جمہوری مرغی، طوطی اور نقار خانہ۔
طوطی کی نقار خانے میں کون سنتا ہے۔ ویسے اس بات کی بھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ کہ طوطی کون تھا اور نقار خانے میں کیا کر رہا تھا ۔ کیونکہ یہ نفیس فطرت ، اصول پرست طوطی لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ اس چوں چوں کے مربے نقار خانے کا باسی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ طوطی رہتا ہی طوطیوں کے دیس میں ہو۔ جیسے طوطی خانہ ہوتا ہے۔ اور کسی دل جلے نے اسے "نقار خانہ ” کا نام دے دیا ہو۔ یا یہ بھی ممکن ہے یا یوں ہوا کہ طوطی نے نقار خانے میں جا گھونسلا بنایا ہو ۔اور اہل نقار خانہ کو اپنی سی سنانے پہ بضد ہواہو۔ ویسے طوطی کے اطوار نیک ۔ بال و پر اور پوشاک عمدہ اور سب سے بڑھ کر دل پاک اور زبان پاکیزہ تھی ۔واقعہ کچھ بھی رہا ہو مگر ایک دنیا کو یہ خبر ہوگئی کہ طوطی نقار خانے میں "اپنی سی "سناتا پھرتا تھا ۔مگر کوئی اس کی سننے پہ تیار نہ تھا ۔بات یہاں تک رہتی تو شاید طوطی بھی برادشت کر لیتا مگر نقار خانے میں دیگر قسم قسم کے چیل کوؤں اور چرخ چمگاڈروں یعنی اہل نقار خانہ نے طوطی کے وجود کو برداشت کرنے سے انکار کر دیا ۔اور نہ صرف طوطی کے وجود کو براداشت کرنے سے انکار کر دیا بلکہ طوطی نام کی جنس کے تمام طوطیوں کو برداشت کرنے سے انکار کر دیا جس پہ طوطی نے مجبور ہو کر اپنے ہم جنسوں کو نقار خانے کے ایک دوسرے حصے استھان میں جا بسنے کا مشورہ دیا اور خود بھی ان کے ساتھ جا بسا۔ طوطیوں کے حصے میں آنے والا استھان گھوڑوں گدھوں کے روایتی اصطبل یا استھان کی طرح نہایت درہم برہم اور بکھرا بسرا تھا ۔ہر طرف سے بے ترتیبی منتشر تھی ۔ اور گندگی کے ڈھیر تھے ۔ طوطیوں نے نیک صفت ۔دیانتدار طوطی کی رہنمائی میں نہائت محنت صبر اور شکر سے استھان یا استان کو رہنے سہنے کے قابل بنا لیا اور گندے استھان کو پاک استان میں بدلنے کی بھرپور کوشش کی ۔ اب اللہ کی حکمت کہ نیک اطوار ، پاک دل اور پاکیزہ اور یک زبان طوطی اللہ کو پیارا ہوگیا ۔ اور استھان کو باقی طوطیوں کے رحم و کرم پہ چھوڑ گیا ۔اسکے مرنے کے بعد کسی راہبر قسم کے طوطی کی عدم موجودگی میں طوطی بھی اپنی اپنی بولیوں کو لوٹ آئے ۔
اب طوطیوں کو نت نئی بولی بولنے کے علاوہ کوئی کام نہیں رہ گیا تھا۔بظاہر تو دانشور قسم کے طوطی مگر درحقیقت خبثِ باطن سے کُوٹ کُوٹ بھرے نمائیندوں اور رہنماؤں کے نام پہ ہر روز سر جوڑ کر بیٹھتے کہ استان کا نظام کس طور چلایا جائے ۔جبکہ بگلا بھگت اور بنگلہ بھگت قسم کےطوطی نت نئی بولیاں بولتے ۔اور اپنی بولی کو بزور زعم دوسروں کو سنانے اور انکی بولی پہ مسلط کرنے کی پوری کوشش کرتے۔ ۔ معصوم فطرت طوطی سارا سارا دن دانشور طوطیوں کی طرف منہ اٹھا کر بیٹھے رہتے ۔دن گزر جاتا ۔ رات آجاتی مگر طوطیوں کے بارے کوئی ایسا فیصلہ۔ کوئی ایسا حل سامنے نہ آتا ۔ جس سے بے چارے طوطی اپنے استان کو باقی دنیا کی مانند مستحکم رکھتے اور اس میں کوئی ایسا طریقہ جاری کرسکتے ۔ جس سے طوطیوں کی روز مرہ کی مشکل زندگی بہر طور گزر بسر سکتی۔
طوطیوں کے استان سے کچھ طویلے ۔اصطبلوں ۔ نقار خانوں اور دیگر چمن آرائیوں سے بھی آگے اور دور جو عام طوطیوں کے لئیے اتنی دور تھا کہ اسکا نام یا پتا ٹھکانہ کسی طوطی نے نہیں سنا تھا ۔اور دیکھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ایک بہت بڑے جزیرے پہ ایک خوفناک قسم کا اژدھا رہتا تھا۔جس کی عمر سو سال سے کہیں زائد تھی اور اسی بناء پہ وہ کوئی سا روپ اپنانے پہ قادر تھا۔ اور جسکا باطن ہر روپ میں خبث سے بہر طور لبیریز ہوتا ۔ اور اسکی اسی خوبی کی بناء پہ اس پہ شیطان تب سے مہربان تھا ۔ جب وہ اژدھا ابھی چھوٹا سا تھا جب اسکی عمر چند سال ہوگی کہ شیطانی قوتوں نے اسے اپنی گود لے لیا تھا اور جب سوسال سے زائد عمر ہوئی تو روپ بدلنے کی قدرتی خوبی کے ساتھ شیطان نے اسے ہر قسم کی شعبدہ بازی میں تاک کر دیا ۔ اور وہ اژدھا ایسے ایسے شعبدے دکھانے لگا کہ جن پہ اچھے اچھوں کو اصلی ہونے کا دہوکا ہوجاتا اور یہ دہوکہ تاحیات رہتا۔ جبکہ شعبدے صرف اور صرف دہوکہ ہوتے اور جن کی حقیقت محض فریب نظر کے سوا کچھ نہ ہوتی ۔ وہ اژدھا شعبدوں ۔دہوکے اور دھونس سے اپنے زہر سے آلودہ کرنے کے بعد اپنے زیر اثر دوسری چمن شاہیوں اور نقار خانوں کے ساتھ اتحاد کرلیتا ۔اور انہیں اپنا اتحادی بنا لیتا۔ اور جو چرند پرند ۔ یا چمن آرائیاں اور نقار خانے یا استان اسکے شعبدوں کو سمجھ جاتے اور اس کے دھوکے میں نہ آتے ۔ انھیں اپنے اتحادیوں اور شیطانی قوتوں کے بل بوتے پہ نہس تہس کردیتا۔ اور ایسا کئیے بغیر اسکا اپنا وجود خطرے میں پڑ جانے کا خطرہ تھا ۔کیونکہ شیطان کے ہاتھ بعیت ہوتے وقت شیطان کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ جب تک وہ دہوکے باز اژدھا دوسروں کو دہوکے دھونس سے زیر کر کے شیطانی ٹولے میں شامل کرتا رہے گا تب تک اژدھا اور اسکے جزیرے پہ اسکی شاہی قائم رہے گی اور باقی چمن آرئیوں ، نقار خانوں۔ طویلوں۔ اصطبلوں اور استھانوں پہ بھی اسکا دبدبہ قائم رہے گا۔
ادہر معصوم فطرت طوطیوں کے استان میں بنگلہ بھگت اور بگلا بھگت قسم کے رہنمائی کے دعویدار طوطیوں میں سے ایک بگلا بھگت طوطی۔ جو دیگر رہنماء اور دانشور قسم کے طوطیوں سے دوچار ہاتھ زیادہ چالاک چتر تھا ۔کو کسی طور اس خوفناک اور نہائت طاقتور اژدھے کی بھنک پڑی اور اس بگلہ بھگت نے اپنی بولی اور ٹیں ٹیں کو سب کو سنانے اور دیگر طوطیوں کی بولتی بند کرنے کے لئیے ۔ اژدھے کے پاس جانے اور امداد طلب کرنے کا ارداہِ خبث کیا۔ اژدھے کی تو باچھیں کھل گئیں اور رال معصوم طوطیوں کے نئے نئے استان پہ ٹپکنے لگی۔ بگلا بھگت طوطی اور اژدھا اور اژدھے کی شیطانی منڈلی سر جوڑ کر بیٹھے کہ کس طرح معصوم طوطیوں کو اپنے فریب اور شعبدوں کے زیر اثر کیا جائے۔ کیونکہ اگر اژدھا اپنی اصلی اور مکروہ شکل میں طوطیوں کے استان وارد ہوتا تو لازم تھا کہ طوطی لاکھ معصوم سہی مگر اپنے استان کی خاطر مرنے مارنے پہ اتر آتے ۔ اور اژدھے کی طوطیوں کو ایک ہی نوالے میں تر کرنے کی دال نہ گلتی۔ ایسے میں بگلہ بھگت طوطی نے ایک تجویز اژدھے اور اس کی منڈلی کو بتائی اور اژدھے سے گزارش کی کہ
"مائی باپ آپ کو تو ہر روپ بدلنے پہ قدرت ہے۔ طوطیوں کو اپنے ہمسائے میں نقار خانے کی چیل کوؤں سے سے ہمیشہ دھمکیاں وغیرہ ملتی رہتی ہیں اور بے سروسامان طوطی بے چارے سہم کر رہ جاتے ہیں ۔ ایسے میں آپ اژدھے کی بجائے ایک جسیم اور طوطیوں کے ہمدرد بلے کی صورت ہمارے استان آئیں اور بے وقوف سادہ دل طوطیوں کو انکے ہمسائے نقارخانے کی چیل کؤؤں کے مقابلے پہ اپنی ہیبت اور طاقت طوطیوں کے پلڑے میں ڈالنے کا تاثر دیں۔ اور اگر ہوسکے تو کچھ سامان حرب بھی بے سروسامان طوطیوں کے لئیے لائیں۔اور کچھ سامان ِ عیش نشاط خرانٹ قسم کے رہنما دانشور طوطیوں کے لئیے ساتھ لے آئیں ۔ اور میرے لئیے بس اور کچھ ہو یا نہ ہو آپ کا میرے لئیے اس بندوبست کا اہتمام اور سامان ہی کافی ہوگا کہ مجھے میری بولی ۔ بنگلہ بھگت طوطیوں اور دیگر بولیاں بولنے والے طوطیوں کو سنانے اور انکی بولتی بند کرنے کا کلی اختیار ہوگا۔ ”
بگلہ بھگت کی یہ تجویز سن کر اژدھے کی پہلے سے کھلی باچھیں اور کھل اٹھیں۔ (یہ الگ بات ہے کہ طوطیوں کے استان پہ اپنا شیطانی اثر رسوخ جمانے کے بعد بگلہ بھگت طوطی کچھ سال دو سال بعد اژدھے کے ایک ہی نوالے میں پہلاشکار ہوگیا۔ اور استان کے ہمسائے نقار خانے کی چیل کوؤں نے اژدھے کی مکاری سے شہ پاتے ہوئے بنگلہ بھگت طوطیوں کا گھونٹ ایک ہی بار بھرتے ہوئے آدھے استان پہ قبضہ جما لیا) ۔آناََ فاناََ بگلا بھگت طوطی کی تجویز پہ عمل کیا گیا۔ وہ دن اور آج کا دن طوطیوں کا بے ضرر وجود ہے اور دہوکے باز اژدھے کا منہ جس کے ذریعئے معصوم طوطی اپنا وجود برقرار رکھنے کی خاطر جدو جہد میں ظالم اژدھے کی شیطان ہوس کا شکار ہورہے ہیں۔
اژدھے نے نہائت شاطر طریقے سے محافظ بلے کا روپ دھارا اور طوطیوں کو زندہ رہنے کے نت نئے گُر سکھانے کے نام پہ شیطانی مطالبات کے لئیے راہ ہموار کرنے لگا ۔ خرانٹ اور رہنماء قسم کے تقریبا ََ سبھی طوطی پہلے ہی ہلے میں اژدھے کے سامان عیش عشرت اور کام و دہن کے ساتھ ساتھ دیگر طوطیوں پہ ظلم و ستم روا رکھنے کے اختیار پہ اژدھے اور اسکی شیطانی قوتوں کے اسیر ہوگئے۔ چند ایک ہی رہنماء قسم کے طوطی اژدھے کے شعبدوں کا شکار نہیں ہوئے ہونگے ۔ جن کے بارے بھی وسوخ سے نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں بھی ان طوطیوں کی نیت کا اثر ہے یا اژدھے کی کوئی چال ہے ۔جبکہ طوطیوں کی اصل طاقت جو معصوم اور لاتعداد اور انگنت طوطیوں کی صورت میں تھی۔ اسے قابو کرنے کے لئیے اژدھے نے جو طوطیوں کے ہمدرد اور دوست بلے کا روپ دھارے ہوئے تھا۔ اس مکار بلے نے اپنی شیطانی رسوخ سے طوطیوں کے وجود سے ایسے ایسے اصیل مرغے کشید کئیے۔ جو در حقیقت اژدھے کے تخم کی وجہ سے اس کی نسل کے مطابق خود چھوٹے موٹے سانپ تھے۔ مگر اصیل مرغوں کا روپ دھارے ہوئے تھے۔ اور انکا روپ و رنگت طوطیوں سے مشابہ تھی ۔جنھیں رہنماء اور حقیقی طوطی سمجھ کر طوطی اپنا سب کچھ ان پہ نچھاور کرتے رہے ۔ اور اپنا پورا اختیار انھیں سونپ دیتے ۔ اور جہاں کہیں طوطی اڑی کرتے ۔ نسلی سنپولئیے جو اصیل مرغوں کی ماند ہر وقت اپنی قلغی پھولائے رہتے اور چھاتی تان کر چلتے۔ وہ آگے بڑھ کر طوطیوں کا اختیار بجائے خود سنبھال لیتے۔ اور طوطیوں کو مار مار کر انکی درگت بنا دیتے۔ جب بلے نے نے دیکھا کہ طوطی اصیل مرغوں کو بھی آنکھیں دکھانے کے قابل ہوگئے ہیں۔ تو اس نے اختیار کا کام کچھ مرغیوں کو سونپا ۔ مرغیاں جو روپ رنگ میں طوطیوں سے مشہابت رکھتیں تھیں ۔ مگر درحقیت اژدھا زادیاں تھیں ۔ اژدھا جس نے طوطیوں کے دیس میں محافظ بلے کے طور اپنا سر گھسیڑ رکھا تھا اور من پسند طوطیوں کو تر نوالہ بنانے کے ساتھ ساتھ شیطان کی شرطوں کے عین مطابق ہر اس رواج اور رسم کو پروان چڑھا رہا تھا جس سے طوطیوں کے معصوم جسموں میں تن حرامی ، منافقت۔ جھوٹ۔ ہیراپھیری۔ ریاکاری۔ دہوکہ دہی۔ فریب۔ جہالت۔ الغرض ہر شیطانی عادت عام ہو۔اژدھے نے کچھ سال قبل جمہوریت نامی مرغی طوطیوں کے سر منڈھ رکھی ہے ۔جس کے بطن سے اژدھے کے شیطانی انڈے پیدا ہورہے ہیں۔ بھولے طوطی جمہوریت نامی مرغی کو روز ادہر ادہر کر دیکھتے ہیں کہ شاید جمہوری انڈوں کوئی اصلی قسم کا اصلی ۔ نسلی اور حلالی طوطی برآمد ہوا ہو مگر جمہوریت نامی مرغی کے انڈوں سے ایک سے بڑھ کر ایک شاہ ناگ اور راجا ناگ جنم لے رہاہے۔جو شکل صورت میں تو طوطیوں سے ملتے جلتے ہیں ۔ مگر ان کے باطن میں شیطان نے اژدھے کی وساطت سے اپنا تخم داخل کر رکھا ہے۔ اب طوطیوں کا یہ عالم ہے کہ وہ ہر قسم کی منافقت ۔ جھوٹ ۔ ہیراپھیری ۔ دہوکہ دہی ۔ اور تمام لعنتوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے انکھیں بند کئیے ۔کانوں میں انگلیاں ٹھونسے ۔ سانس روکے ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ اصیل مرغوں اور جمہوریت نامی مرغی کے گندے انڈوں کے غلیظ چھلکے اور شیطانی تخم سے جنم لینے والے سنپولئیے انکے استان کو غلیظ نہیں کر رہے ۔ یہ انکے استان کی داستان نہیں جیسے شاید کسی دور دیس کا کوئی واقعہ ہو۔
ویسے تو اس نقار خانے یا استان میں سبھی طوطی اپنی اپنی بولی سے وہ شور مچاتے ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی مگر طوطیوں کو پھر بھی گلہ ہے کہ نقار خانے میں انکی کوئی نہیں سنتا۔طوطی سارا سارا دن دانہ روزی کے لئیے سب لعنتیں برداشت کرتے ہیں ۔ ہر ذلت سہتے ہیں ۔ ایک سے ایک بڑھ شاہ اور راجا قسم کے سنپولئیوں کو بھگتتےہیں ۔ مگر مجال ہے اپنے پہ ہونے والے ظلم پہ آواز اٹھاتے ہوں ۔ اگر اسمیں بلے کا روپ دھارے اژدھے اور شیطان کا قصور ہے تو ظلم برداشت کرنے اور اس پہ احتجاج نہ کرنے پہ طوطیوں کا قصور اژدھے۔ بلے اور شیطان کے ظلم سے بڑھ کر ہے۔
۔ بے چارے بھولے طوطی!!!
Javed Gondal Barcelona Spain جاوید گوندل ، بآرسیلونا ۔اسپین ۲۳ جون دو ہزار بارہ ۲۰۱۲ء
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: Barcelona, Gondal, Javed, Spain, ہ, ہوس, ممکن, منڈلی, مربے, نقار خانہ, نقار خانے, چوں چوں, نیک ۔ بال و پر, گوندل, گھونسلا, گھوڑوں, گدھوں, ۲۳, پوشاک, پاک, پاکیزہ ت, ء, ا ستھان, اژدھے, اژدھا, اسپین, اصطبل, اطوار, بگلا, بھگت, بآرسیلونا, باسی, تحقیق, تخم, جون, جاوید, دل جلے, دو ہزار بارہ ۲۰۱۲, دیس, شیطانی, شکار, طوطی, طوطیوں, عمدہ
اگر اس نوٹس
بھوک۔ تسلسل اور بجٹ ڈرامہ۔
آج ایک اخبار نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا واقعہ بیان کیا ہے کہ کسطرح عمرِ فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بیت المال سے دوائی کے طور شہد کی چند چمچ پرابر تھوڑی سی مقدار کے حصول کیلئے مسجد میں درخواست کی تھی۔ اگر اس واقعے کو مثال بنا کر پیش کیا جائے اور غالب گمان یہ ہے کہ گیلانی و زرداری سے استفسار کیا جائے تو انکےکسی بانکے چھبیلے وزیر کی طرف سے ڈھٹائی سے یہ بیان آئے گا کہ گیلانی اور موجودہ صدر بھی اپنے شاہانہ اخراجات کے لئیے کابینہ اور اسمبلی سے اجازت لیتے ہیں۔ وہ خود سے تو کروڑوں کے شاہی اخراجات نہیں کرتے ۔ جیسےموجودہ بجٹ میں پاکستان کے سابق صدور اور وزرائے اعظم کو تاحیات مراعات دینے کی رعایت شامل ہے جس سے نہ صرف زرداری ،گیلانی ،نواز شریف ، رفیق تارڑ ا بلکہ آئی ایم ایف کا چھیل چھبیلا اورتین ارب کا مالک امپورٹیڈ وزیر اعظم شوکت عزیز اور بردہ فروش سابق صدر مشرف کے لئیے بھی عمر بھر مراعات شامل ہیں۔اور یہ سلسہ ہائے داراز صرف یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ یہ بہت سی جائز اورنا جائز صورتوں میں ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔.
ایسی نااہل حکومتوں کے ہاتھوں پاکستان کا کوئی ایک المیہ ہو جو بیان کیا جا سکے۔ یہاں تو ہر لمحے ہر آن ایک المیہ ہوتا ہے ۔جس سے پاکستان دوچار ہے۔ مالِ مفت دلِ بے رحم کے مصداق اوباش اور نااہل لوگوں میں ریاست کے اہم اور حساس عہدوں کی بندر بانٹ کی جاتی ہے ۔ جس سےایسے عہدیدار ملک قوم کے ساتھ اپنی وفاداری نبھانے کی بجائے سیاسی پارٹیوں اور اپنے آقا و مربی سے وفاداری نباہتے ہیں۔ اور بجائے اس کے اپنے عہدے سے ملک و قوم کو فائدہ پہنچانے کے الٹا ساری عمر اپنی نااہلی اور چور دروازے سے عہدہ حاصل کرنے کی چوری کی وجہ سے حکومتوں کی خوشامد میں مصروف رہتے ہیں ۔اور اس پہ طرف تماشہ راشی اور بد عنوان حکومت کے گٹھ جوڑ سے پاکستان کے تن سے خون کا آخری قطرہ تک کشید کرنے کے جتن کئیے جاتے ہیں ۔جس طرح پاکستان کے وزیر اعظم گیلانی نے سپریم کورٹ کے واضح حکم کے باوجود ملک قوم کے مفاد میں سپریم کورٹ کے حکم کی تکمیل بجا لانے کی بجائے ۔وزیر اعظم نامزد کرنے والے زرداری کے ساتھ اپنی وفاداری نباہ کر پاکستان کی تاریخ میں عدلیہ کے حکم کی واضح نافرمانی کرتے ہوئے ڈھٹائی اور سینہ زوری کی ایک غلط روایت قائم کی ہے۔ اور اب یہ عالم ہے کہ پورا نظام مفلوج ہوچکا ہے۔
جسطرح مشہور ہے کہ گر بدنام ہوئے تو کیا نام نہ ہوگاَ ۔کے مطابق پیپلز پارٹی نے شروع دن سے ہر وہ قدم اٹھایا کہ کوئی آئے اور انھیں حکومت سے باہر کر دے۔ تانکہ پیپلز پارٹی کو حسب عادت سیاسی شہادت کا ایک اور موقع مل جاتا ۔مگر پیپلز پارٹی کے نصیبوں یوں ہونا سکا اور بجائے اسکے کہ وہ خدا کے دئیے اقتدار کو ایک ذمہ داری سمجھتے ہوئے اسے مکمل طریقے سے نباہنے کی کوشش کرتی ۔الٹا انھوں نے اسے نام نہاد جمہوریت کا نام دے کر سینہ زوری شروع کر دی۔ حالانکہ اگر جتنی توانائی پیپلز پارٹی کے حکمرانوں نے طاقت اور نام نہاد جمہوریت کے نام پہ مستی اور سینہ زوری پہ صرف کی اگر یہ اس سے نصف توانائی عوام کے مسائل حل کرنے پہ خرچ کرتے۔ تو آج ملک و قوم اور خدا کے حضور سرخرو ہوتے۔ لیکن ایسا کرنا پیپلز پارٹی کی سرشت میں شامل ہی نہیں۔ پیپلز پارٹی کی سیاست ہی ایجی ٹیشن سے شروع ہو کر ایجی ٹیشن پہ ختم ہوتی ہے۔ خواہ یہ پانچ سال تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک حکمران ہی کیوں نہ رہے ہوں ۔الیکشن ہونے دیں ۔جیتنے یا ہارنے کے بعد یعنی ہر دونوں صورتوں میں پیپلز پارٹی پاکستان کے اداروں کا رونا رو کر اپنے آپ کو سیاسی مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرے گی۔
دوسری طرف ماضی میں وفاق میں دو دفعہ حکمران رہنے والی اور پنجاب میں اس وقت حکمران ۔اور پاکستان کی دوسری بڑی پارٹی۔ اور اپنے آپ کو مستقبل میں پاکستان کے حکمران سمجھنے والی نون لیگ ۔سے کیا امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں؟۔ جو اخباری اطلاعات کے مطابق مینار ِپاکستان کے نیچے اپنا حکومتی کیمپ لگائے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ یا مبینہ غیر منصفانہ لوڈشیڈنگ کے خلاف اپنا ریکارڈاحتجاج کروارہے ہیں ۔ مانا کہ بجلی پیدا کرنا اور اسے سب صوبوں میں برابر تقسیم کرنا وفاق کے ذمے ہوگا ۔اورایسا کرنے میں پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت ناکام رہی ہے۔ مگر کیا پنجاب پولیس کے ہاتھوں ستائے ہوئے پنجاب کے عوام اور تھانہ کلچر کی من مانیا ں اور پنجاب پولیس میں غنڈہ گرد عناصر کے ہاتھوں مظلوم لوگوں کو نجات دلانا۔ اور ایک منصفانہ تھانہ کلچر قائم کرنا ۔کیا پنجاب حکومت کے فرائض میں نہیں آتا؟۔ آج بھی پنجاب پولیس کے زیر سرپرستی اور پنجاب کے اکثر و بیشتر تھانوں میں بھینس کی چوری سے لیکر قتل جیسے سنگین معاملات پہ باہمی فریقوں سے مُک مکا کے بعد پرچے رپوٹیں اور ایف آئی آر لکھی جاتی ہیں۔ اور عدالتوں سے بالا کمزور فریق کو راضی نامے پہ زبردستی مجبور کیا جاتا ہے۔ جس کے پیچھے طاقتور کا پیسہ اور اثر و رسوخ کام کر رہا ہوتا ہے۔ اور عام شریف آدمی کی یہ حالت ہے کہ وہ بھرے بازار میں لٹ جانا برداشت کر لیتا ہے۔ مگرپولیس کے خوف اور رشوت خوری کی وجہ سے تھانے میں رپورٹ کرانے سے ڈرتا ہے۔ اگر پنجاب حکومت یا دوسرے لفظوں میں ن لیگ اپنی حکومت میں اپنی پولیس کو درست نہیں کرسکی تو اس سے دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں۔ کہ ایسا نہ کرنے میں پنجاب حکومت کی نیت میں اخلاص کی کمی ہےیا پنجاب حکومت میں اہلیت کی کمی ہے ۔کوئی ایک وجہ ضرور ہے کہ پنجاب کے حکمرانوں کے بلند بانگ دعوؤں کے باجود پولیس کا محکمہ بجائے سیدھا ہونے کے مزید بگڑ چکا ہے۔جس سے ہر دو صورتوں نقصان سادہ لوح عوام کو پہنچ رہا ہے۔ پولیس کا محکمہ تو محض ایک مثال ہے۔ ایسی کئی مثالیں گنوائی جاسکتی ہیں۔ جبکہ مینار پاکستان کے سائے میں پنجاب حکومت کے کیمپ لگانےسے ،خدا جانے عوام کے کتنے ضروری کام رہ گئے ہونگے ۔پنجاب کے وزیر اعلٰی کے بس میں سفر کرنے سے نہ جانے کیوں ضیاءالحق کا سائیکل چلانا یاد آگیا ۔ہر باشعور شہری جانتا ہے کہ اسطرح کے پروپگنڈا ہ اور چونکا دینے والے اقدامات سے وی آئی پیز کی سیکورٹی اور تشہیر کے متعلقہ اقدامات پہ کس قدر خرچ آتا ہے ۔ اور جب حکمران اس طرح کے غیر ضروری کاموں میں اپنا قیمتی وقت ضائع کریں۔ تو قوم کے کس قدر ضروری کام حکمرانوں کی توجہ اور وقت نہ ملنے سے ادہورے رہ جاتے ہیں۔ یہ ماننے کو عقل تسلیم نہیں کرتی کہ اس بات کا ادراک پنجاب حکومت کے حکمرانوں کو نہیں ہوگا ۔اگر انہیں اس بات کا ادراک نہیں ہے تو یہ نااہلی ہے ۔اور اگر ادراک ہوتے ہوئے انہوں نے یوں کیا ہے ۔تو عام آدمی کو بے وقوف بناتے ہوئے محض پیپلز پارٹی کی نااہلی کے مقابلے پہ اپنا سیاسی گول کرنے کی تگ دور میں اپنے فرائض سے غفلت برتنے کا ارتکاب ہے۔
پاکستان کی ایک اور سیاسی جماعت عمران خان کی تحریک انصاف ہے ۔ جسے پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی قوت تسلیم کروانے کا پراپگنڈہ صبح شام کیا جاتا ہے۔ وہ کن ہاتھوں میں کھیل رہی ہے اور اسکے باہمی اجزائے ترکیبی کی دم پخت کیسی ہے ۔اس کے بارے ہر واقف حال جانتا ہے۔ عمران خان کے دل میں پاکستان کے لئیے خلوص بدرجہ اُتم موجود ہوگا ۔مگر چونکہ سیاسی جماعت کسی ایک رہنما کانام نہیں ہوتا ۔ اسمیں شامل سبھی چہرے مل کر ایک خاص تصویر بناتے ہیں اور تحریک انصاف میں شامل چہروں سے تحریک انصاف کی جو تصویر بن کر سامنے آتی ہے ۔و ہ سب کے سامنے ہے ۔ اور اقتدار مل جانے کی صورت میں صرف اسکا کوئی ایک رہنماء نہیں بلکہ اسمیں شامل چہرے ملکر ملک و قوم کی نیا کو پار لگانے یکا جتن کرتے ہیں اور جب بکل میں چور بٹھا رکھے ہوں تو قوم کی نیا پار لگنے کی بجائے ڈوب جانے کے خدشات و امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ انقلابی تبدیلی کے لئیے صرف عمران خان کے وعدے اور دعوے ہی کافی نہیں ۔ جبکہ تحریک انصاف کے علمبردار ابھی تک اس انقلابی تبدیلی ۔۔جس کے وہ دعویدار ہیں اس کے لئیے ٹھوس تجاویز ۔ بہتر طریقہ کار اور متبادل نظام واضح کرنے میں ناکام ہیں۔
اسکے بعد پاکستان کی وہ علاقائی ، لسانی اور گروہی پارٹیاں یا پریشر گروپ ہیں۔ جنکے وجود کے ہونے کا مقصد ہی اپنے وزن کو اقتدار نامی ترازو میں ڈال کر ۔بلیک میلنگ اور آنے بہانوں سے اقتدار میں اپنے جثے سے کہیں زیادہ حصہ وصول کرنا ہے۔
مذہبی جماعتیں اپنے ممکنہ اتحاد و نفاق اور پاکستان میں متواتر عالمی دخل در معقولات نے انھیں اس قابل نہیں چھوڑا ۔کہ انکی کسی معقول بات بھی عوام کان رکھنے کو تیار ہوں۔
فوجی حکومتوں نے جس بری طرح پاکستان کا حلیہ بگاڑا ہے۔ وہ سب کے سامنے ہے ۔ فوج سرحدوں کی بہتر نگہبانی صرف اسی صورت میں کر سکتی ہے۔ جب وہ خود اقتدار کی دیگ پہ قابض نہ ہو ۔ پاکستان کی بڑی جنگیں فوجی سربراہوں کے دور میں ہوئیں ۔ مشرقی پاکستان کے سابقہ ہونے۔اور بنگلہ دیش کے قیام کا واقعہ بھی فوجی حکومت میں ہوا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے دہشت گردی کے خلاف موجودہ جنگ میں کہ بغیر کسی تامل اور حیل حجت کے امریکہ کے سامنے پاکستان کو چارے کے طور پہ پھینکنے والا بھی ایک فوجی حکمران مشرف تھا ۔ جس کا نتیجہ ہم آج تک بھگت رہیں ۔اور خدا جانے کب تک پاکستان اس جنگ کے بداثرات سمیٹتا رہے گا۔
یہ مندرجہ بالا فریق ہیں جو پاکستان کے اقتدار اعلٰی میں رہنے۔ یا ریاست پاکستان کے اقتدار اعلٰی حاصل کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ اور ممکنہ طور پہ پاکستان کے مستقبل کے حکمران ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں ان سے کسی تبدیلی اور اسکے نتیجے میں پاکستان کے وفاقی بجٹ میں کسی عمدہ پیش رفت کا ہونا ۔ یا ملک و قوم اور خود پاکستان کے لئیے نتیجہ خیز انقلابی تبدیلی لانا ناممکن ہے ۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ایسے حالات میں پچھلے تریسنٹھ سالوں کی طرح اگلا بجٹ اس سے بھی ظالم اور خود فریب ہوگا ۔جس کی قیمت پاکستان اور پاکستان کے زندہ درگو عوام کو اپنی بھوک اور بے چارگی سے اٹھانی ہوگی۔ خاموشی سے ظلم سہنا اور اپنے پہ ظلم کرنے والے ظالم کا ہاتھ نہ پکڑنے سے بڑھ کر کوئی ظلم نہیں ہوتا ۔جب تک پاکستان کے عوام خود ایسے ظلم کا راستہ روکنے کی جدو جہد نہیں کرتے ۔اسطرح کے اعداو شمار کے گورکھ دھندے بجٹ کے نام پہ آتے رہیں گے۔ جس میں اربوں کے حساب سے غبن اور لوٹ کھسوٹ کرنے والے نااہل حکمرانوں کے لئیے تاحیات مراعات تو ہونگی ۔مگر عوام کے بھوکے بچوں کے کے لئیے دو باعزت روٹیوں کے لئیے محض جھوٹے وعدے اور روٹی کپڑا اور مکان جیسے خوشنما نعرے ہونگے۔
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین تین جون دو ہزار بارہ ء
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: Gondal, Javed, Javed gondal, قوم, قائم, مقدار, ملک, مینار پاکستان, مکان, مالک, محکمہ, مراعات, مربی, مسجد, مصداق, چمچ, نواز شریف, چوری, چھیل چھبیلا, چھبیلے, نا جائز, نافرمانی, نااہل, نعرے, وفاداری, ڈھٹائی, واقعہ, ڈرامہ, وزیر, وزیر اعلٰی, وزیر اعظم, وزرائے اعظم, کی, کپڑا, کابینہ, کروڑوں, گمان, گوندل, گیلانی, پنجاب, پولیس, پاکستان, آقا, آئی ایم ایف, المیہ, امیر المومنین, امپورٹیڈ, اوباش, اخبار, ارب, اسمبلی, اسپین, استفسار, بندر بانٹ, بیان, بھوک, بآرسیلونا, بانکے, بجٹ, بد عنوان, بردہ فروش, تاحیات, تسلسل, تشہیر, جیسے, جاوید, جاوید گوندل, جائز, حکم, خوشنما, خوشامد, درخواست, رفیق تارڑ, روٹی, روایت, ریاست, راشی, رعایت, زرداری, سینہ زوری, سپریم کورٹ, سابق, شہد, شوکت عزیز, شاہی اخراجات, شاہانہ اخراجات, صدور, صدر, صدر مشرف, طرف تماشہ, عہدیدار, عمر فاروق, عدلیہ, غلط, غالب