ گئی ۔ ایک لمبا گھونٹ بھر کے کالی کافی کا کپ خالی کیا ۔ میں سنٹر سے باہر پارکنگ زون میں نکل آیا۔ جہاں سے سکہ ڈال کر خریداری کرنے کے لئیے ٹرالی نکالی ۔ دوبارہ سے اسٹور میں داخل ہوگیا ۔ خریداری کے دوران مختلف سوچوں نے دل و دماغ کو گھیرے رکھا۔
بحر روم پہ نگاہ دوڑائی تو سمندر اپنی عام عادت کے مطابق نہائت دھیما اور خراماں نظر آیا ۔ دہندلے سے بادلوں سے چھن کر آنے والی اکا دُکا سورج کی کرنوں سے ادہر اُدہر سے چمکتا ہوا۔یہاں سے وہاں تک بچھا ہوا ۔ یوں جیسے قدرت کے دست قلم نے نیلگوں رنگوں کو بکھیر دیا ہو ۔ مگر نہ جانے کیوں آج مجھے سمندر عام دنوں کی نسبت بہت خاموش اور اداس محسوس ہوا ۔ یا پھر شاید میرے اندر خاموشی اور اداسی کی تنی ہوئی چادر کی وجہ سے مجھے یوں محسوس ہورہا تھا ۔ بہر حال آج کا دن بہت خاموش سا تھا ۔
بہت سے لوگ اس بات پہ متفق ہیں کہ ۔بس یہ دسمبر کا مہینہ ایسے ہی ہوتا ہے۔ ایویں سا۔ سردی کے موسم میں لپٹا ہوا ۔ سال کا آخری مہینہ۔ یا پھر شاید اس کی وجہ اس ماہ کوسال کے آخر میں آنے کے وجہ سے اداس جانا جاتا ہے ۔ جب نیا سال شروع ہوتا ہے ۔ تو نہ جانے کتنے لوگ ۔ کتنے بھولے بھالے اور معصوم لوگ ۔انگنت منصوبے اور اہداف مقرر کرتے ہیں۔ جن کی بنیاد عام طور پہ امید اور نیک تمنائیں ہوتی ہیں ۔ جو سال گزرتے گزرتے ساتھ چھوڑ جاتی ہیں۔ سال کے گیارہ ماہ ایک دوسرے کی انگلی تھامے ہماری نظروں سے یوں اوجھل ہوجاتے ہیں ۔کہ ہمیں إحساس ہی نہیں ہوتا کہ ایک پورا سال ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوجانے والا ہے ۔ معصوم معصوم خواہشوں اور امیدوں کے سارے محل زمین بوس ہونے والے ہیں ۔ دسمبر کا مہینہ ہمیں یہ إحساس دلاتا ہے کہ اس سال کو ”گیا سال“ ہونے میں ایک آدھ ہفتہ باقی ہے یہ ایک آدھ ہفتہ جو دسمبر کہلاتا ہے ۔ ہمیں سال کی محرومیوں ۔ تلخیوں ۔ اور ناکامیوں کا اچانک إحساس دلا جاتا ہے ۔ ناکامیاں جو کئی ایک کا نصیب ہوتی ہیں ۔ سال کے شروع میں سوچے منصوبوں اور مقرر کئیے گئے اہداف کو پورا کرنے کے لئیے ۔اکثر ساد ہ دل اور بھولے بھالے معصوم لوگوں کے پاس صرف نیک ارادے ۔ معصوم خواہشات ۔ امید اور حوصلے کے علاوہ کوئی خاص وسائل اور سرمایہ نہیں ہوتا ۔ دسمبر آتے ہی یہ إحساس شدید ہوجاتا ہے کہ ایک اور سال ۔ ایک پورا سال زندگی کی ناکامیوں ۔ محرومیوں اور تلخیوں میں اضافہ کر گیا ہے ۔
زمانہ لڑکپن کی بات ہے۔ میں بہتر سہولت اور پرسکون ماحول کی خاطر ہاسٹل کو چھوڑ کر ایک مکان میں اُٹھ آیا ۔ سیالکوٹ کے مجھ سے کافی سنئیر ایک لڑکے کو پتہ چلا ۔تو بہ سماجت میرے ساتھ رہنے پہ مصر ہوا۔ اسے میں نے ساتھ رکھ لیا ۔ اسکا نام اکرم تھا ۔ وہ کام کا ساتھی ثابت ہوا ۔ یہ وہ دور تھا کہ ابھی پاکستانی اتنی بڑی تعداد میں نقل مکان کر کے یوروپ کے اس حصے میں نہیں پہنچے تھے ۔ بس اکا دکا لوگ ۔ تعلیم یا کاروبار کی وجہ سے ادہر ادہر بکھرے ہوئے تھے ۔ اکرم ہر ویک اینڈ پہ ڈاؤن ٹاؤن میں گُم ہوجاتا ۔اس کی غیر نصابی سرگرمیوں کی شُد بُد مجھے ہاسٹل سے پرانے جاننے والے یوروپی لڑکے لڑکیوں سے ملتی رہتی ۔اسے لاکھ سمجھایا ۔ مگر وہ اکرم ہی کیا جو سمجھ جاتا ۔اشارے کنائے سے اس نے مجھے اپنی ڈھب پہ لانے کی کوشش کی۔ مگر اسے آنکھیں دکھانے پہ اس نے فوری معذرت کر لی ۔ کم عمری کے باوجود میرا قد کاٹھ نمایاں تھا ۔ خدا نے حسن اور مردانہ وجاہت بھی خوب دے رکھی ہے ۔مگر ماما مرحومہ کے وہ الفاظ کہ ”بیٹا تمہارے پاپا اور دادا مرحوم بہت نیک لوگ ہیں ۔ بیٹا ایسا کوئی کام نہیں کرنا جس سے خاندان کی عزت پہ حرف آئے ۔ہمیشہ یہ یاد رکھنا کہ ہم مسلمان ہیں۔ اور اسلام کے اپنے طور طریقے ہیں “ کبھی دل میں فاسد خیال آیا نہیں تھا۔ مخلوط ماحول میں اپنی ہم عمر لڑکیوں کی طرف سے ہر قسم کی دعوتوں پہ اپنی والدہ مرحومہ کے الفاظ نے الحمد اللہ بدی کی بجائے ہمیشہ نیکی کے رستے پہ گامزن رکھا ۔ میں نے اکرم کو بھی وارننگ دے رکھی تھی ۔کہ جس دن مجھے وہ کسی میم کے ساتھ نظر آیا ۔اسکی مکان سے چھٹی ہوجائے گی۔ تھا وہ مجھ سے سنئیر مگر وہ میری بہت عزت کرتا تھا ۔ چھوٹی عمر اور پردیس ۔ تنہائی کا ایک ہمہ گیر إحساس رہتا ۔ ہر عید بقر عید ۔ ہر بیماری ۔ ہر پریشانی پہ اکیلے۔ کوئی رہنمائی کرنے والا ۔ تیمارداری کرنے والا ۔ نہ ہوتا۔ سخت سردی جاڑے میں سردی یا بخار سے گھر میں کوئی ایسا نہ ہوتا کہ پیاس کی صورت ایک گلاس پانی یا دوائی حلق میں انڈیل دے ۔ گھر اور گھر والے ہزاروں میل دور ۔ ایسے میں، میں اور اکرم مل جل کر جیسے تیسے ایک دوسرے کے درد کے ساتھی ہوتے ۔ اور ویک اینڈ پہ اکرم کے گُم ہو جانے کی وجہ سے تنہائی کا إحساس اسقدر شدید نہ ہوتا کیونکہ ۔ میں چھوٹی سی عمر میں ہی چائے اور کھانا بنانے میں ماہر ہو گیا تھا ۔ ویک اینڈ پہ گھر پہ کھانا بنانے کی مزے کی تراکیب لڑائی جاتیں ۔ گھر کی صفائی ستھرائی ہوتی۔ہفتے کے دروان قضا ہونے والی قضاء نمازیں پڑھی جاتیں ۔ اسلامک سنٹر جانا ہوتا ۔ٹی وی ۔ ویڈیو دیکھتے ۔ پڑھائی میں اور سوتے وقت گزرتا ۔
سمسٹر کے آخر پہ دیگر ساتھیوں سے پتہ چلتا کہ کس طرح وہ سب اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ اور کرسمس ڈنر پہ کون کس کا بھائی یا بہن یا ماموں کہاں سے آرہا ہے۔کرسمس کے آتے ہی اکرم اپنی کسی میم دوست کے ساتھ گُم ہوجاتا اور میں قلعہ بند ہو کر گھر میں مقیم ہوجاتا ۔ ۔ سپر مارکیٹس ۔ اسٹورز ۔ دوکانیں باہر مکمل بند ہوتیں۔ دودن مکمل چھٹی ہوتی ۔ گھر سے باہر سردی کا راج ہوتا ۔جاڑا ہر طرف بازو پھیلائے ملتا ۔ نہ کسی سے واقفیت ۔ نہ شناسائی۔ جائے تو جائے کہاں؟۔ میں گھر پہ اکیلا ہوتا ۔ ٹی وی پہ صبح صادق تک کی جانے والی نصرانی عبادات کی سروس کے سوا کچھ نہ ہوتا ۔ گھر اور پاکستان بہت دور اور کوئی پُرسان حال نہیں تھا ۔ اس تنہائی نے بہت اعتماد بخشا کہ چھوٹی سی عمر سے بڑے بڑے فیصلے خود کرنے پڑے ۔ گھر سے دوری ۔ اور اس دور کی محرومی نے دل میں تنہاء لوگوں کے دکھ کا در ایسے وا کر دیا کہ جب بھی کسی کو ان خاص تہواروں پہ اکیلا پاتا ہوں۔ تو دل بہت اداس ہوتا ہے۔ اور وہ زمانہ یاد آجاتا ہے۔
سال گزر جاتے ہیں اور اپنے پیچھے کئی ایک سوال اور تشنہ لمحات چھوڑ جاتے ہیں ۔ جن کے دکھ اور زخم شاید ہی روح سے مندمل ہو پاتے ہوں۔ ہم زندگی میں بہت سی کامیابیاں تو پا لیتے ہیں لیکن بدلے میں روح پہ اتنے چرکے لگ جاتے ہیں جو کبھی کبھار پھیل کر ساری روح کو درد سے ڈھانپ دیتے ہیں ۔ گرمیوں کی تعطیلات میں پنڈ (گاؤں) میں خوب گرمی پڑتی۔ بڑی سی حویلی میں گھنے اور چھتار درختوں کے نیچے درجہ حرارات کئی درجے کم محسوس ہوتا ۔ ہم بہت سے کزنز ۔بہن ۔بھائی۔ دادی اماں کے گرد گھیرا بنائے بیٹھے ہوتے کہ ایسے میں بابا حیدرا نائی (ہم بچوں پہ بڑوں کی طرف سے فرض تھا کہ ہم بابا حیدرا کی بجائے احتراماَ بابا غلام حیدر کہہ کر پکاریں )بیرونی صحن کی ڈیوڑھی کے باہر والے دیودار کے موٹے موٹے ٹکڑوں کے بنے بڑے سے پھاٹک کے باہر لٹکتی زنجیر کو کھٹکھٹاتا اور اندر آنے کی اجازت طلب کرتا ۔ دادی اماں گھر کے سب افراد کو بابا حیدرا نائی کی آمد سے خبردار کرتے ہوئے کچھ توقف سے اُسے بیرونی صحن میں آنے کی اجازت مرحمت فرماتیں ۔ بابا حیدر نائی کی پہلی پکار پہ ہی دادی اماں کے پوتے اور نواسے تتر بتر ہوجاتے اور دادی اماں انہیں پکارتی رہ جاتیں ۔ دل تو میرا بھی بہت کرتا کہ بابے غلام حیدر کی آمد پہ اِدہر اُدہر ہوجاؤں۔ مگر دادی اماں کے پکارے جانے پہ۔ میں اپنی دادی اماں کے پیار اور احترام میں بیٹھے رہ جانے کے سوا کچھ نہ کر پاتا۔ دادی اماں آواز لگاتیں ۔ حیدرا لنگھ آ(حیدرا اندر آجاؤ) اور دودھ کی طرح چٹی بھوؤں والا بابا غلام حیدر نائی بیرونی صحن اور اندرونی دروازے سے گزر کر اندرونی صحن میں آجاتا اور دادی اماں حکم صاد فرماتیں کہ ”حیدرا ! مُڑے دی ٹنڈ کر دے“۔( حیدر بچے کی چندیا صاف کر دو)۔اور بابا غلام حیدر نائی مرحوم ” رچھینی“ ( اوزاروں والا بستہ) میں سے وٹی اور استرا نکال کر استرے کو وٹی پہ مذید تیز کرنا شروع کر دیتا ۔ میں بہت احتجاج کرتا مگر میری کوئی شنوائی نہ ہوتی ۔ اور بڑی محبت سے پالے بال۔ بابا غلام حیدر نائی کے استرے کی نذر ہوجاتے۔ بابا !حیدرا !!نائی اپنی کاروائی ڈال کر چلا جاتا ۔اور میں اپنی سفید سفید نئی نویلی چندیا پہ تاسف سے ہاتھ ملتے رہ جاتا۔ دادای اماں اسی پہ بس نہ کرتیں ۔ اپنی زمین پہ اگائے۔ ” تارا میرا، کے نکلوائے ہوئے سخت کڑوئے تیل سے۔ ہماری ٹنڈ پہ خوب مالش کرتیں ۔سخت کڑوا تیل کاٹتا۔ میں خوب احتجاج کرتا جاتا ۔ مگر اٹھ کر بھاگ جانا اپنی مردانگی اور دادی اماں کے پیار اور احترام کے خلاف جانتا ۔ میرے ہر احتجاجی مظاہرے پہ دادی اماں نہایت محبت سے کہتیں ۔” بیٹا ۔ چپ کر کے آرام سے بیٹھے رہو ۔ ٹنڈ کروانے کے بعد تارے میرے کے تازہ تیل کی مالش سے گردن موٹی ہوتی ہے“۔ ماما کو ممتا کے ہاتھوں مجھ پہ بہت ترس آتا ۔مگر اس مشق میں وہ بھی دادای اماں کی ہمنوا بن جاتیں ۔ اور محض اس خیال سے دادی اماں کی ہم نوا بن جاتیں ۔کہ مبادا دادی اماں کے دل میں کہیں یہ خیال نہ آجائے ۔کہ میں پہلے ماما کا بیٹا ہوں اور بعد میں اپنی دادی اماں کا پوتا ہوں ۔ اور جب تک پوَا بھر تیل ہماری چندیا میں جذب نہ ہوجاتا۔ ہماری جان نہ چھوٹتی ۔ اب دادی مرحومہ کی میری چندیا پر کی گئی مالشوں سے واللہ علم میری گردن تو موٹی ہوئی یا نہ ہوئی ۔مگرنتیجاَ میرے سر پہ اب اسقدر خوبصورت گھنے ۔ سلکی اور مضبوط بال ہیں ۔کہ ہر نیا حجام پہلی دفعہ میرے بال بناتے حیران ضرور ہوتا ہے ۔ میں شہر کے اچھے سیلون کا ممبر ہوں اور وہاں سے اپنے بال بنواتا ہوں۔ جہاں فون کر کے وقت لینا پڑتا ہے ۔ مگر کبھی کبھار وقت کی قلت اور مصروفیت کی وجہ سے بال کٹوانے کے لئیے ۔ڈاؤن ٹاؤن میں ایک پاکستانی حجام کے پاس بھی چلا جاتا ہوں ۔ پہلی دفعہ حسبِ معمول حجام نے میرے بالوں کے گھنا اور خوبصورت ہونے کے ستائش کی۔ تو میں نے اسے اپنی دادی مرحومہ کی اس کار خیر کا واقعہ بیان کیا ۔تو حجامت بنوانے کے لئیے اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے ایک صاحب پھڑک اٹھے ، اور ان کے منہ سے ایک لمبی آہ نکل گئی ۔ میں نے آئینے کے عقب سے انھیں دیکھا تو وہ موصوف مجھے مخاطب کر کے گویا ہوئے کہ ”بیٹا جی ! اب تو ایسی محبتیں خوآب ہو گئیں اب کوئی دادی دادا کچھ کہے تو اپنے پوتے پوتی کو۔ بہو وہ جھگڑا اٹھائے کہ ایک زمانہ دیکھے ۔ “ اب حیران ہونے کی میری باری تھی کہ خدایا یوں بھی ہوتا ہے ؟ مگر پھر کچھ لوگوں نے اس بات کی تصدیق کی اور مجھے مانتے ہی بنی ۔
ہماری دادای اماں نے اسقدر اور اتنی بار ہماری چندیا صاف کروائی ۔کہ جب ہم جنگل میں شکار کے لئیے جاتے تو میرا ایک دوست جو نہائت بے تکلف تھا ۔ اکثر کہتا ”یار تمہارے گھونسوں کا خدشہ نہ ہو تو تمہاری اس نئی نویلی ٹنڈ پہ ایک چپت رسید کرنے کو خواہ مخواہ کو دل کرتا ہے “ ۔اور اتنا کہنے پہ میں اسے ایک آدھ خطاب سے نواز دیتا۔ سر میں تارے میرے کا اتنا تیل گھسا ہوتا کہ جب دوپہر کو سورج چمکتا ۔ اور سخت دھوپ ہوتی تو تیل سر سے بہہ کر کانوں سے سے نیچے تک آرہا ہوتا ۔ دادی اماں ہم سب سے بہت محبت کرتیں تھیں ۔ مجھ سے خصوصی پیار کرتیں تھیں۔ انھیں دعواہ تھا کہ میں ان کا پیار اور احترام باقی سبھی نواسوں اور پوتوں سے بڑھ کر کرتا ہوں ۔میری دادی اماں مجھے پورے اور درست نام سے کبھی نہ پکارپائیں۔ جب انکے عدم آباد روانہ ہونے کا وقت آیا تو وہ میرا نام لے کر بے چینی سے کہتیں ”میرا جاویج(جاوید ) پُتر نئیں آیا“۔ میں یوروپ میں تھا اور چھوٹی عمر تھی۔ جب دادی جان کے اللہ کو پیارے ہونے کے کئی دنوں بعد مجھے انکے فوت ہونے کی اطلاع ملی ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ؏ زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے ۔
میرے چاہنے والے بہت ہوئے ہیں۔ بہت سے ہیں۔ جو مجھے جان سے پیارا جانتے ہیں ۔ جو عمروں کے فرق کے باوجود مجھ سے اپنے دل کا ہر دکھ سکھ نہائت اعتماد سے کر لیتے ہیں ۔ جو مجھے اپنا بیٹا۔ چھوٹا بھائی ۔ بھتیجا ۔ دوست ۔ سمجھتے ہیں ۔ اس بارے میں، میں خاصا خوش نصیب واقع ہوا ہوں۔ مگر اپنے چاہنے والوں سے آخری ملاقات کے معاملے میں ، ۔میں خاصا بد نصیب واقع ہوا ہوں ۔ اس سلسلے کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ جسے بیان کرنے کا مجھ میں حوصلہ نہیں ۔ ہمت نہیں۔ دل پکڑ کر الفاظ ادا نہیں ہو سکتے ۔ بس گذرتے سال کے ساتھ کئی بیتیں یادیں تازہ ہوجاتی ہیں ۔ کئی زخم ہرے ہوجاتے ہیں۔ اور یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ خدا جانے اگلے دسمبر تک کونسا چہرہ دیکھنا نصیب میں نہیں ہوگا ۔اکثر لوگ دسمبر کے مہنیے کو ایک ڈیپریس اور اداس حقیقت کے طور تسلیم کر تے ہیں ۔ مگر دسمبر کی اداسیوں کی وجوہات میرے نزدیک عام افراد سے بہت مختلف ہیں۔ جسے بیان کرنا بہت دل گردے کا کام ہے ۔ جسے الفاظ میں ڈھالنا اگر ناممکن نہیں تو ناممکن جیسا مشکل ضرور ہے ۔ کسی کا ذکر کرتے جب اسکا چہرہ آنکھوں میں گھوم جائے تو ۔دل جو ایک اسفنج کی طرح بھرا رہتا ہے اور چھلک پڑنے کو تیار ۔ لیکن آنکھیں سالوں کی مشق سے ۔ کمال ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے قرینوں کو چھلکنے سے باز رکھتی ہیں ۔ ایسے میں سانس لینا دشوار ہوجاتا ہے اور پھر الفاظ اپنی صورت کھو دیتے ہیں ۔ اور انگلیاں ساکت ہو جاتی ہیں۔ اور دسمبر میں ایک بے نام سے اداسی چھا جاتی ہے۔

اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: (پائن, ہو, ہوں, ہوئے, ہوتا, ہیٹر, ہے, ہاتھ, ہر, فرحت, موٹی, میں, میری, میرے, متوازی, مختصر, مرتبہ, مزید, معمولی, چوٹیوں, چوٹیاں, چیڑھ, نیا, نے, چکا, چھوٹی, چھپتی, وقت, وادیوں, ور, ڈرائیو, یہ, یہاں, ۔, ۔لیکن, ۔موسم, ۔پہاڑوں, ۔عصر, کنارے, کو, کی, کے, کا, کر, کرتے, گاڑی, گزر, پہ, پہاڑیاں, پرے, آبادی, آبادیاں, إحساس, ا, الٹے, اچانک, انداز, اور, ایک, اپنے, اتر, اس, بہہ, بہاڑیوں, بہتی, بلند, بڑھ, بڑھا, بھالی, بحر, تھی, تھی۔, تھیں۔, تھا, تازگی, جارہی, حصے, خنکی, دیکھی, دیا, دے, دکھ, دھند, دبیز, دسمبر, رہی, رہا, روم, روایتی, سفر, سمندر, سینکڑوں, سیدھے, سڑک, سے, سکون, سا, سرے, شروع, طرف, ظہر, غالبا
کولبیرٹ ازم ۔ برصغیر ہندؤستان۔ اور برئنیر رپورٹ۔ چوتھی قسط۔
برنئیر کی ہندؤستان کے بارے ۔مذہب سے لیکر خاندانی رسم و رواج ۔سیاست اور انتظامیہ کے متعلق معلومات انتہائی مفید تھیں۔ مالی اور اقتصادی مقابلے کے لئیے مسابقت کی دوڑ میں شامل ہونے سے قبل ضروری تھا۔ کہ ہر نقطہ نظر اور ہر زاویے سے ۔ اہم معلومات کے ساتھ (کسی ممکنہ مہم جوئی کی صور ت میں )کچھ اہم امور سرانجام دئیے جائیں۔اور اسی وجہ سے ریاستوں کو ایسے معاملات میں عام افراد اور نجی فرموں پہ برتری حاصل تھی۔”سابقہ ادوار یعنی حکومتوں میں نوآبادیت سے متعلقہ مسائل میں ایک بڑا الجھا ہوا مسئلہ ریاستوں اور کمپنیوں کے مابین ملکیت اور اختیارات کا مسئلہ تھا ۔ ملکیت اور اختیارات کے اس گنجلک مسئلے کے سیاسی اور مالی پہلو تھے ۔ اور اسے ”خصوصیت “ نام دیا گیا اور اس مسئلے کا حل”خصوصیت “ نامی نظام,( "L’exclusif” )پہ منحصر تھا۔ جسے بعد کی حکومتوں میں ”نوآبادیت معائدہ“ یعنی” کالونی پیکٹ “کا نام دیا گیا ۔(۱۴٭)۔
کمپنیوں کی کثیر جہتی سرگرمیاں عموماَ ایک تسلسل کے ساتھ ریاستوں کی مقرر کردہ سفارتی اور قانونی حدود پار کرتی رہتیں ۔ سترہویں صدی کے وسط سے (تجارتی مفادات حاصل ہونے۔ اور تجارتی مفادات کی اہمیت کے باوجود) کمپنیوں اور ریاستوں کی آپس میں ہمیشہ صلح نہیں رہتی تھی۔ یعنی آپس میں مفادات کا ٹکراؤ ہوتا تھا ۔(۱۵٭)۔
برنئیر اس ساری صورتحال کے بارے باخبر ہونے کی وجہ سے یہ جانتا تھا کہ اسکی مہیاء کردہ معلومات کسقدر اہم اور مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔اسلئیے وہ تمام تفضیلات اور جزئیات بیان کرتا ہے۔برنئیر لکھتا ہے”یہ نکتہ بہت اہم اور نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ مغل فرماں روا شعیہ نہیں جو علیؓ ( رضی اللہ تعالٰی عنہ) اور انکی آل کو مانتے ہیں۔ جیسا کہ ایران میں شعیہ مانتے ہیں ۔ بلکہ مغل فرماں روا محمدن ہے ۔ (صلی اللہ علیہ وسلم ) (یعنی سُنی مسلک رکھتا ہے) اور نتیجتاَمغل باشاہ کے دربار میں سُنی درباریوں کی اکثریت ہے ۔ ترکی کے مسلمانوں کی طرح انکامسلک سُنی ہے جو عثمانؓ ( رضی اللہ تعالٰی عنہ) کو ماننے والے ہیں ۔ اسکے علاوہ مغل فرماں روا کے ساتھ ایک اور مسئلہ ہے کہ مغل بادشاہ کے آباءاجداد غیر ملکہ ہونے کی وجہ سے خود مغل بادشاہ بھی غیر ملکی سمجھا جاتا ہے ۔ مغل بادشاہ کا نسب تیمور لنگ سے جا ملتا ہے جو تاتار کے منگولوں کا سردار تھا ۔ مغل بادشاہ کے اجداد ۱۴۰۱ء چودہ سو ایک عیسوی میں ہندؤستان پہ حملہ آور ہوئے ۔اور ہندؤستان کے مالک بن گئے۔اسلئیے مغل فرماں روا تقریباَایک دشمن ملک میں پایا جاتاہے۔ فی مغل بلکہ فی مسلمان کے مقابلے پہ سینکڑوں کٹڑ بت پرستوں اور مشرکوں (idolaters)کی آبادی ہے۔ اسکے علاوہ مغل شہنشاہیت کے ہمسائے میں ایرانی اور ازبک بھی مغل شہنشاہ کے لئیے ا یک بڑا درد سر ہیں ۔ جسکی وجہ سے امن کا دور ہو یا زمانہ جنگ مغل شہنشاہ بہت سے دشمنوں میں گھرا رہتا ہے اور ہر وقت دشمنوں میں گھرا ہونے کی وجہ سے مغل شہنشاہ اپنے آس پاس بڑی تعداد میں اپنی افواج دارالحکومت، بڑے شہروں اور بڑے میدانوں میں اپنی ذات کے لئیے تیار رکھتا ہے۔برنئیر کے الفاظ میں”آقا ۔(مائی لارڈ) اب میں آپ کو مغل شہنشاہ کی فوج کے بارے کچھ بیان کرتا چلوں کہ فوج پہ کتنا عظیم خرچہ اٹھتا ہے ۔ تانکہ آپ کو مغل شہنشاہ کے خزانے کے بارے کسی فیصلے پہ پہنچ سکیں“ ۔(۱۶٭)۔
فوجی شان و شوکت کی نمائش بہت کشادہ اور نمایاں طور پہ کی جاتی ہے۔ ۔مالیاتی کمپنیوں کی طرف سے فیکٹریوں کے قیام کی حکمت عملی کے بعد سے۔ مغل شہنشاہ کی طرف سے اس فوجی شان و شوکت کی نمائش کی اہم مالی اور فوجی وجوہات ہیں ۔کیونکہ اسطرح
۱)۔ مغل شہنشاہ یوں اپنی دفاعی صلاحیت کا عظیم مظاہرہ کرتا ہے ۔
۲)۔ مغل شہنشاہ یوں اتنی بڑی فوج پہ اٹھنے والے اخراجات کے ذریعیے مالی استحکام کا پیغام دیتا ہے ۔
۳)۔ مغل شہنشاہ یوں مختلف قوموں کے خلاف جیتے گئے محاذوں کی کامیابیوں کی دھاک بٹھاتا ہے
۴) مغل شہنشاہ یوں اپنی افواج کی نمائش سے فوجوں میں شامل مختلف قومیتوں اور قوموں کی کثیر النسل سپاہ کی شمولیت سے سے برابری اوراتنی قوموں کے بادشاہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔
۵)۔ مغل شہنشاہ اسطرح اپنے فوجی ساز و سامان کی نمائش سے کسی قسم کی ممکنہ بغاوت کو روند دینے کی طاقت اور قوت کا مظاہرہ کرتا ہے۔
اب ملاحظہ ہو ۔ اؤل ۔وہ فوج ہے جو شہنشاہ کی سرکاری فوج ہے ۔ اور جسکی تنخواہیں اور اخراجات لازمی طور پہ بادشاہ کے خزانے سے جاتی ہیں۔(۱۷٭)۔
”پھر وہ افواج ہیں ۔جن پہ راجوں کا حکم چلتا ہے ۔ بعین جیسے جے سنگھے اور دیگر ۔ جنہیں مغل فرماں روا بہت سے عطیات دیتا رہتا ہے تانکہ راجے وغیرہ اپنی افواج کو جن میں راجپوتوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے ۔ انہیں ہمیشہ لڑائی اور جنگ کے لئیے تیار رکھیں۔ ان راجوں وغیرہ کا مرتبہ اور رتبہ بھی بادشا ہ کے امراء کے برابر سمجھا جاتا ہے ۔ جو زمانہ امن میں فوجوں کے ساتھ شہروں میں اور میدان جنگ میں اپنی اپنی افواج کے ساتھ بادشاہ کی ذات کے گرد حفاظتی حصار کھینچے رکھتے ہیں ۔ان راجوں مہاراجوں کے فرائض بھی تقریباَوہی ہیں جو امراء کے ہیں۔ بس اتنا فرق ہے کہ امراء یہ فرائض قلعے کے اندر ادا کرتے ہیں۔ جبکہ کہ راجے وغیرہ فصیل شہر سے باہر اپنے خیموں میں بادشاہ کی حفاظت کا کام سر انجام دیتے ہیں“۔(۱۸٭)۔
برنئیر تفضیل پیان کرتا ہے کہ کس طرح جب راجے وغیرہ قلعے کے نزدیک آتے ہیں تو وہ اکیلے نہیں ہوتے بلکہ راجوں کے ساتھ وہ خصوصی سپاہی بھی ہوتے ہیں جو کسی بھی وقت حکم ملنے پہ اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتار دینے کے لئیے تیار رہتے ہیں ۔(۱۹٭)۔
مغل فرماں روا جن وجوہات کہ بناء پہ راجوں کی سے یہ خدمات لینا ضروری سمجھتا ہے ۔وہ وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔:
۱)۔راجوں کی سپاہ پیشہ ورانہ تربیت اچھی ہوتی ہے اور ایسے راجے بھی ہیں جو کسی وقت بھی بادشاہ کی کسی مہم کے لئیے بیس ہزار یا اس سے زیاہ گھڑ سوارں کے ساتھ تیار رہتے ہیں۔
۲)۔مغل بادشاہ کو ان راجوں پہ بھروسہ ہے جو بادشاہ کے تنخوادار نہیں ۔ اور جب کوئی ان راجوں میں سے سرکشی یا بغاوت پہ آمادہ ہو ۔ یا اپنے سپاہیوں کو بادشاہ کی کمان میں دینے سے انکار کرے۔ یا خراج ادا کرنے سے انکار کرے ۔ تو مغل بادشاہ انکی سرکوبی کرتا ہے اور انہیں سزا دیتاہے۔اس طرح یہ راجے بادشاہ کے وفادار رہتے ہیں۔(۲۰٭)۔
دوسری ایک فوج وہ ہے جو پٹھانوں کے خلاف لڑنے یا اپنے باغی امراء اور صوبیداروں کے خلاف لڑنے کے لئیے ہے۔ اور جب گولکنڈاہ کا مہاراجہ خراج ادا کرنے سے انکار کردے ۔ یا وسا پور کے راجہ کے دفاع پہ آمادہ ہو تو اس فوج کو گولکنڈاہ کے مہاراجہ کے خلاف لڑایا جاتا ہے ۔ یا ان فوجی دستوں سے تب کام لیا جاتا ہے جب ہمسائے راجوں میں سے کسی کو اس کی راج گدی سے محروم کرنا مقصود ہو۔ یا ان راجوں کو خراج ادا کرنے کا پابند کرنا ہو تو اس فوج کے دستے حرکت میں لائے جاتے ہیں ۔ان سبھی مندرجہ بالا صورتوں میں اپنے امراء پہ بھروسہ نہیں کرتا کیونکہ وہ زیادہ تر ایرانی النسل اور شعیہ ہیں۔جو بادشاہ کے مسلک سے مختلف مسلک رکھتے ہیں ۔(۲۱٭)۔
مسلکی اور مذہبی معاملات کو ہمیشہ مدنظر رکھا جاتا ہے۔ کیو نکہ دشمن کے مذہب یا مسلک کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک طرح یا دوسری طرح کی افواج کو میدانِ جنگ میں اتارا جاتا ہے ۔ اگر ایران کے خلاف مہم درپیش ہو تو امراء کومہم سر کرنے نہیں بیجھا جاتا کیونکہ امراء کی اکثریت میر ہے اور ایران کی طرح شعیہ مسلک رکھتی ہے۔ اور شعیہ ایران کے بادشاہ کو بیک وقت امام ۔ خلیفہ ۔ اور روحانی بادشاہ ۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے دامادعلیؓ (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کی آل مانتے ہیں۔ اسلئیے ایران کے بادشاہ کے خلاف لڑنے کو ایک جرم اور بہت بڑا گناہ سمجھتے ہیں۔ مغل بادشاہ اسطرح کی وجوہات کی بناء پہ پٹھانوں کی ایک تعداد کو فوج میں رکھنے پہ مجبور ہے۔اور آخر کار مغل بادشاہ مغلوں پہ مشتمل ایک بڑی اور بادشاہ کی بنیاد فوج کے مکمل اخراجات بھی اٹھاتا ہے ۔ مغل افواج ہندوستان کی بنیادی ریاستی فوج ہے۔جس پہ مغل فرماں روا کے بہت اخراجات اٹھتے ہیں ۔(۲۲٭)۔
اس کے علاوہ مغل فرماں روا ں کے پاس آگرہ میں ۔ دلی میں اور دونوں شہروں کے گرد و نواح میں دو سے تین ہزار گھڑ سوار کسی بھی مہم کو جانے کے لئیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔بادشاہ کی روز مرہ کی مہموں کے لئیے۔ بادشاہ کے پاس ۸۰۰ آٹھ سو سے ۹۰۰ نو سو تک کے لگ بھگ ہاتھی ہیں ۔بڑی تعداد میں خچر اور سامان کھینچنے والے گھوڑے ہیں۔ جن سے بڑے بڑے خیمے ۔ قناتیں ۔ بیگمات اور انکا سازوسامان ۔ فرنیچر ۔ مطبخ (باورچی خانہ)۔مشکیزے ۔اور سفر اور مہموں میں کام آنے والے دیگر سامان کی نقل و حرکت کا کام لیا جاتا ہے۔(۲۳٭)۔
مغل فرماں روا کے اخراجات کا اندازہ لگانے کے لئیے اس میں سراؤں یا محلات کے اخراجات بھی شامل کر لیں ۔جنہیں برنئیر ” ناقابل ِ یقین حد تک حیران کُن “ بیان کرتا ہے۔”اور جنہیں (اخراجات کو) آپکے اندازوں سے بڑھ کر حیرت انگیز طور پہ ناگزیر سمجھا جاتا ہے“۔ یہ محل اور سرائے ایسا خلاء ہیں جس میں قیمتی پارچات ۔ سونا۔ ریشم ۔ کمخوآب ۔ سونے کے کام والےریشمی پارچات ۔غسل کے لئیے خوشبودار گوندیں اور جڑی بوٹیاں ۔امبر ۔اور موتی ان خلاؤں میں گُم ہو جاتے ہیں۔”اگر مغل فرماں روا کے ان مستقل اخراجات جنہیں مغل فرما روا ں کسی طور نظر انداز نہیں کرسکتا اگر ان مستقل اخراجات کو مدنظر رکھاجائے تو مغل شہنشاہ کے ختم نہ ہونے والے خزانوں کے بارے آپ فیصلہ کر سکتے ہیں ۔ جیسا کہ مغل شہشنشاہ کے بارے بیان کیا جاتا ہے اور مغل شہنشاہ کی ناقابل تصور امارت جس کی کوئی حد نہیں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔(۲۴٭)۔”اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بادشاہ بہت بڑے خزانوں کا مالک ہے بلکہ ایران کے باشاہ اور آقا کے خزانوں کو ملانے سے بھی بڑھ کر مغل فرماں روا کے پاس ذیادہ خزانے ہیں۔(۲۴٭)۔
جاری ہے۔
(14) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., ob. cit., pág. 398.
(15) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., pág. 399.
(16) BERNIER, ob. cit., pág. 197.
(17) BERNIER, ob. cit., pág. 197.
(18) BERNIER, ob. cit., pág. 198.
(19) BERNIER, ob. cit., pág. 198.
(20) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(21) BERNIER, ob. cit., pág. 198, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(22) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(23) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15, 16 y 17.
(24) BERNIER, ob. cit., pág. 200.
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: "L'exclusif", (, (, (14), (15), (16), (17), (18), (19), (20), (21), (22), (23), (24), (25), (26), (باورچی, (تجارتی, (صلی, ), ), )۔مغل, )کچھ, ., ., 197, 198, 199, 200., 398, 399, :, :, “, “, ”, ”خصوصیت, BERNIER, C., Carta, cit., E., fols., Gondal, H., idolaters, Javed, Javed gondal, ob., original, pág., RiCH, ہ, ہمیشہ, ہمسائے, ہندوستان, ہندؤستان, ہو, ہونے, ہونے۔, ہو۔, ہوئے, ہوا, ہوتی, ہوتے, ہوتا, فوج, فوجوں, فوجی, ہوسکتی, ہی, فیکٹریوں, ہیں, ہیں“۔(۱۸٭)., ہیں۔, ہیں۔(۲۰٭)۔, ہیں۔(۲۴٭)۔, ہیں۔”اگر, ہیں۔اسلئیے, ہیں۔بادشاہ, ہیں۔جو, فیصلہ, فیصلے, ہے, ہے”یہ, ہے۔, ہے۔اور, ہے۔برنئیر, ہے۔جس, ہاتھی, ہر, فرق, فرموں, فرما, فرماں, فرنیچر, فرائض, ہزار, فصیل, قلعے, قناتیں, قوموں, قومیتوں, قوت, قیمتی, قیام, قانونی, قابل, قب, قسم, قسط, لنگ, لینا, لیکر, لیں, لیا, لڑنے, لڑایا, لڑائی, لکھتا, لگ, لگانے, لگایا, لئیے, لئیے۔, لائے, لارڈ), لازمی, مہم, مہموں, مہیاء, مفید, مفادات, مہاراجہ, مہاراجوں, مقابلے, مقرر, مقصود, ملنے, ملک, ملکہ, ملکی, ملکیت, ملانے, ملاحظہ, ملتا, ممکنہ, منگولوں, منحصر, مندرجہ, موت, موتی, میں, میں”آقا, میدان, میدانوں, میدانِ, میر, مکمل, مالی, مالک, ماننے, مانتے, مابین, متعلق, متعلقہ, مجبور, محل, محلات, محمد, محمدن, محاذوں, محروم, مختلف, مد, مدنظر, مذہب, مذہبی, مذھب, مرہ, مرتبہ, مسلمان, مسلمانوں, مسلک, مسلکی, مسئلہ, مسئلے, مسائل, مسابقت, مستقل, مشتمل, مشرکوں, مطبخ, مظاہرہ, معلومات, معاملات, معائدہ“, مغل, مغلوں, نہ, نہیں, نقل, نقطہ, چلوں, چلتا, نمایاں, نمائش, نو, نوٹ, نوآبادیت, نواح, چوتھی, چودہ, نکہ, نکتہ, ناقابل, نام, نامی, ناگزیر, نتیجتاََ, نجی, نزدیک, نسب, نظام, نظر, و, وہ, وہی, وفادار, وقت, والے, والےریشمی, وجہ, وجہسے, وجوہات, ورانہ, وسلم, وسا, وسط, وغیرہ, یہ, یقین, یوں, یک, یا, یعنی, ۔, ۔(مائی, ۔(۱۴٭)۔, ۔(۱۵٭)۔, ۔(۱۶٭)۔, ۔(۲۱٭)۔, ۔(۲۲٭), ۔(۲۴٭)۔”اس, ۔مالیاتی, ۔وہ, ۔کیونکہ, ۔۳, ۔امبر, ۔ان, ۔اور, ۔بڑی, ۔جن, ۔جنہیں, ۔غسل, کہ, کمپنیوں, کمان, کمخوآب, کو, کولبیرٹ, کومہم, کوئی, کی, کیو, کیونکہ, کیا, کُن, کے, کٹڑ, کھینچنے, کھینچے, کا, کالونی, کام, کامیابیوں, کار, کتنا, کثیر, کر, کرنے, کرنا, کرے, کرے۔, کرتی, کرتے, کرتا, کردہ, کردے, کرسکتا, کس, کسقدر, کسی, کشادہ, ٭, گناہ, گنجلک, گولکنڈاہ, گوندل, گوندیں, گیا, گُم, گھوڑے, گھڑ, گھاٹ, گھرا, گئے, گئے۔اسلئیے, گدی, گرد, ۱, ۱)۔, ۱۴۰۱ء, ۱۷, ۲, ۲)۔, ۲۳, ۴, ۵)۔, ۸۰۰, ۹, ٹکراؤ, ۹۰۰, ں, پہ, پہلو, پہنچ, پور, پیکٹ, پیان, پیشہ, پیغام, پٹھانوں, پھر, پایا, پابند, پار, پارچات, پاس, پرستوں, WILSON, y, آقا, آل, آمادہ, آنے, آور, آگرہ, آٹھ, آپ, آپکے, آپس, آباءاجداد, آبادی, آتے, آخر, آس, ا, اہم, اہمیت, افواج, افراد, اقتصادی, الفاظ, اللہ, النسل, الجھا, امن, امور, امام, امارت, امر, امراء, امستقل, ان, انہیں, انکی, انکا, انکار, انگیز, اچھی, انتہائی, انتظامیہ, انجام, انداز, اندازہ, اندازوں, اندر, اور, اوراتنی, ایک, ایران, ایرانی, ایسے, ایسا, اکیلے, اکثریت, اگر, اٹھنے, اٹھاتا, اٹھتے, اٹھتا, اپنی, اپنے, اؤل, اب, اتنی, اتنا, اتار, اتارا, اجداد, اختیارات, اخراجات, ادوار, ادا, ازم, ازبک, اس, اسلئیے, اسی, اسے, اسکی, اسکے, اسپین, استحکام, اسطرح, اظہار, بہت, بلکہ, بن, بنیاد, بنیادی, بناء, بوٹیاں, بیک, بیگمات, بیان, بیجھا, بیس, بڑی, بڑے, بڑھ, بڑا, بٹھاتا, بھی, بھگ, بھروسہ, باہر, بالا, باوجود, باخبر, بادشا, بادشاہ, بارے, بارسیلونا, باشاہ, باغی, بت, برنئیر, برئنیر, برابر, برابری, برتری, برصغیر, بس, بعین, بعد, بغاوت, ت, تفضیل, تفضیلات, تقریباََ, تقریباََایک, تمام, تنخواہیں, تنخوادار, تو, تیمور, تین, تیار, تک, تھی۔, تھی۔”سابقہ, تھیں, تھے, تھا, تھا۔, تانکہ, تاتار, تب, تر, ترکی, تربیت, تسلسل, تصور, تعالٰی, تعداد, ثابت, جہتی, جن, جنہیں, جنگ, جو, جوئی, جیتے, جیسے, جیسا, جڑی, جے, جا, جانے, جانتا, جاوید, جاوید گوندل, جائیں۔اور, جاتی, جاتے, جاتا, جاتاہے۔, جاری, جاسکتا, جب, جبکہ, جرم, جزئیات, جس, جسے, جسکی, حفاظت, حفاظتی, حل”خصوصیت, حملہ, حیران, حیرت, حکم, حکمت, حکومتوں, حاصل, حد, حدود, حرکت, حصار, خلیفہ, خلاف, خلاء, خلاؤں, خچر, خود, خوشبودار, خیموں, خیمے, خانہ)۔مشکیزے, خاندانی, ختم, خدمات, خرچہ, خراج, خزانوں, خزانے, خصوصی, دفاع, دفاعی, دلی, دو, دونوں, دوڑ, دور, دوسری, دینے, دیگر, دیا, دیتے, دیتا, دیتاہے۔اس, دھاک, دئیے, دامادعلیؓ, دارالحکومت،, درپیش, دربار, درباریوں, درد, دستوں, دستے, دشمن, دشمنوں, ذیل, ذیادہ, ذات, ذریعیے, رہتی, رہتیں, رہتے, رہتا, روند, روا, رواج, روحانی, روز, ریاستوں, ریاستی, ریشم, رکھنے, رکھیں۔, رکھا, رکھاجائے, رکھتی, رکھتے, رکھتا, رپورٹ, راج, راجہ, راجوں, راجے, راجپوتوں, رتبہ, رسم, رضی, زمانہ, زیاہ, زیادہ, زاویے, سفارتی, سفر, سمجھا, سمجھتے, سمجھتا, سنگھے, سو, سونے, سونا۔, سوار, سوارں, سینکڑوں, سیاسی, سیاست, سُنی, سے, سے۔, سکیں“, سکتے, سپاہ, سپاہی, سپاہیوں, سامان, ساتھ, ساری, ساز, سازوسامان, سبھی, سترہویں, سر, سرکوبی, سرکاری, سرکشی, سرگرمیاں, سرانجام, سراؤں, سرائے, سردار, سزا, شہنشاہ, شہنشاہیت, شہر, شہروں, شہشنشاہ, شمولیت, شوکت, شامل, شان, شعیہ, صلاحیت, صلح, صوبیداروں, صور, صورتوں, صورتحال, صدی, ضروری, طور, طاقت, طرف, طرح, علیہ, علیؓ, علاوہ, عملی, عموماََ, عنہ), عیسوی, عام, عثمانؓ, عطیات, عظیم, غیر