جے آئی ٹی رپورٹ بھی ہوگئی۔
اب کیا ہوگا؟۔
کیا یہ سیریل آئندہ الیکشن تک چلے گا؟
اگر یوں ہوتا ہے کہ یہ سیریل آئندہ الیکشن تک چلتی ہے تو کیا اس کا یہ مطلب واضح ہے کہ گو کہ اس سیریل کے تمام اداکار پاکستانی ہیں مگر اس سیریل کو ڈائریکٹ کہیں اور سے کیا جارہا ہے؟
جنرل ایوب خان نے اپنی کتاب "فرینڈز ناٹ ماسٹرز” Friends Not Masters, میں آقاؤں کی طوطا چشمی کے شکوے کئیے ہیں اور ان کی بے وفائی کا دکھڑا بیان کیا ہے۔ اور ایوب خان کے خلاف بھی لانگ مارچ کا ہی فارمولہ آزمانے اور انہی طاقتوں کی ایماء پہ برسراقتدار آنے والے بڑے بھٹو مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار کے آخری ایام میں اپوزیشن جماعتوں کے قومی اتحاد اور بعد ازاں نظامِ مصطفی نامی تحریک کے زبردست دباؤ کے بعد پی ٹی وی پہ اپنی آخری تقریر میں امریکہ کو سفید ہاتھی گردانتے ہوئے یہی واویلہ کیا کہ ہائے ہائے مجھے بنانے والے مجھے گرانے پہ آمادہ ہیں۔
انہی طاقتوں کے اشارے پہ گرم سیاسی ماحول میں اسلامی نظام کا نعرہ لگا کر تختِ اسلام آباد پہ قبضہ جمانے والے جنرل ضیاء الحق بھی اپنے آخری دنوں میں اپنے انجام سے آگاہ ہوچکے تھے کہ آقاؤں کا دستِ شفقت انکے سر سے اٹھ چکا ہے اور وہ آج یا کل دیر یا سویر سے اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں۔ اسی لئیے وہ اپنے آخری دنوں میں امریکی سفیر اور اپنے جرنیلوں سمیت ہر اس شخص کو اپنے ساتھ لئیے پھرتے تھے جس پہ انہیں اپنے خلاف کسی سازش میں شریک ہونے کا ذرہ بھر بھی شائبہ تھا۔ اور بہاولپور فضائی حادثے میں مارے جانے والے پاکستان کے انتہائی ذمہ دار لوگوں کے ایک ہی طیارے میں سوار ہونے کی یہ بھی ایک وجہ تھی۔
موجودہ دور میں پاکستانی مسنندِ اقتدار پہ قابض ہونے والوں میں سے جنرل مشرف شاید وہ واحد کردار ہے جس نے ہدایت کاروں کی ہر فرمائش ان کی توقعات سے بڑھ کر پوری کی اور جب جنرل مشرف کو مسندِ اقتدار سمیٹنے کا اشارہ ہوا تو اس نے بلا چون چرا جان کی امان پاؤں کے صدقے اپنا بوریا لپیٹا اور اُدہر کو سدھار گئے جدہر سے انہیں جائے امان کا وعدہ کیا گیا تھا۔
ایسے ھی اچانک سے ڈرامائی طور پہ زرداری پاکستان کے صدر بن گئے۔ کیا تب صرف چند ماہ بیشتر کسی کے وہم گمان میں تھا کہ بے نظیر وزیر اعظم بننے کی بجائے زرداری پاکستان کے مختارِکُل قسم کے صدر بن جائیں گے؟۔ ہماری قومی یاداشت چونکہ کچھ کمزور واقع ہوئی ہے اگر کسی نے یاداشت تازہ کرنی ہو تو اس دور کے الیکشن سے چند ماہ قبل کے اخبارات اور ٹی وی مذاکروں کا مطالعہ و نظارہ کر لیں۔ جن میں بے نظیر کے ہوتے ہوئے زرداری کے صدر یا وزیر اعظم بننے کا خیال تک بھی کسی سیاسی جغادر کے وہم و گمان سے گزرا ہو۔ صرف چند ماہ میں زرداری پاکستان کے مختار کل قسم کے صدر تھے۔
زرداری حکومت میں نواز شریف عدلیہ بحالی کا عزم لے کر لاہور سے اسلام آباد کو ایک جمِ غفیر لے کر نکلے۔ عوام کا ٹھاٹا مارتا سمندر ساتھ تھا۔ زرداری حکومت چند دن میں ڈیڑھ سو کلو میٹر کی دوری پہ انجام پزیر ہوسکتی تھی۔ قومی یادشت کو تازہ کی جئیے کہ تب امریکی صدر اور سفیر اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل کیانی کے یکے بعد دیگرگوجرانوالہ نواز شریف کو فون آئے اور نواز شریف عام عوام کی توقعات اور امیدوں کے بر عکس تب گوجرانوالہ سے واپس لاہور سدھار گئے۔ سوجھ بوجھ والوں نے تب ھی فال ڈال دی کہ مک مکا ہوگئی ہے اور زردای کو ٹرم پوری کرنی دی جائے گی اور آئندہ ویز اعظم نواز شریف ہونگے۔ اور مڈٹرم کے طور یہی کلیہ نواز شریف کے خلاف مختلف مارچوں اور دھرنوں کے ذرئیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی مگر عام عوام کی عدم دلچسپی یا آئے دن کے بے مقصد سیاسی ہنگامہ آرائی سے بیزارگی کی وجہ سے یہ ایکٹ کامیاب نہ ہوسکا۔
کسی بھی قیمت پہ اقتدار میں آنے والے جب طے شدہ شرائط پہ کام کرنے کے بعد خالص اپنے ذاتی جاہ حشمت کو برقرار رکھنے کے لئیے کنٹریکٹ کوغیر ضروری طور پہ طوالت دینے کی ضد کریں۔ یا دی گئی بولی سے انحراف کریں تو ان کا انجام بخیر نہیں ہوتا۔
مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی قیمت پہ اقتدار کے خواب دیکھنے والے بچہ سقوں کی ہمارے ہاں کمی نہیں۔ مگر ایسے خوابوں کو پایہ تکمیل پہنچانے والی یا اقتدار کو استحکام بخشنے پہ قدرت رکھنے والی وہ طاقتیں جوبیرونِ پاکستان سے کٹھ پتلی تماشے کی ڈوریاں ہلاتی ہیں وہ کسی ایسے ڈھیلے ڈھالے کردار کو مسند اقتدار کا ایکٹ نبھانے کی اجازت دینے پہ تیار نہیں جو موجودہ دور میں پاکستانی اسٹیج پہ اپنے کردار اور ایکٹ کو زبردست عوامی پذیرائی اور عوام کی طرف سے پرجوش تالیوں کے استقبال کی اہلیت نہیں رکھتا۔
کیا پاکستان کے مفادات کے خلاف پھر سے بولی ہوگی؟ جو بڑھ کر بولی دے گا اسے مسند اقتدار بخشا جائے گا؟
کیا نئے مناسب اداکار دستیاب نہ ہونے کی صورت میں پرانی ٹیم نئی شرطوں اور تنخواہ پہ کام کے لئیے منتخب کی جائے گی؟
کیا ہمارے خدشات محض خدشات ثابت ہونگے۔اللہ کرے ہمارے خدشات محض خدشات ثابت ہوں۔
پردہ اٹھنے میں دیر ہی کتنی ہے؟ نئے انتخابات میں عرصہ ہی کتنا رہتا ہے؟
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: "فرینڈز, )کچھ, Friends, Masters, Not, ہلاتی, ہماری, ہمارے, ہنگامہ, ہو, فون, ہونے, ہوچکے, ہونگے۔, ہونگے۔اللہ, ہو۔, ہوگی؟, ہوگئی, ہوگئی۔اب, ہوگا؟۔کیا, ہوں۔پردہ, ہوئی, ہوئے, ہوا, ہوتا, ہوتا۔, ہوسکا۔کسی, ہوسکتی, ہی, ہیں, ہیں۔, ہے, ہے۔, ہے؟, ہے؟جنرل, ہال, ہاں, ہائے, ہاتھی, فارمولہ, ہدایت, ہر, فرمائش, فضائی, قومی, قیمت, قابض, قبل, قبضہ, قتدار, قدرت, قسم, لوگوں, لیں۔, لے, لگا, لپیٹا, لئیے, لاہور, لانگ, مفادات, مقصد, مناسب, منتخب, مڈٹرم, موجودہ, میٹر, میں, مک, مکا, مگر, ماہ, ماحول, مارچ, مارچوں, مارے, مارتا, ماسٹرز", مجھے, محض, مختلف, مختار, مختارِکُل, مذاکروں, مرحوم, مسنند, مسند, مسندِ, مسئلہ, مشرف, مصطفی, مطلب, مطالعہ, نہ, نہیں, نہیں۔, چلے, چلتی, چند, نون, چونکہ, نواز, چیف, نے, نکلے۔, چکا, نئی, نئے, نامی, ناٹ, نبھانے, چرا, چشمی, نظیر, نظام, نظامِ, نظارہ, نعرہ, و, وہ, وہم, وفائی, ڈوریاں, وی, ڈیڑھ, ویز, ڈھیلے, ڈھالے, واقع, ڈال, والوں, والی, والے, واویلہ, واپس, ڈائریکٹ, واحد, واضح, وجہ, ڈرامائی, وزیر, وعدہ, یہ, یہی, یوں, یکے, یا, یاداشت, یادشت, کہ, کہیں, کل, کلو, کلیہ, کمی, کمزور, کنٹریکٹ, کو, کوشش, کوغیر, کی, کیا, کیانی, کے, کٹھ, کئیے, کا, کام, کامیاب, کاروں, کتنی, کتنا, کتاب, کر, کرنی, کرنے, کریں, کریں۔, کرے, کرادر, کردار, کسی, گمان, گڈ, گوجرانوالہ, گی, گی؟کیا, گیا, گے؟۔, گئی, گئے, گئے۔, گا, گا؟, گا؟اگر, گرم, گرانے, گردانتے, گزرا, ٹی, ٹیم, ٹھاٹا, ٹرم, پہ, پہنچنے, پہنچانے, پوری, پی, پھر, پھرتے, پایہ, پاکستان, پاکستانی, پاؤں, پتلی, پذیرائی, پرانی, پرجوش, پزیر, آقاؤں, آمادہ, آنے, آگاۃ, آئندہ, آئی, آئے, آباد, آج, آخری, آرمی, آرائی, آزمانے, اہلیت, اقتدار, الیکشن, الحق, امیدوں, امان, امریکہ, امریکی, ان, انہی, انہیں, انکے, اچانک, انتہائی, انتخابات, انجام, انحراف, اور, ایماء, ایوب, ایک, ایکٹ, ایام, ایسے, اگر, اٹھ, اٹھنے, اپنی, اپنے, اپنا, اپوزیشن, اپے, ااور, اتحاد, اجازت, اخبارات, ادہر, اداکار, ازاں, اس, اسلام, اسلامی, اسی, اسے, اسٹیج, استقبال, استحکام, استعمال, اشارہ, اشارے, اعظم, بہاولپور, بلا, بن, بچہ, بننے, بنانے, بولی, بوجھ, بوریا, بیان, بیزارگی, بیشتر, بڑے, بڑھ, بے, بھی, بھٹو, بھر, بجائے, بحالی, بخنے, بخیر, بخشا, بر, برقرار, برسراقتدار, بعد, تقریر, تمام, تماشے, تنخواہ, تو, توقعات, تیار, تک, تکمیل, تھی۔, تھی۔موجودہ, تھے, تھے۔زرداری, تھا, تھا۔, تھا۔ایسے, تالیوں, تازہ, تب, تحریک, تختِ, ثابت, جمِ, جمانے, جماعتوں, جن, جنرل, جو, جوبیرونِ, جے, جئیے, جاہ, جان, جانے, جائیں, جائے, جارہا, جب, جدہر, جرنیلوں, جس, جغادر, حکومت, حادثے, حشمت, خلاف, خواب, خوابوں, خیال, خالص, خان, خدشات, دلچسپی, دن, دنوں, دور, دوری, دی, دینے, دیکھنے, دیگرگوجرانوالہ, دیر, دے, دکھڑا, دھرنوں, دار, دباؤ, دستیاب, دستِ, ذمہ, ذوالفقار, ذاتی, ذرئیے, رہتا, رکھنے, رکھتا۔کیا, رپورٹ, زبردست, زرہ, زردای, زرداری, سفید, سفیر, سقوں, سمندر, سمیٹنے, سمیت, سو, سویر, سوار, سوجھ, سیاسی, سیریل, سے, سایسی, ساتھ, سازش, سدھار, سر, شفقت, شکوے, شاید, شائبہ, شخص, شدہ, شریف, شریک, شرائط, شرطوں, صورت, صدقے, صدر, صرف, ضیاء, ضد, ضروری, طوالت, طور, طوطا, طیارے, طے, طاقتوں, طاقتیں, طرف, علی, عوام, عوامی, عکس, عام, عدلیہ, عدم, عرصہ, عزم, غفیر
بلی تھیلے سے باہر۔۔۔
زیادہ وقت نہیں گزرا بھارتی وزیر اعظم افغانستان سے واپسی پہ اپنے لاؤ لشکر سمیت اچانک لاہور ائر پورٹ پہ اترے۔
ایک دوسرے سے خبر دینے میں سبقت لے جانے کی دوڑ میں میڈیا کاسٹرز کی آواز کانپ رہی تھی۔ اس اچانک افتاد کے آن پڑنے سے حکومت پاکستان کے اہلکاران اور اعمال کے ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے۔ انھیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ اور حکمران پھولے نہیں سما رہے تھے۔ بھاگم بھاگ دونوں دونوں ہاتھوں سے مودی کو جھپیاں ڈال رہے تھے۔ پاکستان کے ساتھ سبھی تصفیہ طلب مسائل باالخصوص کشمیر پہ بھارت کا غاصبانہ قبضہ۔ پاکستانی دریاؤں کا پانی روکنے کی ناپاک کوششیں۔ پاکستان کے اندر دہشت گردی۔ پاکستان کے خلاف معاندانہ پروپگنڈہ۔ اور دیگر مسائل کو بائی پاس کرتے ہوئے۔ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہمارے وزیر اعظم اور مودی کی تصاویر ہر طرف گردش کر رہی تھیں۔ بھارتی وزیراعظم مودی ریاستِ پاکستان کی بجائے ہمارے حکمرانوں کے ذاتی دوست ہونے کا تاثر چھوڑنے میں کامیاب رہے۔ اور عوام حیران پریشان تھے کہ ہم کسے اپنا کہیں؟ کسے دشمن جانیں ؟
اس سے بھی کچھ اور عرصہ قبل پیچھے چلے جائیں۔ جب مودی گجرات کے مسلمانوں کے خون سے غسل کر کے پورے بھارت کے مسلمانوں کو دیوار کے ساتھ لگاتے بھارت کا وزیر اعظم بنے تو ہمارے وزیر اعظم مودی کی حلف برداری کی تقریب پہ پہنچے۔ پھر ساڑھیوں۔ شالوں اور نیک خواہشات کے تبادلے ہوئے۔ نیک خواہشات جو محض وزیر اعظم پاکستان کے افرادِ خانہ کے لئیے تھیں۔ جن میں پاکستان اور پاکستانی قوم کے لئیے کچھ نہ تھا۔ نہ کوئی نیک خواہش نہ کوئی پیغام ۔ کچھ بھی نہیں تھا۔ مگر وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز جنہیں کچھ حلقوں کی جانب سے نائب وزیراعظم بھی کہا جاتا ہے۔ وہ ٹوئٹر پہ ساڑھیوں کی تفضیل اور رنگت بیان کرتیں پھولی نہیں سماتیں تھیں۔
پھر ہمیشہ کی طرح لہو لہو رستے کشمیر کے باسیوں نے ایک بار پھر جہاں اپنے خون اور جانوں کی قربانی دے کر بھارت۔ اور بھارتی حکمرانوں کے اصل چہروں کو بے نقاب کردیا ہے۔ وہیں پاکستان میں بھارت سے امن کی آشا کے راگ الاپنے والوں۔ تنخواہ دار غلاموں۔ زر خرید سیاستدانوں۔ بھارت سے امن آتشی کے منتر پڑھنے والے جعلی دانشوروں۔ اور بھارت کی حمایت میں بھانت بھانت کی بولی بولنے والے میڈیا پرسنز کے منہ سے بھی نقاب نوچ ڈالا ہے۔
سارک ممالک کے وزرائے داخلہ کے عمومی اجلاس میں شرکت کے لئیے بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ روائتی بھارتی گھمنڈ میں میزبان پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار سے ملاقات کسی طور نہ کرنے کا پیشگی بیان دے کر اسلام آباد پہنچے۔ تفاخر اور بھارتی برہمنی گھمنڈ میں اجلاس کے دوران میزبان ملک کی عزت کو روندنے کی جسارت کرتے ہوئے پاکستان پہ برسے اور جب لالہ جی کو پاکستانی وزیر داخلہ نے انکی اوقات یاد دلائی تو موصوف خفت کے مارے منہ چھپاتے وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے اور نئی دلی پہنچ کر دم لیا۔
اجلاس کے دوران وہ چھ سے آٹھ مرتبہ واش روم گئے اور فون پہ بھارتی وزیر اعظم کو لمحے لمحے کی روداد سناتے اور مزید نئی ہدایات لیتے۔
جب کہ ہمارے یہاں وزیر داخلہ چوہدری نثار کے علاوہ سبھی حکمرانوں بشمول وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کسی نے اس بارے دو الفاظ تک ادا نہیں کئیے۔ جبکہ چوہدری نثار نے ایک پاکستانی اور پاکستانی رہنماء ہونے کا حق ادا کیا۔
چند ہی دنوں بعد کوئٹہ کا حالیہ افسوسناک دھماکہ ہوا اور اس سانحہ میں بہتر سے زائد لوگ جان سے گئے ۔شہید ہوئے۔ جن میں کم ازکم پچپن وکلاء تھے۔
قومی اسمبلی اور قومی اسمبلی سے باہر بھانت بھات کی بولی بولنے والے کچھ لوگوں اور سیاستدانوں نے قوم کو ایسے نازک موقع پہ دہشت گردی کے خلاف متحد ہونے کا پیغام دینے کی بجائے ایک نہائت منظم طریقے سے لاکھوں جانوں کی قربانی دینے والے پاکستان کی قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے خلاف الزامات تراشی کی اور بھارت سے معذرتی رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے بھارت اور افغانستان کا کھایا نمک حلال کیا اور پاکستانی سے نمک حرامی کرتے ہوئے بیانات داغے۔ یہاں بھی ایک بار پھر چوہدری نثار اور کچھ دیگر محبانِ وطن نے ایسے احمقوں کو کھری کھری سنائیں۔
رات۔ آج رات بھارتی وزیر اعظم نے کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک کو دبانے کے لئیے بلائی گئی بھارت کی کل جماعتی کانفرنس میں مقبوضہ کشمیر اور اسکے مظلوم عوام پہ اپنا تسلط برقرار رکھتے ہوئے ہر قسم کے بین القوامی اخلاقی ضابطوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نہائت ڈھٹائی سے الٹا پاکستان سے بلوچستان اور آزاد کشمیر کا حساب مانگنے کی یاوہ گوئی کی ہے اور حسب معمول پاکستان کے خلاف معاندانہ زبان استعمال کی ہے یعنی بلی کھل کر تھیلی سے باہر آگئی ہے۔
اب جب کہ بھارتی وزیر اعظم نے اپنے چہرے سے نقاب اتار پھینکا ہے اور بھارت کی پاکستان سے ازلی دشمنی کا چہرہ کھل کر سامنے آگیا ہے تو کیا ہم امید رکھیں کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی لن ترانیوں کا جواب اس بار پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف دیں گے؟ یا اس بار بھی یہ بار چوہدری نثار اور کچھ سر پھروں کو اٹھانا پڑے گا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستانی وزیر داخلہ کے خلاف مشکوک ماضی رکھنے والوں اور کرپٹ سیاستدانوں نے ایک محاذ کھڑا کر دیا ہے اور پاکستانی کے قومی سلامی کے ذمہ دار اداروں کے خلاف بھی پروپگنڈہ اور شکوک کا ایک محاذ کھول دیا ہے۔ اور بد قسمتی سے دن بدن اس میں تندہی لائی جارہی ہے۔
ایسے حالات میں جب قوم ایک ایک کا منہ دیکھ رہی ہے۔ کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف گو مگو اور صاف نظر بھی نہیں آتے صاف چھپتے بھی نہیں کی صورتحال سے باہر نکلیں اور بھارتی وزیر اعظم کی یاوہ گوئی کا بے دھڑک جواب دیں اور بھارت سمیت دنیا کو یہ پیغام دیں کہ اصل مسئلہ مقبوضہ کشمیر ہے جسے حل کئیے بغیر بھارت سے دوستی کے اقدامات بے معنی ہیں۔ اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لئیے عالمی برادری کو بھارت پہ دباؤ بڑھانا چاہئیے۔
اس طرح وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کا اپنا امیج بھی بہتر ہوگا اور مودی کی ذاتی دوستی کی بجائے پاکستان کے مفادات کی ترجیج بھی عیاں ہو گی اور قوم جو ان دنوں کی پے در پے بیان بازیوں پہ سے حیران پریشان ہے انھیں یہ احساس ہوگا کہ ملک و قوم کے تمام ادارے اور حکمران پاکستان کی حفاظت، ملک میں پھیلی دہشت گردی کے خلاف اور کشمیر کے نہتے مسلمانوں کو آزادی دلوانے کے لئیے ایک ہی پیچ پہ کھڑے ہیں۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, ہو, ہونے, ہوں, ہوئے, ہوا, ہوتی, ہوتا, ہی, ہیں۔, ہے۔, ہر, قوم, قومی, قائم, لوگ, لئیے, ملک, مگر, مثال, محض, نہ, نہیں, نے, نام, و, وہ, وقت, والی, والے, وجہ, یوں, یا, یعنی, ۔اور, کہ, کوئی, کی, کیا, کرنے, کرنا, کرتے, کرتا, کسی, گیا, گئی, پیش, پاکستان, پاکستانی, آپ, ان, انکی, اگر, اپنی, اپنے, اپنا, اختیار, اسکے, بہت, بلکہ, بیان, بے, بھی, بات, بارے, بعد, تو, تک, تھا, تحت, ترقی, جن, جو, جان, جانے, جائے, جاتی, جاتا, جب, جس, حکومت, حد, دنیا, دو, دور, دینے, دیگر, دیا, دیتے, ریاست, زندگی, سیاسی, ساتھ, سرکاری, طور, طرح, عوام, عام

youm e khtam e naboowaut
یومِ تحفظ ختمِ نبوتﷺ ۔
فتنہِ قادیانیت اور پاکستان
7 ستمبر 1974ء ۔سات ستمبر انیس چوہتر سنہ ء کا دن۔ پاکستان کی تاریخ کا تابناک دن ہے ۔جس دن قادیانیوں ، المعروف مرزائیوں۔ المعروف احمدیوں بشمول لاہوری گروپ کو پاکستان کی پارلیمنٹ سے متفقہ طور پہ آئین کی رُو سے کافر قرار دیا گیا تھا ۔اور اس مرحلے تک پہنچنے کے لئیے مسلمانوں نے اپنی ان گنت جانوں کا نذارنہ پیش کیا تھا۔ اور ایک نہائیت لمبی ۔ کھٹن اور صبر آزماجدو جہد کی تھی ۔اور اگر اس طویل جد و جہد پہ روشنی ڈالی جائے ۔تو بلا مبالغہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئیے کی گئی کوششوں کو بیان کرنے کے لئیے ۔کئی صخیم کتب لکھنی درکار ہونگی ۔ اسلئیے ہم کوشش کریں گے کہ دین اسلام کے اس موجودہ اور تاریخ اسلام کے غالباً سب سے بڑے فتنے ” قادیانیت“ پہ اپنی سی حد تک روشنی ڈالیں۔
عقیدہ ختم نبوت ﷺ پہ اسلام کی اساسی بنیاد کھڑی ہے ۔اگر عقیدہ ختم نبوت ﷺ پہ آنچ آتی ہے تو براہِ راست ایمان اور اسلام پہ آنچ آتی ہے ۔ عقیدہ ختم نبوت ﷺ پہ قرآن کریم کی ایک سو سے زائد آیات اور دو سو سے زائد احادیثِ نبوی ﷺ موجود ہیں۔
عقیدہ ختم نبوت ﷺ کا تحفظ ہر مسلمان کا فرض اور نبی کریم ﷺ کے امتی ہونے کے دعویدار پہ فرض اور یومِ قیامت کو نبی کریم ﷺ کی شفاعت کا باعث ہے۔
عقیدہ ختم نبوت ﷺ پہ پوری مسلمان امت کا قرون ِ اولٰی سے یہ اجماع رہاہے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔ اور نبوت نبی کریم محمد ﷺ پہ ختم ہے ۔ اور تحفظِ ختم نبوت ﷺ کے عقیدے کے لئیے مسلمانوں کو بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئیے ۔
تحفظ ختمِ نبوتﷺ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے ہے کہ خاتم الانبیاء نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کے دوران اسلام کی خاطر جان دینے والے۔ بشمول بڑے ۔ بچے ۔ خواتین اورضعیفوں کے۔ شہداءکی کل تعداد دو سو اناسٹھ 259 تھی ۔ کفار کے جہنم واصل ہونے والوں کی کل تعداد سات سو اناسٹھ 759 تھی۔ جو کل ملا کر ایک ہزار ایک سو اٹھارہ 1018 بنتی ہے۔ مگر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں جب مسلیمہ کذاب نے جھوٹی نبوت کا دعواہ کیا ۔تو عقیدہ ختم ِ نبوت کے تحفظ کی خاطر جنگ میں بائیس ہزار 22000 مرتدین کو تہہ تہیغ کیا گیا۔ اور بارہ سو کے قریب 1200کے قریب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جامِ شہادت نوش کیا ۔ جن میں سے چھ سو 600 قران کریم کے حافظ اور قاری رضی اللہ عنہم شہید ہوئے ۔ اس جنگ میں غزوہ بدر کے غازی اصحابہ اکرام رضی اللہ عنہم نے بھی جامِ شہادت نوش کیا۔ یعنی اس بات سے اندازہ لگایا جائے کہ تحفظ عقیدہ ختم نبوت ﷺ کی خاطر صرف ایک جنگ میں نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں شہید ہونے والے کل شہداء سے کئی گنا زائد مسلمان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے۔ اور نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں جہنم واصل ہونے والے کافروں سے کئی گنا زائد مرتد محض اس ایک جنگ میں قتل ہوئے ۔
عقیدہ ختم نبوت ﷺ مسلمانوں کے نزدیک اس قدر حساس عقیدہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے نزدیک خاتم الانبیاء نبی کریم ﷺکے بعد نبوت کے کسی مدعی سے اسکی نبوت کی دلیل یا معجزہ مانگنا بھی اس قدر بڑا گناہ ہے کہ اسے کفر قرار دیا ہے۔ یعنی ایک مسلمان کا عقیدہ ختم نبوت ﷺ پہ اس قدر ایمان مضبوط ہونا چاہئیے کہ وہ نبوت کے دعویداروں سے اسکی نبوت کی دلیل یا معجزہ نہ مانگے ۔ بلکہ نبوت کے جھوٹے دعویدار کو اسلام کی تعلیمات کے مطابق سزا دے ۔اس لئے ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ عقیدہ ختم نبوت ﷺ کے لئیے اپنا کردار ادا کرے ۔ نئی نسل اور آئیندہ نسلوں کے ایمان کی حفاظت کی خاطر قادیانیت کے کفر اور ارتداد کا پردہ چاک کرے تانکہ روز قیامت سرخرو ہو اور خاتم الانبیاء نبی کریم ﷺ کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔
قادیانی اپنے آپ کو’’ احمدی ‘‘کہلواتے ہیں ۔ قادیانی اپنے آپ کو مسلمان اور مسلمانوں کو کافر شمار کرتے ہیں ۔ اور اس رُو سے قادیانی نہ صرف کافر ہیں بلکہ زندیق بھی ہیں ۔ جو اپنے کفر کو دہوکے سے اسلام اور اسلام کو کفر بیان کرتے ہیں۔ اور یوں مسلمانوں کو دہوکہ دیتے ہیں ۔قادیانیوں کے نزدیک جس دین میں نبوت جاری نہ ہو وہ دین مردہ دین ہے۔اور یوں قادیانی ۔ اسلام کو نعوذ باللہ مردہ دین قرار دیتے ہیں۔قادیانیوں کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام سولی پر لٹکا ئے گئے۔ قادیانی مکہ مکرمہ کی طرح قادیان کو ارض حرم قرار دیتے ہیں ۔انگریز کی اطاعت کو واجب قرار دیتے ہیں ۔اور انگریزوں کی ہدایت پہ مرزا نے جہاد کو غداری قرار دیا ۔قادیانی جہاد کے خلاف ہیں۔
مرزا غلام احمد قادیان کے بارے سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے ستمبر 1951 ء میں کراچی میں عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا ۔ ”تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی میں یہ کمزوریاں اور عیوب تھے۔ اس کے نقوش میں توازن نہ تھا۔ قدوقامت میں تناسب نہ تھا۔ اخلاق کا جنازہ تھا۔ کریکٹر کی موت تھی۔ سچ کبھی نہ بولتا تھا۔ معاملات کا درست نہ تھا۔بات کا پکا نہ تھا۔ بزدل اور ٹوڈی تھا۔تقریر و تحریر ایسی ہے کہ پڑھ کر متلی ہونے لگتی ہے لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اگر اس میں کوئی کمزوری بھی نہ ہوتی۔ وہ مجسمہ حسن و جمال ہوتا ۔قویٰ میں تناسب ہوتا۔چھاتی45 انچ کی۔کمر ایسی کہ سی آئی ڈی کو بھی پتہ نہ چلتا۔ بہادر بھی ہوتا۔کریکٹر کا آفتاب اور خاندان کا ماہتاب ہوتا۔ شاعر ہوتا۔ فردوسی وقت ہوتا۔ابوالفضل اس کا پانی بھرتا۔خیام اس کی چاکری کرتا۔غالب اس کا وظیفہ خوار ہوتا۔انگریزی کا شیکسپیئر اور اردو کا ابوالکلام ہوتا پھر نبوت کا دعویٰ کرتا تو کیا ہم اسے نبی مان لیتے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ میاں! آقا ﷺکے بعد کائنات میں کوئی انسان ایسا نہیں ۔جو تخت نبوت پر سج سکے اور تاج نبوت و رسالتﷺجس کے سر پر ناز کرے“۔
فتنہ ِ قادیانیت کا بانی اور اسکے جانشین ۔
فتنہ ِ قادیانیت کا بانی مرزا غلام احمد کذاب انگریزی دور میں موجودہ بھارت میں واقع قادیان (تحصیل بٹالہ ،ضلع گورداسپور،مشرقی پنجاب ، بھارت) میں اٹھارہ سو انتالیس یا چالیس 1839ء یا 1840 سنہ عیسوی میں پیدا ہوا۔اور اسی قادیان کی مناسبت کی وجہ سے قادیانی اور اسکے فتنے کو قادیانی فتنہ یا قادیانیت قرار دیا گیا ۔جبکہ مرزا ئی ۔ قادیانی اپنے آپ کو احمدی کہلوانے پہ مصر ہیں۔ اور ان میں بھی دو فرقے ہیں ۔ قادیانیوں کا دوسرا فرقہ لاہوری گروپ ہے۔
برصغیر ہندؤستان پہ قابض انگریزوں کی چھتری تلے مرزا غلام احمد قادیان نے 1883ء سے 1908ء تک اپنے آپ کو بتدریج مُلھم۔ محدث۔ مامور مِن اﷲ۔ امام مہدی ۔مثیلِ مسیح۔مسیح ابن مریم۔نبی۔حاملِ صفات باری تعالی ۔ا ور اس کے علاوہ بھی بہت سے لغو۔ متضاد اور اگنت دعوے کئیے ۔ اور دو مئی انیس سو آٹھ 2 مئی 1908 کو ہیضے میں مبتلاء ہو کر لاہور میں ہلاک ہوا۔ جسکے بعد حکیم نور دین اس فتنے کا جانشین اول (قادیانیوں کے نزدیک خلیفہ اول)ٹہرا۔اور تین مارچ انیس سو چودہ 3 مارچ 1914 سنہ ء کو نوردین کے مرنے کے بعد قادیانی جماعت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ۔ قادیان جو اس فتنہِ خباثت کا مرکز تھا۔ اس پہ مرزا غلام احمد قادیان کے بیٹے مرزا محمود نے قبضہ جما لیا۔ اور قادیانی حصے کے دوسرے دھڑے کا سربراہ مرزا محمد علی ٹہرا اور مرزا محمد علی نے لاہور کو اپنا مرکز بنایا۔
پاک بھارت باؤنڈ ری کمیشن ریڈ کلف کو۔ قادیانیوں نے اپنے آپ کو باقی مسلمانوں سے الگ ظاہر کرتے ہوئے۔ ایک فائل بنا کر دی کہ ہم مسلمانوں سے الگ ہیں۔ لہٰذاہ ہمیں قادیان میں الگ ریاست دی جائے ۔ جس پہ پاک بھارت باؤنڈ ری کمیشن نے انکار کر دیا۔ انکار کے بعد مرزا غلام احمد قادیان کے بیٹے مرزا محمود (قادیانیوں کے نزدیک خلیفہ دوئم ) نے پاکستان کے ضلع چنیوٹ میں ایک مقام (چناب نگر) کو ”ربوہ“ کا نام دے کر اسے قادیانیت کا مرکز بنایا۔ مرزا کے جانشین دوئم کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے مرزا ناصر (قادیانیوں کے نزدیک خلیفہ سوئم )نے قادیانیوں کی جانشینی سنبھالی ۔
10اپریل 1974ء کو رابطہ عالم اسلامی نے مکہ مکرمہ میں قادیانیوں کو متفقہ طور پہ کافر قرار دیا۔
7ستمبر 1974ء کو ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کی دونوں جماعتوں ۔ قادیانی اور لاہوری گروپ کو ہر دو گروہوں کو خارج از اسلام قرار دینے کا متفقہ دستوری اور تاریخ ساز فیصلہ کیا ۔ اور آئین کی رُو سے قادیانیوں ۔ بشمول قادیانیوں کے لاہوری گروپ کو کافر قرار دیا ۔اور آئین کی رُو سے قادیانیوں پہ انکے کفر کی وجہ سے ریاستِ پاکستان میں کلیدی عہدوں پہ پابندی لگا دی گئی۔
9جون 1982ء کو مرزا ناصر کے مرنے کے بعد اس کا چھوٹا بھائی مرزا طاہر قادیانی کفریہ جماعت کا چوتھا سربراہ بنا۔
آئین پاکستان کی رُو سے کافر قرار دئیے جانے کے باوجود قادیانی مرزا غلام احمد قادیان کی پیروی اور اپنی فطرت کے عین مطابق اپنے آپ کو مسلمان قرار دے کر اور مسلمانوں کو کافر قرار دے کر بدستور سادہ لوح مسلمانوں کو دہوکے سے ورغلاتے رہے ۔ اور اپنے اثر رسوخ میں اضافہ کرنے کی کوششوں سے باز نہ آئے ۔ تو قادیانیوں کو ان کے مذموم کفرانہ عزائم سے باز رکھنے کے لئیے ۔ پاکستان کے اس وقت کے صدر ضیاء الحق نے چھبیس اپریل انیس سو چوراسی ۔26 اپریل1984ء کو’’امتناع قادیانیت آرڈیننس‘‘ نامی آڑدیننس جاری کیا۔ تو ٹھیک چار دن بعد
یکم مئی 1984ء یکم مئی انیس سو چوراسی کو کو مرزا طاہرپاکستان سے لندن بھاگ گیا اور 18اپریل 2003ء کو مرنے کے بعد اسے وہیں دفنایا گیا۔
جہاں سے قادیانی بڑے زور شور سے مسلمانوں اور اور خاصکر پاکستان اور پاکستانی مسلمانوں کے خلاف متواتر جھوٹا پروپگنڈاہ کرتے ہیں ۔ سادہ لوح مسلمانوں کودہوکہ دے کر اپنے جال میں پھنساتے ہیں ۔ انہیں باہر سیٹ کروانے کا لالچ دے کر۔ اسلام سے بر گشتہ کرتے ہیں۔ اور قادیانیت کے نام پہ مغربی ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کرنے میں مدد کرتے ہیں ۔ جس سے، جہاں قادیانی کفریہ جماعت کی جھوٹی مظلومیت کا خُوب پروپگنڈہ کیا جاتا ہے ۔ وہیں کم علم ۔ سادہ اور غریب مسلمانوں کودہوکے سے ورغلا کر قادیانی اپنی جماعت میں اضافے کی کوشش کرتے ہیں۔ عالم اسلام اور پاکستان کے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔ قادیانیت کے پاکستان کے خلاف مذموم سازشوں کے تانے بانے بھارت اور اسرائیل سے جا ملتے ہیں۔انٹر نیٹ پہ بھی خوب فعال ہیں ۔ لیکن اب دین سے محبت کرنے والے بہت سے مسلمان نوجوانوں نے قادیانیت کے خلاف اور اس کے سدباب کے لئیے بہت سے فوروم اسلام کی حقانیت خاطر ۔ قادیانیت کے خلاف قائم کر لئیے ہیں ۔ جہاں سے شب و روز قادیانیت کا بھانڈاہ پھوڑنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے ۔اور جب قادیانیوں کو اسلام کی دعوت دی جائے تو لاجواب ہو کر آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں۔ اور ایک نظام کے تحت تربیتی طور پہ موضوع کو ادہر ادہر گھمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ملا اور مولوی صاحبان چونکہ پاکستان میں فتنہ قادیانیت کے سب سے بڑے نقاد ہیں۔ تو قادیانی ملا اور مولوی کی سخت تضحیک کرتے ہیں۔ اور مسلمانوں کو مولوی اور ملا کے دین کا طعنہ دیتے ہیں۔
قادیانی بھیس بدل کر اور ڈھکے چھپے ابھی تک پاکستان میں اپنے کفرانہ عزائم کا پرچار کرتے ہیں۔ پاکستان کی حکومتوں میں سیاسی وِ ل ۔ سیاسی خود اعتمادی اور دین سے مکمل شعف نہ ہونے کی وجہ اور عالمی استعمار سے پاکستان کی حکومتوں کا خوفزدہ ہونے کی وجہ سے ۔قادیانی پاکستان میں ابھی تک کُھل کھیل رہے ہیں۔ صرف ایک اس واقعہ سے اندازہ لگا لیں کہ قادیانی پاکستان میں کس قدر مضبوط تھے (اور ابھی تک ہیں ) کہ مولانا سید ابو اعلٰی موددیؒ کو قادیانیت کے خلاف ”قادیانی مسئلہ “ نامی چھوٹی سی کتاب لکھنے پہ پاکستان میں مولانا سید مودودی ؒ کو سزائے موت سنائی گئی ۔ جسے اندرونی اور عالمی دباؤ کی وجہ سے عدالت عالیہ نے منسوخ کر دیا ۔ اور مولانا سید ابو اعلٰی موددیؒ نے دو سال گیارہ ماہ جیل کاٹنے کے بعد رہائی پائی ۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ چونکہ قادیانی اگر انٹرنیٹ پہ اسلامی اور مسلمان ناموں کے پردے میں مسلمانوں کو دہوکہ دیتے ہیں ۔ تو یہ معاملہ ریاست پاکستان کی روز مرہ کی زندگی میں اور بھی زیادہ شدید ہوجاتا ہے اور اس مسئلے کی وجہ سے عام مسلمان قادیانیوں سے دہوکہ کھا جاتے ہیں۔ اور اسے مسئلے کو مستقل بنیادوں پہ حل کیا جانا بہت ضروری ہے۔
قادیانی نہ صرف کافر ہیں ۔بلکہ اسلام کے پردے کے پیچھے چھپ کر منافقت کرنے والے منافق ہیں ۔اور مسلمانوں کو دہوکہ دیتے ہیں ۔ اور صرف اسی پہ بس نہیں بلکہ یہ اپنے کفر کو اسلام اور مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں ۔ اس لئیے زندیق ہیں۔ یعنی جو کافر اپنے آپ کو مسلمان کہلوا کر مسلمان کو کافر کہے۔یوں سادہ لوح مسلمانوں اور غیر مسلموں کو اسلام کا جھانسہ دے کر ۔دہوکے سے اپنے کفر میں شامل کرتے ہیں۔
قادیانیت مذہب نہیں بلکہ مافیا کارٹیل ہے۔ جو مسلمانوں اور باالخصوص پاکستان اور پاکستانی مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئیے پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر نہائت سرگرمی سے مصروف عمل ہے۔ اور اپنے ان مذموم عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئیے اس قادیانیت کے ڈانڈے بھارت اور اسرائیل سے جاملتے ہیں۔
چونکہ یہ فتنہ ارتداد اور جھوٹی نبوت کی لعنت انگریزوں کی چھتری تلےبرصغیر میں پیدا ہوئی۔ اور پاکستان بننے کے بعد اس لعنت نے پاکستان میں پرورش پائی۔ اسلئیے آزاد اور اسلامی پاکستان کا یہ فرض بنتا تھا۔ اور بنتا ہے ۔ اور جیسا کہ آئین پاکستان کی رُو سے مرزا غلام احمد قادیانی، مرزائی ۔ المعروف احمدی بشمول لاہوری گروپ ۔ کافر ہیں اور اپنی عبادتگاہوں کو مساجد نہیں کہلوا سکتے۔ کہ مساجد مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے۔ اور اس طرح کی دیگر پابندیاں۔ ان پہ انکے کفر کی وجہ سے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا آخری نبی نہ ماننے کی وجہ سے ہیں۔ اسی طرح یہ پاکستان اور پاکستانی مسلم عوام کی دینی اور اخلاقی ذمہ داری میں آتا تھا۔ اور آتا ہے۔ کہ قادیانیوں ۔ مرزائیوں المعروف احمدیوں کو دین اسلام کے نام پہ انکے کفر اور دہوکہ دہی سے نہ صرف روکا جائے ۔بلکہ باقی دنیا کو انکے بارے مناسب طور پہ آگاہ کیا جائے۔ تانکہ یہ اپنی اسلام دشمنی اور کفر کو اسلام کا نام دے کر۔ سادح لوح مسلمانوں اور غیر مسلموں کو مزیددہوکہ نہ دے سکیں۔
دنیا کے سبھی مذاہب ۔اپنےناموں کی ترتیب کچھ یوں رکھتے ہیں۔ کہ پڑھنے سننے والوں کو انکے بارے علم ہو جاتا ہے ۔کہ وہ کونسے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔اور چونکہ بر صغیر میں صدیوں سے مختلف مذاہب رہتے آئے ہیں۔ اور ان مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا روز مرہ زندگی میں آپس میں واسطہ پڑنے پہ کسی کے مذہب کے بارے غلط فہمی سے بچنے کے لئیے – اس مسئلے کا حل سبھی مذاہب کے پیروکاروں نے۔ اپنے اپنے مذہب کا برملا اعتراف کرتے ہوئے ۔عوامی سطح پہ حل نکالا ۔کہ اپنے نام اپنے مذاہب کی زبان میں ۔اور اپنی مذہبی کتب میں پائے جانے والے ناموں کو رکھنے میں نکالا ۔مثلا ہنود نے ہندی میں نام رکھے۔ اور مسلمانوں نے عربی یا فارسی کے نام اپنائے۔ اور جہاں مشترکہ ناموں کی وجہ سے دہوکے ہونے کا خدشہ ہوا ۔ وہاں اپنے نام کے ساتھ اپنے مذہب کا لاحقہ لگا دیا ۔ مثلا سکھوں نے سنگھ ،جیسے اقبال سنگھ۔ گلاب سنگھ۔ اور نصرانیوں نے مسیح کا لاحقہ ۔استعمال کیا جیسے ،اقبال مسیح اور یونس مسیح وغیرہ۔ اور ایسا کرنے کے لئیے نہ تو کسی کو مجبور کیا گیا۔ اور نہ ہی یوں کرنے میں کسی بھی مذہب کے ماننے والوں نے اسے اپنے لئیے باعث پریشانی یا ندامت سمجھا ۔بلکہ اپنے اپنے مذہب پہ یقین کی وجہ سے انہیں ایسا کرنے میں کبھی کوئی تامل نہیں ہوا۔جبکہ اسلام دشمن قادیانی ۔ مرزائی المعروف احمدی اسلام اور آئین پاکستان کی رُو سے کافر اور شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ہونےکے باوجود پاکستان میں ہی مسلمانوں کے نام رکھ کر مسلمانوں کو اپنے کافرانہ عزائم خفیہ رکھتے ہوئے دہوکہ دیتے ہیں۔ اس لئیے
اسلام اور پاکستان کے وسیع تر مفاد کے لئیے ہمارا مطالبہ ہے :۔
کہ ریاست پاکستان اور پاکستانی عوام پہ یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ قادیانیوں المعروف مرزئیوں کو مسلمانوں کے نام رکھنے ۔ لکھنے۔ بیان کرنے سے منع کرے ۔ اگر یوں فوری طور پہ ممکن نہ ہو تو انہیں اپنے ناموں کے ساتھ قادیانی لکھنے۔ اور قادیانی بتانے کا پابند کرے ۔ تانکہ مسلمان ناموں کے پردوں میں چھپ کر قادیانی۔ پاکستانی مسلمانوں کو دہوکہ نہ دے سکیں۔اس کے لئیے ضروری ہے کہ دین ِ اسلام اور اللہ کے آخر ی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے تقاضے کے تحت آئین پاکستان کی رُو سے آئین میں یہ واضح طور پہ درج کیا جائے ۔ کہ جس طرح پاکستان میں دیگر بسنے والے مذاہب اپنے بارے میں محض نام سے ہی واضح کر دیتے ہیں کہ وہ کونسے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔ تانکہ معاشرے میں روز مرہ آپس کے معاملات میں کسی فرد کو دوسرے کے مذہب کے بارے مغالطہ نہ لگے ۔ اسی طرح قادیانی بھی اپنے نام کے ساتھ قادیانی لکھنے کی پابندی کریں۔
عقیدہ ختم ِ نبوتﷺ کے لئیے عالم اسلام اور بر صغیر کی انگنت شخصیات اور علمائے اکرام نے انتھک محنت کی اور کر رہے ہیں۔ جن سب کا فردا فردا نام گنوانا یہاں ناممکن ہے ۔
قادیانیت کے سدِ باب کے لئیے کام کرنے والی تنظیمیں۔
- ختم نبوتﷺ فورم :۔
انٹر نیٹ پہ ” ختم نبوت ﷺ فورم “ ختمِ نبوت کی تمام تنظیموں کا ترجمان فورم ہے ۔ اور اس پہ گرانقدر اور بے بہاء اور بہت لگن اور محنت سے نہائت قیمتی کام کیا گیا ہے ۔ اس فورم پہ دلائل کی روشنی میں قادیانیت کے ہر پہلو کو کا پردہ چاک کیا گیا ہے اور قادیانیت کے منہ سے مکر فریب اور دہوکے کا نقاب نوچ کر قادیانیت کا اصل چہر مسلمانوں کو دکھایا گیا ہے ۔عقیدہ تحفظِ ختمِ نبوتﷺ پہ ہر موضوع سے متعقلہ کتابوں کا بے بہا اور گرانقدر خزانہ بھی موجود ہے ۔
- اسلامک اکیڈمی مانچسٹر ( برطانیہ)۔:
یہ تنظیم علامہ داکٹر خالد محمود کی نگرانی اور سربراہی میں ۔یوروپی ممالک میں ختم نبوت ﷺ کے تحفظ کے لئیے کام کرتی ہے۔
- ادارہ مرکز یہ دعوت وارشاد چنیوٹ :۔
چنیوت میں فتنہ ارتداد قادیانیت کے سدِ باب کے لئیے "جامعہ عربیہ “ کے بانی مولانا منظور احمد چینوٹی ؒ نے ادارہ مرکز یہ دعوت وارشاد چنیوٹ قائم کیا اور اسکی ایک شاخ ادارہ مرکز یہ دعوت وارشاد چنیوٹ واشنگٹن میں بھی قائم ہے ۔
- عالمی مجلس تحفظ ختم نبوتﷺ :۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے پہلے امیر سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ اور جنرل سیکرٹری مولانا محمد علی جالندھری منتخب ہوئے تھے ۔مجلس تحفظ ختم نبوت ۔ عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ اور منکرین ختم نبوت کے مقابل ختم نبوت کی تبلیغ کرتی ہے ۔ اس کی صدارت علامہ سید محمد یوسف بنوری ؒ نے بھی فرمائی۔ایک ہفتہ روزہ ’’ختم نبوت‘‘شائع ہوتا ہے ۔پاکستان اور پاکستان س ے باہر لندن میں انکے دفاتر موجود ہیں۔تحریری مواد اور تحقیقی کام کے حوالے سےحضرت انورشاہ کشمیری ۔ شہید اسلام مولا نامحمدیوسف لدھیانوی اور مولانا اﷲ وسایا کے اسمائے گرامی بہت نمایاں ہیں۔موجودہ امیر حضرت مولانا عبد المجید لدھیانوی ہیں۔
تحریک تحفظ ختم نبوتﷺ :۔ اکیس اور بائیس ۔ 21 اور 22 جولائی 1934ء کوعالمی مجلس احرار اسلام نے مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی کے زیر قیادت ختم نبوت کے تحفظ کیلئے قادیان میں پہلی ختم نبوت کانفرنس منعقد کی ۔جس کی صدارت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ نے کی تھی۔عالمی مجلس احرار اسلام کا کام ابھی تک موجودہ دور میں فعال ہے اور اب اس کو تحریک تحفظ ختم نبوت کے نام سے جانا جاتا ہے۔
- انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹﷺ :۔
14 اگست1995ء مورخہ 17ربیع الاول 1416ھ کو ’’انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ ‘‘قائم کی گئی جس کا مرکزی دفتر لندن میں واقع ہے۔
- ختم نبوتﷺ اکیڈیمی :۔(انگلینڈ)
جسکے سربراہ مولانا سہیل باوا ہیں۔
- آل انڈیا مجلس تحفظ ختم نبوت ﷺدیوبند (بھارت)
- مجلس تحفظ ختم نبوتﷺ ڈھاکہ (بنگلہ دیش)
- انجمن فدایان ختم نبوت ملتان(پاکستان)
- تحریک پاسبان ختم نبوت (جرمنی)
اسکے علاوہ پاکستان کے اندر اور باہر بہت سی شخصیات اور تنظیمیں فتنہ ارتداد و کفر ”قادیانیت“ کے سدِ باب کے لئیے کام کر رہی ہیں ۔ مگر پاکستانی حکومتوں کی سیاسی ول اور سیاسی خود اعتمادی میں کمی اور قادیانیت کے خلاف پاکستان کے آئین کو بروئے کار لانے میں پس و پیش کی وجہ سے قادیانیت کا فتنہ ۔اسلام اور پاکستان کے خلاف پاکستان کے اندر اور باہر بدستور سازشیں کر رہا ہے ۔ اسلئیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی حکومت پہ پاکستانی عوام دباؤ ڈالیں تانکہ تحفظ ختم نبوت ﷺ کے لئیے آئین اور اسلام کی روح کے مطابق آئین پاکستان پہ عمل درآمد کو یقینی بنایا جاسکے ۔
ختم نبوت ﷺ فورم کا لنک http://khatmenbuwat.org/
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: 1018, 1200کے, 1974ء, 22000, 259, 600, 759, ۔7, ‘‘کہلواتے, “کافر”, ﷺ, ﷺکے, ہم, ہو, ہونے, ہونگی, ہونا, ہوگا, ہوئے, ہیں, ہیں۔, ہیں۔قادیانیوں, ہیں۔عقیدہ, ہے, ہے۔, ہے۔اور, فتنہِ, فتنے, ہدایت, ہر, فرض, ہزار, قیامت, قادیان, قادیانی, قادیانیوں, قادیانیت, قاری, قتل, قدر, قرون, قریب, قرآن, قران, قرار, قربانی, لمبی, لکھنی, لگایا, لٹکا, لئیے, لئے, لاہوری, ملا, موجود, موجودہ, میں, مکہ, مکرمہ, مگر, مانگنا, مانگے, مارے, مبالغہ, متفقہ, محمد, مدعی, مرتد, مرتدین, مرحلے, مردہ, مرزا, مرزائیوں۔, مسلمان, مسلمانوں, مسلیمہ, مضبوط, مطابق, معجزہ, نہ, نہیں, نہائیت, چوہتر, نوش, نے, چھ, نئی, چاہئیے, ناک, نبوی, نبوت, نبوتﷺ, نبی, نذارنہ, نزدیک, نسل, نسلوں, نعوذ, و, وہ, والوں, والی, ڈالیں۔عقیدہ, والے, واجب, واصل, یہ, یوم, یومِ, یوں, یا, یعنی, ۔, ۔قادیانی, ۔قادیانیوں, ۔کئی, ۔انگریز, ۔اور, ۔اگر, ۔اس, ۔تو, ۔جس, ۔سات, ۔عقیدہ, کہ, کفار, کفر, کل, کو, کوئی, کوشش, کوششوں, کی, کیا, کیا۔, کے, کھڑی, کھٹن, کئی, کئگنا, کا, کافروں, کتب, کذاب, کر, کرنے, کرنا, کریم, کریں, کرے, کرام, کرتے, کردار, کسی, گنا, گناہ, گنت, گیا, گیا۔, گے, گئی, گئے۔, گروپ, پہ, پہنچنے, پوری, پیش, پڑے۔قادیانی, پاکستان, پارلیمنٹ, پر, پردہ, ء, آنچ, آیات, آپ, آئین, آئیندہ, آتی, آزماجدو, ئے, اہمیت, اللہ, المعروف, الانبیاء, السلام, امام, امت, امتی, ان, انیس, انگریزوں, اناسٹھ, اندازہ, اولٰی, اور, اورضعیفوں, ایمان, ایک, اکرام, اگر, اٹھانی, اٹھارہ, اپنی, اپنے, اپنا, ابو, ابوبکر, اجماع, احمدی, احمدیوں, احادیثِ, ادا, ارتداد, ارض, اس, اسلئیے, اسلام, اسے, اسکی, اساسی, اصحابہ, اطاعت, بلکہ, بلا, بنیاد, بچے, بنتی, بنتا, بیان, بڑی, بڑے, بڑا, بھی, باللہ, بائیس, بات, بارہ, باعث, بدر, براہِ, بشمول, بعد, تہہ, تہیغ, تو, تک, تھی, تھا, تھا۔, تانکہ, تابناک, تاریخ, تحفظ, تحفظِ, تعلیمات, تعداد, جہنم, جہاد, جہد, جن, جنگ, جو, جھوٹی, جھوٹے, جامِ, جان, جانوں, جانے, جائے, جاری, جاسکتا, جب, جد, جس, حفاظت, حنیفہ, حیات, حافظ, حد, حرم, حساس, حضرت, خلاف, خواتین, خاتم, خاطر, ختم, ختمِ, دہوکہ, دہوکے, دلیل, دن, دن۔, دو, دور, دوران, دین, دینے, دیا, دیتے, دے, دریغ, درکار, دعویدار, دعویداروں, دعواہ, رہاہے, روز, روشنی, رُو, راست, رحمۃ, رضی, زندیق, زائد, سنہ, سو, سولی, سی, سے, سامنے, سات, سب, ستمبر, سرخرو, سزا, شہید, شہادت, شفاعت, شہداء, شمار, شیہد, شرمندگی, صبر, صحابہ, صخیم, صدیقؓ, صرف, طویل, طور, طیبہ, طرح, عقیدہ, عقیدے, علیہ, عنہم, عیسیٰ, غالباً, غازی, غداری, غزوہ
انقلاب کا ڈول اور پاکستان۔
ہیں کواکب کچھ ۔نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ۔ یہ بازی گر کھلا
حکومت چھوڑ دو؟۔
اسملبیاں توڑ دی جائیں؟۔ورنہ ۔
یہ وہ مطالبات تھے جو اسلام آباد پہنچتے ہیں انقلاب کا ڈول ڈالنے والوں نے پہلے دن ہی داغنے شروع کئیے اور ان کی گھن گرج میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
یہ غیر آئینی مطالبات کس کی ایماء پہ ؟ اور کونسی طاقت کے بل بُوتے پہ کئیے جارہے تھے اور کئیے جارہےہیں ؟
وہ کون سی طاقتیں ہیں ۔ جو عمران اور طاہر القادری کو اشارہ دے چکی ہیں ۔ کہ ماحول کچھ اس طرح کا بناؤ ۔۔ کہ ہم کہنے والے ہوں کہ وزیر اعظم نواز شریف استعفی دےدیں۔ اس صورتحال کو سمجھنے کے لئیے علمِ سیاسیات میں ڈگری یافتہ ہونا ضروری نہیں ۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ کہ نواز حکومت کیوں اس مغالطے میں رہی۔ کہ یہ ایک دودن کا شور شرابہ ہے ۔اور جونہی یہ شو ختم ہوا ۔تو دیکھیں گے ان سے کیا مذاکرات کئیے جاسکتے ہیں؟۔
انبیاء علیة والسلام نے جب لوگوں کو دعوتِ دین دی۔ تو لوگ اس لئیے بھی ان پہ ایمان لے آئے کہ انبیاء علیة والسلام کا ماضی بے داغ ۔ کردار مثالی۔ فطرت میں حق گوئی وبیباکی اور اخلاق اعلیٰ ترین تھا۔ بہت سے لوگ فوراً ان کی نبوت پہ ایمان لے آتے ۔ اور دین میں شامل ہوتے چلےجاتے۔ کیونکہ لوگوں کو علم تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے ۔ انکا ماضی بے داغ ہے۔ انکا کردار مثالی ہے ۔ وہ حق گوئی اور بیباکی پہ کوئی مفاہمت نہیں کرتے ۔ اور انکے اخلاق اعلٰی ترین ہیں اور ایسے لوگ (انبیاء علیة والسلام) اگر نبوت کا دعواہ کر رہے ہیں ۔تو یقناً وہ اللہ کے نبی ہونگے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہےکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ کسی کی زبان پہ یقین کرنے کے لئیے اسکا کردار۔ اس کا ماضی دیکھتا ہے ۔اسکی حق گوئی و بیباکی کو پرکھتا ہے اور اسکے اخلاق کو جانچتا ہے ۔ عام طور پہ فوری یقین لانے کے لئیے ان چند صفات کو بنیاد بنا کر صاحب ِ بیان کی سچائی کو پرکھتا ہے اور اگر صاحب بیاں اس کی کسوٹی پہ اترے تووہ اس پہ یقین کر لیتا ہے کہ جو یہ کہہ رہا ہے وہ درست ہوگا۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شیخ السلام اور کپتان کا ماضی ۔ حق گوئی ۔ کردار اور اخلاق کے بارے کسی کو شائبہ ہے کہ وہ کب کب اور کیوں اپنے بیان بدلتے رہے ۔ اور انہوں نے یوٹرن لئیے ۔ اور کس کس کے سر پہ مغربی طاقتوں کا دستِ شفقت کیوں کررہا۔تو پھر ایسی کیا مصیبت آن پڑی تھی کہ عوام کی ایک بڑی تعداد میں ان شیخ السلام اور ماضی میں اسکینڈلز سے آلودہ سابقہ کرکٹ کپتان پہ آنکھیں بند کر کے۔ یقین کرتے ہوئے۔ لاکھوں کی تعداد میں اسلام آباد کی طرف رُخ کرتی؟ ۔اور شیخ السلام کے انقلاب پہ یقین رکھتے ہوئے ان کے ہاتھ بعیت کرتی؟ ۔ اور کپتان کی فرما روا آزادی کو اپنا منشاء بناتی؟ جب کہ دونوں کا ماضی عوام کے سامنے ہے ۔ کہ ایک محدود تعداد کو تو کئی سالوں کی محنت سے اپنی حمایت میں کھڑا کیا جاسکتا ہے ۔مگر لاکھوں کڑووں انسانوں کو یک دم لبیک کہنے پہ آمادہ کرنا فطرت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اور انسانی فطرت ہے کہ وہ ایسے جانے پہچانے لوگوں پہ خُوب سوچ سمجھ کر اعتبار کرتا ہے ۔اور پھونک پھونک کر قدم آگے بڑہاتا ہے ۔ تو پھر انقلاب لانے کا دعواہ کرنے والوں اور انہیں اسکرپٹ تیار کر کے دینے والوں نے۔ اسکرپٹ لکھتے ہوئے یہ اہم نکتہ کیوں نہ ذہن میں رکھا؟۔تو اسکی ایک سادہ سی وضاحت ہے ۔کہ اسکرپٹ رائٹر ز کو معلوم تھا کہ اسکرپٹ میں رنگ بھرنے کے لئے چند ہزار لوگ ھی کافی ہیں ۔ کہ پچیس تیس ہزار لوگ کبھی کسی بھی دو تہائی سے زائد اکثریت رکھنے والی حکومت کے لئیے اس حد تک خطرہ نہیں ہوتے کہ وہ حکومت کو چلتا کردیں ۔لاکھوں کی تعداد کی نسبت پچیس تیس ہزار لوگوں کو رام کرنا اور انہیں اپنی مرضی کے مطابق چلانا بہت آسان ہوتا ہے۔اور یوں حکومت کو بلیک میل کرتے ہوئے پس پردہ اپنے مطالبات منوانا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ کہ بہ نسبت لاکھوں کے بے قابو ہجوم کے ذریعئے حکومت گرا کر اپنے مطالبات منوانے کے۔
ان دونوں مارچوں کے اسکرپٹس جس نے بھی لکھے ہیں۔ خُوب سوچ سمجھ کر لکھے ہیں۔ اور نواز شریف کی معاملہ فہمی کو مد نظر رکھ کر لکھے ہیں ۔
اور اس سارے پلان کا اسکرپٹ رائٹر یہ جانتا ہے کہ میاں نواز شریف اپنی معروف ضدی طبعیت کی وجہ ایک ہی جگہ جمیں کھڑے رہیں گے۔ اور انھیں دباؤ میں لانا آسان ہوگا۔کہ سیاست میں جم جا جانا اور ایک ہی جگہ کھڑے ہوجانا ۔ جمود کا دوسرا نام ہے ۔ اور پاکستانی سیاست میں جمود لے ڈوبتا ہے۔اور یہی اسکرپٹ رائٹر نے تاثر دینا چاہا کہ نواز شریف ۔ حکومت اور نون لیگ کے بزرجمہر اسی دھوکے اور تفاخر میں رہیں کہ یہ چند ہزار لوگ ان کا اور انکی دوتہائی اکثریتی حکومت کاکیا بگاڑ لیں گے ۔ اور وہ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کی وجہ سے اس دہوکے میں آگئے ۔ اور ترپ کے پتوں سے چالیں یوں چلی گئیں کہ شریف بردران ۔ پنجاب حکومت اور نواز شریف حکومت یکے بعد دیگرے اپنی پوزیشنیں چھوڑتی ہوئی۔ پیچھے ہٹتی چلی گئی ۔ اتنی بڑی پارٹی کی دو تہائی اکثریتی حکومت ہوتے ہوئے نہ تو وہ اپنی اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ کر پائی اور نہ ہی جلد بازی میں ان سے کروائے گئے فیصلوں کے ما بعد نقصانات کو ہی سمجھ پائی ۔
کسی حکومت کی یہ ناکامی تصور کی جاتی ہے ۔ کہ لوگ اس کے خلاف سڑکوں پہ نکل آئیں۔کامیاب حکومت اسے گردانا جاتا ہے جو عوام کو سڑکوں پہ آنے سے پہلے ہی۔ انہیں راضی کرنے کا کوئی جتن کر لے۔ اس وقت پاکستانی عوام کی سب سے اولین مشکلات میں سے چند ایک مشکلات ۔ مہنگائی کا عفریت۔ توانائی کا بحران۔ بے روزگاری یا دوسرے لفظوں میں جسم اور جان کا رشتہ قائم رکھنے کے لئیے ہر روز جتن کرنا ہے۔ ملک کی آدہی سے زائد آبادی کو محض دو وقت کی روٹی پوری کرنی مشکل ہو رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت کو یہ سارے مسائل زرداری حکومت سے وراثت میں ملے ہیں ۔ مگر اس میں بھی کسی کو کوئی شک نہیں ۔ کہ نون لیگ کے بلند بانگ انتخابی دعوؤں کے برعکس نون لیگ کی حکومت کے ان پندرہ سولہ ماہ میں عوام کی زندگی پہلے سے زیادہ اجیرن ثابت ھوئی ہے۔
جس ملک میں توانائی کا خوفناک بحران ہو ۔ لوگوں کے کاروبار اور روزگار ٹھپ ہوں۔ ملک کے شہری بجلی پانی گیس نہ ہونے کی وجہ سے چڑچڑے ہو رہے ہوں ۔بجلی کی عدم فراہمی پورے خاندان کی نفسیاتی ساخت و پرواخت پہ اثر اندازہو رہی ہو۔ اس ملک میں نون لیگ کے وزیر توانائی۔خواجہ آصف ۔پندرہ ماہ بر سر اقتدار آنے کے بعد۔اپنی قوم کو کسی قسم کا ریلیف دینے کی بجائے گرمی میں جلتے عوام سے یہ کہیں ۔کہ اللہ سے دعا مانگیں کہ بارش ہو اور آپ کی تکالیف میں کچھ کمی ہو۔ تو ایسی گڈ گورنس پہ کون قربان جائے؟ ۔وزیر موصوف سے یہ سوال کیا جانا چاہئیے تھا کہ اگر آپ میں اتنی اہلیت نہیں کہ آپ عوام کو کوئی ریلیف دے سکیں تو کم از کم انکے زخموں پہ نمک تو نہ چھڑکیں۔ اور اگر عوام کی تکالیف میں کمی کا انحصار اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے میں ہی ہے۔ تو آپ کس خوشی میں اتنی بڑی وزات کی موجیں لُوٹ رہے ہیں۔ کسی بھی مہذب سیاستدان کی طرح استعفٰی دیں اور گھر کی راہ لیں۔ کہ ممکن ہے جو آپ کے بعد اس وزارت کو سنبھالے اس میں کچھ خداد صلاحیت آپ سے زیادہ ہو ںاور وہ عوام کو کچھ ریلیف دے سکے۔یہ تو ایک مثال ہے جو کسی لطیفہ سے کم نہیں ۔مگر پاکستان کے بے بس اور لاچار عوام کی ستم ظریفی دیکھئیے کہ ایسی مثالیں عام ہیں۔
شہباز شریف بڑے فخر سے دعواہ کرتے ہیں۔ کہ ان کا کوئی ایک بھی کرپشن کا کیس سامنے نہیں لایا جاسکتا ۔کیونکہ وہ کسی طور پہ کرپشن میں ملوث نہیں۔ مگر عوام نے پنجاب حکومت کے ایک وزیر کی ویڈیو دیکھی ہے ۔جس میں وہ ایک ایسے انسانی اسمگلر سے معاملات طے کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ جس پہ میڈیا کے مطابق ایک سو اسی سے زائد لوگوں نے دھوکہ بازی سے ۔رقم ہتیانے کے کیس کر رکھے ہیں ۔جو انٹر پول اور پتہ نہیں کس کس کو مطلوب ہے۔اور میاں صاحب نے اس ویڈیو کی حقیقت جانچنے کے لئیے ایک تین رکنی کمیٹی بنادی اور بس۔ سنا ہے بعد میں وزیر موصوف کے حمایتی یہ کہتے پائے گئے ہیں ۔کہ یہ لاکھوں روپے کی وہ رقم تھی۔ جو انہوں نے مذکورہ انسانی اسمگلر کو ادہار دے رکھی تھی ۔اور وہ انہوں نے واپس لی۔ ایک ایسا وزیر جو ایک معروف انسانی اسمگلر کے ساتھ معاملات کرتا ہے ۔ اسے رقم ادہار دیتا اور واپس لیتا ہے۔ ایسے جرم پیشہ فرد کے ساتھ معاملات کرنا تو کُجا اس کے ساتھ اگر کسی دعوت میں کسی وزیر کا کھانا کھایا جانا ثابت ہو جائے تو مہذب ممالک میں وزراء اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیتے ہیں۔ جبکہ وزیر موصوف کو ایک جرائم پیشہ کے ساتھ معاملات کرنے کے باوجود بجائے اس کے وزیر موصوف سے جواب طلبی کی جاتی اور تادیبی کاروائی کی جاتی ۔ انہیں اتنی اہم وزارت دے دی؟۔ اپنی ٹیم کے بارے خبر نہ رکھنی یا لاعلم رہنا۔ یا خبر ہوتے ہوئے اس پہ کاروائی نہ کرنا ۔یہ بھی اپنے فرائض سے غفلت برتنے کے برابر ہے۔
جہاں یہ عالم ہو کہ سرکاری ملازموں کو ذاتی ملازم سمجھا جائے ۔ نوکریاں بیچی جائیں۔ سرکار دربار میں اپنے من پسند لوگوں کو لانے کے لئیے ۔پرانے ملازمین حتٰی کے چھٹی یا ساتویں گریڈ کی خواتین ملازموں کو انکے گھر بار سے دور۔ بیس بائیس کلومیٹرز دورافتادہ جگہ پہ اچانک تبادلہ کر دیا جائے ۔ بہانے بہانے سے سرکاری ملازموں کو تنگ کیا جائے ۔تانکہ وہ بددل ہو کر اپنی ملازمت چھوڑ دیں ۔اور انکی جگہ اپنے منظور نظر لوگوں کو بھرتی کیا جاسکے۔ تعینات کیا جاسکے۔ وہاں عام عوام ہی نہیں بلکہ یہ سرکاری ملازمین کو ہی اگر اجازت دے دی جائے۔ اور انہیں اپنی نوکری کے جانے کا اندیشہ نہ ہو تا۔تو ہمیں نہیں لگتا کہ کوئی سرکاری ملازم ایسا ہوگا جو احتجاج میں شامل نہ ہواور سرکاری ملازمین کے احتجاج کی تعداد لاکھوں تک نہ ہو ۔ یعنی لوگ تنگ آگئے ہیں۔ انکے مسائل حل نہیں ہو رہے ۔ ممکن ہے نواز شریف حکومت کی ترجیجات میں لمبی ٹرم کے منصوبے ہوں ۔جن سے چند سالوں میں نتیجہ عوام کے حق میں بہتر آئے ، مگر عوام کا فی الحال مسئلہ زندہ رہنے کی جستجو کرنا ہے ۔ اور وہ موجودہ حکومت سے بہت سی توقعات لگائے بیٹھے تھے ۔ اور حکومت فی الفور عوام کو کچھ دینے کی بجائے۔ مہنگائی کے سیلاب سے انکے مسائل میں اضافہ کرنے کا سبب بنی ہے۔
حکومت کے بارے یہ عام طور پہ کہا جاتا ہے ۔کہ میاں نواز شریف نے اندیشہ ہائے دور است کے تحت حفظِ ماتقدم کے طور پہ ۔اپنے اقتدار و اختیار کو اپنے ارد گرد کچھ معدوئے چند لوگوں میں بانٹ رکھا ہے ۔ ممکن ہے اس میں انکے کچھ اندیشے درست ہوں۔ لیکن یہ امر واقع ہے کہ اقتدار اللہ کی دی ہوئی امانت ہوتی ہے۔ اور جن حکمرانوں نے اپنا اقتدار ۔نیچے تک عام شہری تک تقسیم کیا ۔ انھیں کسی اندیشے کا ڈر نہ رہا ۔اور اور یوں کرنے سے جہاں عوام کو ریلیف ملا ۔وہیں اللہ نے ایسے حکمرانوں کے اقتدار میں برکت دی ۔
یہ حد سے بڑھی خود اعتمادی تھی یا سانحہ ماڈل ٹاؤن کی وجہ سے نواز حکومت اخلاقی طور پہ ایسا کرنے پہ مجبور تھی کہ طاہر القادری ایک غیر سیاسی تحریک کے سربراہ اور پاکستان میں کسی بھی لیول پہ ان کا کوئی سیاسی عہدہ نہیں۔ تو پھر کس خوشی میں حکومت نے انہیں پہلے روکا تو عین آخری وقت میں ایک سیاسی اور منتخب حکومت کو غیر آئینی طور پہ حکومت گرانے کی دہمکیوں کے باوجود انہیں ملک کے دارالحکومت کی طرف ہزاروں لوگوں کے ساتھ بڑھنے دیا؟
یہ سیاسی ناعاقبت اندیشی نہیں تو کیا ہے کہ جنہیں چند ہزار افراد کہا گیا اور یہ سمجھا گیا کہ لاکھوں کا دعواٰہ کرنے والے ان بیس پچیس ہزار لوگوں سے کیا تبدیلی لے آئیں گے؟ اور من پسند خوشامدی تجزئیہ نگاروں سے اپنی حکمت عملی کی داد وصول کی جاتی رہی ۔ اور اب یہ عالم ہے کہ پچیس تیس ہزار افراد کے ہجوم نے اسلام آباد میں آج ریڈ زون بھی کراس کر لیا ہے۔ اور عین پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے۔ ملک کے حساس ترین علاقے ریڈ زون میں۔ آن ڈیرے جمائے ہیں ۔جس سے ملک اور حکومت کی کی جگ ہنسائی ہور رہی ہے۔ اور ساری دنیا کو ریاستِ پاکستان کا ایک غلط پیغام جارہا ہے ۔ اور نواز شریف ابھی تک اپنے معدودے چند ایسے افراد کی مشاورت پہ بھروسہ کرنے کی وجہ سے ایک بار پھر بند گلی میں کھڑے ہیں ۔
کچھ لوگوں کو یاد ہوگا کہ انقلاب کا ڈول ڈالتے ہی مشرف نے اپنے کارکنوں کو اس انقلاب اور آزادی مارچ کا ساتھ دینے کا ارشاد فرمایا۔اور نواز شریف نےایک بار پھر ایک تاریخی غلطی کی ہے۔فوج کو اس معاملے میں ملوث کرکے کے اپنے ۔ مسلم لیگ ن۔ اور جمہوریت کے ہاتھ پاؤں باندھ دئیے ہیں۔اور مستقبل میں کئی مخصوص اور حساس معاملوں میں آزادی سے فیصلے کرنے کا اختیار کھو دیا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے ۔اس سے بہتر تھا وزیر اعظم استعفٰی دے دیتے۔اور اپنی پارٹی میں سے کسی کو ویزر اعظم نامزد کر دیتے ۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہوتی۔ کہ بات بات پہ اپنی زبان سے پھر جانے والے۔ آزادی و انقلابی ڈول ڈالنے والے ۔اس کے بعد کوئی نیا مطالبہ نہ کر دیتے ؟۔
تاریخ گواہ ہے۔ کہ اس طرح کے پلانٹڈ اور پلانیڈ انقلاب۔ کبھی کامیاب نہیں ہوئے ۔ان سے تبدیلی تو ہوتی ہے۔ مگر تبدیلی نہیں آتی۔ کسی حقیقی انقلاب کے لئیے عام آدمی یعنی عوام کی تربیت لازمی ہوتی ہے کہ وہ انقلابی تبدیلی کا باعث بن سکے۔جو اس سارے انقلابی عمل میں کہیں نظر نہیں آتی ۔ کہ پاکستان کے عام آدمی یعنی عوام کو اس طرح لاچار کر دیا گیا ہے کہ وہ سوتے میں بھی دو وقت کی باعزت روٹی کمانے کی خاطر اور زندہ رہنے کی جستجو کے ڈراؤنے خواب دیکھتا ہے اور اس قدر منتشر ہے کہ اسے سوائے اپنے حالات کے کسی اور طرف دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ۔ تو پھر عام آدمی کی تربیت اور شمولیت کے بغیر یہ کیسا انقلاب برپا ہونے جارہا ہے؟ ۔
ایک تبدیلی وہ ہے جس کا نعرہ لگایا جارہا ہے۔ ”انقلاب“۔ اور ایک تبدیلی وہ ہے جو اسکرپٹ رائٹر نے اپنے من پسند طریقے سے لانی چاہی ہے۔ یعنی پہلی تبدیلی ”انقلاب “ کا جھانسہ دیکر دوسری تبدیلی ہی اصل گوہر مقصود ہے۔۔
جہاں ضامن حضرات جائز طور پہ برہم ہیں۔ وہیں لوگ اس بات پہ حیران ہیں کہ شیخ السلام اور کپتان نے مختلف سیاسی حکومتی شخصیات کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ کوئی غیر آئنی مطالبہ یا اقدام نہیں کریں گے ۔ تو پھر یہ کیوں بار بار اپنا بیان بدل رہے ہیں ۔ اور اتنی یقین دہانیوں کے باوجود غیر آئینی مطالبوں پہ اڑے ہوئے ہیں۔لیکن ان کو (عوام کو)یہ پتہ نہیں کہ جو کسی کے بھروسے پہ پہلی بار ہر حد پھلانگ جائیں ۔پھر انھیں اس کے اشارے پہ بار بار ہر حد پھلانگنی پڑتی ہے۔اتنے سالوں سے اس ملک میں کوڑھ کی فصل بیجی جارہی ہے ۔ اب یہ فصل پک چکی ہے۔کچھ طاقتیں ایسی ہیں جنہوں نے اس ملک کے تمام ستونوں کو بے بس کر رکھا ہے اور جب انھیں پاکستان کی ترقی یا استحکام کا پہیہ روکنا مقصود ہوتا ہے تو وہ اشارہ کر دیتی ہیں اور پہلے سے بنے بنائے بچے جمہورے طے شدہ پروگرام کے تحت حرکت میں آجاتے ہیں ۔اور حد یہ ہے کہ انھیں رسپانس بھی ملنا شروع ہو جاتا ہے ۔
چند ہفتے قبل کوئی سوچ سکتا تھا کہ۔ وہ لوگ جن کا پاکستان کی سیاست اور پارلیمینٹ میں وجود ہی نہیں۔ وہ آج کس زورو شور سے پورے ملک۔ کو اسکے عوام کو ۔بے یقینی کی ٹکٹکی پہ چڑہا کر تماشہ بنادیں گے؟یہ سیاسی بصیرت سے بڑھ کر کسی تیسری قوت کی اپروچ ھے۔اور جو لوگ ایک بار کسی کے ہاتھوں پہ کھیلیں ۔۔ پھر انھیں ہمیشہ انھی کے ہاتھوں کھیلنا پڑتا ہے۔
لمحہ بہ لحمہ بدلتی اس ساری صورتحال میں موجودہ حکومت کو دیوار کے ساتھ لگا کر پس پردہ اس سے وہ مطالبات منائے جائیں گے ۔ جس پہ ابھی تک ہماری حکومت بظا ہر اسٹینڈ لئیے کھڑی ہے ۔ اسمیں مشرف کی پاکستان سے غداری اور امریکہ سے وفاداری کے انعام کے طور پہ اس کی رہائی ۔ تانکہ امریکہ کے لئیے کام کرنے والے غداروں کو یہ پیغام جائے کہ وہ امریکہ کے لئیے اپنی قوم سے غداری کرنے والوں کو امریکہ تنہا نہیں چھوڑتا۔ دوسری بڑی وجہ ۔ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی ۔ اور تیسری بڑی وجہ ۔ پاکستانی عوام کو آمنے سامنے لا کر تصادم میں بدلنا ہے۔”عرب بہار“ جیسا فار مولہ بہت شاطر دماغوں نے اپنی پوری طاغوتی طاقت سے سارے وسائل بروئے کار لا کر بنا یا ہے ۔زرہ تصور کریں یہ دھرنا پروگرام کچھ طویل ہوتا ہے۔ تو دیگر جماعتیں بھی اپنے ہونے کا ثبوت دینے کے لئیے ۔اپنی اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ کرنے پہ نکل آئیں۔ تو کارکنوں کا ملک گیر پیمانے پہ یہ تصادم کیا رُخ اختیار کرے گا؟۔ یہ وہ کچھ پس پردہ عزائم ہیں جو عالمی طاقتیں دنیا کی واحد اسلامی نیوکلئیر ریاست کے بارے رکھتی ہیں۔ جس کے بارے میں عالمی میڈیا میں یہ تاثر دیا جائے گا ۔کہ اس ملک میں کبھی بھی۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ تو ایسے میں نیوکلئیر ہتیار اگر دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گئے۔ تو دنیا کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے ۔ اور اس تصور کو دنیا میں بڑہا چڑھا کر پیش کیا جائے گا ۔ اور ہماری بدقسمتی سے پاکستان مخالف عالمی طاقتیں پروپگنڈاہ اور دہمکی دھونس کے زور پہ ۔ایسے بے وجود سایوں کو وجود دینا جانتی ہیں۔ایسے میں پاکستان کا کیس عالمی برادری میں کمزور ہو جائیگا۔
اس بار شاید ہمیشہ کی طرح ”عزیز ہموطنو“ نہ ہو ۔کہ اب یہ فیشن بدلتا جارہا ۔ اورکچھ لوگ پہلے سے تیار کر لئیے جاتے ہیں ۔کہ جنہیں اگر نوبت آئی ۔تو انہیں آگے کر دیا جائے گا ۔ اور پس پشت”میرے ہموطنو“ پروگرام ہی ہوگا۔اس امر کا انحصار نواز شریف کی بارگینگ پاور پہ ہوگا۔ اور مارچ میں شامل کارکنوں کی تعداد اور استقلال کی بنیاد پہ ہوگا۔ کہ پس پردہ اپنی شرائط کس طرح منوائی جاسکتی ہیں۔ اگر دھرنے کے قائدین اسکرپٹ پلیئر کے اشارے پہ دھرنا اور احتجاج ختم بھی کر دیں ۔تو بہر حال ایک بات طے ہے کہ ان دھرنوں سے پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ پاکستان کی بنیادیں بھی ہل کر رہ جائیں گی ۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, فہمی, ہم, ہمیں, ہنسائی, ہو, ہونے, ہونگے۔, ہونا, ہو۔, ہوگا, ہوگا۔کہ, ہوگا۔تو, ہوں, ہوں“۔, ہوئی, ہوئی۔, ہوئے, ہوئے۔, ہوا, ہواور, ہوتی, ہوتی۔, ہوتے, ہوتا, ہوجانا, ہور, فوری, فوراً, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں۔اور, ہیں۔شہباز, ہیں؟۔, فیصلوں, فیصلے, ہے, ہے۔, ہے۔ جہاں, ہے۔فوج, ہے۔کچھ, ہے۔اور, ہے۔حکومت, ہےکہ, ہے؟, ہٹتی, ہاؤس, ہائے, ہاتھ, ہتیانے, ہجوم, فخر, ہر, فرما, فرمایا۔اور, فراہمی, فرائض, فرد, فرصت, ہزار, ہزاروں, فطرت, قوم, قائم, قابو, قدم, قدر, قربان, قسم, لفظوں, لمبی, لوگ, لوگوں, لیول, لی۔, لیکن, لیگ, لیں, لیں۔, لیا, لیتا, لُوٹ, لے, لے۔, لکھے, لکھتے, لگایا, لگائے, لگتا, لئیے, لئے, لانی, لانے, لانا, لاچار, لایا, لاکھوں, لازمی, لاعلم, لبیک, لطیفہ, مہنگائی, مفاہمت, مہذب, ملوث, ملے, ملک, ملا, ملازم, ملازموں, ملازمین, ملازمت, ممکن, ممالک, من, منونے, منوانا, منتخب, منتشر, منشاء, منصوبے, منظور, موجودہ, موجیں, موصوف, میل, میڈیا, میں, میں۔, میاں, مگر, ما, ماہ, مانگنے, مانگیں, ماڈل, ماتقدم, ماحول, مارچ, مارچوں, ماضی, مثال, مثالی, مثالی۔, مثالیں, مجبور, محنت, محدود, محض, مخصوص, مد, مذکورہ, مذاکرات, مرضی, مسلم, مسئلہ, مسائل, مستقبل, مشکل, مشکلات, مشاورت, مشرف, مصیبت, مطلوب, مطالبہ, مطالبات, مطابق, مظاہرہ, معلوم, معاملہ, معاملے, معاملات, معدوئے, معدودے, معروف, مغالطے, مغربی, نہ, نہیں, نہیں۔, نفسیاتی, نقصانات, چلی, چلےجاتے۔, چلا, چلانا, چلتا, نمک, چند, نون, نوکری, نوکریاں, نواز, نیا, چڑچڑے, نے, نے۔, نےایک, ن۔, نکل, چکی, نکتہ, نگاروں, چھوڑ, چھوڑتی, چھڑکیں۔, چھٹی, چاہی, چاہئیے, چاہا, چالیں, نام, نامزد, ناکامی, ناعاقبت, نبوت, نبی, نتیجہ, نسبت, نظر, نعرہ, و, وہ, وہاں, وقت, ڈول, ڈوبتی, ویڈیو, ڈیرے, ویزر, ڈگری, واقع, ڈالنے, والوں, والی, والے, والے۔, ڈالتے, والسلام, واپس, وبیباکی, وجہ, ور, ڈراؤنے, وراثت, وزیر, وزات, وزارت, وزراء, وصول, وضاحت, یہ, یہی, یقناً, یقین, یوٹرن, یوں, یک, یکے, یا, یافتہ, یاد, یعنی, ۔, ۔ یہ, ۔لاکھوں, ۔مگر, ۔نیچے, ۔نظر, ۔وہیں, ۔وزیر, ۔یہ, ۔۔, ۔کہ, ۔کیونکہ, ۔کسی, ۔پندرہ, ۔پرانے, ۔ان, ۔اور, ۔اپنے, ۔اس, ۔اسکی, ۔بجلی, ۔تو, ۔تانکہ, ۔جن, ۔جو, ۔جس, ۔رقم, کہ, کہہ, کہنے, کہیں, کہا, کہتے, کلومیٹرز, کم, کمی, کمیٹی, کمانے, کو, کون, کونسی, کوئی, کواکب, کی, کیونکہ, کیوں, کیا, کیس, کیسا, کُجا, کڑووں, کے, کے۔, کے۔ان, کھلا, کھو, کپڑے, کپڑا, کھانا, کھایا, کپتان, کئی, کئیے, کا, کافی, کامیاب, کاکیا, کاروائی, کاروبار, کارکنوں, کب, کبھی, کر, کرنی, کرنے, کرنا, کروائے, کرکے, کرکٹ, کرپشن, کراس, کرتی, کرتے, کرتا, کردیں, کردار, کردار۔, کررہا۔تو, کس, کسوٹی, کسی, گلی, گڈ, گوئی, گواہ, گورنس, گیا, گیس, گے, گے۔, گے؟, گھن, گھر, گئی, گئیں, گئے, گر, گرمی, گریڈ, گرا, گرانے, گرج, گرد, گردانا, ٹیم, ٹھپ, ٹاؤن, ٹرم, ںاور, پہ, پہلی, پہلے, پہنچتے, پہچانے, پلان, پلانیڈ, پلانٹڈ, پچیس, پنجاب, پندرہ, پول, ھوئی, پوری, پورے, پوزیشنیں, پی, پیچھے, پیدا, پیشہ, پیغام, پڑی, پھونک, پھر, پانی, پاور, پاکستان, پاکستانی, پاکستان۔ہیں, پاؤں, پائی, پائے, پارلیمنٹ, پارٹی, پتہ, پتوں, پرکھتا, پردہ, پس, پسند, ،, ؟, ؟۔, آلودہ, آمادہ, آن, آنے, آنکھیں, آگے, آگئے, آپ, آپنے, آئینی, آئیں, آئیں۔کامیاب, آئے, آباد, آبادی, آتی, آتی۔, آتے, آج, آخری, آدہی, آدمی, آزادی, آسان, آصف, اہلیت, اہم, افراد, اقتدار, الفور, القادری, اللہ, الحال, السلام, امانت, امر, ان, انہوں, انہیں, انقلاب, انقلابی, انقلاب۔, انکی, انکے, انکا, انٹر, انھیں, اچانک, انبیاء, انتخابی, انحصار, اندیشہ, اندیشی, اندیشے, اندازہو, انسانوں, انسانی, اولین, اور, ایمان, ایماء, ایک, ایسی, ایسے, ایسا, اکثریت, اکثریتی, اگر, اپنی, اپنے, اپنا, اب, ابھی, اتنی, اترے, اثر, اجیرن, اجازت, احتجاج, اخلاق, اخلاقی, اختیار, ادہار, ارد, ارشاد, از, اس, اسلام, اسمگلر, اسی, اسے, اسکی, اسکینڈلز, اسکے, اسکا, اسکرپٹ, اسکرپٹس, اسٹریٹ, است, استعفی, استعفیٰ, استعفٰی, اشارہ, اصولوں, اضافہ, اعلیٰ, اعلٰی, اعتمادی, اعتبار, اعظم, بہ, بہانے, بہت, بہتر, بل, بلند, بلیک, بلکہ, بن, بنی, بنیاد, بنا, بناؤ, بناتی؟, بنادی, بند, بولتے, بیچی, بیٹھے, بیان, بیاں, بیباکی, بیس, بُوتے, بڑہاتا, بڑی, بڑے, بڑھنے, بڑھی, بے, بگاڑ, بھی, بھرنے, بھروسہ, بھرتی, بانگ, بانٹ, باندھ, باوجود, بائیس, بات, بار, بارے, بارش, بازی, باعث, باعزت, بجلی, بجائے, بجائے۔, بحران, بحران۔, بدلتے, بددل, بر, برکت, برپا, برابر, برتنے, بردران, برعکس, بزرجمہر, بس, بس۔, بعیت, بعد, بعد۔اپنی, بغیر, تہائی, تفاخر, تقسیم, تنگ, تو, توقعات, تووہ, توڑ, توانائی, توانائی۔خواجہ, تین, تیار, تیس, تک, تکالیف, تھی, تھی۔, تھے, تھا, تھا۔, تا۔تو, تاثر, تادیبی, تاریخ, تاریخی, تبادلہ, تبدیلی, تجزئیہ, تحت, تحریک, ترین, ترپ, تربیت, ترجیجات, تصور, تعینات, تعالیٰ, تعداد, ثابت, جہاں, جلتے, جلد, جم, جمہوریت, جمود, جمیں, جمائے, جن, جنہیں, جو, جونہی, جواب, جگ, جگہ, جھوٹ, جا, جان, جانچنے, جانچتا, جانے, جانا, جانتا, جائیں۔, جائیں؟۔ورنہ, جائے, جائے۔, جائے؟, جاتی, جاتا, جارہے, جارہےہیں, جارہا, جاسکے۔, جاسکتے, جاسکتا, جب, جبکہ, جتن, جرم, جرائم, جس, جسم, جستجو, حفظِ, حق, حقیقی, حقیقت, حل, حمایت, حمایتی, حکمت, حکمرانوں, حکومت, حالات, حتٰی, حد, حساس, خلاف, خوفناک, خواب, خواتین, خود, خوشی, خوشامدی, خیال, خُوب, خاندان, خاطر, خبر, ختم, خداد, خطرہ, دہمکیوں, دہوکے, دم, دن, دنیا, دو, دون, دونوں, دو؟۔اسملبیاں, دوتہائی, دور, دور۔, دورافتادہ, دوسرے, دوسرا, دی, دین, دینے, دینا, دی۔, دیکھنے, دیکھی, دیکھیں, دیکھئیے, دیکھتا, دیگرے, دیں, دی؟۔, دیا, دیا؟یہ, دیتے, دیتے۔اور, دیتا, دے, دےدیں۔, دکھائے, دھوکہ, دھوکہ۔, دھوکے, دئیے, داد, دارالحکومت, داغ, داغنے, دباؤ, دربار, درست, دستِ, دعوؤں, دعواہ, دعواٰہ, دعوت, دعوتِ, دعا, ذہن, ذاتی, ذریعئے, رہنے, رہنا۔, رہی, رہی۔, رہیں, رہے, رہا, رقم, رنگ, روکا, روٹی, روپے, روا, روز, روزگار, روزگاری, ریلیف, ریڈ, ریاستِ, رُخ, رکنی, رکھ, رکھنی, رکھنے, رکھی, رکھے, رکھا, رکھا؟۔تو, رکھتے, راہ, رام, رائٹر, راضی, رشتہ, ز, زندہ, زندگی, زون, زیادہ, زائد, زبان, زخموں, زرداری, سمجھ, سمجھنے, سمجھا, سنا, سچائی, سنبھالے, سو, سولہ, سوچ, سوال, سوائے, سوتے, سی, سیلاب, سیاسی, سیاسات, سیاست, سیاستدان, سڑکوں, سے, سکیں“, سکے۔یہ, سکے۔جو, سالوں, سامنے, سامنے۔, سانحہ, ساتویں, ساتھ, ساخت, سادہ, ساری, سارے, سب, سبب, ستم, سر, سرکار, سرکاری, سربراہ, شفقت, شہری, شمولیت, شو, شور, شیخ, شک, شامل, شائبہ, شروع, شریف, شرابہ, صفات, صلاحیت, صورتحال, صاحب, ضمانت, ضدی, ضروری, ضرورت, طلبی, طور, طے, طاہر, طاقت, طاقتوں, طاقتیں, طبعیت, طرف, طریقے, طرح, ظریفی, عہدہ, عفریت۔, علم, علمِ, علیة, علاقے, عمل, عملی, عمران, عوام, عین, عالم, عام, عدم, غفلت, غلط, غلطی, غیر
پاکستان کے خلاف سائبر گوریلا وار اور تجاہل عارفانہ۔
لوہے کی دریافت اور پہیے کی ایجاد پہ۔ انسانی زندگی میں ہونے والی تبدیلی اور انقلاب کی طرح ۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے حضرتِ انسان کی زندگی میں تیسرا بڑا انقلاب برپا کیا ہے۔اور دنیا محض چند سالوں میں بدل کر رہ گئی ہے ۔جس کا کچھ سالوں قبل تک تصور کرنا بھی انسانی فہم کے لئیے ناممکن تھا ۔ تعلیم۔ صحت۔ توانائی ۔صنعت ۔ دفاع ۔شوق ۔کھیل ۔تمام پیداواری شعبہ جات یعنی دنیا کا کوئی شعبہ اب ایسا نہیں رہا ۔جہاں کمپیوٹر یا اس کی ذیلی مصنوعات استعمال نہ ہو رہی ہوں ۔ دنیا میں اب خواہ کچھ بھی ہوجائے ۔ اب وہ پہلی سی دنیا واپس لانا ناممکن ہے ۔ اور کسی قوم کا اس نئی ٹیکنالوجیز کے بغیر ترقی کرنے کا خواب ،محض ایک خواب پریشاں کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔یہ تبدیلی اس رفتار سے ہورہی ہے ۔کہ جو ایجاد آج نئی اورانوکھی تصور کی جارہی ہے۔ وہ ہفتے عشرے بعد پرانی ہوچکی ہوگی اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ نئی نئی ایجادات اور از بس ضروری قسم کی جدید ٹیکنالوجیز اس تیز رفتاری سے وجود میں آرہی ہیں۔ کہ جو قومیں اس کا ساتھ نہ دے سکیں گی ۔ وہ یا تو محتاجِ محض بن کر رہ جائیں گی۔ یا پھر تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لئیے گُم گشتہ ہوجائیں گی ۔اور اس محتاجی اور گمشدگی کے لئیے ۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے قبل کے ”امتدادِ زمانہ “ ۔ ”نیرنگی زمانہ“۔اور ۔”گردشِ زمانہ“ جیسی اصطلحات بے معنی اور فرسودہ ثابت ہونگی ۔کیونکہ اب کمپیوٹر اور نت نئی ٹیکنالوجیز کے مقابلے میں ۔قوموں کی عدم تیاری کی وجہ سے۔ دیگر قوموں کی محتاجی کرنے۔ یا ۔تاریخ میں گُم گشتہ ہونے کا دورانیہ ۔”زمانوں“ ۔اور۔” صدیوں “۔کی بجائے محض چند دہائیوں پہ مشتمل ہوگا۔
یہ ایک عام معروف بات ہے ۔کہ جو ں جوں دنیا میں ذارئع ابلاغ نے ترقی کی ہے ۔ حریف ممالک ۔ حریف قوموں ۔حریف سیاسی جماعتوں ۔ حریف سیاسی نظریات۔ حتی کہ حریف کاروباری اداروں کے خلاف محسوس اور غیر محسوس طریقے سے پراپگنڈاہ اور بے ہودہ الزامات کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا ہے ۔ مگر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی ایجاد نے ذرائع ابلاغ کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔جس نے دنیا میں انسانی معاشروں میں اقدار اور طور طریقوں کو بدل کر رکھ دیا ہے ۔ اور محض چند بٹن دبانے سے ۔ ٹچ کرنے سے ۔ آپ ہزاروں میل دور ۔ خدا کی وسیع تر دنیا میں ۔ کہیں بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔ کسی بھی فرضی نام سے ۔درجنوں طریقوں سے اپنا مدعا بیان کر سکتے ہیں۔ کسی دوسرے فرد۔ گروہ ۔ معاشرے ۔ ملک ۔ قوم۔ مذہب۔ اقدار۔ طور طریقوں۔ کی ستائش اور تعریف کرسکتے ہیں۔ یا اختلاف کرتے ہوئے اپنا مدعا یا احتجاج درج کروا سکتے ہیں۔ اور آزادی ِ اظہار رائے کا بھرپور استعمال کرسکتے ہیں ۔ مگر ان باہمی رابطوں اور آزادی اظہار رائے کے پردے میں بہت سے مضمر پہلو بھی پوشیدہ ہیں۔ جس کا بہت سے لوگ شکار ہورہے ہیں۔ اس آزادی اظہار رائے کے پردے میں دنیا کے تقریبا سبھی ممالک میں ۔کچھ لوگ خصوصی طور پہ تیار کئیے جارہے ہیں ۔جو اپنے حریف اور دشمن ممالک کے کمپیوٹرز تک رسائی حاصل کرنے ۔ انکی جاسوسی کرنے ۔ انکی قیادت ۔ سائینس دانوں۔ اداروں ۔ افواج۔ دفاعی تنصیبات اور دیگر اہداف تک رسائی حاصل کرنے ۔ انکے کمپیوٹرز سوفٹ وئیرز کو تباہ کرنے جیسی تخریبی کاروئیاں کررہے ہیں ۔ اس تخریب کاری کو سائبر وار کا نام بھی دیا جاتا ہے ۔ جو کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ۔
مگر اس اس سائبر تخریب کاری سے بھی زیادہ خطرناک۔ اس سائبر وار کا نہائت مہلک ہتیار ایک اور بھی ہے۔ جس کے نقصان دہ اثرات ۔سائبر تخریب کاری سے کئی گناہ زیادہ ہیں ۔ جس کے تحت دشمن ممالک اور عالمی طاقتوں کے خاص طور پہ تیار کردہ پیشہ ور افراد ۔اسلام اور مسلمان قوموں خاص کر ۔ پاکستان ۔نظریہ پاکستان ۔ اور افواجِ پاکستان کے خلاف۔ ایک پیشہ ورانہ تیاری کے ساتھ۔ بھرپور طریقے سے حملہ آور ہوتے ہیں۔ اور عام طور پہ مسلمان ناموں کے ساتھ ۔ مسلمانی کے پردے میں ۔ انکے حملے کا انداز۔ نہائت بے ساختہ اور بظاہر بے ضرر لیکن انتہائی مضر ہوتا ہے ۔ ایسے لوگ۔ اسلام ۔ پاکستان ۔نظریہ پاکستان ۔ اور افواجِ پاکستان کے بارے شکوک اور افواہیں پھیلاتے ہوئے ۔پاکستانی معاشرے ۔ ملک ۔ قوم۔ مذہب۔ اقدار اور طور طریقوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس بارے افواہیں۔ بے بنیاد باتیں۔ شکوک و شبہات ۔ نوجوانوں کو احساس کمتری میں مبتلاء کرنا ۔ اور مایوس کُن نظریات پھیلانے۔ میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں ۔ جو اپنے اس طریقہ کار کو آگے بڑھانے کے لئیے اپنے ساتھ لوگوں کو ملانے میں ماہر ہوتے ہیں ۔ اور بد قسمتی سے اسلام اور پاکستان سے شاکی کچھ لوگ۔ الحاد ی ۔ قادیانی۔ نظام سے شاکی۔ دین بیزار۔ اور کچھ ناعاقبت اندیش محض جدت کے شوق میں۔ ان کے آلہ کار بن کر اپنے ہی ملک و قوم کی جڑیں کاٹتے مصروف ہیں۔ اور نہائت زہریلے افکارات۔ معصوم اور سادہ نوجوانوں میں پھیلا رہے ہیں ۔ جن کا ایک خاص مقصد۔ اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان کے خلاف ۔ایک رائے عامہ تیار کرنا ہے ۔ جو بغیر کسی تحقیقی یا مطالعیاتی تکلف کے۔آنکھیں بند کر کے۔ انکے زہریلے پروپگنڈے پہ یقین لے آئے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں انٹرنیٹ اور حال ہی میں تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی فون پہ دستیاب ہونے کی وجہ سے ۔ واجبی تعلیم اور سطحی ذہنیت کے کچھ بے وقوف لوگوں کے ہاتھ میں ایک فون اور انٹرنیٹ ایسے آگیا ہے جیسے بندر کے ہاتھ میں ماچس۔ اور وہ نہ آؤ دیکھتے ہیں نہ تاؤ ۔ بس پورن سائٹس سے اخلاقی بگاڑ پیدا کرنے سے لیکر۔ لوگوں کو گالم گلوچ دینے ۔اور اپنے ہی ملک کے بارے فیشن کے طور پہ ۔اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان۔ کے خلاف گھڑی گھڑائی باتیں لکھنے۔ اورایک نئے میڈیا پہ ۔محض چند لائکس حاصل کرنے کے لئیے ۔ اول فول بکتے چلے جاتے ہیں ۔
مگر جو زیادہ سنجیدہ اور اور حساس لوگوں کے لئیے پریشان کُن مسئلہ ہے۔ وہ انٹر نیٹ پہ ۔ فیس بُک ۔ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پہ۔ بہت سے ہندؤوں ، قادیانیوں اور حتی کہ کچھ اردو جاننے والے یہودی صہونیوں نے ۔ مشنریوں نے ۔الحادیوں اور پاکستان سے بیزار نام نہاد تاریخ دانوں ۔ ماضی کے کچھ نام نہاد ترقی پسند اور آجکل امریکہ کی محبت میں دیوانے ۔ قوم فروش لوگوں نے۔ مسلمانوں اور دیگر نام سے اسلام ۔ پاکستان ۔نظریہ پاکستان ۔ اور افواجِ پاکستان کے خلاف بہت سے پیج بنا رکھے ہیں۔ پاکستانیوں میں لسانی اور صوبائی حتٰی علاقائی تعصب ابھارتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جنا ح اور اقبال رحمتہ اللہ علیہ جیسی شخصیتوں کے اسلام اور پاکستان کے بارے واضح افکارات کو مشکوک بنا کر پیش کرتے ہیں۔ کچھ بد بخت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے ۔ مسلمانی کے پردے میں نہائت رقیق اور غلیظ باتیں تک ان سے منسوب کرنے سے باز نہیں آتے۔
اپنے پیجز پہ۔ یہ لوگ نام بدل بدل کر اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان۔ کے بارے ہرزہ سرائی کرتے ہیں ۔ ایک دوسرے کی ستائش کرتے ہیں۔ اور بقائے باہمی کے تحت ایک دوسرے کی پوسٹس لائک اور شئیر کرتے ہیں۔ یہ لوگ دین اسلام اور پاکستانی کی اساسی بنیادوں کے بارے پیشہ وارانہ تیاری کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں۔جب کوئی انہیں مدلل جواب دے تو الامان الحفیظ ۔ یہ اسے جواب تک نہیں لکھنے دیتے ۔ غلیظ ہتکھنڈوں سے اس کے لتے لیتے ہیں ۔
بعض کا طریقہ واردات نہائت نپا تُلا ہے ۔ یہ مسلمانی کے پردے میں ۔اپنی طرف سے گھڑی مشکوک احادیث تک دھڑلے سے بیان کر دیتے ہیں۔ جب قائد اعظم محمد علی جنا ح رحمتہ اللہ اور اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے مسلمانی کردار کے بارے ۔ اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان۔ کے بارے فرضی کتابوں اور دانشوروں کے نام کا حوالہ دے دیں گے ۔۔ فرضی یا پچھلے کچھ سالوں سے پاکستان کے خلاف لکھنے والے ۔دیہاڑی دار۔ بزعم خویش دانشور اور تاریخ دان کے نام سے حوالہ دیں گے ۔ جن میں سے کچھ نے پاکستان کے خلاف۔ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے دھڑلے سے زہر اگلا ہے ۔ ان چند بکاؤ مال کےنام لکھ دیں گے ۔ ”فرضی ڈاکٹر دانشوروں کے نام سے فرضی کتاب سے استفادہ “لکھ کر شکوک اور مایوسی پیدا کرنے والے اسٹیٹس لکھ دیں گے۔
عام طور پہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے پیجز کو خواہ وہ کس قدر ہی دل آزار کیوں نہ ہو۔متعقلہ میڈیا کو رپوٹ کیا جائے۔ تو میڈیا کی انتظامیہ کا ۔پہلے سے پرنٹڈ جواب لمحوں میں آجائے گا ۔ کہ ”آپ کا شکریہ ۔ لیکن ہماری ٹیم نے متعلقہ پیج۔ یا تصویر پہ ایسا کوئی قابلِ اعتراض مواد نہیں دیکھا جس بارے آپ نے رپوٹ کی ہے“۔ اور ملک و قوم اور اسلام سے محبت رکھنے والے گُمنام لوگ ۔ انتہائی بے بسی سے ۔پھر سے۔ ایسے پیجز کے خلاف اپنی مقدور بھر کوشش سے۔ لکھنے میں جڑ جاتے ہیں ۔ مگر اسی پہ بس نہیں ۔ ایسے اسلام اور پاکستان ۔ دشمن پیجز کا مقابلہ کرنے والوں کو۔ اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان کا رضاکارانہ طور پہ دفاع کرنے والے لوگوں کو۔ حیرت کا جھٹکا اس وقت لگتا ہے۔ جب الٹا ایسے درد مند مسلمانوں اور محب الوطنوں کو اس پیج سے ہی نہیں۔ بلکہ اس سوشل میڈیا ہی سے بلاک کر دیا جاتا ہے ۔ اور وہ محض ایک ناظر کی حیثیت کے سوا ۔ کوئی سوال کرنے ۔ یا کچھ لکھنے یا شئیر کرنے یا اپنی رائے دینے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ یا اان کی آئی ڈی کو ہمیشہ کے لئیے بلاک کر دیا جاتا ہے۔
ہمارا مسئلہ۔ جسے بجا طور پہ ایک قومی مسئلہ کہا جا سکتا ہے ۔ وہ یہ ہے ۔ کہ پاکستان میں انٹر نیٹ عام ہونے سے اور خاصکر ٹیبس اور فون پہ انٹر نیٹ عام ہونے سے۔ کچھ لوگ تو اس سے اپنی تعلیمی ۔ کاروباری۔ باہمی رابطے ۔ مطالعاتی ۔ عام ریسرچ اور دینی اور دیگر کئی طرح کی سرگرمیوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ مگر کچھ ایسے بھی کم تعلیم یافتہ۔ یا ۔واجبی تعلیم کے حامل لوگ ہیں ۔ جو اس طرح کی سائٹس اور فیس بک۔ ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پہ ۔ اسلام اور پاکستان دشمن لوگوں کی ۔مشکوک اور مایوس باتوں ۔اور جھوٹی دلیلوں سے۔ دینی علوم اور پاکستان کے بارے مطالعہ کم ہونے کی وجہ سے ۔آسانی سے ٹریپ ہوجاتے ہیں۔ اور اسلام اور پاکستان کے بارے مختلف شکوک کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ ایسے شکار ہونے والے لوگوں میں نوجوان لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔جس سے قومی اور اسلامی سوچ منتشر ہورہی ہے ۔ اور پہلے سے انتشار کے شکار ۔معاشرہے میں عجیب و غریب اور نت نئے قسم کے افکارات کی فصل بونے کی کوشش ۔نہائت چابک دستی سے کی جارہی ہے۔جو آئیندہ چند سالوں میں پاکستان کے لئیے ایک بہت بڑی سردردی ثابت ہوگی۔
اس میں کوئی شک نہیں تقریبا ہر محاذ پہ مسلمان اور محب الوطن لوگوں نے ۔ایسے لوگوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔مگر کلی طور پہ اس مسئلے کا حل یہ ہے ۔کہ پاکستان میں قائم کئیے گئے ادارے جو سفید ہاتھیوں سے کم نہیں۔ انہیں اس نئی قسم کی سائبر گوریلا وار کے لئیے فعال کیا جائے ۔ انہیں ٹیلینٹد اور پڑھے لکھے افراد مہیاء کئیے جائیں۔ جو پروگرامرز ہوں۔ جو ایسی نئی ٹیکنالوجیز پہ عبور رکھتے ہوں۔ انکی متواتر تریبت کا بندوبست ہو۔ وہ ایسی ٹیکنالوجیز کا اسلامی اور ملکی مفاد میں حل نکالیں۔ انکا توڑ سوچیں ۔ اور ایسے لوگ جو صاحب علم ہوں ، ذہین ہوں اور اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان کے بارے سازشی اور مایوس نظریات پھیلانے والوں کا منہ توڑ جواب دے سکیں ۔ اور گوریلا سائبر وار کو یومیہ بنیادوں پہ روکنا ہوگا۔
پاکستان میں الکٹرانک میڈیا ۔جہاں سے نہائت سائنٹیفک طریقے سے۔بارہا ۔ اسلام ۔ پاکستان ۔ نظریہ پاکستان۔ اور افواجِ پاکستان۔حملے کئیے گئے ۔ اور حکومت پاکستان اور متعقلہ ادارے ۔ پیمرا وغیرہ ۔میڈیا کو کسی ضابطہ اخلاق کے پابند بنانے میں ہنوز ناکام ہیں ۔سیاسی پارٹیاں اور حکمران۔ جو بجائے خود اسی بے لگام الیکٹرانک میڈیا پہ ۔اپنی بات کہنے کے لئیے اسی میڈیا کے محتاج ہیں ۔ وہ الیکٹرانک میڈیا کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہیں تو اسکے خلاف کاروائی کیسے کریں گے۔اور الیکٹرانک میڈیا کی ہی بے ہودگی کیا کم تھی ۔ کہ سوشل میڈیا سے پاکستان کے خلاف باقاعدہ ایک گوریلا سائبر وار چلائی جارہی ہے۔اور ذہن یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس کے خلاف کیونکر پاکستانی حکمران ایک موثر جوابی کاروائی کو معمول بنا سکیں گے؟۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری حکومتوں اور ارباب اقتدارو اختیار ۔ اور ذمہ داران کو۔ ان محکموں کو ۔جو ایسی نئی اور جدید ٹیکنالوجی کی جنگ کے لئیے تیار کئیے گئے ہیں ۔ انھیں خبر ہی نہیں۔ یا خبر ہے تو ۔وہ پاکستان کے دیگر اداروں کی طرح۔محض حکمرانوں کی کاسہ لیسی کے سوا کچھ اور کرنے کو تیار نہیں۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, ”امتدادِ, فہم, ہفتے, ہمیشہ, ہو, ہونے, ہوچکی, ہوگی, ہوگا۔یہ, ہوں, ہوجائیں, ہوجائے, ہورہی, ہیں۔, ہے, ہے۔, ہے۔اور, ہر, قوم, قومیں, قبل, قسم, لئیے, لانا, میں, محتاجی, محتاجِ, محض, مصنوعات, نہ, نہیں, چند, نے, نئی, ناممکن, وہ, والی, والے, واپس, ڈار, وجود, یا, یعنی, ۔, ۔کہ, ۔کھیل, ۔اور, ۔تمام, ۔جہاں, ۔جس, ۔شوق, ۔صنعت, کہ, کمپیوٹر, کوئی, کی, کیا, کے, کا, کر, کرنے, کرنا, کسی, گمشدگی, گوریلا, گی, گی۔, گُم, گئی, گزرنے, گشتہ, ٹیکنالوجیز, پہلی, پہیے, پہ۔, پیداواری, پھر, پاکستان, پریشاں, پرانی, ،محض, آج, آرہی, انقلاب, انٹرنیٹ, انسان, انسانی, اور, اوراق, اورانوکھی, ایک, ایجاد, ایجادات, ایسا, اب, از, اس, استعمال, بن, بڑا, بھی, بدل, برپا, بس, بعد, بغیر, تو, توانائی, تیز, تیسرا, تک, تھا, تاریخ, تبدیلی, تجاہل, ترقی, تصور, تعلیم۔, جو, جائیں, جات, جارہی, جدید, حضرتِ, خلاف, خواہ, خواب, دفاع, دن, دنیا, دے, دریافت, ذیلی, رہ, رہی, رہا, رفتار, رفتاری, زمانہ, زندگی, سوا, سی, سے, سکیں“, سالوں, سائبر, ساتھ, شعبہ, صحت۔, ضروری, طرح, عارفانہ۔لوہے, عشرے
جلتے سراب!
میں کچھ دیر سے پہنچا تھا۔ وہ ایک نواحی پہاڑی بستی ہے۔
میں سمجھ گیا تھا کہ رات پھر گھمسان کا رن پڑا تھا ۔ اور میدان کارِزار ۔ابھی تک گرم ہے ۔دونوں میاں بیوی ایک دوسرے سے رُوٹھے منہ بنائے ۔ابھی تک منہ لٹکائے ہوئے تھے ۔
جوزیبپ اور ماریہ ۔ یہ دونوں ہسپانوی میاں بیوی میرے پرانے جاننے والوں میں سے ہیں ۔عام یوروپی جوڑوں کی طرح ۔ ان کے بھی ابھی بچے نہیں ہیں۔ دونوں اعلٰی تعلیم یافتہ اور کاروباری ہیں ۔ خلوص کے بندے ہیں۔ میرے سبھی یوروپی شناسا لوگ ۔میری مسلمانی سمیت مجھے دوست رکھتے ہیں ۔ کبھی کسی نے نماز پڑھنے ۔ رمضان کے روزے رکھنے اور شراب نہ پینے اور سؤر کا گوشت نہ کھانے پہ اچھنپے کا اظہار نہیں کیا ۔ بلکہ کسی حد تک میرے دینی معاملات کا احترام کرتے ہیں ۔ خاص کر رمضان الکریم میں یورپی عادت کے مطابق دوپہر کے بعد سے بھُوک کی وجہ سے خریت پوچھتے اور دلاسہ بھی دیتے ہیں کہ بس اب روزہ افطاری میں کم وقت رہ گیا ہے۔ یا ممکن ہے یوں ہوا ہو کہ وہی لوگ میرے تعلق میں رہ گئے ہوں جو باہمی احترام کا شعور رکھتے ہیں۔ بدلے میں ، میں بھی انکے مشاغل میں مخل نہیں ہوتا اور انکی ذاتی زندگی کا ۔انکے معاملات کا احترام کرتا ہوں۔
آج کل دن بہت اجلے اور دُہلے ہوئے ہوتے ہیں۔آسمان صاف اور شفاف نظر آتا ہے۔ د ن کو ہر سُو چمکتی خوشگوار سی دھوپ آنکھوں کو بھلی محسوس ہوتی ہے ۔پیر کو مقامی چھٹی ہونے کی وجہ سے میں نے اپنا آفس جمعہ کی دوپہر کو تین دن کے لئے بند کر دیا تھا۔ ایسے میں گھرمیں اکیلے دن کو رات اور رات کو دن کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
جوزیبپ اور ماریہ ۔ نے لمبے ویک اینڈ پہ ایک جنگل میں ایک راوئتی فارم ہاؤس بُک کروا رکھا تھا ۔جوزیبپ اور ماریہ نے بہ إصرار اس لمبے ویک اینڈ پہ مجھے مدعو کر رکھا تھا ۔میں انکے گھر قدرے تاخیر سے پہنچاتھا۔ جہاں سے ہم نے فارم ہاؤس جانا تھا ۔ وہاں انکے کچھ اور دوست بھی مدعو تھے۔دونوں میاں بیوی کبھی کبھار نہائت خلوص اور جوش سے ایک دوسرے کی خبر بھی لیتے ہیں۔ دونوں الگ الگ مجھ سے ملے ۔میں نے کچھ دیر سمجھایا ۔آخر کار واپس شہر لوٹ جانےکی میری دہمکی کار گر ثابت ہوئی ۔تھوڑی دیر میں دونوں شیر شکر۔اپنی گاڑی میں ضروری سامان رکھ رہے تھے۔
کہنے کو تو یہ ایک بستی ہے مگر بلا مبالغہ اس بستی کا رقبہ کسی بڑے قصبے سے کم نہیں ۔علاقہ جدی پشتی امراء کا ہے ۔ جو بدلتے وقتوں میں نئے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال کر انتظامیہ کے بڑے عہدوں پہ فائز ہیں ۔اور ہر ویک اینڈ اور چھٹی پہ اپنی بڑی بڑی حویلیوں کو لوٹ جاتے ہیں۔چند ایک ایکڑوں پہ پھیلی حویلیوں میں۔ الپائن کے بڑے بڑے درختوں کے بیچ ۔کھلی جگہ پہ انکا قومی جھنڈا ۔اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہاں کوئی ایسا اعلٰی حکومتی عہدیدار مقیم ہے ۔ جس کی اقامت اس بات کی متقاضی ہے ۔کہ اس اعلٰی (وی آئی پی ) حکومتی عہدیدار کے حفظ و مراتب (پروٹوکول)کے مطابق اِس ملک کا قومی جھنڈا لہرایا جانا ضروری ہے۔
ویسے تو بستی کو اور بھی راستے جاتے ہیں ۔ مگر ان میں قابل ذکر تین راستے ہیں ۔ایک تو سمندر کے ساتھ ریلوے لائن کے متوازی بہتی قومی شاہرا ہ ہے جو بحیرہ روم کے ساحل کے ساتھ پیچ وخم کھاتی سمندر کنارے ساحلی بستیوں اور قصبوں میں سے لہراتی ہوئی فرانس کو نکل جاتی ہے۔اس پہ جائیں تو علاقائی تجارتی مرکز سے کچھ گیارہ کلومیٹرز آگے جا کر یک دم تقریبا نوے کے زاویے پہ الٹے ہاتھ کو گھوم کر ساحل سے نسبتا کچھ دور بلندی پہ واقع چند کلومیٹرز چلتی ہوئی ۔ موٹر وے کے کے لئیے بنے پُل کے نیچے سے گزرتی ہوئی مذکورہ بستی کی مضافاتی ایکڑوں پہ پھیلی اور مختلف سرسبز درختوں سے ڈہکیں حویلیوں میں جا نکلتی ہے۔ حویلوں میں اونچے اور صدیوں پرانے چیڑھ ا یعنی لپائن کے بڑے بڑے دیو قامت درختوں نے ۔حویلوں کو اپنے اندر چھپا رکھا ہے ۔ جس وجہ سے۔ عام نظر سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ کہاں سے حویلی کی حدختم ہوئی اور کب جنگل شروع ہو گیا۔ کچھ حویلیوں کا بیرونی احاطہ پہاڑی نشیب فراز کے ساتھ ساتھ اونچا نیچا ہوتا چلا جاتا ہے ۔ حفاظتی حصار کے طور لگائی گئی باڑھ اور ان پہ جگہ بہ جگہ الارم ۔مسلح گارڈز اور خوانخوار کتوں کی تنبیہ کی لگے بورڈوں سے پتہ چلتا ہے ۔کہ جنگل اور حویلی کی حدود کہاں ہیں۔ ایکڑوں پہ پھیلے حویلیوں کے رقبوں ۔ پہ جگہ بہ جگہ بنی روشیں اور اُن کے اس سرے پہ بنے گیٹ۔ اور دور اندر بنے نوکر پیشہ کے لئیے بنائے گئے گھرنظر آتے ہیں۔
اس بستی کو جانے کا دوسرا رستہ ۔ موٹر وے پہ ناک کی سیدھ میں چلتا۔ پچھلے علاقے کے تجاری مرکزی قصبے سے، الٹے ہاتھ کو بل کھا کر سیدھا اوپر کو اٹھتا ہے۔ اور وہاں سے ایک ذیلی راستہ۔ موٹر وے کو چھوڑ کر پھر اسی راستے سے جا ملتا ہے۔ جو بحیرہ روم کی طرف سے آنے والی سڑک ہے اور یہاں پہنچ کر وہ موٹر وے کے نیچے سے نکلتی ہے۔اور موٹر وے اوپر پُل سے گزر تا ہے۔
تیسرا رستہ وہ ہے جو شاہراہ یا موٹر وے سے نزدیکی تجارتی قصبے سے ایک سڑک کی صورت پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ متواتر اوپر چڑہتا چلا جاتا ہے اور تقریبا نصف فاصلے پہ پہنچ کر کچھ ہموار سطح پہ ۔زلفِ یار کے پیچ وخم کی طرح گول گول گھومتا ۔ہر موڑ پہ پہاڑی کے پیٹ میں سے ہو کر برآمد ہوتا ہے ۔ یہ سڑک کے اس حصے کا ٹاپ یعنی سب سے اونچی اونچائی ہے ۔ جہاں سے نیچے ترائی میں ۔ایک طرف ننھی منی پہاڑیوں کی کے ارد گرد۔ الپائن ۔ چیڑھ کے جھنڈوں اور جا بجا پھلوں اور پودوں کی نرسریوں کا ایک سلسلہ پھیلا ہوا ہے ۔ جن کے اوپر سے دور بہت دور ۔ کئی کلومیٹرز کے فاصلے پہ ۔ بحیرہ رُوم کے متوازی بہتی سڑک اور ریلوے لائن کے اُس پار ہمیشہ کی طرح ساکت اور پوری آب و تاب سے صدیوں کا عینی شاہد بحیرہ رُوم کھڑا ہے ۔ خاموش مگر ہزاروں سال کی انسانی تہذیب اور تمدن کا چشم دید گواہ ۔
اس تیسرے رستے کے الٹے ہاتھ پہ گھنا اور تاریک جنگل ہے۔ جس میں گاہے گاہے ۔ اکا دُکا کچھ لوگوں نے دور کہیں جنگل کے اندر گایوں اور دیگر جانوروں کے افزائش نسل کے لئیے روائتی فارم بنا رکھے ہیں ۔ سڑک کی الٹی سمت سے ۔ان فارموں کو جاتے نیم پختہ راستے اور ان پہ لگے چھوٹے چھوٹے بورڈا ُدہر جنگل میں انسانی وجود کا پتہ دیتے ہیں۔ سڑک گول گول گھومتی ۔ یکایک پہاڑی کے پیٹ میں سے ہو کر برآمد ہوتی ہے ۔سڑک کے دورویہ قدرتی طو ر پہ اُگے پھولوں کے تختے ۔ یہاں سے وہاں تک بہار کا پتہ دیتے ہیں۔ سبزہ اور رنگ برنگے قدرتی پھول ۔ مٹی ۔پتھروں اور چھوٹی موٹی چٹانوں کو برابر اپنے وجود سے ڈھانپے ہوئے ہیں۔ کہیں کہیں اوپر سے رستا۔ کسی چشمے سے بہتا پانی۔ ننھی لکیر سی بناتا ، سڑک کے الٹے کنارے پہ ہی کسی زمین دوز رستے میں گُم ہو کر سڑک کے نیچے سے ۔ سیدھے ہاتھ کو ترائی میں کہیں گُم ہو جاتا ہے۔ اس سڑک پہ گاڑی پارک کرنے یا ویویو پوائنٹ کے طور مناسب جگہ بہت ہی تھوڑی ۔یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ جہاں سے روشن دنوں میں ۔ عصر کے وقت ۔ دُور نیچے سمندر کے اُس پار تک ۔ جہاں تک نظر جاتی ہے۔ سوُرج پگھلے ہوئے سونے کے سیال کی طرح۔ دل کو بھانے والی سنہری دہوپ بکھیرتا ہے۔
رات رکنے کے بعد ہر کوئی دن کو جدہر جس کے سینگ سمائے نکل گیا ۔ جنگل یا سمندر پاس ہو اور چھٹی ہو تو گھر کون بیٹھتا ہے۔
میں چپکے سے گاڑی لے کر گول گھومتی چکر دار پہاڑیوں سے نکلتا ۔ نیچے وادی میں واقع سمندر کے برابر بہتی سڑک کی طرف نکل آیا ۔
سامنے تا حدِ نگاہ بحرہ روم پھیلا ہوا تھا۔ہمیشہ کی طرح پرسکون اور اور پر اسرار۔ اپنے اندر انگنت کہانیاں اور افسانے چھپائے ہوئے۔صدیوں کو اپنے سینے میں سموئے۔ اکا دکا آبی پرندےچیخ کر سطح سمندر پہ ڈبکی لگاتے اور ابھرتے۔ کچھ ساعتوں میں، دور مغرب میں سورج غروب ہوا چاہتا تھا۔ دن کے وقت سن باتھ لینے والے کب کے جاچکے تھے۔ ساحل سمندر خالی ہوا پڑا تھا۔ ادہر ادہر کچھ جوڑے اپنی رومانی دنیا میں کھوئے راز ونیاز کر رہے تھے۔
میں نے اپنے پیچھے سڑک کے اُس طرف، دوسرے کنارے ایکڑوں پہ پھیلی ۔ چھٹی کی وجہ سے بند مارکیٹ کے ساتھ پارکنگ ایریا میں گاڑی کھڑی کی تھی۔مارکیٹ کے نزدیکی بار سے کچھ اسنیکس اور ایک مشروب کا ٹھنڈا کین خرید کر سڑک اور سڑک کے بالکل متوازی چلتے، ریلوے کے دوہرے ٹریک کو ان پہ بنےہوئے پُل کو پیدل چل کر عبور کیا اور ساحل سمند کی طرف آگیا۔
پل پیدل چلنے والوں کی سہولت کے لئیے ہے۔اوراسکی سیڑہیاں ساحلِ سمندر پہ اترتی ہیں۔ اِس طرف درختوں کے دو چار جھنڈ ہیں جن کے ساتھ ساتھ بنچوں کی قطاریں بنی ہیں اور ایک طرف کچھ فاصلے سے صاف پانی کے فوارے کی سی شکل میں شاور بنے ہیں۔ جہاں دن کو سن باتھ لینے والے گھر جاتے وقت سمندری پانی کے نمک اور ریت سے جان چھڑاتے ہیں۔
دور کہیں ڈوبتے سورج کی روپہلی کرنیں سامنے سطح سمندر پہر سونا بکھیر رہی تھیں۔نمازِ مغرب بھی کچھ دیر باقی تھی۔ یہ ساحل عام آبادی سے ہٹ کر ہے۔ ساحل پہ سوائے سمندرکی لہروں کے اضطراب اور آبی پرندوں کے کوئی آواز نہیں تھی ۔ ایک خاموشی کا سا تاثر ابھرتا تھا۔
”کن سوچوں میں کھوئے ہو؟ اداس نہ ہوا کرو۔ آسمان کے اس پار جانے والے لوٹ کر واپس نہیں آیا کرتے”۔ایک بھولی بسری شناسا سی آواز سنائی دیتی محسوس ہوئی۔
میں نے بینچ پہ بیٹھے ہوئے، اچانک چونک کر پیچھے مڑ کر دیکھا۔
درختوں کے جھنڈ میں گھری حویلی ۔زمین کو چھوتی شاخوں والے آموں کے پیڑ ۔ پانی کے چھڑکاؤ سے اٹھتی مٹی کی سوندھی خوُشبؤ۔ نیم کے درخت والے دالان میں بچھی کرسیاں۔دیوار کے ساتھ ساتھ لگے رات کی رانی کے پودے سامنے آدھ کھُلے چوبی پھاٹک سے شیشم کے درختوں کے دو رویہ قطاروں کے بیچوں بیچ کھیتوں سے گزرتی بڑی سڑک کو ملاتی نیم پختہ سڑک۔ اور وہ مہربان آواز۔ آناََ فاناَ ۔ پُھر سے ۔ غائب ہوچکے تھے اور ریلوے ٹریک سے ایک سبق رفتارٹرین شور مچاتی گزر گئی تھی اور سمندر کے اس کنارے پہ پھر وہی خالی ساحل اور خاموشی تھی۔میں نے خالی کین کو بنچ کنارے لگی کوڑا سمیٹنے والی ٹوکری میں اچھال دیا۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, ہم, ہو, ہونے, ہوں, ہوں۔آج, ہوئی, ہوئے, ہوا, ہوتی, ہوتے, ہوتا, ہیں, ہیں۔, ہیں۔چند, ہیں۔آسمان, ہے, ہے۔, ہے۔جوزیبپ, ہاؤس, فائز, فارم, ہر, ہسپانوی, قومی, قدرے, قصبے, لمبے, لوگ, لوٹ, لیتے, لٹکائے, لئے, مقیم, مقامی, ملے, ممکن, منہ, میں, میں۔, میاں, میدان, میری, میرے, مگر, ماریہ, مبالغہ, متقاضی, مجھ, مجھے, محسوس, مخل, مدعو, مسلمانی, مشکل, مشاغل, مطابق, معاملات, ن, نہ, نہیں, نہائت, چمکتی, نماز, نواحی, نے, چھٹی, نئے, نظر, وہ, وہی, وہاں, وقت, وقتوں, وی, ویک, ڈھال, والوں, واپس, وجہ, یہ, یہاں, یوں, یوروپی, یورپی, یا, یافتہ, ۔, ۔میں, ۔میری, ۔کہ, ۔کھلی, ۔پیر, ۔آخر, ۔انکے, ۔اور, ۔ابھی, ۔اس, ۔تھوڑی, ۔جوزیبپ, ۔دونوں, ۔علاقہ, ۔عام, کہ, کہنے, کل, کم, کو, کوئی, کی, کیا, کے, کھانے, کا, کار, کاروباری, کارِزار, کبھی, کبھار, کر, کرنا, کروا, کرتے, کرتا, کسی, گواہی, گوشت, گیا, گھمسان, گھر, گھرمیں, گئے, گاڑی, گر, گرم, پہ, پہنچا, پہنچاتھا۔, پہاڑی, پوچھتے, پی, پینے, پڑھنے, پڑا, پھیلی, پھر, پرانے, پشتی, ،, آفسجمعہ, آپ, آئی, إصرار, افطاری, اقامت, الکریم, الگ, الپائن, امراء, ان, انکی, انکے, انکا, اچھنپے, انتظامیہ, اور, اینڈ, ایک, ایکڑوں, ایسے, ایسا, آنکھوں, آتا, اکیلے, اپنی, اپنے, اپنا, اب, ابھی, اجلے, احترام, اس, اظہار, اعلٰی, بہ, بہت, بلکہ, بلا, بچے, بنائے, بند, بندے, بیچ, بیوی, بُک, بڑی, بڑے, بھلی, بھی, بھُوک, باہمی, بات, بدلے, بدلتے, بس, بستی, بعد, تقاضوں, تو, تین, تک, تھے, تھے۔, تھے۔دونوں, تھا, تھا۔, تاخیر, تعلق, تعلیم, ثابت, جہاں, جلتے, جنگل, جو, جوڑوں, جوش, جگہ, جھنڈا, جاننے, جانےکی, جانا, جاتے, جاتا, جدی, جس, حویلیوں, حکومتی, حد, خلوص, خوشگوار, خاص, خبر, خریت, د, دہمکی, دلاسہ, دن, دونوں, دوپہر, دوست, دوسرے, دینی, دیا, دیتے, دیتا, دیر, دُہلے, دھوپ, درختوں, ذاتی, رہ, رہے, رقبہ, رمضان, رن, روزہ, روزے, رُوٹھے, رکھ, رکھنے, رکھا, رکھتے, راوئتی, رات, زندگی, سمیت, سمجھ, سمجھایا, سی, سُو, سے, سؤر, سامان, سبھی, سراب!میں, شفاف, شہر, شناسا, شیر, شکر۔اپنی, شراب, شعور, صاف, ضروری, طرح, عہدوں, عہدیدار, عادت