مہلت۔
حکمران ہوش کے ناخن لیں۔۔۔
جنرل مشرف کے دور میں اس خطےکے ممالک کے عام شہری ہی کیا۔ اچھے خاصے تجزئیہ نگار ہمیں امریکہ کی ایک سیٹلائٹ ریاست گردانتے تھے۔ آج بھی پاک امریکہ تعلقات کی تعریف کرنا اتنا آسان نہیں۔ کہیں تو یوں لگتا ہے کہ دونوں ممالک یک جان دو قالب ہیں ۔اور کچھ معاملات میں دو بدو آمنے سامنے نظر آتے ہیں۔ پاکستان سے باہر خطے کے دیگر ممالک کے سنجیدہ سوچ رکھنے والے اور حالات حاضرہ پہ نظر رکھنے والے اچھے خاصے دانشور۔ پاکستان کے بارے میں کینفیوز ہوجاتے ہیں اور الجھ جاتے ہیں۔ کہ آیا امریکا پاکستان کا دوست ہے یا دشمن؟۔ اس ضمن میں صلالہ پوسٹ پہ حملہ۔ ایبٹ آباد کے قریب حملہ۔ پاکستان میں افغانستان سے دہشت گردی کا اہتمام ۔اور دیگر بہت سے معاملات۔ باہمی تعلقات کی رسہ کشی کو جہاں نمایاں کرتے ہیں ۔ وہیں روز اسلام آباد کے نت نئے دوروں پہ آئے۔ امریکی اعمال اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل در معقولات۔ اسکول اساتذہ کی تربیت سے لیکر فارمی مرغیوں کے گوشت اور انڈوں کی اقسام اور ان پہ بھاؤ تاؤ اور مول تول تک میں۔ ناک گھسیڑتے امریکی۔ پاکستان و امریکہ کے تعلقات کی ایک پیچیدہ داستان بیان کرتے ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آج کی دنیا ۔ بین الاقوام مفادات کی دنیا ہے ۔ جس میں کوئی ملک کسی کا حتمی دوست نہیں ہوتا۔ اور مفادات کے تابع دوستیاں اور دشمنیاں طے ہوتی ہیں۔
ایک مشہور مغربی کہاوت ہے کہ ۔۔۔ "نئے دشمن کی نسبت ایک دیرینہ دشمن بہتر ہوتا ہے”۔۔۔۔ یعنی دیرینہ دشمن کے طریقہ واردات کو آپ سمجھ چکے ہوتے ہیں۔ جب کہ نئے دشمن کے بارے میں آپ مکمل اندھیرے میں ہوتے ہیں۔امریکی۔ بشار الاسد کی امریکی شرائط ماننے پہ آمادہ حکومت کو۔ ایک کمزور حکومت کو۔ اپنے اور اسرائیل کے وسیع تر مفاد میں قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ داعش کا حیرت انگیز طریقے سے وجود میں آنا۔ تیزی سے ابھرنا ۔ پھیلنا اور پھر سکڑنا۔ عراقی باقاعدہ فوج کے ساتھ سنی کرد ” پیش مرگہ” کی داعش کے خلاف تیزی سے پیش قدمی۔ پھر اسے نظر انداز کرنے کی پالیسی اور عراقی و ایرانی شعیہ ملیشیاء کا داعش کے خلاف میدان میں اترنا۔ داعش کا شامی حکومت کے خلاف اعلان جنگ ۔اور اسرائیل کی بجائے۔ بیک وقت سعودی عرب اردن اور دیگر کے خلاف صف بندیوں کی دھمکی ۔اور اقدامات۔ امریکہ کی طرف سے کچھ لوگوں کی تربیت اور امداد ۔جو بیک وقت شامی حکومت اور داعش کے خلاف امریکی مفادات کے لئیے میدان میں اتریں ۔ عرب ممالک کا بیک وقت بشار الاسد اور داعش کے خلاف صف بندی۔ یہ وہ اجزائے ترکیبی ہیں جن سے اس خطے کی نئی تصویر بننے جارہی ہے۔ مگر یہ اجزائے ترکیبہ ابھی مکمل نہیں ۔ کیونکہ آنے والے دنوں میں داعش اور شامی حکومت میں امریکہ کے خلاف کسی حد تک مفاہمت ہوسکتی ہے۔
اس پورے خطے کو میدان جنگ بنانے میں جس میں پاکستان کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس میں خام مال کا زیادہ حصہ پاکستان سے لیا جانا مقصود ہے اور اس خام مال کی تیاری راتوں رات نہیں ہوئی۔ بلکہ اسے کاشت کرنے اور پروان چڑھانے میں۔ آپکے دشمنوں نے کئی دہائیاں لگائی ہیں قرضہ ۔ مدد۔ اور بھیک کی مد میں اربوں ڈالرز خرچ کئے ہیں۔ درجنوں سالوں سے منصوبہ بندی کی ہے۔ مسلمان ملکوں میں اپنی مرضی کے سربراہ مسلط کر کے قوموں کو بانجھ کیا ہے۔ قوموں کو بھیڑ اور منتشر ہجوم میں تبدیل کیا ہے۔ جو قومیں تاریخی اور پرانی تھیں مثلاََجیسے ترکی وغیرہ اور انہوں نے اپنے حکمران خود چنے۔ وہ آج قدرے مستحکم اور بہتر پوزیشن میں ہیں ۔ جن ممالک کے حکمرانوں نے امریکہ و مغرب کی منشاء کے سائے میں زندگی گزاری۔ آج ان ممالک اور قوموں کو ۔ غداری۔ فحاشی ۔آوارگی۔ نفرت۔ احساس محرومی۔ لاتعلقی۔اور بالآخر خانہ جنگی جیسے مسائل بھگتنے پڑ رہے ہیں اور بھگتنے پڑیں گے۔ امریکہ کے مسلط کردہ حکمرانوں نے اس خطے کی قوموں میں جوہر قابل پیدا ہی نہیں ہونے دیا۔ انھیں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے کو دے دی گئیں۔ اور یہ آپس میں دست و گریباں ہوئے ۔ایک کو تھپکی۔ دوسرے کو ڈانٹ اور تیسرے کو اشارہ ۔ کئی دہائیوں سے امریکہ کی اس خطے کے بارے خارجہ پالیسی یہی رہی ہے۔
پاکستان میں اسکندر مرزا ۔ایوب ۔ یحییٰ خان۔ ضیاء۔ مشرف کے لمبے آمرانہ دور اقتدار میں۔ مقامی جوہر قابل کو پروان چڑھنے اور مقامی صنت و حرفت کے پھلنے پھولنے کو بھاری امریکی منصوبوں سے روکا گیا۔ ملک میں اپنے وسائل سے ترقی کرنے ۔ اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے اور خود انحصاری کے خواب کو۔ ایک بھوکے ننگے ملک کی تصویر میں بدل دیا گیا۔ پاکستان کو امریکہ اور مغرب سے درآمد شدہ منصوبوں اور ماہرین کی درآمد سے رفتہ رفتہ ۔اور بالآخر محض ڈالروں کی آمدن تک محدود کر دیا گیا۔ جس میں امریکی چہیتوں کے لئیے تو آسانیاں اور فروانیاں تھیں۔ انہوں نے ان میلنز ڈالرز سے خوب جیبیں بھریں مگر بدقسمتی سے عام عوام کے حصہ میں یہ قرضہ اور اس کا سود چکانے کے لئیے بھاری ٹیکس آئے۔ اور آئی ایم ایف جیسے عالمی ساہوکار ادارے پاکستانی اناج کی قیمت پہ اثر انداز ہونے لگے۔ پاکستانی قوم کی ایک بڑی اکثریت پچاس سالوں سے مسلسل درد زہ بھگتتے بھگتتے ۔ پاکستان میں قسما قسمی کے تعصبات۔ لسانی ۔ صوبائی۔ علاقائی۔ مذہبی۔ مسلکی ۔ گروہی۔ سیاسی۔ اور دہشت گردی جیسے بھیانک مسائل پیدا کرتی چلی گئی اور اپنے خوابوں کی تعبیر اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہوتی گئی۔
آج یہ عالم ہے کہ ہر شہری ۔ ہر فرد ۔ شاکی ہے اور کسی کا بھی گلا کاٹنے کو تیار ہے۔ اس کی ایک حالیہ مثال لاہور میں نصرانی برادی کے ہاتھوں دو زندہ جلائے جانے والے عام راہگیروں کی ایک مثال ہی کافی ہے۔ نتائج سے بے پرواہ ہو کر تشدد پہ آمادہ ہوجانے اور اچانک کسی انتہائی قدم پہ اترنے سے پاکستانی عوام کے مزاج میں مایوسی اور فرسٹریشن کی خوفناک صورتحال سامنے آتی ہے۔ جو کہیں بھی محض کسی ایک واقعے سے ایک خوفناک تصادم میں بدل سکتی ہے۔
یہ سب محض چند دنوں میں نہیں ہوا ۔ اسکے پیچھے عالمی طاقتوں کی پچاس سالوں سے زائد وہ حکمت عملی ہے۔جس میں ہمارے بے برکتے اور سیاسی شعور اور بصیرت سے عاری۔ بے بس حکمرانوں کی حماقتیں اور بے عملیاں برابر کی ذمہ دار ہیں۔ جن میں عوام مسلسل پسے ہیں اور ان کے احساس محرومی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے ۔ انکی عزت نفس کو قدم قدم پہ کچلا گیا ہے۔ عوام کی کئی نسلیں جوان ہو چکی ہیں اور انکے حصے میں پچھلی نسل کی نسبت پہلے سے زیادہ مایوسی آئی ہے۔ اور بدستور پاکستان میں عوام کو مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ جہاں کوئی بھی چارہ گر انھیں اپنے مقاصد کے لئیے دھوکے سے استعمال کر سکتا ہے ۔ جس سے مشرق وسطی جیسے حالات پاکستان میں بھی پیدا کئیے جاسکتے ہیں ۔ اس لئیے بھی پاکستانی کرتا دھرتاؤں کو چاہئیے کہ وہ اپنی بقا کی ہی خاطر سہی۔ اپنے عوام کا معیار زندگی بہتر کرنے کی کوششوں کو اپنی اولین ترجیج سمجھیں ۔ اور پاکستان پہ مسلط ۔ورثے میں ملے اس بوسیدہ انگریزی نظام اور سوچ سے جان چھڑائیں۔ اور ایسی تبدیلیوں کا آغاذ کریں۔ جن سے عوام کی زندگی میں بہتری آئے اور عوام یہ بہتری ہوتے ہوئے محسوس کریں ۔ محض خالی خولی دعووں سے خالی پیٹ بھرنا ناممکن ہوتا ہے۔ ورنہ کوئی وقت جاتا ہے۔ کہ حالات حکمرانوں کے بس سے باہر ہو جائیں گے خدا نخواستہ۔
پاکستان کے حالات کو ہم بہتر سمجھتے ہیں۔ اسلئے پاکستان کے حالات کی مثال بیان کی ہے۔ پاکستان جیسے حالات مشرق وسطی کے بہت سے ممالک کے ہیں ۔مثلاََ مصر کو پاکستان کے نقش قدم پہ چلایا جارہا ہے۔ وہاں وہی پاکستان کی طرز کی امریکی پالیسیز ہیں اور السیسی جیسا فوجی جرنیل حکومت میں ہے۔ جبکہ پاکستان میں بھی سیاسی حکومتیں ابھی تک لرزہ براندام ہیں۔
پاکستان کے اور مشرق وسطی کے منظر نامے کو جو لوگ محض مذہبی نکتہ نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس خطے کے حالات محض اس لئیے بگاڑے گئے کہ عالمی طاقتیں مسلمانوں سے نفرت کرتی ہیں ۔ انھیں اس سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان طاقتوں کے لئیے ہمارا مذھب۔ اسلام ۔ایک اہم فیکٹر ضرور ہے۔ جس میں مسلکی اختلافات کو ہوا دے کر وہ اپنے حق میں کئیش کروانا چاتے ہیں ۔ مگر انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ۔کہ ان ممالک میں شیعہ بستے ہیں یا سنی ۔ مالکی یا حنبلی ۔ دیو بندی یا بریلوی۔ اہل حدیث یا اہل سنت ۔ عالمی طاقتوں کو محض اپنے اغراض و مقاصد سے دلچسپی ہے۔ جو بہت مختلف ہیں ۔ جہاں خطے کے وسائل سے استفادہ سے لیکر ایسی کسی ممکنہ سیاسی طاقت ۔۔۔۔۔خواہ وہ اسلامی ہو یا نیم اسلامی مگر جو خطے کے مذھب اور مزاج کی وجہ سے اسلامی ہوسکتی ہے۔۔۔۔۔ ایسی کسی بڑی اور مستحکم سیاسی طاقت کو وقوع پزیر ہونے سے روکنا ہے ۔ جو عالمی طاقتوں کے سیاسی اور معاشی مفادات کے لئیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ اور انکے مفادات لئیے چیلنج بن جائے۔ یہ طاقتیں ہندو بنئیے کی سی سوچ رکھتی ہیں اور ہر صورت میں اپنے مفادات کے لئیے۔ دہائیوں پہ محیط منصوبوں پہ عمل درآمد کرتی ہیں ۔ وقتی مفادات کے تحت یہ وقتی یا غیر متوقع طور پہ پیدا ہونے والی صورتحال سے ممکن ہے وقتی طور پہ سمجھوتہ کر لیں ۔یا ۔ایسی صورتحال کو اپنے مفاد میں کئیش کروانے کی کوشش کریں ۔ مگر اپنے حتمی مفادات کو ہمیشہ مد نظر رکھتی ہیں ۔ اور وہ اس سارے خطے کی بے چینی اور خون خرابی اور سیاسی عدم استحکام کو بھی اپنی ایک کامیابی سمجھتی ہیں ۔کہ انہوں نے ہمیں دنیا کی ترقی و ترویج میں حصہ لینے سے روک رکھا ہے ۔ خطے کے ممالک کے مسلمان عوام کی ترقی رکی ہوئی ہے۔ اور دنیا میں مسلمان ممالک کے ایک بڑے خطے کو کئی دہائیوں سے باہم دست گریباں کر رکھا ہے۔ اور جہاں وہ ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ بات نہیں بنی ۔ وہاں وہ براہ راست اپنی فوجیں اتار دیتے ہیں ۔ عراق اور افغانستان اس کی ایک مثال ہیں۔ اسلئے اس ساری صورتحال کو محض مذہب یعنی اسلام کے خلاف صف آرائی سے کچھ آگے۔ یعنی دنیا میں بنیاء ذہنیت اور اسکے مفادات کی تکمیل کے تناظر میں دیکھنے کی اور سمجھنے کی ضرورت ہے تانکہ مکمل تصویر سامنے آسکے ۔
جس طرح مشرق وسطی میں کچھ سالوں قبل تک شام کو ایک بہت مستحکم ملک سمجھا جاتا تھا ۔ حکومت کی عوام پہ گرفت بہت مضبوط تھی ۔ شامی مخابرات لوگوں کے گھروں میں پکنے والے کھانوں تک کی تفضیلات کی خبر رکھتی تھی۔ مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ فضاء بنی کہ آج یقین ہی نہیں آتا کہ جبر کی بنیاد پہ قائم شام۔ کل تک مشرق وسطی کا سیاسی طور پہ ایک مستحکم ملک تھا ۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملک وہی مستحکم ہوتے ہیں اور ہر قسم کے اندرونی و بیرونی چیلنجز کا باآسانی مقابلہ کر لیتے ہیں ۔ جن ممالک کے عوام مضبوط اور مستحکم ہوتے ہیں۔ جنہیں اپنے ملک کے اندر آزادی ۔ انصاف اور تحفظ حاصل ہو۔ جہاں مسائل کا حقیقی حل ہو۔ جہاں زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے پالیسیز ترتیب دی جائیں ۔ مقامی طور پہ عوام کے مسائل حل کئیے جائیں ۔روزی روٹی ۔امن عامہ اور توانائی جیسے بحران نہ ہوں۔ عوام کو احساس تحفظ ہو۔
پاکستانی عوام کے مسائل وہی بنیادی ضرورتوں کے نہ ہونے سے متعلق ہیں ۔ جنہیں حل کرنے کی بجائے حکمران ہمیشہ دور کی کوڑی لاتے رہیں ہیں۔ اس لئیے شتر مرغ کی طرح مسائل سے اغماض برتنے کی بجائے انہیں جنگی بنیادوں پہ تیز ترین حکمت عملی کے تحت حل کیا جاناچاہئیے۔ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی فیصلوں اور اقدامات کرنے سے سے ہی حالات بہتر کئیے جاسکتے ہیں ۔
ورنہ پاکستانی عوام میں بے بسی اور مایوسی کی انتہاء کو چھوتا جو غصہ ان کے دلوں میں پل رہا ہے وہ کبھی بھی خوفناک صورتحال اختیار کر سکتا ہے۔ پاکستان میں اگر کبھی خدا نخواستہ حالات قابو سے باہر ہوئے اور حکمران طبقے کو تو ہزیمت اٹھانی ہی پڑے گی مگر ملک و قوم کا بہت نقصان ہوگا۔
یہ ایک معجزہ ہے کہ پاکستان میں باہمی ٹکراؤ کے سارے اجزائے ترکیبی ہونے کے باوجود۔پاکستانی قوم نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا ۔ مگر حکمرانوں کو بھی اس معجزہ کو قدرت کی طرف سے حالات بہتر کرنے کے لئیے ایک مہلت سمجھنا چاہئیے۔ اور عوام کے حالات بہتر کرنے کے لئیے انتھک کوشش کرنی چاہئیے۔
جاوید گوندل ۔
۱۸ مارچ ۲۰۱۵۔بارسیلونا
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, “, Gondal, Javed, ہمیں, ہونے, ہوئی۔, ہوئے, ہوتی, ہوتے, ہوتا, ہوتا۔, فوج, ہوجاتے, ہوسکتی, ہوش, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں۔امریکی۔, ہیں۔ایک, ہے, ہے"۔۔۔۔, ہے۔, ہے۔اس, ہے۔صرف, فارمی, ہجوم, فحاشی, قوموں, قومیں, قالب, قائم, قابل, قدمی۔, قدرے, قریب, قرضہ, لمبے, لوگوں, لیکر, لیں۔۔۔جنرل, لیا, لگائی, لگتا, لئیے, لاتعلقی۔اور, مہلت۔حکمران, مفاہمت, مفاد, مفادات, مقامی, مقصود, ملیشیاء, ملک, ملکوں, ممالک, منتشر, منصوبہ, منصوبوں, مول, میں, میں۔, میدان, مکمل, مگر, ماہرین, مال, ماننے, مثلاََجیسے, محرومی۔, محض, مد, مدد۔, مرگہ", مرزا, مرضی, مرغیوں, مسلمان, مسلط, مسائل, مستحکم, مشہور, مشرف, معقولات۔, معاملات, معاملات۔, مغرب, مغربی, نہیں, نہیں۔, نفرت۔, نمایاں, چنے۔, ننگے, چڑھنے, چڑھانے, نے, چکے, نگار, نئی, نئے, چاہتے, ناک, ناخن, نت, نسبت, نظر, و, وہ, وہیں, وقت, والے, ڈالروں, ڈالرز, ڈانٹ, واردات, وجود, وسیع, وسائل, وغیرہ, یہ, یہی, یوں, یک, یا, یحییٰ, یعنی, ۔, ۔۔۔, ۔۱۸, ۔آوارگی۔, ۔اور, ۔ایوب, ۔ایک, ۔جو, کہ, کہیں, کہاوت, کمزور, کو, کو۔, کوئی, کوشش, کی, کینفیوز, کیونکہ, کیا, کیا۔, کے, کپڑا, کئی, کئے, کا, کاشت, کر, کرنے, کرنا, کرتے, کرد, کردہ, کسی, کشی, گوندل, گوشت, گیا۔, گے۔, گھسیڑتے, گئیں۔, گریباں, گردی, گردانتے, گزاری۔, ۲۰۱۵۔بارسیلونا, پہ, پورے, پوزیشن, پوسٹ, پیچیدہ, پیدا, پیش, پڑ, پڑیں, پھلنے, پھولنے, پھیلنا, پھر, پالیسی, پاک, پاکستان, پاؤں, پروان, پرانی, آمنے, آمادہ, آمدن, آمرانہ, آنے, آنا۔, آیا, آپ, آپکے, آپس, آئے۔, آباد, آتے, آج, آسان, اہتمام, افغانستان, اقتدار, اقدامات۔, اقسام, القوام, الاسد, الجھ, امداد, امریکہ, امریکی, امریکی۔, امریکا, ان, انہوں, انڈوں, انگیز, انھیں, اچھے, انحصاری, اندھیرے, انداز, اندرونی, اور, ایک, ایبٹ, ایرانی, اگست, اپنی, اپنے, ابھی, ابھرنا, اتنا, اترنا۔, اتریں, اجزائے, احساس, اربوں, اردن, اس, اسلام, اسے, اسکندر, اسکول, اساتذہ, اسخطےکے, اسرائیل, اشارہ, اعلان, اعمال, بہت, بہتر, بلکہ, بننے, بنانے, بندی, بندیوں, بندی۔, بولنے, بولیاں, بیچ, بیک, بیان, بھوکے, بھی, بھیڑ, بھیک, بھگتنے, بھانت, بھاؤ, بھاری, باہمی, باہر, باقاعدہ, بالآخر, بانجھ, بارے, بجائے۔, بدل, بدو, بشار, تلے, تو, تول, تیاری, تیزی, تیسرے, تک, تھیں, تھے۔, تھپکی۔, تاؤ, تابع, تاریخی, تبدیل, تجزئیہ, تر, ترقی, ترکی, ترکیبہ, ترکیبی, تربیت, تصویر, تعلقات, تعریف, ثابت, جہاں, جن, جنہوں, جنگ, جنگی, جو, جوہر, جیسے, جان, جانا, جاوید, جاتے, جارہی, جب, جس, حملہ۔, حیرت, حکمران, حکمرانوں, حکومت, حالات, حاضرہ, حتمی, حد, حرفت, حصہ, خلاف, خواب, خود, خام, خانہ, خان۔, خارجہ, خاصے, خرچ, خطے, دہائیوں, دہائیاں, دہشت, دنوں, دنیا, دو, دونوں, دور, دوروں, دوست, دوستیاں, دوسرے, دی, دیگر, دیا, دیا۔, دیرینہ, دے, دھمکی, دانشور۔, داستان, داعش, دخل, در, درآمد, درجنوں, دست, دشمن, دشمنوں, دشمنیاں, دشمن؟۔, رہی, رہے, رفتہ, روکا, روز, ریاست, رکھنے, رکھنا, رات, راتوں, رسہ, زندگی, زیادہ, سمجھ, سچی, سنجیدہ, سوچ, سیٹلائٹ, سے, سکڑنا۔, سالوں, سامنے, سائے, ساتھ, سربراہ, سعودی, شہری, شامل, شامی, شدہ, شرائط, شعیہ, صف, صلالہ, صنت, ضمن, ضیاء۔, طے, طرف, طریقہ, طریقے, عام, عراقی, عرب, غداری۔
اردو۔۔۔
انتہائی توجہ طلب قومی فریضہ۔۔۔
چین کے ایک صدر کے بارے ایک واقعہ عام بیان کیا جاتا ہے ۔ کہ انہوں نے انگریزی زبان جانتے ہوئے بھی انگریزی زبان کی بجائے چینی زبان میں بات کرنے کو یہ کہہ کر ترجیج دی کہ” چین گونگا نہیں“ ۔
جن قوموں کی اپنی زبان نہیں ہوتی۔ وہ گونگی اور بہری قرار دی جاتی ہیں ۔اور تاریخ شاہد ہے کہ گونگی اور بہری بے زبان قومیں تاریخ کے دہندلکوں میں گم ہوگئیں اور ان کا نام نشان بھی اب نہیں ملتا۔
پاکستان میں باقاعدہ ایک مسلسل سازش اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اردو کو سرکاری زبان نافذ کرنے میں پس و پیش کی جارہی ہے۔ جب کہ پاکستان کا آئین بھی اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ پاکستان میں اردو زبان کو سرکاری اور کاروبارِمملکت کی زبان کے طور پہ نافذ کیا جائے ۔ مگر پاکستان میں انتہائی مراعات یافتہ انگریزی طبقہ ۔ اردو اور پاکستان کی دیگر زبانیں جاننے والی پاکستان کی اٹھانوے فیصد سے زائد اکثریت کو رعایا سمجھتا ہے ۔اور اپنے آپ کو پاکستان کا مالک اور حاکم بااختیار سمجھتا ہے ۔ اور نہیں چاہتا کہ پاکستان کے عوام بھی ترقی کر کے اس فرق کو ختم کردیں ۔جو اس انگریزی کلب اور عام پاکستانی عوام کے میعار زندگی اور اختیار و بے بسی میں ہے۔ اور یوں اس انگریزی کلب کی حاکمیت اور خصوصیت کا امتیاز ختم ہوجائے ۔
جہاں تک پاکستان کے سیاست دانوں اور کرتا دہرتاؤں کا تعلق ہے ۔جنہیں پاکستان میں اردو کو نافذ کرنے کا اپنا منصبی فرض پورا کرنا ہے ۔ ان کو یعنی حکمرانوں کو یہ انگریزی طبقہ غلط طور پہ تاویلات پیش کر کے ۔ اردو کو سرکاری اور پاکستان میں کاروبار ریاست کی زبان قرا ردینے کی بجائے۔ الٹا سرکاری سطح پہ انگریزی کو زرئعیہ تعلیم (میڈیم )قرار دینے پہ زور دیتا آیا ہے ۔
عام طور پہ پاکستان کےحکمران طبقہ کا تعلق چونکہ انگریزی کلب سے ہونے کی وجہ سے۔ یہ طبقہ اردو کے بارے انتہائی کم معلومات رکھتا ہے اور اردو سے کسی حد نابلد ہوتا ہے۔ اس لئیے اردو زبان کو حکمران طبقہ ایک مشکل مسئلہ سمجھتا ہے ۔ اور اردو کو درخود اعتناء نہیں سمجھتا۔ اور انگریزی کلب کی تاویلات سے متاثر ہوکر انگریزی کلب کے ہاتھوں میں کھیلنے لگتا ہے ۔ اور انگریزی زبان کو اپنا اور ریاست کا اوڑنا بچھونا بنائے رکھنے میں عافیت محسوس کرتا ہے ۔
ستم ظریفی کی حد ہے ایک ایسے معاشرے میں جس میں اٹھانوے فیصد آبادی انگریزی سمجھتی اور بولتی نہیں ۔ اس میں پہلی جماعت سے انگریزی کو زرئعیہ تعلیم قرار دیا گیا ہے ۔ جس کا فوری نقصان یہ ہوا کہ سالانہ نتائج میں پاکستان کی اکثریت غریب عوام کے بچوں کی کامیابی کی شرح اوسط مزید گر گئی ہے۔
مضمونِ ہذاہ میں ہم ان تاویلات کا تجزئیہ کرنے اور ان تاویلات کی منافقت سامنے لانے کی کوشش کریں گے ۔ تانکہ قارئن اکرام کو واضح ہو کہ پاکستان میں قومی زبان کو سرکاری زبان کے طور پہ نافذ نہ کر کے پاکستان اور پاکستان کے عوام کوکس قدر نقصان پہنچایا جارہا ہے۔
قیام پاکستان کے شروع سے لیکر اور پاکستان بن جانے کے بہت سالوں بعد ۔کمپیوٹر کے عام ہونے تک اردو کو سرکاری اور دفتری زبان بنانے کے خلاف ۔جو تاویل بڑی شدو مد سے انگریزی کلب بیان کرتا تھا۔ وہ یہ تھی ۔ کہ دفاتر میں تائپ رائٹنگ کے لئیے انگریزی زبان کا استعمال بہت ضروری ہے ۔ کیونکہ حروف تہجی اور انگریزی رسم الخط کی وجہ سے انگریزی ٹائپنگ میں بہت آسانی اور روانی رہتی ہے۔ جبکہ اردو میں ٹائپنگ کے لئیے ایک اردو ٹائپ رائٹر مشین میں اردو کے حروف تہجی جوڑنے اور الفاظ کی شکل دینے کے لئیے کم از کم تین سو سے زائد کیز والی ٹائپ رائٹنگ کی ضرورت پڑے گی۔ جو عملی طور پہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اور ایسے ٹائپ رائٹرز کو سرکاری دفاتر میں استعما ل کرنا نا ممکن کام ہے ۔ اور یوں حکومتوں نے بھی تجاہل عارفانہ سے کام لے کر اردو کو سرکاری اور دفتری زبان قرار دینے میں اغماض برتا جو قومی مفادات سے غداری کے مترادف سمجھا جانا چاہئیے ۔
مگر کمپیوٹر کی کرشماتی ایجاد اور اسکے عام ہونے کے معجزہ نے ۔انگریزی کلب کی اس تاویل کی ہوا نکال دی ۔ اور ٹائپ رائٹنگ مشینیں قصہ پارنیہ ہویئں۔ اور پاکستان کی قومی اور عوامی زبان۔۔ اردو لکھنا ۔اردو جاننے والوں کے لئیے انتہائی سہل ہوگیا ہے ۔ اس کے باوجود سرکاری سطح پہ اردو زبان کو ترقی دینے کے لئیے قیمتی بجٹ سے گرانقدر مشاہرہ اور مراعات سے جو ادارے قائم کئیے گئے۔ انکی عمارتیں اور اخراجات اور ہٹو بچو قسم کے سربراہ اور عہدیداران تو بہت تھے ۔مگر اردو کی خدمات کے حوالے سے ان کا کام نہ ہونے کے برابر تھا۔ بلکہ اردو کو ترقی دینے کے لئیے قائم کئیے گئے ان حکومتی اداروں کے نام تک انگریزی میں ہیں ۔اور انکے سالانہ اجلاس اور اردو کی ترویج و تشیہر کے لئیے بلائی گئی کانفرسوں کا مواد اور اشتہارات اور ویب سائٹس پہ مواد اردو کی بجائے انگریزی میں ہوتا ہے۔
یہ اردو۔۔۔ جو آپ کمپیوٹرز اور مختلف مصنوعات پہ پڑھ لکھ رہے ہیں ۔اسے اس حد تک ترقی دینے میں حسب معمول بہت سے لائقِ تحسین عام پاکستانی رضا کاروں کی انتھک کوششوں کا ثمر ہے۔ جنہوں نے محض اسے ایک قومی فریضہ سمجھتے ہوئے اور بغیر کسی معاوضے کے انتھک محنت سے اردو کی خدمت کی ہے۔ جس میں عام اردو کے دیدہ زیب فاؤنٹس سے لیکر مختلف پرگرام اور ایپس اردو میں متعارف کروائی ہیں اور اور اس وجہ سے پاکستانی اور دیگر دنیا کے اردو جاننے والے ۔ اپنے کمیپوٹر وں۔ موبائل فون اور دیگر مصنوعات پہ کسی دوسری زبان کی بجائے۔ اپنی زبان اردو کواستعمال کرنے کو ترجیج دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آج کمپیوٹر بنانے والی اور دیگر مصنوعات بنانے والی کمپنیاں اور فرمیں اردو زبان کو اپنی مصنوعات کی رابطہ زبانوں میں شامل کرتی ہیں ۔ جبکہ پاکستان کی حکومتوں اور پاکستانی عوام کے ٹیکسز سے قائم کئیے گئے بڑے بڑے اداروں جن کا واحد مقصد اردو کو ترقی دینا تھا ۔ ان کا اس معاملے میں کردار صفر کے برابر ہے ۔
ان مذکورہ اداروں کو اردو کی ترقی اور ترویج کا فریضہ دیا گیا تو انہوں نے انگریزی میں مروجہ اصطلاحات کو اسقدر مشکل ۔ غیر مستعمل۔ غیر عوامی۔ اور غیر زبانوں کے الفاظ سے اسقدر پیچیدہ ۔ ثقیل ۔ اور مضحکہ خیز بنا کر پیش کیا اور یہ ساری مشق اور قوم کا سرمایہ کا مصرف بیکار گیا۔ ہماری رائے میں ایسا کرنا اور حکومتی ادراے کے من پسندیدہ افراد کو نوازتے ہوئے یہ بجائے خود اردو کے خلاف ایک سازش ثابت ہوئی اور اردو سے اچھا خاصہ لگاؤ رکھنے والے نفیس لوگوں نے اسے اپنانے سے انکار کردیا ۔ اور پھر سے اس کا حل مکمل انگریزی اختیار کرنے میں نکالا گیا۔
مستعار اصطلاحات و ترکیبات اور مشکل الفاظ یا کوئی متبادل لفظ نہ ہونے کی صورت میں زبانیں اپنا رستہ خود بخود بنا لیتی ہیں۔ اور یہ مسئلہ دنیا بھر کی سبھی زبانوں کے ساتھ رہا ہے۔ اور ہے۔ خود انگریزی میں فرنچ اور دیگر لاطینی زبانوں کے بے شمار مستعار لفظ مستعمل ہیں۔ مثلا ”کیمرہ“۔۔ یہ بنیادی طور پہ یہ لاطینی لفظ ہے۔ جس کے معانی ہیں ڈبہ یا ڈبہ نما کوئی ایسے شئے جو اندر سے خالی ہو۔ اور انگریزی میں ہزاروں الفاظ کی ہم مثال یہاں دے سکتے ہیں ۔جو بنیادی طور پہ لاطینی ۔ فرانسیسی اور اسپانوی الفاظ ہیں ۔ اور انگریزی سے قدیم ہیں ۔ اور انگریزی نے اسے اپنا لیا ہے۔ اور اسے اپنا خاص انگریزی کا تلفظ دے ڈالا ہے۔ جس سے وہ ایک الگ صوتی شناخت پا گئے ہیں ۔
“اسی طرح کچھ خاص پہلوؤں سے عربی زبان اور دنیا کی دیگر زبانوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ جو دنیا کی فصیح و بلیغ زبان اور قدیم اور انتہائی ترقی یافتہ زبان ہے۔عربی زبان سے بڑھ کر کوئی بھی زبان کسی بھی صورت حال یا شئے کو واضح کرنے کے لئیے اپنے اندر اتنی صلاحیت نہیں رکھتی۔جتنی صلاحیت عربی زبان میں ہے۔ انگریز اور مغرب نے طیارہ ایجاد کیا۔ اور اسے ”ائیر پلین“۔ یا ا”ئر کرافٹ “یا دیگر نام دئیے جو بجائے خود دو ناموں کا مجموعہ ہیں۔مگر عربی نے اسے سیدھا سادا انداز میں ”طائرۃ“ کا نام دیا ۔ جو زیادہ ترقی یافتہ لفظ ہے۔ اور اس فصحات و بلاغت کے باوجود یونانی فاتح ۔جسے انگریزی نے ”الیگزینڈر“ کہہ کر پکارا ۔عربی نے اسے ”اسکندر“ کہا۔اور اسی مناسبت سے مصر کے مشہور شہر ”اسکندریہ“ کا نام عربی زبان کی مناسبت سے وجود میں آیا۔۔۔ لیبا کا مشہور شہر کا نام ”طرابلس” ۔ ”ٹریپولی “ نام کی وجہ سے وجود میں آیا۔ مگر اسے عربی نے اپنے انداز میں ”طرابلس“ کا نام دیا۔
کچھ ایسا ہی معاملہ دنیا میں رائج قدیم ترین زبانوں میں سے رائج ایک زبان اسپانوی کے ساتھ بھی ہے۔ عربی کے بعد ماہرینِ لسانیات عام طور پہ اسپانوی زبان کو دنیا کی دوسری فصیح و بلیغ زبان گردانتے ہیں ۔ مسلم اسپانیہ کے دور کے مشہور شہروں کے نام” اشییلیہ“۔”قرطبہ“۔ ”غرناطہ۔” مالقہ“۔”سرقسطہ“۔قادسیہ” وغیرہ اسپانوی زبان میں باالترتیب ۔ ”اِس بیا“۔ ”قوردبہ“۔ ”گارانادا“۔”مالاگا۔”ژاراگوثہ“۔ ”قادس۔ وغیرہ میں بدل گئے اور تلفظ بدلنے سے۔ امریکن قرطبہ کو ۔”کارڈواہ” کہہ کر پکارتے ہیں کیوں کہ وہ قرطبہ شہر کے نام کو انگریزی حروف تہجی Córdvba تلفظ بگڑ جانے سے یوں ”کارڈواہ“ پکارتے ہیں۔ مگر اس سے مراد قرطبہ شہر ہی ہے یعنی نام کوئی بھی دے دیا جائے۔ یا کسی طرح بھی اسے پکارا جائے۔ مراد وہی مخصوص شہر ۔معانی یا شئے ہوتی ہے۔ اسی طرح قدیم عربی کے ہزاروں الفاظ اسپانوی میں اتنی صدیوں بعد بھی عربی تلفظ کے ساتھ اور انہی معانوں میں مستعمل ہیں۔ مثلا ”قندیل“۔ ”بلبل“ وغیرہ ہیں ۔ سقوطِ غرناطہ کو پانچ سے زائد صدیاں گزرجانے کے بعد بھی اسپانوی رائل ڈکشنری یعنی شاہی لغت میں ایک ہزار کے لگ بھگ الفاظ قدیم عربی زبان کے ملتے ہیں ۔ یاد رہے کہ اسپانوی زبان میں کسی نئے لفظ کو شامل کرنے یا نئی اصطلاحات اور ترکیبات شامل یا متروک الفاظ کو خارج کرنے کے لئیے اسپانوی زبان کی شاہی کونسل کا باقاعدہ بورڈکا اجلاس ہوتا ہے جس میں اسپانوی زبان کے ماہر ترین اور اسپانوی زبان میں ڈاکٹری کا اعزاز رکھنے والے اس کے باقاعدہ ممبر کسی لفظ کے متروک یا شامل کرنے پہ نہائت غوروص کے بعد اسے شامل یا متروک کرتے ہیں ۔تو اگر رائل اسپانوی لغت میں بدستور ایک ہزار کے لگ بھگ الفاظ تقریبا اپنی اصل حالت اور معانی میں شامل ہیں ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ روز مرہ کی زندگی میں استعمال میں لائے جاتے ہیں ۔ اور اسپانوی حکومت اور عوام کو ان پہ کوئی اعتراض نہیں کہ وہ زبردستی سے ان الفاظ کا متبادل اپنی زبان اسپانوی میں مسلط کرتے ۔
خود اردو زبان میں بہت سے انگریزی زبان کے کئی الفاظ مثلاً ”فون “۔”بس“۔ ”ٹرک“۔ ”ڈاکٹر“۔ ”انجئنیر“۔ ”نرس“۔” ہاکی“۔ ”جنگل“۔”ٹیم“۔ وغیرہ یوں مستعمل ہوئے کہ انہیں ادا کرنے کے لئیے انگریزی سے واقفیت ہونا ضروری نہیں۔ اور اسی طرح اردو نے عربی۔ فارسی۔ ہندی۔ ترکی اور دیگر بہت سی زبانوں کے الفاظ اپنائے ہیں جن کے بارے یہ جانے بغیر کہ یہ کون سی زبان کے الفاظ ہیں اور ان کا درست تلفظ کونسا ہے۔ ان الفاظ کو سمجھنے ۔ بولنے اور ادا کرنے میں عام آدمی کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔
اردو چونکہ دیگر زبانوں کے مقابلے میں نئی زبان ہے۔ اس لئیے اردو میں دیگر زبانوں کے الفاظ اپنے اندر سمو لینے کی صلاحیت حیرت انگیز ہے۔ اور یہی اردو کی ترقی کا راز بھی ہے۔ کہ اردو اتنے کم وقت میں اتنے کڑوڑوں انسانوں نے اسے اپنا لیا ہے اور انہیں اردو کو بولنے ۔ سمجھنے اور ادا کرنے میں پریشانی نہیں ہوتی ۔
جہاں تک مخصوص سائنسی اصطلاحات کا زکر ہے تو ان میں سے بیشتر یونانی اور لاطینی سے انگریزی میں منتقل ہوئیں ہیں ۔ یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔ کہ اگر آپ ان سائنسی اصطلاحات کو اگر جوں کا توں بھی اردو میں اپنا لیں تو جمہورِ اردو خود بخود ایک دن انہیں اپنے سے تلفظ اور نام دے دے گا ۔ جیسے ٹریپولی کو عربوں نے طرابلس کا نام میں بدل ڈالا یا الیگزینڈر کو اسکندر۔ اور آج عام عرب یونان کے مشہور فاتح کو اسکندر کے نام سے ہی جانتے ہیں ۔ اور اسی طرح جیسے مندرجہ نالا مثالوں میں مختلف خطوں اور زبانوں کے جمہورِ نے مختلف زبانوں کے الفاظ کو اپنی ضرورت کے تحت اپنے تلفظ یا صورت میں اپنا لیا تو کیا وجہ ہے کہ اردو کے ساتھ یوں نہیں سکتا؟ جبکہ اردو کا ظرف اور دامن بہت وسیع ہے۔مثال کے طور پہ جیسے فون لفظ اب اردو میں اور پاکستان میں عام مستعمل ہے اسے ” صوتی آلہ“ بلانے لکھنے پہ زور دینا ایک نامناسب بات ہے ۔ ا
حاصلِ بحث یہ ہے جن الفاظ۔ ترکیبات اور سائنسی یا دیگر ناگزیر اصطلاحات کا فوری طور پہ اردو میں آسان ترجمہ نہ ہوسکے۔ تو انھیں انکی اصلی حالت میں ہی حالت اردو رسم الخط میں لکھ دینے سے اور باقی نفس مضمون اردو میں لکھ دینے سے ان کی ماہیئت نہیں بدلے گی ۔ انگریزی اور دیگر زبانوں کے جو ناگزیر الفاظ اردو میں لکھے جاسکتے ہیں ۔ انہیں اردو رسم الخط میں لکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔
ناعاقبت اندیش لوگ ایک اورتاویل ا انگریزی کے حق میں یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ مادی ترقی کے لئیے انگریزی جاننا ضروری ہے ۔ کیونکہ کہ انگریزی امریکا اور برطانیہ کی ترقی یافتہ اقوام کی زبان ہے ۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چین جو اپنی چینی زبان سمیت اتنی تیزی سے ترقی کر کے۔ اس وقت دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے۔ اور کچھ وقت جاتا ہے کہ وہ امریکہ کومعاشی ترقی میں پیچھے چھوڑ دے گا ۔ تو پھر کی اس کلئیے کے تحت پاکستان کے پورے نظام اور اسکی آبادی کو چینی زبان سیکھنی اور اپنانی پڑے گی ؟ ترقی اپنی زبان کے استعمال اور نفاذسے ہوتی ہے۔ مستعار زبانوں سے کبھی ترقی نہیں ہوا کرتی۔
جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ بین الاقوامی زبان چونکہ انگریزی ہے تو ہمیں انگریزی سیکھنی چاہیئے انکا یہ استدلال اپنی جگہ مگر چند ہزار افراد کی انگریزی میں مہارت کے لئیے پوری ایک قوم کو بے زبان کر دینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ کیا اسکے لئیے یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ اپنے ان افراد کو جنہیں بین الاقوامی معاملے کرنے ہوتے ہیں۔ انھیں بہترین معیار کی انگریزی اور دیگر مغربی و مشرقی زبانیں سکھانے پہاکتفاء کر لیں اور باقی پچانوے فیصد پاکستانی قوم پہ انگریزی مسلط کرنے میں جو توانائی اور وسائل برباد کر کے۔ پوری قوم کو ٹکٹکی پہ لٹکا رکھا ہے۔ اس سے پاکستانی قوم کو معافی دے دیں ۔
انگریزی زبان کو ذرئعیہ تعلیم قرار دینے کی ایک اور بڑی خرابی جو پاکستانی معاشرے بگاڑ پیدا کرنا کر رہی ہے اور آیندہ اگلے سالوں میں مزید بگاڑ پیدا کرے گی وہ خرابی انگریزی کی نصابی کتب اور انکے پیچھے چھپی مخصوص سوچ ہیں ۔ کیونکہ عام طور پہ انہیں لکھنے والوں ۔ ترتیب دینے والوں کیاکثریت یا تو سیکولر غیر ملکی مواد کو نقل کرتے ہیں یا وہ اپنے مخصوص اسیکولر نکتہ نظر سے مضامین اور کتب لکھتے ۔ جو پاکستانی قوم کی نظریاتی بنیادوں کے خلاف ہے ۔ ایسے سیکولر نصاب میں پاکستانی قومیت اور اسلامی و مشرقی اقدار کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔ اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہمارا نوجوان طبقہ دین و ملت سے بیزار نظر آتا ہے۔ کیونکہ انہیں اسلامی اخلاق ۔ مشرقی اقدار یا قومی جذبات کی ہوا تک نہیں لگنے دی جاتی۔ کیونکہ انگریزی نکتہ نظر سے یہ سب دقیانوسیت قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ انگریزی نصاب جو لوگ ترتیب دیتے ہیں وہ انگریزی نصاب سے صرف انگریزی کی نہیں بلکہ اپنے انگریزی خیالات کی بھی ترویج کرتے ہیں۔ اور ملکی و قومی افکار کی۔ دین و ملت سے محبت کی اس میں گنجائش نہیں رکھی جاتی ۔ انگریزی ایک برآمدی زبان ہے جو کلچر انگریزوں کے ہاں آج رائج ہے۔ اسی کی جھلکیاں آپ کو انکی برآمدی زبان میں نظر آئینگی۔ جو کچے ذہنوں کو متاثر کرتی ہیں اور اور ویسی ہی ترغیب دیتی ہیں ۔
سائنسی تحقیقات کے مطابق یہ بات طے ہے کہ ہر انسان اپنی مادری زبان میں سوچتا ہے۔ جس کے تحت اسکے خیالات ترتیب پاتے ہیں۔ جسے وہ عملی شکل دے کر ۔عام روز مرہ کے معاملات سے لیکر محیر العقول دریافتیں۔ ایجادات اور پیچیدہ مسائل کا حل ڈہونڈ نکالتا ہے۔ اور سوچنے کا یہ عمل اگر ایک انسان چاہے تو کسی ایسی دوسری زبان میں سوچ بھی سکتا ہے جو اسکے لئیے آسان اور سہل اور عام فہم ہو۔ جیسے مثال کے طور پہ اگر معاشرے میں دو یا دو سے زائد زبانیں رائج ہوں ۔ یا اسے دوسری زبانوں پہ عبور ہو ۔ جس طرح کنیڈا میں بہت سے لوگ انگریزی اور فرانسیسی پہ عبور رکھتے ہیں ۔اسپانیہ کے صوبہ ”قتئلونیہ“ میں ”قئتلان“ اور” اسپانوی“ پہ ۔اسپین کے صوبہ” گالی سیا “میں” گالیگو “اور ”اسپانوی “پہ عبور رکھتے ہیں ۔ پاکستان میں ”پنجاب“ میں ”پنجابی“ اور ”اردو“ کے ساتھ ۔ اور پاکستان کے دیگر صوبوں میں دیگر صوبوں کی زبانوں اور اردو کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔تو یہ لوگ ہر دو زبانوں میں سے کسی ایک زان میں سوچ کر اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں ۔ کیونکہ یہ مذکورہ زبانیں ان کے لئیے اجنبی اور پیچیدہ زبانیں نہیں ۔ اور اس لئیے وہ اپنی صلاحیتوں کو اپنی زبانوں کے ذریئعے زیادہ بہت طور پہ اجاگر کر سکتے ہیں ۔ جبکہ انگریزی زبان پاکستان کے عوام کے لئیے قطعی برآمدی زبان ہے ۔سائنس یہ بات تسلیم کرتی ہے۔ اور زبان کو انسانی سوچ کے لئیے کو مادری یا دوسری معلوم اور عبور رکھنے والی زبان کو بنیاد مانتی ہے جس سے وہ اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنا تا ہے یوں کسی معاشرے میں اسکی اپنی زبان ترقی و تمدن میں بنیادی اورمسلمہ حیثیت رکھتی ہے۔
شاعری ۔ نثر ۔اور روز مرہ مسائل کے حل کے لئیے سوچنے۔تخیل دوڑانے اور تصور کرنے کے لئیے انسان اپنی بنیادی یا عام فہم سمجھنے والی زبان سے کام لیتا ہے۔
ہم اس تصور کو ایک اور مثال سے واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ ذرا تصور کریں۔ میر ۔ غالب۔نظیر اکبر الہ آبادی۔ اقبال رح۔ فیض یا دیگر شعراءنےجو اردو وغیرہ میں کلام کیا ہے وہ سب انھیں انگریزی میں سوچنے۔ اور ڈھالنے کے لئیے۔انگریزی میں اس پائے کا کلام کرنے کے لئیے ۔کتنا عرصہ انگریزی سوچنے اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لئیے درکارتھا؟ اور کیا اس کے بعد بھی وہی نتائج سامنے آتے۔اور ان کا وہی معیار ہوتا ۔جو آج دیوانِ غالب اور کلیاتِ اقبال یا بانگ درا کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں ؟ بعین اسی طرح کا معاملہ ان خداد ذہین انسانوں کے ساتھ بھی ہے جو چٹکی بجانے میں بڑے سے بڑا مسئلہ حل کردیتے ہیں ۔ ایک سے بڑھ کر ایک ایجاد کرتے ہیں ۔ مسائل کا حل دریافت کرتے ہیں ۔ یا اپنی کسی خاص دلچسپی میں مہارت رکھتے ہیں۔ اگر انھیں ایک غیر ملکی زبان انگریزی سیکھنے اور پھر اسی خاص زبان انگریزی کے تحت اپنے خیالات کو عملی جامہ اپنانے پہ پابند کر دیا جائے ۔جب کہ خداد تخلیقی صلاحیتوں کے حامل لوگ ویسے بھی عام طور پہ۔ اپنی فطری ساخت کی وجہ سے اپنے پہ مسلط بے جاضابطوں سے کسی حد تک باغی ہوتے ہیں ۔ تو کیا ان کی قابل قدر صلاحیتیں ایک ایسی زبان پہ صرف ہو جانی چاہئیں۔ جس میں وہ بددل ہو کر سارے سلسلے سے ہی ہاتھ اٹھا کر دنیا کی بھیڑ بھاڑ میں گم ہو جاتے ہیں۔ اور اگر وہ انگریزی سیکھنے میں کامیاب ہو بھی جائیں۔ تو بہت سا قیمتی وقت وہ ایک ایسے عمل پہ خرچ کر چکے ہوتے ہیں جو ضروری نہیں تھا۔ اور یہ تماشہ پاکستان کے جوہر قابل اور ذہین طلبہ کے ساتھ عام ہوتا ہے کہ خواہ وہ کس قدر ہی کیوں نہ لائق اور ذہین فطین ہوں لیکن بد قسمتی سے ۔یا۔ اردو میڈیم ہونے کی وجہ سے۔اگر ایک برآمدی زبان انگریزی میں انکا ہاتھ تنگ ہے ۔ تو جہاں انکے لئیے آگے بڑھنے کے مواقع معدوم ہوجاتے ہیں۔ وہیں پاکستان اور پاکستان کے عوام ذہین اور قابل لوگوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔
ملک میں خداد جوہر قابل کو محض انگریزی زبان کو لازمی قرار دینے سے ضائع ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں عام آدمی کو پاکستان کی ترقی میں کوئی موقع نہیں ملتا اور آخر کار وہ مایوس ہو کر اپنے آپ کو قومی سو چ اور قومی دھارے سے الگ کر لیتا ہے ۔جس سے معاشرے میں امن و عامہ سے لیکر کئی قسم کے تعصبات اور انکے نتیجہ میں مسائل جنم لے رہےہیں۔
اس لئیے صرف یہ کہہ کر ٹال دینا کہ اردو زبان کو سرکاری زبان کے طور پہ اسلئیے نافذ نہیں کیا جاسکتا کہ اردو ایک ترقی یافتہ زبان نہیں ۔ یا۔ اردو زبان میں لاطینی یا انگریزی کی سائنسی اصطلاحات کا ترجمہ مشکل ہے۔ اور اسے سرکاری زبان کی حیثیت سے نافذ نہ کرنا۔ محض بد نیتی کے سوا کچھ نہیں۔
جو لوگ انگریزی کو محض اس لئیے اپنانے پہ اصرار کرتے ہیں اور بضد ہیں کہ اردو کی قربانی دے کر انگریزی زبان کو اپنانا ترقی کے لئیے ضروری ہے۔ انکی یہ توجہیہ درست نہیں ۔ کیونکہ اس خاص انگریزی طبقے کی یہ بات درست تسلیم کر لی جائے تو پھر اپنی زبانوں میں مشرق و مغرب میں۔ ترقی کرنے والے ممالک ۔ جاپان۔ چین۔جرمنی۔روس۔ فرانس وغیرہ کو آپ کس کھاتے میں رکھیں گے؟ یورپ کے ننھے ننھے ترقی یافتہ ممالک ڈنمارک۔ ناروے۔ سویڈن۔ سوئٹزرلینڈ۔ہالینڈ۔ لکسمبرگ ۔ یوروپ کے بڑے ممالک روس اسپین ۔ فرانس۔ اٹلی۔ جرمنی۔ وغیرہ کسی ملک کی سرکاری زبان انگریزی نہیں۔ معاشی طور پہ تیزی سے ابھرتے ہوئے ممالک۔ برازیل ۔ انڈونیشا ۔ ملائشیاء ۔وغیرہ۔ ان میں سے کسی ملک کی زبان انگریزی نہیں۔ اور ان تمام ملکوں۔ کی زبانیں انکی اپنے ملک میں رائج جمہور کی۔ عوام کی۔ زبانیں سرکاری طور پہ نافذ ہیں۔ اس لئیے ترقی کرنے کے لئیے۔ پاکستان کی دیگر بہت سی خرابیاں درست کرنے کی ضرورت ہے ۔جن کی وجہ سے پاکستان ترقی نہیں کر پا رہا اور اس بد حالی کی ایک بڑی وجہ بھی پاکستان کی جمہور کی۔ عوام کی آواز اردو زبان کو سرکاری زبان کے طور پہ نہ نافذ کرنا ہے۔
پاکستان کی اٹھانوے فیصد آبادی اپنا مدعا اور منشاء انگریزی میں ادا کرنے کی اسطاعت نہیں رکھتی۔ پاکستان کے انگریزی دان طبقے کی اہلیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انگریزی پہ زور دینے والا یہ طبقہ انگریزی ادب میں اپنا حصہ ڈالنے کے حوالے سے نثر ۔ نظم ۔ ناول یا ادب کی دیگر کسی صنف میں کوئی نمایاں کارنامہ سر انجام نہیں دے سکا ۔ اور سائنسی اور تکنیکی علوم میں انگریزی کلب کا ہاتھ مزید تنگ ہوجاتا ہے ۔تو کیا پاکستان کے انگریزی کلب کے سامنے محض اس لئیے سر تسلیم خم کر دیا جائے کہ وہ انگریزی جانتے ہیں؟ اور انگریزی زبان جاننا قدر مشترک ہونے کی وجہ سے۔ انگریزی کلب پاکستان کے نظام پہ حاوی رہے؟ ۔ اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ انگریزی دان طبقہ پاکستان میں انگریزی زبان کا تسلط اس لئیے نہیں رکھنا چاہتا کہ انگریزی سے اہلیت بڑھتی ہے اور انگریزی کے تسلط سے پاکستان ترقی کر جائے گا ۔ بلکہ پاکستان کا انگریزی کلب۔ پاکستانی عوام اور وسائل کو انگریزی زبان کے ذرئعیے پاکستان میں اپناتسلط قائم رکھنا چاہتا ہے ۔
پاکستان کے مسائل کی ایک بہت بڑی وجہ عام بول چال اور سمجھ میں آنے والی جمہورِ کی زبان اردو کے ساتھ یہ یتیمانہ سلوک ہے۔ اگر اسے سرکاری طور پہ نافذ کر دیا جائے تو پاکستان کی بے مہار اورانگریزی کلب کی پیداوار بیورکریسی جو محض انگریزی زبان کی وجہ سے جمہورِ پاکستان سے اپنے آپ کو الگ شناخت کرتی ہے۔ اپنے آپ کو خاص اور عوام کو اپنی رعایا سمجھتی ہے۔ اردو کو سرکاری زبان نافذ کرنے سے پاکستان اور پاکستان کے عوام کی جان چھوٹ جائے گی۔جب پاکستان میں اعلی عہدوں کے لئیے مقابلہ کے امتحانات اردو میں ہونگے اور اردو کو سرکاری طور پہ اوڑنا بچھونا بنایا جائے گا۔ تو انگریزی اور پاکستان جیسے مشرقی اور مسلمان ملک میں انگریزی بودوباش باش کا امتیاز و اعزاز خود بخود ختم ہو جائیگا۔ اور اردو وہ عزت پائے گی جس کی وہ مستحق ہے ۔ کیونکہ اردو کے عزت پانے سے پاکستانی قوم عزت پائے گی۔ کاروبارِ مملکت اردو میں ہونے سے عام فہم اور سہل ہوگا ۔
اردو سمجھنے والوں میں بے شمار خداد صلاحیتوں کے حامل اور اہل لوگوں کو کاروبار ریاستِ پاکستان چلانے کا موقع ملے گا ۔ عوام اور خاص کی ایک ہی زبان ہونے سے عوام اور خاص میں فاصلہ کم ہوگا ۔ ریاستی اور دفتری امور کو سمجھنے میں عام آدمی کو آسانی ہوگی۔
اس لیے پہلے گزارش کر چکے ہیں مستعار اصطلاحات و ترکیبات اور مشکل الفاظ یا کوئی متبادل لفظ نہ ہونے کی صورت میں زبانیں اپنا رستہ خود بخود بنا لیتی ہیں ۔دریا کے سامنے وقتی طور پہ بند باندھ کر۔ اس کا پانی روکا جاسکتا ہے ۔ مگر ہمیشہ کے لئیے یوں کرنا ناممکن ہے۔۔۔۔ اور اردو۔۔۔اس ملک ۔پاکستان میں وہ سیل رواں ہے۔ کہ اس کے سامنے جو رکاوٹ بن کر آیا۔ وہ خس خاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔ کیونکہ اردو زبان پاکستان کے عوام کی۔ جمہور کی زبان ہے۔ اور جمہور اپنا رستہ خود بنا لیا کرتا ہے۔
بس کچھ سالوں کی بات ہے ۔ یا پھر ہماری قیادت کو قومی غیرت کا ادراک ہوجائے۔ تو اردو کو فی الفور سرکاری زبان کا درجہ دے کر۔ اسے سرکاری طور پہ نافذ کرے۔ اسی کو تعلیم کا ذرئعیہ (میڈیم) بنائے۔۔۔اتنی بڑی آبادی کے ملک کے لئیے۔ قومی ہی کیا۔ عالمی ناشران بھی اردو میں کتابیں چھاپنے پہ مجبور ہونگے ۔۔ اور جو نہیں چھاپیں گے وہ خسارے میں رہیں گے ۔ شروع میں ایک حد تک حکومت تراجم کی سہولت خود بھی مہیاء کر سکتی ہے۔ بعد ازاں سب اردو میں کتب لے کر بھاگے آئیں گے۔ کہ ہم سے بہت ہی کئی درجہ چھوٹے ممالک میں انکی اپنی زبانوں میں تعلیم ہونے کی وجہ سے عالمی ناشران انہی زبانوں میں بھی کتب چھاپتے ہیں۔ کہ یہ ایک کاروبار ہے۔ کسی زبان پہ احسان نہیں۔
اگر حکومت نہ بھی دلچسپی دکھائے تو بھی ایک بات تو طے ہے کہ اردو کا مستقبل پاکستان میں روشن ہے اور ایک روشن اور ترقی یافتہ پاکستان کے لئیے اردو زبان کو بطور سرکاری زبان اپنانا اور سرکاری طور پہ نافذ کرنا۔ نہ صرف ضروری ہے بلکہ یہ ایک لازمی قومی فریضہ ہے ۔
جاوید گوندل
پچیس فروری سنہ دو ہزار پندرہ
۲۵۔۰۲۔۲۰۱۵ ء
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: ”خصوصیت, ہم, ہو, ہونے, ہوکر, ہوگئیں, ہوئے, ہوا, ہوتی۔, ہوتا, ہوجائے, فوری, ہیں, فیصد, ہے, ہے۔, ہے۔مضمونِ, ہاتھوں, ہذاہ, فرق, فریضہ۔۔۔چین, فرض, قوموں, قومی, قومیں, قارئن, قرا, قرار, لگتا, لئیے, لانے, ملتا۔, منافقت, منصوبے, منصبی, میڈیم, میں, میعار, مگر, مالک, متاثر, محسوس, مراعات, مزید, مسلسل, مسئلہ, مشکل, معلومات, معاشرے, نہیں, نقصان, چونکہ, چین, چینی, نے, چاہتا, نافذ, نام, نابلد, نتائج, نشان, و, وہ, واقعہ, والی, واضح, وجہ, یہ, یوں, یافتہ, یعنی, ۔, ۔اور, ۔جہاں, ۔جن, ۔جنہیں, ۔جو, کہ, کہہ, کلب, کم, کو, کوشش, کی, کیا, کے, کےحکمران, کھیلنے, کا, کامیابی, کاروبار, کاروبارِمملکت, کر, کرنے, کرنا, کریں, کرتا, کردیں, کسی, گم, گونگی, گونگا, گیا, گے, گئی, گر, پہ, پہلی, پورا, پیش, پاکستان, پاکستانی, پس, آیا, آپ, آئین, آبادی, الٹا, امتیاز, ان, انہوں, انگریزی, انتہائی, اوڑنا, اور, اوسط, ایک, ایسے, اکثریت, اکرام, اٹھانوے, اپنی, اپنے, اپنا, اان, اب, اختیار, اردو, اس, اعتناء, بہری, بچوں, بچھونا, بنائے, بولتی, بیان, بے, بھی, باقاعدہ, بااختیار, بات, بارے, بجائے, بجائے۔, بسی, تقاضہ, توجہ, تک, تانکہ, تاویلات, تاریخ, تجزئیہ, تحت, ترقی, ترجیج, تعلق, تعلیم, جماعت, جاننے, جانتے, جائے, جاتی, جاتا, جارہی, جب, جس, حکمران, حکمرانوں, حاکم, حاکمیت, حد, ختم, دہندلکوں, دہرتاؤں, دی, دینے, دیگر, دیا, دیتا, دانوں, درخود, ریاست, رکھنے, رکھتا, ردو۔۔۔انتہائی, ردینے, رعایا, زندگی, زور, زائد, زبان, زبانیں, زرئعیہ, سمجھے, سمجھتی, سمجھتا, سمجھتا۔, سونے, سیاست, سے, سے۔, سالانہ, سامنے, سازش, ستم, سرکاری, سطح, شاہد, شرح, صدر, طلب, طور, طبقہ, ظریفی, عوام, عافیت, عام, غلط, غریب
اردو۔۔۔
انتہائی توجہ طلب قومی فریضہ۔۔۔
حصہ اول۔
چین کے ایک صدر کے بارے ایک واقعہ عام بیان کیا جاتا ہے ۔ کہ انہوں نے انگریزی زبان جانتے ہوئے بھی انگریزی زبان کی بجائے چینی زبان میں بات کرنے کو یہ کہہ کر ترجیج دی کہ” چین گونگا نہیں“ ۔
جن قوموں کی اپنی زبان نہیں ہوتی۔ وہ گونگی اور بہری قرار دی جاتی ہیں ۔اور تاریخ شاہد ہے کہ گونگی اور بہری بے زبان قومیں تاریخ کے دہندلکوں میں گم ہوگئیں اور ان کا نام نشان بھی اب نہیں ملتا۔
پاکستان میں باقاعدہ ایک مسلسل سازش اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اردو کو سرکاری زبان نافذ کرنے میں پس و پیش کی جارہی ہے۔ جب کہ پاکستان کا آئین بھی اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ پاکستان میں اردو زبان کو سرکاری اور کاروبارِمملکت کی زبان کے طور پہ نافذ کیا جائے ۔ مگر پاکستان میں انتہائی مراعات یافتہ انگریزی طبقہ ۔ اردو اور پاکستان کی دیگر زبانیں جاننے والی پاکستان کی اٹھانوے فیصد سے زائد اکثریت کو رعایا سمجھتا ہے ۔اور اپنے آپ کو پاکستان کا مالک اور حاکم بااختیار سمجھتا ہے ۔ اور نہیں چاہتا کہ پاکستان کے عوام بھی ترقی کر کے اس فرق کو ختم کردیں ۔جو اس انگریزی کلب اور عام پاکستانی عوام کے میعار زندگی اور اختیار و بے بسی میں ہے۔ اور یوں اس انگریزی کلب کی حاکمیت اور خصوصیت کا امتیاز ختم ہوجائے ۔
جہاں تک پاکستان کے سیاست دانوں اور کرتا دہرتاؤں کا تعلق ہے ۔جنہیں پاکستان میں اردو کو نافذ کرنے کا اپنا منصبی فرض پورا کرنا ہے ۔ اان کو یعنی حکمرانوں کو یہ انگریزی طبقہ غلط طور پہ تاویلات پیش کر کے ۔ اردو کو سرکاری اور پاکستان میں کاروبار ریاست کی زبان قرا ردینے کی بجائے۔ الٹا سرکاری سطح پہ انگریزی کو زرئعیہ تعلیم (میڈیم )قرار دینے پہ زور دیتا آیا ہے ۔
عام طور پہ پاکستان کےحکمران طبقہ کا تعلق چونکہ انگریزی کلب سے ہونے کی وجہ سے۔ یہ طبقہ اردو کے بارے انتہائی کم معلومات رکھتا ہے اور اردو سے کسی حد نابلد ہوتا ہے۔ اس لئیے اردو زبان کو حکمران طبقہ ایک مشکل مسئلہ سمجھتا ہے ۔ اور اردو کو درخود اعتناء نہیں سمجھتا۔ اور انگریزی کلب کی تاویلات سے متاثر ہوکر انگریزی کلب کے ہاتھوں میں کھیلنے لگتا ہے ۔ اور انگریزی زبان کو اپنا اور ریاست کا اوڑنا بچھونا بنائے رکھنے میں عافیت محسوس کرتا ہے ۔
ستم ظریفی کی حد ہے ایک ایسے معاشرے میں جس میں اٹھانوے فیصد آبادی انگریزی سمجھتی اور بولتی نہیں ۔ اس میں پہلی جماعت سے انگریزی کو زرئعیہ تعلیم قرار دیا گیا ہے ۔ جس کا فوری نقصان یہ ہوا کہ سالانہ نتائج میں پاکستان کی اکثریت غریب عوام کے بچوں کی کامیابی کی شرح اوسط مزید گر گئی ہے۔
مضمونِ ہذاہ میں ہم ان تاویلات کا تجزئیہ کرنے اور ان تاویلات کی منافقت سامنے لانے کی کوشش کریں گے ۔ تانکہ قارئن اکرام کو واضح ہو کہ پاکستان میں قومی زبان کو سرکاری زبان کے طور پہ نافذ نہ کر کے پاکستان اور پاکستان کے عوام کوکس قدر نقصان پہنچایا جارہا ہے۔
قیام پاکستان کے شروع سے لیکر اور پاکستان بن جانے کے بہت سالوں بعد ۔کمپیوٹر کے عام ہونے تک اردو کو سرکاری اور دفتری زبان بنانے کے خلاف ۔جو تاویل بڑی شدو مد سے انگریزی کلب بیان کرتا تھا۔ وہ یہ تھی ۔ کہ دفاتر میں تائپ رائٹنگ کے لئیے انگریزی زبان کا استعمال بہت ضروری ہے ۔ کیونکہ حروف تہجی اور انگریزی رسم الخط کی وجہ سے انگریزی ٹائپنگ میں بہت آسانی اور روانی رہتی ہے۔ جبکہ اردو میں ٹائپنگ کے لئیے ایک اردو ٹائپ رائٹر مشین میں اردو کے حروف تہجی جوڑنے اور الفاظ کی شکل دینے کے لئیے کم از کم تین سو سے زائد کیز والی ٹائپ رائٹنگ کی ضرورت پڑے گی۔ جو عملی طور پہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اور ایسے ٹائپ رائٹرز کو سرکاری دفاتر میں استعما ل کرنا نا ممکن کام ہے ۔ اور یوں حکومتوں نے بھی تجاہل عارفانہ سے کام لے کر اردو کو سرکاری اور دفتری زبان قرار دینے میں اغماض برتا جو قومی مفادات سے غداری کے مترادف سمجھا جانا چاہئیے ۔
مگر کمپیوٹر کی کرشماتی ایجاد اور اسکے عام ہونے کے معجزہ نے ۔انگریزی کلب کی اس تاویل کی ہوا نکال دی ۔ اور ٹائپ رائٹنگ مشینیں قصہ پارنیہ ہویئں۔ اور پاکستان کی قومی اور عوامی زبان۔۔ اردو لکھنا ۔اردو جاننے والوں کے لئیے انتہائی سہل ہوگیا ہے ۔ اس کے باوجود سرکاری سطح پہ اردو زبان کو ترقی دینے کے لئیے قیمتی بجٹ سے گرانقدر مشاہرہ اور مراعات سے جو ادارے قائم کئیے گئے۔ انکی عمارتیں اور اخراجات اور ہٹو بچو قسم کے سربراہ اور عہدیداران تو بہت تھے ۔مگر اردو کی خدمات کے حوالے سے ان کا کام نہ ہونے کے برابر تھا۔ بلکہ اردو کو ترقی دینے کے لئیے قائم کئیے گئے ان حکومتی اداروں کے نام تک انگریزی میں ہیں ۔اور انکے سالانہ اجلاس اور اردو کی ترویج و تشیہر کے لئیے بلائی گئی کانفرسوں کا مواد اور اشتہارات اور ویب سائٹس پہ مواد اردو کی بجائے انگریزی میں ہوتا ہے۔
یہ اردو۔۔۔ جو آپ کمپیوٹرز اور مختلف مصنوعات پہ پڑھ لکھ رہے ہیں ۔اسے اس حد تک ترقی دینے میں حسب معمول بہت سے لائقِ تحسین عام پاکستانی رضا کاروں کی انتھک کوششوں کا ثمر ہے۔ جنہوں نے محض اسے ایک قومی فریضہ سمجھتے ہوئے اور بغیر کسی معاوضے کے انتھک محنت سے اردو کی خدمت کی ہے۔ جس میں عام اردو کے دیدہ زیب فاؤنٹس سے لیکر مختلف پرگرام اور ایپس اردو میں متعارف کروائی ہیں اور اور اس وجہ سے پاکستانی اور دیگر دنیا کے اردو جاننے والے ۔ اپنے کمیپوٹر وں۔ موبائل فون اور دیگر مصنوعات پہ کسی دوسری زبان کی بجائے۔ اپنی زبان اردو کواستعمال کرنے کو ترجیج دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آج کمپیوٹر بنانے والی اور دیگر مصنوعات بنانے والی کمپنیاں اور فرمیں اردو زبان کو اپنی مصنوعات کی رابطہ زبانوں میں شامل کرتی ہیں ۔ جبکہ پاکستان کی حکومتوں اور پاکستانی عوام کے ٹیکسز سے قائم کئیے گئے بڑے بڑے اداروں جن کا واحد مقصد اردو کو ترقی دینا تھا ۔ ان کا اس معاملے میں کردار صفر کے برابر ہے ۔
ان مذکورہ اداروں کو اردو کی ترقی اور ترویج کا فریضہ دیا گیا تو انہوں نے انگریزی میں مروجہ اصطلاحات کو اسقدر مشکل ۔ غیر مستعمل۔ غیر عوامی۔ اور غیر زبانوں کے الفاظ سے اسقدر پیچیدہ ۔ ثقیل ۔ اور مضحکہ خیز بنا کر پیش کیا اور یہ ساری مشق اور قوم کا سرمایہ کا مصرف بیکار گیا۔ ہماری رائے میں ایسا کرنا اور حکومتی ادراے کے من پسندیدہ افراد کو نوازتے ہوئے یہ بجائے خود اردو کے خلاف ایک سازش ثابت ہوئی اور اردو سے اچھا خاصہ لگاؤ رکھنے والے نفیس لوگوں نے اسے اپنانے سے انکار کردیا ۔ اور پھر سے اس کا حل مکمل انگریزی اختیار کرنے میں نکالا گیا۔
مستعار اصطلاحات و ترکیبات اور مشکل الفاظ یا کوئی متبادل لفظ نہ ہونے کی صورت میں زبانیں اپنا رستہ خود بخود بنا لیتی ہیں۔ اور یہ مسئلہ دنیا بھر کی سبھی زبانوں کے ساتھ رہا ہے۔ اور ہے۔ خود انگریزی میں فرنچ اور دیگر لاطینی زبانوں کے بے شمار مستعار لفظ مستعمل ہیں۔ مثلا ”کیمرہ“۔۔ یہ بنیادی طور پہ یہ لاطینی لفظ ہے۔ جس کے معانی ہیں ڈبہ یا ڈبہ نما کوئی ایسے شئے جو اندر سے خالی ہو۔ اور انگریزی میں ہزاروں الفاظ کی ہم مثال یہاں دے سکتے ہیں ۔جو بنیادی طور پہ لاطینی ۔ فرانسیسی اور اسپانوی الفاظ ہیں ۔ اور انگریزی سے قدیم ہیں ۔ اور انگریزی نے اسے اپنا لیا ہے۔ اور اسے اپنا خاص انگریزی کا تلفظ دے ڈالا ہے۔ جس سے وہ ایک الگ صوتی شناخت پا گئے ہیں ۔
“اسی طرح کچھ خاص پہلوؤں سے عربی زبان اور دنیا کی دیگر زبانوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ جو دنیا کی فصیح و بلیغ زبان اور قدیم اور انتہائی ترقی یافتہ زبان ہے۔عربی زبان سے بڑھ کر کوئی بھی زبان کسی بھی صورت حال یا شئے کو واضح کرنے کے لئیے اپنے اندر اتنی صلاحیت نہیں رکھتی۔جتنی صلاحیت عربی زبان میں ہے۔ انگریز اور مغرب نے طیارہ ایجاد کیا۔ اور اسے ”ائیر پلین“۔ یا ا”ئر کرافٹ “یا دیگر نام دئیے جو بجائے خود دو ناموں کا مجموعہ ہیں۔مگر عربی نے اسے سیدھا سادا انداز میں ”طائرۃ“ کا نام دیا ۔ جو زیادہ ترقی یافتہ لفظ ہے۔ اور اس فصحات و بلاغت کے باوجود یونانی فاتح ۔جسے انگریزی نے ”الیگزینڈر“ کہہ کر پکارا ۔عربی نے اسے ”اسکندر“ کہا۔اور اسی مناسبت سے مصر کے مشہور شہر ”اسکندریہ“ کا نام عربی زبان کی مناسبت سے وجود میں آیا۔۔۔ لیبا کا مشہور شہر کا نام ”طرابلس” ۔ ”ٹریپولی “ نام کی وجہ سے وجود میں آیا۔ مگر اسے عربی نے اپنے انداز میں ”طرابلس“ کا نام دیا۔
کچھ ایسا ہی معاملہ دنیا میں رائج قدیم ترین زبانوں میں سے رائج ایک زبان اسپانوی کے ساتھ بھی ہے۔ عربی کے بعد ماہرینِ لسانیات عام طور پہ اسپانوی زبان کو دنیا کی دوسری فصیح و بلیغ زبان گردانتے ہیں ۔ مسلم اسپانیہ کے دور کے مشہور شہروں کے نام” اشییلیہ“۔”قرطبہ“۔ ”غرناطہ۔” مالقہ“۔”سرقسطہ“۔قادسیہ” وغیرہ اسپانوی زبان میں باالترتیب ۔ ”اِس بیا“۔ ”قوردبہ“۔ ”گارانادا“۔”مالاگا۔”ژاراگوثہ“۔ ”قادس۔ وغیرہ میں بدل گئے اور تلفظ بدلنے سے۔ امریکن قرطبہ کو ۔”کارڈوباہ” کہہ کر پکارتے ہیں کیوں کہ وہ قرطبہ شہر کے نام کو انگریزی حروف تہجی Córdoba میں تلفظ بگڑ جانے سے یوں ”کارڈوباہ“ پکارتے ہیں۔مگر اس سے مراد قرطبہ شہر ہی ہے یعنی نام کوئی بھی دے دیا جائے۔ یا کسی طرح بھی اسے پکارا جائے۔ مراد وہی مخصوص شہر ۔معانی یا شئے ہوتی ہے۔ اسی طرح قدیم عربی کے ہزاروں الفاظ اسپانوی میں اتنی صدیوں بعد بھی عربی تلفظ کے ساتھ اور انہی معانوں میں مستعمل ہیں۔ مثلا ”قندیل“۔ ”بلبل“ وغیرہ ہیں ۔ سقوطِ غرناطہ کو پانچ سے زائد صدیاں گزرجانے کے بعد بھی اسپانوی رائل ڈکشنری یعنی شاہی لغت میں ایک ہزار کے لگ بھگ الفاظ قدیم عربی زبان کے ملتے ہیں ۔ یاد رہے کہ اسپانوی زبان میں کسی نئے لفظ کو شامل کرنے یا نئی اصطلاحات اور ترکیبات شامل یا متروک الفاظ کو خارج کرنے کے لئیے اسپانوی زبان کی شاہی کونسل کا باقاعدہ بورڈکا اجلاس ہوتا ہے جس میں اسپانوی زبان کے ماہر ترین اور اسپانوی زبان میں ڈاکٹری کا اعزاز رکھنے والے اس کے باقاعدہ ممبر کسی لفظ کے متروک یا شامل کرنے پہ نہائت غوروص کے بعد اسے شامل یا متروک کرتے ہیں ۔تو اگر رائل اسپانوی لغت میں بدستور ایک ہزار کے لگ بھگ الفاظ تقریبا اپنی اصل حالت اور معانی میں شامل ہیں ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ روز مرہ کی زندگی میں استعمال میں لائے جاتے ہیں ۔ اور اسپانوی حکومت اور عوام کو ان پہ کوئی اعتراض نہیں کہ وہ زبردستی سے ان الفاظ کا متبادل اپنی زبان اسپانوی میں مسلط کرتے ۔
خود اردو زبان میں بہت سے انگریزی زبان کے کئی الفاظ مثلاً ”فون “۔”بس“۔ ”ٹرک“۔ ”ڈاکٹر“۔ ”انجئنیر“۔ ”نرس“۔” ہاکی“۔ ”جنگل“۔”ٹیم“۔ وغیرہ یوں مستعمل ہوئے کہ انہیں ادا کرنے کے لئیے انگریزی سے واقفیت ہونا ضروری نہیں۔ اور اسی طرح اردو نے عربی۔ فارسی۔ ہندی۔ ترکی اور دیگر بہت سی زبانوں کے الفاظ اپنائے ہیں جن کے بارے یہ جانے بغیر کہ یہ کون سی زبان کے الفاظ ہیں اور ان کا درست تلفظ کونسا ہے۔ ان الفاظ کو سمجھنے ۔ بولنے اور ادا کرنے میں عام آدمی کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔
اردو چونکہ دیگر زبانوں کے مقابلے میں نئی زبان ہے۔ اس لئیے اردو میں دیگر زبانوں کے الفاظ اپنے اندر سمو لینے کی صلاحیت حیرت انگیز ہے۔ اور یہی اردو کی ترقی کا راز بھی ہے۔ کہ اردو اتنے کم وقت میں اتنے کڑوڑوں انسانوں نے اسے اپنا لیا ہے اور انہیں اردو کو بولنے ۔ سمجھنے اور ادا کرنے میں پریشانی نہیں ہوتی ۔
جہاں تک مخصوص سائنسی اصطلاحات کا زکر ہے تو ان میں سے بیشتر یونانی اور لاطینی سے انگریزی میں منتقل ہوئیں ہیں ۔ یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔ کہ اگر آپ ان سائنسی اصطلاحات کو اگر جوں کا توں بھی اردو میں اپنا لیں تو جمہورِ اردو خود بخود ایک دن انہیں اپنے سے تلفظ اور نام دے دے گا ۔ جیسے ٹریپولی کو عربوں نے طرابلس کا نام میں بدل ڈالا یا الیگزینڈر کو اسکندر۔ اور آج عام عرب یونان کے مشہور فاتح کو اسکندر کے نام سے ہی جانتے ہیں ۔ اور اسی طرح جیسے مندرجہ نالا مثالوں میں مختلف خطوں اور زبانوں کے جمہورِ نے مختلف زبانوں کے الفاظ کو اپنی ضرورت کے تحت اپنے تلفظ یا صورت میں اپنا لیا تو کیا وجہ ہے کہ اردو کے ساتھ یوں نہیں سکتا؟ جبکہ اردو کا ظرف اور دامن بہت وسیع ہے۔مثال کے طور پہ جیسے فون لفظ اب اردو میں اور پاکستان میں عام مستعمل ہے اسے ” صوتی آلہ“ بلانے لکھنے پہ زور دینا ایک نامناسب بات ہے ۔
حاصلِ بحث یہ ہے جن الفاظ۔ ترکیبات اور سائنسی یا دیگر ناگزیر اصطلاحات کا فوری طور پہ اردو میں آسان ترجمہ نہ ہوسکے۔ تو انھیں انکی اصلی حالت میں ہی حالت اردو رسم الخط میں لکھ دینے سے اور باقی نفس مضمون اردو میں لکھ دینے سے ان کی ماہیئت نہیں بدلے گی ۔ انگریزی اور دیگر زبانوں کے جو ناگزیر الفاظ اردو میں لکھے جاسکتے ہیں ۔ انہیں اردو رسم الخط میں لکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔
حصہ دوئم۔
ناعاقبت اندیش لوگ ایک اورتاویل ا انگریزی کے حق میں یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ مادی ترقی کے لئیے انگریزی جاننا ضروری ہے ۔ کیونکہ کہ انگریزی امریکا اور برطانیہ کی ترقی یافتہ اقوام کی زبان ہے ۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چین جو اپنی چینی زبان سمیت اتنی تیزی سے ترقی کر کے۔ اس وقت دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے۔ اور کچھ وقت جاتا ہے کہ وہ امریکہ کومعاشی ترقی میں پیچھے چھوڑ دے گا ۔ تو پھر کی اس کلئیے کے تحت پاکستان کے پورے نظام اور اسکی آبادی کو چینی زبان سیکھنی اور اپنانی پڑے گی ؟ ترقی اپنی زبان کے استعمال اور نفاذسے ہوتی ہے۔ مستعار زبانوں سے کبھی ترقی نہیں ہوا کرتی۔
جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ بین الاقوامی زبان چونکہ انگریزی ہے تو ہمیں انگریزی سیکھنی چاہیئے انکا یہ استدلال اپنی جگہ مگر چند ہزار افراد کی انگریزی میں مہارت کے لئیے پوری ایک قوم کو بے زبان کر دینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ کیا اسکے لئیے یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ اپنے ان افراد کو جنہیں بین الاقوامی معاملے کرنے ہوتے ہیں۔ انھیں بہترین معیار کی انگریزی اور دیگر مغربی و مشرقی زبانیں سکھانے پہاکتفاء کر لیں اور باقی پچانوے فیصد پاکستانی قوم پہ انگریزی مسلط کرنے میں جو توانائی اور وسائل برباد کر کے۔ پوری قوم کو ٹکٹکی پہ لٹکا رکھا ہے۔ اس سے پاکستانی قوم کو معافی دے دیں ۔
انگریزی زبان کو ذرئعیہ تعلیم قرار دینے کی ایک اور بڑی خرابی جو پاکستانی معاشرے بگاڑ پیدا کرنا کر رہی ہے اور آیندہ اگلے سالوں میں مزید بگاڑ پیدا کرے گی وہ خرابی انگریزی کی نصابی کتب اور انکے پیچھے چھپی مخصوص سوچ ہیں ۔ کیونکہ عام طور پہ انہیں لکھنے والوں ۔ ترتیب دینے والوں کیاکثریت یا تو سیکولر غیر ملکی مواد کو نقل کرتے ہیں یا وہ اپنے مخصوص اسیکولر نکتہ نظر سے مضامین اور کتب لکھتے ۔ جو پاکستانی قوم کی نظریاتی بنیادوں کے خلاف ہے ۔ ایسے سیکولر نصاب میں پاکستانی قومیت اور اسلامی و مشرقی اقدار کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔ اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہمارا نوجوان طبقہ دین و ملت سے بیزار نظر آتا ہے۔ کیونکہ انہیں اسلامی اخلاق ۔ مشرقی اقدار یا قومی جذبات کی ہوا تک نہیں لگنے دی جاتی۔ کیونکہ انگریزی نکتہ نظر سے یہ سب دقیانوسیت قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ انگریزی نصاب جو لوگ ترتیب دیتے ہیں وہ انگریزی نصاب سے صرف انگریزی کی نہیں بلکہ اپنے انگریزی خیالات کی بھی ترویج کرتے ہیں۔ اور ملکی و قومی افکار کی۔ دین و ملت سے محبت کی اس میں گنجائش نہیں رکھی جاتی ۔ انگریزی ایک برآمدی زبان ہے جو کلچر انگریزوں کے ہاں آج رائج ہے۔ اسی کی جھلکیاں آپ کو انکی برآمدی زبان میں نظر آئینگی۔ جو کچے ذہنوں کو متاثر کرتی ہیں اور اور ویسی ہی ترغیب دیتی ہیں ۔
سائنسی تحقیقات کے مطابق یہ بات طے ہے کہ ہر انسان اپنی مادری زبان میں سوچتا ہے۔ جس کے تحت اسکے خیالات ترتیب پاتے ہیں۔ جسے وہ عملی شکل دے کر ۔عام روز مرہ کے معاملات سے لیکر محیر العقول دریافتیں۔ ایجادات اور پیچیدہ مسائل کا حل ڈہونڈ نکالتا ہے۔ اور سوچنے کا یہ عمل اگر ایک انسان چاہے تو کسی ایسی دوسری زبان میں سوچ بھی سکتا ہے جو اسکے لئیے آسان اور سہل اور عام فہم ہو۔ جیسے مثال کے طور پہ اگر معاشرے میں دو یا دو سے زائد زبانیں رائج ہوں ۔ یا اسے دوسری زبانوں پہ عبور ہو ۔ جس طرح کنیڈا میں بہت سے لوگ انگریزی اور فرانسیسی پہ عبور رکھتے ہیں ۔اسپانیہ کے صوبہ ”قتئلونیہ“ میں ”قئتلان“ اور” اسپانوی“ پہ ۔اسپین کے صوبہ” گالی سیا “میں” گالیگو “اور ”اسپانوی “پہ عبور رکھتے ہیں ۔ پاکستان میں ”پنجاب“ میں ”پنجابی“ اور ”اردو“ کے ساتھ ۔ اور پاکستان کے دیگر صوبوں میں دیگر صوبوں کی زبانوں اور اردو کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔تو یہ لوگ ہر دو زبانوں میں سے کسی ایک زان میں سوچ کر اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں ۔ کیونکہ یہ مذکورہ زبانیں ان کے لئیے اجنبی اور پیچیدہ زبانیں نہیں ۔ اور اس لئیے وہ اپنی صلاحیتوں کو اپنی زبانوں کے ذریئعے زیادہ بہت طور پہ اجاگر کر سکتے ہیں ۔ جبکہ انگریزی زبان پاکستان کے عوام کے لئیے قطعی برآمدی زبان ہے ۔سائنس یہ بات تسلیم کرتی ہے۔ اور زبان کو انسانی سوچ کے لئیے کو مادری یا دوسری معلوم اور عبور رکھنے والی زبان کو بنیاد مانتی ہے جس سے وہ اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنا تا ہے یوں کسی معاشرے میں اسکی اپنی زبان ترقی و تمدن میں بنیادی اورمسلمہ حیثیت رکھتی ہے۔
شاعری ۔ نثر ۔اور روز مرہ مسائل کے حل کے لئیے سوچنے۔تخیل دوڑانے اور تصور کرنے کے لئیے انسان اپنی بنیادی یا عام فہم سمجھنے والی زبان سے کام لیتا ہے۔
ہم اس تصور کو ایک اور مثال سے واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ ذرا تصور کریں۔ میر ۔ غالب۔نظیر اکبر الہ آبادی۔ اقبال رح۔ فیض یا دیگر شعراءنےجو اردو وغیرہ میں کلام کیا ہے وہ سب انھیں انگریزی میں سوچنے۔ اور ڈھالنے کے لئیے۔انگریزی میں اس پائے کا کلام کرنے کے لئیے ۔کتنا عرصہ انگریزی سوچنے اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لئیے درکارتھا؟ اور کیا اس کے بعد بھی وہی نتائج سامنے آتے۔اور ان کا وہی معیار ہوتا ۔جو آج دیوانِ غالب اور کلیاتِ اقبال یا بانگ درا کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں ؟ بعین اسی طرح کا معاملہ ان خداد ذہین انسانوں کے ساتھ بھی ہے جو چٹکی بجانے میں بڑے سے بڑا مسئلہ حل کردیتے ہیں ۔ ایک سے بڑھ کر ایک ایجاد کرتے ہیں ۔ مسائل کا حل دریافت کرتے ہیں ۔ یا اپنی کسی خاص دلچسپی میں مہارت رکھتے ہیں۔ اگر انھیں ایک غیر ملکی زبان انگریزی سیکھنے اور پھر اسی خاص زبان انگریزی کے تحت اپنے خیالات کو عملی جامہ اپنانے پہ پابند کر دیا جائے ۔جب کہ خداد تخلیقی صلاحیتوں کے حامل لوگ ویسے بھی عام طور پہ۔ اپنی فطری ساخت کی وجہ سے اپنے پہ مسلط بے جاضابطوں سے کسی حد تک باغی ہوتے ہیں ۔ تو کیا ان کی قابل قدر صلاحیتیں ایک ایسی زبان پہ صرف ہو جانی چاہئیں۔ جس میں وہ بددل ہو کر سارے سلسلے سے ہی ہاتھ اٹھا کر دنیا کی بھیڑ بھاڑ میں گم ہو جاتے ہیں۔ اور اگر وہ انگریزی سیکھنے میں کامیاب ہو بھی جائیں۔ تو بہت سا قیمتی وقت وہ ایک ایسے عمل پہ خرچ کر چکے ہوتے ہیں جو ضروری نہیں تھا۔ اور یہ تماشہ پاکستان کے جوہر قابل اور ذہین طلبہ کے ساتھ عام ہوتا ہے کہ خواہ وہ کس قدر ہی کیوں نہ لائق اور ذہین فطین ہوں لیکن بد قسمتی سے ۔یا۔ اردو میڈیم ہونے کی وجہ سے۔اگر ایک برآمدی زبان انگریزی میں انکا ہاتھ تنگ ہے ۔ تو جہاں انکے لئیے آگے بڑھنے کے مواقع معدوم ہوجاتے ہیں۔ وہیں پاکستان اور پاکستان کے عوام ذہین اور قابل لوگوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔
ملک میں خداد جوہر قابل کو محض انگریزی زبان کو لازمی قرار دینے سے ضائع ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں عام آدمی کو پاکستان کی ترقی میں کوئی موقع نہیں ملتا اور آخر کار وہ مایوس ہو کر اپنے آپ کو قومی سو چ اور قومی دھارے سے الگ کر لیتا ہے ۔جس سے معاشرے میں امن و عامہ سے لیکر کئی قسم کے تعصبات اور انکے نتیجہ میں مسائل جنم لے رہےہیں۔
اس لئیے صرف یہ کہہ کر ٹال دینا کہ اردو زبان کو سرکاری زبان کے طور پہ اسلئیے نافذ نہیں کیا جاسکتا کہ اردو ایک ترقی یافتہ زبان نہیں ۔ یا۔ اردو زبان میں لاطینی یا انگریزی کی سائنسی اصطلاحات کا ترجمہ مشکل ہے۔ اور اسے سرکاری زبان کی حیثیت سے نافذ نہ کرنا۔ محض بد نیتی کے سوا کچھ نہیں۔
جو لوگ انگریزی کو محض اس لئیے اپنانے پہ اصرار کرتے ہیں اور بضد ہیں کہ اردو کی قربانی دے کر انگریزی زبان کو اپنانا ترقی کے لئیے ضروری ہے۔ انکی یہ توجہیہ درست نہیں ۔ کیونکہ اس خاص انگریزی طبقے کی یہ بات درست تسلیم کر لی جائے تو پھر اپنی زبانوں میں مشرق و مغرب میں۔ ترقی کرنے والے ممالک ۔ جاپان۔ چین۔جرمنی۔روس۔ فرانس وغیرہ کو آپ کس کھاتے میں رکھیں گے؟ یورپ کے ننھے ننھے ترقی یافتہ ممالک ڈنمارک۔ ناروے۔ سویڈن۔ سوئٹزرلینڈ۔ہالینڈ۔ لکسمبرگ ۔ یوروپ کے بڑے ممالک روس اسپین ۔ فرانس۔ اٹلی۔ جرمنی۔ وغیرہ کسی ملک کی سرکاری زبان انگریزی نہیں۔ معاشی طور پہ تیزی سے ابھرتے ہوئے ممالک۔ برازیل ۔ انڈونیشا ۔ ملائشیاء ۔وغیرہ۔ ان میں سے کسی ملک کی زبان انگریزی نہیں۔ اور ان تمام ملکوں۔ کی زبانیں انکی اپنے ملک میں رائج جمہور کی۔ عوام کی۔ زبانیں سرکاری طور پہ نافذ ہیں۔ اس لئیے ترقی کرنے کے لئیے۔ پاکستان کی دیگر بہت سی خرابیاں درست کرنے کی ضرورت ہے ۔جن کی وجہ سے پاکستان ترقی نہیں کر پا رہا اور اس بد حالی کی ایک بڑی وجہ بھی پاکستان کی جمہور کی۔ عوام کی آواز اردو زبان کو سرکاری زبان کے طور پہ نہ نافذ کرنا ہے۔
پاکستان کی اٹھانوے فیصد آبادی اپنا مدعا اور منشاء انگریزی میں ادا کرنے کی اسطاعت نہیں رکھتی۔ پاکستان کے انگریزی دان طبقے کی اہلیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انگریزی پہ زور دینے والا یہ طبقہ انگریزی ادب میں اپنا حصہ ڈالنے کے حوالے سے نثر ۔ نظم ۔ ناول یا ادب کی دیگر کسی صنف میں کوئی نمایاں کارنامہ سر انجام نہیں دے سکا ۔ اور سائنسی اور تکنیکی علوم میں انگریزی کلب کا ہاتھ مزید تنگ ہوجاتا ہے ۔تو کیا پاکستان کے انگریزی کلب کے سامنے محض اس لئیے سر تسلیم خم کر دیا جائے کہ وہ انگریزی جانتے ہیں؟ اور انگریزی زبان جاننا قدر مشترک ہونے کی وجہ سے۔ انگریزی کلب پاکستان کے نظام پہ حاوی رہے؟ ۔ اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ انگریزی دان طبقہ پاکستان میں انگریزی زبان کا تسلط اس لئیے نہیں رکھنا چاہتا کہ انگریزی سے اہلیت بڑھتی ہے اور انگریزی کے تسلط سے پاکستان ترقی کر جائے گا ۔ بلکہ پاکستان کا انگریزی کلب۔ پاکستانی عوام اور وسائل کو انگریزی زبان کے ذرئعیے پاکستان میں اپناتسلط قائم رکھنا چاہتا ہے ۔
پاکستان کے مسائل کی ایک بہت بڑی وجہ عام بول چال اور سمجھ میں آنے والی جمہورِ کی زبان اردو کے ساتھ یہ یتیمانہ سلوک ہے۔ اگر اسے سرکاری طور پہ نافذ کر دیا جائے تو پاکستان کی بے مہار اورانگریزی کلب کی پیداوار بیورکریسی جو محض انگریزی زبان کی وجہ سے جمہورِ پاکستان سے اپنے آپ کو الگ شناخت کرتی ہے۔ اپنے آپ کو خاص اور عوام کو اپنی رعایا سمجھتی ہے۔ اردو کو سرکاری زبان نافذ کرنے سے پاکستان اور پاکستان کے عوام کی جان چھوٹ جائے گی۔جب پاکستان میں اعلی عہدوں کے لئیے مقابلہ کے امتحانات اردو میں ہونگے اور اردو کو سرکاری طور پہ اوڑنا بچھونا بنایا جائے گا۔ تو انگریزی اور پاکستان جیسے مشرقی اور مسلمان ملک میں انگریزی بودوباش باش کا امتیاز و اعزاز خود بخود ختم ہو جائیگا۔ اور اردو وہ عزت پائے گی جس کی وہ مستحق ہے ۔ کیونکہ اردو کے عزت پانے سے پاکستانی قوم عزت پائے گی۔ کاروبارِ مملکت اردو میں ہونے سے عام فہم اور سہل ہوگا ۔
اردو سمجھنے والوں میں بے شمار خداد صلاحیتوں کے حامل اور اہل لوگوں کو کاروبار ریاستِ پاکستان چلانے کا موقع ملے گا ۔ عوام اور خاص کی ایک ہی زبان ہونے سے عوام اور خاص میں فاصلہ کم ہوگا ۔ ریاستی اور دفتری امور کو سمجھنے میں عام آدمی کو آسانی ہوگی۔
اس لیے پہلے گزارش کر چکے ہیں مستعار اصطلاحات و ترکیبات اور مشکل الفاظ یا کوئی متبادل لفظ نہ ہونے کی صورت میں زبانیں اپنا رستہ خود بخود بنا لیتی ہیں ۔دریا کے سامنے وقتی طور پہ بند باندھ کر۔ اس کا پانی روکا جاسکتا ہے ۔ مگر ہمیشہ کے لئیے یوں کرنا ناممکن ہے۔۔۔۔ اور اردو۔۔۔اس ملک ۔پاکستان میں وہ سیل رواں ہے۔ کہ اس کے سامنے جو رکاوٹ بن کر آیا۔ وہ خس خاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔ کیونکہ اردو زبان پاکستان کے عوام کی۔ جمہور کی زبان ہے۔ اور جمہور اپنا رستہ خود بنا لیا کرتا ہے۔
بس کچھ سالوں کی بات ہے ۔ یا پھر ہماری قیادت کو قومی غیرت کا ادراک ہوجائے۔ تو اردو کو فی الفور سرکاری زبان کا درجہ دے کر۔ اسے سرکاری طور پہ نافذ کرے۔ اسی کو تعلیم کا ذرئعیہ (میڈیم) بنائے۔۔۔اتنی بڑی آبادی کے ملک کے لئیے۔ قومی ہی کیا۔ عالمی ناشران بھی اردو میں کتابیں چھاپنے پہ مجبور ہونگے ۔۔ اور جو نہیں چھاپیں گے وہ خسارے میں رہیں گے ۔ شروع میں ایک حد تک حکومت تراجم کی سہولت خود بھی مہیاء کر سکتی ہے۔ بعد ازاں سب اردو میں کتب لے کر بھاگے آئیں گے۔ کہ ہم سے بہت ہی کئی درجہ چھوٹے ممالک میں انکی اپنی زبانوں میں تعلیم ہونے کی وجہ سے عالمی ناشران انہی زبانوں میں بھی کتب چھاپتے ہیں۔ کہ یہ ایک کاروبار ہے۔ کسی زبان پہ احسان نہیں۔
اگر حکومت نہ بھی دلچسپی دکھائے تو بھی ایک بات تو طے ہے کہ اردو کا مستقبل پاکستان میں روشن ہے اور ایک روشن اور ترقی یافتہ پاکستان کے لئیے اردو زبان کو بطور سرکاری زبان اپنانا اور سرکاری طور پہ نافذ کرنا۔ نہ صرف ضروری ہے بلکہ یہ ایک لازمی قومی فریضہ ہے ۔
جاوید گوندل
پچیس فروری سنہ دو ہزار پندرہ
۲۵۔۰۲۔۲۰۱۵ ء
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: Ajnabi, ajnabihope, ”خصوصیت, Barcelona, Gondal, Hope, Javed, ہوگئیں, ہوئے, ہوتی۔, ہوجائے, ہیں, فیصد, ہے, ہے۔, فرق, فریضہ۔۔۔چین, فرض, قوموں, قومی, قومیں, قرا, قرار, ملتا۔, منصوبے, منصبی, میں, میعار, مگر, مالک, مراعات, مسلسل, نہیں, چین, چینی, نے, چاہتا, نافذ, نام, نشان, و, وہ, واقعہ, والی, یہ, یوں, یافتہ, یعنی, ۔, ۔اور, ۔جہاں, ۔جن, ۔جنہیں, ۔جو, کہ, کہہ, کلب, کو, کی, کیا, کے, کا, کاروبار, کاروبارِمملکت, کر, کرنے, کرنا, کرتا, کردیں, کسی, گم, گونگی, گونگا, گوندل, پہ, پورا, پیش, پاکستان, پاکستانی, پس, آپ, آئین, الٹا, امتیاز, ان, انہوں, انگریزی, انتہائی, اور, ایک, اکثریت, اٹھانوے, اپنی, اپنے, اپنا, اان, اب, اختیار, اردو, اس, بہری, بیان, بے, بھی, باقاعدہ, بااختیار, بات, بارے, بجائے, بجائے۔, بسی, تقاضہ, توجہ, تک, تاویلات, تاریخ, تحت, ترقی, ترجیج, تعلق, جاننے, جانتے, جاوید, جائے, جاتی, جاتا, جارہی, جب, حکمرانوں, حاکم, حاکمیت, ختم, دہندلکوں, دہرتاؤں, دی, دیگر, دانوں, ریاست, ردینے, رعایا, زندگی, زائد, زبان, زبانیں, سمجھے, سمجھتا, سونے, سیاست, سے, سازش, سرکاری, سطح, شاہد, صدر, طلب, طور, طبقہ, عوام, عام, غلط
دعوتِ فکر۔۔۔
تبدیلی ناگزیر! مگر کیسے ؟۔۔۔
پاکستان میں ۔۔۔آج کے پاکستان میں۔ جس میں ہم زندہ ہیں۔ جہاں انگنت مسائل ہیں ۔ صرف دہشت گردی ہی اس ملک کا بڑا مسئلہ نہیں۔ یہ دہشت گردی ایک آدھ دہائیوں سے ۔اِدہر کی پیداوار ہے۔ اور اس دہشت گردی کے جنم اور دہشت گردی کیخلاف جنگ کو ۔پاکستان میں اپنے گھروں تک کھینچ لانے میں بھی۔ ہماری اپنی بے حکمتی ۔ نالائقی اور فن کاریاں شامل ہیں۔
دہشت گردی کے اس عفریت کو جنم دینے سے پہلے اور ابھی بھی۔ بدستور پاکستان کے عوام کا بڑا مسئلہ ۔ ناخواندگی ۔ جہالت۔غریبی۔ افلاس اور بے روزگاری اور امن عامہ جیسے مسائل ہیں۔ مناسب تعلیم ۔ روزگار اور صحت سے متعلقہ سہولتوں کا فقدان اور امن عامہ کی صورتحال۔ قدم قدم پہ سرکاری اور غیر سرکاری لٹیرے۔ جو کبھی اختیار اور کبھی اپنی کرسی کی وجہ سے ۔ اپنے عہدے کے اعتبار سے۔نہ صرف اس ملک کے مفلوک الحال عوام کا خون چوس رہے ہیں ۔بلکہ اس ملک کی جڑیں بھی کھوکھلی کر رہے ہیں۔
اور پاکستان کے پہلے سے اوپر بیان کردہ مسائل کو مزید گھمبیر کرنے میں۔ پاکستان کے غریب عوام کی رگوں سے چوسے گئے ٹیکسز سے۔ اعلی مناصب۔ تنخواہیں اور مراعات پا کر۔ بجائے ان عوام کی حالت بدلنے میں۔ اپنے مناصب کے فرائض کے عین مطابق کردار ادا کرنے کی بجائے۔ اسی عوام کو مزید غریب ۔ بے بس۔ اور لاچار کرنے کے لئیے انکا مزید خون چوستے ہیں۔ اور انکے جائز کاموں میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
محض ریاست کے اندر ریاست بنا کر۔۔۔خاص اپنے اور اپنے محکموں اور سیاستدان حکمرانوں۔ انکی پارٹی کے کرتا دھرتاؤں اور چمچوں چیلوں کے مفادات کی آبیاری کرنے کے لئیے۔ اپنے عہدوں۔ اور اداروں کا استعمال کرتے ہیں ۔ادارے جو عوام کے پیسے سے عوام کی بہتری کے لئیے قائم کئے گئے تھے ۔ اور جنہیں باقی دنیا میں رائج دستور کے مطابق صرف عوام کے مفادِ عامہ کے لئیے کام کرنا تھا ۔ وہ محکمے ۔ انکے عہدیداران ۔ اہلکار۔ الغرض پوری سرکاری مشینری ۔ حکمرانوں کی ذاتی مشینری بن کر رہ گئی ہے۔ اور جس وجہ سے انہوں نے شہہ پا کر ۔ ریاست کے اندر کئی قسم کی ریاستیں قائم کر رکھی ہیں ۔ اور اپنے مفادات کو ریاست کے مفادات پہ ترجیج دیتے ہیں۔ اپنے مفادات کو عوم کے مفادات پہ مقدم سمجھتے ہیں ۔
ستم ظریفی کی انتہاء تو دیکھیں اور طرف تماشہ یوں ہے۔ کہ ہر نئے حکمران نے بلند بانٹ دعوؤں اور بیانات سے اقتدار کی مسند حاصل کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ اور اقتدار سے رخصتی کے وقت پاکستان کو ۔ پاکستان کے غریب عوام کو پہلے سے زیادہ مسائل کا تحفہ دیا۔
پاکستان کے حکمرانوں۔ وزیروں۔ مشیروں کے بیانات کا انداز یہ ہے ۔کہ صرف اس مثال سے اندازہ لگا لیں ۔کہ پاکستان کاکاروبار مملکت کس انوکھے طریقے سے چلایاجا رہا ہے ۔ پاکستان میں پٹرول کی قلت کا بحران آیا ۔ انہیں مافیاؤں نے جس کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں۔ مافیا نے پٹرول کی قلت کے خود ساختہ بحران میں جہاں عوام اور اور ملک کا پہیہ چلانے والے ٹرانسپورٹرز سڑکوں اور پٹرول پمپس پہ خوار ہورہے تھے ۔ جن میں ایمولینسز ۔ مریض ۔ اسپتالوں کا عملہ ۔ خواتین۔ اسکول جانے والےبچے بھی شامل تھے۔ یعنی ہر قسم کے طبقے کو پٹرول نہیں مل رہا تھا ۔ ڈیزل کی قلت تھی ۔ مگر وہیں حکومت کی ناک کے عین نیچے۔ ریاست کے اندر قائم ریاست کی مافیا۔ اربوں روپے ان دو ہفتوں میں کمانے میں کامیاب رہی ۔اور آج تک کوئی انکوائری۔کوئی کاروائی ان کے خلاف نہیں ہوئی اور کبھی پریس یا میڈیا میں انکے خلاف کوئی بیان نہیں آیا کہ ایسا کیوں ہوا اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف کیا کاروائی عمل میں لائی گئ؟۔ اور اس پٹرول قلت۔ کے براہ راست ذمہ دار ۔وزیر پٹرولیم خاقان عباسی۔ کا یہ بیان عام ہوا کہ "اس پٹرول ڈیزل بحران میں۔ میں یا میری وزارت پٹرولیم کا کوئی قصور نہیں”۔ یعنی وزیر موصوف نے سرے سے کسی قسم کی ذمہ داری قبول کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ اس سے جہاں یہ بات بھی پتہ چلتی ہے کہ وزیر موصوف کے نزدیک ان کا عہدہ ہر قسم کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہے۔ اور وہ کسی بھی مہذب ریاست کے وزیر کی طرح استعفی دینا تو کٌجا۔ وہ ریاست کو جام کر دینے میں اپنی کوئی ذمہ داری ہی محسوس نہیں کرتے۔
اس سے یہ بات بھی پتہ چلتی ہے جو انتہائی افسوسناک اور خوفناک حقیقت ہے کہ وزارت پٹرولیم محض ایک وزارت ہے جس کے وزیر کا عہدہ محض نمائشی ہے اور اصل معاملات کہیں اور طے ہوتے ہیں۔ جس سے حکومت کی منظور نظر مافیاز کو یہ طے کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ کہ کب کس قسم کی قلت پیدا ہونے میں کس طرح کے حالات میں کب اور عوام کا خون چوس لینا ہے۔
ہمارا مطمع نظر اور اس تحریر کا مقصد محض موجودہ حکمرانوں پہ تنقید کرنا نہیں۔ بلکہ یہ سب کچھ موجودہ حکمرانوں کے پیشرو ۔زرداری۔ مشرف۔ شریف و بے نظیر دونوں کے دونوں ادوار ۔ اور اس سے بیشتر جب سے پاکستان پہ بودے لوگوں کا قبضہ ہوا ہے۔ سب کے طریقہ واردات پہ بات کرنا ہے۔ آج تک اسی کا تسلسل ہے کہ صورتیں بدل بدل کر عوام کو غریب سے غریب تر کرتا آیا ہے اور اپنی جیبیں بھرتا آیا ہے۔
مگر پچھلی چار یا پانچ دہایوں سے اس خون چوسنے کے عمل میں جدت آئی ہے اور حکمرانوں نے اپنے مفادات کے آبیاری کے لئیے کاروبار مملکت چلانے والے ادارے ۔اپنے ذاتی ادارے کے طور پہ اپنے استعمال میں لائے ہیں ۔ جس سے کاروبار مملکت ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے ۔ اور پاکستان اور پاکستان کے عوام کے مسائل دن بدن بگڑتے گئے ہیں۔ اور آج یہ عالم ہے۔ کہ پاکستان نام آتے ہی ذہن میں ایک سو ایک مسائل تصور میں آتے ہیں ۔ جہاں پاکستان کی اکثریت آبادی جو غریب ہے۔ جس کے لئیے کوئی سہولت کوئی پناہ نہیں ۔ اور جو سفید پوشی کا بھرم لئیے ہوئے ہیں وہ بھی جان لڑا کر اپنا وقت دن کو رات اور رات کو دن کرتے ہیں۔ اور بڑی مشکل سے مہینہ آگے کرتے ہیں۔ ۔
جبکہ پاکستان جیسے غریب ملک کے مختلف اداروں کے سربراہان۔ دنیا کی کئی ایک ریاستوں کے سربراہان سے زیادہ امیر ہیں۔ اور بے انتہاء وسائل کے مالک ہیں ۔ انکے اہلکار جو سرکاری تنخواہ تو چند ہزار پاتے ہیں مگر ان کا رہن سہن اور جائدادیں انکی آمد سے کسی طور بھی میل نہیں کھاتیں اور حیرت اس بات پہ ہونی چاہئی تھی کہ وہ کچھ بھی پوشیدہ نہیں رکھتے ۔ اور یہ سب کچھ محض اس وجہ سے ہے۔ کہ حکمران خود بھی انہی طور طریقوں سے کاروبار حکومت چلا رہے ہیں جس طرح ان سے پیش رؤ چلاتے آئے ہیں۔ یعنی اپنے مالی۔ سیاسی اور گروہی مفاد کو ریاست کے مفاد پہ ترجیج دی جاتی ہے۔اور ریاست کی مشینری کے کل پرزے تو کبھی بھی پاکستان کے مفادات کے وفادار نہیں تھے ۔ انہیں سونے پہ سہاگہ یہ معاملہ نہائت موافق آیا ہے۔
ریاست کی مشینری کے کل پرزے۔عوام کا کوئی مسئلہ یا کام بغیر معاوضہ یا نذرانہ کے کرنے کو تیار نہیں۔ اگر کوئی قیمت بھر سکتا ہو۔ تو منہ بولا نذرانہ دے کر براہ براہ راست عوام یا ریاست کے مفادات کے خلاف بھی جو چاہے کرتا پھرے ۔ اسے کھلی چھٹی ہے۔
ایک شریف آدمی بھرے بازار میں لٹ جانے کو تھانے کچہری جانے پہ ترجیج دیتا ہے۔ آخر کیوں؟ جب کہ ساری دنیا میں انصاف کے لئیے لوگ عام طور پہ تھانے کچہری سے رجوع کرتے ہیں اور انھیں اطمینان کی حد تک انصاف ملتا ہے۔ تو آخر پاکستان میں عام عوام کیوں یوں نہیں کرتے؟ یہ پاکستان میں عوام کی روز مرہ کی تکلیف دہ صورتحال کی صرف ایک ادنی سی حقیقت ہے۔ جو دیگر بہت سی عام حقیقتوں اور حقائق کا پتہ دیتی ہے۔اور ادراک کرتی ہے
پاکستان کے حقائق کسی کی نظر سے اوجھل نہیں۔ ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ہر طرف پاکستان میں نا انصافی اور عدم مساوات سے سے دو قدم آگے۔ ظلم۔ استحصال اور غاصابانہ طور پہ حقوق سلب کرنے کے مظاہر و مناظر عام نظر آتے ہیں۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اسے ایک عام رواج یا چلن سمجھ لیا گیا ہے۔اور اس میں وہ لوگ ۔ ادارے اور حکمران۔ سیاستدان۔ اپوزیشن۔ عام اہلکار الغرض ساری حکومتی مشینری شامل ہے۔ حکمرانوں کا کوئی بڑے سے بڑا شاہ پرست اور درباری۔ یہ قسم نہیں دے سکتا کہ پاکستان کا کرپشن سے پاک کوئی ایک تھانہ ہی ایسا ہو کہ جس کی مثال دی جاسکتی ہو ۔ یا کوئی ادارہ جہاں رشوت۔ سفارش ۔ اور رسوخ کی بنیاد پہ حق داروں کے حق کو غصب نہ کیا جاتا ہو؟۔
ایک بوسیدہ نظام جو پاکستان کی۔ پاکستان میں بسنے والے مظلوم اور مجبور عوام کی جڑیں کھوکھلی کر چکا ہے ۔ ایسا نظام اور اس نظام کو ہر صورت میں برقرار رکھنے کے خواہشمند حکمران و سیاستدان ۔۔ اسٹیٹس کو ۔کے تحت اپنی اپنی باری کا انتظار کرنے والے۔ قانون ساز اسمبلیوں مقننہ کے رکن اور قانون کی دھجیاں اڑا دینے والے۔ اپنے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لئیے کسی بھی حد تک اور ہر حد سے گزر جانے والی ریاست کے اندر ریاست کے طور کام کرنے والی جابر اور ظالم مافیاز۔ بیکس عوام کے مالک و مختارِکُل۔ ادارے۔
کیا ایسا نظام ۔ ایسا طریقہ کار۔ کاروبار مملکت کو چلانے کا یہ انداز ۔ پاکستان کے اور پاکستان کے عوام کے مسائل حل کرسکتا ہے؟ کیا ایسا نظام اور اسکے پروردہ بے لگام اور بدعنوان ادارے اور انکے عہدیدار و اہل کاران پاکستان اور پاکستان کے عوام کو انکا جائز مقام اور ان کے جائزحقوق دلوا سکتے ہیں؟۔
اتنی سی بات سمجھنے کے لئیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں پڑتی کہ اگر منزل مغرب میں ہو۔ تو کیا مشرق کا سفر کرنے سے منزل نزدیک آتی ہے یا دور ہوتی ہے؟
پاکستان اپنی منزل سے دور ہو رہا ہے۔ اور اس میں کسی بیرونی دشمن کا ہاتھ ہو یا نہ ہو مگر مندرجہ بالا اندرونی دشمنوں کا ہاتھ ضرور ہے ۔اور پاکستان اور پاکستان کے عوام کو یہ دن دکھانے میں اور ہر آنے والے دن کو نا امیدی اور مایوسی میں بدلنے میں۔ انہی لوگوں کا۔کم از کم پچانوے فیصد کردار شامل ہے۔
جو حکمران یا پاکستان کے کرتا دھرتا ۔اسی بوسیدہ نظام اور اداروں کے ہوتے ہوئے۔ پاکستان اور پاکستان کے عوام کی تقدیر بدلنے کاےبیانات اور اعلانات کرتے ہیں۔ یقین مانیں۔ وہ حکمران۔۔۔ عوام کو بے وقوف سمجھتے ہوئے جھوٹ بولتے ہیں ۔
تبدیلی صرف اعلانات اور بیانات سے نہیں آتی ۔ یہ اعلانات و بیانات تو پاکستان میں مزید وقت حاصل کرنے اور عوام کو دہوکہ میں رکھنے کے پرانے حربے ہیں۔ کہ کسی طرح حکمرانوں کو اپنا دور اقتدار مکمل کرنے کی مہلت مل جائے ۔ چھوٹ مل جائے ۔ اور انکی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں رہے۔ اور وہ ادارے جنہوں نے انھیں ایسا کرنے سے باز رکھنا تھا۔ اور ریاست اور عوام کے مفادات کا نگران بننا تھا۔ وہ بے ایمانی۔ اور بد عنوانی میں انکے حلیف بن چکے ہیں۔ اور یہ کھیل پاکستان میں پچھلے ساٹھ سالوں سے زائد عرصے سے ہر بار مزید شدت کے ساتھ کھیلا جارہا ہے ۔ اور نتیجتاً عوام مفلوک الحال اور ایک بوسیدہ زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں۔ جس میں محض بنیادی ضرورتوں کو بہ احسن پورا کرنے کے لئیے ان کے حصے میں مایوسی اور ناامیدی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ جائز خواہشیں۔ حسرتوں اور مایوسی میں بدل جاتی ہیں۔
جس طرح ہم پاکستان میں ان تلخ حقیقتوں کا نظارہ روز کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو ان حالات کو بدلنے کے ذمہ دار ہیں ۔اور اس بات کا اختیار رکھتے ہیں ۔ اور یوں کرنا انکے مناصب کا بھی تقاضہ ہے ۔ اور وہ حالات بدلنے پہ قادر ہیں ۔ مگر وہ اپنے آپ کو بادشاہ اور عوام کو رعایا سمجھتے ہیں۔ اور نظام اور اداروں کو ان خامیوں سے پاک کرنے کی جرائت۔ صلاحیت و اہلیت ۔ یا نیت نہیں پاتے۔
تو سوال جو پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا پاکستان اور اس کے عوام کے نصیب میں عزت نام کی ۔ حقوق پورے ہونے نام کی کوئی شئے نہیں؟ اور اگر یہ پاکستان اور اسکے عوام کے نصیب میں ہے کہ انھیں بھی عزت سے جینے اور انکے حقوق پورے ہونے کا سلسلہ ہونا چاہئیے۔ تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ پاکستان کے ان دشمنوں کے لئیے۔ جن کی دہشت گردی سے پوری قوم بھکاری بن چکی ہے۔ اور ہر وہ بدعنوان شخص خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ جس نے پاکستان کے اور پاکستان کے عوام کے مفادات خلاف اپنے مفادات کو ترجیج دی۔ ان کے لئیے کب پھانسی گھاٹ تیار ہونگے؟۔ انہیں کب فرعونیت اور رعونت کی مسندوں سے اٹھا کر سلاخوں کے پیچھے بند کیا جائے گا؟۔ اور انہیں کب ان کے انجام تک پہنچایا جائے گا؟ ۔ کہ مخلوق خدا پہ سے عذاب ٹلے؟
اس کے سوا عزت اور ترقی کا کوئی راستہ نہیں۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, ہفتوں, فقدان, ہم, ہمیں, ہماری, فن, ہو, ہونی, ہونے, ہونگے؟۔, ہونا, ہو۔, ہو؟۔ایک, ہوئی, ہوئے, ہوئے۔, ہوا, ہوتی, ہوتے, ہوتا, ہورہے, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں۔محض, ہیں۔اور, ہیں۔جس, ہیں۔دہشت, ہیں؟۔اتنی, فیصد, ہے, ہے۔, ہے۔ہمارا, ہے۔مگر, ہے۔پاکستان, ہے۔اور, ہے۔ایک, ہے۔جو, ہے۔ریاست, ہے؟, ہے؟پاکستان, فکر۔۔۔تبدیلی, ہاتھ, ہر, فرائض, فرعونیت, ہزار, قلت, قوم, قیمت, قانون, قائم, قادر, قبل, قبول, قبضہ, قدم, قسم, قصور, لوگ, لوگوں, لینا, لیں, لیا, لڑا, لگا, لگام, لگایا۔, لٹ, لٹیرے۔, لئیے, لئیے۔, لانے, لاچار, لائے, مفلوک, مہلت, مہینہ, مفاد, مفادِ, مفادات, مہذب, مقننہ, مقام, مقدم, مقصد, مل, ملک, ملتا, مملکت, منہ, مناسب, مناصب, مناصب۔, مناظر, مندرجہ, منزل, منظور, موافق, موجودہ, موصوف, میل, میڈیا, میں, میں۔, میری, مکمل, مگر, مگرکب, مافیا, مافیا۔, مافیاؤں, مافیاز, مافیاز۔, مالی۔, مالک, مانیں۔, مایوسی, متعلقہ, مثال, مجبور, محکموں, محکمے, محسوس, محض, مخلوق, مختلف, مختارِکُل۔, مرہ, مریض, مراعات, مزید, مسند, مسندوں, مسئلہ, مساوات, مسائل, مشینری, مشیروں, مشکل, مشرف۔, مشرق, مطمع, مطابق, مظلوم, مظاہر, معاملہ, معاملات, معاوضہ, مغرب, نہ, نہیں, نہیں۔, نہیں؟, نہائت, چلن, چلا, چلانے, چلایاجا, چلاتے, چلتی, چمچوں, نمائشی, چند, چوٹی, چوس, چوسنے, چوسے, چوستے, چیلوں, نیچے۔, چیت, نے, چکی, چکے, چکا, نگران, چھوٹ, چھٹی, نئے, نا, چاہے, چاہئی, چاہئیے۔, نالائقی, نام, ناک, ناگزیر, ناامیدی, ناجائز, ناخواندگی, چار, نتیجتاً, نذرانہ, نزدیک, نصیب, نظیر, نظام, نظارہ, نظر, و, وہ, وہیں, وفادار, وقوف, وقت, ڈیزل, والی, والے, والے۔, والےبچے, واردات, وجہ, وزیر, وزیروں۔, وزارت, وسائل, یہ, یقین, یوں, ییوں, یا, یعنی, ۔, ۔وزیر, ۔۔, ۔۔۔آج, ۔کہ, ۔کے, ۔پاکستان, ۔اور, ۔اِدہر, ۔اپنے, ۔ادارے, ۔اسی, ۔بلکہ, ۔تبدیلی, ۔جبکہ, ۔زرداری۔, ۔ستم, کہ, کہیں, کل, کم, کمانے, کچہری, کو, کوئی, کی, کیوں, کیوں؟, کی۔, کیا, کٌجا۔, کیخلاف, کیسے, کڑاہی, کے, کھلی, کھوکھلی, کھیل, کھیلا, کھینچ, کھاتیں, کئی, کئے, کا, کام, کاموں, کامیاب, کاےبیانات, کا۔کم, کاکاروبار, کاروائی, کاروبار, کاریاں, کار۔, کاران, کب, کبھی, کر, کرنے, کرنا, کر۔, کر۔۔۔خاص, کرپشن, کرتی, کرتے, کرتے۔اس, کرتے؟, کرتا, کردہ, کردار, کرسی, کرسکتا, کس, کسی, گیا, گھمبیر, گھی, گھاٹ, گھروں, گئی, گئے, گا؟, گا؟۔, گروہی, گرد, گردی, گزارنے, گزر, ٹلے؟اس, ٹیکسز, ٹھپ, ٹرانسپورٹرز, پہ, پہلے, پہنچایا, پہیہ, پمپس, پچھلی, پچھلے, پناہ, پچانوے, پوری, پورے, پورا, پوشی, پوشیدہ, پیچھے, پیدا, پیداوار, پیسے, پیش, پیشرو, پڑتی, پٹرول, پٹرولیم, پھانسی, پھرے, پا, پانچ, پانچوں, پاک, پاکستان, پاتے, پاتے۔تو, پارٹی, پتہ, پروردہ, پریس, پرانے, پرزے, پرزے۔عوام, پرست, ؟۔۔۔پاکستان, آمد, آنے, آیا, آگے, آگے۔, آپ, آئی, آئے, آبیاری, آبادی, آتی, آتے, آتا۔, آج, آخر, آدمی, آدھ, آسانی, اہل, اہلیت, اہلکار, اہلکار۔, افلاس, افسوسناک, اقتدار, الحال, الذمہ, الغرض, امن, امیدی, امیر, ان, انہوں, انہی, انہیں, انوکھے, انکوائری۔کوئی, انکی, انکے, انکا, انکار, انگلیاں, انگنت, انھیں, انتہاء, انتہائی, انتظار, انجام, انداز, اندازہ, اندر, اندرونی, انصاف, انصافی, اوپر, اوجھل, اور, ایمولینسز, ایمانی۔, ایڑی, ایک, ایسا, اڑا, اکثریت, اگر, اٹھا, اٹھتا, اپنی, اپنے, اپنا, اپوزیشن۔, ابھی, احسن, اختیار, ادنی, ادوار, ادا, ادارہ, اداروں, ادارے, ادارے۔کیا, ادراک, اربوں, ارد, از, اس, اسمبلیوں, اسی, اسے, اسکول, اسکے, اسٹیٹس, اسپتالوں, استحصال, استعفی, استعمال, اصل, اطمینان, اعلی, اعلانات, اعتبار, بہ, بہت, بہتری, بلند, بلکہ, بن, بننا, بنیاد, بنیادی, بنا, بنتے, بند, بولا, بولتے, بودے, بوسیدہ, بیکس, بیان, بیانات, بیرونی, بیشتر, بڑی, بڑے, بڑا, بے, بگڑتے, بھی, بھی۔, بھکاری, بھر, بھرم, بھرے, بھرتا, باقی, بالا, بانٹ, بات, بادشاہ, بار, باری, باز, بازار, بجائے, بجائے۔, بحران, بد, بدل, بدلنے, بدن, بدستور, بدعنوان, برقرار, بری, براہ, بسنے, بس۔, بغیر, تقاضہ, تقدیر, تلخ, تماشہ, تنقید, تنخواہ, تنخواہیں, تو, تیار, تک, تکلیف, تھی, تھے, تھے۔, تھا, تھانہ, تھانے, تھا۔, تحفہ, تحفظ, تحت, تحریر, تر, ترقی, ترجیج, تسلسل, تصور, تعلیم, جہالت۔غریبی۔, جہاں, جن, جنہوں, جنہیں, جنم, جنگ, جو, جینے, جیبیں, جیسے, جڑیں, جھوٹ, جام, جان, جانے, جائے, جائدادیں, جائز, جائزحقوق, جابر, جاتی, جاتا, جارہا, جاسکتی, جب, جدت, جرائت۔, جس, حق, حقوق, حقیقت, حقیقتوں, حقائق, حل, حلیف, حیرت, حکمتی, حکمران, حکمرانوں, حکمرانوں۔, حکمران۔, حکمران۔۔۔, حکومت, حکومتی, حالات, حالت, حاصل, حد, حربے, حسرتوں, حصے, خلاف, خوفناک, خون, خواہ, خواہشمند, خواہشیں۔, خواتین۔, خوار, خود, خاقان, خامیوں, خدا, دہ, دہوکہ, دہایوں, دہائیوں, دہشت, دلوا, دن, دنیا, دو, دونوں, دوڑائیں, دور, دی, دینے, دینا, دی۔, دیکھیں, دیگر, دیا۔, دیا۔پاکستان, دیتی, دیتے, دیتا, دے, دکھانے, دھجیاں, دھرتا, دھرتاؤں, دار, داروں, داری, درباری۔, دستور, دشمن, دشمنوں, دعوؤں, دعوتِ, ذہن, ذمہ, ذکر, ذاتی, رہ, رہن, رہی, رہے, رہے۔, رہا, روپے, رواج, روز, روزگار, روزگاری, ریاست, ریاستوں, ریاستیں, رکن, رکھنے, رکھنا, رکھی, رکھتے, رکاوٹ, رگوں, رؤ, راکٹ, رائج, رات, راست, راستہ, رجوع, رخصتی, رسوخ, رشوت۔, رعونت, رعایا, زندہ, زندگی, زور, زیادہ, زائد, سہن, سہولت, سہولتوں, سفید, سہاگہ, سفارش, سفر, سلاخوں, سلب, سلسلہ, سمجھ, سمجھنے, سمجھتے, سو, سونے, سوا, سوال, سی, سیاسی, سیاستدان, سیاستدان۔, سڑکوں, سے, سے۔, سے۔نہ, سکتے, سکتا, سالوں, ساٹھ, سائنس, ساتھ, ساختہ, ساری, ساز, سب, ستم, سر, سرے, سرکاری, سربراہان, سربراہان۔, شہہ, شئے, شامل, شاپ, شخص, شدت, شریف, صلاحیت, صورت, صورتیں, صورتحال, صورتحال۔, صحت, صرف, ضرور, ضرورت, ضرورتوں, طور, طے, طبقے, طرف, طریقہ, طریقوں, طریقے, طرح, ظلم۔, ظالم, ظریفی, عہدہ, عہدوں۔, عہدیدار, عہدیداران, عہدے, عفریت, عمل, عملہ, عنوانی, عوم, عوام, عین, عالم, عام, عامہ, عباسی۔, عدم, عذاب, عرصے, عزت, غیر, غاصابانہ, غریب, غصب
انقلاب کا ڈول اور پاکستان۔
ہیں کواکب کچھ ۔نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ۔ یہ بازی گر کھلا
حکومت چھوڑ دو؟۔
اسملبیاں توڑ دی جائیں؟۔ورنہ ۔
یہ وہ مطالبات تھے جو اسلام آباد پہنچتے ہیں انقلاب کا ڈول ڈالنے والوں نے پہلے دن ہی داغنے شروع کئیے اور ان کی گھن گرج میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
یہ غیر آئینی مطالبات کس کی ایماء پہ ؟ اور کونسی طاقت کے بل بُوتے پہ کئیے جارہے تھے اور کئیے جارہےہیں ؟
وہ کون سی طاقتیں ہیں ۔ جو عمران اور طاہر القادری کو اشارہ دے چکی ہیں ۔ کہ ماحول کچھ اس طرح کا بناؤ ۔۔ کہ ہم کہنے والے ہوں کہ وزیر اعظم نواز شریف استعفی دےدیں۔ اس صورتحال کو سمجھنے کے لئیے علمِ سیاسیات میں ڈگری یافتہ ہونا ضروری نہیں ۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ کہ نواز حکومت کیوں اس مغالطے میں رہی۔ کہ یہ ایک دودن کا شور شرابہ ہے ۔اور جونہی یہ شو ختم ہوا ۔تو دیکھیں گے ان سے کیا مذاکرات کئیے جاسکتے ہیں؟۔
انبیاء علیة والسلام نے جب لوگوں کو دعوتِ دین دی۔ تو لوگ اس لئیے بھی ان پہ ایمان لے آئے کہ انبیاء علیة والسلام کا ماضی بے داغ ۔ کردار مثالی۔ فطرت میں حق گوئی وبیباکی اور اخلاق اعلیٰ ترین تھا۔ بہت سے لوگ فوراً ان کی نبوت پہ ایمان لے آتے ۔ اور دین میں شامل ہوتے چلےجاتے۔ کیونکہ لوگوں کو علم تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے ۔ انکا ماضی بے داغ ہے۔ انکا کردار مثالی ہے ۔ وہ حق گوئی اور بیباکی پہ کوئی مفاہمت نہیں کرتے ۔ اور انکے اخلاق اعلٰی ترین ہیں اور ایسے لوگ (انبیاء علیة والسلام) اگر نبوت کا دعواہ کر رہے ہیں ۔تو یقناً وہ اللہ کے نبی ہونگے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہےکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ کسی کی زبان پہ یقین کرنے کے لئیے اسکا کردار۔ اس کا ماضی دیکھتا ہے ۔اسکی حق گوئی و بیباکی کو پرکھتا ہے اور اسکے اخلاق کو جانچتا ہے ۔ عام طور پہ فوری یقین لانے کے لئیے ان چند صفات کو بنیاد بنا کر صاحب ِ بیان کی سچائی کو پرکھتا ہے اور اگر صاحب بیاں اس کی کسوٹی پہ اترے تووہ اس پہ یقین کر لیتا ہے کہ جو یہ کہہ رہا ہے وہ درست ہوگا۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شیخ السلام اور کپتان کا ماضی ۔ حق گوئی ۔ کردار اور اخلاق کے بارے کسی کو شائبہ ہے کہ وہ کب کب اور کیوں اپنے بیان بدلتے رہے ۔ اور انہوں نے یوٹرن لئیے ۔ اور کس کس کے سر پہ مغربی طاقتوں کا دستِ شفقت کیوں کررہا۔تو پھر ایسی کیا مصیبت آن پڑی تھی کہ عوام کی ایک بڑی تعداد میں ان شیخ السلام اور ماضی میں اسکینڈلز سے آلودہ سابقہ کرکٹ کپتان پہ آنکھیں بند کر کے۔ یقین کرتے ہوئے۔ لاکھوں کی تعداد میں اسلام آباد کی طرف رُخ کرتی؟ ۔اور شیخ السلام کے انقلاب پہ یقین رکھتے ہوئے ان کے ہاتھ بعیت کرتی؟ ۔ اور کپتان کی فرما روا آزادی کو اپنا منشاء بناتی؟ جب کہ دونوں کا ماضی عوام کے سامنے ہے ۔ کہ ایک محدود تعداد کو تو کئی سالوں کی محنت سے اپنی حمایت میں کھڑا کیا جاسکتا ہے ۔مگر لاکھوں کڑووں انسانوں کو یک دم لبیک کہنے پہ آمادہ کرنا فطرت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اور انسانی فطرت ہے کہ وہ ایسے جانے پہچانے لوگوں پہ خُوب سوچ سمجھ کر اعتبار کرتا ہے ۔اور پھونک پھونک کر قدم آگے بڑہاتا ہے ۔ تو پھر انقلاب لانے کا دعواہ کرنے والوں اور انہیں اسکرپٹ تیار کر کے دینے والوں نے۔ اسکرپٹ لکھتے ہوئے یہ اہم نکتہ کیوں نہ ذہن میں رکھا؟۔تو اسکی ایک سادہ سی وضاحت ہے ۔کہ اسکرپٹ رائٹر ز کو معلوم تھا کہ اسکرپٹ میں رنگ بھرنے کے لئے چند ہزار لوگ ھی کافی ہیں ۔ کہ پچیس تیس ہزار لوگ کبھی کسی بھی دو تہائی سے زائد اکثریت رکھنے والی حکومت کے لئیے اس حد تک خطرہ نہیں ہوتے کہ وہ حکومت کو چلتا کردیں ۔لاکھوں کی تعداد کی نسبت پچیس تیس ہزار لوگوں کو رام کرنا اور انہیں اپنی مرضی کے مطابق چلانا بہت آسان ہوتا ہے۔اور یوں حکومت کو بلیک میل کرتے ہوئے پس پردہ اپنے مطالبات منوانا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ کہ بہ نسبت لاکھوں کے بے قابو ہجوم کے ذریعئے حکومت گرا کر اپنے مطالبات منوانے کے۔
ان دونوں مارچوں کے اسکرپٹس جس نے بھی لکھے ہیں۔ خُوب سوچ سمجھ کر لکھے ہیں۔ اور نواز شریف کی معاملہ فہمی کو مد نظر رکھ کر لکھے ہیں ۔
اور اس سارے پلان کا اسکرپٹ رائٹر یہ جانتا ہے کہ میاں نواز شریف اپنی معروف ضدی طبعیت کی وجہ ایک ہی جگہ جمیں کھڑے رہیں گے۔ اور انھیں دباؤ میں لانا آسان ہوگا۔کہ سیاست میں جم جا جانا اور ایک ہی جگہ کھڑے ہوجانا ۔ جمود کا دوسرا نام ہے ۔ اور پاکستانی سیاست میں جمود لے ڈوبتا ہے۔اور یہی اسکرپٹ رائٹر نے تاثر دینا چاہا کہ نواز شریف ۔ حکومت اور نون لیگ کے بزرجمہر اسی دھوکے اور تفاخر میں رہیں کہ یہ چند ہزار لوگ ان کا اور انکی دوتہائی اکثریتی حکومت کاکیا بگاڑ لیں گے ۔ اور وہ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کی وجہ سے اس دہوکے میں آگئے ۔ اور ترپ کے پتوں سے چالیں یوں چلی گئیں کہ شریف بردران ۔ پنجاب حکومت اور نواز شریف حکومت یکے بعد دیگرے اپنی پوزیشنیں چھوڑتی ہوئی۔ پیچھے ہٹتی چلی گئی ۔ اتنی بڑی پارٹی کی دو تہائی اکثریتی حکومت ہوتے ہوئے نہ تو وہ اپنی اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ کر پائی اور نہ ہی جلد بازی میں ان سے کروائے گئے فیصلوں کے ما بعد نقصانات کو ہی سمجھ پائی ۔
کسی حکومت کی یہ ناکامی تصور کی جاتی ہے ۔ کہ لوگ اس کے خلاف سڑکوں پہ نکل آئیں۔کامیاب حکومت اسے گردانا جاتا ہے جو عوام کو سڑکوں پہ آنے سے پہلے ہی۔ انہیں راضی کرنے کا کوئی جتن کر لے۔ اس وقت پاکستانی عوام کی سب سے اولین مشکلات میں سے چند ایک مشکلات ۔ مہنگائی کا عفریت۔ توانائی کا بحران۔ بے روزگاری یا دوسرے لفظوں میں جسم اور جان کا رشتہ قائم رکھنے کے لئیے ہر روز جتن کرنا ہے۔ ملک کی آدہی سے زائد آبادی کو محض دو وقت کی روٹی پوری کرنی مشکل ہو رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت کو یہ سارے مسائل زرداری حکومت سے وراثت میں ملے ہیں ۔ مگر اس میں بھی کسی کو کوئی شک نہیں ۔ کہ نون لیگ کے بلند بانگ انتخابی دعوؤں کے برعکس نون لیگ کی حکومت کے ان پندرہ سولہ ماہ میں عوام کی زندگی پہلے سے زیادہ اجیرن ثابت ھوئی ہے۔
جس ملک میں توانائی کا خوفناک بحران ہو ۔ لوگوں کے کاروبار اور روزگار ٹھپ ہوں۔ ملک کے شہری بجلی پانی گیس نہ ہونے کی وجہ سے چڑچڑے ہو رہے ہوں ۔بجلی کی عدم فراہمی پورے خاندان کی نفسیاتی ساخت و پرواخت پہ اثر اندازہو رہی ہو۔ اس ملک میں نون لیگ کے وزیر توانائی۔خواجہ آصف ۔پندرہ ماہ بر سر اقتدار آنے کے بعد۔اپنی قوم کو کسی قسم کا ریلیف دینے کی بجائے گرمی میں جلتے عوام سے یہ کہیں ۔کہ اللہ سے دعا مانگیں کہ بارش ہو اور آپ کی تکالیف میں کچھ کمی ہو۔ تو ایسی گڈ گورنس پہ کون قربان جائے؟ ۔وزیر موصوف سے یہ سوال کیا جانا چاہئیے تھا کہ اگر آپ میں اتنی اہلیت نہیں کہ آپ عوام کو کوئی ریلیف دے سکیں تو کم از کم انکے زخموں پہ نمک تو نہ چھڑکیں۔ اور اگر عوام کی تکالیف میں کمی کا انحصار اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے میں ہی ہے۔ تو آپ کس خوشی میں اتنی بڑی وزات کی موجیں لُوٹ رہے ہیں۔ کسی بھی مہذب سیاستدان کی طرح استعفٰی دیں اور گھر کی راہ لیں۔ کہ ممکن ہے جو آپ کے بعد اس وزارت کو سنبھالے اس میں کچھ خداد صلاحیت آپ سے زیادہ ہو ںاور وہ عوام کو کچھ ریلیف دے سکے۔یہ تو ایک مثال ہے جو کسی لطیفہ سے کم نہیں ۔مگر پاکستان کے بے بس اور لاچار عوام کی ستم ظریفی دیکھئیے کہ ایسی مثالیں عام ہیں۔
شہباز شریف بڑے فخر سے دعواہ کرتے ہیں۔ کہ ان کا کوئی ایک بھی کرپشن کا کیس سامنے نہیں لایا جاسکتا ۔کیونکہ وہ کسی طور پہ کرپشن میں ملوث نہیں۔ مگر عوام نے پنجاب حکومت کے ایک وزیر کی ویڈیو دیکھی ہے ۔جس میں وہ ایک ایسے انسانی اسمگلر سے معاملات طے کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ جس پہ میڈیا کے مطابق ایک سو اسی سے زائد لوگوں نے دھوکہ بازی سے ۔رقم ہتیانے کے کیس کر رکھے ہیں ۔جو انٹر پول اور پتہ نہیں کس کس کو مطلوب ہے۔اور میاں صاحب نے اس ویڈیو کی حقیقت جانچنے کے لئیے ایک تین رکنی کمیٹی بنادی اور بس۔ سنا ہے بعد میں وزیر موصوف کے حمایتی یہ کہتے پائے گئے ہیں ۔کہ یہ لاکھوں روپے کی وہ رقم تھی۔ جو انہوں نے مذکورہ انسانی اسمگلر کو ادہار دے رکھی تھی ۔اور وہ انہوں نے واپس لی۔ ایک ایسا وزیر جو ایک معروف انسانی اسمگلر کے ساتھ معاملات کرتا ہے ۔ اسے رقم ادہار دیتا اور واپس لیتا ہے۔ ایسے جرم پیشہ فرد کے ساتھ معاملات کرنا تو کُجا اس کے ساتھ اگر کسی دعوت میں کسی وزیر کا کھانا کھایا جانا ثابت ہو جائے تو مہذب ممالک میں وزراء اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیتے ہیں۔ جبکہ وزیر موصوف کو ایک جرائم پیشہ کے ساتھ معاملات کرنے کے باوجود بجائے اس کے وزیر موصوف سے جواب طلبی کی جاتی اور تادیبی کاروائی کی جاتی ۔ انہیں اتنی اہم وزارت دے دی؟۔ اپنی ٹیم کے بارے خبر نہ رکھنی یا لاعلم رہنا۔ یا خبر ہوتے ہوئے اس پہ کاروائی نہ کرنا ۔یہ بھی اپنے فرائض سے غفلت برتنے کے برابر ہے۔
جہاں یہ عالم ہو کہ سرکاری ملازموں کو ذاتی ملازم سمجھا جائے ۔ نوکریاں بیچی جائیں۔ سرکار دربار میں اپنے من پسند لوگوں کو لانے کے لئیے ۔پرانے ملازمین حتٰی کے چھٹی یا ساتویں گریڈ کی خواتین ملازموں کو انکے گھر بار سے دور۔ بیس بائیس کلومیٹرز دورافتادہ جگہ پہ اچانک تبادلہ کر دیا جائے ۔ بہانے بہانے سے سرکاری ملازموں کو تنگ کیا جائے ۔تانکہ وہ بددل ہو کر اپنی ملازمت چھوڑ دیں ۔اور انکی جگہ اپنے منظور نظر لوگوں کو بھرتی کیا جاسکے۔ تعینات کیا جاسکے۔ وہاں عام عوام ہی نہیں بلکہ یہ سرکاری ملازمین کو ہی اگر اجازت دے دی جائے۔ اور انہیں اپنی نوکری کے جانے کا اندیشہ نہ ہو تا۔تو ہمیں نہیں لگتا کہ کوئی سرکاری ملازم ایسا ہوگا جو احتجاج میں شامل نہ ہواور سرکاری ملازمین کے احتجاج کی تعداد لاکھوں تک نہ ہو ۔ یعنی لوگ تنگ آگئے ہیں۔ انکے مسائل حل نہیں ہو رہے ۔ ممکن ہے نواز شریف حکومت کی ترجیجات میں لمبی ٹرم کے منصوبے ہوں ۔جن سے چند سالوں میں نتیجہ عوام کے حق میں بہتر آئے ، مگر عوام کا فی الحال مسئلہ زندہ رہنے کی جستجو کرنا ہے ۔ اور وہ موجودہ حکومت سے بہت سی توقعات لگائے بیٹھے تھے ۔ اور حکومت فی الفور عوام کو کچھ دینے کی بجائے۔ مہنگائی کے سیلاب سے انکے مسائل میں اضافہ کرنے کا سبب بنی ہے۔
حکومت کے بارے یہ عام طور پہ کہا جاتا ہے ۔کہ میاں نواز شریف نے اندیشہ ہائے دور است کے تحت حفظِ ماتقدم کے طور پہ ۔اپنے اقتدار و اختیار کو اپنے ارد گرد کچھ معدوئے چند لوگوں میں بانٹ رکھا ہے ۔ ممکن ہے اس میں انکے کچھ اندیشے درست ہوں۔ لیکن یہ امر واقع ہے کہ اقتدار اللہ کی دی ہوئی امانت ہوتی ہے۔ اور جن حکمرانوں نے اپنا اقتدار ۔نیچے تک عام شہری تک تقسیم کیا ۔ انھیں کسی اندیشے کا ڈر نہ رہا ۔اور اور یوں کرنے سے جہاں عوام کو ریلیف ملا ۔وہیں اللہ نے ایسے حکمرانوں کے اقتدار میں برکت دی ۔
یہ حد سے بڑھی خود اعتمادی تھی یا سانحہ ماڈل ٹاؤن کی وجہ سے نواز حکومت اخلاقی طور پہ ایسا کرنے پہ مجبور تھی کہ طاہر القادری ایک غیر سیاسی تحریک کے سربراہ اور پاکستان میں کسی بھی لیول پہ ان کا کوئی سیاسی عہدہ نہیں۔ تو پھر کس خوشی میں حکومت نے انہیں پہلے روکا تو عین آخری وقت میں ایک سیاسی اور منتخب حکومت کو غیر آئینی طور پہ حکومت گرانے کی دہمکیوں کے باوجود انہیں ملک کے دارالحکومت کی طرف ہزاروں لوگوں کے ساتھ بڑھنے دیا؟
یہ سیاسی ناعاقبت اندیشی نہیں تو کیا ہے کہ جنہیں چند ہزار افراد کہا گیا اور یہ سمجھا گیا کہ لاکھوں کا دعواٰہ کرنے والے ان بیس پچیس ہزار لوگوں سے کیا تبدیلی لے آئیں گے؟ اور من پسند خوشامدی تجزئیہ نگاروں سے اپنی حکمت عملی کی داد وصول کی جاتی رہی ۔ اور اب یہ عالم ہے کہ پچیس تیس ہزار افراد کے ہجوم نے اسلام آباد میں آج ریڈ زون بھی کراس کر لیا ہے۔ اور عین پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے۔ ملک کے حساس ترین علاقے ریڈ زون میں۔ آن ڈیرے جمائے ہیں ۔جس سے ملک اور حکومت کی کی جگ ہنسائی ہور رہی ہے۔ اور ساری دنیا کو ریاستِ پاکستان کا ایک غلط پیغام جارہا ہے ۔ اور نواز شریف ابھی تک اپنے معدودے چند ایسے افراد کی مشاورت پہ بھروسہ کرنے کی وجہ سے ایک بار پھر بند گلی میں کھڑے ہیں ۔
کچھ لوگوں کو یاد ہوگا کہ انقلاب کا ڈول ڈالتے ہی مشرف نے اپنے کارکنوں کو اس انقلاب اور آزادی مارچ کا ساتھ دینے کا ارشاد فرمایا۔اور نواز شریف نےایک بار پھر ایک تاریخی غلطی کی ہے۔فوج کو اس معاملے میں ملوث کرکے کے اپنے ۔ مسلم لیگ ن۔ اور جمہوریت کے ہاتھ پاؤں باندھ دئیے ہیں۔اور مستقبل میں کئی مخصوص اور حساس معاملوں میں آزادی سے فیصلے کرنے کا اختیار کھو دیا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے ۔اس سے بہتر تھا وزیر اعظم استعفٰی دے دیتے۔اور اپنی پارٹی میں سے کسی کو ویزر اعظم نامزد کر دیتے ۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہوتی۔ کہ بات بات پہ اپنی زبان سے پھر جانے والے۔ آزادی و انقلابی ڈول ڈالنے والے ۔اس کے بعد کوئی نیا مطالبہ نہ کر دیتے ؟۔
تاریخ گواہ ہے۔ کہ اس طرح کے پلانٹڈ اور پلانیڈ انقلاب۔ کبھی کامیاب نہیں ہوئے ۔ان سے تبدیلی تو ہوتی ہے۔ مگر تبدیلی نہیں آتی۔ کسی حقیقی انقلاب کے لئیے عام آدمی یعنی عوام کی تربیت لازمی ہوتی ہے کہ وہ انقلابی تبدیلی کا باعث بن سکے۔جو اس سارے انقلابی عمل میں کہیں نظر نہیں آتی ۔ کہ پاکستان کے عام آدمی یعنی عوام کو اس طرح لاچار کر دیا گیا ہے کہ وہ سوتے میں بھی دو وقت کی باعزت روٹی کمانے کی خاطر اور زندہ رہنے کی جستجو کے ڈراؤنے خواب دیکھتا ہے اور اس قدر منتشر ہے کہ اسے سوائے اپنے حالات کے کسی اور طرف دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ۔ تو پھر عام آدمی کی تربیت اور شمولیت کے بغیر یہ کیسا انقلاب برپا ہونے جارہا ہے؟ ۔
ایک تبدیلی وہ ہے جس کا نعرہ لگایا جارہا ہے۔ ”انقلاب“۔ اور ایک تبدیلی وہ ہے جو اسکرپٹ رائٹر نے اپنے من پسند طریقے سے لانی چاہی ہے۔ یعنی پہلی تبدیلی ”انقلاب “ کا جھانسہ دیکر دوسری تبدیلی ہی اصل گوہر مقصود ہے۔۔
جہاں ضامن حضرات جائز طور پہ برہم ہیں۔ وہیں لوگ اس بات پہ حیران ہیں کہ شیخ السلام اور کپتان نے مختلف سیاسی حکومتی شخصیات کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ کوئی غیر آئنی مطالبہ یا اقدام نہیں کریں گے ۔ تو پھر یہ کیوں بار بار اپنا بیان بدل رہے ہیں ۔ اور اتنی یقین دہانیوں کے باوجود غیر آئینی مطالبوں پہ اڑے ہوئے ہیں۔لیکن ان کو (عوام کو)یہ پتہ نہیں کہ جو کسی کے بھروسے پہ پہلی بار ہر حد پھلانگ جائیں ۔پھر انھیں اس کے اشارے پہ بار بار ہر حد پھلانگنی پڑتی ہے۔اتنے سالوں سے اس ملک میں کوڑھ کی فصل بیجی جارہی ہے ۔ اب یہ فصل پک چکی ہے۔کچھ طاقتیں ایسی ہیں جنہوں نے اس ملک کے تمام ستونوں کو بے بس کر رکھا ہے اور جب انھیں پاکستان کی ترقی یا استحکام کا پہیہ روکنا مقصود ہوتا ہے تو وہ اشارہ کر دیتی ہیں اور پہلے سے بنے بنائے بچے جمہورے طے شدہ پروگرام کے تحت حرکت میں آجاتے ہیں ۔اور حد یہ ہے کہ انھیں رسپانس بھی ملنا شروع ہو جاتا ہے ۔
چند ہفتے قبل کوئی سوچ سکتا تھا کہ۔ وہ لوگ جن کا پاکستان کی سیاست اور پارلیمینٹ میں وجود ہی نہیں۔ وہ آج کس زورو شور سے پورے ملک۔ کو اسکے عوام کو ۔بے یقینی کی ٹکٹکی پہ چڑہا کر تماشہ بنادیں گے؟یہ سیاسی بصیرت سے بڑھ کر کسی تیسری قوت کی اپروچ ھے۔اور جو لوگ ایک بار کسی کے ہاتھوں پہ کھیلیں ۔۔ پھر انھیں ہمیشہ انھی کے ہاتھوں کھیلنا پڑتا ہے۔
لمحہ بہ لحمہ بدلتی اس ساری صورتحال میں موجودہ حکومت کو دیوار کے ساتھ لگا کر پس پردہ اس سے وہ مطالبات منائے جائیں گے ۔ جس پہ ابھی تک ہماری حکومت بظا ہر اسٹینڈ لئیے کھڑی ہے ۔ اسمیں مشرف کی پاکستان سے غداری اور امریکہ سے وفاداری کے انعام کے طور پہ اس کی رہائی ۔ تانکہ امریکہ کے لئیے کام کرنے والے غداروں کو یہ پیغام جائے کہ وہ امریکہ کے لئیے اپنی قوم سے غداری کرنے والوں کو امریکہ تنہا نہیں چھوڑتا۔ دوسری بڑی وجہ ۔ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی ۔ اور تیسری بڑی وجہ ۔ پاکستانی عوام کو آمنے سامنے لا کر تصادم میں بدلنا ہے۔”عرب بہار“ جیسا فار مولہ بہت شاطر دماغوں نے اپنی پوری طاغوتی طاقت سے سارے وسائل بروئے کار لا کر بنا یا ہے ۔زرہ تصور کریں یہ دھرنا پروگرام کچھ طویل ہوتا ہے۔ تو دیگر جماعتیں بھی اپنے ہونے کا ثبوت دینے کے لئیے ۔اپنی اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ کرنے پہ نکل آئیں۔ تو کارکنوں کا ملک گیر پیمانے پہ یہ تصادم کیا رُخ اختیار کرے گا؟۔ یہ وہ کچھ پس پردہ عزائم ہیں جو عالمی طاقتیں دنیا کی واحد اسلامی نیوکلئیر ریاست کے بارے رکھتی ہیں۔ جس کے بارے میں عالمی میڈیا میں یہ تاثر دیا جائے گا ۔کہ اس ملک میں کبھی بھی۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ تو ایسے میں نیوکلئیر ہتیار اگر دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گئے۔ تو دنیا کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے ۔ اور اس تصور کو دنیا میں بڑہا چڑھا کر پیش کیا جائے گا ۔ اور ہماری بدقسمتی سے پاکستان مخالف عالمی طاقتیں پروپگنڈاہ اور دہمکی دھونس کے زور پہ ۔ایسے بے وجود سایوں کو وجود دینا جانتی ہیں۔ایسے میں پاکستان کا کیس عالمی برادری میں کمزور ہو جائیگا۔
اس بار شاید ہمیشہ کی طرح ”عزیز ہموطنو“ نہ ہو ۔کہ اب یہ فیشن بدلتا جارہا ۔ اورکچھ لوگ پہلے سے تیار کر لئیے جاتے ہیں ۔کہ جنہیں اگر نوبت آئی ۔تو انہیں آگے کر دیا جائے گا ۔ اور پس پشت”میرے ہموطنو“ پروگرام ہی ہوگا۔اس امر کا انحصار نواز شریف کی بارگینگ پاور پہ ہوگا۔ اور مارچ میں شامل کارکنوں کی تعداد اور استقلال کی بنیاد پہ ہوگا۔ کہ پس پردہ اپنی شرائط کس طرح منوائی جاسکتی ہیں۔ اگر دھرنے کے قائدین اسکرپٹ پلیئر کے اشارے پہ دھرنا اور احتجاج ختم بھی کر دیں ۔تو بہر حال ایک بات طے ہے کہ ان دھرنوں سے پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ پاکستان کی بنیادیں بھی ہل کر رہ جائیں گی ۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, فہمی, ہم, ہمیں, ہنسائی, ہو, ہونے, ہونگے۔, ہونا, ہو۔, ہوگا, ہوگا۔کہ, ہوگا۔تو, ہوں, ہوں“۔, ہوئی, ہوئی۔, ہوئے, ہوئے۔, ہوا, ہواور, ہوتی, ہوتی۔, ہوتے, ہوتا, ہوجانا, ہور, فوری, فوراً, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں۔اور, ہیں۔شہباز, ہیں؟۔, فیصلوں, فیصلے, ہے, ہے۔, ہے۔ جہاں, ہے۔فوج, ہے۔کچھ, ہے۔اور, ہے۔حکومت, ہےکہ, ہے؟, ہٹتی, ہاؤس, ہائے, ہاتھ, ہتیانے, ہجوم, فخر, ہر, فرما, فرمایا۔اور, فراہمی, فرائض, فرد, فرصت, ہزار, ہزاروں, فطرت, قوم, قائم, قابو, قدم, قدر, قربان, قسم, لفظوں, لمبی, لوگ, لوگوں, لیول, لی۔, لیکن, لیگ, لیں, لیں۔, لیا, لیتا, لُوٹ, لے, لے۔, لکھے, لکھتے, لگایا, لگائے, لگتا, لئیے, لئے, لانی, لانے, لانا, لاچار, لایا, لاکھوں, لازمی, لاعلم, لبیک, لطیفہ, مہنگائی, مفاہمت, مہذب, ملوث, ملے, ملک, ملا, ملازم, ملازموں, ملازمین, ملازمت, ممکن, ممالک, من, منونے, منوانا, منتخب, منتشر, منشاء, منصوبے, منظور, موجودہ, موجیں, موصوف, میل, میڈیا, میں, میں۔, میاں, مگر, ما, ماہ, مانگنے, مانگیں, ماڈل, ماتقدم, ماحول, مارچ, مارچوں, ماضی, مثال, مثالی, مثالی۔, مثالیں, مجبور, محنت, محدود, محض, مخصوص, مد, مذکورہ, مذاکرات, مرضی, مسلم, مسئلہ, مسائل, مستقبل, مشکل, مشکلات, مشاورت, مشرف, مصیبت, مطلوب, مطالبہ, مطالبات, مطابق, مظاہرہ, معلوم, معاملہ, معاملے, معاملات, معدوئے, معدودے, معروف, مغالطے, مغربی, نہ, نہیں, نہیں۔, نفسیاتی, نقصانات, چلی, چلےجاتے۔, چلا, چلانا, چلتا, نمک, چند, نون, نوکری, نوکریاں, نواز, نیا, چڑچڑے, نے, نے۔, نےایک, ن۔, نکل, چکی, نکتہ, نگاروں, چھوڑ, چھوڑتی, چھڑکیں۔, چھٹی, چاہی, چاہئیے, چاہا, چالیں, نام, نامزد, ناکامی, ناعاقبت, نبوت, نبی, نتیجہ, نسبت, نظر, نعرہ, و, وہ, وہاں, وقت, ڈول, ڈوبتی, ویڈیو, ڈیرے, ویزر, ڈگری, واقع, ڈالنے, والوں, والی, والے, والے۔, ڈالتے, والسلام, واپس, وبیباکی, وجہ, ور, ڈراؤنے, وراثت, وزیر, وزات, وزارت, وزراء, وصول, وضاحت, یہ, یہی, یقناً, یقین, یوٹرن, یوں, یک, یکے, یا, یافتہ, یاد, یعنی, ۔, ۔ یہ, ۔لاکھوں, ۔مگر, ۔نیچے, ۔نظر, ۔وہیں, ۔وزیر, ۔یہ, ۔۔, ۔کہ, ۔کیونکہ, ۔کسی, ۔پندرہ, ۔پرانے, ۔ان, ۔اور, ۔اپنے, ۔اس, ۔اسکی, ۔بجلی, ۔تو, ۔تانکہ, ۔جن, ۔جو, ۔جس, ۔رقم, کہ, کہہ, کہنے, کہیں, کہا, کہتے, کلومیٹرز, کم, کمی, کمیٹی, کمانے, کو, کون, کونسی, کوئی, کواکب, کی, کیونکہ, کیوں, کیا, کیس, کیسا, کُجا, کڑووں, کے, کے۔, کے۔ان, کھلا, کھو, کپڑے, کپڑا, کھانا, کھایا, کپتان, کئی, کئیے, کا, کافی, کامیاب, کاکیا, کاروائی, کاروبار, کارکنوں, کب, کبھی, کر, کرنی, کرنے, کرنا, کروائے, کرکے, کرکٹ, کرپشن, کراس, کرتی, کرتے, کرتا, کردیں, کردار, کردار۔, کررہا۔تو, کس, کسوٹی, کسی, گلی, گڈ, گوئی, گواہ, گورنس, گیا, گیس, گے, گے۔, گے؟, گھن, گھر, گئی, گئیں, گئے, گر, گرمی, گریڈ, گرا, گرانے, گرج, گرد, گردانا, ٹیم, ٹھپ, ٹاؤن, ٹرم, ںاور, پہ, پہلی, پہلے, پہنچتے, پہچانے, پلان, پلانیڈ, پلانٹڈ, پچیس, پنجاب, پندرہ, پول, ھوئی, پوری, پورے, پوزیشنیں, پی, پیچھے, پیدا, پیشہ, پیغام, پڑی, پھونک, پھر, پانی, پاور, پاکستان, پاکستانی, پاکستان۔ہیں, پاؤں, پائی, پائے, پارلیمنٹ, پارٹی, پتہ, پتوں, پرکھتا, پردہ, پس, پسند, ،, ؟, ؟۔, آلودہ, آمادہ, آن, آنے, آنکھیں, آگے, آگئے, آپ, آپنے, آئینی, آئیں, آئیں۔کامیاب, آئے, آباد, آبادی, آتی, آتی۔, آتے, آج, آخری, آدہی, آدمی, آزادی, آسان, آصف, اہلیت, اہم, افراد, اقتدار, الفور, القادری, اللہ, الحال, السلام, امانت, امر, ان, انہوں, انہیں, انقلاب, انقلابی, انقلاب۔, انکی, انکے, انکا, انٹر, انھیں, اچانک, انبیاء, انتخابی, انحصار, اندیشہ, اندیشی, اندیشے, اندازہو, انسانوں, انسانی, اولین, اور, ایمان, ایماء, ایک, ایسی, ایسے, ایسا, اکثریت, اکثریتی, اگر, اپنی, اپنے, اپنا, اب, ابھی, اتنی, اترے, اثر, اجیرن, اجازت, احتجاج, اخلاق, اخلاقی, اختیار, ادہار, ارد, ارشاد, از, اس, اسلام, اسمگلر, اسی, اسے, اسکی, اسکینڈلز, اسکے, اسکا, اسکرپٹ, اسکرپٹس, اسٹریٹ, است, استعفی, استعفیٰ, استعفٰی, اشارہ, اصولوں, اضافہ, اعلیٰ, اعلٰی, اعتمادی, اعتبار, اعظم, بہ, بہانے, بہت, بہتر, بل, بلند, بلیک, بلکہ, بن, بنی, بنیاد, بنا, بناؤ, بناتی؟, بنادی, بند, بولتے, بیچی, بیٹھے, بیان, بیاں, بیباکی, بیس, بُوتے, بڑہاتا, بڑی, بڑے, بڑھنے, بڑھی, بے, بگاڑ, بھی, بھرنے, بھروسہ, بھرتی, بانگ, بانٹ, باندھ, باوجود, بائیس, بات, بار, بارے, بارش, بازی, باعث, باعزت, بجلی, بجائے, بجائے۔, بحران, بحران۔, بدلتے, بددل, بر, برکت, برپا, برابر, برتنے, بردران, برعکس, بزرجمہر, بس, بس۔, بعیت, بعد, بعد۔اپنی, بغیر, تہائی, تفاخر, تقسیم, تنگ, تو, توقعات, تووہ, توڑ, توانائی, توانائی۔خواجہ, تین, تیار, تیس, تک, تکالیف, تھی, تھی۔, تھے, تھا, تھا۔, تا۔تو, تاثر, تادیبی, تاریخ, تاریخی, تبادلہ, تبدیلی, تجزئیہ, تحت, تحریک, ترین, ترپ, تربیت, ترجیجات, تصور, تعینات, تعالیٰ, تعداد, ثابت, جہاں, جلتے, جلد, جم, جمہوریت, جمود, جمیں, جمائے, جن, جنہیں, جو, جونہی, جواب, جگ, جگہ, جھوٹ, جا, جان, جانچنے, جانچتا, جانے, جانا, جانتا, جائیں۔, جائیں؟۔ورنہ, جائے, جائے۔, جائے؟, جاتی, جاتا, جارہے, جارہےہیں, جارہا, جاسکے۔, جاسکتے, جاسکتا, جب, جبکہ, جتن, جرم, جرائم, جس, جسم, جستجو, حفظِ, حق, حقیقی, حقیقت, حل, حمایت, حمایتی, حکمت, حکمرانوں, حکومت, حالات, حتٰی, حد, حساس, خلاف, خوفناک, خواب, خواتین, خود, خوشی, خوشامدی, خیال, خُوب, خاندان, خاطر, خبر, ختم, خداد, خطرہ, دہمکیوں, دہوکے, دم, دن, دنیا, دو, دون, دونوں, دو؟۔اسملبیاں, دوتہائی, دور, دور۔, دورافتادہ, دوسرے, دوسرا, دی, دین, دینے, دینا, دی۔, دیکھنے, دیکھی, دیکھیں, دیکھئیے, دیکھتا, دیگرے, دیں, دی؟۔, دیا, دیا؟یہ, دیتے, دیتے۔اور, دیتا, دے, دےدیں۔, دکھائے, دھوکہ, دھوکہ۔, دھوکے, دئیے, داد, دارالحکومت, داغ, داغنے, دباؤ, دربار, درست, دستِ, دعوؤں, دعواہ, دعواٰہ, دعوت, دعوتِ, دعا, ذہن, ذاتی, ذریعئے, رہنے, رہنا۔, رہی, رہی۔, رہیں, رہے, رہا, رقم, رنگ, روکا, روٹی, روپے, روا, روز, روزگار, روزگاری, ریلیف, ریڈ, ریاستِ, رُخ, رکنی, رکھ, رکھنی, رکھنے, رکھی, رکھے, رکھا, رکھا؟۔تو, رکھتے, راہ, رام, رائٹر, راضی, رشتہ, ز, زندہ, زندگی, زون, زیادہ, زائد, زبان, زخموں, زرداری, سمجھ, سمجھنے, سمجھا, سنا, سچائی, سنبھالے, سو, سولہ, سوچ, سوال, سوائے, سوتے, سی, سیلاب, سیاسی, سیاسات, سیاست, سیاستدان, سڑکوں, سے, سکیں“, سکے۔یہ, سکے۔جو, سالوں, سامنے, سامنے۔, سانحہ, ساتویں, ساتھ, ساخت, سادہ, ساری, سارے, سب, سبب, ستم, سر, سرکار, سرکاری, سربراہ, شفقت, شہری, شمولیت, شو, شور, شیخ, شک, شامل, شائبہ, شروع, شریف, شرابہ, صفات, صلاحیت, صورتحال, صاحب, ضمانت, ضدی, ضروری, ضرورت, طلبی, طور, طے, طاہر, طاقت, طاقتوں, طاقتیں, طبعیت, طرف, طریقے, طرح, ظریفی, عہدہ, عفریت۔, علم, علمِ, علیة, علاقے, عمل, عملی, عمران, عوام, عین, عالم, عام, عدم, غفلت, غلط, غلطی, غیر