RSS

پاکستانی نام۔ ایک اہم مسئلہ۔

01 جون

پاکستانی نام۔ ایک اہم مسئلہ۔whats-your-name

ہمارے ملک میں عام طور پہ بچے کے دو نام رکھے جاتے ہیں ۔
بچے کی علیحدہ سے شناخت کے لئے۔ اسکا نام ۔اس کے والد کا نام ۔ قبیلہ ۔ اور ذات، برادری بمعہ محلہ ،بستی، گاؤں ،گوٹھ ، ڈاک خانہ ،شہر ،تحصیل و ضلع۔ لکھ دیا جاتا ہے ۔
مگر اس کے باوجود ایک ہی محلے میں ایک ہی جیسے ناموں والے دو یا تین لوگ پائے جا سکتے ہیں۔ جس سے اجنبی لوگوں کو کسی خاص فرد کی تلاش و بسیار میں اور محکموں کی کسی ضروری کاروائی کے دوران بہت سے لطیفے جنم لیتے رہتے ہیں۔ اور بعض اوقات ایک نام کے کئی افراد ہونے کی وجہ سے پریشان کُن اور افسوس ناک صورتحال بن جاتی ہے۔ خط ایک ہی جیسے نام والے دوسرے افراد کو پہنچ جاتا ہے ۔یا مغالطہ میں لوگ غلط فرد سے معاملات کر لیتے ہیں۔
جبکہ بہت سے ممالک میں باپ کا خاندانی (بعض ملکوں میں قبائلی) نام اور ماں کا خاندانی نام بچے کے نام کے ساتھ لازمی جز کے طور لکھا جاتا ہے جو تا حیات اس کے نام کا حصہ بن جاتا ہے ۔ اور صرف نام سے ہی کسی کو الگ سے شناخت کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ کیونکہ صدیوں سے رائج ایسے ناموں کے نظام میں انتہائی مشکل سے ہی شاید کبھی دو ایک جیسے نام اور باپ کا خاندانی اور ماں کا خاندانی نام یعنی یہ نام دو یا دو سے زائد افراد کے ہوں۔
یوں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لیکر عام اداروں اور لوگوں کو بھی کسی سے رابطہ کرنے ، اور درست فرد کے ساتھ معاملات کرنے میں دشواری نہیں ہوتی ۔
پاکستان میں تو شناخت کئی طریقوں سے کروا ئی جا سکتی ہے۔ اور ایک دیسی طرز کے ہمارے نظام میں کئی لوگ کسی کی شہادت اور شناخت میں مدد گار ہوں گے۔ اور شناختی کارڈ بننے سے یہ مسئلہ کچھ بہتر ہوا ہے ۔ حالانکہ آج بھی پاکستان میں عام آدمی کم ہی کسی کو اسکی شناختی کارڈ کی وجہ سے شناخت کرتا ہے ۔ عام طور پہ ارد گرد کے لوگ ہی سوال و جواب کی صورت پتہ و مقام بتا دیتے ہیں۔
مگر جب پاکستانی اپنے ممالک سے باہر جاتے ہیں تو وہاں پہ فیملی نام نہ ہونے کی وجہ سے اور ایک ہی شہر میں ایک ہی نام سے دو سے زائد پاکستانی ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے لئے تکلیف دہ صورتحال جنم لیتی ہیں ۔ جس میں بنکوں کے اکاؤنٹ بلاک ہونے سے لیکر مختلف محکموں کے واجبات اور بل اور جرمانے وغیرہ ان لوگوں کے اکاؤنٹ سے کٹ جاتے ہیں جو ایک جیسے نام کی وجہ سے یہ تکلیف بھگتتے ہیں اور بعدمیں صورتحال کا درست علم ہونے پہ۔متعلقہ اداروں سے اپنی رقم واپس لینے کے لئے سر پھٹول کرتے پائے جاتے ہیں۔
بہت سے لوگوں کو رقم کی وصولی ۔یا پاکستان رقم بھیجنے پہ محض اس لئے نہیں وصول کی گئی کہ بھیجنے والے یا وصول کرنے والے کا نام بلیک لسٹ کیے جانے والے کسی مبینہ دہشت گرد کے نام کی طرح نام تھا۔
