RSS

ڈاکٹر محترم جواد احمد خان صاحب!

22 جولائی

ہمارے نہائت عزیز اور محترم! ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب۔ جن سے ہمیں قلبی تعلق ہے۔ اور انھیں میری گزشتہ تحریر سے رنجش پہنچی۔ واللہ جو ہمارا ارادہ قطعی طور پہ نہیں تھا۔ میں ایسا ہر گز نہیں چاہوں گا۔ کیونکہ ان سے یہ قلبی تعلق ہمیں بہر حال بہت عزیز ہے۔ مندرجہ ذیل تحریر انھیں مخاطب کر کے لکھی گئی ہے۔ مگر اس سے ہر اس فرد کو مخاطب سمجھا جائے۔ جس کو گزشتہ تحریر کے مآخذ اور وجوہات کا علم نہ ہونے کی وجہ سے۔ کوئی شکوہ یا شکایت پیدا ہوئی ہو۔ امید کرتا ہوں ۔اب کسی کو یہ شکایت نہیں ہونی چاہئیے۔

محترم جواد بھائی!

واللہ میرا ارادہ آپ کا یا کسی اور کا دل دکھانا ہر گز مقصود نہیں تھا۔ ذوالفقار مرزا کا مذکورہ بیان جس کی ہم بھی مذمت کرتے ہیں۔ اور میری رائے میں ہر عقل سلیم رکھنے والے پاکستانی کو ذوالفقار مرزا کے بیان اور اسکے الفاظ سے گھن آئی ہے۔ اور افسوس ہوا ہے۔

مگر اس ردعمل میں۔ جو بے گناہ اور راہ چلتے لوگ مارے گئے۔ ان کا المیہ کسی نے نہیں لکھا۔ کسی نے بیان نہیں کیا ۔ اور فرحان دانش صاحب نے اپنے بلاگ پہ منیر احمد بلوچ کا ایک ایسا کالم تو ضرور چسپاں کیا ہے۔ جس میں ڈرامائی طور پہ ایک مقدمے کی ادہوری روداد کا بیان ہے ۔ جبکہ اس مقدمے کے فیصلے کے بارے میں جان بوجھ کر نہیں لکھا گیا۔ اگر تب چند افراد کو تن بدن چھپانے کے لئیے۔ اسطرح کی افسوسناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ جو پاکستان کے نئے نئے بننے کے بعد پیش آئی۔ تو اسے جواز بنا کر یکطرفہ طور پہ اپنے آپ کو مظلوم اور انصارِ مدینہ جیسے ایثار کی کوشش کرنے والے سبھی پاکستانیوں کو جو آج اس دنیا میں نہیں، جن کے علاقے پاکستان میں ہونے کی وجہ سے انھیں ہجرت نہیں کرنی پڑی تھی۔ ان کو ظالم کے روپ میں پیش کرنے کا تاثر ابھرتا ہے۔ جیسے مذکورہ میاں بیوی کی جسم کے کپڑوں کے پھٹے کپڑوں کے ذمہ دار وہ لوگ تھے۔ جنہوں نے انصار مدینہ کی روشن مثال کی پیروی کی۔ کیونکہ اگر یہ تاثر دینا مقصود نہ ہوتا تو۔ اس ڈرامائی کالم میں۔ ایسے کسی مقدمے کی ادہوری روداد لکھنے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ ایسے ڈرامائی انداز میں واقعات کو درست طریقے سے بیان نہ کرنے کو غلو سے کام لینا کہا جاتا ہے۔ عام فہم سے مسائل کو جو اسطرح کی ناگہانی مصائب میں پاکستان جیسے ممالک میں اکثر پیش آتے ہیں ۔ جس کی ایک مثال ہے کہ پچھلے سال پاکستان میں سیلاب میں وسیع پیمانے پہ ہونے والی تباہی سے سیلاب متاثرین اور انکی مستورات نے مہینوں ایک ایک ہی کپڑوں کے گندے جوڑے میں گزارہ کیا۔ جو سیلاب کے وقت اچانک اپنا گھر بار چھوڑتے ہوئے انکے تن بدن پہ تھا۔ کہ مرد کہیں اور تھے۔ اور سیلاب نے سوائے بچوں کے کچھ اٹھانے کا موقع نہ دیا۔ اور اسطرح کے کئی واقعے اور داستانیں نہائت خوشحال خاندانوں کے ساتھ بھی پیش آئیں کہ جن کی مستورات کا منہ زندگی میں کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ وہ اپنے اور اپنے بچوں کے لئیے ایک ایک روٹی کے لئیے قطاروں میں چھینا چھپٹی کے دوران مجبوری سے بھاگتی پھریں ۔ لیکن اگر اس ناگہانی آفت سے پیدا ہونے والے وقتی مسائل کو جواز بنا کر۔ ان علاقوں کے رہنے والوں کے ساتھ بغض پال لیا جائے۔ جن میں سیلاب نہیں آیا تھا۔ تو یہ بھی مناسب نہیں اور قرین انصاف نہ ہوگا۔ خواہ مخواہ اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے۔ دلوں میں مذید نفرتیں جنم لیتیں ہیں۔ جبکہ اُس دور میں پاکستان کی حکومت جو مہاجرین کو بحال کرنے اور بسانے کی ذمہ دار تھی۔ وہ اور اسکے تقریبا سبھی اعلٰی عہدیدار بجائے خود مہاجرین تھے۔ آخر وہ کیوں چاہتے کہ کسی مہاجر میاں بیوی کے ساتھ یوں ہو؟ اور انہوں نے اور انصار پاکستان نے مل جل کر۔ اتنے بڑے اور تاریخی ہجرت سے پیدا ہونے والے مسائل پہ قابو پا بھی لیا تھا ۔ اگر پھر بھی کسی کوتاہی پہ کسی کو ذمہ دار ٹہرایا جائے کہ مذکورہ میاں بیوی تنِ برہنہ کو تنبو یا خیمے کے کپڑے کو استعمال کرنے پہ مجبور ہونے۔ تو اس وقت کی حکومت کو ذمہ دار ٹہرایا جائے۔ نہ کہ ڈرامائی قسم کے کالموں سے اور قندَ مکرر کے طور پہ اسے ایک بلاگ کی زینت بنا کر ایسے حالات سے گزرنے کی ذمہ داری عام مقامی لوگوں پہ ڈال دی جائے۔ جس سے نفرتوں کے اس دور میں۔ بے گناہ لوگوں کی جان کو نشانہ بنانے کا جواز مزید پختہ ہو۔ کیونکہ جو اس سے قبل جو بے گناہ مارے گئے۔ کیا وہ کافی نہیں تھے کہ اسطرح کے کالم لکھنے کی اور اسے بلاگ پہ چسپاں کرنے کی ضرورت پیش آگئی۔ اگر ذوالفقار مرزا نے بے ہودہ بیان دیا ہے اور مقامی لوگوں کے جذبات مہاجر برادری کے خلاف بھڑکائے ہیں تو اسطرح کے کالم بھی سستی اور زرد صحافت میں آتے ہیں۔جن سے مہاجر برادری کے دل میں سندھیوں یا دیگر کے خلاف کدورت اور نفرت کے الاؤ کو بھڑکانا بھی کہا جاسکتا ہے۔

محترم جواد بھائی! فرحان دانش صاحب۔ نے منیر احمد بلوچ کے مذکورہ ڈرامائی کالم کو اپنے بلاگ "اٹھو جاگو پاکستان” پہ۔ ہو بہو چسپاں کرتے ہوئے۔ اس تاثر کو مزید آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ کہ ہاں ہم مظلوم اور پاکستان کے انصار ظالم تھے۔ اور آج ساٹھ سالوں بعد بھی ظالم ہیں۔ جبکہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔ ذرا تصور کریں۔ پچھلے سال کے سیلاب متاثرین سال در سال چلتے۔ اور انکی اولادیں اور پھر انکی اولادیں۔ ساٹھ پینسٹھ سالوں بعد بھی۔ اسی بات کو جواز بنا کر کہ انکے آباء سیلاب کی وجہ سے مختلف مصائب کا شکار ہوئے۔ جبکہ جہاں سیلاب نے تباہی نہیں مچائی تھی وہاں کے رہنے والوں کی۔ کسی بھی بلکہ ہر خدمت اور ایثار سے انکار کرتے ہوئے۔ کسی خاتون کے تن پہ ایک ڈیڑھ ماہ تک ایک ہی جوڑے میں گزارا کرنے۔ کو جواز بنا کر کمر ٹھونک کر۔ جہاں سیلاب نہیں آیا تھا۔ انھی سبھی علاقوں کے مکینوں کے خلاف ایک محاذ بنا کر۔ انکے ہر ایثار اور خدمت پہ انگلی پھیر دیں۔
تو ایسا کرنے سے کیا دلوں کو جوڑنے اور آپس میں محبت میں اضافہ ہوگا؟ نہیں قطعی طور پہ یقینا ایسا نہیں ہوگا بلکہ کراچی کے سلگتے موجودہ حالات میں ایسے کالموں سے نفرتیں مزید پختہ ہونگی۔ اور بے گناہ ایسی نفرتوں کا حساب چکائیں گے۔ بے گناہ اور عام عوام جن کی زبان کوئی بھی ہو اور جلد کی رنگت کیسی بھی ہو مگر خون کا رنگ ایک ہی ہوگا۔ آگ جب بھڑکتی ہے تو اپنے پرائے کی تمیز نہیں کرتی۔

محترم جواد بھائی! بات یہاں تک بھی ہوتی تو کوئی بات نہیں تھی ۔ مگر ذوالفقار مرزا کے بیان کے بعد جو بے گناہ لوگ ایک رات میں بھون دئیے گئے ۔ کیا انکی جانیں اسقدر ارزاں تھیں انکی زندگی اسقدر بے اہمیت تھی کہ انھیں محض مرزا کے بیان کی قمیت چکانے کے لئیے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا؟ اور لوگ بھی ایسے بے گناہ لوگ جنہیں گولی آرپار ہوتے ہوئے۔ موت کے پنجے کی گرفت میں جاتے ہوئے موت کی وجہ معلوم نہ ہوئی۔ تقریبا ساری دنیا میں سزائے موت کے مجرموں کو کم از کم انھیں انکی موت کی سزا کی وجہ ضرور بیان کر دی جاتی ہے۔ جبکہ ایک لیڈر کے بیان پہ دوسرے لیڈر کی عظمت ثابت کرنے کے لئیے بھینٹ چڑھائے جانے والے بے گناہ ، غریب اور بے بس لوگ تھے۔ اگر اسے ایک عام بات سمجھ لیا جائے کہ ایک سیاسی لیڈر کے بیان پہ دوسرے سیاسی لیڈر کی شان ثابت کرنے کے لئیے کسی بھی راہ چلتے کو بھینٹ چڑھایا جاسکتا ہے تو پھر وہ ہمارے بلند بانگ آدرش کیا ہوئے؟ جس میں ہم اللہ اور اسکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے دیتے ہیں کہ "ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے”؟ کیونکہ اسلام کے نزدیک اور دنیا کے تقریبا سبھی قوانین میں سبھی انسان برابر ہوتے ہیں۔

محترم جواد بھائی! فرحان دانش صاحب کا بلاگ اور منیر احمد بلوچ کے کالم جن کا لنک بھی اصل تحریر میں موجود ہے ۔ جن میں نہ فرحان دانش صاحب نے اور نہ ہی ڈارامائی کالم نگار منیر احمد بلوچ نے ایسے بے گناہوں اور راہ چلتے غریب لوگوں کے بارے جو کہ اصل واقعہ ہیں۔ جو اصل المیہ ہیں ۔ جن کی جانیں گئیں۔ وہ دوبارہ کیسے واپس آئیں گی ، جن کے سروں کا سایہ کھو گیا۔ وہ کیسے اپنا راستہ تلاش کریں گے؟ انکے بارے میں کسی نے دو الفاظ تک لکھنا گواراہ نہیں کیا۔ کسی کو تو انکا دردر، انکا المیہ بیان کرنا چاہئیے۔ جبکہ آخری اطلاعات کے مطابق لیڈران ایک بار پھر اپنی اپنی پارٹیوں سمیت پھر سے شیرو شکر ہو رہے ہیں۔ جبکہ ہم بہ حیثیت ایک قوم، اخلاقی طور پہ اس حد تک گر چکے ہیں۔ کہ بے گناہ انسانی جانوں کے اسقدر ضیاع کو۔ اگر ایک حادثہ ہی سمجھ لیا جائے تو بھی۔ اس حادثے پہ کسی لکھنے والے کی آنکھ سے یا کسی سیاستدان کی آنکھ میں سے ایک آنسو نہیں گرا۔ کسی کے سینے سے رکی ہوئی ایک آہ نہیں نکلی۔ تو کیا ہمیں سبھی کو اس پہ چپ رہنا چاہئیے؟ اور صرف اور صرف اپنے اپنے گروپ اور گروہ بندیوں کے گیت اور المیے رقم کرنے چاہئیں؟

محترم جواد بھائی! امید کرتا ہوں کہ آپ اپنے پرائے سبھی دکھوں کو ایک ہی نظر سے دیکھیں گے ۔ اور مضمون مذکورہ کو ایک بار پھر سے پڑھیں گے۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

12 responses to “ڈاکٹر محترم جواد احمد خان صاحب!

  1. محمد یاسر علی

    جولائی 22, 2011 at 06:21

    جناب ہم نے فرحان دانش کی یہ تحریر پاک نیٹ پہ پڑھی تھی تو اس پہ میرا تبصرہ کچھ یوں تھا !

    "بھائی مجھے بھی یہ تحریر پڑھ کے لگتا ہے کے مصنف نے کسی خاص مقصد کے تحت یہ تحریر لکھی ہے اس کا مقصد ہجرت کر کے آنے والے بھائیوں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی نہیں ہے اس کا مقصد بھی سندھ کے صوبائی بدمعاشِ اعلیٰ ہی والا ہے ہاں طریقہ کار ذرا دوسرا ہے”
    ‘ہو سکتا ہے کہ میری راے غلط ہو مگر مجھے آج بھی لگتا ہے کے لسانیت کی بنیاد پہ قائم صوبوں کی جگہ ایک بار پھر سے ون یونٹ کی طرز کا نظام ہونا چاہیے

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جولائی 23, 2011 at 20:07

      یاسر بھائی!! میری ذاتی رائے میں ۔ ذوالفقار مرزا کا افسوسناک بیان پہے سے طے شدہ کھیل کا ایک حصہ تھا۔ تانکہ کراچی کی قابل احترام مہاجر برادری اور ایم کیو ایم دونوں کو ایک ہی ھلے طیش دلوا کر تشدد کو ہوا دی جاسکے۔ اور من مرضی کے مطالبات منوائے جاسکیں۔ اور کچھ لوگ اس ٹریپ میں ضرور آئے۔ جو انہوں نے اپنے دہشت گردو کو کھلی چھٹی دے دی اور اسنانی جانوں کا شکار رات بھر بلکہ اگلے دن کے کچھ حصے بھی ہوتا رھا۔

      مگر اس ساری گندی سیاست خواہ وہ پیپلز پارٹی ہو یا ایم کیوم یا پی این اے یا کوئی اور جماعت۔ سبھی نے اپنی اپنے غنڈے، قاتل اور دہشت گرد پال رکھے ہیں جھیں بوقت ضرورت استعمال میں لے آتے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ کب تک؟ کب تک کراچی کے معاملات کو بلکہ سارے ملک کو ان خونی بنیادوں پہ چلایا جائے گا؟

       
  2. khalidhameed

    جولائی 22, 2011 at 07:02

    سہی کہا:
    غیر جانبدارانہ انداز میں دیکھا جائے تو یہ غلط ہوا۔
    احتجاج کرنے کے اور طریقے بھی ہیں اور ان سے مؤثر طریقے سے اپنے نظریے کو بیان کیا جاسکتا ہے۔
    لیکن یہ طریقہ غلط تھا اور اس سے جو نظریہ بیان ہوا وہ ہم سب بھگت رہے ہیں اور بھگتیں گے۔
    جملے تو سننے کو مل ہی رہے ہیں کہ :
    دیکھا ! ہم نہ کہتے تھے کہ یہ دہشت گرد ہیں۔
    دیکھا ! بھائی کہ حکم پر کیسا سکون ہوگیا۔
    بھئ یہ قیامت کی نشانی کہ قتل ہونے والے کو پتہ ہوگا نہ قتل کرنے والے کو کہ کیوں ہوا۔ یہ لوگ بہ احسن طریقے سے پورا کر رہے ہیں۔

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جولائی 23, 2011 at 20:17

      آپکی بات خوبصورت اور درست ہے۔ کہ احتجاج میں تشدد کا عنصر نہیں ہونا چاہئیے۔اور وہ قومیں ختم ہوجاتی ہیں جو ایک ہی جہاز پہ سوار جہاز کے پیندے میں دوسروں کے حصے میں چھید ڈال کر اپنے آپ کو محفوظ سمجھتی ہیں۔

       
  3. Dr Jawwad Khan

    جولائی 22, 2011 at 12:47

    حضرت اب اتنا بھی دکھی نہیں تھا کہ آپ کو پوسٹ لکھنی پڑتی 🙂 میں اپنے تبصرے پر معذرت کا اظہار کر چکا ہوں اور خود کوآپکی شریف النفسی ، بڑا پن ، خلوص اور محبت کا مقروض محسوس کر رہا ہوں..

    ہجرت پر میری گزارش صرف اتنی ہے کہ ہجرت خالصتا دین کے لئے نہیں کی گئی تھی ممکن ہے چند لوگوں نے ایسا کیا ہو لیکن بڑی تعداد کے نزدیک یہ مطمع نظر نہیں تھا . آپ اسے سیاسی رومانویت کہیں ، حالات کا جبر کہیں یا بہتر مواقع کی تلاش کی جدوجہد . نا یہ ہجرت مکّی ہجرت تھی اور نا ہی موجودہ پاکستان کبھی بھی مدینہ رہا ہے…یہ ٹھیک ہے کہ لوگوں نے انفرادی طور پر اور گروپ کی صورت میں ان مہاجرین کی مدد کی ہوگی .ان کے کھانے، پینے اور دوا دارو کا بھی انتظام کیا گیا ہوگا لیکن اس مدد کو انصار مدینہ سے تشبیہ دینا بھی ٹھیک نہیں ہے.بلکہ اس بات کے شواہد ہیں کہ ایک خاص وقت کے بعد آنے والے پناہ گزینوں کی حوصلہ شکنی کی گئی . اس پر مولانا ظفر احمد عثمانی رح اور مولانا مودودی رح کی مراسلات اب بھی ریکارڈ کا حصّہ ہے اور رسائل و مسائل حصّہ دوئم میں دیکھی جا سکتی ہے . میری مشکل یہ ہے کہ میرے پاس فی الوقت حوالے نہیں ہیں جو کچھ تاریخ پر پڑھا ہے اس سے وہ تصویر سامنے نہیں آتی جو آپ پیش کر رہے ہیں.
    لیاقت علی خان کا تذکرہ مناسب نا تھا. یہ ٹھیک ہے کہ وہ کوئی مثالی مسلمان نہیں تھے اور عمر کے آخری حصّہ میں قائد اعظم ان سے بد ظن بھی تھے.روس کی دعوت ٹھکرا کر امریکا کا دورہ کرنا انکی بہت بڑی سیاسی غلطی تھی لیکن جو تصویر آپکے مضمون میں کھینچی گئی ہے وہ آصف علی زرداری اور پرویز مشرف سے ملتی جلتی ہے اور یہ ایک قومی لیڈر کے ساتھ بڑی نا انصافی ہے

    انٹرنیٹ کی مجازی دنیا میں ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ یہاں بندہ سامنے نہیں ہوتا بلکہ الفاظ ہوتے ہیں اور ان الفاظ کو سمجھنے میں غلطی ہو سکتی ہے.میں صرف یہ عرض کرنا چاہ رہا تھا کہ کراچی کا مسئلہ ایلیمنٹری میتھمیٹکس کی طرح آسان نہیں ہے.اور نا ہی یہ کوئی افسانوی اور فلمی سچویشن ہے کہ جس میں ایک ولن اور اسکے ساتھی ہوتے ہیں اور باقی سارے مظلوم … یہ بڑا پیچیدہ مسئلہ ہے اور اس میں یہ کئی فریق ہیں. خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جو کراچی میں نہیں رہے ہیں انکے لئے ہزاروں میل دور سے بیٹھ کر سمجھنا آسان نہیں…
    سب سے پہلے کراچی والوں کی نفسیات کے بارے میں آپکو بتاتا چلوں کہ دو چیزیں ایسی ہیں جو کراچی میں رہنے والوں کو ملک کے دیگر لوگوں سے الگ ( ممتاز نہیں ) کرتی ہیں. ایک یہ کہ کراچی میں رہنے والوں کی غالب اکثریت یعنی اردو بولنے والے ایک قوم نہیں ہیں بلکہ مختلف قوموں کا مجموعہ ہیں. لکھنؤ ، حیدرآباد ، دلّی ، راجھستان اور بہار وغیرہ سے آئے ہوۓ لوگوں پر مشتمل لوگوں کا ایک گروپ جن میں آج بھی انڈیا میں اپنی جڑوں کے لحاظ سے قوم پرستی پائی جاتی ہے. مَثَلاً قائم خانی ، خانزادے ، بہاری ، حیدرآبادی ، دیس والی شادی اور تعلقات میں قوم کو آج بھی بڑی اہمیت دیتے ہیں. یہ بات بہت سے لوگوں کے لئے حیران کن ہوگی کہ ایک زبان بولنے کے باوجود اردو بولنے والے ایک قوم نہیں ہیں، محض حالات کے جبر کے نتیجے میں ایک قوم بن بیٹھے ہیں ..دوسری بات جو کراچی والوں کو الگ کرتی ہے وہ یہاں کا لائف اسٹائل اور یہاں کی تیز رفتار زندگی (بہت سارے اسپیڈ بریکرز کے باوجود ) .بنیادی طور پر کراچی ایک کنزیومر سوسائٹی کا مزاج رکھنے والا شہر ہے ..یہ انتہائی مشکل ہے کہ آپ کراچی میں تعلیم حاصل کریں یا روزگار سے لگے ہوۓ ہوں اور دیگر مسائل خاص طور پر جن میں نفرت اور تشدد ہو، دھیان دیں ( الا یہ کہ تشدد اور نفرت کسی کا پیشہ ہو ) …یہ صرف کراچی کا ہی نہیں ہر کاسموپولیٹن شہر کا مزاج ہوتا ہے بمبئی ، نیویارک ، ٹوکیو وغیرہ میں لوگ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں حتیٰ کہ بہت سے ایم کیو ایم والے بھی اپنی زندگی میں آپکو لسانی عصبیت سے محروم نظر آئیں گے…ایم کیو ایم بھی بنیادی طور پر لسانی جماعت نہیں ہے بلکہ فاشزم اور شخصیت پرستی کو فروغ دینے والے لوگ ہیں جو دین کو اپنے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں. میں سوچ رہا تھا کہ بات کو تفصیل سے بیان کرتا مگر مجھے خیال آیا کہ یہ گفتگو نا پسندیدہ حدود میں چلی جائے گی . مختصر طور پر اتنا ہی کہ سکتا ہوں کہ کراچی میں کوئی ایک فریق نہیں ہے یہاں کئی فریق ہیں اور کئی مافیاز ہیں اور کراچی سو بیماروں میں ایک انار بنا ہوا ہے. ان میں سے ہر فریق کراچی پر کنٹرول چاہتا ہے تاکہ گھر کی ” دال روٹی ” چلتی رہے. اس کنٹرول کو حاصل کرنے کی خواھش نے کراچی کے حالات کو یہاں تک پہنچادیا ہے. ایم کیو ایم نے اس کنٹرول کو حاصل کرنے کے لئے تشدد کا سہارا لیا تو دوسری جانب اس کنٹرول کو حاصل کرنے کے لئے کراچی میں معصوم اور بیگناہ لوگوں کو انکی قومیت کے حوالے سے ٹارگٹ کلنگ کر کے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا بھی اسٹریٹیجی کا ایک حصّہ بن چکا ہے. ٹارگٹ کلنگ اتنا سیدھا سادھا کھیل نہیں ہے جتنا سمجھا جا رہا ہے اس میں ایم کیو ایم ، اے این پی ، لیاری کے گینگس ، کراچی میں کام کرنے والی مافیائیں اور پاکستان پر ہمیشہ سے حکومت کرنے والا طاقتور ترین ہاتھ بھی شامل ہے… اسے کسی ایک کے سر ڈالنا اسی کھیل کا حصّہ بننے والی بات ہے. بلاگستان میں خاص طور پر اس چیز کو سمجھنے میں دشواری نظر آرہی ہے.امن و امان کی بگڑتی صورتحال ، ناکام ریاست کی طرف بڑھتا ہمارا سفر ، ایم کیو ایم کی تشدد کی سیاست سے ناراضگی ، وطن سے دوری کی وجہ سے پیدا ہونے والی حساسیت اور پنجاب کو گالیاں دینے والے گروپ کے زہریلے تبصروں نے ایک ایسا رد عمل پیدا کیا ہے کہ اردو بلاگرز بھی کہیں کہیں اپنے ہائی مورال گراونڈ پر لڑکھڑاتے نظر آرہے ہیں. میری گزارش ہے کہ اس کھیل کو سمجھا جائے اور اسے سمجھنے کے لئے حامد میر ، سلیم صافی ، حسن نثار اور ڈاکٹر افتخار حسین بخاری کے آرٹیکلز پڑھے جائیں. جن کے لینکس ترتیب وار اس طرح سے ہیں.
    http://jang.com.pk/jang/jul2011-daily/14-07-2011/col3.htm
    http://jang.com.pk/jang/jul2011-daily/12-07-2011/col3.htm
    http://jang.com.pk/jang/jul2011-daily/19-07-2011/col8.htm
    http://wwwww.dailypaperpk.com/show-column-urdu.php?ColumnID=106528
    میری طرح آپ بھی ان آرٹیکلز کے سارے مندرجات سے اتفاق نہیں کریں گے لیکن ایک بات جو یہ سارے اصحاب کہہ رہے ہیں وہ ضرور سمجھ میں آجائے گی.
    دعا گو
    جواد احمد خان

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جولائی 23, 2011 at 20:32

      ا

      اللہ تعالٰی آپکو جزائے خیر دے۔ آپ نے کراچی کے حالات کے بارے میں بہت سے ایسے نکتے بیان کئیے ہیں۔ جو ممکن ہے۔ اکثریت کے ذہن میں نہ ہوں۔ اور اس سے فہم و ادراک کے نئے در وا ہوتے ہیں۔

       
  4. غلام مرتضیٰ علی Ghulam Murtaza Ali

    جولائی 22, 2011 at 14:02

    پیارے بھائی جاوید گوندل صاحب
    آپ نے اپنی گزشتہ پوسٹ میں یقینا بعض حقائق بیان کیے اور منیر بلوچ اور فرحان دانش صاحبان کی جانبدارانہ اپروچ کا بجا طور پر تذکرہ کیا لیکن اس پوسٹ میں شہید ملت لیاقت علی خان صاحب پریہ الزام بھی لگا دیا کہ انھوں نے استہزائیہ طور پر ’’سندھیوں کو گدھا گاڑی چلانے والے‘‘ قرار دے کر سندھ یونیورسٹی کو حیدر آباد منتقل کر کے کراچی میں الگ جامعہ قائم کر دی اور ’’اپنی بد تدبیر سیاست سے سندھیوں کے پڑھے لکھے لوگوں میں گانٹھ ڈال دی۔‘‘ مجھے یہ بات حقیقت سے دور لگی اور میں نے جامعہ سندھ کی منتقلی اور جامعہ کراچی کے قیام کی اصل تاریخی اور انتظامی حقیقت بیان کر کے آپ سے کھوتا گڈی بانوں والے الزام کا دستاویزی حوالہ چاہا جس کے جواب میں آپ نے مذکورہ حوالہ پیش کرنےکی بجائے شہید ملت اور انکی اہلیہ کی ’’مدح ومنقبت‘‘ میں ایک طویل شذرہ رقم کر دیا۔ ساتھ ہی اس سلسلے کو وہیں ختم کرنے کا ذکر بھی کیا۔ چنانچہ میں مصلحتا خاموش ہو گیا۔ اب آپ نے ڈاکٹر جواد صاحب کے عنوان سے اس سلسلے کی دوسری پوسٹ تحریرفرما دی ہے تو میں اس پر تبصرہ کیے بغیر آپ کے گزشتہ الزام کے حوالے سے ہی دستاویزی حوالہ چاہوں گا۔
    لیکن اس سے بھی اہم ایک سوال:
    آپ نے شہید ملت کی ’’منقبـت‘‘ میں زیادہ تر انحصار حسن جعفرزیدی کی کتاب پر کیا ہے۔ حسن جعفر اور انکے ساتھی زاہد چودھری مرحوم کے سیاسی اور تاریخی نظریات کوئی ڈھکے چھپے نہیں۔ انھوں ایک نام نہاد کاغذی ’’ادارہ مطالعہ تاریخ‘‘ بنا کرپاکستان کی سیاسی تاریخ کو اپنے من مانے معانی پہنانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ یہ لوگ برصغیر کے مسلمانوں کی بے مثال دینی و سیاسی جدو جہد کو مارکسسٹ مادی جدلیاتی عینک سے دیکھتے ہیں اور اسی حوالے سے اس کی تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے نظر میں نظریہ پاکستان (جو در اصل اسلامی نظریہ ہی ہے۔۔۔ اور جس کی خود بابائے قوم نے ما قبل وما بعد قیام پاکستان بارہا وضاحت فرمائی) کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ محض یحیٰی خان کےوزیر جنرل شیر علی خان کی اختراع ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک شہید ملت کے ناقابل معافی ’’جرائم‘‘ میں سے غالبا سب سے بڑا جرم اسلامی سیاسی نظام کی ضامن ’’قرار دادِ مقاصد‘‘ کی پیشکش اور منظوری ہے۔ یہ قرار داد ہمارے تینوں آئینوں کا بنیادی پتھر ہے۔ اور یہ ایک ایسا بھاری پتھر ہے کہ ایوب خان اور مشرف جیسے سیکولر ڈکٹیٹر بھی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اسے ہٹانے میں ناکام رہے اور یوں سیکولرزم کی راہ ہموار نہ ہوسکی۔ اور اب تو خیر سے آٹھویں ترمیم کی بدولت یہ قرار داد آئین کا قابل عمل حصہ ہے اور اس کے بعد آنے والے تین پی پی حکومتوں اور مشرف کو اسے نکالنے کی جرات نہ ہوسکی۔ پاکستان عملا ایک غیر اسلامی ملک سہی لیکن آئینی اور قانونی اعتبار سے یہ ایک اسلامی ریاست ہے (ان شائ اللہ کبھی نہ کبھی یہ ایک اسلامی فلاحی ریاست ضرور بنے گا)۔ اوراس کی عملی قانونی بیناد شہید ملت نے قرارداد مقاصد کی تحریر اور منظوری میں اہم ترین حصہ لے کر فراہم کی۔
    میرا آپ سے( اورمحترم تبصرہ نگار سعید پالنپوری صاحب سے بھی) ایک سادہ سا سوال ہے
    ’’کیا آپ حسن جعفر زیدی کے پاکستان کی سیاسی تاریخ کے حوالے سے نظریات سے متفق ہیں۔؟‘‘ اگر نہیں تو انکے الزامات پر کیونکر اعتبار کیا جاسکتا ہے۔؟
    باقی شہید ملت کی بے مثل خدمات اور ایثار کا ایک مختصر حوالہ پاکستان کے ایک نامور سیاسی مورخ اوردرجنوں کتابوں کے مصنف ڈاکٹرصفدر محمود کے آج کے اس مضمون میں ملاحظہ کیجیے۔ اس مضمون میں رعنا لیاقت علی خان صاحبہ کی سخاوت کا بھی ایک سرسری حوالہ موجود ہے۔ یاد رہے کہ اسی مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ وہ خود مغربی پنجاب کی پیدائش ہیں۔

    ’’اپنی تاریخ کھنگال لیجئے آپ کو قائد اعظم جیسی ایثار کی مثال نہیں ملے گی جنہوں نے ساری زندگی اور زندگی کا ہر سانس قوم کے لئے وقف کردیا اور ساری جائیداد خاندان کے لئے تھوڑا سا حصہ نکالنے کے بعد قوم کو دے دی۔ مہاجرین کو ایثار کی دوسری مثال نوابزادہ لیاقت علی خان تھے جو مشرقی پنجاب میں سینکڑوں مربع اراضی چھوڑ کر آئے تھے لیکن پاکستان میں انہوں نے متروکہ جائیداد کے بدلے ایک ایکڑ زمین بھی الاٹ نہ کروائی حالانکہ وہ ملک کے وزیر اعظم تھے۔ ان دونوں بزرگ رہنماؤں کی زندگی سادگی، ایثار اور قوم سے محبت کی اعلیٰ ترین مثالیں تھیں اور ہمارے موجودہ لیڈروں کے برعکس قومی خزانے پر کم سے کم بوجھ ڈالتے تھے۔ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے معیار اور انداز زندگی کا مطالعہ کریں تو احساس ہوتا ہے کہ ان کا معیار زندگی حکومت پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری سے بہتر نہیں تھا‘‘
    http://jang.com.pk/jang/jul2011-daily/22-07-2011/col2.htm

    لسانی سیاست کی رو میں بہہ جانے والے اپنے بھائیوں کوایک اصلی مہاجر خاتون دانشور کشور ناہید صاحبہ کا یہ مضمون بعنوان ’’ ہم لسانی بنیادوں پر چلنے والوں کے ساتھ نہیں‘‘ پڑھنے کی دعوت دیتا ہوں۔
    http://jang.com.pk/jang/jul2011-daily/22-07-2011/col5.htm

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جولائی 24, 2011 at 12:18

      محترم بھائی! غلام مرتضٰی علی صاحب۔

      مرتضٰی بھائی! آپکے تبصرے جا بجا پڑھنے کو ملتے ہیں اور آپ کے پُر مغز اور مدلل تبصرہ جات پہ خوشی ہوتی ہے اور آپکی بصیرت کی داد دینے کو دل کرتا ہے۔ مقصد اس تہمید کا یہ ہے کہ آپ کی صالح سوچ اور جستجو سے انکار نہیں اور اسلئیے اپ کی کسی بات سے ضد بھی نہیں۔ مگر ۔ ۔ ۔ ۔

      جہاں تک لیاقت علی خان کے بارے میں اٹھائے گئے آپ کے نکات کا تعلق ہے ۔ آپ اس بارے تلاش و جستجو کریں۔ لیاقت علی خان کے سندھیوں ، بنگالیوں اور دیگر کے بارے تحضیک آمیز کلمات کے بارے آپ کا استفسار ہے کہ انہوں نے سندھیوں کو گدھا گاڑی بان اور علم سے واسطہ نہ ہونا اور اونٹ بان وغیرہ کہا گیا ۔ آپ قومی اسمبلی کا ریکارڈ ہی چیک کر لیں آپکو کافی مواد مل جائے گا۔ جس میں سندھ یونیورسٹی کی منتقلی۔ کراچی یونی ورسٹی کا قیام۔ کراچی یونی ورسٹی پہ اعتراضات۔ مہاجرین کی بحالی میں گھپلوں۔ قرار داد پاکستان کے حیقیقی محرکیں و محرکات۔ اور دیگر موضوعات پہ کی گئی بحث اور اس پہ عبوری کابینہ کے نامزد وزیر اعظم کے طور نوابزادہ کے بیان اور ارشادات میں آپ کو اپنے مطلوبہ سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔ اور بہت سے ناپسندیدہ حقائق آپ کو ملے گیں۔

       
  5. fikrepakistan

    جولائی 22, 2011 at 23:58

    ڈاکڑ جواد صاحب، بہت بہترین طریقے سے آپ نے کراچی کے مسلے پر روشنی ڈالی ہے، اور آپکی یہ بات بلکل درست ہے کے جو لوگ کراچی میں نہیں رہتے وہ لوگ محض اخباروں اور نیوز چینل دیکھہ کر ہی رائے قائم کرتے ہیں جو کے حقیقت پر مبنی نہیں ہوتی، میں پہلے بھی جاوید بھائی سے عرض کرچکا ہوں کے آپ عرصہ دراز سے اسپین میں مقیم ہیں یہاں کے زمینی حقائق آپ بہتر طور پر نہیں سمجھہ سکتے، بحرحال یہ جاوید صاحب کا ہی نہیں میرا ہم سب کا المیہ یہ ہی ہے کے نہ چاہتے ہوئے بھی تعصب کا شکار ہو ہی جاتے ہیں۔ اللہ ہم سب پر رحم فرمائیں اور صحیح حقائق جاننے اور سمجھنے کی توقیق عطا فرمائیں۔

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جولائی 24, 2011 at 12:46

      محترم۔!فکر پاکستان !!

      بھائی صاحب۔ میں آپ کو ایک بات کی ضمانت دیتا ہوں۔ کہ میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ پاکستانیت یا اسلام سے ہٹ کر کبھی پاکستان کی اکائیوں کے بارے تعصب نہ برتوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کچھ معاملات یوں ہوتے ہیں کہ ان پہ بات کرنے سے اور اس مخصوص معاملے کا تعلق جن لوگوں سے کسی طور متعلق ہو۔ ان کی طرف سے فوری طور پہ تعصب، اور تنگ نظری کا فتوٰی جاری کردیا جاتا ہے۔ جو بہرحال احسن کام نہیں۔

      عقیدت وہ اندھا رشتہ ہے جو کسی دلیل کو نہیں مانتا۔ اور تاریخ ، وقت کے سینے پہ ثبت وہ ٹھوس نقش ہیں۔ جنہیں وقت کا پہیہ الٹا چلا کر دہویا نہیں جاسکتا۔ تاریخ کا بازو کبھی نہیں مروڑا جاسکا۔ جو لوگ تاریخ کا بازو مروڑنے کی لاحاصل سعی کرتے ہیں۔ وہ لوگ ۔ وہ قومیں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے اور آئیندہ ایسی غلطیوں سے احتراز کرنے کا لائحمہ عمل تیار کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اور اس حقیقت کے شاخسانے پاکستانی معاشرے میں جابجا ادہر ادہر بکھرے نظر آتے ہیں۔

      قوموں اور ریاست کے مفاد کے مدنظر شخصیات کی اہمیت کو رواج دینا خود کشی کرنے کے مترادف ہے۔ انسان خظا کا پتلا ہے۔ غلطی کرنا اس کی سرشت میں شامل ہے۔ اسلئیے اپنے ہیروز کو ہر دونوں پہلوؤں سے دیکھنا اور سمجھنا از بس ضروری ہوتا ہے۔

      پنجابیوں کو ہر صورت درست قرار دینا کہ میں پنجابی ہوں۔ اسطرح ایک سندہی صرف سندھیوں کو درست جانے کیونکہ وہ سندھی ہے۔ اور مہاجر ، پٹھان بلوچ اور پاکستان میں بسنے والی دیگر قومیتیں اور اکائیاں اگر اسے معیار بنا لیں تو پاکستان بناے کا مقصد فوت ہوجائے گا اور شاید خدانخواستہ اسکا وجود ہی ناپید ہوجائے۔ جیسا کہ اغیار کی کوششیں ہیں۔ اسلئیے ہمیں ہر تعصب اور علاقائی و صوبائی ۔ لسانی اور مسلکی شناخت سے بہت اوپر اٹھ کر پاکستان کے بارے سوچنا ہوگا۔ عمل کو اپنانا ہوگا۔ اور اسلامی اخوت کے رشتے کو مضبوط کرنا پڑے گا ۔ جسے اپنانے میں بوجوہ ہم ناکام رہے ہیں۔ اسلام ہی وہ واحد رشتہ ہے جو پاکستان کی سبھی اور مختلف اکائیوں کو ایک لڑی میں پروتا ہے۔ اسلئیے گروہی تعصبات کی بجائے ہمیں اپنے معیار اور ترجیجات بہت بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارا چلن یونہی رہا تو یہی کچھ سالوں میں۔خدا نخواستہ۔۔۔۔ شاید ادستاں تو ہوگی داستانوں میں ۔ ۔ ۔ مگر کسطرح کی داستاں؟ یہ جاننے کے لئیے غیب دان ہونے کی ضرورت نہیں۔

       
  6. khalidhameed

    جولائی 23, 2011 at 07:13

    اللہ ہم سب پر رحم فرمائیں اور صحیح حقائق جاننے اور سمجھنے کی توقیق عطا فرمائیں۔

     

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

 
%d bloggers like this: