نظریہ پاکستان اور بے تُکی تنقید کا فیشن ۔
سماجی شناخت اور فکری قحط سالی کے عنوان سے شاکر عزیز اپنے بلاگ پہ رائے دیتے ہوئے گویا ہیں ۔ ۔”مزے کی بات یہ ہے کہ دو قومی نظریے کے مطابق برصغیر کو جغرافیائی بنیادوں پر تقسیم نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ اگر ہوتا تو سارے مسلمان ایک طرف، ہندو ایک طرف، سکھ ایک طرف، عیسائی ایک طرف، پارسی ایک طرف ہوتے۔ لیکن ہوا کیا؟ جغرافیے کی بنیاد پر تقسیم کر کے پیچھے بچے مسلمانوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ایک "کافر” ملک میں۔ویسے تو کانگریسی مسلمان رہنماؤں کا ایک آرگیومنٹ ہے لیکن یہاں فٹ بیٹھ رہا تھا۔“۔Muhammad Shakir Aziz at May 1, 2013 at 11:43 PM
دنیا میں میں جب بھی دو یا دو سے ذیادہ قومیں الگ ہوئیں اور انہوں نے الگ ملک قائم کئیے تو نئے ”حقائق “ وجود میں آئے۔ جنہوں نے نئی ریاست یا ریاستوں کی حد بندی کی وجہ سے وجود پایا۔ بر صغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بارے آپ فرما رہے ہیں کہ بر صغیر کی تقسیم جغرافیہ کی بنیاد پہ ہوئی اور آپ نے اپنی اس دلیل کا کوئی ثبوت مہیاء نہیں کیا۔ اگر واقعتا یوں ہوتا تو بر صغیر کی تقسیم کے لئیے ۔ صوبوں کے حدودر اربعے کے مطابق ۔پنجاب میں ہندؤ مسلم اور سکھ کی تمیز کئیے بغیر صرف پنجابی ہوتے اور کوئی دوسری قومیت نہ ہوتی ۔ اور اسی طرح سندھ میں سندھی ہوتے خواہ وہ کسی بھی مذھب کے ہوتے ۔ اتر پردیش میں مذہبی تخصیص کے بغیر یو پی والے اور بہار میں بہاری اور بنگالے میں ہندؤ مسلم اور دیگر مزاہب کے بنگالی ہوتے۔ یا پھر برصغیر میں واقع مختلف وادیوں پہ تقسیم ہوتی تو اسے جغرافیائی تقسیم کہا جاتا ۔ جبکہ ہندؤستان کی تقسیم ہر کلیے اور قانون کے تحت ہندؤستان کے بڑے مذاہب کی الگ۔ الگ شناخت اور اکھٹے مل کر نہ رہ سکنے کی کوئی صورت نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی۔ اس وقت کی انگریزی سرکار ۔ ہندؤ ۔ مسلمان اور دیگر مذاہب کے تسلیم شدہ نمائیندؤں کے باہم سالوں پہ مبنی گفت و شنید اور نئی اور آزاد ریاستوں کے وجود کے لئیے ممکنہ لوازم اور ضوابط پورا کرنے کے بعد برصغیر پاک ہند کو صرف اور صرف دو مذاہب کے ماننے والوں کو دو قومیں (دو قومی نظریہ) کے وجود کے تحت جہاں اور جس علاقے میں جس قوم کی اکثریت تھی انھیں وہ علاقے دو نئی ریاستوں ۔ پاکستان اور بھارت کا نام دے کر دو نئے ملک دنیا کے نقشے میں وجود میں لائے گئے۔ دونوں ملک بن گئے ۔ ( قطع نظر اس بات کے کہ ریڈ کلف باؤنڈری کمیشن اور آخری انگریز وائسرائے ماؤنٹ بیٹن نے ہندؤں سے ملی بھگت کر کے سرحدوں کے تعین میں ڈنڈی ماری اور کشمیر کا تنازعہ پیدا کیا ا مگر اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں) سر حدوں کا اعلان ہوگیا۔ ہر دو طرف کے شہریوں کو پتہ چل گیا کہ انکے علاقے کون سے ملک میں شامل ہورہے ہیں۔ انھیں اپنے اپنے ملک کی طرف ہجرت کرنا پڑی ۔ جو زبان ۔ صوبے ثقافت۔ یا قبیلے (قبیلے کی بنیاد اسلئیے بھی لکھ رہا ہوں کہ ایک ہی وقت میں پنجاب میں کئی قبیلے مسلمان ۔ سکھ اور ہندؤ مذہب میں بٹے ہوئے تھے۔ اور سندھ میں بھی کئی قبائل کے مختلف مذاہب تھے ) کی بنیاد کی بجائے مذہب یعنی دو قومی نظریہ کی بنیاد پہ وجود میں آئے ۔ اور ہندؤستان کے مسلمان باسی اپنے مذہب ۔ ہندؤں سے جداگانہ تشخص کی بنیاد پہ اپنے ملک پاکستان کو چل پڑے ۔ یہ باتیں تو تاریخی طور پہ طے ہیں اور واقعتا ہیں ۔ اور واقعہ کو جھٹلانا ناممکن ہوتا ہے۔ اسلئیے ہندؤستان میں ہنود اور مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کی بنیاد پہ یہ طے ہوا کہ ہندؤستان میں دو بڑی قومیں ہندؤ اور مسلمان بستی ہیں ۔ اور یوں دوقومی نظریہ کی بنیاد پہ نظریہ پاکستان وجود میں آیا جو بالآ خر الحمد اللہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کا سبب بنا ۔
سر راہ یہاں ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔ ہندؤستان کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ کے سربراہ قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے آغاز میں اس بارے انتہائی مخلصانہ کوششیں کیں کہ ہندؤؤں کی نمائندہ جماعت کانگریس کے رہنماؤ ں سےمفاہمت کی کوئی صورت نکل آئے ۔ مگر ہندؤ قوم کے رہنماء کسی صورت میں مسلمانوں کے حقوق تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے ۔ ہندؤ رہنماؤں کی مغرور ۔ متکبرانہ ہٹ دھرمی کی وجہ سے کوئی مفاہمت نہ ہوسکی ۔ مسلمان اکابرین اور رہنماؤں نے اپنی سیاسی بصیرت سے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ متحدہ ہندؤستان میں مسلمان ہندؤں کے مقابلے پہ ایک انتہائی اقلیت ہونے اور ہندؤں کے بغض اور کینہ پروری کی وجہ سے مسلمان تیسرے درجے کے شہری اور محض ہندوؤں کے غلام بن کر رہ جائیں گے۔اور ایک وقت آئے گا کہ مسلمانوں کو بہ حیثیت مسلمان اپنا جداگانہ تشخص برقرار رکھنا نا ممکن ہوجائے گا ۔ اور ہندؤوں کی بے جا ضد ۔ مسلمانوں کے لئیے عدم احترام ۔مسلمانوں کے حقوق کو تسلیم کرنے سے انکار ۔ اور متکبرانہ رویے کی وجہ سے پاکستان ۔ پاکستانی قوم وجود میں آئی ۔ جب اس بات کا احساس ہندؤ نیتاؤں کو ہوا کہ مسلمان تو ہم کو سیاست میں مات دے گئے ہیں۔ اسوقت تک برصغیر کے مسلمان۔ پاکستان اور پاکستانی قوم کی صورت میں انکے ہاتھ سے نکل چکے تھے۔ اور بھارتی برہمن حکومتیں تب سے ۔اب تک یہ کوشش کر رہی ہیں کہ کسی طور پاکستان کو ایک دفعہ زیر کر لیں اور انھیں غلام کی حثیت دیں ۔ ہندؤستان پہ ایک ہزار سال کے لگ بھگ مذہب و ملت کی تفریق کیئے بغیر سب کے لئیے یکساں مسلمانوں کی حکومت کا بدلہ مسلمانوں کو غلامی کی زنجریں پہنا کر چکائیں۔ بھارت ہمارا حریف اور روائتی دشمن ہے ۔ بھارت کی حد تک تو یہ سمجھنے کوشش کی جاسکتی ہے کہ بھارت اپنے مکرو فریب سے دو قومی نظریہ باالفاظِ دیگر نظریہ پاکستان (جو پاکستانی قوم اور ریاست کی اساس ہے) کے بارے شکوک اور شبہے پھیلانا بھارت اپنا فرض سمجھتا ہے اور ہندؤ رہنماء اور بھارت اپنی روائتی دشمنی نباہتے ہوئے تقریبا پچھلی پون صدی سے نظریہ پاکستان ۔ پاکستانی قوم۔ریاست پاکستان کی مخالفت میں سر توڑ بازی لگارہے ہیں اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ پاکستان اور نظریہ پاکستان کے خلاف پروپگنڈاہ مہم کی شدت میں اضافہ کرتے جارہے ہیں ۔ مگر جو بات سمجھ میں نہیں آتی کہ پاکستانی قوم کے کچھ لوگ دیدہ دانستہ یا نادانستگی میں تاریخ کا بازو مروڑ کر پاکستانی قوم اور ریاست پاکستان کی عمارت کی بنیاد نظریہ پاکستان کو دن رات نہ جانے کس خوشی میں کھود رہے ہیں؟ اور محض اس وجہ سے پاکستان اور نظریہ پاکستان سے بیزار ہورہے ہیں۔ کہ انھیں نظریہ پاکستان معاشرتی علوم یا مطالعہ پاکستان میں پڑھایا جاتا رہا ہے ۔ انھیں نظریہ پاکستان کو رٹا لگا کر اس مضمون کو پاس کرنا پڑتا رہا ہے۔ اور وہ برے دن ان کو ابھی تک یاد ہیں ۔جبکہ یہ نظریہ۔ پاکستان کے آئین میں درج ہے ۔ اور تقریبا دنیا بھر کے ممالک میں آئین سے انحراف پہ سخت ترین سزائیں دی جاتیں ہیں۔ جبکہ پاکستان میں آئین اور آئینی بنیادوں کو مذاق بناتے ہوئے یہ فیشن سا بنتا جارہا ہے ۔ کہ جس کا دل چاہتا ہے وہ اپنے ملک اور قوم کے بارے مکمل معلومات حاصل کئیے بغیر محض کچھ نیا کرنے کے لئیے ۔ کچھ جدت پیدا کرنے کے لئیے ۔ پاکستان کی نظریاتی اساسوں پہ بر خلاف تاریخ اور آئین۔ تابڑ توڑ حملے کرنا فرض سمجھتا ہے ۔ کہ پاکستان انکا ملک نہ ہوا۔ غریب کی جورو ٹہری ۔ جس بے چاری سے۔ جس کا دل چاہے۔ دل لگی کرتا پھرے ۔ کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں ۔کوئی روکنے والا نہیں ۔ اس طرح جس کا دل کرتا ہے ۔ روز ایک نیا ”کٹا“ ( بھینس کا بچھڑا جو کھل جائے تو اسے دوبارہ باندھنے میں دقت ہوتی ہے)کھول دیتا ہے کہ ملک قوم سے دلچسپی رکھنے والے ۔ اپنے ملک کی عزت کو مقدم جاننے والے ایسے ”کٹوں“ کو باندھنے میں جی ہلکان کرتے پھریں۔ لہٰذاہ پاکستان اور پاکستانی قوم کو ہانکنے کا ارادہ کرنے سے پہلے۔دو قومی نظریہ ، نظریہ پاکستان اور اپنی تاریخ کا بغور مطالعہ کر لینا چاہئیے کہ نظریہ پاکستان سے لاکھ چڑ اور بغض رکھنے کے باوجود امرواقع قسم کی چیزیں تبدیل نہیں ہوا کرتیں۔ اور نظریہ پاکستان خواہ کسی کو کتنا ہی برا لگے مگر یہ ایک امر واقعہ ہے ۔ اور تاریخ اس امر واقعہ کی شاہد ہے۔
آپ مزید ارشاد فرما ہیں ”جغرافیے کی بنیاد پر تقسیم کر کے پیچھے بچے مسلمانوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ایک "کافر” ملک میں“۔
اسپین میں انیس سو چھتیس 1936ء سے لیکر انیس سو انتالیس 1939 ء تک دنیا کی بدترین خانہ جنگیوں میں سے ایک بد ترین خانہ جنگی ہوئی۔ ۔ خانہ جنگی سے قبل بھی بڑا عرصہ حالات خراب رہے ۔ اس خانہ جنگی کے فورا بعد جنگ عظیم ہوئی۔ اسپین میں کئی دہائیوں تک مخالفین کو چن چن کر سزائے موت دی گئی ۔ فائرنگ اسکواڈ کے سامنے سے گذارا گیا ۔ خانہ جنگی اور دوسری جنگ عظیم ۔ کے دوران اور بعد میں صدیوں سے اسپین میں بسنے والے شہری ۔ محض سیاسی اختلاف کی وجہ سے اسپین چھوڑ کر درجنوں لاکھوں کی تعداد میں جان کے خوف سے سمندر پار جنوبی اور سنٹرل امریکہ ۔ روس۔ اور یوروپ کے دیگر ممالک میں جا بسے ۔ جن میں سے اکثریت وہیں آباد ہوگئی اور لوٹ کر واپس نہ آئی۔ اکثر وہیں مر گئے ۔ سبھی ممالک میں اسپین کے سفارتخانوں میں ایسے درجنوں لاکھوں شہریوں کا داخلہ ۔ انکا اندراج ۔ پاسپورٹس بنانا۔ وغیرہ ممنوع قرار پایا۔ ان شہریوں کے بچے جو تب چھوٹے تھے ۔ جوان ہوئے اور انہی ممالک کی بود وباش اپنا کر واپس نہ لوٹے۔ اور انکا اندراج اور اسپین سے باہر ان ممالک میں ۔جہاں انکی اولادیں پیدا ہوئیں ۔وہاں انکی پیدائش کا اندراج اسپین کے سفارتخانوں میں نہ کیا گیا۔اسپین کا شمار یوروپ کے بڑے اور اہم ممالک میں کیا جاتا ہے۔ کئی ہزار سال پہ مشتمل تاریخ کی حامل قوم ہے ۔ تقریبا ہزار سال کے لگ بھگ کےمسلم دور کو یہ مسلم ہسپانیہ کے دور کے نام سے یاد کرتے اور پکارتے ہیں۔ اور اپنی تاریخ کا مسلم دور سے بھی ہزاروں سال قبل سے آغاز کرتے ہیں۔ یعنی اسقدر قدیم قوم ہے ۔اور تمام قدیم قوموں کی طرح ۔ ہر قسم کا سانحہ برادشت کرنے کی قوت اور برداشت رکھتی ہے اور یہ بھی واضح ہو کہ اسپین کی شہریت یعنی نیشنلٹی ۔ بائی بلڈ ۔ بائی برتھ ۔ ہے۔ ہسپانوی والدین کی اولاد جہاں بھی پیدا ہو۔ انھیں ہسپانوی گنا جائے گا۔ ایک وقت آیا کہ اسپین میں جنگ جیتنے اور تقریبا چالیس سال کے لگ بھگ حکومت کرنے والا آمر جرنل فرانکو طبعی موت مر گیا۔ اسپین میں جمہوریت اور باشاہت بحال ہوئی ۔ بائیں بازو کی وہ جماعتیں اور سوشلسٹ اور کیمو نسٹ رہنماء جو تب خانہ جنگی میں جنگ ہار گئے تھے اور دوسرے ملکوں میں جا کر پناہ لے چکے تھے ۔ان سب کو باقاعدہ قانون سازی کے تحت معاف کرتے ہوئے ۔ قومی دھارے میں شامل ہونے کے لئیے ان سے واپس آنے کی اپیل کی گئی ۔ اور سابقہ کھاتے بند کرتے ہوئے ایک نئے اسپین کا آغاز ہوا۔سیاسی جماعتوں کے رہنماء اور بہت کم لوگ ۔ چیدہ چیدہ شہری واپس آئے۔ اسپین میں عام انتخابات ہوئے ۔ بائیں بازو کی جماعتیں جیت گئیں اور مسلسل کئی بار انتخابات جیتیں۔ نیا آئین بنا ۔ حقوق بحال کئیے گئے ۔ اسپین ترقی کی منازل تیزی سے طے کرنے لگا ۔ یوروپی یونین کا رُکن بننے کے بعد ترقی کی رفتار اور بڑھ گئی۔ اس دوران جنوبی امریکہ کے حالات سازگار نہ رہے اور وہاں سے پرانے زندہ یا مر جانے والے ہسپانوی تارکین وطن ۔ سیاسی پناہ حاصل کرنے والوں کی نسلوں نے اسپین واپس آنا چاہا ۔ مگر تب اس بارے قانون سازی کرتے ایک وقت لگا اور قانون سازی کرنے والی بھی بائیں بازو کی جماعتیں تھیں ۔ جن کے حامی بے وطن ہوئے تھے۔ اور چاہتے تھے کہ فرانکو اور اسکی حکومت کے ظلم و ستم کے ستائے ان تارکین وطنوں کو اتنی لمبی سزا سے نجات ملے۔لیکن اسپین نے اپنے پرانے جلاوطن ، تارکین وطن اور انکی اولادوں کے کے لئیے سرحدیں عام نہیں کیں اور اس دور کے کئی ایک سیاسی رہنماء جو آمر جنرل فرانکو کی طبعی موت کے بعد واپس آئے اور انہوں نے انتخابات جیتے ۔انہوں نے ہسپانوی ریاست کے بے وطن لوگوں کے لئیے جو قانون بنایا ۔وہ یوں تھا کہ اس دور کے ہسپانوی شہریت رکھنے والے کے پوتے یا نواسے تک کی نسل اگر یہ ثابت کر دے کہ انکا باپ یا دادا ۔یا۔ نانا ہسپانوی تھا ۔ تو انھیں تمام قواعد ضوابط کے پورے کرنے کے بعد ہسپانوی شہریت دی جائے گی۔ اور پڑپوتے ۔ پڑپوتییوں سمیت اگلی نسلوں کو ہسپانوی شہریت نہیں دی جائے گی۔ یعنی کہ بہت سے لوگوں کے نہ صرف پوتے اور نواسے جوان ہوچکے تھے۔ بلکہ پڑپوتیاں اور پرپوتے بھی جوان تھے مگر ہسپانوی شہریت سے محروم تصور کئیے گئے ۔ اور یہ محض چند ہزار لوگ ہونگے ۔جو اسپین کی شہریت حاصل کر کے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ۔یوروپ میں تعلیم ۔۔ کاروبار ۔ روزگار یا بودو باش رکھنا چاہتے تھے۔
اسپین یوروپی یونین کا رکن ہے اور انسانی حقوق کے سبھی قوانین کا نہ صرف احترام کرتا ہے بلکہ دوسرے ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس بھی لیتا ہے ۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محض چند ہزار اپنے ہی تارکین وطن شہریوں کی نسل کو ایک ہی وقت میں ہسپانوی شہریت دینے میں کیا امر مانع تھا؟ ۔ ذمہ داران نے افراد کے مفاد پہ ریاست کے مفادات کو ترجیج دی ۔حالانکہ قانون سازی کرنے والے خود بھی کئی دہائیاں در بدر ٹھوکریں کھاتے رھے اور انہی کی طرح کے سیاسی خیالات رکھنے والے لوگوں کی اولاد کی شہریت کا معاملہ تھا۔
اس مثال سے محض یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ایک ایسی ریاست جو ترقی یافتہ ہے ۔ اور ہر قسم کے مسائل کے لئیے وافر وسائل کی مالک قوم ہے ۔ وہ بھی اسقدر احتیاط سے کام لیتی ہے کہ مبادا ریاست کے معاملات خراب نہ ہو جائیں ۔ اور آمرانہ حکومت کے جبر سے مجبور ہو کر جلاوطن ہونے والے اپنے شہریوں کی نسل پہ اسپین کی عام سرحدیں نہیں کھولتی۔ اب جبکہ اپ پاکستان کے بننے کے اتنے سالوں بعد۔ کروڑوں افراد کے لئیے یہ مطالبہ پاکستان سے کر رہے ہیں۔ جبکہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی طرف یہ مطالبہ بھی سامنے نہیں آیا ؟۔ افراد پہ قوموں اور ریاستوں کے مفادات کی ترجیج مقدم سمجھی جاتی ہے ۔ جبکہ اسکے باوجود جب پاکستان بنا اسکی سرحدیں طے ہوئیں تو ہندؤستان سے لاکھوں مسلمان ہجرت کر کے پاکستان آئے اور اور درجنوں لاکھوں متواتر اگلے کئی سال تک پاکستان پہنچتے رہے ۔ اور پاکستانی شہریت حاصل کرتے رہے ۔ اور پاکستان نےسالوں اپنے دل اور دروازے مسلمانوں کے لئیے کھلے رکھے۔ اگر تب ان سالوں میں ہندؤستان کے سبھی مسلمان پاکستان ہجرت کر آتے تو انھیں کسی نے منع نہیں کرنا تھا ۔ وہ ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے آج پاکستان کے شہری ہوتے ۔ اور انکی نسلیں بھی یہاں آباد ہوتیں ۔ ممکن ہے اس دور میں پاکستان کے پہلے سے خستہ حالت مسائل میں کچھ اور اضافہ ہوجاتا ۔ مگر آہستہ آہستہ ترقی کی نئی راہیں کھل جاتیں ۔ جب پاکستان بنا تو تاریخ گواہ ہے ۔ کہ نسل انسانی میں اتنی بڑی ہجرت ۔ اتنی تعداد میں ہجرت ۔۔ اور اسقدر نامساعد حالات میں ہجرت ۔اس سے پہلے دو ملکوں کی تقسیم پہ کبھی نہیں ہوئی تھی۔ اسلئیے اس آسانی سے کہہ دینا کہ پاکستان میں بسنے والے پاکستانی بھارتی مسلمانوں کو بے یارو مدگار چھوڑ آئے ۔ یہ درست نہیں اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ہے ۔ اوپر اسپین کی مثال دینے کا مقصد یہ تھا کہ اگر پاکستان کے مقابلے میں ایک پر امن ۔ ترقی یافتہ اور ہزاروں سال پہ مبنی تاریخی وجود رکھنے والا ملک افراد پہ ریاست اور قوم کے مفادات کو ترجیج دیتا ہے ۔ تو پھر پاکستان کے پاس کون سی معجزاتی طاقت ہے کہ وجود میں آنے کے تقریبا ستاسٹھ سالوں کے بعد آپ کے بقول بے یارو مددگار چھوڑ دیے گئے کروڑوں افراد کو اپنے اندر سمو سکے؟ ۔
آج بھی بھارت کے مسلمانوں کے دلوں کے ساتھ پاکستانی مسلمانوں کے دل دھڑکتے ہیں۔ ہم ذاتی حیثیت میں اس بات کے قائل ہیں کہ اس کے باوجود بھارتی مسلمانوں کو مخصوص حالات میں پاکستانی شہریت کے تمام قواعد ضوابط پورے کرنے والوں کو اگر وہ خواہش کریں تو انہیں شہریت دینے کا کوئی رستہ کھلا رہنا چاہئیے ۔ ممکن ہے چیدہ چیدہ لوگ اگر پاکستان میں آباد ہونا چاہییں تو ایسا کرنا ممکن ہو ۔مگر جب ریاست اور قوم کی سالمیت اور مفادات کی بات ہوگی تو قوم اور ریاست کو اولا ترجیج دی جائے گی ۔ ان حالات میں آپ کا یہ سوال کرنا ہی بہت عجیب سا ہے ۔ کہ وہ لوگ جو ہندوستان میں رہ گئے انکو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ۔ اس سوال میں خلوص کم اور عام پاکستانی اور بھارتی مسلمانوں کے دلوں میں پاکستان کے بارے شکوک ابھارنے کی کوشش کا تاثر زیادہ ابھرتا ہے۔
نوٹ :۔ شاکر عزیز صاحب کے بلاگ پہ مختصر سی رائے دینے سے کئی پہلو تشنہ رہ جاتے اسلئیے اس تحریر کو یہاں لکھنا مناسب سمجھا۔
Muhammad Shakir Aziz
مئی 3, 2013 at 07:00
ایک مزید تفصیلی تحریر اس موضوع پر بھی لکھ دیں کہ
ریاست کو فوقیت دینے کا مطلب ہے آپ مذہب کے علاوہ ایک اور شناخت کو تسلیم کر رہے ہیں۔ آپ کے اولین موقف کے مطابق مذہب اُولی ہے پھر اس پر ریاست کو ترجیح کیوں؟ براہِ کرم پاکستان اور اسلام کو مکس نہ کریں آپ کو بھی پتا ہے اور مجھے بھی کہ اسلام اور پاکستان دو مختلف حقیقتوں کا نام ہے۔ نہ یہ ایک دوسرے کے ہم معنی ہیں، نہ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہو سکتے ہیں۔ جب ریاست کو مذہب پر مقدم رکھا گیا تو مان لیا گیا کہ مذہب ہی سب کچھ نہیں۔
اگر آج آپ ریاستِ پاکستان کو بھارت سے اور بھارتی مسلمانوں سےالگ سمجھتے ہیں (دلوں کے دھڑکنے کی باتیں چھوڑیں عملی اقدام ہو تو بتائیں)، تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کی تخلیق میں صرف "نظریہ پاکستان” کو گھسیڑنا تاریخ کے ساتھ زیادتی ہے۔ مطالعہ پاکستان جو بھی کہتی رہے آج کی حقیقت یہ ہے کہ "نظریہ پاکستان” اس ملک کے لیے گڑا مردہ بن چکا ہے۔ اگر یہ "نظریہ” اتنا ہی قابلِ عمل ہوتا تو بنگالی الگ نہ ہوتے، بلوچ اور سندھی قوم پرست اُدھم نہ مچائے ہوتے۔ اسرائیل نظریاتی ملک ہے اس میں قوم پرستی تحریک کا علم ہو تو مطلع کریں، یا کوئی بنگلہ دیش اسرائیل سے الگ ہوا ہو تو علم میں اضافہ فرمائیں۔
"نظریہ پاکستان” کے وڈوں کو اس پر بات کرنے سے بات پاکستان کی بنیادیں کھودنے تک جاتی کیوں محسوس ہوتی ہے؟ پورے مضمون میں کہاں کہا ہے کہ پاکستان کو نہیں ہونا چاہئے؟ یہاں تو ریکارڈ کی درستی کی بات ہو رہی ہے، ذرا آئینہ دکھایا جا رہا ہے کہ "نظریہ پاکستان” کام نہیں دے رہا، کسی اور چیز کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن یہاں نظریاتی ٹھیکداروں کو آئین کی خلاف ورزی یاد آ جاتی ہے، پھر ایمان پر شک ہونے لگتا ہے۔ کیا نظریے والوں نے پاکستان کا ٹھیکا لے رکھا ہے؟ پاکستان جتنا نظریے والوں کا ہے اتنا ہی میرے جیسوں کا بھی ہے۔ یہاں اصلاحِ احوال کا مطالبہ ہو رہا ہے، ریکارڈ درست کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ یہ ملک ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت کے پیچھے صرف "نظریہ پاکستان” اور مذہب ہی نہیں، اور بھی بہت سے عوامل کار فرما ہیں۔ آپ حقیقت کو سادہ کر کے دیکھنا چاہیں تو بسم اللہ۔ ہمیں تو اتنا پتا ہے کہ اگر یہ ملک صرف ایک نظریے کی پیدائش ہوتا تو بنگلہ دیش زبان، قومیت اور جغرافیے کی بنا پر الگ نہ ہوتا۔
ddufferr
مئی 3, 2013 at 13:08
یار موضوع دیتے دیتے پورا مضمون ھی دے دیا، یہ بمانچی ھے 😀
وقاراعظم
مئی 3, 2013 at 07:18
بہت خوب جناب۔
تحریر سے مکمل طور پر متفق ہوں خاص کر آخری لائن تو چشم کشا ہے کہ "اس سوال میں خلوص کم اور عام پاکستانی اور بھارتی مسلمانوں کے دلوں میں پاکستان کے بارے شکوک ابھارنے کی کوشش کا تاثر زیادہ ابھرتا ہے”۔
ddufferr
مئی 3, 2013 at 13:12
آجکل فیشن بن گیا ھے جی لبرل ھونا
اپنی سوچ گروی رکھ کے بات کرنا احساس کمتری کی نشانیاں ھوتی ھیں اور ھماری سوسائٹی میں تو اب پھلبہری کی طرح نظر آنے لگی ہیں
وقاراعظم
مئی 3, 2013 at 13:23
ویسے مجھے تو اب اندازہ نہیں ہوسکا کہ اگر بنگالی الگ ہوگئے تو اس میں نظریہ پاکستان کا کیا قصور تھا یا ہے؟ اگر بلوچستان میں کچھ بلوچ پہاڑوں پر چڑھ گئے تو اس میں نظریہ پاکستان کا کیا قصور؟ نظریہ پاکستان نے کہا تھا کہ بنگالیوں کو حقارت کی نظروں سے دیکھو؟ نظریہ پاکستان نے کہا تھا کہ فوج میں کم سے کم پانچ فٹ چھ انچ کا قد لازم کرو تاکہ پستہ قد بنگال کی اکثریت فوجی ملازمت کے لیے نااہل ہوجائے؟ نظریہ پاکستان نے کہا تھا اہلیان بنگال کی اور بلوچستان کی معاشی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے کام نہ کرو؟ نظریہ پاکستان نے کہا تھا کہ بلوچستان کی گیس فیصل آباد میں مزے سے استعمال کرو اور انہیں اس محروم رکھو؟ نظریہ پاکستان نے کہا ہے کہ معدینیات کی رائلٹی کے نام پر حصہ میں بلوچ سرداروں کو شامل کرو اور عام بلوچ عوام کا حق غصب کرو؟
اب ایک شخص جو نظریہ پاکستان کو مانتا ہی نہیں اس نے کیا کرنا ہے؟ نظریہ سے بغاوت ہی کرنی ہے نا؟ اور اس نظریہ کے خلاف ہی کام کرنا ہے۔ اب نجم سیٹھی کا کردار کس سے ڈھکا چھپا ہے؟ موصوف ستر کی دھائی میں بلوچ عسکریت پسندوں کے ساتھ ہتھیار اٹھائے پہاڑوں میں تھے اور آزاد بلوچستان کے ساتھ ساتھ نظریہ پاکستان سے آزاد ملک کے لیے بھی جدوجہد کررہے تھے۔ پھر جب بلوچ عسکریت پسند معافی تلافی کے بعد پہاڑوں سے نیچے آئے تو چارو ناچار موصوف کو بھی واپس آنا پڑا اور اب نظریہ پاکستان کی حفاظت کا عہد کرکے وزیراعلی پنجاب بنے بیٹھے ہیں۔ تو اب تو یقینا اس کا ذمہ دار بھی نظریہ پاکستان ہی ہے۔
رہی بات اسرائیل کی تو تو چالیس پچاس لاکھ آبادی کا ایک چھوٹا سا ملک جہاں دنیا جہاں سے دنیا جہاں سے لوگ مذہب نہیں بلکہ نسل پرستی کی بنیاد پر ہی لائے گئے ہیں اور وہ جن کی زمین غصب کرکے بیٹھے ہیں ان سے حالت جنگ میں ہیں اس میں سے کیا الگ ہوگا؟ چند لاکھ آسٹریا، جرمنی، پولش، افریقی یہودی؟ کیا وہ اس بنیاد پر قوم پرستی کی تحریک شروع کریں؟ اور پھر کتنے رقبے پر یہ اپنے اپنے ممالک بنائیں گے؟ تقریبا بیس ہزار مربع کلومیٹر تو رقبہ ہے اسرائیل کا؟ اگر انہیں قوم پرستی اتنی ہی پیاری ہوتی تو اپنے ملکوں سے کیوں آتے؟ لیکن کیا اسرائیل میں نسل پرستانہ تحریکیں نہیں موجود؟ خود افریقی اسرائیلیوں کو جس کا اکثر شکار ہونا پڑتا ہے۔ وکی پیڈیا کا لنک بھی مفید ہے اس بابت: http://en.wikipedia.org/wiki/Racism_in_Israel
اگر نظریہ پاکستان اور دوقومی نظریہ اس ملک کی پیدائش کی وجہ نہ ہوتے تو ان سکیولر، لبرل لٹیروں کی وجہ سے ناانصافی کا شکار ہوکر الگ ہونے والا بنگال آج الگ ملک نہ ہوتا۔ بلکہ مغربی اور مشرقی بنگال آج ایک ہوتے۔۔۔۔
Muhammad Shakir Aziz
مئی 3, 2013 at 15:21
شورش کاشمیری کے انٹرویو کا حوالہ دینا چاہوں گا جو انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کا لیا تھا۔ مولانا نے بڑی تفصیل کے ساتھ مستقبل کا نقشہ کھینچا تھا کہ کیا کیا ہو گا۔ مثلاً ان کے خیال میں بنگال اور مغربی صوبوں کو ملانے کا فیصلہ غلط ثابت ہو گا اور یہ الگ ہو جائیں گے۔ لنک بھی مل گیا ملاحظہ کریں۔
http://www.newageislam.com/articledetails.aspx?ID=2139
صاحب مذہب کسی یوٹوپیا میں حتمی اور اکلوتی بائنڈنگ فورس ہو سکتا ہے آج کی منافقت والی دنیا میں صرف مذہب کی بنیاد کسی کو اکٹھا رکھنا صرف خواب و خیال کی باتیں ہیں۔ آپ کے بقول اسرائیل میں بھی یہی کُت خانہ چلتا ہے تو پیچھے رہ کیا گیا۔ نسل پرستی، رنگ پرستی، قومیت پرستی، زبان پرستی کے بُت نہیں گرتے جی جو مرضی کر لو۔ نظریہ پاکستان ایک وقت میں ضرورت تھا۔ لیکن نہ یہ ملک یوٹوپیا بن سکا اور نہ وہ نظریہ اس ملک کو جوڑے رکھ سکا۔ اور ابو الکلام آزاد جیسا بندہ (مجھے اس کی پیش بینی پر حیرت ہوتی ہے اسے سیاسی طور پر جتنی مرضی گالیاں دے لی جائیں لیکن اس کی پیش بینی پر انگلیاں دانتوں تلے آ جاتی ہیں) جو اسلامی عالم ہے وہ اس بات کو تسلیم کر رہا ہے کہ صرف مذہب نہیں اور بھی "پرستیاں” ہیں جن کا خراج ادا کرنا ضروری ہے۔
دیکھیں جی یوٹوپیا چاہیئے تو وہ صرف مہدی موعود اور مسیح موعود کے دور میں ہی ہو سکتا ہے اس سے پہلے تو یہی کُت خانہ چلے گا۔ قوم پرستی، رنگ پرستی، زبان پرستی، نسل پرستی۔ اب کسی کا دل اس کو ماننے کو نہ کرے تو بسم اللہ جی۔ کسی کا کیا جائے گا۔ ہم تو "ایسا ہونا چاہیئے” نہیں "ایسا ہوتا ہے” کی بات کرتے ہیں۔ اور اس منافق دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ معذرت کے ساتھ، یہاں صرف مذہب کے ساتھ ساتھ رنگ، نسل، زبان، عہدہ، پیشہ،۔۔۔۔ مل کر کسی بندے، گروہ، قوم کی شناخت تشکیل دیتے ہیں اور کسی ایک کو جب فوقیت دی جاتی ہے تو نتیجہ ڈیزاسٹر کی صورت میں نکلتا ہے۔ چاہے وہ بلوچ قوم پرست ہوں، مہاجر قوم پرست ہوں، سفید نسل کے غلام نانے والے ہوں، یا طالبان نسل کے مذہبی مغرورے۔
Riaz Shahid
مئی 3, 2013 at 16:13
شاکر اگر نظریہ پاکستان کو نکال دیا جائے تو میرے پاس ملک میں قیام کی کوئی معقول وجہ نہیں باقی بچے گی ، پھر یہ کرغساتان ، بیلجئم ، ہنگری ، یوکے ، سپین ، آئیوری کوسٹ وغیرہ کی طرح ایک عام ملک ہو گا ۔
وقاراعظم
مئی 3, 2013 at 19:10
یہاں شورش کاشمیری کا مولانا آزاد سے لیا گیا انٹرویو کا حوالہ دیا گیا ہے۔ مولانا تقسیم ہند کے مخالف مسلم رہنماؤں میں سب سے نمایا تھے۔ تقسیم کے بعد آپ بھارت کے پہلے وزیر تعلیم بنے۔ مولانا ابوالکلام آزاد برصغیر کے ان اولین علماء میں سے ہیں جنہوں نے حکومت الٰہیہ کا تصور پیش کیا تھا اور لوگ ان پر مذیب کے علاوہ دیگر چیزوں کی بنیاد پر قوم کی تعمیر کی تہمت لگاتے ہیں۔
اگر تاریخ کا غیرجانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو یہ صاف نظر آتا ہے کہ تقسیم ہند سے قبل ہی کانگریس میں مولانا کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوششیں شروع ہوگئی تھی اور آزادی کے بعد آپ کو وزارت تعلیم سے نواز کر مکمل طور پر بے اثر کردیا گیا کہ آپ تقسیم کے فوراً بعد بڑے پیمانے پر قتل عام اور لوٹ مار سے مسلمانوں کو نہ بچاسکے۔ حقیقت سب کے سامنے ہے۔ اگر تقسیم کے مولانا کے فارمولے کو مان لیا جائے کہ دس سال کے لیے ایک کنفیڈریشن بنے جس میں صوبے خودمختار ہوں اور پھر اس کے بعد اگر مسلم اکثریتی علاقے الگ ہونا چاہیں تو ہوجائی، کیسے روبہ عمل ہوسکتا تھا؟ 1948ء میں بذریعہ قوت کشمیر کے کچھ حصے کی آزادی کے بعد مسلمان ایک انچ بھی بھارتی قبضے سے نہ چھڑا سکے اتنا بڑا پاکستان کیسے لیتے؟ مولانا کی موجودگی میں بھارت نے چت بھی میری اور پٹ بھی میری کیا۔ کشمیر کار راجہ ہندو تھا اس لیے بھارت نے اس پر قبضہ کرلیا، جونا گڑھ اور منوادار کے راجہ مسلمان تھے اور پاکستان سے الحاق کے خواہاں لیکن اس پر بھی ان کی موجودگی میں قبضہ ہوا۔ حیدرآباد کسی ملک کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا تھا لیکن وہ بھی بھارت کے پلڑے میں ڈال دیا گیا۔ ہندوستان بھر میں ہونے والے مسلم کُش فسادات ہوئے لیکن مولانا چاہتے ہوئے بھی ان مسلمانوں کے لیے کچھ نہ کرسکے۔ وزیر داخلہ ولبھ بھائی پٹیل کے ساتھ ہونے والے درون خانہ جھگڑے تو زبان زد عام ہیں۔ ان کی کہیں ایک نہ چلی حتی کے حکومت ہند نے ان کا یہ مطالبہ بھی ماننے سے انکار کردیا کہ اندرون ملک فسادات کا شکار ہونے والے مسلمانوں کو وہ مکانات دیدیے جائیں جو پاکستان جانے والے مسلمان چھوڑ کر گئے ہیں۔ کیا لوگوں کو لگتا ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود مولانا چُپ بیٹھے ہونگے؟ کچھ تو بولے ہونگے؟ کیا بولا؟ یہ انہیں لکھنا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے انہوں نے نہ لکھنے کا فیصلہ کیا یہاں تک کہ دار فانی سے کوچ کرگئے۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ انہیں اس وقت اندازہ ہوگیا ہوگا کہ محمد علی جناح اور ان کے موقف میں کیا فرق تھا۔
باقی ان کی علمی حیثیت سے کس کافر کو انکار ہو سکتا ہے؟ وہ بلاشبہ بہت پائے کی شخصیت تھے اور سیاستدان بھی ہوتے، اگر وہ سیکولر اور سوشلسٹ عناصر کے ہتھے چڑھ کر کانگریس میں ضایع نہ ہو جاتے۔ بصد احترام تقسیم کے حوالے سے ان کی رائے بالکل غلط تھی، گزشتہ 65 سالوں میں سرزمین ہندوستان پر مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ اس کا بین ثبوت ہے کہ آزاد غلط تھے اور جناح درست۔ یہ الگ بات کہ پاکستان بنانے والے جناح کے نقش قدم ہی سے ہٹ گئے، اگر رہتے تو آج فرق اور زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آتا۔
وقاراعظم
مئی 3, 2013 at 19:13
ایک بات اور وضاحت طلب ہے۔ یہاں بار بار بنگال کی علیحدگی کا رٹا ڈالا جارہا ہے اور اس کو نظریہ پاکستان سے جوڑنے کی خواہ مخواہ کی کوشش بدستور جاری ہے۔ کیا کوئی بتاسکتا ہے کہ بنگال الگ کیوں ہوا؟ بھلے مانس جس بنیاد پر ہم ملے تھے، اس پر آگے نہ بڑھ سکے۔ کوئی ایک چیز مشترک اگر تھی مغربی و مشرقی پاکستان کے کلچر میں تو وہ مذہب تھا، اس کے علاوہ کوئی چیز ایک جیسی نہ تھی۔ جب مذہب کو نکال کر باہر پھینکا ان سکیولر اور نظریہ پاکستان بیزار حکمرانوں نے تو ساتھ رہنے کی تمام وجوہات بھی ختم ہو گئیں۔ تو بھائی لوگ اگر نظریہ پاکستان پر عمل ہوتا تو یقینا بنگال الگ نہ ہوتا اور یہاں یار لوگ کہہ رہے ہیں کہ مذہب کو چھوڑ کر ان کی طرح منافق ہوجائیں۔ یہ منافقت والی دنیا آپ ہی کو مبارک ہو۔
بنگال کی علیحدگی کے اسباب پر جو ٹنوں کے حساب سے کتابیں لکھی گئی ہیں، وہ پڑھیں، مفروضوں کی بنیاد پر کوئی عمارت کھڑی نہیں ہوتی جبکہ آپ تو سائنس کے دلدادہ ہیں۔ چار مختلف الخیال افراد کی کتابیں پڑھ لیں گے تو درمیانی بات سمجھ میں آجائے گی۔ اگر پھر بھی افاقہ نہ ہو تو بنگلہ دیش کا ایک چکر لگا لیں۔ طبیعت ہری نہ ہو جائے تو بتائیے گا۔
باقی کی آپ کی اس تھیوری پر کہ "مذہب کے ساتھ ساتھ رنگ، نسل، زبان، عہدہ، پیشہ،۔۔۔۔ مل کر کسی بندے، گروہ، قوم کی شناخت تشکیل دیتے ہیں” کو پڑھ کر تو بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی ہے۔ اس کے لیے معذرت۔ آپ نے کمال کر دیا۔ ذرا اس تھیوری کا ماخذ بتائیے گا، مجھے تو آپ کے دماغ کی اختراع لگتی ہے، صرف مذہب کو لٹکانے کے لیے آپ نے اتنی ساری چیزیں اس فہرست میں ٹانک دیں۔
Muhammad Shakir Aziz
مئی 3, 2013 at 21:19
دیکھیں جی ایک ہی چیز کو دیکھنے کے کئی رخ ہوتے ہیں۔ آپ کا شیشہ آپ کو ہرا ہرا دکھاتا ہے میری طرف سب کچھ لال لال دکھتا ہے، اپنی اپنی عینک ہے، اپنے اپنے نظریات ہیں۔ آپ بصد شوق مسکرائیے بلکہ بطور جوک آگے فارورڈ کیجیے ہمیں تو جو سمجھ آیا عرض کیا۔
آپ کو بنگلہ دیش کی تخلیق میں نظریہ پاکستان کی ناکامی نظر نہیں آتی مجھے اس کی تخلیق میں مذہب کے علاوہ ہر پرستی کی فتح نطر آتی ہے، نسل، قوم، جغرافیے تک۔ اگر مذہب طاقتور ہوتا تو جوڑ کر رکھتا۔ بلھے شاہ کہتا ہے پانچ رکن اسلام کے اور چھٹا رکن ہے بھوک، جب یہ رکن پورا نہ ہو تو باقی پانچ رکن بھی ثانوی ہو جاتے ہیں۔ مذہبی جذبے کی باتیں یا تو پیغمبرانہ باتیں ہیں، یا ولیوں کی باتیں۔ عام آدمی بھوکے پیٹ مذہب نہیں روٹی کو یاد کرتا ہے، بنگال میں قحظ سالیوں، سیلابوں اور عمومی مفلوک الحالی (جمع دوسری سیاسی بے غیرتیاں) بالآخر 47 والے جذبے پر غالب آ گئی۔
بصد شوق غیر منافق دنیا میں رہیں۔ اللہ کرے یہ ہرا ہرا ادھر بھی آ جائے فی الحال تو لال لال ہی نظر آتا ہے۔
Muhammad Shakir Aziz
مئی 3, 2013 at 22:18
ریاض بھائی اگر مذہب کو ہی ڈالا جائے تو پھر سعودی عرب ہی کیوں نہیں؟ پاکستان کیوں؟ یہاں صرف مذہب کی بنیاد پر ٹھہرے ہوئے ہیں یا زبان، نسل، تاریخ، سماج جیسی چیزیں بھی ہیں جو اس جگہ کو آپ کے رہنے کے لیے موزوں بناتی ہیں؟ میرے لیے اس کا جواب ہاں ہے۔ آپ اس کا جواب یوں دے سکتے ہیں کہ ہر ملک مسلمان کا ملک ہے وغیرہ وغیرہ، آپ جس نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں میں اسی کو ایک اور انداز سے دیکھتا ہوں اور مجھے مسلمان کی وطنیت کے پیچھے پھر مسلمانی کے ساتھ کئی چیزیں اور بھی نظر آتی ہیں۔
جواد احمد خان
مئی 4, 2013 at 00:24
روز ایک نیا ”کٹا“ ( بھینس کا بچھڑا جو کھل جائے تو اسے دوبارہ باندھنے میں دقت ہوتی ہے)کھول دیتا ہے کہ ملک قوم سے دلچسپی رکھنے والے ۔ اپنے ملک کی عزت کو مقدم جاننے والے ایسے ”کٹوں“ کو باندھنے میں جی ہلکان کرتے پھریں۔
اس جملے کی داد قبول کیجیئے۔۔۔ کوئی کب تک یہ سب کچھ پڑھ پڑھ کر اپنا ٹائم ضایع کرتا رہے گا۔
جواد احمد خان
مئی 4, 2013 at 00:26
ویسے آٌپ نے کٹا کھولنے سے تشبیہ دی ہے جبکہ میں اسے فکری نودولتیا پن کہتا ہوں
وقاراعظم
مئی 4, 2013 at 09:46
اسلام کا چھٹا رکن اگر بھوک ہوتا تو عزوہ خندق میں لوگ پیٹ پر پتھر باندھ کر کام میں نہ جٹے ہوتے۔ ہاں انکے لے بھوک ہی سب کچھ ہوسکتی ہے جو سماج میں ہمیشہ سے احساس محرومی کی زندگی گذارتے رہے اور اب اچانک سے کچھ ہاتھ آگیا تو لگے ہمیں بتانے کہ اوئے بندے دا پتر بن، اسلام وسلام کچھ نہیں ہوتا۔ سب سے بڑی بھوک ہے۔ بھوک مٹاؤ چاہے مناقت سے ہی کیوں نہ۔۔۔۔۔
دوسری بات یہ کہ “مذہب کے ساتھ ساتھ رنگ، نسل، زبان، عہدہ، پیشہ” وغیرہ کی تکرار پر میری ہنسی ضرور چھوٹی تھی لیکن پھر بھی میں نے اس پر سوچ بچار کیا کہ بھائی نظریہ پاکستان یا اسلام نے کب کہا کہ زبان کو اہمیت نہ دو؟ نظریہ پاکستان نے عربی کو تو قومی زبان نہیں بنایا کبھی؟ ہاں اگر آپ اس کرب سے گزرتے ہوں کہ ہائے پنجابی قومی زبان نہ بن سکی یا رسم الخط کے لیے دیوناگری کو نہ اپنائے جانے کا غم اگر گھلائے جارہا ہے تو الگ بات ہے۔
اور پھر رنگ و نسل اور عہد و پیشہ؟ یہ رنگ و نسل کی ہی تفریق تھی کہ جس کی وجہ سے بنگال الگ ہوا۔ اہل بنگال کے لیے حقارت تو اب بھی موجود ہے۔ اور یہاں میر اتنے سادہ ہیں کہ انہی عطار کے لونڈوں سے دوا لیتے ہیں۔
بھائی جی خود سکیولر اور لبرل ہندوستان میں آزادی کی درجنو تحریکیں چل رہی ہیں۔ میں تو کئیوں کے نام گنواسکتا ہوں، آسام، منی پور، تری پورہ، ناگالیڈ، بوڈو لینڈ، کشمیر، بھارت کی شمالی ریاستوں میں ماؤنواز کمینسٹوں کی "نکسل باڑی” تحریکیں، ماضی قریب میں پنجاب میں خالصتان کی تحریک۔
ابے بھائی مجھے تو ان تمام تحریکوں میں اور خود بنگال کی علیحیدگی میں آپ کی بیان کردہ ان نام نہاد پرستیوں کے علاوہ صرف مذہب پرستی کی فتح نظر آتی ہے کہ اگر ان جاہلانہ قوم پرستی، نسل پرستی، زبان پرستی کے بجائے مذہب اور دین پرستی کو پروان چڑھایا جاتا تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔۔۔۔۔
بحرحال بھینس کے آگے بین بجانے کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ قالو سلاما
ddufferr
مئی 4, 2013 at 12:39
اور میں تو اسے وہی کہتا ھوں جو میں نے کہا :ڈ
Muhammad Shakir Aziz
مئی 4, 2013 at 15:45
ماشاءاللہ بھارت سے آپ نے مذہب پرستی کی اتنی مثالیں اکٹھی کر لیں وہاں ذات پات کی تقسیم آپ کو نظر نہیں آئی جو سکھوں، ہندوؤں اور مسلمانوں سب میں پائی جاتی ہے؟ اگر اس سلسلے میں علم میں اضافہ مقصود ہو تو عامر خان کا پروگرام ستے مہ وجیے دیکھ لیں وہ ایک پوری قسط اس موضوع پر کر چکا ہے۔
آپ کو مذہب پرستی نظر آ گئی لیکن امریکہ جیسے ملک میں ہی رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیازات نظر نہیں آئے؟ ابھی ساٹھ ستر سال پہلے تک کالوں کے ساتھ رنگ کی بنیاد پر جو کچھ ہوتا تھا بھول گئے کیا؟
عربوں کی عرب پرستی یاد کروانے کے لیے کونسی مثال دوں؟
محمد ﷺ کے پیٹ پر بندھے پتھر یاد آ گئے ان کے پردہ فرمانے کے بعد ابھر آنے والی قبائلی عصبیتیں بھی بھول گئیں؟ پانچ سو برس تک عرب خلافت/ ملوکیت پر قابض رہے کیا اس کے پیچھے صرف مذہب تھا؟ کیا وہ صحابیِ رسول ﷺ تھے، یا ولی اللہ تھے جو خلافت/ ملوکیت کے زیادہ ٹھیکیدار و حقدار تھے؟
کراچی میں زبان کی بنیاد پر ہونے والی سیاست کو آپ مذہب پرستی کے کھاتے میں ڈالیں گے؟
ارے صاحب میں نے مشاہدات کی بات کی ہے۔ مجھے بدقسمتی سے ہرا ہرا نظر نہیں آتا۔ آپ کو ہرا ہرا اتنا ہرا نظر آتا ہے کہ آپ اپنی "ایسا ہونا چاہیئے” کی خواہش کو اس دنیا میں نافذ کر کے اسے "ایسا ہوتا ہے” سمجھ بیٹھتے ہیں۔ وڈیو یہ یوٹوپیا نہیں ہے۔ مذہب نامی تعصب اب قیامت سے پہلے اسی وقت پوری طاقت سے ابھرے گا جب مہدی موعود اور مسیح موعود آ گئے۔ اس سے پہلے مذہب کے علاوہ موجود تعصبات اس دنیا میں ڈھول بجاتے رہیں گے۔ آپ کی ہری ہری عینک سے سب ہرا ہرا دکھے تو میں کیا کروں بھائی؟ یہ سارے تعصبات یا دوسرے لفظوں میں وہ فیکٹر ہیں جو آج کے انسان کی سماجی شخصیت تشکیل دیتے ہیں۔ مذہب بڑا طاقتور فیکٹر ہے جی پر مذہب ہی تو ہر جگہ نہیں ہوتا ایک ہی مذہب کے ماننے والے ایک دوسرے سے امتیاز برتتے ہیں۔ اب میں پھر سے مثالوں کی لوپ دوہرانا نہیں چاہتا۔
آپ بھینس کے آگے بین بجائیں بلکہ صاحبِ بلاگ والا کٹا بھی ساتھ شامل کر کے اس کے سامنے بین بجاتے رہیں۔ بحث کا مقصد بات منوانا نہیں اپنا موقف شائستہ انداز میں بیان کرنا ہوتا ہے وہ میں نے کر دیا۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں مکالمے کو شجرِ ممنوعہ بنا دیا جاتا ہے۔ کوئی بات شروع کر دے تو ان کے کٹے کھُل جاتے ہیں جنہیں پھر بے انتہا جتن کر کے باندھا جاتا ہے۔ بھائی بات کرو گے تو بات بنے گی۔ میں نے بات کی، آپ احباب نے جواب دیا دو باتیں آپ کو دوسرے موقف کی پتا چلیں دو مجھے پتا چلیں۔ مکالمہ زندہ قوموں کی نشانی ہوتی ہے ورنہ مکالمہ نہ ہو تو بندوق اس کا حل نکالتی ہے۔ یہ دنیا ہے بھائی، منافقت بھری دنیا معذرت کے ساتھ آپ کی طرف یوٹوپیا ہو گا ادھر یہ سارے تعصبات پائے جاتے ہیں، لوگوں کے سماجی رویوں سے جھلکتے ہیں۔ انہیں کی بنیاد پر ایک مشاہدہ پیش کیا گیا لیکن۔۔۔۔۔خیر چھوڑیں آپ یہ کٹا باندھیں۔
وما علینا الا البلاغ
وقاراعظم
مئی 4, 2013 at 19:18
بھائی جان آپ سے گذارش ہے کہ میرا تبصرہ ایک بار پھر سے پڑھ لیں۔ میں نے بھارت سے مذہب پرستی کی کوئی مثال نہیں نکالی۔ بلکہ میں نے وہاں، زبان، رنگ، نسل، تاریخ وغیرہ اورہاں پیشہ اور عہدہ وغیرہ کی پرستیوں کی مثال نکالی ہے۔ کچھ عقل کو ہاتھ ماریں حضرت۔ اور آپ امریکہ اور عربوں کی خلافت کی مثال لیکر بیٹھ گئے۔
دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے صاحب کہ اس پر ہی سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ پھر اس کا جواب ڈھونڈا جاتا ہے کہ "ایسا کیا ہوسکتا تھا کہ جس کی مدد سے یہ نوبت نہ آتی؟” لیکن ہمارے لبرلز و سکیولرز کا متمع نظر یہ ہے کہ بھائی ویسا ہی ہوگا جیسا کہ ہوتا رہا ہے اور اسے ہونے دو، یہ دنیا کا دستور ہے۔ اب اس پر اور کیا کہیں "اناللہ و انا الیہ راجعون”۔
حضرت اگر امریکہ میں زبان رنگ و نسل کی بنیاد پر تفریق ہوتی تھی تو اب یقینا انہوں نے اس پر قابو پانے کی کوئی تدبیر کی ہوگی۔ اگر کراچی اور بلوچستان میں زبان کی بنیاد پر تعصب اور سیاست ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا آغاز بھی ضرور کسی احساس محرومی کی وجہ سے ہی ہوا ہوگا جو آج اتنا توانا ہوچکا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس پر قابو تو پانا ہے نا یا آپ کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے اسے یونہی چھوڑدیں تاکہ ایک اور بنگال کی مثال ہمارے لبرلز کو مل جائے جسے وہ مذہب کو رگیدنے کے لیے استعمال کرسکیں؟
تو بھائی جان اگر ہم یہ کہیں کہ نظریہ پاکستان پر ٹھیک طرح سے عمل نہیں ہورہا، اسلام کو فیصلہ کن قوت کے طور پر نافذ نہیں کیا جارہا جو ساری برائی کی جڑ ہے۔ تو آپ کو کیا تکلیف ہے بھائی؟
دین تو یہی کہتا ہے نا صاحب کہ حقدار کو اس کو حق دو؟ حق غصب کرنے کا حکم تو نہیں دیتا؟
دین تو یہی کہتا ہے کہ دولت کی مساویانہ تقسیم ہو۔ یہ تو نہیں کہتا نا کہ دولت کی تقسیم غیر مساویانہ ہو؟
دین تو یہی کہتا ہے نا کہ زبان رنگ و نسل کی بنیاد پر تفریق نہ کرو اور ہر گروہ کو اس کا جائز حق دو۔
دین مقامی زبانوں کی ترقی میں بھی روڑے اٹکاتا ہے کیا؟ کہ سب کو چھوڑو بس عربی نافذ کرو؟ یقیناً ایسا نہیں ہے۔
آپ کو لگتا ہے کہ یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہوگا جب کوئی مسیح موعود یا مہدی برحق اُتر آئے تو جی اس وقت تک اس پاپی و منافق دنیا کی منافقت میں اپنا حصہ ڈالیں اور انتظار کریں۔ ڈائلاگ ضرور کریں لیکن اس کی آڑ میں مذہب یا دین اور اس کی بنیاد پر نظریہ پاکستان کو مطعون کرنا تو بند کردیں۔۔۔
والسلام۔۔