RSS

Tag Archives: انگیز

مہلت


مہلت۔
حکمران ہوش کے ناخن لیں۔۔۔

جنرل مشرف کے دور میں اس خطےکے ممالک کے عام شہری ہی کیا۔ اچھے خاصے تجزئیہ نگار ہمیں امریکہ کی ایک سیٹلائٹ ریاست گردانتے تھے۔ آج بھی پاک امریکہ تعلقات کی تعریف کرنا اتنا آسان نہیں۔ کہیں تو یوں لگتا ہے کہ  دونوں ممالک یک جان دو قالب ہیں ۔اور کچھ معاملات میں دو بدو آمنے سامنے نظر آتے ہیں۔ پاکستان سے باہر خطے کے دیگر ممالک کے سنجیدہ سوچ رکھنے والے اور حالات حاضرہ پہ نظر رکھنے والے اچھے خاصے دانشور۔ پاکستان کے بارے میں کینفیوز ہوجاتے ہیں اور الجھ جاتے ہیں۔ کہ آیا امریکا پاکستان کا دوست ہے یا دشمن؟۔ اس ضمن میں صلالہ پوسٹ پہ حملہ۔ ایبٹ آباد کے قریب حملہ۔ پاکستان میں افغانستان سے دہشت گردی کا اہتمام ۔اور دیگر بہت سے معاملات۔ باہمی تعلقات کی رسہ کشی کو جہاں نمایاں کرتے ہیں ۔ وہیں روز اسلام آباد کے نت نئے دوروں پہ آئے۔ امریکی اعمال اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل در معقولات۔ اسکول اساتذہ کی تربیت سے لیکر فارمی مرغیوں کے گوشت اور انڈوں کی اقسام اور ان پہ بھاؤ تاؤ اور مول تول  تک میں۔ ناک گھسیڑتے  امریکی۔ پاکستان و امریکہ کے تعلقات کی ایک پیچیدہ داستان بیان کرتے ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آج کی دنیا ۔ بین الاقوام مفادات کی دنیا ہے ۔ جس میں کوئی  ملک کسی کا حتمی دوست نہیں ہوتا۔ اور مفادات کے تابع دوستیاں اور دشمنیاں طے ہوتی ہیں۔

ایک مشہور مغربی کہاوت ہے کہ ۔۔۔ "نئے دشمن کی نسبت ایک دیرینہ دشمن بہتر ہوتا ہے”۔۔۔۔ یعنی دیرینہ دشمن کے طریقہ واردات کو آپ سمجھ چکے ہوتے ہیں۔ جب کہ نئے دشمن کے بارے میں آپ مکمل اندھیرے میں ہوتے ہیں۔امریکی۔ بشار الاسد کی امریکی شرائط ماننے پہ آمادہ حکومت کو۔  ایک کمزور حکومت کو۔ اپنے اور اسرائیل کے وسیع تر مفاد میں قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ داعش کا حیرت انگیز طریقے سے وجود میں آنا۔ تیزی سے ابھرنا ۔ پھیلنا اور پھر سکڑنا۔ عراقی باقاعدہ فوج کے ساتھ سنی کرد ” پیش مرگہ” کی داعش کے خلاف تیزی سے پیش قدمی۔ پھر اسے نظر انداز کرنے کی پالیسی اور عراقی و ایرانی  شعیہ ملیشیاء کا داعش کے خلاف میدان میں اترنا۔ داعش کا شامی حکومت کے خلاف اعلان جنگ ۔اور اسرائیل کی بجائے۔ بیک وقت سعودی عرب اردن اور دیگر کے خلاف صف بندیوں کی دھمکی ۔اور اقدامات۔ امریکہ کی طرف سے کچھ لوگوں کی تربیت اور امداد ۔جو بیک وقت شامی حکومت اور داعش کے خلاف امریکی مفادات کے لئیے میدان میں اتریں ۔ عرب ممالک کا بیک وقت بشار الاسد اور داعش کے خلاف صف بندی۔ یہ وہ اجزائے ترکیبی ہیں جن سے اس خطے کی نئی تصویر بننے جارہی ہے۔ مگر یہ اجزائے ترکیبہ ابھی مکمل نہیں ۔ کیونکہ آنے والے دنوں میں داعش اور شامی حکومت میں امریکہ کے خلاف کسی حد تک مفاہمت ہوسکتی ہے۔

اس پورے خطے کو میدان جنگ بنانے میں جس میں پاکستان کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس میں خام مال  کا زیادہ حصہ پاکستان سے لیا  جانا مقصود ہے اور اس خام مال کی تیاری راتوں رات نہیں ہوئی۔ بلکہ اسے کاشت کرنے اور پروان چڑھانے میں۔ آپکے دشمنوں نے کئی دہائیاں لگائی ہیں  قرضہ ۔ مدد۔ اور بھیک کی مد میں اربوں ڈالرز خرچ کئے ہیں۔ درجنوں سالوں سے منصوبہ بندی کی ہے۔ مسلمان ملکوں میں اپنی مرضی کے سربراہ مسلط کر کے قوموں کو بانجھ کیا ہے۔ قوموں کو بھیڑ اور منتشر ہجوم میں تبدیل کیا ہے۔ جو قومیں تاریخی اور پرانی تھیں  مثلاََجیسے ترکی وغیرہ  اور انہوں نے اپنے حکمران خود چنے۔ وہ آج قدرے مستحکم  اور بہتر پوزیشن میں ہیں ۔ جن ممالک کے حکمرانوں نے امریکہ و مغرب کی منشاء کے سائے میں زندگی گزاری۔ آج ان ممالک اور قوموں کو ۔ غداری۔ فحاشی ۔آوارگی۔ نفرت۔ احساس محرومی۔ لاتعلقی۔اور بالآخر خانہ جنگی جیسے مسائل بھگتنے پڑ رہے ہیں اور بھگتنے پڑیں گے۔ امریکہ کے مسلط کردہ حکمرانوں نے اس خطے کی قوموں میں جوہر قابل پیدا ہی نہیں ہونے دیا۔ انھیں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے کو دے  دی گئیں۔ اور یہ آپس میں دست و گریباں ہوئے ۔ایک کو تھپکی۔ دوسرے کو ڈانٹ اور تیسرے کو اشارہ ۔ کئی دہائیوں سے امریکہ کی اس خطے کے بارے خارجہ پالیسی یہی رہی ہے۔

پاکستان میں اسکندر مرزا ۔ایوب ۔ یحییٰ خان۔ ضیاء۔ مشرف کے لمبے آمرانہ دور اقتدار  میں۔ مقامی جوہر قابل  کو پروان چڑھنے اور  مقامی صنت و حرفت کے پھلنے پھولنے کو   بھاری امریکی منصوبوں سے روکا گیا۔ ملک میں اپنے وسائل سے ترقی کرنے ۔ اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے اور خود انحصاری کے خواب کو۔ ایک بھوکے ننگے ملک کی تصویر میں بدل دیا گیا۔ پاکستان  کو امریکہ اور مغرب سے درآمد شدہ منصوبوں اور ماہرین کی درآمد سے رفتہ رفتہ ۔اور بالآخر محض ڈالروں کی آمدن تک محدود کر دیا گیا۔ جس میں امریکی چہیتوں کے لئیے تو آسانیاں اور فروانیاں تھیں۔ انہوں نے ان میلنز ڈالرز سے خوب جیبیں بھریں مگر بدقسمتی سے عام  عوام کے حصہ میں یہ قرضہ  اور اس کا سود چکانے کے لئیے بھاری ٹیکس آئے۔ اور  آئی ایم ایف  جیسے عالمی ساہوکار ادارے پاکستانی اناج  کی قیمت پہ اثر انداز ہونے لگے۔   پاکستانی قوم کی ایک بڑی اکثریت  پچاس سالوں سے مسلسل درد زہ بھگتتے بھگتتے ۔ پاکستان میں قسما قسمی کے تعصبات۔ لسانی ۔ صوبائی۔ علاقائی۔ مذہبی۔ مسلکی ۔ گروہی۔ سیاسی۔ اور دہشت گردی جیسے بھیانک مسائل پیدا کرتی چلی گئی اور  اپنے خوابوں کی تعبیر اور بنیادی سہولتوں  سے محروم ہوتی گئی۔

آج یہ عالم ہے کہ ہر شہری ۔ ہر فرد ۔ شاکی ہے اور کسی کا بھی گلا کاٹنے کو تیار ہے۔ اس کی ایک حالیہ مثال لاہور میں نصرانی برادی کے ہاتھوں دو زندہ جلائے جانے والے عام راہگیروں کی ایک مثال ہی کافی ہے۔ نتائج سے بے پرواہ ہو کر تشدد پہ آمادہ ہوجانے اور اچانک کسی انتہائی قدم پہ اترنے سے  پاکستانی عوام  کے مزاج میں مایوسی اور فرسٹریشن کی خوفناک صورتحال سامنے آتی ہے۔ جو کہیں بھی محض کسی ایک واقعے سے ایک خوفناک تصادم میں بدل  سکتی ہے۔

یہ سب محض چند دنوں میں نہیں ہوا ۔ اسکے پیچھے عالمی طاقتوں کی پچاس سالوں سے زائد وہ حکمت عملی ہے۔جس میں ہمارے بے برکتے اور سیاسی شعور اور بصیرت سے عاری۔ بے بس حکمرانوں کی حماقتیں اور بے عملیاں برابر کی ذمہ دار ہیں۔ جن  میں عوام مسلسل پسے ہیں اور ان کے احساس محرومی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے ۔ انکی عزت نفس کو قدم قدم پہ کچلا گیا ہے۔ عوام کی کئی نسلیں جوان ہو چکی ہیں اور انکے حصے میں پچھلی نسل کی نسبت پہلے سے زیادہ مایوسی آئی ہے۔ اور بدستور پاکستان میں عوام کو مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ جہاں کوئی بھی چارہ گر انھیں اپنے مقاصد کے لئیے دھوکے سے استعمال کر سکتا ہے ۔ جس سے مشرق وسطی جیسے حالات پاکستان میں بھی پیدا کئیے جاسکتے ہیں ۔ اس لئیے بھی پاکستانی کرتا دھرتاؤں کو چاہئیے کہ وہ اپنی بقا کی ہی خاطر سہی۔ اپنے عوام کا معیار زندگی بہتر کرنے کی کوششوں کو اپنی اولین ترجیج سمجھیں ۔ اور پاکستان پہ مسلط ۔ورثے میں ملے اس بوسیدہ انگریزی  نظام اور سوچ سے جان چھڑائیں۔ اور ایسی تبدیلیوں کا آغاذ کریں۔ جن سے عوام کی زندگی میں بہتری آئے اور عوام یہ بہتری ہوتے ہوئے محسوس کریں ۔ محض خالی خولی دعووں سے خالی پیٹ بھرنا ناممکن ہوتا ہے۔ ورنہ کوئی وقت جاتا ہے۔ کہ حالات حکمرانوں کے بس سے باہر ہو جائیں گے خدا نخواستہ۔

پاکستان کے حالات کو ہم بہتر سمجھتے ہیں۔ اسلئے پاکستان کے حالات کی مثال بیان کی ہے۔ پاکستان جیسے حالات مشرق وسطی کے بہت سے ممالک کے ہیں ۔مثلاََ  مصر  کو پاکستان کے نقش قدم پہ چلایا جارہا ہے۔ وہاں وہی پاکستان کی طرز کی امریکی پالیسیز ہیں اور السیسی جیسا فوجی جرنیل حکومت میں ہے۔ جبکہ  پاکستان میں بھی سیاسی حکومتیں ابھی تک لرزہ براندام ہیں۔

پاکستان کے اور مشرق وسطی کے منظر نامے کو جو لوگ محض مذہبی نکتہ نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس خطے کے حالات محض اس لئیے بگاڑے گئے کہ عالمی طاقتیں مسلمانوں سے نفرت کرتی ہیں ۔  انھیں اس سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان طاقتوں کے لئیے ہمارا مذھب۔ اسلام ۔ایک اہم فیکٹر ضرور ہے۔ جس میں مسلکی اختلافات کو ہوا دے کر وہ اپنے حق میں کئیش کروانا  چاتے ہیں ۔ مگر انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ۔کہ ان ممالک میں شیعہ بستے ہیں یا سنی ۔ مالکی یا حنبلی ۔ دیو بندی یا بریلوی۔ اہل حدیث یا اہل سنت ۔ عالمی طاقتوں کو محض اپنے اغراض و مقاصد سے دلچسپی ہے۔ جو بہت مختلف ہیں ۔ جہاں خطے کے وسائل سے استفادہ سے لیکر ایسی کسی ممکنہ سیاسی طاقت ۔۔۔۔۔خواہ وہ اسلامی ہو  یا نیم اسلامی مگر جو خطے کے مذھب اور مزاج کی وجہ سے اسلامی ہوسکتی ہے۔۔۔۔۔ ایسی کسی بڑی اور مستحکم سیاسی طاقت کو وقوع پزیر ہونے سے روکنا ہے ۔ جو عالمی طاقتوں کے سیاسی اور معاشی مفادات کے لئیے نقصان  دہ  ثابت ہوسکتی ہے۔ اور انکے  مفادات لئیے چیلنج بن جائے۔ یہ طاقتیں ہندو بنئیے کی سی سوچ رکھتی ہیں اور ہر صورت میں اپنے مفادات کے لئیے۔ دہائیوں پہ محیط منصوبوں پہ عمل درآمد کرتی ہیں ۔ وقتی مفادات کے تحت یہ وقتی یا غیر متوقع طور پہ پیدا ہونے والی صورتحال سے ممکن ہے وقتی طور پہ سمجھوتہ کر لیں ۔یا ۔ایسی صورتحال کو اپنے مفاد میں کئیش کروانے کی کوشش کریں ۔ مگر اپنے حتمی مفادات کو ہمیشہ مد نظر رکھتی ہیں ۔ اور وہ اس سارے خطے کی بے چینی اور خون خرابی اور سیاسی عدم استحکام کو بھی  اپنی ایک کامیابی سمجھتی ہیں ۔کہ انہوں نے ہمیں دنیا کی ترقی و ترویج میں حصہ لینے سے روک رکھا  ہے ۔ خطے کے ممالک کے مسلمان عوام  کی ترقی رکی ہوئی ہے۔ اور  دنیا میں مسلمان ممالک کے ایک بڑے خطے کو کئی دہائیوں سے باہم دست گریباں کر رکھا ہے۔ اور جہاں وہ ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ بات نہیں بنی ۔ وہاں وہ براہ راست اپنی فوجیں اتار دیتے ہیں ۔ عراق اور افغانستان اس کی ایک مثال ہیں۔ اسلئے اس ساری صورتحال کو محض مذہب یعنی اسلام کے خلاف صف آرائی سے کچھ آگے۔ یعنی دنیا میں بنیاء ذہنیت اور اسکے مفادات  کی تکمیل کے تناظر میں دیکھنے کی اور سمجھنے کی ضرورت ہے تانکہ مکمل تصویر سامنے آسکے ۔

جس طرح مشرق وسطی میں کچھ سالوں قبل تک شام کو ایک بہت مستحکم ملک سمجھا جاتا تھا ۔ حکومت کی عوام پہ گرفت بہت مضبوط تھی ۔ شامی مخابرات لوگوں کے گھروں میں پکنے والے کھانوں تک کی تفضیلات کی خبر رکھتی تھی۔  مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ فضاء بنی کہ آج یقین ہی نہیں آتا کہ جبر کی بنیاد پہ قائم شام۔ کل تک مشرق وسطی کا سیاسی طور پہ ایک مستحکم ملک تھا ۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملک وہی مستحکم ہوتے ہیں اور ہر قسم کے اندرونی و بیرونی چیلنجز کا باآسانی مقابلہ کر لیتے ہیں ۔ جن ممالک کے عوام مضبوط اور مستحکم ہوتے ہیں۔ جنہیں اپنے ملک کے اندر آزادی ۔ انصاف اور تحفظ حاصل ہو۔ جہاں مسائل کا حقیقی حل ہو۔ جہاں زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے پالیسیز ترتیب دی جائیں ۔ مقامی طور پہ عوام کے مسائل حل کئیے جائیں ۔روزی روٹی ۔امن عامہ اور  توانائی جیسے بحران نہ ہوں۔ عوام کو احساس تحفظ ہو۔

پاکستانی عوام کے مسائل وہی بنیادی ضرورتوں کے نہ  ہونے سے متعلق ہیں ۔ جنہیں حل کرنے کی بجائے حکمران ہمیشہ دور کی کوڑی لاتے رہیں ہیں۔ اس لئیے شتر مرغ کی طرح مسائل سے اغماض برتنے کی بجائے انہیں جنگی بنیادوں پہ تیز ترین حکمت عملی کے تحت حل کیا جاناچاہئیے۔ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی فیصلوں اور اقدامات کرنے سے سے ہی حالات بہتر کئیے جاسکتے ہیں ۔
ورنہ پاکستانی عوام میں بے بسی اور مایوسی کی انتہاء کو چھوتا جو غصہ ان کے دلوں میں پل رہا ہے وہ کبھی بھی خوفناک صورتحال اختیار کر سکتا ہے۔ پاکستان میں اگر کبھی خدا نخواستہ حالات قابو سے باہر ہوئے اور حکمران طبقے کو تو ہزیمت اٹھانی ہی  پڑے گی مگر ملک و قوم کا بہت نقصان ہوگا۔
یہ ایک معجزہ ہے کہ پاکستان میں باہمی ٹکراؤ کے سارے اجزائے ترکیبی ہونے کے باوجود۔پاکستانی قوم نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا ۔ مگر  حکمرانوں کو  بھی اس معجزہ کو قدرت کی طرف سے حالات بہتر کرنے کے لئیے ایک  مہلت سمجھنا چاہئیے۔ اور عوام کے حالات بہتر کرنے کے لئیے انتھک کوشش کرنی چاہئیے۔

جاوید گوندل   ۔

۱۸ مارچ  ۲۰۱۵۔بارسیلونا  

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

کولبیرٹ ازم ۔ برصغیر ہندؤستان۔ اور برئنیر رپورٹ۔چوتھی قسط


کولبیرٹ ازم ۔ برصغیر ہندؤستان۔ اور برئنیر رپورٹ۔ چوتھی قسط۔

برنئیر کی ہندؤستان کے بارے ۔مذہب سے لیکر خاندانی رسم و رواج ۔سیاست اور انتظامیہ کے متعلق معلومات انتہائی مفید تھیں۔ مالی اور اقتصادی مقابلے کے لئیے مسابقت کی دوڑ میں شامل ہونے سے قبل ضروری تھا۔ کہ ہر نقطہ نظر اور ہر زاویے سے ۔ اہم معلومات کے ساتھ (کسی ممکنہ مہم جوئی کی صور ت میں )کچھ اہم امور سرانجام دئیے جائیں۔اور اسی وجہ سے ریاستوں کو ایسے معاملات میں عام افراد اور نجی فرموں پہ برتری حاصل تھی۔”سابقہ ادوار یعنی حکومتوں میں نوآبادیت سے متعلقہ مسائل میں ایک بڑا الجھا ہوا مسئلہ ریاستوں اور کمپنیوں کے مابین ملکیت اور اختیارات کا مسئلہ تھا ۔ ملکیت اور اختیارات کے اس گنجلک مسئلے کے سیاسی اور مالی پہلو تھے ۔ اور اسے ”خصوصیت “ نام دیا گیا اور اس مسئلے کا حل”خصوصیت “ نامی نظام,( "L’exclusif” )پہ منحصر تھا۔ جسے بعد کی حکومتوں میں ”نوآبادیت معائدہ“ یعنی” کالونی پیکٹ “کا نام دیا گیا ۔(۱۴٭)۔

کمپنیوں کی کثیر جہتی سرگرمیاں عموماَ ایک تسلسل کے ساتھ ریاستوں کی مقرر کردہ سفارتی اور قانونی حدود پار کرتی رہتیں ۔ سترہویں صدی کے وسط سے (تجارتی مفادات حاصل ہونے۔ اور تجارتی مفادات کی اہمیت کے باوجود) کمپنیوں اور ریاستوں کی آپس میں ہمیشہ صلح نہیں رہتی تھی۔ یعنی آپس میں مفادات کا ٹکراؤ ہوتا تھا ۔(۱۵٭)۔

برنئیر اس ساری صورتحال کے بارے باخبر ہونے کی وجہ سے یہ جانتا تھا کہ اسکی مہیاء کردہ معلومات کسقدر اہم اور مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔اسلئیے وہ تمام تفضیلات اور جزئیات بیان کرتا ہے۔برنئیر لکھتا ہے”یہ نکتہ بہت اہم اور نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ مغل فرماں روا شعیہ نہیں جو علیؓ ( رضی اللہ تعالٰی عنہ) اور انکی آل کو مانتے ہیں۔ جیسا کہ ایران میں شعیہ مانتے ہیں ۔ بلکہ مغل فرماں روا محمدن ہے ۔ (صلی اللہ علیہ وسلم ) (یعنی سُنی مسلک رکھتا ہے) اور نتیجتاَمغل باشاہ کے دربار میں سُنی درباریوں کی اکثریت ہے ۔ ترکی کے مسلمانوں کی طرح انکامسلک سُنی ہے جو عثمانؓ ( رضی اللہ تعالٰی عنہ) کو ماننے والے ہیں ۔ اسکے علاوہ مغل فرماں روا کے ساتھ ایک اور مسئلہ ہے کہ مغل بادشاہ کے آباءاجداد غیر ملکہ ہونے کی وجہ سے خود مغل بادشاہ بھی غیر ملکی سمجھا جاتا ہے ۔ مغل بادشاہ کا نسب تیمور لنگ سے جا ملتا ہے جو تاتار کے منگولوں کا سردار تھا ۔ مغل بادشاہ کے اجداد ۱۴۰۱ء چودہ سو ایک عیسوی میں ہندؤستان پہ حملہ آور ہوئے ۔اور ہندؤستان کے مالک بن گئے۔اسلئیے مغل فرماں روا تقریباَایک دشمن ملک میں پایا جاتاہے۔ فی مغل بلکہ فی مسلمان کے مقابلے پہ سینکڑوں کٹڑ بت پرستوں اور مشرکوں (idolaters)کی آبادی ہے۔ اسکے علاوہ مغل شہنشاہیت کے ہمسائے میں ایرانی اور ازبک بھی مغل شہنشاہ کے لئیے ا یک بڑا درد سر ہیں ۔ جسکی وجہ سے امن کا دور ہو یا زمانہ جنگ مغل شہنشاہ بہت سے دشمنوں میں گھرا رہتا ہے اور ہر وقت دشمنوں میں گھرا ہونے کی وجہ سے مغل شہنشاہ اپنے آس پاس بڑی تعداد میں اپنی افواج دارالحکومت، بڑے شہروں اور بڑے میدانوں میں اپنی ذات کے لئیے تیار رکھتا ہے۔برنئیر کے الفاظ میں”آقا ۔(مائی لارڈ) اب میں آپ کو مغل شہنشاہ کی فوج کے بارے کچھ بیان کرتا چلوں کہ فوج پہ کتنا عظیم خرچہ اٹھتا ہے ۔ تانکہ آپ کو مغل شہنشاہ کے خزانے کے بارے کسی فیصلے پہ پہنچ سکیں“ ۔(۱۶٭)۔

فوجی شان و شوکت کی نمائش بہت کشادہ اور نمایاں طور پہ کی جاتی ہے۔ ۔مالیاتی کمپنیوں کی طرف سے فیکٹریوں کے قیام کی حکمت عملی کے بعد سے۔ مغل شہنشاہ کی طرف سے اس فوجی شان و شوکت کی نمائش کی اہم مالی اور فوجی وجوہات ہیں ۔کیونکہ اسطرح
۱)۔ مغل شہنشاہ یوں اپنی دفاعی صلاحیت کا عظیم مظاہرہ کرتا ہے ۔
۲)۔ مغل شہنشاہ یوں اتنی بڑی فوج پہ اٹھنے والے اخراجات کے ذریعیے مالی استحکام کا پیغام دیتا ہے ۔
۳)۔ مغل شہنشاہ یوں مختلف قوموں کے خلاف جیتے گئے محاذوں کی کامیابیوں کی دھاک بٹھاتا ہے
۴) مغل شہنشاہ یوں اپنی افواج کی نمائش سے فوجوں میں شامل مختلف قومیتوں اور قوموں کی کثیر النسل سپاہ کی شمولیت سے سے برابری اوراتنی قوموں کے بادشاہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔
۵)۔ مغل شہنشاہ اسطرح اپنے فوجی ساز و سامان کی نمائش سے کسی قسم کی ممکنہ بغاوت کو روند دینے کی طاقت اور قوت کا مظاہرہ کرتا ہے۔

اب ملاحظہ ہو ۔ اؤل ۔وہ فوج ہے جو شہنشاہ کی سرکاری فوج ہے ۔ اور جسکی تنخواہیں اور اخراجات لازمی طور پہ بادشاہ کے خزانے سے جاتی ہیں۔(۱۷٭)۔

”پھر وہ افواج ہیں ۔جن پہ راجوں کا حکم چلتا ہے ۔ بعین جیسے جے سنگھے اور دیگر ۔ جنہیں مغل فرماں روا بہت سے عطیات دیتا رہتا ہے تانکہ راجے وغیرہ اپنی افواج کو جن میں راجپوتوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے ۔ انہیں ہمیشہ لڑائی اور جنگ کے لئیے تیار رکھیں۔ ان راجوں وغیرہ کا مرتبہ اور رتبہ بھی بادشا ہ کے امراء کے برابر سمجھا جاتا ہے ۔ جو زمانہ امن میں فوجوں کے ساتھ شہروں میں اور میدان جنگ میں اپنی اپنی افواج کے ساتھ بادشاہ کی ذات کے گرد حفاظتی حصار کھینچے رکھتے ہیں ۔ان راجوں مہاراجوں کے فرائض بھی تقریباَوہی ہیں جو امراء کے ہیں۔ بس اتنا فرق ہے کہ امراء یہ فرائض قلعے کے اندر ادا کرتے ہیں۔ جبکہ کہ راجے وغیرہ فصیل شہر سے باہر اپنے خیموں میں بادشاہ کی حفاظت کا کام سر انجام دیتے ہیں“۔(۱۸٭)۔

برنئیر تفضیل پیان کرتا ہے کہ کس طرح جب راجے وغیرہ قلعے کے نزدیک آتے ہیں تو وہ اکیلے نہیں ہوتے بلکہ راجوں کے ساتھ وہ خصوصی سپاہی بھی ہوتے ہیں جو کسی بھی وقت حکم ملنے پہ اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتار دینے کے لئیے تیار رہتے ہیں ۔(۱۹٭)۔

مغل فرماں روا جن وجوہات کہ بناء پہ راجوں کی سے یہ خدمات لینا ضروری سمجھتا ہے ۔وہ وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔:
۱)۔راجوں کی سپاہ پیشہ ورانہ تربیت اچھی ہوتی ہے اور ایسے راجے بھی ہیں جو کسی وقت بھی بادشاہ کی کسی مہم کے لئیے بیس ہزار یا اس سے زیاہ گھڑ سوارں کے ساتھ تیار رہتے ہیں۔

۲)۔مغل بادشاہ کو ان راجوں پہ بھروسہ ہے جو بادشاہ کے تنخوادار نہیں ۔ اور جب کوئی ان راجوں میں سے سرکشی یا بغاوت پہ آمادہ ہو ۔ یا اپنے سپاہیوں کو بادشاہ کی کمان میں دینے سے انکار کرے۔ یا خراج ادا کرنے سے انکار کرے ۔ تو مغل بادشاہ انکی سرکوبی کرتا ہے اور انہیں سزا دیتاہے۔اس طرح یہ راجے بادشاہ کے وفادار رہتے ہیں۔(۲۰٭)۔

دوسری ایک فوج وہ ہے جو پٹھانوں کے خلاف لڑنے یا اپنے باغی امراء اور صوبیداروں کے خلاف لڑنے کے لئیے ہے۔ اور جب گولکنڈاہ کا مہاراجہ خراج ادا کرنے سے انکار کردے ۔ یا وسا پور کے راجہ کے دفاع پہ آمادہ ہو تو اس فوج کو گولکنڈاہ کے مہاراجہ کے خلاف لڑایا جاتا ہے ۔ یا ان فوجی دستوں سے تب کام لیا جاتا ہے جب ہمسائے راجوں میں سے کسی کو اس کی راج گدی سے محروم کرنا مقصود ہو۔ یا ان راجوں کو خراج ادا کرنے کا پابند کرنا ہو تو اس فوج کے دستے حرکت میں لائے جاتے ہیں ۔ان سبھی مندرجہ بالا صورتوں میں اپنے امراء پہ بھروسہ نہیں کرتا کیونکہ وہ زیادہ تر ایرانی النسل اور شعیہ ہیں۔جو بادشاہ کے مسلک سے مختلف مسلک رکھتے ہیں ۔(۲۱٭)۔

مسلکی اور مذہبی معاملات کو ہمیشہ مدنظر رکھا جاتا ہے۔ کیو نکہ دشمن کے مذہب یا مسلک کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک طرح یا دوسری طرح کی افواج کو میدانِ جنگ میں اتارا جاتا ہے ۔ اگر ایران کے خلاف مہم درپیش ہو تو امراء کومہم سر کرنے نہیں بیجھا جاتا کیونکہ امراء کی اکثریت میر ہے اور ایران کی طرح شعیہ مسلک رکھتی ہے۔ اور شعیہ ایران کے بادشاہ کو بیک وقت امام ۔ خلیفہ ۔ اور روحانی بادشاہ ۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے دامادعلیؓ (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کی آل مانتے ہیں۔ اسلئیے ایران کے بادشاہ کے خلاف لڑنے کو ایک جرم اور بہت بڑا گناہ سمجھتے ہیں۔ مغل بادشاہ اسطرح کی وجوہات کی بناء پہ پٹھانوں کی ایک تعداد کو فوج میں رکھنے پہ مجبور ہے۔اور آخر کار مغل بادشاہ مغلوں پہ مشتمل ایک بڑی اور بادشاہ کی بنیاد فوج کے مکمل اخراجات بھی اٹھاتا ہے ۔ مغل افواج ہندوستان کی بنیادی ریاستی فوج ہے۔جس پہ مغل فرماں روا کے بہت اخراجات اٹھتے ہیں ۔(۲۲٭)۔

اس کے علاوہ مغل فرماں روا ں کے پاس آگرہ میں ۔ دلی میں اور دونوں شہروں کے گرد و نواح میں دو سے تین ہزار گھڑ سوار کسی بھی مہم کو جانے کے لئیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔بادشاہ کی روز مرہ کی مہموں کے لئیے۔ بادشاہ کے پاس ۸۰۰ آٹھ سو سے ۹۰۰ نو سو تک کے لگ بھگ ہاتھی ہیں ۔بڑی تعداد میں خچر اور سامان کھینچنے والے گھوڑے ہیں۔ جن سے بڑے بڑے خیمے ۔ قناتیں ۔ بیگمات اور انکا سازوسامان ۔ فرنیچر ۔ مطبخ (باورچی خانہ)۔مشکیزے ۔اور سفر اور مہموں میں کام آنے والے دیگر سامان کی نقل و حرکت کا کام لیا جاتا ہے۔(۲۳٭)۔

مغل فرماں روا کے اخراجات کا اندازہ لگانے کے لئیے اس میں سراؤں یا محلات کے اخراجات بھی شامل کر لیں ۔جنہیں برنئیر ” ناقابل ِ یقین حد تک حیران کُن “ بیان کرتا ہے۔”اور جنہیں (اخراجات کو) آپکے اندازوں سے بڑھ کر حیرت انگیز طور پہ ناگزیر سمجھا جاتا ہے“۔ یہ محل اور سرائے ایسا خلاء ہیں جس میں قیمتی پارچات ۔ سونا۔ ریشم ۔ کمخوآب ۔ سونے کے کام والےریشمی پارچات ۔غسل کے لئیے خوشبودار گوندیں اور جڑی بوٹیاں ۔امبر ۔اور موتی ان خلاؤں میں گُم ہو جاتے ہیں۔”اگر مغل فرماں روا کے ان مستقل اخراجات جنہیں مغل فرما روا ں کسی طور نظر انداز نہیں کرسکتا اگر ان مستقل اخراجات کو مدنظر رکھاجائے تو مغل شہنشاہ کے ختم نہ ہونے والے خزانوں کے بارے آپ فیصلہ کر سکتے ہیں ۔ جیسا کہ مغل شہشنشاہ کے بارے بیان کیا جاتا ہے اور مغل شہنشاہ کی ناقابل تصور امارت جس کی کوئی حد نہیں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔(۲۴٭)۔”اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بادشاہ بہت بڑے خزانوں کا مالک ہے بلکہ ایران کے باشاہ اور آقا کے خزانوں کو ملانے سے بھی بڑھ کر مغل فرماں روا کے پاس ذیادہ خزانے ہیں۔(۲۴٭)۔

جاری ہے۔

(14) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., ob. cit., pág. 398.
(15) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., pág. 399.
(16) BERNIER, ob. cit., pág. 197.
(17) BERNIER, ob. cit., pág. 197.
(18) BERNIER, ob. cit., pág. 198.
(19) BERNIER, ob. cit., pág. 198.
(20) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(21) BERNIER, ob. cit., pág. 198, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(22) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(23) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15, 16 y 17.
(24) BERNIER, ob. cit., pág. 200.

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

 
%d bloggers like this: