نُورا ملاح اور جے آئی ٹی ۔
نورا ملاح کشتی ”کھیہ“ رہا تھا ۔اس نے ”ونج“ کو آخری بار دریا کی تہہ میں گاڑا اور کشتی کوپتن سے لگادیا ۔ چھوٹی سی رسی سے کشتی کو دریا کنارے باندھنے کی دیر تھی کہ اس پار بکھرے دس بارہ دیہات کے اِکا دُکا مسافر جو دیر سے کشتی کا اِس پار آنے کا انتظار کررہے تھے اُچک اُچک کر جلدی جلدی کشتی میں چڑھنے لگے ۔نُورے کا گھر بھی دریا کے اِسی پار کے کچھ دُورواقع گاؤں ”وسن والا“ میں تھا،گرمیوں کی دوپہر سر پہ تھی ۔
نورے نے کشتی کا ”پُور“ (پھیرا)بھرتے سوچا یہ پچھے چار سالوں سے اسکے نصیب چمک اٹھے تھے ۔ بارہ اِس پار کے گاؤں اور بارہ چودہ اُس پار کے دیہاتوں کے لوگ بھی جوق در جوق اسکی کشتی سے اپنے ضروری کاموں سے اس یا اس پار آتے جاتے تھے ۔ اور ان سالوں میں گو ”ہاڑ“ (سیلاب) تو سر چڑھ کر آتا رہا مگر ہر بار کی مناسب پیش بندی سے اسکی کشتی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا ۔ ورنہ تو پچھلے سالوں میں دو دو بار اسکے کشتی دریا کے سیلاب میں بہہ کر گُم گُما گئی تھی اور اگلے سالوں میں نُورے اور اور اسکے خاندان کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مگر اب کی بار اللہ نے اس پہ اور اسکے خاندان پہ خاص کرم کیا تھا ۔
نُورا انہی سوچوں میں غرق اور دل ہی دل میں خوش ہوتا ہوا کشتی ”کھیتا“ دریا کے درمیان پہنچ چکا تھا کہ اُس کے گاؤں ”وسن والا“ کے ”مانے“ کو پتہ نہیں کیا سُوجھی کہ اس نے کہا کہ
”نُورے میں ابھی گاؤں سے آیا ہوں اور تمہارے لئیے ایک بری خبر ہے “
نورے کی ساری خوشی کافُور ہوگئی اور وہ مانے کی طرف متوجہ ہوگیا جو بتارہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
”نُورے ۔ تمہاری بیوی اپنے کسی آشناء کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی ہے“
نورے کا رنگ فوراََ فق ہوگیا ۔ کشتی میں سوار بار ہ گاؤں کے دیہاتیوں نے چونک کر اپنی باتیں چھوڑ چھاڑ کر نظریں نُورے پہ گاڑ دیں ۔ اور نورے کو یوں لگا جیسے کسی نے اسے بھرے بازار میں ننگا کر دیا ہو۔ایک لمحے کے لئیے ”ونج“ پہ اسکی گرفت کمزور ہوئی اور کشتی لہراکر رہ گئی ۔ مگر نُورے نے دوبارہ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے ”ونج “ پہ اپنی گرفت مضبوط کی مگر اُسے یوں لگا جیسے کسی نے اسکے بازؤں کی طاقت سلب کر لی ہو ۔ نورا ملاح جیسے تیسے کشتی ”کھیہ“ کہ دریا کے دوسرے کنارے لگانے میں کامیاب ہوگیا ۔ کشتی کے مسافر اسے عجیب نظروں سے دیکھتے اپنے اپنے رستوں کو ہو لئیے صرف ”مانا“ رک گیا تھا اور مسافروں کے جاتے ہی نُورااپنی بربادی پہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔اور اچانک ”مانا “ بے اختیار قہقے لگا کر ہنسے لگا ۔ نورے نے غم اور صدمے سے مانے کو دیکھا ۔ مانے نے کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
” اوئے جھلیا۔ میں تو تمہارے ساتھ دل لگی (مذاق) کر رہا تھا ۔ تمہیں پتہ تو ہے دل لگی کرنے والی میری اس پُرانی عادت کا۔ تمہاری بیوی کسی اپنے آشناء کے ساتھ بھاگ کر کہیں نہیں گئی اور وہ تمہارے گھر پہ ہی ہے۔ میں تو ایسے ہی تمہارے ساتھ دل لگی کر رہا تھا“
نُورے نے مایوسی اور غم کے ملے جُلے جذبات اور رندھے ہوئے گلے سے دور دراز راستوں پہ جانے والے کشتی کے مسافروں کو دیکھا اور ”مانے“ سے گویا ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
”مانے! تم نے تو دل لگی کی مگر میرا ستیا ناس کردیا۔اب یہ سمجھو کہ کہ میری بیوی واقعی گھر سے بھاگ ہی گئی ہے۔یہ بارہ گاؤں کے لوگ بارہ چودہ مختلف گاؤں کو جائیں گے اور اتنے ہی لوگوں کو بتائیں گے کہ نورے ملاح کی بیوی آج گھر سے بھاگ گئی ہے۔ نہ یہ سارا ”پُور“ دوبارہ اکھٹا ہوگا ۔ اور نہ ہی وہ تم سے یہ جاننا چاہیں گے کہ تم نے مجھ سے دل لگی کی تھی جبکہ میری بیوی کسی آشناء کے ساتھ گھر سے نہیں بھاگی تھی۔ اور اگر اتفاق سے وہ اکھٹے ہو بھی جائیں اور تم انہیں حقیقت بتا بھی دو تو اتنے سارے دیہاتوں میں جہاں ان کے بتانے سے میری نیک نامی تار تار ہوگی وہ کیسے نیک نامی میں بدل پائے گی؟ بس ”مانے“ اب یوں سمجھوں کہ میری بیوی کسی آشناء کے ساتھ بھاگ ہی گئی ہے اورمیری نیک نامی تواب واپس آنے سے رہی“
نواز شریف نے اگر کرپشن نہیں بھی کی تو بھی اب نواز شریف جس قدر متنازع شخصیت بن چکے ہیں اور ثابت اور غیر ثابت شدہ الزام تراشیوں میں گھر چکے ہیں ۔توانہیں چاہئیے کہ ملک و قوم کے وسیع ترمفاد میں اپنے عہدے سے استعفی دے کر بچی کچھی کچھ نیک نامی سمیٹنے اور جمہوریت کو بچانے کی کوشش کرنی چائیے۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: "ہاڑ", "مانے", "مانا", "نُورے, "وسن, "پُور", "پُورا", (مذاق), (پھیرا)بھرتے, )کچھ, “, ہ, فق, ہنسے, ہو, ہو۔ایک, ہوگی, ہوگیا, ہوگئی, ہوگا, ہوں, ہوئی, ہوئے, ہوا, ہوا۔, ہوتا, ہی, ہیں, ہے, ہے"نورے, ہے۔, ہے۔یہ, ہر, قوم, قدر, لہراکر, لمحے, لوگ, لوگوں, لی, لگی, لگے, لگا, لگانے, لگادیا, لئیے, م, ملک, ملاح, مناسب, میں, میری, مگر, متنازع, متوجہ, مجھ, مختلف, مسافر, مسافروں, مشکلات, مضبوط, نہ, نہیں, نقصان, نمک, ننگا, چوہ, چونک, نواز, چودہ, نورے, نورا, نیک, نُورا, نُورااپنی, چڑھ, چڑھنے, نے, چکے, چکا, چھوڑ, چھوٹی, چھاڑ, چاہیں, نامی, چائیے۔, چار, نصیب, نظروں, نظریں, و, وہ, ونج, والی, والے, والا, واپس, ورنہ, وسیع, یہ, یوں, یا, ۔, ۔نورے, ۔اس, کہ, کہیں, کہا, کمزور, کچھی, کنارے, کو, کوپتن, کوئی, کوشش, کی, کیا, کیسے, کے, کھیہ, کھیتا, کا, کافُور, کاموں, کامیاب, کا۔, کر, کرم, کرنی, کرنے, کرنا, کرپشن, کررہے, کسی, کشتی, گم, گما, گڈ, گویا, گی؟, گیا, گے, گھر, گئی, گاڑ, گاڑا, گاؤں, گرفت, پہ, پہنچ, پہنچا, پچھلے, پچھے, پیش, پڑا, پھوٹ, پائے, پار, پتہ, آنے, آیا, آپ, آتے, آتا, آج, آخری, آشناء, اللہ, ان, انہی, انہیں, اچک, اچانک, انتظار, اوئے, اور, اورمیری, ایک, ایسے, اُس, اُسے, اِس, اِسی, اکھٹے, اکھٹا, اکا, اگلے, اگر, اٹھے, اپنی, اپنے, اب, ابھی, اتفاق, اتنے, اختیار, ار, اس, اسے, اسکی, اسکے, استعفی, بہہ, بن, بنی, بنانے, بندی, بیوی, بڑی, بے, بکھرے, بھی, بھاگ, بھاگی, بھرے, باندھنے, باتیں, بار, بارہ, بازؤں, بازار, بتا, بتانے, بتائیں, بتارہا, بدل, بری, بربادی, بس, تہہ, تم, تمہیں, تمہاری, تمہارے, تو, توانہیں, تیسے, تھی, تھی۔, تھے, تھا, تھا"نُورے, تھا،گرمیوں, تار, ترمفاد, جہاں, جلدی, جمہوریت, جو, جوق, جیسے, جھلیا۔, جاننا, جانے, جائیں, جاتے, جبکہ, جس, حقیقت, خوش, خوشی, خاندان, خاص, خبر, دہ, دل, دو, دوپہر, دوبارہ, دور, دوسرے, دیہات, دیہاتوں, دیہاتیوں, دیکھا, دیکھتے, دیں, دیا, دیر, دُورواقع, دے, دکا, در, درمیان, دریا, دراز, دس, رہ, رہی, رہا, رنگ, رونے, رک, راستوں, رسی, رستوں, سلب, سمیٹنے, سمجھو, سمجھوں, سنبھالتے, سوچوں, سونا, سوار, سی, سیلاب, سُوجھی, سے, سالوں, سامنا, ساتھ, ساری, سارا, سر, شخصیت, شریف, صدمے, صرف, ضروری, طاقت, طرف, عہدے, عادت, عجیب, غم, غرق
شیخ طاہر القادری ۔ذرداری ۔ طے شدہ اسکرپٹ ۔ پتے کُھلتے ہیں۔
کیا ؟ ۔شیخ کا ڈرامہ ۔ زرداری اور سیاسی گرگوں کے مذاکرات ۔ ایک طے شدہ پلان تھا؟ ۔ کیا ڈارمے کا اختتام ہو چکا ؟ یا ابھی اس ڈرامے کے مذید ایکٹ سامنے آنا باقی ہیں؟۔
پاکستان کی تاریخ میں بہت سے لانگ مارچ ہوئے (اگر تو سبھی مارچوں کو لانگ مارچ کہا جاسکتا ہے ) کچھ ناکام اور کچھ اپنے مقاصد کی نوعیت کے اعتبار سے کامیاب ٹہرائے گئے ۔ مگر شاید تاریخ میں یہ مخمصہ ہمیشہ بر قرار رہے گا کہ شیخ کا ڈرامہ مارچ کامیاب رہا یا ناکام ہوا؟ ۔ کچھ لوگ اسے سخت ناکام قرار دیتے ہیں اور انکی رائے بھی اپنی جگہ درست اور نیت ٹھیک ہے ۔ بادی النظر میں یہ لانگ مارچ ڈرامہ ناکام ہوا اور شیخ بڑی مشکل سے عزت بچا کر واپس لوٹے ہیں۔ لیکن کیا واقعی یوں ہی ہوا ہے جیسا بظاہر سب نظر آتا ہے یا ہمارے کچھ بھولے بھالے سیاستدان اس ڈرامے میں اپنی مرضی کا رنگ بھرکر اسے ناکام قراردے رہے ہیں ۔جبکہ لگتا یوں ہے کہ اس لانگ مارچ ڈرامے کے اسکرپٹ رائٹرز نے ابھی فی الحال پہلا ایکٹ کھیلا ہے ۔ اور انکے مدنظر مقاصد میں وہ کامیاب نظر آتے ہیں اور اسلئیے لانگ مارچ ڈرامے کو ناکام نہیں کہا جاسکتا۔جہاں کہیں اس سارے پروگرام کے تانے بارے بُنیں گئے ہیں ۔ وہیں سے اب اگلی کاروائی کے بارے سوچ بچار جاری ہوگی۔
ایک اسیے وقت میں جب دوہری شہریت پہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا اور صوبائی اور قومی اسمبلی اور سینٹ کے غیر ملکی پاسپورٹس رکھنے والے اراکین کو اپنے متعقلہ قانون ساز اداروں سے اپنی سیٹیں چھوڑنی پڑ رہی ہیں۔ ایسے میں جب کہ پاکستان اپنی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک سول حکومت دوسری سول حکومت کو معینہ مدت پوری کرنے کے بعد انتخابات کے بعد اقتدار منتقل کرے گی ۔ ایک ایسے فرد کا جسکی قومیت کنیڈین ہے ۔ جو پاکستان کا شہری نہیں۔ جو خار زرا سیاست کے کوچے کو خیر آباد کہتے ہوئے ۔ غیر ملک میں جابسا تھا۔ جو اپنی تنظیم میں جمہوریت نام کی کسی شئے کا قائل نہیں۔ جو سیاسی سے زیادہ مذہبی زور بیاں پہ ایک خاص ذاتی قسم کی ایک منظم تنظیم بنائے ہوئے ہے۔ جس کا ہر دوسرا بیان پہلے سے مختلف ہوتا ہے ۔ جس کی سیاسی اور مذہبی قلابازیاں تاریخ کے ریکارڈ پہ ہیں ۔ ایسے شخص کا اچانک پاکستان وارد ہونا ۔ نا معلوم طریقے سے حاصل کئیے اربوں روپے۔ اپنے جلسے اور لانگ مارچ کی تشہیر پہ لگا دینا ۔ اور ایک ایسی ریاست بچانے کا دعواہ کرنا ۔ جس میں پاکستان کے آئین کے مطابق شیخ ۔غیر ملکی شہری ہونے کی وجہ سے ایک عام امیداور کے طور انتخاب نہیں لڑ سکتے ۔ طاہر القادری !۔ایسے مشکوک حالات میں ریاست بچانے۔ جمہوریت بچانے ۔ آئین بچانے کے لئیے ہر غیر قانونی ۔ غیر آئینی قدام اٹھانے کے مطالبات سر عام کرتے نظر آتے ہیں ۔جبکہ اخلاقی طور پہ انہیں ایسے کسی اقدام کا کوئی حق نہیں۔ نیز جس طرح شیخ کو ہر معاملے میں فری ہینڈ دیا گیا ۔ اس سے یہ سارا معاملہ شروع ہی سے مشکوک تھا ۔ ایک ایسا مارچ ۔جس کے مقاصد اور مطالبات شروع ہی سے واضح نہیں تھے اور ہر آن شیخ کا مؤقف بدلتا رہا ۔ اسے اسقدر اہمیت دینا کہ مارچ کے آغاز سے لیکر اختتام تک حکومت کے درجہ اؤل کی شخصیات شیخ سے مذاکرات کا ڈول ڈالنے کو بے تاب نظر آئیں۔
ایک رائے یہ تھی کہ حالات سے تنگ آئے عام عوام قطع نظر کسی سیاسی و مذہبی وابستگی سے شیخ کے ہجوم میں شامل ہوجائیں گے اور ہجوم اسقدر بڑھ جائیگا کہ تعداد چالیس ہزار سے چار لاکھ یا اس سے تجاوز کر جائے گی۔اور اس صورت میں شیخ اور حکومت کی ملی بھگت سے عام انتخابات سے فرار حاصل کرتے ہوئے ۔ پاکستان دشمن طاقتوں کے مفاد میں ۔ ایک نئی طرح کی حکومت ایجاد کی جاسکے گی۔ مگر عام عوام نے بالغ النظری کا ثبوت دیا اور شیخ اور شیخ کے مارچ کا تو بغور اور متواتر جائزہ لیتے رہے ۔مگر شیخ کے چالیس ہزارہ مارچ میں مزید اضافہ نہیں کیا۔
اسکے علاوہ ایک بڑا سیٹ اپ پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں نے ۔نواز شریف کی رہائش گاہ میں ایک فوری اجلاس منعقد کر کے۔ شیخ کے لانگ مارچ ڈرامہ کے ہدایتکاروں اور حکومتی گرگوں کو یہ واضح پیغام دیا ۔کہ آئین سے بالا کسی مُک مُکا کو برداشت نہیں کیا جائے گا ۔کہ نیز حکومت ۔شیخ کے سامنے بلیک میلنگ کا اظہار کرتے ہوئے موجودہ الیکشن سیٹ اپ میں کسی تبدیلی کی مجاز نہیں۔ اور اگر کوئی غیر آئینی قدم اٹھایا جاتا ہے۔ تو پاکستان کی حزب مخالف اور عوام اسے کسی طور برداشت نہیں کریں گے۔ حزب مخالف کا فوری اجلاس اور ایک متفقہ رائے کی وجہ سے حکومت اور اس ڈرامے کے ہدایت کاروں کو اس مارچ میں مناسب ردوبدل کرنے پہ مجبور کر گئے۔
کچھ لوگوں کی رائے میں امریکی سفارتخانے کی طرف سے ۔ غیر ضروری طور پہ ۔شیخ اور لانگ مارچ کے بارے میں عدم تعلق کا بار ہا یہ بیان دینا۔ جس کے بعد شیخ کا قسمیں اٹھا اٹھا کر امریکی سفارتخانے کے بیان کو اپنے حق میں گواہی اور شہادت کے طور پہ پیش کرنا بھی اس معاملے کو مشکوک کرتا ہے۔
عمران خان اپنی تحریک انصاف کے ساتھ شیخ کے ممکنہ ساتھی ہونے تھے۔مگر پاکستان حزب مخالف کے بر وقت اقدام کی وجہ سے انھیں طاہر القادری کو مایوس کرنا پڑا۔
ایم کیو ایم نے پہلے ایک قدم آگے بڑھایا اور پھر محض اخلاقی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے لانگ مارچ میں شامل ہونے سے انکار کردیا۔
یہ حسن اتفاق ہے یکے بعد دیگرے پاکستانی سیاسی میدان میں انقلاب کا لنگوٹ کس کر پاکستانی سیاست کے اکھاڑے میں اترنے والے۔ اپنے نام میں تحریک اور انقلاب کا زوروشور سے ڈھول پیٹتے نظر آتے ہیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے آئیں۔ ایک نظر اس معائدے کو دیکھ لیں جو تحریک منہاج القرآن کے بانی و رہنماء شیخ طاہر القادری اور حکومت اور حکومت کے اتحادہ برزجمہروں کے درمیان ہوا۔ معائدہ درج ذیل ہے۔
” 1: قومی اسمبلی کو 16 مارچ سے پہلے تحلیل کیا جائے گا، جو کہ پہلے سے ہی اس ایوان کی معینہ مدت ہے، تاکہ اس کے بعد 90 دن کے اندر اندر انتخابات کا انعقاد کروایا جا سکے۔ اس سے قبل ایک ماہ کا وقت دیا جائے گا تاکہ آئین کے آرٹیکل 62اور 63 کے تحت نامزد ہونے والے نمائندگان کی نامزدگی سے پہلے چھانٹی کی جائے گی تاکہ الیکشن کمیشن ان افراد کی اہلیت کا جائزہ لے سکے، کسی بھی امیدوار کو اپنی انتخابی مہم کے آغاز کی اجازت نہیں دی جائے گی جب تک ان کی یہ چھانٹی نہیں ہو جاتی اور الیکشن کمیشن ان کی اہلیت کا فیصلہ نہیں کرتا۔2: حکومت اور پاکستان عوامی تحریک دونوں مکمل اتفاق رائے سے دو دیانت دار اور غیر جانبدار امیدواروں کے نام نگران وزیر اعظم کے طور پر پیش کریں گے۔3: الیکشن کمیشن کی تشکیل کے بارے میں ایک اجلاس اگلے ہفتے اتوار 27 جنوری 2013 کو بارہ بجے منہاج القرآن کے مرکزی سیکریٹریٹ لاہور میں منعقد ہوگا۔ اس کے بعد ہونے والے تمام اجلاس بھی منہاج القرآن کے سیکریٹریٹ میں ہی ہوں گے۔آج کے فیصلے کی پیروی میں وزیر قانون ایک اجلاس مندرجہ ذیل وکلاء ایس ایم ظفر، وسیم سجاد، اعتزاز احسن، فروغ نسیم، لطیف آفریدی، ڈاکٹر خالد رانجھا اور ہمایوں احسن کو ایک اجلاس میں ان معاملات پر غور کے لیے بلائیں گے۔ وزیر قانون فاروق ایچ نائیک 27 جنوری کے اجلاس سے پہلے قانونی صلاح و مشورے کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کریں گے۔4: انتخابی اصلاحات کے بارے میں اتفاق کیا گیا کہ انتخابات سے پہلے آئین کے مندرجہ ذیل شقوں پر عملدرآمد پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔اے: آئین کی شق 62، 63 اور (3) 208بی: آئین کے سیکشن 77 اور 82 جو کہ عوامی نمائندگی کے ایکٹ 1976 کے سیکشن ہیں اور دوسری سیکشنز جو انتخابات کی آزادانہ، منصفانہ، شفاف اور ایماندارنہ بنیادوں پر انعقاد کو کسی قسم کی بدعنوانی سے بچاتے ہیں۔سی: سپریم کورٹ کے 2011 کی قانونی درخواستوں پر 8 جون 2012 کے فیصلے پر من و عن عمل درآمد کروایا جائے گا۔5: لانگ مارچ کے اختتام کے بعد دونوں جانب ایک دوسرے کے خلاف تمام قسم کے مقدمات ختم کر دیں گے اور دونوں جانب سے ایک دوسرے اور مارچ میں شریک کسی کے خلاف کسی قسم کی انتقامی کارروائی نہیں کریں گے“۔
دستخط : وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف چیئرمین پاکستان عوامی تحریک ڈاکٹر طاہر القادری،سربراہ وفد چوہدری شجاعت حسین ،وزیر قانون فاروق ایچ نائیک،مخدوم امین فہیم ، پی پی پی،سید خورشید شاہ ، پی پی پی پی ،قمر زمان کائرہ ، پی پی پی پی ،فاروق ایچ نائیک ، پی پی پی پی ،مشاہد حسین ، پی ایم ایل کیو ،ڈاکٹر فاروق ستار، ایم کیو ایم ،بابر غوری ، ایم کیو ایم ،افراسیاب خٹک، اے این پی،سینیٹر عباس آفریدی، فاٹا
اس سارے معائدے کے ہر دو فریق اس معائدے کا کوئی آئینی و قانونی حق نہیں رکھتے۔
اس معائدے کی شق نمبر ایک۔ کے مطابق ممکنہ امیدواروں کی آئین کی شق 62، 63 اور (3) 208بی: آئین کے سیکشن 77 اور82 پہ پورا اترنے کی اہلیت جو کہ عوامی نمائندگی کے ایکٹ 1976 کے سیکشن ہیں اور دوسری سیکشنز جو انتخابات کی آزادانہ، منصفانہ، شفاف اور ایماندارنہ بنیادوں پر انعقاد کو کسی قسم کی بدعنوانی سے بچاتے ہیں۔ کا اختیار ۔ شیخ اور رخصت ہوتی حکومت کے تشکیل کردہ الیکشن کمیشن کے پاس آجائیں گے ۔ جبکہ اس سے قبل امیدواروں کی مذکور ممکنہ اہلیت جانچنے کا یہ اختیار عدلیہ کے پاس تھا۔
اس معائدے کی شق نمبر دو۔ کا ایک فریق عوامی تحریک نگران وزیر اعظم کا نام منتخب کرنے یا پیش کرنے کا کوئی آئینی ۔قانونی اور اخلاقی حق نہیں رکھتا۔ اگر یوں ہوتا ہے توذرا تصور کریں ۔ چالیس کی بجائے چارلاکھ معتقدین ۔ مریدین۔ اور سیاسی اراکین رکھنے والے ”کس اور کیا کچھ “کرنے کا مطالبہ نہیں کر سکتے ؟۔ اور ایک ایسا طوفان بدتمیزی سر اٹھائے گا کہ الامان الحفیظ۔
اس معائدے کی شق نمبر تین۔ کے مطابق ۔ اس سے قبل تشکیل شدہ الیکشن کمیشن کو متازع بنانے کی کوشش کرتے ہوئے معاملات الجھانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔الیکشن کمیشن کی متفقہ تشکیل ہوچکی ۔ جس پہ پاکستان کی تقریبا سبھی سیاسی پارٹیاں اور عدلیہ متفق ہو چکے ہیں ۔اس تشکیل شدہ الیکشن کمیشن کو مشکوک کرنا ۔ متنازعہ قرار دینا محض الیکشن میں تاخیر یا منسوخ کرنا ہے ۔ یا الیکشن کے بعد اسکے نتائج کو مشکوک و متنازعہ قرار دینا ہے ۔ یہ بارود کے ڈھیر پہ دیا سلائی رکھنے کے مترادف ہے۔
یہ بھی بہت ممکن ہے کوئی دردمند شہری اس معائدے کی آئینی و قانونی حیثیت کو اعلٰی عدلیہ میں چیلنج کردے اور یہ معائدہ سرے سے ہی کالعدم قرار پائے۔
پاکستان کی دیگر سیاسی پارٹیاں اور حزب اختلاف اس پہ اعتراضات اٹھائے گی جس سے انتشار اور عدم استحکام کا ایک نیا محاذ پاکستان کے اندر کھل جائے گا ۔
یہ معائدہ اپنے وجود کے اندر پاکستان کے استحکام کے لئیے خوفناک مسائل لئیے ہوئے ہے۔ ۔ ایک ایسی حکومت جس نے پورے ملک کو اپنی اس پوری مدت میں میدان جنگ بنا رکھا ہے۔ بغیر کسی وجہ کے گیس ۔ بجلی اور پانی کا بحران حل نہیں کیا۔ بلکہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فیکٹریوں سے لیکر گھروں کے چولھے تک بند پڑے ہیں اور پوری ایک قوم کو ان سالوں میں پتھر کے دور میں دھکیلنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا گیا۔ لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے نہیں تھکتے اور حکمران اپنی ذاتی سیکورٹی کے سوا سیکورٹی کے متعلق کوئی دوسرا قدم اٹھانے کو گناہ سمجھتے ہیں۔ عام امن عامہ کی خراب حالت کی وجہ سے عام شہری سر شام ہی گھروں میں بند ہو کر رہ جاتے ہیں۔ میرٹ کا قتل کیا جارہا ہے ایک عام سی نوکری لاکھوں روپے میں بک رہی ہے۔ ہر طرف کرپشن ۔ لُوٹ کھسوٹ اور چور بازاری گرم ہے ۔ اربوں روپے کی کرپشن ہور رہی ہے۔ اعٰلی عدلیہ حکومتی سودوں میں اربوں روپے کے گھپلوں کی نشاندھی کر چکی ہے ۔ مگر حکومت میں شامل کسی کی ناک پہ ایک بال تک نہیں پھڑکا ۔ اسی حکومت کا ایک ایسے چالیس ھزاری مجمع کے لانگ مارچ اور دھرنے کے سربراہ ایک غیر ملکی شہریت کے حامل اور ایک عام شخصیت کی بلیک میلنگ ( جو در حقیقت بلیک میلنگ نہیں بلکہ پہلے سے طے شدہ ایک ایکٹ ہے کہ بلیک میلنگ کا تاثر دیا جائے) کے سامنے اتنے ادب و احترام سے جھک جانا ۔ یہ کسی ذی شعور پاکستانی کی عقل میں نہ آنے والی بات ہے۔شیخ کا پہلے سے طے شدہ اوقات کار کے مطابق چند ماہ کی مہمان حکومت کو دھمکیاں اور واننگ دینا ۔اور ایسا معائدہ کرنا جسکا کوئی آئینی ۔ قانونی اور اخلاقی جواز نہیں بنتا ۔
یہ سب باتیں یہ واضح کرتی ہیں کہ یہ سارا پلان پہلے سے طے تھا۔ اور ابھی یہ ڈرامہ ختم نہیں ہوا ۔ بلکہ یہ اس ڈرامے کا آغاز ہے اور اسکی انتہاء ۔ پاکستان میں کسی طور ایک غیر آئینی حکومت کا نفاذ ہے ۔ ۔جو اس سارے ڈرامے کی ہدایت کار غیر ملکی طاقت کے ایجینڈے میں اسکی مرضی کے رنگ بھر سکے ۔ جس کے تانے بانے بہر حال پاکستان کو دو ہزار پندرہ تک زبردست قسم کی انارکی کا شکار بنانے سے جا ملتے ہیں ۔ اور بلوچستان کے حوالے سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا مقصود ہیں ۔ اگر کوئی غیر جمہوری (جو ٹیکنو کریٹس کی حکومت بھی ہو سکتی ہے ) سیٹ اپ بنتا ہے ۔ تو ممکن ہے کہ افواج پاکستان کواسکی بی ٹیم کے طور پہ کام کرنے کے لئیے کہا جائے۔ کیا پاکستان کے بارے مکرو ہ عزائم رکھنے والی طاقتیں کامیاب ہوں گی ۔یا پاکستان کے عوام بالغ النظری اور شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے طاغوتی طاقتوں کو انکے عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اس بات کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا ۔ اور قرائن یہ بتاتے ہیں ۔ کہ اس دفعہ شاید مشیت ایزدی کا ایجینڈا پاکستان کے ساتھ ہے ۔ پاکستان اور قوم دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ انشاءاللہ۔ لیکن فی الوقت پاکستان میں انتشار مزید بڑھتا نظر آتا ہے اور جسکے بنیادی کردار طاہر القادری اور موجودہ حکومت ہیں۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: 2013, 27, 62اور, 63, 90, ہفتے, ہو, ہونے, ہوگا۔, ہوئے, ہی, ہیں, ہیں۔کیا, فیصلہ, ہے،, قبل, لے, لاہور, لانگ, مہم, منہاج, منعقد, میں, مکمل, ماہ, مارچ, مدت, مذید, مذاکرات, مرکزی, معینہ, نہیں, نمائندگان, چکا, نگران, چھانٹی, نام, نامزد, نامزدگی, وقت, والے, ڈارمے, ڈرامہ, ڈرامے, وزیر, یہ, یا, ۔, ۔زرادری, ۔شیخ, کہ, کمیشن, کو, کی, کیا, کُھلتے, کے, کا, کروایا, کریں, کرتا۔2:, کسی, گی, گے۔3:, گا, گا،, گرگوں, پہلے, پلان, پیش, پاکستان, پتے, پر, ؟, آنا, آئین, آرٹیکل, آغاز, اہلیت, افراد, القادری, القرآن, الیکشن, امیدوار, امیدواروں, ان, انتخابی, انتخابات, اندر, انعقاد, اور, ایوان, ایک, ایکٹ, اگلے, اپنی, ابھی, اتفاق, اتوار, اجلاس, اجازت, اختتام, اس, اسکرپٹ, اعظم, بہت, بھی, باقی, بارہ, بارے, بجے, بعد, تک, تھا؟, تاکہ, تاریخ, تحلیل, تحت, تحریک, تشکیل, جنوری, جو, جا, جانبدار, جائے, جائزہ, جاتی, جب, حکومت, دن, دو, دونوں, دی, دیا, دیانت, دار, رائے, زرادری, سیکریٹریٹ, سیاسی, سے, سکے۔, سکے،, سامنے, شیخ, شدہ, طور, طے, طاہر, عوامی, غیر
کولبیرٹ ازم۔ برصغیر ہندؤستان اور برئنیر رپورٹ۔پہلی قسط
قسط اول
ہمارا موضوع شاہجہان اور اورنگ زیب کے دور میں ہندؤستان سے متعلق "فرانسسکو برنئیر ” کے سفر اور خیالات ہیں۔ جن سے اس دور میں ہندؤستان اور یوروپ کی دیگر اقوام کے حالات اور سوچنے کا انداز ۔ اور برصغیر ۔ برصغیر میں مغلوں کی حکومت۔ برصغیر کے سماجی ۔ معاشرتی ۔ سیاسی ، فوجی اور حکومتی ڈھانچے کا جائزہ لینا اور برنئیر جیسے مغربی دانشور کی زبانی ہندؤستانیوں کی خامیوں اور خوبیوں کا موازنہ کرنا ہے ۔ اور اس دور میں ہندوستان کے بارے مغربی سوچ کا احاطہ کرنا شامل ہے۔
” کولبیرٹ” ( ۲۹۔انتیس اگست سولہ سو انیس عیسوی ۱۶۱۹ء تا ۶ چھ ستمبر سولہ سو تراسی ۱۶۸۳ء ) فرانس کے بادشاہ لوئیس چہاردہم (چودہویں) کا وزیر خزانہ تھااور وزیر اعظم کے بعد بادشاہ کی حکومت کا دوسرا طاقتور ترین فرد شمار کیا جاتا ۔ یہ وہ دور تھا۔ جب فرانس ۔ ہالینڈ سے مشرقی منڈیوں کی مصنوعات کا عالمی تجارت میں مقابلہ کرنا چاہتا تھا۔اور مشرقی منڈیوں کی مصنوعات اور مصالحہ جات کی اپنے ملک فرانس میں مانگ کی وجہ سے برآمد درآمد کا توازن اپنے حق میں کرنے کے لئیے۔ مشرقی اور دیگر ممالک میں قبضہ کرتے ہوئے اپنی نوآبادیاں قائم کر کے ۔دیگر فوائد کے ساتھ وہاں اپنی مصنوعات کی کھپت کرنا چاہتا تھا۔ فرانس کے مشہور وزیر خزانہ کولبیرٹ کی اس سوچ اور حکمت عملی کو فرانس میں بے حد مقبولیت ملی اور اسے ۔ "کولبیرٹ ازم” کا معروف نام دیا گیا۔
مسلسل ناکامیوں ، عزم کی کمی اور عدم اتفاق کی وجہ سے فرانس کی مختلف نجی جہاز راں کمپنیاں مہم جوئی سے ہاتھ اٹھا چکیں تھیں۔ تاہم کولبیرٹ سولہ سو چوسنٹھ میں فرانس کے بادشاہ لوئس چہاردہم کو اس بات پہ قائل کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔کہ ہندوستان کے لئیے الگ سے جہاز رانی اور مہم جوئی کے لئیے کمپنیاں قائم کی جانی ضروری ہیں۔جبکہ اورینٹل کمپنی جو کہ مڈغاسکر اور بوربون جزائر سے بڑی مہموں کے لئیے استعمال ہوتی تھی۔ فرانس کے پچھلے بادشاہ لوئس سیز دہم کے دور کے آخری دنوں کے بحران کا شکار ہونے کی وجہ سے اورینٹل کمپنی دیگر دوسرے معاملات میں استعمال کی جانے لگی۔
پہلے پانچ سالوں میں کولبیرٹ ازم کو عوام میں بے حد پسند کیا گیا۔اور نفسیاتی طور پہ کولبیرٹ ازم کے رحجان میں اضافہ ہوا۔”کولیبرٹ ازم” کو خود غرض تجارتی مقاصد کے طور پہ پہچانے جانے کی بجائے ایک ذہین منصوبہ بندی کا نتیجہ سمجھا گیا ۔ جس سے ولندیز (ہالینڈ) اور انگلستان کا مقابلہ کرنا مقصود ہو۔ کیونکہ اس دور یعنی سترھویں صدی میں فرانس کے اکثریتی دانشوراور باشعور طبقہ بھی ولندیز اور انگلستان کو ہی برتر تسلیم کئیے بیٹھے تھے۔
اس دور میں فرانسیسی نصرانی عقیدت مندوں میں سے فرانس کے بارے ایک پُر جوش اور محب الوطن ” فرانسسکو برنئیر” ہو گزرا ہے ۔ جوایک ڈاکٹر (طبیب) فلاسفر اور سیاح تھا۔ برنئیر سترھویں صدی میں ۱۶۲۰ء سو لہ سو بیس عیسوی میں "جوئے”( انگریس) فرانس میں پیدا ہوا۔ اور ۱۶۸۸ء اسولہ سو اٹاسی عیسوی میں پیرس، فرانس میں مرا۔ فرانسسکو برنئیر نے۱۶۴۲ء سولہ سو بیالیس عیسوی میں معروف فلاسفر "گاسیندی” سے اپنے مشہور ہم عصروں "کاپیلے ، مولیئیر، اور ھسنلات ” کے ساتھ فلسفے کی تعلیم حاصل کی۔ برنئیر "کریانو دے برجیراک” کا ہم عصر ہو گزاراہے۔ فرانسسکو برنئیر نے سترھویں صدی کا دوسرا نصف حصہ ایڈوانچر اور سیاح نودری میں گزارا۔برنئیر نے بہت سے ممالک کے سفر کئیے ۔ جن میں اٹلی ، جرمنی اور پولینڈ شامل ہیں۔فرانسسکو برنئیر نے "مونت پلئیر” میں ڈاکٹر بننے کے بعد اپنے استاد کی موت کے بعد ملک شام کا رُخ کیا اور وہاں سے برنئیر ہندؤستان پہنچا۔جہاں اسے طبیب (ڈاکٹر) کے طور کام کرنے کی اجازت مل گئی اور اسے شاہجہان کی بیماری کا علاج کرنے کے لئیے بارہا طلب کیا گیا ۔ یوں وہ دربار میں شامل ہوگیا اور اور اورنگ زیب نے جب اپنے باپ شاہجہان کو تخت و تاج سے محروم کیا تو فرانسسکو برنئیر اورنگزیب کے دربار میں شامل کر لیاگیا۔
مغل دربار میں شمولیت کے دوران بھی برنئیر نے وقت ضائع نہیں کیا اور شہنشاہ کے آغا دانشمند خان کو "ہیروی” اور "پسکیت” کی جسمانی ساخت کے بارے تحقیق اوردریافتوں کے بارے آگاہ کیا اور "گاسیندی” اور "دیس کارتیس” کے فلسفی نظریوں کے بارے بتایا۔
ہمہ وقت متجسس ہونے کی وجہ سے برنئیر نے ہندؤستانیوں کے مذہبی عقائد اور فلسفے کا بغور مطالعہ کیا۔ مغل سلطنت کی سماجی ، معاشرتی ، سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کے بارے معلومات اکھٹی کیں۔ یہ وہ دور تھا جب مغل شہنشاہیت عروج پہ تھی۔ شہاجہان کی بیوی تاج محل مر چکی تھی اور مشہورتاج محل بن چکا تھا۔ شاہجہان کی بیوی کا علاج بھی فرانسسکو برنئیر کر تا تھا۔ اور موسم گرما میں گرمیوں کی وجہ سے جب شہاجہان اورتاج محل دیگر دربار کے ساتھ کشمیر منتقل ہوتے تو برنئیر ساتھ ہوتا ۔
تیرہ ۱۳ سال فرانس سے باہر رہنے کے بعد فرانسسکو برنئیر فرانس واپس چلاگیا۔
فرانس واپس پہنچنے پہ فرانسسکو برنئیر نے بہت سے کتابیں لکھیں ۔ جن میں "عظیم مغل سلطنت کے سفر ” اور فلسفے پہ سات جلدوں پہ مشتمل "ابغریجئے دے فلاسفی دے گاسیندی” لکھی ۔ دیگر بہت سی کتابوں میں سے چند ایک قابل ذکر نام ذیل میں ہیں۔
Suite des mémoires sur l’empire du grand Mogol
Abregé de la philosophie de Gassendi (1674);
Doutes sur quelquesuns des principaux
chapitres de L’Abrégé de la philosophie de Gassendi (1682);
Eclaircissement sur le libre de M. Delaville (1684);
Traite du libre et du voluntaire(1685);
Memoire sur le quietisme des Indes (1688);
Extrait deDescripción du canal des Deux Mers, Eloge de Chapelle (Journal des Savants) (1688).
لیکن ہماری دلچسپی کا باعث اور موضوع "فرانسسکو "برنئیر کے وہ سفر نامے اور تفضیلات ہیں۔ جو برنئیر نے ۱۶۷۰ء سولہ سو ستر عیسوی اور ۱۶۷۱ء سولہ سو اکہتر عیسوی میں چھپوائے۔
دوسرے ممالک سے برنئیر نے بہت سے خطوط لکھے۔ جن میں بہت سے خطوط برنئیر کے سفر ناموں میں شامل ہیں ۔ لیکن کچھ خطوط ایسے بھی ہیں جو وضاحتی نہ ہونے کی وجہ سے نہیں چھپے یا انکے کچھ حصے چھپے۔
فرانسسکو برنئیر کے اس مختصر سے تعارف کا مقصد محض یہ تھا کہ برنئیر کے بارے میں پتہ چل سکے اور اسکی تحریروں کی سنجیدگی اور اہمیت کا اندازہ رہے۔
فرانسسکو برنئیر کے بیش قیمت تاریخی اہمیت کی حامل تحریروں کے کچھ حصے کوذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔ جنہیں برنئیر نے فرانس کے وزیر خزانہ "کولبریٹ ” کو لکھا ۔ یہ تحریریں اور خط فرانس کے وزیر خزانہ کی میز پہ نوآبادیت نامی فائلوں کا حصہ تھے۔ یاد رہے۔یہ وہ دور تھا۔ جب فرانس ۔ ہالینڈ سے مشرقی منڈیوں کی مصنوعات کا عالمی تجارت میں مقابلہ کرنا چاہتا تھا۔اور مشرق میں واقع مشرقی اور دیگر ممالک میں قبضہ کرکے ااپنی نوآبادیاں قائم کرنا چاہ رہا تھا تانکہ اُن ممالک کی معدنیات۔ پیداوار اور مصنوعات یعنی وسائل کو فرانس کے لئیے بروکار لائے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ فرانس کے مشہور وزیر خزانہ” کولبیرٹ” کی اس سوچ اور حکمت عملی کو فرانس میں بے حد مقبولیت ملی اور اسے ۔ "کولبیرٹ ازم” کا معروف نام دیا گیا۔
(جاری ہے۔)
1٭Jean-Baptiste Colbert (29 August 1619 – 6 September 1683) was a French politician who served as the Minister of Finances of France from 1665 to 1683 under the rule
of King Louis XIV.
2٭Jahangir, Shah Jahan, Aurangzeb, c.1605-1707
3٭ François Bernier (1625 – 1688) was a French physician and traveller. He was the personal physician of the Mughal emperor Aurangzeb for around 12 years during his stay in India.
4 ٭ La península del Indostán y el colbertismo. I. El informe de Bernier a Colbert Rojas Ferrer, Pedro
٭5.la description des Etats du Grand mogol
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ٹیگز: (, ), ہمارا, ہندؤستان, ہندؤستانیوں, فوائد, فوجی, ہالینڈ, فرانس, فرانسسکو برنئیر, فرد, قائم, قبضہ, لوئیس, مہم جوئی, مقابلہ, مقبولیت, ملی, ممالک, منڈیوں, موازنہ, موضوع, میں, مانگ, مختلف, مسلسل, مشرقی, مصنوعات, مصالحہ جات, معاشرتی, معروف, مغلوں, مغربی, چہاردہم, نوآبادیاں, چودہویں, ناکامیوں, نجی, ڈھانچے, وزیر اعظم, وزیر خزانہ, یوروپ, کمی, کمپنیاں, کولبیرٹ ازم, کولبریٹ, کی, کے, کھپت, ٭, ۴, ا, اقوام, انداز, اور, اورنگ زیب, اتفاق, احاطہ, بادشاہ, بارے, برآمد, برئنیر, برصغیر, توازن, تجارت, ترین, جہاز راں, جائزہ, حق, حکمت عملی, حکومت, حکومتی, خوبیوں, خیالات, خامیوں, دور, دانشور, درآمد, رپورٹ, زبانی, سفر, سماجی, سوچنے, سیاسی, شمار, شاہجہان, شامل, طاقتور, عیسوی, عالمی, عدم, عزم