RSS

Tag Archives: تانکہ

اردو



اردو۔۔۔
انتہائی توجہ طلب قومی فریضہ۔۔۔


چین کے ایک صدر کے بارے ایک واقعہ عام بیان کیا جاتا ہے ۔ کہ انہوں نے انگریزی زبان جانتے ہوئے بھی انگریزی زبان کی بجائے چینی زبان میں بات کرنے کو یہ کہہ کر ترجیج دی کہ” چین گونگا نہیں“ ۔
جن قوموں کی اپنی زبان نہیں ہوتی۔ وہ گونگی اور بہری قرار دی جاتی ہیں ۔اور تاریخ شاہد ہے کہ گونگی اور بہری بے زبان قومیں تاریخ کے دہندلکوں میں گم ہوگئیں اور ان کا نام نشان بھی اب نہیں ملتا۔
پاکستان میں باقاعدہ ایک مسلسل سازش اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اردو کو سرکاری زبان نافذ کرنے میں پس و پیش کی جارہی ہے۔ جب کہ پاکستان کا آئین بھی اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ پاکستان میں اردو زبان کو سرکاری اور کاروبارِمملکت کی زبان کے طور پہ نافذ کیا جائے ۔ مگر پاکستان میں انتہائی مراعات یافتہ انگریزی طبقہ ۔ اردو اور پاکستان کی دیگر زبانیں جاننے والی پاکستان کی اٹھانوے فیصد سے زائد اکثریت کو رعایا سمجھتا ہے ۔اور اپنے آپ کو پاکستان کا مالک اور حاکم بااختیار سمجھتا ہے ۔ اور نہیں چاہتا کہ پاکستان کے عوام بھی ترقی کر کے اس فرق کو ختم کردیں ۔جو اس انگریزی کلب اور عام پاکستانی عوام کے میعار زندگی اور اختیار و بے بسی میں ہے۔ اور یوں اس انگریزی کلب کی حاکمیت اور خصوصیت کا امتیاز ختم ہوجائے ۔
جہاں تک پاکستان کے سیاست دانوں اور کرتا دہرتاؤں کا تعلق ہے ۔جنہیں پاکستان میں اردو کو نافذ کرنے کا اپنا منصبی فرض پورا کرنا ہے ۔ ان کو یعنی حکمرانوں کو یہ انگریزی طبقہ غلط طور پہ تاویلات پیش کر کے ۔ اردو کو سرکاری اور پاکستان میں کاروبار ریاست کی زبان قرا ردینے کی بجائے۔ الٹا سرکاری سطح پہ انگریزی کو زرئعیہ تعلیم (میڈیم )قرار دینے پہ زور دیتا آیا ہے ۔
عام طور پہ پاکستان کےحکمران طبقہ کا تعلق چونکہ انگریزی کلب سے ہونے کی وجہ سے۔ یہ طبقہ اردو کے بارے انتہائی کم معلومات رکھتا ہے اور اردو سے کسی حد نابلد ہوتا ہے۔ اس لئیے اردو زبان کو حکمران طبقہ ایک مشکل مسئلہ سمجھتا ہے ۔ اور اردو کو درخود اعتناء نہیں سمجھتا۔ اور انگریزی کلب کی تاویلات سے متاثر ہوکر انگریزی کلب کے ہاتھوں میں کھیلنے لگتا ہے ۔ اور انگریزی زبان کو اپنا اور ریاست کا اوڑنا بچھونا بنائے رکھنے میں عافیت محسوس کرتا ہے ۔
ستم ظریفی کی حد ہے ایک ایسے معاشرے میں جس میں اٹھانوے فیصد آبادی انگریزی سمجھتی اور بولتی نہیں ۔ اس میں پہلی جماعت سے انگریزی کو زرئعیہ تعلیم قرار دیا گیا ہے ۔ جس کا فوری نقصان یہ ہوا کہ سالانہ نتائج میں پاکستان کی اکثریت غریب عوام کے بچوں کی کامیابی کی شرح اوسط مزید گر گئی ہے۔
مضمونِ ہذاہ میں ہم ان تاویلات کا تجزئیہ کرنے اور ان تاویلات کی منافقت سامنے لانے کی کوشش کریں گے ۔ تانکہ قارئن اکرام کو واضح ہو کہ پاکستان میں قومی زبان کو سرکاری زبان کے طور پہ نافذ نہ کر کے پاکستان اور پاکستان کے عوام کوکس قدر نقصان پہنچایا جارہا ہے۔
قیام پاکستان کے شروع سے لیکر اور پاکستان بن جانے کے بہت سالوں بعد ۔کمپیوٹر کے عام ہونے تک اردو کو سرکاری اور دفتری زبان بنانے کے خلاف ۔جو تاویل بڑی شدو مد سے انگریزی کلب بیان کرتا تھا۔ وہ یہ تھی ۔ کہ دفاتر میں تائپ رائٹنگ کے لئیے انگریزی زبان کا استعمال بہت ضروری ہے ۔ کیونکہ حروف تہجی اور انگریزی رسم الخط کی وجہ سے انگریزی ٹائپنگ میں بہت آسانی اور روانی رہتی ہے۔ جبکہ اردو میں ٹائپنگ کے لئیے ایک اردو ٹائپ رائٹر مشین میں اردو کے حروف تہجی جوڑنے اور الفاظ کی شکل دینے کے لئیے کم از کم تین سو سے زائد کیز والی ٹائپ رائٹنگ کی ضرورت پڑے گی۔ جو عملی طور پہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اور ایسے ٹائپ رائٹرز کو سرکاری دفاتر میں استعما ل کرنا نا ممکن کام ہے ۔ اور یوں حکومتوں نے بھی تجاہل عارفانہ سے کام لے کر اردو کو سرکاری اور دفتری زبان قرار دینے میں اغماض برتا جو قومی مفادات سے غداری کے مترادف سمجھا جانا چاہئیے ۔
مگر کمپیوٹر کی کرشماتی ایجاد اور اسکے عام ہونے کے معجزہ نے ۔انگریزی کلب کی اس تاویل کی ہوا نکال دی ۔ اور ٹائپ رائٹنگ مشینیں قصہ پارنیہ ہویئں۔ اور پاکستان کی قومی اور عوامی زبان۔۔ اردو لکھنا ۔اردو جاننے والوں کے لئیے انتہائی سہل ہوگیا ہے ۔ اس کے باوجود سرکاری سطح پہ اردو زبان کو ترقی دینے کے لئیے قیمتی بجٹ سے گرانقدر مشاہرہ اور مراعات سے جو ادارے قائم کئیے گئے۔ انکی عمارتیں اور اخراجات اور ہٹو بچو قسم کے سربراہ اور عہدیداران تو بہت تھے ۔مگر اردو کی خدمات کے حوالے سے ان کا کام نہ ہونے کے برابر تھا۔ بلکہ اردو کو ترقی دینے کے لئیے قائم کئیے گئے ان حکومتی اداروں کے نام تک انگریزی میں ہیں ۔اور انکے سالانہ اجلاس اور اردو کی ترویج و تشیہر کے لئیے بلائی گئی کانفرسوں کا مواد اور اشتہارات اور ویب سائٹس پہ مواد اردو کی بجائے انگریزی میں ہوتا ہے۔
یہ اردو۔۔۔ جو آپ کمپیوٹرز اور مختلف مصنوعات پہ پڑھ لکھ رہے ہیں ۔اسے اس حد تک ترقی دینے میں حسب معمول بہت سے لائقِ تحسین عام پاکستانی رضا کاروں کی انتھک کوششوں کا ثمر ہے۔ جنہوں نے محض اسے ایک قومی فریضہ سمجھتے ہوئے اور بغیر کسی معاوضے کے انتھک محنت سے اردو کی خدمت کی ہے۔ جس میں عام اردو کے دیدہ زیب فاؤنٹس سے لیکر مختلف پرگرام اور ایپس اردو میں متعارف کروائی ہیں اور اور اس وجہ سے پاکستانی اور دیگر دنیا کے اردو جاننے والے ۔ اپنے کمیپوٹر وں۔ موبائل فون اور دیگر مصنوعات پہ کسی دوسری زبان کی بجائے۔ اپنی زبان اردو کواستعمال کرنے کو ترجیج دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آج کمپیوٹر بنانے والی اور دیگر مصنوعات بنانے والی کمپنیاں اور فرمیں اردو زبان کو اپنی مصنوعات کی رابطہ زبانوں میں شامل کرتی ہیں ۔ جبکہ پاکستان کی حکومتوں اور پاکستانی عوام کے ٹیکسز سے قائم کئیے گئے بڑے بڑے اداروں جن کا واحد مقصد اردو کو ترقی دینا تھا ۔ ان کا اس معاملے میں کردار صفر کے برابر ہے ۔
ان مذکورہ اداروں کو اردو کی ترقی اور ترویج کا فریضہ دیا گیا تو انہوں نے انگریزی میں مروجہ اصطلاحات کو اسقدر مشکل ۔ غیر مستعمل۔ غیر عوامی۔ اور غیر زبانوں کے الفاظ سے اسقدر پیچیدہ ۔ ثقیل ۔ اور مضحکہ خیز بنا کر پیش کیا اور یہ ساری مشق اور قوم کا سرمایہ کا مصرف بیکار گیا۔ ہماری رائے میں ایسا کرنا اور حکومتی ادراے کے من پسندیدہ افراد کو نوازتے ہوئے یہ بجائے خود اردو کے خلاف ایک سازش ثابت ہوئی اور اردو سے اچھا خاصہ لگاؤ رکھنے والے نفیس لوگوں نے اسے اپنانے سے انکار کردیا ۔ اور پھر سے اس کا حل مکمل انگریزی اختیار کرنے میں نکالا گیا۔
مستعار اصطلاحات و ترکیبات اور مشکل الفاظ یا کوئی متبادل لفظ نہ ہونے کی صورت میں زبانیں اپنا رستہ خود بخود بنا لیتی ہیں۔ اور یہ مسئلہ دنیا بھر کی سبھی زبانوں کے ساتھ رہا ہے۔ اور ہے۔ خود انگریزی میں فرنچ اور دیگر لاطینی زبانوں کے بے شمار مستعار لفظ مستعمل ہیں۔ مثلا ”کیمرہ“۔۔ یہ بنیادی طور پہ یہ لاطینی لفظ ہے۔ جس کے معانی ہیں ڈبہ یا ڈبہ نما کوئی ایسے شئے جو اندر سے خالی ہو۔ اور انگریزی میں ہزاروں الفاظ کی ہم مثال یہاں دے سکتے ہیں ۔جو بنیادی طور پہ لاطینی ۔ فرانسیسی اور اسپانوی الفاظ ہیں ۔ اور انگریزی سے قدیم ہیں ۔ اور انگریزی نے اسے اپنا لیا ہے۔ اور اسے اپنا خاص انگریزی کا تلفظ دے ڈالا ہے۔ جس سے وہ ایک الگ صوتی شناخت پا گئے ہیں ۔
“اسی طرح کچھ خاص پہلوؤں سے عربی زبان اور دنیا کی دیگر زبانوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ جو دنیا کی فصیح و بلیغ زبان اور قدیم اور انتہائی ترقی یافتہ زبان ہے۔عربی زبان سے بڑھ کر کوئی بھی زبان کسی بھی صورت حال یا شئے کو واضح کرنے کے لئیے اپنے اندر اتنی صلاحیت نہیں رکھتی۔جتنی صلاحیت عربی زبان میں ہے۔ انگریز اور مغرب نے طیارہ ایجاد کیا۔ اور اسے ”ائیر پلین“۔ یا ا”ئر کرافٹ “یا دیگر نام دئیے جو بجائے خود دو ناموں کا مجموعہ ہیں۔مگر عربی نے اسے سیدھا سادا انداز میں ”طائرۃ“ کا نام دیا ۔ جو زیادہ ترقی یافتہ لفظ ہے۔ اور اس فصحات و بلاغت کے باوجود یونانی فاتح ۔جسے انگریزی نے ”الیگزینڈر“ کہہ کر پکارا ۔عربی نے اسے ”اسکندر“ کہا۔اور اسی مناسبت سے مصر کے مشہور شہر ”اسکندریہ“ کا نام عربی زبان کی مناسبت سے وجود میں آیا۔۔۔ لیبا کا مشہور شہر کا نام ”طرابلس” ۔ ”ٹریپولی “ نام کی وجہ سے وجود میں آیا۔ مگر اسے عربی نے اپنے انداز میں ”طرابلس“ کا نام دیا۔
کچھ ایسا ہی معاملہ دنیا میں رائج قدیم ترین زبانوں میں سے رائج ایک زبان اسپانوی کے ساتھ بھی ہے۔ عربی کے بعد ماہرینِ لسانیات عام طور پہ اسپانوی زبان کو دنیا کی دوسری فصیح و بلیغ زبان گردانتے ہیں ۔ مسلم اسپانیہ کے دور کے مشہور شہروں کے نام” اشییلیہ“۔”قرطبہ“۔ ”غرناطہ۔” مالقہ“۔”سرقسطہ“۔قادسیہ” وغیرہ اسپانوی زبان میں باالترتیب ۔ ”اِس بیا“۔ ”قوردبہ“۔ ”گارانادا“۔”مالاگا۔”ژاراگوثہ“۔ ”قادس۔ وغیرہ میں بدل گئے اور تلفظ بدلنے سے۔ امریکن قرطبہ کو ۔”کارڈواہ” کہہ کر پکارتے ہیں کیوں کہ وہ قرطبہ شہر کے نام کو انگریزی حروف تہجی Córdvba تلفظ بگڑ جانے سے یوں ”کارڈواہ“ پکارتے ہیں۔ مگر اس سے مراد قرطبہ شہر ہی ہے یعنی نام کوئی بھی دے دیا جائے۔ یا کسی طرح بھی اسے پکارا جائے۔ مراد وہی مخصوص شہر ۔معانی یا شئے ہوتی ہے۔ اسی طرح قدیم عربی کے ہزاروں الفاظ اسپانوی میں اتنی صدیوں بعد بھی عربی تلفظ کے ساتھ اور انہی معانوں میں مستعمل ہیں۔ مثلا ”قندیل“۔ ”بلبل“ وغیرہ ہیں ۔ سقوطِ غرناطہ کو پانچ سے زائد صدیاں گزرجانے کے بعد بھی اسپانوی رائل ڈکشنری یعنی شاہی لغت میں ایک ہزار کے لگ بھگ الفاظ قدیم عربی زبان کے ملتے ہیں ۔ یاد رہے کہ اسپانوی زبان میں کسی نئے لفظ کو شامل کرنے یا نئی اصطلاحات اور ترکیبات شامل یا متروک الفاظ کو خارج کرنے کے لئیے اسپانوی زبان کی شاہی کونسل کا باقاعدہ بورڈکا اجلاس ہوتا ہے جس میں اسپانوی زبان کے ماہر ترین اور اسپانوی زبان میں ڈاکٹری کا اعزاز رکھنے والے اس کے باقاعدہ ممبر کسی لفظ کے متروک یا شامل کرنے پہ نہائت غوروص کے بعد اسے شامل یا متروک کرتے ہیں ۔تو اگر رائل اسپانوی لغت میں بدستور ایک ہزار کے لگ بھگ الفاظ تقریبا اپنی اصل حالت اور معانی میں شامل ہیں ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ روز مرہ کی زندگی میں استعمال میں لائے جاتے ہیں ۔ اور اسپانوی حکومت اور عوام کو ان پہ کوئی اعتراض نہیں کہ وہ زبردستی سے ان الفاظ کا متبادل اپنی زبان اسپانوی میں مسلط کرتے ۔
خود اردو زبان میں بہت سے انگریزی زبان کے کئی الفاظ مثلاً ”فون “۔”بس“۔ ”ٹرک“۔ ”ڈاکٹر“۔ ”انجئنیر“۔ ”نرس“۔” ہاکی“۔ ”جنگل“۔”ٹیم“۔ وغیرہ یوں مستعمل ہوئے کہ انہیں ادا کرنے کے لئیے انگریزی سے واقفیت ہونا ضروری نہیں۔ اور اسی طرح اردو نے عربی۔ فارسی۔ ہندی۔ ترکی اور دیگر بہت سی زبانوں کے الفاظ اپنائے ہیں جن کے بارے یہ جانے بغیر کہ یہ کون سی زبان کے الفاظ ہیں اور ان کا درست تلفظ کونسا ہے۔ ان الفاظ کو سمجھنے ۔ بولنے اور ادا کرنے میں عام آدمی کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔
اردو چونکہ دیگر زبانوں کے مقابلے میں نئی زبان ہے۔ اس لئیے اردو میں دیگر زبانوں کے الفاظ اپنے اندر سمو لینے کی صلاحیت حیرت انگیز ہے۔ اور یہی اردو کی ترقی کا راز بھی ہے۔ کہ اردو اتنے کم وقت میں اتنے کڑوڑوں انسانوں نے اسے اپنا لیا ہے اور انہیں اردو کو بولنے ۔ سمجھنے اور ادا کرنے میں پریشانی نہیں ہوتی ۔
جہاں تک مخصوص سائنسی اصطلاحات کا زکر ہے تو ان میں سے بیشتر یونانی اور لاطینی سے انگریزی میں منتقل ہوئیں ہیں ۔ یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔ کہ اگر آپ ان سائنسی اصطلاحات کو اگر جوں کا توں بھی اردو میں اپنا لیں تو جمہورِ اردو خود بخود ایک دن انہیں اپنے سے تلفظ اور نام دے دے گا ۔ جیسے ٹریپولی کو عربوں نے طرابلس کا نام میں بدل ڈالا یا الیگزینڈر کو اسکندر۔ اور آج عام عرب یونان کے مشہور فاتح کو اسکندر کے نام سے ہی جانتے ہیں ۔ اور اسی طرح جیسے مندرجہ نالا مثالوں میں مختلف خطوں اور زبانوں کے جمہورِ نے مختلف زبانوں کے الفاظ کو اپنی ضرورت کے تحت اپنے تلفظ یا صورت میں اپنا لیا تو کیا وجہ ہے کہ اردو کے ساتھ یوں نہیں سکتا؟ جبکہ اردو کا ظرف اور دامن بہت وسیع ہے۔مثال کے طور پہ جیسے فون لفظ اب اردو میں اور پاکستان میں عام مستعمل ہے اسے ” صوتی آلہ“ بلانے لکھنے پہ زور دینا ایک نامناسب بات ہے ۔ ا
حاصلِ بحث یہ ہے جن الفاظ۔ ترکیبات اور سائنسی یا دیگر ناگزیر اصطلاحات کا فوری طور پہ اردو میں آسان ترجمہ نہ ہوسکے۔ تو انھیں انکی اصلی حالت میں ہی حالت اردو رسم الخط میں لکھ دینے سے اور باقی نفس مضمون اردو میں لکھ دینے سے ان کی ماہیئت نہیں بدلے گی ۔ انگریزی اور دیگر زبانوں کے جو ناگزیر الفاظ اردو میں لکھے جاسکتے ہیں ۔ انہیں اردو رسم الخط میں لکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔
ناعاقبت اندیش لوگ ایک اورتاویل ا انگریزی کے حق میں یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ مادی ترقی کے لئیے انگریزی جاننا ضروری ہے ۔ کیونکہ کہ انگریزی امریکا اور برطانیہ کی ترقی یافتہ اقوام کی زبان ہے ۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چین جو اپنی چینی زبان سمیت اتنی تیزی سے ترقی کر کے۔ اس وقت دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے۔ اور کچھ وقت جاتا ہے کہ وہ امریکہ کومعاشی ترقی میں پیچھے چھوڑ دے گا ۔ تو پھر کی اس کلئیے کے تحت پاکستان کے پورے نظام اور اسکی آبادی کو چینی زبان سیکھنی اور اپنانی پڑے گی ؟ ترقی اپنی زبان کے استعمال اور نفاذسے ہوتی ہے۔ مستعار زبانوں سے کبھی ترقی نہیں ہوا کرتی۔
جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ بین الاقوامی زبان چونکہ انگریزی ہے تو ہمیں انگریزی سیکھنی چاہیئے انکا یہ استدلال اپنی جگہ مگر چند ہزار افراد کی انگریزی میں مہارت کے لئیے پوری ایک قوم کو بے زبان کر دینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ کیا اسکے لئیے یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ اپنے ان افراد کو جنہیں بین الاقوامی معاملے کرنے ہوتے ہیں۔ انھیں بہترین معیار کی انگریزی اور دیگر مغربی و مشرقی زبانیں سکھانے پہاکتفاء کر لیں اور باقی پچانوے فیصد پاکستانی قوم پہ انگریزی مسلط کرنے میں جو توانائی اور وسائل برباد کر کے۔ پوری قوم کو ٹکٹکی پہ لٹکا رکھا ہے۔ اس سے پاکستانی قوم کو معافی دے دیں ۔
انگریزی زبان کو ذرئعیہ تعلیم قرار دینے کی ایک اور بڑی خرابی جو پاکستانی معاشرے بگاڑ پیدا کرنا کر رہی ہے اور آیندہ اگلے سالوں میں مزید بگاڑ پیدا کرے گی وہ خرابی انگریزی کی نصابی کتب اور انکے پیچھے چھپی مخصوص سوچ ہیں ۔ کیونکہ عام طور پہ انہیں لکھنے والوں ۔ ترتیب دینے والوں کیاکثریت یا تو سیکولر غیر ملکی مواد کو نقل کرتے ہیں یا وہ اپنے مخصوص اسیکولر نکتہ نظر سے مضامین اور کتب لکھتے ۔ جو پاکستانی قوم کی نظریاتی بنیادوں کے خلاف ہے ۔ ایسے سیکولر نصاب میں پاکستانی قومیت اور اسلامی و مشرقی اقدار کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔ اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہمارا نوجوان طبقہ دین و ملت سے بیزار نظر آتا ہے۔ کیونکہ انہیں اسلامی اخلاق ۔ مشرقی اقدار یا قومی جذبات کی ہوا تک نہیں لگنے دی جاتی۔ کیونکہ انگریزی نکتہ نظر سے یہ سب دقیانوسیت قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ انگریزی نصاب جو لوگ ترتیب دیتے ہیں وہ انگریزی نصاب سے صرف انگریزی کی نہیں بلکہ اپنے انگریزی خیالات کی بھی ترویج کرتے ہیں۔ اور ملکی و قومی افکار کی۔ دین و ملت سے محبت کی اس میں گنجائش نہیں رکھی جاتی ۔ انگریزی ایک برآمدی زبان ہے جو کلچر انگریزوں کے ہاں آج رائج ہے۔ اسی کی جھلکیاں آپ کو انکی برآمدی زبان میں نظر آئینگی۔ جو کچے ذہنوں کو متاثر کرتی ہیں اور اور ویسی ہی ترغیب دیتی ہیں ۔
سائنسی تحقیقات کے مطابق یہ بات طے ہے کہ ہر انسان اپنی مادری زبان میں سوچتا ہے۔ جس کے تحت اسکے خیالات ترتیب پاتے ہیں۔ جسے وہ عملی شکل دے کر ۔عام روز مرہ کے معاملات سے لیکر محیر العقول دریافتیں۔ ایجادات اور پیچیدہ مسائل کا حل ڈہونڈ نکالتا ہے۔ اور سوچنے کا یہ عمل اگر ایک انسان چاہے تو کسی ایسی دوسری زبان میں سوچ بھی سکتا ہے جو اسکے لئیے آسان اور سہل اور عام فہم ہو۔ جیسے مثال کے طور پہ اگر معاشرے میں دو یا دو سے زائد زبانیں رائج ہوں ۔ یا اسے دوسری زبانوں پہ عبور ہو ۔ جس طرح کنیڈا میں بہت سے لوگ انگریزی اور فرانسیسی پہ عبور رکھتے ہیں ۔اسپانیہ کے صوبہ ”قتئلونیہ“ میں ”قئتلان“ اور” اسپانوی“ پہ ۔اسپین کے صوبہ” گالی سیا “میں” گالیگو “اور ”اسپانوی “پہ عبور رکھتے ہیں ۔ پاکستان میں ”پنجاب“ میں ”پنجابی“ اور ”اردو“ کے ساتھ ۔ اور پاکستان کے دیگر صوبوں میں دیگر صوبوں کی زبانوں اور اردو کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔تو یہ لوگ ہر دو زبانوں میں سے کسی ایک زان میں سوچ کر اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں ۔ کیونکہ یہ مذکورہ زبانیں ان کے لئیے اجنبی اور پیچیدہ زبانیں نہیں ۔ اور اس لئیے وہ اپنی صلاحیتوں کو اپنی زبانوں کے ذریئعے زیادہ بہت طور پہ اجاگر کر سکتے ہیں ۔ جبکہ انگریزی زبان پاکستان کے عوام کے لئیے قطعی برآمدی زبان ہے ۔سائنس یہ بات تسلیم کرتی ہے۔ اور زبان کو انسانی سوچ کے لئیے کو مادری یا دوسری معلوم اور عبور رکھنے والی زبان کو بنیاد مانتی ہے جس سے وہ اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنا تا ہے یوں کسی معاشرے میں اسکی اپنی زبان ترقی و تمدن میں بنیادی اورمسلمہ حیثیت رکھتی ہے۔
شاعری ۔ نثر ۔اور روز مرہ مسائل کے حل کے لئیے سوچنے۔تخیل دوڑانے اور تصور کرنے کے لئیے انسان اپنی بنیادی یا عام فہم سمجھنے والی زبان سے کام لیتا ہے۔
ہم اس تصور کو ایک اور مثال سے واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ ذرا تصور کریں۔ میر ۔ غالب۔نظیر اکبر الہ آبادی۔ اقبال رح۔ فیض یا دیگر شعراءنےجو اردو وغیرہ میں کلام کیا ہے وہ سب انھیں انگریزی میں سوچنے۔ اور ڈھالنے کے لئیے۔انگریزی میں اس پائے کا کلام کرنے کے لئیے ۔کتنا عرصہ انگریزی سوچنے اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لئیے درکارتھا؟ اور کیا اس کے بعد بھی وہی نتائج سامنے آتے۔اور ان کا وہی معیار ہوتا ۔جو آج دیوانِ غالب اور کلیاتِ اقبال یا بانگ درا کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں ؟ بعین اسی طرح کا معاملہ ان خداد ذہین انسانوں کے ساتھ بھی ہے جو چٹکی بجانے میں بڑے سے بڑا مسئلہ حل کردیتے ہیں ۔ ایک سے بڑھ کر ایک ایجاد کرتے ہیں ۔ مسائل کا حل دریافت کرتے ہیں ۔ یا اپنی کسی خاص دلچسپی میں مہارت رکھتے ہیں۔ اگر انھیں ایک غیر ملکی زبان انگریزی سیکھنے اور پھر اسی خاص زبان انگریزی کے تحت اپنے خیالات کو عملی جامہ اپنانے پہ پابند کر دیا جائے ۔جب کہ خداد تخلیقی صلاحیتوں کے حامل لوگ ویسے بھی عام طور پہ۔ اپنی فطری ساخت کی وجہ سے اپنے پہ مسلط بے جاضابطوں سے کسی حد تک باغی ہوتے ہیں ۔ تو کیا ان کی قابل قدر صلاحیتیں ایک ایسی زبان پہ صرف ہو جانی چاہئیں۔ جس میں وہ بددل ہو کر سارے سلسلے سے ہی ہاتھ اٹھا کر دنیا کی بھیڑ بھاڑ میں گم ہو جاتے ہیں۔ اور اگر وہ انگریزی سیکھنے میں کامیاب ہو بھی جائیں۔ تو بہت سا قیمتی وقت وہ ایک ایسے عمل پہ خرچ کر چکے ہوتے ہیں جو ضروری نہیں تھا۔ اور یہ تماشہ پاکستان کے جوہر قابل اور ذہین طلبہ کے ساتھ عام ہوتا ہے کہ خواہ وہ کس قدر ہی کیوں نہ لائق اور ذہین فطین ہوں لیکن بد قسمتی سے ۔یا۔ اردو میڈیم ہونے کی وجہ سے۔اگر ایک برآمدی زبان انگریزی میں انکا ہاتھ تنگ ہے ۔ تو جہاں انکے لئیے آگے بڑھنے کے مواقع معدوم ہوجاتے ہیں۔ وہیں پاکستان اور پاکستان کے عوام ذہین اور قابل لوگوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔
ملک میں خداد جوہر قابل کو محض انگریزی زبان کو لازمی قرار دینے سے ضائع ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں عام آدمی کو پاکستان کی ترقی میں کوئی موقع نہیں ملتا اور آخر کار وہ مایوس ہو کر اپنے آپ کو قومی سو چ اور قومی دھارے سے الگ کر لیتا ہے ۔جس سے معاشرے میں امن و عامہ سے لیکر کئی قسم کے تعصبات اور انکے نتیجہ میں مسائل جنم لے رہےہیں۔
اس لئیے صرف یہ کہہ کر ٹال دینا کہ اردو زبان کو سرکاری زبان کے طور پہ اسلئیے نافذ نہیں کیا جاسکتا کہ اردو ایک ترقی یافتہ زبان نہیں ۔ یا۔ اردو زبان میں لاطینی یا انگریزی کی سائنسی اصطلاحات کا ترجمہ مشکل ہے۔ اور اسے سرکاری زبان کی حیثیت سے نافذ نہ کرنا۔ محض بد نیتی کے سوا کچھ نہیں۔
جو لوگ انگریزی کو محض اس لئیے اپنانے پہ اصرار کرتے ہیں اور بضد ہیں کہ اردو کی قربانی دے کر انگریزی زبان کو اپنانا ترقی کے لئیے ضروری ہے۔ انکی یہ توجہیہ درست نہیں ۔ کیونکہ اس خاص انگریزی طبقے کی یہ بات درست تسلیم کر لی جائے تو پھر اپنی زبانوں میں مشرق و مغرب میں۔ ترقی کرنے والے ممالک ۔ جاپان۔ چین۔جرمنی۔روس۔ فرانس وغیرہ کو آپ کس کھاتے میں رکھیں گے؟ یورپ کے ننھے ننھے ترقی یافتہ ممالک ڈنمارک۔ ناروے۔ سویڈن۔ سوئٹزرلینڈ۔ہالینڈ۔ لکسمبرگ ۔ یوروپ کے بڑے ممالک روس اسپین ۔ فرانس۔ اٹلی۔ جرمنی۔ وغیرہ کسی ملک کی سرکاری زبان انگریزی نہیں۔ معاشی طور پہ تیزی سے ابھرتے ہوئے ممالک۔ برازیل ۔ انڈونیشا ۔ ملائشیاء ۔وغیرہ۔ ان میں سے کسی ملک کی زبان انگریزی نہیں۔ اور ان تمام ملکوں۔ کی زبانیں انکی اپنے ملک میں رائج جمہور کی۔ عوام کی۔ زبانیں سرکاری طور پہ نافذ ہیں۔ اس لئیے ترقی کرنے کے لئیے۔ پاکستان کی دیگر بہت سی خرابیاں درست کرنے کی ضرورت ہے ۔جن کی وجہ سے پاکستان ترقی نہیں کر پا رہا اور اس بد حالی کی ایک بڑی وجہ بھی پاکستان کی جمہور کی۔ عوام کی آواز اردو زبان کو سرکاری زبان کے طور پہ نہ نافذ کرنا ہے۔
پاکستان کی اٹھانوے فیصد آبادی اپنا مدعا اور منشاء انگریزی میں ادا کرنے کی اسطاعت نہیں رکھتی۔ پاکستان کے انگریزی دان طبقے کی اہلیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انگریزی پہ زور دینے والا یہ طبقہ انگریزی ادب میں اپنا حصہ ڈالنے کے حوالے سے نثر ۔ نظم ۔ ناول یا ادب کی دیگر کسی صنف میں کوئی نمایاں کارنامہ سر انجام نہیں دے سکا ۔ اور سائنسی اور تکنیکی علوم میں انگریزی کلب کا ہاتھ مزید تنگ ہوجاتا ہے ۔تو کیا پاکستان کے انگریزی کلب کے سامنے محض اس لئیے سر تسلیم خم کر دیا جائے کہ وہ انگریزی جانتے ہیں؟ اور انگریزی زبان جاننا قدر مشترک ہونے کی وجہ سے۔ انگریزی کلب پاکستان کے نظام پہ حاوی رہے؟ ۔ اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ انگریزی دان طبقہ پاکستان میں انگریزی زبان کا تسلط اس لئیے نہیں رکھنا چاہتا کہ انگریزی سے اہلیت بڑھتی ہے اور انگریزی کے تسلط سے پاکستان ترقی کر جائے گا ۔ بلکہ پاکستان کا انگریزی کلب۔ پاکستانی عوام اور وسائل کو انگریزی زبان کے ذرئعیے پاکستان میں اپناتسلط قائم رکھنا چاہتا ہے ۔
پاکستان کے مسائل کی ایک بہت بڑی وجہ عام بول چال اور سمجھ میں آنے والی جمہورِ کی زبان اردو کے ساتھ یہ یتیمانہ سلوک ہے۔ اگر اسے سرکاری طور پہ نافذ کر دیا جائے تو پاکستان کی بے مہار اورانگریزی کلب کی پیداوار بیورکریسی جو محض انگریزی زبان کی وجہ سے جمہورِ پاکستان سے اپنے آپ کو الگ شناخت کرتی ہے۔ اپنے آپ کو خاص اور عوام کو اپنی رعایا سمجھتی ہے۔ اردو کو سرکاری زبان نافذ کرنے سے پاکستان اور پاکستان کے عوام کی جان چھوٹ جائے گی۔جب پاکستان میں اعلی عہدوں کے لئیے مقابلہ کے امتحانات اردو میں ہونگے اور اردو کو سرکاری طور پہ اوڑنا بچھونا بنایا جائے گا۔ تو انگریزی اور پاکستان جیسے مشرقی اور مسلمان ملک میں انگریزی بودوباش باش کا امتیاز و اعزاز خود بخود ختم ہو جائیگا۔ اور اردو وہ عزت پائے گی جس کی وہ مستحق ہے ۔ کیونکہ اردو کے عزت پانے سے پاکستانی قوم عزت پائے گی۔ کاروبارِ مملکت اردو میں ہونے سے عام فہم اور سہل ہوگا ۔
اردو سمجھنے والوں میں بے شمار خداد صلاحیتوں کے حامل اور اہل لوگوں کو کاروبار ریاستِ پاکستان چلانے کا موقع ملے گا ۔ عوام اور خاص کی ایک ہی زبان ہونے سے عوام اور خاص میں فاصلہ کم ہوگا ۔ ریاستی اور دفتری امور کو سمجھنے میں عام آدمی کو آسانی ہوگی۔
اس لیے پہلے گزارش کر چکے ہیں مستعار اصطلاحات و ترکیبات اور مشکل الفاظ یا کوئی متبادل لفظ نہ ہونے کی صورت میں زبانیں اپنا رستہ خود بخود بنا لیتی ہیں ۔دریا کے سامنے وقتی طور پہ بند باندھ کر۔ اس کا پانی روکا جاسکتا ہے ۔ مگر ہمیشہ کے لئیے یوں کرنا ناممکن ہے۔۔۔۔ اور اردو۔۔۔اس ملک ۔پاکستان میں وہ سیل رواں ہے۔ کہ اس کے سامنے جو رکاوٹ بن کر آیا۔ وہ خس خاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔ کیونکہ اردو زبان پاکستان کے عوام کی۔ جمہور کی زبان ہے۔ اور جمہور اپنا رستہ خود بنا لیا کرتا ہے۔
بس کچھ سالوں کی بات ہے ۔ یا پھر ہماری قیادت کو قومی غیرت کا ادراک ہوجائے۔ تو اردو کو فی الفور سرکاری زبان کا درجہ دے کر۔ اسے سرکاری طور پہ نافذ کرے۔ اسی کو تعلیم کا ذرئعیہ (میڈیم) بنائے۔۔۔اتنی بڑی آبادی کے ملک کے لئیے۔ قومی ہی کیا۔ عالمی ناشران بھی اردو میں کتابیں چھاپنے پہ مجبور ہونگے ۔۔ اور جو نہیں چھاپیں گے وہ خسارے میں رہیں گے ۔ شروع میں ایک حد تک حکومت تراجم کی سہولت خود بھی مہیاء کر سکتی ہے۔ بعد ازاں سب اردو میں کتب لے کر بھاگے آئیں گے۔ کہ ہم سے بہت ہی کئی درجہ چھوٹے ممالک میں انکی اپنی زبانوں میں تعلیم ہونے کی وجہ سے عالمی ناشران انہی زبانوں میں بھی کتب چھاپتے ہیں۔ کہ یہ ایک کاروبار ہے۔ کسی زبان پہ احسان نہیں۔
اگر حکومت نہ بھی دلچسپی دکھائے تو بھی ایک بات تو طے ہے کہ اردو کا مستقبل پاکستان میں روشن ہے اور ایک روشن اور ترقی یافتہ پاکستان کے لئیے اردو زبان کو بطور سرکاری زبان اپنانا اور سرکاری طور پہ نافذ کرنا۔ نہ صرف ضروری ہے بلکہ یہ ایک لازمی قومی فریضہ ہے ۔
جاوید گوندل
پچیس فروری سنہ دو ہزار پندرہ
۲۵۔۰۲۔۲۰۱۵ ء

 

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

اجتماعی شعور کا ارتقاء اور پاکستان کی کم ظرف اشرافیہ۔



اجتماعی شعور کا ارتقاء اور پاکستان کی کم ظرف اشرافیہ۔

عوام
جہاں تک سو فیصد دیانتداری کا تقاضہ ہے تو یہ سو فیصد دیانتداری دنیا کے عوام میں کہیں بھی نہیں پائی جاتی ۔اس بات کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ دنیا بھر کی جیلوں میں دنیا کی سبھی قوموں کے کرپٹ لوگ بند ہیں۔
لیکن پاکستانیوں کی اکثریت اپنے پیدائشی ماحول اور اپنے ارد گرد ہر طرف پائے جانے والی بے بسی اور روز مرہ زندہ رہنے کی جستجو میں زندگی گھسیٹنے کے لئیے معاشرے اور بااثر طبقے کی طرف سے مسلط کی گئی کرپٹ اقدار اور بدعنوانی کی وجہ سے محض زندہ رہنے کے لئیے ڈہیٹ بن کر ہر قسم کے ظلم و ستم پہ بہ جبر زندگی گزارنے پہ مجبور ہے۔
اور جب اپنی اور اپنے خاندان کا جان اور جسم کا سانس کا ناطہ آپس میں میں جوڑے رکھنا محال ہو جائے۔ اور ایسا کئی نسلوں سے نسل درنسل ہو رہا ہو اور ہر اگلی نسل کو پچھلی نسل سے زیادہ مصائب و آلام کا سامنا ہو اور اسی معاشرے کے ہر قسم کے رہنماؤں کی اکثریت جن میں مذہبی ۔ علمی۔ سیاسی۔ دینی۔ حکومتی ۔ فوجی۔ قسما قسمی کی حل المشکلات کی معجون بیچنے والے دہوکے باز۔اٹھائی گیر ہوں اور بد ترین اور بدعنوان ہوں۔ تو وہاں خالی پیٹ۔ اور بے علم۔ بے شعور عوام سے دیانتداری کا اور وہ بھی سو فیصد دیانتداری کا تقاضہ ظلم ہے۔
مندرجہ بالا بیان کردہ حالات ایسا کلٹ کلچر بنا دیتے ہیں جس میں دیانتداری کا خمیر پیدا ہی نہیں ہوتا۔جیسے رات کو دہوپ نہیں ہوتی۔ اور اس کا مظاہرہ پاکستانی معاشرے میں روزہ مرہ زندگی میں سرعام نظر آتا ہے ۔


کوڑھ کی کاشت کر کے خیر کی امید کیسے باندھی جائے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہمیشہ بڑے لوگ۔ مشہور لوگ۔ لیڈ کرنے والے لوگ۔ بااثر طبقہ سے سے تعلق رکھنے والے لوگ۔ اشرافیہ۔ حکمران۔ رہنماء۔ علماء۔ جرنیل۔ اساتذہ اور اس قبیل کے دیگر لوگ مثال بنا کرتے ہیں ۔
جیسے گھر کا سربراہ یا بڑا بھائی اگر سگریٹ نوشی ۔ شراب نوشی یا آوارہ گردی کرے تو سارا گھرانہ وہی عادتیں پکڑتا ہے۔مگر پاکستان کی اشرافیہ اور بااثر طبقے  کو مثالی کہنے کی بجائے کم ظرف اور تنگ دل کہنا بجا نہ ہوگا کہ جن سے پاکستانی عام  عوام  کویئ مثبت تحریک پا سکے ۔
اس کے باوجود اگر پاکستانی قوم میں کچھ اقدار باقی ہیں تو یہ شاید ان جینز کا اثر ہے جو عام عوام کے خون میں شامل ہیں۔ اور ہنوز اخلاقی بد عنوانی کے خلاف مزاحمت کر ہے ہیں۔
ہمارا معاشرہ مختلف وجوہات کی وجہ سے ۔ ہزراوں سال سے غلامی میں پسنے کی وجہ سے مجبور و معذور ہےاور ہماری ذہنی بلوغت ہی  نہیں ہوسکی۔ 

ہمارے معاشرے میں۔
ہماری انفرادی معاشی خود مختاری ۔ روٹی روزی۔ بنیادی ضروریات اور گھر جیسے تحفظ کا تصور ہی اپنے صحیح معنوں میں فروغ نہیں پا سکا ۔ کیونکہ پاکستان کی بہت بڑی آبادی کو یہ چیزیں مکمل آزادی اور عزت نفس کو پامال کئیے بغیر نصیب ہی نہیں ہوئیں ۔ تو شخصی آزادی یا اجتماعی سوچ بھلا کیونکر فروغ پاتیں؟
آج بھی پاکستان کی  بڑی اکثریت کے لئیے۔ پٹواری۔ نیم خواندہ تھانیدار اور گھٹیا اخلاق و تربیت کے اہلکار۔ حکومت اور عام آدمی کے درمیان تعلق کا پُل ہیں۔اور ان سے آگے عام آدمی کی سوچ مفروضوں پہ قائم  اپنے ملک و قوم کا تصور رکھتی ہے۔ اگر تو کوئی تصور رکھتی ہے؟۔
اور یہ سلسلہ برصغیر کے عوام کے ساتھ ہزاروں سالوں سے روا ہے ۔ اس لئیے عام آدمی کے نزدیک ۔ آزادی۔ عزت نفس۔ اور جائز حقوق کی بازیابی کا کوئی تصور ہی نہیں  نپ سکا۔
اس لئیے وہ معاشرے میں ہر عمل اور اس کے رد عمل کے لئیے بااثر طبقے کی طرف دیکھتے ہیں ۔ اور اس بااثر طبقے کے عمل۔ بیانات اور منشاء کو ہی مقصد حیات سمجھتے ہیں۔ جس وجہ سے زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے وجود میں آتے ہیں اور اس سے آگے قومی شعور نہیں بڑھ پاتا۔
ان وجوہات کی بناء پہ ہمارے معاشرے میں اکثریتی طبقے کبھی کا کوئی رول نہیں رہا۔ اور یہی وہ وجہ ہے جس وجہ سے اکثریت کسی انقلاب یا تبدیلی میں کبھی کوئی کردار ادا نہیں کر سکی۔
کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں اور انیس سو سینتالیس سے آزاد ہیں۔لیکن دل پہ ہاتھ رکھ دیانتداری سے بتائیں کیا آزاد قوم اور مسلمان یوں ہوتے ہیں؟
اس کی یہ وجہ بھی وہی ہے کہ اسلام روزمرہ کی معاملگی حیثیت سے ہماری زندگیوں کا حصہ ہی نہیں بن سکا ۔ اس لئیے ہماری اخلاقی حدود و قیود عام طور پہ اسلامی اخلاق سے باہر ہوتی ہیں۔
جب عوام کو کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو وہ اپنے اپنے ۔ سرداروں۔ پیروں۔ دینی رہنماؤں ۔ علماء اکرام۔ سرکاری افسروں۔ سیاسی رہنماؤں ۔ حکومت اور حکمرانوں۔ فوج اور جرنیلوں کی طرف دیکھنا شروع کردیتے ہیں ۔ اور پھر جس کی کوئی ادا ۔ کوئی بات دل کو بھا جائے اسے اپنا اپنا ہیرو مان لیتے ہیں۔
ہمارا اجتماعی شعور کبھی تھا ہی نہیں۔ اور ہمارے نصب العین ہمیشہ بااثر طبقے نے طے کئیے۔
ہماری اشرافیہ۔ ہمارا بااثر طبقہ انتہائی بے ضمیر۔ دہوکے باز۔ کم ظرف۔ سطحی شخصیت کا مالک اور اپنے اقتدار یا اثر و رسوخ کے لئیے کسی بھی حد تک جانے کے لئیے تیار رہتا ہے۔
اور مرے پہ سو درے ۔ اس سارے تماشے سے کچھ قوم فروش اور ابن الوقت لوگوں نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا اور بغیر کسی جھجھک کے اپنی ابن الوقتی اور ضمیر فروشی کو نہائت بالا نرخوں پہ فروخت کیا۔ جسے حرف عام میں پاکستان کا "میڈیا” کہا جاتا ہے۔
یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ تیزی سے تنزلی کا شکار ہو رہا ہے۔ کیونکہ تنزل ہماری اشرافیہ پہ طاری ہے اور عام عوام وہیں سے تحریک پاتے ہیں ۔ چند اشتنساء چھوڑ کر۔ جسے فوری طور پہ پھیلانے کا اہتمام قوم فروش میڈیا اور اسکے مالکان کرتے ہیں۔
اس لئیے کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئیے کہ عام آدمی کیونکر اپنے مستقبل سے مایوس ہے۔ مگر اس کے باوجود اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانے کے لئیے بجائے کچھ مثبت قدم اٹھانے کے ۔ وہ بجائے خود اسی تنزلی میں شامل ہو رہا ہے۔
اور یہ وہ وجہ ہے کہ عام عوام میں۔ معاشرے میں۔ ہر طرف لاقانونیت۔ بد عنوانی۔ بے ایمانی۔ بد دیانتی۔ بد نظمی اور افراتفری نظر آتی ہے۔

اس لئیے پاکستان کے ان موجودہ حالات میں

 عام آدمی میں اجتماعی شعور کی تربیت کرنا اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک اشرافیہ۔ یعنی بااثر طبقہ۔ دینی و سیاسی رہنماء۔ جرنیل اور حکمران ۔ اور پاکستان کے وسائل پہ قابض مافیا۔اپنے انداز نہیں بدلتی۔اور بد قسمتی سے تب تک پاکستان کے عوام کا مجموعی رویہ بدلنا اور اجتماعی شعور کا فروغ پانا۔ بغیر کسی معجزے کے ممکن نظر نہیں آتا۔ اور دائرے کا معکوس سفر جاری رہے گا۔
اگر عام عوام کو اس بات کا ادراک دلانا مقصود ہے کہ وہ ایک باعزت قوم ہیں اور انھیں ایک اجتماعی شعور بخشنا ہے۔ تانکہ وہ ایک قومی اخلاق اپنا کر اس ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں تو اس کے لئیے ضروری ہے کہ صرف حکومتی اداروں کے عام اہلکاروں اور عہدیداروں سے نااہلی ۔ بدنیتی اور بد عنوانی کا حساب نہ لیا جائے اور انھیں سلاخوں کے پیچھے بند کیا جائے کیونکہ عام اہلکاروں کو معطل کرنے یا چند ایک لوگوں کو ان کے عہدوں سے برخاست کر دینے سے۔ پاکستان کی بد عنوانی پہ قابو نہیں پایا جاسکتا ۔ ایسا کرنا تو دراصل دنیا کی بدترین۔ ایک نمبر کی بدعنوان پاکستانی اشرافیہ کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
اسلئیے یہ از بس ضروری ہے کہ پاکستان میں بد نیتی۔ بدیانتی اور بد عنوانی ختم کرنے کی کوشش کے لئیے لا محالہ طور پہ اس کا آغاز بالادست طبقے اور پاکستان کے وسائل پہ قابض کم ظرف اشرافیہ سے نہ کیا گیا تو ایسی ہر مہم ناکام ہو جائے گی۔ اور اجتماعی قومی شعور۔ ایک باوقار با اختیار قوم۔ اور ایک آزاد پاکستان کا تصور صرف چند ہزار لوگوں کو ناجائز تحفظ دینے کی وجہ سے محض ایک خیال بن کر رہ جائے گا۔
پاکستان کے وسائل پہ قابض چند ہزار نفوس کی کم ظرف اشرافیہ۔ یا۔ بنیادی اور ضروری سہولتوں کے مالک کروڑوں باشعور عوام کا ایک بااختیار اور آزاد پاکستان؟ جب تک یہ طے نہیں ہوتا۔ تب تک ہم ایک معکوس دائرے میں سفر کرتے رہیں گے اور بدیانت غفلت کا شکار رہیں گے۔

جاوید گوندل۔ بارسیلونا

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

یومِ تحفظ ختمِ نبوتﷺ ‏۔


youm e khtam e naboowaut

youm e khtam e naboowaut


یومِ تحفظ ختمِ نبوتﷺ ‏۔
فتنہِ قادیانیت اور پاکستان


7 ستمبر 1974ء ۔سات ستمبر انیس چوہتر سنہ ء کا دن۔ پاکستان کی تاریخ کا تابناک دن ہے ۔جس دن قادیانیوں ، المعروف مرزائیوں۔ المعروف احمدیوں بشمول لاہوری گروپ کو پاکستان کی پارلیمنٹ سے متفقہ طور پہ آئین کی رُو سے کافر قرار دیا گیا تھا ۔اور اس مرحلے تک پہنچنے کے لئیے مسلمانوں نے اپنی ان گنت جانوں کا نذارنہ پیش کیا تھا۔ اور ایک نہائیت لمبی ۔ کھٹن اور صبر آزماجدو جہد کی تھی ۔اور اگر اس طویل جد و جہد پہ روشنی ڈالی جائے ۔تو بلا مبالغہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئیے کی گئی کوششوں کو بیان کرنے کے لئیے ۔کئی صخیم کتب لکھنی درکار ہونگی ۔ اسلئیے ہم کوشش کریں گے کہ دین اسلام کے اس موجودہ اور تاریخ اسلام کے غالباً سب سے بڑے فتنے ” قادیانیت“  پہ اپنی سی حد تک روشنی ڈالیں۔

عقیدہ ختم نبوت ﷺ پہ اسلام کی اساسی بنیاد کھڑی ہے ۔اگر عقیدہ ختم نبوت ﷺ پہ آنچ آتی ہے تو براہِ راست ایمان اور اسلام پہ آنچ آتی ہے ۔ عقیدہ ختم نبوت ﷺ پہ قرآن کریم کی ایک سو سے زائد آیات اور دو سو سے زائد احادیثِ نبوی ﷺ موجود ہیں۔

عقیدہ ختم نبوت ﷺ کا تحفظ ہر مسلمان کا فرض اور نبی کریم ﷺ کے امتی ہونے کے دعویدار پہ فرض اور یومِ قیامت کو نبی کریم ﷺ کی شفاعت کا باعث ہے۔
عقیدہ ختم نبوت ﷺ پہ پوری مسلمان امت کا قرون ِ اولٰی سے یہ اجماع رہاہے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔ اور نبوت نبی کریم محمد ﷺ پہ ختم ہے ۔ اور تحفظِ ختم نبوت ﷺ کے عقیدے کے لئیے مسلمانوں کو بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئیے ۔

تحفظ ختمِ نبوتﷺ ‏ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے ہے کہ خاتم الانبیاء نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کے دوران اسلام کی خاطر جان دینے والے۔ بشمول بڑے ۔ بچے ۔ خواتین اورضعیفوں  کے۔  شہداءکی کل تعداد دو سو اناسٹھ 259 تھی ۔ کفار کے جہنم واصل ہونے والوں کی کل تعداد سات سو اناسٹھ 759 تھی۔ جو کل ملا کر ایک ہزار ایک سو اٹھارہ 1018 بنتی ہے۔ مگر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں جب مسلیمہ کذاب نے جھوٹی نبوت کا دعواہ کیا ۔تو عقیدہ ختم ِ نبوت کے تحفظ کی خاطر جنگ میں بائیس ہزار 22000 مرتدین کو تہہ تہیغ کیا گیا۔ اور بارہ سو کے قریب 1200کے قریب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جامِ شہادت نوش کیا ۔ جن میں سے چھ سو 600 قران کریم کے حافظ اور قاری رضی اللہ عنہم شہید ہوئے ۔ اس جنگ میں غزوہ بدر کے غازی اصحابہ اکرام رضی اللہ عنہم نے بھی جامِ شہادت نوش کیا۔ یعنی اس بات سے اندازہ لگایا جائے کہ تحفظ عقیدہ ختم نبوت ﷺ کی خاطر صرف ایک جنگ میں نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں شہید ہونے والے کل شہداء  سے  کئی گنا زائد مسلمان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے۔ اور نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں جہنم واصل ہونے والے  کافروں  سے  کئی گنا زائد مرتد  محض اس  ایک جنگ میں قتل ہوئے ۔

عقیدہ ختم نبوت ﷺ مسلمانوں کے نزدیک اس قدر حساس عقیدہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے نزدیک خاتم الانبیاء نبی کریم ﷺکے بعد نبوت کے کسی مدعی سے اسکی نبوت کی دلیل یا معجزہ مانگنا بھی اس قدر بڑا گناہ ہے کہ اسے کفر قرار دیا ہے۔ یعنی ایک مسلمان کا عقیدہ ختم نبوت ﷺ پہ اس قدر ایمان مضبوط ہونا چاہئیے کہ وہ نبوت کے دعویداروں سے اسکی نبوت کی دلیل یا معجزہ نہ مانگے ۔ بلکہ نبوت کے جھوٹے دعویدار کو اسلام کی تعلیمات کے مطابق سزا دے ۔اس لئے ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ عقیدہ ختم نبوت ﷺ کے لئیے اپنا کردار ادا کرے ۔ نئی نسل اور آئیندہ نسلوں کے ایمان کی حفاظت کی خاطر قادیانیت کے کفر اور ارتداد کا پردہ چاک کرے تانکہ روز قیامت سرخرو ہو اور خاتم الانبیاء نبی کریم ﷺ کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔

قادیانی اپنے آپ کو’’ احمدی ‘‘کہلواتے ہیں ۔ قادیانی اپنے آپ کو مسلمان اور مسلمانوں کو کافر شمار کرتے ہیں ۔ اور اس رُو سے قادیانی نہ صرف کافر ہیں بلکہ زندیق بھی ہیں ۔ جو اپنے کفر کو دہوکے سے اسلام اور اسلام کو کفر بیان کرتے ہیں۔ اور یوں مسلمانوں کو دہوکہ دیتے ہیں ۔قادیانیوں کے نزدیک جس دین میں نبوت جاری نہ ہو وہ دین مردہ دین ہے۔اور یوں قادیانی ۔ اسلام کو نعوذ باللہ مردہ دین قرار دیتے ہیں۔قادیانیوں کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام سولی پر لٹکا ئے گئے۔ قادیانی مکہ مکرمہ کی طرح قادیان کو ارض حرم قرار دیتے ہیں ۔انگریز کی اطاعت کو واجب قرار دیتے ہیں ۔اور انگریزوں کی ہدایت پہ مرزا نے جہاد کو غداری قرار دیا ۔قادیانی جہاد کے خلاف ہیں۔

مرزا غلام احمد قادیان کے بارے سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے ستمبر 1951 ء میں کراچی میں عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا ۔ ”تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی میں یہ کمزوریاں اور عیوب تھے۔ اس کے نقوش میں توازن نہ تھا۔ قدوقامت میں تناسب نہ تھا۔ اخلاق کا جنازہ تھا۔ کریکٹر کی موت تھی۔ سچ کبھی نہ بولتا تھا۔ معاملات کا درست نہ تھا۔بات کا پکا نہ تھا۔ بزدل اور ٹوڈی تھا۔تقریر و تحریر ایسی ہے کہ پڑھ کر متلی ہونے لگتی ہے لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اگر اس میں کوئی کمزوری بھی نہ ہوتی۔ وہ مجسمہ حسن و جمال ہوتا ۔قویٰ میں تناسب ہوتا۔چھاتی45 انچ کی۔کمر ایسی کہ سی آئی ڈی کو بھی پتہ نہ چلتا۔ بہادر بھی ہوتا۔کریکٹر کا آفتاب اور خاندان کا ماہتاب ہوتا۔ شاعر ہوتا۔ فردوسی وقت ہوتا۔ابوالفضل اس کا پانی بھرتا۔خیام اس کی چاکری کرتا۔غالب اس کا وظیفہ خوار ہوتا۔انگریزی کا شیکسپیئر اور اردو کا ابوالکلام ہوتا پھر نبوت کا دعویٰ کرتا تو کیا ہم اسے نبی مان لیتے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ میاں! آقا ﷺکے بعد کائنات میں کوئی انسان ایسا نہیں ۔جو تخت نبوت پر سج سکے اور تاج نبوت و رسالتﷺجس کے سر پر ناز کرے“۔

فتنہ ِ قادیانیت کا بانی اور اسکے جانشین ۔
فتنہ ِ قادیانیت کا بانی مرزا غلام احمد کذاب انگریزی دور میں موجودہ بھارت میں واقع قادیان (تحصیل بٹالہ ،ضلع گورداسپور،مشرقی پنجاب ، بھارت) میں اٹھارہ سو انتالیس یا چالیس 1839ء یا 1840 سنہ عیسوی میں پیدا ہوا۔اور اسی قادیان کی مناسبت کی وجہ سے قادیانی اور اسکے فتنے کو قادیانی فتنہ یا قادیانیت قرار دیا گیا ۔جبکہ مرزا ئی ۔ قادیانی اپنے آپ کو احمدی کہلوانے پہ مصر ہیں۔ اور ان میں بھی دو فرقے ہیں ۔ قادیانیوں کا دوسرا فرقہ لاہوری گروپ ہے۔
برصغیر ہندؤستان پہ قابض انگریزوں کی چھتری تلے مرزا غلام احمد قادیان نے 1883ء سے 1908ء تک اپنے آپ کو بتدریج مُلھم۔ محدث۔ مامور مِن اﷲ۔ امام مہدی ۔مثیلِ مسیح۔مسیح ابن مریم۔نبی۔حاملِ صفات باری تعالی ۔ا ور اس کے علاوہ بھی بہت سے لغو۔ متضاد اور اگنت دعوے کئیے ۔ اور دو مئی انیس سو آٹھ 2 مئی 1908 کو ہیضے میں مبتلاء ہو کر لاہور میں ہلاک ہوا۔ جسکے بعد حکیم نور دین اس فتنے کا  جانشین اول (قادیانیوں کے نزدیک خلیفہ اول)ٹہرا۔اور تین مارچ انیس سو چودہ 3 مارچ 1914 سنہ ء کو نوردین کے مرنے کے بعد قادیانی جماعت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ۔ قادیان جو اس فتنہِ خباثت کا مرکز تھا۔ اس پہ مرزا غلام احمد قادیان کے بیٹے مرزا محمود نے قبضہ جما لیا۔ اور قادیانی حصے کے دوسرے دھڑے کا سربراہ مرزا محمد علی ٹہرا اور مرزا محمد علی نے لاہور کو اپنا مرکز بنایا۔

پاک بھارت باؤنڈ ری کمیشن ریڈ کلف کو۔ قادیانیوں نے اپنے آپ کو باقی مسلمانوں سے الگ ظاہر کرتے ہوئے۔ ایک فائل بنا کر دی  کہ  ہم مسلمانوں سے الگ ہیں۔ لہٰذاہ ہمیں قادیان میں الگ ریاست دی جائے ۔ جس پہ پاک بھارت باؤنڈ ری کمیشن نے انکار کر دیا۔ انکار کے بعد مرزا غلام احمد قادیان کے بیٹے مرزا محمود (قادیانیوں کے نزدیک خلیفہ دوئم ) نے پاکستان کے ضلع چنیوٹ میں ایک مقام (چناب نگر) کو ”ربوہ“ کا نام دے کر اسے قادیانیت کا مرکز بنایا۔ مرزا کے جانشین دوئم کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے مرزا ناصر (قادیانیوں کے نزدیک خلیفہ سوئم )نے قادیانیوں کی  جانشینی سنبھالی ۔

10اپریل 1974ء کو رابطہ عالم اسلامی نے مکہ مکرمہ میں قادیانیوں کو متفقہ طور پہ کافر قرار دیا۔

7ستمبر 1974ء کو ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کی دونوں جماعتوں ۔ قادیانی اور لاہوری گروپ کو ہر دو گروہوں کو خارج از اسلام قرار دینے کا متفقہ دستوری اور تاریخ ساز فیصلہ کیا ۔ اور آئین کی رُو سے قادیانیوں ۔ بشمول قادیانیوں کے لاہوری گروپ کو کافر قرار دیا ۔اور آئین کی رُو سے قادیانیوں پہ انکے کفر کی وجہ سے  ریاستِ پاکستان میں کلیدی عہدوں پہ پابندی لگا دی گئی۔

9جون 1982ء کو مرزا ناصر کے مرنے کے بعد اس کا چھوٹا بھائی مرزا طاہر قادیانی کفریہ جماعت کا چوتھا سربراہ بنا۔

آئین پاکستان کی رُو سے کافر قرار دئیے جانے کے باوجود قادیانی مرزا غلام احمد قادیان کی پیروی اور اپنی فطرت کے عین مطابق اپنے آپ کو مسلمان قرار دے کر اور مسلمانوں کو کافر قرار دے کر بدستور سادہ لوح مسلمانوں کو دہوکے سے  ورغلاتے رہے ۔ اور اپنے اثر رسوخ میں اضافہ کرنے کی کوششوں سے باز نہ آئے ۔ تو قادیانیوں کو ان کے مذموم کفرانہ عزائم سے باز رکھنے کے لئیے ۔ پاکستان کے اس وقت کے صدر ضیاء الحق نے چھبیس اپریل انیس سو چوراسی ۔26 اپریل1984ء کو’’امتناع قادیانیت آرڈیننس‘‘ نامی آڑدیننس جاری کیا۔ تو ٹھیک چار دن بعد

یکم مئی 1984ء یکم مئی انیس سو چوراسی کو کو مرزا طاہرپاکستان سے لندن بھاگ گیا اور 18اپریل 2003ء  کو مرنے کے بعد اسے وہیں دفنایا گیا۔

جہاں سے قادیانی بڑے زور شور سے مسلمانوں اور اور خاصکر پاکستان اور پاکستانی مسلمانوں کے خلاف متواتر جھوٹا پروپگنڈاہ کرتے ہیں ۔ سادہ لوح مسلمانوں کودہوکہ دے کر  اپنے جال میں پھنساتے ہیں ۔ انہیں باہر سیٹ کروانے کا لالچ دے کر۔ اسلام سے بر گشتہ کرتے ہیں۔ اور قادیانیت کے نام پہ مغربی ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کرنے میں مدد کرتے ہیں ۔ جس سے، جہاں قادیانی کفریہ جماعت کی جھوٹی مظلومیت کا خُوب پروپگنڈہ کیا جاتا ہے ۔ وہیں کم علم ۔ سادہ اور غریب مسلمانوں کودہوکے سے  ورغلا کر قادیانی اپنی جماعت میں اضافے کی کوشش کرتے ہیں۔ عالم اسلام اور پاکستان کے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔ قادیانیت کے پاکستان کے خلاف مذموم سازشوں کے تانے بانے بھارت اور اسرائیل سے جا ملتے ہیں۔انٹر نیٹ پہ بھی خوب فعال ہیں ۔ لیکن اب دین سے محبت کرنے والے بہت سے مسلمان نوجوانوں نے قادیانیت کے خلاف اور اس کے سدباب کے لئیے بہت سے فوروم اسلام کی حقانیت خاطر  ۔ قادیانیت کے خلاف قائم کر لئیے ہیں ۔ جہاں سے شب و روز قادیانیت کا بھانڈاہ پھوڑنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے ۔اور جب قادیانیوں کو اسلام کی دعوت دی جائے تو لاجواب ہو کر آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں۔ اور ایک نظام کے تحت تربیتی طور پہ موضوع کو ادہر ادہر گھمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ملا اور مولوی صاحبان چونکہ پاکستان میں فتنہ قادیانیت کے سب سے بڑے نقاد ہیں۔ تو قادیانی ملا اور مولوی کی سخت تضحیک کرتے ہیں۔ اور مسلمانوں کو مولوی اور ملا کے دین کا طعنہ دیتے ہیں۔

قادیانی بھیس بدل کر اور ڈھکے چھپے ابھی تک پاکستان میں اپنے کفرانہ عزائم کا پرچار کرتے ہیں۔ پاکستان کی حکومتوں میں سیاسی وِ ل ۔ سیاسی خود اعتمادی اور دین سے مکمل شعف نہ ہونے کی وجہ اور عالمی استعمار سے پاکستان کی حکومتوں کا خوفزدہ ہونے کی وجہ سے ۔قادیانی پاکستان میں ابھی تک کُھل کھیل رہے ہیں۔ صرف ایک اس واقعہ سے اندازہ لگا لیں کہ قادیانی پاکستان میں کس قدر مضبوط تھے (اور ابھی تک ہیں ) کہ  مولانا سید ابو اعلٰی موددیؒ کو قادیانیت کے خلاف ”قادیانی مسئلہ “ نامی چھوٹی سی کتاب لکھنے پہ پاکستان میں  مولانا سید مودودی ؒ کو سزائے موت سنائی گئی ۔ جسے اندرونی اور عالمی دباؤ کی وجہ سے عدالت عالیہ نے منسوخ کر دیا ۔ اور مولانا سید ابو اعلٰی موددیؒ نے دو سال گیارہ ماہ جیل کاٹنے کے بعد رہائی پائی ۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ چونکہ قادیانی اگر انٹرنیٹ پہ اسلامی اور مسلمان ناموں کے پردے میں مسلمانوں کو دہوکہ دیتے ہیں ۔ تو یہ معاملہ ریاست پاکستان کی روز مرہ کی زندگی میں اور بھی زیادہ شدید ہوجاتا ہے اور اس مسئلے کی وجہ سے عام مسلمان قادیانیوں سے دہوکہ کھا جاتے ہیں۔ اور اسے مسئلے کو مستقل بنیادوں پہ حل کیا جانا بہت ضروری ہے۔
قادیانی نہ صرف کافر ہیں ۔بلکہ اسلام کے پردے کے پیچھے چھپ کر منافقت کرنے والے منافق ہیں ۔اور مسلمانوں کو دہوکہ دیتے ہیں ۔ اور صرف اسی پہ بس نہیں بلکہ یہ اپنے کفر کو اسلام اور مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں ۔ اس لئیے زندیق ہیں۔ یعنی جو کافر اپنے آپ کو مسلمان کہلوا کر مسلمان کو کافر کہے۔یوں سادہ لوح مسلمانوں اور غیر مسلموں کو اسلام کا جھانسہ دے کر ۔دہوکے سے اپنے کفر میں شامل کرتے ہیں۔
قادیانیت مذہب نہیں بلکہ مافیا کارٹیل ہے۔ جو مسلمانوں اور باالخصوص پاکستان اور پاکستانی مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئیے پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر نہائت سرگرمی سے مصروف عمل ہے۔ اور اپنے ان مذموم عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئیے اس قادیانیت کے ڈانڈے بھارت اور اسرائیل سے جاملتے ہیں۔

چونکہ یہ فتنہ ارتداد اور جھوٹی نبوت کی لعنت انگریزوں کی چھتری تلےبرصغیر میں پیدا ہوئی۔ اور پاکستان بننے کے بعد اس لعنت نے پاکستان میں پرورش پائی۔ اسلئیے آزاد اور اسلامی پاکستان کا یہ فرض بنتا تھا۔ اور بنتا ہے ۔ اور جیسا کہ آئین پاکستان کی رُو سے مرزا غلام احمد قادیانی، مرزائی ۔ المعروف احمدی بشمول لاہوری گروپ ۔ کافر ہیں اور اپنی عبادتگاہوں کو مساجد نہیں کہلوا سکتے۔ کہ مساجد مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے۔ اور اس طرح کی دیگر پابندیاں۔ ان پہ انکے کفر کی وجہ سے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا آخری نبی نہ ماننے کی وجہ سے ہیں۔ اسی طرح یہ پاکستان اور پاکستانی مسلم عوام کی دینی اور اخلاقی ذمہ داری میں آتا تھا۔ اور آتا ہے۔ کہ قادیانیوں ۔ مرزائیوں المعروف احمدیوں کو دین اسلام کے نام پہ انکے کفر اور دہوکہ دہی سے نہ صرف روکا جائے ۔بلکہ باقی دنیا کو انکے بارے مناسب طور پہ آگاہ کیا جائے۔ تانکہ یہ اپنی اسلام دشمنی اور کفر کو اسلام کا نام دے کر۔ سادح لوح مسلمانوں اور غیر مسلموں کو مزیددہوکہ نہ دے سکیں۔

دنیا کے سبھی مذاہب ۔اپنےناموں کی ترتیب کچھ یوں رکھتے ہیں۔ کہ پڑھنے سننے والوں کو انکے بارے علم ہو جاتا ہے ۔کہ وہ کونسے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔اور چونکہ بر صغیر میں صدیوں سے مختلف مذاہب رہتے آئے ہیں۔ اور ان مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا روز مرہ زندگی میں آپس میں واسطہ پڑنے پہ کسی کے مذہب کے بارے غلط فہمی سے بچنے کے لئیے – اس مسئلے کا حل سبھی مذاہب کے پیروکاروں نے۔ اپنے اپنے مذہب کا برملا اعتراف کرتے ہوئے ۔عوامی سطح پہ حل نکالا ۔کہ اپنے نام اپنے مذاہب کی زبان میں ۔اور اپنی مذہبی کتب میں پائے جانے والے ناموں کو رکھنے میں نکالا ۔مثلا ہنود نے ہندی میں نام رکھے۔ اور مسلمانوں نے عربی یا فارسی کے نام اپنائے۔ اور جہاں مشترکہ ناموں کی وجہ سے دہوکے ہونے کا خدشہ ہوا ۔ وہاں اپنے نام کے ساتھ اپنے مذہب کا لاحقہ لگا دیا ۔ مثلا سکھوں نے سنگھ ،جیسے اقبال سنگھ۔ گلاب سنگھ۔ اور نصرانیوں نے مسیح کا لاحقہ ۔استعمال کیا جیسے ،اقبال مسیح اور یونس مسیح وغیرہ۔ اور ایسا کرنے کے لئیے نہ تو کسی کو مجبور کیا گیا۔ اور نہ ہی یوں کرنے میں کسی بھی مذہب کے ماننے والوں نے اسے اپنے لئیے باعث پریشانی یا ندامت سمجھا ۔بلکہ اپنے اپنے مذہب پہ یقین کی وجہ سے انہیں ایسا کرنے میں کبھی کوئی تامل نہیں ہوا۔جبکہ اسلام دشمن قادیانی ۔ مرزائی المعروف احمدی اسلام اور آئین پاکستان کی رُو سے کافر اور شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ہونےکے باوجود پاکستان میں ہی مسلمانوں کے نام رکھ کر مسلمانوں کو اپنے کافرانہ عزائم خفیہ رکھتے ہوئے دہوکہ دیتے ہیں۔ اس لئیے


اسلام اور پاکستان کے وسیع تر مفاد کے لئیے ہمارا مطالبہ ہے :۔
کہ ریاست پاکستان اور پاکستانی عوام پہ یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ قادیانیوں المعروف مرزئیوں کو مسلمانوں کے نام رکھنے ۔ لکھنے۔ بیان کرنے سے منع کرے ۔ اگر یوں فوری طور پہ ممکن نہ ہو تو انہیں اپنے ناموں کے ساتھ قادیانی لکھنے۔ اور قادیانی بتانے کا پابند کرے ۔ تانکہ مسلمان ناموں کے پردوں میں چھپ کر قادیانی۔ پاکستانی مسلمانوں کو دہوکہ نہ دے سکیں۔اس کے لئیے ضروری ہے کہ دین ِ اسلام اور اللہ کے آخر ی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے تقاضے کے تحت آئین پاکستان کی رُو سے آئین میں یہ واضح طور پہ درج کیا جائے ۔ کہ جس طرح پاکستان میں دیگر بسنے والے مذاہب اپنے بارے میں محض نام سے ہی واضح کر دیتے ہیں کہ وہ کونسے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔ تانکہ معاشرے میں روز مرہ آپس کے معاملات میں کسی فرد کو دوسرے کے مذہب کے بارے مغالطہ نہ لگے ۔ اسی طرح قادیانی بھی اپنے نام کے ساتھ قادیانی لکھنے کی پابندی کریں۔

عقیدہ ختم ِ نبوتﷺ کے لئیے عالم اسلام اور بر صغیر کی انگنت شخصیات اور علمائے اکرام نے انتھک محنت کی اور کر رہے ہیں۔ جن سب کا فردا فردا نام گنوانا یہاں ناممکن ہے ۔

قادیانیت کے سدِ باب کے لئیے کام کرنے والی تنظیمیں۔

  • ختم نبوتﷺ فورم :۔
    انٹر نیٹ پہ  ” ختم نبوت ﷺ فورم “ ختمِ نبوت کی تمام تنظیموں  کا ترجمان فورم ہے ۔ اور اس پہ گرانقدر اور بے بہاء اور بہت لگن اور محنت سے نہائت قیمتی کام کیا گیا ہے ۔ اس فورم پہ دلائل کی روشنی میں قادیانیت کے ہر پہلو کو کا پردہ چاک کیا گیا ہے اور قادیانیت کے منہ سے مکر فریب اور دہوکے کا نقاب نوچ کر قادیانیت کا اصل چہر مسلمانوں کو دکھایا گیا ہے ۔عقیدہ تحفظِ ختمِ نبوتﷺ پہ ہر موضوع سے متعقلہ کتابوں کا بے بہا اور گرانقدر خزانہ بھی موجود ہے ۔
  • اسلامک اکیڈمی مانچسٹر ( برطانیہ)۔:
    یہ تنظیم علامہ داکٹر خالد محمود کی نگرانی اور سربراہی میں ۔یوروپی ممالک میں ختم نبوت ﷺ کے تحفظ کے لئیے کام کرتی ہے۔
  • ادارہ مرکز یہ دعوت وارشاد چنیوٹ :۔
    چنیوت میں فتنہ ارتداد قادیانیت کے سدِ باب کے لئیے "جامعہ عربیہ “ کے بانی مولانا منظور احمد چینوٹی ؒ نے ادارہ مرکز یہ دعوت وارشاد چنیوٹ قائم کیا اور اسکی ایک شاخ ادارہ مرکز یہ دعوت وارشاد چنیوٹ واشنگٹن میں بھی قائم ہے ۔
  • عالمی مجلس تحفظ ختم نبوتﷺ :۔
    عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے پہلے امیر سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ اور جنرل سیکرٹری مولانا محمد علی جالندھری منتخب ہوئے تھے ۔مجلس تحفظ ختم نبوت ۔ عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ اور منکرین ختم نبوت کے مقابل ختم نبوت کی تبلیغ کرتی ہے ۔ اس کی صدارت علامہ سید محمد یوسف بنوری ؒ نے بھی فرمائی۔ایک ہفتہ روزہ ’’ختم نبوت‘‘شائع ہوتا ہے ۔پاکستان اور پاکستان س ے باہر لندن میں انکے دفاتر موجود ہیں۔تحریری مواد اور تحقیقی کام کے حوالے سےحضرت انورشاہ کشمیری ۔ شہید اسلام مولا نامحمدیوسف لدھیانوی اور مولانا اﷲ وسایا کے اسمائے گرامی بہت نمایاں ہیں۔موجودہ امیر حضرت مولانا عبد المجید لدھیانوی ہیں۔
    تحریک تحفظ ختم نبوتﷺ :۔ اکیس اور بائیس ۔ 21 اور 22 جولائی 1934ء کوعالمی مجلس احرار اسلام نے مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی کے زیر قیادت ختم نبوت کے تحفظ کیلئے قادیان میں پہلی ختم نبوت کانفرنس منعقد کی ۔جس کی صدارت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ نے کی تھی۔عالمی مجلس احرار اسلام کا کام ابھی تک موجودہ دور میں فعال ہے اور اب اس کو تحریک تحفظ ختم نبوت کے نام سے جانا جاتا ہے۔
  • انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹﷺ :۔
    14 اگست1995ء مورخہ 17ربیع الاول 1416ھ کو ’’انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ ‘‘قائم کی گئی جس کا مرکزی دفتر لندن میں واقع ہے۔
  • ختم نبوتﷺ اکیڈیمی :۔(انگلینڈ)
    جسکے سربراہ مولانا سہیل باوا ہیں۔
  • آل انڈیا مجلس تحفظ ختم نبوت ﷺدیوبند (بھارت)
  • مجلس تحفظ ختم نبوتﷺ ڈھاکہ (بنگلہ دیش)
  • انجمن فدایان ختم نبوت ملتان(پاکستان)
  • تحریک پاسبان ختم نبوت (جرمنی)

اسکے علاوہ پاکستان کے اندر اور باہر بہت سی شخصیات اور تنظیمیں فتنہ ارتداد و کفر ”قادیانیت“ کے سدِ باب کے لئیے کام کر رہی ہیں ۔ مگر پاکستانی حکومتوں کی سیاسی ول اور سیاسی خود اعتمادی میں کمی اور قادیانیت کے خلاف پاکستان کے آئین کو بروئے کار لانے میں پس و پیش کی وجہ سے قادیانیت کا فتنہ ۔اسلام اور پاکستان کے خلاف پاکستان کے اندر اور باہر بدستور سازشیں کر رہا ہے ۔ اسلئیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی حکومت پہ پاکستانی عوام دباؤ ڈالیں تانکہ تحفظ ختم نبوت ﷺ کے لئیے آئین اور اسلام کی روح کے مطابق آئین پاکستان پہ عمل درآمد کو یقینی بنایا جاسکے ۔

ختم نبوت  ﷺ فورم  کا لنک  http://khatmenbuwat.org/

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

پھر بجٹ۔


پھر بجٹ۔

Budget (مالی سال جولائی 2014ء تا 2015 ء)
دور روز قبل پاکستان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے پاکستان کا سالانہ (مالی سال جولائی 2014ء تا 2015 ء)بجٹ پیش کیا ہے ۔
یہاں حالیہ پیش کردہ بجٹ کے گورکھ دہندے پہ بحث کرنا مقصود نہیں ۔ کیونکہ یہ لچھے دار اور گنجلک بجٹ ہمیشہ سے عام آدمی کی سمجھ سے بالا تر رہے ہیں اور عام خیال یہی ہے کہ انہیں بابو لوگ پاکستان کے دیگر سرکاری نظام کی طرح جان بوجھ کر بھی کچھ اسطرح پیچیدہ اور سمجھ میں نہ آنے والی چیز بنا دیتے ہیں تانکہ عام عوام حسبِ معمول ہمیشہ کی طرح محض سر ہلا کر ”قبول ہے“ کہنے میں ہی عافیت سمجھے ۔
بجٹ کی ایک سادہ تعریف تو یہ ہے کہ کسی بھی ذاتی یا مشترکہ نظام کو چلانے کے لئیے اس نظام پہ اٹھنے والے اخراجات اور اسکی ترجیجات کے لئیے کسی ایک خاص مدت کے لئیے دستیاب میسر وسائل کی منصوبہ بندی کرناہے۔ اسے عام طور پہ بجٹ کہا جاتا ہے ۔ بجٹ ذاتی یا گھریلو بھی ہوسکتا ہے ۔محکمہ جاتی یا ملکی بھی ہوتا ہے ۔ گھریلو ہو تو عام طور پہ اسے ماہانہ بنیادوں پہ سوچا جاتا ہے اور اگر ادارہ جاتی اور ملکی ہو تو اسے سالانہ بنیادوں پہ بنایا جاتا ہے ۔ جسے ملک و قوم کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر سالانہ بنیادوں پہ تیار کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پہ تقریبا سارے دنیا کے ممالک کسی نہ کسی طور سالانہ بجٹ کے تحت اپنے معاملات چلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جس میں مختلف مقاصد کے لئیے مخصوص رقم مقرر کی جاتی ہے اور رقم اور وسائل کی دستیابی کے لئیے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔قومی ترقی۔ دفاع ۔ صحت ۔ تعلیم اور دیگر اہداف مقرر کئیے جاتے ہیں ۔ جبکہ پاکستان میں بجٹ کے آغاز سے بجٹ کے مالی سال کے اختتام تک بندر بانٹ ۔ وقتی ضرورت ۔ بد دیانتی اور دیگر کئی قسم کے جوازوں کے تحت قومی خزانے کے صندوق کا ڈھکن اٹھا دیا جاتا ہے اور بڑھے ہوئے ہاتھ ۔ قوم کی امانت رقم کو قومی ضروت سے کہیں زیادہ اپنی ذاتی اغراض کے لئیے اپنی طرف منتقل کر لیتے ہیں اور منتقلی کا یہ عمل ایسی سائنسی طریقوں سے کیا جاتا ہے ۔ کہ قومی خزانے کو بے دردی سے لُوٹنے والے چور بھی حلق پھاڑ پھاڑ کر ”چور“ چور“ کا شور مچاتے ہیں ۔اور مجال ہے کہ چشم دید گواہوں اور شہادتوں کے باوجود ایسی طریقہ واردات پہ کسی کو سزا دی گئی ہو۔ اور پاکستان کے نصیب میں ہمیشہ سے یوں ہی رہا ہے ۔
قوم کی امانت ۔ قومی خزانے کو خُرد بُرد ہر اور ہیرا پھیری سے اپنی جیب میں بھر لینا ۔شیر مادر کی طرح اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔ایسے میں کم وسائل اور عالمی مہاجنوں کے مہنگے قرضوں۔ امداد و خیرات سے تصور کئیے گے وسائل سے (خسارے کا بجٹ) خسارے کے بجٹ پہ حکومتوں اور اداروں کے سربراہوں ، مشیروں وزیروں کے شاہی اخراجات اور ایک عام چپڑاسی سے لیکر عام اہلکاروں اور اعلٰی عہدیداروں کے حصے بقدر جثے اور دیگر اللوں تللوں سے یہ تصور محض تصور ہی رہتا ہے کہ کہ پاکستان سے غربت اور ناخواندگی ختم ہو اور قومی ترقی کی شرح میں قابل قدر اضافہ ہو۔اور مالی سال کے آخر میں وہی نتیجہ سامنے آتا ہے جو پاکستان میں پچھلی چھ دہائیوں سے متواتر آرہا ہے کہ نہ صرف غریب ۔ غریب سے غریب تر ہوتا گیا بلکہ ہر سال غریبوں کی تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے ۔ عالمی اداروں کی حالیہ حد بندیوں میں پاکستان کئی درجے نیچے کو لڑھک رہا ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں غریبی کی سطح سے نیچے زندگی Low povertyگزارنے والی آبادی نصف سے زائد ہے ۔ خود اسحق ڈار نے اپنی بجٹ تقریر میں یہ بات تسلیم کی ہے کہ پاکستان کی نصف سے زائد آبادی غریبی کی آخری حد سے نیچے ۔ یعنی دو ڈالر یومیہ آمدن سے کم کماتی ہے۔ یعنی ایسے غریب جو مستقبل کے بارے کسی قسم کی منصوبہ بندی کرنے سے محض اس لئیے قاصر ہیں کہ وہ اپنے یومیہ بنیادی اخراجات پورے کرنے کی جستجو میں محض زندہ رہنے کا جتن کر پاتے ہیں۔ایسے حالات میں ایک لگے بندھے بجٹ کے طریقہ کار سے حکومت اور ذمہ دار اداروں کا اپنے آپ کوقومی ذمہ داریوں سے سبک دوش سمجھ لینا۔ پاکستان کی اکثریتی آبادی کی انتہائی غریب آبادی کی غربت اور غریبوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے مترادف ہے۔
پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی بجٹ اجلاسوں پہ اعدو شمار پیش کئیے جاتے ہیں ۔ اور ان پہ کئی کئی دن لگاتار یوانوں میں اجلاس ہوتے ہیں ۔ جہاں حکوت بجٹ کے حق میں دلائل دیتی ہے وہیں حب اختلاف اور دیگر جماعتیں بجٹ کی خامیوں کی نشاندہی کرتی ہیں ۔ حزب اختلاف کئی ایک تجاویز دیتی ہے ۔ حزب اختلاف اور حکومت سے باہر سیاسی جماعتیں حکومت کے متوازی۔ اپنے طور پہ بجٹ کے لئیے باقاعدہ تیاری کرتی ہیں ۔اور متبادل تجاویز کو کئی بار حکومت تسلیم کر لیتی ہے۔ اور ایک بار بجٹ طے پا جانے پہ اسے پائے تکمیل تک پہنچانے کے لئیے حکومت تہہ دل سےمقر ر کردہ اہداف حاصل کرنے کے لئیے مطلوب وسائل مہیاء کرتی ہے۔ ہمارے ارباب اقتدار و اختیار اور اور قومی اسمبلی کے معزز اراکین کا یہ عالم ہے کہ ایک اخباری اطلاع کے مطابق قومی خزانے سے کرڑوں روپے خرچ کر کے قومی اسملی کے ارکان کے لئیے بجٹ کی دستاویز چھپوائی گئی ۔ جسے ستر فیصد سے زائد قومی اسمبلی کے معزز ارکان بغیر کھولے ہی قومی اسمبلی ہال کے ہال میں اپنی سیٹوں پہ چھوڑ گئے ۔ اس میں حکومتی ارکان بھی شامل ہیں۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار کی تقریر کے دوران بھی قومی اسمبلی کی اکثریت ۔ بیزار ۔ بور اور آپس میں بات چیت کرتی نظر آئی ۔ ہماری رائے میں پاکستان سے متعلق اتنے اہم مسئلے پہ عدم دلچسپی کے اس مظاہرے کی وجہ اراکین اسمبلی کو بھی پاکستان کی سابقہ بجٹوں کی طرح اس بجٹ پہ بے یقینی اور بجٹ پیش کرنے کی کاروائی محض ایک رسم اور ایک قومی تقاضا پورا کرنے کے مترادف لینا ہے اور دوسری بڑی وجہ معزز اراکین کی بڑی تعداد کی تعلیمی استعداد اور سوجھ بوجھ کی کمی ہوسکتی ہے ۔ تو ایسے حالات میں پاکستان جیسے غریب سے غریب تر ہوتے معاشرے کے لئیے ایک قابل عمل اور نتیجہ خیز بجٹ کے لئیے مفید اصلاحات کون پیش کرےگا؟، حکومت کے بجٹ کی خامیوں کی نشاندہی کون کرے گا؟۔اسحق ڈار کے لبوں پہ ایک فاتح کی سی معنی خیز مسکراہٹ بھی اس امر کی غمازی کر رہی تھی ۔کہ کوئی تنقید نہیں کرے گا۔ اور بجٹ معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہوجائے گا۔ تو ایسے حالات میں پاکستانی عوام کس کا پلُو تھام کر اسطرح کے بجٹوں پہ فریاد کریں ؟۔
آجکل پاکستان میں ٹیکس گزاروں کا نیٹ ورک بڑہانے کے لئیے بہٹ شور مچا ہوا ہے ۔ بہت سے ترقی یافتہ اور ٹیکس سے چلنے والے ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ اور پاکستان میں ٹیکس گزاروں کی ٹیکس چور ی کو تنقید کا نشانہ بنانا عام ہے ۔ لیکن اس بات کا کوئی تذکرہ نہیں کرتا کہ اُن ممالک میں حکومتی ادارے کس طرح عوام کے ٹیکسوں سے ملکی آمدن کو سوچ سمجھ کر انتہائی ذمہ داری اور دیانتداری سے ایک مکمل منصوبہ بندی سے استعمال میں لاتےہیں جس کے نتیجے میں عام آدمی کو ہر قسم کی بنیادی سہولتیں میسر ہوتی ہیں اور عوام کی فلاح بہبود اور ترقی پہ ٹیکسوں کو خرچ کیا جاتا ہے ۔ اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے لوگوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جاتا اور انہیں نہ صرف کریمنل یعنی سنگین مجرم بلکہ اخلاقی مجرم بھی تصور کیا جاتا ہے ۔ ایسے لوگوں کے نام سے عام آدمی گھن کھاتا ہے اور انکا ذکر انتہائی ناگواری سے کرتا ہے ۔ اور بہت سے ممالک میں ایسے حکومتی عہدیدار اور سیاستدان اسطرح کے اسکینڈل منظر عام پہ آنے سے اپنے عہدوں سے استعفی دے کر گھر بیٹھ جاتے ہیں ۔ اپنے مقدموں کا سامنا کرتے ہیں ۔ اور بہت سے بدنامی کے ڈر اور لوگوں کی نظروں کی تاب نہ لا کر خود کشی کر لیتے ہیں ہیں ۔ جبکہ پاکستان میں ؟۔۔۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ کلچر عام ہے اور اسے ستائشی نظروں سے دیکھا جاتا ہے ۔ کہ جو جتنا بڑا چور ہوگا اسکے حفظ و مراتب بھی اسی حساب سے زیاد ہ ہونگے ۔ وی وی آئی پی تصور کیا جاتا ہے ۔ ایسے لوگ کسی وجہ سے اپنا عہدے سے سبک دوش ہوجائیں تو بھی انہیں ہر جگہ ۔ہر ادارے میں خصوصی اہمیت دی جاتی ہے ۔ایسے ماحول اور معاشرے میں تو ہر دوسرا فرد کسی نہ کسی طرح روپیہ کما کر جلد از جلد اہمیت پانا چاہے گا۔ خواہ اس کمائی کے حلال اور حرام ہونے پہ سو ال اٹھیں۔جبکہ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ جن کی وجہ سے ملک کی آج یہ حالت ہے کہ غریب اور مجبور لوگوں کی محض روز مرہ مسائل کی وجہ سے خودکشیوں میں شرح میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے ۔ انہیں ۔ ایسے لوگوں کو حقیر جانا جاتا ۔انکی حوصلہ شکنی کی جاتی ۔ اور نیک ۔ دیانتدار اور ٹیکس گزار وں کو قابل احترام سمجھا جاتا ۔ انکی حوصلہ افازئی کی جاتی تانکہ محنت سے آگے بڑھنے کا کلچر فروغ پاتا۔ عام آدمی بجائے شارٹ کٹ ڈہونڈنے کے محنت پہ یقین رکھتا۔مگر نہیں صاحب ۔ قومی چوروں کو حرام کے ۔ لُوٹ کھسوٹ اور قومی خزانے کو نقصان دے کر بنائی گئ جائیدادوں اور پیسے کی وجہ سے ہر جگہ سر آنکھوں پہ بٹھایا جاتا ہے ۔ اور جو لوگ بالواسطہ یا بلا واسطہ ٹیکس ادا کرتے ہیں انہیں انتہائی حقارت سے دھتکار دیا جاتا ہے ۔ تو سوال یہ بنتا ہے کہ پھر آپ کس طرح اپنے ٹیکس گزاروں کے نیٹ ورک میں اضافہ کرنا چاہئیں گے ۔ اور ٹیکس نہ دینے والوں کا رونا رونے کے ساتھ اپنی کمزوریوں اور خامیوں سے بھرپور کلچر کو بھی تبدیل کی جئیے ۔
وہ قومیں جو ہماری طرح شدید غربت سے دوچار نہیں وہ بھی اپنی قومی آمدنی بڑھانے کے لئیے کئی ایک حربے آزماتی اور نت نئے جتن کرتی ہیں ۔ جبکہ ہمارے ملک کے بادشاہ لوگوں کا باوا آدم ہی نرالا ہے جبکہ پاکستان کے پاس ایک سرمایہ کاری کا ایک مناسب اور اہم ذریعہ پاکستانی امیگرنٹس کی شکل میں بھی موجود ہے جنہیں مناسب ترغیب، اور منصوبہ بندی سے چھوٹے چھوٹے پراجیکٹس کی طرف راغب کرنا چندا مشکل نہ تھا کہ وہ قومی یا کاروباری اسکیموں میں پیسہ لگاتے اور کارپوریشنز کی طرز پہ انکے سرمایے اور منافع کی دیانتدارانہ نگرانی کی جاتی ۔ لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ۔ روٹی ۔ روزی ۔ روزگار کی وجہ سے یا ملازمت اور کاروبار کی وجہ سے پاکستان سے باہر مقیم افراد کو جسطرح بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح پاکستانی ائر پورٹو ں پہ ان سے سلوک کیا جاتا ہے۔ امیگریشن کاؤنٹر سمیت ہر قسم کے محکماتی کاؤنٹر پہ انکے ساتھ افسر مجاز انہیں کسی جیل سے بھاگے ہوئے قیدی کی طرح سوال جواب اور سلوک کرتا ہے۔ کہ دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ کہاں تو دیگر ممالک کے ائر پورٹس کاونٹر ز پہ مثالی انسانی سلوک کہ غیر قانونی دستاویزات پہ سفر کرنے والے مجبور پاکستانیوں کا جُرم پخرے جانے پہ بھی ان کی عزت نفس کا خیال رکھا جاتا ہے جبکہ اپنے ملک پاکستان سے آتے یا جاتے ہوئے ائر پورٹوں پہ اتنا انتہائی ذلت آمیز رویہ۔ کہ دماغ بھنا اٹھے۔ اور پاکستان کے اداروں کا یہ سلوک ان لوگوں سے۔ جو کئی دہائیوں سے مسلسل اپنے خُون پسینے کی کمائی سے۔ ریاستِ پاکستان کی زر مبادلہ کی کمائی کا بہت بڑا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ۔پاکستان میں مقیم کروڑوں افراد کی کفالت کا ذمہ اٹھا رکھا ہے ۔ تو آپ کیسے ان سے یہ توقع اور امید رکھیں گے کہ پاکستان میں ہر قسم کی عدم سہولتوں اور امن عامہ کی عدم موجودگی کے باوجود اور اسقدر انتہائی اہانت آمیز سلوک کے باوجود وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے؟ یہ ایک ننھی سی مثال ہے ۔ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاروں کو ترغیب دیتے ہوئے بعض اوقات ہم قومی مفادات کو بھی پس پیش ڈال دیتے ہیں۔ جبکہ اپنے پاس موجود وسائل کو ملکی رو میں شامل کرنے کی بجائے اسے ملکی نظام سے بدظن کرنے کے لئیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں ۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے عد توجہ اور لاپرواہی پاکستان میں گھسٹتے نظام کی ایک ادنی سی مثال ہے کہ کس طرح ہم اپنے دستیاب وسائل کو کس بے درردی سے ضائع کر دیتے ہیں ۔ اور بعد میں وسائل کی عدم دستیابی کا رونا روتے ہیں۔ اس ضمن میں بہت سے دیگر طبقوں کی مثالیں دی جاسکتیں ہے۔
ایک عام سا فطری اور مالیاتی اصول ہے کہ جس چیز کی ضرورت جتنی اشد ہو گی اسکے حصول کی لئیے کوشش بھی اسی طرح زیادہ کی جائے گی ۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ وسائل کا حصول اور انہیں مناسب طریقے سے استعمال میں لانا ہے۔جبکہ پاکستان میں کتنے صدق دل سے اس اصول کے خلاف کوشش کی جاتی ہے ۔ پاکستان کے کسی بھی ائر پورٹ یا پورٹ کو استعمال کر کے دیکھ لیں ۔ پاکستان میں درآمد کی جانے والی قابل کسٹم ڈیوٹی اشیاء ۔ خواہ وہ ذاتی ہوں یا کاروباری ۔ یا تحائف ۔ پاکستانی کسٹم کا مستعد عملہ بڑی جانفشانی سے آپکے سامان کی تلاشی لے گا ۔ اور نتیجے میں اس سے برآمد ہونے والی اشیاء کے بارے نہائت تندہی اور خونخوار لہجے میں اس پہ کسٹم ڈیوٹی کی رقم بتائے گا ۔اور ایک سانس فر فر سبھی قانون قائدے بیان کردے گا۔اور محصول کی رقم اسقدر بڑھا چڑھا کر بتائے گا کہ پاکستان پہنچنے والے پریشان حال اور تھکن کے مارے۔ لاعلم۔ مسافر کا منہ کھلے کا کھلا رہ جائے گا۔پریشانی بھانپتے ہی ایک آدھ اہلکار نہائت ہمدردی سے سر گوشی کے انداز میں استفسار کرے گا صاحب سے ککہ کر کچھ کم کروا دوں؟ اور دیکھتے۔ دیکھتے سر عام بولی لگے گی ۔ مُک مکا ہوگا۔ اور وہ رقم جسے قومی خزانے میں جانا چاہےتھا ۔ جس خزانے سے کار سرکار پہیہ چلتا ہے ۔ وہ رقم ۔ قومی خزانے سے تنخواہ اور مراعات پانے والے ہر قسم کے حفظ و مراتب وصولنے والوں کی جیب میں چلی جائے گی ۔ گویا حکومت نے قومی خزانے سے تنخواہ اور وردی دے کر لٹیروں کو قومی وسائل کو خرد برد کرنے کے لئیے بھرتی کر رکھا ہے ۔کچھ یہی عالم پولیس اور پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پاکستان کے سبھی چھوٹے ،بڑے ۔ اہم اور غیر اہم سرکاری اداروں کا ہے ۔ محکمہ کسٹم تو محض پاکستان میں کرپشن کے گلشیئر کا نکتہ آغاز ہے ۔کبھی سوچئیے کہ اگر صرف محکمہ پولیس کا ٹریفک ڈپارٹمنٹ جرمانوں کی وہ رقم جو قومی خزانے میں جمع ہونے کی بجائے پولیس اہلکاروں کی جیب میں چلی جاتی ہے ۔ یہ رقم اگر قومی خزانے میں جمع ہو تو پولیس کی ماہ بھر کی تنخواہ ان سے آسانی سے دی جاسکتی ہے۔ اور نتیجتا قانون کی حکمرانی کا شعور اور رواج بھی ملک میں پھیلے گا ۔ اگر کوئی یہ کہے پاکستان کے اداروں یا کسٹم کے ادارے میں اور ائر پورٹس وغیرہ پہ مکا مکا کی بولی سر عام اور سب کے سامنے نہیں ہوتی تو ایسی حکومت اور ذمہ داروں کو اپنی بے خبری پہ ماتم کرنا چاہئیے ا لاہور ۔ اسلام آباد ۔ کراچی ہر ائر پورٹ پہ بڑے دھڑلے سے اور سر عام ہوتا ہے تو حکومت اور بدقماشی ۔ رشوت اور کرپشن روکنے والے حکومتی اداروں کو اسکی خبر نہیں ؟ ایسے بدقماش اہلکاروں کو سزا دینا۔ دلوانا اور نوکریوں سے فارغ کرنا حکومت کے دیگر فرائض میں سے ایک فرض ہوتا ہے ۔۔ پاکستان میں زکواۃ کے دنوں پاکستانی اپنی رقم بنکوں سے محض اسلئیے نکال لیتے ہیں کہ انہیں حکومت کی زکواۃ کٹوتی پہ بھی شکوک ہیں اور وہ اپنی زکواۃ خود اپنی تسلی سے دیتے ہیں ۔ حکومتی زکواۃ کمیٹیوں پہ یقین نہیں کرتے ۔ حاصل بحث اگرحکومت خود سے کچھ کرنے سے قاصر ہو اورقومی خزانے کو تیل دینے والے عام معلوم اداروں اور عہدیداروں کو کرپشن سے باز نہ رکھ سکے تو ایسے ماحول میں آپ کا ٹیکس گذار کس خوشی میں آپ کو ٹیکس دینے کو تیار ہوگا؟
پاکستان کے اقتصادی و معاشی اور معاشرتی حالات ۔ اندھے بجٹ کے ذریعئے نہیں سدھریں گے۔ اعدادہ شمار کا یہ گورکھ دھندا اگر اتنا ہی مفید ہوتا تو ہر سال غربت میں کمی ہوتی اور ملک و قوم ترقی کرتے جب کہ حقائق اس کے بر عکس ہیں۔ ملک میں غربت اور مہنگائی کا عفریت کب کا منہ کھولے عوام کی امیدو اور خواہشوں کو ہڑپ کرچکا ہے اور کئی سالوں سے پاکستان کے غریب عوام مفلسی اور مفلوک الحالی میں محض زندہ رہنے کا جتن کرتے ہیں۔عام پاکستانی شہری کو پاکستان کے سال در سال پیش کئیے جانے والے بجٹوں سے کوئی امید اور توقع نہیں رہی۔ اور پاکستان میں ایک عام خیال جر پکڑ چکا ہے کہ ہر سال بجٹ کے ساتھ اور فورا بعد میں مہنگائی کی ایک تازہ لہر آئے گی جو شدت میں پچلی مہنگائی سے زیادہ ہوگی ۔ اور پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت کو مدنظر رکھتے ہوئے عام آدمی کے یوں سوچنا سمجھ میں آتا ہے۔
اگر ملک کی حالت اور قوم کی تقدیر بدلنا ہے تو ۔ بڑے منصوبوں کی افادیت اپنی جگہ مگر ایک حقیقی تبدیلی اورقومی اقتصادی ترقی کے لئیے ۔ اسکے ساتھ ساتھ گلی محلے سے لیکر گاؤں۔ گوٹھ۔ بستیوں اور شہروں کے لیول کی چھوٹی چھوٹی منصوبہ بندیاں کرنی پڑیگی ۔ ان منصوبوں کے لئیے وسائل ۔ سرمایہ ۔ اور دیانت دارانہ نگرانی ، اہداف کی تکمیل تک حکومت کو سرپرستی کرنا ہو گی ۔ گلی محلے سے لیکر ملکی اور قومی سطح پہ کی جانے والی منصوبہ بندی لوگوں کی مقامی ضروریات کے مطابق ۔ پاکستانی ۔ محنت کش ۔ اور ہنر مندوں کی صلاحیتوں پہ اعتماد کرتے ہوئے ۔ انکی تربیت اور رہنمائی کرتے ہوئے کی جائے ۔ انہیں چھوٹے چھوٹے پیداواری اہداف دئیے جائیں۔ حکومتی ادارے اپنی تحقیق سے ایسے اہداف کی نشاندہی کریں ۔ اس ضمن میں پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے تحقیقی شعبوں کو بھی شامل کیا جائے۔ اور مطلوبہ پیداوار کی عام منڈیوں میں کھپت ۔حکومت کے فعال اور دیانتدار ادارے کریں ۔ پاکستان با صلاحیت افرادی قوت سے مالامال ہے ، اسکی عمدہ مثالیں فیصل آباد میں ٹیکسٹائل انڈسٹریز ۔ گوجرنوالہ میں پنکھے ۔ اور واشنگ مشینیں ۔ اسٹیل کے برتن ۔ گجرات میں پنکھے ۔ فرنیچر ۔ برتن ۔ سیالکوٹ میں کھیلوں کا سامان ۔ لیدر جیکٹس ۔ جراہی کا سامان اور پاکستان میں کئی اور شہروں میں مختلف قسم کا سامان تیار کرنے والوں سے جڑے ہزاروں خاندانوں کا روزگار اور نتیجے میں وہ پیداوار ہے۔ جس سے پاکستان کثیر زرمبادلہ بھی کما رہا ہے اور ان شہروں کی عام آبادی مناسب روزگار ہونے کی وجہ سے عام علاقوں کی نسبت خوشحال بھی ہے ۔ ان شہروں میں بہت سی مصنوعات کے چھوٹے چھوٹے جُز پرزے گھروں میں تیار کئیے جاتے ہیں۔ اگر اس جوہر قابل کی مناسب تربیت کر کے اسے قومی پیدوار میں شامل کیا جائے تو قوم کو بہتر نتائج ملیں گے ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت سی قوموں نے ننھی سطح سے سے مائیکرو منصوبہ بندی کرتے ہوئے نہ صرف پیدواری عمل بڑہایا ہے اور آج صف اول کی قوموں صف میں کھڑی ہیں ۔ بلکہ انہوں نے اسطرح اپنے شہریوں کو روزگار مہیاء کرنے کی وجہ سے ان کا معیار زندگی بھی بلند کیا ہے ۔ جبکہ پاکستان صلاحیتوں سے بھرپور اور نوجوان افرادی قوت سے مالا مال ہے ۔
جب تک قومی وسائل کو بے دردی سے لُوٹنے والوں اور بودی اہلیت کے مالک منصوبہ و پالیسی سازوں سے چھٹکارہ نہیں پاتے ۔چور دورازوں کو بند نہیں کرتے ۔ پاکستان کو دستیاب وسائل کی قدر نہیں کرتے ۔ اور بھرپور طریقے سے انہیں استعمال میں نہیں لاتے ۔ بنیادی تبدیلی کے لئیے مناسب اور مائکرو منصوبہ بندی نہیں کرتے ۔ افرادی قوت کی مناسب رہنمائی اور تربیت نہیں کرتے تب تک معاشریہ ان چھوٹی بنیادوں۔ اور اکائیوں سے اوپر نہیں اٹھے گا اور تب تک ایک باعزت قوم بننے اور اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کا خوآب ادہورا رہے گا ۔ ہم خواہ کس قدر قابل عمل بجٹ بناتے رہیں نتائج وہی ڈھاک کے تین پات ہی رہیں گے اور قومی ترقی کا خوآب محض خوآب ہی رہے گا۔ سال گزرتے دیر نہیں لگتی ۔ جون 2015 ء میں ایک بار پھر وہی تقریر اور لفظوں کا ہیر پھر محض ایک خانہ پری ہوگی۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

پاکستانی نام۔ ایک اہم مسئلہ۔


پاکستانی نام۔ ایک اہم مسئلہ۔whats-your-name

ہمارے ملک میں عام طور پہ بچے کے دو نام رکھے جاتے ہیں ۔
بچے کی علیحدہ سے شناخت کے لئے۔ اسکا نام ۔اس کے والد کا نام ۔ قبیلہ ۔ اور ذات، برادری بمعہ محلہ ،بستی، گاؤں ،گوٹھ ، ڈاک خانہ ،شہر ،تحصیل و ضلع۔ لکھ دیا جاتا ہے ۔
مگر اس کے باوجود ایک ہی محلے میں ایک ہی جیسے ناموں والے دو یا تین لوگ پائے جا سکتے ہیں۔ جس سے اجنبی لوگوں کو کسی خاص فرد کی تلاش و بسیار میں اور محکموں کی کسی ضروری کاروائی کے دوران بہت سے لطیفے جنم لیتے رہتے ہیں۔ اور بعض اوقات ایک نام کے کئی افراد ہونے کی وجہ سے پریشان کُن اور افسوس ناک صورتحال بن جاتی ہے۔ خط ایک ہی جیسے نام والے دوسرے افراد کو پہنچ جاتا ہے ۔یا مغالطہ میں لوگ غلط فرد سے معاملات کر لیتے ہیں۔
جبکہ بہت سے ممالک میں باپ کا خاندانی (بعض ملکوں میں قبائلی) نام اور ماں کا خاندانی نام بچے کے نام کے ساتھ لازمی جز کے طور لکھا جاتا ہے جو تا حیات اس کے نام کا حصہ بن جاتا ہے ۔ اور صرف نام سے ہی کسی کو الگ سے شناخت کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ کیونکہ صدیوں سے رائج ایسے ناموں کے نظام میں انتہائی مشکل سے ہی شاید کبھی دو ایک جیسے نام اور باپ کا خاندانی اور ماں کا خاندانی نام یعنی یہ نام دو یا دو سے زائد افراد کے ہوں۔
یوں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لیکر عام اداروں اور لوگوں کو بھی کسی سے رابطہ کرنے ، اور درست فرد کے ساتھ معاملات کرنے میں دشواری نہیں ہوتی ۔
پاکستان میں تو شناخت کئی طریقوں سے کروا ئی جا سکتی ہے۔ اور ایک دیسی طرز کے ہمارے نظام میں کئی لوگ کسی کی شہادت اور شناخت میں مدد گار ہوں گے۔ اور شناختی کارڈ بننے سے یہ مسئلہ کچھ بہتر ہوا ہے ۔ حالانکہ آج بھی پاکستان میں عام آدمی کم ہی کسی کو اسکی شناختی کارڈ کی وجہ سے شناخت کرتا ہے ۔ عام طور پہ ارد گرد کے لوگ ہی سوال و جواب کی صورت پتہ و مقام بتا دیتے ہیں۔
مگر جب پاکستانی اپنے ممالک سے باہر جاتے ہیں تو وہاں پہ فیملی نام نہ ہونے کی وجہ سے اور ایک ہی شہر میں ایک ہی نام سے دو سے زائد پاکستانی ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے لئے تکلیف دہ صورتحال جنم لیتی ہیں ۔ جس میں بنکوں کے اکاؤنٹ بلاک ہونے سے لیکر مختلف محکموں کے واجبات اور بل اور جرمانے وغیرہ ان لوگوں کے اکاؤنٹ سے کٹ جاتے ہیں جو ایک جیسے نام کی وجہ سے یہ تکلیف بھگتتے ہیں اور بعدمیں صورتحال کا درست علم ہونے پہ۔متعلقہ اداروں سے اپنی رقم واپس لینے کے لئے سر پھٹول کرتے پائے جاتے ہیں۔
بہت سے لوگوں کو رقم کی وصولی ۔یا پاکستان رقم بھیجنے پہ محض اس لئے نہیں وصول کی گئی کہ بھیجنے والے یا وصول کرنے والے کا نام بلیک لسٹ کیے جانے والے کسی مبینہ دہشت گرد کے نام کی طرح نام تھا۔
پاکستانی اداروں اور خاص کر ۔ نادرہ ۔ کو اس صورتحال کا کوئی حل نکالنا چاہیے۔ تانکہ بہت سے لوگ غیر ضروری طور پہ اس طرح کی صورتحال سے بچ سکیں ۔ نیز انہیں کسی سطح پہ یہ اہتمام بھی کرنا چاہیے کہ دیگر ممالک کے محکمہ داخلہ کے علم میں یہ بات لائی جائے کہ پاکستان میں بچے کی پیدائش پہ عام طور پہ محض دو نام رکھ دئیے جاتے ہیں ۔ جن کا خاندانی نام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بچے کے نام کے ساتھ خاندانی نام رکھنے کی پابندی نہیں اور نہ ہی اس کا رواج ہے۔ تانکہ ایک ہی جیسے نام رکھنے والے پاکستانیوں کو در پیش مشکلات میں سرکاری اداروں کو رہنمائی ہو سکے اور غیر متعلقہ لوگ عتاب یا پریشانیوں کا باعث نہ بنیں ۔
اسی طرح ایک اور مسئلہ جو بہت اہم ہے ۔ وہ ہے مقامی ، اردو، عربی اور فارسی کے ناموں کو انگریزی میں درج کرتے ہوئے انکے درست ہجوں کا ۔ مثال کے طور پہ ۔ محمد کو انگریزی میں لکھتے ہوئے ۔ بہت سے سرکاری ادارے اور خاص کر پا سپورٹ آ فسوں میں کلرک حضرات Mohammed اور Muhammad ان دو طریقوں سے لکھتے ہیں ۔ یعنی کہیں انگریزی کا حرف ”یُو“ ۔ اور کہیں انگریزی کا حرف ”او“ کے ساتھ ”محمد “ لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح کا معاملہ پاکستان میں بہت سے ناموں کے ساتھ ہے ۔۔ جن میں ۔جاوید۔ صدیق۔ اور دیگر کئی نام آتے ہیں۔
پاکستان کے مختلف سرکاری اداروں کے کلرک بابو ۔ ایک ہی فرد کا نام ۔ پاسپورٹ۔ اور دیگر کئی دستاویزات ۔ برتھ سرٹیفیکٹ ۔ نکاح نامہ وغیرہ پہ جن کا انگریزی میں ترجمہ کروانے پہ ۔ مختلف ہجوں سے لکھ دیا جاتا ہے ۔ جس سے غیر ممالک میں نہ صرف پاکستان کی جگ ہنسائی ہوتی ہے ۔ بلکہ سائل کو کئی بار اور کئی ماہ دفتروں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں اور خواری الگ سے ہوتی ہے۔
ہماری ذاتی رائے میں ۔ حکومت پاکستان کی ایماء پہ۔ نادرہ پاکستان میں رائج اور مستعمل ناموں کی ایک فہرست تیار کرے اور اسے لغات کی طرز پہ اردو کے سامنے درست انگریزی نام تجویز کرے۔ اور اس فہرست کو سبھی سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کو بھیج دیا جائے اور عام افراد کے لئیے اسے نادرہ کی ویب سائٹ پہ آن لائن شائع کر دیا جائے ۔تانکہ عام افراد اور نجی ادارے بھی اس سے استفادہ کر سکیں ۔ نیز سرکاری و نیم سرکاری اداروں کو آئیندہ کے لئیے پابند کیا جائے کہ وہ نادرہ کے۔ منظور و شائع کردہ ۔درست نام کے ساتھ دستاویزات جاری کریں گے۔ تانکہ مستقبل میں ایسی الجھنوں سے بچا جاسکے۔
کسی بھی حکومت ۔ متعلقہ اداروں اور ذمہ دار افراد کے لئیے یہ ایک معمولی مسئلہ ہے ۔ جسے حل کرنا چندا ںمشکل نہیں ۔ جس سے ۔اندرون و بیرون ملک پاکستانی بہت سی پیچیدگیوں سے محفوظ رہ سکیں گے ۔اور ملک کی جگ ہنسائی نہیں ہوگی۔

 

 

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

کولبیرٹ ازم ۔ برصغیر ہندؤستان۔ اور برئنیر رپورٹ۔چوتھی قسط


کولبیرٹ ازم ۔ برصغیر ہندؤستان۔ اور برئنیر رپورٹ۔ چوتھی قسط۔

برنئیر کی ہندؤستان کے بارے ۔مذہب سے لیکر خاندانی رسم و رواج ۔سیاست اور انتظامیہ کے متعلق معلومات انتہائی مفید تھیں۔ مالی اور اقتصادی مقابلے کے لئیے مسابقت کی دوڑ میں شامل ہونے سے قبل ضروری تھا۔ کہ ہر نقطہ نظر اور ہر زاویے سے ۔ اہم معلومات کے ساتھ (کسی ممکنہ مہم جوئی کی صور ت میں )کچھ اہم امور سرانجام دئیے جائیں۔اور اسی وجہ سے ریاستوں کو ایسے معاملات میں عام افراد اور نجی فرموں پہ برتری حاصل تھی۔”سابقہ ادوار یعنی حکومتوں میں نوآبادیت سے متعلقہ مسائل میں ایک بڑا الجھا ہوا مسئلہ ریاستوں اور کمپنیوں کے مابین ملکیت اور اختیارات کا مسئلہ تھا ۔ ملکیت اور اختیارات کے اس گنجلک مسئلے کے سیاسی اور مالی پہلو تھے ۔ اور اسے ”خصوصیت “ نام دیا گیا اور اس مسئلے کا حل”خصوصیت “ نامی نظام,( "L’exclusif” )پہ منحصر تھا۔ جسے بعد کی حکومتوں میں ”نوآبادیت معائدہ“ یعنی” کالونی پیکٹ “کا نام دیا گیا ۔(۱۴٭)۔

کمپنیوں کی کثیر جہتی سرگرمیاں عموماَ ایک تسلسل کے ساتھ ریاستوں کی مقرر کردہ سفارتی اور قانونی حدود پار کرتی رہتیں ۔ سترہویں صدی کے وسط سے (تجارتی مفادات حاصل ہونے۔ اور تجارتی مفادات کی اہمیت کے باوجود) کمپنیوں اور ریاستوں کی آپس میں ہمیشہ صلح نہیں رہتی تھی۔ یعنی آپس میں مفادات کا ٹکراؤ ہوتا تھا ۔(۱۵٭)۔

برنئیر اس ساری صورتحال کے بارے باخبر ہونے کی وجہ سے یہ جانتا تھا کہ اسکی مہیاء کردہ معلومات کسقدر اہم اور مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔اسلئیے وہ تمام تفضیلات اور جزئیات بیان کرتا ہے۔برنئیر لکھتا ہے”یہ نکتہ بہت اہم اور نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ مغل فرماں روا شعیہ نہیں جو علیؓ ( رضی اللہ تعالٰی عنہ) اور انکی آل کو مانتے ہیں۔ جیسا کہ ایران میں شعیہ مانتے ہیں ۔ بلکہ مغل فرماں روا محمدن ہے ۔ (صلی اللہ علیہ وسلم ) (یعنی سُنی مسلک رکھتا ہے) اور نتیجتاَمغل باشاہ کے دربار میں سُنی درباریوں کی اکثریت ہے ۔ ترکی کے مسلمانوں کی طرح انکامسلک سُنی ہے جو عثمانؓ ( رضی اللہ تعالٰی عنہ) کو ماننے والے ہیں ۔ اسکے علاوہ مغل فرماں روا کے ساتھ ایک اور مسئلہ ہے کہ مغل بادشاہ کے آباءاجداد غیر ملکہ ہونے کی وجہ سے خود مغل بادشاہ بھی غیر ملکی سمجھا جاتا ہے ۔ مغل بادشاہ کا نسب تیمور لنگ سے جا ملتا ہے جو تاتار کے منگولوں کا سردار تھا ۔ مغل بادشاہ کے اجداد ۱۴۰۱ء چودہ سو ایک عیسوی میں ہندؤستان پہ حملہ آور ہوئے ۔اور ہندؤستان کے مالک بن گئے۔اسلئیے مغل فرماں روا تقریباَایک دشمن ملک میں پایا جاتاہے۔ فی مغل بلکہ فی مسلمان کے مقابلے پہ سینکڑوں کٹڑ بت پرستوں اور مشرکوں (idolaters)کی آبادی ہے۔ اسکے علاوہ مغل شہنشاہیت کے ہمسائے میں ایرانی اور ازبک بھی مغل شہنشاہ کے لئیے ا یک بڑا درد سر ہیں ۔ جسکی وجہ سے امن کا دور ہو یا زمانہ جنگ مغل شہنشاہ بہت سے دشمنوں میں گھرا رہتا ہے اور ہر وقت دشمنوں میں گھرا ہونے کی وجہ سے مغل شہنشاہ اپنے آس پاس بڑی تعداد میں اپنی افواج دارالحکومت، بڑے شہروں اور بڑے میدانوں میں اپنی ذات کے لئیے تیار رکھتا ہے۔برنئیر کے الفاظ میں”آقا ۔(مائی لارڈ) اب میں آپ کو مغل شہنشاہ کی فوج کے بارے کچھ بیان کرتا چلوں کہ فوج پہ کتنا عظیم خرچہ اٹھتا ہے ۔ تانکہ آپ کو مغل شہنشاہ کے خزانے کے بارے کسی فیصلے پہ پہنچ سکیں“ ۔(۱۶٭)۔

فوجی شان و شوکت کی نمائش بہت کشادہ اور نمایاں طور پہ کی جاتی ہے۔ ۔مالیاتی کمپنیوں کی طرف سے فیکٹریوں کے قیام کی حکمت عملی کے بعد سے۔ مغل شہنشاہ کی طرف سے اس فوجی شان و شوکت کی نمائش کی اہم مالی اور فوجی وجوہات ہیں ۔کیونکہ اسطرح
۱)۔ مغل شہنشاہ یوں اپنی دفاعی صلاحیت کا عظیم مظاہرہ کرتا ہے ۔
۲)۔ مغل شہنشاہ یوں اتنی بڑی فوج پہ اٹھنے والے اخراجات کے ذریعیے مالی استحکام کا پیغام دیتا ہے ۔
۳)۔ مغل شہنشاہ یوں مختلف قوموں کے خلاف جیتے گئے محاذوں کی کامیابیوں کی دھاک بٹھاتا ہے
۴) مغل شہنشاہ یوں اپنی افواج کی نمائش سے فوجوں میں شامل مختلف قومیتوں اور قوموں کی کثیر النسل سپاہ کی شمولیت سے سے برابری اوراتنی قوموں کے بادشاہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔
۵)۔ مغل شہنشاہ اسطرح اپنے فوجی ساز و سامان کی نمائش سے کسی قسم کی ممکنہ بغاوت کو روند دینے کی طاقت اور قوت کا مظاہرہ کرتا ہے۔

اب ملاحظہ ہو ۔ اؤل ۔وہ فوج ہے جو شہنشاہ کی سرکاری فوج ہے ۔ اور جسکی تنخواہیں اور اخراجات لازمی طور پہ بادشاہ کے خزانے سے جاتی ہیں۔(۱۷٭)۔

”پھر وہ افواج ہیں ۔جن پہ راجوں کا حکم چلتا ہے ۔ بعین جیسے جے سنگھے اور دیگر ۔ جنہیں مغل فرماں روا بہت سے عطیات دیتا رہتا ہے تانکہ راجے وغیرہ اپنی افواج کو جن میں راجپوتوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے ۔ انہیں ہمیشہ لڑائی اور جنگ کے لئیے تیار رکھیں۔ ان راجوں وغیرہ کا مرتبہ اور رتبہ بھی بادشا ہ کے امراء کے برابر سمجھا جاتا ہے ۔ جو زمانہ امن میں فوجوں کے ساتھ شہروں میں اور میدان جنگ میں اپنی اپنی افواج کے ساتھ بادشاہ کی ذات کے گرد حفاظتی حصار کھینچے رکھتے ہیں ۔ان راجوں مہاراجوں کے فرائض بھی تقریباَوہی ہیں جو امراء کے ہیں۔ بس اتنا فرق ہے کہ امراء یہ فرائض قلعے کے اندر ادا کرتے ہیں۔ جبکہ کہ راجے وغیرہ فصیل شہر سے باہر اپنے خیموں میں بادشاہ کی حفاظت کا کام سر انجام دیتے ہیں“۔(۱۸٭)۔

برنئیر تفضیل پیان کرتا ہے کہ کس طرح جب راجے وغیرہ قلعے کے نزدیک آتے ہیں تو وہ اکیلے نہیں ہوتے بلکہ راجوں کے ساتھ وہ خصوصی سپاہی بھی ہوتے ہیں جو کسی بھی وقت حکم ملنے پہ اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتار دینے کے لئیے تیار رہتے ہیں ۔(۱۹٭)۔

مغل فرماں روا جن وجوہات کہ بناء پہ راجوں کی سے یہ خدمات لینا ضروری سمجھتا ہے ۔وہ وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔:
۱)۔راجوں کی سپاہ پیشہ ورانہ تربیت اچھی ہوتی ہے اور ایسے راجے بھی ہیں جو کسی وقت بھی بادشاہ کی کسی مہم کے لئیے بیس ہزار یا اس سے زیاہ گھڑ سوارں کے ساتھ تیار رہتے ہیں۔

۲)۔مغل بادشاہ کو ان راجوں پہ بھروسہ ہے جو بادشاہ کے تنخوادار نہیں ۔ اور جب کوئی ان راجوں میں سے سرکشی یا بغاوت پہ آمادہ ہو ۔ یا اپنے سپاہیوں کو بادشاہ کی کمان میں دینے سے انکار کرے۔ یا خراج ادا کرنے سے انکار کرے ۔ تو مغل بادشاہ انکی سرکوبی کرتا ہے اور انہیں سزا دیتاہے۔اس طرح یہ راجے بادشاہ کے وفادار رہتے ہیں۔(۲۰٭)۔

دوسری ایک فوج وہ ہے جو پٹھانوں کے خلاف لڑنے یا اپنے باغی امراء اور صوبیداروں کے خلاف لڑنے کے لئیے ہے۔ اور جب گولکنڈاہ کا مہاراجہ خراج ادا کرنے سے انکار کردے ۔ یا وسا پور کے راجہ کے دفاع پہ آمادہ ہو تو اس فوج کو گولکنڈاہ کے مہاراجہ کے خلاف لڑایا جاتا ہے ۔ یا ان فوجی دستوں سے تب کام لیا جاتا ہے جب ہمسائے راجوں میں سے کسی کو اس کی راج گدی سے محروم کرنا مقصود ہو۔ یا ان راجوں کو خراج ادا کرنے کا پابند کرنا ہو تو اس فوج کے دستے حرکت میں لائے جاتے ہیں ۔ان سبھی مندرجہ بالا صورتوں میں اپنے امراء پہ بھروسہ نہیں کرتا کیونکہ وہ زیادہ تر ایرانی النسل اور شعیہ ہیں۔جو بادشاہ کے مسلک سے مختلف مسلک رکھتے ہیں ۔(۲۱٭)۔

مسلکی اور مذہبی معاملات کو ہمیشہ مدنظر رکھا جاتا ہے۔ کیو نکہ دشمن کے مذہب یا مسلک کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک طرح یا دوسری طرح کی افواج کو میدانِ جنگ میں اتارا جاتا ہے ۔ اگر ایران کے خلاف مہم درپیش ہو تو امراء کومہم سر کرنے نہیں بیجھا جاتا کیونکہ امراء کی اکثریت میر ہے اور ایران کی طرح شعیہ مسلک رکھتی ہے۔ اور شعیہ ایران کے بادشاہ کو بیک وقت امام ۔ خلیفہ ۔ اور روحانی بادشاہ ۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے دامادعلیؓ (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کی آل مانتے ہیں۔ اسلئیے ایران کے بادشاہ کے خلاف لڑنے کو ایک جرم اور بہت بڑا گناہ سمجھتے ہیں۔ مغل بادشاہ اسطرح کی وجوہات کی بناء پہ پٹھانوں کی ایک تعداد کو فوج میں رکھنے پہ مجبور ہے۔اور آخر کار مغل بادشاہ مغلوں پہ مشتمل ایک بڑی اور بادشاہ کی بنیاد فوج کے مکمل اخراجات بھی اٹھاتا ہے ۔ مغل افواج ہندوستان کی بنیادی ریاستی فوج ہے۔جس پہ مغل فرماں روا کے بہت اخراجات اٹھتے ہیں ۔(۲۲٭)۔

اس کے علاوہ مغل فرماں روا ں کے پاس آگرہ میں ۔ دلی میں اور دونوں شہروں کے گرد و نواح میں دو سے تین ہزار گھڑ سوار کسی بھی مہم کو جانے کے لئیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔بادشاہ کی روز مرہ کی مہموں کے لئیے۔ بادشاہ کے پاس ۸۰۰ آٹھ سو سے ۹۰۰ نو سو تک کے لگ بھگ ہاتھی ہیں ۔بڑی تعداد میں خچر اور سامان کھینچنے والے گھوڑے ہیں۔ جن سے بڑے بڑے خیمے ۔ قناتیں ۔ بیگمات اور انکا سازوسامان ۔ فرنیچر ۔ مطبخ (باورچی خانہ)۔مشکیزے ۔اور سفر اور مہموں میں کام آنے والے دیگر سامان کی نقل و حرکت کا کام لیا جاتا ہے۔(۲۳٭)۔

مغل فرماں روا کے اخراجات کا اندازہ لگانے کے لئیے اس میں سراؤں یا محلات کے اخراجات بھی شامل کر لیں ۔جنہیں برنئیر ” ناقابل ِ یقین حد تک حیران کُن “ بیان کرتا ہے۔”اور جنہیں (اخراجات کو) آپکے اندازوں سے بڑھ کر حیرت انگیز طور پہ ناگزیر سمجھا جاتا ہے“۔ یہ محل اور سرائے ایسا خلاء ہیں جس میں قیمتی پارچات ۔ سونا۔ ریشم ۔ کمخوآب ۔ سونے کے کام والےریشمی پارچات ۔غسل کے لئیے خوشبودار گوندیں اور جڑی بوٹیاں ۔امبر ۔اور موتی ان خلاؤں میں گُم ہو جاتے ہیں۔”اگر مغل فرماں روا کے ان مستقل اخراجات جنہیں مغل فرما روا ں کسی طور نظر انداز نہیں کرسکتا اگر ان مستقل اخراجات کو مدنظر رکھاجائے تو مغل شہنشاہ کے ختم نہ ہونے والے خزانوں کے بارے آپ فیصلہ کر سکتے ہیں ۔ جیسا کہ مغل شہشنشاہ کے بارے بیان کیا جاتا ہے اور مغل شہنشاہ کی ناقابل تصور امارت جس کی کوئی حد نہیں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔(۲۴٭)۔”اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بادشاہ بہت بڑے خزانوں کا مالک ہے بلکہ ایران کے باشاہ اور آقا کے خزانوں کو ملانے سے بھی بڑھ کر مغل فرماں روا کے پاس ذیادہ خزانے ہیں۔(۲۴٭)۔

جاری ہے۔

(14) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., ob. cit., pág. 398.
(15) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., pág. 399.
(16) BERNIER, ob. cit., pág. 197.
(17) BERNIER, ob. cit., pág. 197.
(18) BERNIER, ob. cit., pág. 198.
(19) BERNIER, ob. cit., pág. 198.
(20) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(21) BERNIER, ob. cit., pág. 198, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(22) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(23) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15, 16 y 17.
(24) BERNIER, ob. cit., pág. 200.

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

 
%d bloggers like this: