جے آئی ٹی رپورٹ بھی ہوگئی۔
اب کیا ہوگا؟۔
کیا یہ سیریل آئندہ الیکشن تک چلے گا؟
اگر یوں ہوتا ہے کہ یہ سیریل آئندہ الیکشن تک چلتی ہے تو کیا اس کا یہ مطلب واضح ہے کہ گو کہ اس سیریل کے تمام اداکار پاکستانی ہیں مگر اس سیریل کو ڈائریکٹ کہیں اور سے کیا جارہا ہے؟
جنرل ایوب خان نے اپنی کتاب "فرینڈز ناٹ ماسٹرز” Friends Not Masters, میں آقاؤں کی طوطا چشمی کے شکوے کئیے ہیں اور ان کی بے وفائی کا دکھڑا بیان کیا ہے۔ اور ایوب خان کے خلاف بھی لانگ مارچ کا ہی فارمولہ آزمانے اور انہی طاقتوں کی ایماء پہ برسراقتدار آنے والے بڑے بھٹو مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار کے آخری ایام میں اپوزیشن جماعتوں کے قومی اتحاد اور بعد ازاں نظامِ مصطفی نامی تحریک کے زبردست دباؤ کے بعد پی ٹی وی پہ اپنی آخری تقریر میں امریکہ کو سفید ہاتھی گردانتے ہوئے یہی واویلہ کیا کہ ہائے ہائے مجھے بنانے والے مجھے گرانے پہ آمادہ ہیں۔
انہی طاقتوں کے اشارے پہ گرم سیاسی ماحول میں اسلامی نظام کا نعرہ لگا کر تختِ اسلام آباد پہ قبضہ جمانے والے جنرل ضیاء الحق بھی اپنے آخری دنوں میں اپنے انجام سے آگاہ ہوچکے تھے کہ آقاؤں کا دستِ شفقت انکے سر سے اٹھ چکا ہے اور وہ آج یا کل دیر یا سویر سے اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں۔ اسی لئیے وہ اپنے آخری دنوں میں امریکی سفیر اور اپنے جرنیلوں سمیت ہر اس شخص کو اپنے ساتھ لئیے پھرتے تھے جس پہ انہیں اپنے خلاف کسی سازش میں شریک ہونے کا ذرہ بھر بھی شائبہ تھا۔ اور بہاولپور فضائی حادثے میں مارے جانے والے پاکستان کے انتہائی ذمہ دار لوگوں کے ایک ہی طیارے میں سوار ہونے کی یہ بھی ایک وجہ تھی۔
موجودہ دور میں پاکستانی مسنندِ اقتدار پہ قابض ہونے والوں میں سے جنرل مشرف شاید وہ واحد کردار ہے جس نے ہدایت کاروں کی ہر فرمائش ان کی توقعات سے بڑھ کر پوری کی اور جب جنرل مشرف کو مسندِ اقتدار سمیٹنے کا اشارہ ہوا تو اس نے بلا چون چرا جان کی امان پاؤں کے صدقے اپنا بوریا لپیٹا اور اُدہر کو سدھار گئے جدہر سے انہیں جائے امان کا وعدہ کیا گیا تھا۔
ایسے ھی اچانک سے ڈرامائی طور پہ زرداری پاکستان کے صدر بن گئے۔ کیا تب صرف چند ماہ بیشتر کسی کے وہم گمان میں تھا کہ بے نظیر وزیر اعظم بننے کی بجائے زرداری پاکستان کے مختارِکُل قسم کے صدر بن جائیں گے؟۔ ہماری قومی یاداشت چونکہ کچھ کمزور واقع ہوئی ہے اگر کسی نے یاداشت تازہ کرنی ہو تو اس دور کے الیکشن سے چند ماہ قبل کے اخبارات اور ٹی وی مذاکروں کا مطالعہ و نظارہ کر لیں۔ جن میں بے نظیر کے ہوتے ہوئے زرداری کے صدر یا وزیر اعظم بننے کا خیال تک بھی کسی سیاسی جغادر کے وہم و گمان سے گزرا ہو۔ صرف چند ماہ میں زرداری پاکستان کے مختار کل قسم کے صدر تھے۔
زرداری حکومت میں نواز شریف عدلیہ بحالی کا عزم لے کر لاہور سے اسلام آباد کو ایک جمِ غفیر لے کر نکلے۔ عوام کا ٹھاٹا مارتا سمندر ساتھ تھا۔ زرداری حکومت چند دن میں ڈیڑھ سو کلو میٹر کی دوری پہ انجام پزیر ہوسکتی تھی۔ قومی یادشت کو تازہ کی جئیے کہ تب امریکی صدر اور سفیر اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل کیانی کے یکے بعد دیگرگوجرانوالہ نواز شریف کو فون آئے اور نواز شریف عام عوام کی توقعات اور امیدوں کے بر عکس تب گوجرانوالہ سے واپس لاہور سدھار گئے۔ سوجھ بوجھ والوں نے تب ھی فال ڈال دی کہ مک مکا ہوگئی ہے اور زردای کو ٹرم پوری کرنی دی جائے گی اور آئندہ ویز اعظم نواز شریف ہونگے۔ اور مڈٹرم کے طور یہی کلیہ نواز شریف کے خلاف مختلف مارچوں اور دھرنوں کے ذرئیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی مگر عام عوام کی عدم دلچسپی یا آئے دن کے بے مقصد سیاسی ہنگامہ آرائی سے بیزارگی کی وجہ سے یہ ایکٹ کامیاب نہ ہوسکا۔
کسی بھی قیمت پہ اقتدار میں آنے والے جب طے شدہ شرائط پہ کام کرنے کے بعد خالص اپنے ذاتی جاہ حشمت کو برقرار رکھنے کے لئیے کنٹریکٹ کوغیر ضروری طور پہ طوالت دینے کی ضد کریں۔ یا دی گئی بولی سے انحراف کریں تو ان کا انجام بخیر نہیں ہوتا۔
مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی قیمت پہ اقتدار کے خواب دیکھنے والے بچہ سقوں کی ہمارے ہاں کمی نہیں۔ مگر ایسے خوابوں کو پایہ تکمیل پہنچانے والی یا اقتدار کو استحکام بخشنے پہ قدرت رکھنے والی وہ طاقتیں جوبیرونِ پاکستان سے کٹھ پتلی تماشے کی ڈوریاں ہلاتی ہیں وہ کسی ایسے ڈھیلے ڈھالے کردار کو مسند اقتدار کا ایکٹ نبھانے کی اجازت دینے پہ تیار نہیں جو موجودہ دور میں پاکستانی اسٹیج پہ اپنے کردار اور ایکٹ کو زبردست عوامی پذیرائی اور عوام کی طرف سے پرجوش تالیوں کے استقبال کی اہلیت نہیں رکھتا۔
کیا پاکستان کے مفادات کے خلاف پھر سے بولی ہوگی؟ جو بڑھ کر بولی دے گا اسے مسند اقتدار بخشا جائے گا؟
کیا نئے مناسب اداکار دستیاب نہ ہونے کی صورت میں پرانی ٹیم نئی شرطوں اور تنخواہ پہ کام کے لئیے منتخب کی جائے گی؟
کیا ہمارے خدشات محض خدشات ثابت ہونگے۔اللہ کرے ہمارے خدشات محض خدشات ثابت ہوں۔
پردہ اٹھنے میں دیر ہی کتنی ہے؟ نئے انتخابات میں عرصہ ہی کتنا رہتا ہے؟
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: "فرینڈز, )کچھ, Friends, Masters, Not, ہلاتی, ہماری, ہمارے, ہنگامہ, ہو, فون, ہونے, ہوچکے, ہونگے۔, ہونگے۔اللہ, ہو۔, ہوگی؟, ہوگئی, ہوگئی۔اب, ہوگا؟۔کیا, ہوں۔پردہ, ہوئی, ہوئے, ہوا, ہوتا, ہوتا۔, ہوسکا۔کسی, ہوسکتی, ہی, ہیں, ہیں۔, ہے, ہے۔, ہے؟, ہے؟جنرل, ہال, ہاں, ہائے, ہاتھی, فارمولہ, ہدایت, ہر, فرمائش, فضائی, قومی, قیمت, قابض, قبل, قبضہ, قتدار, قدرت, قسم, لوگوں, لیں۔, لے, لگا, لپیٹا, لئیے, لاہور, لانگ, مفادات, مقصد, مناسب, منتخب, مڈٹرم, موجودہ, میٹر, میں, مک, مکا, مگر, ماہ, ماحول, مارچ, مارچوں, مارے, مارتا, ماسٹرز", مجھے, محض, مختلف, مختار, مختارِکُل, مذاکروں, مرحوم, مسنند, مسند, مسندِ, مسئلہ, مشرف, مصطفی, مطلب, مطالعہ, نہ, نہیں, نہیں۔, چلے, چلتی, چند, نون, چونکہ, نواز, چیف, نے, نکلے۔, چکا, نئی, نئے, نامی, ناٹ, نبھانے, چرا, چشمی, نظیر, نظام, نظامِ, نظارہ, نعرہ, و, وہ, وہم, وفائی, ڈوریاں, وی, ڈیڑھ, ویز, ڈھیلے, ڈھالے, واقع, ڈال, والوں, والی, والے, واویلہ, واپس, ڈائریکٹ, واحد, واضح, وجہ, ڈرامائی, وزیر, وعدہ, یہ, یہی, یوں, یکے, یا, یاداشت, یادشت, کہ, کہیں, کل, کلو, کلیہ, کمی, کمزور, کنٹریکٹ, کو, کوشش, کوغیر, کی, کیا, کیانی, کے, کٹھ, کئیے, کا, کام, کامیاب, کاروں, کتنی, کتنا, کتاب, کر, کرنی, کرنے, کریں, کریں۔, کرے, کرادر, کردار, کسی, گمان, گڈ, گوجرانوالہ, گی, گی؟کیا, گیا, گے؟۔, گئی, گئے, گئے۔, گا, گا؟, گا؟اگر, گرم, گرانے, گردانتے, گزرا, ٹی, ٹیم, ٹھاٹا, ٹرم, پہ, پہنچنے, پہنچانے, پوری, پی, پھر, پھرتے, پایہ, پاکستان, پاکستانی, پاؤں, پتلی, پذیرائی, پرانی, پرجوش, پزیر, آقاؤں, آمادہ, آنے, آگاۃ, آئندہ, آئی, آئے, آباد, آج, آخری, آرمی, آرائی, آزمانے, اہلیت, اقتدار, الیکشن, الحق, امیدوں, امان, امریکہ, امریکی, ان, انہی, انہیں, انکے, اچانک, انتہائی, انتخابات, انجام, انحراف, اور, ایماء, ایوب, ایک, ایکٹ, ایام, ایسے, اگر, اٹھ, اٹھنے, اپنی, اپنے, اپنا, اپوزیشن, اپے, ااور, اتحاد, اجازت, اخبارات, ادہر, اداکار, ازاں, اس, اسلام, اسلامی, اسی, اسے, اسٹیج, استقبال, استحکام, استعمال, اشارہ, اشارے, اعظم, بہاولپور, بلا, بن, بچہ, بننے, بنانے, بولی, بوجھ, بوریا, بیان, بیزارگی, بیشتر, بڑے, بڑھ, بے, بھی, بھٹو, بھر, بجائے, بحالی, بخنے, بخیر, بخشا, بر, برقرار, برسراقتدار, بعد, تقریر, تمام, تماشے, تنخواہ, تو, توقعات, تیار, تک, تکمیل, تھی۔, تھی۔موجودہ, تھے, تھے۔زرداری, تھا, تھا۔, تھا۔ایسے, تالیوں, تازہ, تب, تحریک, تختِ, ثابت, جمِ, جمانے, جماعتوں, جن, جنرل, جو, جوبیرونِ, جے, جئیے, جاہ, جان, جانے, جائیں, جائے, جارہا, جب, جدہر, جرنیلوں, جس, جغادر, حکومت, حادثے, حشمت, خلاف, خواب, خوابوں, خیال, خالص, خان, خدشات, دلچسپی, دن, دنوں, دور, دوری, دی, دینے, دیکھنے, دیگرگوجرانوالہ, دیر, دے, دکھڑا, دھرنوں, دار, دباؤ, دستیاب, دستِ, ذمہ, ذوالفقار, ذاتی, ذرئیے, رہتا, رکھنے, رکھتا۔کیا, رپورٹ, زبردست, زرہ, زردای, زرداری, سفید, سفیر, سقوں, سمندر, سمیٹنے, سمیت, سو, سویر, سوار, سوجھ, سیاسی, سیریل, سے, سایسی, ساتھ, سازش, سدھار, سر, شفقت, شکوے, شاید, شائبہ, شخص, شدہ, شریف, شریک, شرائط, شرطوں, صورت, صدقے, صدر, صرف, ضیاء, ضد, ضروری, طوالت, طور, طوطا, طیارے, طے, طاقتوں, طاقتیں, طرف, علی, عوام, عوامی, عکس, عام, عدلیہ, عدم, عرصہ, عزم, غفیر
کولبیرٹ ازم ۔ برصغیر ہندؤستان۔ اور برئنیر رپورٹ۔ چوتھی قسط۔
برنئیر کی ہندؤستان کے بارے ۔مذہب سے لیکر خاندانی رسم و رواج ۔سیاست اور انتظامیہ کے متعلق معلومات انتہائی مفید تھیں۔ مالی اور اقتصادی مقابلے کے لئیے مسابقت کی دوڑ میں شامل ہونے سے قبل ضروری تھا۔ کہ ہر نقطہ نظر اور ہر زاویے سے ۔ اہم معلومات کے ساتھ (کسی ممکنہ مہم جوئی کی صور ت میں )کچھ اہم امور سرانجام دئیے جائیں۔اور اسی وجہ سے ریاستوں کو ایسے معاملات میں عام افراد اور نجی فرموں پہ برتری حاصل تھی۔”سابقہ ادوار یعنی حکومتوں میں نوآبادیت سے متعلقہ مسائل میں ایک بڑا الجھا ہوا مسئلہ ریاستوں اور کمپنیوں کے مابین ملکیت اور اختیارات کا مسئلہ تھا ۔ ملکیت اور اختیارات کے اس گنجلک مسئلے کے سیاسی اور مالی پہلو تھے ۔ اور اسے ”خصوصیت “ نام دیا گیا اور اس مسئلے کا حل”خصوصیت “ نامی نظام,( "L’exclusif” )پہ منحصر تھا۔ جسے بعد کی حکومتوں میں ”نوآبادیت معائدہ“ یعنی” کالونی پیکٹ “کا نام دیا گیا ۔(۱۴٭)۔
کمپنیوں کی کثیر جہتی سرگرمیاں عموماَ ایک تسلسل کے ساتھ ریاستوں کی مقرر کردہ سفارتی اور قانونی حدود پار کرتی رہتیں ۔ سترہویں صدی کے وسط سے (تجارتی مفادات حاصل ہونے۔ اور تجارتی مفادات کی اہمیت کے باوجود) کمپنیوں اور ریاستوں کی آپس میں ہمیشہ صلح نہیں رہتی تھی۔ یعنی آپس میں مفادات کا ٹکراؤ ہوتا تھا ۔(۱۵٭)۔
برنئیر اس ساری صورتحال کے بارے باخبر ہونے کی وجہ سے یہ جانتا تھا کہ اسکی مہیاء کردہ معلومات کسقدر اہم اور مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔اسلئیے وہ تمام تفضیلات اور جزئیات بیان کرتا ہے۔برنئیر لکھتا ہے”یہ نکتہ بہت اہم اور نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ مغل فرماں روا شعیہ نہیں جو علیؓ ( رضی اللہ تعالٰی عنہ) اور انکی آل کو مانتے ہیں۔ جیسا کہ ایران میں شعیہ مانتے ہیں ۔ بلکہ مغل فرماں روا محمدن ہے ۔ (صلی اللہ علیہ وسلم ) (یعنی سُنی مسلک رکھتا ہے) اور نتیجتاَمغل باشاہ کے دربار میں سُنی درباریوں کی اکثریت ہے ۔ ترکی کے مسلمانوں کی طرح انکامسلک سُنی ہے جو عثمانؓ ( رضی اللہ تعالٰی عنہ) کو ماننے والے ہیں ۔ اسکے علاوہ مغل فرماں روا کے ساتھ ایک اور مسئلہ ہے کہ مغل بادشاہ کے آباءاجداد غیر ملکہ ہونے کی وجہ سے خود مغل بادشاہ بھی غیر ملکی سمجھا جاتا ہے ۔ مغل بادشاہ کا نسب تیمور لنگ سے جا ملتا ہے جو تاتار کے منگولوں کا سردار تھا ۔ مغل بادشاہ کے اجداد ۱۴۰۱ء چودہ سو ایک عیسوی میں ہندؤستان پہ حملہ آور ہوئے ۔اور ہندؤستان کے مالک بن گئے۔اسلئیے مغل فرماں روا تقریباَایک دشمن ملک میں پایا جاتاہے۔ فی مغل بلکہ فی مسلمان کے مقابلے پہ سینکڑوں کٹڑ بت پرستوں اور مشرکوں (idolaters)کی آبادی ہے۔ اسکے علاوہ مغل شہنشاہیت کے ہمسائے میں ایرانی اور ازبک بھی مغل شہنشاہ کے لئیے ا یک بڑا درد سر ہیں ۔ جسکی وجہ سے امن کا دور ہو یا زمانہ جنگ مغل شہنشاہ بہت سے دشمنوں میں گھرا رہتا ہے اور ہر وقت دشمنوں میں گھرا ہونے کی وجہ سے مغل شہنشاہ اپنے آس پاس بڑی تعداد میں اپنی افواج دارالحکومت، بڑے شہروں اور بڑے میدانوں میں اپنی ذات کے لئیے تیار رکھتا ہے۔برنئیر کے الفاظ میں”آقا ۔(مائی لارڈ) اب میں آپ کو مغل شہنشاہ کی فوج کے بارے کچھ بیان کرتا چلوں کہ فوج پہ کتنا عظیم خرچہ اٹھتا ہے ۔ تانکہ آپ کو مغل شہنشاہ کے خزانے کے بارے کسی فیصلے پہ پہنچ سکیں“ ۔(۱۶٭)۔
فوجی شان و شوکت کی نمائش بہت کشادہ اور نمایاں طور پہ کی جاتی ہے۔ ۔مالیاتی کمپنیوں کی طرف سے فیکٹریوں کے قیام کی حکمت عملی کے بعد سے۔ مغل شہنشاہ کی طرف سے اس فوجی شان و شوکت کی نمائش کی اہم مالی اور فوجی وجوہات ہیں ۔کیونکہ اسطرح
۱)۔ مغل شہنشاہ یوں اپنی دفاعی صلاحیت کا عظیم مظاہرہ کرتا ہے ۔
۲)۔ مغل شہنشاہ یوں اتنی بڑی فوج پہ اٹھنے والے اخراجات کے ذریعیے مالی استحکام کا پیغام دیتا ہے ۔
۳)۔ مغل شہنشاہ یوں مختلف قوموں کے خلاف جیتے گئے محاذوں کی کامیابیوں کی دھاک بٹھاتا ہے
۴) مغل شہنشاہ یوں اپنی افواج کی نمائش سے فوجوں میں شامل مختلف قومیتوں اور قوموں کی کثیر النسل سپاہ کی شمولیت سے سے برابری اوراتنی قوموں کے بادشاہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔
۵)۔ مغل شہنشاہ اسطرح اپنے فوجی ساز و سامان کی نمائش سے کسی قسم کی ممکنہ بغاوت کو روند دینے کی طاقت اور قوت کا مظاہرہ کرتا ہے۔
اب ملاحظہ ہو ۔ اؤل ۔وہ فوج ہے جو شہنشاہ کی سرکاری فوج ہے ۔ اور جسکی تنخواہیں اور اخراجات لازمی طور پہ بادشاہ کے خزانے سے جاتی ہیں۔(۱۷٭)۔
”پھر وہ افواج ہیں ۔جن پہ راجوں کا حکم چلتا ہے ۔ بعین جیسے جے سنگھے اور دیگر ۔ جنہیں مغل فرماں روا بہت سے عطیات دیتا رہتا ہے تانکہ راجے وغیرہ اپنی افواج کو جن میں راجپوتوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے ۔ انہیں ہمیشہ لڑائی اور جنگ کے لئیے تیار رکھیں۔ ان راجوں وغیرہ کا مرتبہ اور رتبہ بھی بادشا ہ کے امراء کے برابر سمجھا جاتا ہے ۔ جو زمانہ امن میں فوجوں کے ساتھ شہروں میں اور میدان جنگ میں اپنی اپنی افواج کے ساتھ بادشاہ کی ذات کے گرد حفاظتی حصار کھینچے رکھتے ہیں ۔ان راجوں مہاراجوں کے فرائض بھی تقریباَوہی ہیں جو امراء کے ہیں۔ بس اتنا فرق ہے کہ امراء یہ فرائض قلعے کے اندر ادا کرتے ہیں۔ جبکہ کہ راجے وغیرہ فصیل شہر سے باہر اپنے خیموں میں بادشاہ کی حفاظت کا کام سر انجام دیتے ہیں“۔(۱۸٭)۔
برنئیر تفضیل پیان کرتا ہے کہ کس طرح جب راجے وغیرہ قلعے کے نزدیک آتے ہیں تو وہ اکیلے نہیں ہوتے بلکہ راجوں کے ساتھ وہ خصوصی سپاہی بھی ہوتے ہیں جو کسی بھی وقت حکم ملنے پہ اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتار دینے کے لئیے تیار رہتے ہیں ۔(۱۹٭)۔
مغل فرماں روا جن وجوہات کہ بناء پہ راجوں کی سے یہ خدمات لینا ضروری سمجھتا ہے ۔وہ وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔:
۱)۔راجوں کی سپاہ پیشہ ورانہ تربیت اچھی ہوتی ہے اور ایسے راجے بھی ہیں جو کسی وقت بھی بادشاہ کی کسی مہم کے لئیے بیس ہزار یا اس سے زیاہ گھڑ سوارں کے ساتھ تیار رہتے ہیں۔
۲)۔مغل بادشاہ کو ان راجوں پہ بھروسہ ہے جو بادشاہ کے تنخوادار نہیں ۔ اور جب کوئی ان راجوں میں سے سرکشی یا بغاوت پہ آمادہ ہو ۔ یا اپنے سپاہیوں کو بادشاہ کی کمان میں دینے سے انکار کرے۔ یا خراج ادا کرنے سے انکار کرے ۔ تو مغل بادشاہ انکی سرکوبی کرتا ہے اور انہیں سزا دیتاہے۔اس طرح یہ راجے بادشاہ کے وفادار رہتے ہیں۔(۲۰٭)۔
دوسری ایک فوج وہ ہے جو پٹھانوں کے خلاف لڑنے یا اپنے باغی امراء اور صوبیداروں کے خلاف لڑنے کے لئیے ہے۔ اور جب گولکنڈاہ کا مہاراجہ خراج ادا کرنے سے انکار کردے ۔ یا وسا پور کے راجہ کے دفاع پہ آمادہ ہو تو اس فوج کو گولکنڈاہ کے مہاراجہ کے خلاف لڑایا جاتا ہے ۔ یا ان فوجی دستوں سے تب کام لیا جاتا ہے جب ہمسائے راجوں میں سے کسی کو اس کی راج گدی سے محروم کرنا مقصود ہو۔ یا ان راجوں کو خراج ادا کرنے کا پابند کرنا ہو تو اس فوج کے دستے حرکت میں لائے جاتے ہیں ۔ان سبھی مندرجہ بالا صورتوں میں اپنے امراء پہ بھروسہ نہیں کرتا کیونکہ وہ زیادہ تر ایرانی النسل اور شعیہ ہیں۔جو بادشاہ کے مسلک سے مختلف مسلک رکھتے ہیں ۔(۲۱٭)۔
مسلکی اور مذہبی معاملات کو ہمیشہ مدنظر رکھا جاتا ہے۔ کیو نکہ دشمن کے مذہب یا مسلک کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک طرح یا دوسری طرح کی افواج کو میدانِ جنگ میں اتارا جاتا ہے ۔ اگر ایران کے خلاف مہم درپیش ہو تو امراء کومہم سر کرنے نہیں بیجھا جاتا کیونکہ امراء کی اکثریت میر ہے اور ایران کی طرح شعیہ مسلک رکھتی ہے۔ اور شعیہ ایران کے بادشاہ کو بیک وقت امام ۔ خلیفہ ۔ اور روحانی بادشاہ ۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے دامادعلیؓ (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کی آل مانتے ہیں۔ اسلئیے ایران کے بادشاہ کے خلاف لڑنے کو ایک جرم اور بہت بڑا گناہ سمجھتے ہیں۔ مغل بادشاہ اسطرح کی وجوہات کی بناء پہ پٹھانوں کی ایک تعداد کو فوج میں رکھنے پہ مجبور ہے۔اور آخر کار مغل بادشاہ مغلوں پہ مشتمل ایک بڑی اور بادشاہ کی بنیاد فوج کے مکمل اخراجات بھی اٹھاتا ہے ۔ مغل افواج ہندوستان کی بنیادی ریاستی فوج ہے۔جس پہ مغل فرماں روا کے بہت اخراجات اٹھتے ہیں ۔(۲۲٭)۔
اس کے علاوہ مغل فرماں روا ں کے پاس آگرہ میں ۔ دلی میں اور دونوں شہروں کے گرد و نواح میں دو سے تین ہزار گھڑ سوار کسی بھی مہم کو جانے کے لئیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔بادشاہ کی روز مرہ کی مہموں کے لئیے۔ بادشاہ کے پاس ۸۰۰ آٹھ سو سے ۹۰۰ نو سو تک کے لگ بھگ ہاتھی ہیں ۔بڑی تعداد میں خچر اور سامان کھینچنے والے گھوڑے ہیں۔ جن سے بڑے بڑے خیمے ۔ قناتیں ۔ بیگمات اور انکا سازوسامان ۔ فرنیچر ۔ مطبخ (باورچی خانہ)۔مشکیزے ۔اور سفر اور مہموں میں کام آنے والے دیگر سامان کی نقل و حرکت کا کام لیا جاتا ہے۔(۲۳٭)۔
مغل فرماں روا کے اخراجات کا اندازہ لگانے کے لئیے اس میں سراؤں یا محلات کے اخراجات بھی شامل کر لیں ۔جنہیں برنئیر ” ناقابل ِ یقین حد تک حیران کُن “ بیان کرتا ہے۔”اور جنہیں (اخراجات کو) آپکے اندازوں سے بڑھ کر حیرت انگیز طور پہ ناگزیر سمجھا جاتا ہے“۔ یہ محل اور سرائے ایسا خلاء ہیں جس میں قیمتی پارچات ۔ سونا۔ ریشم ۔ کمخوآب ۔ سونے کے کام والےریشمی پارچات ۔غسل کے لئیے خوشبودار گوندیں اور جڑی بوٹیاں ۔امبر ۔اور موتی ان خلاؤں میں گُم ہو جاتے ہیں۔”اگر مغل فرماں روا کے ان مستقل اخراجات جنہیں مغل فرما روا ں کسی طور نظر انداز نہیں کرسکتا اگر ان مستقل اخراجات کو مدنظر رکھاجائے تو مغل شہنشاہ کے ختم نہ ہونے والے خزانوں کے بارے آپ فیصلہ کر سکتے ہیں ۔ جیسا کہ مغل شہشنشاہ کے بارے بیان کیا جاتا ہے اور مغل شہنشاہ کی ناقابل تصور امارت جس کی کوئی حد نہیں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔(۲۴٭)۔”اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بادشاہ بہت بڑے خزانوں کا مالک ہے بلکہ ایران کے باشاہ اور آقا کے خزانوں کو ملانے سے بھی بڑھ کر مغل فرماں روا کے پاس ذیادہ خزانے ہیں۔(۲۴٭)۔
جاری ہے۔
(14) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., ob. cit., pág. 398.
(15) RiCH, E. E., y WILSON, C. H., pág. 399.
(16) BERNIER, ob. cit., pág. 197.
(17) BERNIER, ob. cit., pág. 197.
(18) BERNIER, ob. cit., pág. 198.
(19) BERNIER, ob. cit., pág. 198.
(20) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(21) BERNIER, ob. cit., pág. 198, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(22) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15 y 16.
(23) BERNIER, ob. cit., pág. 199, y BERNIER, Carta original, fols. 15, 16 y 17.
(24) BERNIER, ob. cit., pág. 200.
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: "L'exclusif", (, (, (14), (15), (16), (17), (18), (19), (20), (21), (22), (23), (24), (25), (26), (باورچی, (تجارتی, (صلی, ), ), )۔مغل, )کچھ, ., ., 197, 198, 199, 200., 398, 399, :, :, “, “, ”, ”خصوصیت, BERNIER, C., Carta, cit., E., fols., Gondal, H., idolaters, Javed, Javed gondal, ob., original, pág., RiCH, ہ, ہمیشہ, ہمسائے, ہندوستان, ہندؤستان, ہو, ہونے, ہونے۔, ہو۔, ہوئے, ہوا, ہوتی, ہوتے, ہوتا, فوج, فوجوں, فوجی, ہوسکتی, ہی, فیکٹریوں, ہیں, ہیں“۔(۱۸٭)., ہیں۔, ہیں۔(۲۰٭)۔, ہیں۔(۲۴٭)۔, ہیں۔”اگر, ہیں۔اسلئیے, ہیں۔بادشاہ, ہیں۔جو, فیصلہ, فیصلے, ہے, ہے”یہ, ہے۔, ہے۔اور, ہے۔برنئیر, ہے۔جس, ہاتھی, ہر, فرق, فرموں, فرما, فرماں, فرنیچر, فرائض, ہزار, فصیل, قلعے, قناتیں, قوموں, قومیتوں, قوت, قیمتی, قیام, قانونی, قابل, قب, قسم, قسط, لنگ, لینا, لیکر, لیں, لیا, لڑنے, لڑایا, لڑائی, لکھتا, لگ, لگانے, لگایا, لئیے, لئیے۔, لائے, لارڈ), لازمی, مہم, مہموں, مہیاء, مفید, مفادات, مہاراجہ, مہاراجوں, مقابلے, مقرر, مقصود, ملنے, ملک, ملکہ, ملکی, ملکیت, ملانے, ملاحظہ, ملتا, ممکنہ, منگولوں, منحصر, مندرجہ, موت, موتی, میں, میں”آقا, میدان, میدانوں, میدانِ, میر, مکمل, مالی, مالک, ماننے, مانتے, مابین, متعلق, متعلقہ, مجبور, محل, محلات, محمد, محمدن, محاذوں, محروم, مختلف, مد, مدنظر, مذہب, مذہبی, مذھب, مرہ, مرتبہ, مسلمان, مسلمانوں, مسلک, مسلکی, مسئلہ, مسئلے, مسائل, مسابقت, مستقل, مشتمل, مشرکوں, مطبخ, مظاہرہ, معلومات, معاملات, معائدہ“, مغل, مغلوں, نہ, نہیں, نقل, نقطہ, چلوں, چلتا, نمایاں, نمائش, نو, نوٹ, نوآبادیت, نواح, چوتھی, چودہ, نکہ, نکتہ, ناقابل, نام, نامی, ناگزیر, نتیجتاََ, نجی, نزدیک, نسب, نظام, نظر, و, وہ, وہی, وفادار, وقت, والے, والےریشمی, وجہ, وجہسے, وجوہات, ورانہ, وسلم, وسا, وسط, وغیرہ, یہ, یقین, یوں, یک, یا, یعنی, ۔, ۔(مائی, ۔(۱۴٭)۔, ۔(۱۵٭)۔, ۔(۱۶٭)۔, ۔(۲۱٭)۔, ۔(۲۲٭), ۔(۲۴٭)۔”اس, ۔مالیاتی, ۔وہ, ۔کیونکہ, ۔۳, ۔امبر, ۔ان, ۔اور, ۔بڑی, ۔جن, ۔جنہیں, ۔غسل, کہ, کمپنیوں, کمان, کمخوآب, کو, کولبیرٹ, کومہم, کوئی, کی, کیو, کیونکہ, کیا, کُن, کے, کٹڑ, کھینچنے, کھینچے, کا, کالونی, کام, کامیابیوں, کار, کتنا, کثیر, کر, کرنے, کرنا, کرے, کرے۔, کرتی, کرتے, کرتا, کردہ, کردے, کرسکتا, کس, کسقدر, کسی, کشادہ, ٭, گناہ, گنجلک, گولکنڈاہ, گوندل, گوندیں, گیا, گُم, گھوڑے, گھڑ, گھاٹ, گھرا, گئے, گئے۔اسلئیے, گدی, گرد, ۱, ۱)۔, ۱۴۰۱ء, ۱۷, ۲, ۲)۔, ۲۳, ۴, ۵)۔, ۸۰۰, ۹, ٹکراؤ, ۹۰۰, ں, پہ, پہلو, پہنچ, پور, پیکٹ, پیان, پیشہ, پیغام, پٹھانوں, پھر, پایا, پابند, پار, پارچات, پاس, پرستوں, WILSON, y, آقا, آل, آمادہ, آنے, آور, آگرہ, آٹھ, آپ, آپکے, آپس, آباءاجداد, آبادی, آتے, آخر, آس, ا, اہم, اہمیت, افواج, افراد, اقتصادی, الفاظ, اللہ, النسل, الجھا, امن, امور, امام, امارت, امر, امراء, امستقل, ان, انہیں, انکی, انکا, انکار, انگیز, اچھی, انتہائی, انتظامیہ, انجام, انداز, اندازہ, اندازوں, اندر, اور, اوراتنی, ایک, ایران, ایرانی, ایسے, ایسا, اکیلے, اکثریت, اگر, اٹھنے, اٹھاتا, اٹھتے, اٹھتا, اپنی, اپنے, اؤل, اب, اتنی, اتنا, اتار, اتارا, اجداد, اختیارات, اخراجات, ادوار, ادا, ازم, ازبک, اس, اسلئیے, اسی, اسے, اسکی, اسکے, اسپین, استحکام, اسطرح, اظہار, بہت, بلکہ, بن, بنیاد, بنیادی, بناء, بوٹیاں, بیک, بیگمات, بیان, بیجھا, بیس, بڑی, بڑے, بڑھ, بڑا, بٹھاتا, بھی, بھگ, بھروسہ, باہر, بالا, باوجود, باخبر, بادشا, بادشاہ, بارے, بارسیلونا, باشاہ, باغی, بت, برنئیر, برئنیر, برابر, برابری, برتری, برصغیر, بس, بعین, بعد, بغاوت, ت, تفضیل, تفضیلات, تقریباََ, تقریباََایک, تمام, تنخواہیں, تنخوادار, تو, تیمور, تین, تیار, تک, تھی۔, تھی۔”سابقہ, تھیں, تھے, تھا, تھا۔, تانکہ, تاتار, تب, تر, ترکی, تربیت, تسلسل, تصور, تعالٰی, تعداد, ثابت, جہتی, جن, جنہیں, جنگ, جو, جوئی, جیتے, جیسے, جیسا, جڑی, جے, جا, جانے, جانتا, جاوید, جاوید گوندل, جائیں۔اور, جاتی, جاتے, جاتا, جاتاہے۔, جاری, جاسکتا, جب, جبکہ, جرم, جزئیات, جس, جسے, جسکی, حفاظت, حفاظتی, حل”خصوصیت, حملہ, حیران, حیرت, حکم, حکمت, حکومتوں, حاصل, حد, حدود, حرکت, حصار, خلیفہ, خلاف, خلاء, خلاؤں, خچر, خود, خوشبودار, خیموں, خیمے, خانہ)۔مشکیزے, خاندانی, ختم, خدمات, خرچہ, خراج, خزانوں, خزانے, خصوصی, دفاع, دفاعی, دلی, دو, دونوں, دوڑ, دور, دوسری, دینے, دیگر, دیا, دیتے, دیتا, دیتاہے۔اس, دھاک, دئیے, دامادعلیؓ, دارالحکومت،, درپیش, دربار, درباریوں, درد, دستوں, دستے, دشمن, دشمنوں, ذیل, ذیادہ, ذات, ذریعیے, رہتی, رہتیں, رہتے, رہتا, روند, روا, رواج, روحانی, روز, ریاستوں, ریاستی, ریشم, رکھنے, رکھیں۔, رکھا, رکھاجائے, رکھتی, رکھتے, رکھتا, رپورٹ, راج, راجہ, راجوں, راجے, راجپوتوں, رتبہ, رسم, رضی, زمانہ, زیاہ, زیادہ, زاویے, سفارتی, سفر, سمجھا, سمجھتے, سمجھتا, سنگھے, سو, سونے, سونا۔, سوار, سوارں, سینکڑوں, سیاسی, سیاست, سُنی, سے, سے۔, سکیں“, سکتے, سپاہ, سپاہی, سپاہیوں, سامان, ساتھ, ساری, ساز, سازوسامان, سبھی, سترہویں, سر, سرکوبی, سرکاری, سرکشی, سرگرمیاں, سرانجام, سراؤں, سرائے, سردار, سزا, شہنشاہ, شہنشاہیت, شہر, شہروں, شہشنشاہ, شمولیت, شوکت, شامل, شان, شعیہ, صلاحیت, صلح, صوبیداروں, صور, صورتوں, صورتحال, صدی, ضروری, طور, طاقت, طرف, طرح, علیہ, علیؓ, علاوہ, عملی, عموماََ, عنہ), عیسوی, عام, عثمانؓ, عطیات, عظیم, غیر