پاکستانی اداروں اور خاص کر ۔ نادرہ ۔ کو اس صورتحال کا کوئی حل نکالنا چاہیے۔ تانکہ بہت سے لوگ غیر ضروری طور پہ اس طرح کی صورتحال سے بچ سکیں ۔ نیز انہیں کسی سطح پہ یہ اہتمام بھی کرنا چاہیے کہ دیگر ممالک کے محکمہ داخلہ کے علم میں یہ بات لائی جائے کہ پاکستان میں بچے کی پیدائش پہ عام طور پہ محض دو نام رکھ دئیے جاتے ہیں ۔ جن کا خاندانی نام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بچے کے نام کے ساتھ خاندانی نام رکھنے کی پابندی نہیں اور نہ ہی اس کا رواج ہے۔ تانکہ ایک ہی جیسے نام رکھنے والے پاکستانیوں کو در پیش مشکلات میں سرکاری اداروں کو رہنمائی ہو سکے اور غیر متعلقہ لوگ عتاب یا پریشانیوں کا باعث نہ بنیں ۔
اسی طرح ایک اور مسئلہ جو بہت اہم ہے ۔ وہ ہے مقامی ، اردو، عربی اور فارسی کے ناموں کو انگریزی میں درج کرتے ہوئے انکے درست ہجوں کا ۔ مثال کے طور پہ ۔ محمد کو انگریزی میں لکھتے ہوئے ۔ بہت سے سرکاری ادارے اور خاص کر پا سپورٹ آ فسوں میں کلرک حضرات Mohammed اور Muhammad ان دو طریقوں سے لکھتے ہیں ۔ یعنی کہیں انگریزی کا حرف ”یُو“ ۔ اور کہیں انگریزی کا حرف ”او“ کے ساتھ ”محمد “ لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح کا معاملہ پاکستان میں بہت سے ناموں کے ساتھ ہے ۔۔ جن میں ۔جاوید۔ صدیق۔ اور دیگر کئی نام آتے ہیں۔
پاکستان کے مختلف سرکاری اداروں کے کلرک بابو ۔ ایک ہی فرد کا نام ۔ پاسپورٹ۔ اور دیگر کئی دستاویزات ۔ برتھ سرٹیفیکٹ ۔ نکاح نامہ وغیرہ پہ جن کا انگریزی میں ترجمہ کروانے پہ ۔ مختلف ہجوں سے لکھ دیا جاتا ہے ۔ جس سے غیر ممالک میں نہ صرف پاکستان کی جگ ہنسائی ہوتی ہے ۔ بلکہ سائل کو کئی بار اور کئی ماہ دفتروں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں اور خواری الگ سے ہوتی ہے۔
ہماری ذاتی رائے میں ۔ حکومت پاکستان کی ایماء پہ۔ نادرہ پاکستان میں رائج اور مستعمل ناموں کی ایک فہرست تیار کرے اور اسے لغات کی طرز پہ اردو کے سامنے درست انگریزی نام تجویز کرے۔ اور اس فہرست کو سبھی سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کو بھیج دیا جائے اور عام افراد کے لئیے اسے نادرہ کی ویب سائٹ پہ آن لائن شائع کر دیا جائے ۔تانکہ عام افراد اور نجی ادارے بھی اس سے استفادہ کر سکیں ۔ نیز سرکاری و نیم سرکاری اداروں کو آئیندہ کے لئیے پابند کیا جائے کہ وہ نادرہ کے۔ منظور و شائع کردہ ۔درست نام کے ساتھ دستاویزات جاری کریں گے۔ تانکہ مستقبل میں ایسی الجھنوں سے بچا جاسکے۔
کسی بھی حکومت ۔ متعلقہ اداروں اور ذمہ دار افراد کے لئیے یہ ایک معمولی مسئلہ ہے ۔ جسے حل کرنا چندا ںمشکل نہیں ۔ جس سے ۔اندرون و بیرون ملک پاکستانی بہت سی پیچیدگیوں سے محفوظ رہ سکیں گے ۔اور ملک کی جگ ہنسائی نہیں ہوگی۔

 

 

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

5 responses to “پاکستانی نام۔ ایک اہم مسئلہ۔

  1. خورشیدآزاد

    جون 1, 2014 at 19:34

    یہ آپ نے بہت اہم مسئلے کی طرف نشاندہی کی ہے۔۔۔انگریزی نام کے غلط ہجوں کی وجہ سے ہمیشہ پریشانی ہوتی ہے۔۔۔۔AHMED and AHMAD۔۔۔۔ایک دفعہ میں پولیس اسٹیشن گیا تو ایک پولیس والے نے مجھ سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ ایک طرح کے پاکستانی نام کا انگریزی ہجوں میں فرق ہوتا ہے؟ میں نے کہا مجھے بھی نہیں معلوم ۔۔۔۔بس میرا خیال ہے انگریزی میں نام لکھنے والا جب نام کے اردو تلفظ کے مطابق اپنی مرضی سے انگریزی کے ہجے استعمال کرلیتا ہے۔

     
  2. SAQIB ALTAF AHMED ALYANA

    جون 2, 2014 at 00:48

    ya aak asa masla hay jis ke waja say bahrun a mulk bohat problem hota hay logo ko jasya k bhai say apnay belog may farmia hay is k ilava is bat par aak mukamal list hona chai hay jo k tamam MUSLIM names ke ho jo k common hain or wo haar mulk may computer may mojud ho jab koyai name write karya spel samnay aa jain us k real walay jo use htoya hain … is par mujh ko b problem hua tha … ALYANA AYN ke bajay ALIF say write kar dia jata hay ya ALTAF or ARATAFU … write kia ajta hay .. BASIT ko BASEET wirte kar datya ahin … or jab wo paper hum lay kar visa a pakistan jatya hain to wahan hum ko govt offices may problem hota hay … even baz okat airport par rok lia jata hay …

     
  3. Iftikhar Ajmal Bhopal

    جون 2, 2014 at 08:12

    یہ مسئلہ یا مُشکل پاکستانیوں کے ناموں میں عام طور پر ہے ۔ میں جرمنی 1966ء میں گیا تھا ۔ ہوٹل کے فارم میں مجھے اپنا ۔ ماں باپ دادا اور قبیلہ کا نام علیحدہ علیحدہ لکھنے کا کہا گیا تھا ۔ 1976ء میں لبیا گیا تو وہاں شناختی کارڈ بنانے کیلئے بھی مجھے یہ سب نام لکھنا پڑے تھے ۔ یہی پرانا نظام تھا جو ہم نے چھوڑ دیا ۔ اس کا ایک سبب ہمارے ماضی کے آقا انگریز ہیں ۔ دوسرا سبب ہمارے غلام ذہنوں والے حکمران اور تیسرے ہمارے انگریز پسند دماغ ۔ ایک کارستانی اور بھی سُن لیجئے ۔ جب کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ شروع ہوئے تو ہدائت تھی کہ نام کے سامنے درخواست دہندہ کا نام لکھا جائے ۔ باپ کا نام اور قبیلہ کا نام کے علیحدہ خانے تھے ۔ شناختی کارڈ میں اسی طرح اندراج ہوا ۔ پرویز مشرف کے زمانہ میں نادرا بنایا گیا اور شناختی کارڈ کے ساتھ پاسپورٹ بھی نادرا کے حوالے کر دیا گیا ۔ نادرا نے پاسپورٹ کیلئے امریکہ سے سوفٹ ویئر خریدی ۔ میرے خیال میں جس کا استعمال امریکہ نے ترک کر دیا تھا ۔ اس سوفٹ ویر کے مطابق یہ تماشہ بنا کہ اگر ایک مرد یا عورت کا نام صرف ایک لفظی تھا جیسے خالد یا فاطمہ ۔ پاسپورٹ میں نام والا خانہ خالی چھوڑ دیا گیا اور خالد یا فاطمہ سر نیم کے خانے میں لکھ دیا گیا ۔ جس کا دوہرہ نام تھا جیسے محمد اسلم ۔ نام کے خانے میں محمد اور سرنیم کے خانے میں اسلم لکھ دیا گیا ۔ میرا نام افتخار اجمل بھوپال لکھا تھا تو افتخار اجمل نام کے خانے میں اور بھوپال سرنیم کے خانے میں لکھا گیا
    جو لوگ امریکہ گئے اُنہیں کوئی مشکل پیش نہ آئی مگر دوسرے ملکوں کو جانے والے یا تو واپس بھیج دیئے گئے یا کئی گھنٹے اُنہیں ایئرپورٹ پر رکھا گیا ۔ جب کافی شور مچا تو حکم ہوا کہ نئے شناختی کارڈ بنوائے جائیں جن میں باپ کا نام ساتھ لکھا جائے ۔ حالانکہ باپ کا نام شناختی کارڈ پر موجود تھا اور نادرا کے ریکارڈ میں قبیلہ وغیرہ بھی تھا ۔ اب چند سالوں سے نادرا نے ماں کا نام بھی پوچھنا شروع کر دیا ہے اور اس کیلئے حلف نامہ مانگتے ہیں

     
  4. Sarwat AJ

    جون 4, 2014 at 09:14

    بہت اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی ۔ ۔ ۔فیملی نام چوہدری کی عربی شکل ‘شودری’ نے یہ سب راز بہت اچھی طرح وا کئے ۔ ۔

     
  5. محمد سلیم

    جون 7, 2014 at 19:25

    پاکستان میں (سردار محمد شہروز خان دریشک) محض ایک نام ہوتا ہے کوئی پورا شجرہ نسب نہیں۔

    سابقوں اور لاحقوں کے ساتھ بڑے بڑے مرکب نام رکھنے کا رواج ہمارے برصغیر پاک و ہند میں ہی زیادہ دیکھنے میں آتا ہے جبکہ ان کا فائدہ ککھ برابر بھی نہیں ہوتا۔ ناموں کیلئے کوئی ضابطہ نا ہونے کی وجہ سے ایک محلے میں پچیس محمد سلیم بھی پائے جا سکتے ہیں۔ داکیئے سے لیکر پولیس تک کو قباحتیں ہوتی رہتی ہیں۔ یہ قباحتیں ہمارے ان لوگوں کے ساتھ باہر جا کر اور بھی دو چند ہو جاتی ہیں جب ان کے ناموں کے پہلے والے ایک نہیں دو یا تین حصے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ۔

    ایک بار ہانگ کانگ ایئرپورٹ پر ہم سے آگے ٹھہرے ایک صاحب نے اپنا پاسپورٹ امیگریشن افسر کو دیکر ہمیں بتایا کہ یہ امیگریشن افسر ابھی میر پاسپورٹ دراز میں رکھ لے گا، پولیس کو فون کرے گا، دو بندے آ کر مجھے دائیں بائیں سے پکڑ کر لے جائیں گے، گھنٹہ بھر ان کی تحویل میں رہونگا، کچھ تصدیقیں کریں گے اور پھر معذرت کر کے جانے دیں گے۔ اور باکل ایسے ہی ہوا۔ ان کا کوئی ہمنام یہاں جرم کر کے بھاگا تھا جس کا خمیازہ یہ صاحب یہاں ہر بار آ کر بھگتتے ہیں۔
    خلیج میں ہی ایک پاکستانی سفیر کو ان کے نام کے غلط معانی ہونے کی وجہ سے باہر کر دیا گیا تھا جو کہ محض ان کے نام کو مرکب پڑھنے پر ہی معلوم پڑتا تھا۔
    سعودی عرب میں جب سر نیم اور فیمیلی نیم کا معاملہ کمپیوٹرائز ہونا شروع ہوا تو ان لوگوں کی حیرت اللہ وسایا/اللہ بچایا/اللہ داد اور اللہ نواز جیسے ناموں کو سن کر دیکھنے والی ہوتی تھی کہ کس طرح ہم پاکستانی/ہندوستانی اپنا سر نیم اللہ رکھ لیتے ہیں۔ مسئلہ اس قدر شدید اور مذہبی رنگ لیئے ہوئے تھا کہ انہوں نے پابند کیا ایسے ناموں والے اپنا نام تبدیل کریں یا ملک چھوڑ دیں۔ کچھ لوگوں کے نام انہوں نے اپنے ذہن کے مطابق عبداللہ رکھے تھے تو کئی لوگوں کے نام کافی مضحکہ خیز بنے تھے جیسے عبداللہ بچایا۔
    میرا اپنا مرکب نام (محمد سلیم) ہے جسے عربوں نے میرا اور میرے والد کا نام دونوں کا ہی اسی ایک نام سے گزارا کر لیا ہے۔
    اب تو خیر سے نادرا بھی مشین ریڈیبل پاسپورٹ بنا کر کچھ ایسا ہی کام کر رہا ہے ہے کسی شخص کے نام کو ہی حصے بخرے کر کے اسی سے ہی فیمیلی نیم اور سر نیم کا کام چلا لیا ہے۔
    ہم اپنے ناموں کو کیسے عالمی معیار کے بنا سکتے ہیں اس موضوع پر آپ نے ایک نہایت ہی پر مغز مضمون لکھا ہے جسے اہل علم درخور اعتناء جانیں تو باہر رہنے والے پاکستانی بہت سے مصائب اور مشکلات سے بچ سکتے ہیں۔ شکریہ۔

     

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

 
%d bloggers like this: