نُورا ملاح اور جے آئی ٹی ۔
نورا ملاح کشتی ”کھیہ“ رہا تھا ۔اس نے ”ونج“ کو آخری بار دریا کی تہہ میں گاڑا اور کشتی کوپتن سے لگادیا ۔ چھوٹی سی رسی سے کشتی کو دریا کنارے باندھنے کی دیر تھی کہ اس پار بکھرے دس بارہ دیہات کے اِکا دُکا مسافر جو دیر سے کشتی کا اِس پار آنے کا انتظار کررہے تھے اُچک اُچک کر جلدی جلدی کشتی میں چڑھنے لگے ۔نُورے کا گھر بھی دریا کے اِسی پار کے کچھ دُورواقع گاؤں ”وسن والا“ میں تھا،گرمیوں کی دوپہر سر پہ تھی ۔
نورے نے کشتی کا ”پُور“ (پھیرا)بھرتے سوچا یہ پچھے چار سالوں سے اسکے نصیب چمک اٹھے تھے ۔ بارہ اِس پار کے گاؤں اور بارہ چودہ اُس پار کے دیہاتوں کے لوگ بھی جوق در جوق اسکی کشتی سے اپنے ضروری کاموں سے اس یا اس پار آتے جاتے تھے ۔ اور ان سالوں میں گو ”ہاڑ“ (سیلاب) تو سر چڑھ کر آتا رہا مگر ہر بار کی مناسب پیش بندی سے اسکی کشتی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا ۔ ورنہ تو پچھلے سالوں میں دو دو بار اسکے کشتی دریا کے سیلاب میں بہہ کر گُم گُما گئی تھی اور اگلے سالوں میں نُورے اور اور اسکے خاندان کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مگر اب کی بار اللہ نے اس پہ اور اسکے خاندان پہ خاص کرم کیا تھا ۔
نُورا انہی سوچوں میں غرق اور دل ہی دل میں خوش ہوتا ہوا کشتی ”کھیتا“ دریا کے درمیان پہنچ چکا تھا کہ اُس کے گاؤں ”وسن والا“ کے ”مانے“ کو پتہ نہیں کیا سُوجھی کہ اس نے کہا کہ
”نُورے میں ابھی گاؤں سے آیا ہوں اور تمہارے لئیے ایک بری خبر ہے “
نورے کی ساری خوشی کافُور ہوگئی اور وہ مانے کی طرف متوجہ ہوگیا جو بتارہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
”نُورے ۔ تمہاری بیوی اپنے کسی آشناء کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی ہے“
نورے کا رنگ فوراََ فق ہوگیا ۔ کشتی میں سوار بار ہ گاؤں کے دیہاتیوں نے چونک کر اپنی باتیں چھوڑ چھاڑ کر نظریں نُورے پہ گاڑ دیں ۔ اور نورے کو یوں لگا جیسے کسی نے اسے بھرے بازار میں ننگا کر دیا ہو۔ایک لمحے کے لئیے ”ونج“ پہ اسکی گرفت کمزور ہوئی اور کشتی لہراکر رہ گئی ۔ مگر نُورے نے دوبارہ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے ”ونج “ پہ اپنی گرفت مضبوط کی مگر اُسے یوں لگا جیسے کسی نے اسکے بازؤں کی طاقت سلب کر لی ہو ۔ نورا ملاح جیسے تیسے کشتی ”کھیہ“ کہ دریا کے دوسرے کنارے لگانے میں کامیاب ہوگیا ۔ کشتی کے مسافر اسے عجیب نظروں سے دیکھتے اپنے اپنے رستوں کو ہو لئیے صرف ”مانا“ رک گیا تھا اور مسافروں کے جاتے ہی نُورااپنی بربادی پہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔اور اچانک ”مانا “ بے اختیار قہقے لگا کر ہنسے لگا ۔ نورے نے غم اور صدمے سے مانے کو دیکھا ۔ مانے نے کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
” اوئے جھلیا۔ میں تو تمہارے ساتھ دل لگی (مذاق) کر رہا تھا ۔ تمہیں پتہ تو ہے دل لگی کرنے والی میری اس پُرانی عادت کا۔ تمہاری بیوی کسی اپنے آشناء کے ساتھ بھاگ کر کہیں نہیں گئی اور وہ تمہارے گھر پہ ہی ہے۔ میں تو ایسے ہی تمہارے ساتھ دل لگی کر رہا تھا“
نُورے نے مایوسی اور غم کے ملے جُلے جذبات اور رندھے ہوئے گلے سے دور دراز راستوں پہ جانے والے کشتی کے مسافروں کو دیکھا اور ”مانے“ سے گویا ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
”مانے! تم نے تو دل لگی کی مگر میرا ستیا ناس کردیا۔اب یہ سمجھو کہ کہ میری بیوی واقعی گھر سے بھاگ ہی گئی ہے۔یہ بارہ گاؤں کے لوگ بارہ چودہ مختلف گاؤں کو جائیں گے اور اتنے ہی لوگوں کو بتائیں گے کہ نورے ملاح کی بیوی آج گھر سے بھاگ گئی ہے۔ نہ یہ سارا ”پُور“ دوبارہ اکھٹا ہوگا ۔ اور نہ ہی وہ تم سے یہ جاننا چاہیں گے کہ تم نے مجھ سے دل لگی کی تھی جبکہ میری بیوی کسی آشناء کے ساتھ گھر سے نہیں بھاگی تھی۔ اور اگر اتفاق سے وہ اکھٹے ہو بھی جائیں اور تم انہیں حقیقت بتا بھی دو تو اتنے سارے دیہاتوں میں جہاں ان کے بتانے سے میری نیک نامی تار تار ہوگی وہ کیسے نیک نامی میں بدل پائے گی؟ بس ”مانے“ اب یوں سمجھوں کہ میری بیوی کسی آشناء کے ساتھ بھاگ ہی گئی ہے اورمیری نیک نامی تواب واپس آنے سے رہی“
نواز شریف نے اگر کرپشن نہیں بھی کی تو بھی اب نواز شریف جس قدر متنازع شخصیت بن چکے ہیں اور ثابت اور غیر ثابت شدہ الزام تراشیوں میں گھر چکے ہیں ۔توانہیں چاہئیے کہ ملک و قوم کے وسیع ترمفاد میں اپنے عہدے سے استعفی دے کر بچی کچھی کچھ نیک نامی سمیٹنے اور جمہوریت کو بچانے کی کوشش کرنی چائیے۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: "ہاڑ", "مانے", "مانا", "نُورے, "وسن, "پُور", "پُورا", (مذاق), (پھیرا)بھرتے, )کچھ, “, ہ, فق, ہنسے, ہو, ہو۔ایک, ہوگی, ہوگیا, ہوگئی, ہوگا, ہوں, ہوئی, ہوئے, ہوا, ہوا۔, ہوتا, ہی, ہیں, ہے, ہے"نورے, ہے۔, ہے۔یہ, ہر, قوم, قدر, لہراکر, لمحے, لوگ, لوگوں, لی, لگی, لگے, لگا, لگانے, لگادیا, لئیے, م, ملک, ملاح, مناسب, میں, میری, مگر, متنازع, متوجہ, مجھ, مختلف, مسافر, مسافروں, مشکلات, مضبوط, نہ, نہیں, نقصان, نمک, ننگا, چوہ, چونک, نواز, چودہ, نورے, نورا, نیک, نُورا, نُورااپنی, چڑھ, چڑھنے, نے, چکے, چکا, چھوڑ, چھوٹی, چھاڑ, چاہیں, نامی, چائیے۔, چار, نصیب, نظروں, نظریں, و, وہ, ونج, والی, والے, والا, واپس, ورنہ, وسیع, یہ, یوں, یا, ۔, ۔نورے, ۔اس, کہ, کہیں, کہا, کمزور, کچھی, کنارے, کو, کوپتن, کوئی, کوشش, کی, کیا, کیسے, کے, کھیہ, کھیتا, کا, کافُور, کاموں, کامیاب, کا۔, کر, کرم, کرنی, کرنے, کرنا, کرپشن, کررہے, کسی, کشتی, گم, گما, گڈ, گویا, گی؟, گیا, گے, گھر, گئی, گاڑ, گاڑا, گاؤں, گرفت, پہ, پہنچ, پہنچا, پچھلے, پچھے, پیش, پڑا, پھوٹ, پائے, پار, پتہ, آنے, آیا, آپ, آتے, آتا, آج, آخری, آشناء, اللہ, ان, انہی, انہیں, اچک, اچانک, انتظار, اوئے, اور, اورمیری, ایک, ایسے, اُس, اُسے, اِس, اِسی, اکھٹے, اکھٹا, اکا, اگلے, اگر, اٹھے, اپنی, اپنے, اب, ابھی, اتفاق, اتنے, اختیار, ار, اس, اسے, اسکی, اسکے, استعفی, بہہ, بن, بنی, بنانے, بندی, بیوی, بڑی, بے, بکھرے, بھی, بھاگ, بھاگی, بھرے, باندھنے, باتیں, بار, بارہ, بازؤں, بازار, بتا, بتانے, بتائیں, بتارہا, بدل, بری, بربادی, بس, تہہ, تم, تمہیں, تمہاری, تمہارے, تو, توانہیں, تیسے, تھی, تھی۔, تھے, تھا, تھا"نُورے, تھا،گرمیوں, تار, ترمفاد, جہاں, جلدی, جمہوریت, جو, جوق, جیسے, جھلیا۔, جاننا, جانے, جائیں, جاتے, جبکہ, جس, حقیقت, خوش, خوشی, خاندان, خاص, خبر, دہ, دل, دو, دوپہر, دوبارہ, دور, دوسرے, دیہات, دیہاتوں, دیہاتیوں, دیکھا, دیکھتے, دیں, دیا, دیر, دُورواقع, دے, دکا, در, درمیان, دریا, دراز, دس, رہ, رہی, رہا, رنگ, رونے, رک, راستوں, رسی, رستوں, سلب, سمیٹنے, سمجھو, سمجھوں, سنبھالتے, سوچوں, سونا, سوار, سی, سیلاب, سُوجھی, سے, سالوں, سامنا, ساتھ, ساری, سارا, سر, شخصیت, شریف, صدمے, صرف, ضروری, طاقت, طرف, عہدے, عادت, عجیب, غم, غرق

youm e khtam e naboowaut
یومِ تحفظ ختمِ نبوتﷺ ۔
فتنہِ قادیانیت اور پاکستان
7 ستمبر 1974ء ۔سات ستمبر انیس چوہتر سنہ ء کا دن۔ پاکستان کی تاریخ کا تابناک دن ہے ۔جس دن قادیانیوں ، المعروف مرزائیوں۔ المعروف احمدیوں بشمول لاہوری گروپ کو پاکستان کی پارلیمنٹ سے متفقہ طور پہ آئین کی رُو سے کافر قرار دیا گیا تھا ۔اور اس مرحلے تک پہنچنے کے لئیے مسلمانوں نے اپنی ان گنت جانوں کا نذارنہ پیش کیا تھا۔ اور ایک نہائیت لمبی ۔ کھٹن اور صبر آزماجدو جہد کی تھی ۔اور اگر اس طویل جد و جہد پہ روشنی ڈالی جائے ۔تو بلا مبالغہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئیے کی گئی کوششوں کو بیان کرنے کے لئیے ۔کئی صخیم کتب لکھنی درکار ہونگی ۔ اسلئیے ہم کوشش کریں گے کہ دین اسلام کے اس موجودہ اور تاریخ اسلام کے غالباً سب سے بڑے فتنے ” قادیانیت“ پہ اپنی سی حد تک روشنی ڈالیں۔
عقیدہ ختم نبوت ﷺ پہ اسلام کی اساسی بنیاد کھڑی ہے ۔اگر عقیدہ ختم نبوت ﷺ پہ آنچ آتی ہے تو براہِ راست ایمان اور اسلام پہ آنچ آتی ہے ۔ عقیدہ ختم نبوت ﷺ پہ قرآن کریم کی ایک سو سے زائد آیات اور دو سو سے زائد احادیثِ نبوی ﷺ موجود ہیں۔
عقیدہ ختم نبوت ﷺ کا تحفظ ہر مسلمان کا فرض اور نبی کریم ﷺ کے امتی ہونے کے دعویدار پہ فرض اور یومِ قیامت کو نبی کریم ﷺ کی شفاعت کا باعث ہے۔
عقیدہ ختم نبوت ﷺ پہ پوری مسلمان امت کا قرون ِ اولٰی سے یہ اجماع رہاہے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔ اور نبوت نبی کریم محمد ﷺ پہ ختم ہے ۔ اور تحفظِ ختم نبوت ﷺ کے عقیدے کے لئیے مسلمانوں کو بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئیے ۔
تحفظ ختمِ نبوتﷺ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے ہے کہ خاتم الانبیاء نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کے دوران اسلام کی خاطر جان دینے والے۔ بشمول بڑے ۔ بچے ۔ خواتین اورضعیفوں کے۔ شہداءکی کل تعداد دو سو اناسٹھ 259 تھی ۔ کفار کے جہنم واصل ہونے والوں کی کل تعداد سات سو اناسٹھ 759 تھی۔ جو کل ملا کر ایک ہزار ایک سو اٹھارہ 1018 بنتی ہے۔ مگر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں جب مسلیمہ کذاب نے جھوٹی نبوت کا دعواہ کیا ۔تو عقیدہ ختم ِ نبوت کے تحفظ کی خاطر جنگ میں بائیس ہزار 22000 مرتدین کو تہہ تہیغ کیا گیا۔ اور بارہ سو کے قریب 1200کے قریب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جامِ شہادت نوش کیا ۔ جن میں سے چھ سو 600 قران کریم کے حافظ اور قاری رضی اللہ عنہم شہید ہوئے ۔ اس جنگ میں غزوہ بدر کے غازی اصحابہ اکرام رضی اللہ عنہم نے بھی جامِ شہادت نوش کیا۔ یعنی اس بات سے اندازہ لگایا جائے کہ تحفظ عقیدہ ختم نبوت ﷺ کی خاطر صرف ایک جنگ میں نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں شہید ہونے والے کل شہداء سے کئی گنا زائد مسلمان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے۔ اور نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں جہنم واصل ہونے والے کافروں سے کئی گنا زائد مرتد محض اس ایک جنگ میں قتل ہوئے ۔
عقیدہ ختم نبوت ﷺ مسلمانوں کے نزدیک اس قدر حساس عقیدہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے نزدیک خاتم الانبیاء نبی کریم ﷺکے بعد نبوت کے کسی مدعی سے اسکی نبوت کی دلیل یا معجزہ مانگنا بھی اس قدر بڑا گناہ ہے کہ اسے کفر قرار دیا ہے۔ یعنی ایک مسلمان کا عقیدہ ختم نبوت ﷺ پہ اس قدر ایمان مضبوط ہونا چاہئیے کہ وہ نبوت کے دعویداروں سے اسکی نبوت کی دلیل یا معجزہ نہ مانگے ۔ بلکہ نبوت کے جھوٹے دعویدار کو اسلام کی تعلیمات کے مطابق سزا دے ۔اس لئے ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ عقیدہ ختم نبوت ﷺ کے لئیے اپنا کردار ادا کرے ۔ نئی نسل اور آئیندہ نسلوں کے ایمان کی حفاظت کی خاطر قادیانیت کے کفر اور ارتداد کا پردہ چاک کرے تانکہ روز قیامت سرخرو ہو اور خاتم الانبیاء نبی کریم ﷺ کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔
قادیانی اپنے آپ کو’’ احمدی ‘‘کہلواتے ہیں ۔ قادیانی اپنے آپ کو مسلمان اور مسلمانوں کو کافر شمار کرتے ہیں ۔ اور اس رُو سے قادیانی نہ صرف کافر ہیں بلکہ زندیق بھی ہیں ۔ جو اپنے کفر کو دہوکے سے اسلام اور اسلام کو کفر بیان کرتے ہیں۔ اور یوں مسلمانوں کو دہوکہ دیتے ہیں ۔قادیانیوں کے نزدیک جس دین میں نبوت جاری نہ ہو وہ دین مردہ دین ہے۔اور یوں قادیانی ۔ اسلام کو نعوذ باللہ مردہ دین قرار دیتے ہیں۔قادیانیوں کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام سولی پر لٹکا ئے گئے۔ قادیانی مکہ مکرمہ کی طرح قادیان کو ارض حرم قرار دیتے ہیں ۔انگریز کی اطاعت کو واجب قرار دیتے ہیں ۔اور انگریزوں کی ہدایت پہ مرزا نے جہاد کو غداری قرار دیا ۔قادیانی جہاد کے خلاف ہیں۔
مرزا غلام احمد قادیان کے بارے سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے ستمبر 1951 ء میں کراچی میں عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا ۔ ”تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی میں یہ کمزوریاں اور عیوب تھے۔ اس کے نقوش میں توازن نہ تھا۔ قدوقامت میں تناسب نہ تھا۔ اخلاق کا جنازہ تھا۔ کریکٹر کی موت تھی۔ سچ کبھی نہ بولتا تھا۔ معاملات کا درست نہ تھا۔بات کا پکا نہ تھا۔ بزدل اور ٹوڈی تھا۔تقریر و تحریر ایسی ہے کہ پڑھ کر متلی ہونے لگتی ہے لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اگر اس میں کوئی کمزوری بھی نہ ہوتی۔ وہ مجسمہ حسن و جمال ہوتا ۔قویٰ میں تناسب ہوتا۔چھاتی45 انچ کی۔کمر ایسی کہ سی آئی ڈی کو بھی پتہ نہ چلتا۔ بہادر بھی ہوتا۔کریکٹر کا آفتاب اور خاندان کا ماہتاب ہوتا۔ شاعر ہوتا۔ فردوسی وقت ہوتا۔ابوالفضل اس کا پانی بھرتا۔خیام اس کی چاکری کرتا۔غالب اس کا وظیفہ خوار ہوتا۔انگریزی کا شیکسپیئر اور اردو کا ابوالکلام ہوتا پھر نبوت کا دعویٰ کرتا تو کیا ہم اسے نبی مان لیتے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ میاں! آقا ﷺکے بعد کائنات میں کوئی انسان ایسا نہیں ۔جو تخت نبوت پر سج سکے اور تاج نبوت و رسالتﷺجس کے سر پر ناز کرے“۔
فتنہ ِ قادیانیت کا بانی اور اسکے جانشین ۔
فتنہ ِ قادیانیت کا بانی مرزا غلام احمد کذاب انگریزی دور میں موجودہ بھارت میں واقع قادیان (تحصیل بٹالہ ،ضلع گورداسپور،مشرقی پنجاب ، بھارت) میں اٹھارہ سو انتالیس یا چالیس 1839ء یا 1840 سنہ عیسوی میں پیدا ہوا۔اور اسی قادیان کی مناسبت کی وجہ سے قادیانی اور اسکے فتنے کو قادیانی فتنہ یا قادیانیت قرار دیا گیا ۔جبکہ مرزا ئی ۔ قادیانی اپنے آپ کو احمدی کہلوانے پہ مصر ہیں۔ اور ان میں بھی دو فرقے ہیں ۔ قادیانیوں کا دوسرا فرقہ لاہوری گروپ ہے۔
برصغیر ہندؤستان پہ قابض انگریزوں کی چھتری تلے مرزا غلام احمد قادیان نے 1883ء سے 1908ء تک اپنے آپ کو بتدریج مُلھم۔ محدث۔ مامور مِن اﷲ۔ امام مہدی ۔مثیلِ مسیح۔مسیح ابن مریم۔نبی۔حاملِ صفات باری تعالی ۔ا ور اس کے علاوہ بھی بہت سے لغو۔ متضاد اور اگنت دعوے کئیے ۔ اور دو مئی انیس سو آٹھ 2 مئی 1908 کو ہیضے میں مبتلاء ہو کر لاہور میں ہلاک ہوا۔ جسکے بعد حکیم نور دین اس فتنے کا جانشین اول (قادیانیوں کے نزدیک خلیفہ اول)ٹہرا۔اور تین مارچ انیس سو چودہ 3 مارچ 1914 سنہ ء کو نوردین کے مرنے کے بعد قادیانی جماعت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ۔ قادیان جو اس فتنہِ خباثت کا مرکز تھا۔ اس پہ مرزا غلام احمد قادیان کے بیٹے مرزا محمود نے قبضہ جما لیا۔ اور قادیانی حصے کے دوسرے دھڑے کا سربراہ مرزا محمد علی ٹہرا اور مرزا محمد علی نے لاہور کو اپنا مرکز بنایا۔
پاک بھارت باؤنڈ ری کمیشن ریڈ کلف کو۔ قادیانیوں نے اپنے آپ کو باقی مسلمانوں سے الگ ظاہر کرتے ہوئے۔ ایک فائل بنا کر دی کہ ہم مسلمانوں سے الگ ہیں۔ لہٰذاہ ہمیں قادیان میں الگ ریاست دی جائے ۔ جس پہ پاک بھارت باؤنڈ ری کمیشن نے انکار کر دیا۔ انکار کے بعد مرزا غلام احمد قادیان کے بیٹے مرزا محمود (قادیانیوں کے نزدیک خلیفہ دوئم ) نے پاکستان کے ضلع چنیوٹ میں ایک مقام (چناب نگر) کو ”ربوہ“ کا نام دے کر اسے قادیانیت کا مرکز بنایا۔ مرزا کے جانشین دوئم کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے مرزا ناصر (قادیانیوں کے نزدیک خلیفہ سوئم )نے قادیانیوں کی جانشینی سنبھالی ۔
10اپریل 1974ء کو رابطہ عالم اسلامی نے مکہ مکرمہ میں قادیانیوں کو متفقہ طور پہ کافر قرار دیا۔
7ستمبر 1974ء کو ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کی دونوں جماعتوں ۔ قادیانی اور لاہوری گروپ کو ہر دو گروہوں کو خارج از اسلام قرار دینے کا متفقہ دستوری اور تاریخ ساز فیصلہ کیا ۔ اور آئین کی رُو سے قادیانیوں ۔ بشمول قادیانیوں کے لاہوری گروپ کو کافر قرار دیا ۔اور آئین کی رُو سے قادیانیوں پہ انکے کفر کی وجہ سے ریاستِ پاکستان میں کلیدی عہدوں پہ پابندی لگا دی گئی۔
9جون 1982ء کو مرزا ناصر کے مرنے کے بعد اس کا چھوٹا بھائی مرزا طاہر قادیانی کفریہ جماعت کا چوتھا سربراہ بنا۔
آئین پاکستان کی رُو سے کافر قرار دئیے جانے کے باوجود قادیانی مرزا غلام احمد قادیان کی پیروی اور اپنی فطرت کے عین مطابق اپنے آپ کو مسلمان قرار دے کر اور مسلمانوں کو کافر قرار دے کر بدستور سادہ لوح مسلمانوں کو دہوکے سے ورغلاتے رہے ۔ اور اپنے اثر رسوخ میں اضافہ کرنے کی کوششوں سے باز نہ آئے ۔ تو قادیانیوں کو ان کے مذموم کفرانہ عزائم سے باز رکھنے کے لئیے ۔ پاکستان کے اس وقت کے صدر ضیاء الحق نے چھبیس اپریل انیس سو چوراسی ۔26 اپریل1984ء کو’’امتناع قادیانیت آرڈیننس‘‘ نامی آڑدیننس جاری کیا۔ تو ٹھیک چار دن بعد
یکم مئی 1984ء یکم مئی انیس سو چوراسی کو کو مرزا طاہرپاکستان سے لندن بھاگ گیا اور 18اپریل 2003ء کو مرنے کے بعد اسے وہیں دفنایا گیا۔
جہاں سے قادیانی بڑے زور شور سے مسلمانوں اور اور خاصکر پاکستان اور پاکستانی مسلمانوں کے خلاف متواتر جھوٹا پروپگنڈاہ کرتے ہیں ۔ سادہ لوح مسلمانوں کودہوکہ دے کر اپنے جال میں پھنساتے ہیں ۔ انہیں باہر سیٹ کروانے کا لالچ دے کر۔ اسلام سے بر گشتہ کرتے ہیں۔ اور قادیانیت کے نام پہ مغربی ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کرنے میں مدد کرتے ہیں ۔ جس سے، جہاں قادیانی کفریہ جماعت کی جھوٹی مظلومیت کا خُوب پروپگنڈہ کیا جاتا ہے ۔ وہیں کم علم ۔ سادہ اور غریب مسلمانوں کودہوکے سے ورغلا کر قادیانی اپنی جماعت میں اضافے کی کوشش کرتے ہیں۔ عالم اسلام اور پاکستان کے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔ قادیانیت کے پاکستان کے خلاف مذموم سازشوں کے تانے بانے بھارت اور اسرائیل سے جا ملتے ہیں۔انٹر نیٹ پہ بھی خوب فعال ہیں ۔ لیکن اب دین سے محبت کرنے والے بہت سے مسلمان نوجوانوں نے قادیانیت کے خلاف اور اس کے سدباب کے لئیے بہت سے فوروم اسلام کی حقانیت خاطر ۔ قادیانیت کے خلاف قائم کر لئیے ہیں ۔ جہاں سے شب و روز قادیانیت کا بھانڈاہ پھوڑنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے ۔اور جب قادیانیوں کو اسلام کی دعوت دی جائے تو لاجواب ہو کر آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں۔ اور ایک نظام کے تحت تربیتی طور پہ موضوع کو ادہر ادہر گھمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ملا اور مولوی صاحبان چونکہ پاکستان میں فتنہ قادیانیت کے سب سے بڑے نقاد ہیں۔ تو قادیانی ملا اور مولوی کی سخت تضحیک کرتے ہیں۔ اور مسلمانوں کو مولوی اور ملا کے دین کا طعنہ دیتے ہیں۔
قادیانی بھیس بدل کر اور ڈھکے چھپے ابھی تک پاکستان میں اپنے کفرانہ عزائم کا پرچار کرتے ہیں۔ پاکستان کی حکومتوں میں سیاسی وِ ل ۔ سیاسی خود اعتمادی اور دین سے مکمل شعف نہ ہونے کی وجہ اور عالمی استعمار سے پاکستان کی حکومتوں کا خوفزدہ ہونے کی وجہ سے ۔قادیانی پاکستان میں ابھی تک کُھل کھیل رہے ہیں۔ صرف ایک اس واقعہ سے اندازہ لگا لیں کہ قادیانی پاکستان میں کس قدر مضبوط تھے (اور ابھی تک ہیں ) کہ مولانا سید ابو اعلٰی موددیؒ کو قادیانیت کے خلاف ”قادیانی مسئلہ “ نامی چھوٹی سی کتاب لکھنے پہ پاکستان میں مولانا سید مودودی ؒ کو سزائے موت سنائی گئی ۔ جسے اندرونی اور عالمی دباؤ کی وجہ سے عدالت عالیہ نے منسوخ کر دیا ۔ اور مولانا سید ابو اعلٰی موددیؒ نے دو سال گیارہ ماہ جیل کاٹنے کے بعد رہائی پائی ۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ چونکہ قادیانی اگر انٹرنیٹ پہ اسلامی اور مسلمان ناموں کے پردے میں مسلمانوں کو دہوکہ دیتے ہیں ۔ تو یہ معاملہ ریاست پاکستان کی روز مرہ کی زندگی میں اور بھی زیادہ شدید ہوجاتا ہے اور اس مسئلے کی وجہ سے عام مسلمان قادیانیوں سے دہوکہ کھا جاتے ہیں۔ اور اسے مسئلے کو مستقل بنیادوں پہ حل کیا جانا بہت ضروری ہے۔
قادیانی نہ صرف کافر ہیں ۔بلکہ اسلام کے پردے کے پیچھے چھپ کر منافقت کرنے والے منافق ہیں ۔اور مسلمانوں کو دہوکہ دیتے ہیں ۔ اور صرف اسی پہ بس نہیں بلکہ یہ اپنے کفر کو اسلام اور مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں ۔ اس لئیے زندیق ہیں۔ یعنی جو کافر اپنے آپ کو مسلمان کہلوا کر مسلمان کو کافر کہے۔یوں سادہ لوح مسلمانوں اور غیر مسلموں کو اسلام کا جھانسہ دے کر ۔دہوکے سے اپنے کفر میں شامل کرتے ہیں۔
قادیانیت مذہب نہیں بلکہ مافیا کارٹیل ہے۔ جو مسلمانوں اور باالخصوص پاکستان اور پاکستانی مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئیے پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر نہائت سرگرمی سے مصروف عمل ہے۔ اور اپنے ان مذموم عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئیے اس قادیانیت کے ڈانڈے بھارت اور اسرائیل سے جاملتے ہیں۔
چونکہ یہ فتنہ ارتداد اور جھوٹی نبوت کی لعنت انگریزوں کی چھتری تلےبرصغیر میں پیدا ہوئی۔ اور پاکستان بننے کے بعد اس لعنت نے پاکستان میں پرورش پائی۔ اسلئیے آزاد اور اسلامی پاکستان کا یہ فرض بنتا تھا۔ اور بنتا ہے ۔ اور جیسا کہ آئین پاکستان کی رُو سے مرزا غلام احمد قادیانی، مرزائی ۔ المعروف احمدی بشمول لاہوری گروپ ۔ کافر ہیں اور اپنی عبادتگاہوں کو مساجد نہیں کہلوا سکتے۔ کہ مساجد مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے۔ اور اس طرح کی دیگر پابندیاں۔ ان پہ انکے کفر کی وجہ سے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا آخری نبی نہ ماننے کی وجہ سے ہیں۔ اسی طرح یہ پاکستان اور پاکستانی مسلم عوام کی دینی اور اخلاقی ذمہ داری میں آتا تھا۔ اور آتا ہے۔ کہ قادیانیوں ۔ مرزائیوں المعروف احمدیوں کو دین اسلام کے نام پہ انکے کفر اور دہوکہ دہی سے نہ صرف روکا جائے ۔بلکہ باقی دنیا کو انکے بارے مناسب طور پہ آگاہ کیا جائے۔ تانکہ یہ اپنی اسلام دشمنی اور کفر کو اسلام کا نام دے کر۔ سادح لوح مسلمانوں اور غیر مسلموں کو مزیددہوکہ نہ دے سکیں۔
دنیا کے سبھی مذاہب ۔اپنےناموں کی ترتیب کچھ یوں رکھتے ہیں۔ کہ پڑھنے سننے والوں کو انکے بارے علم ہو جاتا ہے ۔کہ وہ کونسے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔اور چونکہ بر صغیر میں صدیوں سے مختلف مذاہب رہتے آئے ہیں۔ اور ان مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا روز مرہ زندگی میں آپس میں واسطہ پڑنے پہ کسی کے مذہب کے بارے غلط فہمی سے بچنے کے لئیے – اس مسئلے کا حل سبھی مذاہب کے پیروکاروں نے۔ اپنے اپنے مذہب کا برملا اعتراف کرتے ہوئے ۔عوامی سطح پہ حل نکالا ۔کہ اپنے نام اپنے مذاہب کی زبان میں ۔اور اپنی مذہبی کتب میں پائے جانے والے ناموں کو رکھنے میں نکالا ۔مثلا ہنود نے ہندی میں نام رکھے۔ اور مسلمانوں نے عربی یا فارسی کے نام اپنائے۔ اور جہاں مشترکہ ناموں کی وجہ سے دہوکے ہونے کا خدشہ ہوا ۔ وہاں اپنے نام کے ساتھ اپنے مذہب کا لاحقہ لگا دیا ۔ مثلا سکھوں نے سنگھ ،جیسے اقبال سنگھ۔ گلاب سنگھ۔ اور نصرانیوں نے مسیح کا لاحقہ ۔استعمال کیا جیسے ،اقبال مسیح اور یونس مسیح وغیرہ۔ اور ایسا کرنے کے لئیے نہ تو کسی کو مجبور کیا گیا۔ اور نہ ہی یوں کرنے میں کسی بھی مذہب کے ماننے والوں نے اسے اپنے لئیے باعث پریشانی یا ندامت سمجھا ۔بلکہ اپنے اپنے مذہب پہ یقین کی وجہ سے انہیں ایسا کرنے میں کبھی کوئی تامل نہیں ہوا۔جبکہ اسلام دشمن قادیانی ۔ مرزائی المعروف احمدی اسلام اور آئین پاکستان کی رُو سے کافر اور شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ہونےکے باوجود پاکستان میں ہی مسلمانوں کے نام رکھ کر مسلمانوں کو اپنے کافرانہ عزائم خفیہ رکھتے ہوئے دہوکہ دیتے ہیں۔ اس لئیے
اسلام اور پاکستان کے وسیع تر مفاد کے لئیے ہمارا مطالبہ ہے :۔
کہ ریاست پاکستان اور پاکستانی عوام پہ یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ قادیانیوں المعروف مرزئیوں کو مسلمانوں کے نام رکھنے ۔ لکھنے۔ بیان کرنے سے منع کرے ۔ اگر یوں فوری طور پہ ممکن نہ ہو تو انہیں اپنے ناموں کے ساتھ قادیانی لکھنے۔ اور قادیانی بتانے کا پابند کرے ۔ تانکہ مسلمان ناموں کے پردوں میں چھپ کر قادیانی۔ پاکستانی مسلمانوں کو دہوکہ نہ دے سکیں۔اس کے لئیے ضروری ہے کہ دین ِ اسلام اور اللہ کے آخر ی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے تقاضے کے تحت آئین پاکستان کی رُو سے آئین میں یہ واضح طور پہ درج کیا جائے ۔ کہ جس طرح پاکستان میں دیگر بسنے والے مذاہب اپنے بارے میں محض نام سے ہی واضح کر دیتے ہیں کہ وہ کونسے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔ تانکہ معاشرے میں روز مرہ آپس کے معاملات میں کسی فرد کو دوسرے کے مذہب کے بارے مغالطہ نہ لگے ۔ اسی طرح قادیانی بھی اپنے نام کے ساتھ قادیانی لکھنے کی پابندی کریں۔
عقیدہ ختم ِ نبوتﷺ کے لئیے عالم اسلام اور بر صغیر کی انگنت شخصیات اور علمائے اکرام نے انتھک محنت کی اور کر رہے ہیں۔ جن سب کا فردا فردا نام گنوانا یہاں ناممکن ہے ۔
قادیانیت کے سدِ باب کے لئیے کام کرنے والی تنظیمیں۔
- ختم نبوتﷺ فورم :۔
انٹر نیٹ پہ ” ختم نبوت ﷺ فورم “ ختمِ نبوت کی تمام تنظیموں کا ترجمان فورم ہے ۔ اور اس پہ گرانقدر اور بے بہاء اور بہت لگن اور محنت سے نہائت قیمتی کام کیا گیا ہے ۔ اس فورم پہ دلائل کی روشنی میں قادیانیت کے ہر پہلو کو کا پردہ چاک کیا گیا ہے اور قادیانیت کے منہ سے مکر فریب اور دہوکے کا نقاب نوچ کر قادیانیت کا اصل چہر مسلمانوں کو دکھایا گیا ہے ۔عقیدہ تحفظِ ختمِ نبوتﷺ پہ ہر موضوع سے متعقلہ کتابوں کا بے بہا اور گرانقدر خزانہ بھی موجود ہے ۔
- اسلامک اکیڈمی مانچسٹر ( برطانیہ)۔:
یہ تنظیم علامہ داکٹر خالد محمود کی نگرانی اور سربراہی میں ۔یوروپی ممالک میں ختم نبوت ﷺ کے تحفظ کے لئیے کام کرتی ہے۔
- ادارہ مرکز یہ دعوت وارشاد چنیوٹ :۔
چنیوت میں فتنہ ارتداد قادیانیت کے سدِ باب کے لئیے "جامعہ عربیہ “ کے بانی مولانا منظور احمد چینوٹی ؒ نے ادارہ مرکز یہ دعوت وارشاد چنیوٹ قائم کیا اور اسکی ایک شاخ ادارہ مرکز یہ دعوت وارشاد چنیوٹ واشنگٹن میں بھی قائم ہے ۔
- عالمی مجلس تحفظ ختم نبوتﷺ :۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے پہلے امیر سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ اور جنرل سیکرٹری مولانا محمد علی جالندھری منتخب ہوئے تھے ۔مجلس تحفظ ختم نبوت ۔ عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ اور منکرین ختم نبوت کے مقابل ختم نبوت کی تبلیغ کرتی ہے ۔ اس کی صدارت علامہ سید محمد یوسف بنوری ؒ نے بھی فرمائی۔ایک ہفتہ روزہ ’’ختم نبوت‘‘شائع ہوتا ہے ۔پاکستان اور پاکستان س ے باہر لندن میں انکے دفاتر موجود ہیں۔تحریری مواد اور تحقیقی کام کے حوالے سےحضرت انورشاہ کشمیری ۔ شہید اسلام مولا نامحمدیوسف لدھیانوی اور مولانا اﷲ وسایا کے اسمائے گرامی بہت نمایاں ہیں۔موجودہ امیر حضرت مولانا عبد المجید لدھیانوی ہیں۔
تحریک تحفظ ختم نبوتﷺ :۔ اکیس اور بائیس ۔ 21 اور 22 جولائی 1934ء کوعالمی مجلس احرار اسلام نے مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی کے زیر قیادت ختم نبوت کے تحفظ کیلئے قادیان میں پہلی ختم نبوت کانفرنس منعقد کی ۔جس کی صدارت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ نے کی تھی۔عالمی مجلس احرار اسلام کا کام ابھی تک موجودہ دور میں فعال ہے اور اب اس کو تحریک تحفظ ختم نبوت کے نام سے جانا جاتا ہے۔
- انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹﷺ :۔
14 اگست1995ء مورخہ 17ربیع الاول 1416ھ کو ’’انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ ‘‘قائم کی گئی جس کا مرکزی دفتر لندن میں واقع ہے۔
- ختم نبوتﷺ اکیڈیمی :۔(انگلینڈ)
جسکے سربراہ مولانا سہیل باوا ہیں۔
- آل انڈیا مجلس تحفظ ختم نبوت ﷺدیوبند (بھارت)
- مجلس تحفظ ختم نبوتﷺ ڈھاکہ (بنگلہ دیش)
- انجمن فدایان ختم نبوت ملتان(پاکستان)
- تحریک پاسبان ختم نبوت (جرمنی)
اسکے علاوہ پاکستان کے اندر اور باہر بہت سی شخصیات اور تنظیمیں فتنہ ارتداد و کفر ”قادیانیت“ کے سدِ باب کے لئیے کام کر رہی ہیں ۔ مگر پاکستانی حکومتوں کی سیاسی ول اور سیاسی خود اعتمادی میں کمی اور قادیانیت کے خلاف پاکستان کے آئین کو بروئے کار لانے میں پس و پیش کی وجہ سے قادیانیت کا فتنہ ۔اسلام اور پاکستان کے خلاف پاکستان کے اندر اور باہر بدستور سازشیں کر رہا ہے ۔ اسلئیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی حکومت پہ پاکستانی عوام دباؤ ڈالیں تانکہ تحفظ ختم نبوت ﷺ کے لئیے آئین اور اسلام کی روح کے مطابق آئین پاکستان پہ عمل درآمد کو یقینی بنایا جاسکے ۔
ختم نبوت ﷺ فورم کا لنک http://khatmenbuwat.org/
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: 1018, 1200کے, 1974ء, 22000, 259, 600, 759, ۔7, ‘‘کہلواتے, “کافر”, ﷺ, ﷺکے, ہم, ہو, ہونے, ہونگی, ہونا, ہوگا, ہوئے, ہیں, ہیں۔, ہیں۔قادیانیوں, ہیں۔عقیدہ, ہے, ہے۔, ہے۔اور, فتنہِ, فتنے, ہدایت, ہر, فرض, ہزار, قیامت, قادیان, قادیانی, قادیانیوں, قادیانیت, قاری, قتل, قدر, قرون, قریب, قرآن, قران, قرار, قربانی, لمبی, لکھنی, لگایا, لٹکا, لئیے, لئے, لاہوری, ملا, موجود, موجودہ, میں, مکہ, مکرمہ, مگر, مانگنا, مانگے, مارے, مبالغہ, متفقہ, محمد, مدعی, مرتد, مرتدین, مرحلے, مردہ, مرزا, مرزائیوں۔, مسلمان, مسلمانوں, مسلیمہ, مضبوط, مطابق, معجزہ, نہ, نہیں, نہائیت, چوہتر, نوش, نے, چھ, نئی, چاہئیے, ناک, نبوی, نبوت, نبوتﷺ, نبی, نذارنہ, نزدیک, نسل, نسلوں, نعوذ, و, وہ, والوں, والی, ڈالیں۔عقیدہ, والے, واجب, واصل, یہ, یوم, یومِ, یوں, یا, یعنی, ۔, ۔قادیانی, ۔قادیانیوں, ۔کئی, ۔انگریز, ۔اور, ۔اگر, ۔اس, ۔تو, ۔جس, ۔سات, ۔عقیدہ, کہ, کفار, کفر, کل, کو, کوئی, کوشش, کوششوں, کی, کیا, کیا۔, کے, کھڑی, کھٹن, کئی, کئگنا, کا, کافروں, کتب, کذاب, کر, کرنے, کرنا, کریم, کریں, کرے, کرام, کرتے, کردار, کسی, گنا, گناہ, گنت, گیا, گیا۔, گے, گئی, گئے۔, گروپ, پہ, پہنچنے, پوری, پیش, پڑے۔قادیانی, پاکستان, پارلیمنٹ, پر, پردہ, ء, آنچ, آیات, آپ, آئین, آئیندہ, آتی, آزماجدو, ئے, اہمیت, اللہ, المعروف, الانبیاء, السلام, امام, امت, امتی, ان, انیس, انگریزوں, اناسٹھ, اندازہ, اولٰی, اور, اورضعیفوں, ایمان, ایک, اکرام, اگر, اٹھانی, اٹھارہ, اپنی, اپنے, اپنا, ابو, ابوبکر, اجماع, احمدی, احمدیوں, احادیثِ, ادا, ارتداد, ارض, اس, اسلئیے, اسلام, اسے, اسکی, اساسی, اصحابہ, اطاعت, بلکہ, بلا, بنیاد, بچے, بنتی, بنتا, بیان, بڑی, بڑے, بڑا, بھی, باللہ, بائیس, بات, بارہ, باعث, بدر, براہِ, بشمول, بعد, تہہ, تہیغ, تو, تک, تھی, تھا, تھا۔, تانکہ, تابناک, تاریخ, تحفظ, تحفظِ, تعلیمات, تعداد, جہنم, جہاد, جہد, جن, جنگ, جو, جھوٹی, جھوٹے, جامِ, جان, جانوں, جانے, جائے, جاری, جاسکتا, جب, جد, جس, حفاظت, حنیفہ, حیات, حافظ, حد, حرم, حساس, حضرت, خلاف, خواتین, خاتم, خاطر, ختم, ختمِ, دہوکہ, دہوکے, دلیل, دن, دن۔, دو, دور, دوران, دین, دینے, دیا, دیتے, دے, دریغ, درکار, دعویدار, دعویداروں, دعواہ, رہاہے, روز, روشنی, رُو, راست, رحمۃ, رضی, زندیق, زائد, سنہ, سو, سولی, سی, سے, سامنے, سات, سب, ستمبر, سرخرو, سزا, شہید, شہادت, شفاعت, شہداء, شمار, شیہد, شرمندگی, صبر, صحابہ, صخیم, صدیقؓ, صرف, طویل, طور, طیبہ, طرح, عقیدہ, عقیدے, علیہ, عنہم, عیسیٰ, غالباً, غازی, غداری, غزوہ

والعصر
۔سورة العصر۔
وَالْعَصْرِ * إِنَّ الإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ * إِلاَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴾ (العصر1-3)
ترجمہ۔
1)۔ عصر کی قسم
2)۔ بے شک انسان خسارہ میں ہے۔
3)۔ بجز اُن کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور آپس میں حق (بات) کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ۔
سورۃ والعصر ۔قرآنِ کریم کی دوسری مختصر سی سورت ہے۔ جس میں اللہ تعالٰی نے گواہی دی ۔ قسم اٹھائی ہے ۔ اور وہ زمانوں کی قسم ہے۔ وقت کی قسم ہے کہ جب کچھ بھی نہیں تھا ۔تو اللہ تعالی موجود تھا اور اللہ تعالٰی ہر زمانے کا شاہد ہے۔ گواہ ہے کہ ۔ اللہ تعالٰی سب زمانوں سے پہلے کا ہے۔ ہمیشہ سے ہے۔ اللہ تعالٰی نے سارے زمانے دیکھے ہیں اور حضرتِ انسان کو بار بار پھسلتے دیکھا ہے۔ اسی لئیے اللہ تعالٰی اپنے بندوں کو زمانوں کی قسم کھا کر یہ باور کرواتا ہے کہ مجھے سارے زمانوں کی۔ وقت کی قسم ہے ۔کہ میں زمانوں سے شاہد ہوں ۔ جانتا ہوں اور مجھے علم ہے کہ یوں ہوا ہے ۔ یوں ہوتا آیا ہے اور یہی حقیقت ہے کہ
انسان خسارے کا سودا کرتا ہے ۔ تھوڑے کے لئیے زیادہ چھوڑ دیتا ہے ۔ وہ کام کرتا ہے جس میں خود اس کے لئیے۔ اور دوسروں کے لئیے سراسر خسارہ ہوتا ہے ۔ اور اللہ تعالٰی یہ سب کچھ زمانوں سے یعنی ابتدائے آفرینش سے دیکھ رہا ہے۔ کہ یوں ہو رہا ہے ۔انسان خساروں کا، گھاٹے کا ۔ نقصان کا ۔ سودا کرتا ہے ۔
مگر ۔ ہاں وہ لوگ ؟۔ اور کون ہیں وہ لوگ ؟ جوخسارے کا سودا نہیں کرتے ۔جواہلِ خسارہ میں شامل نہیں ؟۔ وہ جو ۔ ایمان لاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے دین پہ ۔ اسکی بتائی ہوئی باتوں پہ ۔ اسکے احکامات پہ ۔ عمل کرتے رہے ہیں ۔ عمل کرتے ہیں۔ وہ حق بات کی تلقین کرتے ہیں، یعنی وہ حق بات کرتے ہیں ۔حق پہ عمل کرتے ہیں اور دوسروں کو ایسا کرنے کا کہتے ہیں ۔
یعنی وہ اہلِ حق ہیں ۔ جھوٹ سے بچتے ہیں ۔ ہیر پھیر ۔ مکروفریب اور دہوکہ دہی نہیں کرتے رہے ، نہیں کرتے۔ ہمیشہ سچ کہتے رہے ہیں ، سچ کہتے ہیں۔ کسی جابر ۔ کسی آمر سے نہیں ڈرتے ۔ کسی مصلحت یا دنیاوی فائدے کے لئیے سچ کا ساتھ نہیں چھوڑتے ۔ حق کو حق کہتے ہیں۔ خواہ اس کے لئیے کتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑے اور انکے ایمان ۔ اور صالح اعمال کی وجہ سے۔ اور حق کا ساتھ دینے۔ اور حق پہ ڈٹ جانے کی وجہ سے۔ جب حالات انکے ناموافق ہوجاتے ہیں۔ ان پہ جبر اور ستم کیا جاتا ہے ۔ انکا جینا دوبھر کر دیا جاتا ہے۔ تو وہ زمانے کی ریت اور چلن کا ساتھ دیتے ہوئے بدکار لوگوں کاساتھ ۔ بدکار رسموں ۔ اور رواجوں کا ساتھ ۔جابر اور آمر حاکموں اور ظالموں کا ساتھ نہیں دیتے ۔انکے ظلم اور ستم پہ خاموش نہیں رہتے ۔کچھ بس میں نہ رہے ۔اورجب ان سب ستموں پہ۔ ان کا بس نہ چلے۔ کوئی پیش نہ چلے۔ تو وہ صبر کرتے ہیں اور اپنی کوشش جاری رکھتے ہیں۔اور اپنے جیسوں کو صبر کرنے اور اور سچ پہ ڈٹے رہنے کی تلقین اور ہدایت کرتے ہیں۔ یعنی وہ خود بھی ایمان لاتے ہیں۔ یقین رکھتے ہیں۔ اور نیک اعمال کرتے ہیں۔ حق اور سچ کا ساتھ دیتے ہیں ۔ دوسروں کو یوں کرنے کا کہتے ہیں۔ اور جب پیش نہ جائے تو برائی میں شامل نہیں ہوتے ۔ برائی کے سامنے سپر نہیں ڈالتے اور خود بھی صبر کرتے ہیں ۔ اور اپنے جیسوں کو بھی ۔ حق بات کہنے پہ۔ جو نامساعد حالات سے ۔ لوگوں کے ناروا رویے سے۔ اور جوروستم سے جب واسطہ پڑتا ہے ۔ تو انہیں صبر سے سب برداشت کرنے کی تلقین اور تاکید کرتے ہیں ۔ تانکہ حق بیان ہو۔ حق جاری ہو۔ اور لوگ حق کے لئیے ڈٹ جائیں۔ ڈٹے رہیں۔ اور مصیبت اور پریشانی میں صبر سے سب کچھ برداشت کریں ۔ بس یہی وہ لوگ ہیں۔ وہ لوگ! جو سارے زمانوں سے آج تک خسارے میں نہیں رہے!! اور نہ کبھی خسارے میں ہونگے!!۔
اور اللہ تعالٰی عصر کی۔ زمانوں کی ۔ وقت کی ۔ انسان کی تاریخ کا گواہ ہے۔اور اللہ تعالٰی خود۔ اس وقت کی قسم کھا کر اپنی شہادت کو ۔ گواہی کو بنیاد بنا کر۔ حضرتِ انسان کو خسارے اور خسارے میں نہ رہنے والوں کے بارے بیان کر رہا ہے ۔خبردار کر رہا ہے کہ ازلوں سے ۔ زمانوں سے کون سے لوگ فائدے اور کون سے لوگ خسارے میں رہے ۔ہیں کیونکہ اللہ سب کے انجام کو جانتا ہے۔ اور اسوقت بھی جانتا تھا۔ جب ہم سے بھی پہلے کے زمانوں میں جو لوگ مختلف برائیوں کے سامنے جھکتے نہیں تھے۔ اور اللہ کے بتائے ہوئے حق کے رستے پہ چلتے تھے۔ اور پریشانیوں پہ صبر کرتے ۔اور دوسروں کو حق پہ چلنے۔ اور صبر کرنے کی تاکید کرتے تھے ۔ تو فائدے میں رہتے تھے۔ اور جو اس کے برعکس جو لوگ جو یوں نہیں کرتے تھے۔ دنیاوی فائدوں اور مصحلتوں یا خوف یا ڈر کی وجہ سے ۔ ایمان نہیں لاتے تھے۔ نیک عمل نہیں کرتے تھے۔ اور حق کا ساتھ نہیں دیتے تھے۔ اور حق کا ساتھ دینے کی وجہ سے مصائب پہ صبر کی بجائے ظلم اور برائیوں پہ خاموش ہوجاتے تھے ۔ اور نہ ہی دیگر حق کا ساتھ دینے والے لوگوں کو۔ اور مصائب جھیلنے پہ انہیں صبر سے۔ حوصلے کے ساتھ، برداشت کرنے کی تلقین کرتےتھے۔ تو یہ لوگ خسارے میں رہے ۔ اور خسارے میں ہیں اور ۔ خسارے میں رہیں گے ۔
اور چونکہ اللہ تعالٰی نے یہ سب ہمیشہ سے دیکھ رکھا ہے۔ اورجو ہم سے پہلے کے سارے زمانوں میں بنی نوع انسان ہو گزرے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ان سب کے انجام کو دیکھ رکھا ہے ۔ انکے کئیے کے نتیجے سے واقف ہے ۔ اور وہ گواہ ہے ۔ اسلئیے انہی سارے زمانوں کی اور بنی نوع انسان کی ساری گزری نسلوں سے انکے حالات سے انجام سے باخبر ہونے کی وجہ سے۔ اللہ تعالٰی ہمیں خبردار کر رہا ہے ۔ کہ ہم اسکی قسم اور گواہی پہ یقین کرتے ہوئے سابقہ زمانوں اور آنے والے وقتوں کے خسارہ پانے والے لوگوں میں شامل نہ ہوجائیں اور ہدایت پائیں۔
اس لئیے ہمارے ہاں جن برائیوں کو رواج سمجھ کر۔ یا جن پہ اپنے آپ کو بے بس سمجھ کر۔ انہیں خاموشی سے برداشت کر لیا جاتا ہے۔ اس میں شامل ہوا جاتا ہے ۔ تو اس سورت والعصر سے ہمیں انسانوں کی دونوں قسموں کا پتہ چلتا ہے ۔کہ خسارے یا گھاٹے والے کون ہیں۔ اور اللہ سے منافع کا سودا کرنے والے کون ہیں اور انکا طریقہ کار کیا ہے۔
اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آج کے حالات میں ہمیں کس طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہئیے ،۔یعنی ایمان لانا اور یہ یقین ہونا کہ اللہ نے جو فرما دیا ہے۔ وہ ہی درست ہے ۔ وہی ہمارا اللہ ۔ وہی ہمارا آقا و مالک ہے ۔ اور اسی کا دین سچا ہے۔ کہ جو ہم اللہ کی خاطر اپنے دین کی خاطر اور اپنے پہ فرض ہونے کی وجہ سے اور اس فرض کی خاطر نیک عمل کریں ۔ اور حق کا ساتھ اور سچ کا ساتھ کبھی نہ چھوڑیں۔ خواہ کتنی ہی مشکلیں درپیش کیوں نہ ہوں ۔ کسی مصلحت کے تحت جھوٹ ۔ مکاری۔ فریب اور ناجائز کام نہ کریں ۔ اور اگر ایسا کرنے میں۔ یعنی سچ کہنے اور حق کام کرنے میں مشکلات پیش آئیں کہ جو عموماً آتی ہیں۔ تو اس پہ زمانے کا رواج کہہ کر اس برائی میں شامل نہ ہوں ۔ خود بھی اور دوسروں کو بھی تاکید کریں کہ ناشکرے نہ ہوں ۔ پچھتائیں نہیں ۔ بلکہ اس پہ صبر کریں اور اچھے عمل ۔ نیک عمل کرنے نہ چھوڑیں۔ اور حق کا ساتھ نہ چھوڑیں ۔ ۔ اور یہ اللہ تعالٰی ہے جو سارے زمانوں کی بنیاد پہ اپنی گواہی اور اسکی قسم دے کر فرما رہا ہے۔کہ اس میں ہمارا فائدہ ہے۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: (العصر13)ترجمہ۔۔عصر, (خسارے, )کچھ, ہم, ہمیں, ہمیشہ, ہمارے, ہمارا, ہو, ہونے, ہونا, ہوں, ہوئی, ہوئے, ہوا, ہوتا, ہوجاتے, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں،, ہیر, ہے, ہے۔, ہے۔۔, ہے۔کہ, ہے۔اور, ہاں, فائدہ, فائدے, ہر, فرما, فریب, فرض, قسموں, لوگوں, لیا, لئیے, لئیے۔, لانا, لاتے, منافع, موجود, میں۔, مکاری۔, مکروفریب, مالک, مجھے, مختصر, مشکلیں, مشکلات, مصلحت, نہ, نہیں, نقصان, چلن, چلے۔, چلتا, نے, چھوڑ, چھوڑیں, چھوڑیں۔, چھوڑتے, چھوریں, چاہئیے, ناموافق, ناجائز, ناشکرے, و, وہی, وقت, ڈٹ, والوں, والے, والعصر, والعصر۔سورة, وجہ, ڈرتے, یہ, یہی, یقین, یوں, یا, یعنی, ۔, ۔قرآنِ, ۔مگر, ۔۔, ۔کہ, ۔کچھ, ۔کیں, ۔کا, ۔انکے, ۔اور, ۔اسلئیے, ۔تو, ۔جواہلِ, ۔جابر, ۔حق, ۔سورۃ, کہ, کہہ, کہنے, کہتے, کو, کون, کو۔گواہی, کوشش, کیوں, کی۔, کیا, کے, کھا, کا, کام, کا،, کار, کاساتھ, کبھی, کتنی, کتنا, کر, کرنے, کرنا, کرواتا, کریم, کریں, کر۔, کرتے۔, کرتا, کس, کسی, گواہ, گواہی, گھاٹے, پہ, پہلے, پچھتائیں, پیش, پڑے, پھیر, پھسلتے, پتہ, ،, ،۔یعنی, ؟, ؟۔, آفرینش, آقا, آمر, آئیں, آتی, آج, اہلِ, اللہ, العصر۔ وَالْعَصْرِ, ان, انہیں, انکے, انکا, اچھے, انسانوں, ایسا, اگر, اٹھانا, اٹھائی, اپنی, اپنے, ابدائے, احکامات, اختیار, اس, اسی, اسکی, اسکے, اعمال, بلکہ, بنیاد, بنا, بنتے, بندوں, بیان, بڑا, بے, بھی, باور, بات, باتوں, بار, بارے, بتائی, بدکار, برائی, برائیوں, برداشت, بس, تو, تھوڑے, تھا, تاریخ, تحت, تعالیٰ, تعالٰی, جن, جوخسارے, جینا, جھوٹ, جانے, جانتا, جابر, جاتا, جاری, جب, جبر, جس, حقیقت, حالات, حاکموں, حضرتِ, خواہ, خود, خاموش, خاموشی, خاطر, خساروں, دہوکہ, دہی, دنیاوی, دونوں, دوبھر, دوسروں, دوسری, دی, دین, دینے۔, دیکھے, دیکھا, دیا, دیتے, دیتا, دے, درپیش, درست, رہنے, رہا, رہتے, رویہ, رواج, رواجوں, ریت, رکھتے, رسموں, زمانوں, زمانے, زیادہ, سمجھ, سچ, سنا, سودا, سورت, سی, سے, سے۔, ساتھ, سارے, سب, ستم, ستموں, سراسر, شہادت, شاہد, شامل, صالح, طریقہ, طرح, ظلم, ظالموں, علم, عموماً, عصر
انقلاب کا ڈول اور پاکستان۔
ہیں کواکب کچھ ۔نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ۔ یہ بازی گر کھلا
حکومت چھوڑ دو؟۔
اسملبیاں توڑ دی جائیں؟۔ورنہ ۔
یہ وہ مطالبات تھے جو اسلام آباد پہنچتے ہیں انقلاب کا ڈول ڈالنے والوں نے پہلے دن ہی داغنے شروع کئیے اور ان کی گھن گرج میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
یہ غیر آئینی مطالبات کس کی ایماء پہ ؟ اور کونسی طاقت کے بل بُوتے پہ کئیے جارہے تھے اور کئیے جارہےہیں ؟
وہ کون سی طاقتیں ہیں ۔ جو عمران اور طاہر القادری کو اشارہ دے چکی ہیں ۔ کہ ماحول کچھ اس طرح کا بناؤ ۔۔ کہ ہم کہنے والے ہوں کہ وزیر اعظم نواز شریف استعفی دےدیں۔ اس صورتحال کو سمجھنے کے لئیے علمِ سیاسیات میں ڈگری یافتہ ہونا ضروری نہیں ۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ کہ نواز حکومت کیوں اس مغالطے میں رہی۔ کہ یہ ایک دودن کا شور شرابہ ہے ۔اور جونہی یہ شو ختم ہوا ۔تو دیکھیں گے ان سے کیا مذاکرات کئیے جاسکتے ہیں؟۔
انبیاء علیة والسلام نے جب لوگوں کو دعوتِ دین دی۔ تو لوگ اس لئیے بھی ان پہ ایمان لے آئے کہ انبیاء علیة والسلام کا ماضی بے داغ ۔ کردار مثالی۔ فطرت میں حق گوئی وبیباکی اور اخلاق اعلیٰ ترین تھا۔ بہت سے لوگ فوراً ان کی نبوت پہ ایمان لے آتے ۔ اور دین میں شامل ہوتے چلےجاتے۔ کیونکہ لوگوں کو علم تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے ۔ انکا ماضی بے داغ ہے۔ انکا کردار مثالی ہے ۔ وہ حق گوئی اور بیباکی پہ کوئی مفاہمت نہیں کرتے ۔ اور انکے اخلاق اعلٰی ترین ہیں اور ایسے لوگ (انبیاء علیة والسلام) اگر نبوت کا دعواہ کر رہے ہیں ۔تو یقناً وہ اللہ کے نبی ہونگے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہےکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ کسی کی زبان پہ یقین کرنے کے لئیے اسکا کردار۔ اس کا ماضی دیکھتا ہے ۔اسکی حق گوئی و بیباکی کو پرکھتا ہے اور اسکے اخلاق کو جانچتا ہے ۔ عام طور پہ فوری یقین لانے کے لئیے ان چند صفات کو بنیاد بنا کر صاحب ِ بیان کی سچائی کو پرکھتا ہے اور اگر صاحب بیاں اس کی کسوٹی پہ اترے تووہ اس پہ یقین کر لیتا ہے کہ جو یہ کہہ رہا ہے وہ درست ہوگا۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شیخ السلام اور کپتان کا ماضی ۔ حق گوئی ۔ کردار اور اخلاق کے بارے کسی کو شائبہ ہے کہ وہ کب کب اور کیوں اپنے بیان بدلتے رہے ۔ اور انہوں نے یوٹرن لئیے ۔ اور کس کس کے سر پہ مغربی طاقتوں کا دستِ شفقت کیوں کررہا۔تو پھر ایسی کیا مصیبت آن پڑی تھی کہ عوام کی ایک بڑی تعداد میں ان شیخ السلام اور ماضی میں اسکینڈلز سے آلودہ سابقہ کرکٹ کپتان پہ آنکھیں بند کر کے۔ یقین کرتے ہوئے۔ لاکھوں کی تعداد میں اسلام آباد کی طرف رُخ کرتی؟ ۔اور شیخ السلام کے انقلاب پہ یقین رکھتے ہوئے ان کے ہاتھ بعیت کرتی؟ ۔ اور کپتان کی فرما روا آزادی کو اپنا منشاء بناتی؟ جب کہ دونوں کا ماضی عوام کے سامنے ہے ۔ کہ ایک محدود تعداد کو تو کئی سالوں کی محنت سے اپنی حمایت میں کھڑا کیا جاسکتا ہے ۔مگر لاکھوں کڑووں انسانوں کو یک دم لبیک کہنے پہ آمادہ کرنا فطرت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اور انسانی فطرت ہے کہ وہ ایسے جانے پہچانے لوگوں پہ خُوب سوچ سمجھ کر اعتبار کرتا ہے ۔اور پھونک پھونک کر قدم آگے بڑہاتا ہے ۔ تو پھر انقلاب لانے کا دعواہ کرنے والوں اور انہیں اسکرپٹ تیار کر کے دینے والوں نے۔ اسکرپٹ لکھتے ہوئے یہ اہم نکتہ کیوں نہ ذہن میں رکھا؟۔تو اسکی ایک سادہ سی وضاحت ہے ۔کہ اسکرپٹ رائٹر ز کو معلوم تھا کہ اسکرپٹ میں رنگ بھرنے کے لئے چند ہزار لوگ ھی کافی ہیں ۔ کہ پچیس تیس ہزار لوگ کبھی کسی بھی دو تہائی سے زائد اکثریت رکھنے والی حکومت کے لئیے اس حد تک خطرہ نہیں ہوتے کہ وہ حکومت کو چلتا کردیں ۔لاکھوں کی تعداد کی نسبت پچیس تیس ہزار لوگوں کو رام کرنا اور انہیں اپنی مرضی کے مطابق چلانا بہت آسان ہوتا ہے۔اور یوں حکومت کو بلیک میل کرتے ہوئے پس پردہ اپنے مطالبات منوانا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ کہ بہ نسبت لاکھوں کے بے قابو ہجوم کے ذریعئے حکومت گرا کر اپنے مطالبات منوانے کے۔
ان دونوں مارچوں کے اسکرپٹس جس نے بھی لکھے ہیں۔ خُوب سوچ سمجھ کر لکھے ہیں۔ اور نواز شریف کی معاملہ فہمی کو مد نظر رکھ کر لکھے ہیں ۔
اور اس سارے پلان کا اسکرپٹ رائٹر یہ جانتا ہے کہ میاں نواز شریف اپنی معروف ضدی طبعیت کی وجہ ایک ہی جگہ جمیں کھڑے رہیں گے۔ اور انھیں دباؤ میں لانا آسان ہوگا۔کہ سیاست میں جم جا جانا اور ایک ہی جگہ کھڑے ہوجانا ۔ جمود کا دوسرا نام ہے ۔ اور پاکستانی سیاست میں جمود لے ڈوبتا ہے۔اور یہی اسکرپٹ رائٹر نے تاثر دینا چاہا کہ نواز شریف ۔ حکومت اور نون لیگ کے بزرجمہر اسی دھوکے اور تفاخر میں رہیں کہ یہ چند ہزار لوگ ان کا اور انکی دوتہائی اکثریتی حکومت کاکیا بگاڑ لیں گے ۔ اور وہ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کی وجہ سے اس دہوکے میں آگئے ۔ اور ترپ کے پتوں سے چالیں یوں چلی گئیں کہ شریف بردران ۔ پنجاب حکومت اور نواز شریف حکومت یکے بعد دیگرے اپنی پوزیشنیں چھوڑتی ہوئی۔ پیچھے ہٹتی چلی گئی ۔ اتنی بڑی پارٹی کی دو تہائی اکثریتی حکومت ہوتے ہوئے نہ تو وہ اپنی اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ کر پائی اور نہ ہی جلد بازی میں ان سے کروائے گئے فیصلوں کے ما بعد نقصانات کو ہی سمجھ پائی ۔
کسی حکومت کی یہ ناکامی تصور کی جاتی ہے ۔ کہ لوگ اس کے خلاف سڑکوں پہ نکل آئیں۔کامیاب حکومت اسے گردانا جاتا ہے جو عوام کو سڑکوں پہ آنے سے پہلے ہی۔ انہیں راضی کرنے کا کوئی جتن کر لے۔ اس وقت پاکستانی عوام کی سب سے اولین مشکلات میں سے چند ایک مشکلات ۔ مہنگائی کا عفریت۔ توانائی کا بحران۔ بے روزگاری یا دوسرے لفظوں میں جسم اور جان کا رشتہ قائم رکھنے کے لئیے ہر روز جتن کرنا ہے۔ ملک کی آدہی سے زائد آبادی کو محض دو وقت کی روٹی پوری کرنی مشکل ہو رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت کو یہ سارے مسائل زرداری حکومت سے وراثت میں ملے ہیں ۔ مگر اس میں بھی کسی کو کوئی شک نہیں ۔ کہ نون لیگ کے بلند بانگ انتخابی دعوؤں کے برعکس نون لیگ کی حکومت کے ان پندرہ سولہ ماہ میں عوام کی زندگی پہلے سے زیادہ اجیرن ثابت ھوئی ہے۔
جس ملک میں توانائی کا خوفناک بحران ہو ۔ لوگوں کے کاروبار اور روزگار ٹھپ ہوں۔ ملک کے شہری بجلی پانی گیس نہ ہونے کی وجہ سے چڑچڑے ہو رہے ہوں ۔بجلی کی عدم فراہمی پورے خاندان کی نفسیاتی ساخت و پرواخت پہ اثر اندازہو رہی ہو۔ اس ملک میں نون لیگ کے وزیر توانائی۔خواجہ آصف ۔پندرہ ماہ بر سر اقتدار آنے کے بعد۔اپنی قوم کو کسی قسم کا ریلیف دینے کی بجائے گرمی میں جلتے عوام سے یہ کہیں ۔کہ اللہ سے دعا مانگیں کہ بارش ہو اور آپ کی تکالیف میں کچھ کمی ہو۔ تو ایسی گڈ گورنس پہ کون قربان جائے؟ ۔وزیر موصوف سے یہ سوال کیا جانا چاہئیے تھا کہ اگر آپ میں اتنی اہلیت نہیں کہ آپ عوام کو کوئی ریلیف دے سکیں تو کم از کم انکے زخموں پہ نمک تو نہ چھڑکیں۔ اور اگر عوام کی تکالیف میں کمی کا انحصار اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے میں ہی ہے۔ تو آپ کس خوشی میں اتنی بڑی وزات کی موجیں لُوٹ رہے ہیں۔ کسی بھی مہذب سیاستدان کی طرح استعفٰی دیں اور گھر کی راہ لیں۔ کہ ممکن ہے جو آپ کے بعد اس وزارت کو سنبھالے اس میں کچھ خداد صلاحیت آپ سے زیادہ ہو ںاور وہ عوام کو کچھ ریلیف دے سکے۔یہ تو ایک مثال ہے جو کسی لطیفہ سے کم نہیں ۔مگر پاکستان کے بے بس اور لاچار عوام کی ستم ظریفی دیکھئیے کہ ایسی مثالیں عام ہیں۔
شہباز شریف بڑے فخر سے دعواہ کرتے ہیں۔ کہ ان کا کوئی ایک بھی کرپشن کا کیس سامنے نہیں لایا جاسکتا ۔کیونکہ وہ کسی طور پہ کرپشن میں ملوث نہیں۔ مگر عوام نے پنجاب حکومت کے ایک وزیر کی ویڈیو دیکھی ہے ۔جس میں وہ ایک ایسے انسانی اسمگلر سے معاملات طے کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ جس پہ میڈیا کے مطابق ایک سو اسی سے زائد لوگوں نے دھوکہ بازی سے ۔رقم ہتیانے کے کیس کر رکھے ہیں ۔جو انٹر پول اور پتہ نہیں کس کس کو مطلوب ہے۔اور میاں صاحب نے اس ویڈیو کی حقیقت جانچنے کے لئیے ایک تین رکنی کمیٹی بنادی اور بس۔ سنا ہے بعد میں وزیر موصوف کے حمایتی یہ کہتے پائے گئے ہیں ۔کہ یہ لاکھوں روپے کی وہ رقم تھی۔ جو انہوں نے مذکورہ انسانی اسمگلر کو ادہار دے رکھی تھی ۔اور وہ انہوں نے واپس لی۔ ایک ایسا وزیر جو ایک معروف انسانی اسمگلر کے ساتھ معاملات کرتا ہے ۔ اسے رقم ادہار دیتا اور واپس لیتا ہے۔ ایسے جرم پیشہ فرد کے ساتھ معاملات کرنا تو کُجا اس کے ساتھ اگر کسی دعوت میں کسی وزیر کا کھانا کھایا جانا ثابت ہو جائے تو مہذب ممالک میں وزراء اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیتے ہیں۔ جبکہ وزیر موصوف کو ایک جرائم پیشہ کے ساتھ معاملات کرنے کے باوجود بجائے اس کے وزیر موصوف سے جواب طلبی کی جاتی اور تادیبی کاروائی کی جاتی ۔ انہیں اتنی اہم وزارت دے دی؟۔ اپنی ٹیم کے بارے خبر نہ رکھنی یا لاعلم رہنا۔ یا خبر ہوتے ہوئے اس پہ کاروائی نہ کرنا ۔یہ بھی اپنے فرائض سے غفلت برتنے کے برابر ہے۔
جہاں یہ عالم ہو کہ سرکاری ملازموں کو ذاتی ملازم سمجھا جائے ۔ نوکریاں بیچی جائیں۔ سرکار دربار میں اپنے من پسند لوگوں کو لانے کے لئیے ۔پرانے ملازمین حتٰی کے چھٹی یا ساتویں گریڈ کی خواتین ملازموں کو انکے گھر بار سے دور۔ بیس بائیس کلومیٹرز دورافتادہ جگہ پہ اچانک تبادلہ کر دیا جائے ۔ بہانے بہانے سے سرکاری ملازموں کو تنگ کیا جائے ۔تانکہ وہ بددل ہو کر اپنی ملازمت چھوڑ دیں ۔اور انکی جگہ اپنے منظور نظر لوگوں کو بھرتی کیا جاسکے۔ تعینات کیا جاسکے۔ وہاں عام عوام ہی نہیں بلکہ یہ سرکاری ملازمین کو ہی اگر اجازت دے دی جائے۔ اور انہیں اپنی نوکری کے جانے کا اندیشہ نہ ہو تا۔تو ہمیں نہیں لگتا کہ کوئی سرکاری ملازم ایسا ہوگا جو احتجاج میں شامل نہ ہواور سرکاری ملازمین کے احتجاج کی تعداد لاکھوں تک نہ ہو ۔ یعنی لوگ تنگ آگئے ہیں۔ انکے مسائل حل نہیں ہو رہے ۔ ممکن ہے نواز شریف حکومت کی ترجیجات میں لمبی ٹرم کے منصوبے ہوں ۔جن سے چند سالوں میں نتیجہ عوام کے حق میں بہتر آئے ، مگر عوام کا فی الحال مسئلہ زندہ رہنے کی جستجو کرنا ہے ۔ اور وہ موجودہ حکومت سے بہت سی توقعات لگائے بیٹھے تھے ۔ اور حکومت فی الفور عوام کو کچھ دینے کی بجائے۔ مہنگائی کے سیلاب سے انکے مسائل میں اضافہ کرنے کا سبب بنی ہے۔
حکومت کے بارے یہ عام طور پہ کہا جاتا ہے ۔کہ میاں نواز شریف نے اندیشہ ہائے دور است کے تحت حفظِ ماتقدم کے طور پہ ۔اپنے اقتدار و اختیار کو اپنے ارد گرد کچھ معدوئے چند لوگوں میں بانٹ رکھا ہے ۔ ممکن ہے اس میں انکے کچھ اندیشے درست ہوں۔ لیکن یہ امر واقع ہے کہ اقتدار اللہ کی دی ہوئی امانت ہوتی ہے۔ اور جن حکمرانوں نے اپنا اقتدار ۔نیچے تک عام شہری تک تقسیم کیا ۔ انھیں کسی اندیشے کا ڈر نہ رہا ۔اور اور یوں کرنے سے جہاں عوام کو ریلیف ملا ۔وہیں اللہ نے ایسے حکمرانوں کے اقتدار میں برکت دی ۔
یہ حد سے بڑھی خود اعتمادی تھی یا سانحہ ماڈل ٹاؤن کی وجہ سے نواز حکومت اخلاقی طور پہ ایسا کرنے پہ مجبور تھی کہ طاہر القادری ایک غیر سیاسی تحریک کے سربراہ اور پاکستان میں کسی بھی لیول پہ ان کا کوئی سیاسی عہدہ نہیں۔ تو پھر کس خوشی میں حکومت نے انہیں پہلے روکا تو عین آخری وقت میں ایک سیاسی اور منتخب حکومت کو غیر آئینی طور پہ حکومت گرانے کی دہمکیوں کے باوجود انہیں ملک کے دارالحکومت کی طرف ہزاروں لوگوں کے ساتھ بڑھنے دیا؟
یہ سیاسی ناعاقبت اندیشی نہیں تو کیا ہے کہ جنہیں چند ہزار افراد کہا گیا اور یہ سمجھا گیا کہ لاکھوں کا دعواٰہ کرنے والے ان بیس پچیس ہزار لوگوں سے کیا تبدیلی لے آئیں گے؟ اور من پسند خوشامدی تجزئیہ نگاروں سے اپنی حکمت عملی کی داد وصول کی جاتی رہی ۔ اور اب یہ عالم ہے کہ پچیس تیس ہزار افراد کے ہجوم نے اسلام آباد میں آج ریڈ زون بھی کراس کر لیا ہے۔ اور عین پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے۔ ملک کے حساس ترین علاقے ریڈ زون میں۔ آن ڈیرے جمائے ہیں ۔جس سے ملک اور حکومت کی کی جگ ہنسائی ہور رہی ہے۔ اور ساری دنیا کو ریاستِ پاکستان کا ایک غلط پیغام جارہا ہے ۔ اور نواز شریف ابھی تک اپنے معدودے چند ایسے افراد کی مشاورت پہ بھروسہ کرنے کی وجہ سے ایک بار پھر بند گلی میں کھڑے ہیں ۔
کچھ لوگوں کو یاد ہوگا کہ انقلاب کا ڈول ڈالتے ہی مشرف نے اپنے کارکنوں کو اس انقلاب اور آزادی مارچ کا ساتھ دینے کا ارشاد فرمایا۔اور نواز شریف نےایک بار پھر ایک تاریخی غلطی کی ہے۔فوج کو اس معاملے میں ملوث کرکے کے اپنے ۔ مسلم لیگ ن۔ اور جمہوریت کے ہاتھ پاؤں باندھ دئیے ہیں۔اور مستقبل میں کئی مخصوص اور حساس معاملوں میں آزادی سے فیصلے کرنے کا اختیار کھو دیا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے ۔اس سے بہتر تھا وزیر اعظم استعفٰی دے دیتے۔اور اپنی پارٹی میں سے کسی کو ویزر اعظم نامزد کر دیتے ۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہوتی۔ کہ بات بات پہ اپنی زبان سے پھر جانے والے۔ آزادی و انقلابی ڈول ڈالنے والے ۔اس کے بعد کوئی نیا مطالبہ نہ کر دیتے ؟۔
تاریخ گواہ ہے۔ کہ اس طرح کے پلانٹڈ اور پلانیڈ انقلاب۔ کبھی کامیاب نہیں ہوئے ۔ان سے تبدیلی تو ہوتی ہے۔ مگر تبدیلی نہیں آتی۔ کسی حقیقی انقلاب کے لئیے عام آدمی یعنی عوام کی تربیت لازمی ہوتی ہے کہ وہ انقلابی تبدیلی کا باعث بن سکے۔جو اس سارے انقلابی عمل میں کہیں نظر نہیں آتی ۔ کہ پاکستان کے عام آدمی یعنی عوام کو اس طرح لاچار کر دیا گیا ہے کہ وہ سوتے میں بھی دو وقت کی باعزت روٹی کمانے کی خاطر اور زندہ رہنے کی جستجو کے ڈراؤنے خواب دیکھتا ہے اور اس قدر منتشر ہے کہ اسے سوائے اپنے حالات کے کسی اور طرف دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ۔ تو پھر عام آدمی کی تربیت اور شمولیت کے بغیر یہ کیسا انقلاب برپا ہونے جارہا ہے؟ ۔
ایک تبدیلی وہ ہے جس کا نعرہ لگایا جارہا ہے۔ ”انقلاب“۔ اور ایک تبدیلی وہ ہے جو اسکرپٹ رائٹر نے اپنے من پسند طریقے سے لانی چاہی ہے۔ یعنی پہلی تبدیلی ”انقلاب “ کا جھانسہ دیکر دوسری تبدیلی ہی اصل گوہر مقصود ہے۔۔
جہاں ضامن حضرات جائز طور پہ برہم ہیں۔ وہیں لوگ اس بات پہ حیران ہیں کہ شیخ السلام اور کپتان نے مختلف سیاسی حکومتی شخصیات کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ کوئی غیر آئنی مطالبہ یا اقدام نہیں کریں گے ۔ تو پھر یہ کیوں بار بار اپنا بیان بدل رہے ہیں ۔ اور اتنی یقین دہانیوں کے باوجود غیر آئینی مطالبوں پہ اڑے ہوئے ہیں۔لیکن ان کو (عوام کو)یہ پتہ نہیں کہ جو کسی کے بھروسے پہ پہلی بار ہر حد پھلانگ جائیں ۔پھر انھیں اس کے اشارے پہ بار بار ہر حد پھلانگنی پڑتی ہے۔اتنے سالوں سے اس ملک میں کوڑھ کی فصل بیجی جارہی ہے ۔ اب یہ فصل پک چکی ہے۔کچھ طاقتیں ایسی ہیں جنہوں نے اس ملک کے تمام ستونوں کو بے بس کر رکھا ہے اور جب انھیں پاکستان کی ترقی یا استحکام کا پہیہ روکنا مقصود ہوتا ہے تو وہ اشارہ کر دیتی ہیں اور پہلے سے بنے بنائے بچے جمہورے طے شدہ پروگرام کے تحت حرکت میں آجاتے ہیں ۔اور حد یہ ہے کہ انھیں رسپانس بھی ملنا شروع ہو جاتا ہے ۔
چند ہفتے قبل کوئی سوچ سکتا تھا کہ۔ وہ لوگ جن کا پاکستان کی سیاست اور پارلیمینٹ میں وجود ہی نہیں۔ وہ آج کس زورو شور سے پورے ملک۔ کو اسکے عوام کو ۔بے یقینی کی ٹکٹکی پہ چڑہا کر تماشہ بنادیں گے؟یہ سیاسی بصیرت سے بڑھ کر کسی تیسری قوت کی اپروچ ھے۔اور جو لوگ ایک بار کسی کے ہاتھوں پہ کھیلیں ۔۔ پھر انھیں ہمیشہ انھی کے ہاتھوں کھیلنا پڑتا ہے۔
لمحہ بہ لحمہ بدلتی اس ساری صورتحال میں موجودہ حکومت کو دیوار کے ساتھ لگا کر پس پردہ اس سے وہ مطالبات منائے جائیں گے ۔ جس پہ ابھی تک ہماری حکومت بظا ہر اسٹینڈ لئیے کھڑی ہے ۔ اسمیں مشرف کی پاکستان سے غداری اور امریکہ سے وفاداری کے انعام کے طور پہ اس کی رہائی ۔ تانکہ امریکہ کے لئیے کام کرنے والے غداروں کو یہ پیغام جائے کہ وہ امریکہ کے لئیے اپنی قوم سے غداری کرنے والوں کو امریکہ تنہا نہیں چھوڑتا۔ دوسری بڑی وجہ ۔ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی ۔ اور تیسری بڑی وجہ ۔ پاکستانی عوام کو آمنے سامنے لا کر تصادم میں بدلنا ہے۔”عرب بہار“ جیسا فار مولہ بہت شاطر دماغوں نے اپنی پوری طاغوتی طاقت سے سارے وسائل بروئے کار لا کر بنا یا ہے ۔زرہ تصور کریں یہ دھرنا پروگرام کچھ طویل ہوتا ہے۔ تو دیگر جماعتیں بھی اپنے ہونے کا ثبوت دینے کے لئیے ۔اپنی اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ کرنے پہ نکل آئیں۔ تو کارکنوں کا ملک گیر پیمانے پہ یہ تصادم کیا رُخ اختیار کرے گا؟۔ یہ وہ کچھ پس پردہ عزائم ہیں جو عالمی طاقتیں دنیا کی واحد اسلامی نیوکلئیر ریاست کے بارے رکھتی ہیں۔ جس کے بارے میں عالمی میڈیا میں یہ تاثر دیا جائے گا ۔کہ اس ملک میں کبھی بھی۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ تو ایسے میں نیوکلئیر ہتیار اگر دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گئے۔ تو دنیا کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے ۔ اور اس تصور کو دنیا میں بڑہا چڑھا کر پیش کیا جائے گا ۔ اور ہماری بدقسمتی سے پاکستان مخالف عالمی طاقتیں پروپگنڈاہ اور دہمکی دھونس کے زور پہ ۔ایسے بے وجود سایوں کو وجود دینا جانتی ہیں۔ایسے میں پاکستان کا کیس عالمی برادری میں کمزور ہو جائیگا۔
اس بار شاید ہمیشہ کی طرح ”عزیز ہموطنو“ نہ ہو ۔کہ اب یہ فیشن بدلتا جارہا ۔ اورکچھ لوگ پہلے سے تیار کر لئیے جاتے ہیں ۔کہ جنہیں اگر نوبت آئی ۔تو انہیں آگے کر دیا جائے گا ۔ اور پس پشت”میرے ہموطنو“ پروگرام ہی ہوگا۔اس امر کا انحصار نواز شریف کی بارگینگ پاور پہ ہوگا۔ اور مارچ میں شامل کارکنوں کی تعداد اور استقلال کی بنیاد پہ ہوگا۔ کہ پس پردہ اپنی شرائط کس طرح منوائی جاسکتی ہیں۔ اگر دھرنے کے قائدین اسکرپٹ پلیئر کے اشارے پہ دھرنا اور احتجاج ختم بھی کر دیں ۔تو بہر حال ایک بات طے ہے کہ ان دھرنوں سے پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ پاکستان کی بنیادیں بھی ہل کر رہ جائیں گی ۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: )کچھ, فہمی, ہم, ہمیں, ہنسائی, ہو, ہونے, ہونگے۔, ہونا, ہو۔, ہوگا, ہوگا۔کہ, ہوگا۔تو, ہوں, ہوں“۔, ہوئی, ہوئی۔, ہوئے, ہوئے۔, ہوا, ہواور, ہوتی, ہوتی۔, ہوتے, ہوتا, ہوجانا, ہور, فوری, فوراً, ہی, ہیں, ہیں۔, ہیں۔اور, ہیں۔شہباز, ہیں؟۔, فیصلوں, فیصلے, ہے, ہے۔, ہے۔ جہاں, ہے۔فوج, ہے۔کچھ, ہے۔اور, ہے۔حکومت, ہےکہ, ہے؟, ہٹتی, ہاؤس, ہائے, ہاتھ, ہتیانے, ہجوم, فخر, ہر, فرما, فرمایا۔اور, فراہمی, فرائض, فرد, فرصت, ہزار, ہزاروں, فطرت, قوم, قائم, قابو, قدم, قدر, قربان, قسم, لفظوں, لمبی, لوگ, لوگوں, لیول, لی۔, لیکن, لیگ, لیں, لیں۔, لیا, لیتا, لُوٹ, لے, لے۔, لکھے, لکھتے, لگایا, لگائے, لگتا, لئیے, لئے, لانی, لانے, لانا, لاچار, لایا, لاکھوں, لازمی, لاعلم, لبیک, لطیفہ, مہنگائی, مفاہمت, مہذب, ملوث, ملے, ملک, ملا, ملازم, ملازموں, ملازمین, ملازمت, ممکن, ممالک, من, منونے, منوانا, منتخب, منتشر, منشاء, منصوبے, منظور, موجودہ, موجیں, موصوف, میل, میڈیا, میں, میں۔, میاں, مگر, ما, ماہ, مانگنے, مانگیں, ماڈل, ماتقدم, ماحول, مارچ, مارچوں, ماضی, مثال, مثالی, مثالی۔, مثالیں, مجبور, محنت, محدود, محض, مخصوص, مد, مذکورہ, مذاکرات, مرضی, مسلم, مسئلہ, مسائل, مستقبل, مشکل, مشکلات, مشاورت, مشرف, مصیبت, مطلوب, مطالبہ, مطالبات, مطابق, مظاہرہ, معلوم, معاملہ, معاملے, معاملات, معدوئے, معدودے, معروف, مغالطے, مغربی, نہ, نہیں, نہیں۔, نفسیاتی, نقصانات, چلی, چلےجاتے۔, چلا, چلانا, چلتا, نمک, چند, نون, نوکری, نوکریاں, نواز, نیا, چڑچڑے, نے, نے۔, نےایک, ن۔, نکل, چکی, نکتہ, نگاروں, چھوڑ, چھوڑتی, چھڑکیں۔, چھٹی, چاہی, چاہئیے, چاہا, چالیں, نام, نامزد, ناکامی, ناعاقبت, نبوت, نبی, نتیجہ, نسبت, نظر, نعرہ, و, وہ, وہاں, وقت, ڈول, ڈوبتی, ویڈیو, ڈیرے, ویزر, ڈگری, واقع, ڈالنے, والوں, والی, والے, والے۔, ڈالتے, والسلام, واپس, وبیباکی, وجہ, ور, ڈراؤنے, وراثت, وزیر, وزات, وزارت, وزراء, وصول, وضاحت, یہ, یہی, یقناً, یقین, یوٹرن, یوں, یک, یکے, یا, یافتہ, یاد, یعنی, ۔, ۔ یہ, ۔لاکھوں, ۔مگر, ۔نیچے, ۔نظر, ۔وہیں, ۔وزیر, ۔یہ, ۔۔, ۔کہ, ۔کیونکہ, ۔کسی, ۔پندرہ, ۔پرانے, ۔ان, ۔اور, ۔اپنے, ۔اس, ۔اسکی, ۔بجلی, ۔تو, ۔تانکہ, ۔جن, ۔جو, ۔جس, ۔رقم, کہ, کہہ, کہنے, کہیں, کہا, کہتے, کلومیٹرز, کم, کمی, کمیٹی, کمانے, کو, کون, کونسی, کوئی, کواکب, کی, کیونکہ, کیوں, کیا, کیس, کیسا, کُجا, کڑووں, کے, کے۔, کے۔ان, کھلا, کھو, کپڑے, کپڑا, کھانا, کھایا, کپتان, کئی, کئیے, کا, کافی, کامیاب, کاکیا, کاروائی, کاروبار, کارکنوں, کب, کبھی, کر, کرنی, کرنے, کرنا, کروائے, کرکے, کرکٹ, کرپشن, کراس, کرتی, کرتے, کرتا, کردیں, کردار, کردار۔, کررہا۔تو, کس, کسوٹی, کسی, گلی, گڈ, گوئی, گواہ, گورنس, گیا, گیس, گے, گے۔, گے؟, گھن, گھر, گئی, گئیں, گئے, گر, گرمی, گریڈ, گرا, گرانے, گرج, گرد, گردانا, ٹیم, ٹھپ, ٹاؤن, ٹرم, ںاور, پہ, پہلی, پہلے, پہنچتے, پہچانے, پلان, پلانیڈ, پلانٹڈ, پچیس, پنجاب, پندرہ, پول, ھوئی, پوری, پورے, پوزیشنیں, پی, پیچھے, پیدا, پیشہ, پیغام, پڑی, پھونک, پھر, پانی, پاور, پاکستان, پاکستانی, پاکستان۔ہیں, پاؤں, پائی, پائے, پارلیمنٹ, پارٹی, پتہ, پتوں, پرکھتا, پردہ, پس, پسند, ،, ؟, ؟۔, آلودہ, آمادہ, آن, آنے, آنکھیں, آگے, آگئے, آپ, آپنے, آئینی, آئیں, آئیں۔کامیاب, آئے, آباد, آبادی, آتی, آتی۔, آتے, آج, آخری, آدہی, آدمی, آزادی, آسان, آصف, اہلیت, اہم, افراد, اقتدار, الفور, القادری, اللہ, الحال, السلام, امانت, امر, ان, انہوں, انہیں, انقلاب, انقلابی, انقلاب۔, انکی, انکے, انکا, انٹر, انھیں, اچانک, انبیاء, انتخابی, انحصار, اندیشہ, اندیشی, اندیشے, اندازہو, انسانوں, انسانی, اولین, اور, ایمان, ایماء, ایک, ایسی, ایسے, ایسا, اکثریت, اکثریتی, اگر, اپنی, اپنے, اپنا, اب, ابھی, اتنی, اترے, اثر, اجیرن, اجازت, احتجاج, اخلاق, اخلاقی, اختیار, ادہار, ارد, ارشاد, از, اس, اسلام, اسمگلر, اسی, اسے, اسکی, اسکینڈلز, اسکے, اسکا, اسکرپٹ, اسکرپٹس, اسٹریٹ, است, استعفی, استعفیٰ, استعفٰی, اشارہ, اصولوں, اضافہ, اعلیٰ, اعلٰی, اعتمادی, اعتبار, اعظم, بہ, بہانے, بہت, بہتر, بل, بلند, بلیک, بلکہ, بن, بنی, بنیاد, بنا, بناؤ, بناتی؟, بنادی, بند, بولتے, بیچی, بیٹھے, بیان, بیاں, بیباکی, بیس, بُوتے, بڑہاتا, بڑی, بڑے, بڑھنے, بڑھی, بے, بگاڑ, بھی, بھرنے, بھروسہ, بھرتی, بانگ, بانٹ, باندھ, باوجود, بائیس, بات, بار, بارے, بارش, بازی, باعث, باعزت, بجلی, بجائے, بجائے۔, بحران, بحران۔, بدلتے, بددل, بر, برکت, برپا, برابر, برتنے, بردران, برعکس, بزرجمہر, بس, بس۔, بعیت, بعد, بعد۔اپنی, بغیر, تہائی, تفاخر, تقسیم, تنگ, تو, توقعات, تووہ, توڑ, توانائی, توانائی۔خواجہ, تین, تیار, تیس, تک, تکالیف, تھی, تھی۔, تھے, تھا, تھا۔, تا۔تو, تاثر, تادیبی, تاریخ, تاریخی, تبادلہ, تبدیلی, تجزئیہ, تحت, تحریک, ترین, ترپ, تربیت, ترجیجات, تصور, تعینات, تعالیٰ, تعداد, ثابت, جہاں, جلتے, جلد, جم, جمہوریت, جمود, جمیں, جمائے, جن, جنہیں, جو, جونہی, جواب, جگ, جگہ, جھوٹ, جا, جان, جانچنے, جانچتا, جانے, جانا, جانتا, جائیں۔, جائیں؟۔ورنہ, جائے, جائے۔, جائے؟, جاتی, جاتا, جارہے, جارہےہیں, جارہا, جاسکے۔, جاسکتے, جاسکتا, جب, جبکہ, جتن, جرم, جرائم, جس, جسم, جستجو, حفظِ, حق, حقیقی, حقیقت, حل, حمایت, حمایتی, حکمت, حکمرانوں, حکومت, حالات, حتٰی, حد, حساس, خلاف, خوفناک, خواب, خواتین, خود, خوشی, خوشامدی, خیال, خُوب, خاندان, خاطر, خبر, ختم, خداد, خطرہ, دہمکیوں, دہوکے, دم, دن, دنیا, دو, دون, دونوں, دو؟۔اسملبیاں, دوتہائی, دور, دور۔, دورافتادہ, دوسرے, دوسرا, دی, دین, دینے, دینا, دی۔, دیکھنے, دیکھی, دیکھیں, دیکھئیے, دیکھتا, دیگرے, دیں, دی؟۔, دیا, دیا؟یہ, دیتے, دیتے۔اور, دیتا, دے, دےدیں۔, دکھائے, دھوکہ, دھوکہ۔, دھوکے, دئیے, داد, دارالحکومت, داغ, داغنے, دباؤ, دربار, درست, دستِ, دعوؤں, دعواہ, دعواٰہ, دعوت, دعوتِ, دعا, ذہن, ذاتی, ذریعئے, رہنے, رہنا۔, رہی, رہی۔, رہیں, رہے, رہا, رقم, رنگ, روکا, روٹی, روپے, روا, روز, روزگار, روزگاری, ریلیف, ریڈ, ریاستِ, رُخ, رکنی, رکھ, رکھنی, رکھنے, رکھی, رکھے, رکھا, رکھا؟۔تو, رکھتے, راہ, رام, رائٹر, راضی, رشتہ, ز, زندہ, زندگی, زون, زیادہ, زائد, زبان, زخموں, زرداری, سمجھ, سمجھنے, سمجھا, سنا, سچائی, سنبھالے, سو, سولہ, سوچ, سوال, سوائے, سوتے, سی, سیلاب, سیاسی, سیاسات, سیاست, سیاستدان, سڑکوں, سے, سکیں“, سکے۔یہ, سکے۔جو, سالوں, سامنے, سامنے۔, سانحہ, ساتویں, ساتھ, ساخت, سادہ, ساری, سارے, سب, سبب, ستم, سر, سرکار, سرکاری, سربراہ, شفقت, شہری, شمولیت, شو, شور, شیخ, شک, شامل, شائبہ, شروع, شریف, شرابہ, صفات, صلاحیت, صورتحال, صاحب, ضمانت, ضدی, ضروری, ضرورت, طلبی, طور, طے, طاہر, طاقت, طاقتوں, طاقتیں, طبعیت, طرف, طریقے, طرح, ظریفی, عہدہ, عفریت۔, علم, علمِ, علیة, علاقے, عمل, عملی, عمران, عوام, عین, عالم, عام, عدم, غفلت, غلط, غلطی, غیر
کولبیرٹ ازم ۔ برصغیر ہندؤستان۔ اور برئنیر رپورٹ۔ چوتھی قسط۔
برنئیر کی ہندؤستان کے بارے ۔مذہب سے لیکر خاندانی رسم و رواج ۔سیاست اور انتظامیہ کے متعلق معلومات انتہائی مفید تھیں۔ مالی اور اقتصادی مقابلے کے لئیے مسابقت کی دوڑ میں شامل ہونے سے قبل ضروری تھا۔ کہ ہر نقطہ نظر اور ہر زاویے سے ۔ اہم معلومات کے ساتھ (کسی ممکنہ مہم جوئی کی صور ت میں )کچھ اہم امور سرانجام دئیے جائیں۔اور اسی وجہ سے ریاستوں کو ایسے معاملات میں عام افراد اور نجی فرموں پہ برتری حاصل تھی۔”سابقہ ادوار یعنی حکومتوں میں نوآبادیت سے متعلقہ مسائل میں ایک بڑا الجھا ہوا مسئلہ ریاستوں اور کمپنیوں کے مابین ملکیت اور اختیارات کا مسئلہ تھا ۔ ملکیت اور اختیارات کے اس گنجلک مسئلے کے سیاسی اور مالی پہلو تھے ۔ اور اسے ”خصوصیت “ نام دیا گیا اور اس مسئلے کا حل”خصوصیت “ نامی نظام,( "L’exclusif” )پہ منحصر تھا۔ جسے بعد کی حکومتوں میں ”نوآبادیت معائدہ“ یعنی” کالونی پیکٹ “کا نام دیا گیا ۔(۱۴٭)۔
کمپنیوں کی کثیر جہتی سرگرمیاں عموماَ ایک تسلسل کے ساتھ ریاستوں کی مقرر کردہ سفارتی اور قانونی حدود پار کرتی رہتیں ۔ سترہویں صدی کے وسط سے (تجارتی مفادات حاصل ہونے۔ اور تجارتی مفادات کی اہمیت کے باوجود) کمپنیوں اور ریاستوں کی آپس میں ہمیشہ صلح نہیں رہتی تھی۔ یعنی آپس میں مفادات کا ٹکراؤ ہوتا تھا ۔(۱۵٭)۔
برنئیر اس ساری صورتحال کے بارے باخبر ہونے کی وجہ سے یہ جانتا تھا کہ اسکی مہیاء کردہ معلومات کسقدر اہم اور مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔اسلئیے وہ تمام تفضیلات اور جزئیات بیان کرتا ہے۔برنئیر لکھتا ہے”یہ نکتہ بہت اہم اور نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ مغل فرماں روا شعیہ نہیں جو علیؓ ( رضی اللہ تعالٰی عنہ) اور انکی آل کو مانتے ہیں۔ جیسا کہ ایران میں شعیہ مانتے ہیں ۔ بلکہ مغل فرماں روا محمدن ہے ۔ (صلی اللہ علیہ وسلم ) (یعنی سُنی مسلک رکھتا ہے) اور نتیجتاَمغل باشاہ کے دربار میں سُنی درباریوں کی اکثریت ہے ۔ ترکی کے مسلمانوں کی طرح انکامسلک سُنی ہے جو عثمانؓ ( رضی اللہ تعالٰی عنہ) کو ماننے والے ہیں ۔ اسکے علاوہ مغل فرماں روا کے ساتھ ایک اور مسئلہ ہے کہ مغل بادشاہ کے آباءاجداد غیر ملکہ ہونے کی وجہ سے خود مغل بادشاہ بھی غیر ملکی سمجھا جاتا ہے ۔ مغل بادشاہ کا نسب تیمور لنگ سے جا ملتا ہے جو تاتار کے منگولوں کا سردار تھا ۔ مغل بادشاہ کے اجداد ۱۴۰۱ء چودہ سو ایک عیسوی میں ہندؤستان پہ حملہ آور ہوئے ۔اور ہندؤستان کے مالک بن گئے۔اسلئیے مغل فرماں روا تقریباَایک دشمن ملک میں پایا جاتاہے۔ فی مغل بلکہ فی مسلمان کے مقابلے پہ سینکڑوں کٹڑ بت پرستوں اور مشرکوں (idolaters)کی آبادی ہے۔ اسکے علاوہ مغل شہنشاہیت کے ہمسائے میں ایرانی اور ازبک بھی مغل شہنشاہ کے لئیے ا یک بڑا درد سر ہیں ۔ جسکی وجہ سے امن کا دور ہو یا زمانہ جنگ مغل شہنشاہ بہت سے دشمنوں میں گھرا رہتا ہے اور ہر وقت دشمنوں میں گھرا ہونے کی وجہ سے مغل شہنشاہ اپنے آس پاس بڑی تعداد میں اپنی افواج دارالحکومت، بڑے شہروں اور بڑے میدانوں میں اپنی ذات کے لئیے تیار رکھتا ہے۔برنئیر کے الفاظ میں”آقا ۔(مائی لارڈ) اب میں آپ کو مغل شہنشاہ کی فوج کے بارے کچھ بیان کرتا چلوں کہ فوج پہ کتنا عظیم خرچہ اٹھتا ہے ۔ تانکہ آپ کو مغل شہنشاہ کے خزانے کے بارے کسی فیصلے پہ پہنچ سکیں“ ۔(۱۶٭)۔
فوجی شان و شوکت کی نمائش بہت کشادہ اور نمایاں طور پہ کی جاتی ہے۔ ۔مالیاتی کمپنیوں کی طرف سے فیکٹریوں کے قیام کی حکمت عملی کے بعد سے۔ مغل شہنشاہ کی طرف سے اس فوجی شان و شوکت کی نمائش کی اہم مالی اور فوجی وجوہات ہیں ۔کیونکہ اسطرح
۱)۔ مغل شہنشاہ یوں اپنی دفاعی صلاحیت کا عظیم مظاہرہ کرتا ہے ۔
۲)۔ مغل شہنشاہ یوں اتنی بڑی فوج پہ اٹھنے والے اخراجات کے ذریعیے مالی استحکام کا پیغام دیتا ہے ۔
۳)۔ مغل شہنشاہ یوں مختلف قوموں کے خلاف جیتے گئے محاذوں کی کامیابیوں کی دھاک بٹھاتا ہے
۴) مغل شہنشاہ یوں اپنی افواج کی نمائش سے فوجوں میں شامل مختلف قومیتوں اور قوموں کی کثیر النسل سپاہ کی شمولیت سے سے برابری اوراتنی قوموں کے بادشاہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔
۵)۔ مغل شہنشاہ اسطرح اپنے فوجی ساز و سامان کی نمائش سے کسی قسم کی ممکنہ بغاوت کو روند دینے کی طاقت اور قوت کا مظاہرہ کرتا ہے۔
اب ملاحظہ ہو ۔ اؤل ۔وہ فوج ہے جو شہنشاہ کی سرکاری فوج ہے ۔ اور جسکی تنخواہیں اور اخراجات لازمی طور پہ بادشاہ کے خزانے سے جاتی ہیں۔(۱۷٭)۔
”پھر وہ افواج ہیں ۔جن پہ راجوں کا حکم چلتا ہے ۔ بعین جیسے جے سنگھے اور دیگر ۔ جنہیں مغل فرماں روا بہت سے عطیات دیتا رہتا ہے تانکہ راجے وغیرہ اپنی افواج کو جن میں راجپوتوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے ۔ انہیں ہمیشہ لڑائی اور جنگ کے لئیے تیار رکھیں۔ ان راجوں وغیرہ کا مرتبہ اور رتبہ بھی بادشا ہ کے امراء کے برابر سمجھا جاتا ہے ۔ جو زمانہ امن میں فوجوں کے ساتھ شہروں میں اور میدان جنگ میں اپنی اپنی افواج کے ساتھ بادشاہ کی ذات کے گرد حفاظتی حصار کھینچے رکھتے ہیں ۔ان راجوں مہاراجوں کے فرائض بھی تقریباَوہی ہیں جو امراء کے ہیں۔ بس اتنا فرق ہے کہ امراء یہ فرائض قلعے کے اندر ادا کرتے ہیں۔ جبکہ کہ راجے وغیرہ فصیل شہر سے باہر اپنے خیموں میں بادشاہ کی حفاظت کا کام سر انجام دیتے ہیں“۔(۱۸٭)۔
برنئیر تفضیل پیان کرتا ہے کہ کس طرح جب راجے وغیرہ قلعے کے نزدیک آتے ہیں تو وہ اکیلے نہیں ہوتے بلکہ راجوں کے ساتھ وہ خصوصی سپاہی بھی ہوتے ہیں جو کسی بھی وقت حکم ملنے پہ اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتار دینے کے لئیے تیار رہتے ہیں ۔(۱۹٭)۔
مغل فرماں روا جن وجوہات کہ بناء پہ راجوں کی سے یہ خدمات لینا ضروری سمجھتا ہے ۔وہ وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔:
۱)۔راجوں کی سپاہ پیشہ ورانہ تربیت اچھی ہوتی ہے اور ایسے راجے بھی ہیں جو کسی وقت بھی بادشاہ کی کسی مہم کے لئیے بیس ہزار یا اس سے زیاہ گھڑ سوارں کے ساتھ تیار رہتے ہیں۔
۲)۔مغل بادشاہ کو ان راجوں پہ بھروسہ ہے جو بادشاہ کے تنخوادار نہیں ۔ اور جب کوئی ان راجوں میں سے سرکشی یا بغاوت پہ آمادہ ہو ۔ یا اپنے سپاہیوں کو بادشاہ کی کمان میں دینے سے انکار کرے۔ یا خراج ادا کرنے سے انکار کرے ۔ تو مغل بادشاہ انکی سرکوبی کرتا ہے اور انہیں سزا دیتاہے۔اس طرح یہ راجے بادشاہ کے وفادار رہتے ہیں۔(۲۰٭)۔
دوسری ایک فوج وہ ہے جو پٹھانوں کے خلاف لڑنے یا اپنے باغی امراء اور صوبیداروں کے خلاف لڑنے کے لئیے ہے۔ اور جب گولکنڈاہ کا مہاراجہ خراج ادا کرنے سے انکار کردے ۔ یا وسا پور کے راجہ کے دفاع پہ آمادہ ہو تو اس فوج کو گولکنڈاہ کے مہاراجہ کے خلاف لڑایا جاتا ہے ۔ یا ان فوجی دستوں سے تب کام لیا جاتا ہے جب ہمسائے راجوں میں سے کسی کو اس کی راج گدی سے محروم کرنا مقصود ہو۔ یا ان راجوں کو خراج ادا کرنے کا پابند کرنا ہو تو اس فوج کے دستے حرکت میں لائے جاتے ہیں ۔ان سبھی مندرجہ بالا صورتوں میں اپنے امراء پہ بھروسہ نہیں کرتا کیونکہ وہ زیادہ تر ایرانی النسل اور شعیہ ہیں۔جو بادشاہ کے مسلک سے مختلف مسلک رکھتے ہیں ۔(۲۱٭)۔
مسلکی اور مذہبی معاملات کو ہمیشہ مدنظر رکھا جاتا ہے۔ کیو نکہ دشمن کے مذہب یا مسلک کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک طرح یا دوسری طرح کی افواج کو میدانِ جنگ میں اتارا جاتا ہے ۔ اگر ایران کے خلاف مہم درپیش ہو تو امراء کومہم سر کرنے نہیں بیجھا جاتا کیونکہ امراء کی اکثریت میر ہے اور ایران کی طرح شعیہ مسلک رکھتی ہے۔ اور شعیہ ایران کے بادشاہ کو بیک وقت امام ۔ خلیفہ ۔ اور روحانی بادشاہ ۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے دامادعلیؓ (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کی آل مانتے ہیں۔ اسلئیے ایران کے بادشاہ کے خلاف لڑنے کو ایک جرم اور بہت بڑا گناہ سمجھتے ہیں۔ مغل بادشاہ اسطرح کی وجوہات کی بناء پہ پٹھانوں کی ایک تعداد کو فوج میں رکھنے پہ مجبور ہے۔اور آخر کار مغل بادشاہ مغلوں پہ مشتمل ایک بڑی اور بادشاہ کی بنیاد فوج کے مکمل اخراجات بھی اٹھاتا ہے ۔ مغل افواج ہندوستان کی بنیادی ریاستی فوج ہے۔جس پہ مغل فرماں روا کے بہت اخراجات اٹھتے ہیں ۔(۲۲٭)۔
اس کے علاوہ مغل فرماں روا ں کے پاس آگرہ میں ۔ دلی میں اور دونوں شہروں کے گرد و نواح میں دو سے تین ہزار گھڑ سوار کسی بھی مہم کو جانے کے لئیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔بادشاہ کی روز مرہ کی مہموں کے لئیے۔ بادشاہ کے پاس ۸۰۰ آٹھ سو سے ۹۰۰ نو سو تک کے لگ بھگ ہاتھی ہیں ۔بڑی تعداد میں خچر اور سامان کھینچنے والے گھوڑے ہیں۔ جن سے بڑے بڑے خیمے ۔ قناتیں ۔ بیگمات اور انکا سازوسامان ۔ فرنیچر ۔ مطبخ (باورچی خانہ)۔مشکیزے ۔اور سفر اور مہموں میں کام آنے والے دیگر سامان کی نقل و حرکت کا کام لیا جاتا ہے۔(۲۳٭)۔
مغل فرماں روا کے اخراجات کا اندازہ لگانے کے لئیے اس میں سراؤں یا محلات کے اخراجات بھی شامل کر لیں ۔جنہیں برنئیر ” ناقابل ِ یقین حد تک حیران کُن “ بیان کرتا ہے۔”اور جنہیں (اخراجات کو) آپکے اندازوں سے بڑھ کر حیرت انگیز طور پہ ناگزیر سمجھا جاتا ہے“۔ یہ محل اور سرائے ایسا خلاء ہیں جس میں قیمتی پارچات ۔ سونا۔ ریشم ۔ کمخوآب ۔ سونے کے کام والےریشمی پارچات ۔غسل کے لئیے خوشبودار گوندیں اور جڑی بوٹیاں ۔امبر ۔اور موتی ان خلاؤں میں گُم ہو جاتے ہیں۔”اگر مغل فرماں روا کے ان مستقل اخراجات جنہیں مغل فرما روا ں کسی طور نظر انداز نہیں کرسکتا اگر ان مستقل اخراجات کو مدنظر رکھاجائے تو مغل شہنشاہ کے ختم نہ ہونے والے خزانوں کے بارے آپ فیصلہ کر سکتے ہیں ۔ جیسا کہ مغل شہشنشاہ کے بارے بیان کیا جاتا ہے اور مغل شہنشاہ کی ناقابل تصور امارت جس کی کوئی حد نہیں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔(۲۴٭)۔”اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بادشاہ بہت بڑے خزانوں کا مالک ہے بلکہ ایران کے باشاہ اور آقا کے خزانوں کو ملانے سے بھی بڑھ کر مغل فرماں روا کے پاس ذیادہ خزانے ہیں۔(۲۴٭)۔
جاری ہے۔
(14) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., ob. cit., pág. 398.
(15) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., pág. 399.
(16) BERNIER, ob. cit., pág. 197.
(17) BERNIER, ob. cit., pág. 197.
(18) BERNIER, ob. cit., pág. 198.
(19) BERNIER, ob. cit., pág. 198.
(20) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(21) BERNIER, ob. cit., pág. 198, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(22) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(23) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15, 16 y 17.
(24) BERNIER, ob. cit., pág. 200.
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: "L'exclusif", (, (, (14), (15), (16), (17), (18), (19), (20), (21), (22), (23), (24), (25), (26), (باورچی, (تجارتی, (صلی, ), ), )۔مغل, )کچھ, ., ., 197, 198, 199, 200., 398, 399, :, :, “, “, ”, ”خصوصیت, BERNIER, C., Carta, cit., E., fols., Gondal, H., idolaters, Javed, Javed gondal, ob., original, pág., RiCH, ہ, ہمیشہ, ہمسائے, ہندوستان, ہندؤستان, ہو, ہونے, ہونے۔, ہو۔, ہوئے, ہوا, ہوتی, ہوتے, ہوتا, فوج, فوجوں, فوجی, ہوسکتی, ہی, فیکٹریوں, ہیں, ہیں“۔(۱۸٭)., ہیں۔, ہیں۔(۲۰٭)۔, ہیں۔(۲۴٭)۔, ہیں۔”اگر, ہیں۔اسلئیے, ہیں۔بادشاہ, ہیں۔جو, فیصلہ, فیصلے, ہے, ہے”یہ, ہے۔, ہے۔اور, ہے۔برنئیر, ہے۔جس, ہاتھی, ہر, فرق, فرموں, فرما, فرماں, فرنیچر, فرائض, ہزار, فصیل, قلعے, قناتیں, قوموں, قومیتوں, قوت, قیمتی, قیام, قانونی, قابل, قب, قسم, قسط, لنگ, لینا, لیکر, لیں, لیا, لڑنے, لڑایا, لڑائی, لکھتا, لگ, لگانے, لگایا, لئیے, لئیے۔, لائے, لارڈ), لازمی, مہم, مہموں, مہیاء, مفید, مفادات, مہاراجہ, مہاراجوں, مقابلے, مقرر, مقصود, ملنے, ملک, ملکہ, ملکی, ملکیت, ملانے, ملاحظہ, ملتا, ممکنہ, منگولوں, منحصر, مندرجہ, موت, موتی, میں, میں”آقا, میدان, میدانوں, میدانِ, میر, مکمل, مالی, مالک, ماننے, مانتے, مابین, متعلق, متعلقہ, مجبور, محل, محلات, محمد, محمدن, محاذوں, محروم, مختلف, مد, مدنظر, مذہب, مذہبی, مذھب, مرہ, مرتبہ, مسلمان, مسلمانوں, مسلک, مسلکی, مسئلہ, مسئلے, مسائل, مسابقت, مستقل, مشتمل, مشرکوں, مطبخ, مظاہرہ, معلومات, معاملات, معائدہ“, مغل, مغلوں, نہ, نہیں, نقل, نقطہ, چلوں, چلتا, نمایاں, نمائش, نو, نوٹ, نوآبادیت, نواح, چوتھی, چودہ, نکہ, نکتہ, ناقابل, نام, نامی, ناگزیر, نتیجتاََ, نجی, نزدیک, نسب, نظام, نظر, و, وہ, وہی, وفادار, وقت, والے, والےریشمی, وجہ, وجہسے, وجوہات, ورانہ, وسلم, وسا, وسط, وغیرہ, یہ, یقین, یوں, یک, یا, یعنی, ۔, ۔(مائی, ۔(۱۴٭)۔, ۔(۱۵٭)۔, ۔(۱۶٭)۔, ۔(۲۱٭)۔, ۔(۲۲٭), ۔(۲۴٭)۔”اس, ۔مالیاتی, ۔وہ, ۔کیونکہ, ۔۳, ۔امبر, ۔ان, ۔اور, ۔بڑی, ۔جن, ۔جنہیں, ۔غسل, کہ, کمپنیوں, کمان, کمخوآب, کو, کولبیرٹ, کومہم, کوئی, کی, کیو, کیونکہ, کیا, کُن, کے, کٹڑ, کھینچنے, کھینچے, کا, کالونی, کام, کامیابیوں, کار, کتنا, کثیر, کر, کرنے, کرنا, کرے, کرے۔, کرتی, کرتے, کرتا, کردہ, کردے, کرسکتا, کس, کسقدر, کسی, کشادہ, ٭, گناہ, گنجلک, گولکنڈاہ, گوندل, گوندیں, گیا, گُم, گھوڑے, گھڑ, گھاٹ, گھرا, گئے, گئے۔اسلئیے, گدی, گرد, ۱, ۱)۔, ۱۴۰۱ء, ۱۷, ۲, ۲)۔, ۲۳, ۴, ۵)۔, ۸۰۰, ۹, ٹکراؤ, ۹۰۰, ں, پہ, پہلو, پہنچ, پور, پیکٹ, پیان, پیشہ, پیغام, پٹھانوں, پھر, پایا, پابند, پار, پارچات, پاس, پرستوں, WILSON, y, آقا, آل, آمادہ, آنے, آور, آگرہ, آٹھ, آپ, آپکے, آپس, آباءاجداد, آبادی, آتے, آخر, آس, ا, اہم, اہمیت, افواج, افراد, اقتصادی, الفاظ, اللہ, النسل, الجھا, امن, امور, امام, امارت, امر, امراء, امستقل, ان, انہیں, انکی, انکا, انکار, انگیز, اچھی, انتہائی, انتظامیہ, انجام, انداز, اندازہ, اندازوں, اندر, اور, اوراتنی, ایک, ایران, ایرانی, ایسے, ایسا, اکیلے, اکثریت, اگر, اٹھنے, اٹھاتا, اٹھتے, اٹھتا, اپنی, اپنے, اؤل, اب, اتنی, اتنا, اتار, اتارا, اجداد, اختیارات, اخراجات, ادوار, ادا, ازم, ازبک, اس, اسلئیے, اسی, اسے, اسکی, اسکے, اسپین, استحکام, اسطرح, اظہار, بہت, بلکہ, بن, بنیاد, بنیادی, بناء, بوٹیاں, بیک, بیگمات, بیان, بیجھا, بیس, بڑی, بڑے, بڑھ, بڑا, بٹھاتا, بھی, بھگ, بھروسہ, باہر, بالا, باوجود, باخبر, بادشا, بادشاہ, بارے, بارسیلونا, باشاہ, باغی, بت, برنئیر, برئنیر, برابر, برابری, برتری, برصغیر, بس, بعین, بعد, بغاوت, ت, تفضیل, تفضیلات, تقریباََ, تقریباََایک, تمام, تنخواہیں, تنخوادار, تو, تیمور, تین, تیار, تک, تھی۔, تھی۔”سابقہ, تھیں, تھے, تھا, تھا۔, تانکہ, تاتار, تب, تر, ترکی, تربیت, تسلسل, تصور, تعالٰی, تعداد, ثابت, جہتی, جن, جنہیں, جنگ, جو, جوئی, جیتے, جیسے, جیسا, جڑی, جے, جا, جانے, جانتا, جاوید, جاوید گوندل, جائیں۔اور, جاتی, جاتے, جاتا, جاتاہے۔, جاری, جاسکتا, جب, جبکہ, جرم, جزئیات, جس, جسے, جسکی, حفاظت, حفاظتی, حل”خصوصیت, حملہ, حیران, حیرت, حکم, حکمت, حکومتوں, حاصل, حد, حدود, حرکت, حصار, خلیفہ, خلاف, خلاء, خلاؤں, خچر, خود, خوشبودار, خیموں, خیمے, خانہ)۔مشکیزے, خاندانی, ختم, خدمات, خرچہ, خراج, خزانوں, خزانے, خصوصی, دفاع, دفاعی, دلی, دو, دونوں, دوڑ, دور, دوسری, دینے, دیگر, دیا, دیتے, دیتا, دیتاہے۔اس, دھاک, دئیے, دامادعلیؓ, دارالحکومت،, درپیش, دربار, درباریوں, درد, دستوں, دستے, دشمن, دشمنوں, ذیل, ذیادہ, ذات, ذریعیے, رہتی, رہتیں, رہتے, رہتا, روند, روا, رواج, روحانی, روز, ریاستوں, ریاستی, ریشم, رکھنے, رکھیں۔, رکھا, رکھاجائے, رکھتی, رکھتے, رکھتا, رپورٹ, راج, راجہ, راجوں, راجے, راجپوتوں, رتبہ, رسم, رضی, زمانہ, زیاہ, زیادہ, زاویے, سفارتی, سفر, سمجھا, سمجھتے, سمجھتا, سنگھے, سو, سونے, سونا۔, سوار, سوارں, سینکڑوں, سیاسی, سیاست, سُنی, سے, سے۔, سکیں“, سکتے, سپاہ, سپاہی, سپاہیوں, سامان, ساتھ, ساری, ساز, سازوسامان, سبھی, سترہویں, سر, سرکوبی, سرکاری, سرکشی, سرگرمیاں, سرانجام, سراؤں, سرائے, سردار, سزا, شہنشاہ, شہنشاہیت, شہر, شہروں, شہشنشاہ, شمولیت, شوکت, شامل, شان, شعیہ, صلاحیت, صلح, صوبیداروں, صور, صورتوں, صورتحال, صدی, ضروری, طور, طاقت, طرف, طرح, علیہ, علیؓ, علاوہ, عملی, عموماََ, عنہ), عیسوی, عام, عثمانؓ, عطیات, عظیم, غیر

دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کو میری طرف سے اس بابرکت ماہ رمضان کی آمد کی مبارک باد قبول ہو۔ اللہ سبحان تعالٰی اس بابرکت ماہ کے صدقے ہمیں باعمل صالح مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائےَ اورہماری عبادات و مناجات منظور فرمائے۔
از جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: 2012, فرمائے, قبول, مناجات, منظور, ماہ, مبارک, مسلمان, مسلمانوں, گوندل, ۲۰۱۲, آمد, اللہ, از, اسپین, بآرسیلونا, بابرکت, باد, باعمل, تمام, توفیق عبادات, جاوید, دنیا, رمضان, سبحان تعالٰی, صالح, صدقے