RSS

غمِ یار و غمِ روزگار۔

27 جون

جو لوگ یورپ، امریکہ یا کسی بھی دوسرے ملک میں معاشی مجبوریوں کی وجہ سے پھنس چکے ہیں۔ ان میں سے ننانوے فیصد کے بچے بلکہ نسلیں اب کبھی بھی دوبارہ لوٹ کر پاکستان میں آباد نہیں ہونگی۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔

جس طرح ، جن لوگوں نے بچپن میں اسکول آتے جاتے اپنے ہمجولیوں کے ساتھ اسلم کے ڈیرے سے بیر توڑ کر کھائے۔ رستے میں آتے جاتے آنکھ بچا کر مکئی کا بھٹہ توڑ لیا۔ کبھی گنے توڑ کر چوس لیے۔ نہر پہ نہا لیا۔ دن کو دیکھے اور تاڑے گئے بالُو کے کھیت کے پکے پکے تربوزوں پہ رات کو شب خون مار لیا۔ چپکے سے گھر کی چھتوں سے اترے اور آدھی آدھی رات تک جنگل میں بے فائدہ سؤر کے شکار میں مارے مارے پھرتے رہے۔ اسکول کالج سے آنے کے بعد بھینسوں کو پانی چارہ ۔ نہلا دھلا ، دودھ دھلوا، ڈیرے پہ رات کو کتوں کو کھلا چھوڑنا۔ سخت گرمی کی دوپہروں کو ساگ پات دال سبزی اچار چٹنی مکئ کی روٹی مکھن گھی کی دوستوں کے ساتھ دعوتِ شیراز۔ گاؤں محلے کی چوپال پہ بڑے بوڑھوں کی ہزار دفعہ سنی سنائی بے مقصد باتیں۔ عید بقرعید پہ چوری چھپے سینما دیکھنا۔

الغرض ایسی بے شمار چیزیں ہیں جو ہر ایک اپنے ماحول کے لحاظ سے اپنے اپنے دور میں بچپن اور لڑکپن میں ملیں۔ جن سے انھوں نے بھرپور لطف اٹھایا ۔ بس نمبر اچھے آئے۔ یا شریک برادری میں کسی کا لڑکا کسی فارن کنٹری کیا گیا، باپ یا بڑے بھائی نے اپنے بیٹے کو بھی جیسے تیسے کر کے یورپ بجھوا دیا ۔ امریکہ کا ویزا لے دیا۔ اس ویزے کی خاطر ، بسا اوقات ماں نے اپنے زیور بیچے، باپ نے کچھ زمیں گروی رکھ کر ادھار لیا۔ آبائی زمین اونے پونے بیچ ڈالی۔ بس پھر کیا تھا بیٹا باہر چلا گیا، تعلیم مکمل کی۔ پاکستان اسے بہت چھوٹا نظر آیا۔ وہاں مواقع نہیں۔ معقول جابز نہیں۔ ہر شاخ پہ ایک ایک الؤ بیٹھا نظر آیا اور گلستان کے انجام سے زیادہ اپنے انجام کی فکر دامن گیر ہوئی۔ باہر ہی اچھی جاب کی آفر آگئی ۔ بعضوں کو آفر کے ساتھ ساتھ نینسی نے بھی اپنے آپ کو پیش کردیا۔ بس پھر کیا تھا مزے ہی مزے، اچھی جاب، گرم خون، چڑھتی جوانی، بھری جیب، نینسی کا ساتھ یا پاکستان میں گھر والوں کا دیا گیا وی آئی پی پروٹوکول، نشہ ہی نشہ۔ کہاں تو بچہ پاکستان میں کسی پھٹے والے کے پاس تین ہزار روپے میں سارا دن ویلڈنگ سے آنکھیں خراب کرتا تھا اور کہاں یورپ امریکہ وغیرہ میں ہر مہینہ پاکستانی ایک لاکھ کی بچت پاکستان جانے لگی۔ کچے مکانوں سے جان چھوٹی۔ مکان پکے اور پھر کوٹھی میں تبدیل ہوگئے۔ پہلے پہل پچاس سی سی کا نیا ھنڈا آیا۔ پھر سارے گاؤں میں واحد سکینڈ ہینڈ کار گھومتی نظر آنے لگی۔ شریک جل کر زیر لب دو تین ننگی گالیاں دیتے اور ملنے پہ بظاہر مسکرا دیتے ۔اس دوران ماں کو چاند سی بہو لانے کا شوق اٹھا بس پھر کیا تھا۔ لڑکا جی باہر ہے ۔ کوئی ایسی ویسی بات ہے ۔ میرا بیٹا ایک لاکھ پاکستانی گھر بھیجتا ہے ۔ خیر بہو بھی مل گئی اور شادی پہ بگھیوں پہ بارات گئی۔ پورا گاؤں کئی ماہ بعد بھی تزکرے کرتا رہا کہ خیر سے جی ولیمے پہ پچاس پچاس کاریں آئیں تھیں۔ شہر کا مشہور میرج ہال ( گاؤں والوں کے نزدیک شادی حال) بُک کروا لیا گیا نو قسم کے کھانے سولہ مصالحوں کے ساتھ کھلائے گئے ۔ پورے گاؤں میں ڈولی(دلہن کو بیاہ کر لائے جانے کی) کی ایک کلو مٹھائی فی گھرانہ بانٹی گئی۔ بے بے ہر آتی جاتی ملنے والی سے بات کرتے ہوئے نوٹوں کی ایک دتھی (گڈی)ہاتھ میں لے کر قسم قسم کے مانگنے والیوں میں کمال نخوت سے باٹنے لگی۔

شادی ہوگئی ، بہو رہ گئی، بیٹا عازمِ سفر ہوا۔ پہلے بے بے کی مدھانی بجلی کی آئی تھی اور باپ کے کلف لگے کپڑے پریس کرنے کے لئیے استری آئی تھی۔ اب بہو کے لئے ہئیر ڈرائیر، ڈیجیٹل کیمرہ ، سیمی کمپیوٹر موبائل ٹیلی فون۔ مووی کیمرہ اور برانڈنڈ پرفیوم اور کاسمیٹکس آنے لگا ۔ بہور ہر روز روز اول کی طرح سجنے دھجنے لگی۔

بے بے اپنے لاڈلے کی کمائی میں اچانک ایک نئی حصے دار کو دیکھ کر سٹپٹا کر رہ گی ۔ یہ تو ماں کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ لاڈلے کی کمائی میں کوئی اچانک دعویدار بھی پیدا ہوجائے گا اور دعویدار بھی خود سے تلاش کی ہوئی چاند سی بہو۔ بیٹے کی فضول خرچیاں اور بہو کے انداز دیکھ کر ماں سر پیٹ کر رہ گئی۔ پہلے پہل بیٹے کو فوں پہ دبے لفظوں میں سمجھانے کی کوشش کی۔ بات بہو پہ بھی آشکارہ ہونے لگی ۔ بیٹا دو کشتیوں کا مسافر پھنس کر رہ گیا۔ بیوی کو اپنا درد بتایا، بیوی ساس سے لڑ کر روٹھ کر میکے جابیٹھی۔ بیچ بچاؤ کرنے والوں نے پوری کوشش کی مگر لڑکی والے اڑ گئے کہ بیٹی اب یہاں سے تبھی جائے گی جب اس کا خاوند اس کا باہر کا ویزاہ بیھج دے گا۔ ورنہ ہمیں کوئی بوجھ تھوڑا ہے ۔ نہ ہمیں اپنی بیٹی بھاری ہے۔ بیچ بچاؤ کرانے والوں نے بہت کوشش کی، بات نہ بنی۔ آخر کار چاند سی بہو باہر ہی گئی۔

لڑکے کے ماں باپ کو کبھی کبھار کچھ رقم ملنے لگی۔ پہلا پوتا کوئی سال بھر باہر ہی ہوا ۔ اسکا نام شازل رکھا ۔ دوسرے سال نازل رکھا چوتھے سال بہو بیٹا پاکستان ملنے آئے تو شازل نازل کے علاوہ گودی میں کچھ ماہ کی نازلی بھی تھی۔ پاکستان اور گاؤں کی فضا، مکھیاں، مچھر، گرمی، حبس، ماحول کی گھُٹن، بجلی کی آنکھ مچولی، نوٹوں سے بھرا پرس (بٹوا) مگر اشیاء ندادر، شہر دور، بہو بیٹے کا تین ماہ کا پاکستان پروگرام بڑی مشکل سے پچیس دن چل سکا اور وہ واپس لوٹ گئے ۔ شازل نازل کا اسکول نازلی کی لگاتار مزید دو بہنوں کی آمد اپنا مکان خریدنے کی فکر نے اگلے پانچ سال صرف فون پہ ماں کی ٹھنڈی آہیں سنوائیں۔ بوڑھا باپ مزید بوڑھا ہوگیا۔ بہو نے بھی باہر کے رنگ ڈھنگ اپنا لیے واک، پارک، مارکیٹس، ذاتی گاڑی، ذاتی مکان، بچوں کی پڑھائی، اتنے اخراجات، اُف ہر ماہ یہ رسید وہ رسید یہ بل وہ مکان کی قسط۔ بوڑھے ماں باپ کا ملنے کا اصرار، بہن کی شادی، جیسے تیسے بہو بیٹا بمع اپنے پانچوں بچوں کے باہر سے آئے (یہ باہر امریکہ یورپ وغیرہ کا کوئی بھی ملک یا کوئی بھی صارف ملک یعنی کنزیوم سوسائٹی ہو سکتی ہے)۔ پانچوں باہر کے اچھے ماحول اچھی خوراک کے پروردہ نازک سے پھولوں کو پھپھو کی شادی پہ رلتے دیکھ کر بہو کا کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ بڑی مشکل سے شادی کی رسومات ختم ہوئیں۔ ہفتے دس دن بعد بچوں کی تعلیم کا بہانہ کر کے بہو واپس لوٹ گئی۔ بیٹے نے کمر خمیدہ بوڑھے ماں باپ کو اپنے ساتھ لے جانے کی بہت کوشش کی مگر وہ نہ مانے ۔ آخر کار بڑی منت سماجت سے وہ بیٹے کے ساتھ محض اس لئے باہر چلے گئے کہ اب انھیں سنبھالنے والا کوئی خاص نہیں تھا۔ بیٹا بار بار آ نہیں سکتا۔ باہر بوڑے ماں باپ ہر وقت اپنے گاؤں اور رشتے داروں کو یاد کر کر کے ٹھنڈی آہیں بھرتے ، بہو کا غصہ بھی ہر وقت ناک پہ اڑا رہتا اور بہو تنی رہتی۔ ماں باپ نے منت سماجت کر کے بیٹے کے مامے کے پاس واپس جانے کی ٹکٹیں کروا لیں۔ وہ پاکستان چلے گئے ۔ ایک دن مامے کا فوں آیا تمہاری ماں سخت بیمار ہے اگر منہ دیکھنا ہے تو فوراً آجاؤ۔ بڑی مشکل سے ٹکٹ لیکر بیٹا روتا پیٹتا رستے میں تھا کہ فون آیا ماں قضائے الہٰی سے مر گئی ۔ برف لگا دی گئی ہے منہ دیکھنا ہے تو پہنچ جاؤ۔ دوسال گزرے پھر باپ بھی لقمہِ اجل ہوگیا۔

اب شازل نازل گریجوئیشن کر رہے ہیں۔ انکے دوست ڈیوڈ ، اسمتھ، لزا۔ روزی ہیں۔ وہ باہر ہی پلے بڑھے ہیں ۔انکے ہیرو مکی ماؤس سے ہوتے ہوئے انتونیو بندیرا ہیں۔ وہ برگر کنگ اور مکڈولنڈ جیسی فاسٹ فوڈ پہ اپنے دوستوں سے ملتے ہیں۔ کوک پیتے اور جمعہ کے جمعہ اور کسی کسی ویک اینڈ پہ باپ کے ساتھ مسجد اور اسلامک سنٹر جاتے ہیں ۔ شام کے امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔ اور عربی میں خطبہ سنتے ہیں۔ چھ میں سے چار کلمے اور پوری نماز بڑی مشکل سے جانتے ہیں۔ اپنی بہنوں نازلی شازلی وغیرہ کو گھر پہنچ کر انگریزی میں روز کے نئے نئے تجربے بیان کرتے ہیں۔

ابا بوڑھا ہو چکا ہے اسے اپنے بچپن میں اسکول آتے جاتے اپنے ہمجولیوں کے ساتھ اسلم کے ڈیرے سے بیر توڑ کر کھانا۔ رستے میں آتے جاتے آنکھ بچا کر مکئی کا بھٹہ توڑ لینا، کبھی گنے توڑ کر چوس لیے، نہر پہ نہا لیا، دن کو دیکھے اور تاڑے گئے بالُو کے کھیت کے پکے پکے تربوزوں پہ رات کو شب خون مار لیا۔ چپکے سے گھر کی چھتوں سے اترے اور آدھی آدھی رات تک جنگل میں بے فائدہ سؤر کے شکار میں مارے مارے پھرتے رہے۔ اسکول کالج سے آنے کے بعد بھینسوں کو پانی چارہ ۔ نہلا دھلا ، دودھ دھلوا، ڈیرے پہ رات کو کتوں کو کھلا چھوڑنا۔ سخت گرمی کی دوپہروں کو ساگ پات دال سبزی اچار چٹنی مک کی روٹی مکھن گھی کی دوستوں کے ساتھ دعوتِ شیراز۔ گاؤں محلے کی چوپال پہ بڑے بوڑھوں کی ہزار دفعہ سنی سنائی بے مقصد باتیں۔ عید بقرعید پہ چوری چھپے سینما دیکھنا۔ سب بہت شدت سے یاد آتا ہے۔ مگر شازل نازل کا بچپن ویڈیو گیمز اور سپائیڈرمین کے اسٹیکر چینج کرتے، اسکول کالج کے لڑکوں کے ساتھ فٹبال کھیتے گزرا ہے۔ وہ باپ کی پاکستان، پاکستان کی گردان پہ باپ کو عجیب سی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ باپ کے بہت اصرار پہ بیزارگی سے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جا گھستے ہیں۔

اب ان بچوں کے ماں یا باب کے دارِ فانی ہونے پہ زیادہ سے زیادہ انکی میت(ڈیڈ باڈی) لکڑی اور لوہے کے ٹھنڈے تابوت میں، جس کے اوپر چہرے کے سامنے چوکور شیشہ لگا ہوگا اور تابوت کو کسی بھی صورت نہ کھولنے کی ہدایت ہوگی، اس تابوت میں بند کروا کے ماں باپ کے جاننے والے انہی جیسے دوست یا علاقے کے لوگ چندہ اکھٹا کر کے انکے آخری سفر پہ پاکستان بیجھیں گے۔ گاؤں کی مسجد میں اعلان کیا جائے گا۔ جہاں گاؤں والے ایک ٹھنڈی قبر کے پاس آدھی رات کو باہر سے آنے والی میت (ڈیڈ باڈی) جسے چند بڑے بوڑھوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہوگا ۔ اس کی قبر پہ آدھی رات کو گاؤں کے لوگ بیزارگی سے انتظار کر رہے ہوں گے کہ صبح صادق جنازہ پڑھا کر اس ناخوشگوار فرض کو پورا کر سکیں۔

اس ماں اور باپ کے بعد (اس جہان فانی سے کوچ کر جانے کے بعد) ان بچوں کو، انکے بچوں، بچوں کے بچوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا ۔ انکی کوئی یاد پاکستان یا اپنے آبائی گاؤں سے وابستہ نہیں ہوگی۔ انکے بیر، بانٹے، ٹھنڈے تربوز کی یادیں سب باہر ہی ہونگی۔ وہ باہر جس کا سفر شریک برادری کو نیچا دکھانے کے لئے یا بچے کے اچھے نمبر آنے سے شروع ہوا تھا ۔ وہ باہر اپنے ساتھ ایک نسل ہی نہیں بلکہ آئیندہ پوری نسلیں ہی ساتھ لے گیا۔

جس بستی کے مان سنوارنے نکلا تھا
لوٹا ، تو وہ بستی ہی نہیں تھی

نوٹ۔: میری یہ تحریر افضل جاوید صاحب نے اپنے بلاگ "میرا پاکستان” پہ چھاپی ہے اور انگلینڈ میں اردو کے ایک پرنٹ میڈیا اخبار پہ بھی چھپی ہے۔ میں کبھی کبھار کوشش کرونگا کہ ادہر ادہر بکھری ہوئی اپنی تحریریں یہاں چھاپ دیا کروں۔

 

ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , ,

36 responses to “غمِ یار و غمِ روزگار۔

  1. شازل

    جون 27, 2011 at 03:45

    اچھی تحریر ہے ۔
    شازل نازل
    میں تو ہنس ہنس کر پاگل ہوگیا۔

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جولائی 3, 2011 at 00:19

      محترم! شازل بھائی صاحب!!

      بلاگ پہ تشریف آوری پہ خوش آمدید اور شکریہ۔

      یہ محض اتفاق ہے کہ تحریر میں ایک نام آپکے نامِ نامی یعنی اسم گرامی جیسا ہے۔ 🙂

       
  2. یاسر خوامخواہ جاپانی

    جون 27, 2011 at 04:46

    کبھی اس کے در کبھی اس کے در کبھی در بدر
    غم روزگار تیرا شکریہ میں کہاں کہاں سے گذر گیا

    بعض اوقات اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اولاد جیسی نعمت سے نہ نوازنے میں بھی اس کی کوئی حکمت ہی ہوگی۔
    عموماً عزیز و اقارب جب موقع ملتا ہے ایک عدد دوسری شادی کا مشورہ ٹھونک دیتے ہیں۔ اور اللہ میاں کی گائے بھی قربانی کیلئے پیش کر دیتے ہیں۔
    ایک سات سمندر پار دوسرا گھر والی کے ساتھ گذرے اچھے برے وقتوں کا احساس ۔۔۔۔۔احساس کے بجائے احسان کا بوجھ۔
    دو کشتیوں کی سواری کا ڈر اور دوسری شادی کیلئے پیش کی جانے والی اللہ میاں کی گائے کے حقوق ادا ناکرسکنے کا خوف۔
    اور آس پاس کے دو کشتیوں کے مسافروں کی قابل رحم حالت دیکھتا ہوں۔
    بے اختیار دل سے نکلتا ہے۔۔۔۔۔۔یا اللہ تیرے کس کس احسان کو جھٹلاوں۔الحمد اللہ

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جولائی 3, 2011 at 00:23

      یاسر بھائی!

      یہ آپکی عظمت ہے کہ آپ یوں سوچتے ہیں۔ مگر اپنے سدا ساتھ نہیں رہتے اور سدا ساتھ نہیں دیتے۔ قانون فطرت ہے کہ ہر خاتون کے دل میں اولاد کی خواہش سلگتی چنگاری کی طرح دہکتی رہتی ہے۔ آپ خدا سے اولاد مانگیں۔ سائنس بھی خوب ترقی کر چکی پھر بھی اگر یوں نہ ہو تو دو ایک یتیم بچے گود لے لیں ۔ خدا راضی ہوگا۔ اور مکین و مکاں شاد باد ہوجائیں گے۔

       
  3. عبدالقدوس

    جون 27, 2011 at 05:11

    اس طرح تو ہوتا ہے اسطرح کے کاموں میں

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جولائی 3, 2011 at 00:26

      محترم! عبدالقدوس صاحب!!۔

      بلاگ پہ تشریف آوری پہ خوش آمدید اور شکریہ۔
      درست فرمایا آپ نے، کبھی کبھار اور کچھ لوگوں کے ساتھ یوں بھی ہوتا ہے۔

       
  4. عامر شہزاد

    جون 27, 2011 at 05:26

    بہت خوب

     
  5. شعیب صفدر

    جون 27, 2011 at 05:32

    اس قصے میں رونے کا سامان بہت تھا!!

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جولائی 3, 2011 at 00:29

      محترم! شعیب صفدر صاحب!!۔

      بلاگ پہ تشریف آوری پہ خوش آمدید اور شکریہ۔

      اپ نے بجا فرمایا۔ اہل فہم، اہل درد کا ایسے معاملوں پہ دل روتا ہے۔

       
  6. Dr.Jawwad Khan

    جون 27, 2011 at 07:39

    بہت عمدہ مضمون ہے. میرا المیہ یہ ہے کہ میں اپنے وطن میں اچھی زندگی کے لئے طے کے گئے معیارات کو حاصل کرنے کے لئے ایک اجنبی سرزمین پر اپنا وقت گزار رہا ہوں .

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جولائی 3, 2011 at 00:32

      بھائی! ڈاکٹر جواد خان صاحب!!۔

      آپ کو مضمون بالا پسند آیا۔ میرے لئیے اطمینانیت کا باعث ہے۔
      آپ اس المیے میں اکیلے نہیں پاکستان کے کروڑوں لوگ آپ کے ہم سفر ہیں۔ اور جو نہیں ہیں اور اپنے دیس میں ہیں۔ انکی اکثریت وہاں بھی اجنبی ہے۔

       
  7. بلاامتیاز

    جون 27, 2011 at 08:12

    اعلی تحریر ہے جناب ۔۔
    اپ نے تو تینیوں نسلوں کی کہانی بیان کر دی ایک ہی تحریر میں

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جولائی 3, 2011 at 00:38

      محترم! امتیاز شاہ صاحب!!۔

      بلاگ پہ تشریف آوری پہ خوش آمدید اور شکریہ۔

      آپکو یہ تحریر اچھی لگی، یہ میرے لئیے ایک اعزاز سے کم نہیں۔

      بجا فرمایا۔ المیہ یہ ہے کہ یہ تینوں نسلیں۔ درحقیت مختلف زمانوں میں "نسل در نسل” چل رہیں۔ بس ممکن ہے کہ کبھی ہم عصر نہ ہوں یا ہم در نہ رہی ہوں۔ یعنی مقامات و زمانہ بدل جاتا ہے مگر پاکستان کے بیٹوں کے ساتھ یہ سلسلہ جاری ہے۔ رکا نہیں۔

       
  8. خاور کھوکھر

    جون 27, 2011 at 10:39

    رون نوں دل کردا

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جولائی 3, 2011 at 00:39

      محترم! خاور کھوکھر!! بھائی صاحب!!!۔

      بلاگ پہ تشریف آوری پہ خوش آمدید اور شکریہ۔

      اسمیں کوئی شک نہیں کہ اہل درد ایسی باتوں پہ تڑپ اٹھتے ہیں۔

       
  9. منیر عباسی

    جون 27, 2011 at 13:34

    درست کہا:

    رون نوں دل کردا

     
  10. Wasim Baig

    جون 27, 2011 at 16:02

    سلام جاوید بھائی
    آپ نے تو قَسم سے رُولا ہی دیا یار

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جولائی 3, 2011 at 01:02

      محترم ! بھائی!! وسیم بیگ!!!

      وعلیکم السلام۔

      بلاگ پہ تشریف آوری پہ خوش آمدید اور شکریہ۔

      وسیم بھائی! یہ آپ کے درمند انسان ہونے کی نشانی ہے جو آپ نے اپنی قوم کے لوگوں کا درد محسوس کیا۔

       
  11. وسیم بیگ

    جون 27, 2011 at 16:03

    جاوید بھائی
    اردو سیارہ پر خوش آمدید
    اچھا لگا اپ کو دیکھ کر یہاں

     
  12. DuFFeR - ڈفر

    جون 27, 2011 at 17:22

    تعریف کیلیے الفاظ نہیں ہیں میرے پاس تو
    مجھے تو اپنے اسی اخیر سے ڈر لگتا ہے
    انتہائی سبق آموز

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جولائی 3, 2011 at 01:05

      محترم! ڈفر پائی جان!!

      آپکا تعریف کرنا میرے لئیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔

      خدا اپنے بندوں کی عزت رکھتا ہے۔ اور اسکی رحمت سے امید ہے کہ وہ ہم سب کی "اخیر” بھی خیریت سے کرے گا۔ انشاءاللہ !!!

       
  13. shahidaakram

    جون 27, 2011 at 23:25

    سب سے پہلے تو جاوید بھائ مُجھے بہُت خُوشی ہُوئ آپ کے بلاگ کو دیکھ کر اور اِتنا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے پر دِل خُون ہو گیا ہے واقعی آج کے بچے جب باہر کی دُنیا دیکھ لیتے ہیں تو پاکِستان واپسی کا نا سوچتے ہیں اور نا ہی سوچنے دیتے ہیں کہ مما ابُو نہیں جانا واپس کِسی بھی صُورت ،،،بچپن کی ایسی نا سہی جو آپ نے لِکھی کافِی کُچھ مِلتی جُلتی جُلتی کہانیاں سُنائ جائیں تو جماہیاں آنی شُرُوع ہو جاتی ہیں آج میں نے مُحمد علی کی
    the black superman
    دریافت کی تو بیٹی کہتی ہے مما اِس وڈیو میں ایسا کیا ہے جو آپ بار بار دیکھ رہی ہیں اور آنکھیں بھی آنسُوؤں سے بھری ہیں کیا کہتی اب جواب میں؟؟؟
    وُہی آپ کی والی بات کہ بزُرگوں کی ہزار دفعہ کی سُنائ بے سروپا باتیں کون سُنے؟؟؟

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جولائی 3, 2011 at 01:12

      محترمہ! شاہدہ اکرم بہن!! صاحبہ!!!

      بہن جی۔ بلاگ پہ تشریف آوری پہ خوش آمدید اور شکریہ۔

      آپکو بلاگ پہ دیکھ دلی خوشی ہوئی۔ بچوں کا بھی اتنا قصور نہیں جتنا بڑوں کا ہے۔ کہاں تو وہ جنت نظیر ملک پاکستان ہوسکتا تھا اور کہاں ہم پہ عمارے اعمال کی وجہ سے ہر قسم کے عزاب مسلط کر دئیے گئے ہیں۔ جن میں ایک حکمران ہیں۔ اگر پاکستان میں کم از کم بنیادی ضروریات میسر ہوں۔ اور لوگ ہیراپھیری سے باز رہیں تو بچے بوڑھے سبھی پاکستان کو ہنسی خوشی لوٹیں مگر۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔

      مگر ۔۔۔ یہ مگر بہت لمبا۔۔۔ اور تکلیف دہ ہے۔

       
  14. hijabeshab

    جون 28, 2011 at 14:47

    😦 😦

     
  15. Abu Abdullah

    جون 28, 2011 at 15:38

    bohat he alla aur achi tahreer ha. khashum logoon koo samjh aa jaya( sorry for roman urdu

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جولائی 3, 2011 at 01:16

      محترم! ابو عبداللہ صاحب!!

      بلاگ پہ تشریف آوری پہ خوش آمدید اور شکریہ۔
      آپکی بات درست سہی مگر ہمارے سمجھنے کے ساتھ ساتھ انہیں بھی سمجھنا چاہئیے جو ایسے حالات پیدا کر رہے ہیںم کہ پورے ملک کی آبادی ملک چھورنے کو تیار بیٹھی ہے۔

       
  16. Wafa.Anjum. Uk

    جون 28, 2011 at 21:55

    bohat achi post……….

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      جولائی 3, 2011 at 01:17

      محترمہ! وفا انجم صاحبہ!!!

      بلاگ پہ تشریف آوری پہ خوش آمدید اور شکریہ۔

      بی بی! تحریر کی تعریف کے لئیے آپکا شکریہ۔

       
  17. sabih52

    جولائی 1, 2011 at 01:31

    بہت عمدہ جناب

     
  18. Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

    جولائی 3, 2011 at 01:21

    محترم! صبیح!صاحب!!۔

    بلاگ پہ تشریف آوری پہ خوش آمدید اور شکریہ۔

    تعریف کا شکریہ

     
  19. عمران اقبال

    ستمبر 19, 2012 at 13:48

    جاوید بھائی۔۔۔ بہت اعلیٰ۔۔۔ دل اداس ہو گیا پڑھ کر۔۔۔ لیکن یقینا حقیقت سے قریب تر اور کرب سے بھری ہوئی تحریر ہے۔۔۔

     
    • Javed Gondal Pakcom جاوید گوندل

      ستمبر 20, 2012 at 00:43

      عمران بھائی!
      رائے دینے۔ تعریف کرنے اور یہاں تک آنے کی زحمت کرنے کا شکریہ۔
      عمران بھائی۔ دل تو آپکا۔ میرا۔ ہم سب کا دکھتاہے۔ آپ نے حساس دل پایا ہے اور یہ اللہ کی ایک خاص نعمت ہے۔ ۔
      اس اداسی میں اسوقت اور اضافہ ہوجا تا ہے کبھی دیکھتا ہوں پاکستان کے اندر باہر کوئی ایسے مسئلوں پہ قلم نہیں اٹھاتا۔ اور نہ کوئی ایسے لوگوں کی آواز بنتا ہے۔ نہ ان کا کوئی پلیٹ فارم ہے۔ یہ اجنبی لوگ۔ اپنے گھر بھی اجنبی۔ اور دیار غیر میں بھی اجنبی۔ غریب الوطنی اور خاص کر پاکستان کے لوگوں کی غریب الوطنی جن حالات میں ہوتی ہے۔ یہ کچھ وہی جانتے ہیں۔ کہ دلوں پہ کیا بیتتی ہے۔ کتنی کہانیا ں جنم لیتی ہیں ۔ کتنے لوگ اپنے پیاروں کی راہ دیکھتے رزقِ خاک ہوجاتے ہیں۔ اس پہ تو پاکستان میں صرف ادبی شعبے میں ہی بہت کام ہونا چاہئیے تھا۔ مگر وہاں کسی کو فکر نہیں ۔۔ اور لوگوں کی چوتھی نسل ہاتھ باندھے ملک چھوڑنے کو تیار کھڑی ہے۔ اور وہ جن کی تین نسلیں باہر جا بسیں۔ انکا بھی کوئی پرسان حال نہیں بس۔ ایک منافقت کا کاروبار ہے جو اس ملک پہ قابض لٹیرے اور چور صبح شام کرہے ہیں۔ ایسے میں غریب الدیار کو کون جانے گا؟۔

       

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

 
%d bloggers like this: