RSS

Tag Archives: بحث

پھر بجٹ۔


پھر بجٹ۔

Budget (مالی سال جولائی 2014ء تا 2015 ء)
دور روز قبل پاکستان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے پاکستان کا سالانہ (مالی سال جولائی 2014ء تا 2015 ء)بجٹ پیش کیا ہے ۔
یہاں حالیہ پیش کردہ بجٹ کے گورکھ دہندے پہ بحث کرنا مقصود نہیں ۔ کیونکہ یہ لچھے دار اور گنجلک بجٹ ہمیشہ سے عام آدمی کی سمجھ سے بالا تر رہے ہیں اور عام خیال یہی ہے کہ انہیں بابو لوگ پاکستان کے دیگر سرکاری نظام کی طرح جان بوجھ کر بھی کچھ اسطرح پیچیدہ اور سمجھ میں نہ آنے والی چیز بنا دیتے ہیں تانکہ عام عوام حسبِ معمول ہمیشہ کی طرح محض سر ہلا کر ”قبول ہے“ کہنے میں ہی عافیت سمجھے ۔
بجٹ کی ایک سادہ تعریف تو یہ ہے کہ کسی بھی ذاتی یا مشترکہ نظام کو چلانے کے لئیے اس نظام پہ اٹھنے والے اخراجات اور اسکی ترجیجات کے لئیے کسی ایک خاص مدت کے لئیے دستیاب میسر وسائل کی منصوبہ بندی کرناہے۔ اسے عام طور پہ بجٹ کہا جاتا ہے ۔ بجٹ ذاتی یا گھریلو بھی ہوسکتا ہے ۔محکمہ جاتی یا ملکی بھی ہوتا ہے ۔ گھریلو ہو تو عام طور پہ اسے ماہانہ بنیادوں پہ سوچا جاتا ہے اور اگر ادارہ جاتی اور ملکی ہو تو اسے سالانہ بنیادوں پہ بنایا جاتا ہے ۔ جسے ملک و قوم کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر سالانہ بنیادوں پہ تیار کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پہ تقریبا سارے دنیا کے ممالک کسی نہ کسی طور سالانہ بجٹ کے تحت اپنے معاملات چلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جس میں مختلف مقاصد کے لئیے مخصوص رقم مقرر کی جاتی ہے اور رقم اور وسائل کی دستیابی کے لئیے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔قومی ترقی۔ دفاع ۔ صحت ۔ تعلیم اور دیگر اہداف مقرر کئیے جاتے ہیں ۔ جبکہ پاکستان میں بجٹ کے آغاز سے بجٹ کے مالی سال کے اختتام تک بندر بانٹ ۔ وقتی ضرورت ۔ بد دیانتی اور دیگر کئی قسم کے جوازوں کے تحت قومی خزانے کے صندوق کا ڈھکن اٹھا دیا جاتا ہے اور بڑھے ہوئے ہاتھ ۔ قوم کی امانت رقم کو قومی ضروت سے کہیں زیادہ اپنی ذاتی اغراض کے لئیے اپنی طرف منتقل کر لیتے ہیں اور منتقلی کا یہ عمل ایسی سائنسی طریقوں سے کیا جاتا ہے ۔ کہ قومی خزانے کو بے دردی سے لُوٹنے والے چور بھی حلق پھاڑ پھاڑ کر ”چور“ چور“ کا شور مچاتے ہیں ۔اور مجال ہے کہ چشم دید گواہوں اور شہادتوں کے باوجود ایسی طریقہ واردات پہ کسی کو سزا دی گئی ہو۔ اور پاکستان کے نصیب میں ہمیشہ سے یوں ہی رہا ہے ۔
قوم کی امانت ۔ قومی خزانے کو خُرد بُرد ہر اور ہیرا پھیری سے اپنی جیب میں بھر لینا ۔شیر مادر کی طرح اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔ایسے میں کم وسائل اور عالمی مہاجنوں کے مہنگے قرضوں۔ امداد و خیرات سے تصور کئیے گے وسائل سے (خسارے کا بجٹ) خسارے کے بجٹ پہ حکومتوں اور اداروں کے سربراہوں ، مشیروں وزیروں کے شاہی اخراجات اور ایک عام چپڑاسی سے لیکر عام اہلکاروں اور اعلٰی عہدیداروں کے حصے بقدر جثے اور دیگر اللوں تللوں سے یہ تصور محض تصور ہی رہتا ہے کہ کہ پاکستان سے غربت اور ناخواندگی ختم ہو اور قومی ترقی کی شرح میں قابل قدر اضافہ ہو۔اور مالی سال کے آخر میں وہی نتیجہ سامنے آتا ہے جو پاکستان میں پچھلی چھ دہائیوں سے متواتر آرہا ہے کہ نہ صرف غریب ۔ غریب سے غریب تر ہوتا گیا بلکہ ہر سال غریبوں کی تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے ۔ عالمی اداروں کی حالیہ حد بندیوں میں پاکستان کئی درجے نیچے کو لڑھک رہا ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں غریبی کی سطح سے نیچے زندگی Low povertyگزارنے والی آبادی نصف سے زائد ہے ۔ خود اسحق ڈار نے اپنی بجٹ تقریر میں یہ بات تسلیم کی ہے کہ پاکستان کی نصف سے زائد آبادی غریبی کی آخری حد سے نیچے ۔ یعنی دو ڈالر یومیہ آمدن سے کم کماتی ہے۔ یعنی ایسے غریب جو مستقبل کے بارے کسی قسم کی منصوبہ بندی کرنے سے محض اس لئیے قاصر ہیں کہ وہ اپنے یومیہ بنیادی اخراجات پورے کرنے کی جستجو میں محض زندہ رہنے کا جتن کر پاتے ہیں۔ایسے حالات میں ایک لگے بندھے بجٹ کے طریقہ کار سے حکومت اور ذمہ دار اداروں کا اپنے آپ کوقومی ذمہ داریوں سے سبک دوش سمجھ لینا۔ پاکستان کی اکثریتی آبادی کی انتہائی غریب آبادی کی غربت اور غریبوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے مترادف ہے۔
پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی بجٹ اجلاسوں پہ اعدو شمار پیش کئیے جاتے ہیں ۔ اور ان پہ کئی کئی دن لگاتار یوانوں میں اجلاس ہوتے ہیں ۔ جہاں حکوت بجٹ کے حق میں دلائل دیتی ہے وہیں حب اختلاف اور دیگر جماعتیں بجٹ کی خامیوں کی نشاندہی کرتی ہیں ۔ حزب اختلاف کئی ایک تجاویز دیتی ہے ۔ حزب اختلاف اور حکومت سے باہر سیاسی جماعتیں حکومت کے متوازی۔ اپنے طور پہ بجٹ کے لئیے باقاعدہ تیاری کرتی ہیں ۔اور متبادل تجاویز کو کئی بار حکومت تسلیم کر لیتی ہے۔ اور ایک بار بجٹ طے پا جانے پہ اسے پائے تکمیل تک پہنچانے کے لئیے حکومت تہہ دل سےمقر ر کردہ اہداف حاصل کرنے کے لئیے مطلوب وسائل مہیاء کرتی ہے۔ ہمارے ارباب اقتدار و اختیار اور اور قومی اسمبلی کے معزز اراکین کا یہ عالم ہے کہ ایک اخباری اطلاع کے مطابق قومی خزانے سے کرڑوں روپے خرچ کر کے قومی اسملی کے ارکان کے لئیے بجٹ کی دستاویز چھپوائی گئی ۔ جسے ستر فیصد سے زائد قومی اسمبلی کے معزز ارکان بغیر کھولے ہی قومی اسمبلی ہال کے ہال میں اپنی سیٹوں پہ چھوڑ گئے ۔ اس میں حکومتی ارکان بھی شامل ہیں۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار کی تقریر کے دوران بھی قومی اسمبلی کی اکثریت ۔ بیزار ۔ بور اور آپس میں بات چیت کرتی نظر آئی ۔ ہماری رائے میں پاکستان سے متعلق اتنے اہم مسئلے پہ عدم دلچسپی کے اس مظاہرے کی وجہ اراکین اسمبلی کو بھی پاکستان کی سابقہ بجٹوں کی طرح اس بجٹ پہ بے یقینی اور بجٹ پیش کرنے کی کاروائی محض ایک رسم اور ایک قومی تقاضا پورا کرنے کے مترادف لینا ہے اور دوسری بڑی وجہ معزز اراکین کی بڑی تعداد کی تعلیمی استعداد اور سوجھ بوجھ کی کمی ہوسکتی ہے ۔ تو ایسے حالات میں پاکستان جیسے غریب سے غریب تر ہوتے معاشرے کے لئیے ایک قابل عمل اور نتیجہ خیز بجٹ کے لئیے مفید اصلاحات کون پیش کرےگا؟، حکومت کے بجٹ کی خامیوں کی نشاندہی کون کرے گا؟۔اسحق ڈار کے لبوں پہ ایک فاتح کی سی معنی خیز مسکراہٹ بھی اس امر کی غمازی کر رہی تھی ۔کہ کوئی تنقید نہیں کرے گا۔ اور بجٹ معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہوجائے گا۔ تو ایسے حالات میں پاکستانی عوام کس کا پلُو تھام کر اسطرح کے بجٹوں پہ فریاد کریں ؟۔
آجکل پاکستان میں ٹیکس گزاروں کا نیٹ ورک بڑہانے کے لئیے بہٹ شور مچا ہوا ہے ۔ بہت سے ترقی یافتہ اور ٹیکس سے چلنے والے ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ اور پاکستان میں ٹیکس گزاروں کی ٹیکس چور ی کو تنقید کا نشانہ بنانا عام ہے ۔ لیکن اس بات کا کوئی تذکرہ نہیں کرتا کہ اُن ممالک میں حکومتی ادارے کس طرح عوام کے ٹیکسوں سے ملکی آمدن کو سوچ سمجھ کر انتہائی ذمہ داری اور دیانتداری سے ایک مکمل منصوبہ بندی سے استعمال میں لاتےہیں جس کے نتیجے میں عام آدمی کو ہر قسم کی بنیادی سہولتیں میسر ہوتی ہیں اور عوام کی فلاح بہبود اور ترقی پہ ٹیکسوں کو خرچ کیا جاتا ہے ۔ اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے لوگوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جاتا اور انہیں نہ صرف کریمنل یعنی سنگین مجرم بلکہ اخلاقی مجرم بھی تصور کیا جاتا ہے ۔ ایسے لوگوں کے نام سے عام آدمی گھن کھاتا ہے اور انکا ذکر انتہائی ناگواری سے کرتا ہے ۔ اور بہت سے ممالک میں ایسے حکومتی عہدیدار اور سیاستدان اسطرح کے اسکینڈل منظر عام پہ آنے سے اپنے عہدوں سے استعفی دے کر گھر بیٹھ جاتے ہیں ۔ اپنے مقدموں کا سامنا کرتے ہیں ۔ اور بہت سے بدنامی کے ڈر اور لوگوں کی نظروں کی تاب نہ لا کر خود کشی کر لیتے ہیں ہیں ۔ جبکہ پاکستان میں ؟۔۔۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ کلچر عام ہے اور اسے ستائشی نظروں سے دیکھا جاتا ہے ۔ کہ جو جتنا بڑا چور ہوگا اسکے حفظ و مراتب بھی اسی حساب سے زیاد ہ ہونگے ۔ وی وی آئی پی تصور کیا جاتا ہے ۔ ایسے لوگ کسی وجہ سے اپنا عہدے سے سبک دوش ہوجائیں تو بھی انہیں ہر جگہ ۔ہر ادارے میں خصوصی اہمیت دی جاتی ہے ۔ایسے ماحول اور معاشرے میں تو ہر دوسرا فرد کسی نہ کسی طرح روپیہ کما کر جلد از جلد اہمیت پانا چاہے گا۔ خواہ اس کمائی کے حلال اور حرام ہونے پہ سو ال اٹھیں۔جبکہ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ جن کی وجہ سے ملک کی آج یہ حالت ہے کہ غریب اور مجبور لوگوں کی محض روز مرہ مسائل کی وجہ سے خودکشیوں میں شرح میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے ۔ انہیں ۔ ایسے لوگوں کو حقیر جانا جاتا ۔انکی حوصلہ شکنی کی جاتی ۔ اور نیک ۔ دیانتدار اور ٹیکس گزار وں کو قابل احترام سمجھا جاتا ۔ انکی حوصلہ افازئی کی جاتی تانکہ محنت سے آگے بڑھنے کا کلچر فروغ پاتا۔ عام آدمی بجائے شارٹ کٹ ڈہونڈنے کے محنت پہ یقین رکھتا۔مگر نہیں صاحب ۔ قومی چوروں کو حرام کے ۔ لُوٹ کھسوٹ اور قومی خزانے کو نقصان دے کر بنائی گئ جائیدادوں اور پیسے کی وجہ سے ہر جگہ سر آنکھوں پہ بٹھایا جاتا ہے ۔ اور جو لوگ بالواسطہ یا بلا واسطہ ٹیکس ادا کرتے ہیں انہیں انتہائی حقارت سے دھتکار دیا جاتا ہے ۔ تو سوال یہ بنتا ہے کہ پھر آپ کس طرح اپنے ٹیکس گزاروں کے نیٹ ورک میں اضافہ کرنا چاہئیں گے ۔ اور ٹیکس نہ دینے والوں کا رونا رونے کے ساتھ اپنی کمزوریوں اور خامیوں سے بھرپور کلچر کو بھی تبدیل کی جئیے ۔
وہ قومیں جو ہماری طرح شدید غربت سے دوچار نہیں وہ بھی اپنی قومی آمدنی بڑھانے کے لئیے کئی ایک حربے آزماتی اور نت نئے جتن کرتی ہیں ۔ جبکہ ہمارے ملک کے بادشاہ لوگوں کا باوا آدم ہی نرالا ہے جبکہ پاکستان کے پاس ایک سرمایہ کاری کا ایک مناسب اور اہم ذریعہ پاکستانی امیگرنٹس کی شکل میں بھی موجود ہے جنہیں مناسب ترغیب، اور منصوبہ بندی سے چھوٹے چھوٹے پراجیکٹس کی طرف راغب کرنا چندا مشکل نہ تھا کہ وہ قومی یا کاروباری اسکیموں میں پیسہ لگاتے اور کارپوریشنز کی طرز پہ انکے سرمایے اور منافع کی دیانتدارانہ نگرانی کی جاتی ۔ لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ۔ روٹی ۔ روزی ۔ روزگار کی وجہ سے یا ملازمت اور کاروبار کی وجہ سے پاکستان سے باہر مقیم افراد کو جسطرح بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح پاکستانی ائر پورٹو ں پہ ان سے سلوک کیا جاتا ہے۔ امیگریشن کاؤنٹر سمیت ہر قسم کے محکماتی کاؤنٹر پہ انکے ساتھ افسر مجاز انہیں کسی جیل سے بھاگے ہوئے قیدی کی طرح سوال جواب اور سلوک کرتا ہے۔ کہ دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ کہاں تو دیگر ممالک کے ائر پورٹس کاونٹر ز پہ مثالی انسانی سلوک کہ غیر قانونی دستاویزات پہ سفر کرنے والے مجبور پاکستانیوں کا جُرم پخرے جانے پہ بھی ان کی عزت نفس کا خیال رکھا جاتا ہے جبکہ اپنے ملک پاکستان سے آتے یا جاتے ہوئے ائر پورٹوں پہ اتنا انتہائی ذلت آمیز رویہ۔ کہ دماغ بھنا اٹھے۔ اور پاکستان کے اداروں کا یہ سلوک ان لوگوں سے۔ جو کئی دہائیوں سے مسلسل اپنے خُون پسینے کی کمائی سے۔ ریاستِ پاکستان کی زر مبادلہ کی کمائی کا بہت بڑا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ۔پاکستان میں مقیم کروڑوں افراد کی کفالت کا ذمہ اٹھا رکھا ہے ۔ تو آپ کیسے ان سے یہ توقع اور امید رکھیں گے کہ پاکستان میں ہر قسم کی عدم سہولتوں اور امن عامہ کی عدم موجودگی کے باوجود اور اسقدر انتہائی اہانت آمیز سلوک کے باوجود وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے؟ یہ ایک ننھی سی مثال ہے ۔ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاروں کو ترغیب دیتے ہوئے بعض اوقات ہم قومی مفادات کو بھی پس پیش ڈال دیتے ہیں۔ جبکہ اپنے پاس موجود وسائل کو ملکی رو میں شامل کرنے کی بجائے اسے ملکی نظام سے بدظن کرنے کے لئیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں ۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے عد توجہ اور لاپرواہی پاکستان میں گھسٹتے نظام کی ایک ادنی سی مثال ہے کہ کس طرح ہم اپنے دستیاب وسائل کو کس بے درردی سے ضائع کر دیتے ہیں ۔ اور بعد میں وسائل کی عدم دستیابی کا رونا روتے ہیں۔ اس ضمن میں بہت سے دیگر طبقوں کی مثالیں دی جاسکتیں ہے۔
ایک عام سا فطری اور مالیاتی اصول ہے کہ جس چیز کی ضرورت جتنی اشد ہو گی اسکے حصول کی لئیے کوشش بھی اسی طرح زیادہ کی جائے گی ۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ وسائل کا حصول اور انہیں مناسب طریقے سے استعمال میں لانا ہے۔جبکہ پاکستان میں کتنے صدق دل سے اس اصول کے خلاف کوشش کی جاتی ہے ۔ پاکستان کے کسی بھی ائر پورٹ یا پورٹ کو استعمال کر کے دیکھ لیں ۔ پاکستان میں درآمد کی جانے والی قابل کسٹم ڈیوٹی اشیاء ۔ خواہ وہ ذاتی ہوں یا کاروباری ۔ یا تحائف ۔ پاکستانی کسٹم کا مستعد عملہ بڑی جانفشانی سے آپکے سامان کی تلاشی لے گا ۔ اور نتیجے میں اس سے برآمد ہونے والی اشیاء کے بارے نہائت تندہی اور خونخوار لہجے میں اس پہ کسٹم ڈیوٹی کی رقم بتائے گا ۔اور ایک سانس فر فر سبھی قانون قائدے بیان کردے گا۔اور محصول کی رقم اسقدر بڑھا چڑھا کر بتائے گا کہ پاکستان پہنچنے والے پریشان حال اور تھکن کے مارے۔ لاعلم۔ مسافر کا منہ کھلے کا کھلا رہ جائے گا۔پریشانی بھانپتے ہی ایک آدھ اہلکار نہائت ہمدردی سے سر گوشی کے انداز میں استفسار کرے گا صاحب سے ککہ کر کچھ کم کروا دوں؟ اور دیکھتے۔ دیکھتے سر عام بولی لگے گی ۔ مُک مکا ہوگا۔ اور وہ رقم جسے قومی خزانے میں جانا چاہےتھا ۔ جس خزانے سے کار سرکار پہیہ چلتا ہے ۔ وہ رقم ۔ قومی خزانے سے تنخواہ اور مراعات پانے والے ہر قسم کے حفظ و مراتب وصولنے والوں کی جیب میں چلی جائے گی ۔ گویا حکومت نے قومی خزانے سے تنخواہ اور وردی دے کر لٹیروں کو قومی وسائل کو خرد برد کرنے کے لئیے بھرتی کر رکھا ہے ۔کچھ یہی عالم پولیس اور پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پاکستان کے سبھی چھوٹے ،بڑے ۔ اہم اور غیر اہم سرکاری اداروں کا ہے ۔ محکمہ کسٹم تو محض پاکستان میں کرپشن کے گلشیئر کا نکتہ آغاز ہے ۔کبھی سوچئیے کہ اگر صرف محکمہ پولیس کا ٹریفک ڈپارٹمنٹ جرمانوں کی وہ رقم جو قومی خزانے میں جمع ہونے کی بجائے پولیس اہلکاروں کی جیب میں چلی جاتی ہے ۔ یہ رقم اگر قومی خزانے میں جمع ہو تو پولیس کی ماہ بھر کی تنخواہ ان سے آسانی سے دی جاسکتی ہے۔ اور نتیجتا قانون کی حکمرانی کا شعور اور رواج بھی ملک میں پھیلے گا ۔ اگر کوئی یہ کہے پاکستان کے اداروں یا کسٹم کے ادارے میں اور ائر پورٹس وغیرہ پہ مکا مکا کی بولی سر عام اور سب کے سامنے نہیں ہوتی تو ایسی حکومت اور ذمہ داروں کو اپنی بے خبری پہ ماتم کرنا چاہئیے ا لاہور ۔ اسلام آباد ۔ کراچی ہر ائر پورٹ پہ بڑے دھڑلے سے اور سر عام ہوتا ہے تو حکومت اور بدقماشی ۔ رشوت اور کرپشن روکنے والے حکومتی اداروں کو اسکی خبر نہیں ؟ ایسے بدقماش اہلکاروں کو سزا دینا۔ دلوانا اور نوکریوں سے فارغ کرنا حکومت کے دیگر فرائض میں سے ایک فرض ہوتا ہے ۔۔ پاکستان میں زکواۃ کے دنوں پاکستانی اپنی رقم بنکوں سے محض اسلئیے نکال لیتے ہیں کہ انہیں حکومت کی زکواۃ کٹوتی پہ بھی شکوک ہیں اور وہ اپنی زکواۃ خود اپنی تسلی سے دیتے ہیں ۔ حکومتی زکواۃ کمیٹیوں پہ یقین نہیں کرتے ۔ حاصل بحث اگرحکومت خود سے کچھ کرنے سے قاصر ہو اورقومی خزانے کو تیل دینے والے عام معلوم اداروں اور عہدیداروں کو کرپشن سے باز نہ رکھ سکے تو ایسے ماحول میں آپ کا ٹیکس گذار کس خوشی میں آپ کو ٹیکس دینے کو تیار ہوگا؟
پاکستان کے اقتصادی و معاشی اور معاشرتی حالات ۔ اندھے بجٹ کے ذریعئے نہیں سدھریں گے۔ اعدادہ شمار کا یہ گورکھ دھندا اگر اتنا ہی مفید ہوتا تو ہر سال غربت میں کمی ہوتی اور ملک و قوم ترقی کرتے جب کہ حقائق اس کے بر عکس ہیں۔ ملک میں غربت اور مہنگائی کا عفریت کب کا منہ کھولے عوام کی امیدو اور خواہشوں کو ہڑپ کرچکا ہے اور کئی سالوں سے پاکستان کے غریب عوام مفلسی اور مفلوک الحالی میں محض زندہ رہنے کا جتن کرتے ہیں۔عام پاکستانی شہری کو پاکستان کے سال در سال پیش کئیے جانے والے بجٹوں سے کوئی امید اور توقع نہیں رہی۔ اور پاکستان میں ایک عام خیال جر پکڑ چکا ہے کہ ہر سال بجٹ کے ساتھ اور فورا بعد میں مہنگائی کی ایک تازہ لہر آئے گی جو شدت میں پچلی مہنگائی سے زیادہ ہوگی ۔ اور پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت کو مدنظر رکھتے ہوئے عام آدمی کے یوں سوچنا سمجھ میں آتا ہے۔
اگر ملک کی حالت اور قوم کی تقدیر بدلنا ہے تو ۔ بڑے منصوبوں کی افادیت اپنی جگہ مگر ایک حقیقی تبدیلی اورقومی اقتصادی ترقی کے لئیے ۔ اسکے ساتھ ساتھ گلی محلے سے لیکر گاؤں۔ گوٹھ۔ بستیوں اور شہروں کے لیول کی چھوٹی چھوٹی منصوبہ بندیاں کرنی پڑیگی ۔ ان منصوبوں کے لئیے وسائل ۔ سرمایہ ۔ اور دیانت دارانہ نگرانی ، اہداف کی تکمیل تک حکومت کو سرپرستی کرنا ہو گی ۔ گلی محلے سے لیکر ملکی اور قومی سطح پہ کی جانے والی منصوبہ بندی لوگوں کی مقامی ضروریات کے مطابق ۔ پاکستانی ۔ محنت کش ۔ اور ہنر مندوں کی صلاحیتوں پہ اعتماد کرتے ہوئے ۔ انکی تربیت اور رہنمائی کرتے ہوئے کی جائے ۔ انہیں چھوٹے چھوٹے پیداواری اہداف دئیے جائیں۔ حکومتی ادارے اپنی تحقیق سے ایسے اہداف کی نشاندہی کریں ۔ اس ضمن میں پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے تحقیقی شعبوں کو بھی شامل کیا جائے۔ اور مطلوبہ پیداوار کی عام منڈیوں میں کھپت ۔حکومت کے فعال اور دیانتدار ادارے کریں ۔ پاکستان با صلاحیت افرادی قوت سے مالامال ہے ، اسکی عمدہ مثالیں فیصل آباد میں ٹیکسٹائل انڈسٹریز ۔ گوجرنوالہ میں پنکھے ۔ اور واشنگ مشینیں ۔ اسٹیل کے برتن ۔ گجرات میں پنکھے ۔ فرنیچر ۔ برتن ۔ سیالکوٹ میں کھیلوں کا سامان ۔ لیدر جیکٹس ۔ جراہی کا سامان اور پاکستان میں کئی اور شہروں میں مختلف قسم کا سامان تیار کرنے والوں سے جڑے ہزاروں خاندانوں کا روزگار اور نتیجے میں وہ پیداوار ہے۔ جس سے پاکستان کثیر زرمبادلہ بھی کما رہا ہے اور ان شہروں کی عام آبادی مناسب روزگار ہونے کی وجہ سے عام علاقوں کی نسبت خوشحال بھی ہے ۔ ان شہروں میں بہت سی مصنوعات کے چھوٹے چھوٹے جُز پرزے گھروں میں تیار کئیے جاتے ہیں۔ اگر اس جوہر قابل کی مناسب تربیت کر کے اسے قومی پیدوار میں شامل کیا جائے تو قوم کو بہتر نتائج ملیں گے ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت سی قوموں نے ننھی سطح سے سے مائیکرو منصوبہ بندی کرتے ہوئے نہ صرف پیدواری عمل بڑہایا ہے اور آج صف اول کی قوموں صف میں کھڑی ہیں ۔ بلکہ انہوں نے اسطرح اپنے شہریوں کو روزگار مہیاء کرنے کی وجہ سے ان کا معیار زندگی بھی بلند کیا ہے ۔ جبکہ پاکستان صلاحیتوں سے بھرپور اور نوجوان افرادی قوت سے مالا مال ہے ۔
جب تک قومی وسائل کو بے دردی سے لُوٹنے والوں اور بودی اہلیت کے مالک منصوبہ و پالیسی سازوں سے چھٹکارہ نہیں پاتے ۔چور دورازوں کو بند نہیں کرتے ۔ پاکستان کو دستیاب وسائل کی قدر نہیں کرتے ۔ اور بھرپور طریقے سے انہیں استعمال میں نہیں لاتے ۔ بنیادی تبدیلی کے لئیے مناسب اور مائکرو منصوبہ بندی نہیں کرتے ۔ افرادی قوت کی مناسب رہنمائی اور تربیت نہیں کرتے تب تک معاشریہ ان چھوٹی بنیادوں۔ اور اکائیوں سے اوپر نہیں اٹھے گا اور تب تک ایک باعزت قوم بننے اور اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کا خوآب ادہورا رہے گا ۔ ہم خواہ کس قدر قابل عمل بجٹ بناتے رہیں نتائج وہی ڈھاک کے تین پات ہی رہیں گے اور قومی ترقی کا خوآب محض خوآب ہی رہے گا۔ سال گزرتے دیر نہیں لگتی ۔ جون 2015 ء میں ایک بار پھر وہی تقریر اور لفظوں کا ہیر پھر محض ایک خانہ پری ہوگی۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

خدا ، مناظرہ اور گھمنڈ۔


خدا ، مناظرہ   اور  گھمنڈ۔

جیسے کہ آجکل انٹرنیٹ پہ ایک صاحب کچھ موضوعات پہ بڑے دھڑلے اور سرعت سے اپنے تئیں عالم فاضل سمجھتے ہوئے اسلام، قرآن کریم ، نبوت، احادیث  یعنی جن امور پہ روئے زمین کے مسلمان اتفاق کرتے ہیں اور دنیا بھر کے مسلمان ان امور پہ طنز یا  لایعنی بحث  کو اپنے عقائد،  پہ اپنے دین پہ  حملہ تصور کرتے ہیں۔ اس پہ ہاتھ صاف کئیے جارہے ہیں۔اورہر اگلی پوسٹ پہ قلابازی کھاتے ہوئے ایک نیا شوشہ  چھور کر سمجھتے ہیں کہ اپنے تئیں اپنی فہم فراست کے سامنے سب کو کوتاہ قامت قرار دے ڈالا ہے۔ سبحان اللہ ۔جبکہ کہ ایسی عقل پہ سبھی خندہ زن ہیں۔

 ایک بات نوٹ کی گئی ہے۔ کہ پاکستان کے نام نہاد روشن خیالوں کو اور اپنے آپ کو "کچھ” سمجھنے والوں کو درحقیقت یہ وہم سا ہوجاتا ہے کہ جی بس!اب ہم ہیں ناں۔ کوئی نکتہ ملے سہی معقولیت کی بات کرنے والوں کی ایسی تیسی کردیں گے۔

دوسرا مسئلہ ان کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ اسی زعم میں یہ کسی کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہوتے۔ اور یہ دونوں طبقے یعنی نام نہاد روش روشن خیال اور "میں کے مارے ہوئے نام نہاد عالم فاضل” دونوں میں ایک شئے مشترک ہے کہ دونوں حد سے زیادہ خود پسند ، جعلی تفاخرکا شکاراور اپنے آپ کو توپ قسم کی چیز سمجھتے ہیں۔ اورایک دوسرے کو مکھن لگاتے ہیں۔ پالش کرتے ہیں اورایسے مضحکہ خیز دلائل دیتے ہیں کہ بقول شخصے "ہاسہ” نکل آتا ہے۔ دوسروں کو اپنے زعم میں وہاں چوٹ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں اسے تکلیف زیادہ سے زیادہ ہو۔ مثلا ۔ اسلام۔ نظریہ پاکستان۔ پاکستان۔ اسلام پسندی۔ معقولیت پسندی۔  وغیرہ

ایسی حرکات پہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑا معرکہ مارا ہے۔ دراصل یہ ایک طرح کے  احساس کمتری کی ایک شکل ہے۔ جس کا آغاز شروع میں دوسروں پہ اپنی نام نہاد علمیت کا رعب ڈالنے سے، اور  دھاک بٹھانے کی لایعنی کوشش سے شروع ہوتا ہے اوررفتہ رفتہ یہ مرض بڑھتا چلا جاتا ہے۔اوربالا آخر مریض اسی گمان میں دین و دنیا حتٰی کے اپنے رفقاء تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ لیکن نہیں جانتے عین اسوقت جب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کا۔ پاکستانیوں کا۔ پاکستان کا۔اسلام کا۔ استہزاء اڑا نے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان بے چاروں کو پتہ نہیں ہوتا کہ عین اسوقت ان کی ان حرکات کی وجہ سے انکا اپنا مذاق اڑایا جارہا ہوتاہے۔ اور خدا جانتا ہے کہ کتنی بار انکا استہزاء اڑایا جائے گا۔

جس طرح کسی کھیل کے کچھ اصولوں پہ کھیل شروع کرنے سے پہلے اتفاق کرنا ضروری ہے اسی طرح مباحثے اورمناظرے کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ فریقین واضح طور پہ آگاہ کریں کہ وہ بنیادی اصولوں کو مانتے ہوئے اپنے دلائل میں آگے بڑھیں گے۔ یعنی جس موضوع پہ مباحثہ کرنا مقصود ہے اس  پہ ہردونوں فریقوں کو اپنا نقطعہ نظرواضح  کرنا لازمی ہوتا ہے کہ کہ کونسا فریق موضوع کے حق میں یا مخالفت میں اپنے دلائل دے گا۔ اور فریق مخالف انہیں رد کرتے ہوئے اپنے موقف کی حمایت میں دلائل دے گا۔ مثلا اگر ایک فریق خدا پہ یقین رکھتا  ہے تو وہ خدا کے وجود پہ دلائل دے گا اور اگر دوسرا فریق اگرخدا پہ یقین نہیں رکھتا  تو وہ خدا کےعدم وجود پہ اپنے دلائل دے گا یوں خدا کے وجود یا عدم وجود سے متعلق موضوع آگے بڑھے گا۔ لی جئیے اس موضوع پہ مناظرے و مباحثے کے بنیادی اصولوں میں سے ایک لازمی اصول طے ہوگیا ہے۔

اب یہ نہیں ہو سکتا  کہ  ان اصولوں کو جسے تسلیم کرتے ہوئے ایک فریق تو ہر اصول کا پابند ہو کر نہائت سلجھے طریقے سے دلائل دیتے ہوئے ہر ممکنہ سنجیدگی سے خدا کے وجود پہ دلائل دیتے ہوئے اس موضوع پہ آگے بڑھے جبکہ فریق مخالف انکے دلائل کے جواب میں غیر سنجیدگی سے انکا ٹھٹھ اڑا دے۔ اور جب کہ وہ خود جس نے خدا کے وجود پہ بحث کی دعوت دی ہو وہ خدا کے منکر ہونے سے انکار کرتے ہوئے  حضرت عیسٰی ابن مریم علیہ والسلام پہ بحث شروع کردے۔ وہاں سے  سے اگلی جست میں کمپیوٹر تیکنالوجی پہ اترانے لگے۔ اورمصرہو کہ اس کے موقف کو درست تسلیم کرلیا جائے۔

یہ یونہی ہے کہ کوئی ہاکی کھیلنے کی خواہش رکھنے والا جب وہ یہ محسوس کرے کہ کھیل پہ اسکی گرفت کمزور ہورہی ہے اوروہ ہار جائے گا تو ہاکی  کی اسٹک کو ایک طرف پھینک کر گیند کو پاؤں سے  کھیلنا شروع کردے ۔ اعتراض کریں تو وہ فٹ بال کے اصولوں پہ بحث شروع کردے۔ اوراگلی قلابازی میں اسی اصول کے تحت ہاکی کے میدان میں ہاکی کی اسٹک سے کرکٹ کھیلنے پہ اصرار  کرے۔ جب اتنی تیزی سے یکطرفہ طورپہ ضوابط تبدیل کئیے جائیں گے تواسے کھیل نہیں بے ہودگی تصور کیا جائے گا۔

اس لئیے اس طرح کے کسی معقول اورسنجیدہ مناظرے کے لئیے ۔ جب آپ ایک بحث چھیڑتے ہیں تو آپ پہ لازم ہے کہ پہلے آپ اپنا کردارواضح کریں۔ اگرموضوع ادیان یا مذاہب سے متعلق ہے تو آیا آپ مسلمان۔ عیسائی۔ کافر۔ دہریہ۔ میں سے کس سے تعلق رکھتے ہیں؟۔ آپکا واضح موقف کیا ہے؟۔ تانکہ آپکی بات سمجھنے میں آسانی ہواورآپ کو کوئی دلیل دی جاسکے۔ مثال کے طورپہ اگردہریہ ہیں تو دہریت کی بنیادوں پہ خدا کے وجود کے سے انکار کر رہے ہیں تو ایسا ہونے سے فریق اؤل یعنی خدا پہ یقین رکھنے والے آپکی سرے سے خدا کو تسلیم ہی نہ کرنے کو جانتے ہوئے اس نظر سے آپ کو خدا کے وجود پہ دلیل دیں گے۔ اوراگرآپ ہر دفعہ قلابازی کھاتے ہوئے۔ کبھی خدا کے وجود پہ دلیل دیں گے اور کبھی خدا کے عدم وجود پہ ۔ کبھی مادے اورعقل کو خدا بیان کریں گے ۔ اور کبھی  کسی کمپیوٹر یا سرچ انجن کا کلمہ پڑھنے لگیں ۔ تو آپ کا مقصد سنجیدہ بحث نہیں بلکہ اپنی دانست میں خدا پہ یقین رکھنے والوں کا  استہزاء اڑانا ہے۔ اپنی نام نہاد علمیت کی دوسروں پہ دھاک بٹھانے کی بچگانہ خواہش ہے۔ اپنے نفس کی تسکین مقصود ہے۔ واہ واہ کے ڈونگروں سے غرض ہے۔ ایک جو انتہائی افسوس ناک بات ہے۔اسے آپکے فہم و فراست پہ نہیں بلکہ آپکی کم علمی اورغیر سنجیدگی پہ محمول کیا جائے گا۔اور خدا الگ سے ناراض ہوگا۔

اسلئیے یہ طریقہ درست نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ والسلام کے موضوع پہ بات ہو رہی ہو تو اگلی جست میں خدا کے وجود پہ قلابازی کھا گئے۔  خدا کے وجود کو ثابت کرنے کی بات شروع ہوئی تو کسی سرچ انجن کا کلمہ پڑھنا شروع ہوگئے۔ اب پھر قلابازی کھائی اور اسے ایک جوک  قرار دیتے ہوئے۔ قرآن کریم پہ چڑھائی کر دی۔ نہ کسی اصول کو بنیاد بنایا نہ کسی زمین پہ اتفاق کرتے ہوئے بحث کو اگے بڑہایا۔

یہ محض کم علمی اور حد سے بڑھے ہوئے اور کم عقلی کی حدوں کو چھوتا عالم فاضل ہونے کا گھمنڈ ہے۔ جس کا علم سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ  جو صاحب علم ہوتے ہیں وہ نہائت منکسر المزاج ہوجاتے ہیں۔ وہ بہترجانتے ہیں کہ ایمان کا معاملہ عقل سے نہیں  دل سے ہوتا ہے اوراسے محض عقلی استدلال سے نہ سوچا اور سمجھا جاسکتا ہے اور نہ بیان کیا جاسکتا ہے۔ اتنی  بنیادی سی بات جاننے کے لئیے فلسفے میں ماہرہونا ضروری نہیں۔ اتنے چھوٹے سے نکتے کو ایک چار جماعت پاس گلی محلے کا ایک عام ساانسان بھی جانتا ہے۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , ,

سلیم شہزاد کا افسوسناک قتل اور پاک فوج پہ الزام تراشیاں۔


پتہ نہیں کیوں ہم ہر بات کو ہیر پھیر کر پاکستان کے دفاعی شعبوں پہ ڈال کر اپنے سارے فرائض سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔  بغیر کسی ثبوت کے اس سے پہلے کچھ لوگ افواج پاکستان کو بہ حیثیت مجموعی غدار کہہ چکے ہیں۔ جب بغیر کسی ثبوت و تصدیق کے ایسے افراد جنہیں ایک آزاد ملک میں آزاد میڈیا اور مختلف ذرائع سے ملنے والی معلومات کے بعد ایک آزاد رائے قائم کرنے میں اسقدر مسئلہ ہے تو پاکستان کے اندر رہنے والے ایک عام آدمی کو پاکستان کے بے ہودہ میڈیا اور پاکستان پہ اپنی خصوصی نطر کرم رکھنے والے این جی اوز غیر ملکی اداروں کے اردو ایڈیشنز جن کا مقصد ہی پاکستانی شہری کو اپنے صحفات پہ خصوصی ایجنڈے کے تحت۔ جن پہ اکثر بیشتر خبر دینے اور تجزئیہ نگار کا نام تک نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو انہی مخصوص لوگوں کا نام ہوتا ہے جنہیں پاکستان سے شدید بغض ہے جسکی ایک وجہ ایسے لوگوں کی قادیانیت سے ہمدردی بھی ہے۔ ان کے ذریعے پاکستانی نوجوان طبقے اور فارووڈ مائنڈ کو مایوسی اور ناکامی کا پیغام دینا ہے۔ تو ایسے بہت سے لوگ بغیر کسی مستند حوالہ جات کے زمانے کے چلن کے مطابق چند لائینیں اور کچھ جملو ں میں لکے آدھے صحفے کے اعلان میں فوج کو غدار اور سلیم شہزاد کا قاتل آئی ایس کو قرار دے کر بھارت امریکہ اور پاکستان کے دیگر دشمن ممالک کا کام آسان کر دیتے ہیں۔ ایک آرام دہ کرسی پہ محفوظ بیٹھ کر کمپیوٹر سے آدھ صحفہ لکھ کر چاند تارے توڑ لانے کا  زبانی کلامی عزم رکھنے والے جذباتی لوگوں کی اپنے ہی اداروں کو بغیر کسی ثبوت اور پیشگی تحقیق سے لکھے گئے الفاظ سے پاکستان کے اندرونی دشمنوں کے پاکستان کے خلاف زہریلے پروپگنڈے کو تقویت ملتی ہے۔ ان اندرونی دشمنوں اور دنیا کی انتہائی تربیت یافتہ اور مالی اور تکنیکی وسائل سے مالامال خفیہ ایجینسیوں اور پاکستان کے دشمن ممالک کے مفادات پاکستان کی سالمیت کے خلاف ایک ہونے کی وجہ سے اکھٹے ہوگئے ہیں۔

 شاید بہت لوگوں کو علم نہیں ہوگا۔ کہ اس وقت پاکستان کے اندر مشرف کی وجہ اور اجازت سے سی آئی اے۔ ایم فائیو۔ را۔ موساد۔ خاد۔ خلق اور پتہ نہیں کون کون ایجینسیوں کے ذہین ترین اور انتائی تربیت یافتہ لوگ پاکستان میں پاکستان کی جڑیں کاٹنے کا کام کر رہے ہیں۔ اور ہمارے سیاسیتدان جو دوسری یا تیسری کے بچوں کی طرح ہر آئے دن امریکن ایمبیسڈر کو شکائیتیں۔ وضاحتیں اور درخواستیں لگاتے نظر آتے ہیں۔ وہ بھی ان ایجنسیوں کے ایک قسم کے مراعات یافتہ اور تنخواہ دار ایجینٹوں کی طرح اپنی ذاتی اور گھٹیا مفادات کی خاطر پاکستان کے مفادات کو پس پشت ڈال کر پاکستان کی سالمیت کی خاطر جان کی بازی لگانے والوں کو اپنے :۔” کھل کھیلنے “۔: میں (پاکستان کے اچھے یا برے لیکن) پاکستان کے دفاعی اداروں کو دیوار کے ساتھ لگا دینا چاہتے اور اگر یوں ہوتا ہے تو پاکستانی قوم جدید تاریخ کی شاید پہلی قوم ہوگی جو اپنے وجود کو محض ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے کی وجہ سے منتشر اور مفقود ہوجائے گی۔ اور پاکستان کے دشمن یہ بات بخوبی جانتے ہیں۔ اور ہر وہ صحافی ۔ ادارہ ، وکیل۔ قادیانی، یا بکاؤ مال جو محض اپنے ذاتی معاملات کی وجہ سے پاکستان سے بغض رکھتا ہے وہ پاکستان کے خلاف ان طاقتوں کے پے رول لسٹ پہ ہے۔

پاکستان میں تو یہ عالم ہے کہ جسے یہ پاکستان آرمی کی یونٹوں کی فارمیشن تک کے بارے علم نہیں وہ بھی قسم قسم کے ٹی وی اینکرز اور غیر معروف صحافی ہر قسم کے قومی مفاد کو پس پشت دالتے ہوئے محض نمبر بنانے کی بے وقوفانہ دوڑ میں شامل اور کچھ اپنے آقاؤں کو خوش رکھنے کی خاطر۔ پاکستان دفاعی اداروں اور حال میں کراچی کے نیول بیس پہ اپنی جان لڑا کر رات کے اندھیرے میں حملہ آور وہنے والے انتہائی تربیت یافتہ دہشت گرد کمانڈوز کو انکے مذموم مقاصد کی تکمیل میں جان دینے والے شہداء تک پہ انگلیاں اٹھانے اور الزام تراشی سے باز نہیں آئے۔ لعنت ہے ایسے لوگوں پہ جنہوں نے انکی خاطر جان سے گزر جانے والے شہدا تک کو الزام تراشیوں سے نہیں بخشا۔ جبکہ انکی اپنی حب الوطنی اور اپنے اخبارات و ٹی وی چینلز سے وفاداری کا یہ عالم ہے کہ محض انہیں کچھ زیادہ معاوضے کا لالچ دے کر کبھی خریدا جاسکتا ہے ۔ جس کے لئیے وہ اپنے پچھلے ٹی وی چینل کے ساتھ کسی بھی معائدے کو روند کر آگے بڑھ جاتے ہیں اور روپے کی خاطر ایسی اخلاقیات کے مالک لوگوں سے قومی مفاد کی کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔ اور ان کی یاوہ گوئیاں دیکھ کر انٹر نیٹ کی موجودگی کا فائدہ اٹھا کر ہر تیسرا فرد ان سے بھی بڑھ کر دور کی کوڑی چھاپ رہا ہے۔ اسکی عمدہ مثال کچھ بلاگرز کے بغیر کسی ثبوت اور دلیل کے الزام تراشیاں دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ الزام تراشی کرنے والے پہ اخلاقی اور قانونی طور پہ یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے الزام کی صحت میں کوئی شہادت ، ثبوت، دلیل، یا واقعہ وغیرہ پیش کرے۔ مگر نہیں صاحب جسے بڑی مشکل سے اردو کے درست ہجے تک نہیں لکھنے آتے وہ بھی اپنے آپ کو دانشوروں کے ذمرے میں شمار کرتا ہے۔ بے شک کرتا رہے واللہ ہمیں اس پہ بھی اعتراض نہیں۔ مگر وہ اپنی داشوری کے اظہار کے لئیے آغاز اسلام ،نظریہ پاکستان ۔ پاکستان۔ افواج پاکستان۔ پاکستانی خفیہ دفاعی ادارے۔ بھارت ماتا کے ترانے و نغمے ۔ امریکہ درآمد مادر پدر آزاد روشن خیالی۔ سے کرتا ہے۔ جیسے پاکستان اور پاکستانی قوم کے مزھبی جزبات کا کوئی نانی نانا ہی نہ ہوا اور غریب کی جورو کی طرح جسکا دل چاہتا ہے اسے سے ٹھٹھہ مخول کرنے انٹر نیٹ پہ چڑھائی کرتے ہوئے اپنی بے وقوفی یعنی پاکستان کے رواج کے مطابق اپنی دانشوری کا اعلان کر دیتا ہے۔

اگر فریق مخالف جن پہ یہ اپنی لعن طعن سے اپنی داشوری کی بنیاد کا آغاز کرتے ہیں ۔ ایسے تمام نام نہاد دانشوروں میں سے صرف چند ایک گوشمالی کرنے پہ اتر آئے تو یقین مانیں نناوے فیصد دانشور مصلے پہ نظر آئیں اور ہر کسی کو انتائی عزت کی نگاہ سے دیکھیں کیونکہ شریف آدمی کبھی اسطرح کی حرکات نہیں کرتا یہ صرف شر سے لبریز اور شریر لوگوں کا کام ہوتا ہے۔ اور شریر لوگوں کو شر سے باز رکھنے کے ضابطے دنیا کی ہر قوم نے مقرر کر رکھے ہیں۔

پاکستان میں دن میں سینکروں قتل ہوتے ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ ہر قتل میں آئی ایس آئی ملوث ہو۔ کیا یہ ممکن نہیں ریمینڈ ڈیوس جیسے لوگوں کو ایسے افراد کا پتہ ہو۔افراد جنہیں ماضی میں واقعتا حکومتی اداروں کی طرف سے قومی سلامتی کے بارے بریف کیا گیا ہو کہ کس طرح ان کی بے تکی دانشوریاں جو درحقیقت ان میں اکثر پاکستانی صحافیوں کی کسی نہ کسی طرف سے دانہ ملنے کی وجہ سے اپنے اپنے آقاؤں اور بتوں سے وفاداری کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اور ایسے افراد کو بریف اور ڈی بریف کرنا اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے جسے مکر فریب یا جان کے خوف یا اپنے اندیدہ آقاؤں کے اشارے پہ جان کی دھمکی ظاہر کرتے رہے ہوں ۔ اور اس سے فائدہ اٹھا کر پاکستانی اداروں کو مزید کلفژر میں مبتلاء کرنے اور دباؤ میں لانے کے لئیے ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگ انھیں پار لگا  دیا ہو۔ اور اپنے باقی میڈیا ایجینٹوں کو اشارہ کر دیں کہ شور مچانا شروع کردو۔

فوج  سے ہمیں بھی شکایات ہیں اور فوج پہ تنقید بھی کرتے رہے ہیں مگر اس دور میں جبکہ پاکستان سخت مشکلات سے دوچار آگے بڑھ رہا ہے۔ امریکہ اپنے اخراجات کی وجہ سے اور لیبیا جیسے نسبتا کم خرچ اور بہت ہی بالا ترین تیل کی وجہ سے اس طرف توجہ کر رہا ہے۔ ویسے بھی امریکہ کی جنگ جوئی تاریخ بتاتی ہے کہ امریکہ کسی بھی قوم پہ اپنا قبضہ دیرپا قائم نہیں کرسکا۔ اور وہ آج نہیں تو کل یعنی ایک دو سالوں سے افغانستان سے اسے نکلتے بنے گی۔ مگر وہ جانے سے پہلے بھارت کو علاقے کی بالا طاقت اور افغانستان کو پاکستان کے شمال میں ایک بڑے حریف اور کرزئی جیسے  شخص کو افغانستان کا حاکم چھوڑ کر جانا جاتا ہے اور بھارت اور خود امریکہ پاکستان پہ اسی صورت میں بالا دستی قائم کر سکتے ہیں جبکہ پاکستان کے پاس جوہری ہتیار انھیں ھدف تک پہنچانے کے لئیے مزائیل وغیرہ کو کسی طرح ناقابل استعمال بنا دینا چاہتا ہے ۔ یا ممکن ہو تو پاکستان کی جوہری تنصیبات کو اپنے قبضے میں لے لینا چاہتا ہے۔یہ تبھی ممکن ہے جب پاکستان اندرونی طور پہ خلفشار کا شکار ہو کر کمزور ہوچکا ہوگا۔

ہمیں آنکھیں کھولنی چاہئیے اور قطار اندر قطار اپنی صحفوں میں اتحاد پیدا کرنا چاہئیے تانکہ اقوام عالم اور خاصکر پاکستان کے دشمنوں کو یہ پیغام جائے کہ کہ پاکستانی قوم اپنے مشکل وقت میں متحد ہے اور پاکستان کے وجود پہ کسی بھی بری نظر ڈالنے والے کے دانت کھٹے کرنے کا عزم رکھتی ہے۔

Read the rest of this entry »

 

ٹیگز: , , , , , , , , , ,

 
%d bloggers like this: