RSS

جاوید چوہدری صاحب !۔

19 اکتوبر

جاوید چوہدری صاحب!۔

اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ

پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے پاکستان کے میڈیا مالکان۔ میڈیا سے اپنی مطلب براری کے لئیے میڈیا کے ڈونرز۔ پالیسی سازوں۔ایڈیٹروں۔ کالم نگارروں۔ ٹی وی میزبان ۔ نت نئے شوشے چھوڑنے والوں اور نان ایشوز کو ایشوز بنا کر قوم کو پیش کرنے والوں کا مقدمہ لڑتے ہوئے آپ نے اپنے کیس کو مضبوط بنانے کے لئیے سارے میڈیا کو ایک فریق بنا لیا ہے جو کہ سراسر غلط ہے ۔ اپنے مقدمے میں میڈیا سے متعلق سبھی شعبہ جات کو ملوث کر لیا ہے۔ جبکہ پاکستان کے قارئین و ناظرین کے اعتراضات میں میڈیا سے متعلق سبھی لوگ شامل نہیں۔ اور معدودئے چند ایسے لوگ ابھی بھی پاکستان میں ہیں جو حقائق کا دامن نہیں چھوڑے ہوئے اور ایسے قابل احترام کالم نگار اور میزبان اور جان جوکھوں میں ڈال کر رپوٹنگ کرنے والے رپوٹر حضرات (جنہیں بجائے خود میڈیا مالکان انکی جان کو لاحق خطرات کے لئیے کام آنے والی مختلف سہولیات بہم پہنچانے میں ناکام رہے ہیں) اور حقائق عوام تک پہنچانے والے یہ رپورٹرز عوام کے اعتراضات میں شامل نہیں۔ جسطرح ہر شعبے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں اسی طرح میڈیا سے متعلق ان لوگوں پہ عوام کو اعتراضات ہیں۔ جن کا بے مقصد دفاع آپ کر رہے ہیں۔

آپکی یہ منطق ہی سرے سے غلط ہے کہ اس ملک(پاکستان) میں سب چلتا ہے۔ اور تقریبا سبھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کئی ایک لوگ۔ جائز یا ناجائزطریقوں سے کیا کچھ نہیں کما رہے۔ اور اسی منطق کے تحت اگر میڈیا اور صحافت سے تعلق رکھنے والے بھی وہی طریقہ کار اپنا رہے ہیں تو اس میں حرج کیا ہے؟۔ اسکا مطلب تو عام الفاظ میں یہی بنتا ہے کہ صحافت بھی ایک کاروبار ہے اور پاکستان میں رائج جائز ناجائزسبھی معروف طریقوں سے صحافت میں مال اور رسوخ کمانا بھی درست سمجھاجائےَ؟۔ تو حضور جب آپ یہ بات تسلیم کر رہے ہیں کہ بہتی گنگا میں ہاتھ دہونے کا حق بشمول میڈیا سبھی کو حاصل ہے۔ تو پھر عوام حق بجانب ہیں جو آپ اور آپ کے مثالی کردار کے میڈیا پہ اعتراضات کرتے ہیں۔ تو پھر آپ کو اتنا بڑھا سیریل وار کالم لکھنے کی کیا سوجھی؟۔

آپ نے اپنی برادری  کے وسیع المطالعہ ہونے کا تاثر دیا ہے۔ اپنی برادری کو پاکستان کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد حتیٰ کے عام آدمی تو کیا علماء اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والوں سے بڑھ کر اپنے وسیع المطالعہ ہونے کا دعواہ کیا ہے اور مطالعے کے لئیے مختلف کتابوں پہ اٹھنے والے اخراجات کا ڈھنڈورہ پیٹا ہے۔ پاکستان کی بہترین یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ہونے کے اعزاز کا چرچا کیا ہے۔

حضور جاوید صاحب۔ پاکستان کے تنخواہ دار میڈیا کے چند ایک نہائت قابل افراد کو چھوڑ کر باقی کے وسیع المطالعہ ہونے کا اندازہ ان کے کالم اور تحریرو تقریر سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ وہ اقوام عالم اور دور حاضر میں اسلام یا پاکستان کے بارے کسقدر باخبر ہیں۔ اور تاریخ وغیرہ کی تو بات ہی جانے دی جئیے۔ اس لئیے آپکا یہ دعواہ نمائشی اور فہمائشی تو ہوسکتا ہے ۔ مگر اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ کیونکہ علم خود اپنا آپ بتا دیتا ہے۔ علم اپنا تعارف خود ہوتا ہے۔

آپ نے اپنی برادری کی پاکستان کی بہترین یونیورسٹیز سے حاصل کی جانے والی لٹریسی ڈگریزکا ذکر کیا ہے ۔ ان میں پاکستان کی یونیورسٹیز جنہیں آپ بہترین بیان کر رہے ہیں۔ ان یونیورسٹیز کو دنیا کی بہترین چھ سو یونیورسٹیزکے کسی شمار میں نہیں رکھا جاتا۔ نہ اب اور نہ پہلے کبھی کسی شمار میں رکھا گیا ہے ۔ لیکن کیا آپ کے علم میں ہے؟ ۔ کہ پاکستان میں اور بیرون پاکستان جو قارئین اور ناظرین آپ کے میڈیا کو دیکھتے ہیں اور گھن کھاتے ہیں۔ اور پاکستانی میڈیا پہ اعتراضات جڑتے ہیں۔ ان میں سے ہزاروں کی تعداد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو آپ سے بھی اہم اور پیچیدہ موضوعات پہ ڈگریز رکھتے ہیں۔ اور بہت سے ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو دنیا کی بہترین یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ہیں۔اور گرانقدر تجربہ ان کے پاس ہے۔

ایسے ایسے نابغہ روزگار اور اعلٰی تعلیم یافتہ لوگ۔ بلاگنگ۔ فیس بک۔ سوشل میڈیا پہ صرف اس لئیے اپنی صلاحتیں بلا معاضہ پیش کرتے ہیں کیونکہ وہ آپ سے آپکے مثالی کردار میڈیا سے بیزار ہی نہیں بلکہ مایوس ہوچکے ہیں۔ اور ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے دنیا کی بہترین یونیورسٹیز سے بہترین موضوعات پہ ڈگریز لے رکھی ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟؟ ۔ یہ ڈگریز کا حوالہ اور تذکرہ محض آپکی کالم نگاری کے جواب میں ہے ۔ ورنہ لازمی نہیں کہ محض ڈگریز کے حصول سے ہی کوئی فرد زیادہ قابل بن جائے۔

ملک کے جن اٹھارہ کروڑ عوام سے آپ نے گلے شکوے کئیے ہیں۔ کیا کبھی آپ نے ۔ آپکے دیگر ساتھیوں۔ یعنی بہ حیثیت میڈیا کبھی یہ جاننے کی تکلیف گوارہ کی کہ وہی اٹھارہ کروڑ عوام آپ سے کسقدر مطمئن اور خوش ہیں۔ اس بارے آپ کے قابل قدر میڈیا نے کوئی سروے کیا ہو؟ ۔ عوام سے کبھی رائے مانگی ہو؟؟۔


حال میں۔ جعلی اور فرضی خبریں جنہیں آپ۔ آپ کے ساتھیوں اور پاکستانی میڈیا نے ان فرضی اور جعلی واقعات کو ٹاپ ایشوز بنا کرقوم کے سامنے پیش کیا۔ قوم کو ورغلایا۔ غلط طور پہ رائے عامہ کو ایک مخصوص سمت میں موڑنے کی کوشش کی۔ اور جب جب جھوٹ ثابت ہوجانے پہ سوشل میڈیا سے اور دیگر ذرائع سے شوروغوغا اٹھا۔ تو آپ کے بیان کردہ پاکستانی مثالی میڈیا کو اسقدر توفیق نہ ہوئی کے اس بارے اسی شدو مد سے وضاحت جاری کرتا۔

جاوید صاحب! آپ اس بات کا جواب دینا پسند کریں گے کہ میڈیا پہ میڈیا کے پروردہ اور منتخب دانشور جو جعلی واقعات اور جھوٹی خبروں پہ جس غیض غضب کا مظاہرہ اسلام اور شرعی حدود کے خلاف کرتے رہے ہیں ۔ آخر کار اسطرح کی خبریں جھوٹی ہونے پہ آپکے بیان کردہ مثالی اینکرز اور خود آپ نے کبھی انھی افراد کو دوبارہ بلوا کر جھوٹ کا پردہ آشکارا ہونے پہ دوبارہ اسی طرح کسی مباحثے کا اہتمام کیا؟ ۔ جس سے میڈیا کی طرف سے قوم کو اسلام اور شرحی حدود کے بارے ورغلائے جانے پہ انھیں یعنی عوام کو اصلی حقائق کے بارے پتہ چلتا؟۔

پاکستان کے عام قاری کو اس بات سے غرض نہیں۔ کہ آپ معاوضہ کیوں لیتے ہیں۔ انکا اعتراض اس بات پہ ہے کہ حکومتی مدح سرائی کے بدلے سرکاری اشتہاروں سے ملنے والے کروڑوں روپے کے معاوضوں سے دواوراق کے اخبارات سے دیکھتے ہی دیکھتے اربوں روپے کے نیٹ ورک کا مالک بن جانے والے میڈیا ٹائکونز نے آپ جیسے لوگوں   کو لاکھوں رؤپے کے مشاہیرے پہ کس لئیے ملازم رکھا ہوا ہے؟۔  آپ اپنا رزق حلال کرنے کے لئیے وہی بات پھیلاتے ہیں۔ جس کا اشارہ آپ کے مالکان آپ کو کرتے ہیں۔ اور آپ اور آپ کی برادری بے لاگ حقائق کو بیان کرنا کبھی کا چھوڑ چکی۔ جس کا شاید آپ کو اور آپکی برادری کو ابھی تک احساس نہیں ہوا۔

آپ سے مراد آپکی برادری کے اینکرز و پروگرام میزبان و کالم نگاروں کی اکثریت اس”آپ“ میں شامل ہے۔ اس ضمن میں صرف دو مثالیں دونگا۔ پہلی مثال۔ وہ مشہور کالم نگار ۔ جس نے مبینہ ناجائز طور پہ حاصل کردہ اپنے پلاٹ کا ذکر کرنے پہ اپنی ہی برادری کے ایک صاحب کو ننگی ننگی گالیاں دیں۔ دوسری مثال ۔ حال ہی میں پاکستان کے ایک توپ قسم کے ٹی وی میزبان نے پاکستانی عوام کی امیدوں کے آخری سہارے چیف جسٹس جناب افتخار چوہدری صاحب کو دیوار کے ساتھ لگانے کے لئیے ایک دوسری خاتون میزبان سے ملکر رئیل اسٹیٹ کی ایک متنازعہ شخصیت کا پلانٹڈ انٹرویو لیا۔

ایسی ان گنت مثالیں گنوائی جاسکتی ہیں حیرت ہوتی ہے۔ آپ میڈیا کو پوتر ثابت کرتے ہوئے کیسے ناک کے سامنے نظر آنے والی  ایسی گھناؤنی مثالوں اور زندہ حقائق کو نظر انداز کر گئے ہیں؟۔

آپ اپنی برادری کی پارسائی ۔ دیانتداری کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ جبکہ عوام پوچھتے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے امریکہ کے لئیے نرم گوشہ پیدا کرنے کے لئیے معاوضے یا رشوت کے طور پہ میڈیا کو میلینز ڈالرز کے الزامات کا جواب ، تردید یا وضاحت کیوں نہیں کی جاتی؟۔

بھارتی ثقافت کی یلغار جس سے ایک عام آدمی بھی بے چین ہے۔ اور آپ جیسے پاکستان کی بہترین یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ڈگری ہولڈرز کو کیوں نظر نہیں آتی۔ اگر پاکستانی میڈیا پہ محض کاروباری لالچ میں بھارتی میڈیا کی یلغار نظر آتی ہے تو آپ جیسے لوگ کیوں اسکے خلاف کمر بستہ نہیں ہوتے؟۔ اور اگر آپ کو ایسا کچھ نہیں نظر آتا یا نہیں لگتا تو آپ پاکستان کے ایک عام ناظر یا قاری کے جذبات سے کوسوں دور ہیں تو آپ انکے اعتراضات کیسے سمجھ سکتے ہیں؟۔

پاکستان میں آزاد میڈیا کے بجائے جانے والے ترانوں پہ صرف اتنا عرض کرنا چاہوں گا۔ کہ دنیا کے ان سبھی ممالک کی تاریخ گواہ ہے جہاں میڈیا حکومتی تسلط سے آزاد ہوا وہاں عوام نے آزاد میڈیا کو سینے سے لگایا۔ انکی ستائش کی اور جب میڈیا نے من مانی کرنا چاہی تو میڈیا پہ عوام نے اعتراضات کئیے اور میڈیا کو اپنی سمت درست کرنی پڑی۔ جبکہ پاکستانی میڈیا کو ایولیشن کے ایک معروف عمل کے تحت آزادی ملی تو میڈیا نے بے سروپا اور بے ھنگم طریقوں کو محض کاروباری حیثیت کو مضبوط کرنے کے لئیے استعمال کیا۔ اور چند ایک مخصوص کالم نگاروں کا جو کریڈٹ آپ نے وصولنے کی کوشش کی ہے کہ انکی جان کو خطرے درپیش ہوئے ۔ ایجنسیوں نے انھیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیں۔ وغیرہ۔ آپ کیا یہ بتانا پسند کریں گے ۔ کہ اگر وہ یہ سب نہ لکھتے تو پاکستان کے میڈیا کا کونسا گروپ انہیں منہ لگاتا؟۔ تو حضور یہ لکھنا ہی انکا فن اور پیشہ ٹہرا جس کا وہ ان گنت معاوضہ لیتے رہے ہیں اور بدستور بہت سی شکلوں میں تا حال وصول کر رہے ہیں۔

آپ نے ڈائنو سار کے قدموں سے اپنی روزی نکالنے کا ذکر کیا ہے۔ اپنے ارد گرد دیکھیں ۔ پاکستان کی اکثریت کس طرح اپنے تن سے سانس کا رشتہ جوڑے ہوئے ہیں ۔ اور ایک تصوارتی ڈائنو سار کے پاؤں سے نہیں ۔۔ بلکہ اس نظام کے ہاتھوں اپنی عزت نفس گنوا کر دو وقت کی روٹی بمشکل حاصل کر پاتے ہیں۔ جس نظام کو تقویت دینے میں ایک ستون آپ اور آپ کا میڈیا ہے۔

عوام کو شکوہ ہے کہ پاکستانی میڈیا عوام کے ناتواں جسم و جان میں پنچے گاڑے نظام کے مخالف فریق کی بجائے اسی نظام کا ایک حصہ ایک ستون ہے۔

نوٹ:۔ یہ رائے عجلت میں لکھ کر جاوید چوہدری کے کالم پہ رائے کے طور بھیجنے کی بارہا کوششوں  میں ناکام ہونے کے بعد اسے یہاں نقل کردیا ہے۔ موصوف کے آن لائن اخبار پہ انکے کالم پہ لکھنے کی صورت میں اسپیم کی اجازت نہیں وغیرہ لکھا آتا ہے۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

18 responses to “جاوید چوہدری صاحب !۔

  1. Dr Jawwad Khan

    اکتوبر 20, 2012 at 00:28

    بہت عمدہ جناب جاوید صاحب،
    میرے ذاتی خیال میں ہر پرفارمنس سینے والے کو دو پیمانوں پر جانچا جاتا ہے ؛
    1- اسکی پرفارمنس سے دوسروں کو کتنا فائدہ پہینچا
    2- اسکی پرفارمنس میں ذاتی نفع و نقصان کا کتنا عمل دخل ہے۔
    اسکی عام مثال بھارتی کرکٹر سچن ٹنڈولکر ہے جو کہ بلاشبہ دنیائےکرکٹ کا بڑا بیٹسمین ہے ۔ سب سے زیادہ رنز کا اعزاز اسی کے پاس ہے۔ اسکی بیٹنگ لاجواب ہے۔ نیز ہمیشہ وہ اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے اور کم ہی دہراتا ہے۔ لیکن اسکی پرفارمنس میں اسکی قوم یا انڈین کرکٹ کا بھلا دیکھنے والے یمیشہ مایوس ہوتے ہیں کیونکہ وہ صرف اور صرف اپنے لیے کھیلتا ہے۔ اسی لیے وہ اس عزت کا مستحق نہیں ٹہرا جو دوسرے بڑے کرکٹرز بیٹسمینوں کے حصے میں آئی۔
    یہی معاملہ پاکستانی میڈیا کا ہے۔ اسکی اوور آل پرفارمنس بری نہیں ہے اور جن نکات کی طرف جاوید چوہدری نے اشارہ کیا اس سے کسی کو بھی انکار نہیں ہے۔ یہ ساری اچیومینٹ دراصل انکے ریکارڈز تھے جو ٹیم میں رہنے کے لیے ضروری تصور کیے جاتے ہیں۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خبروں کے چینلز اور کرنٹ افیئرز کے پروگرامز اور ٹاک شوز اس بات کو افورڈ ہی نہیں کرسکتے کہ اہم موضوعات جس پر عوام میں معلومات حاصل کرنے کی طلب ہو اس سے انکو محروم رکھا جائے اس طرح آپ اپنی موجودگی کا اخلاقی جواز کھو بیٹھتے ہیں اور ایک آؤٹ آف فارم بیٹسمین کی طرح ٹیم سے نکال دیے جاتے ہیں۔
    تو اعتراض کس بات پر ہوتا ہے؟
    اعتراض کی بات یہ ہے کہ ان میڈیا ٹائیکونز اور انکے ملازم اینکر پرسن کس طرح اپنی پرفارمنس کی خاطر لوگوں کے جذبات سے کھیل رہے ہیں اور انہیں گمراہ کر رہے ہیں۔ اس وقت کرنٹ افیئرز ہی کو دیکھا جائے تو یہ مختلف پارٹیوں کے نمائندوں کے درمیان ایک دنگل جس میں ہر قسم کی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے، سے زیادہ کچھ نہیں۔ ان پروگرامز میں معاملات بیڈ رومز کے رازوں، گالم گلوچ اور بازاری جملوں تک پہنچ جاتی ہے۔ جس نے ٹاک شوز کو سنسنی خیز ریالٹی ٹی وی بنا دیا ہے۔ جس کا واحد مقصد عوام کو سنسنی خیز گھٹیا تفریح فراہم کی جائے۔ خاص طور پر جاوید چوہدری صاحب کا شو اس ضمن میں کوئی اچھی تاریخ نہیں رکھتا۔
    مجھے یہ سمجھ نہیں آیا کہ آج ایسا کیا ہوا کہ میڈیا خاص طور پر جاوید چوہدری اور حامد میر پر اس قدر شدید تنقید ہو رہی ہے کہ ان دونوں حضرات کو اپنے کالمز میں اپنا دفاع کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک ہی دن دونوں حضرات نے اسی موضوع پر کالم لکھے۔ اس کی وجہ میرے خیال میں میڈیا کا ملالہ کے معاملہ میں تمام حدود کو تجاوز کرتی ہوئی کوریج ہے جس میں تمام میڈیا پرسنز نے اور خاص طور پر ان دونوں حضرات نے دل کھول کر حصہ لیا جس پر سوشل میڈیا اور عوام نے بجا طور پر سوال کیا کہ ڈرون حملوں پر تو آپ منمنا کر رہ جاتے ہیں جس میں ہزاروں معصوم جانوں کا اتلاف ہو چکا ہے اور مستقل ہو رہا ہے۔ اس مسئلے میں دوسرا اہم پہلو جس پر کوئی بھی اینکر پرسن بات کرنے کے لیے تیار نہیں وہ ملالہ اور اسکے والد کی اعلیٰ امریکی عہدیداروں سے ملاقات ہے۔ یہ چیز صاف بتاتی ہے کہ ان حضرات کا مقصد سچائی سامنے لانا نہیں ہے بلکہ ایک مخصوص لکیر کو پیٹنا ہے اپنے مالکان کے مفادات کی خاطر۔ پھر انتہائی مشکوک شخص احسان اللہ کی طالبان کی نمائندگی نا صرف تسلیم کرلی جاتی ہے بلکہ اسے اس طرح سے پیش کیا جاتا ہے کہ اس شخص کو آپ بہت عرصہ سے طالبان کے نمائندہ کے طور پر جانتے ہوں۔ سلیم صافی نے اپنے کالمز اور پروگرام میں جس طرح احسان اللہ کا ذکر کیا وہ نہایت حیرت انگیز ہے۔
    پھر آپ ایبٹ آباد والے آپریشن کو بھی نہیں بھولے ہونگے جس میں آئی ایس پی آر کی کہانی کے علاوہ کہیں سے بھی تحقیقاتی رپورٹ شایع نا ہوئی ۔ چلیں جناب مانا کہ قبائلی علاقے وار زون ہیں مگر ایبٹ آباد میں کونسی جنگ جاری تھی کہ آپ اس علاقے کے رہائشی افراد سے انٹرویو بھی نا کرسکے۔ اورصرف حسب حال کے اینکر پرسن کے علاوہ ایک شخص ایسا نہیں تھا جس نے اس سرکاری اسٹوری پر سوال کیے ہوں۔ جبکہ عوام الناس اور تجزیہ کرنے والوں کے نزدیک یہ انتہائی بوگس اسٹوری تھی۔
    پھر آپکی سیاسی کوریج بھی نہایت غیر متوازن ہے۔ الطاف حسین جب لندن سے ٹیلیفون پر خطاب کرتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ کوئی آسمانی صدا آرہی ہے جسے نا سننا کسی بڑی تباہی کی وجہ بن جائے گا۔ اور گھنٹوں اس کے خطاب کو دیے جاتے ہیں اپنی تمام نشریات روک کر۔
    دینی پروگرامز کا کہنا ہی کیا ایسا لگتا ہے کہ جاوید غامدی نے میڈیا کی مذہبی مشاورت کا ٹھیکا لیا ہو۔ علماء حق کی جس طرح دبے انداز میں تضحیک آپکے یہاں ہے وہ نہایت حیران کن ہے۔ اول تو حقیقی علمائے دین کو مزاکرے میں بلایا ہی نہیں جاتا اور اگر بلا بھی لیں تو میزبانوں کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ انکو زیادہ سے زیادہ کسی فروعات اور الزامات میں الجھا کر اصل موضوع پر نا آنے دیا جائے ۔ جیو پر الف اور اے آر وائی پر ایک مذہبی پروگرام میں کئی بار یہ بات محسوس کی گئی تھی۔
    مجموعی طور پر آپکا رویہ اس ملک کے 16 کروڑ عوام کو مایوس کردینے والا ہے۔ یہاں تباہی اور بربادی کی خبروں کو قبض زدہ چہرے کے تاثرات کے ساتھ گھناؤنے انداز میں بار بار دکھانا اور دنیا بھر سے اچھی خبریں مسکراتے ہوئے اس طرح دکھانا کہ جیسے نیوز کاسٹرنے ملین ڈالرز کی لاٹری جیت لی ہو، ایک جواب طلب طرز عمل ہے۔ انڈیا کی خبریں تو ایسے دکھاتے ہیں کہ جیسے انڈیا انکا ثقافتی دارالحکومت ہو۔ ہر معاملہ میں انڈیا کی امیج بلڈنگ ایک نہایت تشویش ناک چیز ہے۔
    باتیں تو اتنی ہیں کہ کئی صفحات کم پڑسکتے ہیں۔ یہ غصہ ابھی کم نہیں ہوگا ابھی وہ وقت آنے والا ہے جب ان چنگوں کو سر عام گالیاں اور جوتے پڑیں گے اور یہ عوام الناس سے منہ چھپاتے پھریں گے۔ انشا اللہ

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      اکتوبر 22, 2012 at 20:11


      محترم! بھائی!! ڈاکٹر جواد احمد صاحب!!!
      آپ کی طویل رائے اس بات کی غماز ہے کہ آپ کا دل قوم و ملک کے درد سے مظطرب ہے۔ اور میرا ایمان ہے کہ جب تک آپ جیسے لوگ ہماری قوم میں موجود ہیں۔ تب تک کبھی نہ کبھی قوم میں بہتر تبدیلی کی امید کی جاسکتی ہے۔
      میری ذاتی رائے میں ہم بہ حثیت قوم انتہائی پستیوں کو چھُو رہے کہ اس کے بعد یا تو قومیں دوبارہ زندہ ہوتیں ہیں یا خدا نہ کرے معدوم ہوجاتیں ہیں۔ اور میڈیا کا کردار اگر تعمیری ہو تو بہت ممکن ہے کہ ہماری قوم سرعت سے واپس لوٹ سکے۔ بہر حال جب تک پاکستان کے سبھی ستون بشمول میڈیا اپنا قبلہ درست نہیں کرتے ۔ تب تک ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ مگر ایک بات اٹل ہے کہ اگر پاکستانی میڈیا نے پاکستانی عوام کی امنگوں کو ۔ پاکستانی قوم کی ترجیجات کو اہمیت نہ دی تو عوام میں پاکستانی میڈیا کا اعتبار اٹھ جائے گا۔ اور ممکن ہے ذرائع ابلاغ کی پاکستان میں ترقی ہونے سے عوام روائتی میڈیا کی بجائے سوشل میڈیا یا دیگر ذرائع کو ترجیج دیں۔
      اسلئیے پاکستانی روایتی میڈیا کو جس جلد ممکن ہے اپنی پالیسیز کو پاکستانی عوام کی امنگوں کے عین مطابق۔ اسلامی اور پاکستانی مفادات کے لئیے تبدیل کرنا پڑے گا۔ ورنہ ایک وہ وقت آنے والا ہے۔ جب روائتی میڈیا کے بہت سے بڑے بڑے برجوں کو کوئی منہ تک لگانے کو تیار نہیں ہوگا۔ یہ روائتی میڈیا کے اپنے مفاد میں ہے کہ اپنی سمت درست کر لیں۔

       
  2. search engine marketing

    اکتوبر 20, 2012 at 05:26

    اب تینوں پرویز الہی، جنرل گل، اور آئی بی چیف اعجاز شاہ بے گناہ ٹھہرے اور ناہید خان قاتل ٹھہریں۔ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ مرنے والوں کے ساتھ کوئی نہیں مر جاتا ۔ لہذا پرویز الہی اور چوہدری شجاعت نے ڈاکٹر قیوم سومرو کے گھر جاکر زرداری سے صلح کی کوششیں شروع کیں۔ زرداری صاحب نے چوہدریوں سے “سیاسی قصاص “وصول کر کے پرویز الہی اور ان کے دوست آئی بی کے اعجاز شاہ کو کلین چٹ دے کر جہاں اپنا اقتدار بچا لیا وہاں انہوں نے ملک اور قوم کو ناہید خان کی شکل میں بی بی کا جانا پہچانا ایک معروف قاتل بھی ڈھونڈ کر دے دیا ہے جو ہر وقت ان کے ساتھ سفر میں شریک رہتی تھا۔ قوم کو مبارک ہو کہ چار سال کی تفتیش کے بعد بے نظیر بھٹو ٹھہریں جھوٹی اور ناہید خان ان کی قاتل اور پھر بھی میرے دوست ارشد شریف اور انصار عباسی کہتے ہیں کہ رحمن ملک نے اس بریفنگ میں نئی کیا بات کی ہے !

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      اکتوبر 22, 2012 at 20:19


      محترم!
      تشریف آوری کا شکریہ!۔
      مجھے مسئلہ ہو رہا ہے کہ آپ کو کس نام سے مخاطب کروں ۔ بہتر ہوتا آپ اپنا اسم گرامی بھی لکھ دیتے۔
      غالباَ آپ نے ریٹائرڈ ائر مارشل اصغر خان کی درخواست پہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بات کی ہے۔ لیکن محترم! اپنی لا علمی کی وجہ سے میں اس بارے کوئی رائے دینے سے قاصر ہوں۔

       
  3. dr iftikhar Raja

    اکتوبر 20, 2012 at 08:26

    یہ جاوید چوہدری جو ہے یہ میڈیا کا ذرداری ہے، ہر اس نا اہل فرد کی طرح جو سیٹوں پر بیٹھا ہوا ہے۔

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      اکتوبر 22, 2012 at 20:40


      محترم! ڈاکٹر راجہ افتخار احمد صاحب!!
      راجہ جی! ایک حکومت پہ ہی بس نہیں۔ بلکہ پاکستان کے اکثر اداروں اور منصبوں پہ نااہل اور بدیانت لوگ قابض ہیں۔

       
  4. محمد بلال خان

    اکتوبر 20, 2012 at 08:33

    بہت عمدہ لکھا آپ نے ۔
    روایتی میڈیا بمقابلہ سوشل میڈیا جنگ تیز ہوتی جارہی ہے۔

     
  5. علی

    اکتوبر 20, 2012 at 11:06

    بالکل ٹھیک بات کی آپ نے
    اور ویسے بھی یہ اپنے میڈیا تک محدود رہیں ان کو ایکدم سوشل میڈیا کا درد کیوں جاگ اٹھا۔اتنا ہی شوق ہے تو آ جائیں میدان میں بلاگ مفت شروع ہوتا ہے اور فیس بک اور ٹوئیٹڑ پر اکاؤنٹ تو ہو گاہی انکا

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      اکتوبر 22, 2012 at 21:21


      محترم! علی حسن صاحب!!
      بلاگ پہ تشریف آوری اور اپنی قیمتی رائے سے نوازنے پہ آپ کا شکریہ۔
      علی بھائی۔ سوشل میڈیا کادرد اسلئیے روائتی میڈیا کو جاگ رہا ہے سوشل میڈیا ایک ابھرتے ہوئے حریف کے طور پہ پاکستانی روائتی میڈیا کے لئیے چیلنج بنتا جارہا۔ جس سے اچھے اچھوں کو ”کُھندق“ ہوری ہے۔

       
  6. فاروق درویش

    اکتوبر 20, 2012 at 13:19

    اپنے معزز بلاگر بدار کی اس تحیر کی سپورٹ میں اپنے بلاگ کے چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ دہر رہا ہوں۔
    جاوید چوہدری صاحب ہوں، حامد میر ہو، افتخار احمد ہو یا مبشر لقمان ، انٹر نیٹ سوشل میڈیا کو اپنےعزائم اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں کا عدو جاننے والے پاکستانی میڈیا پرسنز کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ اب انٹرنیٹ سوشل میڈیا دنیا کا مقبول ترین میڈیا بن چکا ہے۔ اسی فعال میڈیا کی بدولت اب عوام معلومات حاصل کرنے کے لیے کسی اخبار اور سرکاری یا غیرسرکاری چینلوں کی محتاج نہیں رہی۔ اہم بات یہ کہ یہ سوشل میڈیا نہ صرف دنیا بھر کی نیوز اور معلوماتی سائیٹس سے انفورمیشن حاصل کرتا ہے بلکہ وہ معلومات بغیر کسی دباؤ کے دوسروں تک پہنچائی بھی جاتی ہیں۔ یہ کڑوا سچ میڈیا کو برداشت کرنا ہو گا کہ میڈیا برادری اپنے ہم پیشہ بھائیوں کے گھناونے جرائم چھپاتی ہے مگر سوشل میڈیا پر ان کی کالی کرتوتوں کی تشہیر جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی پے۔ میں ذاتی طور پر حامد میر، طلعت حسین، جاوید چوہدری اورانصارعباسی جیسے معزز اینکر پرسنز کی عزت و احترام کرتا ہوں کہ ان صاحبان نے کرپشن اورعدلیہ جیسے اہم قومی اموراور لاپتہ افراد جیسےحساس موضوعات پر بڑی جرات کے ساتھ انتہائی مظبوط آواز بلند کی ہے۔ مگر میڈیا کے ان بڑے ناموں حامد میر یا جاوید چوہدری کی طرف سے انٹر نیٹ سوشل میڈیا کے بارے تنقیدی کالمز لکھنے کی مذمت نہ کرنا بھی درست نہ ہو گا ۔ ممکن ہے کہ اس کی وجہ ان کے اداروں یا صحافتی برادری کا دباؤ ہو۔ لیکن میرے مطابق اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ میڈیا کے لوگ اپنی میڈیا برادری کے نمائندوں پر انٹرنیٹ سوشل میڈیا کی فری سٹائل شدید تنقید اورعین جائزغصہ برداشت نہیں کر پا رہے۔ لہذا پاکستان میڈیا کو یہ حقیقت مدنظر رکھنی ہو گی کہ انٹرنیٹ سوشل میڈیا عوام کی خالص آواز ہے۔سو ان کے میڈیا پروگرامز اور میڈیا پرسنز پر اس سوشل میڈیا کی تنقید ہی دراصل عوام کا براہ راست اور خالص ردعمل ہے۔ ماضی کے حالات و واقعات سےماننا پڑے گا کہ حامد میر صاحب صدربش اور اوبامہ جیسےامریکی صدوراوردنیا بھر کی تمام اینٹی ٹیررسٹ ایجنسیوں سے زیادہ طاقتوراورباخبرانسان ہیں۔ سوائے اللہ کی ذات کے کون جانے کہ وہ کون سے “جادوئی ذرائع” تھے کہ وہ دنیا کے تمام طاقتورفرعونوں کومطلوب اسامہ بن لادن جیسے اس “موسٹ وانٹڈ ٹیرسٹ ” کےانٹرویو کیلئےاس خفیہ ترین مقام تک بھی پہنچ گئے جس کے بارےدنیا کے طاقتور ترین ممالک کی خفیہ ایجنسیاں بھی بے خبر تھیں۔ اب یہ بات تو حامد میر صاحب ہی بتا سکتے ہیں کہ وہ کون سی ماورائےعقل روحانی یا طاقتیں تھیں جن کے خوف سے صدر بش جیسے دنیا کے طاقتور ترین شخص نے بھی حامد میر صاحب سے اسامہ بن لادن کےاس مقام کا پتہ پوچھنے کی جرات نہیں کی۔ مین اسٹریم میڈیا کے صاحبان یاد رکھیں کہ عمل اور ردعمل ہمیشہ برابر چلتے ہیں لہذا امید رکھنی چاہیے کہ معزز ارب پتی میڈیا پرسنز کی طرف سے خاک نشیں انٹر نیٹ سوشل میڈیا پر مذید حملے نہیں ہوں گے ورنہ خبرستان مافیہ کے ارب پتی تاجروں کیلئے سوشل میڈیا کے سفید پوش فقیروں کے اس خالص عوامی ردعمل کو روکنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہو سکتا ہے

    مکمل تحریر کیلئے دیکھئے
    http://farooqdarwaish.com/blog/?p=1083

     
  7. سعید

    اکتوبر 20, 2012 at 13:31

    مضمون اور ڈاکٹر صاحب کے پر مغز تبصرہ سے مکمل اتفاق ماسوائے کرکٹ کی مثال کے: ڈڈ

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      اکتوبر 22, 2012 at 21:27


      محترم! برادر!! سعید صاحب!!!
      رائے دینے پہ ۔ مضمون اور ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب!! کے پر مغز تبصرے سے اتفاق کرنے پہ آپکا ممنون ہوں۔

       
  8. Jafar Hussain

    اکتوبر 20, 2012 at 15:45

    جاوید چوہدری صاحب کی ریسرچ اور کتابوں سے محبت کا اندازہ تو ان کے کالموں کے مواد سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ کالم نگاروں میں ایک دو مستثنیات کے علاوہ کسی کا بھی کتاب و تحقیق سے وہی رشتہ ہے جو اپنے صدر مملکت کا پرہیزگاری و ایمانداری و شرمگاہ کی حفاظت سے ہے۔ جاوید چوہدری صاحب سے ایک دست بستہ گذارش بھی ہے کہ ازرہ کرم اپنے کالم لکھنے کی ذمہ داری اس احقر کو سونپ دیں۔ لوگ زہر خند کرنے کی بجائے دل سے ہنسیں گے۔ وماعلینا الا البلاغ

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      اکتوبر 22, 2012 at 21:34


      محترم! بھائی!! جعفر حسین صاحب!!!
      بلاگ پہ تشریف آوری اور رائے دینے کا شکریہ۔
      آپکی اتنی برجستہ رائے پہ میں کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔ جہاں تک کتابوں اور تحقیق سے ہمارا ناطہ ہے تو وہ عرصہ ہوا ہم اس سے ہاتھ اٹھا چکے ہیں۔ اور دنیا بھر میں خوار ہیں۔

       
  9. بنیاد پرست

    اکتوبر 21, 2012 at 12:18

    آپ کے اور جواد صاحب کے تبصرے کے بعد میرے تبصرے کی ضرورت نہیں رہتی لیکن چند باتیں ذہن میں ہیں وہ جاوید چوہدری اینڈ کمپنی کے لیے عرض کردیتا ہوں کہ جاوید صاحب تمہیں قوم سے شکوہ ہے کہ تمہاری قربانیوں کی قدر نہیں کی گئی ، تم خود بتاؤ یہ جو تم لوگوں نے ملالہ ڈرامے پر دھما چوکڑی مچائ رکھی ، اپنے آقا امریکہ کو خوش کرنے کے لیے اک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوششوں میں لگے رہے اور وزیرستان آپریشن کی راہ ھموار کی ، چند حرام کے ٹکڑوں کے لیے اپنے ملک کی سلامتی کو داؤ پر لگایا ! اس پر کیا قوم تمہیں ایوارڈ دے ؟
    جباب عوام کو بے وقوف بنانا چھوڑ دو، وہ دن گۓ جب تم کہانیاں سنا کر اور جذباتی باتیں کرکے لوگوں کو بے وقوف بنالیتے تھے۔ اپنا قبلہ درست کرلو اس سے پہلے کہ قوم تمہیں تھوک ڈالے اور تم آستین کے سانپوں کو اس معاشرے کا ناسور سمجھا جانے لگے۔

     

Leave a reply to بنیاد پرست جواب منسوخ کریں